وجودیت کیا ہے

وجودیت

وجودیت

عام طور پر اس آدھے سچ کو قبول کیا گیا ہے کہ وجود یت روایتی سطح پر اس مغربی سلسلہ ہائے فکر کا ردعمل ہے جس کی بنیاد تعقل (Rationality)پر رکھی گئی تھی ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ وجود ی فلسفہ Existentialist Philosophy ،ڈیکارٹ، کانٹ ،ہیگل اور مارکس کے پیش کردہ منطقی مسائل کی پیش رفت ہے لیکن ان دوانتہائی مفرو ضات کے درمیان ایک تیسراسچ بھی اپنی جگہ چاہتا ہے ۔کہا جاسکتا ہے کہ وجودیت نہ تو صرف فلسفہ ہے نہ فلسفیانہ ردعمل (Revolt )۔بلکہ یہ اس کا ئنات میں انسان کی موجود گی کا ایک اعلان ہے ۔ یہ فلسفیانہ سطح پر اس فردکے شعور Self Conciouness کانوحہ ہے جو مارسل Marcel کی ٹوٹی پھوٹی دنیا ڈی بوار De-Beauvior کی کائنات لایعنی Ambiguous World مارلوپونٹی کی دنیائے منتشر میںاپنی جگہ ڈھوند تا پھر تا ہے کیونکہ اسے ہائیڈ گر Hedegger کے بیان کے مطابق اس کائنات میںپھینکاگیا ہے اور اب اس پر یہ سزاعائد ہے کہ وہ اسی حالت میں زندہ رہے ۔ سارتر کے فلسفہ ء آزادی کے آزاد ارادے Fee-will کے ساتھ جس کا انجام کا میو Camus کے نزدیک ماور ائے گماں ہے یہ وہ رویہ ہے جو انسانی دنیا میں عدم فیصلگی کی نشان دہی کرتا ہے اور انسان موجود و لا مو جود کے گرد اب میں چکر کا ٹتا رہا ہے ۔ کبھی وہ وجہ تلاش کرتا ہے ۔ چکر کاٹتارہا ہے ۔کبھی وہ وجہ تلاش کرتا ہے ۔ کبھی خدا کو آواز دیتا ہے ۔ کبھی حاکمیت کے خواب دیکھتا ہے کبھی تاریخ کے اوراق الٹتا ہے کبھی کارہائے نمایاں کا انتخاب کرتا ہے کبھی روایت سے رشتہ جوڑتا ہے اس کے علاوہ بھی اس کے خیالات کا اک جہان دیگر ہمیشہ ا س کا منتظر رہتا ہے تاکہ وہ اپنی ذات کے اثبات کی جڑ تلاش کر سکے ۔ وہ ہمیشہ اسی مخمصے میں گھر ا رہتا ہے کہ وہ کون اسے اس دنیا میں کون لایا ہے اس کا خالق اس کی نظر وں سے اوجھل کیوں ہے اسے اس دنیا میں لانے سے پہلے اس سے مشورہ کیوں نہیں لیا گیا ۔ جب اسے موت ہی سے ہم کنا ر ہونا ہے توپھر زندگی کا جواز کیا ہے ؟ اس کے ذاتی فیصلوں کی حیثیت کیا ہے ؟ اس کامقصد کیا ہے ؟ اس کی قسمت کیا ہے ؟ انسان اور فطرت کی مشترک قدریں کیا ہیں؟ حرکت توانائی اشیا اعمال اور افکار کے تضادات کیاہیں؟ اس کثیر المقاصد دنیا میں تنہا انسان کا وجود کیا ہے ؟ یہ تنہا وجود بہ طور فرد کن اقدار کا حامل ہے ؟ ا س کی ذاتی انتخاب ذاتی حزن ، ذاتی اخلاق ذاتی روابط ، ذاتی نجات کیا درجہ رکھتی ہیں؟ ان سوالات کے دائروں میں گھومتا ہو انسان اپنا مرکز تلاش کرتا ہے تو اسے اندازہ ہوتا ہے کہ کسی اصلی صداقت کا تعین اس وقت تک مکمل نہیں جب تک وہ اپنی حیاتیاتی قدریں متعین نہیں کرتا وجود جو ہر مقدم سے آدمی کے وجود کی موجودگی ہی زندگی اور اس کے شعبہ ہائے فکر و نظر کا درجہ متعین کرتی ہے۔ انسانی وجود کے معنی اور اہمیت کی بنیا دی دریافت وجودیت کا جوہر ہے جس کا سلسلہ آزادی فکر و نظر کی نظر یاتی کوششوں سے جوڑا جا سکتا ہے ۔ ایچ جے بلیکہم H.J. Blackham اپنی کتاب چھ وجودی فلسفی Six Existentialist thinkers میں لکھتا ہے۔ وجودیت ستر ہویں صدی کے صوفی شعرا کی شاعرانہ تخلیقات کی طرح تضادات اور جبر کا نتیجہ ء فکر نہیں جو اس خدا کے لیے ماتم بر پا کر رہے تھے جو پہلے سے ہی ان کا ملجاو ماوی ٰ تھا بل کہ اسے پال کیلی کا جدید رویہ قرار دے سکتے ہیں ۔ ایک ایسا ماہرانہ تجربہ جس کے انتظامی امور کی کئی جہتیں ہیں جنہیں عدم تسلسل کے باوجود ایک ظاہری ساخت عطا کی گئی ہے ۔ جس کی شروعات آزادانہ انتخاب کے قانون سے ہوئی ہے اور جسے روایتی جذب کے بغیر ایک تجرباتی عنصر میں ڈھالا گیا ہے جو اب ایک علامت ہے بل کہ حیرت انگیزدریافت جو اپنی موجودگی سے متاثر کرتی ہے ۔ وجودیت دوسرے نظریہ ہائے فکر کی طرح اپنا ایک سائنسی نظام رکھتی ہے جس کا کام ہے تہذیبی رویوں کو ان کی مخصوص حالتوں میں ایک مخصوص شکل دینا اور پھر اسی مخصوص شکل کے طفیل اپنا مدعابیان کرنا بہ ظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ وجودیت ہر قسم کے تجریدی منطقی اور سائنسی فلسفے کی نفی ہے وہ عقل کی مطلقیت سے انکاری ہے تاہم اس کا تقاضا ہے کہ فلسفے کو فرد کی زندگی تجربے اور اس تاریخی صورت حال سے مر بو ط ہونا چاہیے جس میںفرد خود کو پا تا ہے۔ کیوں کہ فلسفہ ظن و تخمین کا کھیل نہیں بل کہ ایک طر ز حیا ت ہے یہ سب کچھ لفظ وجود میں مضمر ہے وجودی اعلان کرتا ہے کہ وہ معروضی دنیا کی بجائے صرف اپنے تجربے کو حقیقی جانتا ہے اس کے نزدیک ذاتی ہی حقیقی ہے وہ اپنی بے مثال انفرادیت پر اصرار کرتے ہوئے فطرت اور طبعی دنیا کی عمومی خصوصیات کے مقابلے میں اپنے وجود کو اساسی حیثیت دیتا ہے ۔ رابرٹ سی سولومان اپنی کتاب ہیگل سے وجودیت تک ۔ میںلکھتا ہے۔ یہاں فرد ایک نتیجے کے طور پر ظاہر ہو تا ہے بل کہ اسے ایک قانون سمجھنا چاہیے ۔ انسانی زندگی بے شک ایک منافقانہ طرز عمل کی زندگی ہے یہاں انسان نے نیکی و بدی کی آویزش کے باعث اپنے لئے کئی لاحقے تراشے ہیں یہ لاحقے اپنی نگاہ میں اس کے درجات بلند کر تے ہیں ۔ کبھی وہ مادر ائی انسان ہیر و بنتا ہے۔ کبھی پیغمبر کبھی انقلابی کبھی یو گی کبھی کافر اور کبھی مسخرا یہیں کہیں من و تو کی تکرار اور میں سے ہم بننے کی تمنا کے تعاقب کا فریضہ انجام دے رہی ہے ۔یہ من و تو یہ میں اور ہم حکام کا فریجہ انجام دے رہی ہے۔ یہ من و تو یہ میں اور ہم حکام بالا ، پبلک عوام الناس ، بور ژوائیت پر و لتار یت ، ظالم ، مظلوم آجر و اجیر کے طبقوں میں بٹے ہوئے ہیں جو ں جو ں کائنات کا دائرہ تنگ ہوتا ہے ، فرد کی اجتماعی طاقتیں یک جاہو کر مزاحمت میں تبدیل ہوتی جا تی ہے تب فرد کے اندر احساس ذمہ داری اور جواب دہی کے جذبات جاگتے ہیں۔ وہ دنیا کو زیادہ سے زیادہ طاقت در دکھائی دینا چاہتا ہے وہ سمجھتا ہے وہ لوگوں میں رہ کر ان سے مادر ا ہوگیا ہے اور اس مادر ایت سے اسے یگا نگت کا وہ درجہ میسر آیا ہے جس پر خدا متمکن ہے۔ وجودی طرز فکر رکھنے والے یگانگت کے اس مرحلے پر اپنے آپ کو بہت شاہستہ اورذی ہوش سمجھتے ہیں کیر یگارڈکے طنزیہ اسلوب میں نطشے کے زرتشت کی تنہائی اور دیوانہ فرزانگی میں دوستوسکی کے تہ خانے کے آدمی میں سارتر کے ناول ناسیا کی مندرج منافقت میں کامیو کی سس فس کی کہانی یگانگی یگا نگت اور ماورایت کی تمثیلیں دیکھی جا سکتی ہیں۔ زیادہ تر وجود یوں کا خیا ل ہے کہ ہر انسانی عمل اور رویہ دراصل ایک سلسلہ ء انتخاب ہے ۔دوستوسکی کہتا ہے اپنی ذات کا شعور ایک طرح کی بیماری ہے نطشے سے شعوربد کا نام دیتا ہے ڈیکارت کانٹ ہیگل اس شعور ذات کو کائنات کی بنیادی سچائی اور آگہی قرار دیتے ہیں۔ لیکن یہ شعور ذات آگہی حاصل کرلے وہ وقت وہ تاریخ زندگی اور تنفس کے تانے بانے کا مقر وض ہے کیوں کہ کائنات کاپہیہ الٹا نہیں چل سکتا ۔ اب کوئی اپنے ہونے کی نفی کرے ، اپنے آپ کو گھسیٹا پھرے زمین پر رینگے یا خود کشی کے بارے میں سوچے اسے اپنے ساتھ ساتھ کائنات کی موجودگی کا اعتراف بھی کرنا ہی ہے ۔ یہ اعتراف بسرل کے الفاط میںکسی دوسری شے کی آگہی کا شعور ہے ۔ کر یگارڈ مارسل بوبر اور حبیسپر ز اسے خدا کا شعور کہتے ہیں جب کہ ہائیڈ یگر سرتر کامیو مار لوپانٹی سیمون ڈی بوائر کے ہاں یہ دنیا کا شعور ہے یہ جذباتی شعور سد ھارت کا نرو ان ہے ہرمن ہے کا جہاں گم گشتہ ہے لیکن سدھارت اور ہی سے کی ذاتی گم شدگی ہماری وجودیت کا زیادہ ساتھ نہیں دے سکتی کیوں کہ وجودیت کا رشتہ بنی نوع انسان کے ساتھ مشروط ہے جیسا کہ کامیو کا خیال ہے وجودیت ہماری ضرورت کے ساتھ بندھی ہے سارتر کے بیشتر کردار ایک ایسے جنم میں ہیں جہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں کی شرط انسانی زندگی کے پیش منظر کو مزید تکلیف دہ کرتی ہے ۔ شعور ذات کی یخ بستگی یہ شر مندگی اور کش مکش کے باوجود انسان کو زندہ رہنے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا ہے۔ کر یگارڈ زندگی کو ایک ایسی فلم قرار دیتا ہے جس کے ناظر ین پر فرض ہے کہ وہ اسے دیکھیں اور پھر اس کی محرومیوں پر آنسو بہاتے ہوئے مسرت محسوس کریں۔ زندگی کے اس ڈرامے کا انجام کیا ہے سوائے اس کے کہ ہر فرد اپنے آپ کو ڈرامے کا ہیر و سمجھے جو بیک وقت دانائے راز بھی ہے اور مسخرہ بھی بل کہ ایک جہاں معنی ۔ شعور ذات جہاں مادرایت کی علامت ہے وہیں شرمندگی اور احساس گناہ کی بھی اس کے دوہرے روپ نے بہت سے وجود یوں کو پریشان کیا ہے ۔ اس لیے جدید وجودی اسے صورت حال کے شعور کانام دیتے ہیں کیوں کہ انسانی زندگی بہت سے مفر وضات خدشات اور وسوسوں پر اپنا مدار رکھتی ہے ا س لیے صورت حال کی تر جیحات بھی بد لتی رہتی ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ کوئی شخص ذاتی خوشی ذاتی مسرت ذاتی دلچسپی اور ذاتی اخلاقیات کے کیا درجات مقرر کرتا ہے اور اس میں دوسرے کی موجودگی کو کتنی اہمیت دیتا ہے ۔ اور اس میں دوسرے کی موجود گی کو کتنی اہمیت دیتا ہے ۔ ذاتی ظن و تخمین کے اس عمل میں مذہبی راستے بہت حد تک مسدود ہو چکے ہیں یہ ایک طرز کی فلسفیانہ خود کشی ہے یا شاید کا فکا کے ناول ٹرائل کا منفرد جھوٹ نطشے کا کہنا ہے یہ وہ ہے جو تاریخ میں درج نہیں، تلاش کیا جا سکتا ہے ۔ گویا اشیا کی موجودگی سے زیادہ اہم وہ سلسلہ جستجو ہے جو انسان کو زندہ رکھتا ہے ۔ اس لحاظ سے کہا جا سکتا ہے ۔ کہ وجودیت کوئی محلول نہیں جسے بوتل میں بند کر کے اس پر کوئی لیبل لگا دیا جائے بل کہ یہ تاثرات و داقعات کا ایک ایسا سلسلہ ہے جس کی ہر لمحہ صورت بدلتی جاتی ہے ۔ کر یگارڈ اسے حیات سرمدی کی آرزو کہتا ہے ہائیڈ یگر اسے خدا کے انتظار سے مو سوم کرتا ہے ۔ سارتر اسے دنیا میںپھینکے جانے کے لغویت قرار دیتا ہے جس کی ناگہانیت گھن ،متلی کر اہت اور بد بو کا شعور پیدا کرتی ہے یہ دوسروں کی آنکھوں سے چھلکنے والی چھبن ہے جو حزن یا س ، یژ مر دگی ناامیدی لا تعلقی اور تاسف کی کیفیات پیدا کرتی ہے ۔ حبیسپر ز اس شعور کو تجدیدی مقامات تک لے جانے والا مخفی اشارہ سمجھتا ہے جس کا تال بہ جز ما یوسی اور ناکامی کچھ نہیں ۔ مارسل کے ہاں یہ شعور ابد یت کا مستقل طواف ہے جس کی انتہا موت ہے ۔ یورپ کی فکری تاریخ میں فلسفہ ء وجودیت کو امتیازی مقام جنگ عظیم اول کے بعد ہی حاصل ہو ا۔ عقل پر ستی کے شدید رجحان اور سائنس پر بے پناہ اعتماد نے روایتی فکر کی ایک خاص درجہ بندی کر رکھی تھی ، جس میں انسان کی بجائے اشیا کی ضرورت پر زور دیا جارہا تھا ،چنانچہ صنعتی معاشرے کی عدم شخصیتی کو جنم دینے والی قوتوں کے خلاف ایک فکری بغاوت کی ضرورت سمجھی گئی وجودیوں نے اس کی آزادی سلب کر رہے ہیں۔ مروجہ نظام فرد کی انفرادیت کے لیے ستم قاتل ہے یہ فرد کو ایک کل پر زے کے طور پر استعمال کررہا ہے ۔ جس کی وجہ سے معاشرے میںتنہائی اور بیگانگی ۔ کا عمل د خل بڑھ رہا ہے ۔ انسان مذہب سے بیگانہ ہو گیا ہے اس کے چاروں طرف تاریکی ہے اخلاقیات تباہ ہوچکی ہے خدا محض ایک طفل تسلی ہے ، دنیا کا شکنجہ روزبہ روز تنگ ہوتاجارہا ہے ۔ چنا نچہ ایک رد عمل شروع ہوا سوال اٹھایا جا سکتا ہے ۔ کہ یہ ردعمل کس کے خلاف تھا ؟ یقینا اس فلسفیا نہ طرز زندگی کے خلاف جہا ں فلسفہ ارضی رشتے تور کر آسمانوں پرجلوہ فگن ہو گیا تھا ۔ یہ فلسفہ فرد واحد اس کی اہمیت یا اس کے مسائل کے بارے میں کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ وجود یت کے پیر وکاروں نے فرد واحد اور اس کے گو نا گو ں مسائل کو اپنی توجہ کا مر کز بنایا چنا نچہ عوامی سطح پر اس فلسفے کو مقبولیت کا درجہ حاصل ہوا ۔ وجود یوں نے اپنے افکار کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے فلسفیانہ مباحث سے زیادہ شاعری فکشن تنقید ریڈیو ٹیلی ویژن اور انٹر ویو ز جیسے وسیلوں سے کام لیا چنا نچہ یہ فلسفہ ایک تحریک کی صورت اختیار کر گیا بل کہ فیشن کے طور پر وجود ی کی اصطلاح استعمال ہونے لگی ۔ سارتر کے مطابق اکثر لوگ جو اس لفظ وجودیت کا استعمال کرنے کے عادی ہیں اس کا مطلب پوچھنے پر بغلیں جانے لگتے ہیں۔ چوں کہ اس لفظ کا استعمال اب فیش بن گیا ہے اس لیے لوگ بڑی مسرت سے اعلان کرتے ہیں کہ فلاں فلاں موسیقار اردو مصور وجودی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس لفظ کا استعمال اتنی بے احتیاطی سے اتنی ساری چیزوں کے لیے ہوا ہے یہ مہمل ہو کر رہ گیا ہے ۔ نیو انسا ئیکلو پیڈیا بر ٹینکا جلد سات ص ۷۸ پر درج ہے ۔ مختلف اور متخالف اطراف میںترقی کے بعد وجودیت نے اپنی فلسفیانہ اساس بنا لی ہے اور عصر تہذیب کو اپنے طرز فکر کے ہتھیاروںو تکنیکی ہتھکینڈوں سے ایسی بہت سی اصطلاحات کے معنی سمجھائے ہیں وہ ابھی تک واضح نہیں تھیں۔ مثال کے طور پر تشکیک موقع حالت انتخاب آزادی اور منصوبہ بے شک یہ اصطلاحات وجودیت کے مفہوم کو واضح کرتی ہیں۔ مشرقی فلسفیانہ تحقیقی اخلاقیات جمالیات تعلیم اور سیایت کو سمجھنے کے لیے اب امکان بجائے خود ایک لفظی فلسفہ ہے ۔ یہ فلسفہ آزادی کو منصوبہ بندی کی اجازت کے ساتھ ساتھ دنیاوی خطرات کو ہوش مندی اور اعتماد سے نپٹنے کی دعوت دیتا ہے ۔ سارتر کہتا ہے ۔ :
سوائے عمل کے اور کسی میں حقیقت نہیں آدمی اپنے اعمال کے علاوہ کچھ نہیں اس کے اعمال کی مجموعی ہیئت ہی اس کی زندگی ہے اور وہ وہی کچھ ہے ،جیسی اس کی زندگی ہے ۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے