
رپورٹ کے منظر
رپورٹ کے منظر
منصورآفاق
ایم کیو ایم کے بارے میں بی بی سی کی رپورٹ کے حقائق سے ممکن ہے انکار ممکن نہ ہومگراس کی ٹائمنگ پر بات ضرور کی جاسکتی ہے۔اگرچہ بی بی سی کی عالمگیر ساکھ پر حرف گیری خاصا مشکل کام ہے اور میرا یہ مقصد بھی نہیں۔ مجھے تو بس یونہی یاد آگیا ہے کہ وہ 1965کی ایک توپوں کے گولوں سے کھڑکیوں کی طرح بجتی ہوئی ایک صبح تھی جب بی بی سی نے کہا تھا ’بھارتی فوجیں لاہور میں داخل ہو گئی ہیں،اور پاکستانیوں کی پُر اعتبار سماعتیں بے ا عتباری کی دراڑوںسے بھر گئی تھیں۔دراڑوں کے زخم بھر جانے کےلئے پچاس سال بہت ہوتے ہیںمگر زخموں کے داغ تو سروں کے ساتھ جایا کرتے ہیں۔اس لئے بہت سے پاکستانی ایم کیو ایم کے متعلق بی بی سی کی رپورٹ کو ابھی تک شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ ہم پاکستانیوں کو اس رپورٹ کے پس منظر پر ضرور غور کرنا چاہئے ۔میں خبر کی سچائی سے منحرف ہونے کی کوشش نہیں رہا۔
ابلاغ کا اتنے طاقتور ذرائع کے ہونٹوں سے غلط بیانی کے چشمے پھوٹ ہوتے تو تردید کےلئے برطانوی انصاف گاہوں کے دروازوں کی گھنٹیاں بج بج کر ٹوٹ چکی ہوتیں۔خاموشیوں نے چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھالیا ہوتا ۔میں تو صرف یہ دیکھنے کی کوشش کررہا ہوں کہ منظر کے پیچھے کیا ہے۔کہیں ایسا تو نہیں کہ شاٹ میں اتنی ہنرمندی سے کروما کیا گیا ہوکہ آنکھیں حقیقت کھوجنے کی سعادت سے محروم ہوگئی ہوں۔آئیے اس رپورٹ کا تجزیہ مختلف رنگوں کے عدسوں سے کرتے ہیں ۔لوگوں کا پہلا تاثر تو یہ تھا کہ بی بی سی کی یہ رپورٹ اتنی ایم کیو ایم کے خلاف نہیں جتنی بھارت کے خلاف ہے ۔یعنی اس رپورٹ سے بالکل واضح ہوگیا ہے کہ بھارت پاکستان میں مختلف تنظیموں کو فنڈ فرہم کرکے دہشت گرد ی کو فروغ دے رہاہے ۔ایک اور اہم بات یہ ہے کہ بی بی سی نے اپنی خبر کے اس رخ پر کم سے کم روشنی پڑنے دی ہے حالانکہ اصل اور بڑی خبر ہی یہی تھی کہ بھارت دہشت گردی کی ترویج میں ملوث ہے ۔کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے پیچھے خود”را“ کا ہاتھ ہے ۔
منی لاڈرنگ کے مقدمے میں الطاف حسین کے ساتھ ملوث بھارتی شہریوں نے بھارتی ایجنسیوں کے کہنے پرپولیس کے سامنے بھارت سے رقم لینے کے راز کو افشا کیامگر کیوں ؟ اس سے بھارت کو کیا فائدہ حاصل ہوا۔اس پر دو طرح کے تجزیے کئے گئے ۔ایک تو یہ کہ بھارت نے جتنی سرمایہ کاری ایم کیو ایم پر کی ہے اس سے توقع کے مطابق نتائج حاصل نہیں ہوسکے ۔اس لئے یہ سوچا گیا کہ کسی ایم کیو ایم کو پوری طرح آگ میں جھونک دیا جائے ۔مانا کہ وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے ٹکرا کر راکھ راکھ ہوجائے گی مگر کراچی اور حیدرآباد میں تودیر تک دھواں اٹھتا رہے گا۔دوسرا تجزیہ یہ ہے کہ الطاف حسین نے بھارت کی کوئی خاص بات ماننے سے انکار کردیا ہے۔
ایم کیو ایم کے ساتھ برطانیہ کا رویہ ہمیشہ مثبت رہا ہے ۔ برطانیہ نے کھلے دل سے ایم کیو ایم کے لوگوں کومظلوم سمجھ کر شہریت دی کہ پاکستان میں ان کا زندہ رہنا ممکن نہیں ۔اس لسٹ میں ا لطاف حسین کااپنا نام سرِ فہرست ہے ۔ ماضی میںبرطانوی نشریاتی داروں کی زیادہ تر بھی رپورٹیں ایم کیو ایم کے حق میں آتی رہیں ۔ دس سال پہلے بی بی سی کے مطابق فوجی آپریشنز میںایم کیو ایم کے سینکڑوں کارکن ہمیشہ کےلئے گم ہوگئے۔گمشدہ لوگوں کے بارے میں مغربی میڈیانے بہت خبریں دیں۔ مغربی میڈیا کا رویہ ہمیشہ ایم کیو ایم اور قوم پرست بلوچوں کے حق میں رہا ہے ۔سوال پیدا ہوتا ہے کہ اچانک یہ تبدیلی کیسے آئی ۔
مغربی میڈیا میں کام کرنے والے ایک اہم بھارتی مسلمان نے مجھ سے کہاتھا”یہ بات بالکل اسی طرح ہے جیسے وہ سامنے سورج کہ بلوچستان کے پہاڑوںمیں دہشت گردی کا ہدایت نامہ سمندروں کے اُس طرف سے آتی ہوئی ہواکی الیکٹرانک لہروں پر لکھا ہوتا ہے“۔بے شک مغربی میڈیا نے ہمیشہ بلو چستان میں دہشت گردی کی کاروائیوںکو ”بلوچ قوم پرستی کی تحریک “ قرار دیا اورکشمیری مجاہدوں دہشت گرد۔بلوچستان میں مسخ شدہ لاشوں پر پروگرام کئے مگربھارتی فوجیوں کی گولیوں سے چھلنی کشمیریوں کی لاشیںدیکھ کرآنکھوں پر ہاتھ رکھ لئے ۔ بلوچستان میں گم ہوجانے والی فہرستیں مرتب کیں مگربھارتی ایجنسیوں کے اغوا کردہ کشمیریوں کو کسی قطار میں نہ رکھا ۔ یہ تو یاد رکھاکہ فیڈرل انٹیلی جنس یونٹ نے اوٹھو قبیلے کے ایک خاندان کو ڈیڑھ سال تک کراچی لے جا کر غائب رکھا جس میں عورتیں اور شیر خوار بچے بھی شامل تھے لیکن بھارتی فوجیوں کے ہاتھوںکشمیر ی عورتوں کی عصمت دری کے مناظر فلموں کے سین قرار پائے۔بھٹکے ہوئے بلوچوں کےلئے عام معافی کو بھی زیادہ پسندیدگی سے نہیں دیکھا گیا۔ حالانکہ اسے کراچی اور بلوچستان کے حالات میں آتی ہوئی بہتری کو خوش آمدید کہنا چاہئے ۔اور ہاںاگر الطاف حسین نے کوئی کام برطانوی قانون کے خلاف کیا تھا تو اس کی انہیں سزا دینی چاہیے تھی۔ میڈیا کی وساطت سے اس کا رخ پاکستان کی طرف نہیں موڑنا چاہئے تھا ۔برطانیہ کو بھارت سے احتجاج کرنا چاہئے تھا صاف سی بات ہے کہ برطانوی قانون کے تحت برطانوی شہریوں کو خفیہ فنڈ ،اسلحہ اور دہشت گردی کی تربیت دینا ایک گھناونہ جرم ہے ۔اسے اِس جرم میں ملوث اپنے شہریوں کے خلاف بھی کاروائی کرنی چاہئے تھی مگر ایسا نہیں کیا گیامجھے لگتا ہے بی بی سی کی اِس رپورٹ کے پس ِ منظر میں کئی منظر ہیں ۔
mansoor afaq

