
مژگاں تو کھول عشق کو سیلاب لے گیا
مژگاں تو کھول عشق کو سیلاب لے گیا
برمنگھم میں ہونے والی پانی کے موضوع پر ہونے والی کانفرنس میںوارک یونیورسٹی کی ایک پروفیسر نے کہا تھاپانی کا تنازعہ برصغیر میں ایٹمی جنگ کا سبب بن سکتا ہے ۔ابھی تکاگرچہ اس الزام کی حیثیت متعین نہیں ہو سکی کہ پاکستان میں آنے والے سیلابوںمیں بھارت کاکردار ہے یا نہیںکیونکہ موسمی تغیرات کو اکیسویں صدی کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا جارہا ہے ۔لیکن یہ بات طے ہے کہ بھارت نے جب دریاﺅں میں پانی چھوڑا اس کی اطلاع پاکستان کو نہیں دی یقینااس عمل کو بھارت کی طرف سے آبی جارحیت قرار دیا جاسکتا ہے مگر جہاں بارودی جارحیت شروع ہو وہاں آبی جارحیت کی کیا حیثیت ۔ اگرچہ بھارت میںپاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط نے عید کے موقع پر کہا ہے کہ پاک بھارت تعلقات میں بہتری آرہی ہے مگراس موضوع پرسی این این کی تازہ ترین رپورٹ جو ڈاکٹر اقتدار چیمہ کی پیش کردہ ہے۔اس کا مفہوم کچھ یوں ہے کہ نواز شریف اور نریندر مودی کی تجدیدِ محبت کی کوشش بے سود ثابت ہوئی ہے ۔
سیلاب کا پانی سب کچھ بہا کر لے گیا ہے ۔بی بی سی کے تجزیہ نگاروں کا بھی یہی کہنا ہے کہ نواز مودی ملاقات سے جو روشنی کی کرن اٹھی تھی وہ دم توڑ گئی ہے۔پاکستانی سرحدی علاقوں میں بھارتی اشتعال انگیزی کا معانئہ کرنے والی اقوام متحدہ کی ٹیم پر بھارتی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ” پاکستان پہلے بھی اس مبصر گروپ سے کئی مرتبہ احتجاج کر چکا ہے ۔دراصل اس مبصر گروپ کی کوئی حیثیت ہی نہیں۔ بھارت اسے تسلیم ہی نہیں کرتا ،شملہ معاہدہ یہ طے کرلیا گیا تھا کہ جنگ بندی میں فوجی مبصروں کو شامل نہیں کیا جائے گا۔“بلا اشتعال فائرنگ کو پاکستان نےاوفا سمجھوتے کی خلاف ورزی قراردیا ۔اوفا سمجھوتے کیا ہے اس کی خبرتو لوگوں کو اس وقت ہوئی جب علی گیلانی نے دہلی میں پاکستانی ہائی کمشنر کی عید ملن پارٹی میں شرکت سے انکار کر دیا۔میں بحیثیت قوم علی گیلانی سے شرمندہ ہوں۔نواز شریف کوبھی اس بات کا احساس ہوچکا ہے کہ امن کی جوآشا ان کے من میں مچلتی ہے ۔مودی سرکار کو اس سے کوئی دلچسپی نہیں۔منموہن سنگھ نے جب کہا تھا کہ بھارت کا مستقبل پاکستان کے ساتھ جڑا ہوا ہے تو تجزیہ نگاروں نے منموہن کی سیاست کے خاتمے کا اعلان کردیا تھا۔بھارت میں وہ طاقتیں بہت زیادہ مضبوط ہیں جوپاک بھارت کے درمیان امن کی آشا کوپنپتے نہیں دیکھ سکتیں۔
دراصل یہ وہ لوگ ہیں جو نظریاتی اعتبار سے” دھرتی پوجا“پر یقین رکھتے ہیںاورپاکستان اور بھارت کی ”تہذیبی اکائی “ کے قائل ہیں ان کے نزدیک دھرتی ہی تہذیب و ثقافت کی ماں ہوتی ہے۔جغرافیے ہی کلچر کو جنم دیتے ہیں۔اس لئے اس برصغیر کی تقسیم کو صرف دھرتی ماں کی تقسیم ہی نہیں تہذیب و ثقافت کی بھی بندر بانٹ ہے۔کئی پاکستانی دانشور بھی ایسے نظریات کے حامل ہیں ۔جنہوںنے اردو شاعری کے پس منظر کو زمین کے ساتھ جوڑنے کیلئے دراوڑی مادر سری معاشرت پر خاصا کام کیا۔حالانکہ یہ برہنہ سچ ہے کہ اردو شاعری کا دھرتی ماتا سے کوئی واسطہ نہیں۔ یہ خالصتاً اسلامی پس منظر رکھنے والی مردانہ معاشرہ کی ایک تخلیق ہے اور اس کے دامن سے اگرسے ولی ،میر ، غالب اور اقبال نکال دیا جائے تو باقی کیا رہ جاتا ہے۔ ان چار شاعروں کے پس منظر میں مسلمانوں کے نظریات،تہذیب و تمدن ، ثقافت اورمسلم اساطیر کے علاوہ کوئی شے ہے ہی نہیں۔
اسی سبب پاکستان اور بھارت کے درمیان معاملات اچھے ہوں یا برے ایک سرد جنگ مسلسل جاری چلی آرہی ہے۔بھارت نے ابھی دل سے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا اور شاید پاکستان کے کچھ مسلمان بھی یہی سمجھتے ہیں کہ بھارت وہ ملک ہے جس پر ہم نے ہزار سال حکومت کی ، اس پر حکومت کرنا اب بھی ہمارا حق ہے۔یہ وہ مسلمان ہیں جو قیام پاکستان کے صرف اس لئے مخالف تھے کہ ان کا پورے برصغیر پر دوبارہ حکمرانی کا خواب چکنا چور ہو رہا تھا۔دہلی کے لال قلعے پر پاکستان کا جھنڈا لہرانے والے اور دھرتی ماتا کی اکائی پر بضد رہنے والے دونوںتقریباً تقریباً ایک طرح کے لوگ ہیں ۔
یہ خاصی پرانی بات ہے ۔اس وقت میں لاہور رہا کرتا تھا ایک مرتبہ عطاال ´حق قاسمی ، شہزاد احمد، امجد اسلام امجد ، حسن رضوی اور میں کشمیری مجاہدین کے کیمپوں میں دورہ کرنے آزاد کشمیر گئے ۔کچھ خاص دوستوں نے اس خاص دورے کا اہتمام کیا تھا۔لاہور سے بائی ایئر اسلام آباد پہنچے ۔وہاں سے مظفر آباد ایک چھوٹے سے جہاز گئے جسے متفقہ طور پر فضائی لدھڑ قرار دیا گیا۔وہاں ہم مجاہدین کے کیمپوں میں گئے ۔مجاہدوں اور ان کے رہنماﺅں سے ملے۔واپسی پر کوئی شخص بھی ”فضائی لدھڑ“ پر بیٹھنے کےلئے تیار نہیں تھا ۔سو ہم بذریعہ روڈ واپس اسلام آباد آئے ۔جب ہم مظفر آباد سے نکلے تو کوہالہ روڈ پر ہر موڑ یہی نعرہ لکھا ہوا تھا ”جنگ رہے گی جنگ رہے گی ۔امریکہ کی بربادی تک“اس نعرے کو پڑھ کر شہزاد احمد نے حیرت سے کہا ”یہ نوجوان سری نگرتو پہنچ نہیں سکے ۔واشنگٹن کیسے جائیں گے ۔اٹھارہ گھنٹے کی ڈائریکٹ فلائٹ ہے۔راستے میں رک کر جہاز کوتیل بھی لینا پڑتا ہے ۔بہر کیف ۔ یہ بات طے ہے کہ جنگ کسی مسئلہ کا حل نہیں ۔اور پھر انڈیا اور پاکستان کی جنگ ( ایٹمی جنگ) کا تو تصور کرنے والوں کو بھی ذہنی مریض سمجھا جانا چاہئے مگر کیا کیا جائے کہ ان ذہنی مریضوں کی تعدادپاکستان سے بھارت میں زیادہ ہے۔
پھر اس وقت بھارت کےلئے پاک چین راہداری ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے ۔وہ اسے ہر حال سبوتاز کرنا چاہتا ہے۔اور اس سے سلسلے ہمارے کئی دوست ممالک بھی اس کے ہمقدم ہیں لطف کی بات یہ ہے کہ اس سلسلے میںبھارت کا ساتھ دینے والے کچھ لوگ پاکستان میں بھی موجود ہیں ۔اس معاہدہ کے بعد میں نے یہ جملہ اپنے کانوں سے سنا ہے کہ کہ پاکستان پہلے امریکہ کی کالونی تھا اب چین کی کالونی بننے والا ہے ۔میرے خیال میں تو بھارت کو ایک بین الاقوامی طاقت طور پر ابھرنے کےلئے پاکستان دوستی کرلینی چاہئے تھی اسی میں دونوں ممالک کا فائدہ تھا۔یہ کل کی ہی بات ہے جب بھارت نے مغرب کے کچھ مقتدر حلقوںکواس مقصدکےلئے استعمال کیا تھا ۔انہوںنے پاکستانی اشرافیہ کو اقتصادی فوائد بتا کربھارتی شرائط پر بھارت سے دوستی پرآمادہ کرنے کی کوشش کی تھی اور پاکستانی اشرافیہ نے چاہا بھی تھا مگرنریندر مودی وزیراعظم بن گئے۔
بہر حال ہم پاکستانیوں نے فوری طور پر خشک سالیوں اور سیلابوں کے درمیاں کوئی تباسب پیدا نہ کیا توپھریہی بہتے ہوئے مال مویشی ، گرتے ہوئے کچے مکان ،تباہ حال بستیاں ،اجڑی ہوئی فصلیں ۔پانی کے روندے ہوئے قصبے ہمارا مستقبل ہونگے۔پھر ہمیں کسی دشمن کی ضرورت نہیں ہوگی۔
منصور آٖفاق

