
سید نصیر شاہ
سید نصیر شاہ
ایک تو وہ دریائے سندھ ہے جس کی روانی موج موج پہاڑوں کا جگر چیرتی ہوئی۔۔
شیروں کی طرح دھاڑتی ہوئی۔۔آہنی چٹانوں سے ٹکراتی ہوئی۔۔
سنگلاخ زاروں میں نت نئے راستے تراشتی ہوئی۔۔
کالاباغ کے مقام پر جب کوہساروں سے باہرآتی ہے تو میانوالی کے میدانوں کی سبک خرامیاں پہن لیتی ہے۔
مگر ایک اِس سے بھی عظیم تر دریائے سندھ تھا۔وہ علم و ادب کا دریائے سندھ تھا جس کا دوسرا کنارہ آنکھ نہیں دیکھ سکتی۔ وہ دریا روحوں کو سیراب کررہا تھا دماغوں میں بہہ رہاتھا۔اس دریا کے میٹھے پانیوں نے زندگی کی آبیاری کی ۔اس کی سبک خرامی نے میانوالی کی تہذیب کو چلنے کا ہنر سکھایا ہے
مجھے گولائی میں تراشی ہوئی نمل جھیل کی سفید پہاڑیوں کی قسم
مجھے کھجور کی ٹوٹی ہوئی شاخ کی طرح افق کی چشمہ جھیل میں گرتے ہوئے چاند کی قسم
مجھے کوہ سرخ کی بے آب و گیاہ چٹانوںپربہنے والے جھرنے کے اردگرد پتھروں پر اگی ہوئی روئیدگی کی قسم
مجھے پانیوں میں ڈوب جانے والی بستی ’’گانگی‘کی قسم جس نے علم و ادب کی پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا
مجھے نمک کی کانوں میںکان کنوں کی نمک میں گھلتی ہوئی ہڈیوں کی قسم
مجھے کندیاں کے جنگلوں میں صبح سویرے شور مچاتے ہوئے کالے تیتروں کی قسم
مجھے کالاباغ اسٹیٹ کی کرچیاں فضائوں میں بکھیرتی ہوئی بغوچی تحریک کی قسم
مجھے جاگیرداروں اور سرمایہ کاروں کے خلاف بننے والے عوامی محاذ کی قسم
مجھے برکتوں بھرے سلطان ذکریا کے مزار کی قسم
مجھے میانوالی کے خود سر شاعروں ،سر پھرے ادیبوں ،عمل کرنے والے دانشوروں اورسر فروش عالموں کی قسم
مجھے اپنی یعنی منصور آفاق کی قسم
کہ لوح و قلم کے اس خوبصورت دریا (جنہیں سید نصیر شاہ کہتے تھے)نے میانوالی کی خوبصورت ترتہذیب کو موج موج خوبصورت ترین بنادیا۔
لوح و قلم کی داستاں کچھ زیادہ پرانی نہیں ۔مجھے وہ دن یاد ہے۔۔ جب حرف سے حرف ہم لمس ہوا۔۔۔ وصالِ حروف کے افق سے لفظ طلوع ہوئے اور جگنوئوں کی طرح رات کے کاغذ پر جگمگانے لگے۔زمیں پر کہیکشاں اتر آئی ۔تتلی نے رنگوں کی ۔۔۔۔ گلابوں نے خوشبو کی ۔۔۔۔اور مہتابوں نے روشنیوں کی تاریخ رقم کی ۔۔۔ماضی کے مُردوں کی ہڈیاں ۔۔حال کے چمکتے ہوئے سکے اور مستقبل کے ثمرور شاخچے ایک ہی ہار میں پرو دئیے گئے۔۔۔۔یہ معجزہ پہلی بارکرہ ء ارض پر قلم کی نوک سے ٹپکتی ہوئی روشنائی سے نمودار ہوا۔۔۔سطر اسی ہار پرونے کو کہتے ہیں ۔اسی سے اساطیر کا لفظ خلق ہوا۔جس نے زماں کو مکاں کی گرفت سے نکال کر بے کرانی کی ویرانی میں پھینک دیا۔۔۔۔سورج کے ماتھے کی آگ اگلتی آنکھ کیا جانے کہ سلسلہ ء روز و شب کیا ہے ۔ ؟۔گزرا ہوا کل اور آنے والا کل کس نے اس کی ہتھیلی پر رکھ دیا ہے ۔اس کی آنکھ کیوں نگارخانہ ٗ لوح و قلم کی تصویریں دیکھ لیتی ہے۔شاید صرف اس لئے کہ اس پر وہی صحیفے نازل ہوئے ہیں ۔جنہیں قلم کے فرشتے نے زمین پر اتارا ہے۔
میں چاہتا ہوں کہ میں اِ س صاحب ِ لوح و قلم کی جدائی کے ہزاروں نوحوںلکھوں۔ان کیلئے قطرہ قطرہ آنکھ سے قصیدے کشید کروں۔عقیدت کے درخت سے شاخ شاخ منقبت کے پھول چنوں۔۔میں نے ان کےشعری مجموعہ کاپیش لفظ لکھا تھاکہ
یہ کوئی شاعری کا مجموعہ نہیں
ایک لٹے پٹے درویش کی بچی کھچی متاع ہے۔
ایک برباد شدہ قصرفریدوں کا باقی ماندہ خزانہ ہے ۔
بےدردی سے کاٹی ہوئی فصلِ گل کے بعدکھیت میں رہ جانے والے موتیوں بھرے خوشوں کی ڈھیری ہے۔اِس کتاب میں اُس سبزہ زار کے بچے کھچے پھول ہیں جسے پچاس سال تک رونداگیا۔اور جب درویش سے کہا گیا کہ ایک شعری مجموعہ تو ترتیب دے دیں کہ اسے اشاعت کے مراحل سے گزارا جا سکے ۔تو کہنے لگے
ہیں کتابِ دل کے اجزا مختلف لوگوں کے پاس
آئو ان سے مانگنے جائیں کہ شیرازہ تو ہو
مجموعی طور پرروشنی اور خوشبوکی اس بڑی ’’لوٹ‘‘ کے متعلق درویش کا خیال مجھ سے مختلف تھا ۔وہ سوچتے تھے
میں میٹھے پانیوں کا سمندر تھا اب بھی ہوں
سب نے بقدر ظرف پیا ۔۔۔میرا کیا گیا
مگرمیں سمجھتا ہوں اگر برسوں تک کسی سمندر کے سیپیوں سے موتی چرائے جاتے رہیں تو ڈوبتے ہوئے سورج کی آخری شعاعوں میں غوطہ خوروں کی تلاش فیروزمندیوں سے ہمکنار نہیں ہو سکتی۔سید نصیر شاہ کے ہاںمتاعِ علم و دانش کی ارزانی کے ویسے تو کئی سبب تھے مگر انہوں نے اس کی وجہ کچھ یوں بیان کی ہے
میں متاعِ علم و دانش کو بھی ارزاں کر گیا
اس لئے کہ میرا بیٹا بدر شہزادہ رہے
بے شک غربت سے رہائی کا جذبہ جب اپنے علم لہراتا ہے تو اس کے ہزار رنگ ہوتے ہیں۔ پھر شاہ صاحب تواس مرتبے پر فائزتھے جہاں انہیں کہنا پڑا
آپ نے ٹھیک کہا آپ بڑے سچے ہیں
میری بیوی ہے میرا گھر ہے مرے بچے ہیں
ساغرِ زہر اٹھا لیجئے میں سقراط نہیں
اس لئے ان کے پاس ازرانی ء علم ودانش کا سبب صرف غربت نہیں ہو سکتی ۔ میرے نزدیک اس کا اہم ترین سبب کچھ اور ہے ۔وہ شاید ان کی وہ سائیکی ہے جو خاندانی دستارِ علم و فضل کے ری ایکشن سے نمودار ہوئی ۔اس حوالے سے انہوں نے بہت پہلے کہا تھا
دستارِعلم و فضل کا وہ شملہ ء طویل
اک طوق تھا سو مدتوں پہلے تلف کیا
لیکن ایک بات طے ہے کہ انہیں متاعِ علم و دانش کی ارزانی کابہت دکھ تھا۔وہ جب کہتے تھے کہ
شہر میں کوئی نہ تھا میرے لہو کا قدر داں
میرے فن پر لوگ تو سوداگری کرتے رہے
یوں تو اس عہدِ گرانی میں ہر اک شے ہے گراں
ایک میرافن ہے ارزاں اور اک تیرا بدن
جاری ہے
mansoor afaq

