
میں اللہ میاں کو بتائوں گا
میں اللہ میاں کو بتائوں گا
وزیر اعظم محمد نواز شریف نے کہاکہ” بھارت کا ظلم تحریک ِ آزادی کشمیرکو مزید تقویت دے گا۔ 7لاکھ بھارتی فوجی کشمیریوں کی تحریک کو دبا نہیں سکتے۔ برہان وانی آزادی کا سپاہی تھا، کشمیری اپنا حق لے کر رہیں گے۔پاکستان کے تمام ادارے کشمیریوں پر بھارتی مظالم کو عالمی سطح پر اجاگر کریں۔”اور میری آنکھوں کے سامنے1947کے کچھ مناظر کی ایک فلم سی چلنے لگی. بھارت سے مہاجروں کو لانے والی ریل گاڑی لا ہور کی طر ف رواں دواں ہے ۔ سب آ نکھیں انتظار میں ہیں کہ کب ہم ظلم کی زمین سے نکل کر امن و سلامتی کے پاکستان میں داخل ہونگے ۔ گاڑی کے بھیڑ بھرے ڈبے میں سوار ہر آنکھ حیران اور اشکبارہے ۔لُٹے ہوئے مسافر ایک نئے مستقبل کی اُمید لئے اپنی اپنی دلخراش چیخیں سینے میں دبائے ہونٹ سیئے بیٹھے ہیں ۔ کوئی دروازے سے لٹکا ہوا ہے کوئی کھڑکیوں سے چپکا ہوا ہے ۔ کسی کے پاس گٹھری میں کچھ یادیں بندھی ہوئی ہیں ۔ کوئی اپنے لہو لہان بدن کو چیٹھڑوں سے چھپائے گئے دنوں کے چھنٹے مٹانے کی آس میں آنے والے دنوں کے مرہم کے انتظار میںہے ۔
سفر ہے کہ ختم ہونے پر ہی نہیں آرہا ۔ پردے دار خواتین دوپٹوں سے بے نیاز اپنے بکھرے بالوں سے منہ چھپا رہی ہیں ۔اپنے اپنے پھٹے ہوئے کپڑوں سے برہنگی پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش میں کبھی تن کے کسی ایک حصے کو چھپانے کی ناکام کوشش ہے تو کبھی دوسرے کو ۔ نوجوان چہرے بڑھاپا لپیٹ بیٹھے ہیں ۔ عمر رسیدہ لوگ ایک قیامت بھگتا کر کسی جنت میں جانے کا خواب دیکھ رہے ہیں ۔ لا وارث بچے پھٹی پھٹی آنکھوں سے تمام صورتِ حال کو سمجھنے کی سعی ئِ لاحاصل میں ڈر ے اور سہمے ہوئے اجنبی مسافروں سے لِپٹ کر اپنا خوف دور کرتے ہوئے گاڑی کے شور میں اپنا شور مِلا رہے ہیں۔ ایک ماں کے ساتھ لِپٹی خوفزدہ پیاسی بچی کے ہونٹوں پر پپڑیاں جمی ہوئی ہیں ماں جب اُسے گھونٹ بھر پانی دینے کی کوشش کرتی ہے وہ خون ہے خون ہے چِلاتے ہوئے ماں کے دامن میں بار بار اپنا چہرہ چھپا لیتی ہے ۔
ہر شخص ادھورا مسافرہے ۔ کوئی اپنے جوان بچوں سے بچھڑ چکا ہے ، کوئی اپنے جگر گوشوں کی تلاش میں گاڑی کے ایک ڈبے سے دوسرے ڈبے میں جانے کو راستہ ڈھونڈ رہا ہے۔ کسی کا بستا ہوا گھر اُس کی آنکھوں کے سامنے راکھ کا ڈھیر ہوچکا ہے ۔ کسی کا گھر اُس کے اپنے دوستوں کے ہاتھوں لُٹ چکا ہے ۔ دھواں بھری آنکھیں اپنے اپنے سفر میں مصروف ہیں ۔
ایک ڈبے میں ایک نوجوان اپنی زندگی کے مشکل ترین فیصلے پر ثابت قدم رہنے کی کوشش میں ہے ۔ وہ اپنی محبت بھری زندگی کی منزل سے فراق کے خاروں پر چلتے ہوئے زخم زخم ہے ۔ ایک عمر رسیدہ اپنی آنکھوں سے مسلسل بہنے والے آنسوئوں کو اپنی سفید داڑھی کے بالوں میں جذب ہونے دے رہا ہے ۔ اُس کے ساتھ ہی ایک چار پانچ برس کا زخمی بچہ بیٹھے بیٹھے تقریباّ لیٹنے کی جگہ حاصل کرچکا ہے ۔ آنکھوں میں نیند ہے مگر زخموں سے اُٹھنے والا درد اُسے سونے نہیں دے رہا ۔آہ ۔ اُس نے کراہتے ہوئے کروٹ بدلنے کی کوشش کی تو پائوں عمر رسیدہ آدمی کے گھٹنوں کو چھو گئے ۔ بیٹا بہت درد ہورہا ہے کیا ؟ بزرگ نے اُسے چھوتے ہوئے کہا ۔ ارے تمہیں تو بہت بخار بھی ہے ۔ تمہارے ساتھ کوئی ہے بیٹے ؟ بزرگ کی ہمدرد آواز نے بچے کی آنکھ میں آنسو بھر دئے ۔ نہیں ۔ میں اللہ میاں کو سب بتا دوں گا ۔ شکایت لگائوں گاتب پتہ چل جائے گا انہیں۔ اُس نے اپنے گال پر بہنے والے آنسو کو اپنے میلے زخمی ہاتھ کی پشت سے پونچھ دیا ۔ بزرگ نے اُسے نرمی اور شفقت سے اپنی گود میں اٹھا لیا ۔۔ اب تمہارے ساتھ کوئی ہے بیٹے (ایک آہ بھر کے)اور میرے ساتھ بھی ۔نرم اور شفقت بھری آغوش میں بچے کی آنکھ لگ گئی ۔ اور وہ نیند میں لا الہ اللہ بڑبڑانے لگا ۔ گاڑی کو کہیں دھچکا لگاتو بچہ درد سے کراہتے ہوئے جاگ گیا ۔ بزرگ نے اسے سینے کے ساتھ لگا لیا ۔ بیٹا تم نیند میں کلمہ پڑھ رہے تھے ۔ کیا کوئی خواب دیکھا تھا؟ ۔ ماں کہتی تھی تو اپنے بابا کے باہر سے گھر لوٹنے سے پہلے کلمہ زبانی یاد کرلے تو تجھے میٹھا پراٹھا بنا کر کھِلائوں گی ۔ باجی مجھے کلمہ سِکھا رہی تھی ، ماں صحن میں چولھے پر پراٹھا بنا رہی تھی۔ بابا کھیت کو پانی دینے گئے ہوئے تھے ۔ بچہ پھر سے غنودگی میں چلا گیا اور بزرگ کی جاگتی آنکھوں میں اپنی زندگی کا خوب بھر گیا ۔
زہرہ بٹیا اپنی ماں اور بڑے بھیا کے ساتھ اپنی سہیلی گیتا کے گھر اُس کی مہندی پر گئی تھی ۔ تینوں پھر واپس نہیں لوٹے ۔ بلوائیوں نے گلے کاٹ دئے ۔ گیتا کا باپ چھپتے چھپاتے آیا اور اُسے روتے ہوئے بتاکر کہنے لگا اللہ رکھا تو چلا جا یہاں سے ۔ صبح امرتسر سے ایک گاڑی جا رہی ہے پاکستان تو چلا جا یہاں تیرا کچھ باقی نہیں رہا ۔ مجھے موقع ملا تو میں لاشوں کو خود دفنا دوں گا ورنہ بھروسہ رکھ رام نام ست ہے ۔ وہ جتنی تیزی سے آیا تھا اتنی ہی برق رفتاری سے واپس چلا گیا ۔ بوڑھے کی آنکھ سے بہنے والے آنسو کا ایک قطرہ بچے کے گال پر گِرا ۔ وہ پھر کراہتے ہوئے اپنی دبی چیخ کے ساتھ اٹھ گیا ۔ اُس کا سر اب بھی غنودگی میں جھُول رہا تھا۔
اُس نے بزرگ کے چہرے پر نظر ڈالی اور سِسکنے لگا ۔میرے بابا تو نہیں آئے مگر بہت سے لوگ دروازہ توڑ کر اندر آگئے ۔ چولھے میں جلتی لکڑی سے ماں کے کپڑوں میں آگ لگا دی ۔ میں بھاگ کر ماں سے لپٹ گیا ۔ میرا قائدہ بھی جل گیا۔ مگر انہوں نے مجھے بہت مارا اور باجی کو ساتھ لے گئے ۔ پھِر پتہ نہیں کیا ہوا اور میں چلتی ریل گاڑی میں آگیا ۔ میں سب کچھ بتا دوں گا اللہ میاں کو ۔شکایت لگائوں گا اِن کی تو انہیں پتہ چل جائے گا ۔ بوڑھے نے بچے کو بہت نرمی سے اپنے سینے کے ساتھ لگا لیا ۔ ہاں بیٹے اللہ میاں کو میں بھی سب کچھ بتا دوں گا۔ شکایت لگائوں گا اِن کی تو انہیں پتہ چل جائے گا۔
جنتِ کشمیر ابھی تک ٹرین کے اِسی ڈبے میں ہے ۔ ستر سال سے مسلسل درد کی اِسی کیفیت میں ہے ۔ظلم کے اِسی رات میں جی رہی ہے ۔کشمیریوں کے بچے اللہ میاں کو شکاتیں لگا لگا کر تھک گئے ہیں مگر ہم ہیں کہ صرف اپنی سرزمینیں فتح کرنے میں لگے ہوئے ہیں ۔گذشتہ روز ترکی کی فوج کے ایک گروہ نے ترکی کوفتح کرنے کی کوشش کی ہے مگر عوام سیسہ پلائی دیوار بن گئے ۔پاکستان میں بھی ہماری فوج اپنے وطن کو کئی بار فتح کرچکی ہے کشمیر یوں کیلئے کچھ نہیں کرسکی ۔ہمیں آج تک یہی معلوم نہیں ہو سکا کہ کشمیرکے لئے لڑی جانے والی آخری جنگ ۔یعنی کارگل کی جنگ میں ناکامی کا سبب کیا تھا۔کون تھا۔فوج یا اس کی وقت کی حکومت ۔جنرل راحیل شریف ! اللہ میاں کو شکاتیں لگانے والا بچہ آپ کے انتظار میں ہے ۔
mansoor afaq

