انسان کی بے شمار خواہشات ہیں ، جو دنیا میں پیدا ہوتے ہی اس کے ساتھ ہولیتی ہیں ، اور آخری دم تک اس کا پیچھا نہیں چھوڑتیں ۔ قدیم زمانہ میں یہ ضرورتین بڑی سادہ اور مختصر تھیں لیکن تہذیب و تمدن کی ترقی کے ساتھ ساتھ ، ان میں اضابہ اور نیر نگی پیدا ہوتی گئی ہے ۔ بنیادی طور پر تو ہمیں بھوک مٹانے کے لئے غذا تن ڈھانپنے کے لئے کپڑ ا رہنے کے لئے مکان علاج کے لئے دو ا اور تعلم کے لئے کتاب درکار ہے لیکن ان کے علاوہ انسان کو بہت سی چیزوں کی بھی ضرورت ہے جو آرام و آسائش بہم پہنچائیں اور تفریح و مسرت کا سامان مہیا کریں ، مثلا ٹیلی فون ، فریج ائیر کنڈیشنر، ٹیلی وژن موٹر کار وغیرہ ۔ چنانچہ ان حاجات کو پورا کر نے کے لئے انسان محنت کرتا ہے ۔ اور دولت کماتاہے ۔اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ کسان کھیتوں میں مزدور کا ر خانوں میں تاجر دکانوں میں اور کلر ک دفتروں میں سرگرم عمل ہیں ۔ ڈاکٹر انجینئر ، پروفیسر وکیل ڈرائیور دھوبی ، نائی غرض ہر شخص اپنا اپنا کام کر رہا ہے تاکہ آمدنی حاصل کر کے ضرورت کی چیزیں خرید سکے ۔ انسان کی اسی جدو جہد کا تعلق معاشیا ت ہے ۔ دراصل انسان کی خواہشات بے شما ر ہین لیکن انہیں پورا کرنے کے لئے اس کے ذرائع مثلا آمدنی دولت چیز یں وغیرہ تھوڑی ہیں لہٰذا اسے یہ مسئلہ درپیش ہوتا ہے ۔ کہ اپنی کثیر خواہشات کو قلیل ذرائع سے کس طرح پورا کر ے ۔ گویا اسے خواہشات میں انتخاب اور ذرائع میں کفایت کرنا پڑتی ہے ۔ انسانی طرز عمل کے اسی پہلو کے مطالعہ کانام معاشیات ہے ۔ حاجات کی کثر ت اور وسائل کی قلت کے باعث ہی دنیا کی بیشتر آبادی کئی مسائل سے دوچار ہے مثلا غربت جہالت ناخواندگی بیماری ، بے روزگاری مہنگائی اور افراط زر وغیرہ (یعنی اسی صورت جب ملک میں چیزوں کی پیداوار اور رسد)تو تھوڑی ہو لیکن زر یعنی روپے کی مقدار زیادہ ہو اور اس کے باعث قیمتوں کی سطح بلند ہو جائے چنانچہ ماہرین معاشیات ان مسائل پر غور کرتے ہیں اور انہیں حل کر نے کے لئے معاشی منصوبہ بندی اور معاشی ترقی پر زور دیتے ہیں ۔ ایسی تدابیر پیش کرتے ہیں جن سے ملک میں اشیاء کی پیداوار بڑھے لوگوں کے درمیان دولت کی تقسیم منصفانہ ہو ، معیار زندگی بلند ہو اور ان کی ضرورتیں اچھے طریقے سے پوری ہوں ۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کینیڈا ، برطانیہ جرمنی فرانس جاپان اور بعج دیگر ممالک نے جدید سا نس و ٹکنالوجی سے فائدہ اٹھا کر بہت ترقی کی ہے ، جس کے باعث وہاں کے لوگوں کا معیار زندگی بلند ہوگیا ہے ۔ روزمرہ زندگی کی عام ضرورتوں کے علاوہ انہیں آرام و آسائش اور عیش و عشرت کی چیزیں بھی کافی مقدار میں میسر آتی ہیں ۔ جب کہ آیشیا ، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے بیشتر ممالک کا معیار زندگی آج بھی مغربی ممالک کے اس معیار سے کمتر ہے جو انہیں صنعتی انقلاب سے پہلے حاصل تھا ۔ چنانچہ نہ صرف غریب ممالک کے لوگ پریشان حال ہیں، بلک وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امیر اور غریب ممالک کے درمیان معاشی فرق بھی بڑھتا جارہا ہے ، مثلاً دونوں کا موازنہ کر نے کے لئے آپ ذرا غور فرمائیںکہ (ورلڈ بنک کی رپورٹ 2004 ء کے مطابق) امریکہ میں فی کس مجموعی قومی پیداوار (Gross National Product – G.N.P)یعنی وہان کے ایک باشندے کی سالانہ اوسط آمدنی (Per Capita Income)35 ہزار ڈالر ہے اور کینیڈا کی 22 ہزار ڈالر ، سوئزر لینڈ کی 38 ہزار ڈالر ، فرانس کی 22 ہزار ڈالر ، برطانیہ کی 22 ہزا ر ڈالر اور جاپان کی 33 ہزار ڈالر ۔ جب کہ ان کے مقابلہ میں پاکستان کی 410 ڈالر ہے بھارت کی 480 ڈالر ۔ چین کی 940 ڈالر اور بنگلہ دیش کی صرف 360 ڈالر۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ علم معاشیا ت کے جدید اصولوں اور نظریوں سے فائدہ اٹھا کر اقتصادی ترقی کے لئے کوشش کی جائے تاکہ اشیا ء کی پیداوار بڑھے لوگوں کو زیادہ چیزین ملیں اور خوشحال ہوجائیں ۔ معاشیا ت کے نظریات بیان کرنے سے قبل ضروری ہے کہ معاشیات کا مفہوم اچھی طرح سمجھا لیا جائے ۔ معاشیات کی تعریف:۔ مختلف زمانوں میں ماہرین معاشیات نے اس علم کی مختلف تعریفیں بیان کی ہیں ۔ جنہیں تین طرح سے پیش کیا جاسکتا ہے ۔ اول:۔ کلاسیکی ماہرین معاشیات کی تعریفیں جن میں معاشیات کو دولت کا علم قرار دیا گیا ہے ان ماہرین کا ریکارڈ و تھامس ماتھس اور جان ایس مل ۔ دوم:۔ نوکلاسیکی ماہرین معاشیا ت کی تعریفیں ، جن میں معاشیات کو مادی فلاح و بہبود ، کا علم کہا گیا ہے ۔ ان کی نمائندگی پروفیسر الفرڈ مارشل کی تعریف سے ہوتی ہے ۔ سوم:۔ جدید ماہر معاشیات پروفیسر رابنز کی بیان کردہ تعریف جس میں یہ بتایا گیاہے کہ معاشی مسئلہ خواہشات کی کثرت اور ذرائع کی قلت سے پیدا ہوتا ہے ۔ یہاں ہم ان پر الگ الگ بحث کرتے ہیں ۔ آدم سمتھ کی بیان کر دہ تعریف اگرچہ معاشی مسائل اس وقت سے موجود ہیں ، جب سے انسان نے دنیا میں قدم رکھا اور مختلف زمانوں میں اہل نظر ان پر غور فکر کرتے ہیں لیکن معاشی حقائق و نظریات کو جمع کر کے انہیں سب سے پہلے باقاعدہ ایک کتاب کی صورت میں پیش کر نے کا کام ، سکاٹ لینڈ کے پروفیسر آدم سمتھ نے انجام دیا ۔ انہوں نے آج سے تقریبا سو ا دو سوسال قبل 1776 ء میں ایک کتاب لکھی جس کا نام تھا ، اقوام کی دولت کی نوعیت اور وجوہات اور وجوہات پر تحقیقاتی مقالہ ’’ جس کے باعث انہیں معاشیات کا بانی اور باپ کہا جاتا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ معاشیات دولت حاصل کرنے اور خرچ کر نے کے اصولوں کا علم ہے انہوں نے اس کتاب کو مندرجہ ذیل چار حصوں میں تقسیم کیا ۔ صرف دولت (Consumption)پیدائش دولت ( Production)تبادلہ دولت (exchange)اور تقسیم دولت صرف دولت کے ضمن میں انہوں نے یہ واضح کیا کہ کسی قوم کی دولت یعنی استعمال میں آنے والی اشیاء و خدمات (Goods and services)کن اصولوں کے تحت خرچ ہوتی ہیں پیدائش دولت کے سلسلہ میں یہ بتایا کہ انسانی ضرورت کی چیزیں عموماً کن اصولوں کے تحت پیدا ہوتی ہیں ، تبادلہ دولت کے بارے میں یہ بیان کیا کہ لوگ اپنی اپنی پیدا کر دہ اشیا ء و خدمات کا آپس میں تبادلہ کن اصولوں کے تحت کرتے ہیں اور تقسیم دولت کے سلسلہ میں یہ واضح کیا کہ مختلف عاملین پیدا ئش یعنی زمین سرمایہ اور مزدور وغیرہ باہم مل کر جو اشیا ء پید ا کر تے ہیں وہ ان میں کن اصولوں کے تحت تقسیم ہوتی ہیں معاشیات کو دولت کا علم قرار دیتے ہوئے آدم سمتھ اور ان کے اہم نو ا مفکرین مثلاً ریکارڈو نے اس بات پر زور دیا کہ انسان کی کوششیں ، زیادہ تر اس وجہ سے عمل میں آتی ہیں کہ وہ دولت کمانا چاہتا ہے ۔ اور یہی خواہش اس کی روز مرہ زندگی میں غالب نظر آتی ہے ۔ آدم سمتھ نے یہ تخیل بھی پیش کیا کہ تمام لوگ انفرادی سطح پر اپنے ذاتی مفاد کی خاطر جو کوشش کرتے ہیں وہ بالواسطہ پورے معاشرہ کے کئے مفید ثابت ہوتی ہے ۔ اور یوں ایک غیر مرئی ہاتھ کے باعث معاشی نظام خود بخو د باقاعدگی سے چلتا رہتا ہے ۔ تنقید:۔ اگرچہ کلاسیکی ماہرین معاشیات ’’ دولت ‘‘ سے مراد ایسی چیزیں لیتے تھے جو انسان اپنی ضرورتوں کے لئے استعمال کرتاہے مثلا ً خوراک پوشاک اور رہائش کی چیزیں ، مگر بعض لوگوں کی دولت کے لفظ سے کچھ غلط فہمی پیدا ہوگئی ۔ چنانچہ انیسویں صدی کے مصلحین یعنی معاشرہ کی اصلاح کے خواہش مندلوگوں نے معاشیات کے بارے مین یہ رائے قائم کر لی کہ یہ خود غرضی اور دولت پر ستی سکھانے والا علم ہے اس لئے اس کا مطالعہ نہیں کرنا چاہئے ۔ لیکن اگر ہم اس نظریہ پر غور کر یں تو معلوم ہوگا کہ معاشیات کے بارے میں یہ تصور کہ اس میں دولت پیدا کرنے اور دولت خرچ کرنے کے متعلق مطالعہ کیا جاتا ہے قابل اعتراض نہیں ، کیونکہ دولت کو انسان ایک مقصد کے طور پر حاصل نہیں کر تا بلکہ بلند تر مقصد کے لئے کماتا ہے اور وہ مقصد ہے : انسانی فلاح و بہبود :۔ انسا ن کی خوش حالی کا دارو مدار اس بات پر ہے کہ اسے اپنی خواہشات پوری کر نے کے لئے زیادہ سے زیادہ اور اچھی سے اچھی چیز یں ملیں اور یہ تمام چیز یں دولت سے حاصل ہوتی ہیں لہٰذا دولت بذات کود بری شے نہیں ، بلکہ اس کا استعمال برایا بھلا ہوسکتا ہے ۔ چنانچہ دو لت کے بارے میں غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے معاشیات کی از سر نو تعریف بیان کر نے کی ضرورت محسوس ہوئی ، جس کا ذکر ہم آگے کر تے ہیں ۔ الفر ڈ مارش (1842 تا 1924 ) کی بیان کردہ تعریف:۔ انیسویں صدی کے آخر میں کیمبرج یونیورسٹی (انگلستان) کے ایک ممتاز ماہر معاشیات ، پروفیسر الفر ڈ مارشل نے اپنی کتاب ’’ معاشیات کے اصول ‘‘ (Principles of Economics) بہت سی غلط فہمیوں کو دور کیا ۔ (الف) معاشیات کا تعلق انسان کی روز مرہ زندگی سے ہے اس لئے یہ بہت اہم اور مفید علم ہے ۔ (ب) علم معاشیات کسی ایک فرد یا دوسروں سے الگ تھلگ رہنے والے آدمی کے مسائل کا جائزہ نہیںلیتا ، بلکہ اس کا تعلق پورے معاشرہ سے ہے ، جس میں لوگ مل جل کر دولت کماتے اور خرچ کرتے ہیں ۔ (ج) معاشیات ’’ دولت برائے دولت ‘‘ کا مطالعہ نہیں کرتا بلکہ اس لئے کہ دولت کی مدد سے وہ مادی لوازمات (یعنی ضرورت کی چیزیں حاصل جائین ، جو انسانی رفاہ و بہبود میں اضافہ کرتے ہیں) ۔ انسانی کوششیں کئی قسم کی ہوتی ہیں لیکن معاشیات کا تعلق صرف ان کوششوں سے ہے جن کے نتیجہ میں انسان کو مادی لوازمات حاصل ہوتے ہیں ۔ معاشیات کی یہ تعریف ایسی جامع اور بامقصد ہے کہ بہت سے اعتراضات جو اس علم پر کئے گئے تھے خود بخود دور ہوگئے چنانچہ ان کے بعد چند اور مفکرین نے بھی ، اپنے نظریات میں اسی بات کو واضح کیا اور اپنی تصانیف میں مادی فلاح کی تصور کو مرکزی حیثیت دی ۔ ان تمام مصنفین نے اپنے زاویہ نظر کو پیش کر کے نو کلاسیکی مکتب فکر کی بنیاد رکھی ۔ پروفیسر رابنز کی بیان کر دہ تعریف:۔ پروفیسر رابنز نے معاشیات کی تعریف ان الفاظ میں پیش کی ہے ۔ ’’ معاشیات انسان کے اس طرز عمل کا مطالعہ کرتا ہے ، جو خواہشات کے بے شمار ہونے اور ذرائع کے محدود ہونے کی بنا پر اختیار کیا جاتا ہے ۔ جب کہ یہ ذرائع مختلف طور پر استعمال ہوسکتے ہوں‘‘۔ انہوں نے اپنی اس تعریف کی بنیاد انسانی زندگی کی مندرجہ ذیل حقیقتوں پر رکھی ہے : (اول ) انسان کی خواہشات بہت زیادہ ہیں۔ (دوم) ان خواہشات میں سے بعض زیادہ اہم ہوتی ہیں اور بعض کم اہم۔ (سوم) انسانی خواہشات کو پورا کرنے کے ذرائع (یعنی دولت یا اشیاء خدمات) تھوڑے ہیں اور (چہارم) ہر ایک ذریعہ (یعنی روپیہ ، پیسہ) مختلف خواہشات پوری کر نے کے لئے استعمال ہوسکتا ہے ۔ ان چاروں باتوں کی وضاحت آگے آئے گی ۔ معاشی مسئلہ :۔ پروفیسر رابنز کے نظریہ کے مطابق اگر مذکورہ چاروں حالات کسی ایک وقت اکٹھے ہو جائیں تو معاشی مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے ۔ یعنی یہ سوچنا پڑتا ہے ۔ کہ تھوڑے ذرائع کے پیش نظر بے ، شمار خواہشات میں سے کون سی خواہشات پوری کی جائیں اور کون سی چھوڑ دی جائیں ۔ نیز محدود ذرائع کو کس طرح کفایت سے خرچ کیا جائے کہ حتی الامکان زیادہ سے زیادہ ، خواہشات پوری ہو سکیں ۔ اگر ان میں سے کوئی ایک شرط بھی غائب ہو تو معاشی مسئلہ پیدا نہیں ہو تا ، اور نہ اس صورت میں انسان کا طرز عمل معاشیات میں زیر بحث آتا ہے ۔ فرض کریں کہ انسان کی خواہشات بے شمار نہیں بلکہ ، چند گنتی کی ہیں ۔ تو ایسی صورت میں انسان کے لئے ان کو پورا کر لینا بڑا آسان ہوگا ، اور جب مزید خواہشات پیدا نہ ہو ں گی ، تو معاشی جد وجہد کی ضرورت ہی نہ رہے گی ۔ معاشی مسئلہ پیدا ہونے کے لئے دوسری شرط یہ ہے کہ بعض خواہشات زیادہ اہم ہوتی ہیں اور بعض کم اہم ،لیکن فرض کریں کہ سب خواہشات کی اہمیت یکساں ہے تو ایسی صورت میں معاشی مسئلہ پیدا نہیں ہوگا ، کیونکہ پھر انسان یہ فیصلہ نہیںکر سکے گا کہ کون سی خواہش پہلے پوری کرے اور کون سی بعد میں (لیکن چونکہ انسان کو اپنی خواہشات میں اہم ترین خواہشات کو منتخب کر نا پڑتا ہے تاکہ انہیں پہلے پورا کر ے اس لئے معاشیات کو چنائو کا علم بھی کہا جاتا ہے۔ ) اگر تیسری خصوصیت غائب ہویعنی ذرائع محدود نہ ہوں ، بلکہ بے شمار ہوں ، تو اس صورت میںبھی معاشی مسئلہ پیدا نہ ہوگا ۔ کیونکہ وہ اپنے بے پناہ ذرائع کی مدد سے اپنی تمام خواہشات کو پورا کر سکے گا اور اسے نہ کفایت شعار ی سے کام لینا پڑے گا نہ معاشی جدوجہد کرنا پڑے گی ۔ آخر میں اگر چوتھی خصوصیت موجود نہ ہو یعنی ذرائع مختلف خواہشات کے لئے استعمال نہ ہوسکتے ہوں ، بلکہ فقط مخصوص خواہشات کے لئے ہی استعمال ہوسکتے ہوں ۔ تو پھر ذرائع کو ان مخصوص خواہشات کے لئے خرچ کر دینے کے سوا اور کوئی چارہ کار ہی نہیں ہوگا اور انسان اپنی طرف سے کوئی سوچ سمجھ کر طرز عمل اختیار نہیں کر سکے گا ۔ غرض معاشی مسئلہ صرف اس صورت میں پیدا ہوتا ہے ۔ جب یہ چاروں حالات بیک وقت جمع ہو جائیں ، گو یا بنیادی طور پر خو اہشات کی کثر ت اور ذرائع کی قلت ہی تمام معاشی مسائل کی جڑ ہے ہم ان دونوں باتوں کا مفہوم واضح کر تے ہیں ۔ ذرائع کی قلت :۔ اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کے ذرائع یعنی اس کی آمدنی اور دولت اس کی ضرورت کے مقابلہ میں کم ہوتی ہے ۔ اسی طرح ایک ملک کے مجموع وسائل پیدا وار (مثلاً زمین ، معدنیات مزدور ، سرمایہ ، مشینیں ، کار خانے وغیرہ ) اس ملک کے لوگوں کی ضرورتوں کے مقابلہ میں قلیل اور کم یاب ہیں ۔ اگر چہ پاکستان میں ہر سال لاکھوں ٹن گندم ، کروڑوں میٹر کپڑ ا اور لاکھوں بائیسکل تیار ہوتے ہیں لیکن اس کے باوجود یہ چیزیں ملک کی مجموعی ضرورت کے مقابلہ میں کم ہیں ۔ لہذا یہ مفت نہیں ملتیں ، بلکہ قیمتا ً ملتی ہیں ۔ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ گندم ، کپڑا اور بائیسکل کمیاب ہیں ۔ ان کے مقابلے میں کوئی سے شے خواہ قلیل مقدار میں موجود ہو لیکن اگر ہمیں اس کی ضرورت نہ ہو ، تو وہ کم یاب نہیں کہلائے گی ، کیونکہ وہ ضرورت کے مقابلہ میںزیادہ ہے لہٰذا ثابت ہو ا کہ اشیاء کی کثر ت اور قلت لوگوں کی ضرورت کے حوالے سے دیکھی جاتی ہے ، ضرورت کے بغیر میں ۔ گویا شے کی قلت اور کمیابی ایک اضافی اور نسبتی اصطلاح تعریف یوں کی گئی ہے :۔ ’’ ایک کمیات ذریعہ سے مراد ایسا ذریعہ ہے جو صفر قیمت پر محدود مقداروں میں دستیاب نہ ہو ‘‘ ذرائع کی قلت ایک ایسی روشن حقیقت ہے کہ جب آپ بازار میں اپنے معصوم بچے سے پوچھتے ہیں کہ غبار ہ لو گے یا چوئنگ گم تو وہ سمجھ جاتا ہے کہ آپ کے ذرائع محدود ہیں اور اسے دونون چیزیں لیکر نہیں دے سکتے ۔ چنانچہ وہ چپکے سے کسی ایک چیز کی فرمائش کر دیتا ہے ۔ غرض انسان کی خواہشات بے شمار ہیں مگر ان کو پورا کرنے کے ذرائع قلیل ہیں اور زندگی کی انہی دو بنیادی حقیقتوں کے باعث معاشی مسئلہ پیدا ہوتا ہے ۔ یعنی کس طرح کم ذرائع سے زیادہ حاجات پوری کی جائیں اگر خواہشات کم ہوں ، یا ذرائع بے شمار ہوں ، تو انسان کو کوئی مشکل کوئی الجھن یا کوئی معاشی مسئلہ پیش نہ آئے ۔ لہٰذا ثابت ہو کہ بنیادی طور پر خواہشات کی کثرت اور ذرائع کی قلت ہی تمام معاشی مسائل کی جڑ ہے یا دو ایسے بنیادی پتھر ہیں جن پر معاشیات کی عمارت قائم ہے ۔ معاشیات کی وسعت مضمون:۔ پیچھے ہم نے معاشیات کی تعریف پر بحث کی ہے ۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ علم معاشیات کی سرحدیں کس قدر و سیع ہیں ، یعنی اس میں کون سے مسائل زیر بحث آتے ہیں اور کون سے نہیں آتے ۔ کیا اس علم کا صرف نظر یاتی اور اصولی پہلو ہی ہے یا عملی پہلو بھی ہے ۔ گویا اس مضمون کی وسعت بیان کرتے ہوئے مندرجہ ذیل باتوں پر غور کیا جاتا ہے :۔ ٭ معاشیات کا موضوع بحث کیا ہے؟ ٭ کیا معاشیات انسانی طرز عمل کا مطالعہ انفرادی زادیہ سے کرتا یا اجتماعی زاویہ ہے ؟ ٭ کیا معاشیات صرف نظریاتی پہلو رکھتا ہے ۔ یافنی اور عملی پہلو بھی ؟ ٭ کیا معاشیات ان خواہشات یا معاشی حالات کی اچھائی اور برائی کے بارے میں بھی کوئی رائے دیتا ہے جو ایک معاشرہ کے سامنے آتے ہیں یا اس سلسلہ میں غیر جانبدار ہے؟ اب ہم مذکورہ سوالات کا بار ی باری جواب دیتے ہیں ۔ معاشیات کا موضوع بحث :۔ یوں تو انسانی زندگی کے کئی پہلو ہیں ، مثلا ً معاشرتی ، سیاسی ، نفیساتی اخلاقی اور اقتصادی ، اور یہ آپس میں گہرے طور پر مر بوط ہیں ، ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ لیکن علم معاشیات کا تعلق زندگی کے اقتصادی پہلو سے یعنی انسان کے ایسے طرزعمل سے جو محدود ذرائع سے کثیر خواہشات پوری کر تے وقت اختیار کیا جاتا ہے پیچھے بتایا گیا ہے کہ انسان کی خواہشات تو بے شمار ہین ۔ لیکن انہیں پوری کرتے وقت اختیار کیا جانا ہے ۔ پیچھے بتایا گیا کہ انسان کی خواہشات توبے شمار ہیں ۔ لیکن انہیں پورا کرنے کے وسائل (یعنی دولت اور اشیاء وغیرہ ) کم ہیں ۔ لہٰذا اسے ایسا رویہ اختیار کرنا پڑتا ہے ، جس سے ایک طرف و طرف ایسی خواہشات منتخب کر لیتا ہے ۔ جو بہت ضرروی ہوں اور دوسری طرف ذرائع کو اس طرح استعمال کر تا ہے کہ ان میں کفایت ہوسکے اور زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکے ۔ بنیادی طور پر انسان کا یہی و کفایت کا طرز عمل ہی معاشیات کا موضوع بحث ہے کیونکہ اس کی نئی نئی خواہشات جنم لیتی رہتی ہیں اور پرانی خواہشات بار با ر پیدا ہوتی رہتی ہیں ۔ اس لئے انہیں پورا کرنے کے لئے انسان کو اپنی معاشی جدوجہد (Economic Activity ) بھی مستقبل طور پر جاری رکھنا پڑتی ہے ، یعنی ہر آدمی باقاعدگی سے کوئی نہ کوئی کام کرتا ہے ۔ غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ ہر شخص اپنے وقت قوت اور توجہ کا بیشتر حصہ معاشی جدوجہد میںہی خرچ کرتا ہے۔ گویا روزمرہ معاشی محور کے گرد گھومتی ہے اور یوں اقتصادی محرک اور معاشی جدوجہد پوری زندگی پر غالب نظر آتی ہے ۔ حتیٰ کہ انسان کے فکر و عمل کی راہیں بھی کافی حد تک اقتصادی حالات و مسائل سے ہی متعین ہوتی ہیں ۔ سماجی تعلقات ہوں یا ثقافتی روایات ، علمی سرگرمیاں ہوں ، یا ادبی ، مشاغل ، تہذیب و تمدن ہو یا تفریح کے طور پر طریقے ، سبھی معاشی مسائل اور معاشی جد وجہد سے متاثر ہوتے ہیں لہذا معاشیات کا موضوع بحث (یعنی معاشی جدوجہد) بڑا اہم ہے ۔ اجتماعی معاشی مسائل یا انفرادی معاشی مسائل:۔ معاشیات الگ الگ افراد کے مسائل کا جائزہ نہیںلیتا بلکہ یہ ایک معاشرتی علم ہے ۔ اور معاشرہ میں رہنے والے افراد کے اجتماعی معاشی مسائل کا مطالعہ کر تا ہے ۔ یعنی اس چیز کا تجزیہ کرتا ہے کہ ایک قوم جس کی ضروریات بے شمار ہیںلیکن انہیںپورا کرنے کے ذرائع کم ہیں ۔ ان محدود ذرائع سے لا محدود ضروریات پوری کر نے کے لئے کیسا طرز عمل اختیار کرتی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ افراد کے اجتماعی طرز عمل کے مطالعہ سے ہم کچھ نتائج معلوم کر سکتے ہیں جو آئندہ انہی مسائل کو حل کرنے کے لئے مفید ثابت ہوسکتے ہیں ۔ اس کے برعکس اگر معاشیات ایک ایک فرد کے مسائل اور اس کے طرز عمل کا جائزہ لے تو اس کے نتیجہ میں کوئی مفید علم وجود میںنہیں آئے گا ۔ اس لئے معاشیات میں ، انسان کے انفرادی طرز عمل کے بجائے اجتماعی طرز عمل اور اجتماعی مسائل کا مطالعہ کیا جاتا ہے ۔ کیا معاشیات علم ہے یافن :۔ یہ جاننا ضروری ہے کہ کیا اس کا صرف نظریاتی پہلو ہے یا عملی پہلو بھی ہے یعنی کیا یہ ایک علم کی حیثیت سے صرف بعض حالات کے سبب اور نتیجہ کے درمیان رشتہ قائم کر نے کو کافی سمجھتا ہے یا ایک فن کی حیثیت سے ایسی تدابیر بھی وضع کر تا ہے ۔ جو معاشی خر ابیوں کو دور کرنے کے لئے ضروری ہوتی ہیں ؟ اس بات کا فیصلہ کرنے سے بیشتر یہ لازم ہے کہ ہم علم اور فن کا مفہوم سمجھ لیں ۔ علم:۔ یعنی سائنس ایک لاطینی زبان کے لفظ Scientia سے بنا ہے جس کا مطلب ہے ۔ Knowledge یعنی آگاہی یا علم ۔ گویا علم سے مراد ہے ۔ کا ئنات کے کسی شعبے سے متعلق معلومات کا باقاعدہ مجموعہ، جنہیں ضروری حقائق کا غیر جانبدارانہ مطالعہ کر کے مرتب کیا گیا ہو ، اور ان میں سبب و نتیجہ کا رشتہ قائم کیا گیا ہو ، مثلا علم طبیعیات کی کی شکل میں کائنات کے چند شعبوں مثلاً مادہ ، روشنی حرارت اور قوت وغیرہ کے بارے میں معلومات کا ایک مفید اور باضابطہ مجموعہ فراہم ہو گیا ہے یاعلم کیمیا کی شکل میں کائنات کے بعض شعبوں مثلا مفردات، مرکبات اور کیمیاویات وغیرہ کے بارے مین باقاعدہ معلومات کا ایک ذخیرہ جمع ہوگیا ہے ۔ غرض ’’ ایک سائنس کی یہ خصوصیات ہیں: بعض حقائق (Facts)کا مشاہدہ کرنا پھر متعلقہ مواد کا انتخاب اور جماعت بندی ، اور پھر ان حقائق کو تعمیم یعنی ایک عام اصول قائم کرنے کیلئے بنیاد کے طور پر استعمال کرنا ۔ (الف) علم الحقیقت (یا اثباتی علم ) اس سے مراد وہ علم ہے جس میں کائنات کے ظاہر ہونے والے حالات و واقعات اور حقائق کا مشاہدہ اور تجزیہ کر کے انہیں جو ں کا توں بیان کر دیاجائے ۔ مثلا ً مشاہدات سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ زمین اپنے محور کے گرد گھومتی ہے ۔ قانون ثقل کے باعث ہر بے سہارا شے زمین کی طرف گرتی ہے ۔ گیند دیوار سے ٹکرار کر واپس آتی ہے ۔ وغیرہ وغیرہ یہ تمام حقیقتیں جوں کی توں بیان کر دی گئی ہیں اس قسم کے علوم کی مثالیں یہ ہیں ۔ علم طبیعیات علم کیمیا وغیرہ ۔ (ب)علم لہدایت (Normative Science) اس سے مراد وہ علم ہے جس میں حالات و واقعات کو ایک خاص زاویہ نگاہ سے پر کھا جائے اور یہ فیصلہ کیا جائے کہ انہیں یوں ہونا چاہیے ۔ مثلا آمریت کے بجائے جمہوریت ہونی چاہئے ۔ غنڈو گردی کے بجائے شرافت ہونی چاہیے ۔ غربت کے بجائے خوش حالی ہونے چاہیے ۔ اس قسم کے علوم کی مثالیں یہ ہیں:۔ سیاسیات اخلاقیات اور معاشیات وغیرہ ۔ جہاں تک معاشیات کا تعلق ہے یہ اثباتی علم بھی ہے اور ہدایتی علم بھی ۔ چنانچہ اس کی دو شاخیں ہیں۔ اول اثباتی معاشیات اور دوم ہدایتی معاشیات ۔ پر و فیسر فشر اور ڈارن بش بیان کر تے ہیں کہ: ’’ اثباتی معاشیات کا تعلق کسی معاشی نظام یا معیشت ( Economy ) کی فعلیت ( Working) کی غیر جانبدار نہ اور سائنٹیفک تشریحات سے ہے ، جب کہ ہدایتی معاشیات کسی معیشت کے لئے ذاتی قدری فیصلوں پر مبنی ، نسخہ جات تجویز کرتا ہے ۔ فن:۔ سے مراد وہ جدوجہد ہے جو مخصوص مقاصد کو حاصل کر نے کے لئے عمل میں آئے ۔ علم کے ذریعے ہم بعض اصول معلوم کرتے ہیں اور فن کے ذریعے ان اصولوں کو عملی شکل دے کر اپنے مقاصد کو پورا کر تے ہیں ۔ علم اور فن کا فرق سمجھنے کے لئے طب یعنی ڈاکٹری کی مثال لیجئے جب طب کا طالب علم ڈاکٹری کے اصولوں کا مطالعہ کر تا ہے اور تحقیق و تجزیہ میں مشغول ہوتا ہے تو ہم کہتے ہیں کہ وہ طب کا ’’ علم ‘‘ حاصل کر رہا ہے ۔ لیکن جب وہ ڈاکٹر بن کر مریضوں کا علاج کر تا ہے اور تحقیق شدہ نتائج کو عملی شکل دیتا ہے تو وہ گویا اپنے علم کو فن کی حیثیت دے دیتا ہے ۔ علم و فن کی مذکورہ تعریف کی روشنی میں اگر معاشیات کو پر کھا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ ایک علم بھی ہے اور فن بھی ۔ اس کے علم ہونے کا ثبوت مندرجہ ذیل دلائل سے ملتا ہے : اول :۔ یہ کائنات کے ایک خاص شعبہ (یعنی خواہشات کی کثرت اور ذرائع کی قلت کی وجہ سے پیدا ہو نے والے مسائل) سے بحث کرتا ہے اور اس کے متعلق ضروری حقائق جمع کرتا اور ترتیب دیتا ہے ۔ دوم:۔ معاشیات میں متعلقہ حالات و واقعات پر خالص علمی اور تحقیقی رنگ میں بحث کی جاتی ہے ۔ ان کا غیر جانبداری اور غیر جذباتی انداز سے مشاہدہ کیا جاتا ہے ۔ اور انہیں باقاعدہ ترتیب دے کر قوانین اخذ کئے جاتے ہیں ۔ سوم:۔ ایسے قوانین اخذ کئے جاچکے ہیں جو معاشیات کے نفس مضمون سے متعلق حقائق کی وضاحت کر تے ہیں مثلا ً صرف دولت کے قوانین پیدا ئش دولت کے قوانین رسد و طلب کے قوانین وغیرہ ۔ لیکن یہ بات بھی قابل غور ہے کہ معاشیات ایک معاشرتی علم ہے ۔ اس میں انسان کے سماجی مسائل پر بحث کی جاتی ہے اس لئے ان مسائل کا صرف مطالعہ ہی کافی نہیں ، بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ اس مطالعہ سے فائدہ اٹھا کر اصل مقصد کو حاصل کیا جائے اور وہ اصل مقصد ہے انسانی زندگی کو خوش حال اور پر آسائش بنانا ۔ گویا ماہرین معاشیات کا کام صرف یہ مطالعہ کرنا ہی نہیں کہ معاشی مسائل کیا ہیں بلکہ ان کا یہ فرج بھی ہے کہ ان مسائل کے اسباب معلوم کریں اور انہیں حل کرنے کے لئے تجاویز بتائیں ۔ اگر چہ ان تدابیر کو عملی جامہ پہنا نا حکومت کاکام ہے لیکن اس سلسلہ میں مشورہ دینے اور تدابیر پیش کرنے کی ذمہ داری ماہرین معاشیات پر عائد ہوتی ہے ، گویا یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ معاشیات علم بھی ہے اور فن بھی علم الحقیقت ہونے کی حیثیت سے ’’ اثباتی معاشیات ‘‘حالات و واقعات کا جائزہ لیتا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ یہ کیسے وقوع پذیر ہوئے اور علم الہدایت ہونے کی حیثیت سے ’’ ہدایتی معاشیات ‘‘ یہ پر کھتا ہے کہ معاشرہ کی فلاح کے لئے یہ حالات کیسے ہونے چاہئیں ۔ گویا پہلے یہ معاشی حالات و مسائل مثلاً غڑبت ، بے روزگاری ، اشیاء کی قلت ، افراط زر اور معاشی عدم مساوات کی وجوہات معلوم کرتا ہے اور یہ فیصلہ دیتا ہے کہ یہ مسائل معاشرہ کے لئے مضر ہیں اور انہیں حل کر نا چاہیے ۔ اس کے بعد فن ہونے کی حیثیت سے معاشیات ہماری رہنمائی کرتا ہے کہ ان مسائل کو کس طرح حل کیا جا سکتا ہے اور کیسے ایک خوش حال اور ترقی پذیر معاشرہ وجود میں آسکتا ہے ۔ خواہشات کی پسند و ناپسند کا سوال:۔ قدیم ماہرین معاشیات نے یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ معاشیات کا خواہشات کی نوعیت سے کوئی تعلق نہیں ، جس طرح طبعی علوم انسان کو بعض قوتیں مہیا کرتے ہیں اور اسے یہ اختیار دے دیتے ہیں کہ وہ جس طرح چاہیے انہیں استعمال کر ے ، مثلاً جوہر ی توانائی (یعنی اٹامک انرجی) کی شکل میں انسان کو بے پناہ قوت کا وسیلہ مل گیا ہے ۔ جس کی مدد سے وہ چاہے تو زراعت و صنعت میں ایک انقلاب لا کر مادی خوش حالی کا بلند ترین معیار حاصل کر سکتا ہے ۔ اور چاہیے تو ایٹم بم بنا کر جاپان کے شہروں (ہیر و شیما اور نا گا سا کی ) کو راکھ کا ڈھیر بنا سکتا ہے ۔ بالکل اسی طرح معاشیات بھی انسان کو اپنی خواہشات پوری کرنے کے طریقے سکھاتا ہے ۔ لیکن اس چیز سے غیر جانبدار ہے کہ وہ خواہشات کسی ہونی چاہئیں ، یعنی خواہشات اچھی ہوں یا بری بلکہ یہ خود انسان پر مو قوف ہے کہ وہ دودھ کا گلاس پسند کرتا ہے یا جام مے َ ۔ عمارتی سامان سے یونیورسٹی تعمیر کر تاہے یار قص گاہ ، البتہ یہ دونون چیزیں دولت سے ملتی ہیں جو ایک معاشی ذریعہ ہے ۔ عہد رفتہ کے ان ماہرین کی رو سے خواہشات اچھی ہوں یا بری ، ایک ماہر معاشیات کو ان کی نوعیت سے کوئی واسطہ نہیں ۔ لیکن نو کلاسیکی معاشین نے قدیم مفکرین کے اس نظریہ سے اختلاف کیا اور یہ رائے پیش کی کہ معاشیات ، خواہشات کے بارے میں غیر جانبدار نہیں ہے ، بلکہ یہ انسان کی ان کوششوں سے بحث کر تا ہے جن کا تعلق اس بات سے ہے کہ خوش حال زندگی بسر کرنے کے لئے کس طرح مادی وسائل حاصل کئے جاسکتے ہیں ۔ چنانچہ اگر انسان اپنی دولت کو ایسے کاموں پر خرچ کر رہا ہو ، جو اس کے لئے مضر ہوں ۔ یا تباہی کا باعث بنیں تو ماہر معاشیات پر لازم ہے کہ وہ دولت کے اس طرح ضائع ہو نے کے خلاف آواز اٹھائے ۔ گویا انہوں نے اس چیز پر زور دیا کہ معاشیات کا مطالعہ انسانی فلاح و بہبود میں اضافہ کا باعث بننا چاہیے ۔ اگر چہ پروفیسر مارشل اور ان کے ہم خیال مفکرین کا یہ نظریہ خاصا مقبول ہو ا لیکن پرو فیسر رابنزنے دوبارہ یہ سوال اٹھایا کہ معاشیات خواہشات و مقاصد کی نوعیت کے سلسلے میں غیر جانبدار ہے کیونکہ یہ ایک سائنس ہے اور کوئی سائنس بھی انسانی مقاصد کو متعین نہیں کرتی بلکہ محض وسائل مہیا کرتی ہے اور غور و فکر کا انداز دیتی ہے ۔ لیکن عہد حاضر میں معاشی مسائل نے قوموں اور حکومتوں کی توجہ سے اپنی طرف کھینچ رکھی ہے ۔ وہ ان مسائل سے نپٹنے کے لئے مصروف جدوجہد ہیں ۔ اس لئے موجود دور میں ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ معاشیات ایک معاشرتی علم ہے ۔ اس کا تعلق معاشی مسائل پر غور و فکر کرنے سے بھی ہے اور انہیں حل کرنے سے بھی اور اس سب سے بڑا مقصد ہے : قوم کی خوش حالی ۔ لہٰذا تمام معاشی ذرائع اور وسائل صرف اسی مقصد کے لئے استعمال ہونے لگیں ، تو وہ ضائع ہونے کے برا بر ہیں ۔ چنانچہ ثابت ہو کہ معاشیات کا مطالعہ محض ’’ علم برائے علم ‘‘ کی خاطر نہیں کیا جاتا بلکہ معاشرہ کی اقتصادی تعمیر و ترقی کے لئے عملی تجاویز پیش کرنے کی خاطر کیا جاتاہے ۔
معاشیات کا نفس مضمون:۔ معاشیات کا مرکزی نفس مضمون یہ ہے کہ انسان کس طرح اپنے محدود ذرائع سے لامحدود حاجات کو پورا کر نے کے لئے جد وجہد کرتا ہے ۔ یعنی معاشی مسئلہ ہی در حقیقت معاشیات کا نفس مضمون ہے ۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ ہر معیشت میں ماہرین اقتصادیات بنیادی طور پر مندرجہ زیل مسائل پر غور و خوض کر تے ہیں اور انہیں حل کرنے کے لئے تدابیر سوچتے ہیں: ۱۔ پیدواری ذرائع کا بھر پورا ستعمال :۔ چونکہ انسان کی حاجا ت لا محدود ہیں ، اور وسائل محدود اس لئے ضروری ہے کہ اشیاء پیدا کر نے والے تمام ذرائع سے بھر پور فائدہ اٹھایا جائے ۔ یہ ذرائع تین طرح کے ہیں اول: قدرتی ذرائع مثلا زمین ، کانیں جنگلات دریا وغیرہ ۔ دوم : مصنوعی ذرائع مثلا کا ر خانے مشینیں سٹرکیں نہر یں وغیرہ ۔ سوم: انسانی ذرائع یعنی کام کر نے والے مختلف افراد ، مزدور ، ٹیکنیشن اور ماہرین وغیرہ ۔ ہر معاشی نظام کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ تمام پیدا واری ذرائع یا عاملین پیدا ئش سے پو را پورا فائدہ اٹھایا جائے، کوئی ذریعہ بے کار نہ پڑا رہے اور بیر وزگاری کو ہر ممکن طریقے سے ختم کیا جائے ۔ ۲۔ کون سی اشیاء کتنی مقدار میں پیدا کی جائیں:۔ دوسرا حل طلب مسئلہ یہ ہے کہ ذرائع پیدا ئش کو کون سی اشیاء کی پیداوار کے لئے استعمال کیا جائے اور وہ اشیاء کتنی کتنی مقدار میں پیدا کی جائیں ۔ چونکہ انسانی حاجات کے مقابلہ میںپیداواری ذرائع محدود ہیں اس لئے یہ فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ کس شے کی پیداوار نسبتا زیادہ ضروری ہے اور کس کی کم ضروری ؟ گویا ملکی ذرائع کو مختلف اشیاء کی پیداوار کے لئے مختص کرنے کی ضرورت پیش آتی ہے ۔ یہ مسئلہ قیمتوں کے نظام سے حل ہوجاتا ہے ۔ چنانچہ معاشیات میں نظریہ قیمت کا مطالعہ کیا جاتا ہے ۔ یعنی چیزوں کی قدر و قیمت کس اصول اور قائدہ کے مطابق مقر ر ہوتی ہے ۔ ۳:۔ اشیاء پیدا کر نے کے لئے کون سے طریقے اختیار کئے جائیں:۔ اگلا مسئلہ یہ ہے کہ اشیاء پیدا کرنے کے لئے کون سے طریقے اختیار کئے جائیں کیونکہ ایک ہی شے یکساں مقدار میں تیار کرنے کے لئے مختلف طریقے استعمال کئے جاسکتے ہیں ، مثلا گندم اگانے کے لئے ایک طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ زمین کم مقدار استعمال کی جائے لیکن اس پر کھاد ، بیج مزدور اور سر مایہ زیادہ مقدار میں لگا یا جائے اور دوسرا طریقہ یہ ہو سکتا ہے ۔ کہ زمین مقدار میں زیر کاشت لائی جائے لیکن سرمایہ ، کھاد بیج پانی اور مشینیں کم استعمال کرلی جائین ۔ یہی حال صنعتی پیدا ئش (یعنی عاملین پیدا ئش) میں سے کوئی ایک ذریعہ کم اور باقی زیادہ مقدار میں استعمال ہوسکتے ہیں کہ ان مختلف طریقوں مین سے کون سا طریقہ مفید اور موزوں رہتا ہے ۔ معاشیات میں نظریہ پیدا وار کا مطالعہ کیا جاتا ہے ۔ پیدا شد ہ اشیاء کو معاشرہ کے افرادمیں کس طریقے سے تقسیم کیا جائے : چوتھا مسئلہ یہ ہے کہ مختلف عاملین پیدا ئش یعنی زمین سرمائے اور مزدوروں نے مل کر جو قومی دولت ( National Wealth) پیدا کی ہے ، وہ ان کی کس اصول کے تحت تقسیم کی جائے ، نیز اس بات پر غور کیا جاتا ہے کہ اگر تقسیم دولت کا نظام خراب ہوجائے یعنی ایک طبقہ زیادہ دولت مند ہوجائے اور دوسر اغریب ہوجائے تو دولت کی تقسیم کے نظام میں تبدیلی پیدا کرنے کیلئے حکومت کی مداخلت کس حد تک مو ثر ثابت ہوسکتی ہے ۔ یہ مسائل نظر یہ تقسیم دولت میں زیر بحث آتے ہیں ۔ کیا اشیاء پیدا کرنے کی صلاحیت روبہ ترقی ہے :۔ آخر میں ایک اہم سوال یہ زیر بحث آتا ہے کہ کیا کسی ملک کی اشیاء پیدا کرنے کی صلاحیت سال بہ سال بڑھ رہی ہے یا ایک مقام پر رک گئی ہے ؟ اگر تو یہ صلاحیت مسلسل بڑھتی جائے تو لوگوں کا ’’ معیار زندگی ‘‘ بلند ہوتا جاتا ہے (جیسا کہ مغربی ممالک میں ہوا ہے )، کیونکہ وہاں قومی آمدنی بڑھنے کی رفتار ، آبادی میں اضافہ کی رفتار سے تیز رہی ہے ۔ اور اگر پید اوار کی صلاحیت میں اضافہ نہ ہو ، یا مقام پر ٹھہر گئی ہو ، تو لوگ خوش حال نہیں ہوسکتے ۔ غرض اس مسئلہ پر بحث کی جاتی ہے کہ بعض ممالک کی معاشی ترقی کی رفتار زیادہ تیز کیوں ہے ؟ اور بعض کی کیوں رک گئی ہے ان مسائل میں بحث کر نے کے لئے نظریہ معاشی ترقی (معاشی نمو) قائم کیا گیا ہے ۔ معاشیات کے پہلو بنیادی طور پر معاشیا ت کے دو پہلوہیں : اول ، تجریات یا نظریات معاشیات اور دوم : پالیسی معاشیات یا اطلاقی معاشیات اور دوم: پالیسی معاشیات یا اطلاقی معاشیات یہاں ہم ان کی وضاحت کرتے ہیں: تجزیاتی معاشیات یا معاشی تجزیہ :۔ اس میں یہ وضاحت کی جاتی ہے کہ ایک معاشی نظام کس طرح چلتا ہے اور اس کی نمایاں خصوصیات کیا کیا ہیں ، چونکہ حقیقی دنیا میں واقعات ومسائل کا ایک دوسرے پر گہرا انحصار ہوتا ہے ، اور بے شمار اسبا ب و عوامل حالات کو پیچیدہ کر دیتے ہیں اس لئے ایسا معاشی نظریہ ، جو ان پیچید گیوں کو سامنے رکھ کر قائم کیا جائے ، ممکن نہیں ۔ لہذا صرف ایسا’’ معاشی نظریہ ‘‘ پیش کیا جاتا ہے ، جو ایک جدید معیشت کی صرف نمایاں خصوصیات کو سامنے رکھتا ہو ، اور نسبتاً مجرو ہو علاوہ ازیں کچھ حدتک غیر حقیقی بھی ہو ، لیکن سادہ ہونے کے باعث قابل فہم اور آسان ضرور ہو ۔ معاشی تجزیہ کی بنیاد دو باتوں پر قائم ہوتی ہے ۔ اول :۔ جس معاشی نظام کا تجزیہ کرنا درکار ہو اس کی خصوصیات کے بارے میں ضروری مفر و ضات قائم کرئے جاتے ہیں یعنی کچھ بنیادی باتیں فرض کر لی جاتی ہیں جن کی نوعیت عمومی ہوتی ہے ، اور ان کا تعلق زیادہ تر مندرجہ ذیل تین باتوں سے ہوتا ہے ۔ اول : لوگ عام طور پر کس قسم کا طرز عمل اختیار کر تے ہیں ؟ دوم: طبعی اور مادی ماحول کیسا ہے ؟ سوم : سماجی ، معاشرتی اور اقتصادی ادارے کس قسم کے ہیں ؟ مفر وضات کی اقسام:۔ معاشی تجزیہ یا معاشی نظریہ قائم کرنے کے سلسلہ میں جو مفر و ضات قائم کئے جاتے ہیں ان کی عموما ً تین قسمیں ہوتی ہیں ۔ پہلی قسم کے مفر وضات وہ ہیں :۔ جن کا تعلق انسان کے انفر ادی رویہ اور طرز عمل سے ہو ۔ ہم ایک معاشرہ کے افر اد کو آسانی سے دو گر وہوں میں بانٹ سکتے ہیں ایک صارفین کا گرو ہ یعنی دولت صرف کرنے اور چیزیں خریدنے والے اور دوسرا پیدا کاروں یا آجرین کا گر وہ یعنی چیزیں پیدا کر نے والے لوگ ۔ صارفین کا رویہ:۔ جب صارفین کے افعال زیر بحث آتے ہیں ، تو یہ فرض کر لیا جاتا ہے کہ ان کا رویہ عقل و شعور پر مبنی ہوتا ہے ، مثال کے طور پر : (الف) صارفین اشیاء طلب کرتے وقت ایک طرف اپنی ضرورت اور دوسری طرف اپنے ذرائع کو مد نظر رکھتے ہیں۔ (ب) اشیاء صرف کر نے کے سلسلہ میں ان کی پسند ، ذوق اور رجحان عموما ایک سا رہتا ہے ، اور اس میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آتی ۔ (ج) صارفین اپنی رقم سے زیادہ سے زیادہ افادہ یعنی تسکین حاصل کر نا چاہتے ہیں ۔ (د) وہ ایسی اشیاء نہیں خریدتے جن کی در حقیقت انہیں ضرورت نہیں ہوتی ۔ آجرین کا رویہ :۔ اسی طرح جب معاشی تجزیہ کر تے وقت آجرین کے افعال زیر بحث آتے ہین تو یہ مفر وضہ قائم کر لیا جاتا ہے کہ وہ بھی ایسا طرز عمل اختیار کر تے ہیں، جو عقل و شعور پر مبنی ہو مثلا ً ایک بنیادی مفر وضہ یہ ہے کہ تمام آجرین کی یہ کوشش ہو تی ہے کہ وہ اپنے کاروبار میں زیادہ سے زیادہ منافع کمائیں ۔ ۲:۔ دوسری قسم کے مفر وضات وہ ہیں :۔ جن کا تعلق ، مادی ، جغرافیاتئی حیواناتی اور موسمی حالات و مسائل سے ہوتا ہے اور اس سلسلہ میں بعض قدر تی حقائق کو سامنے رکھا جاتا ہے ، مثلا : ٭ زرعی فصلیں ایک خاص موسم میں بوئی جاتی ہیں اور خاص موسم میں کاٹی جاتی ہیں ، یا ٭ بعض فنی اور مادی حالات کے باعث صنعتی پیدا وار میں لا محدود اضافہ نہیں ہو سکتا یا ٭ کا ر خانوں میں کام کر نے والے مزدور وقفہ کے بغیر مسلسل مشینوں پر کام نہیں کر سکتے ۔ سب سے بڑی حقیقت جس ماہر ین معاشیات ، معاشی نظریہ تخلیق کرتے وقت ، سامنے رکھتے ہیں ، وہ یہ ہے کہ اشیاء کمیاب ہیں ، یعنی انسانی ضرورت کی چیزیں پیدا کرنے والے وسائل محدود ہیں ، کیونکہ اگر اشیاء کمیاب نہ ہوتیں تو نہ کوئی معاشی مسئلہ ہوتا اور نہ معاشیات کا وجود نظر آتا ۔ ۳:۔ تیسری قسم کے مفرو ضات :۔ جن پر معاشی نظریہ مبنی ہے کا تعلق معاشرتی اور اقتصادی اداروں سے ہے ۔ اس سلسلے میں عام طور پر یہ مفر وضات قائم کئے جاتے ہیں ۔ (الف) ایک باقاعدہ ریاست قائم ہے ۔ (ب) اس میں مستحکم سیاسی نظام موجو دہے ۔ (ج) اشیاء کا تبادلہ ، براہ راست ہونے یعنی چیزوں کے بدلے چیزیں کے بجائے زر یعنی روپے پیسے کی معرفت ہوتا ہے ۔ (د) لوگ اجر تو ں پر کام کرنے کے لئے آمادہ ہو تے ہیں ۔ (ہ) سب شہر ی ، ملکی قانون کی حدود کے اندر رہ کر اپنی روزی کماتے ہیں ۔ ایک اہم ادارہ منڈی ہے ۔ یعنی ایسا نظام جس کی معرفت ایک شے کو خرید نے اور بیچنے والے ، آپس میں قریبی رابطہ رکھ کر شے کی قیمت مقرر کر نے میں حصہ لیتے ہیں ۔ اوپر ہم نے بتایا ہے کہ نظریاتی معاشیات کی بنیاد دوباتوں پر قائم ہوتی ہے ۔ اول:۔ معاشی نظام کے بارے میں بنیادی مفرو ضات قائم کرنا اور دوم:۔ ان مفر وضات سے نتائج اخذ رکرنا ۔ جہاں تک پہلے مر حلہ یعنی مفر و ضات قائم کرنے کا تعلق ہے ہم نے بالتفصیل بتایا ہے کہ کس قسم کے مفرو ضات قائم کئے جاتے ہیں نیز مثالوں سے انہیں واضح کیا ہے اور جہاں تک دوسرے مرحلہ (یعنی مفر وضات سے نتائج اخذ کرنے ) کا تعلق ہے اس سلسلے میں یہ بات قابل غور ہے کہ بنیادی مفرو ضات سے معاشی نظریات (یا معاشی قوانین) اخذ کرنے کے لئے استدلال کا طریقہ کا ر اختیار کیا جاتا ہے ، مثال کے طو رپر :۔ اگر ہمارے پاس مندرجہ ذیل چار مفروضات ہوں: (الف)کسی شے کو خریدنے والے افراد بہت سے ہیں ۔ (ب) وہ شے بیچنے والوں کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے ۔ (ج) تمام گاہک معقول رویہ اختیار کر تے ہوئے یہ چاہتے ہیں کہ اس دکاندار سے شے خریدیں گے جو نسبتاً کم قیمت لیتا ہو ۔ (د) تمام گاہکوں اور دکانداروں کا باہمی رابطہ بہت قریبی ہو اور وہ سب بازار میں مختلف دکانوں پر رائج قیمت سے آگاہ ہوں۔ تو لازمی نتیجہ یہ نکلے گا کہ اس شے کی قیمت پوری منڈی میں ایک وقت میں ایک ہو گی ۔ اس طرح ہم معاشی تجزیہ کو تکمیل تک پہنچاتے ہین اور نظر یات معاشیات ہماری رہنمائی کرتا ہے غرضیکہ نظریاتی معاشیات کی تعریف یوں کی جاتی ہے ۔ نظریاتی معاشیات سے مراد ہے : معاشی نظام کی عملیت اور طریقہ کا ر کو سمجھنا ، یعنی اس نظام کے سلسلے میں بنیادی مفرو ضات قائم کرکے ان سے نتائج اخذ کرنا ۔ ۲:۔ پالیسی معاشیات یا اطلاقی معاشیات پالیسی معاشیات سے مراد ہے ’’ معاشی نظریے (یا نظریاتی معاشیات ) کی بدولت ‘‘ اقتصادی نظام اور مسائل کے تجزیہ کا جو ایک عمومی دھانچہ پیش کیا گیا ہے ۔ اسے استعمال کر کے مخصوص معاشی حالات و واقعات کے اسباب واضح کر نا ان کی نوعیت و اہمیت پر روشنی ڈالنا اور عملی اقدامات تجویز کرنا ۔ مثال کے طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں قیمتوں کا رجحان اوپر کو ہوتا جا رہا ہے ، تو نظریات معاشیات نے ہمارے سامنے طلب و رسد کا جو ڈھانچہ پیش کر رکھا ہے ، اس کی رو سے ہم پاکستان کے حوالہ سے اس چیز پر غور کر یں گے کہ قیمتوں میں بلندی کے رجحان وجو ہات کیا ہیں ، اس کے کیا اثر ات مر تب ہورہے ہین ، اور اصلاح احوال کے لئے کیا اقدامات کئے جاسکتے ہیں ؟ نظریاتی معاشیات (یا معاشی نظریے ) کے پیش کئے ہوئے ڈھانچہ کی روشنی میں یہ معلوم ہوگا کہ یا تو اشیاء کی طلب بڑھ گئی ہے ۔ یا رسد گھٹ گئی ہے ۔ یعنی رسد و طلب میں عدم توازن پیدا ہوگیا ہے اب طلب کے بڑھنے کے آگے کئی اسباب ہو سکتے ہیں مثلا : (الف) آبادی برھ گئی ہو ، یا (ب) زر کی مقدار زیادہ ہو گئی ہو ، یا (ج) رجحان ِ صرف بڑھ گیا ہو (یعنی لوگ اپنی آمدنی کا پہلے سے زیادہ حصہ خرچ کرنے لگ گئے ہوں) (د) ٹیکسوں میں کمی ہوگئی ہو یا (ہ) تمام ذرائع پیدا ئش زیر استعمال آنے کے بعد زری سرمایہ کاری میں اضافہ ہوتا گیا ہو (یعنی زر کی مقدار بڑھ گئی ہو اور نئے کاروبار یا کا رخانے قائم کرنے کے بجائے پر انے کا ر باروں میںہی روپیہ لگایا جائے۔ جس سے طلب بڑھ جاتی ہے لیکن رسد نہیں بڑھتی)یا (و) عاملین پید ائش یعنی زمین اور مزدور وغیرہ کمتر صلاحیت کے دستیاب ہو رہتے ہیں ۔ (الف) ناموزوں موسمی حالات کے باعث زرعی پیدا واریں کم ہو گئی ہوں یا (ب) خام مال کی قلت یا مزدوروں کی بے چینی کے باعث کار خانوں کی پیدا وار گھٹ گئی ہو یا (ج) اشیاء کی بر آمد بڑھ گئی ہو یا بیروں ملک سے در آمد کم ہوگئی ہو یا (د) زر کی قدر میں تخفیف ہوگئی ہو ۔ یعنی بیرونی کر نسیوں کے حوالے سے روپے کی قدر و قیمت کم ہو گئی ہو ۔ پھر ان وجوہات سے جو واقعات رونما ہوتے ہیں ، ان کے اثر ات زیر بحث آتے ہیں مثلا قیمتوں میں اضافہ سے ملک کے مختلف طبقے کس طرح متاثر ہو ئے اور اجتماعی طور پر پوری قوم کی معاشی حالت پر کیا اثر پڑا ؟ اسی طرح ہم دیکھیں کہ پاکستان میں آمدنی کی تقسیم غیر مساوی ہو گئی ہے ۔ یا ارتکاز دولت کا مسئلہ پیدا ہو چکا ہے یعنی بیشتر دولت چند امراء کے پاس جمع ہوگئی ہے ۔ یا بیر وز گاری عام ہے یا معاشی ترقی کی رفتار سست ہے تو اس سلسلہ میں نظریاتی معاشیات کی رہنمائی میںپالیسی معاشیات کی مدد سے حالات کی درست کر نے کی کوشش کی جائے گی ۔ سادہ طریقے سے بیان کیا جائے تو پالیسی کے تین مقاصد ہوتے ہیں: پہلا: بنیادی مقصد ہے پیدواری استعداد میں اضافہ در حقیقت معاشیات کا مقصد ایسے طریقے معلوم کرنا ہے جن سے اشیاء کی قلت پر قابو پایا جا سکے ، لہٰذا ماہر معاشیات کا سب سے پہلا کام یہ ہے کہ وہ ایسے طریقے دریافت کر ے جن کی مدد سے قوم کے وسائل بہترین طریقے سے استعمال ہو سکیں ۔ دوسرا: معاشی پالیسی کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ معاشی زندگی میں استحکام پیدا کیا جائے یعنی کارو باری مندا بحران اور بے روزگاری پیدا نہ ہو ، پیداوار اور قیمتوں میں اتار چڑھائو نہ ہو اور پیداواری صلاحیت ضائع نہ ہو ۔ تیسرا : جدید معاشی پالیسی کا مقصد یہ ہے کہ زندگی کی مادی ضروریات اور آسائشات کی حد تک عوام میں مساوات پید اکی جائے اور اقتصادی لحاظ سے طبقاتی فر ق زیادہ نہ ہونے پائے ۔ بیانیہ معاشیات معاشیات کا ایک تیسرا پہلو ہے جسے ’’ معاشیات بیانیہ ‘‘کہا جاتا ہے ۔ اس میں ہم کسی مسئلہ یا مو ضوع کے بارے میں تمام متعلقہ معلومات اور حقائق کو اکٹھا کر تے ہیں اور انہی مخصوص حقائق و واقعات کے بارے میں پالیسی معاشیات ، نظریاتی معاشیات کے فراہم کر دہ تجزیہ کی روشنی میں اسباب و نتائج پر غور کر تا ہے ۔ گویا پالیسی معاشیات میں انہی حالات و واقعات کے اسباب پر سوچ بچار کی جاتی ہے ، جو معاشیات بیانیہ کی معرفت پیش کئے جاتے ہیں مثلا ہم پاکستان میں گھی کی قلت کے اسباب و نتائج پر غور کرنا چاہیں تو پہلے معاشیات بیانیہ کی رو سے گھی کی صنعت و پیدوار سے متعلق تمام حقائق اکٹھے کیے جائیں گے ۔ مثال کے طور پر گھی کے کل کتنے کار خانے ہیں ؟ ملک کے اندر کس قدر خام ما ل دستیاب ہوتا ہے ؟ گھی کی قومی ضرورت کتنی ہے ؟ غیر ممالک سے کس قدر گھی در آمد کیا جا رہا ہے ؟ وغیر ہ وغیرہ ۔ اور پھر یہی معلومات ، اطلاقی معاشیات کے غور فکر کے لئے بنیاد (یا سوچنے کا مواد ) کا کام دیں گے ، اور ہم صحیح نتیجہ پر پہنچ سکیں گے ۔ ماہرین معاشیات مذکورہ تینوں قسم کی معاشیات کی تعریف یوں کرتے ہیں : معاشی تجزیہ یہ وضاحت کر تا ہے کہ ایک معاشی نظام کس طرح چلتا ہے ، اور اس کی اہم خصوصیات کیا ہیں ۔ پالیسی معاشیات نظریاتی معاشیات کے مہیا کر دہ تجزیاتی ڈھانچہ کو لے کر واقعات و معاملات کے اسباب اور اہمیت کی وضاحت کرتاہے یا پھر معاشی نظریہ کو پر کھنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ معلوم کر ے کہ کیا معاشی نظریات کی ان شواہد اور اعداد و شمار سے تصدیق ہوتی ہے ۔ جو حقیقی دنیا کے متعلق ہمارے سامنے آتے ہیں ؟ بیانیہ معاشیات میں خاص خاص مو ضوعات کے بارے میں تمام متعلقہ حقائق کو جمع کیا جاتا ہے ۔ معاشی تجزیہ کے دو انداز:۔ نظر یاتی معاشات کے مطالعہ کا مقصد یہ ہے کہ ہم ملک کے معاشی نظام اور ڈھانچہ کو سمجھیں ، اس کے تمام پہلوئوں کا تجزیہ کر یں معاشی مسائل پرغور کر یں اور ان کے اسباب معلوم کر یں ۔ ایک اچھے معاشی نظام کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ملک کے تمام ذرائع کو بروئے کار لا کر ، معاشرہ کی پسند کے مطابق زیادہ سے زیادہ اشیاء خدمات پیدا کی جائیں ، قومی آمدنی میں اضافہ کیا جا ئے دولت کی منصفانہ تقسیم سے عوام کا معیار بلند کیا جائے اور انہیں روزگار مہیا کر کے خوش حال اور ترقی پذیر زندگی بسر کرنے کے قابل بنایا جائے ۔ یہ تمام مقاصد صرف اس صورت میںپورے ہو سکیں گے جب ہم کسی ملک کے معاشی نظا م کا مطالعہ کر سکیں اور معاشی مسائل کو سمجھ سکیں ۔ یہ تجزیہ دو طریقوں سے کیا جاتا ہے اور انہی کی بنا پر نظریاتی معاشیات کو دو حصو ں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔ اول ، جزوی یا جزویاتی معاشیات اور دوم کلی یا کلیا ت معاشیات یعنی معاشی نظام کو جائزہ لینے کے لئے ہم اس کی الگ الگ جزوں پر غور کر سکتے ہیں اور پورے نظام پر بحیثیت کل بھی تدبر کر سکتے ہیں ۔ مائیکر و یونانی لفظ مائیکر و س سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں: چھوٹا یا خرد ذیل میں ان کی تفصیل بیان کی گئی ہے ۔ جزوی معاشیات (جزئی یا جزویاتی معاشیات) جب معاشی نظام کو سمجھنے کے لئے ہم ’’ جزوی معاشیات ‘‘ کا طریقہ اختیار کر یں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم معاشی نظام کے الگ الگ حصوں اور چھوٹی چھوٹی اکائیوں کا جائزہ لے رہے ہیں ۔ مثلا صارفین کا طرز عمل یا کسی ادارے کے حالات یا کسی خاص صنعت کی کیفیت یا عاملین پیدائش یعنی زمین ، مزدور ، سرمایہ اور ناظم کے معاوضوں کا جائزہ لیتے ہیں ۔ اسی طرح قیمتوں کا مطالعہ کر تے وقت ہم قیمتوں کے عام معیار پر بحث نہیں کر تے بلکہ کسی خاص شے مثلاً گندم ، چینی ، پٹرول یا سیمنٹ کی قیمت پر بحث کرتے ہیں ۔ اسی طرح اگر طلب یا رسد پر غور نہیں کر تے بلکہ کسی شے یا کسی ادارے کی طلب یا رسد پر ۔ پھر آمدنی پر بحث گرتے وقت ہم مجموعی قومی آمدنی کی بجائے مختلف افراد کی آمدنیوں یا کا روباروں یا مختلف صنعتوں کی آمدنی کو موضوع بحث بناتے ہین ۔ غرض جزوی معاشیات میں ہم کسی معاشی نظام کی ان مختلف اکا ئیوں اور جزوں پر بحث کرتے ہیں جو اپنے اپنے دائرہ کا ر میں فیصلہ کرتے ہیں۔ مثلا ً صارفین یا کاروبار ادارے یا صنعتیں اور عاملین پیدائش مثلا زمین ، سرمایہ مزدور وغیرہ ۔ پروفیسر گارڈ نر ایکلے جزوی معاشیا کی تعریف یوں کرتے ہیں: ’’ جزوی معاشیات کا تعلق کل پیداوار کی مختلف صنعتوں ادارون اور فرموں کے درمیان تقسیم ، اور پیداواری ذرائع کی مختلف متقابل مقاصد کے درمیان تخصیص سے ہے ۔ جزوی معاشیات آمدنی کی تقسیم کے مسائل کا جائزہ لیتی ہے اور اس کا تعلق مخصوص اشیاء و خدمات کی نسبتی یا اضافی قیمتوں سے ہے ‘‘ پرو فیسر سموئل سن جزوی معاشیات کی تعریف یوں کرتے ہیں: ’’ جزوی معاشیات میں کسی معیشت کے انفرادی اجزاء و عناصر کے رویے کا مطالعہ کیا جاتا ہے کسی ایک شے کی قیمت کا تعین یا کسی ایک صارف یا ایک کاروباری ادارے کے رویہ کا مطالعہ و مشاہدہ ۔ جزوی معاشیات میں درج ذیل مسائل و نظریات پر بحث کی جاتی ہے : ۱۔ نظریہ ء ِ قیمت : معاشیات کی تعریف بیان کرتے ہوئے ہم نے یہ چیز واضح کی ہے کہ انسانی حاجات بے شمار ہیں لیکن انہیں پورا کر نے والے وسائل (یعنی اشیاء وخدمات)محدود ہیں ۔ لہٰذا ضرورتوں میں انتخاب او ر وسائل میں کفایت کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے یہ مسئلہ قیمتوں کے نظام سے خود بخو د حل ہوتا رہتا ہے یعنی تمام اشیاء کی قیمتیں طلب اور رسد کی قوتوں کے باہم ملنے سے متعین ہوتی ہیں لہٰذا جزوی معاشیات کے اس حصہ میں طلب اور رسد کے مسائل زیر بحث آتے ہیں ۔ اسے نظریہ قیمت کہا جاتا ہے ۔ صارف کے رویہ کا نظریہ : صارفین یعنی عام لوگ جو اپنی ضرورت کی چیزیں خریدتے وقت روپیہ صرف کرتے ہیں جب اپنی آمدنی مختلف اشیاء و خدمات پر خرچ کرتے ہیں تو اس وقت وہ ایک طرف شے کی قیمت ، اور دوسری طرف اس شے سے حاصل ہونے والی افادہ یعنی لطف و تسکین کا موازنہ کر تے ہیں اور ہر شے اتنی مقدار میں خر ید تے ہیںکہ اس سے حاصل ہونے والا مختتم افادہ اس کی قیمت کے برابر ہوجائے (اس کی وضاحت آئندہ باب میںکی جائے گی) چناچہ جزوی معاشیات کی اس حصہ میں افادہ کا نظریہ ، طلب اور طلب کی لچک کے مسائل زیر بحث آتے ہیں اسے ’’ صارف کے رویہ کا نظریہ ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ فرم کے توازن کا نظریہ :۔ سر مایہ داری نظام معیشت میں چیزیں پیدا کرنے کے کار خانے وغیرہ ولوگوں کی نجی ملکیت میں ہوتے ہیں اس لئے اشیاء کی مقدار پیدا کرنے کا فیصلہ مختلف کا رو بار ی اور صنعتی ادارے یعنی فرمیں اپنے اپنے طور پر کرتی ہیں اور ہر فرم کوشش کر تیہے کہ متوازن کیفیت حاصل کرلے ، یعنی زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کی حد کو پہنچ جائے ۔ اس مقصد کے لئے اسے اشیاء پیدا کر نے والی عاملین (یعنی زمین مزدور اور سرمایہ وغیرہ) کو ایک خاص تناسب سے اکٹھا کر نا پڑتا ہے ۔ چنانچہ جزوی معاشیات کے اس حصہ میں یہ مسائل زیر بحث آتے ہیں: عاملین پیدا ئش کا معیاری اشتراک اشیاء پیدا کرنے کے اخراجات اور اشیاء کی فروخت سے حاصل ہونے والی قیمت یا وصولی اسے ’’ فرم کے توازن کا نظریہ ‘‘ کہا جاتا ہے ۔ تقسیم دولت کا نظریہ : انسانی ضرورت کی تمام چیزیں چار عاملین پیدا ئش کر تیار کرتے ہیں: زمین مزدور سرمایہ اور ناظم ۔ ہم سے ہر شخص ان چاروں میں سے کسی نہ کسی حیثیت میں کام کر تا ہے لہٰذا ملک میں اشیاء کی شکل میں جتنی دولت پیدا ہوتی ہے وہ انہی چاروں ، میں ان کی صلاحیت اور کا ر کردگی کے مطابق معاوضہ کے طور پر تقسیم ہوجاتی ہے چنانچہ جزوی معاشیات کے اس حصہ میں اس مسئلہ پر بحث کی جاتی ہے کہ عاملین پیدائش کے معاوضہ کی شرح کس طرح مقرر ہوتی ہے اسے دولت کی تقسیم کا نظریہ کہا جاتا ہے ۔ کلی معاشیات (یا کلیاتی معاشیات ) ’’ کلی معاشیات ‘‘ کا تصور سب سے پہلے پروفیسر کینز نے اپنی کتاب نظریہ روزگار سود اور زر میں 1935 ء میں پیش کیا ۔ اس انداز فکر کا مطلب یہ ہے کہ معاشی نظام پر بحیثیت مجموعی نظر ڈالی جائے مثلا ً قومی آمدنی قومی بچت قومی پیداوار مجموعی صرف دولت مجموعی ، سرمایہ کاری مجموعی طلب مجموعی رسد قیمتوں کی عام سطح، روگار کا معیار وغیرہ ۔ گو یا اس میں مختلف مجموعات اور اوسطوں پر غور و فکر کیا جاتا ہے اور دیکھا جاتا ہے کہ ان کا تعین کس طرح ہوتا ہے اور ان کے اتا ر چڑھائو کے کیا اسباب ہیں؟ مثلا ً قومی آمدنی اور قومی سرمایہ کا ری کی معیار کا تعین کیسے ہوتا ہے اور ان میں کی بیشی کیوں ہوتی ہے ؟ میکر و اکنا مکس کی تعریف مختلف ماہر ین نے اپنے اپنے انداز سے کی ہے مثلا ً پرو فیسر کلبر ٹ سن لکھتے ہیں ۔ ’’ میکر و اکنا مک تھیوری سے مراد ہے آمدنی روزگار قیمتوں اور زرکی تھیوری ‘‘ پروفیسر ایکلے کلی معاشیات کا مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: اس کا تعلق معاشی معاملات بحیثیت کل سے ہے ۔ اس کا رابطہ معاشی زندگی کے تمام پہلوئوںسے ہے ۔ یہ معاشی تجربہ کے ’’ ہاتھی ‘‘ کے پورے سائز شکل اور فعل پر نظر رکھتا ہے ۔ مذکورہ استعارہ کو ذرابدل کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ کلی معاشیات پورے جنگل کی نوعیت کا مطالعہ کر تا ہے اور ان درختوں کا نہیں جن پر جنگل مشتمل ہے ۔ پر و فیسر سیمو ئلسن کلی (یا کلیاتی) معاشیات کی تعریف یوں کرتے ہیں : کلی معاشیات میں معاشی مجموعات کا مطالعہ کیا جاتا ہے مثلا قومی پیداوار مجموعی روزگار ، افراط زر کی رسد وغیرہ ۔ کلی معاشیات میںمندرجہ ذیل مسائل ونظریات زیر بحث آتے ہیں: ۱۔ نظر یہ قومی آمدنی و روزگار :۔ کلی معاشیات آمدنی و روزگار یا نظریہ روزگار بھی کہا جاتا ہے اس حصہ میں اس مسئلہ پر بحث کی جاتی ہے کہ کسی ملک کی مجموعی آمدنی کیا ہے ؟ کون سے عوامل اسے متعین کرتے ہیں ؟ کیا ملک میں مکمل روزگار ہے ؟ قومی آمدنی متوازن سطح سے نیچے ہے یا اوپر ؟ وغیرہ ۲۔ قومی آمدنی میں اتار چڑھائو کا نظریہ:۔ قومی آمدنی ایک سطح پر قائم نہیں رہتی بلکہ معاشی ، زری ، مالیاتی اور نفسیاتی امور کے باعث اس میں اتار چڑھائو ہوتا رہتا ہے ۔ کبھی معاشی جدو جہد میں سر گرمی پید اہو جاتی ہے اور کبھی نرمی اس اتار چڑھائو کو تجارتی چکر بھی کہا جاتا ہے ۔ لہذا اس حصہ میں مطالعہ کیا جاتا ہے کہ کسی وقت اشیاء کی پیدا وار ، لوگوں کی قوت خرید سے زیادہ کم کیوں ہوجاتی ہے ؟ ۳۔ معاشیات زر :۔ کلی معاشیا ت میں زر (یعنی روپیہ پیسہ) زرکی قدر کے تعین اور زرکی قدر میں اتار چڑھائو کے مسائل زیر بحث آتے ہیں ۔ ملک کی اجتماعی معاشی زندگی میں ’’ زر ‘‘ اہم کر دار ادا کر تا ہے ۔ کیونکہ زر کی مقدار بڑھ جانے سے افراط زر اور زر کی مقدار کم ہو جانے سے تفریط زر کے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ روز گار اور آمدنی کی سطحیں بھی اس سے متاثر ہوتی ہیں اور ملک کے مرکزی مالی ادارے (یعنی مر کزی بنک کی معرفت زر کی مقدار اور اس کی قدر منضبط کرنے کی کوشش کی جاتی ہے) ۴۔ بین الا قوامی تجارت کا نظریہ :۔ چونکہ کسی ملک کی بین الا قوامی تجارت کا حجم او ر غیر ملکی وصولیوں اور ادائیگیوں کے توازن کے مسائل اس کی قومی آمدنی پر اثر اندا ز ہوتے ہیں لہٰذا کلی معاشیات میں بین الا قوامی تجارت کا نظریہ اور متعلقہ مسائل پر بحث کی جاتی ہے ۔ جزوی معاشیات اور کلی معاشیات کی ضرورت :۔ یہ امر قابل غور ہے کہ معاشی نظام اور اقتصادی مسائل سمجھنے کے لئے نہ تو تنہا جزوی معاشیات کافی ہے اور نہ کلی معاشیات ۔ بلکہ ان دونوں زاویہ ہائے فکر کو باہم ملاکر حالا ت و مسائل کا جائزہ لینا ضروری ہے ۔ کیونکہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی ملک مجموعی طور پر ترقی کر رہا ہو لیکن بعض صنعتیں بحران کا شکا ر اور زوال پذیر ہوں ۔ اسی طرح ایسا بھی ہوتا ہے کہ معیشت کل تعطل و جمود کا شکا ر ہو لیکن بعض صنعتیں خوب پھل پھول رہی ہوں ۔ اب ظاہر ہے کہ ان صنعتوں کا جائزہ کلی معاشیات کے زاویہ سے نہیں لیا جاسکتا ہے اور نہ ہی جزوی معاشیات کے زاویہ نظر سے ان صنعتوں کا جائزہ پوری معیشت کے لئے مفید ہوسکتا ہے ۔ چنانچہ درکار یہ ہے کہ ان دونوں زاویہ ہائے فکر کو باہم اس طرح ملایا جائے کہ معیشت کے دونوں رخ روشن ہوتے چلے جائیں ۔ دونوں طرز کے انداز ہائے فکر کے باہمی تعلق پر روشنی ڈالتے ہوئے پرو فیسر ایکلے لکھتے ہیں : درحقیقت کلی معاشیات اور جزوی معاشیات کے نظریے میںکوئی واضح خط امتیاز نہیں کھینچا جا سکتا ۔ معیشت کا حقیقی نظریہ عمومی ، ان دونوں پر حاوی ہوگا ۔ یہ نظریہ انفرادی طرز عمل انفرادی پیداواروں آمدنیوں اور قیمتوں کی وضاحت کر ے گا اور انفرادی نتائج کے مجموعے اور اوسطیں ہی ایسی مجموعات مہیا کریں گی جن سے کلی معاشیات کا تعلق ہے یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ : کلی اور جزوی معاشیات کے بنیادی مقاصد ہم آہنگ ہیں کیونکہ دونوں کی غرض و غایت یہ ہے کہ آبادی بحیثیت کل کی مادی فلاح و بہبود میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کیا جائے اور یہ مقصد صرف اس صورت میںپورا ہو سکتا ہے ۔ جب تمام موجود مادی وسائل سے ایک طرف تو زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا جائے جو کہ کلی معاشیات کا مو ضوع بحث ہے اور دوسری طرف ان وسائل کی معیاری تخصیص ہوسکے جو کہ جزوی معاشیات کا موضوع بحث ہے (پر وفیسر ایڈو رڈ شاپیرو) ۔ اکا نو میٹر کس ماہرین معاشیات نے ایک نئی تخصیصی تکنیک دریافت کی ہے جس اکا نو میٹر کس کہا جاتا ہے ۔ یہ معاشی مسائل کو حل کرنے کے لئے شماریاتی آلاتاستعمال کر تی ہے اور اس کی مدد سے ماہرین ، اعداد و شمار کے ایک بڑے انبار کو چھان پھٹک کر بالکل سادہ روابط باہم تک پہنچ جاتے ہیں ۔ اور اس طرح کی معلومات پالیسی ساز اداروں کے لئے بہت مفید ثابت ہوتی ہیں۔ معاشیات کے قوانین:۔ قانون کالفظ کئی معنوں اور کئی قسموں میں استعمال ہوتا ہے یہاں ہم ان کی وضاحت کرتے ہیں: اول : ریاستی یا سر کاری قانون: اس سے مراد وہ حکم ہے جو حکومت صادر کرتی ہے یا ملک کا کوئی قانون ساز ادارہ منظو ر کرتا ہے مثلا جرائم کے متعلق قوانین تجارت و صنعت کے متعلق قوانین مالیات او ر ٹیکسوں کے قوانین وغیرہ دوم:۔ اخلاقی قوانین :۔ ان سے مراد وہ ضابطے ہیں ، جو کسی مذہب کی جانب سے نافذ کئے جاتے ہیں یا معاشرہ خود اچھی اور بری باتوں یا نیک اور بداعمال میں تمیز کر کے اپنے اوپر لا گو کر لیتا ہے ۔ مثلا ً سچ بولنا چاہئے پورا تو لنا چاہئے پڑوسی کی خبر گیری کرنی چاہئے یاکسی کا حق نہیں مارنا چاہئے ۔ سوم:۔ سائنسی قوانین :۔ سائنسی اور طبعی زاویہ نگاہ سے دیکھا جائے تو قانون سے مراد ہے : ’’ اسباب سے اور نتائج میں اور ہر جگہ وہ ایسا ہی رہے تو اسے قانون کہا جاتا ہے مثلا کمیسٹری کا ایک قانون ہے کہ جب ہائیڈروجن اور آکسیجن گیس ، ایک خاص نسبت سے باہم ملائی جائے تو پانی بن جاتا ہے ۔ ان دوگیسوں کے ملنے اور پانی کے بننے میں جو رشتہ ہے وہ ہر حال میں قائم رہتا ہے لہٰذا یہ ایک سائنسی قانون ہے ۔ معاشیات کے بھی کچھ قوانین ہیں ، جو لوگوں کے اس طرز عمل کو بیان کر تے ہیں ، جو وہ معاشی جد و جہد کے دوران میں اختیار کرتے ہین یعنی ایسے حالات میں جب ان کی خواہشات بہت زیادہ ہوں لیکن انہیں پورا کرنے کے ذرائع محدود ہوں حالات اگر ایک جیسے رہیں تو یہ طرز عمل ہمیشہ ایک سا رہتا ہے ۔ اس لئے وہ معاشی قانون کی شکل اختیار کر لیتا ہے ۔ مثلا ً ہم دیکھتے ہیں کہ جب کسی شے کہ قیمت چڑھ جائے تولوگ اسے پہلے سے کم خریدتے ہیں اور جب کسی شے کی قیمت گرجائے تو لوگ اسے پہلے سے زیادہ خریدتے ہیں ۔ اس رجحان کی یکسانیت کے پیش نظر ایک معاشی قانون بنایا گیا ہے جسے قانون طلب کہا جاتا ہے ۔ معاشی قوانین اور سرکاری قوانین کا موازنہ:۔ سرکاری قوانین سے مراد ایسے قوانین ہیں جو ملک کا قانون ساز ادارہ (اسمبلی یا سینٹ) منظور کرتا ہے ۔ یہ ملک کا نظم و نسق بر قرار رکھنے اور حکومت کو اپنے فرائض انجام دینے میں سہولت پیدا کرنے کی خاطر بنائے جاتے ہیں لوگوں پر ان کی تعمیل لازم ہوتی ہے ۔ مثلا اگر کوئی ان کی خلاف ورزی کر ے تو اسے سزادی جاتی ہے ۔ اس غرض کے لئے پولیس اور عدالتیں قائم کی جاتی ہیں ۔ گویا سیاسی قوانین کے تین پہلو ہوتے ہیں ۔ اول قانون منظور کرنا ۔ دوم اسے نافذ کر نا اور سوم ، قانون توڑنے والے کو سزا دینا ضرورت پڑنے پر ، ان قوانین میں ترمیمیں بھی ہوتی رہتی ہیں ۔ اور یہ منسوخ بھی کر دیئے جاتے ہیں ان کے برعکس معاشی قوانین بنانے کے لئے کوئی ادارہ نہیں ہوتا ، بلکہ یہ زندگی کی حقیقتوں اور صداقتوں کے پیش نظر وجود میں آتے ہیں ۔ ان کا تعلق صرف اس بات سے ہے کہ انسان اپنے محدود وسائل سے زیادہ سے زیادہ خواہشات پوری کر نے کے لئے کون سا طرز عمل اختیار کرتا ہے ۔ مثلا کسی شے کی قیمت چڑھ جانے سے اس کی طلب میں کیا تبدیلی پیدا ہوتی ہے ، یاکسی شے کی قیمت گر جانے سے اس کی پیدا وار پر کیا اثر پڑتا ہے ، وغیرہ ۔ یہ بات قابل پید ا ہوتی ہے یا کسی شے کی قیمت گر جانے سے اس کی پیداوار پر کیا اثر پڑتا ہے وغیرہ ۔ یہ بات قابل غور ہے کہ معاشی قوانین و جبر ا نافذ نہین کیا جاسکتا ۔ مثلا اگر کوئی شے سستی ہو جائے تو کسی آدمی کو مجبور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ اس کو پہلے سے ضرور زیادہ خریدے ۔ معاشی قوانین اور اخلاقی قوانین کا موازنہ :۔ اخلاقی قوانین عموما ً کسی نہ کسی مذہب کی نمائندگی کرتے ہیں یا رائے عامہ سے وجود میں آتے ہیں ۔ مثلا اسلام نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور لوگوں کی ذہنی و قلبی پاکیزگی اور سماجی و معاشرتی اصلاح کے لئے بہت سے اخلاقی احکام وضوابط قائم کئے ہیں ان کی نوعیت دو طرح کی ہوتی ہے ، مثلافلاں کا م کر دیا فلاںکام نہ کر و جیسے سچ بولو پورا ملاوٹ نہ کرو کسی کا حق نہ مارو وغیرہ ۔ جو لوگ اخلاقی قوانین کی پابندی کر تے ہیں ، انہیں عزت سے دیکھا جاتا ہے ۔ اور جو لوگ ان کی خلاف ورزی کرتے ہیں ان کی مذمت کی جاتی ہے ۔ بعض قوانین بیک وقت اخلاقی بھی ہیں اور حکومتی بھی (مثلا سمگلنگ نہ کرو ، چور بازاری نہ کرو) کی خلاف ورزی پر سزادی جاتی ہے معاشی قوانین اور اخلاقی قوانین میں فرق ہے کہ اخلاقی قوانین مخصوص مقاصدکو سامنے رکھ کر بنائے جاتے ہیں ۔ (مثلاً خدا کی رضا جوئی یا معاشرہ کی فلاح) لیکن معاشی قوانین بعض حقیقتوں کے پیش نظر وجود میں آتے ہیں اور ان میں چاہنے یا نہ چاہنے کا دخل نہیں ہو تا مثلاً قانون طلب ، قانون رسد ، قانون تقلیل افادہ وغیرہ (ان کی تفصیل آگے آئے گی) یہ قوانین ان حقیقتوں کو جوں کا توں بیان کر دیتے ہیں تاہم کسی قوم کی ترقی کے لئے بعض ایسے معاشی اقدامات کئے جانے چاہئیں ۔ جن کا تعلق اچھے اخلاق سے ہے ۔ مثلا نفع خوری ، ذخیرہ اندوزی اور چور بازاری نہیں کر نی چاہئے ۔ دولت کی تقسیم مساویانہ ہونی چاہیے ۔ سمگلنگ بند ہونی چاہیے ، ناجائز ہڑ تالیں اور تالہ بندیاں نہیں ہونی چاہئیں ۔ غرض ملک و قوم کی خوش حالی کے لئے ضروری ہے کہ معاشی جدو جہد کی بنیاد اخلاق و دیانت داری پر استوار کی جائے ۔ اس لحاظ سے معاشی قوانین او راخلاقی قوانین کا آپس میں قریبی تعلق ہے ۔ معاشی قوانین اور سائنسی (یا طبعی ) قوانین کا موازنہ :۔ طبعی علوم (مثلا کیمیا اور طبیعیات) کے قوانین اٹل اور ہمہ گیر ہوتے ہیں لیکن معاشی قوانین اٹل نہیں ہوتے اس کی وجہ سے یہ ہے کہ طبعی علوم کا تعلق بے جان مادے سے ہوتا ہے جس کے ردعمل میں یکسانیت پائی جاتی ہے ۔ مزید برآن ان علوم کے لئے لیبارٹریوں میں عملی تجربات کیے جاسکتے ہیں اس لئے طبعی علوم کے قوانین صحیح اور یقینی ہوتے ہیں ۔ وہ حقیقت کو اصلی شکل میں بیان کر دیتے ہیں ، عددی اور مقداری نوعیت کے ہوتے ہین ، اس لئے ان کی پیش بینی بھی ہوسکتی ہے ۔ مثلا ً طبیعیات کے قانون ثقل (کشش) کی رو سے زمین ہر چیز کو اپنی طرف کھینچتی ہے ۔ اس لئے ہر بے سہارا شے زمین کی جانب گرتی ہے ۔ یہ حقیقت ہر زمانے اور ہر مقام پر درست ثابت ہوتی ہے ۔ اس لئے یہ عالمگیر اور آفاقی قانون ہے کیونکہ یہ کائنات کی ایک طبعی حقیقت کو بیان کر تا ہے ، اسی طرح کیمیا کے قوانین بعض اٹل حقیقتوں اور صداقتوں کو بیان کر تے ہیں اس لئے وہ بھی ہمیشہ درست ثابت ہوتے ہیں۔ ان کے برعکس معاشی قوانین میں انسانی طرز عمل سے بحث ہوتی ہے ۔ جس میں یکسانیت نہیں ہوتی ۔ کیونکہ انسان جذبات کا پیکر ، اور آزاد مرضی کا مالک ہے اس لئے اس کے آئندہ طرز عمل کے متعلق یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ کیا رویہ اختیار کر ے گا۔ مثلاً اگر کسی شے کی قیمت گر جائے تو ہم یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے کہ لوگ اسے ضرور پہلے سے زیادہ خریدیں گے یا اپنی طلب میں اسی نسبت سے اضافہ کر یں گے جس نسبت سے قیمت کم ہوئی ہے پر وفیسر سیمو ئلسن لکھتے ہیں۔ ’’ انسانی اور معاشرتی رویے کی پیچیدگی کے باعث ، ہم معاشی قوانین سے یہ امید نہیںرکھ سکتے کہ ان میں طبعی علوم جیسی قطعیت و صحت پیدا ہو سکتی ہے کیونکہ ہم ایک کیمیا دان یا ماہر حیاتیات کی طرح منضبط قسم کے تجربات نہیں کر سکتے ‘‘ تاہم اس ضمن میں یہ امر قابل غور ہے کہ دوسرے عمرانی علوم مثلاً سیاسیات ، نفسیات ، عمرانیات اور شہر یت وغیرہ کے مقابلہ میں معاشی قوانین زیادہ صحیح ہوتے ہیں ، کیونکہ علم معیشت کے پاس ماپ تول کے لئے ایک آلہ موجود ہے جسے زر کہا جاتا ہے اور اس کی مدد سے معاشی محرکات ، انسانی طرز عمل اور اس کے رجحانات کی کچھ حد تک پیمائش ہو سکتی ہے ۔ معاشی قوانین کی خصوصیات: معاشی قوانین مشروط نوعیت کے ہوتے ہیں ، یعنی ان کے ساتھ ہمیشہ یہ شرط لگی ہوتی ہے کہ ’’ دیگر حالات بدستور قائم رہیں ۔ گویا باقی امور میں کوئی تبدیلی نہ آئے مثلاً قانون طلب نہ ہوتا ہے کہ ’’ اگر کسی شے کی قیمت کم ہوجائے تو اس کی طلب بڑھ جاتی ہے اور اگر اس کی قیمت چڑھ جائے تو طلب کم ہوجاتی ہے بشر طیکہ دیگر حالات بدستور ہیں‘‘ (یعنی لوگوں کی آمدنی میں فرق نہ پڑے ، ان کی پسند و نا پسند میں تبدیلی نہ آئے ان کی ضرورت میںکمی بیشی نہ ہو وغیرہ کیونکہ اگر ان سے کوئی ایک بھی بدل جائے تو قانون صحیح نہیںرہتا) اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ ہر علم اپنے قوانین وضع کر تے وقت بعض مفرو ضات قائم کرتا ہے یعنی کچھ باتیں پہلے ہی فرج کر لیتا ہے اور یہ شرط لگاتا ہے کہ اس دوران میں کوئی تبدیلی واقع نہ ہو ۔ مثلا ً کیمیا کا یہ قانون ہے کہ ہائید ڑو جن اور آکسیجن گیس ملنے سے پانی پیدا ہو تا ہے ۔ لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ انہیں ایک خاص نسبت سے ملایا جائے اور اس نسبت میںکوئی تبدیلی نہ آئے ۔ یہ چیز بھی قابل غور ہے کہ معاشیات کے تمام قوانین ، مشروط نوعیت کے نہیں ہیں بلکہ بعض ایسے بھی ہیں جو بالکل طبعی علوم کے قوانین کی طرح یقینی اور قطعی ہوتے ہیں ۔ مثلا ً قانون تقلیل حاصل ، قانون ، تقلیل افادہ قانون طلب اور رسد و طلب کا توازن وغیرہ (ان قوانین کی تشریح انشاء اللہ آئندہ صفحات میں آئے گی) غرض معاشی قوانین ایسے رجحانات کے بیان کانام ہے جو بعض اسباب کے نتیجہ میں ظاہر ہوتے ہیں۔ تاہم اس بات سے یہ گمان نہیں کر لینا چاہیے کہ چونکہ معاشی قوانین کی حیثیت سے محض رجحانات کی ہے اس لئے ان کی اہمیت کم ہے ۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ کثیر افراد کے یکساں قسم کے طرز عمل پر مبنی ہو تے ہیں اور یہ لوگوں کے اس فطری اور نارمل ردعمل کو بیان کر تے ہیں جو معاشی قوتوں کے جواب میں پیدا ہوتا ہے ۔ یہ قوانین انسانی فطرت کی مضبوط اساس پر قائم ہوتے ہیں اور اگر چہ یہ فطرت کسی ایک فرد کے حوالہ سے قابل پیش گوئی نہیں ، لیکن پوری جماعت کے حوالے سے یہ بے حد طاقت ور ہے ۔ اس کا ثبوت اس بات سے ملتا ہے کہ اگر کسی ملک کا سر کاری قانون کسی معاشی قانون یعنی معاشی امور سے متعلق لوگوں کے فطری رجحان سے ٹکراتا ہو تو اس کے مقابلہ میں سر کاری قانون تادیر قائم نہیں رہ سکتا ۔ راشننگ سسٹم اس کا بین ثبوت ہے یعنی اگر کسی شے کی راش بندی کر دی جائے اور کھلے بازار کے مقابلہ میں اس کی قیمت کم رکھی جائے تو چور بازاری کا پیدا ہونا لازمی امر ہے ، اور بلیک مارکیٹ کو روکنے کے لئے حکومت کو بہت تگ و دو کرنا پڑتی ہے ورنہ جس طرح پانی نشیب کی جانب ضرور بہتا ہے اسی طرح لوگوں کی فطرت پر مبنی معاشی طرز عمل اور رجحان بھی کئی رکاوٹوں کے باوجود اپنے اظہار کا راستہ ضرور بنا لیتا ہے ۔ پرو فیسر نی ون لکھتے ہیں ۔ اگر چہ معاشی قوانین آفاقی صداقت کا دعویٰ نہیں کرتے تاہم ان کا انسانی فطرت اور مشاہدہ کے ساتھ گہر اتعلق ہے ۔ اور اگرچہ اوقات انسانی فطرت میں کچھ تبدیلی ممکن ہوتی ہے لیکن یہ کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ اس بحث سے مندرجہ ذیل باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ ۱۔ قطعی اور یقینی نہیں ہوتے :۔ معاشیات کے قوانین قطعی اور یقینی نہیں ہوتے کیونکہ معاشیات کا تعلق مادے سے نہیں بلکہ انسان کے طرز عمل سے ہوتا ہے اسی وجہ سے یہ کہا جاتا ہے کہ معاشی قوانین اوسطاً صحیح ہوتے ہیں اور مطلقا درست نسبتوں کو بیان نہیں کرتے ۔ اسی لئے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ’’ معاشیات کے قوانین مد وجزر کے قوانین کے مشابہ ہوتے ہیں ۔ ۲۔ پرکھنا ممکن نہیں:۔ معاشی قوانین کی صداقت کو کسی تجربہ گاہ (یعنی لیبارٹری) میں رکھا نہیں جاسکتا اس لئے یہ سوفی صدی صحیح نہیں ہوتے ۔ ۳۔ سبب و نتیجہ کا رشتہ : معاشی قوانین ایسے رجحانات کو بیان کر تے ہیں جو کسی سبب اور اس کے رد عمل کے طور پر ظاہر ہونے والے ، تنیجہ کے باہمی رشتے کو ظاہر کر تے ہیں ۔ جیسے کسی شے کی قیمت بدل جانے سے اس کی طلب یا رسد بال جاتی ہے ۔ ۴۔ مشروط ہیں : معاشی قوانین مشروط ہوتے ہیں ، یعنی یہ بعض مخصوص حالات میں ہی درست ہوتے ہیں ان کے بغیر نہیں گویا یہ کچھ مفر و ضات (یعنی فرض کی ہوئی باتوں) پر مبنی ہوتے ہیں ۔ بنیادی مفروضہ اور شرط یہ ہے کہ دیگر حالات جو ںکے تو ں رہیں ۔ ۵۔ پیش بینی ممکن نہیں: معاشی قوانین کی پیش بینی نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ عددوں اور مقداروں کی شکل اختیار نہیں کر سکتے ۔ تاہم اب معاشی نظریات و حقائق ممکن حد تک ریاضیاتی شکلوں میں پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ۶۔ خلاف ورزی کاانجام : معاشی قانون کی خلاف ورزی کر نے والوں کو سزا نہیں ملتی ۔ البتہ جس قانون کی حیثیت بیک وقت سر کاری اور اخلاقی قانون کی بھی ہو ، اس کی خلاف ورزی پر سزا واجب ہوتی ہے ۔ ۷۔ نسبتاً صحیح تر ہیں: آلہ پیمائش یعنی زر کی بدولت بعض قوانین کافی حد تک صحیح ثابت ہوتے ہیں۔ قانون طلب اور قانون رسد میں آلہ زر استعمال ہوتا ہے ۔ ۸۔ بعض صداقت عامہ جیسے ہیں: معاشیات کے بعض قوانین حقائق پر مبنی ہوتے ہین جن سے انکار ممکن نہیں گویا ان کی حیثیت صداقت عامہ جیسی ہوتی ہے ۔ ایک امریکی ماہر معاشیات نے کیا خوب لکھا ہے کہ اگرچہ معاشی اور قوانین کی نوعیت اندازوں اور تخمینوں کی سی ہوتی ہے ۔ لیکن اس کے با وجود معاشیات کئی اہم باقاعدگیوں اور درست اصولوں سے متصف ہے۔ معاشی قوانین بنانے کے طریقے : معاشی قوانین اخذ کرنے یعنی بنانے کے لئے مندرجہ ذیل دو طریقے اختیار کئے جاتے ہیں ۔ ۱۔ استخراجی طریقہ استدلال اس سے مراد یہ ہے کہ کسی عام اور مسلمہ حقیقت جسے سبھی تسلیم کرتے ہوں کو سامنے رکھ کر کوئی خاص نتیجہ نکالنا۔ مثال کے طور پر یہ ایک عام حقیقت ہے کہ تمام فانی ہیں اور اسلم بھی انسان ہے اس لئے وہ بھی فانی ہے ۔ گویا ہم نے ایک عام حقیقت سے ایک خاص حقیقت دریافت کی ہے ۔ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ جب لوگوں کی آمدنی بڑھ جائے تو وہ پہلے سے زیادہ چیزیں خریدتے ہیں اور چونکہ اکرم بھی ایک آدمی ہے ۔ اس لئے اگر اس کی آمدنی بڑھ جائے تو وہ بھی پہلے سے زیادہ مقدار خریدے گا ۔ اس طریقہ استدلال کی خوبی یہ ہے کہ یہ بت سادہ اور یقینی ہے بشرطیکہ جن عام حقیقتوں سے کوئی نتیجہ نکالا جائے وہ درست ہوں ۔ لیکن یہ شرط بہت بڑی ہے کیونکہ ہوسکتا ہے جن حقائق کو بنیاد بنایا گیا ہو وہ سب کی سب یا ان میں سے بعض غلط ہوں اس لئے ان حقائق سے نکالے گئے نتائج بھی درست نہیں ہوسکتے ۔ مثلا مذکورہ مثال میں ہوسکتا ہے کہ جب لوگوں کی آمدنی بڑھ جائے تو وہ پہلے سے زیادہ خریدنے کے بجائے اور اپنی زائد آمدنی بچا کر رکھ اور اخراجات نہ بڑھائیں ۔ استقرائی طریقہ استدلال اس سے مراد یہ ہے کہ حالات کا مشاہدہ کر کے پہلے چند حقائق جمع کر لئے جائیں ان کی صداقت پر کھ لی جائے اور پھر ان مخصوص حقائق سے ایک عام نتیجہ نکال لیا جائے یعنی حقائق میں ’’ سبب اور نتیجہ ‘‘ کا ایک رشتہ قائم کر دیا جائے ، گو یا استخراجی طریقہ میں ہم عام حقیقت سے ایک خاص حقیقت تک پہنچتے ہیں لیکن استقرائی طریقہ میں خاص حقیقت سے ایک عام حقیقت تک پہنچتے ہیں مثال کے طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ جب دودھ کی قیمت بڑھ جائے تو اسلم پہلے سے کم خرید تا ہے اکرم اور اختر بھی کم خرید تے ہیں ، کئی اور لوگ بھی ایسا کرتے ہیں چنانچہ اس بات سے اہم ایک عام اصول بنا لیتے ہیں کہ جب کسی شے کی قیمت بڑھ جائے تو سب لوگ پہلے سے کم خرید تے ہیں ۔ اس طریقہ کی خوبی یہ ہے کہ ہم قانون کی بنیاد ایسی حقیقتوں پر قائم کر تے ہیں ، جن کی اچھی طرح چھان بین اور جانچ پڑتا کر لی جاتی ہے۔ مثلا ہم چند افراد کا معاملہ دیکھتے ہیں اسے پر کھتے ہیں اور پھر یہ نتیجہ نکال لیتے ہیں کہ سبھی لوگ یہی طرز عمل اختیار کر تے ہیں البتہ اس طریقے میں یہ کمزوری پائی جاتی ہے ۔ کہ ہوسکتا ہے کہ ہم نے جن افراد کی مثال دیکھی ہو وہ ایک عام اصول قائم کر لینے کے لئے کافی نہ ہو بلکہ بعض افراد ایسے ہوں جو آمدنی بڑھ جانے کے باوجود زیادہ اشیاء نہ خریدتے ہوں اسی صورت میں ہمارے بنائے ہوئے قانون کی بنیاد کمزور پڑجائے گی ۔ تاہم یہ بات قابل غور ہے کہ دور جدید میں استقرائی طریقہ استدلال ، کچھ حد تک ضرور کا میاب ہوتا نظر آتا ہے کیونکہ اسے علم شماریات کا تعاون حاصل ہوگیا ہے اب ضروری نہیں کہ صرف نظر آٹا ہے کیونکہ اسے علم شماریات کا تعاون حاصل ہوگیا ہے اب ضروری نہیں کہ صرف ایک مخصوص علاقہ کے بارے میں حقائق جمع کئے جائیں ، بلکہ ایک ہی ملک کے مختلف علاقے منتخب کر لئے جاتے ہیں اور وہاں نمونے کے طور پر حقائق کا مشاہد ہ کیا جاتا ہے دور حاضر میں تمام حکومتیں ملک کی معاشی ترقی کے سلسلے میں مختلف قسم کے اعداد و شمار فراہم کر تی ہیں جن کی مدد سے بڑے بڑے نتائج اخذ کر لئے جاتے ہیں اور پھر ان کی روشنی میں مستقبل کی راہ متعین کی جاتی ہے۔ دونوں طریقوں کی افادیت: مذکورہ بحث سے اہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ چونکہ استدلال کے مذکورہ بالا دونوں طریقوں میں کوئی نہ کوئی کمزوری پائی جاتی ہے اس لئے کسی ایک پر دار و مدار کر نے کی بجائے دونوں کو پہلو بہ پہلو استعمال کرنا چاہئے تاکہ ایک کی خامی دوسرے کی خوبی سے دو ر ہوجائے چنانچہ جدید ماہرین ان دونوں طریقوں کو ساتھ ساتھ رکھتے ہیں ۔ پر و فیسر سیمو لسن لکھتے ہیں۔ ’’ علم معاشیات منطق اور جیو میٹری (یعنی علم ہندسہ) کے استخراجی طریقے بھی استعمال کر تا ہے اور شماریاتی اور تجربی استنباط کے استقرائی سے بھی فائدہ اٹھاتا ہے ۔ معاشیات کے مطالعہ کے فوائد : معاشیات کے مطالعہ سے ہمیں علمی اور عملی دونوں قسم کے فائدے حاصل ہوتے ہیں پہلے ہم اس کے علمی فوائد کا ذکر کر تے ہیں: ۱۔ ذہنی نشوونما: معاشیات کے مطالعہ سے انسانی ذہن نشوونما پاتا ہے دماغی صلاحتیں اجاگر ہوتی ہیں اور غور فکر کی قوت تیزہوتی ہے معاشیات کا طالب علم روزمرہ زندگی میں رونما ہونے والے حالات و واقعات کا بغور مشاہدہ کرتا ہے ضروری حقائق فراہم کرتا ہے ان کا تجزیہ کرتا ہے اور انہیں ایک خاص ترتیب دینے کے بعد ان سے اہم نتائج اخذ کرتا ہے چنانچہ اس میں مسائل کا تجزیہ کرنے کے اور تحقیق و تجسس کا شوق فروغ پاتا ہے ۔ مفید معلومات: عہد حاضر میں کسی شخص کی تعلیم معاشیات کی سوجھ بوجھ رکھے بغیر مکمل اور فائدہ مند نہیں ہوسکتی ۔ کیونکہ روز مرہ کے واقعات جو ہماری اردگرد رونماہوتے رہتے ہیں ان کا معاشیات سے بڑا قریبی تعلق ہے مثال کے طور پر : پرائس کنٹرول افراط زر منصوبہ بندی ٹکس ، بجٹ معاشی ، بحران کساد بازاری یعنی کا روبار کا ماند پڑ جانا غیر ملکی قرضے اور امداد قلت خوراک زرعی اصلاحات روپیہ کی قدر کا گھٹنا بڑھنا اور قیمتوں کا اتار چڑھائو وغیرہ۔ ۱۔ معاشی مسائل کا حل : معاشیات کا مطالعہ کے معاشی مسائل حل کر نے میں مدد دیتا ہے اس وقت پاکستان کئی مشکلات سے دوچار ہے مثلا قلت پید اوار ، زرعی اور صنعتی پسماندگی افراط ، زر مہنگائی بے روزگاری بیرونی تجارت میں عدم توازن ، زر مبادلہ کی قلت بیرونی قرضہ پست معیار زندگی اور غیر مساوی تقسیم وغیرہ ۔ یہ مسائل کی قومی ترقی کی راہ میں حائل ہیں جب تک ان کے اسباب کا پتانہ لگایا جائے تب تک انہیں حل نہیں کیا جاسکتا ۔ معاشیات کا مطالعہ ماہرین کو اس قابل بناتا ہے کہ وہ ان مسائل پر سنجیدگی سے غور کر یں اور ان کو حل کر نے کے لئے مناسب طریقے بتائیں۔ ۲۔ غربت کا علاج: پسماندہ ممالک غربت کے منحوس چکر میں مبتلا ہیں ۔ ان کی ترقی کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ زیادہ سر مایہ فراہم کریں اور اس کی مدد سے نئے نئے کا ر خانے قائم کر یں ۔ لیکن چونکہ ان ممالک کے لوگ غریب ہیں اور زیادہ روپیہ پس انداز نہیں کر سکتے ، اس لئے وہ کافی مقدار میں سر مایہ بھی اکٹھا نہیں کر سکتے ۔ چنانچہ معاشیات کے مطالعہ سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ملک کے اندر یا باہر سے کس طرح سرمایہ دارانہ ہوسکتا ہے ۔
تقسیم دولت میں عدم مساوات کا علاج: اس وقت تقریباً تمام سرمایہ دارانہ نظام والے ملکوں میں غیر مساوی تقسیم دولت کا مسئلہ پیدا ہو چکا ہے ۔ یعنی امرانہ اور غرباء کا باہمی فرق بڑھتا جارہاہے جس سے معاشرتی اور سیاسی خرابیاں پیدا ہونے کا خطر ہ بڑھ گیا ہے اور اس مسئلہ کو حل کرنے کے لئے معاشیات کا مطالعہ بہت ضروری ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے کہ دولت صرف امیر طبقہ میں ہی نہیں گھومتی رہنی چاہیے۔ اسلام نیجو معاشی نظریہ دیا ہے اس کی رو سے تقسیم دولت کی ناہمواریاں دور کرنے کے لئے کئی عملی اقدامات واجب قرار دیئے گے ہیں مثلا سود حرام کیا گیا ہے زکوٰۃ فرض کی گئی ہے اموال غنیمت میں سے خمس (یعنی پانچواں حصہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کیلئے) نکالنے کا حکم دیا گیا ہے نفلی صدقات و خیرات کی تاکید کی گئی ہے میراث کا ایسا قانون بنایا گیا ہے کہ ہر مرنے والے کی چھوڑی ہوئی دولت زیادہ سے زیادہ وسیع دائرے میںپھیل جائے وغیرہ ۔ ان تعلیمات پر عمل کر نے کی برکت سے معاشرہ میں وسیع عدم مساوات پیدا نہیں ہوسکتی ۔ ۴۔ خرچ اور بچت میں اعتدال: معاشیات کے مطالعہ سے فرد قوم کو یہ رہنمائی ملتی ہے کہ آمدنی اور خرچ میں ایک عمدہ توان قائم رکھنا چاہیے ، یعنی نہ توبے تحاشا خرچ کر کے ساری آمدنی ختم کر دینی چاہئے (کہ آئندہ کے لئے کچھ نہ بچے) اور نہ بخل کر کے جائز ضروریات کی تکمیل سے محروم رہنا چاہئے ۔ بلکہ اسرا ف (یعنی ضروریات سے زیادہ کرچ ) اور بخل دونوں بری باتیں ہیں لہٰذ ا دونوں سے دامن بچانا چاہئے ۔ یعنی خرچ میں بھی اعتدال ہونا چاہئے اور پس اندازی میں بھی کیونکہ صرف اسی طرح قومی معیشت مضبوط مستحکم ہو سکتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے ۔ (اہل ایمان ایسے لوگ ہیں ) جو خرچ کرتے وقت یہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل ،بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہائوں کے درمیان ، اعتدال پر قائم رہتا ہے ۔ ۵۔ ذرائع کا بہتر استعمال : چونکہ انسان کے معاشی ذرائع کمیاب ہیں اس لئے ضروری ہے کہ انہیں اس انداز سے استعمال کیا جائے کہ ان سے حتی الامکاں زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھایا جا ئے ۔ یہ طریقہ معاشیات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ۶۔ معاشی منصوبہ بندی : آج کل ہر ملک میں معاشی منصوبہ بندی کا چر چا ہے کیونکہ اس کی معرفت ملک کے مادی وسائل کو بہتر انداز سے استعمال کر کے قومی آمدنی میں اضافہ کیا جاسکتا ہے پاکستان بھی اس راہ پر گامزن ہے ۔ اس نے جولائی 1955 سے جون 1998 تک آٹھ پانچ پانچ سالہ منصوبہ بنائے ۔ معاشیات کا مطالعہ منصوبہ بندی کے معاملہ میں ہماری رہنمائی کرتا ہے ۔ ۷۔ بحران کے بغیر معاشی ترقی: ترقی یافتہ اور جدید ممالک کے سامنے یہ مسئلہ ہے کہ کون ساطریقہ کا ر اختیار کیا جائے کہ معاشی ترقی کی رفتار مستحکم ہوجائے اور لوگوں کی معاشی زندگی کا معیار بہتر ہوجائے لیکن معاشی بحران قیمتوں کا اتار چڑھائو اور وسیع بے روزگاری رونمانہ ہونے پائے ۔ یہ طریقہ کا ر بھی معاشیات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے ۔ ۸۔ غیر صنعتی معیشتوں کی ترقی۔ معاشیات کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ ایسے ممالک جنہوں نے ابھی صنعتی میدان میں قدم نہیں رکھا ، جن میں آبادی کی کثرت ہے لیکن قدرتی ذرائع کی قلت ، وہ غربت کے ’’ منحوس گرداب ‘‘ کو کس طرح توڑ سکتے ہیں ، ایسی پالیسیاں اور پر وگرام کیسے بنائے جا سکتے ہیں جن سے معاشی نشو ونما اور ترقی کی رفتار تیز ہوجائے ۔ ۹۔ ملکی سالمیت کی اسا س : کسی ملک کی خود مختار ی اور سالمیت کی بڑی حد تک دار و مدار ، اس کی معاشی خوش حالی اور استحکام پر ہے ، کیونکہ غریب اور صنعتی اعتبار سے پس ماندہ ممالک ، بیرونی استعماری قوتوں کے استحصال ہتھکنڈوں کا جلد شکار ہوجاتے ہیں ۔ اس لئے ملکی سلامتی اور بقاء کے لئے معاشی خوشحالی حاصل کر نے چاہئے ۔ ۱۰۔ مل جل کر رہنے کی تلقین: معاشیات عمرانی علم ہے ۔ اس کا موضوع ان لوگوں کی جدو جہد ہے جو معاشرہ کے اندر رہ کر جوش حال اور ترقی پذیر زندگی مو ضوع ان لوگوں کی جدوجہد ہے جو معاشرہ کے اندر رہ کر خوش حال اور ترقی پذیر زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں اس میں بے فکروں گداگروں اور گوشہ نشینوں کے مسائل زیر بحث نہیں آتے لہذا یہ انسانوں کو مل جل کر رہنے کی تلقین کرتا ہے ۔ لوگوں کو ان کے معاشرتی حقوق و فرائض سے آگاہ کر تا ہے اور انہیں اچھا شہر ی بننے میں مدد دیتا ہے ۔ ۱۱۔تاجروں کے لئے اہمیت: معاشیات کا مطالعہ تاجروں اور صنعت کا روں کے لئے بھی بڑا اہم ہے ۔ کاروبار کی گرمی اور سردی ، در آمدو برآمد کے معاملات رسد اور طلب میں کمی پیشی قیمتوں میں اتار چڑھائو ، ٹیکسوں میں کمی اور اضافہ یہ اور اس قسم کے کئی مسائل ایسے ہین جنہیں سمجھنے کے لئے معاشی اصولوں سے واقفیت ضروری ہے ۔ ۱۲۔قومی رہنمائوں کے لئے اہمیت: معاشیات کا مطالعہ ملک کے سیاسی و سماجی رہنمائوں کے لئے بہت ضروری ہے ماضی پر نظر ڈالنے سے یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ سیاسی عدم استحکام اور سماجی برائیوں کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ معاشی نظام میں کچھ خرابیاں پائی جاتی ہیں مثلا دولت چند ہاتھوں جمع ہوگئی ہے ، بے روز گاری عام ہے قیمتیں بلند ہوتی جا رہی ہیں ، اجر توں میں مطلوبہ اضافہ نہیں کیا گیا وغیرہ ۔ لہٰذا ملک میں مستحکم نظام کے قیام اور معاشرتی خرابیوں کی روک تھام کے لئے ان اسباب کو ختم کرنا ضرروی ہے ۔ جو خرابی کا موجب ہیں۔ اگر ملک سے بھوک ، ننگ، غربت جہالت بیماری اور بے روزگاری ختم کر دی جائے تو بہت سے معاشرتی مسائل خود بخود حل ہو جائین ۔ چنانچہ سیاسی اور معاشرتی رہنمائوں کے لئے معاشیات کا مطالعہ ضروری ہے۔ ۱۳۔ عام شہریوں کے لئے اہمیت: معاشیات کا مطالعہ عام شہریوں کے لئے بھی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ اس کے مطالعہ سے وہ اس قابل ہوجاتے ہیں کہ کسی معاشی مسئلہ کے بارے میں اچھی رائے قائم کر سکیں حکومت کے معاشی فیصلوں کی خوبیوں اور خامیوں کو پر کھ سکیں ۔ ان پر رائے زنی کر سکیں اپنے مسائل کو حکومت تک اچھی طرح پہنچاسکیں ، اور ان کا حل بھی تجویز کر سکیں نیز حکومت کے معاشی منصبوں کی تکمیل میں تعاون کر سکیں۔ ۱۴۔ مزدوروں کے لئے اہمیت: معاشیات کا مطالعہ مزدورون اور مزدور رہنمائوں کے لئے بھی نفع بخش ہے ۔ اس سے ان پر یہ حقیقت روشن ہوجاتی ہے کہ انہیں اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے کس طرح تگ و دو کرنی چاہئے ۔ مختصراً معاشیات جو کہ ایک سائنس بھی ہے اور فن بھی مطالعہ کئی مقاصد کی خاطر کیا جا تاہے مثلا : ایک عام شہر ی اور کنبہ کو درپیش مسائل سمجھنے کے لئے ۔ پسماندہ اور ترقی یافتہ اقوام کی حکومتوں کو اس معاملہ میں مد ددینے کے لئے کہ کساد بازاری اور افراط زر سے بچتے ہوئے معاشی ترقی اور معیار زندگی بلند کر نے کا طریقہ کیا ہے ۔ معاشرتی رویہ کے پر افسوں طور طریقوں کا تجزیہ کر نے نیز آمدنی اور مواقع کی تقسیم میں نا مساواتوں کو سمجھنے اور بدلنے کے لئے ۔ معاشیات کا مطالعہ صرف حصول ’’ علم ‘‘ کی خاطر نہیں کیا جا تا بلکہ اس مرہم کے لئے کیا جاتا ہے جو یہ (معاشی) زخموں کے واسطے مہیا کر تا ہے ۔ ترقی پذیر ملک کے لئے اہمیت: پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے باشندوں کے لئے معاشیات کا مطالعہ بہت ضروری ہے اس سے مراد ایک ایسا ملک ہے جس کے پاس معاشی ترقی کے وسائل کم ہوں یا اگر ایسے وسائل موجود ہوں تو ان سے ابھی پورے طور پر فائدہ نہ اٹھایا گیا ہو ، جس کے نتیجہ میں وہاں کے باشندوں کی آمدنی اور معیار زندگی دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں ، مثلا امریکہ انگلینڈ اور جاپان وغیرہ کے مقابلے میں پست ہو ۔ ترقی پذیر ملکوں کی نمایاں اقتصادی خصو صیات حسب ذیل ہیں۔ ان میں فی کس آمدنی کم ہے آبادی کی افراط ہے لوگوں کی قوت کا ر پست ہے ، تخصیص کار محدود ہے ناظمانہ صلاحیتوں کی کمی ہے سرمائے اور فنی ماہروں کی قلت ہے بہت سے ذرائع پیدائش بے کار پڑے ہوئے ہیں برآمدات میں زیادہ تر خام مال شامل ہوتا ہے بیر ونی تجارت کا توازن خراب ہوتا ہے سب سے بڑا پیشہ اور ذریعہ روزگار زراعت ہے مشینوں کااستعمال کم ہوتا ہے دولت کی تقسیم غیر مساوی اور غیر منصفانہ ہے چنانچہ پس ماندہ ملکوں ہوتا ہے دولت کی تقسیم غیر مساوی اور غیر منصفانہ ہے ۔ چنانچہ پس ماندہ ملکوں کے مسائل حل کرنے اور انہیں ترقی کی راہ پر ڈالنے کیلئے معاشیات سے رہنمائی حاصل کرنا ضروری ہے معاشیات کے مطالعہ سے ماہرین کو پتہ چل جاتا ہے کہ اپنے وسائل سے پو را پورا فائدہ اٹھانے کے لئے کس طرح منصوبہ بندی کی جائے سرمائے کی قلت دور کر نے کے لئے کفایت شعار ی اور پس اندازی کیسے کی جائے ۔ زرعی ، صنعتیِ بنکاری اور تجارتی ترقی کے لئے کون سے اقدامات ضروری ہیں ۔ ٹیکسوں کا نظام کیسے بہت بنایا جاسکتا ہے ۔ ضردوروں کی کام کرنے کی صلاحیت کو کس طرح بڑھایا جا سکتا ہے ۔ قومی آمدنی میں اضافے کے کیا طریقے ہیں افراط زر پر کیسے قابو پایا جا سکتا ہے ۔ اور بیر روزگاری کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے ۔ ان لو گوں کو معاشیات کے مطالعہ سے وہ سارے فوائد حاصل ہوتے ہیں جن کا اوپر ذکر ہوا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ معاشیات انسان کے اختیار کر دہ قدیم ترین فنون میں سے اولین فن ہے ۔ البتہ علوم کی صف میں یہ بالکل جدید ترین ہے اور اب تو اسے معاشرتی علوم کی ملکہ تصور کیا جاتا ہے مختصرا ً معاشیات کے مطالعہ سے انسان کی معاشی زندگی کو زیادہ پر آسائش بنا نے کے لئے پالیسی وضع کر نے کی صلاحیت ہو جاتی ہے ۔ پوری دنیا کے ممالک کے ممالک کو معاشی ترقی خوشحالی قومی آمدنی اور معیار زندگی کے لحاظ سے تین زمروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے پہلے گر و ہ میں انتہائی ترقی یافتہ ممالک شامل ہیںریاست ہائے متحدہ امریکہ کینیڈا انگلستان جر منی فرانس سوئٹزر لینڈ ، جاپان وغیرہ ۔ ان ممالک کی سالانہ اوسط فیکس آمدنی دس ہزار ڈالر سے زیادہ ہے دوسرے گروہ میں یہ ممالک شامل ہیں : کو ریا ، ملائیشیا فلپائن تھائی لینڈ ترکی ، یونان جنوبی افریقہ ، ایران مراکش وغیرہ ۔ ان کی فی کس آمدنی چھ سو ڈالر سے زیادہ ہے تیسرے گروہ میں یہ ممالک شامل ہین ۔ پاکستان بھارت بنگلہ دیش حبشہ ، تنزانیہ وغیرہ ۔ ان کی فی کس آمدنی چھ سو ڈالر سے کم ہے ۔ انہیں تیسری دنیا کے ممالک بھی کہا جاتاہے ۔ دیگر زیر ترقی ممالک کی طرح پاکستان کے بڑے بڑے مسائل یہ ہیں پست فی کس آمدنی بچت اور سر مایہ کاری (یعنی تشکیل سرمایہ) کی سست رفتار بے روزگاری برا ٓمدات کی کمی زر مبادلہ کی قلت ، زرع اور صنعتی شعبہ کی کم پیداوار یت افراط زر بیرونی قرضوں کا بوجھ ادائیگیوں کے توازن میں خسارہ وغیرہ ۔ ان مسائل کو حل کر نے کے لئے معاشی تدابیر اور موثر اقدامات کئے جاسکتے ہیں مثلاً : ٭ فی کس آمدنی میں اضافہ کے لئے اشیاء وخدمات کی پیدا وار بڑھائی جائے اقتصادی منصوبہ بندی اور بہبود آبادی پر توجہ دی جائے زرعی و صنعتی کا ر کنوں کی استعداد اور کا ر کر دگی میں تعلیم ، فنی تربیت اور طبی سہولیات کے ذریعے اضافہ کیا جائے تقسیم دولت میں اعتدال و توازن پیدا کیا جائے ۔ ٭ سرمایہ اندوزی کی رفتار تیز کرنے کے لئے پس اندوزی کی مہم چلائے جائے سادگی اور کفایت شعاری پر زور دیا جائے ۔ نیز بنکاری اور مالیاتی ادارے قائم کئے جائیں جو بچتیں اکٹھی کر کے تجارتی اور صنعتی شعبہ کو مہیا کر یں ۔ ٭ بے روزگاری ختم کرنے کے لئے لوگوں کو مختلف تکنیکی علوم و فنون میں ترتیب ومہارت دی جائے جدید ٹیکنالوجی کے ہنر سکھائے جائیں ۔ علاوہ ازیں دیہات میں چھوٹے پیمانے کی صنعتیں اور دستکاری مراکز قائم کئے جائیں ۔ ٭ افراط زر کی روک تھام کے لئے ضروری ہے کہ ایک طرف اشیاء کی پیداوار بڑھائی جائے اور دوسری طرف غیر ضروری و تعیشاتی اخراجات ختم کئے جائیں ۔ نیز خسارے کی سرمایہ کاری کو کنٹرول کیا جائے ۔ ٭ زرمبادلہ کی قلت دور کرنے کے لئے ضروری ہے کہ برآمدات میں اضافہ اور درآمدات میں کمی کی جائے ۔ مختصر اً معاشیات کے مطالعہ سے ہم اتنی بصیرت حاصل کر سکتے ہیں کہ تدبر اور حکمت سے کام لے کر ایک خوشحال اور اونچ نیچ سے پاک معاشرہ قائم کر لیں ۔