
ایک دن قلم کی روشنی کے ساتھ
ایک دن قلم کی روشنی کے ساتھ
منصور آفاق
ایک شخص جسے جواب دینے کا فریضہ سونپ دیا گیا تھا اسے برطانیہ کے گلی کوچوں میں سلگتے ہوئے سوالوں نے گھیرلیا۔اس نے جس طرف دیکھا سوال ہی سوال تھے۔یہی کہ دھیرے دھیرے آگے بڑھتی ہوئی زندگی کا نام ہی پاکستان کیوںہے۔وہاں وقت کیوں پتھرایاہواہے۔زمین و آسماں کی گردشیں کیوں رکی ہوئی ہیں۔موسموں کے دریاکس لئے جمے ہوئے ہیں۔بصارتوں میں کس نے سلائیاں پھیردی ہیں ۔ سماعتوں میں کس نے سیسہ بھردیاہے۔آوازوں میں کیوں سناٹے گونج رہے ہیں ۔ تعبیروں سے محروم خوابوں کے ہجوم کس لئے آنکھوں سے چپک کر رہ گئے ہیں ۔پاکستان کیوں مردہ منظروں کی ایک فلم بن چکا ہے۔ اڑتی ہوئی راکھ کے بگولے ۔فاسفورس بموں میں جلی ہوئی مسجدیں۔دورتک پھیلی ہوئی قبریں۔خودکش بمباروں کے طشت میں رکھے ہوئے سر۔چٹانوں پر کھدے ہوئے موت کے نقشِ پا۔نمازیوں کےچہروں کے خوفزدہ کتبے۔امید کے پرندوں کی کرلاہٹیں۔تپتی ہوئی ریت میں گم ہوتے ہوئے آسمان کے آنسو۔جمہوریت کے ایوانوں میں ہوتا ہوا پتلی تماشا۔کیوںکر ہی پاکستان کا ماضی اور حال بن کر رہ گیا ہے ۔اور پھر میں حیران ہوگیا اسشخص نے مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں امید کا چراغ جلائے کہ ہاؤس آف کامن کاہال جگمگا اٹھا۔پاکستان کے امیج کوبہتر بنانے کیلئے میں نے اس سے بہتر گفتگو کبھی نہیں سنی۔
مجھے یہ سوچنے کی کوئی ضرورت نہیں کہ وہ کون ہیں ۔وہ کہاں پیدا ہوا تھے کب پیداہواتھے میرے لئے یہی کافی ہے کہ ایک سچےانسان ہیں اور انسانوں کے اس عالمگیر خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جن کے دل دھڑکتے ہیں ۔جن کی آنکھیں دوسروں کے دردپر نم ہوتی ہیں ۔جو ہمیشہ صبحوں کے خواب دیکھتے ہیں ۔جن کے قلم سے روشنی نکلتی ہے ۔ان کے متعلق کچھ لکھتے ہوئے مجھے ایک چھوٹا سابچہ گالف ریڈ مائر یاد آگیا ۔بہت سال پہلے بنجمن فرینکلن پر مختصر سے مختصر مضمون لکھنے کاعالمی مقابلہ فرینکلنلائبریری والوں نے منعقد کرایا تھاجس میں فرٹے دی سکاٹ کے مضمون کو سب سے بہتر قرار دیا گیااسمیں بس یہی دوچار جملے تھے۔
’’میں تمام رات بنجمن فرینکلن پر مضمون لکھنے کی کوشش کرتا رہااور صبح اٹھ کر جب میں اپنے گھر کے لان آیاتو میں نےدیکھا کہ میرا بیٹا گالف ریڈمائر ادھر ادھر بھاگتا پھر رہا ہے وہ اپنی مٹھی بند کرتا ہے اور پھر کھول دیتا ہے۔میں نےاس سے پوچھا کہ یہ کیا کر رہے ہو ۔تو کہنے لگا۔ڈیڈ میں سورج کی شعاعوں کو قید کر رہا ہوں ۔سورج کی شعاعوں نے تو کب قیدہونا تھامگر میری سمجھ میں آگیا کہ بنجمن کی ہزار پہلو شخصیت پر کچھ لکھناسورج کی کرنوں کو مٹھی میں بند کرنے کےمترادف ہے۔میرا قلم رک گیااور میں نے قلم سے کالے نیلے کیے ہوئے رات والے تمام کاغذ پھاڑ دئیے ۔
اِس سورج پر کچھ لکھتے ہوئے چند لمحوں کیلئے مجھے یہی احساس ہوا کہ اِس کی ہشت پہلو شخصیت پر کچھ لکھنا اس کی کرنوں کو مٹھیمیں قید کر لینے کے مترادف ہے ۔وہ ایک باکمال نثر نگار ہیں۔ایک بے مثال صحافی ہیں ۔ ایک لاجواب اینکرپرسن ہیں ۔سیاسی تجزیوں میں حرفِ آخر سمجھے جاتے ہیں۔پاکستان کی سیاست پر ان سے زیادہ گہری نظرکسی اور صحافی نہیں۔ انہوں نے ’’قاتل کون ‘‘ اور ’’غدار کون‘‘ جیسی لافافی کتابیں تاریخ کے سپرد کی ہیں۔وہ ایک اعلی درجے کااداکاربھی ہیں ۔جس پر پی ایچ ڈی کا تھیسز ہوسکتاہے ۔انہوں نے جیسے اداکاری اور حقیقت یعنی اصل اور نقل کو آپس میں ہم آغوشکیا ہے اس کی پہلے کوئی مثال کہیں نہیں ملتی ۔مگر چند لمحوں کے بعد میں اِس کیفیت سے نکل آیا اورمیں نے سوچاکہ ایک اداکار یا ایک صحافی کی کیا حیثیت ہوتی ہے پاکستان میں کئی بڑے بڑے صحافی اور اداکار پیدا ہوئے اور مر گئے آجانہیں کوئی جانتا ہی نہیں۔پھر میں نے اپنی اِن دونوں کیفیات کا تجزیہ کیا ۔تو مجھے لگا کہ میرا پہلا تجزیہایک برطانوی شہری کا تجزیہ تھاجس کے نزدیک کسی کا بڑا صحافی یا بے کمال اداکار ہونا بہت بڑی بات ہے اور دوسرا تجزیہ اُس پاکستانی کا تجزیہ ہے ۔جس کا تعلق میانوالی سے ہے جس کی نظر میں اداکار یُ اُس بازار کوئی شے ہے اورصحافیوں کی مثال ان سگانِ آوارہ کی ہے جودکانِ اقتدار کے باہر ہڈیوں کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں ۔یقین کیجئے مجھے کئی پاکستانی دوستسہیل وڑائچ کے متعلق کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ یار سہیل وڑائچ اپنے قلم کی تمام تر بڑائی اداکاری کے کھڈے میں کیوںپھینک رہے ہیں انہیں عزت راس کیوں نہیں آتی ۔ اور میں انہیں سمجھانے کی ناکام کوشش کرتا ہوں کہ عزت و ذلتکے یہ معیارجاہلیت کے سوا اور کچھ نہیں ہیں ۔اداکار ہونا بھی کسی طرح قلمکار ہونے سے کم نہیں۔
یہ سہیل وڑائچ ہیں ان کو جاننے والے ان کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ رازوں بھراایساخزانہ ہیں۔جس کے دروازے پرخاموشی سانپ پہرا دے رہا ہے ان کے سینے میں نجانے کیا کیاموجود ہے ۔بے شک وہ جس تحقیق اور جستجو سے کامکرتے ہیں وہ انسانوں کو ان دیکھے خزانوں تک ہی لے جاتی ہے ۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے حوالے سے ان کی ضخیمکتاب’’ قاتل کون‘‘ پڑھ کر اندازہ ہوجاتا ہے کہ محترمہ کا قاتل کون ہے مگر پوری کتاب میں انہوں نے صرف حقائقبیاں کئے ہیں کوئی فیصلہ نہیں دیا کیونکہ فیصلہ دینا افتخار محمد چوہدری کا کام ہے اور قوم انتظار میں ہے ۔ان کی ایک اور کتاب ’’غدار کون ‘‘بھی اس وقت عدالت عالیہ کے کٹہرے میں ہے ۔اگرچہ عوام فیصلہ دےچکی ہے مگر عدالت کا فیصلہ ابھی باقی ہے کہ غدار کون ہے ۔ پرویز مشرف اور یا نواز شریف ۔اگر پرویز مشرف کےخلاف آرٹیکل چھ کے تحت فیصلہ ہوگیا تو عدالتی طور پر بھی یہ طے پا جائے گا کہ غدار کون تھا ۔ویسے اس بات کو امکانات بہت کم ہے ۔ میں نے اس کتاب کابہت گہری نظر مطالعہ کیا ہے اورتمام تر تحفظات کے باوجود سمجھتا ہوں کہ یہ وہ کتاب ہے جو نواز شریف کوایک لیڈر کی حیثیت سے تاریخ میں ہمیشہ زندہ رکھے گی ۔
وہ پچھلے دنوں برطانیہ میں باہو اکیڈمی فار ہیومینسٹک انڈرسٹینڈنگ (bahu)کے مہمان تھے ان کے اعزاز میں ئیتقریبات رکھی گئی ہیں۔لندن میں اس کی میزبانی کے فرائض احسان شاہد نے ادا کئے۔نوٹنگھم میں مسلم ہینڈ کےسربراہ لخت حسین نے اس کے اعزاز میں استقبالیہ تقریب رکھی ۔بریڈفورڈ میں بریڈفورڈ جم خانہ کے اےڈی انجم اور خواجہ وحید استقبال کا بندوبست کیا ۔ مانچسٹر میں ذوالفقار چوہدری ، اعجازاعوان راجہ مطلوب اورطاہرچوہدری ہنگامہ برپا گیا ۔برمنگھم میں باہو اکیڈمی کے زیر اہتمام ’’ایک دن سہیل وڑائچ کے ساتھ ‘‘گزارا گیا۔اس دن کابندوبست پیرسلطان نیاز الحسن قادری اور پیر سلطان فیاض الحسن قادری نے کیا تھا ۔یہ ہفتہ جو اہلبرطانیہ ان کے ساتھ گزارا ۔اس میں ان کو ہرطرف سے صرف پاکستان کے متعلق فکرمندی کی گفتگو ہی سنائی دی مگر ان کے اجالوں سے بھرے جوابوں سے ماحول ہی بدل دیا میں نے اُن سے بہتر پاکستان کا کوئی وکیل نہیں دیکھا۔
منصور آفاق

