یہودیت کیا ہے

یہودیت

یہودیت

تورات کی تفاصیل کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام 2200 ؁ ق۔م میں قصبہ ’اور‘ میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد کا نام تارخؔ تھا آپ کی قوم بت پر ست تھی تارخؔ بت تراش تھا اور بت پر ستی میں زیادہ ذوق و شوق دکھانے کی وجہ سے اس کا لقب آذر پڑگیا تھا ۔ عبرانی زبان میں آزر کے معنی ہیں بتوں سے محبت کر نے والا کتاب پیدائش میں ہے کہ ’’ حضرت ابراہیم کا باپ خود آپنے بیٹوں ، پوتوں ، بہوئوں کو لے کر ما ر انؔ میں جابسا (کتاب پیدائش باب ۱۱) پھر خدانے حضرت ابراہیم ؑ کو ماران چھوڑ کر کنعان چلے جانے کی ترغیب دی اور کیا ’’ میں تجھے ایک بڑی قوم بنائو نگا تیرا نام سر فراز کر و نگا سو تو باعثِ برکت ہو جو تجھے مبار ک کہیں ان کو میںبر کت دونگا جو تجھ پر لعنت کرے اس پر لعنت کر ونگا اور زمین کے سب قبیلے تیرے وسیلے سے برکت پائیں گے ‘‘ (باب۔ ۱۲) تلمود میں ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ کی پیدائش کے وقت نجومیوں نے آسمان پر ایک خاص علامت دیکھی اور نمرود کو مشورہ دیا کہ تارخؔ کے ہاں جو بچہ پیدا ہو ا ہے اسے قتل کر دے چنانچہ نمرود حضرت ابراہیم ؑ کے قتل کے در پے ہوا مگر ’’تارخ‘‘ نے اپنے غلام کے بچے کو اپنا بچہ ظاہر کر کے اس کے حوالے کر دیا اور اپنا بچہ بچالیا پھر اپنی بیوی اور بچے کو ایک غار میں چھپادیا وہاں جب ابراہیم دس سال کا ہوگیا تو اسے حضرت نو ح ؑ کے پاس بھیج دیا جہاں وہ تقریباً چالیس سال تک حضرت نو حؑ اور انکے بیٹے ’’ سام ‘‘ کی تربیت میں رہا ۔ جب حضرت ابراہیم ؑ کی عمر پچاس برس ہوئی تو وہ حضرت نو ح ؑ کا گھر چھوڑ کر اپنے باپ کے گھر آگئے انکی قوم بارہ مہینوں سے منسوب بارہ بتوں کی پوجا کر تی تھی باپ بت ساز بھی تھا اور مہا پجاری بھی پہلے تو حضرت ابراہیم ؑ والد کو سمجھا تے رہے لیکن وہ باز نہ آیا تو بتوں کو توڑ دیا ’’ تارخ‘‘ نے اپنی مذہبی عقیدت سے مجبور ہو کر بیٹے کی شکایت ’’ نمرود‘‘ سے کی اور اسے سارا واقعہ بتایا کہ کس طرح اس نے یہ بچہ چھپا دیا تھا اور ’’ نمرود‘‘ کے حوالے غلام کا بچہ کیا تھا ’’ نمر ود ‘‘ نے حضرت ابراہیم ؑ کو بلا کر ان سے پوچھ گچھ کی انہوں نے سخت جواب دئیے ’’ نمرود ‘‘ نے انہیں جلِ بھیج دیا اور معاملہ کو نسل میں پیش کیا کو نسل کے ارکان نے مشورہ دیا کہ حضرت ابراہیم ؑ کو آگ میں ڈال دیا جائے ساتھ ہی انکے خسر ’’ ماران‘‘ کو بھی آگ میں پھینک دیا گیا کیونکہ ’’ تارخ‘‘ نے بتایا کہ اپنے بچے کو بچا کر غلام کا بچہ دے دینے کا مشورہ حاران ہی کا تھا ’’ حاران‘‘ تو جل کر راکھ ہوگیا لیکن لوگوں نے دیکھا کہ حضرت ابراہیم ؑ آگ میں لیاقیت چل رہے ہیں نمرود نے بھی اپنی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھا تو پکارا ٹھا ’’ اے آسمانی خدا کے بندے آگ سے نکل آاور میرے سامنے کھڑا ہوجا ‘‘ پھر نمرود آپ کا مققد ہوگیا حضرت ابراہیم ؑ دوسال تک وہاں رہے پھر ’’ نمرود ‘‘ نے نہایت ڈرائو نا خواب دیکھا نجو میوں نے ’’نمرود‘‘ کو مشورہ دیا کہ ابراہیم ؑ سلطنت کی بتاہی کا موجب بننے والا ہے اسے قتل کر و آپ نے بھاگ کر حضرت نوح ؑ کے ہاں پناہ لی اس دوران آپ کا باپ ’’ تارخ‘‘ چھپ کر آپ سے ملنے آیا کرتا تھا آخر باپ بیٹے کی یہ صلاح ٹھہری کہ ملک چھوڑ دیا جائے حضرت نو ح ؑ نے اور سامہ بن نوح نے بھی اس تجویز کو پسند کیا چنانچہ ’’ تارخ‘‘ اپنے بیٹے ابراہیم ؑ اپنے پوتے اور ابراہیم ؑ کے بھتیجے لوط اور بہو سارہ کو لے کر ’’ماران‘‘ چھوڑدیا (منتخبا ت تالموداز اِچ پولاز ۔ لندن 30 تا 40)اس خاندان نے فلسطین کے مغربی اطراف میں کنعا نیوں کے زیر ِ اقتدار علاقوں میں شکیم کے مقام پر رہائش اختیا ر کر لی ۔ تورات کے بیان کے مطابق وہاں سے ابراہیم ؑ اپنی بیوی سارہ کے ساتھ مصر جا پہنچے مصر یوں نے اور فر عون کے رئو ساء نے سارہ کے دیکھا تو اس کے حسن سے متاثر ہوئے ابراہیم ؑ نے کہ دیا کہ وہ عورت انکی بہن ہے اس پر فر عون نے سارہ کو اپنے قبضہ میں کر لیا اور ابراہیم ؑ کو بہت سے مویشی دئیے فرعون کے اس فعل پر خدا وند نے اس پر اور اسکے اہل خاندان پر سختیاں نازل کیں اور فرعون نے ابراہیم ؑ کو بلا کر کہا تم نے اپنی بیوی کو بہن بتا کر ٹھیک نہیں کیا میں تو اسے بیو ی بنا لینے پر آمادہ ہوگیا تھا اب اپنی بیوی کو لے اور چلا جا اس وقت حضرت ابراہیم ؑ کی عمر اسی سال اور حضرت سارہ کی عمر ستر سال تھی حضرت ابراہیم ؑ کے اس وقت دوسری بیوی کو پہلی بیوی کا فر مانبر دار ہو کر رہنا پڑتا تھا اس لئے شاہِ مصر نے کہا ’’ میری بیٹی کا اس گھر میں لونڈی بن کر رہنا دوسرے گھر میں ملکہ بن کر رہنے سے بہتر ہے ‘‘ حضر ت ابراہیم ؑ کی عمر چھیاسی برس تھی جب حضرت ہاجرہ کے بطن سے حضرت اسماعیل ؑ پیدا ہوئے تورات میں ہے کہ حضرت سار نے حضرت ہاجرہ ؓ کو معلوم جگر گوشہ اسمعٰیل کے ساتھ خانہ بدری کا حکم دیا اور حضرت ابواہیم ؑ انہیں ، وادیِء مقدس میں چھور آئے ۔ جب ابراہیم ؑ سو برس کے ہوئے تو خدانے آپ کو حضرت سارہ کے بطن سے دو سرا فرزند عطا کیا جس کا نام اسحاق ؑ رکھا گیا ۔ یہودی مو ر خین کی روایت اب بیت المقدس کہتے ہیں اپنی بیوی سارہ اور بیٹے اسحاق ؑ کو لے کر فلسطین میں اس مقام پر آباد ہوئے جسے ایک کا نام عیسو رکھا گیا اور دوسرے کا نام یعقوب حضرت اسحاق ؑ عیسو سے محبت کر تے تھے اور آپ کی بیوی رفقہ کوہی عبرانی میں اسرائیل کہا جاتا تھا اسرا کے معنی بندہ اور ایل کے معنی اللہ اس لئے اسرا ئیل کے معنی ہوئے اللہ کا بندہ بارہ بیٹے ہوئے جن سے آگے بارہ قبیلے ہوئے جنہیں بنی اسرائیل کہتے ہیں ۔ ’’ زبور ‘‘ کی روایت کے مطابق حضرت یعقوب ؑ نے تلوار اور کمان کی مدد سے ’’ کنعا ن‘‘ کا علاقہ فتح کیا ۔ حضرت یعقوب کے بیٹے حضرت یوسف ؑ نے خواب میں دیکھا کہ گیا رہ ستارے ، چاند اور سورج انہیں سجدہ کر رہے ہیں جس کی تعبیر یہ لی گئی کہ اسکے گیارہ بھائی ماں اور باپ اس کا پورا احترام کر یں گے تو رات میں ہے کہ ’’ حضرت یعقوب ؑ نے خواب سن کر بیٹے کو خوب ڈانٹا اور کہا ’ اچھا اب تو یہ خواب دیکھنے لگا ہے کہ میں اور تیری ماں اور تیرے بھائی سب تجھے سجدہ کر یں گے ‘‘ (تورات، کتاب پیدائشی باب ۳۷) بھائیوں نے حضرت یو سف ؑ کو کنوئیں میں پھینک دیا جہاں سے سو داگروں نے آپ کو نکلا اور مصر کے بازار میں بیچ دیا وہا ں اپنی پاک دامنی اور معاملہ فہمی اور تدبر کے باعث وہ بلند مر اتب ہوگئے اور آخر میں اقتدار کے مالک ہوئے بنی اسرائیل کو عزت اور احترام حاصل ہوا لیکن حضرت یو سف ؑ کی وفات کے بعد وہ اہلِ مصر کی اصنام پر ستی کا شکار ہو گئے اس حالت میں چار سو تیس بر س گزر ے انکی تعداد چھ لاکھ سے بھی کچھ زیادہ ہوگئی مصر کا تمدن ترقی یافتہ تھا ممی سازی تعمیر اہرام کا غذی صنعت اور تحریر و تعلیم کو انہوں نے کمال تک پہنچا دیا تھا مگر بنی اسرائیل اپنے آپ کو اس تمدن میں نہ ڈھال سکے حضرت یوسف ؑ کی وفات کے بعد ہی انہیں فراعنہ ئِ مصر کے دربار سے ہی نہیں شہر ی تمدن سے بھی نکال دیا گیااور وہ گڈرئیے بن کر زندگی بسر کر نے لگے لیکن ان کے ذہنوں میں یہ فخر و ناز اور احساس ِ بر تری موجود رہا کہ وہ پیغمبروں کی اولاد ہیں مصر یوں نے جب دیکھا کہ بنی اسرائیل کو تعداد بڑھتی جارہی ہے اوریہ نسلی تفاخر میں ڈوبے ہوئے ہیں اور اپنے آپ کو مصر ی تمدن میں اور مصر ی قومیت میں ڈھال لینے پر آماد ہ نہیں تو انہیں خطرہ پیدا ہو ا کہ کہیں یہ منظم بغاوت نہ کر دیں یا دشمنوں کے حملہ کی صورت میں بیر ونی حملہ آوروں کا ساتھ نہ دیں تو فرا عنہ ئِ مصر کو یہ مشورہ دیا گیا کہ ان کے بیٹے قتل کئے جائیں اور انکی عورتیں لو نڈویاں بنا کر مصر یوں میں بانٹ دی جائیں لیکن رئو سائے مصر نے اسکی مخالفت کی اور کہا کہ اگر ان کے بیٹے قتل کئے جانے لگے تو ہمیں غلاموں اور مزدوروں کی فوجیں کہاں سے ملینگی پس یہ فیصلہ ہوا کہ ایک سال چھوڑ کر قتل کئے جائیں کہتے ہیں کہ حضرت ہارون ؑ چھوڑے جانے والے سال میں پیدا ہوئے اور حضرت مو سٰی ؑ قتل کئے جانے والے سال میں پیدا ہوئے ۔ بعض روایات میں ہے کہ فر عونِ مصر نے خواب میں ایک شعلہ اٹھتا دیکھا جس نے مصر کو لیپٹ میں لیا اور قبطی یعنی مصر قوم کو ختم کر دیا کاہنوں نے تعبیر بتائی کہ سبطی قوم (یعنی نبی اسرائیل)میں ایک لڑکا پیدا ہوگا جو اسوقت کے فرعونِ مصر کے زوال کا باعث ہوگا اس لئے اس سال پیدا ہونے والے بچوں کو قتل کر دینے کا حکم دیا گیا اللہ نے حضرت موسٰیؑ کو بچانا تھا انکی والدہ نے انہیں صندوق میں رکھ کر دریا میں بہا دیا اور یہ صندوق فر عونِ وقت شہنشاہ رمیس ثانی کے شاہی محل کے غلاموں نے پکڑا اور فر عون کی بیوی آسیانے بچے کی پر ورش اپنے ذمہ لے لی چونکہ بچہ دریا سے حاصل کیا گیا تھا اس لئے مصری قبطی زبان میں اسے ’’ مُوشیئہ ‘‘ کہا گیا جس کے معنی ’’ طفل ِ دریا‘‘ یہی ’’ مو شیئہ ‘‘ ہے جو ’’ موسیٰ ‘‘ بن گیا ۔ موسٰی ؑ کی محل میں پر ورش و تر بیت ہوئی چونکہ اسے دودھ پلا نے والی اسکی اپنی ماں تھی اس لئے اس نے بچے پر تنہائی میں سارا راز کھول دیا ہوگا اس لئے موسٰی ؑ اپنے قومی بھائیوں کی ذلت پر اندر ہی اندر بہت کڑھتے تھے ایک روز ایک مصر کو غریب سبطی مزدور پر بیجا سختی کر تے ہوئے دیکھ کر برداشت نہ کر سکے اور غصہ میں اسے مکہ مارا جو اتفاق سے ایسی جگہ پر لگا کہ اسکی موت واقع ہوگئی شہر میں ہا ہا کار مچ گئی ایک سبطی کے لئے قبطی کا رما ر ا بہت بڑا جرم سمجھا گیا مو سٰی ؑ سینا ء میں روپوش ہوگئے اور ارض مدائن پہنچ گئے جہاں آپ کی شادی حضرت شعیب ؑ کی صاحبزادی سے ہوئی اور دس برس خدمت کرنا حق مہر ٹھہرا گیا رھویں برس اپنی بیوی کو لے کر مصر آرہے تھے کہ جب وادیئِ سینا میں پہنچے تو تاریک رات کی خنکی میں آگ کی ضرورت پیش آئی آپ نے طور پرشعلہ بھڑکتے دیکھا اور آگ لینے چلے گئے وہاں آپ کو نبوت سے سر فراز فر مایا گیا ۔ فرعون کی دربار میں اعلان ِ نبوت کیا اور طرح طرح کی آزمائشوں سے گزرنے کے بعد بنی اسرائیل کو مصر سے نکال لائے بنی اسرائیل نے بیابان شور سینا میں قدم رکھا تو گرمی اور پیاس کی شدت سے گھبرا گئے اللہ کے حکم سے حضرت موسٰیؑ نے عصا پہاڑ پر مارا تو بارہ چشمے پھوٹ بہے جن سے ہر قبیلہ الگ الگ پانی لے سکتا تھا کھانے کے لئے ان پر من وسلوٰی ناز ل ہوتا رہا ۔ پھر حضرت موسٰی ؑ کو اللہ نے کوہِ طور پر طلب کیا تاکہ آپ کو شریعت عطا کی جائے اپنی قوم سے تیس دن کی معیاد مقرر کر کے طور پر گئے وہاں دس دن اور قیام کر نا پڑا آپ کو تورات عطا کی گئی جس کی تفصیل یہ بتائی گئی ہے ۔ کہ ہر حکم پر ’’ الواح‘‘ پر لکھا ہوا تھا آپ ادھر طور پر تھے اور ادھر قوم نے گئو سالہ پر ستی شروع کر دی واپسی پریہ حال دیکھا تو اپنے بھائی ہارون پر ناراض ہوئے تورات کے مطابق گئوسالہ کی پر ستی کی سز اکے طور پر تین ہزار اسرائیلیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ۔ بنی اسرائیل کی توبہ قبول ہوئی انہوں نے عہد کیا کہ وہ یہواہ (خدا) کے احکام پر عمل کر یں گے زکوٰۃ دیں گے اور خدانے وعدہ سنایا کہ وہ انہیں ارضِ موعود میں پہنچائیگااور اپنی نعمتوں سے سر فراز فرمائیگا اس بیعت اور یقین دہانی کے بعد موسیٰ ؑ نے قبہ ئِ عبارت اور تابوت ِ شہادات بنانے کا حکم دیا گیا تو رات کے مطابق ایک چلتا پھرتا ہیل تیار کیا گیاجو یہواہ کا گھر تھا بارہ قبائل کے سردار اسے آگے آگے لے کر چلتے سر پر بادلوں کا سایہ ہوتا اور وہ تورات کی آیات گاتے ہوئے بڑھتے گئے حتیٰ کہ ارضِ کنعان کے قریب پہنچ گے یہاں صحرا ختم ہونے لگا اور سر سبز وادیاں سامنے آنے لگیں خود روانان ، ہر ے بھرے درخت، پھل پھول اور پانی کے ذخیرے دیکھ کر دومسرور شاداں ہونے لگے انہوں نے پہاڑیوں کے دامن میں خیمے نصب کئے اور ہر قبیلے سے ایک ایک نوجوان چُن کر ارضِ موعود میں موجود حکومتِ کفار کی جاسوسی کے لئے روانہ کیا چھ ہفتوں کے بعد یہ جاسوس پلٹے وہ یہ معلومات لے کر آئے کہ زمین بڑی زرخیز اور شاداب ہے پھل بافراط پائے جاتے ہیں زمین پر دودھ اور شہد کی نہریں بہتی ہیں لیکن وہاں کے باشندے جنات کی طرح قد آور اور توانا و مضبوط ہیں جن کا مقابلہ اسرائیل کے لئے ممکن نہیں شہر وں کے گرد بڑی بڑی سنگین فصیلیں ہیں جنہیں سر کرنا آسان نہیں بنی اسرائیل کی فطری بزدلی عود کرآئی وہ سمجھے تھے کہ ان کے خدانے ان سے جس سرزمین کا وعدہ کیا ہے وہ انہیں بغیر کوشش کے مل جائے گی وہ کہنے لگے اگر انہیں جنگ کرنا تھی اور لڑنا مر نا تھا تو ان مصریوں سے لڑتے جنہوں نے انکے بچے مائوں کی گود سے چھین چھین کر قتل کئے حضرت موسٰی ؑ نے انہیں بہتر ا سمجھا یا کہ ہمت سے کام لیں خدا کی بشارت ہے کہ فتح انہی کو حاصل ہو گی مگر مصریوں کی غلامی نے ان میں بزدلی اور کم ہمتی کو ٹ کوٹ کر بھری دی تھی اس لئے کہنے لگے اے موسٰی ؑ کیا تو ہمیں مصر سے اسی لئے نکال لایا تھا کہ ہم دشمنوں کے تیروں تلواروں کا نشانہ بن جائیں اور ہمارے بیوی بچوں کو اہلِ کنعان اپنا غلام بنا لیں ‘‘ رات بھر وہ اس بزدلی کے ہاتھوں لرزتے رہے صبح کعنائیوں نے حملہ کر دیا ۔ وہ مقابلہ کر نے کے بجائے بھاگ کھڑے ہوئے اور صحرا میں پناہ گزین ہوئے خدا نے موسٰی ؑ کی زبانی انہیں یہ سزا سنائی کہ اب وہ ارضِ مقدس و موعود چالیس سال تک ان پر حرام ٹھہرادی گئی اور یہی صحرانوردی انکا مقدر ہوگئی یہ چالیس سال حضرت موسٰی ؑ نے توبہ و استغفار میں گزارے بنی اسرئیل صحرائے سینا میں مارے مارے پھر رہے تھے اور حضرت مو سٰیؑ ان کے پیچھے پیچھے مغفرت کی دعائیں مانگتے پھر رہے تھے چالیس برس کے بعد یہ بزدل اوم مر اکپ گئی انکی نسلیں آزاد فضائوں میں جوان ہوتی تھیں حضرت مو سٰیؑ کا بھی وصال ہوگیا حضرت پوشعؑ انکے جانشین کے طور پر فوج کے کمانڈر ہوئے آ پ نے وادی اردن کے نچلے علاقوں کو زیر کیا اور بنی اسرائیل کے بارہ قبیلوں پر بانٹ دیا قبائل منظم نہ تھے اور ایک عرصہ کے بعد فلسطین بھی انکے قبضہ میں آگیا ان کے زیر نگیںآنے والے علاقوں میں حتی ، اموری ، کنعانی ، فر زی ، حوی ، یبوسی ، اور فلستنی وغیرہ کئی قومیں آباد تھیں یہ سب بت پر ست تھیں اور بنی اسرائیل نے غالب آکر اپنی تعلیمات بھلا دیں اور انہی لوگوں کو شرک کے رنگ میں رنگ جانے لگے اور اس نتیجے پر پہنچے کہ ہماری کمزوریوں کا سبب یہ ہے کہ ہمارا بادشاہ نہیں جو ہمیں منظم کر ے اور ایک طرح کے قوانین بنا کر تمام قبائل کو ان کا پابند کر ے انہوں نے سیموئیل بنی سے التجا کی کہ وہ خدا وند یہواہ سے کہے کہ وہ ہم پر ایک بادشاہ مقرر کر دے حضرت سیموئل نے شخصی بادشابت اور ڈاکئیٹر شپ کی خرابیوں سے انہیں خبر دار کیا اور کہا ۔ ’’ وہ تمہارے بیٹوں کو لے جائیگا اور انہیں اپنا غلام بنا لیگا اپنے ہاتھوں اور گھوڑوں کے لئے ان سے کام لیگا پھر اپنے رتھ کے آگے آگے انہیں دو ڑ ائیگا وہ انہیں ہزاری پلٹنوں اور پچاس پچاس کے دستوں پر سالار مقرر کر یگا انہیں اپنی زمینوں پر ہل چلانے اور اپنے کھیتوں کی کٹائی پر انہیں لگائیگا ان سے جنگیں لڑائے گا اور تمہاری بیٹیوں کو اپنے مطبخ میں رکھیگا کہ طرح طرح کے پکوان پکائیں اور وہ تمہارے کھیت تمہارے انگور کے باغ ، زتیون کے درخت تم سے چھین لیگا اور اپنے ملازموں میں بانٹ دیگا اور وہ تمہارے خادموں اور کام کر نے والی لڑکیوں اور بہادروں اور گدھوں کو زبردستی ہانک کر لے جائیگا اور تم ان کے چاکر بن کر رہو گے پھر تم اس دن کو رو ئو گے جس دن تم نے اسے بادشاہ چنا تھا اور بت تمہارا رب تمہاری فریاد نہیں سینگا لیکن لوگوں نے سیمو ئیل کی آواز پر کان نہ دھرے اور انہوں نے کیا ’ نہیں ہم بادشاہ مانگتے ہیں تاکہ ہم بھی دوسری قوموں کی طرح ہوجائیں تاکہ ہمارا بادشاہ بھی ہمارے ساتھ انصاف کرے اور ہمارا راہبر ہو ااور ہماری جنگیں لڑے ‘‘ (سیموئیل باب ۸… ۱۰ تا ۲۰)
ان کا پہلا بادشاہ سائول تھا جس ’’ جلیل ‘‘ کو اپنا صدر مقام بنایا سادہ زندگی کو اپنا شکار بنا یا ان کی جنگیں پوری بے جگری سے لڑتا رہا حضرت دائود ؑ کے خلاف قاتلانہ منصوبے بناتا رہا بالآخر فلستیوںکے ہاتھوں ماراگیا اسکی موت پر اس کا بیٹا اسبو شے (Isbosheth)بادشاہ بنا اسے بنی اسرائیل کے گیارہ قبیلوں نے تسلیم کر لیا ۔لیکن حضرت دائود اپنے قبیلے سمیت اسکے خلاف رہے ۔ انہوں نے بالآخر حضرت موسٰیؑ کے چار سو برس بعد بر وشلہ فتح کر لیا اسکے ساتھ ہی فرات سے بحیرہ احمر تک کا پورا علاقہ ان کے زیر نگیں آگیا ان کے وارث حضرت سلیمان ؑ ہوئے وہ بڑے جلیل لاقدر بادشاہ اور عظیم الشان پیغمبر تھے ہوا، پر ندے اور جنات تک ان کے غلام اور فرماں بردار تھے انہوں نے خدا وند خدا کا مقدس گھر تعمیر کر نے کا فیصلہ کیا خذانہ ئِ شاہی سے سونا ، چاندی ، پیتل ، لوہا ، لکٹری اور قیمتی پتھر عطا کئے گئے لوگوں سے بھی چندہ دینے کی اپیل کی گئی معبد کے لئے ایک پہاڑی مقام کا انتخاب ہوا اس کا نقشہ فینسی وضع پر تھا جسے مصری صناعون اور کاریگروں کی بہترین عمارات سے مستعار لیا گیا تھا اور اس میں منبت کا ری مر صع کام کے لئے اسیر یا اور بابل کے نمونوں کو سامنے رکھا گیا معبد کا دروازہ ایک سوا سی فٹ بلند تھا جس پر سونے کے پتر چڑھائے گئے تھے دیواریں چٹانوں کو کاٹ کر بنائی گئی تھیں اور اتنے بڑے یکساں جسامت کے پتھروں سے تعمیرکی گئی تھیں کہ انسانی معماروں کی کاریگری نہیں معلوم ہوتی تھیں کہتے ہیں اس کمال کے لئے جنات سے کام لیا گیا تھا اس ہیکل کا افتتاح کرتے ہوئے حضرت سلیمان نے یہ کلمہ ئِ مقدس ارشاد فرمایا تھا
’’ یہواہ کی بادشاہیت آسمانوں اور زمینوں میں ہے اور وہی خدا وند خدا ہے اس کے سوا اور کوئی نہیں ‘‘ (کتاب مقدس تورات) یہ بنی اسرائیل کے انتہائی عروج کا دور تھا لیکن حضرت سلیمان ؑ کے وصال کے بعد یہ عظیم الشان ریاست دو ٹکڑوں میں بٹ گئی تورات کے مطابق شمال میں دس قبیلوں کی ریاست اسرائیل اور جنوب میں یہود ا اور ابن یا مین دو قبیلوں کی ریاست ’’ یہودیہ‘‘ کے نام سے قائم ہوئی ، شمالی ریاست اسرائیل اسمارہ اور جلیل تک پھیلی ہوئی تھی اسکا ر ارا لحکومت سمارہ تھا جنوبی ریاست کا صدر مقام یر وشلیم ہی رہا پھر دونوں ریاستوں میں جنگ چھڑ گئی اب ادھر شام مشرقِ وسطیٰ کا مالک بن گیا تھا آہستہ آہستہ دونوں اسرائیلی ریاستیںاسکی با جگذار ہوگئیں ، پھر دونوں ریاستوں نے بغاوت کی شامی حکمران سینا شیرٹ نے ریاست اسرائیل کو زیر کیا اور اسرائیلیوں کو غلام بنایا پھر ملک بدر کر دیا پھر یہودیہ پر حملہ آور ہوا یہود بڑی بہادری سے لڑے لیکن شامی فوج انہیں کچلتے ہوئے یر وشلم کے در وازوں پر پہنچ گئی ’’ خداوند خدا ‘‘ نے یہود کی مدد کی حملہ آور فوجوں میں وبائیں پھیل گئیں اور انہوں نے واپسی کی راہ اختیار کر نے میں عافیت سمجھی ، پھر مصر اور بابل میں جنگ چھڑی یہود نے پہلے بابل کا ساتھ دیا جب بابل نے مصر کو کا ر چِش کے مقام پر بار بار تنہیہ کی لیکن وہ باز نہ آئے آخر بخت نصر نے یر وشلم پر دھا وا بول دیا اور اسے تباہ و برباد کر دیا کچھ یہودی مصر میں پناہ گزین ہوگئے لیکن اکثر غلام بنا کر بابل کے بازاروں میں فروخت ہوئے یہود یہ میں کتنی کے کاشتکاررہ گئے ۔ بابل میں ان پر بڑے مصائب نازل ہوتے رہیے ہر میاہ نبی کے آنسوئوں سے لکھی ہوئی تحریریں آج بھی پڑھنے والوں کو رُلادیتی ہیں ۔ بنی اسرائیل کے دس قبیلے تاریخ کے اوراق میں اور زمین کے رقبوں میں گم ہوگئے ۔ مؤرخین کی تحقیق کے مطابق یہ لوگ دجہ و فرات کے درمیان کو ہ قاف کے نواح میں اور بالخصوص برِ صغیر پاک و ہند، افغانستان ، جاپان ، روسی ترکستان اور کشمیر میں مختلف مذاہب اور مختلف قومہتوں کی صور ت میں بس گئے اور آج تک موجود ہیں فلسطین جسے یہودیوں نے اپنے لئے ارضِ مقدس قرار دے رکھا تھا نیل ، دجلہ اور فرات کے درمیان واقع تھا اگر یہود نے اسے دودھ اور شہید کی سرز زمین کہا تھا تو غلط نہیں کہا تھا یہاں بہار تو بہار خزاں بھی طرح طرح کے پھل پائے جاتے تھے بارش بہت ہوتی تھی اور بارشوں کی کثرت نے اس علاقے کے باسیوں کو دریائوں کی احتیاج سے بے نیاز کر رکھا تھا ۔ بارشوں سے انکے کنوئیں اور تالاب بھر جاتے تھے نہریں انہی تلابوں میں جمع کئے ہوئے پانی سے چلتی تھیں انہی نہروں کے کنارے یہودی تہذیب پر وان چڑھی گندم ، جو اور مکی کی کاشت ہوتی انگوروںکے باغات لگائے جاتے اور پروان چڑھائے جاتے زیتون ، کھجور اور انجیر کے جنڈپہاڑوں کی ڈھلانوں پر اپنے جوبن لٹاتے تھے لیکن مصر اورشام کے در میان ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ بڑی طاقتوں کا کھلونا بنا رہا جب بھی یہ بڑی طاقتیں آپس میں ٹکراتیں بے چارے یہود گُھن کی طرح پس جاتے اس طرح صدیوں محنت مشقت سے آباد کئے ہوئے علاقے ویران ہونے لگتے پھر یہود نے کاشتکاری کی بجائے چوپانی پیشہ اپنا لیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اونٹوں اور بھیڑ بکریوں کے گلوں نے پہاڑوں اور میدانوں کی سر سبزی کو چاٹ لیا اور سر سبز میدان صحرائوں میں بدلنے لگے پھر باہمی عدم اتحاد ، آپس ی چفلشی اور بیرونی حملہ آوروں کی تاخت و تاراج نے اس قوم کو بر باد کر دیا ۷۰؁ عیسوی میں بے انتہا قتل و غارت کا شکار ہونے کے بعد انہیں جلا وطن ہونا پڑا لیکن جیسے ان کے دل و دماغ و ہیں رہ گئے وہ دنیا بھر میں تتر بتر ہوگئے لیکن جہاں بھی گئے اپنی انفر ادیت قائم رکھنے کی جدوجہد کرتے رہے یہ دنیا کے لئے انتہائی خسیس اور کنجوس تھے لیکن اپنی قوم و نسل کے لوگوں کے لئے بے انتہافیاض ، ایک مسافر یہودی کے لئے کسی دوسرے مقیم یہودی کا گھر اپنے گھر سے بھی زیادہ اپنایت دیتا رہا ۔ بیسویں صدی میں جب یہود کے ارضِ مقدس لوٹنے کے امکانات روشن ہونے لگے تو دینا یہ دیکھ کر حیرت زدہ ہوگئی کہ دو ہزار سال سے زیادہ مدت میں انہیں ان ملکوں میں خم نہ کر سکی جہاں وہ صدیوں مکین رہے دنیا کے ہر خطہ کے باشندے ہوتے ہوئے بھی وہ فلسطینی الا صل تھے ہر ملک میں ان کے آبائی قبرستان ، جائیدادیں ، مال و دولت سمیٹنے کے لئے پھیلے ہوئے کا رو بار ، لسانی اور علاقائی تعلقات ، قو میتی عصبیتیں کوئی چیز بھی انہیں اسرائیل کی طرف لوٹ آنے سے نہ روک سکی یہود کا ایمان ہے کہ طور پر یہواہ (خدا) نے حضرت موسٰی ؑ کو دوقسم کے قوانین سے نواز ایک وہ وحی تھی جو پتھر کی تختیوں پر لکھی ہوئی تھی اسے ’’ تورہ شکستب ‘‘ یعنی لکھی ہوتی یا مکتوب وحی کہتے ہیں بعد میں ان تختیوں کو حرف بحرف تورہ میں نقل کر دیا گیا دوسرے وحی جو اسی مکتوبی وحی کی طرح اہمیت کی حامل تھی لیکن صرف حضرت موسٰی ؑ نے ان قوانین کا درس حضرت ہارون ؑ کو دیا انہوں نے حضرت یوشع ؑ کو دیا انہوں نے سر دار انِ بنی اسرائیل کو سکھایا ڈھائی سو برس تک یہ وحی ان لوگوں کی اولادوں نے محفوظ رکھی شمعون عامل اس گروہ کا آخری فرد تھا ۔ شمعون سے جماعت سفریم (کا تبان وحی) نے ان سے گروہِ تنائم (علمائ) نے سیکھا ان سے احبارو ابیون نے سیکھا یہ سلسلہ ربی بلیل اور ربی شاعی تک پہنچا پھر ان قوانین وتعلیمات کو حفظ کیا جاتا رہا پھر انہیں کتابی صورت میں مرتب کیا گیا اس مجموعہ کو ’’ مشنا ء ‘‘ کہا گیا ابتک ۳۹ پیشوں کا احاطہ کیا گیا تھا اور انکے متعلق مذہبی رہنمائی کے قوانین و احکام درج ہوتے تھے پھر بہت سے نئے پیشے وجود میں آئے تو نئی رہنمائی اور نئے احکام مرتب ہوئے اس مجموعے کو ’’حمرا‘‘ کانام دیا گیا ۔ ’’ مشنا ء ‘‘ اور ’’ جمرا ‘‘ دونوں کو ملاکر ’’ تلمود ‘‘ کہتے ہیں ۔ وہ الہامی کتب جن کی بنیاد پر مذہب یہود قائم ہے ان کی تفصیل کچھ اس طرح ہے علمائے یہود نے عہد ِ عتیق میں ۲۴ کتابوں کے تین سلسلے شمار کئے ہیں ۔
۱۔ سلسلہ ئِ اول ۔ تورہ قانون ، اسفارِ خمسہ یعنی پانچ کتابوں پر مشتمل ہے ۔
۱۔ تکوین یا پیدائش Genes is
۲۔ خروج Exodus
۳۔ احبار (Dentronomic Code)
۴۔ اعداد Numbers
۵۔ توریت مشنیٰ Prisety code
۲۔ سلسلہ دوم
بنیم ۔ جن میں یوشع قضاۃ، ممویل اول و دوم ، ملکوک اول و دوم ، یشعیاہ ، حزقیل اور بارہ دوسرے چھوٹے پیغمبر شامل ہیں ۔
۳۔ سلسلہ سوم
کتبیم ۔ اس میں زبور ، مثال سلیمان ، ایوب ، رعوت ، نوحہئِ یر میاہ، واعظ اسینر ، دانیال ، عزرا لخمیاہ ، ایام اول و دوم شامل ہیں ۔
عہد عتیق Old Testament میں چند اور کتا بوں کے بھی حوالے ہیں گھر کتاب معدوم ہیں

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے