شاعری کیا ہے
شاعری کیا ہے
’’ کیاشاعری آہنگ کانام ہے؟‘‘
’’نہیں ہر گز نہیں ‘‘
’’کیوں؟ کیسے؟ کیا آپ کسی باوزن جملے کو شاعری نہیں کہیں گے‘‘
’’نہیں ۔کیونکہ اگر چار یا پانچ ایک وزن کے لفظ ایک لائن میں لکھ دئیے جائیں تو وہ جملہ وزن میں آجاتا ہے جیسے (مظہر ، اکرم ، امجد بھائی ہیں )اب یہ جملہ وزن میں توہے اگر اسے شاعری تسلیم کر لیا جائے توہر وہ شخصجو لفظ کا جوڑنکالنا جانتا ہے اس کے لئے شعر کہنا کوئی مشکل بات نہیں۔ مثال کے طور پر ’’بادل ‘‘کے لفظ میںدو رکن ہیں ایک ’’با‘‘ اور ایک ’’دل ‘‘با میں ’’ب ‘‘ پر زبر ہے یعنی متحرک ہے اور’’ الف‘‘ پر جزم ہے یعنی وہ ساکن ہے پھر اسی طرح دال متحرک ہے اور لام ساکن ہے ۔اس جیسی آٹھ رکن ملا لئے جائیں تو بحر مکمل ہو جاتی ہے۔فاروق روکھڑی کی مشہور غزل کا مطلع ہے
ہم تم ہوں گے بادل ہوگا جنگل میں بھی منگل ہو گا.
مگر وہ جملہ کہ مظہر اکرم امجد بھائی ہیں وہ بھی اسی بحر میں ہے صرف اس میں ایک رکن زیادہ ہے جو فن کی ایک خوبصورتی بھی ہے مگر ہم اسے شاعری نہیں کہہ سکتے ۔یعنی یہ بات طے شدہ ہے کہ شاعری کسی وزن یا آہنگ کا نام نہیں ‘‘
’’کیاشاعری شاعرانہ خیال کو کہتے ہیں ؟ ‘‘
’’نہیں بالکل نہیں اگر شاعرانہ نثر کو شاعری قرار دیا جائے تو پھر ابوالکلام آزاد کے خطوط کے مجموعے ’غبارِ خاطر‘ کو ان کا شعری مجموعہ قرار دینا پڑے گا کیونکہ اپنے خطوط میں انہوں نے جتنی خوبصورت اور شاعرانہ نثر لکھی ہے وہ کہیں اورکم کم ہی دکھائی دیتی ہے ‘‘
’’تو پھر شاعری کیا ہے؟ ‘‘
’’اس سوال کا میرے پاس کوئی جواب نہیں ‘‘
’’یہ کیا بات ہوئی تم تو خود شعر کہتے ہواگرتمہیں خود ہی معلوم نہیں کہ شاعری کیا ہے تو پھر شاعری کرتے کیسے ہو؟‘‘
’’یقینا مجھے معلوم ہونا چاہئے کہ شاعری کیا ہے ۔ شاید کسی حد تک میں اس راز کو جانتا ہوں مگر میرے پاس صحیح الفاظ موجود نہیں ہیں اظہار کیلئے
اظہارِ عجز ہوگئی ہے میرے فن کی بات یہ آج کس نے چھیڑ دی ہے گل بدن کی بات ‘‘
’’پھر بھی کچھ تو کہو شاید کسی کی سمجھ میں آہی جا ئے کہ تم کیا کہہ رہے ہو ‘‘
’’شاعری شاید ایک کیفیت کا نام ہے ‘‘
’’یہ تو بہت الجھی ہوئی بات ہے کچھ وضاحت کرو ‘‘
’’مثال کے طور پر تم نے فیض احمد فیض کا وہ شعر تو سنا ہوا ہے کہ
دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے وہ جارہا ہے کوئی شب ِ غم گزار کے
اب ان دونوں مصرعوں کے درمیان اتناگہرا تعلق نہیں جتنا شاعری کے اصول و ضوابط کے مطابق ہونا چاہئے تھامگر اس میں ایک ایسی شے ،ایک ایسی کیفیت در آئی ہے کہ وہ شعر روح میں اتر جاتا ہے اور بھولتا نہیں اس کے برعکس اگر پہلے مصرعے کو یوں لیا جائے
پھر صبح دم بجھا کے دئیے انتظار کے وہ جارہا ہے کوئی شبِ غم گزار کے
اس میں وہ سارے محاسن در آتے ہیں جو ایک اچھے شعر کی تعریف میں درج کئے جاتے ہیں لیکن وہ کیفیت مر جاتی ہے۔اسی طرح فیض صاحب کا ایک اور شعرہے
قفس اداس ہے یارو صباسے کچھ تو کہو کہیں تو بہرِ خدا آج ذکر یار چلے
اس شعر کو اگر یوں کہا جائے
قفس اداس ہے ، صبح فراق پژمردہ ذرا فروغ صبا ہو کہ ذکر ِ یار چلے
تو فنی اعتبار سے یہ شعر زیادہ خوبصورت قرار دیا جا سکتا ہے مگرکسی کو یاد نہیں رہ سکتا۔شاید اس میں وہ کیفیت نہیں رہی جو فیض کے شعر میں ہے حالانکہ فیض کے شعر میں ’’آج ‘‘ کا لفظ بھی صرف وزن پورا کرنے کیلئے استعمال کیا گیا ہے۔’’بہرخدا‘‘ کا بھی شعر کے مجموعی ماحول سے کوئی تعلق نہیں بن رہا ’’یارو‘‘ کے متعلق بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ وزنی یارو ہے مگرفیض کے شعر میں جو لطف ،جو کیفیت ہے وہ فنی کمزوریوں سے مبرا شعر میں دکھائی نہیں دیتی ۔‘‘
’’یہ بہرِ خدا کیا ہوا۔ کچھ اِس کی وضاحت کرو۔ ہم نے تو بہرحال اور بہر طور یا بہر صورت میں یہ ’بہر‘ سنا تھا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ بہر دراصل ’بہ ہر‘ ہے۔ اگر اِسے اِس نظر سے دیکھا جائے تو پھر ’بہرِ خدا‘ کا کیا مفہوم ہوا‘‘
’’یہ بہر ’بہرطور ‘والا نہیں ہے شاید تمہیں وہ مصرع یاد ہو کہ ’تقریب کچھ تتو بہرِ ملاقات چاہئے‘ ۔ یہ بہر جس کا مفہوم ’کیلئے ‘ہے اردو زبان میں کہاں سے آیا ہے ، یہ ایک بہت لمبی بحث ہے، بات شاعری تک ہی محدود رکھو‘‘
’’اچھا تو پھر شاعری لفظوں میں ایک کیفیت پیدا کرنے کا نام ہے ‘‘
’’نہیں صرف اس کو بھی شاعری نہیں کہا جا سکتاکیونکہ نثر میں بھی کئی لوگوں نے الفاظ اور خیال کوآپس میں اس انداز سے ہم آغوش کیا ہے کہ وہاں کیفیت پیدا ہو گئی ہے ‘‘
’’تو پھر شاعری کیاہے ‘‘
’’شاعری کوئی اور ہی شے ہے ‘‘
’’تمہاری گفتگو سے مجھے یوں محسوس ہوا ہے کہ جیسے شاعری وزن ، شاعرانہ خیال اور کیفیت کے مرکب کو کہتے ہیں ‘‘
’’تمہارے محسوس کرنے سے یہ مرکب شاعری تو نہیں بن جائے گا‘‘
’’تو پھر شاعری کیا ہے‘‘
’’شاعری شاید حسن کو کہتے ہیں ۔ وہ حسن جس کا اِدراک کہنے ، سننے اور دیکھنے والے کے ظرف کا مرہون ہوتا ہے‘‘
’’یہ تو کوئی بات نہ ہوئی‘‘
’’یہی تو بات ہے‘‘۔

