اگست آنے والا ہے. mansoor afaq
دیوار پہ دستک

اگست آنے والا ہے

اگست آنے والا ہے

دو دنوں کے بعداگست کا مہینہ شروع ہونے والا ہے ۔علم اعداد اور علم نجوم کے ماہرین کہتے ہیں کہ یہ پاکستان کےلئے سعد مہینہ ہے۔یعنی بہتری کا مہینہ ہے ۔نئی اور اچھی اچھی تبدیلیوں کا مہینہ ہے ۔بے شک یہ وہی مہینہ ہے جس میں ایک نئی قوم کی تحلیق ہوئی تھی۔اِسی مہینے اُس ساعتِ پُرنور و ضیا بخش نمودار ہوئی تھی جس کےلئے وقت نے کئی صدیاں کرب کے دوزخ میں تڑپ تڑپ گزاری تھیں۔اسی مہینے ہم ایک نئے عہد کی تمہید بنے تھے۔ گذشتہ اگست میں انہی ستارہ شناسوں کے عمران خان کو کہا تھا کہ فتح تیرے پاﺅں میں ہے اور نواز شریف سے کہا تھا بس ڈٹے رہو ۔پھر وہی مہینہ ہے۔اگرچہ جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کے بعد نون لیگ کی حکومت کےلئے راوی چین لکھتا ہے مگر دریائے راوی کی لہریں کچھ اور کہہ رہی ہیں۔رازدار کہہ رہے ہیں کہ سازش ختم نہیںہوئی ۔دبئی میں کچھ لوگ سر جوڑ کر بیٹھے ہوئے ہیں ۔دوسری طرف عمران خان پرکارکنوں کی طرف سے مسلسل دباﺅ بڑھ رہا ہے یا بڑھایا جارہا ہے کہ انہیں جوڈیشل کمیشن کے فیصلے کو تسلیم کر لینے کا اعلان واپس لے لینا چاہئے کیونکہ جوڈیشل کمیشن نے اپنا کام مکمل کئے بغیر فیصلہ سنا دیاہے۔ان کے خیال کے مطابق جوڈیشل کمیشن اس لئے نہیں بنانا گیا تھا کہ وہ چند وکیلوں کی گفتگو اور چند پارٹیوں کے دئیے گئے کاغذات پڑھ کر وہ کوئی رپورٹ مرتب کر ے۔

اِس جوڈیشل کمیشن نے تو دھاندلی میں سلسلے میں تحقیقات کرانی تھیں۔ ان تحقیقات کےلئے ایک آرڈنیس کے تحت تمام سرکاری ایجنسیاں اور محکمے ان کے ماتحت کئے گئے تھے۔مگرموجودہ جوڈیشل کمیشن نے اپنے اس رول کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کیا۔اس لئے اِس کمیشن کووہ جوڈیشل کمیشن نہیںتصور کیا جاسکتاجو نون لیگ اور پی ٹی آئی کے درمیان طے ہوا تھا سو اس کی کسی رپورٹ کو کیسے تسلیم کرلیا جائے ۔پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل نے بھی کمیشن کے فیصلے کو تسلیم سے تقریباً تقریباً انکار کیا ہے۔ڈاکٹر طاہر القادری نے تو پہلے ہی کہا تھاکہ عمران خان کا جوڈیشل کمیشن بنوانے کا فیصلہ درست نہیں۔یہ کمیشن حکومت کو کلین چٹ دیدے گا ۔یہ مکڑی کا جالا ہی ثابت ہو گا جن لوگوں سے انصاف اور اس نظام کو ٹھیک کرنے کی توقعات لگائی جا رہی ہیں حقیقت میں وہی لوگ اس نظام کی خرابی کے اصل ذمہ دار ہیں.

کہتے ہیں کہ تحریک انصاف کے زیادہ تر کارکن چاہتے ہیںکہ پی ٹی آئی قومی اسمبلی میں جاکر نہ بیٹھے انہیںشاہ محمود قریشی کے سلجھے ہوئے طریقہ کار سے سخت اختلاف ہے ان کے نزدیک اسمبلیوں سے بہتری کی توقع کرنا بے وقوفی ہے وہاں پر اکثریت جن پارٹیوں کی ہے وہ کسی صورت میں بھی انتخابات کے حوالے سے ایسی اصلاحات نہیں ہونے دیں گے جو آئندہ ان کے راستے رکاوٹ بن سکیں۔کارکن چاہتے ہیں کہ عمران خان عوامی تحریک دوبارہ شروع کریں۔ عوامی دباﺅ ہی وہ واحد راستہ ہے جس پر چل کر پی ٹی آئی کوئی بہتر فیصلہ کرا سکتی ہے اور انتخابات کے سلسلے میں کوئی بہترفیصلہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک عسکری قوتیں اس سلسلے میں کردار نہ ادا کریں۔دوسری طرف نون لیگ کا رویہ بھی زیادہ مناسب نہیں۔اگرچہ وزیر اعظم پاکستان اتنے سادہ نہیں ہیںمگر کچھ ناعاقبت اندیش دوستوں نے پوری کوشش کی ہے کہ تحریک انصاف کے ممبران کو اسمبلی سے نکلوادیا جائے تاکہ ان کے پاس دھرنوں کے سوا کوئی چارہ نہ رہے۔

ایک اور مسئلہ بھی سامنے آنے والا ہے۔رواج کے مطابق جوڈیشل کمیشن کی اس رپورٹ کے خلاف یقینادو چار شہری سپریم کورٹ میں پٹیشن بھی دائر کریں گے۔اور اس پٹیشن کو سننے والے جج صاحبان کون ہونگے ۔اس کے بارے میں ابھی کچھ نہیں کہا جا سکتا۔اوپر سے تمام سیلاب زدہ علاقوں میں عوام پاک فوج زندہ باد کے نعرے لگاتی پھرتی ہے ۔پاک چین راہداری بھی صوبہ بلوچستان میں پاک آرمی نے آدھی سے زیادہ تعمیر کردی ہے ۔ صوبہ سندھ کے بعد پنجاب میںبھی اپیکس کمیٹی صوبے کے معاملات اپنے ہاتھ میں لینے والی ہے۔اس کے آثار ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں ۔رانا ثنا اللہ کی خاموشیاں کئی کہانیاں سنا رہی ہیں۔دہشتگردوں کو فنڈ فراہم کرنے والوں کی فہرست وزیر اعلی شہباز شریف کے حوالے کردی گئی ہے ۔پنجاب کے کار خانوں میں کام کرنے والے انڈین گرفتار ہونے والے ہیں۔نیب کے اہلکاروں نے بھی اپنی آنکھیں ماتھے پہ رکھ لی ہیں ۔ایک کڑا احتساب کروٹیں لے رہا ہے ۔

لوگ صرف اسی شخص کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔جو عید کے دن بھی اپنے فوجیوں کے ساتھ میدان جنگ میں موجود تھا جو دنیا میںپاکستانی وزیر خارجہ کے فرائض سرانجام دیتا پھر رہا ہے۔جس نے دہشتگردوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ۔کرپشن کے خلاف جس نے اعلانِ جہاد کردیا ہے ۔اُسی کے سبب حکومتی ایوانوں میں چھپے ہوئے لٹیرے پریشان حال ہیں۔ قدرت نے پاکستان پر کرم کیا ہے کہ اسے جنرل راحیل شریف جیسا آرمی چیف عطا کردیا گیاہے۔یقینا اللہ تعالی نے ملک خداداد کو تباہی سے بچانے کےلئے اُسے بھیجا ہے۔وہ دنیا جو 2015میں پاکستان کی مکمل تباہی کے منظر دیکھ رہی تھی۔وہ اس کی طرف حیرت سے دیکھتی ہے اور پریشان ہوجاتی ہے۔اسی نے آزاد بلوچستان نے کے نعرے کو پانی کے بلبلے کی طرح ہوا میں بکھیر دیاہے۔

وہ لوگ دن گن رہے ہیں کہ اب ان کے ریٹائرڈ ہونے میں اتنے دن رہ گئے ہیں اور ساتھ کہے جارہے ہیں کہ ان کے پاس اتنا وقت کہاں ہے کہ وہ جو چاہتے ہیں وہ ممکن ہوسکے ۔ تومیںان سے صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ جس خدا نے پاکستان کی حفاظت کےلئے ایسا بہادر اور جری اور ذہین انسان اس قوم کو عطا کیا ہے وہی اسے وقت بھی دےگا۔

ہاں تو یاد آیا کہ اگست آنے والا ہے ۔سعادتوں بھرا اگست ۔توقع ہے کہ اسی مہینے چوروں اور ڈاکووں کو عزت دار سمجھنے کا معمہ حل ہوجائے گا ۔توقع تو اس بات کی بھی کی جا سکتی ہے کہ شیخ رشید کسی لمحے کہہ دیں گے کہ اگر اگست گزر بھی گیاتو ستمبر نہیں گزر سکتا۔یہ جملہ لکھتے ہوئے ہونٹوں پر ذرا سا تبسم آیااور میں نے چہرہ گھما کرکھڑکی سے باہر دیکھا تو سامنے غروب ہوتا ہوا سورج(جو برطانیہ میں کبھی کبھی طلوع ہوتا ہے )لہو میں نہایا ہوا دکھائی دیا اوردل چاہا

مرتے ہوئے سورج پر دوشعر کہے جائیں اس بجھتی چتا بھی شعلے تو گنے جائیں
چل سندھ کے ساحل پر ہر موجہ ِطوفاں میں دریا کے مغنی سے کچھ گیت سنے جائیں

mansoor afaq

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے