امید ، صبر اور اعتماد. mansoor afaq
دیوار پہ دستک

امید ، صبر اور اعتماد

امید ، صبر اور اعتماد

میں اوجڑی کیمپ کا سانحہ ہوا اسلام آباد اور راولپنڈی میں میزائلوں کی برسات ہوئی اس حادثہ میں تیرہ سو افراد جاں بحق ہوئے ۔ان دنوں محمد خان جونیجو پاکستان کے وزیر اعظم تھے انہوں نے اس حادثہ کی تحقیقات کےلئے ایک کمیشن بنایاجس کے نتیجے میں صرف ایک ماہ کے بعد جنرل ضیا الحق نے قومی اسمبلی سمیت محمد خان جونیجو کوسندھڑی بھیج دیا ۔کارگل کی جنگ کے خاتمے کے بعد میاں نواز شریف نے جنگ کی تحقیقات کےلئے کمیشن بنانے کا فیصلہ کیا تو انہیںجنرل پرویز مشرف نے کال کوٹھڑی میں پہنچا دیا۔اس وقت پھر عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے احتجاجی دھرنوں میں فوج کے کردار پر کمیشن بنایا جارہا ہے ۔ مختلف ٹی وی چینلز سے ایسی فوٹج جمع کی جارہی ہے۔جنرل شجاع پاشا اور جنرل ظہیر اسلام کے نام لئے جارہے ہیں۔یقینا کچھ دنوں بعداس لسٹ میں جنرل راحیل شریف ، جنرل رضوان کے نام بھی شامل ہوجائیں گے ۔مجھے خوف آرہا ہے کہ کہیں اِس لولی لنگڑی جمہوریت کی فلائٹ بھی لنگڑے آموں کی پیٹوں کے ساتھ کسی اجنبی ایئرپورٹ پر نہ اتر جائے۔

لندن میں اگر عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کی ملاقات ہی لندن سازش پلان ہے تو میں اس کا چشم دید گواہ ہوں ۔یہ کارنامہ میرے ایک قریبی دوست نے سرانجام دیا تھا ۔ اور اگر فوجی جنرلوں کے ساتھ عمران خان یا ڈاکٹر طاہر القادری کی ملاقاتیں ’سازش‘ قرار دی جارہی ہیں توان سے کون انکار کرسکتا ہے خود جنرل راحیل شریف نے ساڑھے چار گھنٹے ڈاکٹر طاہرالقادری سے ملاقات کی ۔ان کی عمران خان سے بھی ایک آدھ گھنٹہ گفتگو رہی ۔عمران خان پر افواجِ پاکستان سے مراسم کا الزام لگانے والے محسن جمہوریت جاوید ہاشمی جوآج کل فوج کے سیاسی کردار کے سخت مخالف ہیں ۔کسی زمانے میں فوج کے سیاسی کردار کے بہت بڑے حامی ہوا کرتے تھے۔کئی جنرلز کے ساتھ ان کے تعلقات تھے۔وہ بھی بہت سے دوسرے جمہوریت نوازوں کی طرح جنرل ضیا الحق کی کابینہ کے وزیر ہوا کرتے تھے ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ انہیں عمران خان کے فوجی جنرلوں سے تعلقات پرتکلیف کیوں ہے۔ عمران خان کے روابط اپنے ملک کے جنرلز کے ہیں ہمسایہ ملک کے جنرلوں کے ساتھ تو نہیں ۔(سنا ہے آج کل ہاشمی صاحب اپنی بیٹی کے کسی کام کےلئے کوشاں ہیں جو نہیں ہورہا ۔وہ جب مایوس ہو کرشام کو واپس آتے ہیں تو حکومت پرغصہ نکالنے کےلئے عمران خان کے حق میںبیان دے دیتے ہیں۔پھر اگلی صبح نئی امید کے ساتھ کام کےلئے نکلتے ہیںاور عمران خان کے خلاف ایک آدھ بیان داغ دیتے ہیں کہ شاید کام ہوجائے )بہر حال عمران خان تو آج تک کسی کو جنرل ضیا کی باقیات کا طعنہ نہیں دیا۔

جہاں تک عمران خان پر فوجی مداخلت کی راہ ہموار کرنے کا الزام ہے تو یہ انتہائی لغو بات ہے ۔عمران خان اگر مارشل لاءلگوانا چاہتے تو ان کےلئے کیا مشکل تھی ۔وہ جس وقت چاہتے صوبہ پختون خواہ کی حکومت توڑ دیتے اور اُس وقت جب لوگ قومی اسمبلی کے احاطہ میں براجمان تھے ان کےلئے قومی اسمبلی کی عمارت پر قبضہ کرنا کونسا مشکل کا تھا۔مگرانہیں معلوم تھا یہ دونوں عمل ایسے ہیں جس کے بعد مارشل لا کو روکنا ممکن نہیں رہے گا ۔سو انہوں نے ایسا نہیں کیا۔میرے نزدیک تو عمران خان نے جمہوریت کےلئے جتنی بڑی قربانی دی تھی اس کی کوئی مثال نہیں دی جاسکتی ۔سچ مچ پاکستان میں اگر کوئی محسن ِ جمہوریت ہے تو وہ عمران خان ہیں ۔ڈاکٹر طاہر القادری نے جب پہلی بار ڈی چوک پر دھرنا دیا تھا تو اس وقت عمران خان پرکارکنوں کابہت سخت دباﺅ تھا کہ وہ اس دھرنے میں شریک ہوجائیں مگر عمران خان جانتے تھے کہ اس دھرنے میں تحریک انصاف کی شمولیت مطلب صرف اور صرف مارشل لا ہے ۔ سوا انہوں نے تمام دباﺅ برداشت کیا مگر دھرنے میں شریک نہیں ہوئے ۔

حقیقت یہی ہے کہ حالات اس وقت بھی نارمل نہیں ہیں۔ عابد باکسر کی طرح پٹیالہ کالونی فیصل آباد کے ایس ایچ او فرخ وحید بھی ملک چھوڑ آئے ہیں۔یقینا برطانیہ میں انہیں اسائلم مل جائے گی۔فیصل آباد کے نوید نامی نوجوان نے کسی کے کہنے پر انیس لوگوں کو قتل کرنے کا اقرار کیا ہے۔ملک اسحاق ، اس کے دوبیٹے اور گیارہ ساتھیوں کے قتل کے بعد لشکرِ جھنگوی کے کچھ لوگوں نے مقتدر حلقوں کو پنجاب حکومت کے کچھ لوگوں کے خلاف کئی ایسے شواہد دئیے ہیںجو حیرت انگیز حد تک خوفناک ہیں ۔دہشت گردوں کی فنڈنگ فراہم کرنے والوں میں ایسے ایسے نام شامل ہیں کہ کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا۔دوسری طرف جنرل راحیل شریف ملک سے ہر طرح کی دہشت گردی کے خاتمے کا تہیہ کرچکے ہیں ۔ صرف اسی بات سے اندازہ لگائیے کہ وہ اس سلسلے میں خود جنوبی افریقہ چلے گئے۔جہاںانہوں نے اپنے اس عزم کو دھرایا کہ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک آپریشن جاری رہے گاان کے دورے کے نتیجے میں 65 گرفتار شدہ دہشت گردوںکے پاکستان پہنچنے کی اطلاعات ہیں۔جنرل راحیل شریف کا اٹلی کا دورہ بھی کچھ اسی نوعیت کا تھا۔سنا ہے اٹلی سے بھی کچھ گرفتار شدہ دہشت گرد پاکستان پہنچے والے ہیں جن کا تعلق بلوچستان سے ہے۔

بلوچستان کی صورت حال کس قدر بہتری کی طرف جارہی ہے اس کا اندازہ بی بی سی کو دئیے گئے ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کے اس بیان سے لگایا جا سکتا ہے جس میں اس نے خان آف قلات سلیمان داﺅد کے بارے میں کہا ہے کہ ان کا آزادی کی تحریک سے کوئی نہیں۔ڈاکٹر اللہ نذر نے ان عسکریت پسندوںپر بھی سخت تنقید کی ہے جنہوں نے عام معافی کے نتیجے میں ہتھیار ڈال دئیے ہیں اور قومی دھارے میں شریک ہوگئے ہیں ۔ہتھیار ڈالنے والوں کی کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ گذشتہ روز 8 کمانڈروں سمیت 44قوم پرستوں نے ہتھیار ڈالے ہیں ۔پاک چین راہداری 870کلومیٹربلوچستان بنائی جانی تھی پاک فوج اس وقت تک تقریباً 550کلومیٹر کے قریب بناچکی ہے۔ایک علیحدہ گوادر پورٹ فورس بنائی جارہی ہے ۔جس میں زیادہ تر لوگوں کا تعلق بلوچستان سے ہوگا۔اسی سبب اس وقت پوری قوم کی نظریں جنرل راحیل شریف پر مرکوز ہیں ۔وہی اس وقت اس سفینے کا ناخدا ہیں۔مگر ایک ناپسندیدہ اطلاع بھی سماعت سے ٹکرائی ہے کہ قانون کے مطابق وزیر اعظم پاکستان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ایک سال پہلے اگلے چیف آف آرمی سٹاف کے نام کا اعلان کر سکتا ہے ۔اس لئے صرف دوماہ بعد وزیر اعظم پاکستان اگلے آرمی چیف کے نام کا اعلان کرنے والے ہیں۔یہ اطلاع بھی ہے کہ وزیراعظم کو کسی دوست نے مشورہ دیا ہے کہ وہ دوماہ کے بعدجنرل کیانی کی طرح جنرل راحیل شریف کی بھی تین سال کی ایکسٹینشن کا نوٹی فکیشن جاری کردیں تاکہ ہم دوہزار اٹھارہ کا سورج آپ کی حکمرانی میں دیکھ سکیں ۔اب دیکھتے پروانہ کس سمت جاتا ہے۔

رخِ روشن کے آگے شمع رکھ کر وہ یہ کہتے ہیں
اُ دھر جاتا ہے دیکھیںیا اِ دھر پروانہ آتا ہے

mansoor afaq (1988

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے