دیوار پہ دستک

رحمان بابا

رحمان بابا

سلامتی اور عافیت کا نگر کونسا ہے۔یہ سوال صرف میرا نہیں ہے ۔ رحمان بابا کے مزار کی ٹوٹی ہوئی محرابوں کا بھی ہے جن کی کرچیاں تاریخ کی آنکھوں میں پیوست ہوگئی ہیں۔ ابوجہلوں کی باردو بھری مردہ نسل کیا جانے کہ رحمان باباکون تھےجنہوں نےچار سو سال پہلے کہا تھا

روشنی گلیوں میں ہے دانشوروں کے فیض سے
صاحبان علم دنیا کے ہوئےہیں پیشوا
جو تلاش حق میں ہیں
علم والوں کو کریں وہ رہنما

جاہلوں کی زندگی تو مردہ لوگوں کی طرح ہے. مجھے افلاطون یاد آرہا ہے جس نے کہا تھا کسی معاشرہ پر اس بڑا اورکوئی عذاب نازل نہیں ہو سکتا کہ اس کےلوگ عقل و خرد کے دشمن ہو جائیں۔ہم عقل و خرد کے دشمن کیوں ہو گئے ہیں۔کیا ہمیں معلوم نہیں کہ ایک بے گناہ انسان کا قتل پوری انسا نیت کا قتل ہے ۔رنگ ، نسل ، وطن ، مذہب، اور زبان کا اختلاف کسی بھی انسان کے قتل کا جواز نہیں بن سکتا۔انسان کا خون مقدس ہے ۔انسانی لہو لندن کی انڈر گراونڈٹرینوں میں بہے یا بغداد کی گلیوں میں اس کے تقدس میں کوئی فرق نہیں آتا۔مگرافسوس کہ میری گلیوں میں یہ کہنے والا کوئی رحمان بابا موجود نہیں کہ لہو کی کوئی داستان اب کہیں نہیں لکھی جائے گی۔ کسی ماں کا کلیجہ ٹکڑے ٹکڑے نہیں کیا جائے گا۔کسی بچے کے مقدر پر یتیمی کی مہر نہیں لگائی جائے گی ۔کبھی کبھی مجھےایسا لگتا ہے کہ انسان ابھی تک پوری طرح بالغ نہیں ہوا۔جسمانی ارتقاء کے اختتام پر شروع ہونے والا ذہنی ارتقاء ابھی کسی لہو رنگ خواب میں رکا ہوا ہے ۔ستاروں کو تسخیر کرنے والا انسان اپنی جبلتوں میں کسی بچے کی مثال ہے۔رحمان بابا کو بھی یہی دکھ تھا۔دیکھئےانہوں نے اس موضوع پر اپنی ذات کے حوالےسے کتنا بلیغ شعر کہا ہے

رحمان ہو گئی ہے ریش سیہ سفید
لیکن ابھی تلک میں بالغ نہیں ہوا

رحمان بابا کی چلتی پھرتی باتیں خانہ ء شعور کی سیڑھیوں سے زینہ زینہ اتر رہی ہیں مگرفہم کے تہہ خانے میں رہنے والوں نے اپنی سماعتوں میں پگھلا ہوا سیسہ بھر لیا ہے۔آنکھوں میں سلائیاں پھیر لی ہیں۔ رحمان بابا اس اندھی بہری معاشرت کا پوری طرح ادراک رکھتے تھےاسی لئےتوفرما گئے ہیں

اپنے رحمان بابا کی باتیں۔۔ یاد آئیں گی جس وقت تیرا
ایک دیوار کی سمت چہرہ ۔۔دوسری کی طرف پیٹھ ہوگی

رحمان بابا صرف اہل مشرق سے نہیں ۔اہل مغرب سے بھی سے مخاطب ہوئے۔ان کےنزدیک مغرب اور مشرق کا فرق و امتیاز کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ان کا خدا تو رب المشرقین بھی ہے اور رب المغربین بھی جسے کسی بھی بے گناہ انسان کا خون کرانا کسی طرح گوارانہیں۔ دہشت گردی ختم کرنے کے نام پر امریکی طیاروں کے ناروا حملے ہوں یا خود کش دھماکے ان کی فکر میں دونوں معلون فعل ہیں۔ورلڈبنک کی رزم گاہ میں معیشت کی عالم گیر جنگ ہو یا ورلڈ ٹریڈسنٹر کی مقام صفر میں بدلتی ہوئی آویزش عظیم۔۔رحمان بابا کا کہا پتھر پر لکیر ہے

صاحب مال۔ جہاں بان نہیں ہو سکتا
سونے کا بت کبھی انسان نہیں ہو سکتا

زندگی کی بے ثباتی رحمان بابا کی شاعری کا اہم ترین موضوع ہے۔کہتے ہیں کہ وہ دریائےباڑہ کے کنارے پر روزانہ دیر تک بیٹھتے تھے اور ساحلی ریت پر اپنی انگشت شہادت سےشعر لکھتے رہتے تھے ۔وہ لازوال مصرعے کبھی پاگل ہوائیں مٹاتی دیتی تھیں اور کبھی دریا کی تند موجیں انہیں اپنے ساتھ اگلی زمینیں سیراب کرنے لے جاتی تھیں۔جب کسی نے انہیں اس بات کا احساس دلایا کہ علم کا ایک عظیم ذخیرہ فطرت کی وحشت نگلتی جارہی ہے تو انہوں نے کہامیری شاعری زندگی کی طرح ہےجو بھیگی ہوئی ریت پہ لکھی ہوئی نظم سے بھی کم تر ہےاور اپنا یہ شعر پڑھ دیا

عمر بہتی ہے اباسین کی رفتار کے ساتھ
جیسے ہر موج چلے آب گرفتار کے ساتھ

زندگی کیا ہے۔۔ اس سلگتے ہوئے سوال پر ہر شاعر کچھ نہ کچھ ضرور کہا ہے ۔کسی نے اسے پانی کا بلبلہ قرار دیا ہے تو کسی نے آسمانی بجلی کی چمک سےتشبیہ دی ہے۔دیکھئے کہ رحمان بابا چار سو سال پہلے اسے کس انداز سےدیکھ رہے ہیں ۔ کہتے ہیں

ٹوٹ جائے گا ابھی موت کی تلوار وں سے
زیست کا تار ۔۔۔سلامت نہیں رہنے والا
لمحہ بھر کوہے۔ زمانے میں شگفتن گل کی

کوئی گلزار۔۔۔۔ سلامت نہیں رہنے والا
اسی موضوع پر غالب کا شعر جسے تھوڑی سی تبدیلی کےساتھ رحمان بابا بہت عرصہ پہلے کہہ گئے تھے

گرنا ہے رخش عمر کے آخر سوار کو
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں
ایک اور شعر دیکھئے
عالم خواب سے جانے والا
اب دوبارہ نہیں آ نے والا

اس شعر کا اصل لطف تو صرف پشتو زبان میں ہی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ میں نےاشعار کا ترجمہ کرتے ہوئے پوری کوشش کی ہےکہ رحمان بابا کے اشعار کی کیفیت کا برقرار رکھا جائے مگر اہل علم جانتے ہیں کہ یہ کام تقریباً ناممکن ہے.

سو اگر کسی شعر میں کوئی خوبصورتی تھی تو وہ رحمان بابا کمال تھااوربدصورتیوں کا سبب میری بدہنری ہے
رحمان بابا پشتو زبان کے ایسے عظیم شاعر ہیں۔جنہیں بےپناہ عوامی مقبولیت حاصل ہوئی۔ان کی شاعری میں انسان اور انسانی مسائل بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ان کے پاس محبت کا ایک لامنتاہی جذبہ موجود ہے۔جو دشت مجاز سے آسمان حقیقت تک پہنچتے پہنچتے بے کنار ہو جاتا ہے۔فطرت سے ان کو رابطہ بہت گہرا ہے ۔صوفی کے کدو سے نکلے ہوئے حسی تجربے نے ان کے لفظ کو ایسی گیرائی عطا کی ہےکہ وہ ساری کائنات پر محیط ہو گیا ہے۔

میں نے ان کے مزار پر ایک مشاعرہ پڑھا تھا ۔بہت عرصہ کی بات ہے میں ان کے عرس کی تقریب میں شریک ہونے کےلئے گیا تو پتہ چلا کہ کل یہاں ان کی یاد میں مشاعرہ ہورہا ہے ۔میں نےاس مشاعرہ کےلئے ان کے مزار پر بیٹھ کر ایک نظم کہی تھی اسی کے کچھ اشعار پر گفتگو تمام کرتا ہوں.

محیط جہاں یہ اجالوں کا گنبد
یہ انسانیت کے حوالوں کا گنبد
یہ علم و قلم کا ثمر دار برگد
یہ رحمان بابا کی پُر نور مرقد
یہ مرقد نہیں کوئی پارنیہ قصہ
یہ مرقد ہے تاریخ کا ایک حصہ
تصوف کی جولانیاں ہیں اسی سے
قلم کی فروانیاں ہیں اسی سے
یہاں سورہا ہے فقیروں کا شاعر
جہاں بھر کے زندہ ضمیروں کا شاعر
یہ علم و قلم کا ثمر دار برگد
یہ رحمان بابا کی پُر نور مرقد

 

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے