علی روئی ۔ حصہ اول
علی روئی
حصہ اوّل
اخذ کار:منصور آفاق
آغازیہ
یہ ایک چینی کہانی ہے جسے میں نے ترجمہ کرتے ہوئے پاکستانی کہانی بنانے کی کوشش کی ہے۔ اگرچہ یہ بات ترجمہ کرنے کے بنیادی اصول کے خلاف ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ تخلیقی عمل قواعد و ضوابط کا پابند نہیں ہو سکتا۔ اس میں تہذیبی اور ثقافتی سطح پر تبدیلیاں کی گئی ہیں کیونکہ میرے نزدیک یہ کہانی عام لوگوں کےلئے ہے۔ ویسے میں یقین رکھتا ہوں کہ اسے خواص بھی پڑھیں گے۔ مجھے یاد ہے جس زمانے میں ابن صفی عمران سریز اور جاسوسی دنیا لکھا کرتے تھے تو بڑے بڑے اس کی کتابیں لوگوں سے چھپ کر پڑھا تھا۔ میرا ایک عزیز جو ایک کالج کا پرنسپل تھا اس نے مجھے خاص طور پر کہہ رکھا تھا کہ جیسے ہی ابن صفی کا نیا ناول آئے تو اس کی کاپی میرے لئے بھی خریدنا مگر بتانا کسی کو نہیں ۔یہ کہانی جاسوسی کہانی نہیں۔ اسے داستان امیرحمزہ یا طلسمِ ہوش ربا کے قبیل کی کہانی کہا جاسکتا ہے۔ میں یہ بات تسلیم کرتا ہوں کہ انسانی زندگی سے اس کہانی کا تعلق اس طرح نہیں جس طرح ادبی کہانیوں کا ہوتا ہے مگریہ انسانی عظمت کی داستان ہے۔ یہ اس بات کا قصہ ہے کہ انسان کس حد تک عظیم ہو سکتا ہے۔ وہ کیسے دیوتائوں کو اپنے پائوں تلے روند سکتا ہے۔ اس کے عزم و ہمت کے سامنے لافانی مخلوقات کیسے زوال پذیر ہوسکتی ہیں۔ وہ موت کو کیسے شکست دے سکتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ علی روئی کا کردار اسی طرح زندہ رہے گا جیسے عمران سیریز کے علی عمران اور جاسوسی دنیا کے کرنل فریدی کا کردار کبھی مر نہیں سکتا۔ جیسے عمرو عیار دماغ میں ثبت ہوکر رہ گیا ہے۔ یہ کہانی جس لینڈ سکیب پر بُنی گئی ہے وہ بھی نیا ہے۔ اس کا صرف تصور کیا جاسکتا ہے، جاگتی آنکھوں سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ اس کے کچھ حصے ہماری قدیم مافوق الفطرت لوک داستانوں سے ضرور ملتے جلتے ہیں مگراس کا زمانہ ہمارا زمانہ ہے۔ میں قطعاً یہ بھی نہیں کہہ رہا کہ اسے علامتی سطح پر دیکھنے کی کوشش کی جائے مگر دیکھا بھی جاسکتا ہے۔ کیونکہ پڑھنے والے کا ایک اپنا دماغ ہوتا ہے۔ وہ ہر کہانی اپنی سطح کے مطابق پڑھتا ہے اور اسی طرح کے مفہوم اخذ کرتا ہے۔ جہاں تک مجلس ترقی ادب کی طرف سے اس کہانی کی اشاعت کا تعلق ہے تو اس ادارے نے اس کہانی کو اس لئے بھی شائع کیا ہے کہ یہ بہت زیادہ فروخت ہونے والاناول ثابت ہوسکتا ہے اور مجلس ترقی ادب کو کچھ ایسی کتابوں کی اشد ضرورت ہے جوہزاروں کی تعداد میں فروخت ہوں۔
منصور آفاق
پہلا باب
ایک اوردائرے میں گرا ہوا آدمی
انسان کائنات کی خوفناک ترین مخلوق ہے
یہ بریڈ فورڈیونیورسٹی کیمپس کا منظر ہے۔اوپن ایئر باسکٹ بال کورٹ میں بہت سارے سامعین جمع تھے۔ علی روئی نے منگول اور سائمن کو حیرت سے دیکھا کہ یہ بھی یہاں موجود ہیں ۔علی روئی فوراً۔آگے بڑھا اور کہا:
’’تم دونوں۔۔۔‘‘۔
منگول نے صرف طنزیہ نظروں سے اسے دیکھا۔علی روئی یہ دیکھا رویہ قدرے غیر آرام دہ لگا۔پیچھے سے آواز آئی، چن روئی نے پنڈال کے دوسرے آدھے حصے کی طرف دیکھا، کوئی اسے مائیکل اشارہ کر رہا تھا۔وہاں مائیکل کے علاوہ! رافیل اور گبرائیل بھی موجود تھے۔ علی روئی نے سوچا کہ انہیں یہاں نہیں ہونا چاہئے تھا ۔ جیسے ہی کھیل ختم ہوا ۔ مائیکل کورٹ سے نکلا اور اس نے علی روئی کو بازور سے پکڑ کراپنی طرف کھینچ لیا۔اسے اندازہ ہو چکا تھا کہ وہ ناراض ہے ۔ کہنے لگا ۔تمہارا موڈ یونہی خراب ہے ۔مگر علی روئی خاموش رہا۔وہ چلتے ہوئے لائبریری میں آ گئے جہاں بہت سے طالب علم موجود تھے۔علی روئی بولا:
’’اچھا کیا یہاں لے آئے ہو ۔مجھے الہیات کی تاریخ اورابدی زندگی پرکچھ کتابیں ضرورت تھیں‘‘۔
گبرائیل نے اونچی آواز میں کہا:
’’ابھی یہ پاگلوں والاخیا ل تمہارے دماغ سے نکلا نہیں؟‘‘۔
علی روئی غصے سے بولا:
’’ میرا ساتھ نہیں دے سکتے تو مجھے روکو مت ‘‘۔لائبریری میں اونچی آواز میں چیخنا منع ہے‘‘۔
اس کے پیچھے ایک لاتعلق خاتون کی آواز آئی، علی روئی کچھ کتابیں لے کر ایک میز پر آکر بیٹھ گیا۔ آس پاس کے طلبہ اٹھ کر چلے گئے۔ رفتہ رفتہ ارد گرد بیٹھے ہوئے طالب علم اٹھ کر جانےلگا ۔ رافیل آیا اور گبرائیل سے کہنا لگا:
’’یہاں کیوں بیٹھے ہو؟، آئو چلیں ‘‘۔
گبرائیل بولا :
’’یہ ہمارا اچھا بھلا اوٹاکو پاگل ہو گیا ہے ۔ کہتا ہے ۔ میں نے مرنا نہیں ہے ‘‘۔
رافیل بولا:
’’کیا اس لائبریری میں ہمیشہ زندہ رہنے کا کوئی نسخہ چھپا ہوا ہے ‘‘۔
علی روئی کتاب بند کرتے ہوئےبولا:
’’کچھ پڑھنے نہیں دو گے ۔ افسوس کہ میں یہاں سٹودنٹ نہیں ہوں تمہاری غیر موجودگی یہاں بیٹھ کر پڑھ بھی نہیں سکتا ۔گبرائیل کہنے لگا:
’’ میں کل یہ کتابیں اپنے نام ایشو کرا کے تمہیں دے دوں گا ۔اب ٹائم ختم ہو چکا ہے ۔ علی روئی !چلو پھر گھروں کو چلتے ہیں ‘‘۔
’’گبرائیل تمہیں یہ خیال کہاں سے آیا کہ تم ہمیشہ زندہ رہ سکتے ہو ‘‘۔علی بولا:
’’میں نے اپنے مذہبی کتابوں میں پڑھا ہے کہ خضر نامی ایک آدمی ایسا موجود ہے جسے موت نہیں آتی ۔وہ ہزاروں سالوں سے زندہ ہے جس وقت جہاں چاہے موجود ہوتا ہے ‘‘۔
گبرائیل نے پوچھا:
’’کیا تمہیں اس بات پر یقین ہے‘‘ ۔
علی روئی نے کہا:
’’ہاں اس حوالہ ہماری الہامی کتاب میں موجود ہیں‘‘۔
رافیل بولا:
’’یوں تو ہماری الہامی کتاب میں بھی بہت کچھ لکھا ہے ‘‘ ۔
علی روئی نے تنگ آکر کہا:
’’چلو کل اس موضوع پر بات کریں گے‘‘۔
علی یہ کہہ کر دوسری طرف مڑ گیا ۔رافیل اور گبرائیل دوسری طرف چلے گئے ۔علی روئی چلتے ہوئے سوچنے لگا کہ اس کاشوق منزلِ جنون پر فائز ہوچکا تھا۔ گیمز کا جنون،میوزک کا جنون، فلموں کا جنو ن، سیریز کا جنون، کمپیوٹنگ کا جنون، فوٹو گرافی کا جنون، خاص طور پر موبائل فونز کا جنون آخری پر پہنچ چکا تھا۔ لوگ اسے دور سے دیکھتے تھے اور ’’ اوٹاکو ‘‘ کہہ کرآگے بڑھ جاتے تھے۔ یہ اسے کیا ہمیشہ زندہ رہنے کا شوق پڑ گیا ہے اور یہ بھی جنون میں بدل گیا ہے ۔
جاپانی تہذیب و ثقافت میں ایسے جنونیوں کا یہ تازہ ترین نام ہے۔ دنیا میں ا ن جنونیوں کی بہت بڑی تعداد موجود ہے۔ اس وقت یہ سب سے زیادہ ٹوکیو میں ہیں جہاں ان کےلئے صرف مخصوص لباس کی مارکیٹ کئی ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہے مگرعلی روئی چینی تھا۔ جوانی کے جنون گروپ سے متعلقہ چوبیس سالہ علی روئی ابھی تک کسی اچھے روزگار کی تلاش میں تھا۔ کالج سے فارغ ہونے کے بعد اس نے ایک آن لائن سٹور کھولاتھامگراب وہ بند ہونے کے قریب تھا۔ اس کی زندگی مشکل سے گزر رہی تھی۔ وہ ایک ایسا نوجوان تھا جس کے پاس نہ جائیداد تھی، نہ گاڑی تھی اور نہ کوئی گرل فرینڈ۔ دماغ کے ڈاٹ کام کی الماریوں میں صرف خواب دھرے تھے۔
یہ ایک اداس دن تھا۔ کھڑکیوں میں کہیں کوئی چہرہ موجود نہیں تھا۔ ڈیپریشن سے فضابھری ہوئی تھی۔ شام کی ملگجی سی روشنی دپہر میں پھیلی ہوئی تھی۔ وہ ایک سڑک پر چل رہا تھا جو کسی تاریک افق کو رواں دواں تھی۔ اس نے سڑک پر ایک سمارٹ موبائل فون پڑاہوا دیکھا۔ اٹھایاتو ذرا عجیب سا لگا۔ اس فون کا کوئی برانڈ نہیں تھا۔ اس پر کسی کمپنی کانام درج نہیں تھا۔ کوئی لوگو، کوئی مونوگرام کچھ بھی نہیں تھا۔ فون چارج تھا۔ اس نے چیک کیا تو لگا کہ کیمرہ بڑا اچھا ہے۔ اس نے اس غیر متوقع فائدے کو اپنی خوش قسمتی خیال کیااور سوچا کہ کچھ نہیں تو کم از کم اس کیمرے سے وہ بےشمار خوبصورت لمحوں کو اپنی ای البم میں سمولےگا۔ علی روئی نے پاور بٹن آن کیا۔ کیمرےکی سکرین کے درمیان میں ایک چوکور باکس نمودار ہوا جس میں الفاظ ایک قطار میں تحریر تھے۔
’’کیا آپ واقعی یہ کرنا چاہتے ہیں؟‘‘
اس کے آگے ’’ہاں ‘‘ اور ’’ نہیں ‘‘کے نشان بنے ہوئے تھے۔ اس نے ’’ہاں ‘‘ کے نشان پر کلک کیا تو ایک لفظ کی تبدیلی سے وہی جملہ دوبارہ نمودار ہوا۔
’’کیا آپ واقعی ایسا کرنا چاہتے ہیں‘‘؟۔
اس نے ایک لمحہ سوچا کہ یہ کیسے بورنگ آدمی کا موبائل فون ہے۔ بھلا کوئی شخص فون کاابتدائی تھیم ایسا بھی لگاتا ہے؟۔ علی روئی نے زیادہ سوچنے کی ضرورت محسوس نہ کی اور دوبارہ ’’ ہاں ‘‘ پر کلک کردیا۔ یہ الفاظ لکھے ہوئے آگئے۔
’’کامیابی کے لیے مبارکباد! ‘‘۔
ہم آپ کو سپر سسٹم میں خوش آمدید کہتے ہیں‘‘۔
اس کے ساتھ ہی فون کی اسکرین کسی آتش فشاں کی طرح دفعتاًپھٹ گئی۔ علی روئی کو اس حیرت انگیز اور خاموش دھماکے میں اتنا وقت بھی نہ مل سکا کہ وہ ہوش کھونے سے پہلے موبائل فون کو گالی دے سکتا۔ زندگی کی آخری گالی، جس میں ہزاروں ٹرپل ایکس فلمیں کروٹیں لے رہی ہوتیں۔
علی روئی کو معلوم نہ ہوسکا کہ وہ کتنی دیر کےبعد ہوش میں آیا ہے۔ اس نے آنکھیں کھولیں تو اسے سر میں ایک خوفناک درد احساس ہوا۔ پھر اسے یاد آیا کہ وہ کیسے بے ہوش ہوا تھا۔ ہاتھ میں موجود فون کا دھماکہ ذہن میں لہرا یا۔ یاداشت کی سکرین پر الٹی سیدھی تصویریں آئیں۔ کچھ شاٹس آپس میں گڈمڈ ہوئے۔ یعنی ابھی باتیں دماغ میں گڈمڈہو رہی تھیں کہ کسی شخص کی آواز آئی۔
‘‘تم جاگ گئے ہو’’
اس نے آواز کی سمت چہرہ گھما کر دیکھا۔ یہ ایک لمبوترےچہرے والاآدمی تھا۔ جلدسیاہ تھی مگرچہرہ پُرکشش تھا۔ آنکھیں نیلی اور کان نوکیلے تھے۔ کالے بالوں میں بہت تیزچمک تھی۔ مجموعی طور پر وہ ایک منفردآدمی تھا۔ ہوش سنبھالنے کے بعد اس پہلے منظر نےعلی روئی کے ذہنی انتشار کوتھوڑا ساکم کیا۔ اسے سکون کا احساس ہوا۔ خیال آیا کہ دھماکہ اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ جسم میں کہیں درد محسوس نہیں ہورہا۔
اس نے انٹرنیٹ پر بہت سی متحرک تصویری کہانیاں دیکھی تھیں جن میں ہیرو کا کردار اس کا پسندیدہ تھا۔ ولن اسے اچھے نہیں لگتے تھے جیسے ہر نارمل شخص انہیں پسند نہیں کرتا۔ علی روئی نے اسے کہا
تمہارا شکریہ کہ تم نے مجھے بچایاہے۔ کسی کو بچانا ان دنوں آسان کہاں ہے‘‘۔ ’’
اس شخص نے حیرت سے جملہ دھرا دیا۔ ’’میں نے تجھےبچایاہے۔ میں سمجھا نہیں ‘‘۔
پھر اس نے سرگوشی کے انداز میں علی روئی سے پوچھا۔
کوئی غلط چیز کھالی تھی یا غلط دوائیوں کے استعمال سے تم بے ہوش ہوئے تھے‘‘۔
علی روئی سمجھ گیا کہ اسےموبائل فون کے دھماکے کی کوئی خبر نہیں۔ اس کی باتیں اس کی سمجھ میں آرہی تھیں مگر یہ بھی لگ رہا تھا کہ یہ آدمی جو زبان بول رہا ہے۔ اس نے پہلے کبھی نہیں سنی۔ بولنے کے اندازسے لگ رہا تھا کہ یہ زبان اس شخص کی مادری زبان ہے۔ علی روئی کےلئے یہ بات حیرت انگیز تھی کہ اس کی سمجھ میں اس کی زبان کیوں آرہی ہے اور اسے کیوں محسوس ہورہا ہے کہ میں یہ زبان بول سکتا ہوں مگر ساری حیرتیں موبائل فون کے دھماکےمیں دفن ہو گئی تھیں۔ اس شخص سے علی روئی سے کہا
دوست تمہاری شکل بہت متناسب ہے۔ جلد بھی سیاہ ہے مگر ہمارے جتنی نہیں ‘‘۔
الجھنوں سے بھرے ہوئے علی روئی نے ’’ہاں ‘‘میں سر ہلادیا اور اٹھنے کی کوشش کر نے لگا۔ اٹھتے ہوئے جسم میں اتنادرد محسوس ہواکہ وہ اٹھ نہ سکا۔ سوچا کہ دھماکہ اتنا بھی سادہ نہیں تھا۔ اردگرد پر دھیان دیا تو ایک بالکل ہی انجان اور عجیب ماحول دکھائی دیا۔ علی روئی نے اس شخص نے پوچھا
یہ کونسی جگہ ہے؟‘‘۔
علی روئی کو اندازہ نہیں ہو سکا کہاکہ اس کے میزبان کواچانک اس کی کونسی بات بری لگ گئی ہےکہ جوابی جملہ اس کےلیے بہت تکلیف دہ تھا۔ اس شخص نے جب کہا
تم میری گہری سیاہ جلد کا مذاق اڑانے کی ہمت کررہے ہو؟تجھے ہمت کیسے ہوئی اے لعنتی شخص!‘‘۔ ’’
علی روئی نے اس کے لہراتے ہوئے ہاتھ میں بجلی کی چمک دیکھی توکانپ گیا۔ اس کا جسم غیر ارادی طور پر ہلنے لگا اور اسے اپنے وجود سےجلے ہوئے گوشت کی سرانڈآنے لگی۔
اس شخص نےغصے بھرے لہجے میں کسی کو پکارا۔ ایک چھوٹا سا سیاہ سایہ تیزی سے اندر آیا۔ یہ سرخ جلد والا ایک عجیب و غریب سا وجود تھابدصورت سا بالشتیہ۔ اس کے چوڑے منہ میں تیز دانتوں کی دو قطاریں باہر نکلی ہوئی تھیں۔ اس نے آتے ہی کہا :
’’واجب الاحترام حکیم الداس !آپ کا نوکر، آپ کا خادم، آپ کا چلبل آپ کے حکم کا منتظر ہے۔ جی فرمائیے۔ آپ کی عظمت کو سلام۔ آپ اس طلسماتی کائنات میں ڈرگ کے سب سے بڑے ایکسپرٹ ہیں۔ ادویات آپ کے سامنےاپنے اسرار کھول کھول کر رکھ دیتی ہیں۔ جڑیں بوٹیاں آپ کے پاس پہنچتی ہیں تو خود بتاتی ہیں کہ ہمارے خواص کیا ہیں ‘‘۔
’’حکیم الداس کی جے‘‘۔
آواز چاپلوسی سے بھری تھی مگرحکیم الداس کا موڈ بہت خراب تھا۔ وہ اسی غضبناک لہجےمیں بولا:
’’اپنے ڈرامے اپنےپاس رکھ، تونے اسے کوئی غلط دوائی کھلادی ہے‘‘۔
اس نے کہا:
بالکل نہیں۔ میں نے توابھی اسے نمبر3کے سیکشن سے’’سچ اگل دینے والاسیرپ‘‘ دیا ہے۔ آپ کے حکم کے مطابق۔ آپ کا آرڈرمیرے لئے حرفِ آخرہے جس پر عمل رک نہیں سکتا ‘‘۔
’’سچ اگلوانے والی سیرپ۔ میں نہیں مان سکتا۔ ابھی جو طنزیہ الفاظ اس نے مجھ سے کہے ہیں۔ تمہارے خیال میں وہ سچ ہے۔ وہ دوائی پی کر کوئی نہیں پوچھ سکتا ہے کہ یہاں جگہ کیا ہے۔ حکیم الداس کی لیپ میں حکیم الداس سے یہ سوال کرنے والا۔ اور وہ بھی ایک انسان‘‘۔
حکیم الداس کے خوفناک لہجے سے چلبل کو ٹھنڈا پسینہ آ گیا تھا۔ وہ خاموش رہا۔ اسے لگا کہ لفظ منہ سے نکلے تو موت کے گولے کی طرح واپس آئیں گے۔ حکیم الداس چلبل کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بولا:
جاؤ اس شخص کے جسم سے خون کی پوری بوتل نکالو اور اسے چھ نمبر دوائی پینے پر مجبور کرو‘‘۔
چلبل کو خون نکالنے کےلئے آتے ہوئے دیکھ کر علی روئی کا دل خوف سے بھر گیا۔ وہ مزاحمت کرنا چاہتا تھا لیکن اس کا مفلوج جسم دماغ کے حکم پر عمل نہیں کررہا تھا۔ چلبل جیسے ہی علی روئی کےقریب پہنچا تواس نے بلیڈ کی بجائے تیز ناخن سےعلی روئی کے بازو پر لکیر کھینچی۔ گرم خون فوارے کی طرح نکلا۔ چلبل کی ننھی ننھی آنکھیں چمک اٹھیں۔ اس نے شیشے کی خالی بوتل کو زخم پر لگا دی۔ بوتل کا سائز بھی کوئی چھوٹا نہیں تھا۔ بوتل بھرنے لگی۔ آہستہ آہستہ خون سے پوری بھر گئی۔ چلبل نے زخم سے بوتل ہٹائی اور اپنی زبان لگا دی اور زخم صاف کرنے لگا۔ چہرے سے لگ رہا تھاکہ اس نے کوئی آسمانی شربت چکھ لیا ہو۔ اس کی زبان میں کچھ ایسا اثر تھا کہ زبان پھیرنے سے خون بہنابند ہوگیا۔ خون نکلنے کی وجہ سے علی روئی کا جسم ٹھنڈا ٹھار ہو گیا۔ جیسے بلڈ پریشر انتہائی لو ہوگیا ہو۔ اسے ہلکا سا سردی کا احساس ہوا مگر وہ ابھی تک اپنےاندر پوری توانائی کے ساتھ زندہ تھا۔ سوچ رہا تھا کیااس کےجینزمیں کوئی ہمیشہ رہنے والےکوڈ درآئے ہیں۔
چلبل نے خون والی بوتل لیب کی ایک الماری میں رکھی اوردوسری الماری سےچھ نمبر کی دوائی نکالی اوربغیر کسی ہچکچاہٹ کے علی روئی کے منہ میں ڈال دی۔ دوائی کا رنگ نارنجی تھا، ذائقہ بھی برا نہیں تھا مگر اثر خوفناک تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں علی روئی کے پورے جسم میں درد ہونے لگا۔ اسے اپنی جلد کا ایک ایک سنٹی میٹر پھٹتا ہوامحسوس ہوا۔ وہ پہلی بار کسی ایسے درد سے دوچارہوا تھا سو چیخنے اور کراہنے کے سوا کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ علی روئی کے چہرے پر درد کی بڑھتی ہوئی شدت حکیم الداس کے لئے باعثِ تسکین تھی۔ اس نے اطمینان سے سر ہلایا۔ اسے معلوم تھا کہ یہ بہت موثر دوائی ہے۔ اسے یقین تھا کہ علی روئی ابھی اس کے سامنے سچائی اگل دے گا۔ حکیم الداس کچھ دیر تک انتظار کرتا رہا مگر اسے علی روئی کی چیخیں سنائی دیتی رہیں۔ وہ ان چیخوں سے تھک گیا تو اس نے چلبل کو آرڈر دیا۔
’’چلبل ! اسے نیچے تہہ خانے میں لے جاؤ۔ اس کا دھیان رکھنا ہے۔ حفاظت کرنی ہے، مرنے نہ پائے۔ ہاں اسے ایک رات ضرور بھوکا رکھنا، میں نے اس پر ابھی کئی تجربات کرنے ہیں۔ ہاں اگر کسی دن میرے کسی تجربے کے دوران مر گیاتو پھر تم اسے کھا لینا،اس کے گوشت کی جیسی چاہے ڈش بنا لینا۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ سنا ہے انسانی دماغ بہت لذیذ ہوتا ہے‘‘۔
چلبل یہ سن کر بہت خوش ہوا اور اس کی شان میں رطب اللسان ہوگیا۔ اس نے زبان سے ہر حرف ِ خوشامد ادا کیا۔ چاپلوسی کےجتنے الفاظ اسے معلوم تھے، ان کی پورے جوش و خروش سےسیریز شروع کردی۔ حکیم الداس اپنی تعریفوں کے لمبے پل نظرانداز کرکے خوفناک لہجے بولا:
’’یاد رکھنا اگر مجھے پتہ چلا کہ تم نے کوئی گڑ بڑ کی ہے توپھر اگلا تجربہ تم پر ہی ہوگا۔ یعنی اس کا زندہ رہنا تمہارے مستقبل کےلئے ضروری ہے‘‘۔
چلبل طویل عرصہ سے اُس لیب میں تھا۔ ماضی میں حکیم الداس نے جو اس پر تجربات کئے تھے انہیں یاد کرکے وہ کانپ اٹھا۔ اس نے فوراً سر ہلایا اور علی روئی کا بیڈگھسیٹ کر تہہ خانے میں لے گیا۔
تہہ خانہ تاریک تھا اس کی فضا خاصی مرطوب تھی۔ چلبل جیسے ہی تہہ خانے میں داخل ہوا۔ اس کی چال ڈھال بدل گئی۔ اسے معلوم تھا یہاں اسے دیکھنے والاکوئی نہیں۔ اب وہ اکڑ اکٹر کر بیڈ کو دھکیل رہا تھا۔ اس نے اپنی چھوٹی سی چھاتی پھیلا لی اور بڑے غرور سے علی روئی کو دیکھا۔ پھر نفرت سے بیڈ کو ٹانگ مارتے ہوئے کہا:
’’جلدی مرولعنتی انسان! حکیم چلبل نے پہلے کبھی انسانی گوشت کا ذائقہ نہیں چکھا مگر اس کی لذت اور قوت کے بارے میں بہت کچھ سن رکھا ہے‘‘۔
بوتل بھرتے ہوئے جوخون اس کے ہاتھوں پر لگ گیا تھا۔ اس کے چند دھبے ابھی انگلیوں پر موجو د تھے۔ اس نے ان خون کے دھبوں کو چاٹ چاٹ لیا، اس کی ننھی ننھی آنکھوں میں خون کی پیاس نے اس کی تمام حسیات اکٹھی کردیں مگر وہ حکیم الداس کے حکم کے خلاف کچھ کرنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا، اس نے علی روئی پر ایک امید بھری نظر ڈالی اور اور اپنی اشتہا کو قابو میں کرتے ہوئے تہہ خانے کا دروازہ بند کیااور سڑھیاں چڑھ کر اوپر آ گیا۔ اوپروالے دروازے کودیوار کے اندر سے کھینچ کر بند کیا۔ دروازہ اور دیوار ایک ہو گئے۔ کہیں کوئی رخنہ موجود نہیں رہا۔ بس اس کا سینہ رخنہ ہائے کدورت سے پھٹ رہا ہے۔ اس کے جاتے ہی علی روئی نے زندگی کی طرف پلٹنے کے لیے جدوجہد شروع کردی۔ مسلسل کوشش نے اس کے بدن کا درد تقریباً دس گنا بڑھادیا۔ اچانک اسے اپنی چیخوں میں ایک پراسرار سی آواز سنائی دی۔ یہ لفظ اس کے اندر کہیں گونج اٹھے۔
کوئی نامعلوم زہریلا مادہ آپ کے اندر موجود ہے۔ کیا آپ اسے اپنے سپرسسٹم میں جذب کرکے ری بوٹ کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
شدید درد کے موسم میں علی روئی کے دل میں یکایک ایک تازہ ہوا کا جھونکا آیاجو تیزی سے پورے جسم میں پھیل گیا۔ اس تازگی کے پھیلائوسےدرد میں نمایاں کمی ہوئی۔ کچھ دیر کے بعد اس کے ذہن میں پھر ایک آواز ابھری۔
توانائی کی ناکافی فراہمی، سسٹم بوٹنگ کا عمل صرف پانچ فیصد مکمل ہوا ہے۔ اسے پورا کرنے کےلئے مزید توانائی درکار ہے‘‘۔
علی روئی سوچنے لگا کہ سس ٹم؟۔۔ یہ کیا ہے؟۔ کیا واقعی یہ آواز اس کے اندر سے آئی تھی یا کوئی وہم تھا۔ علی روئی اس بات کوزیادہ گہرائی کے ساتھ نہیں سوچ سکا کیونکہ وہ اپنے دماغ میں شامل ہونے والی نئی معلومات کے وسیع ذخیرے سے چونک گیا تھا۔ اسے پہلی بار احساس ہوا کہ اس کے ذہن میں بہت سی باتیں ایسی در آئی ہیں جو پہلے موجود نہیں تھیں۔ یہ نئی باتیں یہ نئی معلومات سطحِ یاداشت پرخود بخود ابھرتی چلی آئی ہیں۔ وہ سوچنے لگا کہ یہ سارا کچھ اس موبائل کے کیمرے کی سکرین پر ’’ہاں‘‘ لکھنے کے بعد ہوا ہے، وہ جن مصائب سے گزررہا ہے یہ سب کچھ شاید اسی کا ثمر ہے۔ اسے یاد آیا کہ پہلے وہ علی روئی نہیں تھا بلکہ آرتھر نامی ایک نوجوان لڑکا تھا۔ یہ جگہ یہ زمین اس کی نہیں تھی وہ ایک اور دنیا میں رہتا تھا۔ یہ واقعہ بھی اس کےلئے حیرت انگیز تھا۔ اسے لگا کہ شاید وہ کسی کہانی کا کردار بن چکا ہے۔ اس کی روح میں کوئی تبدیلی واقع ہوچکی ہے۔ اسے خیال آیا کہ کیا یہ اس کا دوسرا جنم ہے۔ پھر اسے اپنے والدین یاد آئے جب وہ اٹھارہ سال کا تھا، ان کا انتقال ہو گیا تھا۔ اس کے دادا نے لمبی عمر پائی تھی۔ وہ پچھلے سال وہ بھی فوت ہوگئےتھے۔ ہاں لوگ مرتے رہتے ہیں۔ مرنا ایک معمول کا عمل ہے۔ جب اس کے ماں باپ مرے تو اس وقت موت کے بارے میں اس کارویہ تبدیل ہوا تھا۔ وہ موت کو گلیمرائزکرنے لگا تھا کہ موت ملائم ریشم جیسی اور سبک ہے اتنی ، جیسے مر غابی کے پر۔ مگر وہ بہت جلد اس کیفیت سے نکل آیا تھا۔
اس نے دوبارہ جنم لینے والی بہت سی کہانیاں سن رکھی تھی مگر ان پر اعتبار نہیں کرتا تھا۔ ویسے اس کا موجودہ تجربہ بھی ان داستانوں کے واقعات سے میل نہیں کھا رہا تھا۔ علی روئی نے بحیثیت آرتھر اپنے ذہن کو ٹٹولا۔ دماغ کے سربستہ خانوں کو کھولنے کی تگ ودوکی۔ اس نے اس تبدیلی کو اسی تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی تو اسے لگا کہ وہ اس وقت کسی طلسماتی دنیا میں ہے۔ کسی جادونگری میں آ گیا ہے۔ قدیم کہانیوں کے کسی کوہ قاف میں پہنچ چکا ہے جہاں آدم خور لوگ بستے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ جدید تر ہو چکا ہے۔
اسے یاد آیا کہ وہ یعنی ’’آرتھر‘‘ ایک اچھے خاندان کا فرد ہے۔ اس کے ماں باپ کھاتے پیتے لوگ تھے۔ چوبیس سال تک اس نے ایک آرام دہ زندگی گزاری تھی۔ وہ بہت پُرسکون رہاتھا۔ اس نے کوئی دکھ، کوئی غم نہیں دیکھا تھا۔
دو دن پہلے جب وہ کھیلنے کے لیے باہر گیا ہوا تھا تو اسےواپسی پر یہ پراسرار حادثہ پیش آیا اور اسے حیرت انگیز طور پر کسی دیومالائی دائرے میں منتقل کر دیا گیا پھر حکیم الداس کی لیبارٹری میں بھیج دیا گیا، اب یہاں اس نے ایک نئی زندگی کا آغازکرنا ہے۔ اس کا یقین پختہ ہوگیا تھاکہ یہ کوئی انسان دشمن دیومالائی دائرے ہے۔ انسانی دنیا کی فکشن میں ایسے دیومالائی دائروں کے بارے میں کئی بار پڑھ چکا تھا۔ وہ سوچنےلگا، کیا فکشن حقیقت میں بدل سکتی ہے۔
اسے ذہن میں شامل نئی معلومات سے علم ہوا کہ یہ دیومالائی دائرے غیر معمولی طور پر طاقتور ہے۔ زمانۂ قدیم کی ایک جنگ میں انہیں انسانی اتحادی افواج سےشکستِ فاش ہوئی تھی۔ اس وقت انہیں ایک خوفناک پاتال میں بھیج دیا گیا تھااور اُس پاتال کاداخلی دروازہ ایک طاقتور آسمانی فورس سےسیل کر دیا گیا تھا مگر ابھی تک اس دیومالائی مخلوق نے زمین پر واپس آنے کے خواب دیکھنے ترک نہیں کیے اسے اپنے باطن سے معلوم ہوا کہ اُس دروازے پر لگی ہوئی سماوی مہر ہر500 سال بعد کمزور ہوتی جاتی ہے۔ ماضی میں دونوں فریقوں کے درمیان کئی بار جنگ ہو چکی تھی اورڈیمن کو اس بات کا دکھ ہے کہ تاریخ میں وہ کبھی آخری فتح حاصل نہیں کر سکے۔
قریب ترین جنگ تین سو سال پہلے ہوئی تھی۔ دیومالائی اتحادی افواج کی کمان تاریک سورج لوسیفر نے کی تھی۔ جو اپنے دورکا طاقتور ترین ڈیمن تھا۔ اسے ایک بہت برگزیدہ انسان نے نیکی کی قوت سے جہنم رسید کیا تھا۔ اس کی کمان میں دیومالائی افواج نےانسانوں کوبھاری جانی نقصان پہنچایا تھا لیکن ہمیشہ کی طرح اُس مرتبہ بھی حتمی فتح ’’روشنی اور انصاف‘‘ کی ہوئی تھی اور شکست خوردہ دیومالائی فوج کو دیومالائی دائرے میں واپس جانے پر مجبور کردیاگیا تھا۔ اس حصار کو نسل در نسل دیومالائی مخلوق ایک چیلنج کے طور پر دیکھتی چلی آرہی تھی۔
ڈیمنز کے علوم و فنون کے متعلق آرتھر کی یادداشت محدود تھی مگرانسانی دنیا کے متعلق وہ جانتا تھا کہ اس میں ایسی طاقتور ہستیوں کی کوئی کمی نہیں جو تلوار سے دریا کاٹ سکتے ہیں۔ جو مکے سے پہاڑ گرا سکتے ہیں۔ جن کی چشمِ خارا شگاف تقدیریں بدل سکتی ہے۔ جن کی دعا آسمان نے کبھی رد نہیں کی۔ آرتھر کا ان عظیم لوگوں سے کبھی کوئی تعلق تو نہیں رہا تھا مگر اس نےان چمکتی پیشانیوں اور اسرار بستہ الوہی قوتوں کی حامل شخصیات کے بارے میں بہت کچھ پڑھ رکھا تھا۔ وہ ایک عام سا نوجوان تھا۔ معمولی کاروبار کرنے والانوجوان۔ اس کا خاصہ صرف زندگی سے لطف اندوز ہونا تھامگر اس وقت اسے اپنے اندر نئی قوتوں کا نئی خاصیتوں کا احساس ہو رہا تھا۔ اسے معلوم ہوچکا تھا کہ حکیم الداس کی زہریلی دوائیاں اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکیں۔ وہ ان ڈرگز کے عذاب سے مکمل طور پر آزاد ہو گیا تھا۔ اب وہ علی روئی کی حیثیت سے ہر چیز کا مقابلہ کرنے کےلئے تیار تھا مگر یہ بھی سوچتا تھا کہ وہ ایک کمزور سا انسان ہے۔ اس کےپاس کوئی طاقت موجود نہیں۔ اس ڈیمنوں بھری دنیا میں اس کا کیا ہوگا۔ وہ یہاں کے سائنس دانوں کی تجربہ گاہوں کی میزوں پر پڑا رہے گا یا کسی ڈیمن کی ڈائینگ ٹیبل پر بار بی کیو کی صورت میں سج جائے گا۔
علی روئی مسلسل یہی سوچتا رہا اورخوفزدہ ہوتا گیا۔ اسے وہ موبائل یاد آیا جس پر کلک کرنے سے یہاں پہنچا تھا۔ وہ اپنے اُس لاپرواہ رویے پر انتہائی پشیما ن اور نادم تھا۔ دل ہی دل میں اس نے ہزاروں گالیاں اس موبائل فون کو نکالیں لیکن اب افسوس کرنا بے سود تھا۔ اپنی پچھلی زندگی میں، وہ ایک اوٹاکو تھا جسے ناول پڑھنے کا جنون تھا، گیمزکھیلنے کا شوق تھا۔ آن لائن فورمز کو براؤز کرنے میں جنونی تھا۔ وہ مارشل آرٹس نہیں جانتا تھا۔ کبھی لڑائیوں میں بھی ملوث نہیں رہا تھا۔ وہ اپنے آپ کو اس طلسماتی دنیا میں بالکل بےکار سمجھ رہا تھا۔ سوچتا تھا کہ وہ یہاں کیسے زندہ رہ سکتا ہے۔ علی روئی کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ وہ کوئی لائحہ عمل نہیں بنا پا رہا تھا۔ جسمانی اور ذہنی تھکن کے سبب اسے نیند آنے لگی۔ بالآخر وہ ایک گہری نیند کے غار میں گر گیا، جہاں خواب بھی نہیں تھے۔
اگلے دن صبح سویرے علی روئی کو تہہ خانے سے نکال کر دوبارہ لیبارٹری میں لایا گیا۔ اگرچہ اس کے پاس تفصیل سے مشاہدہ کرنے کا وقت نہیں تھا لیکن احساس ہورہا تھا کہ لیب خاصی بڑی ہے۔ دور دور تک الماریاں ہیں جو مختلف نمونوں اور جدید اورمنفرد آلات سے بھری ہوئی ہیں۔ میزوں پر بھی بہت کچھ پڑا تھایعنی مسلسل تجربات جاری ہیں۔ چونکہ حکیم الداس موجود تھا اس لئے علی روئی کے ساتھ چلبل کارویہ بدل چکاتھا۔ وہ علی روئی کا پوراخیال رکھ رہا تھا اور حکیم الداس کی تعریف و توصیف میں زمین و آسماں کے قلابے ملا رہا تھا۔ حکیم الداس نے چلبل کی لامتناہی تعریفیں روک کر علی روئی سے پوچھا:
’’تمہیں بھوک لگی ہےنا؟‘‘۔
علی روئی کے جی میں آیا کہ وہ اس لمبوترےچہرے کی آنکھیں نوچ لے،زبان کھینچ لے مگر ابھی وہ اس قابل نہیں تھاسو اس نے خاموشی سے ’’ہاں ‘‘ میں سر ہلادیا۔ حکیم الداس کے لبوں ایک تکلیف دہ مسکراہٹ ابھری۔ ایسی ہنسی جس میں سینکڑوں مظالم لپکتے پھرتے ہوں۔ اس نے الماری سےبوتل نکالتے ہوئے کہا:
’’اچھی بات ہے، اسے آزماؤ‘‘۔
بوتل میں سبز لیس دار مائع سا تھا۔ اس میں سے بلبلوں کی صورت میں کچھ سفید گیس خارج ہو رہی تھی۔ علی روئی اسے دیکھ کر اپنےجواب پر پچھتایا کہ اس نے کیوں ہاں میں سر ہلا یا ہے۔ اس نے وہ چیز پینے سے پوری شدت کے ساتھ انکار کیامگر چلبل نے فوراً علی روئی کے سر کو پکڑ لیا اور زبردستی بوتل اس کے منہ سے لگا دی۔ وہ سیال علی روئی کو ایک تکلیف کے ساتھ اپنے اندر جاتا ہوا محسوس ہونے لگا۔ حکیم الداس نے تھوڑی دیر کے بعد چلبل سے کہا:
’’بس بس۔ بس آدھی بوتل کافی ہے‘‘۔
چلبل نے علی روئی کے منہ میں ٹھونسی ہوئی بوتل باہر نکال لی۔ علی روئی مجبور تھا اس لیے سے وہ برداشت کررہا تھا۔ اس نے دل میں عہد کیا کہ ایک دن ضرور میں ان لوگوں کو کسی گٹر کا پانی پلاؤں گا۔ بلکہ اُس سے بھی برا۔ گرفت میں آئے ہوئے علی روئی کو متلی کا احساس ہورہا تھا۔ سوچ رہا تھا کہ پتہ نہیں کیسا مکروہ محلول پلا دیا ہے جو زبان کو چھوئے بغیر حلق میں چلا گیاہے۔ یعنی علی روئی کو اس کے ذائقہ کا احساس تک نہیں ہواتھا مگر متلی ضرور ہونے لگی تھی۔ تھوڑی ہی دیر بعد اس کا معدہ گرم ہونا شروع ہو گیا۔ پیٹ پھولنے لگا، دردکے جھٹکے لگنے لگے۔ حکیم الداس کی خوفناک مسکراہٹ کا مطلب اب علی روئی کی سمجھ میں آرہا تھا۔ اسی لمحے اس کے دماغ میں وہی پراسرار آواز آئی:
’’نامعلوم زہریلا مادہ ملا ہے۔ کیا آپ اسےسپر سسٹم کو جذب اور بوٹ کرنا چاہتے ہیں؟‘‘۔
اس نے فوراً’’ہاں‘‘ کہا۔ لمحہ بھر کے لئے تو پیٹ کا درد شدید تر ہوامگر اسے پھر اسی مانوس تازگی کا احساس بھی ہوا۔ درد آہستہ آہستہ غائب ہو تاگیا۔ پھولاہوا پیٹ اپنی اصلی حالت میں واپس آگیا۔ دماغ میں وہی آواز گونجی۔
’’توانائی کی ناکافی فراہمی، سسٹم بوٹنگ کا عمل 0.7فیصد۔ مکمل کرنے کے لیے مزید توانائی درکار ہے‘‘۔
علی روئی نے سکون کا سانس لیا۔ اس نے اس بار صاف محسوس کیا کہ جذب کا اثر فوری تھا اور وہ پرجوش ہو گیا تھا۔ اس نے دل میں کہا:
’’سپر سسٹم کانام بہت جانا پہچانا ساہے‘‘۔
حکیم الداس نے آنکھیں پھاڑ کرحیرت سے علی روئی کی طرف دیکھا کیونکہ وہ کچھ ہی دیر میں نارمل ہو چکا تھا۔ حکیم الداس بڑ بڑایا:
’’یہ کیا ہوا۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے، کیا میں نے پھر سے ’’سوجن گراس ‘‘کا تناسب غلط کر دیاہے‘‘۔
حکیم الداس نے چلبل کی طرف دیکھا۔ آدھی بوتل اس کے ابھی ہاتھ میں تھی۔ چلبل نے پوچھا:
’’ باقی آدھی بھی پلا دوں؟ ‘‘۔
حکیم الداس بولا:
نہیں باقی آدھی خود پی لو ‘‘۔
یہ سن کر چلبل کا چہرہ تاریک ہو گیا۔ اس نے منت کرتے ہوئے کہا:
’’میرے محترم المقام آقائے ادویات !۔۔۔۔۔ ‘‘۔
ابھی جملہ یہیں تک تھا کہ حکیم الداس کا ہاتھ چمکنے لگا جس میں بھری بجلیاں نکلنے کےلئے مچل رہی تھیں۔ چلبل نے صورتحال پل بھر بھانپ لی اور بوتل کو منہ لگادیا۔ اسے بجلیوں کا درد معلوم تھا۔ اس نے جیسے ہی بوتل خالی کی۔ فوراً ہی اپنا پیٹ پکڑ لیا، درد سے فرش پر لڑھکنے لگا۔ اس کا پیٹ دھیرے دھیرے حاملہ عورت کی طرح پھولنے لگا۔ اس کی چیخیں پوری لیب میں پھیل رہی تھیں۔ تکلیف سے آنکھیں باہر نکل رہی تھیں۔ وہ فرش پر پلٹے کھا رہا تھا۔ چلبل کے مصائب کو دیکھ کر علی روئی کے دل وجگر میں تھوڑی سی ٹھنڈک پڑی۔ اس نے حکیم الداس کی طرف دیکھا۔ اس کا چہرہ بے تاثر تھا۔ جیسے ان چیخوں کی کوئی حیثیت ہی نہ ہو۔ یہ کوئی معمول کی آوازیں ہوں۔ اس وقت وہ دیومالائی سائنس دان اسے بہت خطرناک لگا۔ علی روئی نے سوچا جتنا جلدی ممکن ہویہاں سے بھاگ جائے۔
حکیم الداس نے چلبل کی دگرگوں حالت کو دیکھی اورسوچا:
’’یہ ٹھیک ہی نہیں واضح طور پر کارآمد بھی ہے۔ پھرعلی روئی کی طرف دیکھا اور سوچنے لگا کہ اس شخص کے پاس ضرور کوئی جادو ہےکہ اس پر میری یہ حیرت انگیز ادویات اثر نہیں کر رہیں۔ چلبل مسلسل چیخ رہا تھا۔ حکیم الداس نے کہا:
’’یونہی چیخ رہے ہو یا واقعی دوا ئی اپنا کمال دکھارہی ہے؟‘‘۔
چلبل چیختے ہوئے کہا:
’’نہیں نہیں نہیں۔ بالکل نہیں‘‘۔
اور اپنے طور پر طنزیہ انداز میں بولا:
’’ہاں۔۔ ہاں۔۔ کوئی۔ اثر۔ نہیں ہوا‘‘۔
چیخوں کے درمیان رک رک کر بولتے ہوئے اس نے کہا۔
چلبل کے بے چینی سے چلانے پراس کی تکلیف اور بڑھ گئی۔ اس کی چیخوں نے نہ صرف پوری لیپ کو سر پر اٹھا لیا بلکہ باہر سڑک تک سنائی دے رہی تھیں۔ حکیم الداس نے چلبل سے کہا:
’’بے وقوف!اپنے آپ کو قابو میں رکھواور ہلو مت۔ جتنا ساکت رہو گے، تکلیف اتنی کم ہو گی ‘‘۔
حکیم الداس نے علی روئی کی طرف دیکھا جو اپنی ٹانگیں ہلارہا تھا۔ یہ حکیم الداس کی ناکامی کا کھلا اور واضح اعلان تھا۔ اس نے غصے کےعالم میں ایک لمبی چھلانگ لگا ئی اورعلی روئی کے سامنے آ گیا۔ اس کے ہاتھ میں ایک اور بوتل تھی۔ اس نے کہا:
’’اسے ابھی پیو!‘‘۔ میں دیکھتا ہوں کہ میری ادویات تجھ پر کیسے اثر نہیں کرتیں‘‘۔
علی روئی کو اس بات کا دکھ تھا کہ اس نے پچھلی بوتل پوری کیوں نہیں پی تھی۔ علی روئی نے کچھ کہے بغیر بوتل حکیم الداس کے ہاتھ سے لی اورپی گیا۔ اس بار اثر ذراسخت تھا۔ دماغ میں تیزی سے گھٹیاں بجنے لگی تھیں، سائیں سائیں ہونے لگی۔ کچھ دیر کےلئے علی روئی تقریباً اپنے جسمانی حواس کھو بیٹھا تھا۔ ا س کے منہ سے آوازنہیں نکل رہی تھی مگر پھر وہی آواز آئی، پھر جب اس نے دل میں ’’ہاں‘‘ سوچا تو معجزانہ طور پردوبارہ وہی ہوا۔ سختی ختم ہو گئی۔ دماغ کواشارہ ملا کہ سسٹم بوٹنگ کی پیشرفت 1.2فیصدتک پہنچ گئی ہے۔ پرامپٹ میں ایک اور پیغام بھی ذہن میں گونجنے لگا۔
’’مکمل ماد ہ کی تبدیلی لگاتار تین بار فعال کریں۔ سمارٹ خودکار جذب‘‘۔
علی روئی نے بغیر کسی شک کے اپنے دل میں تصدیق کی اور سوچا۔
یہ کوئی زندگی بچانے والاسسٹم ہے۔ جیسے مہلک زہر مجھے دیے گئے ہیں ان سے میں کبھی کا مرچکا ہوتا۔ حکیم الداس نے خالی بوتل پکڑی اور بوتل پر لگے لیبل کو دیکھا۔ اس ’’سٹرانگ پوروفائی پوائزن 103‘‘لکھا تھا۔ وہ پریشانی کی حدتک پہنچی ہوئی حیرت کے ساتھ بولا:
’’اولعنتی انسان!، تم نے کون سا جادو پیا ہواہے۔ میری ادویات تم پر اثر کیوں نہیں کررہیں‘‘۔
علی روئی بولا:
’’اگر جادو ٹونے آتے ہوتے تو تم مجھے زہریلی دوائیاں پینے پر مجبور کر سکتے تھے؟ ‘‘۔
اگرچہ علی روئی اپنے دل میں مطمئن نہیں تھا۔ یہ اس نے معصومانہ اظہار کیاتھا۔ حکیم الداس اسے پکڑکر ایک میز پر لےآیا جہاں بوتلوں اور مرتبانوں کاڈھیر لگا تھا۔ وہ انہیں کھول کھول علی روئی کو پینے پر مجبور کرتا رہا۔ علی روئی بوتلوں کےلیبلوں کو دیکھ کر خوفزدہ ہو گیا تھا۔ وہ صاف پڑھ رہا تھا کہ یہ مختلف قسم کے زہر ہیں۔ دوسری طرف طاقتور سپرسسٹم سب کچھ جذب کرتا جا رہا تھا۔ حکیم الداس دیکھ رہا تھا کہ بوتلوں سے مختلف زہر پینے کے باوجودہ علی روئی ابھی تک محفوظ اور صحت مند ہے یہ بات حکیم الداس کو مزید مشتعل کرتی چلی جارہی تھی۔ اس کی آنکھوں سے آگ کے بگولے نکلنے لگے تھے۔ یعنی بلڈپریشر کی سوئی مسلسل بلندی کی طرف رواں تھی۔
دوسری طرف سپرسسٹم کی بوٹنگ پروگریس 18 فیصد تک پہنچ گئی تھی۔ علی روئی نے محسوس کیا کہ زہر جتنا سٹرانگ، جتنا تیز تر ہوتا ہے اسے اتنی زیادہ توانائی ملتی ہے۔ اس کے اندر سے توانا رکھنے والے سسٹم میں اتنی ہی پیش رفت ہوتی ہے۔ اس لئے علی روئی سے زیادہ سے زیادہ دوائیاں پیے جارہا تھا اور حکیم الداس پلائے جارہا تھا۔ اس نامعلوم نظام سےعلی روئی کی توقعات بہت بڑھ گئی تھیں۔ وہ سوچنے لگا تھا جب یہ 100فیصدپر بوٹ ہوجائے تو کیا ہوگا۔
اچانک علی روئی نے ایک ناقابل یقین اظہار کیا اور کہا
حکیم ! رکو۔ حکیم الداس کی آنکھیں روشن ہوئیں، اس نے اس خالی بوتل کی طرف دیکھا جو ابھی علی روئی نے پی تھی اور پوری امید کے ساتھ پوچھا:
’’کیا تمہیں فالج محسوس ہورہا ہے سانس لینے میں دشواری ہورہی ہے؟‘‘۔
علی روئی نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا:
’’نہیں۔ میں نے کل رات سے کچھ نہیں کھایا ہے اور ابھی بہت زیادہ مائع یعنی پانی پی لیا ہے۔ اب میں اپنا پیشاب نہیں روک سکتا۔ ٹائلٹ کہاں ہے ؟‘‘۔
حکیم الداس نے ہاتھ میں پکڑی ہوئی بوتل غصے سے فرش پر دے ماری۔ خوفناک کھنک کے ساتھ بوتل کی کرچیاں چاروں طرف بکھر گئیں۔ حکیم الداس نے دانت پیس کر کہا:
’’بہت زیادہ پانی، لعنتی انسان! تم نے دوائیوں کے سپر حکیم کی زندگی بھرکے کام کی توہین کرنے کی جسارت کی ہے۔ میں تمہیں دیکھ لوں گا ‘‘۔
علی روئی نے فوراً منہ بند کر لیا۔ اسے خیال آیا کہ کل میں نے شایدحکیم الداس کی جلد کے سیاہ رنگ پر تبصرہ کیا تھا۔ جس کی اس نے مجھے سزا دی تھی۔ آج پھر اسے نیچا دکھا کر پھر وہی غلطی دہرا رہا ہوں؟۔
’’ٹھیک ہے ٹھیک ہے، میں پیشاب روک لوں گا‘‘۔
اس نے سوچا بجلی کے جھٹکوں سے بہتر ہے۔ اسے معلوم تھا کہ بدقسمتی سے،بجلی کو سپرسسٹم جذب نہیں کر سکتا۔ حکیم الداس سوچنے لگا کہ انسانی جسم کیسے اس سطح پر پہنچ گیا ہےکہ میرا بنایا ہوا کوئی بھی زہر اس پر اثرانداز نہیں ہورہا۔ اس نے ہانپتے ہوئے کہا:
’’نہیں! میرے پاس اب بھی ترکیبیں ہیں۔ میں اب تمہاری ہر ہڈی کو اسفنج کی طرح نرم اور خستہ کرنے والاسب سے مشکل وائٹ پوشن بناؤں گا!‘‘۔
چلبل کے وجود میں اس وقت بلوٹنگ دوائی کی آدھی بوتل کا اثر آہستہ آہستہ ختم ہو گیاتھا۔ اس کے پیٹ کے درد میں بھی کافی افاقہ ہوچکا تھا مگر تھک ہار کر ٹوٹ چکا تھا۔ زمین پر لیٹے ہوئے ابھی تک ہانپ رہا تھا۔ حکیم الداس کی خدمت کرتے ہوئے اسے کافی عرصہ ہو چکا تھا۔ اس نے ’’وائٹ پوشن’’ کے الفاظ سنے تو وہ خوفزدہ ہوگیا اورچلا کرکہا:
’’حکیم الداس! مت کرو۔ ایسا مت کرو‘‘۔
حکیم الداس غصے سےتقریباً اپنے ہوش وحواس کھو چکاتھا۔ زندگی بھر کی محنت کواکارت جاتے ہوئے دیکھ کر وہ پاگل ہو رہاتھا۔ وہ کسی پاگل کی طرح تیزی سے مختلف زہروں کو آپس میں ملانے لگا۔ علی روئی یہ دیکھ کر چپکے سے لیب کے دروازے کی طرف بھاگا۔ جب حکیم الداس نے جامنی رنگ کے مائع کو ایک بلبلی ٹیسٹ ٹیوب میں ڈالاتو اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے، اچانک یہ ٹیوپ ایک دھماکے کے ساتھ پھٹ گئی۔ میز وں پرموجود شیشے کا سارا سامان ٹوٹ پھوٹ گیا۔ طرح طرح کے مائعات اور پاؤڈر بارش کی طرح چاروں طرف بکھرگئی۔ حکیم الداس10 میٹر سے زیادہ ہوا میں لہراتے ہوئے زمیں پر جا گرا۔ اس کی زندگی اور موت غیر یقینی تھی۔ چلبل بھی لڑکھڑا کر دیوار سے جا ٹکرایا۔
خوش قسمتی سے علی روئی لیب کے دروازے کے پاس پہنچ چکا تھا۔ وہ اس دھماکے سے مکمل طور پر محفوظ رہا۔ لیب کی تعمیر بھی خاصی مضبوط تھی، اس میں کوئی دراڑیں نہیں آئی تھیں۔ علی روئی اس تباہی پر خوش ہوا۔ اگرچہ وہ مکمل طور پر بوٹ شدہ ’’سپرسس ٹم’’ کے اثر کا منتظر تھا مگر اسے اس بات کا بھی خوف تھا کہ حکیم الداس کا یہ پاگل پن پتہ نہیں کیا گل کھلائے۔ علی روئی نے زمین پر پڑی پھٹی ہوئی چادر اٹھائی اور اس سےاپنا سر ڈھانپ کرباہر نکل آیا۔ باہر دور دور تک حکیم الداس کی جاگیر کا علاقہ تھا۔ جس میں سڑکیں بھی تھی۔ درخت تھے۔ پھولوں بھری کیاریاں تھیں۔ کسی سڑک پر بھی کوئی موجودنہیں تھا۔ اس نے اتنی دوائیاں پی تھیں کہ پیشاب روکنا واقعی مشکل ہو رہا تھا۔ وہ باغ میں ایک جگہ ایک پودے کو پانی دینے لگا۔ علی روئی کو سکون ملا اور اس نے اپنی پتلون کی زپ بند کی۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو ہکا بکا رہ گیا۔ تجسس سے بھرا ہوا ایک چہرہ اسے گھور رہا تھا۔
یہ سفید لباس میں ملبوس ایک لڑکی تھی۔ اس کی عمر تقریباً 14 یا13 سال ہو گی۔ جلدصاف ستھری نکھری نکھری تھی۔ سنہرے بال لمبے اورگھنگریالےتھے۔ جامنی آنکھیں بہت ہی پُر کشش تھیں جولمبی لمبی پلکیں جھپکے بغیر اس پر مرکوز تھیں۔ علی روئی اگرچہ بچوں کو پسند کرنے والوں میں سے نہیں تھا مگراس لڑکی کی خوبصورتی سے حیران رہ گیا۔ اس نے انٹرنیٹ پر بے شمار خوبصورتیوں کو دیکھا تھا۔ فوٹو ایڈٹ سے نکلنے والی خوبصورتیاں بھی اس لڑکی کی معصومیت اورخدوخال کے جمال کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھیں۔ لڑکی نے آخراپنی بڑی بڑی آنکھیں جھپکیں۔ علی روئی کی نظر آہستہ آہستہ اس کے چہرےپر جم سی گئی۔ اس نے اس کے چہرے کے تاثر سمجھتے ہوئے اس سے کہا:
’’بدقسمتی سےابھی تم بہت چھوٹی ہو‘‘۔
لڑکی خاموش رہی۔ مگر اس کے چہرے اور آنکھوں میں وہی دلچسپی موجود رہی۔ علی روئی نے سوچا شاید اس کی سماعت میں کوئی مسئلہ ہے۔ اس کے دل میں تعلق کا بنتا ہوا کامل نقش چٹخ کر بکھر گیا۔ اسے اس سے باہر نکلنے میں کچھ وقت لگا۔ لڑکی نے اپنی خاموشی کو توڑ دیا اور کہا:
’’یہ بہت چھوٹا ہے‘‘۔
علی روئی نے سوچا دیومالائی دائرےکے راکشس لڑکوں نے پتہ نہیں اسے کیا کیا دکھا دیا ہے۔ اسے دکھ ہوا کہ ایک شاندار خوبصورتی نے ایسی بات کیوں کہی؟۔ علی روئی نے بے یقینی سے کہا:
’’تم کیا کہنا چاہ رہی ہو‘‘۔
لڑکی نے اسے عجیب نظروں سے دیکھا۔ علی روئی جہاں کھڑا تھا وہاں نیچے مٹی میں دبے مولی جیسے پودے کی طرف اشارہ کیا۔
’’میں کہہ رہی تھی کہ یہ لمباآلو ابھی پوری طرح سے نہیں بڑھا، اس لیے میں اسے باہر نکال کر نہیں کھا سکتی‘‘۔
لمباآلو۔ علی روئی کو پھر احساس ہوا کہ وہ پھولوں اور جڑی بوٹیوں والی ایک چھوٹی ٹوکری اٹھائے ہوئے ہے۔ اس کا چہرہ فوراً سرخ ہو گیا۔ زندگی میں پہلی بار اسے اتنی شرمندگی ہوئی۔ اس نے اس کی آنکھوں میں اٹھتی ہوئی چمک کو محسوس نہیں کیا وگرنہ وہ اپنے اندر شرمندہ شرمندہ نہ رہتا۔ ابھی علی روئی کو دیومالائی دائرے اور انسانی دنیا کے مزاج اور اطوار کا اندازہ نہیں تھا۔ وہ وہاں کی سماجی زندگی سے ناآشنا تھا اور ایسے کوئی معلومات بھی خوبخود اس کے دماغ میں نہیں آئی تھیں۔ وہ ہر معاملہ انسانی دنیا کے حوالے دیکھ رہا تھا۔
’’میرا نام شمائلہ ہے‘‘۔
خوبصورت لڑکی کی معصوم مسکراہٹ نے علی روئی کو کچھ اورشرمندہ کر دیا۔
’’بھائی آپ کا کیا نام ہے؟‘‘۔
علی روئی بولا:
’’علی روئی۔کیا آپ مجھے بتا سکتی ہیں کہ میں یہاں سے کیسے نکلوں؟‘‘۔
شمائلہ نے اپنی چمکدار، پیاری آنکھوں سے دیکھا اور کہا:
’’کہاں سے نکلنا چاہتے ہو۔ میں سمجھی نہیں۔ حکیم الداس کی لیب یہاں سے بہت قریب ہے۔ کیا تم وہاں جا رہے ہو؟آئو میں تمہیں وہاں لے چلوں ‘‘۔
’’نہیں نہیں، میں وہاں نہیں جانا چاہتا‘‘۔
علی روئی چونک کر کہا:
’’کیا تم مجھ سے مذاق کر رہی ہو؟ میں بڑی محنت اور مقدر سے اس پاگل خانےسے نکلنے میں کامیاب ہوا ہوں۔ میں وہاں واپس جاؤں تو بہت بڑا بےوقوف کہلائوں گا ‘‘۔
شمائلہ نے تجسس سے پوچھا:
’’کیوں۔ کیا ہوا ہےوہاں تمہارے ساتھ؟۔ حکیم الداس توبہت دلچسپ شخصیت ہیں ان کی تجربہ گاہ بھی شاندار ہے۔ میں ابھی وہیں جارہی ہوں‘‘۔
علی روئی نے اس معصوم اور پیاری سی لڑکی کی طرف دیکھا۔ اس نے دل ہی دل میں دانت پیستے ہوئے کہا:
’’تم نہیں جانتی؟ابھی ابھی لیب میں حادثہ پیش آیاہے۔ میں حکیم الداس کا نیا سٹوڈنٹ ہوں۔ حکیم نے غلطی سے ایک عجیب و غریب دوائی پی لی ہے۔ وہ پاگل ہو گیا ہے، جس کو بھی دیکھتا ہے اسی پر حملہ کردیتا ہے۔ اس نے چلبل کے ساتھ بھی بڑی زیادتی کی ہے۔ اگر تم وہاں گئی تو وہ تم کو بھی تکلیف پہنچائے گا۔ اس وقت مجھے یہ جگہ چھوڑنے کی جلدی ہے لیکن مجھے راستہ یاد نہیں۔ کیا تم مجھے یہاں سے باہر لے جا سکتی ہو؟‘‘۔
یہ سن کرکہ حکیم الداس پاگل ہو گیا، شمائلہ گھبرا گئی۔ وہ سر ہلاتے ہوئے بولی:
’’یہ توبہت خوفناک بات ہے! چونکہ آپ حکیم کے شاگرد ہیں، اس لیے ان کی اجازت کے بغیر وہاں سے نکلنا درست نہیں ‘‘۔
علی روئی نے منت سماجت کرتے ہوئے کہا:
’’شمائلہ، کیا آپ میری مدد نہیں کر سکتیں؟‘‘۔
شمائلہ نے اپنے ہونٹوں کو پھیلایا، پھر سکیڑا۔ کچھ دیر سوچتی رہی ا ور پھر ’’ہاں ‘‘میں سر ہلاکر کہا:
’’ٹھیک ہے، لیکن آپ کو اپنے اوپر چادر اوڑھ کر اورسر نیچے کر کے چلنا پڑے گا۔ تاکہ کسی کو یہ پتہ نہ چلے کہ آپ نئے طالب علم ہیں‘‘۔
علی روئی نے محبت بھرے لہجےسے کہا:
’’بہت شکریہ شمائلہ ! میں زندگی بھر تمہارا ممنون رہوں گا‘‘۔
علی روئی بھی جانتا تھا کہ اس کی انسانی شناخت سامنے آئے گی تو مسائل پیدا ہونگے۔ یہ تجویز اس کی ضرورت کے مطابق تھی، اس لیےوہ خوشی سے نہال ہو گیا۔
شمائلہ نے دو پیارے، چھوٹے ڈمپل دکھاتے ہوئے پیار سے مسکراکرکہا:
’’فکر کی کوئی بات نہیں بھائی‘‘۔
اس نے علی روئی کا ہاتھ پکڑلیا اور چلنے لگی۔ علی روئی نے محسوس کیا کہ چھوٹی لڑکی کا ہاتھ ہموار اور چمکدار ہے۔ ہلکا سا گرم بھی ہے۔ اس نےدل ہی دل میں خوشی محسوس کی اور خود سے کہا۔ کس نے لکھا تھاکہ دیومالائی دائرے میں صرف راکشس ہوتے ہیں۔ یہ چھوٹی سی لڑکی تو فرشتوں جیسی مہربان اور مددگار ہے۔
راستے میں عجیب و غریب شکلوں والے بہت سے ڈیمن دکھائی دیے۔ وہ زیادہ تر لمبے لمبے تھے، ان کے ہاتھوں میں ہتھیار تھے۔ یہ سب حکیم الداس کی جاگیر کے محافظ تھے۔ علی روئی نے سوچا کہ چھوٹی شمائلہ اکثر یہاں آتی جاتی ہے۔ سب گارڈ اسے جانتے ہیں۔ اس لئے کسی گارڈ نے بھی ان سے کچھ پوچھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی بلکہ ہر گارڈ نے اس بچی کو پورااحترام دیا۔ علی روئی اس صورتحال سے خاصا مطمئن تھا۔ اس نے چادر میں اپنا چہرہ چھپارکھا تھا اور سر نیچے کیے چل رہا تھا۔ یہ ’’جاگیر‘‘ بہت بڑی تھی۔ ایک طویل چہل قدمی کے بعدشمائلہ نے اسے روکتے ہوئے کہا:
’’ہم یہاں ہیں‘‘۔
علی روئی بہت خوش تھا۔ سر اٹھاتے ہی وہ فوراً گھبرا گیا۔ یہ وہی خوفناک جگہ تھی جہاں سے وہ بھاگا تھا۔ وہی حکیم الداس کی تجربہ گاہ۔ شمائلہ مسکرائی، اس کی آنکھوں کے منحنی خطوط دو خوبصورت چاندوں کی طرح لگ رہے تھے۔
’’بھائی! آپ یہاں آنا نہیں چاہتے تھے مگر میں لے آئی ہوں کہ اسی میں آپ کا فائدہ ہے۔ آپ کو میری مدد کے لئے شکر گزار ہونا چاہئے ‘‘۔
مسکراہٹ پہلے کی طرح فرشتہ صفت اور پاکیزہ تھی، لیکن علی روئی کو اپنے فرشتے کے منہ کے کناروں میں چھپے ہوئے چڑیلوں والےدانت صاف نظر آنے لگے۔ اس کی پیٹھ پر ایک چھوٹی سی دم بھی ہل رہی تھی۔ علی روئی نے آہستہ سے نکل جانا چاہا مگرشمائلہ کا گرم چھوٹا سا ہاتھ لوہے کے مضبوط ہک کی طرح تھا۔ اس کا جسم بالکل ہل ہی نہ سکا۔
’’کیا کوئی ہے؟ میں آئی ہوں!‘‘۔
شمائلہ علی روئی کو دلربائی سے اپنی طرف کھینچ کر چلائی۔
’’یہ کون ہےگستاخ‘‘؟۔
حکیم الداس نے لنگڑاتے ہوئے، بڑبڑاتے ہوئے، جب شمائلہ کو دیکھا تو فوراً گھٹنے ٹیک دیے۔ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ اسے خوف ہے یا صدمہ۔
حکیم الداس جس کا چہرہ دھول اور مٹی سے بھرا ہوا تھا۔ اس نے حسرت بھری نظروں سے علی روئی کی طرف دیکھا۔ تاہم کوئی جلدی نہیں کی بلکہ اسے نظر انداز کرتے ہوئے شمائلہ کےلیےتچلبلم بجا لایا۔ شمائلہ بولی:
’’حکیم ! میں نے آپ کو کافی دنوں سے نہیں دیکھاتھا۔ آپ سے ملنے آ رہی تھی۔ راستے میں آپ کا نیا سٹوڈنٹ مل گیا۔ یہ اپنا راستہ بھول گیاتھا۔ سومیں نےاس گم گشتہ راہ کی مدد کی۔ اسےیہاں لے آئی مگریہ بھائی ایماندار نہیں ہے۔ اس نے مجھ سے جھوٹ بولاکہ حکیم نے کوئی ایسی دوائی پی لی ہے جو انہیں نہیں پینی چاہیے تھی۔ اس لئے اگر انہوں نےمجھے دیکھ لیاتو وہ میرے ساتھ بھی برا سلوک کریں گے‘‘۔
علی روئی سوچنے لگا کہ اس چھوٹی لڑکی کے سینے میں دل نہیں کوئی سیاہ پتھر ہے اوریہ اندر سے بہت مضبوط ہے۔ فیصلہ بھی کرتی ہے اوراس پر عمل درآمد بھی۔ علی روئی کے پاس چونکہ کہنے کو کچھ نہیں تھا اس لئے اس نے خاموشی سے سر جھکا لیا۔ حکیم الداس نے شمائلہ سے کہا:
’’ چھوٹی شہزادی! اس چالاک انسان پر یقین مت کرو۔ یہ آدمی تین دن پہلے ہمارےدیومالائی دائرے میں آن گرا تھا۔ میں نے اپنی نئی دوائیوں کی آزمائش کےلئے اسے اپنی تحویل میں لے لیا۔ لیکن اس پر ہردوائی بے اثر ثابت ہوئی ہے۔ جب میں سفید پوائزن بنانے لگا تو ایک حادثہ پیش آگیا۔ یہ اُس کو موقع غنیمت جان کر یہاں سے بھاگ نکلا۔ خوش قسمتی سے آپ اسے مل گئیں وگرنہ یہ ہاتھ سے گیا تھا ‘‘۔
ننھی شہزادی شمائلہ کو علی روئی کی اصلیت معلوم ہو چکی تھی۔ اگرچہ علی روئی کو اس بات کی تکلیف بھی تھی کہ شمائلہ اسے اپنے جال میں پھنسا کر واپس یہاں لے آئی تھی پھر بھی وہ شمائلہ کو کھونا نہیں چاہتا تھا۔ سو اس نے ذہنی طور طے کر لیا کہ قطعاً اس بات کو تسلیم نہیں کرے گا کہ وہ دھوکہ باز ہے جیسا اسے حکیم الداس نے ننھی شہزادی کے سامنے پیش کیا ہے۔ علی روئی نے حکیم الداس سے کہا:
’’مجھ پر الزام مت دو، تمہاری تمام دوائیاں ناکارہ ہو گئی ہیں‘‘۔
اس جملے پر شمائلہ کی آنکھیں چمک اٹھیں جیسے کوئی دلچسپ چیز اس کے ہاتھ لگ گئی ہو۔
’’میں اتھیناکے ساتھ تاریک برساتی جنگل میں گئی تھی اور وہاں سے کچھ دلچسپ چیزیں لائی ہوں۔ (اشارہ کرتے ہوئے) یہ آنتوں کو توڑنے والی گھاس ہے۔ یہ دل کو گلانے والاپھول ہے۔ ہم اس کا تجربہ اس انسان پر کیوں نہ کریں ‘‘۔
ننھی شہزادی نے کہا۔
چھوٹی ٹوکری کے اندر رکھی ہوئی چیزیں دراصل پھل اور پھول نہیں تھے بلکہ یہی’’دلچسپ’’ سامان تھا۔ علی روئی نے دل میں کہا:
’’یہ لڑکی توسچ مچ ایک چھوٹی سی ڈیمن ہے‘‘۔
اس سے پہلے کہ علی روئی کوئی مزاحمت کر تا، چلبل نے اسے ایک رسی سے باندھ لیا اور دوبارہ لیب کے اندر لے آیا۔ وہ لیپ کو صاف ستھرا کرچکا تھا۔ کرچیاں سمیٹ لی گئی تھیں۔ تمام تیزاب اور محلول دھوئے جا چکے تھے۔ علی روئی پر پھر تجربات شروع ہو گئے۔ ایک گھنٹہ گزر گیا۔ حکیم الداس نے اپنی بھنوؤں کو اور بھی سخت کر لیا۔ تاریک برساتی جنگل کی گہرائیوں سے آئی ہوئی چیزیں، علی روئی کے خلاف بے اثر ثابت ہوئیں۔ دوسری طرف سپرسسٹم کی ترقی 19.6فیصد پر پہنچ گئی تھی، لیکن علی روئی بالکل خوش نہیں تھا۔ حکیم الداس پاگل پن کی حد تک پرجوش ہونے کے ساتھ اب کافی خوفزدہ بھی تھا۔ وہ اپنے ہر تجربے میں چھوٹی سی شمائلہ کو شامل کر رہا تھاکہ کسی طرح اسے کامیابی نصیب ہو مگران کی طاقت ایک جمع ایک گیارہ بجائے دوکے برابر ہو رہی تھی۔
شمائلہ کو بھی دواسازی میں دلچسپی تھی۔ اسے حکیم الداس کا خاص طالب علم سمجھا جا سکتا ہے۔ اس نے اپنے چہرے کو پکڑا اور سوچا:
’’حکیم ! آپ ہمیشہ منفی اثرات پیدا کرنے والی دوائیاں استعمال کرتے رہے ہیں کیوں نہ اس پرکوئی ایسی ڈرگ آزمائیں جو طاقت بڑھائے‘‘۔
حکیم الداس نے محسوس کیا کہ یہ خیال قابل عمل ہے۔ اس نے لوہے کی الماری کھولی، سرخ دوائیوں کی ایک بوتل کا انتخاب کیا اور کہا:
’ ’طاقت کی اس تیز ترین دوائی کو آزماتے ہیں‘‘۔
چلبل نے احترام سے حکیم الداس کے ہاتھ سے وہ دوائی لی اور علی روئی کو پینے پر مجبور کیا۔ علی روئی نے اپنے جسم میں گرمی محسوس کی جیسے اسے تحرک کا انجکشن لگاہو۔ اس کی طاقت میں تیزی سے اضافہ ہوا اور اس کے اردگرد کی رسیاں یکایک بکھر گئیں۔ چلبل بھی ہمیشہ سے اسی کوشش میں رہتا تھا کہ کسی طرح وہ شہزادی کو متاثر کرے۔ اس نے علی روئی کو زیر کرنے کی کوشش میں اپنے اندرونی دانت باہر نکال لئے مگر علی روئی میں ضرورت سے زیادہ طاقت پیدا ہو چکی تھی۔ چلبل ناکام ہوا تواس نے لڑناشروع کر دیااورشہزادی اور حکیم کے سامنے علی روئی کومارنے کی ہر ممکن کوشش کی علی روئی بھی جواباً پوری شدت سے لڑااور چلبل پر حاوی ہوگیا۔ اب چلبل کی چیخیں نکلنے لگیں۔ رفتہ رفتہ اس کی چیخیں تیز ہوتی گئیں مگر حکیم الداس اور شمائلہ نے اس کی کوئی مدد نہ کی۔ علی روئی پہلے موقع کی تلاش میں تھا چلبل نے اسے بہت تکلیف دی تھی۔ اسے مارنا بہت اچھا لگ رہا تھاوہ چلبل کو مارتا رہا لیکن حکیم الداس یا شمائلہ پر ہاتھ اٹھانے کی ہمت نہیں کی۔ اسے معلوم تھا کہ وہ دونوں بہت طاقتور ہیں۔ عجیب بات یہ تھی کہ سپر سسٹم نے اس طاقت بڑھانے والی دوائی کی توانائی کو جذب نہیں کیا، بس صرف تھوڑا سا اضافہ ہوا تھا. یہ فی الحال 19.7 فیصد پر تھا۔
حکیم الداس نے فرش پر پڑے چلبل کا سوجا ہوا چہرہ دیکھا جو ہوا کے لیے ہانپ رہا تھا۔ دوسری طرف علی روئی پر بھی پوٹین سٹرینتھ پوشن کا اثر آہستہ آہستہ ختم ہو گیا۔ حکیم الداس نے غور سے علی روئی کا مشاہدہ کیا جو اس وقت بالکل پرسکون تھا۔ حکیم الداس ایک بار پھر حیران رہ گیا۔ وہ جانتا تھا کہ جہاں پوٹین سٹرینتھ پوشن طاقت کو بہت زیادہ بڑھا تی ہے وہاں دواکے اثر کے بعد استعمال کرنے والے کو انتہائی کمزور کر دیتی ہے لیکن اسے علی روئی میں کوئی کمزوری نظرنہیں آرہی تھی۔ یہ بات شمائلہ بھی جانتی تھی اس نے حیرانی کے ساتھ حکیم الداس سے پوچھا:
’’کیا یہ ہو سکتا ہے حکیم !کہ آپ ایک ایسی ٹریوپوٹین سٹرینتھ پوشن بنانے میں کامیاب ہو گئے ہوں جس کے کوئی سائیڈ ایفکٹس نہ ہوں‘‘۔
حکیم الداس نے اپنا سر نفی میں ہلایا اور آہ بھرتے ہوئے کہا:
’’ یہ ناممکن ہے، اس کی ترکیب بہت پہلے سے گم ہو چکی ہے۔ اب اسے صرف گرینڈ حکیم ہی تیار کرسکتا ہے۔ اس وقت اس کی پورے دیومالائی دائرے میں کوئی بوتل موجود نہیں ‘‘۔
علی روئی نے، اس طرف، ’’سائیڈ ایفیکٹس کے الفاظ سنے، اور سوچا:
’’یہ بھی ’سمارٹ خودکار جذب ‘کا اثر ہے؟ اسی کی وجہ اس دوائی کے برے اثرات مجھ پر مرتب نہیں ہوئے‘‘۔
حکیم الداس یکے بعد دیگرے کئی قسم کی زہریلی دوائیاں آزمانے کے بعداس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ تما م زہر اس انسان کے خلاف بے اثر ہیں بلکہ الٹا زہریلی دوائیاں اس کے لیے فائدہ مند ثابت ہوتی ہیں۔ علی روئی کے لئےاس وقت یہ زہربنانے والاحکیم الداس غذائیت دینے والا مہربان بن چکا تھا۔ اس نے حکیم الداس سے کہا:
’’ حکیم آپ کیوں پریشان ہیں ؟۔ آپ کی دوائیوں سے مجھے فائدہ ہو رہا ہے ‘‘۔
اس جملے کی حکیم الداس کو بہت تکلیف ہوئی۔ اس نے گرج کر کہا:
’’مجھے اب ایسی بھی کوئی چیز بنانی ہے جو تم جیسوں کو انجام تک پہنچا سکے‘‘۔
چھوٹی شہزادی نے اپنے سامنے اس طرح آواز بلند کرنے پرحکیم الداس کوتیز نظروں سے دیکھا۔ وہ شہزادی کے سامنے ادب آداب بھولنے لگا تھا۔ یہ بات اسے ایک مردہ انجام تک بھی پہنچا سکتی تھی۔ شہزادی بہرحال شہزادی تھی مگر اس نے اسی طرح احترام سے حکیم الداس سے کہا:
’’میں آپ کو پریشان دیکھ رہی ہوں ‘‘۔
حکیم الداس بولا:
’’ میں یہ سوچ کر پریشان ہوں کہ صرف چند سو سالوں میں انسان کتنا خوفناک ہو گیا ہے۔ یہ ایک عام آدمی ہے۔ اگر اس کی یہ حالت ہے تو خاص لوگ کیسے ہوں گے۔ ایسی صورت میں ہم ڈیمنوں کا مستقبل کیا ہوگا‘‘۔
شمائلہ بولی:
’’مجھے نہیں لگتا کہ تمام انسان ایسے ہوں، اس آدمی کے ساتھ کوئی خاص بات ہے۔ حکیم !کیا آپ اس بات کو جانچنے کے لیے کوئی جادوئی آلہ نہیں بناسکتے؟ ‘‘۔
’’نہیں میں وہ آلات نہیں بنا سکتا۔ وہ اورعلم ہے، اس کی علیحدہ یونیورسٹیاں ہیں۔ میں صرف دوا سازی میں مہارت رکھتا ہوں‘‘۔
حکیم الداس نے کہا۔
حکیم الداس علمیات میں کافی سخت تھا۔ اسے اچانک ایک خیال آیا اور اس کی آنکھوں میں خون کی ہولی دکھائی دی۔ وہ بولا:
’’میں نے اس کا خون چلبل کو پلایامگرچلبل کو استثنیٰ نہیں ملا۔ اس پر یہ تمام زہر اسی طرح اثر کرتے ہیں۔ اب میں تحقیق کے لیے اس کاجسم کاٹوں گا۔ اس کے جسم کے مختلف ٹکڑوں پر تجربات کروں گا ‘‘۔
یہ سن کر علی روئی کی ریڑھ کی ہڈی میں ٹھنڈی لہر گزرگئی۔ اس نے سوچا کہ اب معاملہ بہت خوفناک ہو گیا ہے۔ اب کیا کیا جائے۔ وہ اپنے آپ کو ذہنی طور پر حکیم الداس کے ساتھ جنگ کےلئے تیار کرنے لگا۔ حکیم الداس اٹھا مگرشمائلہ نے اسے روکتے ہوئے کہا:
’’حکیم !ٹھہرو۔ اسے مت مارو۔ یہ لڑکا بہت دلچسپ ہے۔ مجھے کچھ دن اس کے ساتھ کھیلنے دو‘‘۔
اس وقت، علی روئی نے محسوس کیا کہ وہی فرشتوں والاہالہ دوبارہ شمائلہ کے سر پر آگرا ہے۔ قسمت سے ملا ہوا ایک موقع جان کر اس نے جلدی سے کہا:
’ ’ہاں حکیم !مجھے مت مارو۔ میں آپ کی تمام دوائیاں اپنے اوپر آزماؤں گا جب تک آپ مطمئن نہیں ہو جاتے‘‘۔
یہ اچھا خیال تھا۔ وہ جانتا تھا اس طرح وہ نہ صرف اپنی جان بچا سکتا تھا بلکہ سپرسسٹم کو 100 فیصد تک بڑھا سکتا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ ایک سپرمین بن جائے جو چھوٹے ڈیمن کو مکا مار کر مار دینے کے قابل ہوجائے۔ اسے اس تاریک مافوق پر قدم جمانے کا موقع مل جائے۔
دوسرا باب
عظیم استاد کی وراثت کا خیال
’’آدمی کے پیروں تلے دیوتاؤں کی لاشیں پڑی ہیں‘‘
ذہنی طور پر وہ سوچتا تھا کہ انسان ڈیمنوں سے کمزور نہیں مگر اس کی اسے روحانی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے جو اس کے پاس موجود نہیں۔ سو علی روئی کی تمام توقعات اس وقت سپر سسٹم سے وابستہ تھیں۔ فرشتوں کی طرح معصوم سی، پھول سی نرم و نازک، بھولپن سے بھری مگرانتہائی چالاک شمائلہ کو ابھی تک علی روئی کے لیے پرجوش دیکھ کر، حکیم الداس نے تحمل سے کہا:
’’چھوٹی شہزادی! اگر ہم اس انسان کے اسرار سے پردہ اٹھا لیتے ہیں تو ڈیمنوں کی طاقت بڑی چھلانگ لگائے گی۔ کسی کا پوائزن پروف ہونا بہت بڑی بات ہے۔ اس سے نیرنگ آباد کے لیےبے تحاشا فوائد ہوسکتے ہیں۔ خاص طور پر بڑی شہزادی کی معاملات میں بہت بہتر ی آسکتی ہے‘‘۔
جیسے ہی حکیم الداس نے شمائلہ کی بہن کا ذکر کیا۔ شمائلہ کے مطالبے میں ہچکچاہٹ آ گئی۔ اس نے اصرار کرنا چھوڑ دیااور حکیم الداس کے قدم علی روئی کی طرف بڑھنے لگے۔ زہریلی مسکراہٹ سے حکیم الداس کو ایک ایک قدم قریب آتے دیکھ کر، علی روئی کے رونگٹے کھڑے ہو نے لگے۔ اس نے علی روئی سے کہا:
’’میں تجھےایک دم نہیں ماروں گا۔ چن چن کر تیرے اعضاالگ کر وں گابلکہ مزید تجربات کرنے کےلیے تیری زندگی کو برقرار رکھنے کی ہر ممکن کوشش کروں گا‘‘۔
علی روئی بولا:
’’نہیں! میں سفید چوہا بننے کے بجائے مرنا پسند کروں گا‘‘۔
’’یہاں کوئی اپنی مرضی سے نہیں مر سکتا ‘‘۔
حکیم الداس نے کہا:
جس پرعلی روئی نے جلدی سے ردعمل ظاہر کیا اور چلایا:
’’صبر کرو!رک جائو۔ میرے پاس بے شمار راز ہیں۔ تم مجھے ہاتھ نہ لگائوتو میرا وعدہ ہے میں اپنے راز تمہیں بتا دوں گا‘‘۔
ان الفاظ نے حکیم الداس کے قدم روک دیے اور اس کی نظریں علی روئی پر جم گئیں۔ وہ بولا:
’’بولو، کیا ہے تمہارے پاس‘‘۔
’’میں کوہ قاف کے پہاڑوں پر کھیل رہا تھا۔ اچانک ایک آبشار میں جا گرا‘‘۔
علی روئی نے ایک پرانی کہانی کےپلاٹ کے بارے میں سوچااور بیان کرنا شروع کردی۔
’’اس آبشار کے اندرایک پانی کاغار تھا۔ اس کے ارد گرد پانی کے پردے لگے تھے۔ پھواریں پھولوں کی شکل میں تھیں۔ لہروں کی ڈیزائن پتھریلی چٹانوں پر پیٹنگ کی طرح آویزاں تھے۔ گرتے ہوئے قطروں کی جھالریں کونوں کا خوبصورت بنارہی تھیں۔ برف کا ایک بیڈ لگا ہوا تھا اس پر باقاعدہ کشیدہ کاری کی گئی تھی۔ اس کے سامنے برف کی بنی ہوئی ایک میز اور کرسی بھی پڑی تھی۔ بیڈ پر ایک بہت بوڑھا شخص لیٹا ہوا تھا۔ وہ بھی برف کی طرح بالکل سفید تھا اس کے بال اور اس کی داڑھی بھی برف کی بنی ہوئی لگ رہی تھی۔ اس کے ہونٹ آہستہ آہستہ ہلے اور اس نے مجھے کہا:
’’میرے جانے کا وقت ہو چکا ہے۔ میرے کوئی جانشین نہیں۔ کیا میرا جانشین بننا قبول کروگے ؟۔ میں نے بے ساختہ ’ہاں‘ کہااور پھر اس غار میں سے مجھے عظیم حکیم سن ووکونگ کی وراثت ملی‘‘۔
اس دیومالائی دائرے میں زیادہ تر چیزیں ہماری زمین سے ملتی جلتی تھیں۔ جیسا کہ وقت، اکائیاں، عام اسم وغیرہ، اس لیے علی روئی کو بنیادی طور پر کوئی فکر نہیں تھی اور وہ تیزی سے بولتا گیا:
’’سن ووکونگ علم کیمیا کا بہت بڑاماہر تھا۔ اس نے ایک بار13,500 کلوگرام وزنی ایک بھاری قالب بنایا۔ یہ ہر طرح کے جادو کے خلاف مزاحمت کرتاتھا۔ وہ آزادانہ طور پر اس کا سائز تبدیل کر سکتا تھا۔ جب یہ بڑا ہوتا ہے تو آسمان کو جا لگتا تھااور جب یہ چھوٹا ہوتا تھاتو سوئی میں تبدیل ہو جاتا تھا۔ اس نے ایک امرت بھی تخلیق کیا تھا جو عام لوگوں کو ہزاروں سال کی عمر بخش دیتا تھا یہاں تک کہ لافانی بنا سکتا تھا ‘‘۔
وہ اب سوچ رہا ہوتا ہے کہ یہ زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ میں جہاں تک جھوٹ بول سکتا ہوں بولوں گا۔ یہاں تک کہ مرنے کے بعد اگر مجھے وو چینگین اورمغربی سفر کےپرستارمیرا گلا بھی گھونٹ دیں تو تب بھی مجھےقبول ہے۔ میں ضرور جھوٹ بولوں گا۔
’’اس کاتیار کردہ قالب دیوتاؤں کے خلاف لڑ سکتا ہے، لافانی بنانے کا امرت۔ ہزاروں لوگوں کو ہمیشہ کےلئے زندہ بنا سکتا ہے۔ وہ ادویات اورمیکانکس دونوں کا حکیم تھا۔ حکیم الداس دنگ رہ گیا۔
’’اگر یہ سچ ہے تو، یہ عظیم حکیم یقینی طور پر خدا جیسے درجے تک پہنچ گیا تھا!‘‘۔
حکیم الداس کو بہت صدمہ ہوا لیکن وہ شک میں بھی پڑ گیا۔ اس نے کہا:
’’بے شک تم نے اس عظیم آقا کے اتنے حیرت انگیز کارنامے بیان کئے ہیں مگر میں نے تاریخ میں اس کا نام نہیں سنا؟‘‘۔
علی روئی کو لگا کہ اس کا جھوٹ تقریباً بے نقاب ہو نے والا ہے اس کا دل دھک کر کے رہ گیا۔ خوش قسمتی سے اس نے بہت سے ناول بھی پڑھ رکھے تھے اور اپنے اس پلاٹ میں بہت کچھ بھرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ وہ گویا ہوا:
’’قدیم زمانے سے پہلےبھی ایک قدیم دور تھا جسے دیوتاؤں کا دور کہا جاتا ہے۔ سن ووکونگ اسی قدیم دور کا ایک کردار ہے۔ اپنی حیرت انگیز کامیابیوں کے لیے وہ تقریباً عام لوگوں اور دیوتاؤں کو ایک دوسرے کے ساتھ جھگڑنے دیتا تھا۔ اس سے دیوتاؤں میں خوف و ہراس پھیل گیاتھا چنانچہ انہوں نے ووکونگ پر حملہ کرنے کے لیے100,000 کی فوج بھیجی لیکن وہ شکست کھا گئے۔ ووکونگ نے خدا کے دائرے پر بھی حملہ کیا اور تمام دیوتاؤں کو خوفزدہ کردیا۔ اس جنگ کو ’’ Ragnarok ’’ کے نام سے جانا گیا۔ بالآخر ووکونگ کو سب سے طاقتور دیوتا، تتھاگاتا نے دبا دیا اور اس قدیم دور کی تاریخ کو بھی دیوتاؤں نے جان بوجھ کر مٹا دیا۔ یہاں تک کہ قدیم کتابوں میں بھی اس کا ریکارڈ نہیں ملتا لیکن کبھی کبھار ایک یا دو متعلقہ اسم کچھ پرانے کاغذات پر دیکھے جا سکتے ہیں‘‘۔
اچانک شمائلہ بولی:
’’راگناروک ؟ مجھے ایسا لگتا ہے میں نے یہ نام کسی کتاب میں کہیں پڑھا ہے مگر اس وقت مجھے یہ یاد نہیں آ رہا‘‘۔
شمائلہ کی باتوں نے علی روئی کو چونکا دیامگر اس نے اپنی کہانی جاری رکھی۔ دعویٰ کیا کہ اسے پانی کےپردے کے غار میں حکیم کی بقیہ روح سے پہلے وراثت ملی اور پھر اسے غیر واضح طور پر دیومالائی دائرے میں ٹیلی پورٹ کیا گیا۔ عظیم آقا کی روح کا ایک قطرہ بھی انتہائی طاقتور تھاجو ان کی پوری زندگی کے تجربے اور علم پر مشتمل تھا۔ اسی کی وجہ ہے کہ وہ ہر قسم کے زہر سے محفوظ ہے۔ یہ میری قوتیں اسی دیوتاکی برکت کا نتیجہ ہیں۔ علی روئی نے بتایا کہ ابتدائی دور کے بہت سے واقعات اس نے حکیم کی باقیات سے سیکھے ہیں، لیکن اپنی کمزور روح کی وجہ سے وہ مکمل طور پر نہیں سیکھ سکا۔ اسے مزید علم حاصل کرنے کے لیے اپنی طاقت کے بڑھنے کا انتظار کرنا پڑرہا ہے۔
حکیم الداس پرسکون لگ رہا تھا۔ علی روئی کے الفاظ نے کم از کم یہ ثابت کردیا تھا کہ دوائیاں بنانے کے بارے میں ان کا زندگی بھر کا مطالعہ بیکار نہیں گیا۔ شمائلہ نے علی روئی پر اپنی توجہ مرکوز رکھی اور اسے قدیم دور کی مزید کہانیاں سنانے کو کہا۔ علی روئی نے شان ہائی جینگ سے صرف راکشسوں کی کہانیاں مستعار لیں اور شمائلہ کی آنکھوں میں دلچسپیوں کے دریا بھر دیے۔ اگر علی روئی شمائلہ سے پہلے ذلیل نہ ہوچکا ہوتا تو وہ اس کا اصل چہرہ کبھی نہیں دیکھ سکتا۔ حکیم الداس کو ابھی تک علی روئی پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ اس نے طنز کرتے ہوئے کہا:
’’مجھے یقین نہیں ہے کہ کوئی قدیم سےقدیم زمانہ بھی ہے، مجھے یقین نہیں ہے کہ کوئی عظیم آقا دیوتاؤں کے ساتھ جھگڑا کر سکتا ہے۔ میں یقین نہیں کر سکتا کہ تجھ جیسے نا اہل آدمی کو ایک عظیم آقاکی وراثت ملی۔ اگرتو آج یہ بات ثابت نہیں کر سکا تو تجھے حکیم الداس کو دھوکہ دینے کا نتیجہ بھگتنا پڑے گا‘‘۔
چھوٹی شہزادی جو ایک وفادار سامع تھی، اس نے فوراً اپنا رخ موڑ لیا اور آگ میں ایندھن ڈالتے ہوئے بولی:
’’اور عظیم لوسیفر شاہی خاندان کوبھی دھوکا دینے کا نتیجہ ‘‘۔
علی روئی نے اپنی یعنی آرتھر کی نامکمل یادداشت سے بہت کچھ حاصل کر لیا تھا۔ اسے یاد آ گیا تھا کہ اس جادوئی دنیا کی ایلکمی کو دو بڑے زمروں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: میکانکس اور فارماسیوٹکس۔ درحقیقت اس میں ریاضی، لوہا سازی، ادویات، میجک سرکل وغیرہ کا جامع علم شامل ہے۔ اس کے اعلی درجے کی وجہ سے، بہت کم لوگ حکیم کی سطح تک پہنچ سکتے تھے۔ انسانی اور دیومالائی دائروں میں ان کو بہت عزت سے دیکھا جاتا تھا۔
علی روئی نے جلدی سے سوچا اور پھر سوال کیا کہ اگر میں اصل ثبوت سامنے لےآؤں تو پھر تم کیا کرو گے۔ حکیم الداس یہ سوچ کراداس سا ہو گیاکہ علی روئی جھوٹ نہیں بول رہا۔ یہ مانتے ہوئے کہ علی روئی نے جو کہا ہے وہ سچ ہے تو علی روئی زندگی کو برقرار رکھنا ایک خدا نما حکیم کو زندہ رکھنے کے مترادف ہے۔ نیرنگ آباد، ڈیمنوں کی دنیاہے اوراس دنیا میں کیمیائی دنیا کا بہت مقام و مرتبہ اور بے حساب قدر تھی۔
’’مجھے سیاہ ایلوز کی عزت کی قسم، اگر تم سچ کہہ رہے ہو تو میں تمہیں کبھی تکلیف نہیں دوں گا‘‘۔
حکیم الداس نے سنجیدگی سے کہا:
شمائلہ نے سوچا۔ ’’تاریک طلسماتی مخلوق کی عزت ؟‘‘۔ اور اس کے چہرے پر ایک لطیف مسکراہٹ پھیل گئی، دیومالائی دائرے میں سیاہ ایلوز کو ’’چالاک اور مکارمخلوق’’ کا لیبل دیا گیا ہے اور انہیں اس پر فخر ہے۔ پورے دیومالائی دائرے میں پیشہ ور دھوکے بازاور قاتل اس نسل کے رکن ہیں۔
ایسا لگ رہا تھا کہ اگرچہ اس حکیم الداس کو دواسازی کا جنون ہےمگر وہ اب بھی اپنی پستیوں میں ایک چالاک سیاہ ایلف ہے۔
علی روئی کو اس بات کا یقین نہیں تھا۔ اس نے سوچا کہ حکیم الداس نے واقعی حلف اٹھایا ہے، اس لیے علی روئی نے کہا:
’’میری روح بہت کمزور ہے اور زیادہ شعور برداشت نہیں کر سکتی۔ میں حساب کے لیے یاداشت سے گریٹ حکیم کے صرف ایک یا دو ٹکڑے دیکھ سکتا ہوں۔ وہ محض کچھ معمولی چیزیں ہیں لیکن ثبوت کے لیے کافی ہیں‘‘۔
حکیم الداس بولا:
’’وہ کیا ہیں۔ جلدی پیش کرو۔ یقیناًخدا جیسے عظیم الشان حکیم کی ایک معمولی سی چیز بھی انمول ہو سکتی ہے‘‘۔
علی روئی نے کہا:
’’اسے بنانے کےلئے مجھے کچھ چیزیں درکار ہیں‘‘۔
پھر تمام ضروری چیزیں علی روئی کو فراہم کردی گئیں۔ شمائلہ علی روئی کو بڑی دلچسپی سے دیکھتی رہی اور وقتاً فوقتاً پیش رفت میں رکاوٹیں ڈالتی رہی۔ بیچارہ چلبل اب بھی زمین پر کراہ رہا تھا لیکن کسی کو اس کی پرواہ نہیں تھی۔
علی روئی نے دیومالائی دائرے میں کاغذ پر پہلا کام مکمل کیا۔
حکیم الداس نے اسکوائر فریم کو حیرانی سے دیکھا، ساتھ ہی اندر مربع اور مستطیل بلاکس بھی۔ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ حساب کا ٹول ہے جسے ایک عظیم آقا نے بنایا ہے۔
’’کیا یہ ہو ا؟‘‘
’’بہت آسان؟‘‘۔
شمائلہ نے تجسس سے پوچھا۔
’’یہ 9 عام لکڑی کے بلاکس کیا کر سکتے ہیں؟‘‘۔
علی روئی نے سر ہلایا اور سنجیدگی سے کہا:
’’لکڑی کے ان بلاکس کو عام نہ سمجھیں۔ حکیم نے ایک بار کہا تھا کہ ایک حقیقی حکیم ردی کی ٹوکری کو قالب میں تبدیل کر سکتا ہے‘‘۔
’’کوڑے دان کو قالب میں تبدیل کرنا؟۔ واقعی ایک حکیم کا خدا جیسا کام ہے‘‘۔
حکیم الداس ایسے پرجوش ہو گیا جیسے سمجھ گیا ہو۔ اس کا لہجہ نہایت شائستہ ہو گیا:
’’براہ کرم مجھے بتائیں، اس آلے میں کیا کمال ہے؟‘‘۔
’’رکو، مجھے کچھ شامل کرنے دو‘‘۔
علی روئی نے ہر بلاک پر چند الفاظ لکھے، یعنی کاو، گوان یو، ژانگ فی، ژاؤ یون، ما چاؤ، ہوانگ ژونگ، اور سپاہی۔
’’اسے ہوارونگ ڈاؤ کہا جاتا ہے، ایک قسم کی پزل نماکٹوتی شطرنج۔ سب سے بڑا مربع ‘Cao’ قدیم دور میں ایک شہنشاہ کی نمائندگی کرتا ہے، اور دوسرے دشمن کے نائٹ اور سپاہی ہیں جو اس کے فرار کی راہ میں رکاوٹ ہیں‘‘۔
علی روئی نے وہ زبان استعمال کی جسے حکیم الداس نے ہوارونگ ڈاؤ کی کہانی اور کھیلنے کے قواعد کی وضاحت کے لیے سمجھا۔
ہوارونگ ڈاؤ چین میں ایک مشہور قدیم کھیل تھا۔ اپنے متنوع نتائج کے ساتھ روبکس کیوبز(، Rubik’s cube )اور Peg solitaire کے ساتھ، اسے غیر ملکی دانشوروں کے ماہرین نے ’’دنیا کے تین ناقابل یقین فکری پہیلیوںمیں سے ایک کے طور پر تسلیم کیا۔
حکیم الداس جتنا سنتا جا رہا تھا اس میں دلچسپی بڑھتی جا رہی تھی۔ وہ آگے بڑھا لیکن شمائلہ اس سے زیادہ جلدباز نکلی اور ہاتھ میں لے کر جوش سے کھیلنے لگی۔ حکیم الداس بے چینی سے دیکھ رہا تھا، لیکن اس میں کچھ کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ چھوٹی شہزادی بے صبرتھی۔ چند مسلسل ناکامیوں نے اسے پریشان کر دیا تھا۔ اس نے علی روئی سے پوچھا:
’’کیا تم ہمیں دھوکہ دے رہے ہو؟ یہ شہنشاہ کبھی نہیں بچ سکتا!‘‘۔
علی روئی کو فطری طور پر اس پر اعتماد تھا اور اس نے کہا:
’’ملکۂ عالیہ ! میں اپنی زندگی کے ساتھ ضمانت دے سکتا ہوں کہ ہوارونگ ڈاؤ کو یقینی طور پر حل کیا جا سکتا ہے اور اس کے ایک سے زیادہ حل موجود ہیں۔ کلید یہ ہے کہ انفرادی طور پر اندازہ لگانے کی صلاحیت کو دیکھیں۔ جتنے کم قدم ہوں گےاتنا ہی بہتر ہے‘‘۔
شمائلہ جانتی تھی کہ علی روئی مرنے سے ڈرتا ہے۔ چونکہ وہ بہت پرعزم تھا، اس نے پھر کبھی شک نہیں کیا۔ اسی لمحے باہر سے ایک دلکش آواز آئی:
’’حکیم الداس !میں چھوٹی شہزادی کی کنیزہوں۔ کیا شہزادی شمائلہ یہاں ہے؟‘‘۔
حکیم الداس ہورنگ ڈاؤ میں بہت زیادہ کھو گیا تھا، اس نے اس طرف توجہ نہ دی۔ شمائلہ نے خود ہی جواب دیا:
’میں یہاں ہوں، اندر آجاؤ‘‘۔
اگر شمائلہ لوگوں کو حسین لگتی ہے تو مایا۔ اس کی کنیز اس سے زیادہ خوبصورت تھی۔ دلکش، ہموار، صاف جلد، سیکسی چہرہ، متاثر کن، بڑی چھاتی،پتلی رانیں، جسم کا ہر حصہ سحر سے بھرا ہوا تھا۔ اس نے بہت تنگ کپڑے پہنے ہوئےتھے لیکن تنگ لباس اس کی حیرت انگیز شخصیت کو مزید نکھار بخش رہاتھا۔ یہاں تک کہ اگر وہاں پشت کر کے کھڑی ہو جائے تو بھی مرد اپنی خواہشات پر قابو نہ پا سکیں۔ شمائلہ نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ لوسیفر شاہی خاندان سے ہے۔ اس کی شکل انسانوں سے الگ نہیں تھی مگر کچھ چیزیں مختلف تھیں۔ وہ ایک عام خاتون ڈیمن تھی۔ اس کے سر پر مڑے ہوئے کانوں کا ایک جوڑاتھا، پشت پر چھوٹے سیاہ پروں کا ایک جوڑا تھا اور گستاخ کولہوں پر ایک پتلی دم سی تھی۔ لیکن یہ سب ایک خاص اور پراسرار انداز میں دیکھنے والے کی توجہ اپنی طرف کھینچتی تھی۔
سائرن۔۔۔۔۔۔ ایک مطلق سائرن!
’’چھوٹی شہزادی!‘‘۔
مایا نے جھک کر کہا:
’’عزت مآب شہزادی اسٹڈی روم میں آپ کا انتظار کر رہی ہے۔ برائے مہربانی چلیے‘‘۔
جب مایا نیچے جھکی تو اس کی چھاتیوں کے درمیان کا فاصلہ اور بھی زیادہ دلکش تھا۔ علی روئی کی نظریں اس پر جم گئیں۔ اپنے ٹیسٹوسٹیرون میں اچانک اضافہ محسوس کیا۔ اس نے اپنا لعاب بڑی مشکل سے نگلا اور دوبارہ اس کی طرف دیکھنے کی ہمت نہیں کی۔
’’میری بہن اس وقت مجھے بلا رہی ہے؟ کیا اسے پتا چل گیا ہے کہ میں چپکے سے فلورا کا پیچھا کرتے ہوئے کالے جنگل میں گئی تھی؟‘‘۔
چھوٹی لڑکی مجرم دکھائی دی لیکن علی روئی کے چہرے کو دیکھ کر ہنسنے لگی۔
’’مایا! تیرے کرشمے زیادہ طاقتور ہو گئے ہیں۔ یہ انسان ایک نظر میں بھی اپنے آپ پر قابو نہیں رکھ سکتا ‘‘۔
مایا نے حقارت سے علی روئی کی طرف دیکھا۔
کیا کا جسم سکیوبائی میں خاص سمجھا جاتا ہے۔ اس آدمی کی طاقت کمزور اور قابل رحم ہے۔ صرف ایک بوسہ اس کے جوہر کو ختم کر سکتا ہے۔
سکیوبائی ایک قسم کی مادہ ڈیمن ہے جو مردوں کو چوس سکتی ہے۔ علی روئی کو آرتھر کی یاد اشت سےمادہ ڈیمن کی تصویر ملی۔ اس کی خواہشات دھل گئیں جس سے اس کی ریڑھ کی ہڈی ٹھنڈی ہو گئی۔ علی روئی نے کہا:
’’خوبصورتی قیمتی ہے لیکن زندگی اس سے کہیں زیادہ‘‘۔
شمائلہ مسکرائی اور مایا اور اپنی ٹوکری کے ساتھ لیب سے نکل گئی۔ جانے سے پہلے وہ ہوارونگ ڈاؤ کو ساتھ لے جانانہیں بھولی تھی۔ کھیلنے کی چیزیں بچوں کو ویسے بھی اچھی لگتی ہیں مگر دیومالائی دائرے میں بڑے، بچوں کے کھیلوں میں بچوں سے زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ شاید اس کی وجہ ان کی دماغ کی ایک مخصوص سطح ہے۔
اس لیب کے تہہ میں علی روئی کا یہ تیسرا دن تھا۔ آج اسے خاصاذہنی سکون ملا تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ آج اس کےلئے تاریک تہہ خانے کو اچھی طرح صاف کردیاگیا تھا۔ یہ تہہ خانہ دراصل حکیم الداس کی لیپ کے سٹو ر کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ ایک طرف ٹین کے ڈبوں اور بڑی بڑی بوتلوں میں کئی تیزاب وغیرہ رکھے تھے۔ کچھ بہت پرانے اوک بیرل بھی پڑے تھے جن میں شراب ذخیرہ کی جاتی تھی۔ وہ حصہ جو سٹور کےلئے استعمال نہیں ہوتا تھا اسے رہائش کےلئے اچھی طرح حصہ صاف ستھرا کیا گیا تھا۔ محرابوں سے لگتا تھا یہ کوئی قدیم عمارت ہے جسے نئے انداز میں ترئین و آرائش کرکے لیباٹری میں بدل دیا گیا ہے۔ دن میں تین وقت کے کھانے کا بندوبست کیا گیا۔ یہ سب چلبل نے حکیم الداس کے حکم پر کیا تھا۔
علی روئی، حکیم الداس آپ کو بلا رہے ہیں ‘‘۔
چلبل کے لہجے میں پہلی سی کڑواہٹ ابھی تک موجود تھی کیونکہ جو چلبل کاشکار تھا وہ اب ناصرف معزز مہمان بن چکا تھا بلکہ چلبل اس کا خدمت گزار بھی تھا۔ اس لیے اس نے فطری طور پر نفسیاتی عدم توازن محسوس کیا۔ علی روئی کو پیچھے سے چلتے ہوئے دیکھ کر ننھے ڈیمن نے دانت پیسے۔ یقیناً اس نے اپنے دل میں یہی کہا ہوگا کہ اے لعنتی انسان! میں عظیم چلبل ایک دن ضرورتمہارا گوشت کھاؤں گا۔ ضرورتمہارا خون پیوں گا!‘‘۔ تاہم عظیم چلبل اب مجبور تھا۔ اسے اس جگہ کی صفائی جاری رکھنا تھی جہاں انسان رہتا تھا۔
علی روئی نےاسے کہا :
’’ چلو!‘‘۔
دونوں چل پڑے۔
حکیم الداس نے علی روئی کو آتے دیکھا اور پرجوش ہو گیا۔ گو کہ جب اس سے پوچھ گچھ کی گئی تھی تو اس نے بتایا تھا کہ ابتدا میں اس کا نام آرتھر تھا اور اب علی روئی ہے۔ لیکن سیاہ ایلف حکیم ایسی معمولی بات کی پرواہ نہیں کرتا تھا۔ آج کل حکیم الداس کو ہوارونگ ڈاؤ پرمکمل یقین آچکا تھا۔ اس نے اب حکیم کی سچائی پر سوال نہیں اٹھایا۔ علی روئی کو بیکار ہونے پر مارنے کا اصل خیال بھی بھول گیا تھا۔ یہاں تک کہ ایک معمولی کٹوتی کے آلے میں بھی ایسی جادوئی کشش تھی کہ امرت اورقالب آہستہ آہستہ دریافت کیے جا سکتےہیں۔۔۔۔ سیاہ ایلف اس کے بارے میں سوچتے ہی پرجوش نہیں ہو سکتا تھا۔ اس نے کہا:
’’میں نے جو نئی شطرنج بنائی ہے اسے دیکھو‘‘۔
علی روئی نے دیکھا کہ اصلی ہوارونگ ڈاؤ جو اس نے جلدی میں بنایا تھا اسے سیاہ ایلف نے ایک عمدہ فن میں تبدیل کر دیا تھا۔ ہر ٹکڑے پر خوبصورت سر کا مجسمہ کندہ کیا گیا تھا۔ تاہم کاؤ کی شکل غیر معمولی طور پر خوبصورت ہو گئی اور گوان یو نے حقیقت میں دو خم دار سینگ پیدا کر لیے تھے۔ باقی جیسے زاؤ یون، ما چاؤ نے بھی اپنی شکلیں بدل لی تھیں۔ یہ ہوارونگ ڈاؤ کا دیومالائی ورژن بن گیا تھا۔
ان دنوں حکیم الداس اور چلبل کے ساتھ بات چیت کے ذریعے علی روئی نےدیومالائی دائرے کے عمومی علم کے بارے میں مزید معلومات حاصل کر لی تھیں۔ اسے معلوم ہو چکا تھا کہ وہ نیرنگ آباد میں ہے۔ یہ شہر تومانی سلطنت کے علاقے میں ہےاور شہزادی شمائلہ کی بہن شہزادی اقابلہ لوسیفریہاں حکمران ہے۔ دیومالائی دائرے میں ڈیمنوں کی کئی نسلیں آباد ہیں۔ عام ڈیمن اور گریٹ ڈیمن ہیں۔ ان کے علاوہ سوکیوبلس، میناٹور، لیچ اور امپ ہیں۔
ان ڈیمنوں میں سے ہر ایک کی اپنی خاص خصوصیات ہیں۔ جنہیں گریٹ ڈیمن بھی کہا جاتا ہے۔ وہ درندہ صفت ہیں۔ شاہی خاندان کے بعد وہی اعلیٰ درجے کے ڈیمن ہیں۔ وہ طاقتور جنگجو پیدا ہوتے ہیں اور تمام ہتھیاروں کے استعمال میں مہارت رکھتے ہیں۔ روح یا جسم کی طاقت یا دونوں میں مہارت حاصل کرنے کا انتخاب کر سکتے ہیں۔ کچھ عظیم ڈیمن اپنے خون کی لکیر میں تبدیلی کر لینے کے باعث زیادہ طاقتور ہیں۔ ایک عام گریٹ ڈیمن کی بالائی حد ایک ہائی رینک ڈیمن ہے۔ متغیرانہ طبیعت کے باعث اونچے درجے تک پہنچنے کے لیے ہررکاوٹ کو توڑ سکتے ہیں۔ مینوٹورز مضبوط، بہادر اور نڈر ہیں۔ عام طور پر حملے میں بہترین جنگجوسمجھے جاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ اسلحہ سازبھی بن جاتے ہیں جو جعل سازی میں مہارت رکھتے ہیں۔ ان کی آخری حد مڈل رینک پر ہے۔
لیچ نازک ہیں لیکن ان میں زبردست جادوئی طاقت ہے۔ ہنرمند ہیں دیومالائی درندوں کو قابو کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کی بھی بالائی حدمڈل رینک پر ہے۔
سوکیوبکس خواتین کے لیے مخصوص نسل ہےجو صرف روح کی طاقت میں مہارت رکھتی ہے۔ وہ کسی کو بھی اپنی طرف مائل کرنے کا ہنر جانتی ہے۔ ان کے ہاں تولید میں لڑکی ہونے کا امکان زیادہ ہے اور جب تک وہ لڑکی ہے بچہ سوکیوبکس ہی رہے گا۔ ان کی بالائی حد بھی مڈل رینک کی ہے۔
امپس جو چلبل کی طرح ہوتے ہیں سب سے نچلے درجے کے ڈیمن ہیں۔ وہ عام طور پر میدان جنگ میں قربان ہونے کےلیے ہوتے ہیں۔ اعلیٰ درجے کے امپس میں وہم کی صلاحیت ہے جو دوسروں کو پریشان کر دیتی ہے۔ تغیرپذیروں کی بہت کم تعداد کو گریٹ ڈیمن میں فروغ دیا جاسکتا ہے۔ سیاہ ایلف اور ڈروف کا تعلق ویسل مخلوق سے ہیں لیکن وہ ڈیمنوں کے خاندان میں بھی ناگزیر ہیں۔ سیاہ ایلف چوری، قتل کرنے اور زہر دینے میں ماہر ہیں لیکن حکیم الداس جیسا کوئی شخص جس نے دواسازی میں مہارت حاصل کر لی ہواور حکیم بن گیاہو۔ یہ ایک انوکھی بات ہے۔ اس کے علاوہ، چند سیاہ ایلوز میں شاندار جادوئی صلاحیتیں ہیں جو فوت شدگان کے ساتھ گفتگو بھی کر سکتے ہیں اورلِچ سے زیادہ مضبوط ہیں۔
اگرچہ سیاہ ڈروف چھوٹے اور بدصورت ہیں اور ان میں لڑنے کی طاقت کم ہے لیکن تخلیقی صلاحیتیں حیرت انگیز ہیں۔ وہ دستکاری اور ایجاد میں مہارت رکھتے ہیں۔ ان میں کچھ نمایاں لوگ ایلکمی میں مکینکس کے حکیم بن جاتے ہیں۔
ڈیمن کے دائرے میں دو چاندوں کی خصوصی طاقت کی وجہ سے مخلوط خون جیسی کوئی چیز نہیں تھی۔ یہاں تک کہ دو مختلف نسلوں کے امتزاج کے ساتھ بچہ یا تو باپ کی نسل سے ہو گا یا ماں کی نسل سے، اس کے علاوہ ڈیمن کے دائرے میں بہت سی طاقتور مخلوقات بھی ہیں، جیسا کہ عنصری نسل، نظر بد، گرے ہوئے ڈریگن جو زمین سے نکالے گئے اور بہت سے دیومالائی درندے جو اس جگہ کو خطرات سے بھرا ہوا بنا ئے رکھتے ہیں۔
انسانوں کے مقابلے میں ڈیمنوں کی ابتدائی طاقت بہت زیادہ تھی لیکن ان کی بہتری کے راستےکم تھے۔ پیدائش کے وقت دونوں ایک جیسے ہوتے۔ دونوں کانقطہ آغاز تقریباً ایک ہی تھالیکن انسانوں کی صلاحیتیں مسلسل بڑھتی رہتی تھیں۔ ڈیمن مختلف تھےان میں یہ بات نہیں تھی۔ درجات میں فرق پیدائش کے وقت واضح ہوجاتاتھا۔ بالغ ہونے کے بعد بھی وہ غالباً بالائی حد تک پہنچ جاتے تھے لیکن ان کےلئے آگے بڑھنا مشکل تھا۔ دوسرے لفظوں میں ڈیمن کا نقطہ آغاز انسانوں سے بلند تھا اور ان کی زندگی کا دورانیہ بھی طویل تھا۔ پھر بھی ان کی ترقی کرنے کی صلاحیت انسانوں سے بہت کم تھی۔ ڈیمن کا درجہ جتنا اونچا تھا ان میں بہتری کی گنجائش اتنی ہی کم تھی۔
اقابلہ اور شمائلہ کا تعلق ڈیمن کے شاہی خاندان سے تھا۔ عام طور پر شاہی خاندان مضبوط ترین انسانوں سے ملتا جلتا تھا۔ یہ لوگ لامحدود صلاحیتوں کا مالک تھے۔ لڑائیوں کے دوران ان کا عام ڈیمن کے برعکس فطری جبر تھا۔ ان کی بلڈ لائن سب سے زیادہ مضبوط ہےان کے پاس ایک خاص ٹیلنٹ تھاجو خوفناک دباؤ کو خارج کرتا ہے۔
شاہی خاندا ن کی تعظیم کی وجہ سے حکیم الداس اور چلبل نے علی روئی دونوں شہزادیوں اور تومانی سلطنت کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔
’’ان کرداروں کی تصویر اچھی نہیں ہے۔ قدیم زمانے میں طاقتور افراد ایسے نہیں تھی۔۔۔ خوبصورتی اور ترمیم تاریخ کے مطابق ہونی چاہیے‘‘۔
علی روئی نے دو ٹوک الفاظ میں ہوارونگ ڈاؤ کےدیومالائی دائرےکے کرداروں پر تنقید کی، پھر بھی اس نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ تاریخ یا اصلیت سے قطع نظر اس نے پہلے ہی مکمل گڑبڑ کر دی تھی۔ صرف عظیم حکیم سن ووکونگ ہی وو چینگ این کو انڈرورلڈ میں آنسو بہانے کے لیے کافی تھا۔
حکیم الداس نے اس تنقید کو قبول کیا اور شرمندگی سے مسکرایا:
’’بس میرے ہاتھ میں خارش تھی۔ اگلی بار میں آپ کے کہنے کے مطابق بناؤں گا۔ اس بار میں209 قدموں کے ساتھ گزرا، جو پچھلی بار کے مقابلے بہت بہتر ہے۔
علی روئی نے ہلکا سا سر ہلایا اور آہ بھری۔
’’کافی نہیں ہے۔ حکیم نے صرف81 قدموں کا استعمال کیا، اور ان کے قیاس کے مطابق، یہ اس سے بھی کم ہو سکتا ہے‘‘۔
حکیم الداس جانتا تھا کہ کسی حرکت کو کم کرنے کے لیے ایک تفصیلی حساب کی ضرورت ہے۔ جب اس نے پہلی بار ہوارونگ ڈاؤ کو حل کیا تو وہ اتنا پرجوش تھا کہ اسے یاد نہیں تھا کہ اس نے کتنے قدم استعمال کیے تھے۔ دوسری بار300 سے زیادہ قدموں کا استعمال کیا۔ جب اس نے علی روئی کو100 قدموں سے کامیاب ہوتے ہوئے دیکھا تو اسے یقین ہو گیا کہ وہ صرف حکیم کی وارثت کے سبب ممکن ہے۔
علی روئی نے کہا:
’’دراصل ’تلوار کے ساتھ گھوڑے کی سواری‘ کا انتظام صرف ہوارونگ روڈ کے انتظامات میں سے ایک ہے۔ چند اور بھی ہیں تاہم Huarong Dao عظیم حکیم کے لیے محض ایک مستعدی تفریحی سرگرمی تھی، آپ کو زیادہ جنون میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔
یہ علی روئی نے جان بوجھ کر کہا۔ اسے یقین ہوچکا تھا کہ حکیم الداس ہوارونگ ڈاؤ کےجنون میں مبتلا ہوچکا ہے۔ وہ واضح طور پر حکیم الداس کے ساتھ بلی چوہے کا کھیل کھیل رہا تھا۔ دراصل سیاہ ایلف نے اپنا سر ہلایا اور کہا:
’’حکیم واقعی ایک حکیم ہے، اس کے لیے ایک معمولی چیز بھی ہمارے لیے اتنی بڑی تحقیقی قدر رکھتی ہے‘‘۔
’’پھر بھی آپ اپنے فارماسیوٹکس کو نظر انداز نہیں کر سکتے‘‘۔
علی روئی نے موضوع کو تبدیل کیا اور باتوں باتوں میں دل کی بات کہہ دی:
’’آپ ادویات ٹیسٹ کر رہے ہیں، کیوں نہ میں بھی آپ کی ادویات آزماتا رہوں گا۔ اگر آپ حکیم کی برکات حاصل کرلیں تو شاید آپ کی ادویات بھی اعلیٰ سطح تک پہنچ بھی جائیں‘‘۔
علی روئی کے ذہن میں تھا کہ یہی عمل یقینی طور پر سپرسسٹم کی بوٹنگ کو آگے بڑھانا ہے۔
ہوارونگ ڈاؤ مجھے صرف عارضی طور پر بچا سکتا ہے۔ یہ کوئی طویل مدتی حل نہیں۔ صرف اس صورت میں میں اپنی جان بچا سکتا ہوں کہ میرے پاس مضبوط طاقت ہو۔ اس دیومالائی دائرےمیں اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کےلئے یہ پراسرار سپر سسٹم ہی میری واحد امید ہے۔
سیاہ ایلف یعنی حکیم الداس نے حیران ہو کر کہا:
’’کیا تمہیں ڈر نہیں لگتا کہ ایک وقت آئے گا، تم مر جاؤ گے؟‘‘۔
علی روئی بولا:
’’جڑی بوٹیوں کی خصوصیات کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے حکیم نے ذاتی طور پر تمام جڑی بوٹیوں کو چکھا۔ وہ کئی دفعہ زہر کی وجہ سے موت کے بالکل قریب پہنچ گئے مگر انہوں نے ہمت نہ ہاری۔ اسی وجہ سے انہوں نے آڑو جیسا امرت بنا لیا۔ وہ صرف اعلیٰ ہنرہند ہی نہیں تھے ان کے پاس استقامت اور پائیداری بھی تھی۔ ‘‘
حکیم الداس کا چہرہ عقیدت سے بھرا ہوا تھا اور اس نے کہا:
’’اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ وہ دیوتاؤں کے ساتھ جھگڑا کرنے والا ایک عظیم حکیم بن سکتا ہے! ایسا لگتا ہے کہ علم کے علاوہ اور بھی بہت سی چیزیں ہیں جو مجھے عظیم حکیم سے سیکھنی ہیں۔ باقی جو دوائی تم آزمانا چاہو خود ہی آزمالو۔۔ ‘‘۔
علی روئی نے حکیم الداس کے چہرے پر جوش دیکھاتو کہا:
’’ان دنوں مجھے عظیم حکیم کی باقیات کے پیغامات محسوس ہو رہے ہیں۔ مجھ پہ گہرے اثر ات مرتب ہو رہے ہیں۔ میں نے عظیم حکیم کی میراث میں حصہ لینے کا ارادہ کر لیا ہے۔ بدقسمتی سے میرے پاس ماضی میں فارماسیوٹکس کی کوئی بنیاد نہیں ہے اور میں اس گہرے علم کو نہیں سمجھ سکتا۔ حکیم !، کیا آپ میری مدد کرنا پسند کریں گے۔ یہ دیکھ لیجئے، میں ایک انسان ہوں‘‘۔
’’میں کروں گا! آج سے، میں آپ کو فارماسیوٹکس کی بنیادی باتیں سکھاؤں گا!‘‘۔
ایک سیاہ ایلف کے طور پرحکیم الداس یقینی طور پر ایماندار ڈیمن نہیں تھا۔ لیکن وہ ایک حقیقی ادویات کا حکیم بھی تھا۔ اس نے زندگی بھر بھائی بننے کی قسم کھالی تھی۔ حکیم الداس کے تاثرات کو دیکھتے ہوئےعلی روئی نے کہا
’’آپ کا شکریہ!حکیم ۔ بےشک یہ سیکھنا بہت مشکل کام ہے مگر میں آپ کی توقعات پر پورا اتروں گا ‘‘۔
علی روئی جانتا تھا کہ اس کے بعد وہ بنیادی طور پر زندہ رہنے کے بارے میں فکر کرنا چھوڑ سکتا ہے اور فارماسیوٹکس کے بارے میں کچھ سیکھنے کے بعد مزید سیکھنے میں کوئی تکلیف نہیں ہوتی۔
حکیم الداس نے ایک کتاب اٹھائی جس کا نام ہے ’’جڑی بوٹیوں کی بنیادیں‘‘۔ وہ اپنی تعلیم شروع کرنے ہی والاتھا کہ چھوٹی شہزادی شمائلہ آگئی اور کیا کے علاوہ ایک اور اجنبی چھوٹے بالوں والی لڑکی بھی اس کے ساتھ تھی۔
یہ چھوٹی لڑکی بھی خوبصورت لگ رہی تھی۔ جامنی بال، سرخ آنکھیں، ہلکی بھوری جلد، متناسب جسم، اس کی آنکھوں کے درمیان ایک بہادری کا جذبہ اور سرخی مائل نارنجی زرہ بکتر کا تھوڑا سا ظاہر کرنے والاسیٹ وہ ایک بڑی تلوار بھی میان میں اٹھائے ہوئے، عالمِ حسن و شباب سے ہر طرف ایک جنگلی دلکشی پھیل رہی تھی۔
چھوٹے بالوں والی چھوٹی لڑکی کی خوبصورتی دیکھ کرعلی روئی لاشعوری طور پر گھبرا ساجاتا ہے شہزادی شمائلہس بولی:
’’فلورا! یہ وہ انسان ہے جس کا میں نے ذکر کیا ہے، یہ کافی دلچسپ ہے‘‘۔
شمائلہ نے فلورا کا بازو قریب سے پکڑ لیا۔ اگر وہ فلورا کے خم دار جسم اور نازک چہرے پر غور نہ کرتا تو اسے لگتا ہے کہ یہ دونوں جڑواں بہنیں ہیں۔
’’ ہیلوحکیم الداس !‘‘۔
فلورا مزاجاًشمائلہ کی طرح نہیں تھی۔ وہ شائستگی سے حکیم الداس کے سامنے جھکی تھی تاہم اس کی نظر میں شکریہ ادا کرنے فرض صرف سیاہ ایلف پر لاگو ہوتا تھا۔ علی روئی کی طرف اس نے عجیب نظروں دیکھا۔ بڑی بےاعتمادی سے اس کا جائزہ لیا۔ جیسے کسی جھوٹ کو پہچاننے کی کوشش کررہی ہو۔ علی روئی کو ایسا لگا جیسے وہ چڑیا گھر کے ایک پنجرے میں بند ہے اور کچھ سیاح اسے دیکھنے کےلئے آئے۔ اس نے مدد کے لیے حکیم الداس کی طرف دیکھا۔ مگر سیاہ ایلف ہوارونگ ڈاؤ کےدیومالائی دائرے کےوژن کو اپنی آسیتنوں میں چھپا رہا تھا۔ اس کےلئے فلورا سے نمٹنا آسان تھا لیکن شہزادی شمائلہ نیرنگ آباد میں ایک مشہور چھوٹی سی ڈیمن تھی۔ اسے ڈر تھا کہ جو نئی شطرنج اس نے بڑی محنت سے بنائی تھی، شہزادی کہیں ساتھ لے نہ جائے۔
حکیم الداس کی یہ حرکت ننھی شہزادی کی تیز نظروں سے کیسے چھپ سکتی تھی۔ شمائلہ کی بڑی آنکھوں نے حکیم الداس کی آستینوں کو دیکھا اور اس کا چھوٹا سا سر حرکت میں آیا۔ یہ دانستہ حرکت اتنی واضح تھی کہ فلورا کی توجہ بھی ادھر ہی چلی گئی۔
’’حکیم !آپ اپنی آستین کے نیچے کیا چھپا رہے ہیں؟ کیا آپ مجھے دیکھنے دے سکتے ہیں؟‘‘۔
’’کچھ نہیں، میں نے بس جلدی میں Huarong Dao کا ایک سیٹ بنایا ہے‘‘۔
حکیم الداس نے خراب صورتحال کو دیکھا اور جلدی سے موضوع کو بدل دیا:
’’اوہ ٹھیک ہے، علی روئی، وہ تحفہ کہاں ہے جو تم نے پرسوں شہزادی شمائلہ کو دینے کا وعدہ کیا تھا؟‘‘۔
شمائلہ کی توجہ واقعی آستین سے ہٹ گئی اور امید سے چمکتی ہوئی اس کی بڑی بڑی آنکھیں علی روئی پرپڑنے ‘‘۔
وہ بولی:
’’انسان بھائی، میں آپ کے تحفے کا انتظار کر رہی ہوں‘۔‘
بھائی کہنے کے میٹھے انداز نے علی روئی کو تین دن پہلے کا تجربہ یاد دلایا۔ اس نے ذہنی طور پرتقریباً چھلانگ لگائی اورخود سے چیخ کر کہا۔ ’’ ایک ہی چال ایک دائرے سے گزرنے والے کے لیے کارگر نہیں ہوتی‘‘۔
مگرشمائلہ کی چالاکی کے دباؤ میں علی روئی نے فوراً کچھ نکال دیا۔ وہ کسی صورت میں بھی شمائلہ کو
ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا۔
اسے معلوم تھا کہ ننھی شہزادی بہت ہوشیار ہی نہیں چالاک بھی ہےاوروہ اس ستم ظریف کو پوری طرح اپنی گرفت میں لانا چاہتا تھا۔ اس نے سوچا کہ وہ اس کےلئے ایک یا دو چھوٹی چیزیں اور بھی بنا سکتا ہے۔ ابھی تک اسے علی روئی ’’ہوارونگ ڈاؤ ‘‘صرف ایک شے ملی تھی۔ پرسوں، اس نے مایا کو لیبارٹری میں بھیجا تھا کہ وہ علی روئی سے ایک اوردلچسپ تحفہ مانگے۔ علی روئی مجبور تھا سو اسے یہ سب کچھ کرنا تھا۔ اس نے حکیم الداس کے ساتھ مل کر ایک اور چیز بنائی۔ آج شمائلہ اپنا تحفہ دیکھنے آئی تھی۔ وہ اپنے ساتھ اپنی بہترین دوست فلورا کوبھی لائی تھی ۔
’’دوبارہ لکڑی؟ اس بار کیا ہے؟‘‘۔
شمائلہ نے مختلف اشکال اور سائز والی لکڑی کے ٹکڑوں کو تجسس سے دیکھا۔
’’چھوٹی شہزادی، آئیے دیکھتے ہیں‘‘۔
علی روئی نے لکڑی کے بلاکس کو میز پر رکھا اور مہارت سے انہیں جمع کیا۔ جلد ہی، لکڑی کے بلاکس کو ایک خوبصورت تین جہتی دل کی شکل میں ملا دیا۔ اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ تھی کہ یہ بغیر کسی رکاوٹ کے لگ رہا تھا جیسے اسے مجموعی طور پر بنایا گیا ہو۔
شمائلہ نے حیرت سے ایک سانس لیا اور اسے احتیاط سے اٹھایا۔ یہ محض لکڑی کے بلاکس کا ڈھیر تھا۔ تاہم جمع ہونے کے بعد ایک مضبوط چیز بن گئی۔ اگر اس نے اسے خود نہیں دیکھاہوتا تولگتا کہ علی روئی نے انہیں ایک ساتھ جوڑ دیا ہے۔ فلورا آگے آئی اور حیرت سے چیز کو دیکھا۔ مایا کی دلکش آنکھیں بھی تجسس سے بھری ہوئی تھیں۔
’’اسے burr puzzle کہتے ہیں۔ یہ سیاہ چمکدار لکڑی سے بنا ہے۔ اس کی سختی لوہے کے مقابلے میں بہت مضبوط ہے‘‘۔
علی روئی کی آنکھوں میں چمک آئی۔ اس burr پہیلی کو محبت کا تالابھی کہا جاتا ہے۔ ساخت دراصل بہت پیچیدہ تھی لیکن وہ اسے دل سے یاد رکھ سکتا تھا کیونکہ یہ ویلنٹائن ڈے پر اسے ملنے والاپہلا تحفہ تھا۔ تاہم کالج میں بہت سی دوسری محبت کی کہانیوں کی طرح سخت محنت کے باوجود اس لڑکی کے ساتھ اس کا تعلق بھی فطری انجام پر ختم ہوا۔
جب حکیم الداس نے پہلی بار اسمبل شدہ برر پزل کو دیکھا تو وہ بہت حیران ہوا۔ اسے فوراً افسوس ہوا کہ وہ کیوں دوا سازی میں مہارت رکھتا ہے۔ اگر وہ میکینکس کا حکیم ہوتا تو یہ یقینی طور پر زیادہ ترغیب دیتی۔
شمائلہ کو خاص طور پر اس قسم کے شاندار کھلونے پسند تھے۔ وہ جنونی انداز سے اس پہیلی کے ساتھ کھیل رہی تھی اس نےپوچھا:
’’کیا اس burr پہیلی کو دوبارہ جدا کیا جا سکتا ہے؟‘‘۔
’’یقینا اس کا مزہ جدا کرنے میں ہے۔ مجھے یقین ہے کہ چھوٹی شہزادی کو ذہانت کی وجہ سے کوئی مسئلہ نہیں ہوگا‘‘۔
درحقیقت یہ ایک ایسی چیز تھی جس کا علی روئی نے ذکر نہیں کیا۔ اس burr پہیلی کو پیچیدہ سمجھا جاتا ہے۔ بغیر کسی تجاویز کے حل کرنا مشکل ہوگا۔ علی روئی نے سوچاکہ اس کالے دل والی ننھی شہزادی کو آہستہ آہستہ اس کے ساتھ بار بار کھیلنے دے، تاکہ میں آرام کر سکوں اور بوٹنگ کے عمل پر توجہ مرکوز کر سکوں۔
شمائلہ نے اسے غور سے دیکھا۔ وہ اسے توڑنے سے ڈرتی تھی لیکن burr پہیلی کا مجموعہ بہت سخت تھا۔ وہ کافی دیر بعد بھی الگ کرنے کا کلیدی حصہ نہیں ڈھونڈ سکی۔ پہلو میں موجود فلورا کوشش کرنے کے لیے بے تاب تھی، وہ بولی:
’’چھوٹی شہزادی! مجھے کوشش کرنے دو‘‘۔
شمائلہ ان سنی کرتے ہوئے کوشش میں لگی رہی۔ فلورا کئی بار چیخی مگرکوئی جواب نہ ملنے کے پر اس نے اپنی حکمت عملی بدل دی۔ اس نے شمائلہ سے کہا:
’’نیلی جھیل کے ارد گرد جیڈ ڈریگن فروٹ پک چکے ہیں، میں آپ کو وہاں لے جانا چاہتی ہوں لیکن شہزادی اقابلہ جانتی ہے کہ آپ نے پچھلی بار تاریک برساتی جنگل میں میرا پیچھا کیا تھا۔ اس لیے شہزادی اقابلہ نے مجھے حکم دیا کہ تمہیں شہر سے باہر نہ لے جاؤں‘‘۔
شمائلہ کے چہرے پر ایک معصومانہ مسکراہٹ دکھائی دی اور دو پیارے ڈمپل نمودار ہوئے، وہی فرشتہ مسکراہٹ جو شمائلہ نے علی روئی سے پہلی بار ملنے پر بکھیری تھی۔
علی روئی جانتا تھا کہ کوئی بدقسمت ہونے والاہے۔ خوش قسمتی سے اس بار ہدف فلورا تھی۔
’’فلورا آپ بوغائی سلطنت کے میجر جنرل بوغا کی بیٹی ہیں۔ نیرنگ آباد میں سب سے مضبوط تلوار والی سمجھی جاتی ہیں۔ کیا آپ اس پہیلی کو حل کرسکتی ہیں؟‘‘۔
اپنے والد کا نام سن کر، وہ بھڑک اٹھی اور جواب دیا:
’’یقینا!‘‘۔
’’شرط لگائیں کہ آپ اگر ایک گھنٹہ کے اندر burr پہیلی کو حل نہ کرسکیں تو اپنی بہترین دوست شمائلہ لوسیفر کو نیلی جھیل لے جائیں گی اور اس کی حفاظت بھی کریں گی۔ کیا آپ یہ کر سکتی ہیں؟‘‘۔
فلورا حیران رہ گئی اور فوراً سر ہلا دیا:
’’اگر یہ نہ کروں تو؟‘‘۔
’’کیا بوغائی فیملی کے لوگ اپنی باتوں پر قائم نہیں رہتے؟‘‘۔
شمائلہ نے مایوسی ظاہر کی اور سر ہلایا۔
فلورا بولی:
’’تم فکر نہ کرو، یہ صرف ایک چھوٹی سی پزل ہے، ابھی حل کرلوں گی۔ فلورا بوغائی یہ چیلنج قبول کرتی ہے۔ لکڑی کا یہ چھوٹا کھلونا ایک گھنٹہ بھی نہیں لے گا ‘‘۔
شمائلہ مسکرائی۔ اس کی چالاک آنکھیں بالکل چھوٹی لومڑی جیسی تھیں۔ افسوس مایا بھی مدد نہ کر سکی۔
گھنٹہ گھر میں وقت منٹ بہ منٹ گزرتا گیا۔ علی روئی میز کے سامنے بیٹھاحکیم الداس کی کتاب’’جڑی بوٹیوں کی بنیادی باتیں’’ پڑھ رہا تھا۔ شمائلہ نے ہوارونگ ڈاؤ کا دیومالائی ورژن کے چکر میں تھی۔ حکیم الداس کی بنائی ہوئی نئی شطرنج کے چنگل سے بچ نہیں پائی تھی۔ مایاایک طرف بیٹھی دیکھتی رہی، وقتاً فوقتاً مشورے دیتی رہی۔ غریب حکیم الداس ایک کونے میں دائرے بنا رہا تھا۔
پہیلی ابھی تک برقرار تھی۔ فلورا پسینے میں نہاچکی تھی۔ ’’لکڑی کا چھوٹا کھلونا’’ اس کی پیٹھ پر موجود عظیم تلوار سے زیادہ بھاری ثابت ہوا تھا۔
اچانک شمائلہ نے چیخ ماری:
’’وقت ختم ہو گیا ہے‘‘۔
اس جملے نے تلوار والی کے غصے کو پوری طرح سے بھڑکا دیا۔ فلورا کی آنکھیں شعلے برسانے لگیں۔ جلد سرخ ہونے لگی۔ سر پر دو خمدار سینگ نمودار ہو نے لگے۔ جسم سے ایک مضبوط چمک کا اخراج ہونے لگا۔ وہ دانت پیس کربولی:
’’جس چیز پر فلورا بوغائی کے خاندان کی عزت دائو پر لگ جائے۔ اسے رہنا ہی نہیں چاہئے‘‘۔
’’ کچک ‘‘۔
ٹوٹنےکی آواز پھیلتی چلی گئی۔
دھات کی سخت سیاہ چمکدار لکڑی کے مضبوط ٹکڑے بکھرتے چلے گئے۔
لکڑی کے ٹوٹے ہوئے ڈھیر کو سب نے حیرت سے دیکھا۔ حکیم الداس نے کانپتے ہوئے ہاتھ سے فلورا کی طرف اشارہ کیا۔ وہ اتنا غصے میں تھا کہ اس کے منہ سے لفظ نہیں نکل رہے تھے۔ اس نے پہلے ہی اسے اپنے دل میں لیب کی بلیک لسٹ میں شامل کر لیا تھا۔
علی روئی نے ریڑھ کی ہڈی میں ٹھنڈک محسوس کی۔ یہ دیومالائی دائرےواقعی خطرناک ہے، مجھے زمین پر واپس جانا چاہیے۔
فلورا پزل کو توڑنے کے بعدہوش میں آئی تو اس نے دیکھا کہ شمائلہ کی آنکھوں میں آنسوؤں سے چمک رہے ہیں۔ اس نے رندھی ہوئی آواز میں کہا:
’’فلورا! یہ میرا پسندیدہ تحفہ تھا‘‘۔
’’شمائلہ! سوری، میں اسے دوبارہ بنانے کی کوشش کرتی ہوں ‘‘۔
وہ اسے جوڑنے لگ گئی مگر فلورا کی ہر کوشش ناکام رہی۔ شمائلہ اونچی آواز میں نہیں روئی تھی لیکن اس نے شکایت میں سر جھکا لیا تھا۔ اس کا نازک ساجسم کانپ رہا تھا اور برداشت کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ فلورا جانتی تھی کہ وہ ایک لاپرواہ شہزادی ہے، کوئی بھی فیصلہ سنا سکتی ہے۔ آخر اس نےمجرمانہ انداز میں کہا:
’’چلو نیلی جھیل چلتے ہیں تم وہاں خوش ہو جائوگی۔ ایک شہزادی کو کسی چیز کے ٹوٹنے کا غم نہیں ہونا چاہیے‘‘۔
شمائلہ نے سرخ آنکھوں سے دیکھا اور نہیں میں سر ہلا کر کہا:
’’آپ کو میری بہن نے پچھلی بار برساتی جنگل کے تاریک واقعے کی وجہ سے مورد الزام ٹھہرایا تھا۔ میں نہیں چاہتی کہ آپ پر دوبارہ کوئی الزام آئے ‘‘۔
علی روئی نے ننھی شہزادی کے بارے میں اپنی پر دوبارہ غورکیا اور فلورا کے اس جملے میں کھو گیا:
’’چھوٹی شہزادی! تم فلورا کی بہترین دوست ہو،تمہارےلیے میں ہر سزا قبول کر سکتی ہوں۔ ہر قربانی دے سکتی ہوں(اور پھرفلورا نے اپنےسینے پر ہاتھ مار کرپوری عقیدت سے کہا)صرف نیلی جھیل پر ہی نہیں تولان پہاڑ کے غار میں بھی میں تمہاری حفاظت کروں گی۔ تمہیں یاد ہے تم نے نیلی جھیل پر کہا تھاکہ جب بھی ماؤنٹین ژیلانگ جائومجھے ضرور ساتھ لے کر جانا !‘‘۔
آخرکار شمائلہ نے اپنے آنسوؤں کو ہنسی میں بدل دیا۔ فلوراکو لگا کہ دال میں کچھ کالاہے مگروہ پورا اندازہ نہیں لگا سکی۔ وہ گھٹنے ٹیک کر بکھری ہوئی سیاہ چمکدار لکڑی کے ٹکڑےاحتیاط سے اٹھانے لگی تو نیلی جھیل پرجانے کےلئے بے چین شمائلہ نے زو ر دے کر کہا:
’’اسے چھوڑو فلورا! چلو اب نیلی جھیل چلتے ہیں‘‘۔
’’ذرا رکو، مجھے دیکھنے دو کہ کیا کہ کیا یہ اس قابل ہے کہ دوبارہ ٹھیک ہو سکتی ہو، لگتا ہے یہ دوبارہ آسانی سے بن جائے گی‘‘۔
شمائلہ نے لاتعلقی سے کہا:
’’بررپزل علی روئی نے بنائی تھی۔ اب اسے کچھ اور بنانے دو‘‘۔
فلورا کی انگلیاں اچانک ہوا میں اکڑ گئیں اور ٹوٹے ہوئے ٹکڑے ادھر ادھر بکھر گئے۔ شمائلہ نےاسے دیکھا اور بڑے پیار سے کہا:
’’پیاری فلورا! بوغائی فیملی وعدہ وفا کرنے میں مشہور ہے۔ چلو نا اپنا وعدہ وفا کرو‘‘۔
فلورا مایوسی سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ علی روئی نے سوچا کہ اس تلوار والی کی چھاتیاں تو بڑی ہیں لیکن عقل نہیں ہے۔ وہ ابھی یہی سوچ رہا تھا کہ اس کے کانوں میں شمائلہ کا یہ جملہ گونجنے لگا:
’’علی روئی! یہ عظیم شہزادی تمہیں اپنے ساتھ لے چلنے کا حکم دیتی ہے‘‘۔
علی روئی نے جلدی سے سر ہلایا۔ گھومنا پھرنا اور خوبصورتیوں سے کھیلنا اس کےلیے خوشگوار تجربہ ہو سکتا ہے مگر یہ تینوں خوبصورتیاں بڑی سیاہ دل ہیں۔ ایک جوہر چوستی ہے اور دوسری پرتشدد کہ ایک ٹکڑے میں میرے واپس آنے کے امکانات کم ہیں۔
’’کیا تم شہزادی کی حکم عدولی کر رہے ہو؟‘‘۔
شمائلہ بے اطمینانی سے بولی۔
’’علی روئی!تم ابھی تک دیومالائی دائرے میں نہیں پھرے ہو۔ چونکہ چھوٹی شہزادی میں اتنی مہربانی ہے، اس لیے تمہیں ساتھ جانا چاہیے‘‘۔
حکیم الداس نے اچانک کہا:
’’واپس آنا یاد رکھنا اور ’جڑی بوٹیوں کی بنیادی باتیں‘ پڑھنا جاری رکھنا۔ کل میں تمہیں جڑی بوٹیوں میں فرق کرنے کا سب سے بنیادی طریقہ سکھاؤں گا‘‘۔
حکیم الداس کی بات نے شمائلہ اور دوسری دو لڑکیوں کو حیران کر دیا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ علی روئی اس کا سٹوڈنٹ بن گیا تھا۔ وہ اب کوئی تجرباتی چیزنہیں رہا تھا۔
حکیم الداس پورے دیومالائی دائرے میں مشہور دوائیوں کا حکیم تھا۔ یہاں تک کہ نیرنگ آباد کی حکمران شہزادی اقابلہ نے بھی اس کے ساتھ شائستہ سلوک کیا۔ اب اس نے حقیقت میں ایک انسانی اسیر کو بطور اسٹوڈنٹ لیا، بس ایک رسمی سٹوڈنٹ کے طور پر، اپنے تجربات کےلئے۔
اگرچہ شمائلہ اور فلورا کے لیے دوائیوں کے حکیم کا یہ سٹوڈنٹ کوئی بڑی چیز نہیں تھا مگر علی روئی کے لیےشمائلہ زندگی کو محفوظ رکھنے والاتعویز تھی۔ اسی کے سبب اسےدیومالائی دائرے میں رہنے کی اجازت مل رہی تھی۔ بصورت دیگروہ جب بھی اپنی انسانی شناخت کے ساتھ لیب سے باہر نکلا تو اسے فوری طور پر مار دیاجائے گا۔
علی روئی شمائلہ کے ساتھ ایک سیدھے راستے جا رہا تھا۔ اسے پہلی مرتبہ احساس ہوا کہ حکیم الداس کی یہ ’’جاگیر’’ دراصل نیرنگ آباد کے محل کا بیرونی صحن ہے اور اندرونی حصہ چونکہ شہزادیوں کی رہائش گاہ پر مشتمل ہے اس لئے اس کی سخت حفاظت کی جاتی ہے۔ خوش قسمتی سےوہ پہلی بار جب باہر نکلا تھا تو اس کی شمائلہ سے ملاقات ہو گئی تھی۔ اگروہ اندرونی حصے کےکسی گارڈ کو مل جاتا تو شاید اب تک مر چکا ہوتا۔
انسانی گوشت کھانے والے ڈیمنوں کے ساتھ گھومتے ہوئے علی روئی کسی حد تک متجسس تھا کہ اصل دیومالائی دائرہ کیسا ہے۔ اس نے ایک لمحے کےلئے خود کولمبس محسوس کیا کہ اس نے ایک نئی دنیا دریافت کرلی ہے مگر پھردیومالائی دائرے کا سوچ کر کپکپا سا گیا۔
تیسرا باب
سفید برف کا انتقام
خون کے بھی کئی رنگ ہوتے ہیں
گندگی کا ڈھیر۔ کچرا۔ یہ نیرنگ آباد پر اس کا پہلا تاثر تھا۔ اس کےدماغ میں دیومالائی دائرے کی پسماندگی کا خیال لہرا گیا۔ اس نے سوچا یا تو کہانیاں غلط تھیں یا پھر یہی شہر ایسا ہے۔ پتہ نہیں دیومالائی دائرے کے دوسرے شہر کیسے ہیں۔
محل سمیت نیرنگ آباد کی زیادہ تر عمارتیں پرانی لگ رہی تھیں۔ خرید و فروخت کے لیے دکانیں اور ریڑھیاں کم تھیں۔ راستے میں اس نے جن ڈیمنوں کو دیکھا وہ زیادہ تر بدصورت کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ پورا شہر تباہ حال، پستی کے ماحول سے بھرا ہوا تھا۔ ڈیمن کے چہروں کو دیکھ کر علی روئی کو خوف محسوس ہوا۔ اس نے سوچا کہ اگر اس روز اس کی انسانی شناخت سامنے آجاتی تو وہ یقینی طور پر مر چکاہوتااسکی لاش بھی کھائی جا چکی ہوتی۔
’’ارے! تم اپنی کمر سیدھی رکھو۔ ٹانگوں کو اتنا تنگ نہ کرو، کندھے کو بھی آرام دو!‘‘۔
فلورا کی آواز نے علی روئی کے خیالات میں خلل ڈالا۔
’’تم تومرد ہوکر بھی بالکل کمزور ہو۔ بوغائی فیملی کا کوئی بھی بچہ تم سے زیادہ طاقت ور ہے۔
اس وقت علی روئی کی حالت قدرے عجیب تھی، وہ تین سینگوں والے گینڈے کی پشت پر تقریباً لیٹا ہوا تھا۔ توازن کےلیے پوری توانائی کے ساتھ دونوں ہاتھوں سے اس کی جلد کو پکڑرکھا تھا۔ اسے لگتاتھا کہ ذرا سی غفلت ہوئی تو وہ گر پڑے گا اورگرا تو گینڈے کا ایک پاؤں ہی اس کےلیے کافی ہے۔ اس نے فلورا سے کہا:
’’میں معافی چاہتا ہوں، دراصل پہلی باراتنے بڑے جانورپر بیٹھا ہوں‘‘۔
علی روئی جب گینڈے پر سوار ہونے لگا تھاتو اسے خیال آیا کہ اس دنیا میں رکاب اور کاٹھی جیسی کوئی چیز کیوں نہیں۔ جب وہ اس ایجاد کا ذہنی طور پر سرقہ کرنے ہی والاتھا اسے احساس ہواکہ نہیں یہ مختلف برتاؤ کا قصہ ہے۔ شمائلہ اور دوسروں کا تین سینگوں والاگینڈا مکمل طور پر معاون آلات سے لیس ہے۔
’’تمہیں پہلی بار بھی اتنی مضبوطی سے پکڑنے کی ضرورت نہیں ‘‘۔
فلورا نے سرزنش کی۔
مگر شمائلہ معاملے کو سمجھ گئی تھی اس نے نرمی سےفلورا کوسمجھایا:
’’فلورا!اتنی پریشان مت ہو، پہلی باریقیناً وہ مضبوطی سے پکڑے گاوگرنہ۔۔۔۔۔ ‘‘۔
اس جملے نےعلی روئی کو تین سینگوں والے گینڈے سے تقریباً گرا ہی دیا۔ اس نے بڑی مشکل سے خود کو سنبھالا۔ راستے میں ڈیمنوں نے اس کی عجیب کیفیت کو دیکھا۔ انہوں نے اس کی طرف اشارہ کیا اور چہ مگوئیاں شروع کردیں۔ خوش قسمتی سے علی روئی نے چادر پہن رکھی تھی اس لیے اس کی انسانی شناخت عارضی طور پر ظاہر نہیں ہوئی۔ صرف وہ ڈیمن جن کی سونگھنے والی حس تیز تھی ان کےلیے مشکوک تھا۔ لیکن کوئی بھی چھوٹی شہزادی اور فلورا کےہوتے ہوئے اس تک پہنچنےکی ہمت نہ کر سکا۔
شہر کے دروازے پر پہنچ کر چاروں تین سینگوں والے گینڈوں کو روک لیا گیا۔
’’شہزادی شمائلہ، تم کہاں جا رہی ہو؟‘‘۔
جس نے تین سینگوں والے گینڈوں کو روکا وہ بکتر بند نر ڈیمن تھا۔ لمبا تڑنگا، سرخ جلد والا، سر پر دو بڑے مڑے ہوئے سینگ، شکل و شباہت سے گریٹ ڈیمن لگ رہا تھا۔
’’اوہ، یہ شیرف ہے، جنرل ایان، جو آج سلطنت کے معائنے کےلیے نکلا ہوا ہے۔
شمائلہ نرمی سے مسکرائی:
’’ہم نیلی جھیل کی طرف جا رہے ہیں‘‘۔
جنرل ایان نے ہیبت ناکی سے کہا:
’’حال ہی میں نیلی جھیل پر کچھ واقعات ہوئےہیں جو بہت پریشان کن ہیں۔ مجھے لگتا ہے سویا ہوا زہریلا ڈریگن جاگ اٹھا ہے۔ تفتیش کے لیے اسکاؤٹس بھیجے ہیں۔ شہزادی شمائلہ تب تک وہاں کھیلنے کا ارادہ ترک کر دیں جب تک حفاظتی انتظامات کی تصدیق نہ ہو جائے‘‘۔
’’زہریلا ڈریگن ہزاروں سالوں سے سو رہا ہے۔ وہاں تاریک سورج کے بادشاہ کی طرف سے سب سے زیادہ طاقتور تاریک چمک کا تالا لگاہے۔ اس لیے کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ ‘‘
شمائلہ نے علی روئی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
’’میں اس بار کھیلنے نہیں جا رہی، یہ حکیم الداس کا نیا سٹوڈنٹ ہے۔ حکیم نے مجھے کچھ جڑی بوٹیاں جمع کرنے کے لیے نیلی جھیل پر لے جانے کو کہاہے ‘‘۔
حکیم الداس اس سلطنت کا ایک اہم نمائندہ تھا۔ محل کےمحافظ بھی اس کی لیب کےقریب جانے کی ہمت نہیں کرتے تھے اور سوچتے تھے کہ محل کے بیرونی صحن میں اتنے خطرناک کردار کو کیوں رکھا ہے۔ حکیم الداس پراسرار اور خوفناک دوائیوں کا حکیم تھا۔ اس کا احترام اپنی جگہ پر مگر ایک ایسے سٹوڈنٹ کی بھرتی پر کسی اور تو کجا خود ایان کو بھی تجسس تھا۔ وہ سوچنے لگا کہ یہ نیاسٹوڈنٹ ڈیمنوں کی کس نسل سے تعلق رکھتا ہے۔ ایان کی آنکھیں اچانک تیز ہو کر علی روئی پر مرکوز ہوگئیں۔ اسی لمحے شمائلہ نے علی روئی کی چادر اتاردی۔
ایان کے پیچھے ایک سپاہی چیخا:
’’یہ وہی انسان ہے جسے ہم نے پکڑا تھا!‘‘۔
اچانک ہر قسم کی مخالف نظریں علی روئی پر مرکوز ہو گئیں۔ اس نے اپنے چہرے پر کوئی تاثر نہ آنے دیا لیکن ٹھنڈے پسینے کو ماتھے پر بہنے سے نہ روک سکا۔
ایان نے فوجیوں سےعلی روئی کی شناخت دریافت کی تو اسے یاد آیا جب اس نے ایک انسان کے ملنے کی اطلاع شہزادی رائل کو دی تھی تو وہاں اس وقت حکیم الداس موجود تھا۔ اس نے شہزادی سے درخواست کی تھی اپنے تجربات کےلئےانسان اس کے حوالے دیا جائے۔ پھر اسے لے گیاتھا۔ اب ایک قیدی حکیم کا سٹوڈنٹ بن چکا ہے ؟۔
شمائلہ نے ایان سے اس کا تعارف کرایااس انداز میں کرایا جیسے وہ اس کے بارے میں کچھ زیادہ نہ جانتی ہو۔ اس نے کہا:
’’اس انسان کا نام علی روئی ہے۔ فارماسیوٹکس میں اس کی قابلیت کی وجہ سے حکیم الداس نے اسے ایک باضابطہ سٹوڈنٹ کے طور پر قبول کیا ہے۔ اب یہ ہمارے نیرنگ آباد کا حصہ ہے ‘‘۔
فلورا نے بے صبری سے کہا:
’’اس کے بارے میں شمائلہ اور میں نے آج ہی حکیم سے سنا ہے۔ اگر آپ کو کوئی شک ہے تو حکیم الداس سے براہ راست پوچھ سکتے ہیں!‘‘۔
’’فلورا!معذرت، میرا یہ مطلب نہیں میں۔۔ ‘‘۔ اور’فلورا نے اس کاجملہ کاٹ کر سرد لہجے میں کہا:
’’ایان !تمہاری پوچھ گچھ ختم ہوجانی چاہیے۔ جڑی بوٹیاں اکٹھی کرنے میں تم ہمیں لیٹ کرا رہے ہو‘‘۔
فلورا کے دو ٹوک رویے کے سامنے ایان بے بس محسوس ہوا۔ اس نے شمائلہ سے کہا:
’’چھوٹی شہزادی! آپ جائیں مگر میں آپ کی حفاظت کے لیے سپاہیوں کا ایک دستہ ساتھ ضروربھیجوں گا‘‘۔
شمائلہ نے مسکرا کر پوچھا:
’’تم کیوں پریشان ہو؟۔ کیا تم سمجھے ہو فلورا میری حفاظت نہیں کر سکتی؟‘‘۔
فلورا نے اپنی خوبصورت بھنویں اونچی کیں۔ اس کی سرخ آنکھوں میں ایک تیز کرن چمک رہی تھی۔ ایان نے جانے کی اجازت دیتے ہوئے علی روئی کو ایک سرد نظرڈالی اورکہا:
’’دیکھ فرار ہونے کی کوشش کرنا نہ کوئی چال چلنا۔ ورنہ میں تمہاری ساری ہڈیاں گودے میں بدل دوں گا‘‘۔
چھوٹی شہزادی کی طرف سے آگے بڑھنے کا شارہ ہوا۔
چار تین سینگوں والے گینڈے بھاری قدموں کے ساتھ شہر کے بڑےدروازے سے باہر نکل آئےاور یہ خبر برق رفتاری سے نیرنگ آباد میں پھیل گئی کہ حکیم الداس نے ایک نیا سٹوڈنٹ بھرتی کیا ہے جو انسان ہے۔
شمائلہ نے فلورا کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرائی اور کہا:
’’ مجھے لگتا ہے کہ ایان دل کابرا نہیں۔ آپ دونوں کی فیملیوں کے آپس میں بہت گہرے مراسم ہیں اگر اس نے آپ کی اجازت کے بغیر براہ راست آپ کے والد کو شادی کی پیشکش نہیں کی ہوتی تو آپ شاید اسے اتنا ناپسند نہ کرتیں‘‘۔
فلورا نے حقارت سے کہا:
’’میں اسے شروع سے ہی ناپسند کرتی ہوں، یہ بچپن سے ہی ڈرپوک اور نااہل ہے۔ شیرف تو یہ اپنی کارون فیملی کے اثر رسوخ سے بن گیا ہے۔ صرف کمزوروں کو دھمکانا جانتا ہے۔ اس کے پاس کوئی حقیقی صلاحیت نہیں ہے‘‘۔
علی روئی کو بھی معاملے کی سمجھ آ گئی تھی۔ شمائلہ بولی:
’’وہ اب بھی مجھے لائن مارنے کی کوشش کر رہاتھا‘‘۔
فلورا نے طنز یہ انداز میں بڑے غرور سےکیا:
’’پہلے میری تلوار سے تو پوچھےجو کہےفلورا میری ہے۔ اسے کوئی نہیں لے جا سکتا۔ مجھے پورا یقین ہے اسی نے بڑی شہزادی کوہمارے تاریک برساتی جنگل کے سفرکی شکایت کی ہوگی۔ مجھے اس شخص سے نفرت ہے‘‘۔
شمائلہ ہنس پڑی۔
’’تیزچلو ‘‘۔
تین سینگوں والے گینڈوں کی رفتار تیز ہونے لگی۔ یقین کرنا مشکل تھا کہ اتنے بڑے جسموں والے جانوراتنے تیز رفتار بھی ہو سکتے ہیں۔ کسی قسم کی کاٹھی نہ ہونے کے سبب علی روئی کے لیے یہ تیز رفتاری عذاب کی طرح تھی۔ وہ مضبوطی سے گینڈے پرلیٹا کئی بار گرتے گرتے بچا۔ فلورا کو دیوہیکل گینڈے کی پیٹھ پر آرام سے بیٹھے ہوئے دیکھ کر علی روئی کو اپنی کم مائیگی کا احساس ہوا۔
زمین کے اوپر دھوپ والی دنیا کےآرتھر کی یاد کے مقابلے میں دیومالائی دائرے کا ماحول بہت زیادہ خراب تھا۔ یہاں روشنی کا منبع آسمان کے دو روشن ستارےتھے۔ یہ ستارہ کہلانے والاروشنی اور حرارت کا منبع زمین کے لیے سورج سے کافی چھوٹا تھااورزیادہ تر دھوئیں کے بادلوں سے ڈھکا رہتا تھا۔ شام کووہی چاند بن جاتے تھے۔ ان سے ٹھنڈی ٹھنڈی ہلکی ہلکی روشنی نکلنے لگتی تھی۔ دن اور رات کے درمیان درجہ حرارت کا فرق بہت زیادہ تھا۔
راستے میں بہت پرانے کائی سے اٹے ہوئے بڑے بڑے جوہڑ بھی دکھائی دیے۔ نامعلوم تاریک اور پراسرار غاریں اور عجیب و غریب پودے،ان سب چیزوں نے مل کر ایک تاریک لیکن خوبصورت زمین کی تزئین کی تشکیل کی ہوئی تھی۔ پہاڑوں سے گھری ہوئی نیلی جھیل بہت بڑے علاقے پر محیط تھی۔ ماحول بہت ہی پرسکون تھا۔ جھیل کے پانی کا رنگ گہرا نیلا تھا۔ یہ پانی جھیل کے کنارے پر اگے ہوئے پودوں اور پھولوں کو خوبصورت تر بنا رہا تھا۔ جھیل کے کنارے پر یہ تاریک دنیا کسی جنت کی طرح لگ رہی تھی۔ علی روئی کو شمائلہ سے معلوم ہوا کہ جھیل کا پانی اس لئے نیلا ہے کہ ایک زہریلا ڈریگن جھیل کے اندر سو رہا ہے۔ اس کے جسم سے نکلنے والے زہر نے جھیل کے پانی کو نیلا کرد یا ہے۔ یہ جھیل بھی زہریلی ہو چکی ہے۔ اس جھیل میں کوئی جاندار چیز نہیں رہی۔ یہ تمام سرسبز پودے زیادہ تر انتہائی زہریلے ہیں۔
حتی کہ سبز گھاس میں بھی ہلکی سی نیلاہٹ موجود تھی۔ اسی سے علی روئی کو اندازہ ہوا کہ زہریلے ڈریگن کے زہر کی طاقت خوفناک حد تک زیادہ ہے۔ اس نے سوچا کہ چند زہریلے ڈریگنوں کی معمولی سی حرکت شہر کی ساری آبادی کو ختم کر سکتی ہے۔ شاید اس لیےکبھی کسی نے اسے چھیڑنے کی کوشش نہیں کی۔
یہ زہریلا اژدہا کئی ہزار سال سے جھیل میں سو رہا تھا۔ چار سو سال پہلے نیرنگ آباد کے علاقے میں خانہ جنگی ہوئی تھی۔ جب دیومالائی دائرے کا سب سے مضبوط آدمی تاریک سورج کا بادشاہ فوج کی قیادت کر رہا تھا وہ اپنی فوج کے ساتھ نیلی جھیل کے پاس سے گزرا تو اس نے بھی زہریلے ڈریگن کو جگانے کی ہمت نہیں کی اورتاریک چمک کا تالاکی مہر لگادی تھی تا کہ یہ ڈریگن مسلسل سویا رہے۔
’’ڈیمن کے دائرے میں خوبصورت چیزیں اکثر زیادہ خطرناک ہوتی ہیں‘‘۔
علی روئی نے دل ہی میں شمائلہ کی بات سے اتفاق کیااور خود سے کہا:
’’بے شک فی میل دیومالائین زیادہ خطرناک ہیں ‘‘۔
اورخوبصورت ترین فلورا اور شمائلہ کے بارے میں سوچنے لگا۔
جھیل میں سویا ہواڈریگن نمائشی نہیں تھا۔ فلورا کے ساتھ بھی چھوٹی شہزادی نے جھیل کے قریب جانے کی ہمت نہ کی۔ دونوں نے احتیاط سے ایک محفوظ پہاڑی کی چوٹی کا انتخاب کیا جہاں سے اس وسیع و عریض جھیل کا منظر بہت ہی خوبصورت دکھائی دیتا تھا۔
’’میں کافی عرصے سے نیلی جھیل کے قریب نہیں گئی ہوں۔ فلورا! تمہیں یاد ہے جب ہم پچھلی بار یہاں آئے تھےتو اس وقت بھی اس کے قریب نہیں گئے تھے ‘‘۔
فلورا قدرے ہچکچائی۔
مایا نے کہا:
’’ چلو اس کے قریب جا کر پکنک مناتے ہیں ‘‘۔
شمائلہ نے کہا:
’مگر ایان نیلی جھیل پر ہونے والے کچھ عجیب و غریب واقعات کا ذکر کررہا تھا‘‘۔
مایا بولی:
’’چلو پھل چن کر جلدی جلدی واپس واپس آتے ہیں‘‘۔
فلورا نے کہا:
’’کیا تم واقعی اس ڈرپوک ایان کی باتوں پر یقین کرتی ہو؟‘‘۔
شمائلہ نے نفی میں سر ہلایا اور کہا:
’’نہیں۔ مجھے معلوم ہے اگر تم نے اسے ساتھ آنے کی دعوت دی ہوتی تو فوراً کہتازہریلے ڈریگن کا صفایا ہو چکاہے، یہ نیلی جھیل اس کے خاندان کے باتھ روم سے زیادہ محفوظ ہے‘‘۔
’’مگرمیں اس قسم کے نفرت انگیز آدمی کو کبھی مدعو نہیں کروں گی‘‘۔
فلورا نے شمائلہ سے اتفاق کیا۔
’’ٹھیک ہے پھر، مایا کچھ جیڈ ڈریگن فروٹ لے گی۔ میں کچھ شکار کروں گی۔ (علی روئی سے )تم اور شمائلہ اس جگہ کو جتنا سجا سکتے ہو سجا دو‘‘۔
درحقیقت علی روئی سپرسسٹم کی ترقی کو بڑھانے کےلیے زہریلے پھولوں کو استعمال کرنے کی کوشش کرنا چاہتا تھا۔ لیکن جھیل میں خوفناک گوشت خور پھول اور ڈریگن پر غور کرتے ہوئے اس نے فوری طور پر اس خیال کو ترک کر دیا۔ مایا اور فلورا کے جانے کے بعد شمائلہ نے علی روئی کو جگہ کی صفائی کا حکم دیا۔ شمائلہ کی کلائی پرایک عجیب و غریب کڑاتھا۔ یہ کڑا زنبیل کی طرح تھا اس میں چیزیں کو ذخیرہ کیا جاسکتا تھا،لیکن مقداربہت زیادہ نہیں، کیونکہ اندر سے زیادہ بڑا نہیں تھا۔ شمائلہ نےیہ زنبیل پوری طرح سے بھری ہوئی تھی۔ جیسے ہی اس جادوئی چیز کا منہ کھلا، بہت سی چیزیں گر پڑیں۔
دونوں نے مل کر ضرورت کی تمام چیزیں سجادیں۔ پکنک کے برتنوں کا پورا سیٹ تیارکر کے ایک طرف سجادیا۔ نیچے بیٹھنے کےلئے قالین کے چھوٹے چھوٹے چار ٹکرے رکھ دیے۔ شمائلہ کے کھیلنے کی بھی تمام چیزیں باہر نکال دیں۔ علی روئی کو شمائلہ کا کڑا دیکھ کر عمرو عیار کی زنبیل یاد آ گئی۔
شمائلہ نے اس طرف دیکھا جدھر فلورا اور کیا گئی تھیں۔ دور دور تک ان کی آمد کا کوئی امکان نہیں تھا۔ یہ دیکھ کر کہ آس پاس کوئی نہیں ہے شمائلہ آہستہ آہستہ علی روئی کی طرف بڑھنے لگی۔ علی روئی ایک لمحے کے لیے گھبرا گیا اور پوچھا:
’’چھوٹی شہزادی، کیا بات ہے؟‘‘۔
شمائلہ نے ایک عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا:
’’یہ بات نہیں، اصل میں تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ میرے قریب مت آؤ، اگر آئی تو میں کسی کو بلا لوں گا۔ تب میں کہوں گی کہ تم چیختے رہو گے یہاں تک کہ پنی آواز کھو دوگے مگر کوئی تمہیں بچانے نہیں آئے گا‘‘۔
علی روئی نے بے آواز ہو کر آنکھیں موند لیں۔ اس نے پھر پوچھا:
’’پکارو اور پکارتے پکارتے اپنی آواز کھو دو تاکہ تمہیں یقین آجائے کہ کوئی تمہیں بچانے کےلیے آیا‘‘۔
علی روئی اس طرح خاموش رہا جیسے شہزادی شمائلہ اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتی۔ ایکس اسے کچھ دیر حیرت سے دیکھتی رہی اور پھر بولی:
’’لگتا ہے کہ انسانی دنیا کے پاس بھی ڈیمن کنگ اور شہزادی نام کی یہی کہانی موجودہے‘‘۔
علی روئی ناقابل فہم انداز میں مسکرایا لیکن کوئی جواب نہیں دیا۔ شمائلہ نے کہا:
’’مجھے ایک اچھی سی کہانی سناؤ۔ بالکل اسی طرح جیسے قدیم دورکی تم نے پہلے کہانی سنائی تھی۔
علی روئی کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا اس کے لب آہستہ آہستہ وا ہوئے:
’’وہ کوئی کہانی نہیں تھی، ایک حقیقی واقعہ تھا۔ اگر مجھے حکیم کے خیالات ورثے میں نہیں ملے ہوتے تو میں ہوارونگ ڈاؤ اور برر پزل کیسے بنا سکتا تھا‘‘۔
’’میں تمہیں ایک راز بتاؤں گی جو فلورا بھی نہیں جانتی‘‘۔
شمائلہ نے پراسرار آواز میں کہا۔
’’جب میں تم سے پہلی بار ملی تھی تو لوسیفر کی منفرد صلاحیتوں میں سے صرف ایک کو بیدار کیا تھا جسے مائنڈ ریڈنگ کہا جاتا ہے۔ اورمیں نے اتفاق سے تم پر تجربہ کیا تھا‘‘۔
علی روئی کوذہنی طور پر ایک جھٹکا لگا اور وہ کچھ دیر بول نہ سکا۔ یہ سوچ کر اور زیادہ پریشان ہو گیا کہ یہ بچی تو اس کے اندر کی ایک ایک بات جان چکی ہے۔ شمائلہ اسے تیز نظروں سے گھورتی رہی۔ علی روئی سوچنے لگا کہ اس بچی کے ساتھ کس طرح آگے بڑھا جائے گا کیا یہ سچ مچ مائنڈ ریڈکر سکتی ہے۔ کیا اسے سپرسسٹم کے متعلق بھی علم ہے۔ اچانک شمائلہ ہنس پڑی
’’فکر نہ کرو میری مائنڈ ریڈنگ پاور اب کمزور ہے۔ میں صرف یہ بتا سکتی ہوں کہ تم جھوٹ بول رہے ہوسچ۔ میں دماغ کے مخصوص خانوں میں اب نہیں جھانک سکتی۔ گہرائی میں پھرتی تحریریں نہیں پڑھ سکتی، مثال کے طور پرمجھے یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ تمہیں مایا پسند ہے‘‘۔
یہ سن کرعلی روئی نے سکون کا سانس لیا اور سوچنے لگا کہ کیا شمائلہ واقعی ذہنوں کو پڑھ سکتی ہوگی۔ شمائلہ کی اس گفتگو کا اصل مقصد کیا ہے۔ کیا شمائلہ میں مایا کے ساتھ کسی طرح کی رقابت کا احساس جاگا ہے۔ مایا واقعی ایک ایساسائرن تھا جو کسی کو آسانی سے مار سکتا تھا۔
علی روئی کو مسلسل خاموش دیکھ کر شمائلہ بولی:
’’دراصل مائنڈ ریڈنگ میں بہت زیادہ روح کی توانائی استعمال ہوتی ہے، اسے استعمال کرنے کے بعد مجھے کچھ دن آرام کرنا پڑ جاتا ہے۔ فکر نہ کرومیں اسے تم پر ضائع نہیں کروں گی‘‘۔
شمائلہ نے انگرائی لے کر کہا:
’’میں بہت تھکی ہوئی ہوں۔ اگر تم کوئی کہانی سنائو تو مجھے اچھا لگے گا‘‘۔
’’تم نے کچھ بھی نہیں کیا اور تھکاوٹ کی شکایت کرتی ہو؟‘‘۔
علی روئی نے شمائلہ سے کہا۔
وہ بولی:
’’تمہیں میری محنت نظر نہیں آ سکتی ‘‘۔
علی روئی نے سوچا اس بات پر یقین کرنا بہتر ہے کہ اس کے پاس مائنڈ ریڈنگ کی طاقت موجودہے۔ یہ پیاری سی چھوٹی شہزادی ایک چھوٹی مادہ ڈیمن ہے۔ ابھی اس کی بات ماننا ہی بہتر بات ہے۔
علی روئی نے چھوٹی شہزادی کو ’’دی ڈیمن کنگ اینڈ دی شہزادی‘‘ کا اضافی مضحکہ خیز ورژن بتایا۔ یہ چھوٹی سی بورنگ کہانی چھوٹی شہزادی کو بہت پسند آئی۔ اسے سنتے ہوئے اس کی آنکھیں نم ہو رہی تھیں۔ جب اس نے سنا کہ ڈیمن بادشاہ نے خودکشی کر لی ہے تو وہ اس سے مطمئن نہیں ہوئی۔ اس نے اس کہانی کے مرکزی کردار کو ایک شریر انسانی جنگجو اور ایک مہربان خاتون ڈیمن میں تبدیل کردو۔ علی روئی نے اپنا سر کھجایااور بدلنے کا وعدہ سا کرلیا۔
اب وہ حکیم الداس کو اپنا بنا چکا تھا۔ اپنے آپ کو اس کا سٹوڈنٹ۔ دیومالائی دائرے میں رہنےکےلئے ضروری تھا کہ انسانوں کا غدار سمجھا جانا چاہیے۔ اس نے سوچا اپنی زندگی کو برقرار رکھنے کےلئے دیومالائی دائرے جو کچھ چاہتی ہے تم ویسا ہی کرو ممکن ہے کسی وقت انسانی دنیا میں واپس جانے کا موقع مل جائے۔
مایا پھلوں سے بھری ٹوکری لے کر واپس آئی۔ جیڈ ڈریگن فروٹ خشک اخروٹ سے ملتا جلتا تھا۔ بظاہر یہ بہت بڑا، پتلی جلد والا میٹھا گوشت تھا۔ علی روئی نے اس کا ذائقہ چکھا اور اس کا ذائقہ پستے کی طرح تھا۔ یہ پھل واقعی لوگوں کو اپنی طرف راغب کر سکتا تھا۔ ااسے اب اندازہ ہوا کہ چھوٹی شہزادی نے نیلی جھیل پر آنےکےلئے اصرار کیوں کیا۔
جلد ہی فلورا بھی صاف شدہ چند مچھلیوں اورشکار شدہ دو بکری نما جانوروں کو اٹھائے پہاڑ کی چوٹی پر واپس آگئی۔ یہ مچھلیاں اس نے ایک پہاڑی کی ندی سے پکڑی تھیں۔ اس نے آتے ہی کہا:
’’عجیب بات ہے، ابھی دو مہینے ہی ہوئے ہیں۔ آس پاس کا شکار اتنا کم کیسے ہوگیا؟‘‘۔
فلورابھی الجھن میں تھی۔
’’میرے ہاتھ صرف یہ کچھ آیا۔ مجھے نہیں لگتاکہ یہ ہمارے لیے کافی ہے‘‘۔
’’چھ مچھلیاں اور دو بھیڑیں کافی نہیں ہیں؟ ‘‘۔
علی روئی چونک کر :
’’کل چار لوگ، تین عورتیں، اور ایک مرد، کیا تم سب ٹاؤٹی ہو ‘‘۔
فلورا اور مایا کی حرکتوں میں یک لخت تیزی آگئی۔ انہوں نے فوراً گوشت کاٹا اور پھر لوہے کی سلاخوں ٹانگ دیا۔ مصالحے وہ ساتھ لائی تھیںجن کے لگانے کام شمائلہ کررہی تھی۔ علی روئی نے والدین کی وفات کے بعدکچھ عرصہ اپنےلیے کھانا تیار کیا تھا۔ وہ اتنے اچھے کھانے پکانے لگا تھا کہ یونیورسٹی میں دوست اسے ’’لٹل گاڈ آف کوکری‘‘ کے نام سے پکارنے لگے تھے۔ اس وقت جو مصالحہ مچھلیوں کو لگایا جارہا تھا، علی روئی نے اس میں پوری دلچسپی لی۔ علی روئی کی بنائی ہوئی گرل فش چکھنے کےبعد تینوں لڑکیاں باربی کیو کے سارے پرانے ذائقے بھول گئیں۔ یہاں تک کہ مایا بھی متاثر ہوئی۔ چھوٹی شہزادی نے فخر سے کہا کہ علی روئی کو ساتھ لانے کی غیر معمولی فیصلہ اس نے کیا تھا۔ فلورا خاموشی سے کھانا کھانے میں مصروف رہی۔ علی روئی کو اب اندازہ ہوا کہ فلورا کیوں کہہ رہی تھی کہ شاید کھانا کافی نہ ہو۔ مبالغہ آمیز حد تک فلورا نے بہت زیادہ کھانا کھایا۔ جب شمائلہ باتوں میں مصروف تھی، فلورا نےاس کی پلیٹ سے اپنی پلیٹ میں سے کھانا جھاڑ لیا۔ شمائلہ بہت سست تھی۔ اس نے مچھلی کی چند سیخوں کو دیکھا جنہیں علی روئی نے ابھی باربی کیو کیا تھا، وہ اسے پکڑنے ہی والی تھی کہ وہ بھی فلورا لے اڑی۔ اس نے شرمندگی سے کہا:
’’پہلے تم اسے کھا لو۔ میں بعد میں کھا لوں گی ‘‘۔
علی روئی نے جلدی سے کچھ اور تیار سیخیں شمائلہ کے حوالے کیں۔ چھوٹی مادہ ڈیمن کے لیے مہربانی کا اظہار کرنا شاذ و نادر ہی تھامگر اس نے علی روئی کا شکریہ ادا کیا۔
اس ماحول نے علی روئی کو ماضی کی یاد دلادی جب اس نے یونیورسٹی میں اپنے چند قریبی دوستوں کے ساتھ باربی کیو کیاتھا۔ شمائلہ نے گرل مچھلی کے چند نوالے لیے۔ دیکھا کہ علی روئی اپنے خیالوں میں گم تھا، اس نے جیڈ ڈریگن فروٹ اس کے سر پر پھینکا اور ہنس پڑی۔
’’ علی روئی! یقین نہیں آتا کہ تمہاری بنائی ہوئی گرل فش کا ذائقہ اتنا اچھا ہے۔ آج سے میں تمہیں اپنا کھلونا لڑکا قرار دیتی ہوں‘‘۔
علی روئی نے سوچا، کیا یہ پیاری لڑکی’’کھلونا لڑکے‘‘ کا مطلب جانتی ہے؟۔
فلورا کی ساری توجہ کھانے پر تھی اس لیے وہ لاتعلق تھی۔ صرف کیا نے علی روئی کو وارننگ کے طور پر ایک نظر ڈالی لیکن بولی نہیں۔ کھانا کھانے کے بعد شمائلہ کی دھمکی اور بہکاوے نے علی روئی کو مجبور کردیا کہ اب وہ باورچی نہ رہے داستان گو بن جائے۔ علی روئی نےایک لمحہ ضائع کئے بغیر اپنا کرادار بدلااور انہیں کہانیاں سنانے لگا۔
علی روئی کی منتخب کردہ کہانی زمین کی مشہورداستان ’’سفید برف ‘‘تھی جو انہیں اتنی پسند آئی کہ انہوں نے دو مرتبہ سنی۔ تینوں لڑکیوں نے کہانیوں پر کئی قسم کے اعتراض کیے اور علی روئی نے قبول کیے اور ان کہانیوں میں ترمیم کو ضروری قرار دیا۔
باربی کیو ختم ہو چکا تھا۔ تینوں لڑکیوںکا پیٹ بھر چکا تھا۔ وہ اب کھانےپر لڑنے والی نہیں لگ رہی تھی بلکہ ہر معاملے میں اکٹھی تھیں۔ زور و شور سے ہونے والی گفتگو مدہم ہوتی گئی۔ ان کی آوازیںمدھم ہوتی ہوئی آہستہ آہستہ خاموش ہو گئیں، حتیٰ کہ سب سے زیادہ متحرک نظر آنے والی شمائلہ بھی وہیں زمین پر سو گئی۔
علی روئی نے ایک نظر تینوں پر ڈالی۔ اسے یقین ہو گیا کہ تینوں حسینائیں سو رہی ہیں مگرجاگنے والاآدمی تھا بھیڑیا نہیں۔ اس نے خود سے سوال کیا:
’’کیا میں کچھ کر سکتا ہوں؟‘‘۔
علی روئی نے اپنا سر نفی میں ہلایا۔ یقیناً یہ سیاہ دل شہزادی شمائلہ کا ڈرامہ ہے جس میں اس نے فلورا اور مایا کو بھی شامل کر لیا ہے یا صرف مجھے دکھانے کےلیے گہری نیند میں ہیں۔ اگر میں نے فرار ہونے کی کوشش کی تو اس جال میں پھنس جاؤں گا۔ بہتر یہی ہوگا کہ اس وقت تک انتظار کروں جب تک کہ چھوٹی شہزادی ڈرامے میں اپنا صبر نہ کھو دے، پھر اس کا مذاق خطرناک نہیں رہےگا۔
علی روئی کو شمائلہ کی اداکاری اچھی نہیں لگ رہی تھی۔ اس کے سانس بہت لمبے اور جعلی محسوس ہورہے تھے اور بھی بہت سی خامیاں تھیں۔ فلورا کا انداز بھی مصنوعی سا اور عجیب تھا۔ اس نے سوتے ہوئے اپنی تلوار کو مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا۔
’’ بیچارہ ایان‘‘۔
علی روئی کو ایان یاد آگیا جو فلورا سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ وہ تو فلورا کی تلوار سے بھی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ سب سے کامیاب اداکاری مایا کی تھی۔ لگتا تھا کہ وہ واقعی سو رہی ہے۔ پیٹھ کی گولائیوں کی وجہ سے وہ بہت پرکشش لگ رہی تھی۔ اس بار یہ ایوارڈ مایا کے حصے میں آیا۔
علی روئی اپنے پیشہ ور اوٹاکو کے نقطہ نظر سے فیصلہ کر رہا تھا، پھر اسے آہستہ آہستہ محسوس ہوا کہ کچھ غلط ہو رہاہے۔ اس نے باربی کیو کا سامان ایک طرف ہٹایا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے دیکھا کہ تین سینگوں والے چاروں گینڈے بے چین ہورہے ہیں۔ وہ اپنی بھاری آواز میں غرا رہے تھے۔ علی روئی کے ذہن میں اطلاعات کی آوازیں آنے لگیں۔ سپر سسٹم کی پیشرفت خود بخود بڑھتی چلی جاتھی۔ یہ سلسلہ آہستہ آہستہ شروع ہوا مگر تیز تر ہوتا چلا گیا۔ 20فیصد سے 30 فیصد تک پہنچا اور پھر یکدم 80فیصد تک بڑھتا چلا گیا۔
حکیم الداس کی لیبارٹری میں مختلف زہروں کے باوجود یہ صرف20 فیصد سے بھی کم تک پہنچ سکتا تھا۔ علی روئی سوچنے لگا کہ یہاں اتنی خوفناک زہریلی چیز کیا تھی جس نے سسٹم کی ترقی کو اتنی تیزی سے بڑھا دیا۔ کیا یہاں کی ہوا یکدم زہریلی ہو گئی ہے۔ وہ خوش تھا کہ سپرسسٹم اسٹارٹ اپ کی پیش رفت میں تیزی آئی ہے۔ مگر جب علی روئی نے پہاڑ کے دامن میں آئینہ مثال نیلی جھیل پر نظر ڈالی تو اسے ایک خیال آیا اور فوراً ٹھنڈا پسینہ آنے لگا۔ پھر خیال حقیقت بن گیا۔ ہلکی سی ہوا چلی، پھر اچانک ایک چھوٹے بالوں والاآدمی علی روئی کے پاس نمودار ہواعلی روئی نے مقابلے کےلئے ہاتھوں میں باربی کیو والی سیخیں پکڑ لیں۔ اس آدمی کے بال کالے تھے۔ بھوری پیلی جلدتھی۔ مضبوط بدن تھا۔ اس نے ایک عجیب گہرےدائروں والالباس پہناہوا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ جسم عجیب و غریب علامتوں کے تاروں سے گھرا ہوا ہے جس سے ہلکی سی چمک نکل رہی ہے۔ علی روئی نے اس سےپوچھا:
’’تم یہاں کیوں آئے ہو ‘؟‘۔
آدمی کو اس سوا ل نے دنگ کر دیا اور اس نے حیرت سے پوچھا:
’’کیا تم مجھے جانتے ہو؟‘‘۔
علی روئی نے نیلی جھیل پر فضا میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا:
’’زہر یلاڈریگن؟‘‘۔
ڈریگن مسکرا کر اپنے سفید دانت دکھاتے ہوئے بولا:
ہاں !تم مجھے گریٹ پوائزن ڈریگن یا پوائزن ڈریگن کہہ کر مخاطب کرسکتے ہو۔
’’تم یہاں کیوں آئے ہو ؟‘‘۔
علی روئی کے لئے یہ جملہ بہت خوفناک تھا۔ اس ذہن نے ڈریگن کے کہے کے کئی مفہوم نکالے۔ اس نے سوچا کہ یہ کہہ رہا ہے تمہیں یہاں نہیں آنا چاہیے تھا،۔ تم یہاں آگئے ہوتو اب مر جاؤ گے۔
دل دہلا دینے والی خاموشی کے بعد دونوں ایک دوسرے کو قدر کی نگاہ سے دیکھنے رہےتھے۔ ڈریگن کو علی روئی کوئی عام سا انسان نہیں لگ رہا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ اس کے زہرنے اس پر کوئی اثر نہیں کیا۔ دوسری طرف علی روئی کا دل دھڑک رہا تھا۔ وہ قدیم زہریلے ڈریگن کے بارے میں ہر بات جان چکا تھا اور اس سے دوستی کا خوہش مند تھا۔ اس نے ڈریگن سے تعلق بنانے کی پلاننگ شروع کردی۔
’’پوائزن ڈریگن ! مجھے اسی وقت معلوم ہوگیا تھا کہ تم جاگ چکے ہو جب فلورا نے بتایا کہ آس پاس شکار بہت کم رہ گیا ہے۔ یہ لیجئے بار بی کیو کھائیے‘‘۔
علی روئی نے باقی بچا ہوا تمام بار بی کیو ڈریگن کے سامنے رکھ دیا۔
علی روئی سوچ رہا تھا کہ زہریلا ڈریگن ہزاروں سالوں سے سو رہا تھا اور اسے دیومالائی دائرے کے سب سے مضبوط آدمی نے تاریک چمک کے تالے سے سیل کر دیا تھا۔پھر یہ کیسے جاگ پڑا ہے اور اس سے میرا سامنا ہی کیوں ہواہے ؟۔ زہریلے ڈریگن نے فوراً باربی کیو کا سارا گوشت ختم کر دیا اور خالی لوہے کی سلاخوں کو زمین پر پھینکتے ہوئے علی روئی سے پوچھا:
’’تم ایک انسان ہو۔ یہ بڑی عجیب بات ہے۔ تم یہاںدیومالائی دائرے میں موجود ہواوریہ باربی کیو بہت زیادہ لذیذ ہے۔ کیا مزید ہے۔ ابھی میں نے کچھ دیومالائی سکاوٹس کا گوشت کھایا ہے۔ بہت بد ذائقہ تھا‘‘۔
زہریلے ڈریگن نے جنرل ایان کی طرف سے بھیجے گئے اسکاؤٹس کے خاتمے کا اتفاقی طور پر انکشاف کیاتوعلی روئی نےاپنی ریڑھ کی ہڈی میں سردی محسوس کی۔ اس نے خوف کو دبانے کی کامیاب کوشش کرتے ہوئے کہا:
’’نہیں۔ ختم ہوچکا ہے اگر پوائزن ڈریگن ، یہی بار بی کیو اور کھانا چاہتےہیں تو جاکے شکار کر لائیں، میں آپ کو باربی کیوکرکے دے دوںگا‘‘۔
’’کیا کچھ ریڈی میڈ نہیں بن سکتا ؟۔ یہ تین سینگوں والے گینڈے کا ذائقہ تو بالکل اچھا نہیں ہوتا‘‘۔
ڈریگن نے گینڈوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جو بہت پہلے بیہوش ہو گئے تھے۔ پھر اس نے تینوں مادہ ڈیمنوں کی طرف دیکھااور بولا:
’’دراصل یہ ٹھیک ہیں۔ اور ہاں، جہاں تک تمہاراتعلق ہے تو جب تک تم کی خدمت کرتے رہو گے میرے لیے باربی کیو پر توجہ مرکوز رکھو گے تب ہی تمہاری زندگی برقرار رہے گی ‘‘۔
ایک کمزور آواز آئی:
’’نہیں ایسا نہیں ہو سکتا ‘‘۔
یہ فلورا کی آوازتھی۔ وہ واقعی نیرنگ آباد کی بہترین تلوار باز کہلانے کے لائق تھی۔ اس نے درحقیقت زہریلی نیند کا مقابلہ کیا اور بیدار ہو گئی۔ اب اس کی شکل بھی بدل گئی تھی، بھوری جلد ہلکی سرخ ہو چکی تھی، سر پر دو خمدار سینگ نکل آئے تھے، آنکھیں لال لال ہو گئیں۔ وہ بالکل اسی دیومالائی شکل میں آ گئی تھی جس نے بررپزل کو تباہ کیا تھا۔ اس کا جسم بھی جلتے ہوئے شعلوں سے ڈھکا ہوا تھا، پھر بھی وہ مدھم نظر آرہا تھا۔ وہ صرف عظیم تلوار سے اپنے جسم کو سہارا دے سکتی تھی۔
’’علی روئی! جلدی سے شمائلہ کے ساتھ بھاگ جاؤ، میں اسےروکتی ہوں!‘‘۔
اتھینا دانت پیس کر چلائی۔ اس کی سانس تیز تھی اور آگ کے شعلےمزید روشن ہو گئے تھے۔
’’زیادہ پر اعتماد، بیوقوف عورت! یہاں تک کہ تم اپنی طاقت کو جلا دیتی ہو، تو تب بھی سنکھیار کی طاقت کا مقابلہ نہیں کر پاؤ گی‘‘۔ زہریلے ڈریگن نے حقارت کے ساتھ اپنی زہریلی پھونک اس کی طرف پھینکی اور دیومالائی تلواروں کی عظیم تلوار اس رفتارسے زنگ آلود ہوتی چلی گئی۔ پھر تھوڑی ہی دیر بعد زنگ آلود عظیم تلوار چھوٹی سے چھوٹی ہوتی گئی یہاں تک کہ وہ فلورا کے وزن کو مزید سہارا نہیں دے سکتی تھی، پھر ’’پھاہ‘‘کی آواز آئی اور تلوار بکھر گئی۔
فلوراکی طاقت زہر کی وجہ سے ماند پڑ گئی تھی جس سے وہ زمین پر گر گئی۔ اس کی دیومالائی شکل اور زندگی کا شعلہ آہستہ آہستہ غائب ہو کر انسانی شکل میں واپس آ گیا۔ اگر زہریلا ڈریگن اسے خوراک کے طور پر رکھنا نہ چاہتا تو وہ سفید ہڈیوں کا ڈھیر بن جاتی۔
’’دیکھا؟ اے انسان! تیرے پاس صرف دو ہی راستے ہیں، تابعداری کرو یا مر جاؤ‘‘۔
سنکھیار نے طنز کیا۔
’’اب سنکھیار چھوٹی بچی کو کھا نا شروع کرے گا۔ ابھی فیصلہ کرو!‘‘۔
اس نے دل میں فیصلہ کر لیا اور مضبوطی سے سر ہلاکر کہا:
’’یہ ممکن نہیں ہے ‘‘۔
اس نے سوچا اگر شمائلہ واقعی یہاں مر گئی تو شہزادی رائل اقابلہ یقینی طور پر اپنی تمام طاقت بدلہ لینے کے لیے وقف کر دےگی۔ اس وقت یہ ڈریگن تو پھر جھیل کی تہہ میں جاکر سوجائے گا اور سارا الزام مجھ پر آئے گا۔ نہیں نہیں میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ اتنی خوبصورت سی چھوٹی شہزادی کو یا فلورا اور مایا کو یہ خوفناک زہریلا ڈریگن کھاجائے۔ مجھے کچھ کرنا ہوگا، چاہے زندگی کی بازی ہی کیوں نہ لگانی پڑے۔ مجھے ان تینوں کو بچانا ہے۔ اور اگر یہ مر گئیں تو تم کونسا بچ جائو گے۔ کسی بھی وقت یہ ڈریگن تمہیں کھالے گا۔ کانپنے اور کونے میں چھپ کرمرنے سے بہتر ہے خطرہ مول لیا جائے۔ شاید اس سے بچنے کا امکان پیدا ہو جائے۔ ویسے بھی جب سے وہ اس دنیا میں آیا ہے خطرے ہی تو مول لیتا آیا ہے۔
فلورا نے حیرت سے علی روئی کی طرف دیکھا۔ اسے یہ توقع نہیں تھی کہ شمائلہ کابیان کردہ لالچی اور خوف زدہ انسان خوفناک زہر یلے ڈریگن کا سامنا کرتے ہوئے اتنا بہادر ہوسکتا ہے۔ اس نکتے کی بنیاد پر وہ اسے ایان سے بہت بہتر لگا۔
’’تم کمزور انسان سنکھیار کی مہربانی سے انکار کرنے کی ہمت کررہےہو!‘‘۔
زہریلے ڈریگن کی قاتلانہ آنکھیں للکار رہی تھیں۔ اس کے ہاتھ میں موجود لوہے کی سلاخ اچانک زنگ آلود ہوکر سبز دھوئیں کے بادل میں غائب ہو گئی۔
’’میں پہلے تمہیں کھاؤں گا، پھر تمہاری عورتوں کو!‘‘۔
’’رکو!‘‘۔
اس نے بڑی جرات اور دانشمندانہ لہجے میں کہا۔
علی روئی کے پاس شمائلہ اور لڑکیوں کے ساتھ اپنے تعلقات کی وضاحت کرنے کا وقت نہیں تھا۔ وہ زندگی اور موت کی کشمکش کے لمحے میں بالکل پرسکون ہوگیاتھا۔
’’تم پوائزن ڈریگن ہو۔ تمہیں اپنے زہر پر بڑا ناز ہے۔ ہے نا؟؟‘‘۔
ڈریگن بولا:
’’ہاں مجھ سے زیادہ زہریلا ڈریگن اور کوئی نہیں۔ میں تمام زہریلے ڈریگنوں کا ماسٹر ہوں ‘‘۔
علی روئی بولا:
’’توآؤ پھر ایک شرط لگاتے ہیں، تم نے اگر تم مجھے زہر سے شکست دے لی تو میں ہتھیار ڈال دوں گااور اگر تم ایسا نہیں کر سکےتو پھر ہم چاروں کو جانے دو گے‘‘۔
’’شرط؟‘‘۔
سنکھیار نے چونک کر علی روئی کی طرف دیکھا۔ علی روئی محسوس کر سکتا تھا کہ سپرسسٹم بوٹنگ کی پیشرفت جو شروع میں رک گئی تھی آہستہ آہستہ دوبارہ بڑھنے لگی، 82.6فیصد 83.1فیصد ہو گئی ہے۔ ڈریگن نے کہا:
’’ تمہاری چھوٹی سی جانیں ابھی تک میرے ہاتھ میں ہیں۔ میں ایسی بورنگ شرط نہیں کھیلنے جا رہا ‘‘۔
زہریلا ڈریگن چالاک تھا، دراصل بات کرتے ہوئے زہر چھوڑ رہا تھااور زہر کے بیکار ہونے کی تصدیق کرنے کے بعداس نے علی روئی کی تجویز مسترد کر دی۔
’’میں تم جیسے بے اختیار انسان ایک انگلی سے مسل سکتا ہوں‘‘۔
علی روئی نے چالاکی پر لعنت بھیجی اور فوراً موضوع کو بدل دیا۔ اس نے شمائلہ کی طرف اشارہ کیا جو فلورا کے پیچھے لیٹی ہوئی تھی، کہا:
’’یہ چھوٹی لڑکی تومانی سلطنت کی چھوٹی شہزادی شمائلہ لوسیفر ہے۔ اگرتم نے اسے تکلیف پہنچانے کی ہمت کی تو تمہیں پوری تومانی سلطنت کے غضب کا سامنا کرنا پڑے گا‘‘۔
لوسیفر فیملی؟؟، تومانی سلطنت ؟‘‘
سنکھیار نے طنزیہ قہقہہ لگایا۔
’’میری طاقت کو کیا سمجھتے ہو۔ اگر ساکیا لوسیفر ابھی تک زندہ ہے تو صرف وہی میری برابری کر سکتا ہے‘‘۔ ساکیا لوسیفر پچھلی دو نسلوں کی تومانی سلطنت کا عظیم شہنشاہ تھا۔ اس کی طاقت ظالمانہ تھی۔ وہ ڈیمنوں کے پروں کے طور پر جانا جاتا تھا۔
علی روئی نے جانچنا جاری رکھا:
’’مبالغہ آرائی نہ کرو۔ جب سےتم جاگ رہے ہوتواس جگہ ہزاروں سالوں سے ناکافی خوراک کے ساتھ کیوں سو رہے ہو؟۔ تمہارے جسم پر زنجیر جیسی علامتیں مہرہیں۔ میں نے سنا ہے کہ چار سو سال پہلے دیومالائی دائرے کے سب سے مضبوط ڈیمن مڈنائیٹ سن کے لارڈ نےتم پر تاریک چمک کے تالے کی مہر لگائی تھی‘‘۔
زہریلےڈریگن نے جھنجھوڑ کر کہا:
’’تاریک چمک کا تالا؟ ‘‘۔
علی روئی نے زہریلے ڈریگن کو ہچکچاتے ہوئے دیکھا اور ڈھٹائی سے کہا:
’’مجھے اندازہ لگانے دو، پوائزن ڈریگن اس وقت سیل کو دیکھ رہاہوں۔ مہر کو پڑھ رہا ہوں۔ مجھے معلوم ہو چکا ہے کہ تمہاری نقل و حرکت پر پابندی ہے۔ تمہاری طاقت کمزور کردی گئی ہے۔ اگر یہ خبر پھیل گئی کہ تمہاری طاقت پر مہر لگی ہوئی ہے تو مجھے یقین ہے کہ بہت سے لوگ ڈریگن واریر کے ٹائٹل کے لیے تمہارے ساتھ لڑنے آجائیں گے‘‘۔
سنکھیار کا لہجہ بدل گیا اور اس نے غصے سے کہا:
’’ذلیل انسان! سنکھیار کو دھمکی دینے کی جرأت کر رہے ہو! میں تمہیں زہر سے راکھ کا ڈھیر بنا دوں گا!‘‘۔
علی روئی نے دیکھا کہ سنکھیار شیر کی کھال میں ایک گدھا ہے۔ وہ آہستہ آہستہ بالکل پرسکون ہوتاگیااور بولا:
’’تمہیں پتہ ہونا چاہیے کہ میں تمہارے زہر سے نہیں ڈرتا‘‘۔
اس سے پہلے کہ علی روئی اسے عظیم حکیم سے ڈرانا شروع کرتا، سنکھیار اچانک انتہائی حیران نظر آیا اور کہنے لگا:
’’ تم نے کہا تم میرے جسم پر مہر لگی ہوئی دیکھ رہے ہو۔ یہ کیا علامت کسی زنجیر کی ہے؟‘‘۔
’’ہاں‘‘۔
علی روئی نے سنکھیار کے جسم پر ان علامتوں کی طرف اشارہ کیا جو مدھم روشنی کا اخراج کر رہی تھیں۔
’ ’کئی علامتیں ہیں، حرکت کرتی ہوئی، زنجیروں کی طرح دائروں میں ‘‘۔
سنکھیار غیر معمولی طور پر مشتعل ہو گیا:
’’یہ کیسی علامتیں ہیں ؟ ان کامطلب کیا ہے؟‘‘۔
علی روئی نے سر ہلا کر فلورا سے پوچھا:
’’فلورا! کیا یہ تاریک چمک کے تالے کا خاص متن ہے؟ میں اسے پڑھ نہیں پا رہا‘‘۔
’’کون سی علامتیں؟ میں انہیں نہیں دیکھ سکتی‘‘۔
فلورا نے الجھن میں پڑ کر آنکھیں پھیلائیں۔ اس کی آنکھوں میں سنکھیار کے جسم پر وہ کچھ نہیں تھا جو علی روئی نے کہا تھا۔
’’کیا تم دونوں ایسی واضح چیزیں نہیں دیکھ سکتے ہو ؟ ‘‘۔
علی روئی نےلوہے کی سلاخ سےکچھ علامتیں زمین پرنقل کیں۔ فلورا بولی:
’’کیا ایسی علامتیں ہیں؟۔ یہ تاریک چمک کا تالا تو نہیں ؟‘‘۔
یہ تو قدیم روئن ہے! یہ واقعی ایسی ہی چیز ہے ! ‘‘۔
سنکھیار نے جو ابھی تک مشکوک تھا اس نے علی روئی کی ڈرائنگ دیکھ کر اندازہ لگایا کہ یہ کوئی حیرت انگیز انسان ہے۔ دوسری طرف وہ جانتا تھا کہ قدیم روئنز! زہریلے ڈریگن پر ایک مہر ہےاور وہی سب سے طاقتور مہرہے۔ سنکھیار نے لوہے کی سلاخ اپنی مٹھی میں مضبوطی سے پکڑی، وہ بے چین سا ہو گیا۔ اس نے اپنے آپ سے کہا:
’’صرف وہی عورت قدیم روئنز کو سمجھتی ہے۔ مجھے ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا‘‘۔
علی روئی نے سنکھیار کو جذباتی طور پر غیر مستحکم ہوتے دیکھا، اس نے چپکے سے فلورا کو اشارہ کیا۔ فلورا کو احساس ہوا اور آہستہ آہستہ شمائلہ کے قریب پہنچی۔ وہ موقع سے فرار ہونا چاہتی تھی۔
مگر سنکھیار نے ایک دھمکی آمیز چمک جاری کی۔ بہت دور سےعلی روئی کے پاؤں ٹھنڈے ہو گئے۔ وہ خوفناک دباؤ برداشت نہ کر سکا اور زمین پر گر پڑامگر پھر اٹھ کھڑا ہوا۔ ڈریگن نے کہا:
’’تم نے سنکھیار کا راز دریافت کیا ہے، اور اب جانے کا سوچ رہے ہو؟ تمہیں تو آج ہی مرنا ہے‘‘۔
علی روئی نے جواباً کہا:
’’شہزادی رائل اور جنرل ایان دونوں جانتے ہیں کہ ہم آج نیلی جھیل پر آ ئے ہیں۔ اگر تم ہمیں ماروگے اور حالات کو مزید خراب کرو گے تو تمہارا انجام اچھا نہیں ہوگاحکیم پوائزن!۔ پوائزن کی طرح باقی طاقتیں بھی بے اثر ہوجائیں گی۔ تم ہم معاہدہ کیوں نہیں کرلیتے؟ تم ہمیں جانے دوگے وعدہ کرو تو ہم تمہاری مہر توڑنے میں تمہاری مدد کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں‘‘۔
سنکھیار حیران رہ گیا اور پوچھا:
’’آپ قدیم روئنز کی مہر کو توڑنے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟‘‘۔
قدیم روئنز کے بارے میں اپنی لاعلمی کی وجہ سےعلی روئی نے حکیم کے ساتھ چال چلنے کی ہمت نہیں کی۔ اس نے کچھ سوچا اور کہا:
’’شمائلہ تومانی سلطنت کی چھوٹی شہزادی ہے، ہم کسی ایسے شخص کی تلاش کر سکتے ہیں جو قدیم روئنز میں مہارت رکھتا ہو جوتاریک چمک کا تالاکھولنے میں تمہاری مدد کر سکے تاکہ صدیوں بعد تم اصل آزادی حاصل کر سکو‘‘
سنکھیار نے طنز یہ انداز میں کہا:
’’مجھے ڈر ہے کہ جومدد کو آئیں گے وہ ڈریگن سلئیر ہوں گے۔ تاریک چمک کے تالے کچھ بھی نہیں ہے۔ قدیم روئن اصل مہر ہے اور یہ تقریباً دو ہزار سال پہلے کھو چکی ہے۔ اس کے علاوہ یہ مہر ’’ایک عورت‘‘ نے لگائی تھی۔ مجھے ڈر ہے کہ سرپھری عورت کے علاوہ پورے دیومالائی دائرے میں کوئی بھی مہر نہیں توڑ سکتا‘‘۔
علی روئی بیوقوف نہیں تھا۔ اس نے پہلے ہی تصدیق کر دی تھی کہ یہ زہریلا ڈریگن اب لوگوں کو نہیں کھانا چاہتا لیکن وہ اسے مہر توڑنے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ ورنہ وہ اپنے پنجوں سے حملہ کر دیتا۔ علی روئی مزید پُر اعتماد ہو رہا تھا۔
’’ٹھیک ہے، پھر سرپھری عورت کو تلاش کرلیتے ہیں‘‘۔
سنکھیار کچھ دیر تک علی روئی کو غور سے دیکھتا رہااور پھر بولا:
’’مجھے یقین ہے کہ تم میری مدد نہیں کروگے؟‘‘۔
علی روئی نے سنجیدگی اور اعتماد سے کہا:
’’ہم ایک حکیم سرونٹ کا معاہدہ کرلیتے ہیں تاکہ دونوں ایک دوسرے کو دھوکہ نہ دے سکیں‘‘۔
اس دنیا میں معاہدہ ایک منفرد روحانی اصول تھا جس کے لیے دو رضاکارانہ جماعتوں کی ضرورت تھی۔ خلاف ورزی کرنے والے فریق کے خلاف کارروائی کی جائے گی اور سزائیں دی جائیں گی۔ ڈریگن نے کہا:
’’یہ یاد رکھو ! معاہدہ توڑنے کی سزا بہت سخت ہے۔ جو بندہ خیانت کرے گا تو فوراً مر جائے گا‘‘۔
علی روئی ہچکچایامگرسنکھیار کی طرف اعتماد سے دیکھتا ہوا بولا:
’’یہ ٹھیک ہے،مجھے قبول ہے۔ شاید تم نہیں جانتے دوسروں کو بچانا انسان کی فطری خوبی ہے۔ یہ برابر کی سطح کا معاہدہ ہوگا مگر میں تمہیں قید سے آزادی دلائوں گا اوراس کا صلہ بھی نہیں مانگوں گا‘‘۔
ڈریگن کو بات تھوڑی دیر کے بعد سمجھ آئی اور وہ غصے سے بولا:
’’میں مالک ہوں! تم غلام ہو! لعنتی آدمی! یہ مہربانی نہیں ہے، یہ ایک سودا ہے‘‘۔
معاہدے کے لیے باہمی مفادات کا ہونا ضروری ہے۔ علی روئی سکون سے مسکرایا:
’’چونکہ یہ ایک معاہدہ ہے اس لیے ہم دونوں کو مخلص ہونا چاہیے اور شرائط پر بات کرنی چاہیے۔ یعنی یہ دیکھنا ہوگا کہ میں تمہاری مدد کروں گا تو مجھے کیا ملے گا
چوتھا باب
موت کا معاہدہ
یادداشت میں پہلی چیز انڈے کا چھلکا بھی ہو سکتا ہے
سنکھیار نے انتہائی سرد لہجے میں کہا:
’’طاقتور لوگ احترام کے قابل ہوتے ہیں ان کی عزت کی جاتی ہے۔ میں نےتمہاری جان بخشی کی اور اسی قیمت پر تم میرے غلام بنے۔ یہ صرف اتنی سادہ سی بات ہے۔ بحث کے لیے کچھ نہیں ہے۔ ‘‘
علی روئی نے سکون سے سر ہلایا:
’’ہماری تقدیریں آپس میں جڑی ہوئی ہیں۔ اگر آپ نے ہمیں قتل کیا تو آپ اپنے آپ کو بھی مایوس کن صورتحال میں ڈال دیں گے۔ اس لیے ہمارے درمیان ڈیل اور تعاون کا مساوی رشتہ ہے۔ آقا اور نوکر کا فرق ناممکن ہے۔ یہ جیتنے یا ہارنے کی صورت میں طے ہوگا‘‘۔
سنکھیار نے ناپسندیدگی کے ساتھ کہا:
’’میں جو جانتا ہوں وہ یہ ہے کہ تمہاری زندگی میرے ہاتھ میں ہے۔ تمہیں موت سے بچانا میری مہربانی ہے۔ اگرتم پریشان کرتے رہے تو سنکھیار اب تم سب کو کھا جائے گا‘‘۔
علی روئی نے کچھ دیر سنکھیار کی طرف دیکھا اور اچانک اپنی آواز کو بلند کر دیا:
’’جینے کی کیا خوشی ہے؟ مرنے سے ڈرنے کی کیا بات ہے؟۔ چونکہ میں غلطی سے دیومالائی دائرےمیں گر گیا ہوں اس لئے پہلے سے ہی خطرے میں ہوں۔ میں ایک کمزور انسان سہی مگرایک سچا آدمی ہوں۔ میں اپنی زندگی کے واحد وقار کو کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ تمہیں تھوڑا بہت میرا اندازہ ہو چکا ہے۔ زہر پر ناز کرنے والے ! حقائق پہ غور کرو۔ سچائی کو سمجھو‘‘۔
فلورا کی آنکھیں اچانک چمک اٹھیں۔ مایوس کن لمحے میں کوئی دوسرے کی حقیقی خوبیوں کو دیکھ سکتا ہے۔ کمزور، دبلا پتلا انسان لگتا تھا کہ بڑا اور طاقتور ہو گیاہے۔ یہ سچی ہمت تھی۔ اس نے سوچااگر یہ ایلون فیملی کے ایان یا یوسف ہوتے تو ڈر جاتے اور ان کے پاؤں ٹھنڈے پڑ جاتے۔ وہ اسے ایک مختلف زاویے سے دیکھ رہی تھی۔ یہ انسان واضح طور پر غیر متزلزل لگ رہاتھا۔
علی روئی جانتا تھا کہ سنکھیار پھنس گیا ہے اور وہ اسے استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس نے جان بوجھ کر ایک پرسکون موقف اختیار کیا تھااورپانسا پلٹ دیا تھا۔ اس نے صورتحال کو اور واضح کرنے کی کوشش جاری رکھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ ڈریگن اتنی آسانی سےاپنی جان کو شرط کے طور پر لگانےکی ہمت نہیں کرے گا۔ علی روئی نے پھر ایک اور جملہ شامل کیا:
’’میں، علی روئی، اِس دنیا میں انسانوں کے وقار کی قسم کھاتا ہوں کہ واقعی زہریلے ڈریگن سنکھیار کی مہر توڑنے میں مدد کرنا چاہتا ہوں۔ اگر کوئی خلاف ورزی ہوئی تو میں بری طرح مر جاؤں گا اور میری روح غائب ہو جائے گی‘‘۔
اتنی بھاری قسم کی بات سن کر سنکھیار حیران رہ گیا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ پہلا جملہ پہلے ہی جھوٹ سے بھرا ہوا تھا۔ علی روئی اس دنیا کا انسان ہی نہیں تھا۔
’’ سنکھیار! میں مہر توڑنے میں تمہاری مدد کرنے کو تیار ہوں۔ لیکن میں بھی ہمیشہ زندہ رہنا چاہتا ہوں اور اس کےلئے تمہاری دوستی اور مدد کی امید رکھتا ہوں۔ اپنا خلوص ظاہر کرنے کے لیے میں تمہیں زہر کے خلاف اپنی مزاحمت کا راز بتا سکتا ہوں۔ اپنا سب سے بڑا راز۔ ‘‘
زہریلے ڈریگن نے ایک لمحے کے لیے علی روئی کی طرف دیکھا اورکہا:
’’اےانسان !تمہاری فصاحت تمہاری طاقت سے کہیں بہتر ہے۔ اگر تم مجھے اپنا خلوص دکھا سکتے ہیں تو سنکھیار تمہارے ساتھ مساوی معاہدے پر دستخط کرنے پر غور کر سکتا ہے‘‘۔
علی روئی کو اچانک بالکل کمتر پوزیشن سے برابر کی پوزیشن پر چھلانگ لگاتے ہوئے دیکھ کر فلورا کو لگا کہ کوئی معجزہ ہواہے۔ وہ ایک ڈریگن کا سامنا کر رہا تھا۔ اس مقابلے میں حکمت اور بہادری صرف ایک تعریفی اصطلاح تھی۔ یہاں معاملہ اس سے کہیں آ گے کا تھا۔ فلورا کے نزدیک موت یقینی تھی مگرعلی روئی نے اسے ٹال لیا تھا۔ علی روئی نہیں جانتا تھا کہ اس نے غیر ارادی طور پر فلورا کے دل میں ایک مضبوط امیج بنا لیا ہے۔
علی روئی کا ’’خلوص‘‘ عظیم آقا اور قدیم دور کی کہانی کو دہرانے کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ اس نے کچھ چھوٹی تفصیلات کو ایڈجسٹ کیاتھا۔ زہریلے ڈریگن کو حکیم الداس کے مقابلے میں واضح طور پر قائل کرنا خاصامشکل تھا۔ وہ خاموشی اختیار کر رہا تھا لیکن فلورا اس میں کھو چکی تھی۔ ڈریگن کا اعتماد جیتنے کے لیے علی روئی نے ایک نیا کھلونے کا سیٹ پیش کیا۔
عمودی اور افقی گرڈز کی تین قطاریں زمین پر کھینچ دیں، کل33 گرڈز۔ مرکز کے علاوہ ہر گرڈ پر ایک سوراخ بنا دیا گیا۔ پھر شطرنج کے ٹکڑوں کے طور پر ہرسوراخ پر ایک پتھر رکھ دیا۔ زہریلے ڈریگن نے حیرت سے اس چیز کودیکھا۔ اس نے اپنے ہزاروں سال کے تجربے میں ایسی چیز کبھی نہیں دیکھی تھی۔ علی روئی نے پیگ سولیٹیئر کے گیم پلے کی وضاحت کے لیے گرینڈ حکیم کی ایلکمی ڈیڈکشن ٹول کو کور کے طور پر استعمال کیا۔
کہا جاتا ہے کہ یہ کھیل ایک رئیس نے ایجاد کیا تھا جو انقلاب فرانس سے پہلے باسٹیل میں بند تھا اور جلد ہی مقبول ہو گیا۔ گیم پلے چیکرز کی طرح تھا۔ یہ ایک شخص نے کھیلا تھا۔ وہ ٹکڑا جس پر چھلانگ لگانی ہےہٹا دی جائے گی۔ جتنے کم قدم استعمال کیے جاتے ہیں اور جتنے کم پیسزرہتے ہیں اتنا بہتر ہے۔ باقی ٹکڑوں اور پوزیشن کے مطابق اسے 6لیولز میں تقسیم کیا گیا۔ اس میں علی روئی کا کس ٹم گریٹ حکیم لیول تھا۔
پیگ سولٹیئر ہوارونگ ڈاؤ اور روبک کیوب کو دانشورانہ کھیل کی دنیا میں تین ناقابل یقین معجزات سمجھا جاتا تھا۔ فلورا کو اس قسم کی اعصاب شکن چیزوں سے الجھن ہونی تھی لیکن ایک دھوکے باز زہر یلےڈریگن کے لیے یہ مختلف کھیل تھا۔ اگر یہ مساوی معاہدہ نہیں تھا لیکن ڈریگن اسے آزمانے کے لیے بے چین تھا۔ اس نے کہا:
’’میں آگے کیاکہنے جا رہا ہوں۔۔۔ میں نہیں چاہتا کہ اسے کوئی تیسرا شخص سنے۔ اےعورت! فرار جیسے احمقانہ کام کرنے کی کوشش نہ کرنا‘‘۔
زہریلے ڈریگن نے فلورا کی طرف دیکھا۔ علی روئی نے اپنی آنکھوں سے فلورا کو اشارہ کیا۔ فلورا نے سر ہلایا اوروہ شمائلہ اور مایا کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔
زہریلے ڈریگن نے سنجیدہ انداز میں علی روئی سےکہا:
’’میں زہر کا حکیم ڈریگن ہوں، سنکھیار مہیراچیلز، تم اپنا نام بتاؤ‘‘۔
سنکھیار نےاپنے پورے نام کے ساتھ اپنا تعارف کرایا یہ اس بات کی واضح دلیل تھی کہ اس کا رویہ بدل چکاہے۔ زہریلا ڈریگن بھی ایک مخمصے میں تھا۔ اس کے خیال کے مطابق نہ تو ان لوگوں کو مارا جا سکتا تھا اور نہ ہی رہا کیا جا سکتا تھا۔ دوسرا اس انسان کے پاس واقعی کوئی پراسرار اور طاقتور ورثہ موجود ہے۔ یہ یقینی طور پر مہر توڑنے کے قابل ہو سکتا ہے۔
’’میرا نام علی روئی ہے‘‘۔
علی روئی نے آخر کار سکون کا سانس لیا۔ تعلقات عامہ کا یہ مشکل کام بالآخر انہوں نے مکمل کر ہی لیا۔
’’علی روئی! تم نے کامیابی سے سنکھیار کا اعتماد جیت لیا ہے ‘‘۔
زہریلے ڈریگن نے کہا:
’’کچھ چیزیں ہیں جو میں تمہیں مساوی معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد ہی بتا سکتا ہوں۔ بہت کچھ سوچنے کے بعدمیں تمہارےساتھ ایک علامتی معاہدہ کرنا چاہتا ہوں۔ دوسرے لفظوں میں ہماری زندگیاں جڑی ہوں گی۔ اگر تم نے ایک دن میری دوستی اور بھروسہ چھوڑ دیا تو تم اپنی جان گنوا دو گے‘‘۔
ایک علامتی معاہدہ کی تجویز علی روئی کی توقع سے زیادہ تھی۔ اس نے جلدی سے سوچا اور سر ہلایا:
’’یہ طے شدہ بات ہے کہ میرے اندر ڈریگن چلبلٹر بننے کی کوئی خواہش نہیں ہے۔ چونکہ یہ مشترکہ زندگی کاایک معاہدہ ہے اس لیے میں تمہیں بتا دینا چاہتا ہوں کہ اگر مجھے کوئی حادثہ پیش آجائے یا میں بڑھاپے کے سبب مر جاؤں تو تم بھی مر جاؤ گے؟‘‘۔
ڈریگن نے کہا۔
’’ہاں سمبیوٹک معاہدے کی ایک اہم خصوصیت زندگی کا اشتراک ہے‘‘۔
سنکھیار نے اوروضاحت کرتے ہوئے کہا:
’’ڈریگنزمیں زرخیزی کی صلاحیت انتہائی کم ہوتی ہے لیکن زندگی کا دورانیہ بہت طویل ہوتا ہے۔ کچھ چند ملین سال تک پہنچ سکتے ہیں۔ میں اب چودہ ہزار سال کا ہوں۔ اس علامتی معاہدے پر دستخط کرنے کے بعدتم میری زندگی کے ساتھ جڑ جائوگے۔ تمہارے لیے وقتی طور پر بڑھاپے میں مرنے کا کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ تمہارے جسم کے بعض پہلوؤں سے بھی اس معاہدے سے ایک خاص فائدہ ہوگا‘‘۔
’’زندگی کا اشتراک ‘‘علی روئی ایک دم چونک گیا۔ چینی تاریخ میں بہت سے شہنشاہوں نے لافانی بننے کا پیچھا کیا لیکن کوئی کامیاب نہیں ہوا یہاں تک کہ دیومالائی دائرے کا شاہی خاندان کی عمر (بغیر کسی حادثے کے) عموماً ایک یا دو ہزار سال ہوتی ہے، عام ڈیمن کے پاس چند سو سال ہوتے ہیں۔ اس دنیا میں انسان کی عمر تو بہت ہی کم ہوتی ہے۔
’’اور حادثاتی موت ‘‘۔
سنکھیار نے سر ہلایااور کہا:
’’ہم میں سے کسی ایک کی حادثاتی موت ہوتی ہے تو دوسرے کی موت ناگزیر ہے۔ میں تمہیں سچ بتاؤں گا۔ میری طاقت کم ہو گئی ہے۔ میں صرف ایک شخص کے ساتھ معاہدہ کر سکتا ہوں۔ قدیم روئنز کے معاملے کو راز میں رکھنے کے لیے میں شروع میں تمہیں قتل کرنا چاہتا تھا اور اس عورت کو اپنی نوکرانی بنا ناچاہتا تھا۔ لیکن تمہاری حکمت بھری گفتگو اور تمہاری صلاحیتوں نے میرا ذہن بدل دیا ہے یا تم کہہ سکتے ہو کہ تمہاری چال کامیاب ہوئی ہے‘‘۔
علی روئی کو پسینہ آ گیا۔ معلوم ہوا کہ وہ واقعی موت کے کنارے پر تھا۔ زہریلے ڈریگن نے سب سے محفوظ راستہ اختیار کیا۔ دونوں کی زندگی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی تھی۔ مفادات اور خطرات ایک ساتھ رہیں گے۔ لہذاعلی روئی مہر کے معاملے کو کبھی نظر انداز نہیں کر سکتا تھا۔ زہریلے ڈیگن کو بہتر طور پر زندہ رہنے کو یقینی بنانا ہی اس کی لمبی عمر کی ضمانت تھا۔
’’صرف ایک یاددہانی،تم مجھ سے کہیں زیادہ خطرہ مول لے رہے ہو۔ ایک کمزور انسان کے طور پر مجھے دیومالائی دائرے میں بہت سے خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا‘‘
علی روئی نے ایک لمحے کے لیے سوچا اور کہا:
’’اگر تم ان کو پہلے سے جانتے ہواور ایک علامتی معاہدے پر دستخط کرنے پر اصرار کرتے ہو تو میں اتفاق کرتا ہوں‘‘۔
زہریلے ڈریگن نے سر ہلایا اور معنی خیز مسکراہٹ دی:
’’آئیے اپنے خدا جیسے عظیم آقا کی وراثتی طاقت پر عارضی طور پر یقین کریں‘‘۔
علی روئی بھی ہنس دیا۔ خیالی حقیقت نہیں ہوگی۔ ناولوں کی تفصیل جیسا ہونا ناممکن ہے۔ صرف مرکزی کردار ذہین ہے جبکہ باقی سب بےوقوف۔ جو شخص دوسروں کو بے وقوف سمجھتا ہے وہ سب سے بڑا احمق ہے۔ اگرچہ وہ نہیں جانتا تھا کہ سنکھیار پراسرار کہانی پر کتنا یقین رکھتا ہے لیکن یہ یقینی تھا کہ یہ طاقتور زہر یلاڈریگن اپنے نئے جنم کے بعد اس کاپہلا حقیقی اتحادی بن گیا تھا۔ معاہدہ پر دستخط کا احساس جادوئی تھا۔ یہ روحانی طور پر دوسرے فریق کے ساتھ معاہدہ کرنے جیسا تھا۔ یہ صرف اتنا تھا کہ معاہدہ خود بخود چلتے ہوئے کسی پراسرار ’’قانون’’ کی نگرانی میں ہوا تھا۔
علی روئی نے کامیابی سے علامتی معاہدے پر دستخط کر دیے تھے۔ وہ واضح طور پر خود میں ایک عجیب تبدیلی محسوس کررہا تھا۔ ایسا لگا کہ جیسے اس کی طاقت بہت بڑھ گئی ہے لیکن سنکھیار میں بھی کمزور ہونے کی کوئی نشانی نظر نہ آئی۔
’’علی روئی! اب ہم علامتی شراکت دار ہیں، بہن بھائیوں سے بھی زیادہ قریب‘‘۔
سنکھیار نے معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد کہا۔
وہ اب شائستہ نہیں رہاتھا، اس نے پوچھا:
’’مجھے پہلے یہ بات بتائو کہ یہ خوفناک عورت۔ یہ گریٹ ڈیمن تمہاری عورت ہے؟ یہ عورت تبدیل شدہ خون کی لکیر کے ساتھ ایک گریٹ ڈیمن ہے۔ یہ بہت بڑی صلاحیت ہے،مستقبل میں ڈیمن بادشاہ کے درجے تک پہنچ سکتی ہے۔
’’نہیں، ہم دوست تک نہیں ہیںلیکن میں اسے ناراض نہیں کر سکتا‘‘۔
علی روئی نے جواب دیا.
فلورا واقعی خوبصورتی کا ایک شہکار تھی۔ علی روئی نے اپنے دل میں جھانکا تو اس میں فلورا پوری طرح موجود تھی۔ زہریلے ڈریگن نے پھر معنی خیز مسکراہٹ دی:
’’پھر میرا مشورہ ہے کہ تم اسے اپنا بنا لو۔ عورت گریٹ ڈیمن ڈیمنوں میں سب سے زیادہ وفادار ڈیمن ہے۔ اگر تم اس کے جسم اور دماغ کو حاصل کر لو وہ ہمیشہ کے لیےتمہاری وفادار رہے گی۔ زندگی بھردھوکہ نہیں دے گی۔ جب تک تم مر نہیں جاتے وہ کسی دوسرے آدمی کی تلاش نہیں کرے گی اور اگر تم ایسا نہیں کرتے تو پھراس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ ہمارے راز راز رہیں گے لیکن اس نسل کی لڑکی کو منانا آسان نہیں ہوتا۔ یہ تمہارا کارنامہ ہوگا۔ ویسے مجھے لگ رہا ہے کہ خواتین کو پٹانے کا بہت ٹیلنٹ ہے تم میں ‘‘۔
’’تم مجھ سے کچھ زیادہ امید یں وابستہ کررہے ہو۔ اتنی توقعات۔ شاید مجھ میں ایسی صلاحیت نہیں ہے‘‘۔
سنکھیار مسکرایااور بولا:
’’میرے دوست!تم بھی اپنے فریب اور دیومالائیت میں کسی سے کم نہیں ہو۔ خود کو کمزورمت سمجھو۔ میں اسے اپنا راز افشا کرنے سے روکنے کے لیے ایک چھوٹی سی چال استعمال کروں گا۔ لیکن یہ چال زیادہ دیر نہیں چلے گی۔ تمہیں اس کے دل میں اترنے کا راستہ تلاش کرنا ہوگا۔ وہ تمہاری بقا کی اچھی ضمانت ہو سکتی ہے۔ اب تمہیں ہمیشہ یہ یاد رکھنا ہوگاکہ ہماری زندگیاں آپس میں جڑی ہوئی ہیں، میں بھی ہمیشہ اس بات کاخیال رکھوں گا‘‘۔
علی روئی نے جواباًصرف اتنا کہا:
’’فکر نہ کرو، اب ہم ایک ہی تار سے بندھے ہوئے دو ٹڈّی ہیں۔ میں اپنی پوری کوشش کروں گا‘‘۔
’’ٹڈی؟ کیا یہ قدیم زمانے کی ایک طاقتور مخلوق ہے؟ ‘‘۔
زہریلےڈریگن نے اپنے تجسس کا اظہار کیا، پھر اس نے فوراً کہا:
’’عورتوں کا مقابلہ کرنا یقیناً مشکل ہوتاہے۔ پھرقدیم روئنز میں ماہر ایک عورت جس سے میں نے دشمنی مول لی تھی ‘‘۔
سنکھیار طاقتور، چالاک اور بدنام تھا۔ خوفناک زہر کی وجہ سے وہ بڑے پیمانے پر تباہی پھیلا سکتا تھا۔ یہاں تک کہ کئی سلطنتوں نے اسے مشتعل کرنے کی کبھی ہمت نہیں کی تھی۔ ایک ڈریگن کے طور پر، زہریلے ڈریگن میں لامحالہ دولت جمع کرنے کے جنون تھا۔ دولت پر قبضہ کرنے کا لالچ اس میں بہت شدید تھا۔
خزانے کی جنگ میں، سنکھیار نے فیری ڈریگن،اسوہ کے ساتھ مل کر اپنے نیمیسز، بلیو ڈریگن، رانیری کو مار ڈالاتھااور رانیری کے اتحادی، کرسٹل ڈریگن جیکب کو زخمی کردیا تھا مگرخزانے کے لیے سنکھیار اپنے طاقتور لالچ کا مقابلہ نہیں کر سکا، اس نے مشترکہ تحقیق کے معاہدے کو عارضی طور پر نظر انداز کردیا اور دھوکے سے اسوہ کی پشت پر وار کرکے خزانہ چرا لیاتھا۔
غضب ناک اسوہ پاگل ہو کر زہریلے ڈریگن کا پیچھا کرنے لگی۔ اسوہ بہترین ڈریگنزمیں سے ایک تھی۔ یہاں تک کہ اس نے قدیم روئنز میں مہارت حاصل کی۔ چالاک سنکھیار جانتا تھا کہ وہ جیت نہیں سکتا۔ اسے ڈر تھا کہ اس کا خزانہ ضائع ہو جائے گا۔ اس لیے اس نے اسے قاف کی پہاڑیاں میں ایک خفیہ اڈے میں چھپا دیا۔ اس نے پریوں کے ڈریگن کو الجھانے کے لیے ایک اور غار میں متعدد جال بچھائے اور بھول بھلیوں کا ایک سلسلہ بنادیا کہ کوئی خزانے تک نہ پہنچ سکے۔
سنکھیار اسوہ کے تعاقب سے بچ گیا، لیکن اس کا ایک اور خطرناک آدمی کے ساتھ ٹکراؤ ہو گیا۔ زہریلے ڈریگن کی طاقت اوراس کا زہر اس انسان کے سامنے بچوں کے کھیل کی طرح تھا، اس لیے وہ جلد ہی محکوم ہو گیا۔ زہریلے ڈریگن کی حیرت کی بات یہ ہے کہ انسان کا مقصد اصل میں خزانہ تھا۔ سنکھیار بےوقوف نہیں تھا۔ اس نے ہتھیار ڈالنے کا ڈرامہ کیا تھا خزانہ حوالے کرنے کا وعدہ کیا اور آدمی کو اس کے ’’خفیہ’’ غار میں لے آیا۔ اس نے اندرونی غار کی زمین پر بکھرے ہوئے سونے کے سکوں اور جواہرات کے ساتھ ایک گڑبڑ تھی جس سے وہ ناکام ہو گیا۔ اسوہ کو چکرانے کی تدبیریں بھی کام آئیں وہ بھی ناکام رہی۔ جب وہ آدمی کچھ بھی حاصل کرنے میں ناکام رہا تو اس نے نیلی جھیل میں سنکھیار کو سیل کرنے کے لیے قدیم روئنز کا استعمال کیا۔ پھر چار سو سال پہلےجب تاریک سورج کا بادشاہ کے بے خبر لارڈ نے نیرنگ آباد پر حملہ کرنے کےلیے فوج کی قیادت کی، تو اس نے زہریلے ڈریگن کو جگانے سے روکنے کے لیے لاک آف لائٹ اینڈ ڈار ک کی مہر بھی لگادی تھی جس نے مجموعی صورت حال کو متاثر کیا۔ دونوں مہروں کے درمیان ایک عجیب سا ٹکرائوہوا جس کے سبب سنکھیار وقت سےپہلے جاگ پڑا۔ فی الحال، پوائزن ڈریگن پردو مہریں لگی ہوئی تھیں، تاریک چمک کے تالے کی اور دوسری قدیم روئنز کی۔ پہلی نے اسے نیلی جھیل کا علاقہ چھوڑنے کے قابل نہیں چھوڑا تھاا اور دوسری مہرنے زہریلے ڈریگن کی طاقت کو بہت زیادہ کم کردیا تھا۔
علی روئی یہ سن کر حیران رہ گیا کہ کوئی ایسابھی ہے جو زہریلے ڈریگن جیسے مضبوط فرد کو آسانی سے پکڑ کر مہر لگا سکتا ہے۔ زہریلا ڈریگن آہستہ آہستہ اپنی طاقت سے لاک آف لائٹ اینڈ ڈار ک کی مہر سے آزاد ہوسکتا تھا لیکن اب یہ ڈبل مہر تھی۔ قدیم روئنز کی مہر ختم کئے بغیر یہ ممکن نہیں تھا۔ صورتحال تشویشناک تھی۔ سنکھیار علی روئی سے یہ چاہتا تھاکہ سب سے پہلے، قاف کی پہاڑیاں کے خفیہ اڈے پر جائے اور لاک آف لائٹ اینڈ ڈار ک کو ختم کرنے کے لیے خزانہ تلاش کرے۔ دوسرا پری ڈریگن اسوہ کا ٹھکانہ تلاش کرے اور اس کے ساتھ مہر کو ختم کرنے کا معاہدہ کرے۔
سنکھیار اس بارے میں خاصا محتاط تھا۔
’’تم کو قاف کی پہاڑیاں میں دو چیزیں تلاش کرنی ہوں گی۔ پہلا ایک مٹھی کے سائز کا کرمسن کرسٹل ہے۔ اس کی شکل ایک آنکھ سے ملتی جلتی ہے جسے آئی آف سورون کہتے ہیں۔ اپنی دبی ہوئی طاقت کے ساتھ مجھے لاک آف لائٹ اینڈ ڈار ک سے چھٹکارا پانے کےلیے اس پر بھروسہ کرنا ہوگا اور اس لعنتی جھیل کو چھوڑنا ہوگا۔ دوسری چیز چاندی کا صندوق ہے جس میں وہ خزانہ ہے جو اسوہ سےچھیناگیا تھا۔ اس کے علاوہ کچھ اور بھی خزانے ہیں جنہیں تم استعمال کر سکتے ہو جو تمہیں دے سکتا ہوں۔ ‘‘
علی روئی نے دل ہی دل میں کرمس کرسٹل اور چاندی کے صندوق کو حفظ کیا اور پوائزن ڈریگن کی طرف دیکھتے ہوئے مسکرا کر کہا:
’’فکر نہ کرو بھیا۔ میرے پیارے زہریلے ڈریگن! میں تمہارا کوئی خزانہ نہیں لوں گا‘‘۔
’’نہیں لوں گا۔ ؟ میں شرط لگاتا ہوں کہ تم سب کچھ لینا چاہتے ہو! یہ مت سمجھو کہ میں تمہارے حرص اور فریب کو نہیں دیکھ سکتا۔ اب مجھے شک ہے کہ تم انسانی شکل میں ڈریگن ہو۔ پھر سنکھیار نے جھنجھلاہٹ سے کہا:
’’میں تمہیں خزانے کا 20فیصددے سکتا ہوں، لیکن زیادہ خوش نہ ہو۔ قاف کی پہاڑیاں میں داخل ہونا اتنا آسان نہیں ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ تم اس کے گردونواح تک پہنچنے سے پہلے ہی دیومالائی درندوں کی خوراک بن جاؤ گے۔ تمہیں جلد از جلد فلورا کو اپنا بنانا چاہیے اور اسے اپنے ساتھ وہاں لے کرجاناچاہیے۔ صرف یہی نہیں تمہیں ڈریگن نوشتے بھی سیکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ میں نے وہاں جو ان گنت نوشتہ جال قائم کیے ہیں وہ اتنے مضبوط ہیں کہ اگر بڑے سے بڑاڈریگن بھی اندر داخل ہو جائے تو اسے نہ صرف شدید نقصان ہوگا بلکہ جال کے اندر کے تمام خزانےبھی تباہ ہو جائیں گے‘‘۔
سنکھیار نے بار بار فلوراکے لیے علی روئی پر زور دیا۔ ڈریگن نوشتہ جات ڈریگن کی ایک منفرد مہارت تھی۔ یہ جادو کے دائرے کی طرح تھا لیکن ان کےلیے طاقت کی بھی ضرورت تھی۔ سنکھیار اس میں کافی ماہر تھا۔ علی روئی نے کہا:
’’زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ جب تم مجھے بتائو گے کہ جال کہاں کہاں ہیں اور کیسے ہیں پھر میں وہاں جاؤں گا‘‘۔
سنکھیار کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔
’’یہی ضروری ترین بات ہےکیونکہ میری یادداشت اتنی اچھی نہیں ہے۔ خاص طورپرمیں ابھی بیدار ہوا ہوں۔ مجھے بہت سی چیزیں واضح طور پر یاد نہیں ہیں بشمول قاف کی پہاڑیاں میں نوشتہ جال‘‘۔
علی روئی نے سن کر آنکھیں موند لیں اور سوچنے لگا۔
یادداشت خراب ہے۔ پھر بھی اتنے جال بچھا رکھے ہیں۔ کیاخود کو بھی تباہ کرنے کا پروگرام ہے۔
فلورا نے علی روئی کو دیکھا۔ سنکھیار نے سر ہلایا اور شدید بحث کی۔ چونکہ وہ کچھ سن نہیں سکتی تھی، اس نے اندازہ لگایا کہ قابل نفرت زہریلا ڈریگن بہادر انسان کو کچھ سخت شرائط قبول کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔
کافی دیر بعد سنکھیار اور علی روئی کے درمیان بحث ختم ہوئی۔
’’تمہیں 40فیصد ملے گا اور مجھے 60فیصد ملے گا‘‘۔
سنکھیار کے اس جملے کے کہنے کے بعد اس نے فوراً ساؤنڈ پروف غیر مرئی شلیڈ ہٹا دی اور جان بوجھ کر سخت لہجے میں کہا:
’’طے ہوگیا۔ میرے صبر کو مزیدنہ آزماؤ کرو!‘‘۔
فلورا فوراً ان کی طرف بھاگی۔ علی روئی نے چپکے سے اس زہریلے ڈریگن پر لعنت بھیجی کیونکہ وہ خزانہ یکساں طور پر تقسیم کرنا چاہتا تھا۔ سنکھیار نے اپنا ہاتھ ہلایا، فلورا میں موجود زہریلے مادوں کو واپس کھینچ لیااور طنز کیا:
’’قابلِ نفرت انسان!اگرچہ تم نے سنکھیار کو مساوی معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے دھوکہ دیا، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں تم پر مکمل بھروسہ کرتا ہوں، خاص طور پر ان خواتین ڈیمن پر۔ یہ 3خواتین میرے سب سے طاقتور سست زہر کے اثر میں ہیں۔ یہ زہر بے ذائقہ اور بو کے بغیر ہے، یہاں تک کہ سب سے شاندار دوائیوں کا حکیم بھی اس کا علاج نہیں کر سکتا۔ اب سے ہر7دن بعدتم کو ایک تریاق کے بدلے باربی کیو کے ساتھ اس جگہ پر واپس آئو گے ورنہ ان کا پورا جسم سڑ جائے گا اور ان کی ہڈیاں راکھ ہو جائیں گی‘‘۔
فلورا نے ڈریگن کے زہر سے عظیم تلوار کو آسانی سے تباہ ہوتے دیکھا تھا۔ وہ سچائی پر شک کرنے کی ہمت نہ کرسکی۔ وہ اور بھی خوفزدہ ہو گئی اور سوچنے لگی کہ یہاں تک تو ٹھیک ہے کہ صرف مایا اور میں آیا کریں لیکن شمائلہ تو تومانی سلطنت کی چھوٹی شہزادی ہے، وہ اس خوفناک خطرے سے کیسے دوچار ہو سکتی ہے؟۔
اس لمحے فلورا کو گہرا پچھتاوا محسوس ہوا کہ اسے شہزادی رائل کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کرنی چاہیےتھا اور شمائلہ کو نیلی جھیل تک نہیں لانا چاہیےتھا لیکن علی روئی کو احساس ہوگیا تھا کہ یہ سنکھیار کی عارضی چال ہے۔ سست زہر ایک بلف تھالیکن باربی کیو کو یقینی طور پر جان بوجھ کر شامل کیا گیا تھا۔ اس نے فوراً زہریلے ڈریگن کوحقارت آمیز نظرسے دیکھا اور، دانت پیس کر کہا:
’’میں وعدہ کرتا ہوں، مہر اٹھانے کے بعد زہر کا علاج کرنے میں تم فلورا اور دوسروں کی مدد کروگے‘‘۔
ڈریگن بولا:
’’میں ضمانت دیتا ہوں ڈریگن کے اعزاز کے ساتھ‘‘۔
سنکھیار نے فلورا کی طرف اشارہ کیا۔
’’تم نےاور میں نے برابری کے معاہدے پر دستخط کیے لیکن اس نے ایسا نہیں کیا۔ میں نے ان میں صرف اس لیے زہر ڈال دیاہے کہ یہ راز نہیں رکھ سکتی، اگر یہ سب باتیں راز میں نہ رکھی گئیں تو خطر ناک نتائج کی ذمہ دار یہ خود ہوں گی۔ اب جلدی سے نکلو۔ سنکھیار اس پیگز سولیٹیئر کے بارے میں مطالعہ کرنے جا رہا ہے‘‘۔
اس کے بعد اس نے علی روئی کو نظر انداز کیا اور حکیم کے شاہکار کے ساتھ بڑی دلچسپی سے کھیلنا شروع کردیا۔
علی روئی نے اپنی آنکھوں سے فلورا کے لافانی حسن پر دستخط کیے جس سے وصال کی تمنا ابھر رہی تھی اور کہا:
’’چلو یہاں سے نکلیں ‘‘۔
فلورا پریشان تھی، اور مکمل طور پر اپنا دماغ کھو چکی تھی۔ علی روئی کے اشارہ ملتے ہی اس نے فوری طور پر مایا اور شمائلہ کو اٹھایا۔ وہ تین سینگوں والے گینڈوں کے پاس گئی جو پہلے ہی ٹھیک ہو چکے تھے، لڑکیوں کو ان کی پیٹھ پر بٹھا دیا۔ تین سینگوں والے گینڈے بہت نرم مزاج تھے۔ تین سینگوں والالیڈر گینڈاجو فلورا کے کنٹرول میں تھاوہ آ گے آگے تھا۔ اس سے پہلے علی روئی نے خاص طور پر پوائزن ڈریگن سے درخواست کی تھی کہ وہ اس کی طرف اپنا سب سے مضبوط زہر چھوڑے۔ مگر سسٹم بوٹنگ کا عمل 90% تک پہنچنے کے بعد سپرسسٹم اسے مزید آگے نہیں بڑھا سکا تھا۔ یعنی زہر اپنی آخری حد کو پہنچ چکا تھا۔ علی روئی کی توقع پوری نہ ہوسکی۔ سپرسسٹم کےلیے زہر کوبوٹنگ انرجی کے طور پر تبدیل کرنے کی بھی شاید کوئی حد مقرر تھی۔
آج جن روئی شمرالفی فائدہ ہواتھا۔ اس نے ایک مضبوط ساتھی بھی بنا لیا تھا اور لمبی زندگی بھی حاصل کرلی تھی۔ سپرسسٹم کی بوٹنگ کی پیشرفت میں بھی زبردست اضافہ ہو ا تھا۔ اس نے سوچا اب اگر حکیم الداس کی لیب کے وسائل کا معقول استعمال کرلیتا ہے تو وہ ایک خودمختارحیثیت سے نئی زندگی شروع کرسکتا ہے۔ لیکن یہ طے ہے کہ فارماسیوٹکس کا مطالعہ کرنے کے لیے پرجوش حکیم کی پیروی ضروری ہے۔
’’فلورا!‘‘۔
علی روئی نے اپنے دل میں ایک جملہ ترتیب دیا اور کہا:
’’چھوٹی شہزادی اور کیا کو زہر کے بارے میں مت بتانا ایسا نہ ہو کہ وہ اسے برداشت نہ کر سکیں۔ نیز سنکھیار کی خبروں کو افشا نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ہماری زندگی اس کے ہاتھ میں ہے۔ تم یقین کر سکتی ہو کہ میں زہریلے ڈریگن کی مہر کو ہٹانے اور جلد از جلد اس زہر کےکنٹرول سے چھٹکارا حاصل کرنے کا راستہ تلاش کروں گا‘‘۔
فلورا ایسی نہیں تھی جسے ترجیحات کا کوئی احساس نہیں تھا۔ اس نے سر ہلایا اور کہا:
’’آج کےلیے تمہارا شکریہ۔ تم نہ ہوتے توشاید ہم واپس نہ آسکتے۔ میں پہلے کی اپنی بدتمیزیاں واپس لے لیتی ہوں۔ بے شک تم ایک بہادر انسان ہو‘‘۔
علی روئی فلورا کی تعریف پر حیران رہ گیا۔ وہ اس کی نظر میں نخریلی تھی۔ اس نے جنرل ایان کی طرف سیدھی نظر بھی نہیں ڈالی تھی۔ اس نے فلورا سے کہا:
’’زہریلےڈریگن نے ہمارے تعلقات کو غلط سمجھا۔ امید ہے تمہیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا‘‘۔
’’میں جانتی ہوں‘‘۔
فلورا نے دھیمی آواز میں جواب دیا۔
اس کا چہرہ قدرے سرخ ہو گیا۔ خوش قسمتی سے اس کی جلد مایا کی طرح پیلی نہیں تھی اس لیے فرق نہیں بتایا جا سکا۔ علی روئی نے سکون کا سانس لیا۔ سیاہ دل چھوٹی شہزادی کے مقابلے میں پرتشدد بیمبو سے نمٹنا یقینی طور پر آسان تھا۔ اگر یہ شمائلہ ہوتی تو اسے اتنی آسانی سے قائل نہ کیاجاسکتامگر لڑکی کوبھی پٹانا بہت مشکل تھا۔ علی روئی نے سوچا۔ کیا مجھے واقعی فلوراکو پٹانے کی ضرورت ہے۔ ڈریگن ٹھیک کہتا تھا۔
تین سینگوں والے گینڈے آہستہ آہستہ چل رہے تھے۔ یہ عجیب و غریب سواری تھی جس کا رواج نیرنگ آباد میں بہت زیادہ تھا۔ علی روئی اور فلورا دونوں کو اپنی فکر لاحق تھی لیکن ان میں سے کوئی بھی بات نہیں کرپا رہا تھا۔ ماحول عجیب سا تھا۔ عجیب و غریب ماحول کے سکوت کو توڑ تے ہوئے علی روئی نے سوال کیا:
’’فلورامیں انسان ہوں شاید اس لیے میں دیومالائی دائرے کے بارے میں کچھ نہیں جانتا، نیرنگ آباد کا ممبر ہونے کے ناطےمیں تومانی سلطنت کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں۔ کیا آپ مجھے بتا سکتی ہیں؟‘‘۔
یہ ایک عام تقاضا تھا اس لیے فلورا سوچے سمجھےبغیر اسے بتانے لگی۔
’’دیومالائی دائرے کے سات شاہی خاندان تھےجو ان گنت لڑائیوں کے خاتمے پراب صرف تین رہ گئے۔ ایک لوسیفر شاہی خاندان جس کی تومانی سلطنت پر حکومت ہے۔ میمن شاہی خاندان جس کی لہووانی سلطنت پر حکومت ہے اور تیسرا ایسموڈیس خاندان جس کی خاقانی سلطنت پر حکومت ہے۔ اپنی خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ ان تین خاندانوں نے دس ہزار سال سےاپنے وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ انسانی اور دیومالائی دائرے کا جادو ہر پانچ سو سال بعد کمزور ہو جانے والاتھا، اور یہی عرصہ ان دنیاؤں کے مابین جنگوں کا نقطہ آغاز تھا۔ تومانی سلطنت سلطنت کا تاریک سورج دیومالائی دائرے کا سب سے طاقت ور ڈیمن تھاجو تمام جماعتوں کے لئے محترم تھا۔ اس نے تقریباً300 سال قبل بنی نوع انسان کے ساتھ جنگ کے دوران دیومالائی اتحاد کے سپہ سالار کے طور پر خدمات انجام دیں۔ اس اکیلے نے تین طاقتور ترین انسانوں کو مار ڈالا۔ یوں ایک بار دیومالائی فوج کو زمین کی روشن دنیا میں واپسی کا راستہ دکھائی دیا تھا۔ پھر ایک انسان کے مضبوط ہاتھوں نے تاریک سورج کی پیٹھ کو ایسا زخمایا کہ دیومالائی فوج نے اپناسپہ سالار ہمیشہ کے لئے کھو دیا جس کے نتیجے میں نہ صرف ان کی فتح شکست میں بدل گئی بلکہ انہیں اُس دنیا سے بھی نکال پھینکا گیا۔
عظیم سپہ سالارآف تاریک سورج کا ولی عہد گریم ابھی دیومالائی حکومتی معاملات سنبھالنے کے لیے بہت چھوٹا تھا کہ دو دشمن مملکتیں لہووانی سلطنت اور خاقانی سلطنت کی نگاہیں تومانی سلطنت پر گڑ گئیں اور داخلی و خارجی ہر طرح کے مسائل کا شکار ہوگئی۔ وقت کی حساسیت کو جانچتےہوئے تاریک سورج کا چھوٹا بھائی اور گریم کا چچا شہزادہ شوالہ نے بطور نائب حکومتی امور کوسنبھال لیا۔ اگرچہ شہزادہ شوالہ کی طاقت اور فوجی طاقت آدھی رات کے سورج سے بہت کم تھی لیکن اس کی سیاسی بصیرت قابل ستائش تھی یوں اس نے اپنے بھائی کا وقار قائم رکھنے کے لیے دشمن سلطنتوں کے ساتھ امن کا معاہدہ کرلیا۔ شوالہ نے بیرونی سیاسی بحران پر قابو پاتے ہی سلطنت بھتیجے کے حوالے کرنے کی بجائے خود سنگھاسن پر برجمان ہو گیااور ہر اس مخالف کا سر کچل ڈالاجو بادشاہت کے خواب دیکھ رہا تھا، البتہ اسے لوسیفر خاندان کے چنیدہ گروہ ’سوارڈ آف تومانی سلطنت ‘ کی منظوری نہ ملی۔ تین فوجی جنرلوں سے بھی صرف ایک نے اس کی حمایت کی۔ لہذا شوالہ اپنے لیے نائب کا خطاب ہی رکھ سکتا تھا لیکن اس نے ہار نہ مانی اور ’سوارڈ آف تومانی سلطنت ‘ کو ضبط کر انے کے بعد گریم کوجلا وطن کرکے دور افتادہ نیرنگ آباد سلطنت میں بھیج دیا۔ ویران نیرنگ آباد سلطنت جہاںوسائل کا قحط تو تھا ہی، رہی سہی کسر چوروں اور خوفناک ڈاکوؤں نے نکال دی۔ یوں یہ سلطنت ہمیشہ پسماندہ رہی۔ عمر کے آخری حصے میں مصیبت زدہ گریم کا ساتھ اس کی بیٹیوں شہزادی اقابلہ اور شہزادی شمائلہ تک نے چھوڑ دیا اوروہ اپنی تمام تر اداسیوں اور ناکامیوں کو سمیٹے چل بسا۔ البتہ گریم نے تخت دوبارہ حاصل کرنے کی چنگاری شہزادی اقابلہ کے دل میں اوائل عمری میں ہی بھڑکا دی تھی جو اپنا کام کر گئی۔ اقابلہ نے سولہ سال کی عمر میں نیرنگ آباد میں تمام تر مسائل کے باوجود پورے عزم کے ساتھ کام کیا لیکن اقابلہ پُرعزم ارادوں کے باوجود نیرنگ آباد کے حالات نہ بدل سکی۔ دوسری طرف جنرل بوغائیفلوارا کا باپ اور نیرنگ آباد فوج کا پہلا جنرل ایک بار پھر گریم کی موت کے بعد شوالہ کی طرف متوجہ ہوا جو سلطنت کی شمالی سرحد پر بند قلعے کی حفاظت پر معمور تھا۔ تین سال پہلے فلورا اپنے باپ کی حوصلہ افزائی کی خاطر نیرنگ آباد آئی تھی تاکہ دوسروں کو یہ دکھا سکے کہ جنرل بوغا تخت کے جائز حق دار کے حمائتی تھے اور رہیں گے۔ برسوں شوالہ ’سوارڈ آف تومانی سلطنت ‘ کے ان اسرار کو سمجھنے کی کوشش کرتا رہا جو اقابلہ کو اس سلطنت کا پیدائشی حق دار سمجھتے تھے۔ ایک بار اگر اس گتھی کا کوئی سرا اس کے ہاتھ لگ جاتاتو پھراسے حقیقی بادشاہ ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا تھا۔ یہاں تک کہ جنرل بوغا کی قیادت میں حزب اختلاف تک وفاداری تسلیم کر چکی تھی۔ انتہائی کم سنی میں ہی نیرنگ آباد کی حمایت حاصل کرناآسان کام نہ تھابقول فلورا اقابلہ کی سرد مہری کی اصل وجہ حکومت کی بھاری بھرکم ذمہ داریاں ہیں۔
علی روئی کو نیرنگ آباد کی خستہ حالی کا احساس اس وقت ہوا جب اسے اچانک یاد آیا کہ شوالہ نے ’سوارڈ آف تومانی سلطنت ‘ پر اپنی تحقیق مکمل کر لی اور نیرنگ آباد کے خلاف جنگ شروع کر دی تو کوئی بھی زہریلے ڈریگن کی حفاظت کی ضمانت نہیں دے سکے گا۔ اگر یہ ہار گیا تو سنکھیار ممکنہ طور پر ڈریگن چلبلئر کےلیے فتح کا اعلان ہو گا یوں علی روئی خودبھی مر جائے گا۔ اس نے سوچا کم از کم اسےزہریلے اژدھے کی تاریک چمک کے تالے کو توڑنے میں مدد کرنی ہوگی اور پھر بسنے کے لیے ایک محفوظ جگہ تلاش کرنی ہوگی۔ فی الحال سپرسسٹم کی صلاحیت ابھی تک واضح نہیں تھی۔ لہذا وہ صرف فلورا کی طاقت کے بدلے اپنی جنسی کشش کی قربانی دے سکتا تھا۔ علی روئی نے اپنی تحقیقات کا آغاز کرتے ہوئے بات چھیڑی:
’’میں نے ایک بار حکیم الداس کو یہ کہتے ہوئے سنا تھا کہ شاہی خاندان میں خون کی خاص صلاحیت ہے۔ کیا آپ جانتی ہیں کہ لوسیفر شاہی خاندان میں ایسی کون سی صلاحیتیں ہیں ؟‘‘۔
فلورا نے جواب دیا:
’’میں نے ایک بار اپنے والد سے سنا تھا کہ شاہی خاندان کی بیداری کی سطح جتنی زیادہ ہوگی اتنی ہی طاقتور صلاحیتوں کا استعمال کر سکتے ہیں۔ لوسیفر خاندان کا سب سے طاقتور ہنر <ہارٹ آف لائٹ اینڈ ڈارک >ہے جو کسی کی بھی طاقت کو کھا سکتا ہے، یہاں تک کہ انسان کی روشنی کی طاقت بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ یہاں ڈارک شعلہ اور مقدس پروں والابھی ہے۔ گئے دنوں میںتاریک سورج کی طاقت کا انحصاران تین طاقتوں پر تھا یہاں تک کہ اس کے سامنے دیومالائی دائرے کاسب سے طاقتور ڈیمن لہووانی سلطنت کا رائزن دی گریٹ تک اس کے سامنے شکست تسلیم کر سکتا تھا۔
جب فلورا نے تاریک سورج کے بارے بات شروع کی تو اس کا چہرہ عقیدت سے چمک اٹھا۔ علی روئی نے سوچا کہ یہ لڑکی واقعی تشدد پسند ہے صد شکر کہ اس نے سنکھیار کامشورہ نہیں مانا تھا ورنہ وہ فلورا کےمزاج سے کبھی مطابقت نہ پیدا کر سکتا۔ اُس نے دوبارہ اُسیتسلی کے ساتھ تحقیق کی، اس کے علاوہ کیا اور بھی ہنر ہیں جیسے… <مائنڈ ریڈنگ >‘‘۔
’’مائنڈ ریڈنگ ؟۔ فلورا نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے مضبوطی سے اپنا سر ہلایا:
’’ناممکن۔ لوسیفر خاندان کے پاس صرف تین خون کی صلاحیتیں ہیں جیسا کہ دیومالائی دائرے میں سب جانتے ہیں‘‘۔
علی روئی سمجھ گیا۔ شمائلہ نے اسے چکما دیا ہےلیکن اس نےشمائلہ کو بے نقاب کرنا مناسب نہ سمجھا۔ اس نے سوچا یہ ننھی شہزادی کے شریر خیالات ہیں جو وقت کے ساتھ خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے۔
’’فلورا! میرے سوالات شاہی خاندان کے قوانین کی خلاف ورزی کر رہے ہیں۔ براہ کرم انہیں راز میں رکھیے گا‘‘۔
’’خاص طور پر ننھی شہزادی سےکوئی مسئلہ نہیں! میں کبھی نہیں بتاؤں گی‘‘۔
فلورا علی روئی سے بات کر کے کچھ مطمئن سی ہوگئی عادتاً اس نے اپنے سینے کو تھپتھپایا۔ اس کی چھاتیوں میں ہونے والی ہلچل نے علی روئی کواپنی جانب متوجہ کیا۔ اس کی اپنی چھاتی میں ستار بج اٹھے۔
دونوں باتیں کرتے رہے۔ علی روئی نے فلورا سے بہت سی مفید معلومات حاصل کیں۔ آسیبوں کی طاقت کی درجہ بندی صعودی ترتیب میں تھی۔ کم درجہ کا ڈیمن درمیانی درجے کا ڈیمن، اعلیٰ درجے کا ڈیمن، ڈیمن بادشاہ، گریٹ ڈیمن بادشاہ، ڈیمن شہنشاہ، ڈیمن غالب اور ڈیمن سپریمو۔ ہر درجہ ایک واٹرشیڈ کے برابر تھا۔ نہ صرف طاقت میں بہت بڑا فرق تھا بلکہ ایک خاص درجہ کا دبائو بھی تھا۔ مثال کے طور پر ایک درمیانی درجے کا ڈیمن جس کا سامنااگر ایک اعلیٰ درجے کے ڈیمن سے ہو تووہ شاید ہی اپنی پوری صلاحیت سے لڑ سکے۔ اگرچہ ایک ہی عہدے کے درمیان درجہ بندی نہیں تھی پھر بھی طاقت میں اختلافات موجود تھے۔ مثال کے طور پر ایک تجربہ کار اعلیٰ درجے کا ڈیمن جو عروج پر پہنچ جائے تو کم از کم10 اعلیٰ درجے کے ڈیمنوں کو شکست دے سکتا ہے۔
ڈیمن سپریمو لیجنڈ میں سب سے اونچا درجہ تھا۔ افواہوں کا کہنا تھا کہ اس کی طاقت دیوتاؤں کو خوفزدہ کر سکتی ہے لیکن کسی نے کبھی کسی ڈیمن کے بارے میں نہیں سنا تھا جو ڈیمن سپریمو بن گیا ہو۔ تین سو سال پہلے تاریک سورج انتہائی باصلاحیت ڈیمن تھا۔ اُس نے ڈیمنوں کے بلند ترین سردار کی تربیت حاصل کی تھی۔ وہ بھی سپریمو سے ایک قدم دور تھا لیکن بدقسمتی سےبنی نوع انسان کے ہاتھوں مارا گیا۔
آج لہووانی سلطنت کی رائزن دی گریٹ اور خاقانی سلطنت کی پرام دی گریٹ دونوں ہی تجربہ کار ڈیمنوں کے حاکم تھے جن کے متعدطاقت ور ماتحت تھے اس کے باوجوکوئی بھی تاریک سورج کے مقابلے میں نہیں آسکتا تھا یہاں تک کہ تومانی سلطنت کا سب سے طاقت ور شہزادہ شوالہ جو ایک سلطنت کا حاکم تھا پھر بھی اس سے کم تر ہی تھا سوارڈ آف تومانی سلطنت کی طاقت حاصل کرنے کے بعدوہ اس قابل ہوسکتا تھا۔ فلورا جو خود ایک گریٹ ڈیمن خاندان کی رکن تھی اور اسےتلواربازی میں خاص مہارت حاصل تھی، صرف انیس سال کی عمر میں وہ درمیانی درجے کے ڈیمن کا عروج حاصل کر چکی تھی اور اونچے درجے سے بالشت بھر دور تھی۔ دوسرے ڈیمنوں کے لیے وہ ایک مثال تھی لیکن کوئی بھی نچلے درجے کا امپ محض تربیت اور محنت کی بنیاد پر اگلے درجے کو نہیں پہنچ سکتا ماسوائے کسی انہونی کے۔ زہریلے ڈریگن کے سامنے علی روئی کی کارکردگی نے فلورا کو اپنے خیالات بدلنے پر مجبور کر دیا تھا پھر یوں دونوں کے درمیان خوش گپیوں کاسلسلہ چل نکلا۔ اس نے سوچا ایک کمزور انسان ہونے کے باوجود اس کی ہمت اور حکمت قابل داد ہے،اب وہ ویسا انسان نہیں رہا جو اسے حقیر دکھائی دیتا تھا۔
’’فلورا!‘‘۔
شمائلہ کی خفیف آواز نے دونوں کی گفتگو میں مخل انداز ہوئی۔
’’شمائلہ!‘‘۔
فلورا نے حیرانی سے کہا:
’’تم جاگ رہی ہو؟‘‘۔
’’ہم کہاں ہیں؟‘‘۔
شمائلہ نے اپنی دھندلی آنکھیں رگڑتے ہوئے کہا:
’’ابھی کہانی ختم نہیں ہوئی؟‘‘۔
’’لو!، کب کی ختم ہو چکی اور تم سنتے سنتے سو گئیں اورمیں تم دونوں کو تین سینگوں والے گینڈے کے پاس لے لائی ہوں، ہم نیرنگ آباد کی طرف واپس جا رہے ہیں‘‘۔
شمائلہ نے کچھ دیر یاد کرنے کی کوشش کی پھر کہنے لگی:
’’کیا واقعی ایسا ہی ہوا ہے؟‘‘۔
پھر وہ آگے بڑھی اور علی روئی سے کہنے لگی:
’’شہزادی ہونے کے ناطےمیں تمہیں حکم دیتی ہوں کہ مجھے ہر روز نئی کہانی سنایا کرو۔ بار بی کیو کے ساتھ‘‘۔
علی روئی نے ہڑبڑا کر کہا کہ وہ مزید کہانیوں کے متعلق نہیں سوچ سکتا۔ دراصل وہ سنو وائٹ کے کردار کے ساتھ ہونے والے بہیمانہ سلوک کے بعد کسی اور کردار کو اذیت نہیں دینا چاہتا تھا۔
فلورا نے علی روئی کو مخاطب کر تے ہوئے اس کا نام لے کرکہا کہ کہانیوں کی بجائے وہ کوئی پہیلی سنائے تو شمائلہ کو کچھ تشویش ہوئی۔ وہ بولی:
’’کیوں آپ کو کہانی پسند نہیں آئی فلورا؟۔ آپ کو تو کہانیاں پسند ہیں اور آپ نے اسے نام لے کر پکارا ہے؟، آپ تو کبھی اس کا نام نہیں لیتی تھیں‘‘۔
شمائلہ کی حساسیت سے علی روئی کے اندر سرد لہر دوڑ گئی۔ کچھ فلوراکی لاپروائی کا بھی قصور تھا، ایک دم شمائلہ نے سوال کیا:
’’فلورا آپ کی تلوار کہاں ہے؟‘‘۔
فلورا نے بےچارگی سے دیکھا اور کہنے لگی:
’’میں نے ایک وائیورن کو اڑتے ہوئے دیکھا تو اسے تلوار سے ڈرانے لگی اور تلوار میرے ہاتھ سے چھوٹ کر پانی میں جا گری۔
اگرچہ فلورا نے سچ نہیں کہا تھا لیکن اس کی بیچارگی جھوٹی نہ تھی، شمائلہ کو یقین آگیا اور وہ علی روئی کو معنی خیز نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھنے لگی:
’’مجھے یاد نہیں آرہا میں سو کیسے گئی، کیا مجھے زہر دیا گیا تھا؟؟‘‘۔
یہ سنتے ہی علی روئی کو ٹھنڈا پسینہ آگیا۔ اس نے اپنی گھبراہٹ چھپانےکے لیےپانی کی بوتل منہ سے لگا لی۔ اگر اسے ڈریگن کے طاقت ور زہر پر اعتماد نہ ہوتا تو یہ گمان کرتا کہ شمائلہ شاید سوئی ہی نہیں تھی۔ اچانک شمائلہ غصے سے چیختے کے انداز میں کہنے لگی:
’’علی روئی! میری خوب صورتی دیکھ کر تم بد حواس ہوگئے، پھر تم نے باربی کیو میں زہر گھول کر مجھے کھلا دیا۔فلوارا چونکہ تمہارے ناپاک ارادوں کو بھانپ چکی تھی تو تم نے اسےلوسیفر خاندان کی عزت کے نام پر دھمکا کر خاموش کرا دیانا۔
یہ سن کر پانی پیتے ہوئے علی روئی کو کھانسی آگئی اگرچہ اس استدلال میں کوئی سچائی نہ تھی لیکن اس کی کہانی گھڑ لینے کی خوبی حیرت انگیز تھی۔ فلورا بھی شمائلہ کے جنونی تخیل سے دنگ رہے بغیر نہ رہ سکی جو اس کی ان صلاحیتوں سے واقف بھی تھی۔ بالآخر علی روئی کھانسی پر قابو پاتے ہوئے کچھ بولنے ہی والاتھا کہ اس کی نظر شمائلہ پر پڑی جو بے حد اداسی لیے پیٹ چھو رہی تھی اور بڑبڑا رہی تھی۔ ’’اوہ میرے خدا!۔ تو کیا میں ایک انسانی بچہ جننے والی ہوں؟ ‘‘۔
علی روئی کے پاس شمائلہ کی خام خیالوں کا کوئی جواب نہ تھا پھر اس کے چبھتے ہوئے جملوں نے اس کو اندر لہو لہان کر دیا تھا۔ فلورا پہلے ہی مایا کو لے کر جا چکی تھی۔ شمائلہ نے خود پر رحم کرتے ہوئے کہا:
’’جب بچہ بڑا ہوگا اور پوچھے گاکہ باپ کون ہے، تو میں کیا جواب دوں گی؟‘‘۔
پانچواں باب
یخ بستہ اقابلہ
زہر ہی زہر کا تریاق ہوتا ہے
مایا جیسے ہی بیدار ہوئی۔ وہ چاروں سینگوں والے گینڈوں پر سوار نیرنگ آباد کی طرف روانہ ہوگئے۔ شمائلہ کی جملہ بازی نے علی روئی کو نڈھال کر دیا تھا۔ وہ خود فاتحانہ اطمینان کے ساتھ ساتویں آسمان پر تھی۔
شہر کے دروازے پر پہنچنے پر شیرف جنرل ایان نے ان چاروں کو دوبارہ روک لیا کیونکہ شہزادی اقابلہ علی روئی کو بلالیا تھا۔ اسےفوری طور پرمحل کے کونسل ہال میں پہنچا دیا گیا۔ جب ڈیمن جنرل نے حکم سنایا تو اس کی آنکھوں میں حسد تھا۔ یہ معمولی انسان جو ایک قیدی بھی ہے، کیسے قسمت کا ایسا دھنی ہو گیا کہ پہلے حکیم الداس نے اسے اپنی شاگردی میں لے لیا اور اب شہزادی اقابلہ نے اسے ذاتی طور پر طلب کیا ہے۔ علی روئی کوفلورا سے معلوم ہو چکا تھا کہ شہزادی اقابلہ ایک پرعزم اور بے رحم حکمران ہے، سو تاریک سورج جیسے طور اطوار رکھتی ہے۔ نیرنگ آباد میں ہر کوئی اس کی بہت عزت کرتا ہے۔ وہ جانتا تھا کہ ایک بار جب یہ خبر پھیل گئی کہ حکیم الداس نےایک انسان کو اپنی شاگردی میں قبول کر لیا ہے تو یہ شہزادی جس کے مزاج میںتاریک سورج کی جھلک دیکھی جا سکتی تھی ضرور اس کے بارے میں جاننا چاہے گی مگر یہ سب اتنی جلدی ہوگا اس کی اسے ہرگز امید نہ تھی۔ اسی لیےوہ کچھ پریشان تھا۔
محل کے دروازے میں داخل ہوتے ہی شمائلہ نے اسے سخت تنبیہہ کی کہ ان کے درمیان ہونے والی باتوں کی بھنک اس کی بہن کے کانوں میں نہ پڑے ورنہ اسے کاٹ کے رکھ دوں گی۔ اگرچہ اس نے دھمکی بارعب انداز میں دی تھی لیکن علی روئی سمجھ گیا کہ اندر ہی اندر وہ ڈری ہوئی ہے۔ اب فلورا کی بات اسے سچ لگ رہی تھی۔ شمائلہ کے پاس کوئی ایسی طاقت باکل نہیں کہ وہ ذہنی کیفیات کو پڑھ لے۔ علی روئی نےکان کھجلاتے ہوئے جان بوجھ کر سرگوشی کے انداز میں کہا:
’’تواب میں اس بچے سے بری الذمہ ہوں جو آپ کے پیٹ میں ہے؟‘‘۔
’’تم نے یہ کہنے کی جرأت بھی کیسے کی‘‘۔
ننھی شہزادی نے قاتلانہ نگاہ ڈالی۔
’’کیا سٹھیا گئے ہو؟‘‘۔ فلورا کی موجودگی میں تم ایسا سوچتے بھی تو تمہارے ہاتھ ناکارہ ہو چکے ہوتے اب تک‘‘۔
علی روئی نےمصنوعی حیرت کے انداز میں کہا:
’’واقعی؟، میں تو پورے راستے اس خوف میں مبتلا رہا۔ ننھی شہزادی! آپ کی اداکاری واقعی قابلِ داد ہے‘‘۔
’’اداکاری؟‘‘۔
شمائلہ نے تشویش سے پوچھا:
’’ کیا مطلب؟‘‘۔
’’آپ ہرگز فکر مند نہ ہوں۔ شہزادی اقابلہ مجھ پر مظالم کےپہاڑ توڑ دیں، دھمکیاں دیں یا کیسا بھی لالچ دیں، میں زبان نہیں کھولوں گا۔ اگر آپ کو مجھ پر اعتبار نہیں تو آپ میرے خیال کا جائزہ تو لے ہی سکتی ہیں‘‘۔
علی روئی نے فلورا کی طرح اپنا سینہ تھپتھپایا۔ بدقسمتی سے اس کے سینے کے پٹھوں کی نشوونما اُس پُر تشدد لڑکی کے مقابلے میں بہت کم تھی۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس نے کتنی ہی زور سے تھپکی دی۔ اس پر کوئی منحنی خطوط نہیں تھے۔ شہزادی اس بات سے بے خبر کہ اس کا جھوٹ بے نقاب ہو چکا ہے، علی روئی کے کندھے پر تھپکی دینے لگی جیسے سپاہی کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔
’’ہاں ٹھیک ہے‘‘۔
اس کے ساتھ ہی اس نے مزید بریزل کی فرمائش کی جسے علی روئی نے سہولت سے نظرانداز کر دیا۔ وہ کونسل ہال کے سامنے تھے، ایک سرد مہر گریٹ ڈیمن شمائلہ کے سامنے تعظیماً جھکا اور کہا:
’’ننھی شہزادی ! آپ کچھ دیر یہاں ٹھہریں، شہزادی اقابلہ پہلے اس انسان سے ملنا چاہتی ہیں‘‘۔
بےحد متانت کے ساتھ شمائلہ نے اس سرد مہر امپیریل گارڈ کے سربراہ،ڈیمن کارگورون کو شکریہ کہا اور بیٹھ گئی۔ اس کے بعد کارگورون اسی سردمہری کے ساتھ علی روئی کو اپنے ساتھ لے کر چل دیا۔
علی روئی کاگورون کے پیچھے کونسل ہال میں گیا۔ کونسل ہال کشادہ ہونے کےباوجود بالکل سادہ تھا۔ مرکز میں سیڑھیوں کے اوپر ایک نوجوان عورت کھڑی تھی جس کے سر پر تاج رکھا تھا۔ وہ شہزادی اقابلہ تھی، اقابلہ نیرنگ آباد کی سب سے خوبصورت عورت۔ اس پر نگاہ پڑتے ہی علی روئی مبہوت ہو گیا۔ حسنِ کامل اس کے سامنے تھا جسے دیکھ کر کسی کا بھی یہی پہلا ردِ عمل ہو سکتا تھا۔ اس حسنِ بے عیب میں بس ایک نقص تھا اور وہ تھا شہزادی اقابلہ کی سرد مزاجی، نیلم جیسی آنکھوں میں ایک دھندلاہٹ تھی، سرد دھندلاہٹ۔
کسی ہچکچاہٹ کے ایک سائبر کیفے میں آ گیا کہ مایا اوٹاکو شاہی بہن کو پسند کرتا ہے یا چھوٹی شہزادی کے حق میں ووٹ دے گا، اس نے شاہی بہن کا انتخاب کیا، اور ’مائٹی رائل سسٹر‘ کا تبصرہ بھی شامل کیا۔ ظاہر ہے وہ شاہی بہنوں میں دیوی تھی دیویوں میں شاہی بہن۔ برفیلی بہار کی شاہی بہن۔
شہزادی اقابلہ انسان کی غیرحاضر دماغی دیکھ کر الجھ گئی۔ حکیم الداس جو ایک کونے میں موجود سارا ماجرا دیکھ رہا تھا کھانسا تو علی روئی کا خواب ٹوٹا۔ اس سے پہلے کہ وہ کسی مشکل میں جا پھنسے، اس نے اپنی حالت درست کی۔ اقابلہ کے چاروں اطراف مضبوط ڈیمن کے گارڈ موجود تھے۔ کاگورون نے جھک کر سلامی پیش کی اور اقابلہ سے مخاطب ہوا :
’’شہزادی حضورکی خدمت میں انسان حاضر ہے‘‘۔
’’ کاگورون!ہال کے سبھی دروازے بند کر دیے جائیں اور پہرے داروں کو کہاجائے کہ اندر کوئی داخل نہ ہونے پائے چاہے وہ شمائلہ ہی کیوں نہ ہو‘‘۔
کاگورون جھک گیا اورالٹے قدم پیچھے کی طرف ہو لیا۔
اقابلہ کی نظر علی روئی پر پڑی۔
’’انسان! تیرا نام؟‘‘۔
علی روئی نے گاگورون کی طرح جھکنے کی کوشش کی اور کہا:
’’شہزادی حضور! میرا نام علی روئی‘‘۔
اقابلہ نے سرد لہجے میں پوچھا:
’’یہ تمہارا پہلا نام ہےیا آخری نام؟؟‘‘
علی روئی نے فوراً وضاحت کی کہ علی روئی ایک مکمل نام ہے، بغیر کسی کنیت کےکیونکہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اسے روئی کہہ کر پکارا جائے جیسا کہ وہاں کا دستور تھا۔ ایک نام ہی تو اس کی گزشتہ زندگی کی پریشانی تھی جو ابھی باقی تھی۔
اقابلہ نے اس کی وضاحت بے توجہی سے سنی اور غصے سے بولی:
’’پھر آرتھرکیا ہوا؟‘‘۔
علی روئی فوراً سنبھل گیا۔ سنکھیار کے واقعہ نے اس کا اعتماد بحال کر دیاتھا۔ اس نے کہا:
’’ معاملہ یہ ہے ملکۂ عالیہ! دیومالائی دائرے میں گرنے کے بعد میں نے کچھ یادیں کھو دیں۔ مجھے صرف اتنا یاد ہےکہ مجھے آرتھر کہا جاتا تھا۔ جہاں تک کنیت تعلق ہےتو مجھے یاد نہیں۔ اب میں واپس تو نہیں جا سکتالیکن حکیم الداس کا شکر گزار ہوں جنہوں نے اس دنیا میں شناخت دی۔ میں اب اسی دنیا میں ایک نئی زندگی کا آغاز کرنا چاہتا ہوں۔ ملکۂ عالیہ! آپ براہ کرم منظوری دیں‘‘۔
یوں حکیم الداس کو اپنا محسن بنا کر اور نیرنگ آباد سے وفاداری ثابت کرکے اس نے ایک تیر سے دو شکار کیے۔ یہی واحدذریعہ تھا جس سے وہ اپنے نام کا مسئلہ حل کر سکتا تھا۔ البتہ آرتھر کی نامکمل یاداشت کا مسئلہ اس نے بھولنے کی بیماری کا عذر قرار دے کر سلجھا دیا تھا۔
’’طاؤس!تمہارا کیا خیال ہے‘‘۔
اقابلہ ایک سفید بالوں والے بزرگ کی طرف متوجہ ہوئی۔
بوڑھے آدمی، طاؤس نے آہستہ سے سر ہلایا:
’’جب اس انسان کو پکڑا گیا تو میں بھی پوچھ گچھ میں شامل تھا۔ میں نے محسوس کیاتھا کہ اسے بھولنے کی بیماری ہے۔ یہ صرف اتنا کہہ سکتا تھا کہ اس کا نام آرتھرہے۔ اس وقت اس کا جسم کسی دھمکی سے خوف زدہ ہونے کے قابل بھی نہ تھا‘‘۔
کسی بھی شخص کو لاغر یاکمزور کہا جائے تو اسے برا ہی لگے گا لیکن اس وقت علی روئی کے بچاؤ کی یہی ایک صورت تھی کہ اسے وہ لوگ لاغر اور کمزور ہی سمجھیں۔ اقابلہ نے قدرے احترام سے سر ہلایا اورعلی روئی سے کہا:
’’میں نے حکیم الداس سے کچھ دلچسپ کہانیاں سنی ہیں، لیکن دوبارہ نہیں سننا چاہتی۔ میں صرف ایک بار پوچھ رہی ہوں۔ کیا واقعی تمہیں قدیم عظیم الشان حکیم کی وراثت ملی ہے؟ جھوٹ بولنے کی کوشش بھی نہ کرنا۔ اس کا انجام اتنا بھیانک ہوگا کہ تم سوچ بھی نہیں سکتے‘‘۔
علی روئی کو آخر کار سمجھ میں آگیاکہ اقابلہ نے اسے اتنی جلدی کیوں بلوایا۔ لہذا اس نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے جواب دیا:
’’ملکۂ عالیہ کے حضور جھوٹ بولنا زندگی سے ہاتھ دھونے کے مترادف ہے۔ مجھے واقعی عظیم آقا کی وراثت ملی ہے۔ عظیم حکیم کا دور قبل از تاریخ کا دور نہ سہی لیکن غیردستاویزی ضرور ہے۔ میرا یہاں ہوناہی اس بات کی دلیل ہے کہ میں اس عظیم حکیم کی وراثت کا حامل ہوں ورنہ میں اس دیومالائی دائرے میں کیسےپہنچ سکتا تھا‘‘۔
اقابلہ نے حکیم الداس سے پوچھا :
’’حکیم ! اس معاملے کی معتبریت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟‘‘۔
حکیم الداس اپنی کرسی سےآہستہ سے اٹھااور کہنے لگا:
’’ملکۂ عالیہ!آپ اس کے بنائے ہوئے آلات خود دیکھ چکی ہیں۔ ان کے نشان نہ تو تاریخ میں کہیں ملتے ہیں نہ انسانی دنیا میں۔ فلورا کے ہاتھوں تباہ ہونے والابررپزل ذہانت کا اعلیٰ نمونہ تھا۔ پھر اس پر طرح طرح کے زہر آزمائے گئےجو اس پر رتی برابر اثرانداز نہ ہوئے۔ یہ سب نشانیاں عظیم حکیم کی وراثت کاحامل ثابت کرنے کےلیے کافی ہیں‘‘۔
شہزادی اقابلہ کی اصل عمر صرف23 سال تھی۔ یہ شاہی خاندان کی عمر کی بنیاد پر صرف آغاز تھا۔ حکیم الداس کی تصدیق کے بعد علی روئی نے خود کوبہت ہلکا پھلکا محسوس کیا۔ اقابلہ نے ایک لمحے کے لیے سوچا اور علی روئی سے کہا:
’’تم ا نسان درحقیقت ڈیمنوں کے دشمن ہو۔ میری منظوری کے بغیر تمہیں نیرنگ آباد کی شہریت تو کجا سانس لینے کےلیے ہوا بھی نہیں مل سکتی۔ چونکہ تم نے وفاداری کا وعدہ کیا ہے اس لیے تمہارے ساتھ برا سلوک نہیں کیا جائے گا۔ البتہ تمہاری شناخت عظیم حکیم کے جانشین کی بجائے حکیم الداس کے شاگرد کے طور پر رکھی جائے گی۔ جب تم اپنے علم میں کامل ہوجاؤ گے تو تمہیں استاد کی حیثیت مل جائے گی‘‘۔
شہزادی اقابلہ بےوقوف نہیں تھی کہ و ہ بغیر کسی مقصد کے عہدہ دینے کو تیار ہو گئی تھی۔ اس کے پیچھے اوبسڈین سے بدلالینے کا عظیم محرک چھپا تھا۔ وہ اسے اسی مقصد کےلیے استعمال کرنے کا ارادہ کیے بیٹھی تھی۔ گولی اس پرندے کو لگتی ہے جو اپنا سر باہر نکالتا ہے۔ طاقت کے بغیر مغرور ہونا بے وقوفی کے سوا کچھ نہیں۔
’’آپ کا شکریہ، شہزادی اقابلہ !‘‘۔
علی روئی نے دوبارہ جھک کر اپنی عقیدت کا اظہار کیا۔ اس نے ہچکچاتے ہوئے کہا:
’’لیکن اُس عظیم حکیم کے بارے میں شہزادی اقابلہ کے علاوہ ننھی شہزادی فلورا، امپ اور چلبل کو بھی معلوم ہے۔ مایا بھی تھوڑا تھوڑا جانتی ہے‘‘۔
’’فلورا اور ِکیا بھی اس کے بارے میں جانتی ہیں تو اس بات کو یقینی بنانا پڑے گا کہ وہ اس راز کو راز ہی رکھیں ‘‘۔
اقابلہ نے کہا۔ پھر اس نے انسانی فطری تقاضوں کے بارے میں سوچتے ہوئے کہا:
’’اس نے شمائلہ سے سن رکھاہے کہ وہ مایا میں دلچسپی رکھتا ہے، اگر ایسا ہے تو اسے نیرنگ آباد سے عہد وفاداری کے بدلے مایا بطور تحفہ دان کی جاتی ہے‘‘۔
’’ایک واضح خوبصورت پھندہ ‘‘۔
جب علی روئی نے مایا کی دلکش شکل کے بارے میں سوچا تو اس نے بے اختیار تھوک نگلی۔ لیکن وہ اس قابل کہاں تھا کہ مایا کو تھام لیتا۔ اس کا تو ایک بوسہ بھی اسے بنجر کر دینے کےلیے کافی تھا۔ اس نظرِ کرم کے درپردہ قاتلانہ دھمکی کووہ اچھی طرح سمجھ گیا تھا۔ شہزادی اقابلہ کے انداز سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ واقعی یہ بھی کر گزرے گی۔ اس نے انتہائی سمجھداری سے کام لیا اور کہا:
’’وہ حکیم الداس سے فارماسوٹک سیکھنا چاہتا ہے۔ اس لیے مایا کی بجائے چلبل اس کے کام میں معاون ثابت ہو سکتا ہے‘‘۔
اقابلہ نے کچھ دیر غور کے بعد اس کی درخواست مان لی۔
حکیم الداس علی روئی کے ان عزائم کا محرک شہزادی اقابلہ کا حسن سمجھ بیٹھا تھا۔ اس لیے محل سے نکلتے ہی اس نے علی روئی سے کہا:
’’تم نے نیرنگ آباد کے فلاح کا کام کسی بھی طمع کی توقع کے بغیر کرنا ہے‘‘۔
علی روئی حکیم الداس کی بات پر مسکرا دیا۔
آخر میں امپیریل گارڈ کےرہنما کاگورون نے نیرنگ آباد سنٹر میں شہزادی اقابلہ کی لکھی ہوئی ہدایات کو پڑھا۔ اب علی روئی سرکاری طور پر نیرنگ آباد کا رکن بن گیا تھا۔ اس نے سوچا کہ یہ شاید دیومالائی دائرے میں ایک انسانی زندگی کی بقا کا پہلا قدم ہے۔ اس دنیا میں انسان رہ سکتے ہیں۔ بلکہ آگے بڑھ سکتے ہیں۔
محل کے بیرونی صحن میں حکیم الداس کی تجربہ گاہ کے اندر صبح سویرے ایک جانی پہچانی چیخ سنائی دی۔ حتیٰ کہ بہادر اور مضبوط شاہی محافظ بھی چیخ سن کر خوف کی وجہ سے مدد نہ کر سکے۔ وہ حکیم الداس کی طرف سے اتاری ہوئی اذیت ناک موت کی بجائے میدانِ جنگ میں مارے جانے کوبہتر تصور کرتے تھے۔ پچھلی مرتبہ کی طرح وہی بوتلیں اورمرتبان تھے، بس دوائیاں کھلانےاور آزمانے کے کردار بدل چکے تھے۔
’’ چلبل! یہ دوائی کیسی محسوس ہو رہی ہے؟‘‘۔
علی روئی نے چلبل کی طرف دیکھا جو زمین پر لیٹا ہواہانپ رہا تھا۔ (ہوا کے لیے )
چلبل نےنقاہت بھری آواز میں کہا:
’’مالک! جان لیوا ہے۔ ایسا لگتا ہےمیرا سر پھٹ جائے گا۔ میں مرنے والاہوں مالک‘‘۔
’’یہ میں نے غلط پڑھا تھا۔ اصل میں تویہ گھاس سے بنی ہوئی دماغ چکرانے والی تھی ‘‘۔
علی روئی نے جان بوجھ کرجھوٹ بولا۔
چلبل نے خود کو سنبھالتے ہوئے کہا:
’’پھر ممکن ہے میں نے ہی کوئی غلط دوائی پی لی ہے۔ یہ بھی تو ممکن ہے مالک کہ ہم امپس کی اجزائے ترکیبی ہی ایسی ہو کہ دماغ کوچکرانے والی دوا اُن کےلئےروح شکن ہو‘‘۔
وہ جو ابھی مر رہا تھا ایک دم اٹھ بیٹھا اور علی روئی کے گھٹنے پکڑ کر التجائیں کرنے لگا۔
’’مالک! اپنے اس حقیر غلام پر رحم کیجیے۔ (اور پھر ) ہاں مالک یہ روح شکن نہیں واقعی چکر دینے والی دواہے۔ آپ درست کہتے ہیں‘‘۔
جب چلبل نے بات ختم کی تو اس نے علی روئی کو ایک اوربوتل ہلاتے ہوئے دیکھا۔ بوتل پہ واضح درج تھا۔
’’نمبر 81، بیداری کی دوائی‘‘۔
علی روئی بولا:
’’ یہ خاص طور پر چکرنہ آنے اور نیندنہ آنے کی توانائی کی دوائی ہے‘‘۔
چلبل کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ یہ اس کی بے بسی کی انتہا تھی وہ سوچنے لگا کیا انسان امپ سے بھی زیادہ گری ہوئی مخلوق ہے۔ اور اپنے مخصوص انداز میں علی روئی کی شان میں کچھ یوں رطب اللساں ہوا۔
’’ آسمان جیسی بے کراں حکمتوں کے مالک!، آقائے روزو شب! آپ کا یہ کمزوراور ناتواں غلام خوف کی وحشت سے کہیں اندھا نہ ہو جائے۔ وہ جو آپ کےلیے نیلی جھیل کے پانیوں سے زہریلے ڈریگن کو نکال لانے کا عزم کیے بیٹھا ہے‘‘۔
امپ نے اپنی عقیدت اور وفااداری ظاہر کرنے کےلیے علی روئی کی چاپلوسی شروع کی جو اس کے پچھلے برتاؤ کے بالکل برعکس تھی۔
’’تم زہریلے ڈریگن کو نکالو گے؟‘‘۔
علی روئی نے مسکرا کر کہا:
’’اگر کچھ دن ہمارے درمیان پہلے آقا اور غلام کا معاہدہ نہ ہوا ہوتا تو حکیم چلبل !تم شاید اس وقت میرا خون پی رہے ہوتے۔ ہڈیاں چبا رہے ہوتے ‘‘۔
یہ سن کرچلبل بے چارگی کے ساتھ خاموش ہو گیا۔ اس کے نزدیک ایک ڈراؤنے خواب کا آغاز ہو چکا تھا۔ شہزادی اقابلہ کا سب سے قابلِ اعتماد حکیم طاؤس جوجادوئی علوم و فنون کاماہر تھا، اس نے چلبل کو علی روئی کے ساتھ غلامی کےمعاہدےپر مجبور کردیاتھا۔ اسے کہہ دیاگیا تھاکہ اگر چلبل نے علی روئی کی مخالفت کرنے کی ہمت کی تو اسے سخت سزا دی جائے گی جوسزائے موت بھی ہو سکتی ہے۔ امپ جیسے مجبورِ محض کے پاس قسمت کا فیصلہ سننے کے علاوہ کوئی راستہ تھا ہی نہیں، سو وہ اپنے نئے آقا کی خوشامد کے علاوہ کر ہی کیا سکتا تھا۔ علی روئی نے کہا:
’’چلبل! میں جانتا ہوں کہ تم یقین نہیں کرو گے لیکن سچائی تمہیں بتانا ضروری ہے۔ تمہاری بدقسمتی کہ جب میں شہزادی شمائلہ اور حکیم الداس کو اپنی وراثت کا راز بتارہا تھا تو وہاں تم بھی موجود تھے۔ اس راز کو محفوظ رکھنے کےلیے موت تمہاری قسمت میں لکھ دی گئی تھی۔ میں نے شہزادی اقابلہ سے تمہیں مانگ کر اپنی غلامی میں لے کرزندگی بخشی ہے‘‘۔
چلبل کانپ اٹھا۔ اسے ایک دم شہزادی کی بےرحمی کی ساری افواہیں یا د آگئیں۔ اسے لگاکہ اس کے نئے آقا نے جو کہا ہے وہ حرف بہ حرف درست ہے۔ اس نے سوچا:
’’تو کیا ہوا اگر مجھے اس انسان نے بچایا، دیومالائی دائرے میں طاقتور لوگ حکومت کرتے ہیں۔ امپ لوگوں کی پہچان ہے کہ وہ کمزوروں پر دھونس جماتے ہیں اور طاقتور وں سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ پوری دیومالائی دائرے کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ ہے کہ اب حکیم چلبل ایک انسان کا خادم بنا دیا گیاہے جو اس سے بھی کمزور ہے مگر مجھے خادم بنانے والے بے شک بہت طاقتور ہیں۔ خیالوں میں ڈوبے چلبل کا جائزہ لیتے ہوئے علی روئی مسکراپڑا۔ اس نے کہا:
’’چلبل! تمہاری چھوٹی سی زندگی اب میرے ہاتھ میں ہے۔ اگر میں تمہارے پچھلے برے اعمال کا بدلہ لینا چاہتا تو تمہیں اِ س وقت تک اذیتیں دےدے کر موت کے گھاٹ اتار چکا ہوتا مگر میں ایسا نہیں کرنا چاہتا۔ شہزادی اقابلہ نے مجھ سے ذاتی طور پر وعدہ کیا ہے کہ جب میں حکیم کے درجے تک پہنچ جاؤں گا تو مجھے حکیم الداس جیسی عزت اور احترام سے نوازاجائے گا۔ سو مجھے کسی تجرباتی غلام یا مسخرے کی ضرورت نہیں جو محض تعریف کرتا رہے۔ ایک مخلص اور وفادار پیروکار چاہیے‘‘۔
چلبل سوچنے لگا۔ ہے تویہ انسان مگرشہزادی اور حکیم الداس نے اس کی بہت تعریف کی ہے۔ یقیناً اس کا مستقبل تابناک ہے۔ اگر میں واقعی اس آقا کا پیروکار بن جاؤں تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہوگا۔ چلبل ایک لمحے کے لیے پرجوش ہو گیا۔ وہ ایک نچلے طبقےکا ڈیمن تھا جو ہمیشہ سے دوسروں کے ماتحت چلے آ رہے تھے۔ بنیادی طور پر حکیم الداس کی تجربہ گاہ میں صرف ایک صفائی کرنے والالڑکا تھا۔ اس کا رتبہ ایک خادم کا بھی نہیں تھا۔ اس کے لیے یہ ایک سنہری موقع تھا، وہ اس موقع کو کیسے گنوا سکتا تھا۔
’’مالک! آپ چلبل سے کیا کروانا چاہتے ہیں؟‘‘۔
امپ نے دیکھا کہ اس کے مالک کو چاپلوسی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے، اس لیے اس نےسادہ ترین الفاظ میں احترام سے پوچھا۔
علی روئی چلبل کی کارکردگی سے کافی مطمئن تھا۔ اس نے فوری طور پر شہزادی اقابلہ سے سیکھی ہوئی سزا اورجزا کی حکمت عملی کو لاگو کیا، اسے اس بات کی فکر نہیں تھی چلبل اس کی حکم عدولی کرے گا۔
’’فکر نہ کرو۔ میں اب تمہیں دوائیاں آزمانے کے لیے استعمال نہیں کروں گا لیکن تمہیں جڑی بوٹیوں کا کچھ علم سیکھنا ہوگا اور پھر میری ہدایات کے مطابق مختلف جڑی بوٹیاں اکٹھی کرنی ہوں گی۔ اس کے علاوہ تمہیں مختلف معلومات جمع کرنی ہوگی‘‘۔
چلبل کی ننھی آنکھیں اچانک چمک اٹھیں۔ جڑی بوٹیوں کو اکٹھا کرنا پہلے سے ہی ایک طالب علم کا کام تھا اور حکیم چاہتا تھا کہ وہ جڑی بوٹیوں کے بارے میں سیکھے اور معلومات حاصل کرے۔ اسےیہ نیا کام بہت اچھا لگا۔ امپ نے فوراًعلی روئی کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے اوردل سے وفاداری کا اظہار کیا اور پورے خلوص کے ساتھ تعریف کی۔ اچانک اسے یاد آیا کہ آقا کو یہ بات پسند نہیں تھی۔ وہ تعریف کرتے کرتے اچانک خاموش ہو گیا۔
اس کی یہ عاجزی محض دکھاوا تھی۔ وہ محض ایک عاجز اور فرمانبردار شکل بنارہا تھا۔ باڈی لیگوئج ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ یعنی جسمانی حرکات و سکنات کے تاثرمیں تمام تر وفاداری کا اظہار موجود تھا۔ پھر بھی علی روئی چلبل کی شکل دیکھ کر خوش ہوا۔ معاہدے کے مطابق سزا و جزا کی حکمت عملی نے امپ کی گردن جھکا رکھی تھی۔ بے شک علی روئی نے اپنی عقل سے نیرنگ آباد میں قدم جما لیے تھے لیکن وہ ایک انسان تھااوریہ دیومالائی دائرے تھی۔ اس کے علاوہ سپرسسٹم کی تکمیل کے لیے مزید جڑی بوٹیوں کی ضرورت تھی۔ کاموں کو چلانے کے لیے چلبل کی موجوگی اسے بہت سی پریشانیوں محفوظ رکھ سکتی تھی۔
’’ٹھیک ہے۔ تم جڑی بوٹیوں کے متعلق پڑھو۔ بنیادی جڑی بوٹیوں کو سمجھنا سیکھو‘‘۔
علی روئی نے موٹی سی کتاب چلبل کو تھماتے ہوئے کہا۔
چلبل پرجوش تھا۔ اسے معلوم تھا کہ یہ حکیم الداس کی ایک اہم کتاب ہے۔ اسے یہ علم تھا کہ ایلکمی کے ایک عام طالب علم کو علم سیکھنے کے درجے تک پہنچنے کے لیے بہت زیادہ ٹیوشن فیس ادا کرنی پڑتی ہے۔ اس کےلیے یہ بات حیران کن تھی کہ حکیم علی روئی اسے مفت میں علم سکھا رہا ہے۔ امپ نے نم آنکھوں کے ساتھ شکریہ ادا کیا اور کتاب لے کرنیچے تہہ خانے میں چلا گیا۔
علی روئی کو اب اس کتاب کی ضرورت نہیں تھی۔ آرتھر کی روح سے گزرنے اور اس نئےشعور میں ضم ہونے کے بعداس کی یادداشت میں زبردست بہتری آئی تھی۔ اس کا دماغ بھی غیر معمولی طور پر صاف ہو گیا تھا۔ علامتی معاہدے کی وجہ سے چندہی دنوں میں، اس نے’’ جڑی بوٹیوں کی بنیادی باتیں‘‘میں سب کچھ حفظ کر لیا تھا۔
سپر سسٹم کی بوٹنگ ترقی کی خصوصیت یہ تھی کہ اثر جتنا طاقتور ہوگا، اتنی ہی تیزی سے آگے بڑھے گا لیکن بار باراستعمال ہونے والے زہر کا اثر بڑھتانہیں تھا، یہاں تک کہ سنکھیار کا مہلک زہر بھی اس سے مستثنیٰ نہیں تھا۔ تجربہ گاہ کے زہروں کا تقریباًآخری بار مکمل تجربہ کیا گیا۔ علی روئی دوائیوں کی ترکیب کو سمجھنا چاہتا تھا اور پھر جلد از جلد سپر سسٹم کو تیزکرنے کے لیے نئی دوائیاں ترتیب دینے کی کوشش کرنا چاہتا تھا۔ فی الحال اس نے یہ تجربہ نہیں کیا تھا کہ ترقی کو تیز کرنے کے اور طریقے ہیں، اس لیے وہ صرف شعبۂ ادویات میں تحقیق کر سکتا تھا۔
چلبل دوبارہ اندر آیا اور کہا:
’’حکیم ، لیڈی فلورا یہاں ہے؟‘‘۔
فلورا تجربہ گاہ میں چلی گئی، حکیم الداس کی غیر موجودگی پر اس نے پوچھا:
’’حکیم کہاں ہیں؟‘‘۔
’’حکیم نے رات بھر پیگ کے سولٹیئر کا مطالعہ کیا۔ وہ ابھی تک سو رہے ہیں‘‘۔
پرسوں علی روئی نے چلبل کی مدد سے پیگ کے سولٹیئر کا ایک سیٹ بنایا اور حکیم الداس کو دیا۔ حکیم الداس کو تو گویا ایک قیمتی خزانہ مل گیا۔ وہ فوراً اس میں مشغول ہو گیا۔ علی روئی کو شبہ تھا کہ اگر یہ جاری رہا تو حکیم کےکام کرنے کی صلاحیت میں کمی آ جائےگی۔
فلورا نے اس سے اتفاق کیا:
’’اوہ۔ تویہ معاملہ ہے۔ کیا ان دنوں شمائلہ ادھر آئی تھی؟‘‘۔
’’ہاں آئی تھی‘‘۔
علی روئی نے مسکراہٹ کے ساتھ کہا:
’’پرسوں میں نے اسے پیگ کے سولٹیئر کے ساتھ رخصت کیا۔ وہ ہر روز کچھ نیا چاہتی ہے۔ اگر یہ جاری رہا تو میرا دماغ خراب ہو جائے گا۔ کیا آپ آج بھی ’رومانس آف تھری کنگڈم‘ سننا چاہتی ہیں؟‘‘۔
فلورا کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ اس نے جلدی سے سر ہلایا۔ علی روئی اسے اپنا ہم ذوق بنانے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ اس نے ’’رومانس آف دی تھری کنگڈم‘‘سے چند اقتباسات کا انتخاب کیا۔ بلاشبہ، ماحولیاتی ضروریات کی وجہ سے مشہور جرنیلوں کی صلاحیتوں کو معدوم کردیا گیا جیسے گوان یو کا گرین ڈریگن کریسنٹ بلیڈ ایک نمونہ بن گیا۔ ایک ضرب ہزاروں لوگوں کی جان لے سکتی ہے۔ ژانگ فی کی چیخ آبشار کو پیچھے کی طرف بہا سکتی ہے۔ لیو بی کے پاس پانی کا جادو تھا جو اس کے آنسوؤں کو ہزاروں میل تک بہا سکتا تھا۔
فلورا غیر معمولی جسمانی طاقت والےطاقتور لوگوں کی دیوانہ وار تعریف کرتی۔ وہ روزانہ تجربہ گاہ کا چکر لگاتی۔ پھر بھی علی روئی نے یہ کہانیاں صرف فلورا کو سنائیں۔ یہ کہانیاںہی اس راز کی پوشیدگی کی ضامن تھیں جو ان کےدرمیان تھا۔
’’رکو! چلو آج نیلی جھیل پر چلتے ہیں‘‘۔
فلورا نے اچانک اپنے آنے کا ارادہ ظاہر کیا کیونکہ وہ مزید کہانی نہیں سنناچاہتی تھی۔
’’واپسی کے راستے میں کہانی سناناٹھیک ہے؟‘‘۔
آسودگی کے دنوں میں علی روئی ڈریگن نوشتہ جات کومکمل طور پر فراموش کر چکا تھا جو فلورا کی اس بات سے اسے یاد آئے اور اس نے فوراً اثبات میں سر ہلایا:
’’میں نے پہلے ہی تین سینگوں والے گینڈےتیار کر لیے ہیں۔ چلواب چلتے ہیں‘‘۔
چلبل نے اپنے آقا اور فلورا کے جانےکے بعد حیران کھڑا تھا کہ فلورا جس نے کبھی پہل کی ہی نہیں جنرل ایان تک اس کے قریب نہ ہوسکا، آقا کےلیے پہل کر رہی ہے جسے اس دنیا میں آئےدن ہی کتنے ہوئے ہیں۔ اسےاپنےآقا کا پیروکار ہونے پرفخر محسوس ہوا۔
دونوںقلعے کے باہر تین سینگوں والے گینڈوں پر بیٹھ گئے۔ اس بار دونوں کاٹھی اور رکاب کے مکمل سیٹ کے ساتھ بیٹھے۔ واضح تھا کہ انسان کے ساتھ اس کا برتاؤ پچھلی بار سے بالکل مختلف تھا۔ شہر سے کامیابی کے ساتھ نکلنے کے بعد دونوں نیلی جھیل کی طرف بھاگے۔
وہ جگہ جو پہلے سنکھیار کے ساتھ منتخب کی گئی تھی، علی روئی زہریلے ڈریگن کو ابتدائی پیگس سولیٹیئر کے ساتھ جذب ہوتے دیکھ کر حیران رہ گیا۔ ظاہر ہے گزشتہ کچھ دنوں سے اس نے اپنی توانائی اس پر صرف کی تھی۔ علی روئی نے فلورا کو کچھ فاصلے پر انتظار کرنے کو کہا، پھر وہ اکیلا آگے بڑھا۔ جب سنکھیار نے اسے دیکھا تو اس نے سختی سے پوچھا:
’’تم کون ہو؟‘‘۔
علی روئی کو اچانک خطرےکااحساس ہوا۔ خراب یاداشت؟؟، کچھ زیادہ نہیں؟۔ یہ واضح طور پر الزائمر ہےیعنی ڈریگن بھول جانے والی بیماری میں مبتلا ہے۔
جیسے ہی سنکھیار نے اسے پہچانا علی روئی کو فوراً شرارت سوچھی۔ اس نے وہی بات شروع کی جو ڈریگن کے لالچی مزاج کو بہت بری لگتی تھی۔ اس نےے سنکھیار سے چھیڑ خانی کی کہ خزانے کا چالیس کی بجائے ساٹھ فیصد حصہ ملے گا۔ جب اس نے سنکھیارکو اپنی بات پر آمادہ کرنے کی کوششیں شروع کیں تو سنکھیار بپھر گیا:
لالچی آدمی! دن کی روشنی میں خواب دیکھنا بند کرو، ہم معاہدے میں واضح طور پر طے کر چکے ہیں کہ تمہارا حصہ چالیس فیصد ہے۔ دولت کے معاملے میں جو ڈیگنوں کی کمزوری ہے ان سے ہیرا پھیری نہیں کی جا سکتی‘‘۔
علی روئی ڈریگن کی حالت دیکھ کر محظوظ ہو رہا تھا اور ساتھ ہی اس کا جسم ڈریگن کا زہر پیےجا رہا تھا۔ خوب تنگ کرنے کے بعد اس پر اپنے پچھلے دنوں کے کامیاب تجربات کا رعب بھی ڈالا، ڈریگن علی روئی کے جانے کے بعد بھی کافی دیر تک اس کے کامیاب تجربوں کے بارے میں سوچتا رہاتھا۔
علی روئی نے اس بار ڈریگن کو شطرنج کی کچھ آسان چالیں بھی سکھائیں جو اسے بے حد پسند آئیں۔ کھیل کے ساتھ ساتھ اس نے باربی کیو کھانے کی خواہش کا اظہار کیا اور فلورا کو حکم دیا کہ وہ جانور شکار کر لائے تب تک وہ علی روئی کے ساتھ شطرنج کھیلے گا۔
’’تو یہ منحوس ابھی تک باربی کیو نہیں بھولا‘‘۔
علی روئی نے دل ہی دل میں کہا۔
فلورا جانتی تھی کہ باربی کیو بھی اس معاہدے کا حصہ ہے۔ اس لیے وہ خاموشی سے شکار کی تلاش میں نکل پڑی۔ اس کے جانے کے بعد سنکھیار نے اس کی جنسی کشش پر تبصرہ کیا:
’’فلورا جنسی حسن میں دوہرا معیار رکھتی ہے۔ اگر یہ جنگ میں تمہارے ساتھ آئے گی توالگ دکھائی دے گی‘‘۔
علی روئی متجسس تھا۔ اس نے پوچھا:
’’تم صرف اپنے نچلے جسم کا استعمال کرتے ہوئے سوچتے ہو۔ میں اس قابل کیسے ہوں؟‘‘۔
علی روئی نے غصے سے کہا:
’’دراصل، فلورا اپنے دوستوں کے لیے ایک اچھی انسان ہے۔ اس لیے میں اسے دھوکہ نہیں دینا چاہتا۔ ہم دوست بنیں گےتو وہ بھی مدد کرے گی‘‘۔
’’جو کچھ بھی ہو، بس مقصد کو پورا ہونا چاہیے‘‘۔
سنکھیار نے مسکرا کر کہا:
’’ہمارے ہاں ڈریگنز میں دو طرح کے عقیدے ہیں۔ مرد اور عورت کے درمیان کوئی حقیقی دوستی نہیں ہے۔ دوستی محبت کی شروعات ہے۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ اگر آپ پہلا قدم اٹھانے میں کامیاب ہو گئے تو بس‘‘۔
’’یہ عورت جنسیاتی تبدیل شدہ خون کی لکیر کی ہے، اس کی دو شکلیں ہیں۔ اگر جنگ کے دوران دیومالائی شکل آپ کے جمالیاتی معیار پر پورا نہ اترتی ہو تو بھی معمول کی حالت کافی خوبصورت ہونی چاہیے۔ سنکھیار نے آنکھیں موند لیں۔
علی روئی جانتا تھا کہ وہ زہریلے ڈریگن سے بحث نہیں کر سکتا۔ اس نےکہا:
’’سنکھیار! بےکار کی باتیں مت کرو اور نوشتہ جات سکھانےکی طرف توجہ دو‘‘۔
نوشتہ جات یا لوح کندہ شدہ متن کو کہتے ہیں جسے مقعر اور محدب شکلوں کے مطابق ین اور یانگ متن میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ڈریگن نوشتہ ایک قدیم ڈریگن کے خاص منتر سے تراشا گیا وظیفہ تھا جو عظیم طاقت کا مظہر تھا۔ جیسے جیسے صارف کی طاقت اور تحریر کی سمجھ میں اضافہ ہوا نوشتہ کی طاقت بڑھنے لگی۔ یہ خاصا مشکل کام تھا۔ بہت سے ڈریگن اس کام میں ناکام رہے تھے۔ بعض اصولوں کے مطابق ترتیب دیے گئے نوشتہ جات کا ایک سلسلہ ایسی طاقت کا استعمال کر سکتا ہے جو انفرادی نوشتوں کی کل تعداد سے کئی گنا زیادہ تھا۔ اگرچہ ڈریگن نوشتہ کی طاقت زیادہ تھی لیکن تخلیق کاروں کی طاقت کے ساتھ اس کے تعلق کی وجہ سے نوشتہ جات دیگر مخلوقات کے مقابلےمیں بہت کمزور تھے۔
سنکھیار نے پہلے اسے کچھ بنیادی نکتے سکھائے۔ علی روئی کی یادداشت بہت اچھی تھی اس لیے اس نے بہت جلد سیکھ لیے تاہم اس نے محسوس کیا کہ اسے سمجھنا بہت مشکل تھا۔ ابھی انہیں صرف یاد کر سکتا تھا اور بعد میں آہستہ آہستہ سمجھنےکی کوشش کرے گا۔ علی روئی کی اچھی یادداشت کو دیکھتے ہوئے سنکھیار نے مزید کئی مکمل نوشتہ جات سکھائے۔
اس کے فوراً بعد فلورا اپنے شکار کے ساتھ واپس آگئی اور علی روئی نے بطورباورچی اپنا کام شروع کر دیا۔ زہریلے ڈریگن نے پچھلی بار شمائلہ اور دوسروں کا صرف بچاکھچا کھایا تھا لیکن اس بار وہ ایک بڑے کھانے سے لطف اندوز ہونے والاتھا۔ باربی کیو کھانے کے بعد سنکھیار نے ایک شاخ لی اور اپنے دانت صاف کرتے ہوئےکہا:
’’ٹھیک ہے، اب تم جا سکتے ہو۔ لیکن یاد رکھنا سات دنوں بعد واپس آنا ہے‘‘۔
’’رکو‘‘۔
فلورا نے جلدی سے پوچھا:
’’تریاق کہاں ہے؟‘‘۔
سنکھیار نے الجھن سے پوچھا:
’’کون سا تریاق؟‘‘۔
’’پیٹو! تریاق کے بارے میں بالکل بھول گیا؟۔
علی روئی نےالتجائی نظروں سے سنکھیار کو دیکھا۔ سنکھیارکو آخر کاریاد آگیا اور ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا۔ اس نے کافی دیر تک اپنے کپڑوںکی تلاشی لی اور تین جید سبز موتی نکالے۔ علی روئی نے کچھ ناولوں میں لوگوں کو پھنسانے کے لیے استعمال ہونے والی مردہ جلد کی گولیوں کے بارے میں سوچا اور دل میں کراہت محسوس کی۔ اس کی اس ناگوارنظر نے سنکھیار کو غصہ دلایا۔ اس نےایک ساؤنڈ پروف حد لگائی علی روئی کا کالر پکڑا اور غصے سے بولا:
’’تم نہیں جانتے کہ اچھی چیزوں کی تعریف کیسے کی جاتی ہے۔ یہ جیڈ پرل ہے، زہریلے ڈریگن کا ایک خاص کرسٹل۔ اسے کھانے سے نہ صرف چوٹ جلد ٹھیک ہوتی ہے بلکہ زہر کے خلاف مزاحمت کو بھی مستقل طور پر بڑھاتی ہے۔ ایک گولی کو کرسٹالائز کرنے میں200 سال لگتے ہیں۔ پانی میں گھلی ایک گولی 10 لوگوں کےلیے کافی ہے! اگلی بارتم خود تریاق بنانا‘‘۔
یہ گولی ہر فن مولانکلی۔ علی روئی شرمندگی سے مسکرایا۔ سنکھیار نے فلورا کی طرف دیکھا جس نے اپنی تلوارپہلے ہی نکال لی تھی اور بچانے کے لیے تیار تھی۔ وہ مسکرایا اور علی روئی کا کالر چھوڑ دیا۔ علی روئی نے فلورا کو اپنی نظروں سے سب کچھ ٹھیک ہونے کا اشارہ کیا اور جلدی سے اسے جھیل سے دور لے گیا۔
فلورا نے راستے میں تین سنگھے گینڈے کی پشت پر اپنا سر جھکائے رکھا۔ اس نے علی روئی سے بات نہیں کی۔ وہ واقعی ناخوش لگ رہی تھی۔ علی روئی نے سوچا کہ فلورا اب بھی جسم میں زہر سے خوفزدہ ہے اس لیے اس نے ایک جیڈ پرل دے کر کہا:
’’فلورا! تم پہلے تریاق کیوں نہیں کھا لیتی۔ ہم سات دن بعد واپس آئیں گے۔ تب تک ٹھیک ہو چکے ہو گے‘‘۔
’’یہ سب میری وجہ سے ہے‘‘۔
فلورا نے اچانک اپنی مٹھیاں بھینچ لیں اور طویل عرصے سے دبا ہوا غبار اچانک پھٹ پڑا۔
’’میں چند دنوں سے پچھتا رہی ہوں۔ اگر میں شمائلہ کو نیلی جھیل پر نہ لے جاتی تو اسے زہر نہیں دیا جاتا۔ میں زہریلے ڈریگن سے مرتے دم تک لڑنا چاہتی ہوں۔ بوغائی فیملی کے لوگ کسی بھی دھمکی کو قبول کرنے کے بجائے جنگ سے مرنا پسند کرتے ہیں‘‘۔
علی روئی نے یہ نہیں سوچا تھا کہ فلورا اتنی سخت ہے واقعی میں مرتے دم تک ڈریگن سے نہیں لڑ سکتی۔ اس نے جلدی سے کہا:
’’رکو! اگر تم نے زہریلے ڈریگن کو اکسایا تو وہ اب کبھی تریاق نہیں دے گا۔ تو کیا یہ چیز شمائلہ کو نقصان نہیں دے گی؟‘‘۔
علی روئی نےفلوارا کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھا۔ وہ افسردہ ہو کر بیٹھ گئی۔
’’شمائلہ میری سب سے اچھی دوست ہے اور بوغائی فیملی کو لارڈ تاریک سورج بہت پسند کرتے تھے۔ میرے والد نے مجھے خصوصی طور پر نیرنگ آباد سلطنت میں بھیجا تھا۔ مجھےتو اپنی زندگی کی بازی لگا کر ولی عہد گریم کی اولاد کی حفاظت کرنی ہے۔ پھر بھی میں نے ایسی ناقابل معافی غلطی کی! میں کیا کروں؟‘‘۔
علی روئی کو احساس ہوا کہ فلورا اپنی حفاظت کے بارے میں نہیں بلکہ اپنی دوست شمائلہ کے بارے میں فکر مند ہے۔ اُس کے دل میں اچانک ایک احساسِ جرم پیدا ہوا۔
’’فلورا! میں اپنی جان کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تم تینوں کا زہر ختم ہو جائے گا۔ اگرتمہیں مجھ پر بھروسہ ہے تو ابھی تریاق والی گولی کھاؤ!‘‘۔
فلورا نے سر اٹھایا۔ اس کی سرخی مائل حیران آنکھیں اس شخص کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ اس نے آخر میں سر ہلایااور جیڈ پرل کھا لیا۔ شاید اس دواکا ذائقہ اچھا نہیں تھا اس نے اپنی بھنویں اچکائیں۔ تب ہی علی روئی کو یاد آیا کہ ایک جیڈ پرل 10 لوگوں کے لیے کافی تھا۔
فلورا جو ابھی صحت یاب ہوئی تھی، کہنے لگی:
’’علی روئی!میں نے تم سے زیادہ بہادر شخص نہیں دیکھا۔ تم ایک ذمہ دار آدمی بھی ہو۔ میں نے پہلے ہی تمہیں اپنا دوست مان لیا تھا۔ اگرتمہیں کسی مدد کی ضرورت ہو تو مجھے بتانا۔ فلورا بوغائی کبھی انکار نہیں کرے گی۔
’’ہمم‘‘۔
علی روئی نے سر ہلایا۔ وہ شاید پہلا انسان تھا جسے اس نے کبھی دیکھا تھا۔ سب سے زیادہ بہادر او شاید سب سے زیادہ بزدل بھی وہی تھا۔ تاہم، فلورا کےکہے گئے لفظ ’’دوست‘‘سے اسےڈریگن کے وہ دواصول یاد آئے جو آج اس نے کہے تھے۔ وہ شرمندہ ہو گیا۔
’’یہ تریاق کی گولی بہت تیکھی ہے۔ میرا گلا جل رہا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ ننھی شہزادی یہ نہیں کھائے گی۔ وہ بہت چالاک ہے۔ ہمیں کوئی راستہ تلاش کرنا ہوگا ورنہ وہ سمجھ جائے گی کہ یہ کوئی اور معاملہ ہے‘‘۔
علی روئی نے ایک لمحے کے لیے سوچا اور کہا:
’’میں کوئی حل نکالوں گا۔ بس تم یاد رکھنا کہ اسے کچھ بتانا نہیں ہے، بس تم پرسکون رہو۔ ‘‘
فلورا نے سر ہلایا:
’’فکر نہ کرو۔ میں کبھی تمہارے راز فاش نہیں کروں گی‘‘۔
’’اداس چیزوں کے بارے میں مت سوچو۔ میں تمہیں ’رومانس آف دی تھری کنگڈم‘ کی کہانی سناتا رہوں گا۔ اس بار میں تمہیں تین سلطنتوں کےمضبوط ترین مردوں کے مابین تاریخی جنگ کے بارے میں بتاؤں گا، تین ہیروز جنہوں نے لوبوسے جنگ کی‘‘۔
علی روئی کو سکون ملا۔ اس نے فلورا کوسچ کی بجائےکہانی میں الجھا دیا۔
’’لو بو سب سے مضبوط آدمی تھا، اس نے جو نمونہ استعمال کیا اسے اسکائی پیئرسر کہا جاتا تھا اور اس کے سواری کو ریڈ ہیر کہا جاتا تھا‘‘۔
فلورا کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ وہ توجہ مرکوز کرکے سننے لگی۔ جب تین سینگوں والے گینڈے نیرنگ آباد کے سٹی گیٹ پر پہنچے تو علی روئی اور فلورا ننھی شمائلہ کو دیکھ کرحیران رہ گئے جس نے غصے سےدروازے بند بند کر دیے۔ اس کے پیچھے بے بس مایا اور بہت سارے سپاہی تھے جن کی قیادت ایک مضبوط میناٹور کر رہا تھا۔ علی روئی نے پہچان لیا کہ یہ سیٹور شہر کے محافظوں کا چھوٹا لیڈر ہے۔ جب وہ صبح کو شہر سے نکلے تو وہ فلورا کے لیے خاص طور پر احترام کا مظاہرہ کررہا تھا۔ فلورا اور علی روئی تین سینگوں والے گینڈے سے اتر کرنیچے آئے۔ شمائلہ کی نظر ایسی تھی کہ اگر وہ خوش نہ ہوئی تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔ اس کا پہلا جملہ تھا:
’’فلورا! تم نےخوب دوستی نبھائی کہ میرے بغیر نیلی جھیل کی طرف چل دی۔ اگر گانگا مجھے اطلاع نہ دیتے تو مجھے پتہ ہی نہ چلتا‘‘۔
علی روئی نے جلدی سے وضاحت کی:
’’ننھی شہزادی! فلورا کو حکیم الداس نے نیلی جھیل پر میری حفاظت کے لیے مقرر کیا تھا جب میں جڑی بوٹیاں اکٹھی کر رہا تھا‘‘۔
’’بکواس بند کرو! تم کمینےانسان !‘‘۔
سیٹور (جس کا نام گانگا تھا ) نے علی روئی کی وضاحت میں غصے سے خلل ڈالا:
’’مجھے شک ہے کہ تم شہر سے باہر چوروں سے ملی بھگت کر رہے ہو۔ گارڈز!پہلے اسے گرفتار کرو!‘‘۔
’’گانگا!!!!‘‘۔
فلورا نے پیٹھ پر موجود عظیم تلوار کو نیام سے نکالااور اس کی خوبصورت سرخ آنکھوں نے سرد قاتلانہ ارادے ظاہر کیے:
’’علی روئی میرا دوست ہے، میں اس کا سر قلم کر دوں گی جو اسے چھونے کی جرأت بھی کرے گا‘‘۔
فلورا کے والدبوغا بوغائی سلطنت کے پہلے جنرل تھے اور اس کی تلوار بازی نیرنگ آباد میں مشہور تھی۔ سپاہیوں نے آگے بڑھنے کی ہمت نہیں کی۔ جب گانگا نے دیکھا کہ فلورا نے انسان کا اتنا دفاع کیا تو وہ حیران رہ گیا۔ بولا:
’’مادام فلورا! اس آدمی کے دھوکے میں مت آئیں‘‘۔
فلورا نے اپنا ہاتھ لہرایا، عظیم تلوار مڑی اورتلوار کاپچھلا سرا گانگا کو جا لگا۔ گانگا نے جلدی سے اپنے ہاتھوں میں موجود ہتھوڑا اٹھایا اور اس کےوار کو روکا۔ تلواروں کے ٹکرانے کی آوازیں گونجیں۔ میناٹور جو اپنی طاقت کی وجہ سےجانے جاتے ہیں فلورا کےایک وار کا مقابلہ نہ کرسکا۔ میناٹورچھوٹا ہو گیا کیونکہ اس کے دونوں گھٹنے پہلے ہی زمین پہ گر چکے تھے۔
چھٹا باب
حکیموں کا مقابلہ
ہارنے والاجیت بھی سکتا ہے
فلورا جانتی تھی چاہے حالات جتنے بھی ناسازگار ہو جائیں وہ سنکھیار سے دشمنی نہیں کر سکتی تھی اس لیےوہ اس کے سامنے تو خود پر قابو رکھتی تھی مگر گانگا کا سامنا کرتے وقت اس کی تلوار نے حیرت انگیز طاقت کا مظاہرہ کیا۔
فلورا نے اس بار اپنی تلوار کے کنارے کو دوبارہ لہرایا۔ چنگاریوں کے درمیان گانگا کا ہتھوڑا دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔ اس کے پاؤں پھر دھنس گئے۔ فلورا نے اپنی طاقت قابو میں کی اور تلوار میناٹور کے سر کے قریب آ کر رُک گئی۔
علی روئی جلدی سے شمائلہ کے پاس گیا اور سرگوشی کی، پھرننھی شہزادی کو ایک ٹوکری دی۔
’’راستے سے ہٹ جاؤکمزورڈیمن۔ بزدل ایان کو بلاؤ‘‘۔
فلورا بیوقوف نہیں تھی۔ اس نے فوراً اندازہ لگایا کہ گانگا کی کارروائی کے پیچھے کون ہے۔ پھر اس نے آہستہ سےاپنی تلوار واپس کر لی۔ گانگا نے اپنے سر کے اوپر سے ایک خوفناک قاتلانہ آواز محسوس کی۔ اس کا سر ٹھنڈے پسینے سے شرابور ہو گیا لیکن اسے معلوم ہو گیا کہ فلورا اسے مارنا نہیں چاہتی ورنہ اس کی تلوار ہتھوڑے کی بجائے اس کا سر کاٹتی۔ اچانک ایک آواز بلند ہوئی۔
’’رک جاؤ!‘‘۔
یہ آواز علی روئی کی تھی۔
’’ گانگا !تم نے ننھی شہزادی کے حکم کا انتظار کیے بغیر مادام فلورا پہ حملہ کیاہے۔ تمہیں لوسیفر خاندان کی عزت کا کچھ پاس ہے؟‘‘۔
گانگا گھبر اکر کہنے لگا:
’‘حملے میں پہل فلورا نے کی، میں نے تو محض اپنا دفاع کیا‘‘۔
’’تم نے فلورا پر حملہ کیا، تم نے میرا اور میری بہن کا بھی نہیں سوچا‘‘۔
’’نہیں نہیں۔ میں نے ایسا نہیں کیا‘‘۔
گانگا حیران و پریشان تھا۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کہے۔
’’چھوٹی شہزادی! انسان بہت دھوکے باز ہے۔ اس پر یقین نہ کرو‘‘۔
’’یہ آدمی واقعی دھوکے باز ہے‘‘۔
شمائلہ نے سر ہلایا۔ گانگا کو سکون ملا ہی تھا کہ شمائلہ نے جیڈ پھل تھامے ہوئے ہاتھ کی انگلی سے علی روئی کی طرف اشارہ کیا اور اس کا لہجہ بدل گیا۔
’’لیکن وہ تم سے زیادہ معقول ہے‘‘۔
معلوم نہیں شہزادی شمائلہ کی یہ طرفداری واقعی علی روئی کےلیے تھی یا پھر ان ڈریگن پھلوں کےلیے جو وہ اس کےلیے چن لایا۔ بہرحال علی روئی کو احساس ہوا کہ یہ اس نے عقل مندی کا کام کیا۔
شمائلہ نے گھبراہٹ اور پسینے میں شرابور گانگا کی طرف دیکھ کر کہا:
’’ایان سے کہوپاگل مت بنے۔ اگر وہ میرے ہاتھوں کسی کو مروانا چاہتا ہے تو اسے کم از کم اس شخص سے تو بہتر ہونا چاہیے‘‘۔
’’اس شخص سے بہتر؟‘‘۔
علی روئی شہزادی شمائلہ کی بات پر غور کرنے لگا۔ یعنی ڈریگن پھل نے واقعی رشوت کا کام کیا تھا۔
ایسا لگتا تھا کہ ننھی شہزادی سب کچھ سمجھ گئی ہے۔ وہ جان بوجھ کرانجان بن رہی تھی۔ گانگا نے دیکھا کہ شمائلہ نے مزید کچھ نہیں کہا، وہ جلدی سے اپنے سپاہیوں کے ساتھ اس طرح پیچھے ہٹ گیا جیسے معافی مل گئی ہو۔ علی روئی اس بات پر خوش تھا کہ دیومالائی دائرے اس کی پچھلی دنیا سے تو بہتر ہے، کم از کم جہاں کسی کو بھی موردِ الزام ٹھہرا کر ختم کر دیا جاتا تھا۔
’’چلیں، فلورا‘‘۔
شمائلہ نے فلورا کا بازو ایسے پکڑ رکھاتھا جیسے وہ کبھی ناراض ہی نہیں تھی۔
’’شہزادی صاحبہ! آپ نے میری وفاداری پر شک کیا‘‘۔
فلورا نے شمائلہ کا ہاتھ جھٹک دیا۔ وہ افسردہ ہو گئی تھی۔ مایااس کی بات سن کر مسکرا دی۔
شمائلہ واقعی ایک بےرحم شہزادی تھی۔ اس نے کچھ دیر فلورا سے سرگوشی کی، پھر اس نے ایک اورلطیفہ سنایا۔ محل کے دروازے تک دونوں کی دوستی بحال ہوگئی تھی۔ جب شمائلہ نے فلورا کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ وہ کچھ شکار لائی ہے، اس نے پکنک کے منظر کے بارے میں سوچاتو اس کے منہ میں پانی بھر آیا۔ وہ علی روئی کومعنی خیز نظروں سے دیکھ کر مسکرائی۔ علی روئی کو ایسے لگا جیسے وہ ہی شکار ہو جسے سیخوں میں پرو دیا گیا ہے۔ وہ مخاطب ہوا:
’’اس بار کھانے کا نیا طریقہ ہے۔ باربی کیو کے مقابلے میں اس کا ذائقہ الگ ہے، لیکن مجھے نہیں معلوم کہ ننھی شہزادی اتنا زیادہ تیکھا کھا سکتی ہے‘‘۔
علی روئی کے آداب بجا لانے سے اسے شہہ ملی اور وہ اونچی آواز میں تمکنت کے ساتھ بولی:
’’لوسیفر رائل فیملی کی لغت میں خوف کا لفظ شامل نہیں۔ ‘‘
’’میں شمائلہ لوسیفرکسی سے نہیں ڈرتی‘‘۔
ننھی شہزادی کے اعتماد کو دیکھ کر شاہی محافظوں نے اسے تعریفی نظروں سے دیکھا اور وہ سب سیدھے کھڑے ہو گئے کیونکہ انہیں لوسیفر شاہی خاندان کا جنگجو ہونے پر فخر تھا۔ لیکن وہ ننھی شہزادی کے دلیرانہ الفاظ کا اصل مقصد نہیں جانتے تھےجوکہ مفت کھانا پینا حاصل کرنا تھا۔ شمائلہ سب کی تعریفی نظروں سے لطف اندوز ہوئی اور بے خوف ہوکر حکیم الداس کی تجربہ گاہ کی طرف چل دی۔ جب وہ تجربہ گاہ پہنچی تو چلبل نے اسے دیکھتے ہی جلدی سے سلام کیا۔ علی روئی کو چلبل سے معلوم ہوا کہ حکیم الداس کوہنگامی صورت حال میں شہزادی اقابلہ سے کوئی بات کرنے کےلیے محل میں جانا پڑ گیا ہے۔
امپ کی مدد سے علی روئی نے خود کو مصروف رکھنا شروع کر دیا. مایا اور فلورا نے بھی وقتاً فوقتاً مدد کی لیکن فلورا میں اس طرح کی صلاحیت کی کمی تھی۔ وہ مدد سے زیادہ رکاوٹ کا سبب بنتی تھی۔ شمائلہ انتظار کرتے کرتے بیزار ہو گئی تھی، اس لیے اس نے پیگ سولٹیئر لیا جسے حکیم الداس نے میز پر چھوڑ دیا تھا۔ علی روئی نے سوچا کہ شطرنج کا یہ خوبصورت سیٹ شمائلہ کے ہاتھوں نہیں بچ سکتا۔ پھر اسے حکیم الداس کی بے بسی پر ترس آیا۔
بالآخرکچھ عرصے کے بعد علی روئی نےکام ختم کیا۔ شمائلہ نے سکھ کا سانس لیا اور میز پر ایک عجیب سا بڑا برتن دیکھا جس کے نیچے شعلہ جل رہا تھا۔ اس نے تجسس سے پوچھا:
’’بہت اچھی خوشبو آ رہی ہے! یہ کیا ہے؟‘‘۔
’’اسےہارٹ پاٹ کہتے ہیں، چلو اسے آزمائیں‘‘۔
چلبل نے دسترخوان لگایا۔ اس نے کچھ کٹے ہوئے گوشت کے ٹکڑے اور دوسرے لوازمات بھی برتن میں ڈالے۔ پچھلے باربی کیو کے بعد اب وہ دیومالائی دائرے کے عام مصالحہ جات کو جانتا تھا۔ اگرچہ یہاں کے اجزاء اور مصالحہ جات علی روئی کی پچھلی زندگی کی طرح بکثرت نہیں تھے، لیکن کئی منفرد مصالحے تھے جو اس دنیا میں دستیاب نہیں تھے۔ اس لیے یہ گھر کے کچھ کھانے پکانے کےلیے کافی تھا۔ شمائلہ نے علی روئی کا مشاہدہ کیا اور سیکھنے کی کوشش کی۔ وہ گوشت کا ایک ٹکڑا لینا چاہتی تھی۔ لیکن وہ علی روئی کے گھر کے بنے چینی کانٹے استعمال کرنا نہیں سمجھ سکی، اس لیے اس نے ایک چمچ سے شوربے کے ساتھ گوشت کاٹکڑا نکالا۔
’’واہ، یہ بہت گرم ہے! اتنا تیکھا‘‘۔
اس کے ہاتھ تیزی سے چل رہے تھے۔ جلد ہی نہ صرف ننھی شہزادی بلکہ فلورا اور مایا کو بھی ہاٹ پاٹ سے پسند آ گیا۔
’’جلدی نہ کریں، بلکہ کھانے کے تمام اجزاء تک ساتھ مل کر کھائیں‘‘۔
علی روئی نےسلاد شمائلہ کے حوالے کیا۔ اس نے امپ کو تھوک نگلتے دیکھا جو احترام سے پہلو میں کھڑا رہا تھا۔ اس نے کہا:
ُُ’’ چلبل !تم کیا کر رہے ہو؟ آؤ اور کھاؤ!‘‘
’’ چلبل بھی کھا سکتا ہے؟‘‘
چلبل نے تقریباًسوچا شاید اس نے غلط سنا ہے۔ اسے جواب دینے میں کافی وقت لگا۔ اس امتیازی سلوک کو یاد کرتے ہوئے جو بچپن سے برداشت کیا تھا، اس کی ننھی آنکھوں سے اچانک آنسوتیرنے لگے اور سوچنے لگا:
’’اے مالک! اتنے عظیم اور مہربان مالک! اس نظرِ عنایت کے بعد وہ معاہدے کے بغیربھی چلبل حکیم کو دھوکہ نہیں دے گا۔ جب تک میرے سامنے سو سیاہ کرسٹل سکے نہ ہوں! نہیں، دو سو ‘‘۔
علی روئی کے پاس شمائلہ کی طرح سوچ پرکھنے کی قابلیت نہیں تھی، اس لیے وہ امپ کے دل میں ہونے والی سودے بازی کو نہیں جانتا تھا۔ اس نے اپنے تازہ بھرتی کیے گئے خادم کے لیے مزید کھانا ڈالا۔ اس دل کو چھونے والی حرکت کے بعد اس نے اپنے آقا کو دھوکہ دینے کا سود دگنا کر کے چار سو کر دیا۔ سب سے نچلے طبقے سے امتیازی سلوک کی وجہ نے چلبل کی شمائلہ جیسے شاہی خاندان کے ساتھ ایک ہی میز پر کھانے کی ہمت نہیں کی تھی۔ یہ اس کی زندگی کا پہلا باعزت کھانا تھا۔
سب کچھ کھا جانے کے بعد شمائلہ نے اطمینان سے اپنے گول پیٹ کو چھوا اور علی روئی کو ستائشی نظروں سے دیکھا۔
’’علی روئی،!تم واقعی برے نہیں ہو۔ میں نے فیصلہ کر لیا ہے۔ اب سے تم خاص آدمی ہو‘‘۔
تجربہ گاہ میں یہ آواز گونجی اور وہ خاص آدمی سن کر حیران رہ گیا۔ خاص آدمی کا نوکر ابھی تک رشک کر رہا تھا۔ وہ دل ہی دل میں سوچ رہا تھا:
’’خوش قسمتی سے یہ پچھلی بار کی طرح کھلونا نہیں ہے۔ لیکن اگر شمائلہ نےاس بار مجھے کھلونا بنا لیا تو مجھے تو شہزادی کسی کام کا نہیں چھوڑے گی‘‘۔
’’یہ بہت بڑا اعزاز ہے‘‘۔
شمائلہ نے اپنی انگلیاں گنتے ہوئے کہا:
’’میرا خاص آدمی ہمیشہ میرے ساتھ رہے گا۔ ہر روز آپ کو مجھے کہانیاں سنانی پڑیں گی اور میرے لیے کھانا بنانا پڑے گا۔ اور اگر کسی دن مجھے تمہارے ہاتھ کا کھانا نہ ملا تو جو کرسٹل سکے تم کماؤ گے اس میں سے جرمانہ ادا کرنا پڑے گا‘‘۔
’’یہ تو غلامی سے بھی بدتر ہے؟ ‘‘۔
علی روئی کے دل میں خیال آیاتو اسے ٹھنڈا پسینہ آ گیا اور فیصلہ کن انداز میں اپنا سر ہلایا کر بولا:
’’میں ہمیشہ سے ایک شریف انسان رہا ہوں اور کبھی کسی کا احسان نہیں لیا۔ میں اتنا بڑا اعزاز لینے کے قابل نہیں ننھی شہزادی!‘‘۔
فلورا نے دیکھا کہ علی روئی نےہاٹ پاٹ میں ’’تریاق‘‘ کو مصالحے کے طور پر شامل کیا ہے۔ شمائلہ نے واقعی شک نہیں کیا اور اس نے مایا کے ساتھ بہت کچھ کھایا۔ فلورا کو آخر کار راحت ملی اور اس نے دل ہی دل میں اپنے انسانی دوست کو داد دی:
’’شمائلہ! وقت ضائع مت کریں، ہم پہلے ہی ہاٹ پاٹ کھا چکے ہیں۔ چلیں جلد واپس چلتے ہیں‘‘۔
’’مجھے ایسا کیوں لگتا ہے کہ تم دونوں آپس میں ملے ہوئے ہو‘‘۔
شمائلہ نے مشکوک نظروں سے فلورا کو دیکھا اورپھر علی روئی کی طرف کو گھورا۔
’’فلورا! شہر کے دروازے پر علی روئی سے دوستی کا دعویٰ کیا تھا تم نے‘‘۔
فلورا کا چہرہ قدرے گرم ہوا اس نے کھلے دل سے اعتراف کیا:
’’ہاں۔ اگرچہ میں اسے کافی عرصے سے نہیں جانتی ہوں لیکن میرے خیال میں علی روئی ایک دوست کے طور پرقابلِ ستائش ہےاور اس دیومالائی بزدل ایان سے کہیں زیادہ بہادر بھی‘‘۔
’’علی روئی کہانیاں سنا سکتاہے، مزے دار اور لذیذ کھانا بنا سکتا ہے‘‘۔
شمائلہ نے سوچا اور سر جھکا لیا، پھر اس نے سر ہلاکر کہا:
’’چونکہ وہ فلورا کا دوست ہے اس لیے اسے میرا دوست سمجھا جا سکتا ہے‘‘۔
علی روئی شمائلہ کے معیارِ دوستی لاجواب ہوگیا۔ شمائلہ اٹھی اورایک استادکی طرح علی روئی کے کندھے پر تھپکی دی:
’’آج کے بعد تمہیں کسی سےڈرنے کی ضرورت نہیں علی روئی! سوائے میرے‘‘۔
اسی لمحے حکیم الداس تجربہ گاہ کے داخلی دروازے سے نمودار ہوا۔
’’حکیم !‘‘۔
علی روئی آگے بڑھا۔
’’آئیں، یہ اچھی نئی چیزیں آزمائیں‘‘۔
سیاہ ایلف حکیم نے غیر معمولی طور پر سر ہلایا اور کچھ نہیں بولا۔ علی روئی نے پھر دیکھا کہ حکیم الداس کے سیاہ چہرے پر گہری اداسی اور سنجیدگی تھی۔
(نیرنگ آباد کے کسی رہائشی ہال میں)
ایان نے راکھ کے زرد چہرےکے ساتھ گانگا کی رپورٹ سنی اور پوچھا:
’’ کیا فلورا نے واقعی کہا تھا کہ وہ انسان اس کا دوست ہے؟‘‘۔
گانگا نے خوف اور گھبراہٹ میں جواب دیا:
’’ہاں جنرل! اسی لمحے بہت سے سپاہیوں نے بھی دیکھا کہ فلورا نے تمام لوگوں کے سامنے مجھ پر حملہ کیا۔ میں نے اپنی جان تقریباً کھو دی تھی‘‘۔
’’لعنتی انسان کی فلورا نے حمایت کیوں کی؟‘‘۔
ایان نے دانت پیس کر حسد بھرے لہجے میں کہا۔
’’ فلورا نےجج ہونےکےناطےاس کا احترام نہیں کیا حتیٰ کہ اس نے اس کی طرف براہ راست بھی نہیں دیکھا۔ اب اس نے درحقیقت اس انسان کودوست کہا جسے وہ کچھ عرصہ پہلے جانتی تک نہیں تھی اس کے لیے کھڑی ہو گئی۔ یہ ناقابل برداشت تھا۔
’’ٹھیک ہے گانگا!اب تم جا سکتے ہو‘‘۔
ہال میں ایک اور مدھم آواز آئی۔
’’جی، یوسف!‘‘۔
اس شخص کے لیے گانگا کی تعظیم اس کے اعلیٰ ترین ایان سے کم نہیں تھی۔ وہ پھر جھکااور چلا گیا۔
’’میرے دوست! مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اس وحشی عورت کی کون سی بات تمہیں پاگل بنا دیتی ہے۔ اگر تم عورت چاہتے ہو تو آسانی سے میسر آ سکتی ہے۔ کیا میں تمہیں چند بہترین لونڈیوں میں سے کوئی بھیجوں؟ ‘‘۔
یوسف نے شراب گلاس میں ڈالی اوردھیرے سے کہا:
یوسف کی شکل انسانی تھی۔ اس کا خون جینیاتی تبدیل شدہ ہونا چاہئےتھا۔ وہ خوبصورت اور پرسکون لگ رہا تھا۔ وہ ایان کےپرتشدد اور جنگی مزاج سے بالکل مختلف تھا۔
’’نہیں‘‘۔
ایان نے جواب دیا:
’’کیا آپ کو شہزادی اقابلہ میں بھی دلچسپی نہیں ہے؟ بس اتنی سی بات ہے کہ شہزادی اقابلہ واقعی خوبصورت ہے لیکن وہ برف کے پہاڑکی طرح ٹھنڈی ہے اور بالکل بھی کسی کام کی نہیں ہے۔ مجھے یہ سمجھ نہیں آرہی کہ تمہیں اس میں کیا چیز نظر آئی ہے؟‘‘۔
’’بیوقوف! میری پسند تمہارے جیسی نہیں ہے‘‘۔
یوسف نے دل ہی دل میں طنز کیا، لیکن اس کا چہرہ اب بھی پرسکون اور جذبات سے عاری تھا۔
’’بالکل تمہاری طرح۔ بس ہر ایک کی الگ ترجیح ہوتی ہے۔ میں ابھی نیرنگ آباد سے واپس آیا ہوں۔ ابھی تک علی روئی نامی اس انسان کے بارے میں کچھ نہیں جانتا‘‘۔
’’وہ ایک بےکار آدمی ہے جو غیر معمولی طور پر خوش قسمت ہے‘‘۔
ایان نے دانت پیستے ہوئے کہا:
’’یہ انسان تقریباً دس دن پہلے دیومالائی دائرے میں آیاتھا اور اسے فوجیوں نے پکڑ لیا تھا۔ تفتیش کے دوران پتہ چلا کہ اس کا نام آرتھر ہے اور ایک بے بس رئیس تھا۔ اس وقت حکیم الداس اسے ایک تجرباتی مضمون کے طور پر لے گیا تھا لیکن چند ہی دنوں میں یہ معجزانہ طور پر حکیم الداس کا شاگردبن گیا اور اس کی شناخت کو شہزادی اقابلہ نے عوامی سطح پر تسلیم کرلیا۔ میں واقعی نہیں جانتا کہ اس آدمی میں کیا خاص بات ہے۔ یہاں تک کہ فلورا اورننھی شہزادی بھی تقریباً ہر روز اس کے پاس جاتی ہیں‘‘۔
یوسف نے کچھ دیر سوچا اور کہا:
’’اس طرح اس کا سب سے بڑا سہارا سیاہ ایلف حکیم کی نظر میں اس کی ستائش ہے۔ میں ننھی شہزادی کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ وہ صرف متجسس ہے۔ شہزادی اقابلہ بھی حکیم الداس کے قریب آنے کے لیے ایسا کر رہی ہوں گی۔ تاہم اب حکیم الداس بھی بے بس ہے۔ وہ جلد ہی نیرنگ آباد چھوڑ دے گا۔ اس وقت تک یہ انسان اپنی قدر کھو چکا ہو گا۔ یہاں تک کہ اگرتم اسے ٹکڑے ٹکڑےبھی کرنا چاہوگے توبھی شہزادی اقابلہ تمہیں نہیں روکے گی‘‘۔
’’اس کے ساتھ دارالحکومت کا کوئی آدمی شامل ہے، حکیم الداس یقینی طور پر ہار جائے گا‘‘۔
ایان کا غصہ ذرا ٹھنڈا ہوا۔ اس نے سر ہلایا اور یوسف کی طرف جام لہراتے ہوئے کہا:
’’تم ٹھیک کہتے ہو۔ آؤ، جام پیتے ہیں!‘‘۔
محل کے باہر صحن میں موجود حکیم الداس کی تجربہ گاہ میں شمائلہ اور لڑکیوں کے جانے کے بعد صرف حکیم الداس اور علی روئی ہی رہ گئے تھے۔ مشاہدہ کرنے والے امپ نے دیکھا کہ استاد کا موڈ خراب ہے، اس لیے وہ پہلے ہی پیچھے ہٹ گیا۔
حکیم الداس نے چند موٹی کتابیں نکالیں’’ریفائننگ ایسنسیشل‘‘، ’’کامن پوشن ریسیپی‘‘، ’’پوائزن سپلیمنٹری میٹریل‘‘۔
’’علی روئی! یہ کتابیں آپ کے لیے ہیں‘‘۔
سیاہ ایلف نے آہ بھری۔
’’اب سے تم میرے بغیر رہو گے اور تمہیں سخت مطالعہ کرنا چاہیے۔ اگرچہ تم گرینڈ حکیم کے جانشین ہو لیکن سیکھنےکی عمر کبھی ختم نہیں ہوتی، اس لیے تمہیں کبھی بھی سست نہیں ہونا چاہیے۔ اس طرح تم محنت کرتے رہو گے تو ایک دن تمہاری کامیابیاں پوری دیومالائی دائرےکو چونکا دیں گی‘‘۔
علی روئی نے چونک کر کہا:
’’حکیم ، کیا ہوا؟ آپ کہاں جا رہے ہیں؟‘‘۔
’’شاید مجھے نیرنگ آباد چھوڑنا پڑے‘‘۔
حکیم الداس کےاداس چہرے پر اداسی تھی۔
’’دیومالائی دائرے میں صرف طاقت ور کی وکالت کی جاتی تھی۔ چاہے کوئی بھی شعبہ ہو مقابلہ سخت ہوتاتھا۔ ہر شے میں سخت مقابلہ ہے۔ ادویات کے شعبے میں اصول کافی منفرد ہے۔ اگر کوئی حکیم حکیم بننا چاہتا ہے تو اس کے پاس دو راستے تھے۔ پہلا یہ کہ دارالحکومت کی حکیمانہ آرگنائزیشن اسے تسلیم کرے۔ وہ پیچیدہ جائزوں کے ایک سلسلےسے گزرے۔ ایک مخصوص وقت کے اندر اعلیٰ ترین سفید دوائیاں درست طریقے سے تیار کرے اور کم از کم دو حکیم زسے اس کی تصدیق کرائے۔ دوسرا راستہ یہ تھا کہ حکیم انہ تنظیم کے گواہ کی موجودگی میں ایک معروف حکیم کو براہ راست چیلنج کرے۔ اگر وہ چیلنج میں کامیاب ہو جاتا ہےتو اس کو حکیم لیول پر ترقی دی جاتی ہےاورناکام حکیم کو اپنےعہدے سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ اسے تین سال کےلیے جلاوطن بھی کر دیا جاتا ہے۔ تین سال کے بعدوہ دوبارہ چیلنج کر سکتا ہے۔ یا اپنےتشخص کو دوبارہ سے حاصل کر سکتا ہے جس کو چیلنج کیا جا رہاہو اگر وہ چیلنج قبول کرنے سے انکار کرتا ہے تو اسے فوراً ناکام سمجھا جاتا ہے۔ تاہم چیلنج کرنےوالابھی خطرے میں ہوتا ہے۔ اسے شرط کے طور پر بہت زیادہ رقم لگانی پڑتی ہے۔ اگر چیلنج ناکام ہو جاتا ہے تو رقم مکمل طور پر حکیم کی ملکیت ہو تی ہے اوروہ تین سال تک دوبارہ چیلنج نہیں کر سکتا ہے۔
علی روئی سمجھ گیا کہ یہ بالکل جوئے کی طرح ہے۔ حکیم الداس نے پھر وضاحت کی کہ حکیم کے لیے پیسہ بہت ضروری ہے۔ کیونکہ ادویات سازی ایک مہنگا شعبہ ہے۔ ادویات سازی اور میکینکس دونوں کو بہت زیادہ مالی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ چاہے کیمیا سازی کی سطح کا کوئی تعین ہو یا کسی کیمیادان سے سیکھنا، سو دونوں کےلیے سب سے زیادہ رقم ادا کرنی پڑتی ہے۔ جس کے پاس معاشی طاقت اور اثر و رسوخ ہو اور وہ ان کی مدد کرنے پر آمادہ بھی ہو۔
علی روئی نے سوچا:
’’اس کے مقابلے میں میرے لیے تو شاگردی حاصل کرناتو بہت آسان تھا‘‘۔
حکیم الداس مالی پریشانیوں کی وجہ سے شدید مشکلات کا شکار تھا اور اسے کوئی منہ لگانے کو تیار نہیں تھا کیونکہ وہ بہت زیادہ قرض میں ڈوبا ہوا تھا۔ سب کچھ داؤ پر لگانے اور حکیم لیول کے امتحان میں ناکام ہونے کے بعد وہ اپناسارا اعتماد کھو چکا تھا۔ زندگی کے سب سے تاریک مقام پرحکیم الداس شہزادی اقابلہ سے ملا تھا۔ اس وقت اقابلہ کی عمر صرف سولہ سال تھی اور اس نے ابھی ابھی نیرنگ آباد پر قبضہ کیا تھا۔ تاہم وہ لوگوں کی صلاحیت پہچاننےمیں اچھی تھی اس لیے اس نے حکیم الداس کو قیمتی اثاثے فراہم کرنا مناسب سمجھا تھا۔ حکیم الداس کے حکیم بننے کے بعد اس نے اس کابدلاچکا دیا۔ اس نے دارالحکومت کی دعوت کو ٹھکرا کر اور نیرنگ آباد میں اقابلہ کی خدمت کے لیے قیام کیا۔
علی روئی کو اچانک احساس ہواکہ سیاہ ایلف حکیم کے دل میں شہزادی اقابلہ کے لئے مخلصانہ احترام۔ حکیم الداس نے آہ بھری:
’’کچھ مہینے پہلے، مجھے دارالحکومت سے حکیم اسوہ اور حکیم کیمپ کا خط موصول ہوا۔ خط میں انہوں نے مجھے ریجنٹ شوالہ کی خدمت کے لیے بھاری منافع کی پیشکش کی۔ میں نے سختی سے رد کر دیا۔ آج حکیمانہ تنظیم کے دارالحکومت شہر ڈویژن نے اچانک ایک جادوئی بلاوا بھیجا۔ دارالحکومت شہر سے تعلق رکھنے والے مہیرنامی ایک حکیم نے مجھے سرکاری طور پر چیلنج کیا، اس وقت دوحکیم حکیم ز اور مہیرپہلے ہی نیرنگ آباد کی طرف جا رہے ہیں۔ وہ دو دن میں پہنچ جائیں گے‘‘۔ چونکہ اُس نے مہربانی کو قبول نہیں کیا، اِس لیے اُس کی توقع کے مطابق شکست ہوئی۔
حکیم الداس اقابلہ کا قابل معاون تھا۔ اگر اسے شکست دے دی جاتی اور جلاوطن کر دیا جاتا تو نیرنگ آباد اسٹیٹ اور اقابلہ کی طاقت کی ساکھ بہت خراب ہو سکتی تھی۔ ظاہر ہے شہزادی اقابلہ کی طاقت کو کمزور کرنے لیے شہزادہ شوالہ کے پاس صرف یہی ایک راستہ تھا۔ دار الحکومت نیرنگ آباد سے بہت دور تھا۔ تیز ترین اڑنے والے پالتو جانورکے ساتھ بھی اس میں تقریباً ایک مہینہ لگ جاتا تھا۔ جادوئی بلاوا اس تک پہنچنے کے باوجود ایسا لگتا تھا کہ دوسرا فریق اسے جان بوجھ کر غیر تیار شدہ حالت میں پکڑنا چاہتا تھا۔
’’حکیم ! اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ دوسری پارٹی کیا منصوبہ بنا رہی ہے، آخر میں جیت طاقت کی ہی ہوگی‘‘۔
علی روئی نے سوچا اور کہا:
’’جب تک آپ مہیرکو شکست دے سکتے ہیں، دوسری پارٹی کی سازش ناکام رہے گی اور ساتھ ہی بہت سے پیسے بھی کھو دے گی‘‘۔
’’ یقیناً میں اسے سمجھتا ہوں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میں مہیرکا مخالف نہیں ہوں‘‘۔
حکیم الداس تلخی سے مسکرایا:
’’ مہیرسلطنت کا سب سے ذہین حکیم ہے۔ جب میں حکیم بننے کا امتحان دے رہا تھا تو اس کے پاس پہلے ہی اعلیٰ باصلاحیت حکیم کا خطاب تھا۔ اس کے علاوہ یہ آدمی پہلے سے ہی ایک طویل عرصے سے حکیم سطح کی طاقت رکھتا ہے، یہاں تک کہ بہت سے حکیم اس کا احترام کرتے ہیں۔ افواہوں کا کہنا ہے کہ اس نے ایک بار عہد کیا تھا کہ اگر اس نے سب سے طاقتور زہر نہیں بنایا تو وہ کبھی بھی حکیم حکیم کے امتحان میں حصہ نہیں لے گا۔ اب جب وہ مجھے چیلنج کرنے آیا ہے، ایک طرف وہ ریجنٹ کی طرف سے بھیجا گیاہے دوسری طرف اس کے پاس غالباً ایک نئے زہر کی تیاری میں اہم پیش رفت ہے اور وہ حکیم بننے کےلیے مجھے قربان کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ میں نے شہزادی اقابلہ کے ساتھ کونسل ہال میں کافی دیر تک بات چیت کی لیکن ہم کسی جوابی اقدام کے بارے میں نہیں سوچ سکے‘‘۔
علی روئی نے پوچھا:
’’حکیم ! اگر آپ فوری طور پر مہیرسے رابطہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آپ شہزادے شوالہ کی خدمت کرنے کے لیے تیار ہیں، تو کیا آپ اس چیلنج سے بچ سکتے ہیں؟‘‘۔
حکیم الداس نے اپنا سر مضبوطی سے ہلایا:
’’چونکہ میں نے پہلے شہزادےشوالہ کی دعوت سے انکار کیا تھا اس لیے اب میں بھی اسے قبول نہیں کروں گا۔ اگرچہ ہم ڈارک ایلوز کسی بھی معزز یا معاف کرنے والوں جیسے منافق لوگوں کی پروا نہیں کرتے لیکن ہم ہمیشہ اپنے ساتھ دوسروں کے احسان کو یاد رکھتے ہیں۔ اگر میں تین سال کے لیے جلاوطن ہو بھی جاؤں تب بھی حکیم بننے کی پوری کوشش کروں گا اور اس کی خدمت جاری رکھوں گا‘‘۔
’’چونکہ شہزادہ شوالہ نے اقابلہ سے نمٹنے کا ارادہ کر لیاتھا اس لیے حکیم الداس کا اپنی جلاوطنی کے دوران زندہ رہنا مشکل ہو سکتا تھا۔ یہاں تک کہ اگر سیاہ ایلف زندہ رہ بھی لے اور ایک حکیم کارتبہ دوبارہ حاصل کربھی لے کیا نیرنگ آباد جو پہلے ہی بحران کا شکار تھی تین سال تک اقابلہ کے ہاتھ میں رہے گی؟‘‘۔
علی روئی بھی اس نکتے کو سمجھ سکتا تھا تو ظاہر ہےکہ حکیم الداس بھی اس سے آگاہ ہوگا۔
حکیم الداس نے مزید کچھ نہیں کہا۔ وہ اپنی دوائیوں اور کتابوں کو صاف کرتا رہا۔ وہ کسی بھی وقت جانے کے لیے تیار تھا۔ علی روئی نے حکیم الداس کو صفائی کرنے میں کوئی مدد نہیں کی بلکہ پریشان کھڑا رہا۔ حکیم الداس ماہرِتعلیم تھا۔ اگرچہ وہ بطور سیاہ ایلف تھوڑا مکار تھا لیکن اس نے علی روئی کو ادویات کا علم سکھانے میں کوئی چیز چھپائی اور نہ ہی کسی قسم کا نسلی امتیاز کیا۔ اس کے علاو ہ حکیم باہر کی اس دنیا میں علی روئی کا بہترین محافظ بھی تھا۔ چاہے اپنے لیے یا حکیم الداس کے لیے، علی روئی کو اس کی مدد کرنے کی کوشش کرنی چاہیےتھی۔ اس کے علاوہ سپرسسٹم کی بوٹنگ کا عمل منجمد تھا۔ مہیرکا یہ نیا زہر ایک اہم موڑ ثابت ہوسکتا تھا۔ اسی غور و فکر میں علی روئی کے ذہن میں آہستہ آہستہ ایک بےباک منصوبہ تشکیل پایا۔
’’حکیم ! رکیں۔ اتنی جلدی مایوسی کا شکار نہ ہوں۔ اگر میرا منصوبہ کامیاب ہو گیا تو ہم شاید نہ ہاریں‘‘۔
علی روئی نے غور سے سوچنے کے بعد مسکراتے ہوئے کہا:
’’شاید ہم سب سے پہلے پیسوں کی تقسیم کے مسئلے پر آرام سے بات کر سکتے ہیں‘‘۔
ان الفاظ نے حکیم الداس کو قدرے دنگ کر دیا اور اس کی غمگین آنکھیں اچانک کھل گئیں۔
اس وقت نیرنگ آباد کے اندر دانستہ طور پر پھیلائی جانے والی افواہوں کے تحت یہ خبرجنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی کہ دارالحکومت کے باصلاحیت حکیم نے دو دن میں حکیم الداس کو چیلنج کیاہے۔ یہ نیرنگ آباد کے اندر ایک گرما گرم موضوع بن گیا۔
دو دن تیزی سے گزر گئے۔ جیسا کہ جادوئی بلاوےمیں ذکر کیا گیا تھا کہ داراحکومت سے آنے والی پارٹی نیرنگ آباد کے باہر عین وقت پر پہنچ گئی۔
دارالحکومت سے آنے والی ٹیم میں طاقتور نائٹ اور اسلحےسے لیس سپاہی شامل تھے لیکن سب سے زیادہ توجہ کا حامل ادھیڑ عمر کا آدمی تھا جو کالے جادو ئی گھوڑے پر سوار تھا۔ دیکھنے میں وہ عام سا لگ رہا تھا۔ تاہم اس کے ساتھ والے دو حکیم حکیموں میں بھی اس آدمی کو نظر انداز کرنے کی ہمت نہیں کی کیونکہ وہ مہیر تھا، تومانی سلطنت کا سب سے نمایاںاور باصلاحیت حکیم ۔ اس گروپ کا ذاتی طور پر شہزادی اقابلہ نے شہر کے دروازے پر استقبال کیا۔ اگرچہ لوگوں نے ولی عہد کی اولاد شہزادی اقابلہ کے ساتھ کافی شائستگی اور احترام کا مظاہرہ کیا، ان میں سے بہت سے لوگوں نے محل کے راستے میں آنے والی تاریک عمارتوں پر نفرت بھری نگاہ ڈالی۔ بڑے شہر کے رہائشی ہونے کی وجہ سے نام نہاد احساسِ برتری ان کے چہروں پر عیاں تھی۔ محل میں داخل ہونے کے بعد مہمانوں اور میزبانوں کو بٹھایا گیا، پھر اقابلہ نے کہا:
’’آپ میں سے بہت سے لوگوں کا سفر لمبا تھا۔ آپ تھک چکے ہوں گے۔ کیوں نہ ایک دن آرام کریں، چیلنج کی بات کل کرلیں گے‘‘۔
مہیرنے اٹھ کر کہا:
’’مہارانی!میں یہاں خاص طور پر حکیم الداس کو چیلنج کرنے آیا ہوں۔ میری درخواست ہے کہ چیلنج ابھی شروع کیا جائے۔ براہ کرم میری حکیم بننے کی خواہش کو سمجھیں‘‘۔
ساتھ بیٹھے حکیم اسوہ اور حکیم کیمپ دونوں بیک وقت مسکرائے۔ اصل منصوبہ یہ تھا کہ حکیم الداس کو اچانک گھیر لیاجائے۔ دو دن پہلے مطلع کرنے کا مطلب ہی یہی تھا کہ حکیم الداس تیاری نہ کرسکے سو وہ اب تاخیر کا موقع اسے کیسے دیتے۔
’’اتنی بری جگہ پر آرام کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے‘‘۔
مہمانوں کی طرف سے ایک طنزیہ آواز آئی۔ یہ وہ نوجوان نائٹ تھا جوچاندی کی بکتر پہن کر ٹیم کو لے کر آیا تھا۔
اقابلہ نے پہچان لیا کہ یہ، چیلٹ تھاجو فوج میں نیا شامل ہوا تھا۔ اس کے والد سلطنت کے تین جرنیلوں میں سے پہلے تھے جنہوں نے شوالہ کو دھوکہ دیا۔ اقابلہ کے ماتھے پر ہلکا سا بل آیالیکن اس نے یہ جتایا جیسے اس نے سنا ہی نہ ہو۔ اس کے برعکس، فلورا بول اٹھی:
’’ چیلٹ !بزدل آدمی! شہزادی کی توہین کرنے کی تمہاری اتنی ہمت ! اگر ہمت ہے تو نکالو اپنی تلوار، میں بھی تو دیکھوں کہ اس بزدل میں کتنا دم ہے‘‘۔
چیلٹ چند سال قبل جونیئر تلوار سازی کے مقابلے میں فلورا سے ہار گیا تھا۔ ایسے عوام میں بے نقاب کرنےپر وہ غصے میں آ گیا لیکن اسے حکیم کیمپ نے روک دیا۔ اس وقت اگر وہ کسی اور مسئلے میں پڑتے تو اقابلہ کا منصوبہ کامیاب ہو جاتا۔ اس وقت انہیں مسئلے پر توجہ دینی چاہیے تھی۔
حکیم اسوہ بھی سیاہ ایلف تھا۔ اس نے کہا:
’’حکیم الداس نظر نہیں آ رہے؟ حکیم کو حکیم الائنس کے قوانین کے مطابق چیلنج کو قبول کرنا چاہیے۔ مذاکرات کی ضرورت نہیں ہے۔ کیوں نہ ہم اس کی تجربہ گاہ میں جائیں‘‘۔
اقابلہ نے جب سنا کہ حکیم اسوہ سیدھا موضوع پر آ گیا ہے تو وہ گھبرائی نہیں۔ اس نے بس اتنا بولا:
’’ دراصل، تین دن پہلے حکیم الداس نئی ادویات بناتے ہوئے حادثے کا شکار ہو گئے تھے۔ وہ شدید زخمی ہیں اور حرکت کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھے ہیں۔ اس لیے وہ نہیں آ سکے۔ تبھی تو میں نے کہا کہ ہمیں بات کرنی چاہیے‘‘۔
’’اوہ؟‘‘۔
حکیم اسوہ نے طنز کیا:
’’حکیم الداس کو حادثہ اس وقت کیوں پیش آیا جب ہم یہاں ہیں؟ کیا وہ مہیرکی ہیبت سے خوفزدہ ہے اور چیلنج سے بچنے کے لئے بہانا کر رہا ہے؟‘‘۔
اقابلہ نےچہرے کے تاثرات بدلے بغیر کہا:
’’حکیم الداس کا تین دن پہلےحادثہ ہوا تھا۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ مہیرچیلنج کےلیے آئے گا۔ سفر پر غور کریں تو دارالحکومت سے ہر ایک کو سفر کرنے میں کم از کم ایک مہینہ لگتا ہے۔ تو ہمیں آپ کی آمد سے صرف دو دن پہلے حکیم الائنس کی طرف سے جادوئی بلاوا کیوں موصول ہوا ؟‘‘۔
اس جملے نے سب کچھ واضح کردیا۔ نہ صرف حکیم الداس کی بے گناہی کو بلکہ مبہم طور پر یہ نشاندہی بھی کی کہ یہ ایک سازش تھی۔ حکیم اسوہ اچانک ہکا بکا رہ گیا۔ حکیم کیمپ بولا:
’’شہزادی اقابلہ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ اصل میں ہمیں سرمانی سلطنت کا بادشاہ ، سر جوش نےسرمانی سلطنت کا دورہ کرنے کی دعوت دی تھی۔ مہیرنےیہ فیصلہ اچانک کیا اور حکیم الداس کو چیلنج کرنے کے لیے پہلے نیرنگ آباد اسٹیٹ میں آنے کا فیصلہ کیا۔ اسی لیے جادوئی بلاوا اتنی جلدی میں آیا۔ اگر شہزادی کو یقین نہیں آتا تو آپ جوش کے بڑے بیٹے یوسف سے پوچھ سکتی ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ وہ نیرنگ آباد کاخزانچی ہے‘‘۔
سرمانی سلطنت نیرنگ آباد اسٹیٹ سے متصل تھی۔ شہزادہ شوالہ کے ایک رازدار کے طور پر، سرمانی سلطنت کا بادشاہ نیرنگ آباد پر نگرانی کے لیے دارالحکومت کی ’’آنکھ‘‘ تھا۔ چونکہ نیرنگ آباد اسٹیٹ کے لیے زیادہ تر وسائل اور فنڈز سرمانی سلطنت سے آئے تھے، اس لیے اقابلہ کو ’’وفاداری کا حلف‘‘ لینے والےیوسف کو ایک اہم عہدے پر رکھنا پڑا۔ دیکھنے میں یوسف نیرنگ آباد کا ہی باشندہ لگتا تھا۔ اگر اس نے اس معاملے کی گواہی دے دی تو یہ اور بھی ناقابل تردید تھا۔ ویسے بھی مہیرکا چیلنج طریقہ کار کے مطابق تھا۔ نوٹس کے وقت کے بارے میں بحث کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔
’’سب ٹھیک ہے۔ میں حکیم کیمپ پر یقین کیوں نہیں کروں گی‘‘۔
اقابلہ نے اطمینان سے سر ہلایا اور گویا ہوئی:
’’میں نے کاگولن کو زخمی حکیم الداس سے پوچھنے کے لیے بھیجا ہے کہ آیاوہ چیلنج کو آگے بڑھانے کی درخواست کرتے ہیں یا نہیں‘‘۔
کیمپ اور اسوہ نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور تیزی سے اپنی رائے کا تبادلہ کیا۔
کوئی فریق ہمیشہ کے لیے چھپ نہیں سکتا تھا۔ اگر حکیم الداس ملتوی کرنا چاہے تو مہیرنیرنگ آباد میں اس وقت تک رہ سکتا تھا جب تک کہ حکیم الداس ’’صحت یاب‘‘ نہ ہو جائے۔ بہرحال، وہ اس وقت تک ہارماننے والے نہیں تھے جب تک کہ حکیم الداس کو ملک بدر نہیں کر دیا جاتا۔
جلد ہی امپیریل گارڈ کے رہنما کاگورون کی رپورٹ نے دارالحکومت شہر سے آنے والے مہمانوںبشمول مہیرکو حیران کر دیا۔ شدید زخمی حکیم الداس چیلنج ملتوی کرنے کو تیار نہیں تھا۔ اس نے اسی وقت نیرنگ آباد کے میدا ن میں چیلنج کےلیے حامی بھر لی تھی۔
مہیرحیرانی سے بولا:
’’حکیم الداس کا زخمی حالت میں مقابلے پر راضی ہونا حیران کن بات ہے۔ اسے اپنا احترام ظاہر کرنے کے لیےمیں ابھی میدان میں جاؤں گا اور چیلنج شروع کروں گا‘‘۔
اقابلہ کے ٹھنڈے چہرے پر کوئی اتار چڑھاؤ نظر نہیں آرہا تھا۔ اس نے سکون سے کہا:
’’اگر ایسی بات ہے توبرائے مہربانی ایک لمحہ انتظار کریں۔ میں فوراً کسی کو میدان میں بھیج کر ساری تیاریاں مکمل کرواتی ہوں‘‘۔
نیرنگ آباد میدان شہر کی سب سے بڑی عمارتوں میں سے ایک تھا۔ یہ چار سو سال پہلے کافی مشہور تھا۔ بیلزبب شاہی خاندان جو اس وقت تاریخ کے صفحات سے غائب ہو گیا تھا، کچھ سالوں بعد نیرنگ آباد میں نمودار ہوا تھا۔ انہوں نے نیرنگ آباد اسٹیٹ پر قابو پالیا تھا اوسرمانی سلطنت کو فتح کرنے کی کوشش کی۔ تاریک سورج کا بادشاہ یہ خبر سن کراس میدان میں بیلزبب شاہی خاندان کے خلاف لڑنے آیااور اس نے بری طرح شکست دی۔ تب سے کسی نے اس آدمی کے بارے میں نہیں سنا۔
میدان اپنی طویل تاریخ کی وجہ سے خستہ حال تھا۔ کاگولن اور سپاہیوں کی محنت سے میدان کو تیزی سے صاف کیا گیا۔ ایک اسٹیج بنایا گیا اور وی آئی پی سیٹوں کی قطاریں لگائی گئیں۔ عوام کےلیے کوئی خاص انتظام نہیں تھا لیکن اس سے ان کے جوش و جذبے پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ سالوں سے ویران میدان جلد ہی بھر گیا۔ گرچہ سب حکیم الداس سے خوف زدہ تھے پھر بھی دل ہی دل میں وہ پر امید تھے کہ اپنے حریفوں پر قابو پا لے گا اوراور نیرنگ آباد کی عزت رکھے گا۔ مہیرکے نوکر نے مہارت سے آلات اوردیگر سامان کا ایک سیٹ ترتیب دیا۔ دوسری طرف حکیم الداس کو بھی سٹریچر کے ذریعے میدان میں لے جایا جا رہا تھاجس کے پیچھے اس کا نیا شاگرد علی روئی تھا۔ عوام میں اسے دیکھ کر ہاہاکار مچ گئی۔
’’انسان ؟‘‘۔
علی روئی کو دیکھ کر مہیرکے ماتھے پر بل پڑھ گئے۔ اقابلہ نے جب علی روئی کا تعارف کرایا تو اس کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ آگئی۔ اسوہ اور کیمپ نے بھی حقیقت جان کر علی روئی کوحقارت سے دیکھا۔
اتنے بڑے ہجوم کا سامنا علی روئی نے پہلی بار کیا تھا۔ اپنے اردگرد ڈیمنوں کے عجیب و غریب چہروں کو دیکھتے ہوئےاس نے اپنے اعصاب مضبوط کیے اور معززین کے سامنے جھک کر کہا:
’’میں حکیم الداس کا نیا شاگرد علی روئی ہوں۔ چونکہ حکیم ایک تجربے کے دوران حادثاتی طور پر زخمی ہو گئے ہیں اور وہ عارضی طور پر کام کرنے سے قاصر ہیں، اس لیے وہ مجھے چیلنج قبول کرنے کی ہدایت دیں گے۔ کیا سر مہیرمتفق ہیں؟‘‘۔
مہیرنے سوچا:
’’ شاگرد کو چیلنج قبول کرنے کی ہدایت کرنا اور وہ بھی ایک نیا شاگردہے! ‘‘۔
حکیم چیلنج کی تاریخ میں یہ پہلا واقعہ تھا۔ اگرچہ حکیم الداس شدید زخمی تھا اور کام کرنے سے قاصر تھا، مہیرنے پھر بھی واضح طور پراسے اپنی توہین سمجھا۔
’’ کیا یہ اس لیے ہے کہ حکیم الداس جانتا ہے کہ وہ ناکام ہو جائے گا، پہلے وہ اپنے حریف کی توہین تو کر لے‘‘۔
مہیرنے سوچا:
’’مجھے منظور ہے‘‘۔
مہیرنے دور سے حکیم الداس کو دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں سفاکانہ چمک تھی۔
’’میں زندگی اور موت کی جنگ مانگتا ہوں۔ مجھے نہیں معلوم کہ حکیم الداس میں اتنی ہمت ہے کہ وہ انسانی شاگرد کو اپنی جگہ بھیجیں‘‘۔
’’زندگی اور موت کی جنگ! ‘‘
اسوہ اور کیمپ نے حیرت سے دیکھا۔ زندگی اور موت کی جنگ میں کسی متبادل کے بجائے براہ راست ایک دوسرے پر زہرآزمانا ہوتاتھا۔ زہر کے اثر سے جو پہلے مر جائے ہار جاتا تھا۔ یہ عام طور پر اس وقت کیا جاتا تھا جب دونوں فریق ایک دوسرے سے شدید نفرت رکھتے ہوں۔ اس اصول کے تحت اگر حکیم الداس نے ایک شاگرد کو بھی بھیجا ہوا ہو، جب شاگرد زہرکے اثر سے مرے گا تو حکیم الداس کو بھی سزائے موت دی جائے گی۔
اسوہ اور کیمپ کو مہیرکی طاقت پر پورا بھروسہ تھا۔ حکیم الداس گہری سوچ میں پڑ گیا۔ علی روئی خوفزدہ ہو کر حکیم الداس کے پاس گیا اور کوئی سرگوشی کی۔ اس کے زخم جعلی نہیں تھے۔ سیاہ ایلف غصے میں تھا اوراپنی لرزتی ہوئی انگلی سے انسان کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔ لیکن وہ انگلی کو تھوڑا ہی اٹھا سکا۔
چاروں طرف شور تھا۔ یہاں تک کہ کوئی گہری سماعت والابھی ان دونوں کی سرگوشیوں کو صاف طور پر نہیں سن سکتا تھا۔ یوسف نے سب کچھ دیکھا اور اس کی پیشانی پر بل تھا۔ اس نے سوچا:
’’جاسوس کی معلومات کی بنیاد پر حکیم الداس تین دن پہلے زخمی نہیں ہوا تھا۔ اس کے بجائے وہ پچھلے دو دنوں سے تجربہ گاہ میں رہا۔ کیا ایسا تو نہیں ہےکہ مہیرسے نمٹنے کے لیے وہ زیادہ محنت طلب دوائیاں بنانے میں لگا رہا اور حادثاتی طور پر زخمی ہو گیا ہے‘‘۔
بالآخر حکیم الداس نے زندگی اور موت کی جنگ کے لیےاپنی جگہ اپنے شاگرد علی روئی کو بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ ایسا لگتا تھا کہ سیاہ ایلف حکیم شہزادی اقابلہ کی مہربانیوں کا بدلہ چکانے کے لیے اپنی موت کے ساتھ جوا کھیلنا چاہتا ہے۔ گارڈ ز نے جب عوا م کو زندگی اورموت کے قوانین بتائےتو نیرنگ آباد کے مکینوں میں ہنگامہ برپا ہوگیا۔ ان کو یہ کھیل دل چسپ لگ رہا تھا۔ ا نہوں نے محسوس کیا کہ یہ زیادہ دلچسپ ہے۔ وہ دواسازی کو نہیں سمجھ سکتے تھے لیکن زندگی اور موت کو ضرور سمجھ سکتے تھے۔
مہیرسفاکی سے مسکرایا۔ اس کےلیے جنگ میں اب کوئی تجسس نہیں تھا۔ جو نیا زہر اس نے تیار کیا تھا اس سے تو حکیم الداس بھی نہ بچ سکتا تو اس کمزور کی بھلا کیا اوقات۔ شہزادی اقابلہ نے مقابلہ شروع کرنے کا اعلان کیا توآس پاس کی سب آوازیں اچانک بند ہو گئیں۔ سب کی نظریں بیچارے انسان پر مرکوز تھیں۔ کوئی پہلے ہی شرط لگا رہا تھا۔
’’ زہر پی کر انسان کتنا جی سکتا ہے؟، ایک سیکنڈ؟ دو سیکنڈ؟‘‘۔
مہیرنے تیزی سے زہر بنانا شروع کیا۔ اس کی پھرتی کو حکیم اسوہ اور حکیم کیمپ نے حسرت سے دیکھا۔ باصلاحیت حکیم واقعی اسی ساکھ کا مستحق تھا۔ صرف دو منٹ میں زہر کی بوتل تیار ہو چکی تھی۔ دوسری طرف شاگردعلی روئی ابھی اناڑی تھا۔ اس نے تو خام مال کی درجہ بندی بھی مکمل نہیں کی تھی۔ قواعد کے مطابق اگر ایک فریق شرزہر بنا لیتا ہے تو دوسر ے فریق کو زہر بنانا روک دیاجاتا ہے اور اسے مخصوص وقت میں تریاق تیار کرنا پڑتا ہے تاکہ وہ زہر سے پہلے اسے پی سکے۔ بنانےوالے کی مہارت اور حکمت کا امتحان بھی تھا۔ اگر کوئی بہت جلد بازی دکھائے تب بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے بنائے گئے زہر میں طاقت نہ ہو اور اگر کوئی ضرورت سے زیادہ سستی کا مظاہرہ کرے تب بھی یہ خطرہ ہوتا۔ جب پہلےفریق نے زہر بنا لیاتو مہیرنے ریفری کو مخالف فریق کو زہر دینے کا اشارہ کیا۔ علی روئی بہت گھبرایا ہوا نظرآ رہا تھا۔ پہلےاس نے اپنی آنکھیں بند کیں اور دعا کی۔ پھر کانپتے ہوئےہاتھوں سے گہرے سبز رنگ کی بوتل اٹھائی۔ کائی نہیں جانتا تھا کہ وہ دراصل کیا دعا کر رہا ہے۔۔۔۔ ترقی۔۔۔۔ ترقی۔
علی روئی نے سب کی طرف دیکھا، ہاتھ میں موجود دوائیوں کی طرف دیکھا اورپھر حکیم الداس کے پاس چلا گیا۔ حکیم نےدوائیوں کو سونگھنے کے بعد اس کے کان میں کوئی بات کہی۔ پھر علی روئی نے ہچکچاتے ہوئے تریاق پینے کے بعد مہیرکازہر بھی پی لیا۔
کچھ لمحے گزرے۔ انسان ابھی زندہ تھا، وہ حیران ہوا، ایسا لگتا تھا کہ حکیم الداس کا تریاق کام کر رہا ہے۔ حاضرین نے فوراً داد دی کہ کم از کم نیرنگ آباد کی ساکھ تو بچ گئی۔ انسان کو زہر دے کر موت کی شرط لگانے والوں کی ہوائیاں اڑی ہوئی تھیں۔ بلاشبہ، علی روئی حیران تھا کیونکہ سپرسسٹم کی پیشرفت جو کہ جمود کا شکار ہو چکی تھی، بڑھ کر91.5 فیصد ہو گئی۔
اثر برا نہیں تھا۔ یہ اصل میں اعلیٰ تکمیل کی پیشرفت کی شرط کے ساتھ 1.5فیصدبڑھ گیا۔ دونوں ریفری حکیم وں نے علی روئی کی طرف دیکھا جو بالکل صحیح سلامت تھا۔ پھر انہوں نے مہیرکی طرف دیکھا۔ مہیرکو بڑا تعجب ہوا۔ اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ حکیم الداس اتنا طاقتور ہے کہ وہ صرف سونگھ کر زہر کی نوعیت کا تجزیہ کر سکتا ہے۔
’’ہمم۔۔۔ وہ صرف خوش قسمت تھا‘‘۔
مہیرکی حیرت صرف چند لمحوں کے لیے ہی رہی۔ اس کے بعد اس نے فوراً دوائیاں بنانا شروع کر دیں۔ یہ ایک نئی آزمائش تھی۔ انسان شاگرد اگرچہ اس کام کےلیےبالکل نیا تھا لیکن اسے کوئی ڈر نہیں تھا۔ وہ ذہنی سکون کے ساتھ ایک پیچیدہ زہر کو ترتیب دے سکتا تھا۔ دس منٹ بعد مہیرکا نیا زہر دوبارہ متعارف کرایا گیا، اور علی روئی اس نسخے کے صرف ایک حصے کو بمشکل ہی ملا سکا۔ یہاں تک کہ شوقیہ سامعین بھی حکیم الداس کی بےچینی سےبتا سکتے تھے کہ حالات ٹھیک نہیں ہیں۔ پچھلی دفعہ کی طرح علی روئی نے ہچکچاتے ہوئے زہر لیا اور حکیم الداس سے رہنمائی لی۔ اس نے پہلے تریاق لیا اور پھر مہیرکا زہر پیا۔ اس نتیجے نےبھی ایک بار پھر باصلاحیت حکیم اور حکیموں کو دنگ کر دیا۔ وقت گزرنے کے بعد علی روئی اپنی بہترین حالت میں تھا۔ سسٹم شروعاتی پیشرفت94 فیصد تک پہنچ گئی تھی جب کہ سامعین خوشی کا اظہار کر رہے تھے۔ علی روئی بمشکل اپنے جذبات پر قابو پا رہا تھا:
’’اپنی کوشش جاری رکھو‘‘۔
مہیرکو اشتعال دلانے کےلیےعلی روئی نے زہر کے تیسرےمرحلے میں شیخی بگھاری، زہر نے اثر دکھانا شروع کیا اور وہ پیٹ پکڑ کر زمین پر بیٹھ گیا۔ علی روئی کی حالت نے سامعین کو بے چین کر دیا۔ یہاں تک کہ فلورا بھی مددنہ کر سکی لیکن پریشانی میں کھڑی ہو گئی۔ سب کی نگاہیں اس پر جمی تھیں کہ علی روئی لڑکھڑاتے ہوئےکھڑا ہو گیا۔ اس کے قدم جمنے لگے۔ آخرکار اس کی حالت بحال ہوگئی۔ لیکن ایسے لگ رہا تھا جیسے وہ مرتے مرتے بچا ہو۔ فلورا اور سب نے خوشی کا اظہار کیا سوائے اس کے پہلو میں موجود ننھی شہزادی جس نے آہستہ سے ہونٹوں کو جنبش دی۔
’’یہ نہیں ہو سکتا!‘‘۔
مہیرکا رنگ بےیقینی سے اُڑا ہوا تھا۔ اگر اس نے نئی اقسام کا زہر بنانے کا حلف نہ لیا ہوتا تو اب تک حکیم بن چکا ہوتا۔ لیکن اس ذمہ داری کی وجہ سے وہ نام بنانے کے باوجود ایک شاگرد ہی رہا تھا۔ پھر بھی سب اس کی عزت کرتے تھے۔ حکیم الداس جیسا معمولی شخص جس نے حکیم لیول کا امتحان بھی ڈرتے ڈرتے پاس کیا اور تمام عمر شہزادی اقابلہ کے ٹکڑوں پر پلتا رہا ہو، اس کے مقابلے میں کیسے آ سکتا تھا جس نے برسوں اعلیٰ سطح کے زہر بنانے میں لگا دیے ہوں۔ تریاق تیار کرنا تو زہر سے بھی مشکل کام تھا اور قلیل وسائل میں تو لگ بھگ ناممکن تھا۔ پھر وہ زہر جو مہیرنے کئی سالوں تک خفیہ رکھا کہ کہیں حکیم الداس اس کا تریاق نہ تیار کرے۔ ایسے حالات میں تریاق بنانا ایک ناممکن کام تھا۔ اگرچہ ایک انسان ہونے کی وجہ سے علی روئی سے ظالمانہ برتاؤ کہا جاتا تھا لیکن نیرنگ آباد کی نمائندگی کےلیے اسی انسان کا انتخاب کیا گیا۔ فضا میں عوام کے نعرے بلند ہوئے۔
’’یہ کون سا نابغہ ہےجو ہمارے کمزور ترین شاگرد سے بھی مقابلہ کرنے سے ڈر رہا ہے۔ واپس جاؤ اور تیاری کر کے آؤ۔ مجھے لگتا ہے انسان تو انسان، اس سے ایک کیڑا بھی نہیں مرے گا‘‘۔
برسوں سےسب سے بڑے نابغہ کا عنوان حاصل کرنے والا مہیرکو کبھی بھی اس طرح کی توہین کا سامنا نہیں کرنا پڑاتھا۔ غصے سے اس کا چہرہ لال پیلا ہو گیا۔ اس وقت کے لیے سب سےبڑا نعرہ یہ تھا کہ انسان کو اس وقت تک زہر دیا جائے جب تک کہ ان کے پاس کچھ باقی نہ رہے۔ مہیرنے ایک گہرا سانس لیا۔ اس کا غرور ختم ہو چکا تھا۔ آخر کا وہ پرسکون ہو گیا۔
اس بارمہیرکئی سالوں کی اپنی سب سے بڑی کامیابی، روح توڑ زہر کو ترتیب دینا چاہتا تھا۔ تحقیق کے کامیاب ہونے کے بعد اس کا تجربہ زہریلے وائیورن پر کیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وائیورن بھی زہر برداشت نہ کر سکا۔ روح توڑ زہر کو ترتیب دینا بہت مشکل تھا۔ اگرچہ مہیرکی ناکا می متوقع تھی لیکن وہ ہمت نہ ہارا۔ وہ اپنے نابغہ ہونے کا خطاب کھونا نہیں چاہتا تھا۔
علی روئی کا سپرسسٹم98فیصد تک پہنچ چکا تھا۔ بس اب تھوڑا سا اور چاہیے۔ اس لیے وہ مہیرکو بھڑکا رہا تھا کہ تمہیں مزید محنت کرنی چاہیے۔ اگر مہیرکو معلوم ہوتا کہ علی روئی اپنی طاقت بڑھنے پر خوش ہو رہا ہے تو وہ لیچ پر اتنا غصہ کرتا کہ اس کے ناک منہ سے خون پھوٹ پڑتا۔ لیکن وہ اس وقت اپنی ساری توجہ دوائیاں بنانے پہ مرکوز کیے بیٹھا تھا۔
حکیم کیمپ نے جب علی روئی کو دیکھا تو اسے لگا کہ کچھ غلط ہے لیکن کیا غلط ہے اس کی نشاندہی وہ نہ کر سکا۔ مہیرکی دوسری ناکامی کے بعد سے حکیم کیمپ نےعلی روئی پر نظر رکھنی شروع کی۔ اپنی حرکتوں اور انداز سے وہ ایک اناڑی ہی معلوم ہو رہا تھا۔ ’’تریاق‘‘ آہستہ آہستہ تیار کیا گیا۔ وہ صرف چند بنیادی ترکیبوں سے ہی بنا تھا۔ یہ تریاق جو انسان سے بھی زیادہ بےکار معلوم ہوتا تھا لیکن حکیم الداس نے نہ جانے کیا مشورہ دیا کہ تریاق مہیرکے مہلک زہر کا مقابلہ کر گیا۔ بہرحال حکیم کیمپ حیران تھا، مہیرنے آخر کار روح توڑ زہر کی تشکیل مکمل کر لی۔ باصلاحیت حکیم جس نے اپنے دفاع کے جذبے کو بیدار کیا تھا اس نے اس بار بالکل بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا کیونکہ ترتیب ایک ہی وقت میں کامیاب رہی۔
مہیربے حد احتیاط کے ساتھ دوائیاں پکڑے پراعتماد چال چلتا ہواآ گیا۔ اسے اس بار یقین تھا کہ اس کی دوائیاں ڈریگن کو بھی مار گرائیں گی، انسان کیا چیز ہے۔ انسان جس پر ایک ڈریگن کے زہر کا بھی کچھ اثر نہ ہوا۔ یہ زہر اس کا کیا بگاڑ سکتا ہے۔
جب علی روئی دوائیاں لے دوبارہ حکیم الداس کے پاس گیا تو مہیربولا:
’’ٹھہرو!‘‘۔ تم دونوں کے مرنے سے پہلے مجھے کچھ کہنا ہے‘‘۔
مہیرنے حکیم الداس اور علی روئی کی طرف مکار نظروں سے دیکھا۔
’’حکیم الداس !میں جانتا ہوں کہ تم زخمی نہیں ہوئے ہو۔ تم نے اپنے شاگرد کو محض اس لیے بھیجا کہ مجھے ذلیل کرسکو۔ تم میری شہرت سے حسد کرتے ہو‘‘۔
مہیرکی تقریرنے Magic Echo کا استعمال کیا اور پورے میدان میں گونج اٹھا۔ ارد گرد فوراً پرسکون ہو گیا۔
’’ حکیم الداس!میں تسلیم کرتا ہوں کہ تم ایک باصلاحیت کیمیا گر ہو۔ لیکن ساتھ ہی ایک بےوقوف شخص بھی ہو۔ جس نے ہمارے آقاؤں کی وعوت کو ٹھکرا کر اس سڑے ہوئے شہر میں رہنا پسند کیا۔
مہیراپنے غرور میں شہزادی اقابلہ کی موجودگی مکمل طور پر نظرانداز کر چکا تھا۔ اس کی باتوں پر سامعین لال پیلے ہو رہے تھے۔
یوسف کی آنکھیں ہلکی سی ہو گئیں۔ مہیرکو چیلنج کرنے کے لیے نیرنگ آباد آیا تھا جسے واقعی ریجنٹ شوالہ نے ہدایت کی تھی۔ نہ صرف حکیم الداس کو نکالنے اور ختم کرنے کے لیے بلکہ شہزادی اقابلہ کو یاد دلانے کے لیے بھی۔ ایسا لگتا تھا کہ ان سالوں میں شہزادی اقابلہ کی سرگرمیوں نے آہستہ آہستہ ریجنٹ کی توجہ اپنی طرف مبذول کرائی۔ شوالہ کو جس چیز کی ضرورت تھی وہ ایک قیدی جانور تھا جسے اپنی مرضی سے ذبح کیا جا سکتا تھا، بجائے اس کے کہ کسی بھی وقت حملہ کر سکتا ہو۔
یوسف کی نظر چپکے سے اقابلہ کے چہرے پر پڑ گئی۔ شہزادی اقابلہ نے اپنے چہرے پر کوئی غصہ یا گھبراہٹ ظاہر نہیں کی۔ وہ اب بھی اسٹیج پر کبھی پگھلنے والی برف کے بلاک کی طرح پرسکون دیکھ رہی تھی۔
’’صرف تمہاری موت تمہاری ذلت کا بدلہ ادا کرنے کے لیے کافی نہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ تمہارے قریبی لوگوں کو ناقابل تصور تکلیف کا سامنا کرنا پڑے‘‘۔
مہیرکا لہجہ انتہائی اذیت ناک تھا۔
’’ حکیم الداس! تم یہ روح توڑ زہر کی بوتل خود کیوں نہیں پی لیتے، تمہارےبعد میں تمہارے شاگرد کی جان بخشی کرکے اسے ایک ہم جنس پرست ڈیمن کے حوالے کر دوں گا۔ پھر یہ نہ جیے گا نہ مرے گا‘‘۔
اس کی باتیں سن کر علی روئی کو اتنا غصہ آیا کہ وہ اس کے قتل کا منصوبہ بنانے لگا۔ دوسری دنیا میں آنے کے بعد مہیرپہلا شخص تھا جسے وہ مارنا چاہتا تھا۔
مہیرکا لہجہ تلخ ہوتا جا رہا تھا۔ وہ اچانک مسکرایا:
’’اچھاٹھیک ہے۔ کیا تمہاری کوئی بہن نہیں ہے جو بچپن میں کھو گئی ہو۔ میں اسے ڈھونڈ نکالوں گا اور پھر جب اس سے بیزار ہو گیا تب بھی وہ بڑے کام کی ہو گی۔ اس پر اپنی دوائیوں کے تجربے کروں گا۔۔۔ آہا‘‘۔
حکیم الداس کی آنکھوں سے چنگاریاں نکلنے لگیں۔
مہیربے خوف تھا۔ لیچ خود ایک جادوئی ہنر مند نسل تھی۔ وہ حکیم الداس کو یہ باتیں سنا کر شکستہ کرنا چاہتا تھا کہ پست ہونے کے بعد کی زندگی خود ایک سزا بن جاتی ہے۔
’’حکیم !‘‘۔
علی روئی نے دیکھا کہ صورتحال خراب ہو رہی ہے اس لیے وہ حکیم الداس کے پاس گیا اور سرگوشی کی:
’’اگر آپ چاہتے ہیں کہ یہ کمینہ مر جائے تو میرے پاس ایک منصوبہ ہے‘‘۔
حکیم الداس نےغصے پر قابو پاتے ہوئے کہا:
’’ کیا منصوبہ ہے؟‘‘۔
علی روئی نے حکیم الداس کے کان کے قریب جھک کر اسے اپنا بے ساختہ خیال بتایا۔ حکیم الداس جو شروع میں غصے میں تھا متوجہ ہو گیا اور علی روئی کی طرف عجیب نظروں سے دیکھنے لگا۔ انسانی شاگردنے حکیم کی ہدایات سننے کاڈھونگ کرتے ہوئے سر ہلایا۔ اس کے بعد اس نے چند قدموں میں مہیرپر چلایا اور اونچی آواز میں کہا:
’’حکیم نے صرف اتنا کہا کہ تم ایک کوڑے دان ہو، تم جینئس ہونے کا بہانہ کرتے ہواور کئی سالوں تک پوری سلطنت کو دھوکہ دیتے رہے ہو۔ تم یہ دوائیاں چھوڑو۔ تمہیں تو حکیم ایک پاد سے مار دے گا‘‘۔
یہ کہتے ہوئے وہ میز پر آیا بس دوائیوں کی چند بوتلیں ملا کر تریاق کے طور پر پی لی۔ اس کے بعد اس نے اپنا سر اٹھایا اور روح توڑ زہر کی پوری بوتل اپنے اندر انڈیل لی۔
سب کی نظریں انسانی شاگرد پر مرکوز تھیں۔ انہوں نے دیکھا کہ علی روئی کا جسم ہلکا سا کانپ رہا ہے اور اس کا چہرہ عجیب سا ہو گیا ہے۔ یہ کس قسم کا اظہار ہے؟ وہ واقعی بہت پرجوش لگ رہا ہے؟ مہیرخود بھی دنگ رہ گیا۔
’’ کیا یہ واقعی اتنی زہریلی نہیں؟؟؟‘‘۔
علی روئی کی خوشی کی وجہ کچھ اور تھی، اس کا سپر سسٹم 100فیصد ہو چکا تھا۔
علی روئی کے دماغ میں فوری طور پر آواز آئی،سپر سسٹم شروع کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ بارہ گھنٹے میں مکمل ہو جائے گا۔
مجھے اب بھی انتظار کرنا پڑے گا؟ یہ کیا سروس کا معیار ہے؟۔
ایک شاگرد کا جوش اچانک ختم ہو گیا۔ شروع میں عوام کی نظروں میں اپنی زبردست طاقت دکھانا چاہتے تھے لیکن کون جانے پھر بھی تاخیر ہوئی۔ چونکہ اس نے اتنی دیر تک انتظار کیا اس لیے اس نے جلدی کرنے کی زحمت نہیں کی۔ جو چیز ضروری تھی وہ بدمعاش ڈیمن سے نمٹنا تھا۔
’’اس دوائی کا ذائقہ اتنا اچھا نہیں ہے۔ یہ مچھلی والااور کڑوا ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ اگلی بار مزید سرکہ ڈالیں اور کچھ ادرک ڈالیں۔ وہ مچھلی کے ذائقے سے چھٹکارا پا سکتے ہیں‘‘۔
علی روئی نے دنگ رہ کر سنجیدگی سے کہا۔
دہائیوں کی محنت اور عزم سے میں صرف اپنے حلف کو نبھانے کے لیے سب سے طاقتور زہر کو قربان کرتا ہوں، کیا ایسا ہے؟ ساندرو کا جسم کانپنے لگا۔ ناکامی کے مقابلے میں ایک شاگرد کی توہین سے کوئی فرق نہیں پڑا۔
اگرچہ حکیم الداس نے جوابی حملہ کرنا شروع نہیں کیا تھا لیکن مہیرسمجھ گیا کہ وہ ہار گیا ہے۔
حکیم اسوہ اور حکیم کیمپ بھی اس بات کو سمجھتے تھے۔ یہاں تک کہ مہیرکے مضبوط ترین زہر کے ساتھ حکیم الداس اسے آسانی سے حل کر سکتا تھا۔ یہ واضح تھا کہ زہر کی جانچ کے مقابلے میں detoxify بہت مشکل تھا، لہذا سیاہ ایلف حکیم کی خوفناک ہڑتال مہیرکو یقینی طور پر شکست دے گی۔ یہ صرف اتنا ہے کہ اس کی زندگی یقینی طور پر فنا ہو جائے گی۔
ایک نمبر کا جینئس حکیم عملی معنی میں ایک باصلاحیت دوائی حکیم ہزاروں جلال کے ساتھ اس چھوٹی سی جگہ پر اس غیر معروف سیاہ ایلف سے ہار گیا!۔
اگر وہ جانتے تھے کہ مہیردراصل ایک اناڑی دھوکےباز شاگرد سے ہار گیا ہے تو وہ شاید اپنا دماغ کھو بیٹھیں گے۔
’’یہ جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی ہے! ابھی حکیم الداس نے کہا، وہ تمہیں اپنے پاد سے زہر دے سکتا ہے‘‘۔
اس بلند آواز نے پورے میدان کو فوراً خاموش کر دیا۔ یہ ٹھیک ہے حکیم الداس کو مہیرسے تمام چیلنجز موصول ہوئے تھے۔ اب یہ واپس لڑنے کا وقت تھا۔
تاہم کیا صرف ایک پاد سلطنت کے افسانوی ذہین مہیرکو موت کے گھاٹ اتار سکتا ہے؟ ایک لمحے کے لیے سب کی نظریں اس پر مرکوز ہو گئیں۔
انسانی شاگرد نے سنجیدگی سے حکیم الداس کے پاس جمع کرنے والی بوتل تھما دی۔ سیاہ ایلف کا چہرہ اچانک مسخ ہو گیا۔ پتہ چلا کہ علی روئی کے ذریعہ بیان کردہ ’’فارٹنگ‘‘ دراصل سچ تھا، وہ دراصل یہ کرنا چاہتا تھا۔ ویسے بھی وہ ابھی تک نیرنگ آباد میں ایک مشہور شخص تھا، ایک پوشن حکیم تھا۔ کیا وہ واقعی ایسا کرنے جا رہا تھا جب سب دیکھ رہے تھے۔
انسانی شاگرد مضبوط لگ رہا تھا۔ اس نے حوصلہ افزائی کے ساتھ سر ہلایا۔
حکیم الداس کو چھلانگ لگانے اور لڑکے کا گلا دبانے کی خواہش تھی لیکن اب وہ ’’زخمی شخص‘‘ تھا جو شدید زخمی تھا۔ جب سیاہ ایلف نے خود کو باہر نکالنے کا منصوبہ بنایا تو اس نے اچانک انسان کی طرف سے اس وعدے کے بارے میں سوچا کہ وہ مہیرکو ابھی مار دے گا۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد بالآخر وہ ہار مان کر اپنے جسم کی طرف متوجہ ہو گیا۔
علی روئی نے احتیاط سے جمع کرنے والی بوتل کو سیاہ ایلف حکیم کے گدھے کے پیچھے رکھا۔ اس نے اپنا چہرہ دوسری طرف موڑ لیا جب کہ دوسرا ہاتھ دفاع کے طور پر اس کی ناک چٹکی کر رہا تھا۔ اس وقت میدان میں مکمل سکوت طاری تھا۔ تمام نظریں ایک مالک کے جسم کے مخصوص حصے پر مرکوز تھیں۔
اکثر اوقات جب کوئی زیادہ گھبرا جاتا تھا، کامیاب ہونا مشکل ہوتا تھا۔ ہجوم کی عجیب توجہ کے تحت وقت منٹ بہ لمحہ گزرتا گیا۔ یہاں تک کہ شروع کرنے والے علی روئی کو تھوڑا سخت محسوس ہوا۔
سیاہ ایلف کا چہرہ گہرا جامنی ہو گیا۔ ماتھا پسینہ سے بھر گیا۔ کافی دیر کے بعد اس نے آخر کار غصے میں ایک مدھم آواز نکالی۔
طویل انتظار کی آواز سبھی نے سنی تھی۔ اگرچہ وہ جانتے تھے کہ ایسا ہی ہوگا لیکن جب حقیقت میں ایسا ہوا تو بہت سی بدروحوں کے چہرے اب بھی بہت عجیب ہو گئے۔ ننھی شہزادی نے فلورا کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا، شرماتے ہوئے وہ تقریباً زور سے ہنسی تھی۔
جب کہ دونوں ریفری حیران تھے انسانی شاگرد نے سر جھکایا اور جلدی سے جمع کرنے والی بوتل کو لپیٹ لیا۔ اس کے بعد وہ میز پر واپس آیا اور سنجیدگی کے ساتھ چند کیمیکلز کا انتخاب کیا اور پھر انہیں آپس میں ملا دیا۔ توجہ دراصل چند منٹ پہلے مہیرکی نظر آئی تھی۔ خوش قسمتی سے بوتل صرف پھٹی تھی لیکن بکھری نہیں تھی۔
علی روئی سوچ رہا تھا کہ اتنا قریب ہے۔ اسے مزید بڑبڑانے کی ہمت نہیں۔ اس نے احتیاط سے محلول کو دوسری بوتل میں انڈیلا اور بیزاری سے بوتل میں تھوک دیا۔ اس کے بعد اس نے کچھ اور دوائیاں تیار کیں اور آخر میں حکیم الداس کی طرف سے جاری کردہ ایک خاص قسم کی گیس کے ساتھ جمع کرنے والی بوتل میں سب کچھ شامل کیا۔ اس نے اسے ہلایا اور یہ ہو گیا۔
یقین نہیں آتا کہ یہ دوائیاں تھی یا حکیم کی گیس، دوائیاں انتہائی طاقتور تھیں۔ اسوہ اور کیمپ ایک متلی بدبو سونگھ سکتے تھے، یہاں تک کہ میدان کے قریب ترین محافظوں میں بھونچال برپا کردیا۔
علی روئی نے ناک چٹکی کی مہیرپر بوتل ہلائی اور عجیب سی آواز میں کہا:
’’کیا تم میں پینے کی ہمت ہے؟‘‘۔
مہیردواسازی میں ماہر تھا۔ وہ بتا سکتا تھا کہ علی روئی اتنی دیر تک بلف کرتا رہا لیکن اس نے صرف ایک بہت ہی عام بدبودار دوائیاں بنائی، زیادہ سے زیادہ اس نے بدبو کو دوگنا کرنے کے لیے چند اجزاء شامل کیے تھے۔ اس قسم کا زہر کمزور تھا۔ یہاں تک کہ اگر ایک تریاق استعمال نہیں کیا گیا تھا یہ کسی کی جان نہیں لے سکتا تھا۔ صرف یہ ہے کہ بو بہت خراب تھی۔ یہ عام طور پر کسی قسم کے دیومالائی درندوں کو بھگانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔
تاہم حکیم الداس نے پہلے اس میں پاد کیا، پھرا نسانی شاگرد نے بھی اس میں تھوک دیا۔ ظاہر ہے کہ یہ بہت بڑی توہین تھی۔
علی روئی نے اپنے انگوٹھے سے بوتل پر مہر لگائی اور کہا:
’’یہ وہ دوائی ہے جس میں حکیم الداس نے اپنی زہریلی گیس کا استعمال کیا جسے بنانے کے لیے اس نے کئی سالوں سے تربیت دی تھی۔ اتنی زہریلی گیس نکالنے کے لیے حکیم صاحب نے تین سال سے غسل نہیں کیا۔ پانچ سالوں میں اپنا زیر جامہ نہیں بدلا۔ دس سال سے موزے نہیں بدلے۔ ہر روز خاص طور پر تیار کردہ آلو کھائے۔ صرف اس بوتل کو بنانے کے لیے دس میٹر خوشبو! اس کا زہر اتنا مضبوط ہے کہ ڈریگن بھی مزاحمت نہیں کر سکتا۔ اگر آپ پینے کی ہمت نہیں رکھتے تو آقا کے سامنے گھٹنے ٹیک دیںاور ننانوے بار توبہ کریں۔ جب تمہیں رونا پڑے گا تو کہنا پڑے گا کہ’میں غلط ہوں‘ تو ہم زندگی اور موت کی اس جنگ میں تمہاری جان بچالیں گے۔ اب کیا سوچتے ہو؟‘‘۔
مہیرکے لیے ایسی شرائط کو قبول کرنا ظاہری طور پر ناممکن تھا۔ اگر اس نے واقعی ایسا کیا تو وہ اس میدان میں مزید نہیں رہ سکتا۔
جب اس نے دوائیاں کا نام اور زہریلی گیس کی تربیت کا طریقہ سنا تو شمائلہ برداشت نہ کر سکی۔ جب اس نے سنا کہ ڈریگن کی موت بھی ہو سکتی ہے تو وہ مدد نہیں کر سکی لیکن فلورا کے بازوؤں میں چھلانگ لگا کر ہنس پڑی۔ یہاں تک کہ اس کے آنسو نکل آئے۔ فلورا بھی ہنسنے لگی۔ انہوں نے مل کر گڑبڑ کی۔ زیادہ تر لوگوں میں ہنسی پھیل گئی تھی جو کافی عرصے سے دبا رہے تھے۔ پنڈال قہقہوں سے بھر گیا۔
حکیم الداس نے اب مرنے کا ارادہ بھی کرلیا تھا۔ اسے لگا کہ علی روئی کسی لحاظ سے مہیرسے زیادہ مکروہ ہے۔ چونکہ وہ اپنی فرضی چوٹ کی وجہ سے ہل نہیں سکتا تھا، اس لیے وہ صرف اپنی آنکھیں اور کان بند کر سکتا تھا، اداکاری کرتا تھا اور ایسی حرکت کرتا تھا جیسے وہ کچھ سن نہیں سکتا تھا۔
تاہم دارالحکومت سے پارٹی کی نظروں میںیہ ہنسی مہیرکے چیلنج کو قبول نہ کرنے پر ہنسنے کے مترادف تھی۔
’’مجھے دو آقااور گواہ رہو‘‘۔
علی روئی نے جان بوجھ کر بوتل لی اور اسوہ اور کیمپ کی طرف چل دیا۔
علی روئی کی طرف سے دی گئی ’’دس میٹر خوشبو‘‘ کے سامنے مہیرکا جسم ہلکا سا کانپ گیا۔ اس کے دانت ٹوٹنے سے تقریباً خون بہہ رہا تھا آج کی رسوائی کا بدلہ مستقبل میں دوگنا ہو جائے گا۔ تمہیں اس دنیا میں پیدا ہونے پر ضرور پچھتاوا ہو گا۔ مہیرنے نفرت سے حکیم الداس کی طرف دیکھا جس نے آرام کرنے کے لیے آنکھیں بند کر لیں۔ محتاط رہنے کے لیے مہیرنے پہلے چند تریاق پیے، پھر اس نے بوتل لی۔ اپنی سانس روک لی، سخت نفرت کو برداشت کیا۔
’’واہ‘‘۔
علی روئی نے ستائش سے مہیرکی طرف دیکھا جب وہ بدبودار دوائی پی رہا تھا تو مہیرنے جدوجہد میں کئی دوائیاں پی لیں۔ زبردستی متلی برداشت کی۔ بے رحمی سے بولنے کےلئے اس نے اپنا منہ کھولاتو اس کا لہجہ یکایک بدل گیا۔ اس کے بعد اس کا جسم کھوکھلا ہو تا چلاگیا۔ جیسے ہی اس کے حلق سے ایک ہی نوٹ نکلا اس نے اس کے نازک جسم کو سبز دھوئیں میں بکھر کر ہوا میں غائب کر دیا۔
تومانی سلطنت کا نمبر1 باصلاحیت دوائی بنانے والاصرف ’’پاد‘‘کے ساتھ تشکیل شدہ دوائی کے ساتھ غائب ہوگیا۔ یہ کیسی دوائی تھی جس نے ایک حکیم لیول کے حکیم کو فوری طور پر منتشر کردیا۔ یہ تبدیلی اچانک آئی تھی۔ یہاں تک کہ حکیم الداس جس نے ابھی آنکھ کھولی تھی حیران رہ گیا۔ اقابلہ بھی قدرے حیران ہوئی اور آخر کار اس کی نظر علی روئی پر پڑی۔ دارالحکومت سے آنے والوں کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آرہا تھا، خاص کر حکیم ز اسوہ اور کیمپ کو۔ شائقین کی گرجدار خوشیوں سے صدمے کی آوازیں جلدی سے مغلوب ہو گئیں۔
حکیم الداس نے ضرورت سے زیادہ جوش نہیں دکھایا۔ اس نے آنکھیں بند کر کے ایک معمولی راز کو برقرار رکھا۔ اسے سب کی خوفناک نظروں کے سامنےآرام کرنے کے لیے دوبارہ تجربہ گاہ میں لے جایا گیا۔
چیلنج ختم ہوا، نیرنگ آباد کے حکیم الداس نے بغیر کسی تنازعہ کے جنگ جیت لی۔ نہ صرف اس نے شرط لگا کر بہت زیادہ پیسہ کمایا بلکہ باصلاحیت حکیم کو پاد سے مارنے کی افسانوی جنگ بھی تاریخ میں درج کردی۔
پوشنر ایسوسی ایشن تومانی سلطنت کی ملکیت نہیں تھی، لیکن ڈیمن کے دائرے میں تمام حکیموں کی یونین تھی۔ مہیرایک منصفانہ لڑائی میں مر گیا لہذا ریجنٹ شوالہ بھی حکیم الداس یا نیرنگ آباد کو مجرم نہیں ٹھہرا سکا۔
دارالحکومت سے آنے والے لوگوں کی دھلائی کر دی گئی جس میں چیلٹ بھی شامل تھا جو بہت بدتمیز تھا مگر شکست پر کچھ بھی نہیں بولا۔ شہزادی اقابلہ نے ایک بڑی ضیافت کا اہتمام کیا لیکن استقبالیہ ضیافت ظاہر ہے الوداع کے لیے تھی۔
حکیم الداس نے ضیافت میں شرکت نہیں کی۔ دار الحکومت سے تعلق رکھنے والے دونوں آقاؤں کی نظروں میں یہ حرکت اور بھی پراسرارتھی۔ سیاہ ایلف حکیم کا زہر خوفناک تھا اور اس کا مدمقابل سے سلوک زہر سے بھی زیادہ خوفناک تھا۔ وہ شخص جو فتح مندی کے غرور میں تھا جس کو جیت کا مکمل یقین تھا، جس نے بڑے بڑے مقابلے جیتے تھے وہ نیرنگ آباد میں آیا اور ہلاک ہو گیا۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں تھا۔
حکیم الداس نےبھی جیت کے بعدخود کو الگ تھلگ کرنے کا تہیہ کر لیا تھا۔ اس نے سوچ لیا تھا کہ اب وہ کچھ عرصے کے لیے عوام کے سامنےنہیں آئے گا۔ در حقیقت اپنے اندر وہ بہت شرمندہ تھا۔ بہت سارے لوگوں کی طرف سے اس طرح دیکھے جانے کا احساس بھی اس کےلئے ناقابل فراموش تھا۔
چیلنج کی کامیابی میں معاون کے طور پرسامنے آنے والااپرنٹس علی روئی ضیافت میں نمودار ہوا۔ اس وقت اس انسان کو نظر انداز کرنے کی کسی میں ہمت نہیں تھی۔ اگرچہ جنگ میں انسان صرف ایک کٹھ پتلی تھا جسے کنٹرول کیا جا رہا تھا لیکن اس نے ناقابل یقین حد تک اپنےآقا کی نمائندگی کی تھی۔ اور بتایا کہ ایک سپر حکیم جو گیس چھوڑ تا ہے وہ بھی کتنی خطرناک ہوتی ہے۔ اس گیس نے توپورے نیرنگ آباد کو چونکا دیاتھا۔
علی روئی کو اس قسم کی ضیافت میں کوئی دلچسپی نہیں تھی، اس کے چہرے پر یہ بات ثبت تھی کہ وہ کسی کو نہیں جانتا تھا، اس لیے اکیلا بالکونی میں چلا گیا، اس امید پر کہ یہ بورنگ وقفہ جلد ختم ہو جائے گا۔
’’علی روئی!‘‘۔
فلورا شمائلہ کے ساتھ پیچھے پیچھے چلی گئی۔
فلورا آج پیٹرن والالال لمبا لباس پہنے ہوئے تھی۔ یہ کافی موزوں تھا جو لوگوں کو عام تلواروں والی سے بالکل الگ حیرت انگیز تاثر دیتا تھا۔ شمائلہ نیلے اور سفید دھاری دار شہزادی کے لباس میں تھی جس کے سامنے ایک بڑی کمان تھی جو اس کی خوبصورتی کو پوری طرح سے بے نقاب کر رہی تھی۔ اس نے بہت زیادہ توجہ حاصل کی۔
شمائلہ نے جھکاکر کہا:
’’علی روئی! تمہارے کپڑے بہت بدصورت ہیں۔ تمہیں ضیافت کے لیے رسمی لباس پہننا چاہیے تھا‘‘۔
’’میرے پاس کوئی رسمی لباس نہیں ہے اور میں تجربہ گاہ میں واپس بھی نہیں گیا۔ یہ شاگرد سوٹ پہلے سے ہی پہناہوا تھا۔ یہ اچھا ہے‘‘۔
علی روئی نے اپنی طرف دیکھا اور پوچھا:
’’کیاننھی شہزادی واقعی رسمی لباس پہننا پسند کرتی ہے؟‘‘۔
’’مجھے پسند نہیں ہے۔ میںاس میں آزادانہ طور پر حرکت نہیں کر سکتی‘‘۔
شمائلہ نے اپنے تنگ لباس کو موڑ دیا اور وہ اچانک پراسرار انداز میں مسکرا دی:
’’آج آپ نے بہت اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیاہے خاص طور پر’دس میٹر کی خوشبو، میں سمجھ نہیں پائی۔ کیا حکیم کا پاد واقعی اتنا زہریلاہے؟‘‘۔
علی روئی نے پراسرار انداز میں کہا:
’’میں نے وہاں بتایا تھا کہ اس کےلئے حکیم الداس روزانہ ایک خاص مٹی میں تیار کردہ لال آلو کھاتے ہیں۔ مہیرتکنیکی طور پر اسی خوشبو کی وجہ سے مر اہے‘‘۔
’’واقعی؟‘‘۔
ننھی شہزادی نے بھی پراسرار انداز میں کہا:
’’پھر تو میں حکیم کے پاس جاؤں گی کہ وہ لال آلو تمہارے کھانے کے لیے مانگوں۔ اگر تمہارا پاد بدبودار نہیں ہے توتم شہزادی کو دھوکہ دے رہے ہو‘‘۔
علی روئی نے سر ہلایا۔ اس نے چپکے سے سوچا کہ وہ شمائلہ کے سینے میں دھڑکتے ہوئے سیاہ دل کے شورکا مقابلہ نہیں کر سکتا اور کہنے لگا:
’’یہ وہ پادہےجو ایک ڈریگن کو اپنی بدبو سے مار سکتا ہے۔ آپ اس کے چکر میں مت آئیں۔ فلورا بھی ہنسے کے سوا نہ رہ سکی۔
ایان نے دور سے دیکھا کہ علی روئی فلورا کے ساتھ بات کر رہا ہے اور ہنس رہا ہے، اس کا چہرہ اور بھی اداس ہو گیا۔ وہ اکیلا ہی پی رہا تھا۔ اس کے پاس یوسف چیلٹ کے ساتھ مسکراہٹ کے ساتھ بات کر رہا تھا۔
ساتواں باب
تالاب کا کنارہ
حسن صرف خارجی معروضیت کی شے نہیں
علی روئی حکیم کیمپ کو شراب کے دو گلاس اٹھائے ٹہلتے دیکھ رہا تھا۔ اورعلی روئی سے شمائلہ نے کہا:
’’حکیم الداس نے یہ جنگ کیسے جیت لی۔ تم یقیناً جانتے ہو ‘‘۔
’’شہزادی حضور! میں تو محض حکیم الداس کا ایک ادنیٰ سا شاگرد ہوں۔ مجھے ان کے راز کیسے معلوم ہو سکتے ہیں؟۔
شمائلہ نے ایک نظر حکیم کیمپ کو دیکھا مگر اس نے وہی بےموقع، بے محل ضد جاری رکھی۔ پھر کہا کہ علی روئی اس کے ساتھ کہانیاں سنانے کے غیرمنصفانہ معاہدے پر دستخط کرے ورنہ۔۔۔ وہ یہ دھمکی دے کر فلورا کے ساتھ چل پڑی۔ حکیم کیمپ چلتے چلتے علی روئی کے پاس گیا اور شراب کا گلاس اسے پکڑایا۔ علی روئی نے کہا:
’’بہت شکریہ حکیم ! لیکن میں اس قابل نہیں‘‘۔
علی روئی حکیم کیمپ کی اشکبار نظروں کا سامنا نہ کر سکا۔ حکیم کیمپ نے علی روئی کی بہادری کو بہت سراہا اور کہا:
’’اگر تمہاری جگہ میرا کوئی شاگرد ہوتا تووہ بھی مہیرکا زہر پینے کا حوصلہ نہ کرتا‘‘۔
علی روئی نے انکساری کا مظاہرہ کیا اور کیمپ کی ہر بات کو غور سےسنا۔ اس کے بعد حکیم الداس کے متعلق سوالوں کی بوچھاڑ شروع ہو گئی کہ اس کی عادات کیا ہیں، مشاغل کیا ہیں۔ وہ بدبودار دوائی واقعی حیرت انگیز تھی۔ اگر اسے عام مواد سے بنایا گیا تھا تو پھر اس کا زہر اتنا طاقت ور کیسےہو گیا؟۔ شاید یہ حکیم الداس کا بدلہ ہو۔ کیمپ متجسس تھا۔ علی روئی نے شراب کا ایک اور گھونٹ لیا۔ کیمپ اسی بارے میں سوچ رہا اور اس معاملے میں تو ننھی شہزادی کوبھی دھوکہ دینا آسان نہیں۔ یہ تو پھر حکیم ہے۔ علی روئی نےسوچا حکیم کیمپ کا انداز ہ درست ہی تو ہے۔
’’ہاں! جیسے مہیرنے حکیم الداس کو غصہ دلایاتھا اس کا جواب اسی طریقے سے دیا جا سکتا تھا‘‘۔
علی روئی نے جواب دیا۔
علی روئی کا جواب سنتے ہی حکیم کیمپ کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
’’تو تمہیں کوئی ترکیب یاد ہے ان زہریلی دوائیوں کی؟؟‘‘۔
علی روئی نے معنی خیز نظروں سے کیمپ کی طرف دیکھا۔ اور کہا:
’’میں حکیم حکیم الداس کا کوئی بھی راز تجربہ گاہ سے باہر نہیں نکال سکتا۔ حکیم الداس تو مجھے ابھی استاد کہنے کا حق بھی نہیں دیتے کیونکہ میں ابھی زیرِ تربیت ہوں‘‘۔
’’ حکیم الداس تمہارے جیسے با صلاحیت شاگرد کو کبھی نہیں چھوڑ سکتا جس کامقابلہ میرے تمام شاگرد مل کر بھی نہیں کر سکتے‘‘۔
علی روئی نے حیرانی سے کہا:
’’ کیا میں اتنا قابل ہوں؟۔ پھرحکیم الداس کیوں کہتا ہے کہ میں بےوقوف ہوں‘‘۔
’’تم بےوقوف نہیں، انتہا ئی بےوقوف ہو‘‘۔
حکیم کیمپ نے کہا۔
کیمپ نے سوچا اس کی چال کامیاب ہو گئی، اس نے سرگوشی سے کہا:
’’تم میرے ساتھ دارالحکومت کیوں نہیں چلتے جہاں تمہاری حقیقی قدر پہچانی جائے گی‘‘۔
پہلے تو وہ صرف کیمپ کو بے وقوف بنا رہا تھا لیکن کیمپ کی پیشکش نے اسے سوچ میں ڈال دیا کیونکہ اس کی منزل محض پوشن حکیم بننے کی نہیں تھی کچھ اور تھی۔
مہیرکے چیلنج کو دیکھتے ہوئے شہزادہ شوالہ نے شہزادی اقابلہ کو کھلے عام دبانا شروع کر دیا تھا۔ نیرنگ آباد میں حالات خراب تھے۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ جنگ کب شروع ہو جائے۔ اگر وہ دارالحکومت جا سکتا تو خطرہ ٹل سکتا ہے۔ لیکن اس کی شناخت اور زہریلے ڈریگن کے ساتھ کیے گئے معاہدےکی وجہ سے وہ کہیں بھی نہیں جاسکتا تھا۔
غور کرنے کے بعد علی روئی نے لاپرواہی سے جواب دیا:
’’حکیم نے اپنی اضافی چیزیں استعمال کیں۔ ایسا لگتا ہے کہ اس میں میلامین اور سوڈان ریڈ شامل ہے۔ میں ان میں سے صرف چند ایک کو جانتا ہوں۔ میں حکیم الداس کو نہیں چھوڑوں گا چاہے میرے پاس ٹیوشن فیس بھی نہ ہو، چاہے مجھے استاد کہنے کا حق بھی نہ ملے‘‘۔
دو عجیب و غریب اضافتی ناموں نے کیمپ کو حوصلہ بخشا۔ وہ دل کی گہرائیوں سے مسکرایا۔
’’میں تمہیں ٹیوشن فیس دے سکتا ہوں تمہیں ان اضافی چیزوں کی مکمل ترکیب تلاش کرنے میں مدد کرنی ہوگی‘‘۔
’’واقعی؟‘‘۔
علی روئی کی حیرت اس کی شکل سے عیاں تھی۔ لیچ حکیم نے شاگرد کو سمجھانا جاری رکھا۔
’’میں دوائیوں کا حکیم ہوں، صرف میلامین اور سوڈان ریڈ کا تعلیمی لحاظ سے مطالعہ کرنا چاہتا ہوں۔ فارماسیوٹکس سٹوڈنٹ ہونے کی قیمت کافی زیادہ ہے۔ تمہارے لیے یہ ایک نادر موقع ہے۔ ایک بار جب آپ اسے کھو دیتے ہیں تو یہ دوبارہ کبھی موقع نہیں ملتا‘‘۔
علی روئی نے بالآخر ہاں میں سر ہلایا۔
’’ابھی تم یہ رکھو‘‘۔
کیمپ نے ادھر ادھر دیکھااور پھر چمڑے کی ایک تھیلی اس کے حوالے کر دی۔ اور سرگوشی سے کہا:
’’پچاس جامنیروئنگ کے کرسٹل سکے ہیں۔ اندر ایک جادوئی مواصلاتی پتھر بھی ہے، تم اسے دس بار تک استعمال کر سکتے ہو۔ تم بلاجھجک مجھ سے رابطہ کر سکتے ہو۔ میں تمہیں تسلی بخش قیمت ادا کروں گا‘‘۔
جادوئی کرسٹل سکوں کو سیاہ کرسٹل، ارغوانی کرسٹل اور سفید کرسٹل کی نزولی قدر کے ساتھ ترتیب دیا گیا تھا۔ ہر قسم کے درمیان تبادلے کی شرح1سے100تھی۔ تین سینگوں والے گینڈے کرایہ پر لینے کی قیمت بیس سفید کرسٹل سکے ہیں۔ دارالحکومت کے لوگ واقعی فیاض ہیں۔ پچاس جامنیروئنگ کے کرسٹل سکے۔ اب اگر فلورا نہ بھی ہو تو وہ باآسانی کرایے ادا کر کے نیلی جھیل جا سکتا ہے۔
علی روئی نے محسوس کیا کہ لیچ کا جھریوں والاچہرہ کسی فیاض شخص کی طرح پیارا تھا۔ اس نے گھبرا کر چمڑے کا چھوٹا بیگ وصول کرکے اسے اپنی آستین میں ڈال لیا۔ اس کے بعد اس نے کئی طرح کے نایاب زہریلے مواد کا ذکر کیا جو اس نے کتاب میں دیکھے تھے۔ کیمپ انہیں ایسے ذہن نشین کر رہا تھا جیسے وہ خزانہ ہوں۔ علی روئی نے اسے تنبیہ کی کہ اس کے بارے میں کسی کو نہ بتائے، پھر وہ مڑ کر چلا گیا۔
علی روئی نےبظاہر یہ واقعہ اپنےذہن سے چٹخ دیا لیکن ہر قدم پروہ اسی کے بارے میں سوچتا رہا۔ کیمپ گلاس پکڑے ہوئے فلورا اور باقی لوگوں کو ڈھونڈنے لگا۔ شہزادی اقابلہ کے پاس فلورا اور شمائلہ کو دیکھ کرعلی روئی کو فکر لاحق ہوئی۔ اسے اوپر جانا چاہیے۔ پھر اس کی ملاقات ان خوب صورت ٹھنڈی آنکھوں سے ہوئی، شہزادی اقابلہ ۔ اقابلہ کی ٹھنڈی نگاہوں نے اس کی آنکھوں میں جھانکا، کڑکتی سردی میں علی روئی کانپ کر رہ گیا۔ شہزادی نے اسے دور ہی سے دیکھا اور نظر انداز کر دیا۔ جتنی وہ حسین تھی اتنی سرد مہر بھی۔
ضیافت کے بعد دارالحکومت سے آنے والے مہمانوں کا قیام کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ توقع کے مطابق وہ فوراً چلے گئے۔ علی روئی تجربہ گاہ میں واپس جانا چاہتا تھا لیکن کاگورون نےاسے اندرونی دروازے پر یہ کہہ کر روک دیا کہ شہزادی اقابلہ اسے اکیلے میں ملنا چاہتی ہیں۔ علی روئی کی آنکھوں میں روشن خواب چمک اٹھے کہ آج کے غیر معمولی کارناموں کا صلہ ملنے والاہے۔
جس جگہ اقابلہ نے اسے بلایا وہ کونسل ہال نہیں بلکہ اندرونی صحن کا باغ تھا۔ علی روئی کاگورون کے پیچھے اندرونی صحن تک گیا۔ اندرونی صحن کے رہائشی علاقے میں داخل ہونے کا یہ پہلا موقع تھا۔ بیرونی صحن سے زیادہ سخت حفاظتی انتظامات یہاں تھے۔ ’’امپیریل گارڈن‘‘ محض ایک چھوٹا سا تالاب تھا جس کے ساتھ زمین کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا گھاس اور پودوں کے ساتھ تھا۔ اس کا شہنشاہوں اور امرا کے تفریحی مقامات سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا جس کا اس نے تصور کیا تھا۔
شہزادی اقابلہ تالاب کے کنارے کھڑی تھی خاموشی سے پانی کو تک رہی تھی۔ ہوا کے جھونکے نے سفید لباس کو آہستہ سے اڑا دیا۔ اگر کوئی اس کی پتلی کمر کو دیکھے تو دیوانہ ہو جائے۔ دیومالائی دائرے کی پرامن جامنی چاندنی کے نیچے خاموش دھندلے سائے ایک ساتھ خوبصورت فن کا نمونہ لگ رہے تھے۔
کاگورون نے جھک کر کہا:
’’شہزادی حضور! علی روئی حاضر ہے‘‘۔
علی روئی کاگورون کے الفاظ یہ نالاں تھا۔ دل میں کہا۔ کیا حاضر ہے؟۔ میں اب ایک ہیرو ہوں، قیدی نہیں۔
’’کاگورون !تم جا سکتے ہو‘‘۔
کاگورون کے جانے کے بعد اقابلہ نے آہستہ آہستہ علی روئی کی طرف رخ کیا۔ پہلی بار علی روئی شہزادی اقابلہ کے ساتھ اکیلا تھا۔ اگر حسنِ بے انتہا کے سامنےہوتے ہوئے بھی اس کی دھڑکن تیز نہ ہوئی تو اس کی واحد وجہ انتہا کی سردی تھی۔
’’آج کے دن میں تمہاری عقل اور شرارت بھری اپنائیت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی لیکن حکیم الداس کا زہر اتنا طاقت ور نہیں، کیا یہ تمہارے عظیم علم کی وراثت کا کارنامہ ہے؟‘‘۔
علی روئی نے بہت سی وضاحتوں سے بچنے کےلیے ایک نئی کہانی گھڑی اور کہا:
’’دراصل یہ مہیرکا اپنا بنایا ہوا زہر تھا۔ جب میں نے آخری زہر پیا تو کچھ منہ میں رکھ لیا، نگلا نہیں، پھر بدبودار دوائیوں کے اندر اسے میں نے تھوک دیا جس سے ایک جان لیوا زہر تیار ہو گیا۔ یوں مہیرنے اپنی دوائی کے ذائقے سے موت کا مزہ چکھ لیا‘‘۔
یہ ایک اور جھوٹ تھا۔ مہیرکی موت دراصل سنکھیار کے زہر سے ہوئی جو اس نے چھپا کے رکھا ہوا تھا۔ مہیرکو جب بھنک پڑی تو علی روئی نے یہ تمام ناٹک اس زہر کو چھپانے کےلیے کیا اور ٹرمپ کارڈ کھیلا۔
مہیرتو درکنار سنکھیار کے زہر کا مقابلہ ڈریگن تک نہ کر سکے تھے۔
’’اوہ۔ تو اسے اپنی ہی دوائی سے مار ڈالا۔ خوب۔ تم واقعی چالاک ہو‘‘۔
اقابلہ نے سراہا۔
’’دراصل یہ حکیم الداس کا ہی کمال ہے کہ میں چھوٹے موٹے کارنامے کرنے کے قابل ہوا‘‘۔
’’یہ چھوٹے، موٹے نہیں ہیں۔ جب حکیم الداس کی قابلیت کی بات آتی ہے تو مجھ سے بہترکون جان سکتا ہے‘‘۔
اقابلہ نے آہ بھری۔
’’تم اس ڈیمن کے دائرے میں کتنے عرصے سے ہو؟۔ اس جنگ کے بعدتم نے مکمل طور پر حکیم الداس کی تعریف اور اعتماد جیت لیا ہے۔ فلورا کا معیار ہمیشہ بہت بلند رہا ہے۔ وہ تمہیں پہلے سے ہی ایک سچا دوست سمجھتی ہے۔ یہاں تک کہ میری شریر بہن نے بھی تمہارے بارے میں مجھ سے بہت اچھی باتیں کہی ہیں۔ میں مانتی ہوں کہ تمہاری ذہانت کو نظر انداز کرتی رہی ہوں‘‘۔
’’ننھی شہزادی نے میرے متعلق اچھی باتیں کہی ہیں۔ چلو کچھ تو مروت ہے ان میں‘‘۔
علی روئی حیران تھا۔
’’حکیم نے تمہیں بہلانے پھسلانے کی بات کی ہوگی یقیناً۔ تم سمجھدار آدمی ہو، تمہیں نیرنگ آباد اسٹیٹ کی خطرناک صورت حال کا پتہ چل جانا چاہیےتھا۔ کیمپ ایک موقع شناس ہے‘‘۔
علی روئی کو لگا جیسے اس کے دماغ پڑھاجا رہا ہے۔ کامیابی اس کے سر نہیں چڑھی تھی کہ وہ درست تجزیہ نہ کر پاتی۔ وہ واقعی خوفناک حد تک ایک پرسکون عورت تھی۔
’’میں قابل لوگوں کی قدر کرتی ہوں۔ اگر تم واقعی حکیم الداس کی طرح تحقیق پر توجہ رکھو تو ‘‘۔
اقابلہ نے اپنا سر ہلایا اور افسوس سے کہا:
’’مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہے‘‘۔
تالاب کا پرسکون پانی دھیرے دھیرے اوپر آتا گیا۔ گری ہوئی پنکھڑیاں اور پتے ایک خاص قوت کے میدان کے زیر اثر آہستہ آہستہ اوپر کی طرف بڑھنے لگے۔ فورس فیلڈ کا مرکز اقابلہ تھی۔ ایک لمحے میں علی روئی کو محسوس ہوا کہ پورے باغ کی چاندنی مدھم ہو گئی ہے اور سردی نے اسے ہر زاویے سے گھیر رکھا ہے۔ وہ منجمد ہو گیا۔ شہزادی اقابلہ کی طاقت فلورا سے کہیں زیادہ تھی۔
علی روئی حیران رہ گیا اور جلدی سے بولا:
’’شہزادی حضور! براہ کرم مجھ پر بھروسہ کریں‘‘۔
اقابلہ کی آواز خوفناک حد تک سرد ہوتی گئی۔
’’تم ایک انسان ہو، میں تم سے وفا کی توقع کیسے کر سکتی ہوں بھلا۔ جو کسی بھی وقت شوالہ کےلیے مجھے دھوکا دے سکتا ہے‘‘۔
علی روئی کے اندر کھلبلی مچ گئی۔
’’ہائے میری بدقسمتی!۔ ابھی تک سپر سسٹم چالو نہیں ہوا۔
اقابلہ کے خدشات بے جانہیں تھے۔ اگر علی روئی شوالہ کے ساتھ وفاداری کا عہد کرے تو نہ صرف آج کے چیلنج کا راز افشا ہو جائے گا بلکہ عظیم الشان حکیم کی طاقت کے بارے میں بتا کر شوالہ کی طاقت کو دوگنا کر دے گا جس کے بعد نیرنگ آباد مقابلہ کرنے کے قابل ہی نہ رہے گی۔ اقابلہ اپنے خدشات دور کرنے کےلیے تھوڑا بہت دھماکا کرنا چاہتی تھی لیکن اب اسے ایسا لگاکہ معاملہ سنگین ہے اور مزید غلطیاں کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ ایک بار اس کے باپ نے اسے کہا تھا کہ اگر ہم کسی سے فائدہ نہیں اٹھاسکتے تو پھر دشمن کو بھی اس سے فائد ہ اٹھانے کا موقع نہیں ملنا چاہیے۔
علی روئی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ اپنے خیالات میں اس قدر آگے بڑھ جائے گی کہ اسے قتل کروانے کا سوچنے لگے گی۔ وہ ایک دم چلایا:
’’رکیں!۔ اگر میں غدار ہوتا تو دارالحکومت والوں کی پیشکش قبول کرکے یہاں سے چلا جاتا‘‘۔
’’کیا پتہ تم ان کےلیے جاسوسی کر رہے ہو یہاں‘‘۔
یہ دلیل واقعی جاندار تھی۔ اقابلہ کے قاتلانہ ارادے سے خوف زدہ ہو کر وہ سوچ رہا تھا کہ دونوں بہنیں ہی بے رحم ہیں۔ جلدی سے اس نے دلیل پیش کی:
’’ اگر میں عظیم الشان حکیم کے جانشین کے طور پر دارالحکومت جاتا تو تب بھی میری بہت قدر کی جاتی۔ اس لیے مجھے یہ ڈرامہ کرنے کی ضرورت نہیں تھی‘‘۔
اقابلہ نے مسکرا کر رہا:
’’اگر ایسا ہے تو پھر بھی تم کیوں ٹھہرے ہو؟‘‘۔
علی روئی گنگ ہو گیا۔ اس سوچا وہ احمق ہی تو ہے۔ سچ بولے گا تو سنکھیار سمیت دونوں مریں گے اور جھوٹ کی مزید کوئی گنجائش نظر نہیں آرہی۔
پھر اس نے خود کو تذبذب سے نکالنے کی کوشش کی۔ اعتماد بحال کیا اور بولا:
’’شہزادی حضور! میں جانتا ہوں آپ تعجب کا شکار ہیں‘‘۔
اس کا تناؤ برفیلی بہار رائل سسٹر کی تیز نظروں سے نہ بچ سکا۔ اقابلہ کو یقین تھا کہ اسے کوئی مسئلہ ہے۔ تالاب میں ابلتا ہوا پانی دھیرے دھیرے اونچا ہوتا جا رہا تھا اور ایک عفریت کی شکل دھندلے انداز میں ظاہر ہو رہی تھی۔ علی روئی نے جو تناؤ محسوس کیا لمحہ لمحہ بڑھ کراس کی زندگی کا گھیرا تنگ کر رہا تھا۔ اب صاف ظاہر ہونے لگا تھا کہ اسے کسی قسم کے عظیم الشان حکیم کا تحفظ حاصل نہیں جو اسے اس وقت بچا سکے۔
’’شہزادی حضور!اب جو کچھ میں کہنے جا رہا ہوں وہ کبھی نہ کہتا لیکن آپ نے مجھے مجبور کر دیا ہے۔ زہریلے ڈریگن کا راز فاش کرنے سے نتائج بدتر ہو سکتے تھے۔ اس لیے اس نے دوسری چال چلی۔ اس نے چمڑے کا چھوٹا تھیلا نکالااور بلند آواز میں کہا:
’’سب سے پہلی چیز جس کی وضاحت کرنی ہے وہ یہ ہے کہ کیمپ نے آج مجھےپھنسانےکوشش کی، یہاں تک کہ اس نے مجھے مہیرکو مارنے والی دوا کا نسخہ جاننے کےلیے دارالحکومت آنے کی دعوت دی۔ اگر چہ نسخہ جعلی ہے لیکن عظیم الشان حکیم کی وراثت جھوٹ نہیں۔ میں چاہتا تو جا سکتا تھا۔ قسم کھاتا ہوں میں نے کبھی شہزادی اقابلہ کو دھوکہ نہیں دیا۔ اس کے علاوہ کبھی بھی نیرنگ آباد کو نہیں چھوڑوں گا ‘‘۔
اس پُرعزم لہجے نے اقابلہ کو ہلا کر رکھ دیا اور اسے سوچنے پر مجبور کر دیا۔ اگر یہ سچ بول رہا ہے تو پھر اس انسان کے یہاں رہنے کا مقصد کیا ہے۔ ایک عقل مند شخص گھاٹے کا سودا بھلا کیوں کرے گا؟۔
’’میرے پاس اپنی وفاداری ثابت کرنے کرنے کا کوئی ثبوت نہیں‘‘۔
علی روئی نے محسوس کیا کہ اس کے جسم کے گرد دباؤ کم ہو رہا ہے لیکن شاید بعد میں یہ پھر شدید ہونے لگے۔ وہ تلخی سے مسکرایا۔ اپنے الفاظ خوش گوار بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔ یہ احساسات ایسے نہیں کہ دکھائے جا سکیں نہ ان پر قابو پانا ممکن ہے۔
اقابلہ کسی سوچ میں پڑ گئی۔ اس کی آنکھوں کے رنگ تیزی سے بدلنے لگے۔ علی روئی کو لگااس کا کچھ کہنا بھی سود مند نہیں تو اس نے نیلی جھیل کا قصہ سنانے کا فیصلہ کر لیا۔ اتنے میں وہ اچانک بولی:
’’رکو!کچھ مت کہو‘‘۔
آس پاس کا قاتلانہ ماحول اچانک غائب ہو گیا۔ پانی آہستہ آہستہ کم ہوتا گیا۔ چاندنی نے ہلکی جامنی سردی دوبارہ شروع کردی۔ اقابلہ کے رویے کی اچانک تبدیلی علی روئی کےلیے غیر متوقع تھی۔
’’اقابلہ حضور!‘‘۔
علی روئی مخاطب ہوا لیکن اقابلہ نے غصے سے اسے چپ کرا دیا۔ علی روئی ابھی صورت حال کو سمجھنے کی کوشش ہی کر رہا تھا کہ شہزادی اقابلہ اپنی سانس بحال کرتے ہوئے قدرے سکون سے بولی:
’’آج تمہاری وفاداری پہ شک کرنا میری غلطی تھی اور اس کےلیے میں معذرت خواہ ہوں۔ میں نے تم سے مایا کے متعلق وعدہ کیا تھا کہ لیکن تم کسی اور خوش فہمی میں ہوکہ میرے اور تمہارے درمیان کوئی رشتہ بن سکتا ہےتو یہ بالکل ہی ناممکن سی بات ہے۔ اور اگر تم اس بات کےلیے یہاں ٹھہرے ہوئے ہو تو مجھے اس کا افسوس ہے‘‘۔
جب علی روئی نے آخری جملہ سنا تو اس کی حیرت کی انتہا نہ رہی۔ تب اسے احساس ہوا کہ اقابلہ کسی غلط فہمی کا شکار ہوئی تھی۔ خوبصورت غلط فہمی اور کس قدر بر وقت۔ لوسیفر کے وہم کا شکریہ کہ یہ معاملہ یہاں ختم ہوا۔
علی روئی سوچنے لگا کہ یہ معاملہ سمجھنے کے بعد اب کوئی احمقانہ حرکت نہیں ہونی چاہیے بلکہ اس غلط فہمی کو مزید بہتر سے بہتر بنایا جائے اور اقابلہ کے دل میں ایک مداح کے طور پر تاثر کو تقویت دی جائے تاکہ وہ پھر کبھی شک نہ کر سکے۔
علی روئی نے خود کو خوش قسمت محسوس کیا اور بظاہر سنجیدہ نظر آنے کی کوشش کی۔
’’مجھے بے حد افسوس ہے شہزادی حضور!کہ میں ایک بےبس اور کمزور انسان ہونے کے باوجود آپ کےلیے مصائب لے کر آیا۔ مجھے اس کا رتی برابر بھی علم نہیں تھا کہ مہیرکے ساتھ کیا معاملہ ہونے والاہے۔ مجھے لگ رہا تھا شاید میں ہی مرجاؤں۔ لیکن اس لمحے مجھے احساس ہوا کہ زندگی اور موت سے زیادہ فاصلہ میرے اور آپ کے درمیان ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب آپ میرے ساتھ کھڑی تھیں‘‘۔
اقابلہ کی آنکھوں میں قاتلانہ سردمہری چھلکنے لگی۔
’’اس سے آگےایک لفظ بھی مت کہنا ورنہ مارے جاؤ گے۔ خواہ مخواہ بحث کو طول مت دو اور خاموش ہو جاؤ‘‘۔
اس بار اقابلہ کے غصے میں وہ بات نہیں تھی۔ ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے اس کے الفاظ اس کے جذبات کے برعکس ہیں۔ علی روئی کو لگا وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا ہے۔
اقابلہ کی آنکھیں خلاؤں میں گھورنے لگیں۔ وہ ایک دم سرد لہجے میں بولی:
’’اس سے پہلے کہ میں ارادہ بدل لوں، یہاں سے چلے جاؤ‘‘۔
علی روئی نے سکھ کا سانس لیا اور دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ جو دوری اسے پریشان کر رہی ہے وہ اقابلہ اور اس کے درمیان نہیں بلکہ سات آٹھ گھنٹوں کی ہے جو سپرسسٹم کے چالو ہونے میں ابھی درکار ہے۔ بس ایک بار یہ مشکل وقت گزر جائے، کسی طرح سپر سسٹم چالو ہونے کے بعد ساری بساط خود ہی پلٹ جائے گی۔ جب میں طاقت میں آجاؤں گا تو اقابلہ کو شکست تسلیم کرنی ہی پڑے گی۔
’’تم نیرنگ آباد میں رہنے یا چھوڑنے کا فیصلہ خود کر سکتے ہو۔ میں تمہیں نہیں روکوںگی‘‘۔
اقابلہ کی آواز نے علی روئی کے قدم روک لیے۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا، اقابلہ مڑ کر تالاب کا نظارہ کر رہی تھی۔ اس کی کمر بے انتہا خوبصورت تھی لیکن وہ بہت تنہا تھی۔ علی روئی کو اچانک احساس ہوا کہ اس حسنِ بے انتہا کے پیچھے بلا کی تنہائی ہے۔
’’میں رکوں گا‘‘۔
علی روئی نے ایک گہرا سانس لیا اور دھیمے سے کہا۔
معلوم نہیں کہ وہ اسے جواب دے رہاتھا یا خود کو یاد دلارہا تھا۔ پھر وہ چلا گیا۔
اقابلہ نے بے اختیار پانی کی سطح کو دیکھا۔ یہ بالکل پہلے کی طرح ہو چکی تھی جب وہ یہاں آیا تھا۔
تجربہ گاہ میں واپس آنے پرسیاہ ایلف حکیم نے جو آج مرکزِ نگاہ تھا اسے بری طرح ڈانٹا۔ جب بھی وہ لاکھوں لوگوں کی نظروں کے سامنےزہریلی گیس چھوڑنے کے منظر کے بارے میں سوچتا تھا اس کا دل کر رہا تھا کہ اسے مار دے لیکن مسئلہ یہ تھا کہ مہیرکا زہر بھی علی روئی کا کچھ نہیں بگاڑ سکا۔ اس لیے یہ خیال اس کے دل میں ہی دفن ہو گیا۔
تاہم، اقابلہ کے مقابلے میں مشتعل سیاہ ایلف کو سنبھالنا بہت آسان تھا۔ علی روئی نے بغیر کسی کوشش کے مہیرکی موت کی وجہ بتا دی۔ اگرچہ حکیم الداس اس کے احمقانہ خیال پر غصہ میں تھا لیکن وہ مہیرکو مارنے میں اس کی مدد کرنے پر خوش بھی تھا۔ افسوس صرف یہ تھا کہ روح توڑزہر اب دستیاب نہیں تھا اور اس کا مطالعہ نہیں کیا جاسکتا۔
رات علی روئی کودیر تک نیند نہیں آئی۔ وہ سپرسسٹم کے شروع ہونے کا انتظار کر تارہا۔
وقت آہستہ آہستہ گزرتا گیا۔ جب علی روئی کی پلکیں بوجھل ہو گئیں اورسونے کے سوا کوئی چارہ نہ رہا تو اس کے دماغ میں گھنٹی بجی۔
’’ڈنگ‘‘۔
روح کی خالی جسم میں واپسی۔ نوزائیدہ روح کی تکمیل، لافانی تلوار کا راز، لاکھوں تلواریں واپس، شہزادہ شوالہ، موت، لہووانی سلطنت ، خاقانی سلطنت ، ننھی شہزادی، سائرن اور کھلنڈری لڑکی، میری لونڈیاں، دیومالائی طاقتوں کا اتحاد، کوئی سر اٹھانے کی ہمت نہ کر سکے۔ ایک انتشار اس کے اندر اٹھ چکا تھا۔ اور اس کی وجہ سپرسسٹم کا چالو ہو جانا تھا۔ علی روئی کی نیند اڑ گئی اور اس نے تصدیق کی۔
’’ہاں‘‘۔
اس کے بعد ’’بوم ‘‘ کی آواز کے ساتھ منظر بدلنے لگا۔
نہ آسمان تھا نہ زمین۔ ہر طرف دھند چھائی ہوئی تھی۔ کچھ دیر تک علی روئی بدحواس رہا۔ یہ تین جہتی لامحدود مکان تھا جہاں موت جیسی خاموشی تھی۔
یہ طویل انتظار کاسپر سسٹم ہے؟۔
ایک آواز آئی’’کہکشاں الوہی مندر‘‘100روحیں حاصل ہو چکی ہیں۔ آپ چالو کرنا چاہیں گے؟۔
’’کہکشاں الوہی مندر؟ ‘‘یہ نام اچھاہے۔ علی روئی نے امید کے ساتھ تصدیق کی’’ہاں‘‘۔
آس پاس کا منظر پھر بدل گیا۔ علی روئی ایک بڑے ہال میں تھا۔ ہال قدیم اور سادہ انداز میں تھا۔ ہر طرف پھیلی ہوئی دھند میں ستاروں جیسی چمک بھی تھی اور پر اسراریت بھی۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ ہال اس جگہ کے اندر ہی معلق ہے۔ سیڑھیوں سے نیچے کی طرف دیکھتے ہوئےپوری جگہ کو نظر انداز کرنے کا ایک مسحور کن احساس تھا۔
علی روئی نےاس کے اندر جانے کا سوچا اور پہنچ گیا۔ اس کےلیے اسے کوئی بٹن دبانے کی ضرورت بھی پیش نہیں آئی۔ یہ اس کی سوچ کے ساتھ کام کر رہا تھا۔ ہال کی وسعت لامحدود تھی۔ بڑے بڑے ابھرے ہوئے کالم اور صاف ستھری مربع ٹائلیں شاندار تھیں۔ تاہم مرکز میں ایک قدیم تخت کے علاوہ پورا ہال خالی تھا۔
علی روئی تخت پر بیٹھنے کے لیے آگے بڑھا تو اسے محسوس ہوا کہ ہال اس قدر شفاف ہے کہ اس کے آر پار بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اس وقت عجیب سی روشنیاں چمک رہی تھیںاور دو چمکتی ہوئی انتہائی پتلی اسکرینیں اس کی آنکھوں کے سامنے لٹک رہی تھیں
علی روئی نے ایک نظر اسکرین پر ڈالی اسکرین اچانک بڑی ہوگئی۔
’’بنگ!‘‘
اسکرین چھوٹے چھوٹے نقطوں میں بکھر گئی اور تیزی سے ایک انسانی جسم کی تین جہتی تصویر میں بدلنے لگی۔ بالکل شفاف، علی روئی کی طرح ملبوس جسے آسانی سے ذہن کے مطابق ڈھالاجا سکتا تھا۔ اس کے سامنے ایک عبارت لہرا رہی تھی جو دراصل چینی زبان میں تھی جسے اس نے کافی عرصے سے نہیں دیکھا تھا۔
عنوان: کوئی نہیں۔
ارتقاء کی سطح: کوئی نہیں۔
تجربہ کی قیمت: 0فیصد
اورا ویلیو0:
جامع طاقت کا اندازہ: قدر بہت کم ہے؛ نظر انداز کیا۔
یہ کیا ہے؟ کیا یہ کوئی کھیل ہے؟ علی روئی نے سمجھنے کی کوشش کی۔ کیا سپرسسٹم خدا کا بنایا ہوا ہے انفینٹی ری لوڈ کہاں ہے ؟ ذیلی پلاٹ کہاں ہے؟ سپر سائیان کی بلڈ لائن کہاں ہے؟۔
وہ فوراً غصے میں آ گیا۔
’’ یہ کیا ہے “، قدر بہت کم ہےنظر انداز کریں۔ تو کیا اتنی محنت اس سب بکواس کے لئے کی گئی تھی؟؟؟؟‘‘۔
سسٹم نے دوبارہ اشارہ کیا:
’’کیا آپ <Automatic Aura Absoprtion>فنکشن کو چالو کرنا چاہتے ہیں؟‘‘۔
علی روئی نے بے تابی سے ایکٹیویشن کی تصدیق کی لیکن قدر 0سے 1 تک بڑھنے کے علاوہ کوئی خاص ردعمل نہ ہوا،کتنی دیر وہ انتظار کرتا رہا مگر کوئی تبدیلی نہ ہوئی۔
’’یہ کیا بکواس ہے‘‘۔
علی روئی نے اپنا ارادہ بدل لیا’’اسٹیٹس‘‘ اسکرین اپنی اصلی حالت میں واپس آگئی اور اس نے دوسری اسکرین کی طرف دیکھا۔ یہ مہارت کا درخت لگتا ہے۔ ایک درخت جیسی شخصیت، روشنی سے چمکتی ہوئی جڑوں کے علاوہ باقی سب خاکستری، جڑوں کی روشنیاں ہیولوں کی صورت تھیں جب ذہن آئیکن پر توجہ مرکوز کرتا تو یہ متعلقہ موشن ویڈیو بن جاتا۔
پہلے انسانی جسم میں بدلتی ہوئی روشنی :
<بریتھ ہولڈنگ<(غیر فعال صلاحیت – اپنی طاقت کی سب سے نچلی سطح کو ظاہر کرتی ہے تاکہ دوسری پارٹیاں صارف کے دماغ سے نہ دیکھ سکیں، منسوخ کی جا سکتی ہیں۔ )
دوسرا ہاتھ پتھر پر رکھا گیا اور پتھر پاؤڈر کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا<آورا کنورژن< (فعال مہارت – مختلف خاص توانائی کے مادوں کو چمک میں تبدیل کرنے اور جذب کرنے کے قابل؛ ہر بار1 اضافی چمک کی قیمت ہوتی ہے،30 منٹ تک رہتی ہے)۔
یہ مفید ہو گا۔ اگرچہ علی روئی حقیقت میں طاقت ور تھا لیکن وہ اب دیومالائی دائرے میں کمزور ترین سطح پر تھا۔ مہارتBreath Holding>کا کوئی عملی۔ <Aura Conversion>کی بھی کوئی اہمیت نہیں تھی اورا س کو کھایا نہیں جا سکتا تھا نہ ہی اسے اڑنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا۔ یہ بالکل بیکار تھا۔ علی روئی کا سپر سسٹم کا خواب چکنا چور ہوگیا وہ بہت اداس تھا۔ کیا یہ سپر سسٹم ہے؟ عملی صورت انتہائی بے کار ہے اس کی۔ خوبصورت اور حقیقت پسندانہ گرافکس کا استعمال کیا ہے؟۔
اس وقت مکروہ اشارہ پھر سے گونج اٹھا:
’’اعلیٰ پاکیزہ زندگی کی توانائی جسم میں پائی جاتی ہے۔ کیا آپ اسے چمک میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں؟‘‘۔
علی روئی ’’اورا‘‘ پر کافی ناراض تھا اور غصے سے جواب دیا:
’’ہاں‘‘۔
اسی وقت نیلی جھیل کے کنارے پڑے ایک شخص کی اچانک آنکھ کھل گئی، اس کا چہرہ بے یقین تھا،جسم میں علامتی معاہدہ اس کا جسم کسی طاقت کی طرح تحلیل ہونے لگا اسے لگا جیسے اندر ہی اندر اسے کھا رہا ہواور اسے روکنا بھی ناممکن ہے۔ اسے لگا طویل مدت کے بعد اندر کو کھا جانے والی اذیت ناک قوت آخر ختم ہونے لگی ہے،سنکھیار کا چہرہ زرد پڑ گیا تھا اسے لگا اس کی زندگی اور طاقت دونوں ہی نہیں رہے۔ اسے اندازہ تک نہیں تھا کہ بے ضرر نظر آنے والاعلامتی معاہدہ غیر معمولی حد تک خطرناک ثابت ہو سکتا تھا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔
’’ سنکھیار خوفزدہ ہو کر ہانپ رہا تھا‘‘۔
’’کیا انسان کو کچھ ہوگیا؟ ‘‘۔
مجھے کچھ کرنا چاہیے لیکن یہ لعنتی مہر؟اس کا کیا کروں؟‘‘۔
سنکھیار کے خوف کی کوئی حد نہ تھی،اسے محسوس ہوا جیسے اس کی کمر تیز روشنی سے چمکی اٹھی ہے جس میں انسانی جسم کی شفاف تصویر واضح طور پہ دیکھی جا سکتی تھی۔ علی روئی گنگ پڑا تھا۔
’’یہ کس واہیات آدمی نے سپر سسٹم ترتیب دیا ہے؟ ‘‘۔ وہ حصہ کیوں چمک رہا ہے؟ اس نام نہاد اعلی پاکیزہ زندگی کی توانائی اگر کسی قسم کا جوہر ہےتو کیسا جوہر ہے؟ اور اگر ایسا ہے بھی تو بے کار جوہر ہے‘‘۔
اسی طرح کے خدشات اس کے ذہن پر چھائے ہوئے تھے کہ دوبارہ وہی گونج سنائی دی۔
’’اورا کنورژن کامیاب رہا! چمک کی قدر2000ہے، اور تجربہ کی قیمت 100% ہے۔ ابتدائی ارتقاء کے تقاضے پورے ہوتے ہیں۔
’’کیا آپ ’جسم کی صفائی‘اور مکمل ارتقاء شروع کرنا چاہتے ہیں؟‘‘۔
اس آواز نے اس کی امید کو جلا بخشی اور وہ پرجوش آواز میں پکار اٹھا:
’’شروع کریں‘‘۔
اس تصدیق کے فوراً بعداس نے محسوس کیا کہ مندر کے باہر کی جگہ انتہائی شاندار روشنی خارج کر رہی ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ اس خلا میں کوئی زبردست دھماکہ ہوا ہے۔ دھماکا اتنا زوردار تھا کہ علی روئی کا دماغ لرز اٹھا اوروہ اپنے ہوش کھو بیٹھا۔
اگلی صبح شمائلہ جو مہیرکی موت کے معمہ کو حل کرنے کے لئے معمور کی گئی تھی فلورا کو ساتھ لے کر پرجوش انداز میں تجربہ گاہ کی طرف چلی گئی لیکن اسے امپ نے بتایا کہ علی روئی ابھی تک کمرے میں سو رہا ہے۔
’’میں کب کی اٹھ چکی ہوں اور یہ لڑکا ابھی تک سو رہا ہے‘‘۔
شمائلہ بے اطمینانی سے بڑبڑائی۔
’’اسے جگاؤ‘‘۔
چلبل شمائلہ اور فلورا کے ساتھ علی روئی کے کمرے کے دروازے تک آیا۔
’’حکیم ، شمائلہ آئی ہیں ‘‘۔
امپ نے دروازے پر دستک دی۔ دوبارہ دستک دی گئی لیکن جواب ندارد۔
’’علی روئی تمھیں جگانے کے لئے میں خود یہاں آئی ہوں۔ اگر اب بھی تم نے کوئی جواب نہ دیا تو اندر آکے میں تمہارا حشر نشر کر دوں گی‘‘۔
شمائلہ نے دروازہ پیٹتے ہوئے کہا۔
شمائلہ کی بات سن کر امپ کو پسینہ آگیا اس کی حالت دیکھ کر فلورا کو شک ہوا کہ کچھ گڑبڑ ہے، تب اس نے چھوٹی شہزادی کو دروازہ پیٹنے سے روکا اور دروازہ دھکیل کر اندر گھس آئی لکڑی کا شکستہ دروازہ اس کی دیومالائی طاقت کے سامنے ٹھہر نہ سکا۔ اندر کے منظر نے تینوں کو حیران کر دیا۔ انہوں نے علی روئی کو بستر پر نیم مردہ حالت میں پڑے دیکھا،بستر سیاہ رطوبت سے تر تھا۔
’’حکیم علی روئی ‘‘۔
تینوں نے یک زبان ہو کر کہا۔
شاہی محل کا بیرونی صحن، حکیم الداس کی تجربہ گاہ،معاملہ اقابلہ تک پہنچ چکا تھا۔ اقابلہ نے حکیم الداس سے پوچھا:
’’یہ سب کیسے ہوا؟‘‘۔
’’میں خود حیران ہوں اور اس معاملے سے بالکل لاعلم بھی‘‘۔
حکیم الداس جیسے کسی سوچ میں گم تھا۔ ہوسکتا ہے یہ سب کل کے چیلنج کی وجہ سے ہوا ہو۔ اس کی قسمت میں سلطنت کے سب سے بڑے نابغہ کا خطاب نہ تھا۔ اگرچہ علی روئی کو عظیم الشان حکیم کی مکمل تائید و حفاظت حاصل تھی لیکن مہیرکے زہر کا مقابلہ کرنا اتنا بھی آسان نہیں وہ بھی ایک انسان کے لئے۔ طاؤس نے بھی حکیم الداس کی تائید میں سر ہلایا۔
کل رات علی روئی کے جانے کے بعد بھی اقابلہ اس کی باتوں سے مکمل مطمئن نہیں ہوئی تھی لیکن اب جب اسے نیم مردہ بےہوش حالت میں دیکھا تو اس کا دل پسیج گیا کہ اس انسان نے نیرنگ آباد کے لئے اپنی جان تک داؤ پہ لگا دی اور وہ اس کے خلوص پہ شک کر تی رہی۔ اس نے سرد آہ بھری اور پوچھا:
’’علی روئی کب بیدار ہوگا حکیم ؟‘‘۔
حکیم الداس نے جواب دیا:
’’اس کامشکل ترین وقت کل کی رات تھی جو بیت چکی ہے اور ہمیں کچھ علم تک نہ ہوا۔ تاہم اب یہ خطرےسے باہر ہے بس معمولی بخار ہے اور کچھ نہیں۔ پھر ہوسکتا ہے عظیم الشان حکیم کی طاقت دوبارہ سے قابو پا لے اور زہریلا مادہ بے اثر ہو جائے۔ ہم مہیرکی دوائیوں کے اجزا نہیں جانتے اس لئے کوئی تریاق دینا ٹھیک نہیں، یہ تھوڑی دیر میں خود ہی بیدار ہو جائے گا۔ آپ اس کی فکر نہ کریں‘‘۔
اقابلہ نے سر ہلایا اور اٹھ کھڑی ہوئی۔
’’میں حکومتی امور نمٹانے جا رہی ہوں۔ جیسے ہی یہ بیدار ہو مجھے اطلاع دی جائے‘‘۔
حکیم الداس نے سر ہلایا۔ طاؤس قدرے حیران تھا،وہ شہزادی اقابلہ کی انسان کے لئے اس قدر فکر مندی کی توقع نہیں کر رہا تھا۔
شمائلہ اور فلورا علی روئی کے بستر کے ایک طرف پریشان بیٹھی تھیں۔ علی روئی کے جسم پر موجود گندگی چلبل صاف کر رہا تھا، اس کا چہرہ زرد اور بخار سے تپ رہا تھا۔ اچانک فلوارا نے محسوس کیا کہ اس کی سانس کی رفتار بڑھنے لگی ہے، شمائلہ اور چلبل بھی قریب آگئے۔ علی روئی نے آنکھیں کھولیں۔ اس نے حیرت سے شمائلہ اور فلورا کے چہرے کی طرف دیکھا اور پوچھا:
’’تم لوگ یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘۔
فلورا نے کہا:
’’جب ہم آئے تو تم بستر پر بیہوش پڑےتھے۔ تمہیں ہوش آنے میں پورا دن لگا ہے میں بہت پریشان تھی‘‘۔
اتنے میں آنکھوں میں آنسو لئے شمائلہ بول پڑی:
’’تمہارےجسم سے اتنی زیادہ سیاہ رطوبت خارج ہوتی رہی جسے میں صاف کرنے میں چلبل کی مدد کرتی رہی۔ میں نے یہ سب اپنی آنکھوں کے سامنے ہوتا دیکھا‘‘۔
نہ جانے یہ آنسو کتنے سچے تھے۔ لیکن شمائلہ کی نم آنکھیں بھی فلورا کی آنکھوں کو نم نہ کر سکیں۔
امپ جو اس تمام ماجرے میںشریک رہا تھا اپنی باتونی عادت کی وجہ سے کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن ڈر کے مارے خاموش رہا اور حکیم الداس کو مطلع کرنے نکل گیا۔ حکیم الداس تیزی سے اندر آیا۔ علی روئی کو جاگتے ہوئے دیکھ کر اس نے جلدی سے پوچھا:
’’کیسا محسوس کر رہے ہو؟‘‘۔
’’میں ٹھیک ہوں‘‘۔
علی روئی نے اپنے جسم میں بہت بڑی تبدیلی محسوس کی لیکن اس نے ان کے سامنےظاہر نہیں کی۔ بولا:
’’ یہ سب اچانک ہوا اور جس سیاہ رطوبت کا ذکر یہ لوگ کر رہے ہیں شاید جسم سے زہریلے مواد کی صفائی ہو‘‘۔
حکیم الداس کہنے لگا:
’’ مہیرکا روح توڑ زہر واقعی بہت طاقت ور تھا۔ کل میں نے اس پر توجہ نہ دی لیکن آخر کار اپنا کام دکھا گیا‘‘۔
علی روئی ابتدائی ارتقاء کے بارے میں مزید جاننے کے لیے بے چین تھا، اس لیے اس نے تھکے ہوئے ہونے کا بہانہ کیا:
’’میں اب بھی تھوڑا تھکا ہوا محسوس کررہاہوں،کچھ دیر مزید سونا چاہتا ہوں‘‘۔
’’تم ابھی اٹھے ہواور دوبارہ سونا چاہتے ہو؟‘‘
شمائلہ نے بے اطمینانی سےکہا۔
علی روئی کو احساس ہوا کہ وہ اب بھی شمائلہ کی ایک کہانی کا مقروض ہے۔ اس نے جلدی سے کہا:
’’مجھے افسوس ہے، چھوٹی شہزادی! میں آج واقعی بہت تھکا ہوا ہوں کل ہی کچھ بات کرنے کے قابل ہو سکوں گا‘‘۔
فلورا نے کہا:
’’ٹھیک ہے۔ اندھیرا ہورہا ہےہم تمہارے صحت یاب ہونے تک انتظار کریں گے‘‘۔
’’ہاں ٹھیک ہے ویسے بھی میں تمہاری گزشتہ کارکردگی سے کافی مطمئن ہوں تم آرام کرو، لیکن اس وقت تک کی ہونے والی کوئی بھی دل چسپ بات بتانا مت بھولنا‘‘۔
ننھی شہزادی نے اپنی طرف سے سمجھ داری دکھائی۔
حکیم الداس نے علی روئی کو حوصلہ دیا اورپھر سب کمرے سے نکل گئے۔
دروازہ بند ہونے پرعلی روئی بے تابی سے اپنے ہوش و حواس میں محض ایک ننھی منی سی تبدیلی دیکھنے کی خاطرسپرسسٹم میں داخل ہوا۔ ایسی جگہ جہاں بادلوں جیسی دھند تھی۔ دھند کے ارد گرد کچھ ہلکی سی دھول آہستہ آہستہ بڑھ رہی تھی۔ اس کے علاوہ علی روئی نے محسوس کیا کہ ایک گہری تبدیلی آئی ہے۔
’’تو یہ وقت ہے خلا کا، یہ مردہ اور لامتناہی سلسلہ دراصل وقت ہے‘‘۔
اگرچہ جگہ کی تبدیلی نے علی روئی کو قدرے حیران کردیا تھا مگر اس تبدیلی کو اس نے اپنے ذہن پہ طاری نہیں ہونے دیا۔ اس نے اپنے دماغ کو جھنجھوڑا اورپھر تخت پر بیٹھ گیا۔ اس بار دو کی بجائے تین روشن اسکرینیں نمودار ہوئیں۔ اس کے ساتھ ہی بڑی مقدار میں نئی معلومات اس کے دماغ میں منتقل ہونے لگیں۔ سٹیٹس پینل کے اندر بننے والاعلی روئی کا عکس پہلے کی طرح شفاف تھا مگر نیچے کی طرف شعلے اٹھ رہے تھے جن کے اندر ایک لفظ ’’الکید ‘‘نمودار ہوا۔
سائیڈ پر متن کی تفصیل آگئی:
عنوان: اسٹار کلیکٹر
ارتقاء کی سطح: ایک ستارہ
تجربہ کی قیمت0:%
انرجی ویلیو:21:
کمل طاقت کا اندازہE:
دماغ میں نئی معلومات کے مطابق انسانی جسم میں کل سات ’’سٹار پلس ‘‘ہیں جو ستاروں کی طاقت کی سات سطحوں کی نمائندگی کرتی ہیں۔ سٹار پاورایک ایسی طاقت ہے جو انسانی جسم کی جڑوں سے مربوط ہے اور کائنات کی گہرائیوں سے ہمکلام ہوتی ہے۔ یہ سٹار پلس طاقت کا اصل منبع ہے۔
سات ستاروں میں سے پہلے ستارے کو الکید کہتے ہیں۔ سٹار پلس کی پہلی سطح کانام بھی الکیدہے۔ جو ابتدائی ارتقاء کے ساتھ خود بخود متحرک ہو جاتی ہے مگر اسی تک محدودرہتی ہے۔ آگے بڑھنے کےلئے سٹار پلس کو چالو کرنا،موجودہ حالت کو سمجھنا،اوراس میں مہارت حاصل کرنا ضروری ہے، اسی سبب پیش رفت ہوتی ہے اور ہر فعال اسٹار پلس طاقتور صلاحیتوں اور مہارتوں میں زبردست اضافہ کر تی ہے۔ ’’الکید‘‘ کے بعد اگلی حالت ’’المزار‘‘ ہے۔ یہ دوسری سطح ہے۔ اس کے بعد کی سطحوں تک اس وقت تک پہنچنا ممکن نہیں جب تک المزار کی سطح مکمل طور پر گرفت میں نہ آ جائے۔ سکرین پر ’’تجربہ کی قدر‘‘ اور ’’طاقت کا مکمل ڈیٹا‘‘باقاعدہ دکھائی دیتا ہے۔ ’’تجربہ کی قدر‘‘ سے پتہ چلتا ہے کہ مہارت اور صلاحیت میں کہاں تک پہنچ گیاہے۔ اگلی سطح پر پہنچنے کےلئے پچھلی سطح پر ’’تجربہ کی قدر‘‘کا 100فیصد ہونا لازمی ہے۔
علی روئی نے دیکھا کہ ہنر کی سکرین بھی بدل چکی ہے۔ تین نئے آئیکونز کے ساتھ اوپر ایک اضافی پرت بھی روشن ہے۔ یہ اسٹار کلکٹر کی نئی صلاحیتیں ہیں۔
ایسٹرل فارم: (غیر فعال صلاحیت – زخم کی بحالی کی رفتار میں اضافہ؛ جسمانی طاقت اور روح کی تخلیقِ نو کو تیز کرنا۔ )
اینالٹیکل آئیز🙁فعال مہارت – ہدف کی حیثیت کو مکمل طور پر سمجھنا اور تجزیہ کرنا؛ قابلیت سطح کے ساتھ بڑھانا۔ دس منٹ استعمال کےلئے استعمال پر ایک اضافی ’’چمک ‘‘خرچ ہوتی ہوگی
اررورا شاٹ۔ (فعال مہارت – اسٹار پاور لانگ رینج حملہ۔ مہارت جتنی زیادہ ہوگی، اتنا ہی زیادہ نقصان کرے گا۔ استعمال کی حد ہر 24 گھنٹے میں دو بارہے۔ ہر استعمال پر دس’’ چمک ‘‘کے یونٹ استعمال ہو نگے۔
علی روئی کے پاس اس وقت پانچ مختلف مہارتیں تھیں۔ ان میں بریتھ ہولڈنگ اور ایسرل فارم دو غیر فعال صلاحیتیں تھیں اور اوراکنورجنگ، اینا لٹیکل ائیز،اروراشاٹ تین فعال مہارتیں تھیں۔
اینالٹیکل ائیز کے آئیکون سے دو آنکھیں روشنی کو خارج کررہی تھیں۔ اررورا شاٹ کے آئیکون میں ایک ہاتھ سے آگ کا بگولا نکل رہا تھا۔
اسے علم نہیں تھا اینالٹیکل ایئزکیا کر سکتی ہیں۔ ایسرل فارم کے متعلق اسے لگ رہا تھا کہ یہ طویل فاصلے تک حملہ کرنے کی مہارت ہے، وہ اسے آزمانے کے لیے بے چین تھا مگر علی روئی نے اپنے جوش پر قابو پایا اور نئی شامل ہونے والی تیسری اسکرین پر نظریں جما دیں۔ مختلف اندازکے کئی تعمیراتی نمونےاس کے سامنے آئے، جن میں’’گودام‘‘، ’’تربیتی میدان‘‘ اور ’’مرکزی تبدیلی‘‘ شامل ہیں۔ سرمئیروئنگ کی کئی عمارتیں تھیں جن کا کوئی نام یا تفصیل نہیں تھی۔ وہ ظاہر ہے اس سطح پر دستیاب نہیں تھیں۔
اس نے اپنا ذہن ’’گودام ‘‘کی عمارت پر مرکوز کیا، پھر اس کی تفصیل سامنے آئی۔
چالو کرنے کی ضرورت: 500 اوراز۔
استعمال: ہر قسم کی بے جان چیزیں کو ذخیرہ کرنا۔ ان ااقابلہ کوذہنی ارادے کے ساتھ جمع بھی کیا جا سکتا ہے اور واپس بھی لیاجا سکتا ہے؛ گودام کی ساخت خود بخود مالک کے ارتقاء کی سطح کے ساتھ بڑھتی رہتی ہے۔
تربیتی میدان کو چالو کرنے کے لئے1000 اوراز کی ضرورت تھی۔ یہ مختلف خصوصی حالات کے ساتھ مختلف تربیتی جگہیں فراہم کرتا ہے۔ جنہیں مختلف پیمانوں کے ساتھ ’’چمک ‘‘کے ذریعے خریداجا سکتاہے۔
مرکز تبدل کو چالو کرنے کے لئے1000 اوراز کی ضرورت تھی اور اس کا استعمال اورا کے ساتھ مختلف خصوصی چیزیں کے تبادلے کے لیے کیا جا سکتا تھا۔
ابتدائی ارتقاء کو مکمل کرنے کے بعد علی روئی نے محسوس کیا کہ وہ جس چمک یعنی انرجی سے چمک سے نفرت کرتا تھا وہی سب سے اہم چیز تھی،وہی پورے سپر سسٹم کی کرنسی تھی۔
نئی حالت تک پہنچنے، مندر کی نئی عمارتوں کو فعال کرنے، چیزیں کے تبادلے اور یہاں تک کہ لڑائی میں فعال مہارتوں کو استعمال کرنے کے لیے اسی چمک کی اسی انرجی کی ضروری تھی۔ جسے اورا کہا جاتا ہے۔
علی روئی واقعی ان تینوں عمارتوں کو فعال کرنا چاہتا تھا، لیکن اس کی موجودہ چمک صرف21 تھی۔ اگرچہ خودکار چمک کی نشوونما کی شرح ارتقاء سے پہلے کی نسبت دوگنا تیز ہوچکی تھی پھر بھی اسے1 عددحاصل کرنے میں تقریباً آدھا گھنٹہ لگا۔ ایک دن میں صرف 48کی تعداد کا اضافہ ہوا۔ یہ ابھی بھی بہت سست رفتار تھا اور مستقبل میں سب سے زیادہ اسی کی ضرورت تھی لیکن وہ نہیں جانتا تھا چمک میں اضافے کے لئے توانائی کہاں سے حاصل کی جائے۔
علی روئی نے بے انتہا خلاؤں سے نکل کر جب آنکھیں کھولیں تو اس نے محسوس کیا کہ اس کے حواس خمسہ غیر معمولی طور پر تیزہو چکے ہیں۔ ایک عجیب سی لامتناہی طاقت ہے جو اسے محسوس ہو رہی ہے۔ جب اس نےبستر سے چھلانگ لگائی تو اس کا سر چھت سے جا ٹکرایا اور واپس نیچے گر گیا۔ اس نے اپنی کولہوں کو چھوا حیرت سے اٹھ کھڑا ہوا
’’بستر اور کمرے کی چھت کے درمیان فاصلہ3 سے 4 میٹر ہے۔ یہ فاصلہ میں نے کیسے طے کر لیا؟اگر میں واپس زمین پہ جاسکوں تو اولمپکس جیتنا تو کوئی بات نہیں ہوگی میرے لئے‘‘۔
علی روئی نے لکڑی کا ایک ٹکڑا اٹھایا اور اپنی طاقت استعمال کرنے کی کوشش کی۔ لکڑی کا سخت ٹکڑا اس کے ہاتھوں میں سفوف کی طرح پس گیا۔ اس کے بعد اس نے لوہے کے دروازے کی موٹی سلاخ پکڑی اور دونوں سروں کو آپس میں جوڑ دیا۔ سلاخ پر انگلی کا ایک چھوٹا سا نشان بھی باقی رہ گیا۔
اسے پہلی بار طاقت کے نشے کا احساس ہوا۔ اس نے اپنے آپ سے کہا:
’’تو میں بےکار نہیں گیا۔ اب مجھے کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں‘‘۔
بےحد جوش کے سبب وہ اپنے اندر خواہ مخوا ہ طاقت کے مظاہرے کر رہا تھا۔
’’اورورو شاٹ‘‘ کے بارے میں سوچتے ہوئے، اس نے اچانک اپنے ہاتھوں میں خارش محسوس کی۔
’’نہیں، مجھے اسے آزمانے کے لیے کوئی جگہ تلاش کرنی پڑے گی‘‘۔
علی روئی نکل پڑا۔ رات کا وقت تھا۔ وہ سبز چادر اوڑھے سر اور چہرہ چھپائے گلی میں جا رہا تھا۔ اس کا حلیہ عام ڈیمنوں جیسا ہی تھا۔ اس لئے کسی نے اس پر توجہ نہ دی۔ وہ اپنی طاقت پرکھنے کے لئے شہر سے دور جانا چاہتا تھا لیکن حکومتی پہرے بہت سخت تھے اس لئے اسے شہر میں کوئی ویران جگہ تلاش کرنی تھی تاکہ وہ اپنی اینالٹیکل ائیز کو چالو کرکے چیزوں کو دیکھ سکے، یعنی تجزیاتی آنکھوں کی طاقت کا اندازہ کر سکے۔ اس نے سسٹم چالو کیا اوردس میٹر کے فاصلے پر موجود سڑک کے کنارے ایک بونے کی طرف غور سے دیکھا تو اس پر فوراً معلوم ہوا:
نامعلوم مخلوق؛ جامع طاقت کا اندازہ – جی، فزیک – نامعلوم؛ طاقت – نامعلوم؛ روح – نامعلوم؛ چستی – نامعلوم۔
علی روئی سمجھ گیا تھا کہ یہ ہنر پڑتال کے لئے ہے۔ یہ مخالف کی طاقت کا اندازہ لگا سکتا ہے اور جنگ میں دشمن کے خلاف پہلے سے حکمت عملی بنا سکتا ہے۔ کیا کمال کی مہارت ہے یعنی ارتقاء کی سطح جتنی بلندہوگی، مخالف کے متعلق معلومات اتنی واضح ہوں گی۔ اسی لمحے پیچھے سے ایک عجیب سی آواز آئی:
’’کیا آپ مجھے کچھ کھانے کو نہیں دیں گے؟‘‘۔
علی روئی نے مڑ کر دیکھا لیکن کوئی نظر نہ آیا،کچھ پریشان ہوا کیونکہ <تجزیاتی آنکھیں< اب بھی کارگر تھی: نامعلوم مخلوق؛ جامع طاقت کا اندازہ – جی، فزیک – نامعلوم؛ طاقت – نامعلوم؛ روح – نامعلوم؛ چستی نامعلوم۔
پھر عجیب سی آواز آئی:
’’وہ ہڈی بہت دور ہے۔ میں اس تک نہیں پہنچ سکتا‘‘۔
علی روئی نے غور سے دیکھا تو معلوم پڑا یہ ایک چھوٹا ہیل ہاؤنڈ تھا جو محافظ کتے کی طرح دروازے سے بندھا ہوا بات کر رہا تھا۔
ہیل ہاؤنڈ جیسا نچلے درجے کا دیومالائی حیوان کیسے دیومالائی دائرے کی عام زبان بول سکتا ہے؟
کیا یہ ممکن ہے۔۔۔۔ <تجزیاتی آنکھیں<
اپنے ذہن میں موجود مفروضے کی تصدیق کرنے کے لیے، علی روئی کو وہ ہڈی اٹھا کر ہیل ہاؤنڈ کی طرف پھینک دی۔ چھوٹے ہیل ہاؤنڈ نے خوشی سے اپنی دم ہلائی جیسے آہستہ سے کہا ہوشکریہ۔
’’کچھ اور بھی چاہیئے تو بتاؤ‘‘۔
علی روئی نے محض یقین دہانی کے لئے پوچھا۔ اسے کوئی جواب نہ ملا لیکن جب اس نے اپنے ذہن میں یہی سوال دہرایا تو اسے ہیل ہاؤنڈ کا جواب مل گیا:
’’گوشت‘‘۔
’’اچھا اگر ممکن ہوا تو اگلی بار ضرور لاؤں گا‘‘۔
اس نے دوبارہ کوشش کی لیکن دیومالائی درندے کی بجائے اسے اس کا بھی جواب اپنے ذہن میں ملا۔
چلتے چلتے اسے اچانک گلی سے آنے والی آوازیں سنائی دیں۔
’’ چالاک بونے! تم نےپیسے چھپانے کی ہمت کیسے کی؟‘‘۔
’’مجھ پر کرم کیجیے یہ چند سفید سکے میں نے کچھ دن پہلے اپنی بیٹی کے کھانے کے لئے کمائے تھے، یہ مت چھینیں‘‘۔
’’چلو تم میں مزید پریشان ہونے کا حوصلہ نہیں تو ہم تمہاری بیٹی کو لے جاتے ہیں یہ کیسا رہے گا؟‘‘۔
یہ گانگا کی آواز تھی۔
’’ گوب! اس کے ساتھ بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اسے مار ڈالو اور اس کی بیٹی کو لے جاؤ!‘‘۔
علی روئی کچھ دیر سوچتا رہا اس نے اپنے لباس کو درست کیا اپنے چہرے کو ڈھانپنے کے لیے چادر کا ایک پلو منہ کے گرد لپیٹا اور محتاط انداز میں آواز کی سمت لپکا۔ یہ وہی گانگا تھا جس نے علی روئی پر شہر کے دروازے پر چوروں کے ساتھ ملی بھگت کا الزام لگایا تھا اور اب دو آدمیوں کے ساتھ مل کرسیاہ بونے باپ بیٹی کو دھمکا رہا تھا۔ علی روئی نے ایک خاص حد سے گانگا اور اس کے ساتھیوں کی طاقت کا اندازہ لگایا،گانگا کی طاقت ایف تھی لیکن اس کے ساتھیوں کی طاقت کو وہ نہ جانچ سکا کیوں کہ وہ خاصے فاصلے پر تھے۔ علی روئی نے اندازہ لگایا کہ ان کی طاقت گانگا سے کم نہیں ہوگی۔ اس خیال سے یہ گانگا کو سبق سکھانے کا اچھا موقع تھا۔ گانگابونے کی بیٹی کو پکڑنے ہی والا تھا کہ اسے اپنی پیٹھ سے آواز سنائی دی:
’’رکو!دیومالائی دائرے کے دو چمکتے ہوئے چاندوں کی روشنی میں کسی کمزور کو دھونس دیتے ہوئے تمہیں شرم نہیں آتی‘‘۔
ڈیمن دائرےمیں بقا کے اصول ہمیشہ سے طاقت ور کی حاکمیت اور کمزور محکومیت کےارد گرد گھومتے ہیں، اس غیرمتوقع آواز نے گانگا سمیت سب کو حیران کر دیا۔ گانگا نے طنز یہ اندازمیں کہا:
’’کون ہے یہ بےوقوف؟۔ میں تمہیں مزہ چکھاتا ہوں پھرتمہیں معلوم ہوگا کمزور ہونا کیسے شرم کی بات ہے‘‘۔
یہ کہہ کر وہ ڈنڈا لہراتا ہوا بھاگا۔ جب علی روئی نے اپنی توجہ اس پرمرکوز کی توگوب کی حرکت سست ہوتی دکھائی دی فلموں میں دکھائی جانے والی سست روی کی تکنیک جیسی سست رفتار!!۔ وہ بآسانی اسے چکما دے سکتا تھا۔
علی روئی نے اپنی پچھلی زندگی میں کبھی کک باکسنگ کی مشق نہیں کی۔ اسے لڑائی کا زیادہ تجربہ نہیں تھا۔ پہلے تو وہ قدرے گھبرایا ہوا تھا لیکن جتنا وہ لڑتا تھا خود کو اتنا پر سکون محسوس کرتا تھا۔ گوب کے شدید حملوں نے اسے چھوا تک نہیں تھا۔ اس کے بجائے علی روئی تیزی سے گوب کی پیٹھ کی طرف بڑھا اور اس کی گدی پر لات ماری۔ گوب ہوا میں اڑتا ہوا دور جا گرا۔
گانگا نے دیکھا کہ نقاب تہہ دار گینگ کتناطاقتور ہے۔ اس نے ہتھوڑا نیچے سے اٹھایا اور آگے بڑھا کر پکارا:
’’تم کون ہو؟ کیا تم نے میرا نام نہیں سنا؟، گانگا ان دی نیرنگ آباد۔ اگر تم میرے ہتھوڑے کی ضرب سےمرنا نہیں چاہتے تو ابھی چلے جاؤ!‘‘۔
نقاب پوش نے طنز کیا:
’’تو تم گانگا ہو۔ جسے ایک عورت نے ایک ہاتھ سے محکوم بنا لیا تھا اور تم سے بار بار اپنی جان کی بھیک منگوائی تھی‘‘۔
گانگا کوعلی روئی نے وہ وقت یاد دلایا جب شہر کے دروازے پر فلورا نے اس کو تقریباً نصف میں تقسیم کر دیا تھا۔ گانگا ہتھوڑا کے ساتھ دھاڑتا ہوا حملہ آور ہوا۔ گانگا کی طاقت بھی ایف کلاس کی تھی لیکن وہ گوب سے زیادہ تیز تھا اور فی الحال اسٹار کلکٹر کی سطح پر <Analytic Eyes> بہت زیادہ تفصیلی ڈیٹا فراہم نہیں کرسکی تھیں۔ اگرچہ گانگا کی طاقت گوب سے زیادہ تھی لیکن علی روئی کی نظروں میں وہ اس مقام تک نہیں پہنچا تھا کہ اسے چکما نہ دیا جا سکے۔ علی روئی نے تیز لڑائی کے طریقہ کار سوچ لیا۔ اس نے پیچھے کی طرف چھلانگ لگاتے ہوئے خود کو گانگا سے دور کر لیا۔ اس کے بعد اس نے مہارت کے درخت کے آئیکون میں کرنسی منتقل کی۔ اپنے دائیں ہاتھ کی تمام انگلیاں کھول کر گانگا کی طرف متوجہ ہوا پھر اس نے اپنے دماغ میں کہا:
’’> Aurora Shot>‘‘۔
ایک سفید روشنی گلی میں بھر گئی۔ گوب اور دوسروں کی خوف زدہ آنکھوں میں تقریباً دو میٹر قطر کی ایک بڑی روشنی کا گولاعلی روئی کی ہتھیلی سے نکلا اور گانگا کی طرف لپکا۔
جب> Aurora Shot> ریلیز ہوا علی روئی نے محسوس کیا کہ اس کے جسم کی اسٹار پاور آدھی خالی ہو گئی ہے۔ تاہم ہلکی گیند کے بھاری پن نے بھی اسے چونکا دیا۔ یہ مثال ویڈیو میں اتنا مبالغہ آمیز نہیں تھا۔ یہAurora Shot>نہیں ہے، یہ> Aurora Lenon> ہے۔
گانگا نے اس طرف جانے کی کوشش کی لیکن پھر بھی سفید روشنی کے کنارے سے ٹکرا گیا۔ اس کا مضبوط جسم گوب کے سر کے اوپر سے ہوتا ہوا دس میٹر دور جا گرااور پھٹ سا گیا۔ گانگا کا ہتھورا بھی گرتے ہوئے کہیں جا لگا۔
سفید روشنی نے اپنی رفتار نہیں کھوئی اور دور پتھر کی دیوار سے ٹکرائی۔ پتھر کی موٹی دیوار ایک بڑا سوراخ بناتی ہوئی اس میں گھس گئی۔ دیوارکے ارد گرد مضحکہ خیز دراڑیں بن گئیں۔ پھر پتھر کی پوری دیوار زمین پر آگر ی۔ وہاں کوئی اور موجود نہیں تھا۔ خوش قسمتی سے جب گانگا کا گروہ باپ بیٹی سے بھتہ لے رہا تھا تو راہگیر فرار ہو گئے تھے۔ کوئی شور سنتا بھی تو آنے کی ہمت نہ کرتا۔ گانگا کا مضبوط جسم مٹی کی طرح زمین پر گر پڑاتھا۔ اس کی آنکھیں خوف سے بھری ہوئی تھیں۔ اس کی چھاتی پھٹ گئی تھی۔ اس کے ہاتھ خون آلود تھے۔ وہ غیر ارادی طور پر کانپ رہا تھا اور مکمل طور پر حرکت کرنے کی صلاحیت کھو چکا تھا۔ میناٹور نے سوچا:
’’میں ابھی کنارے سے ٹکرا گیا تھا۔ اگر مجھے براہ راست مارا گیا تو میں اپنی جان سے ہاتھ دھو سکتا ہوں‘‘۔
گوب اوراس کے ساتھی کو پھر احساس ہوا کہ انہوں نے ایک خوفناک دشمن کو اکسایا ہے۔ وہ اتنے خوفزدہ تھے کہ انہوں نے جلدی سے رحم کی درخواست کی۔
اگرچہ <Aurora Shot> نے زیادہ تر طاقت کو خالی کر دیا لیکن طاقت تخیل سے بہت اوپر تھی۔ گانگا کو ایک ہی شاٹ میں شکست ہوئی۔ علی روئی نے فوراً اپنے دل میں ایک قسم کا فخر محسوس کیا۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کے دل پردوبارہ جنم لینے کے بعد جودباؤ پوری طرح سے ختم ہو گیا ہے۔ اس کے اعتماد میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔
’’اگر تم نے اب بھی کمزوروں کو دھمکانے کی ہمت کی تو میں تم لوگوں کے سر شہر کے دروازے پر لٹکا دوں گا!‘‘۔
علی روئی نے گانگا کی طرف اشارہ کیا جو زمین پر گرا پڑاتھا۔
’’اب میں تمہیں دو منٹ دیتا ہوں۔ اس سے پہلے کہ میں اپنا ارادہ بدلوں، اسےلے کر یہاں سے چلے جاؤ۔ مجھے مارنے کےلئے طاقتوروں کو تلاش کرنا چاہیے‘‘۔
گوب نے گانگا کو اٹھایا اور دونوں بھاگ کھڑے ہوئے۔ ہتھوڑا اٹھانے کی کسی نے بھی ہمت نہ کی۔
<Aurora Shot> نے > Aurora Value>استعمال کی۔ <Analytical Eyes> کےلیے2 پوائنٹس کاٹتے ہوئے، صرف 10 پوائنٹس باقی تھے۔
’’جناب کی شان کا موازنہ دیومالائی دائرے کے رات کے آسمان میں دوہرےچاند سے کیا جاسکتا ہے۔ میں واقعی آپ کی مہربانی کی تعریف کرتا ہوں‘‘۔
بوڑھابونا اور بونی نے علی روئی کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔
علی روئی کو بچپن سے ہی ہیرو بننے کا کوئی کمپلیکس نہیں تھا۔ دوہرےچاند کی جامنی روشنی میں ڈوبے ہوئے ان لمحات میں وہ خود کو مضبوط اور طاقتور محسوس کر رہا تھا۔ اسے اچانک خیال آیا کہ ان لٹیروں سے باپ بیٹی کی لوٹی ہوئی رقم واپس لینا بھول گیا ہے۔ اس نے جیب سے ایک جامنی رنگ کا کرسٹل سکہ نکالااور انہیں دیتے ہوئے کہا:
’’اٹھو!۔ یہ تمہارے لیے ہے، کھانا خریدنے کے لیے‘‘۔
بونا تو خود اسے چند سفید کرسٹل سکے پیش کرنا چاہتا تھا جو اس نے چھپائے ہوئے تھے لیکن اسے توقع کے برعکس علی روئی اسے الٹا اسے پیسے دےرہا تھا۔ وہ تھوڑی دیرکےلئے توہکا بکا رہ گیا پھر فوراً ہی جامنیروئنگ کا کرسٹل سکہ لے لیا۔ جیسے اسے ڈر ہوا کہ علی روئی انکار کر دے گا:
’’شکریہ جناب! مجھے جمرال کہتے ہیں‘‘۔
جمرال نے دل ہی دل میں سوچا:
’’آج کتنا خوش قسمت دن ہے کہ کوئی میرے لیےگانگا سے لڑا بھی ہے اور مجھے ایک جامنیروئنگ کا کرسٹل سکہ بھی دیاہے۔ دیومالائی دائرے میں کوئی ایسا کہاں سے آ سکتا ہے۔ یہ ہیرو ضرور کوئی پاگل ہے۔ اسے پھانس لینا چاہئے‘‘۔
وہ بولا:
’’سر کی ہم پر مہربانی بحیرہ مردار سے بھی گہری ہے۔ اگر آپ برا نہ مانیں تو میں اپنی بیٹی ساسا آپ کو لونڈی کے طور پر دینے کو تیار ہوں‘‘۔
بوڑھا بونا اچھی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔ اس نے سوچا:
’’اگرچہ یہ آدمی گونگا ہے لیکن اس میں طاقت ہے۔ یہاں تک کہ مشہور ولن گانگا بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکا۔ اگر میری بیٹی اس کی پیروی کر سکتی ہے تو میں گانگا جیسے لوگوں سے نہیں ڈروں گا۔ ہو سکتا ہے کہ میں نیرنگ آباد کی بدروحوں پر بھی سوار ہو سکوں‘‘۔
بوڑھے بونے کی بیٹی ساسا نے ان الفاظ کو سنا اور بے وقوف ہیرو کی طرف ہچکیاں لیتے ہوئے اپنی شرمندگی ظاہر کی۔ علی روئی کے دل و جان کو یوں جھٹکا لگا جیسے بجلی گر رہی ہو۔
ساسا بہت نازک تھی۔ اس کا قد صرف اس کی کمر پر تھا۔ عجیب گہرے سبز دھبوں والی جلدپر اس کا چہرہ کسی تجریدی آرٹ کا نمونہ لگ رہا تھا۔ دونوں کان بڑے اور لمبے تھے، بھاری آنکھیں، پھیلی ہوئی گال کی ہڈیاں، ناک بنداور مختصر، بہت بڑا منہ۔ علی روئی کو کچھ سردی لگنے لگی تھی۔ ایسی تباہ کن خوبصورتی۔ علی روئی نے سختی کے ساتھ انکار کیا تو بوڑھے بونے کو اپنا ارادہ بدلنا پڑا۔ اس نے کہا:
’’آپ نے ہم پربہت بڑی مہربانی کی ہے۔ بدلے میں دینے کے لیے ہمارے پاس اور کچھ نہیں تھا۔ ہم صرف اپنے آپ کو آپ کے لیے وقف کر سکتے ہیں‘‘۔
علی روئی کا پورا جسم کانپ گیا۔ اس نے زور سے انکار میں سر ہلایا۔ بوڑھے بونے کا مطلب علی روئی کو حکیم کے طور پر پوجنا تھا۔ دیومالائی دائرے میں طاقتورکے ساتھ چپکا رہنا زندہ رہنے کا ایک عام ذریعہ تھا۔
علی روئی کے پاس پہلے سے ہی ایک بندہ تھا جو شیخی مارتا اور چاپلوسی کرتا تھا۔ وہ کسی اور کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا اور اپنی شناخت کو ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا۔ پائوں پکڑ کر روتے ہوئے بونے سے چھٹکارا مشکل ہورہا تھا۔ اس نے بونے کو جامنیروئنگ کے مزید دو کرسٹل سکے دیے اور اس طرح اس پرجوش جمرال اور اس کی بیٹی سے چھٹکارا پا لیا۔
’’حکیم ! اپنا نام بتاتے جائو‘‘۔
جمرال نے پیچھے سے آواز لگائی۔
یہ دیکھ کر کہ تین جامنیروئنگ کے کرسٹل سکے دینے کے بعد بھی بوڑھا بونا اسے حکیم کہنے سے باز نہیں آیا، علی روئی نے سوچا کہ بوڑھا لالچی ہے۔ اس نے مزید قیمت بڑھانے کا ارادہ نہیں کیا۔ اس نے ایک لمحے کے لیے سوچا اور بے ساختہ ایک دیومالائی نام لیا۔ پھر وہ اندھیرے میں غائب ہو گیا۔
’’میرا نام ہے۔۔۔۔ منگول‘‘۔
علی روئی نے واپسی پر یہی نتیجہ اخذ کیاکہ ہیرو بننا خطرناک ہے۔ مجھے یہ کیریئر شروع کرنے سے پہلے محتاط رہنا چاہیے۔ بوڑھے بونے نے پوشیدہ آدمی کی طرف دیکھا جو غائب ہو گیا تھا اور اپنے دل میں آقا کے نام کی تکرار کرتا رہا۔ منگول، منگول، منگول، منگول۔ کافی دیر کے بعد اس نے دل میں کہا:
’’حکیم آپ فکر نہ کریں۔ جمرال آپ کی دی ہوئی کرنسی کا بہت اچھا استعمال کرےگا‘‘۔
علی روئی سوچ ہی نہیں سکتا تھا کہ اگلے چند دنوں میں وہ بوڑھابونا کیا کرنے والا ہے۔ یونہی بے ساختہ منہ سے نکلا ہوا نام ’’منگول‘‘ دیومالائی دائرے میں کتنا بڑا ہنگامہ کھڑا کر نے والاہے، علی روئی اس وقت نئی حاصل شدہ طاقت اور صلاحیت کی عظیم خوشی میں ڈوبا ہوا تھا۔
بیرونی صحن میں گارڈز کی نظروں سے بچ کر تجربہ گاہ کے کمرے میں واپس آنے کے بعدبھی علی روئی ابھی تک بستر پر سونے کے قابل نہیں تھا۔ دھیرے دھیرے جوش سے پرسکون ہو رہا تھا۔ گانگا نیرنگ آباد گارڈز میں سکینڈ کمانڈر تھا۔ پچھلی لڑائی کی بنیاد پریقینا اس کی طاقت اتنی ضرور ہوگی کہ عام سپاہی ڈیمنوں پر بھاری پڑتا ہوگا مگر علی روئی کے مقابلے میں کچھ بھی ثابت نہ ہوسکا۔ پھراسے شہزادی اقابلہ کی طاقت یاد آ گئی جو اس نے امپیریل گارڈن میں دکھائی تھی۔ وہ اب بھی کمزور تھا اور خاموشی سےسنکھیار کی طرح مضبوط ہونا چاہتا تھا۔
وہ مایوس نہیں بلکہ پُر امید تھا۔ وہ جانتا تھا سٹار کلکٹر میں الکید کی سطح صرف شروعات ہے۔ بہت بڑی طاقت حاصل کرنے کا راستہ اس کے قدموں میں دھراہے۔ فکر اسےصرف اس بات کی تھی کہ آگے کیسے بڑھنا ہے۔ آگے بڑھنے کےلئے کرنسی کہاں سے حاصل کرنی ہے۔
وہ سمجھ چکا تھا کہ سپرسسٹم لاجواب چیز تھا مگر وہ ابھی سب سے بنیادی مرحلے پر تھا اور دیومالائی دائرے میں بہت زیادہ خطرات اور طاقتور وجود تھے۔ وہ کسی بڑے ٹکرائو سے پہلے ایک بڑی طاقت کےحصول کی کوشش میں تھا جس کا بظاہر کسی کو علم بھی نہ ہو۔ اس کے خیال میں <Breath Holding> کے ساتھ مل کر پوشن حکیم کی ایک سٹوڈنٹ کی شناخت اس کے لئے بہترین بھیس تھی۔ فی الحال علی روئی کو اپنی سمت کا اندازہ ہو گیا تھا۔ اس نے کس طرف جانا ہے اس کی نشاندہی اس کے پاس تھی۔ اب وہ کمزور نہیں تھا۔ پہلے وہ جو بحرانوں کو حل کرنے کے لیے صرف قسمت اور ذہانت پر بھروسہ کر تاتھا مگرڈیمنز کی اس غیر مانوس اور خطرناک دنیا میں زندہ رہنے کا ایک حقیقی اثاثہ اسے مل چکا تھا۔ دوبارہ جنم لینے کے بعد پہلی بار وہ کسی غیر فانی اعتماد سے بھرا ہوا تھا۔
اس کےلیے اس وقت ’’چمک ‘‘سب سے اہم چیز تھی۔ اسے اب چمک کو بڑھانے کی کوشش کرنا تھی۔ مہارتوں کے لیے ٹریننگ گراؤنڈ کےلیے گودام اسٹوریج کےلیے ایکسچینج سینٹرکےلئے، سپر سسٹم سے اور بہت کچھ حاصل کرنے کےلیے۔ چمک بڑھانے میں اب اثر مثالی نہیں تھا۔ سیکڑوں جامنیروئنگ کے کرسٹل سکوں کی مالیت کے مہلک زہر کی بوتل صرف 2 پوائنٹس کی چمک میں اضافہ کرتی تھی اور پوری تجربہ گاہ میں اس زہر کی صرف چند بوتلیں تھیں۔
حکیم الداس پریشان حال لیب میں داخل ہوا تو علی روئی پڑھائی کے دوران دوائیوں کی جانچ پڑتال کر رہا تھا۔ اس نے علی روئی کو مشورہ دیا کہ وہ بنیادی مواد کے ساتھ ٹیسٹنگ شروع کرے۔ اور زیادہ حیرت انگیز ادویات کے ساتھ نبرد آزما نہ ہو۔ یہ بھی حکیم الداس کی فراغ دلی تھی۔ اگر یہ کوئی اور حکیم ہوتا تو وہ اپنے اس سٹوڈنٹ کو نجانے کب سے نکال چکا ہوتا جس نے ٹیوشن فیس ادائیگی کبھی کی ہی نہیں تھی جو اس کی مہنگی مہنگی ادویات اپنے تجربوں میں استعمال کیے جارہا تھا۔ علی روئی کو بھی اندازہ ہورہا تھا کہ اخراجات بہت زیادہ ہیں، اس لیے اسے دوسرا راستہ تلاش کرنا چاہیے۔
مہیرکے چیلنج کو ناکام بنا نے پرجو شرط کی رقم حاصل ہوئی تھی۔ وہ وہیں تھی۔ اگرچہ وہ مکمل طور پر حکیم الداس کی ملکیت نہیں تھی مگر اس رقم کا زیادہ حصہ توشہزادی اقابلہ کو نیرنگ آباد کی ترقی کےلیے لے گیا تھا۔ اسے اپنے تجربات کرنے کے لیے واقعی رقم کی ضرورت تھی مگر اس نے حکیم الداس سے یہ سوال نہیں کیا تھا کہ رقم کی تقسیم میں علی روئی کو صرف پانچ سیاہ کرسٹل کے سکے کیوں ملے ہیں۔ کیا یہ کم نہیں مگر علی روئی جانتا تھا کہ حکیم الداس کنجوس نہیں۔ یہ شہزادی اقابلہ کا حکم ہے۔ اسے جو کچھ ملا اس کے حکم سے ملا۔ اس لیے علی روئی نے خاموشی سے اسے قبول کر ناتھا۔ ویسے بھی پیسہ اہم نہیں تھا، زندہ رہنا ہی سب کچھ تھا۔ خاص طور پر اس نے اپنی محبت کا شہزادی اقابلہ کے سامنے واضح طور پر اعتراف کیا تھا،اس لیے یہ اچھا تھا کہ اس نے کوئی اورمطالبہ نہیں کیا۔ پانچ سیاہ کرسٹل سکے بھی کچھ کم تھے۔ پانچ ہزار سفید کرسٹل سکوں کے برابر تھے۔ بے شک یہ کوئی سونے کا ڈھیر نہیں تھا مگر علی روئی کےلیے چھوٹی سی خوش قسمتی ضرور تھی۔
جادوئی کرسٹل سکہ خود ایک قسم کی کرسٹلائزڈ توانائی تھی۔ ڈیمن کرسٹل میں موجود توانائی کو نکال کر اپنی طاقت کو بڑھا سکتے تھے۔ پاکیزگی جتنی زیادہ ہوگی جادوئی کرسٹل اتنا ہی مہنگا ہوگا۔ سیاہ کرسٹل، جامنی کرسٹل، اور سفید کرسٹل اس وقت کرنسیوں کے طور پر گردش کر رہے تھے۔ بلیک کرسٹل کے اوپر اعلیٰ معیار کے بلڈ کرسٹل اور گولڈ کرسٹل تھے جو نایاب تھے۔ کوئی بھی انہیں کرنسی کے طور پر استعمال نہیں کرتا تھا۔
علی روئی نے کل رات جامنیروئنگ کے کرسٹل سکے پر <Aura Conversion> استعمال کرنے کی کوشش کی۔ بے شک یہ تبدیل اور جذب کرنے کے قابل تھا۔ جیسا کہ آئیکن میں دکھایا گیا ہے۔ کامیاب تبدیلی کے بعد جامنیروئنگ کے کرسٹل کوائن کو پاؤڈر کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا گیا لیکن انرجی کی ویلیو میں اضافہ نہیں ہوا۔ شاید اس نے اعشاریہ کے بعد صرف تھوڑی مقدار میں اضافہ کیا۔
جامنیروئنگ کے کرسٹل سکے کی ویلیو دیکھ کر علی روئی کو اندازہ ہو گیا تھا۔ اس کے پاس جوپانچ سیاہ کرسٹل سکے تھے وہ دو گھنٹے سے زیادہ <Automatic Aura Absorption> کے برابر ہیں۔ براہ راست تبدیلی کے قابل نہیں۔ اس نے سو چا کہ میں ان کرنسیوں کو صرف ایسی چیز یں خریدنے کے لیے استعمال کر سکتا ہوں جو مزید چمک پیدا کر سکیں۔
آٹھواں باب
شہزادی کی شطرنج
خوشبو کی پہچان رنگوں سے ممکن نہیں
علی روئی کوئی آوارہ مزاج نوجوان نہیں تھا۔ اس دیومالائی دائرے میں بھی اس کا زیادہ تر وقت تجربہ گاہ میں ہی گزرا۔ پچھلی زندگی میں بھی زیادہ ترگھر ہی رہا۔ صرف ضرورت کےلیے باہر نکلا کرتا تھا۔ اس وقت بھی ’’چمک ‘‘کی ضرورت اسے مجبور کررہی تھی کہ وہ باہر نکلے، ایسے خزانے تلاش کرے جو اسے سپرسسٹم کے کواڑ میں اس کی مدد کر سکیں۔
حکیم الداس کوعلی روئی کے باہر نکلنے پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ اس نے اپنا ہاتھ ہلایا اور علی روئی کو اشارہ کیا کہ جو اس کے جی میں آئے کرے۔ ویسے بھی اب علی روئی اس کا خاص سٹوڈنٹ تھا۔
علی روئی نے چلبل کو ساتھ لے لیا کہ وہ شہر سے واقف ہے۔ پہلی بار وہ اپنے خدمتگار کے ساتھ خریداری کے لیے شہر میں آیا تھا۔ سڑکوں پر چلتا پھرتا ہوایہ انسان اچانک سب کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ ڈیمنوں کی بستی میں اکلوتا انسان۔ سب اس کی طرف اشارہ کرتے تھے اور دوسروں کو دکھاتے تھے۔ زیادہ تر بتاتے تھے کہ یہ وہی حکیم الداس کا سٹوڈنٹ ہے جس نے حکیم چیلنج میں کمال کیا تھا۔ اس کارکردگی سے علی روئی نے کم و بیش ڈیمن کے اس چھوٹے سے حصے میں پہچان حاصل کر لی تھی لیکن اس کے باوجود زیادہ تر ڈیمن نے انسان ہونے کے ناطے اس پر جملے کسے، نفرت کا اظہار کیا۔ محتاط انداز میں دشمنی کا مظاہرہ کیا۔ ایک ڈیمن آپے سے باہر ہوگیا۔ بہت ہی بدصورت نظر آنے والایہ ڈیمن علی روئی کا راستہ روک کر بولا:
’’تمہاراگوشت بہت لذیذ ہوگا‘‘۔
اس نے ایک دو جملے اور بھی کہےتاکہ علی روئی مشتعل ہوجائے مگر علی روئی نے بڑے تحمل کا مظاہرہ کیا اور کہا:
’’آگے سے ہٹ جائو۔ بیوقوف مت بنو ‘‘۔
مگر اس کے ارد گرد کچھ اور لوگ بھی جمع ہو گئے۔ علی روئی اب کمزور انسان نہیں رہاتھا۔ اس نے تیزی سے اپنے اردگرد کے تماشائیوں کا گہری نظر سے مشاہدہ کیا۔ وہ بالکل خوفزدہ نہیں تھا۔ لمحہ بھر انہیں خاموشی سے دیکھا اور ہنس کر سمجھانے کے انداز میں بولا:
’’میں تم کو صرف اتنا بتا دینا چاہتا ہوں کہ پچھلے چیلنج کے سبب میرا جسم بدل چکاہے۔ میرا خون اور گوشت خطرناک زہروں سے بھرا ہوا ہے۔ اگر تم زہر کھا کر موت کے گھاٹ اترنا چاہتے ہو تو آؤ اور کوشش کرومگر پہلے یہ ہلکا سا زہر آزمالو تاکہ تمہیں اندازہ ہو جائے ‘‘۔
اس نے اپنی چادر کے اندر سے انگلی پرذرا ساپاؤڈر نکالااور راستہ روکنے والے ڈیمن پر انگلی سے بکھیر دیا۔ اس ذرا سے پاؤڈر نے تمام ڈیمن بھر گیا۔ فوراً اس کے پورے جسم پرخارش شروع ہو گئی۔ وہ اپنے جسم کو اس شدت سے کھرچنے لگا کہ اس کے جسم سے جگہ جگہ خون رسنے لگا۔ وہ زمین پر لڑھک گیا مگر خارش کو روکنے میں ناکام رہا۔ علی روئی نے پوچھا:
’’کیا تم اب بھی میرا گوشت کھانا چاہتے ہو؟‘‘۔
لڑکے نے شدت سے انکار میں سر ہلایا۔
’’پلیز مجھے معاف کردیں۔ مجھ پر اس زہر کا کوئی تریاق ڈالیں۔ یہ خارش میری برداشت سے باہر ہے‘‘۔
علی روئی نے کوئی سفوف سا اس کے اوپر لہرایا اور اسے محسوس ہواکہ خارش آہستہ آہستہ غائب ہو گئی اور پھر چند لمحوں میں بالکل ختم ہو گئی۔ اس نے جواباً لیٹے لیٹے علی روئی پر اپنے لباس سے خنجر نکال کر وار کرنے کی کوشش کی مگر خنجر ابھی اس کے ہاتھ میں تھا کہ اس کا جسم کمزور اور بے اختیار ہو گیااور خارش درد میں بدل گئی۔ گویا ایک ایک انچ سے پھٹنے لگا۔ اس قدر تیز درد کہ وہ چیخ چیخ کر رونے لگا۔ علی روئی نے تحکمانہ لہجے میں کہا:
’’جو لوگ حکیم الداس کی تجربہ گاہ سے تعلق رکھنے والےلوگوں کو ناراض کرنے کی جرأت کرتے ہیں انہیں قیمت چکانا پڑتی ہے ‘‘۔
علی روئی نے اپنے ہونٹوں پر جان بوجھ کر ایک عجیب سی مسکراہٹ بکھیری اور فوراً اونچی آواز میں کہا:
’’شہزادی اقابلہ نے کچھ عرصہ پہلےحکم جاری کیا تھا کہ میں نیرنگ آباد کا رکن ہوں۔ اس آدمی کی طرف سے جان بوجھ کر اشتعال انگیزی شہزادی اقابلہ اور حکیم الداس کی توہین ہے۔ اسے زہر دے کر موت کے گھاٹ نہیں اتاروں گا۔ میں اسکی شاندار چیخیں سننا پسند کروں گا۔ اسے دو دن اور دو راتیں چیخنے دو۔ اگر اس نے دوبارہ مجھ سے گڑبڑ کرنے کی ہمت کی تو میں اس بات کو یقینی بناؤں گا کہ اس کی ہڈیاں بھی سلامت نہ رہیں‘‘۔
دو دن اور دو راتیں۔ آس پاس کے ڈیمنوں نے بدقسمت آدمی کی قابل رحم شکل کو دیکھا، وہ ڈر گئے۔ چند لوگ جو کوشش کرنا چاہتے تھے اچانک انہوں نےاس خیال کو مسترد کر دیا۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ انسان عام ڈیمن سے زیادہ دیومالائی ہے۔ وہ واقعی حکیم الداس کی تجربہ گاہ سے کوئی ہے۔
حکیم چیلنج کے بعد نیرنگ آباد اسٹیٹ میں سیاہ ایلف حکیم کے پاد کے زہر سے مہیرکے راکھ میں ڈالنے والے بہادرانہ اعمال کو بڑے پیمانے پر پھیلایا گیاتھا۔ کسی نے مبالغہ آرائی کی اور دعویٰ کیا کہ اس نے حکیم الداس کو اس کے کولہوں سے ایک مخصوص گیس کے ساتھ ایک ڈریگن کو زہر دے کر مارتے دیکھا ہے۔ حکیم الداس کے شرمناک احساس کے برعکس سیاہ ایلف حکیم سب کے دلوں میں احترام کی بالکل نئی سطح پر پہنچ گیا تھا۔
علی روئی نے حکیم الداس سے چند زہر خاص طور پرحاصل کیے تھے۔ دوسروں کو خبردار کرنے کے لیے اس موجودہ سزا کا ایک واضح اثر ہوا۔ یہ ایک زندہ اشتہار تھا جس کا پروپیگنڈا یک لخت پورے شہر میں پھیل گیا۔ حکیم الداس کےتربیت یافتہ انسان کے ظالم ہونے کی خبر ہر طرف تیزی سے پھیل گئی۔ اب راستے میں کسی اور ڈیمن میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ علی روئی سے انسانی گوشت کے ذائقے کے بارے میں پوچھتا۔ اب علی روئی کو دیکھ کر ڈیمن چونک جانے لگے۔ چلبل کو فخر ہواکہ اس کا مالک زبردست ثابت ہورہا ہے۔ چلتے ہوئے وہ علی روئی کو نیرنگ آباد کی موجودہ صورتحال سے متعارف کرانے لگا۔
ڈیمن دائرےمیں سات شاہی خاندان تھے۔ لڑائی کے بعد لوسیفر، میمن اور اسموڈیس کے صرف تین شاہی خاندان رہ گئے تھے۔ باقی یا تو ختم ہو گئے یا انہوں نے اپنے خون کی لکیر کو بچانے کے لیے مضبوط لوگوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ نیرنگ آباد اسٹیٹ اصل میں تومانی سلطنت کی سب سے خوشحال اسٹیٹ میں سے ایک تھی۔ لیکن بیزل بب شاہی خاندان جو کئی سالوں سے غائب تھا، چار سو سال پہلے نیرنگ آباد میں اچانک دوبارہ زندہ ہو گیا جس کی قیادت گلورفن نامی ایک طاقتور ڈیمن کر رہا تھا۔ بیزل بب گلورفن کے پاس بیزل بب فیملی کا نمونہ تھا۔ ’’خدا کھانے والا ماسک‘‘، اس کی طاقت ظالمانہ تھی۔ اس نے نیرنگ آباد لارڈ اور کئی مضبوط ڈیمنوں کو کھلم کھلا مار ڈالا۔ اس نے تیزی سے پوری نیرنگ آباد اسٹیٹ کو کنٹرول کر لیا اور قریبی سرمانی سلطنت پر حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں پوری تومانی سلطنت کو تباہ کر دیا۔
آدھی رات کا سورج، لوسیفر دی گریٹ نے نیرنگ آباد پر حملہ کرنے کےلیے فوج کی قیادت کی۔ لوسیفر فیملی کے فن پارے ’’سوارڈ آف تومانی سلطنت ‘‘ کے ساتھ میدان میں گلورفن کے ساتھ ون آن ون چلا گیا۔ شدید زخمی گلورفن نے فرار ہونے کے لیے نمونے کی طاقت کا استعمال کیا۔ تب سے اس کے ٹھکانے کا پتہ چل گیا۔ اس طرح بغاوت ختم ہو گئی۔
اس جنگ کے بعد نیرنگ آباد اسٹیٹ پرانے دنوں کی طرح ترقی نہیں کر سکا۔ تاریک سورج کا بادشاہ کے لارڈ کی موت کے بعد ریجنٹ شوالہ نے اپنے بھتیجے گریم کو علاقہ بدر کردیا جو نیرنگ آباد کےتخت کا وارث بننے والاتھا اور اسے اپنی نگرانی اور کنٹرول کرنے کے متعدد طریقے استعمال کیے جس کی وجہ نیرنگ آباد مزید پسماندہ ہو گیا۔ اگرچہ شہزادی اقابلہ کو تخت وراثت میں ملا مگر اس نے بہت زیادہ اصلاح کی فلاح و بہبود کے بہت کام کیے مگر ابھی تک غربت کو اس کی جڑ سے نہیں نکال سکی۔
نیرنگ آباد کے فنانس آفیسر یوسف ایلون سرمانی سلطنت کا بادشاہ جوش کے بڑے بیٹے ہیں۔ بظاہر ایلون فیملی نیرنگ آباد اسٹیٹ کو فنڈ فراہم کرتی ہے لیکن یہ کام بھی وی نیرنگ آباد کی معیشت کو کنٹرول کرنے کے لیے کررہے ہیں۔ آج نیرنگ آباد کا چیمبر آف کامرس یوسف کے ہاتھ میں ہے۔ آدھی دکانیں اس کے کنٹرول میں ہیں۔ یہاں تک کہ نیرنگ آباد کی خوراک کی فراہمی زیادہ تر ایلون فیملی کے تعاون سے ہوتی ہے۔ ظاہر ہے ایلون فیملی کے ذریعے نیرنگ آباد اسٹیٹ کو کنٹرول کرنے کے پیچھے ا وبسیڈین ہے۔
فوجی لحاظ سے اگرچہ پہلے جنرل بوغا بوغائی کی بیٹی فلورا نیرنگ آباد میں ہے لیکن اسٹیٹ کی فوج کارون فیملی کے ایان کے ہاتھ میں ہے۔ شروع میں کارون فیملی نے ولی عہد شہزادہ گریم کی حمایت کی لیکن بعد میں وہ بھی ریجنٹ شوالہ کے ساتھ مل گئے۔ فوجی طاقت جو واقعی اقابلہ سے تعلق رکھتی تھی وہ امپیریل گارڈز کی ہے جس کی سربراہی کاگورون کرتے ہیں۔ یہ ولی عہد شہزادہ گریم کی طرف سے چھوڑی ہوئی صورتحال ہے لیکن وہ بھی حالات کے ہاتھوں مجبور تھا۔ شہزادی اقابلہ اب تک اس لیے کچھ نہ کر سکی کہ دواہم ترین محکمے، خزانہ اور دفاع یعنی معیشت اور فوج دوسروں کے ہاتھ میں تھی۔
فلورا زیادہ تر چیزوں کے متعلق تفصیل سے بات نہیں کرتی تھی۔ علی روئی شہزادی اقابلہ کے بارے میں سوچتا تھا کہ وہ اتنی سرد مزاج اور پتھر دل کیوں ہے۔ اب اس کی سمجھ میں آ رہاتھا کہ باپ کے چھوڑے ہوئے بوجھ کو سہارنےکا اس کے پاس یہی واحد طریقہ تھا، یہ بوجھ اسے اٹھانے ہیں۔
اگرتاریک سورج کا بادشاہ کا رب ابھی تک زندہ ہوتا تو گریم تخت کا وارث ہوتا۔ شہزادی اقابلہ کی آنکھوں کو کولڈ ماسک پہننے کی ضرورت نہ پڑتی۔ علی روئی کے خیال میں یہ ماسک اب اس کی ذات کا حصہ بن چکا ہے۔ اسے اب ہٹایا نہیں جا سکتا۔
علی روئی نے اپنے خیالات کو یاد کرتے ہوئے چلبل سے پوچھا:
’’ چلبل! کیا شہر میں کوئی ایسی دکان بھی ہے جو عجیب و غریب چیزیں فروخت کرتی ہو۔ مثال کے طور پر کوئی خصوصی مواد یا کچی دھاتیں؟‘‘۔
’’عجیب چیزوں کاسٹور‘‘۔
چلبل نے لمحہ بھر سوچا اور اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ علی روئی بولا:
’’لگتا ہے کہ کوئی ایسی دکان ہے‘‘۔
چلبل بولا:
’’لیکن حکیم !آپ اگرصرف کچی دھاتیں دیکھنا چاہتے ہیں تو سامنے لوہار کی دکان میں بہت کچھ ہو سکتا ہے‘‘۔
’’اچھا چلو پہلے لوہار کی دکان پر چلتے ہیں‘‘۔
یہ شہر میں لوہار کی صرف دو دکانوں میں سے ایک تھی۔ نام تھوڑا ڈراؤنا تھا، اسے’’گیلوٹین‘‘ کہا جاتا تھا۔ یہ ڈیمنوں کی منفرد خصوصیت تھی۔ لوہار کی دکان کا مالک ایک مضبوط سنٹر تھا۔ سٹور کے تین لوگ جو اسمتھنگ کر رہے تھے وہ بھی میناٹور تھے۔ مزید برآں وہاں ایک امپ بھی تھا جو ایک نوکر کے طور پر کام کرتا تھا۔
میناٹور کی طاقت کے حوالے سے ڈیمن کی ایک مشہور نسل تھی۔ جنگ میں ایک طاقتور کردار ادا کرنے کے علاوہ یہ لوگ ہنر مند لوہار بھی بن سکتے تھے۔
ایک ایسے گاہک کو دیکھ کردکاندارکے ملازم امپ نے فوراً اسے سلام کیا جس کے پیچھے خریدی ہوئی چیزوں کے کئی شاپر اٹھانے والاامپ بھی موجود تھا۔ جب اس نے علی روئی کی شکل دیکھی تو وہ ایک لمحے کے لیے ہچکچایا اور بولا:
’’انسان۔۔۔۔۔۔ تم میدان کےانسان ہو؟‘‘۔
اس نےعلی روئی کو فوراًپہچان لیا۔
چلبل نے فخریہ انداز میں علی روئی کا تعارف کراتے ہوئے کہا:
’’یہ میرےحکیم ہیں علی روئی۔ عظیم حکیم الداس کےسٹوڈنٹ‘‘۔
’’تم انسان کے خادم بن گئے؟‘‘۔
امپ نے حقارت بھری نظر ڈال کر کہا۔
ڈیمنز کے نزدیک انسان بالکل بے اختیار اور نچلے درجے کی چیز تھی۔ اسے سب سے نچلے درجے کے ڈیمنوں سے بھی کمزور سمجھا جاتا تھا۔
’’مجھے یقین نہیں آ رہا کہ تم نے اس انسان کو اپنا آقا تسلیم کر لیاہے۔ یہ دکھاواہے، تم کسی اور چکر میں ہو۔ شاید حکیم الداس کے خادم کے طور پر پہچان چاہتے ہو‘‘۔
’’شمرال، کیا کہہ رہے ہو؟‘‘۔
میناٹور ان تینوں کے پاس آگیا۔ یہی شایداس دکان کا مالک تھا۔ اس نے علی روئی کی طرف اور طنزیہ انداز میں کہا:
’’کمزور انسان! تم زیک کی لوہار کی دکان سے کیا چاہتے ہو؟۔ ہمارے پاس کوئی جڑی بوٹیاں نہیں ہیں۔ شاید تمہیں علم نہیں کہ لوہاروں کی دکانوں پر جڑی بوٹیاں نہیں ہوا کرتیں‘‘۔
پچھلی رات کی لڑائی نے علی روئی کو خاصا اعتماد دیاتھا۔ اس نے توہین آمیز رویے کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا:
’’میں حکیم الداس کی ہدایت پرزہروں کو بہتر کرنے کے لیے کچھ خاص دھاتیں تلاش کرتا پھرتا ہوں، اسی لیے یہاں ہوں‘‘۔
اگرچہ زیک دھاتوں اور زہروں کے درمیان تعلق کو نہیں سمجھتا تھا پھر بھی اس نے غفلت برتنے کی ہمت نہیں کی۔ وہ فوراً علی روئی کو اس جگہ لے گیا جہاں کچی دھاتوں کے ڈھیر لگے تھے۔
چونکہ ایناٹیکل ائیزاس طرح کے انتخاب میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتی تھیں۔ علی روئی نے اورا کنورژن کی مہارت کو چالو کیااور ہر دھات کو چھو کر دیکھنے لگا۔
علی روئی کافی دیر مختلف دھاتوں کو چیک کرتا رہا۔ زیک بڑی بے صبری سے اس طرف دیکھ رہا تھا۔ اچانک علی روئی نے خام دھات کا ایک ٹکڑا پکڑا جس پر کرسٹل لگا ہوا تھا اور پوچھا:
’’یہ کیا دھات ہے؟‘‘۔
زیک نے اسے دیکھا تو لاتعلق سا ہو کر کہا:
’’یہ نیم فضلہ ساہے۔ اس میں یہ جو گہرا پیلا کرسٹل ہے اسے نکالنے کے لیے بہت محنت کرنی پڑتی ہے۔ اگر اسے صحیح طریقے سے نہ نکالاجائے تو باقی لوہا بھی استعمال کے قابل نہیں رہتا۔ یہ کچرا ہے‘‘۔
علی روئی کا دل دہل گیا تھا۔ اس نے ابھی جب اس کچ دھات کو چھوا تھا توتبدیلی کی مہارت نے اشارہ دیا تھا کہ تبدیلی کے قابل ہے مگر کتنا موثر ہے۔ یہ فوری طور پر معلوم نہ ہو سکا۔
علی روئی نے کہا:
’’میں ایک چھوٹا سا تجربہ کروں گا تاکہ یہ معلوم کروں کہ آیا یہ عجیب کرسٹل ایسی چیز ہے جس کی مالک کو ضرورت ہے۔ اگر اسے نقصان پہنچا تو میں آپ کو معاوضہ دے دوں گا ‘‘۔
زچ نے سر ہلاکر کہا:
’’یہ کچ دھات ویسے بھی ایک نیم کچرا تھا۔ کوئی مسئلہ نہیں‘‘۔
علی روئی نے ایک پاؤڈر نکال کر کرسٹل پر چھڑکا اور اس پر ہاتھ رکھا۔ زیک نے دیکھا کہ لوہے کو نقصان پہنچائے بغیرکرسٹل آہستہ آہستہ غائب ہو گیا۔ اس کی آنکھیں تقریباً باہر نکل آئیں۔ وہ ضدی کرسٹل جسے ہٹانا انتہائی مشکل، اس انسان نے کتنی آسانی سے اسے پوری طرح سے ہٹا دیاہےکہ ایک ذرہ بھی نہیں دکھائی دے رہا۔ زیک کی نظر میں حکیم کی قابلیت اور بھی پراسرارہو گئی تھی کہ اس کے ایک سٹوڈنٹ میں بھی ایسی عجیب صلاحیت ہے۔
علی روئی نے جو پاؤڈر استعمال کیا تھا وہ دراصل ایک سموک اسکرین تھا۔ اصل جو چیز کام کر رہی تھی وہ آورا کنورژن کی مہارت تھی۔ جس چیز نے علی روئی کوپرجوش کر دیا تھا کہ تبدیل ہونے والی چیز دھات نہیں وہ کرسٹل تھا جنہیں یہ لوگ فضلہ سمجھتے تھے۔ اسی فضلے نےنے اصل میں 25 پوائنٹس فراہم کئے تھے۔
علی روئی نے اپنے جوش و خروش پر قابو پاتے ہوئے پوچھا:
’’اس نیم کچرے کی دھاتیں آپ کے پاس کتنی موجود ہیں ؟۔ مجھے لگتا ہے کہ حکیم کو انہی کی ضرورت ہے‘‘۔
’’ان داغوں کے سبب لوہے کی کوالٹی کم ہوجاتی ہے۔ اس لیے میرے پاس یہاں زیادہ نہیں ہے۔ صرف2 یا 3 ٹکڑے ہونگے۔ میرے بھائی کوارک کی دکان میں ابھی شاید کافی ٹکڑے موجود ہوں۔ اگر آپ چاہیں تو ہم یہ سستے داموں بیچ سکتے ہیں۔ ‘‘ پھر زیک نے پوچھا:
’’کیا آپ مجھے اس پاؤڈر میں سے کچھ دے سکتے ہیں؟۔ اس کے ساتھ ہم بہت سے فضلہ دھاتوں کو بچا سکتے ہیں‘‘۔
’’یہ حکیم کا خفیہ پاؤڈر ہے اور انتہائی زہریلا ہے، اس لیے کسی کو دیا نہیں جا سکتا۔ تاہم میں ابھی باقی دھاتوں سے یہ فضلہ نکالنے میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں‘‘۔
انسان کی سخاوت نے زیک کو بے حد خوش کیا۔ اس نے محسوس کیا کہ علی روئی اس کی آنکھوں میں غیر معمولی خوشی دیکھ رہا تھا، اتنا اچھا انسان، ایسا لگتا ہے کہ دیومالائی دائرے کی افواہیں غلط ہیں۔ تمام انسان گناہ گار نہیں ہوتے۔ کم از کم یہ انسان برا نہیں ہے۔
زیک نے جلدی سے لوہار کی دوسری دکان پر جانے کے لیے کہا کہ وہ وہاں کا کچرا لے جائے۔ یہ کل 7 ٹکڑے ہوں گے۔
’’برا نہیں‘‘۔
علی روئی بھی اتنا ہی خوش تھا۔ 1 ٹکڑا تقریباً اورا کے 25یونٹ دیتا تھا اور یہاں اسے 7 ٹکڑے مل گئے تھے۔ جلد ہی لوہار کی دو دکانوں سے کرسٹل کے ساتھ تمام دھات کو صاف کر دیا گیا۔ کرسٹل نے اورا کی مختلف قدریں فراہم کیں۔ علی روئی کی چمک کی کل مقدار175 پوائنٹس تک پہنچ گئی۔
زیک کی معلومات کی بنیاد پر یہ کچ دھاتیں ماؤنٹ زیلانگ کی کانوں سے تھیں جو نیرنگ آباد میں موجود معدنی ذخائر میں سے ایک تھی لیکن یہ انتہائی خطرناک تھی۔ افواہ کا کہنا تھا کہ کان میں گہرائی میں ایک خوفناک دیومالائی درندے نے مہر توڑ دی اور کئی کان کنوں کی جان لے لی۔ کئی سالوں سے اس کی پیداوار کم سے کم ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ آخری کان کنی کے دوران افسر ٹم اپنے ایک معائنہ کے دوران لاپتہ ہو گیا تھا اورابھی تک اس کی لاش نہیں ملی تھی۔
ماضی میں کرسٹل کے ساتھ کچی دھاتوں کی ایک بڑی تعداد کو کچرے کے طور پرلیاجاتا تھا اور وہیں کان میں ٹھکانے لگادیا جاتا تھا۔ اب جیسا کہ زیر زمین دیومالائی حیوان تیزی سے پھیل رہا تھا، لوہے کے وسائل اور بھی کم ہو رہے تھے۔ زیک کے پاس ان نیم کچرے کی کچ دھاتیں خریدنے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ یہاں تک کہ اس قسم کا کچرا بھی تیزی سے نایاب ہورہا تھا۔
علی روئی نے خفیہ طور پر تولان پہاڑ کا نام حفظ کر لیا۔ پھر اس نے یہ بھی سن لیا تھا کہ وہ جگہ بہت خطرناک ہےاس نے سوچا، پہلے میں نیرنگ آباد سے واقف ہو جائوں اور یہیں ایک خاص سطح تک چمک جمع کروں پھر اُس کان کی طرف جائوں گا۔
’’زیک! میں آپ جیسے صاف گو شخص کے ساتھ ڈیل کرنا پسند کروں گا آپ کرسٹل کے فضلے والی دھات جتنی حاصل کر سکتے ہیں۔ میں کرسٹل سے نمٹنے میں آپ کی پوری مدد کر وں گا۔ قیمت کے بارے میں۔۔۔ ‘‘۔
زیک نے جملہ کاٹتے ہوئے کہا:
’’قیمت کے لحاظ سے میں آپ کو فی ٹکڑا10 سفید کرسٹل سکے دوں گا۔ آج میں آپ کو1جامنی رنگ کا کرسٹل سکہ دوں گا‘‘۔
یہ کرسٹل کا فضلہ علی روئی کے لیے انتہائی قیمتی تھا۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ زیک اس کے بدلے اسے رقم ادا کرنے کو تیار ہو گا۔ اتنا اچھامیناٹور۔ ایسا لگتا ہے کہ انسانوں کی افواہیں غلط ہیں۔ تمام ڈیمن ظالم نہیں ہوتے۔ کم از کم یہ میناٹور برا نہیں ہے۔ اس وقت ایک جیسے مفاد نےانسان اورمیناٹور کا دوستانہ تعلق قائم کردیا۔
علی روئی نے چونکہ بہت بڑا سودا کرلیا، اس لیے اس وقت اس نے پیسے نہیں لیے اور زیک سے کہا کہ جب بھی زیک کو کچ دھاتیں ملیں، اسے تجربہ گاہ میں مطلع کرے۔ وہ کسی بھی وقت اطلاع دے سکتا ہے۔
’’ہم،میناٹوربھی ایک صاف گو شخص کو پسند کرتے ہیں‘‘۔
اس رویے نےمیناٹور کو انسان کے کچھ اور قریب کردیا۔ اس نے اپنے سینے پر تھپکی دی اور کہا:
’’اب سے تم میرے دوست ہو۔ شہر میں میرے بہت سے دوست ہیں۔ اگر تمہیں کوئی یشانی ہو تو بس انہیں میرا نام بتادینا‘‘۔
علی روئی اچھے موڈ میں تھا۔ یہ شہر کا چکر اس کےلیے بہت فائدہ مند ثابت ہوا تھا، 175 اورا کے یونٹ مل گئے تھے۔ اس نے چلبل سے کہا:
’’چلبل! وہ جو تم نے ایک دکان کا ذکر کیا تھا جہاں عجیب و غریب چیزیں فروخت ہوتی ہیں چلو وہاں چلتے ہیں‘‘۔
چلبل ایک لمحے کے لیے ہچکچایا۔ وہ کچھ سوچنے لگا، پھرمسکرایا اور بولا:
’’چلیں، آپ کو اس دکان پر کئی اورسرپرائز مل سکتے ہیں‘‘۔
علی روئی اس کے ساتھ ساتھ کئی چھوٹی چھوٹی گلیوں سے گزرا اور پھر ایک نسبتاً چوڑی گلی کے آخر میں وہ سٹور تھا۔ دکان کی دو منزلیں تھیں۔ اس کی شکل عجیب تھی اور کوئی سائن بورڈ نہیں تھا۔
علی روئی چلبل کے ساتھ اندر چلا گیا۔ اندر داخل ہوتے ہی تیز نظروں سےسب گھور رہے تھے۔ یہ ایک خاتون سنگین گریٹ ڈیمن تھی۔ اس کا جسم ٹھیک تھا۔ اس کے چہرے کے خدوخال بدصورت نہیں تھے لیکن اس کے تاثرات شدید تھے۔ خاتون سنگین گریٹ ڈیمن ظاہر ہے کہ سٹور کی ملازمہ تھی۔ علی روئی اور چلبل کو اندر آتے دیکھ کر اس نے نہ صرف سلام نہیں کیا بلکہ سرد مہری سے ان کی طرف دیکھا۔ علی روئی کوئی پروا کیے بغیر سٹور میں موجود پروڈکٹس کو دیکھنے لگا۔
جس طرح چلبل نے کہاکہ اس سٹور میں فروخت ہونے والی چیزیں واقعی عجیب تھیں۔ دیومالائی درندوں جیسی نظر آنے والی گڑیا، بالوں کے خوبصورت تراشے، سونے کے تکیے، مزیدار جیڈ ڈریگن فروٹ، عجیب و غریب موتیوں کی مالا، لیکن یہ وہ چیزیں نہیں تھیں جو علی روئی چاہتا تھا۔ ان چیزوں کی قیمت بھی حدسے زیادہ تھی۔ ایک جیڈ ڈریگن فروٹ کی قیمت 50 جامنیروئنگ کے کرسٹل سکے تھے، گڑیا کی قیمت 10 سیاہ کرسٹل سکے تھی۔ یہ یقینی طور پر ایک بے ایمان دکان ہے۔
علی روئی کو آخر کار کونے میں ایک سبز پتھر ملا جو مفید معلوم ہوا۔ اس نے فوری طور پر تبادلوں کی مہارت کو چالو کیا اور اس کا معائنہ کرنا چاہا۔ اس سے پہلے کہ اس کا ہاتھ پتھر کو چھوتا، ایک ٹھنڈی کیچ بجلی کی طرح تیزی سے اس کے سامنے آ گئی۔
یہ خاتون سنگین گریٹ ڈیمن بہت مضبوط تھی اور بدروح جیسی اس خاتون نے طنز یہ اور سرد لہجے میں کہا:
’’دیکھ سکتے ہو چھو نہیں سکتے‘‘۔
اتنی بری کس ٹمر سروس! کیا آپ کو معلوم نہیں ہے کہ آپ کا گاہک… ڈیمن دیوتا ہے؟
علی روئی کو غصہ آیا۔ پھر خیال آیا کہ یہ غصہ میری قیمتی چمک کو ضائع کر سکتا ہے۔ اگرچہ میں نے ابھی سو سے زیادہ پوائنٹس حاصل کیے ہیں مگر مجھے ابھی بہت سی چیزوں کے لیے چمک کی ضرورت ہے اس لیے مجھے ان کا استعمال احتیاط سے کرنا ہے۔
’’دو شہزادیوں کی شطرنج خریدنے پر افسوس نہیں ہوگا۔ پلیز دوبارہ آئیں‘‘۔
یہ وہ رویہ ہے جو خدمت کے عملے کو ہونا چاہیے۔ علی روئی نے محسوس کیا کہ آواز جانی پہچانی ہے، پھر اس نے ایک خوبصورت عورت کو سیڑھیوں کے سر پر ایک غیض بھری قوت خارج کرتے دیکھا۔ ایک مردمیناٹور گاہک پیچھے کی طرف دیکھتے ہوئے نیچے اتر رہا ہے۔ وہ ایک جنونی سا ہے اور ہچکچاہٹ کا اظہار کر رہا ہے۔ جب علی روئی نے دکان کی خاتون اسسٹنٹ کی شکل واضح طور پر دیکھی تو وہ حیران رہ گیا اور بولا:
’’مایا!!!‘‘۔
پتہ چلا کہ خاتون عملہ ننھی شہزادی کی نوکرانی تھی، مایا علی روئی کے ذہن میں سوکیوبس کا عرفی نام ’’جوہر چوسنے والی عورت‘‘ تھا۔ جیسے ہی کیا نے کسی کو اپنا نام پکارتے ہوئے سنا، اس نے علی روئی کو دیکھا۔ اس عرصے کے دوران مایا جو ننھی شہزادی کی خدمت کر رہی تھی، علی روئی کے کھانا پکانے سے فائدہ اٹھانے والی بن گئی۔ انسان کے تئیں اس کا تاثر بہت بدل چکا تھا۔ جب اس نے دیکھا کہ یہ علی روئی ہے تو وہ فوراً دلکش انداز میں مسکرا دی:
’’یہ تم ہو؟؟‘‘۔
علی روئی نے مسکرا کر کہا:
’’اوہ تو یہ تمہاری دکان ہے‘‘۔
پھر علی روئی کی نظر’’ شہزادی شطرنج ‘‘پر پڑی۔ اسے فوراً احساس ہوا کہ شہزادی شمائلہ کی کوئی کہانی ہے۔
’’مایا تم نے یہ دکان کب کھولی ہے؟‘‘
مایا نے کہا:
’’اس دکان کی مالک ننھی شہزادی ہے‘‘۔
’’ شمائلہ واقعی ایک کاروباری لڑکی ہے‘‘۔
علی روئی نے مایا کی طرف دیکھا جس کی دلکشی میں کچھ عشوہ و ادا بھی شامل کرہی تھی۔ علی روئی کو اچانک احساس ہواکہ وہ شہد بھرے تعلق کا کوئی نیا جال بچھا رہی ہے۔ علی روئی اندازہ لگا چکا تھا کہ یہ ننھی شہزادی مایا کی خوبصورتی کو اپنے کاروبار کےفروغ کے لیے استعمال کررہی ہے۔ نیرنگ آباد یا پورےدیومالائی دائرے کے اسٹورز گاہکوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کےلئے یہی طریقہ رائج تھا۔ شہزادی شمائلہ کافی چالاک تھی مگرعلی روئی نے سوچاکہ کاروبار کی پروموشن کے کچھ ایسے طریقے بھی ہو سکتے ہیں جن کی وجہ یہ دکان پوری دیومالائی دائرے کا مرکز بن سکتی ہے۔
علی روئی نے دوسری منزل پر موجود سامان بھی دیکھا اور شہزادی شطرنج دیکھی۔ درحقیقت یہ ہوارونگ ڈاؤ کو مکمل طور پر نئے سرے سے بنایاکیا گیا تھا۔ اسے دیکھ کر علی روئی افسردہ ہوا۔ اس نے سوچا کہ اگرہوارونگ ڈاؤ کا موجد اسے دیکھ لیتا تواپنا سر پیٹ لیتا۔ وہ بولا:
’’یہ شہزادی شطرنج۔۔۔۔ کیاننھی شہزادی نے یہ بنائی ہے؟‘‘۔
مایا نے اثبات میں سر ہلادیا۔ علی روئی بولا:
’’اس کا شاہی دماغ بہت تیزہے۔ اصل میں کوئی پرانی شکل میں اسے خریدنا نہیں چاہتا تھا۔ ہم اس نئی شکل کے کئی سیٹ بیچ چکے ہیں لیکن آپ کو اتنا خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔
’’کیا میں خوش نظر آتا ہوں؟ ‘‘۔
دوسری منزل پر بہت سی چیزیں تھیں۔ یہاں صرف پائریٹڈ شہزادی شطرنج ہی نہیں تھی بلکہ کچھ کتابیں بھی تھیں۔ علی روئی نے شمائلہ کو جو کہانی سنائی تھی،’’ ڈیمن کنگ اینڈ پرنسس ‘‘اس کا تازہ ترین مکمل ایڈیشن بھی ان میں موجود تھا۔ شہزادی شمائلہ کی ایک اور قزاقی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ اس ننھی شہزادی کا ذہن قزاقی میں بہت تیز ہے۔ لیکن علی روئی یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتا تھا کہ دیومالائی دائرے میں یہ کتابیں واقعی چھپی ہیں یا جادو سے بنائی گئی ہیں۔
چند کتابیں تو نارمل تھیں لیکن ان کے بعد شیلف میں لگی ہوئی کتابوں کے صرف عنوان دیکھ کر علی روئی کو ٹھنڈا پسینہ آ گیا۔
’’ایک جانور سے بھی بدتر ‘‘، ’’دوسرا سیکوئل ‘‘،’’حیوانوں سے بے مثال‘‘، ’’جادو! جسے آپ گھورتے ہیں وہ حاملہ ہو جاتا ہے‘‘اور ’’مرد عورت سے کمزور ہے‘‘۔
علی روئی نے دل ہی دل میں ان کتابوں پر تبصرہ کیا کہ ننھی شہزادی ایک تو سیاہ دل ہے اوپر سے بچپن میں بالغ ہو گئی ہے۔ مگر علی روئی شمائلہ کےدکان کھولنے کے بارے میں بہت متجسس تھااور متاثر بھی۔ اس کم عمری میں اتنی بڑی دکان کھول لینا آسان نہیں۔ مایا نے اسے بتایا کہ جب شہزادی اقابلہ نے جب نیرنگ آباد کو سنبھالا تھاتو اسے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، خاص طور پر اس کے فنڈنہ ہونے کے برابر تھے۔ مایوسی کے عالم میں شہزادی اقابلہ کو صرف شاہی خزانے کی کچھ چیزیں ہی نہیں فروخت کیں اپنے ذاتی ذخیرے سے بھی بہت کچھ بیچ دیا۔ اس طرح وہ اس مشکل سے نکل آئی۔ یہ دکان بھی پرانی ہے۔ فروخت ہونے سے بچ گئی تھی۔ شمائلہ جب بور ہوئی تو اس نے اسے سنبھال لیا۔ وہ عام طور پر وقت گزارنے اور اپنے جیب خرچ سے یہاں چھوٹی موٹی چیزیں خریدتی ہے۔ مایا کبھی کبھار ہی مدد کے لیے آتی ہے۔ مایا کے مطابق دکان کھلنے کے دو ماہ بعد شمائلہ نے کبھی اپنی بہن سے ایک بھی جادوئی کرسٹل سکّہ نہیں مانگا۔ یعنی وہ اتنی کامیابی سے دکان چلا رہی ہے۔
ان جملوں سے جن روئی نے یہ نتیجہ نکال لیا تھا کہ شہزادی اقابلہ کو اسٹیٹ پر حکومت کرنے میں ابھی تک بہت زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔ شمائلہ بھی بہت سمجھدار تھی۔ شرارتوں کے باوجود جب اس کی بہن مالی طور پر اس کے مشکل ترین وقت میں تھی تو اس نے مزید بوجھ نہیں ڈالا۔ ، ننھی شہزادی واقعی چالاک تھی لیکن بدقسمتی سے ابھی تک وہ شوقیہ کاروبار کررہی تھی۔
علی روئی شمائلہ کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ نیچے سے چلبل کی آواز آئی۔ اس نے جان بوجھ کر بلند آواز میں کہا:
’’شہزادی شمائلہ! ننھی شہزادی یہاں ہے‘‘۔
پھر انہوں نے شمائلہ کی آواز سنی:
’’ چلبل ! تم یہاں کیوں ہو؟ کیا علی روئی اوپر ہے؟‘‘۔
یہ دیکھ کر چلبل کی خوشی کی انتہا نہ رہی کہ ننھی شہزادی کو اس کانام یاد ہے، اس نے جلدی سے جوش سے سر ہلایا اور کہا:
’’حکیم دوسری منزل پر ہیں‘‘۔
شمائلہ اچھل کر دوسری منزل پر چلی گئی۔ جب اس نے علی روئی کو دیکھا تو خوشی سے بولی:
’’میں تمہیں ڈھونڈتی پھرتی تھی۔ مگر یہ کوئی نہیں جانتا تھا کہ تم سب سے پہلے میرے پاس آؤگے‘‘۔
علی روئی پچھلے دو دنوں سے سپرسسٹم پر توجہ مرکوز کیے ہوئے تھا۔ اچانک اس نے محسوس کیا کہ وہ اب بھی ایک ’’دلچسپ کہانی‘‘ کا مقروض ہے۔ اس نے جلدی سے بات بدلتے ہوئے’’شہزادی شطرنج‘‘ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
’’کیا یہ ہوارونگ ڈاؤ نہیں ہے‘‘۔
’’ کیا میں حیرت انگیز نہیں ہوں۔ اگر مجھے اس کی شکل بدلنے کا خیال نہیں آتا تو اسے فروخت نہیں کیا جا سکتاتھا‘‘۔
’’ننھی شہزادی واقعی حیرت انگیز ہے‘‘۔
علی روئی نے مسکرا کر سر ہلایا۔
’’تم آ ہی گئے ہو تو آؤ میری مدد ہی کر دو۔ ان چیزوں کی درجہ بندی کرنی ہے۔ انہیں سجانا ہے۔ مایا ان پر قیمتیں لگاتی جائے گی‘‘۔
مایاعلی روئی کے پاس زمین پربیٹھ گئی۔ مایا کی اپنی ایک فطری خوشبو تھی۔ پرکشش جسم اور ظاہری شکل کی وجہ سے مردوں کے خلاف انتہائی موثر تھی۔ علی روئی کو معلوم تھا کہ اس جوہر چوسنے والی عورت کا خطرہ S کے درجے پر پہنچ چکاہے۔ اس نے اپنا دماغ مرکوز کیا اور مسلسل آگے کی طرف دیکھا تاکہ اس کی طرف نہ دیکھنے لگ جائے اور اس کا پاؤں پھسل جائے۔ ننھی شہزادی نے علی روئی کی گھبراہٹ کو جانچ لیا تھا۔ اس نے کچھ سوچا اورکہا:
’’علی روئی! میں نے سنا ہے میری بہن نے تمہیں کہا تھا کہ مستقبل میں مایا تمہیں دے دے گی۔ کیا تم پرجوش ہو؟‘‘۔
علی روئی حیران رہ گیا، شمائلہ کو یہ کیسے معلوم؟۔
’’شہزادی اقابلہ نے واقعی یہ کہاتھا؟‘‘۔
مایا ہکا بکا رہ گئی۔ علی روئی کی گھبراہٹ کو دیکھ کر اس کے سرخ ہونٹوں نے ایک تنگ سی مسکراہٹ نکالی اور جان بوجھ کر اس کے بہت قریب ہوگئی اور بولی:
’’پھر تو مجھے آپ کوحکیم صاحب کہہ کر بلانا چاہیے‘‘۔
’’حکیم ‘‘ کو جان بوجھ کر سوکیوبکس کے ذریعہ لمبا کیا گیا تھا، جس سے یہ خوشی کا باعث بنا۔ علی روئی نے اپنے جسم کو ایک طرف کر دیا۔
’’حکیم ! آپ کو مایا پسند نہیں ہے؟۔ میں بہت اداس ہوں‘‘۔
اس نے علی روئی کے بالکل قریب اپنے کندھوں کو ہلکا سا ہلایا۔ اس کی چھاتیوں کے درمیان کی دراڑ اور بھی گہری ہو گئی۔ علی روئی کانپ گیا۔ اس نے مشکل سے تھوک نگلا اور چپکے سے عورت کی موت کی قسم کھائی۔ شمائلہ کو پہلے ہی شو دیکھنے کے لیے ایک اسٹول مل گیا تھا۔ وہ زور زور سے ہنس رہی تھی۔
پیچھے ہٹتے ہوئے علی روئی کا ہاتھ کسی پتھر سے لگا تھا جسے اس نے گرنے سے بچانے کےلئے اٹھا لیا تھا اچانک ایک آواز نے علی روئی کے دماغ کو جگایا:
’’تبدیل کرنے والامادہ ملا۔ کیا آپ اسے چمک میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں؟‘‘۔
اسے یاد آیا کہ جب وہ یہاں چیزوں کو دیکھ رہا تھا تو اس نے تبادلوں کی مہارت کو چالو کیاتھا۔ اس کی توجہ اچانک ہاتھ میں پکڑے گہرے جامنی پتھر کی طرف گئی۔ پتھر مٹھی کے سائز کا تھا،اورشاندار لگ رہا تھا۔
’’چھوٹی شہزادی! یہ کیا ہے؟‘‘۔
علی روئی نے شمائلہ کوپتھر پکڑاتے ہوئے پوچھا۔
’’یہ وہی ہے یوسف نے جومجھے دیا تھا۔ اسے وائن سٹونز کہا جاتا ہے۔ یہ سرمانی سلطنت کی مقامی پیداوار ہے۔ شمائلہ نے وائن سٹونزمیں علی روئی کی دلچسپی کو دیکھا۔ اس نے ایک لمحے کے لیے سوچا اور ایک عجیب سا تاثر دیا:
’’یہ مردانگی کوبہتر بناتا ہے۔ تم ایسے آدمی نہیں ہو جسے اس پتھر کی ضرورت ہو؟‘‘۔
علی روئی کو ٹھنڈا پسینہ آگیا۔ اس نے جلدی سے پتھر کو وہیں رکھ دیا جہاں سے اٹھایا تھا۔ اس نے سوچا چاہے مجھے جتنی ہی چمک کی ضرورت ہو مگر دو خوبصورت لڑکیوں کے سامنے یہ تسلیم نہیں کر سکتا کہ میں اس معاملے میں نااہل آدمی ہوں۔
مایا شروع میں اسے چھیڑنا نہیں چاہتی تھی لیکن جب اس نے اس کی شکل دیکھی تو وہ مسکرائے بغیر نہ رہ سکی۔ بولی:
’’ واقعی دلکش لگ رہے ہو ‘‘۔
شمائلہ وہیں سٹول پربیٹھی ہوئی مبالغہ آمیز انداز میں ہنسی۔
علی روئی کوننھی شہزادی کے ساتھ پہلی ملاقات یاد آ گئی۔ وہ یقناً ایک بری ملاقات تھی۔ پھر اس نے سوچا کہ اگرچہ یوسف سرمانی سلطنت کا بادشاہ کا سب سے بڑا بیٹا ہے۔ وہ نیرنگ آباد کا فنانس آفیسر بھی ہے۔ وہ ننھی شہزادی کو ایسی بگاڑنے والی چیز کیسے دے سکتا ہے۔ چمک کی خواہش علی روئی کو کچھ اتنی تھی کہ اس نے خود سے یہ پوچھنے پر مجبور کیا :
’’چھوٹی شہزادی، وائن سٹونزکا اصل کام کیا ہے؟‘‘۔
ننھی شہزادی نے ایک بھرپور قہقہہ لگا اوربتایا کہ وائن سٹونز جادوگر کی جادوئی طاقت کو ایک حد تک بڑھا سکتا ہے۔ یہ عام طور پر ہر قسم کے جادوئی سازوسامان میں سرایت کرجاتا تھا۔ یہ واقعی ایک ایسی چیز ہے جو کسی بھی خاص فنکشن کو بڑھا دیتی ہے۔
علی روئی نے شمائلہ سے کہا:
’’مجھے یہ پتھر واقعی پسند ہے۔ کیاننھی شہزادی مجھے بیچ سکتی ہے؟۔ اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ میں کس طرح دیکھ رہا ہوں‘‘۔
’’تم ایسے لگتے تو نہیں ہوجسےکسی خاص فنکشن کو بڑھانےکی ضرورت ہو؟‘‘۔
شمائلہ نے اسے سنجیدہ نظروں سے دیکھااور کہا:
’’اگر آپ واقعی یہ چاہتے ہیں توآپ کے لیے اس کی رعایتی قیمت 5 سیاہ کرسٹل ہیں‘‘۔
’’نہیں یہ بہت مہنگاہے‘‘۔
علی روئی چونک کر کہا:
ایک تو وہ ابھی تک یہ نہیں جانتا تھا کہ وائن سٹونز کتنی چمک مہیا کر سکتا ہے، دوسرا5 سیاہ کرسٹل سکے اس کے تقریباً تمام اثاثے تھے۔ اس نے اپنے آپ سے کہا:
’’اسے بھول جاؤ، اورزیک کے مفت ایسک کا انتظار کرو‘‘۔
’’اتنا کنجوس مت بنو‘‘۔
شمائلہ ایک چھوٹی لومڑی کی طرح ہنسی اور کہا:
’’میں جانتی ہوں کہ میری بہن نے تمہیں حکیم الداس کے ذریعے5 سیاہ کرسٹل سکے عطا کیے تھے‘‘۔
وہ یہ بھی جانتی ہے!۔ ایسا لگتا تھا کہ ننھی شہزادی جان بوجھ کر چاہتی تھی کہ اس کادیوالیہ ہو جائے۔ اسے شمائلہ ایک دھوکہ باز دکاندار محسوس ہوئی۔ اس نے ہلکے سے غصے سے کہا:
’’یہ نہیں ہو سکتا۔ میں ابھی شہزادی اقابلہ کے پاس جاؤں گا اور اسے براہ راست انعام واپس کروں گا‘‘۔
’’نہیں نہیں ایسا مت کرنا!۔ میں تو تمہارے ساتھ مذاق کر رہی تھی۔ اتنے سنجیدہ کیوں ہو گئے ہو۔ چلو تم4 سیاہ کرسٹل سکے اور 99 جامنیروئنگ کے کرسٹل سکے دے دو ‘‘۔
’’یہ بہت مہنگا ہے‘‘۔
علی روئی نے فیصلہ کن طور پر ہار مان لی۔ اس نے سوچا آج ننھی شہزادی سے وائن سٹونزحاصل کرنا ممکن نہیں۔
’’کیا تم نے نہیں دیکھا کہ یہاں ہر چیز مہنگی ہے؟۔ اگر یہ سٹورمہنگا نہیں ہوگاتو میری شہزادی کی حیثیت کیسے ظاہر ہو گی ؟‘‘۔
علی روئی نے برا سا منہ بنایا اور شمائلہ نے پھٹے ہوئے ہونٹوں سے کہا:
’’اگر تم مجھے خوش کر سکتے ہو تو یہاں ایک اور وائن سٹون بھی ہے، تمہیں دونوں دے سکتی ہو‘‘۔
’’بیل پتھر کے دو ٹکڑے! ‘‘۔
علی روئی پرجوش ہو گیامگر وہ جانتا تھا کہ شمائلہ کو مطمئن کرنا آسان نہیں۔ ان دنوں اس کے ذہن میں موجود کہانیوں کا ذخیرہ بھی تقریباً خالی ہو چکا تھا۔
علی روئی نے کچھ دیر سوچا اور کہا:
’’چھوٹی شہزادی! اگر میں تمہیں سکھائوں کہ زیادہ پیسہ کمانے کے لیے کاروبار کیسے چلانا چاہیے تو پھر؟‘‘۔
شمائلہ کی بڑی بڑی آنکھیں چمک اٹھیں اور پھر اپنے پیارے بھوؤں کو اوپر اٹھاتے ہوئے بولی :
’’کیا کاروبار کو اس طرح نہیں چلنا چاہیے؟ ہر کوئی یہی کر رہا ہے۔ میں پہلے ہی ان لوگوں سے زیادہ چالاک ہوں‘‘۔
علی روئی نےنفی میں اپنا سر ہلایا اور اس کی آنکھوں میں مضبوط خود اعتمادی ظاہر ہوئی۔ بولا:
’’کاروبار اس طرح نہیں چلتا‘‘۔
تھوڑی دیر کے بعد شمائلہ نیچے گئی اور دونوں وائن سٹونز علی روئی کو دیتے ہوئے کہا:
’’میں کسی وقت ان کی اصل قیمت تم سے وصول کر لوں گی‘‘۔
علی روئی بھی نیچے اتر ا اور اس نے جھنجھلا کر چلبل سےکہا:
’’تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا کہ یہ دکان ننھی شہزادی کی ہے‘‘۔
’’کیا حکیم کسی ایسے اسٹور کی تلاش میں نہیں تھے جو عجیب و غریب چیزیں بیچتا ہو؟‘‘۔
چلبل نے اپنے مالک کے غیر مطمئن چہرےکو دیکھااور پھرخوشگوار مسکراہٹ کے ساتھ کہا:
’’یہ شہر کا سب سے سنکی اسٹور ہے۔ میں نے سوچا مالک ننھی شہزادی کے اتنا قریب ہیں۔ یہاں آ کر آپ کو ایک سرپرائز ملے گا‘‘۔
علی روئی نے چلبل کی خوشامدانہ مسکراہٹ کو دیکھا اور وائن سٹونزکے دو ٹکڑے اپنے ہاتھ میں لہرائے۔
’’وائن سٹونز!‘‘۔
چلبل نے ایک نظر میں پہچان لیا اور چیخ کر کہا:
’’یہ بہت مہنگا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ اس کی قیمت50 سیاہ کرسٹل سکے ہیں جو سر یوسف کی ملکیت والے جادوئی اسٹور میں ہے۔ 50سیاہ کرسٹل سکے‘‘۔
علی روئی نے حیرت سے اوپر کی طرف دیکھا۔ سیاہ دل ننھی شہزادی کے بارے میں اس کا تاثر بدل گیا۔
علی روئی نے شمائلہ کی دکان چھوڑ دی۔ راستے میں جب چلبل توجہ نہیں دے رہا تھا، اس نے خفیہ طور پر تبدیلی کی مہارت کو استعمال کرنے کی کوشش کی۔ وائن سٹونزواقعی مہنگے جادوئی مواد تھے۔ دونوں ٹکڑوں نے کل230 اورا فراہم کیےاور اورا کی کل مقدار406 پوائنٹس تک پہنچ گئی۔ یہ ایسا تھا جیسے غریب کسان اچانک متوسط طبقے کا بن گیا ہو۔ اس حصول نے علی روئی کے لیے ایک نئی امید جگائی۔ اس نے چلبل سے کہا:
’’یوسف کی جادو والی دکان پر چلو۔ ‘‘
علی روئی یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ آیا اسے وہاں کوئی خزانہ مل سکتا ہے۔ جادو کی دکان شہر کے مرکز کے سب سے خوشحال علاقے میں واقع تھی لیکن اس کے اندر مہمانوں کی تعداد بہت کم تھی۔ وجہ بہت سادہ تھی، یہ بہت ہی مہنگا تھا۔ ایک وائن سٹونز68 سیاہ کرسٹل سکوں کا تھا اور صرف3 ٹکڑے تھے۔ باقی جادوئی مواد کی قیمت بھی حیران کن حد تک زیادہ تھی۔ علی روئی کی موجودہ مالی صورتحال کے لیے یہ یقینی طور پر قابل برداشت نہیں تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ جادوگر اور ایلکمی دان تقریباً ایک جیسے تھے۔ دونوں پیسے جلانے والے کام تھے۔
علی روئی مایوس تھا لیکن آج کی فصل کافی بھرپور تھی۔ اس کے علاوہ اسے یقین تھا کہ زیک کی طرف سے لمبے عرصے تک مسلسل چمک کی فراہمی ہوتی رہے گی۔ اسے قناعت کرنی چاہیے۔
وہ روانہ ہونے ہی والاتھا کہ دروازے سے آواز آئی:
’’کیا تو حکیم الداس والاانسان نہیں ؟ تم یہاں کیوں ہو؟‘‘۔
علی روئی نے دیکھا کہ یہ ایک نازک لباس والاآدمی اپنےایک غیر معمولی مزاج کے ساتھ خوبصورت بھی تھا لیکن اس کے ابرو کے درمیان ایک ہلکی سی خبطی تھی۔ اس کی شکل انسانوں سے مختلف نہیں تھی۔ فلورا کی طرح اس کا تعلق ایک گریٹ ڈیمن سے تھا۔ اس کی دو شکلیں تھیں۔
اس آدمی کے پیچھے دو بڑے ڈیمن تھے، ایک مرد اور ایک عورت جو بظاہر نوکر لگتے تھے۔ اس آدمی کے آگے ایک مانوس نظر آنے والامرد گریٹ ڈیمن بھی تھا جو علی روئی کی طرف دشمنانہ نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ یہ فلورا کا تعاقب کرنے والانیرنگ آباد کا گیریژن جنرل ایان تھا۔ چلبل نے تیزی سے قدم اٹھایا اور علی روئی کو خبردار کرنے کے ارادے سے سلام کیا:
’’سر یوسف، سر ایان‘‘۔
علی روئی نے تب محسوس کیا کہ خوبصورت نوجوان یوسف ہے جو سرمانی سلطنت کے بادشاہ کا بڑا بیٹا تھا۔ موجودہ مالیاتی افسر جس نے نیرنگ آباد کی معیشت کو کنٹرول کیا ہوا ہے۔
’’بھاڑ میں جاؤ!‘‘۔
ایان چلایا۔ چلبل اس قدر خوفزدہ تھاکہ وہ جلدی سے علی روئی کے پیچھے چھپ گیا۔ علی روئی نے خفیہ طور پر <Analytical Eyes> کو چالو کیا۔ اس نے ظاہر کیا کہ ایان کے جامع طاقت E ہے جواس کی موجودہ سطح کے برابر تھی۔ تاہم گانگا کی مثال سامنے رکھتے ہوئے علی روئی نے سوچاکہ ایک ہی سطح کی درجہ بندی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ طاقت ایک جیسی ہوگی۔ فلورا نے ایک بار کہا تھا کہ انٹرمیڈیٹ ڈیمن کے اندر چوٹی کی سطح ابتدائی سطح سے کم از کم10 گنا زیادہ ہوتی ہے۔ یوسف کے پیچھے دو بڑے ڈیمن تھے۔ ان کی طاقت ڈی کلاس تھی جو کافی طاقتور تھی۔ جبکہ یوسف کا جامع اندازہ کا جواب ’’تعین کرنے سے قاصر‘‘ تھا۔
<تجزیاتی آنکھوں>کے’ تعین کرنے سے قاصر‘ ظاہر ہونے کے دو مطلب تھے۔ ایک یہ کہ یوسف کی طاقت بہت کم ہے اور دوسرا یہ کہ اتنی زیادہ ہے کہ تعین ممکن نہیں۔ ایان کے قاتلانہ عزائم کے باوجود علی روئی کی نظروں میں یوسف زیادہ خوفناک تھا۔ جو مسلسل مسکرا رہا تھا۔
’’جناب! آج حکیم نے مجھے کچھ Wrath Grass خریدنے کو کہا تو میں یوسف کے جادو کی دکان پر ایک نظر ڈالنے آیاتھا‘‘۔
علی روئی نے بڑےسکون سے کہا۔ اس نے حکیم الداس کا ذکر کیا تاکہ ایان کو بھی پتہ چلے کہ وہ حکیم الداس کے کہنے پر یوسف کے سٹور پر آیا ہے۔
’’اوہ! یہ حکیم الداس کا حکم ہے۔ ‘‘
یوسف اب بھی مسکرا رہا تھا، لیکن علی روئی اپنی ہڈیوں میں تکبر اور حقارت کو محسوس کر سکتا تھا۔
’’حکیم کو کتنی آتشی گھاس ضرورت ہے؟‘‘۔
’’یہاں کی آتشی گھاس بری نہیں ہے لیکن یہ خاصی مہنگی ہے شاید قیمت بڑھ گئی تھی۔ میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں اس لیے میں واپس جاؤں گا اور پہلے حکیم کو رپورٹ کروں گا۔
علی روئی ایان سے نہیں ڈرتا تھا۔ لیکن یوسف کے پیچھے جودو عظیم ڈیمن بہت خوفناک تھے۔ خود یوسف بھی قطعاً کوئی آسان ہدف نہیں تھا۔ علی روئی کےلئے اب یہی بہتر تھا کہ وہ جتنی جلدی یہاں سے نکل جائے۔
’’سامان کی کمی کی وجہ سے حال ہی میں ااقابلہ کی قیمتوں میں قدرے اضافہ ہوا ہے۔ تاہم آخری بار حکیم نے مہیرکو شکست دی اور نیرنگ آباد کو گلوریفائی کیا۔ یہاں کل50 آتشی گھاسیں ہیں۔ میں انہیں حکیم کو تحفے میں دوں گا۔ براہ کرم ایلون فیملی کی طرف سے مخلصانہ سلام کے ساتھ اسے حکیم تک پہنچائیں۔ اگر حکیم کو کوئی اور ضرورت ہے تو اسٹور اسے سب سے کم قیمت پر فروخت کرے گا‘‘۔
جب مہیرپہلے آیا تھا تو اس نے حکیم الداس کو مارنے کا ارادہ کیا تھا اور اپنے وقار کو بھی ایلون خاندان کے طور پر استعمال کیا۔ وہ واضح طور پر اتحادی تھے۔ اب جبکہ مہیرمر چکا تھا یوسف کےلئے یہ حکیم الداس کے ساتھ تعلق بڑھانے کا موقع تھا سو اس نے ضائع نہ کیا۔ جیسا کہ کہاوت ہےکوئی ازلی دشمن نہیں ہوتا صرف ابدی مفادات ہوتے ہیں۔
پچاس آتشی گھاسیں کم از کم100 سیاہ کرسٹل کے سکوں کی تھیں۔ علی روئی نے شائستگی سے یوسف کا شکریہ ادا کیا۔ گھاسیں اٹھائیں اور چلا گیا۔ جب وہ دروازے پر پہنچا تو یوسف اچانک بولا:
’’انسان! میں نے سنا ہے کہ تم ننھی شہزادی اور فلورا کے دوست ہو؟‘‘۔
علی روئی نے پلٹ کر دیکھا اور ذرا سی تلخی سے مسکراکرکہا:
’’میں اس کااہل نہیں ہوں۔ صرف اتنی سی بات ہے کہ ننھی شہزادی بحیثیت انسان میرے بارے میں بہت متجسس ہیں۔ وہ فلورا کو ساتھ لاکر میرے ساتھ وقت گزارنا پسند کرتی ہیں‘‘۔
’’پھر بھی، میں نے سنا ہے کہ فلورا نے عوامی طور پر تم کو ایک دوست کے طور پر تسلیم کیا ہے۔ اور مجھے لگتا ہے کہ ننھی شہزادی بھی تمہاری قدر کرتی ہے‘‘۔
علی روئی بولا:
’’یہ ان کی کرم نوازی ہے‘‘۔
یوسف نے جھوٹی مسکراہٹ کے ساتھ کہا:
’’میں اگلے مہینے کے شروع میں ننھی شہزادی کے ساتھ دوستانہ میچ کر رہا ہوں۔ کیا تم اس میں دلچسپی رکھتے ہو؟‘‘۔
’’دوستانہ میچ؟‘‘۔
علی روئی نے کبھی شمائلہ یا فلورا سے اس کے بارے میں نہیں سناتھا۔ اس نے محض اتفاق سے جواب دیا:
’’اس کے متعلق بعد میں بات کرتے ہیں جناب۔ ابھی حکیم کو واپس رپورٹ کرنا میرے لئے ضروری ہے‘‘۔
علی روئی کے جانے کے بعد ایان نے دانت پیستے ہوئے کہا:
’’یوسف کیا تم اس سیاہ ایلف سے ڈرتے ہو۔ کیوں نہ میں اِس لعنتی انسان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دوں؟‘‘۔
یوسف نے ایان کو سمجھاتے ہوئے کہا:
’’یہ وقت نہیں ہے کہ ہم عوامی طور پر اقابلہ کے خلاف جائیں۔ اس لیے حکیم الداس کو ناراض نہیں کیا جا سکتا۔ اگر آپ واقعی کمزور انسان سے نمٹنا چاہتے ہیں تو میرے پاس ایک آئیڈیا ہے۔ یہ خبر پھیلائیں کہ انسان ننھی شہزادی کی طرف سے مقابلہ کرے گا۔ اگر انسان مہیرکی طرح منصفانہ کھیل میں مر جائے تو حکیم الداس بھی کچھ نہیں کہہ سکتا‘‘۔
ایان بولا:
’’یہ اچھا خیال ہے! میں آپ کے ساتھ شامل ہوں گا اور اس انسان کو ذاتی طور پر ماروں گا‘‘۔
یوسف نے کندھے اچکا کر کہا:
’’تم نے ایسا کرنے کا فیصلہ کیا ہے تو پھراس خبر کو میچ سے صرف ایک دن پہلے پھیلنا چاہیے تاکہ اس کے پاس تیاری کا وقت نہ ہو‘‘۔
علی روئی تجربہ گاہ میں واپس آیا اور حکیم الداس کو آتشی گھاس دی۔ حکیم الداس نے سنا کہ یوسف نے انہیں تحفہ دیاہے، اس نے تھوڑا سوچا مگر رد نہیں کیا۔ علی روئی جانتا تھا کہ حکیم الداس بہت سمجھدار ہے۔ وہ یقینی طور پر ایلون کے خاندان کے ارادوں کو سمجھ گیا تھا اس لیے اس نے زیادہ کچھ نہیں کہا اور آرام کرنے کے لیے واپس کمرے میں چلا گیا۔
شاید شمائلہ نے واقعی سیلز کلاس کی بات سنی۔ وہ چند دنوں سے علی روئی کے پاس نہیں آئی۔ اس نے واجب الادا کہانی کا دعویٰ بھی نہیں کیا۔ اس کے بجائے فلورا وقتاً فوقتاً تین ریاستوں کی کہانی سننے آتی تھی۔ تجربہ گاہ ہمیشہ اس کی ہنسی سے بھر جاتی تھی۔ علی روئی چمک کے ماخذ کو تلاش کرنے کے لیے چلبل کے ساتھ پورے نیرنگ آباد میں گھوما۔ سارےشہر سے واقفیت حاصل کی۔ کبھی کبھار کسی پریشانی کا سامنا بھی کرنا پڑا مگر زیک لوہار علی روئی کے مسائل کو حل کرنے میں مدد کی۔ اس کا وسیع سماجی تعلق تھا اور علی روئی اپنی طاقت کو ظاہر نہ کرنے پر بھی خوش تھا۔
ان دنوں فائدہ پہلے دن کی طرح بڑا نہیں ہوا لیکن کچھ چمکیں کم و بیش بڑھ گئی تھیں۔ اس وقت اورا کی کل مقدار700 کے قریب تھی۔ اگرچہ یہ گودام کے ذخیرہ کو چالو کرنے کی ضروریات کو پورا کر چکی تھی لیکن اسے چالو کر نے بعد اس کے پاس و صرف200 کے قریب پوائنٹ باقی رہ جاتے۔ چونکہ ابھی چمک کا کوئی نیا ذریعہ نہیں مل رہا تھا اس لیے علی روئی نے مزید انتظار کرنے کا فیصلہ کیا۔
نواں باب
تجزیہ کار آنکھیں
اندھیرا بھی روشنی کی ایک قسم ہے
دیومالائی دائرے میں بتدریج انضمام کے ساتھ ساتھ اس دنیا کے بارے میں علی روئی کا نقطہ نظر بھی بدل رہا تھا۔ انسانی دنیا کی طرح دیومالائی دائرے بھی طاقت ور کی دنیا تھی۔ موزوں ترین طاقت کوبقا تھی۔ زیادہ سے زیادہ حکمرانی کے لیے صرف خوبصورت کور کی ایک پرت تھی۔ زیادہ تر بدروحیں گھناؤنی تھیں، ڈیمن ظالم اور قبیح تھے لیکن نسبتاً خوبصورت بیرونی جلد کو اترنےکے بعد ان کا موازنہ انسانی دل کی تاریکی سے کیا جاسکتا تھا۔ دوسرے لفظوں میں دیومالائی دائرہ بھی انسانی دنیا کی طرح تھا۔ وہی طاقت کی حمایت، وہی زیادہ جنگجوسے خوف، وہی لمحہ لمحہ بدلتے ہوئے چہرے۔ بالکل اسی طرح جیسے ایک جملہ اس نے اپنی پچھلی زندگی میں انٹرنیٹ پر دیکھا تھا:
’’اندھیرا بھی روشنی کی ایک قسم ہے لیکن اس کا سایہ مختلف ہے‘‘۔
یہ وہ دن تھا جب سنکھیار سے ڈریگن اسکرپشن کو دوبارہ سیکھنا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ فلورا کو کچھ ہو رہا ہے۔ وہ دو دن تک نظر نہیں آئی تھی۔ علی روئی نے جڑی بوٹیاں اکٹھی کرنے کا بہانہ بنایا۔ سہ رخی گینڈا کرائے پر لیا اور صبح سویرے نیلی جھیل چلا گیا۔
مانوس نیلی جھیل تک پہنچنے پر علی روئی نے ابتدائی طور پر زہریلے ڈریگن کے بھولنے کی بیماری سے نمٹنے کے لیے تیاری کی۔ اس لیے وہ خاص طور پر گرم برتن میں کچھ لے کر آیا تھا۔ مگرسنکھیار غائب ہو گیا، بس وہاں ایک سبز گھاس کی بساط رہ گئی تھی جو کچھ کچھ سوکھ گئی تھی، کنکریاں چاروں طرف بکھری پڑی تھیں۔ علی روئی حیران رہ گیاکہ کیا ہوا؟ اس کی زندگی اب سنکھیار سے جڑی ہوئی تھی۔ اگر زہریلے ڈریگن کو کوئی حادثہ پیش آگیا تو وہ بھی برباد ہو جائے گا۔
ابھی علی روئی جھیل کے کنارے سنکھیار کو ڈھونڈ رہا تھاکہ اچانک جھیل میں ایک بھنور نمودار ہوا اور ایک بہت بڑا سر آہستہ آہستہ اوپر اٹھنے لگا۔ یہ پیلا بھورا سر کسی گوشت خور ڈائناسور جیسا لگتا تھا۔ اس کے سر پر چھوٹے سینگ، گالوں پر دو پنکھ نما ڈھانچے، شدید نظر، تیز دانت۔ علی روئی کو گھورنے والی خوفناک روشنیوں سے چمکتی سیاہ سنہری آنکھیں۔ علی روئی نے سوچا یہ سنکھیار ہوگا۔ پھر علی روئی کی ہر طرف سے ہنسی چھوٹ گئی۔ اسے ڈر تھا کہ اس خوفناک حالت میں زہریلا ڈریگن بھولنے کی بیماری کے سبب علی روئی پر حملہ نہ کر دے۔ اس کے ہاتھ میں <اورورا شاٹ< کسی بھی وقت جاری ہونے کے لیے تیار تھا۔
’’لعنت ہو تم پر علی روئی!‘‘۔
زہریلا ڈریگن اچانک بولااورعلی روئی کو پرسکون ہو گیا کہ کم از کم سنکھیار اسے بھولانہیں۔
’’سنکھیار! اپنی شکل بدلو۔ میرے پاس تمھیں بتانے کے لیے کچھ ہے‘‘۔
سنکھیار نے غصے سے سر ہلایا اور علی روئی کو گیلا کرنے کا ارادہ کرتے ہوئے جھیل کے پانی کی ایک بڑی لہر اس کی طرف پھینک دی۔ علی روئی تقریباً 6 میٹر پیچھے کی طرف چھلانگ لگا کر اس سے بچ گیا۔
’’آہ!‘‘۔
زہریلے اژدھے کی آواز میں قدرے حیرانی محسوس ہوئی اور ڈریگن کا سر غائب ہو گیا۔ ایک شخصیت ہوا کے درمیان سے نمودار ہوئی جس نے علی روئی کو لات مار دی۔ علی روئی اسے چکما نہیں دے سکا۔ وہ اپنے بازؤں سے روکنے ہی والاتھا کہ اچانک ہتھوڑے کی سی کک ناقابل یقین زاویے سے مڑی اوریہ اس کی کمر کے پیچھے نمودار ہوئی۔
’’پاؤ!‘‘
علی روئی کو پیچھے سے زوردار لات پڑی۔ ہوا میں اڑنے کے بعد اس نے کلاسک فال ڈاؤن پوز کو ہوا میں ہاتھوں اور ٹانگوں کے ساتھ دوبارہ دکھایا اور اس کا جسم کیچڑ میں ڈھکا ہوا تھا۔ علی روئی نے اپنے کولہوں میں شدید درد محسوس کیا۔ خوش قسمتی سے وہ زخمی نہیں ہواتھا۔ وہ کھڑا ہوا مگرسنکھیار ا بھی تک غصے میں تھا۔ وہ تیزی سے آگے بڑھا اور کالر پکڑ کر کہا:
’’تمہیں کیا ہواتھا؟ تم نے مجھے مارہی ڈالاتھا‘‘۔
’’میں نے تمہیں کیا نقصان پہنچایا؟ تم مر گئے تو میں بھی مر جاؤں گا!‘‘۔
زہریلے اژدہے نے کالر چھوڑتے ہوئے سرد لہجے میں کہا:
’’بتائو تمہیں کیا ہواتھا‘‘۔
تب علی روئی نے محسوس کیا کہ زہریلے ڈریگن کا اصلی زرد مائل بھورا چہرہ پیلا اور مرجھا گیا ہے۔
’’میں کچھ پوچھ رہا ہوں تم سے‘‘۔ سنکھیار نے بے صبری سے کہا:
’’تمہارے جانے کے بعد شاید دوسری رات تھی۔ سمبیوٹک معاہدہ اچانک بدل گیا۔ اس نے بزدلانہ طور پر میری طاقت کو نگل لیا۔ اب میری عمر آدھی رہ گئی ہے۔ میری طاقت بہت کمزور ہو گئی ہے‘‘۔
’’یہ کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘۔
علی روئی کو یاد آیا کہ یہ وہ دن تھا جب حکیم چیلنج ختم ہوا اور سپرسسٹم شروع ہوا۔ اور پھر جسم کی صفائی۔۔۔۔ جی ہاں، یہ ابتدائی ارتقا تھا۔
اس وقت فوری طور پر اعلیٰ طہارت والی زندگی کی توانائی پائی۔ پھر اسے فروغ دینے کے لیے چمک میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ یہ علامتی معاہدہ کی طاقت نکلی۔ کوئی تعجب نہیں کہ میں اتنی جلدی اسٹار ہولڈر بن گیا، لگتا ہے بھائی زہر یلے ڈریگن کو اس بار واقعی نقصان ہوا ہے۔
’’چلو پہلے کچھ کھانا بناتے ہیں اور کھاتے وقت بات کرتے ہیں‘‘۔
علی روئی مجرم تھا، اس لیے اس نے سنکھیار کے منہ کو اچھے کھانے سے بھرنے کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد اس نے فوری طور پر اس جگہ پر مواد حاصل کیا جہاں تین سینگوں والاگینڈا بندھا ہوا تھا، تیز رفتاری سے ایک سادہ گرم برتن تیار کرنے لگا۔
’’یہ چیز بہت مزیدار ہے‘‘۔
سنکھیار نے چند ٹکڑوں کا مزہ چکھا اوربہت تعریف کی، پھر وہ جلدی سے کھانا کھانے لگا۔ علی روئی نے دیکھا کہ زہریلے ڈریگن کا موڈ بہتر ہو رہا ہے، اس نے کہا:
’’دراصل معاملہ یہ ہےکہ میرے عظیم آقا کی وراثت کو سرکاری طور پر فعال کر دیا گیا تھا۔ علی روئی نے سپر سسٹم کے کام کے حصے کےلیے گرینڈ حکیم کی وراثت کو ’’الزام‘‘ دیا۔ اس نے کہا :
’’وراثت سے مجھے کچھ نئے اختیار دئیے گئے ہیں۔ باطنی صفائی بھی کی گئی ہے۔ اب مسلسل میری طاقت میں اضافہ ہوتا رہے گا‘‘۔
’’یہ دراصل تم ہی تھے جس نے میری طاقت کو نگل لیا لعنتی آدمی!۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو میری زندگی مختصر سے مختصر ہوتی جائے گی‘‘۔
یہ دیکھ کر کہ سنکھیار دوبارہ حملہ کرنے جا رہا ہے، علی روئی نے جلدی سے اسے سمجھایا اور کہا:
’’سمبیوٹک معاہدے کی طاقت صرف وراثت کو فعال کرنے کے لیے درکار تھی۔ اب اس کی ضرورت نہیں، اس لیے زہریلے ڈریگن کو دوبارہ معاہدے میں کوئی عجیب تبدیلی محسوس نہیں ہوگی‘‘۔
علی روئی ابتدائی طور پر اس بات پر افسردہ تھا کہ ابتدائی ارتقاء میں ”اعلیٰ پاکیزہ زندگی کی توانائی“ دوبارہ کیوں ظاہر نہیں ہوئی۔ اسے کچھ چمک مل سکتی تھی۔ اب ایسا لگ رہا تھا کہ اگر کوئی اشارہ ہو بھی جائے تو وہ محض اتفاق کرنے کی ہمت نہیں کرے گا۔ زندہ رہنا طاقت کی سب سے اہم بنیاد تھی۔ اگر وہ صرف ایک سیکنڈ کے لیے جی سکتا تھا تو ناقابل تسخیر ہونے کا کیا فائدہ؟۔
علی روئی کی وضاحت سننے کے بعد سنکھیار نے سکون محسوس کیا۔ ڈریگن کی زندگی کا دورانیہ واقعی طویل تھا۔ اگر اسے آدھا کر دیا جائے تب بھی کم از کم چند ملین سال باقی تھے۔ اگر اسے چند ملین سال کے لیے ایسی جگہ پر بند کر دیا جائے تو شاید وہ چند ہزار سال تک زندہ نہ رہ سکے۔ طاقت کو آہستہ آہستہ بحال کیا جا سکتا ہے اور اسے دوبارہ اگایاجا سکتا ہے۔ جلد ہی زہریلا ڈریگن جو تھوڑا سا ناراض تھا گرم برتن کی خوشبو سے پرسکون ہو گیا۔ جب اس نے سنا کہ علی روئی کوحملہ کرنے کی مہارت حاصل ہوئی ہے جو گرینڈ حکیم کی طرف سے دی گئی ہے تو وہ دلچسپی لینے لگا۔
’’ٹھیک ہے میں اس خفیہ تکنیک کو آزماتا ہوں‘‘۔
سنکھیار نے گرم برتن میں سوپ سمیت سب کچھ کھا لیا۔ اس کے بعد اس نے علی روئی کو حرکت کرنے کا اشارہ کرتے ہوئے مخالف سمت کا رخ کیا۔
’’محتاط رہنا‘‘۔
آخری بار گانگا کو آسانی سے شکست دینے کے بعد علی روئی بھی کوشش کرنے کے لیے تھوڑا بے چین تھا۔ اس نے اپنی ہتھیلی کھولی اور گہری آواز کے ساتھ چلایا <Aurora Shot>۔ ہتھیلی سے ایک بڑی سفید روشنی پھوٹ پڑی۔ سنکھیار کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ اس کا بایاں ہاتھ بجلی کی طرح لہرا رہا تھا اورAurora Shot> جسمانی طور پر آسانی سے پکڑ لیا تھا۔ پھر اس نے اسے اپنے ہاتھ میں پکڑا اور ’’Poof‘‘۔ بڑی روشنی کی گیند بغیر کسی نشان کے غائب ہوگئی۔
اگرچہ علی روئی جانتا تھا کہ <Aurora Shot>سنکھیار کو نقصان نہیں پہنچا سکتا لیکن اسے امید نہیں تھی کہ یہ سنکھیار کے ہاتھ میں کھلونے کی طرح ہوگا۔ اس نے خفیہ طور پر <Analytical Eyes> کو چالو کیا۔ یقینی طور پر زہریلے ڈریگن کی جامع تشخیص کو ’’تعین کرنے سے قاصر‘‘ کے طور پر دکھایا گیا تھا۔
تاہم سنکھیار نے ہتھیلی کی طرف دیکھا اور وہ حیران رہ گیا۔ اس نے اپنی سخت جلد پر چند چھوٹے دراڑوں کو دیکھا جس سے کچھ سبز خون نکل رہا تھا۔
’’میں ابھی تھوڑا کم تیار تھا لیکن تمہارا حملہ بہت خاص ہے۔ یہ خالص طاقت یا جادو کی ایک ضرب کی طرح نہیں ہے۔ اس کی تباہ کن طاقت ان دونوں سے بہت اوپر ہے اور یہ میرے دفاع کو توڑ سکتی ہے‘‘۔
سنکھیار جو کچھ سوچ رہا تھا، اس کا اظہار باوقار تھا۔ اس نے کہا:
’’علی روئی! تمہاری طاقت بہت تیزی سے بہتر ہورہی ہے۔ میں اب گرینڈ حکیم کی وراثت پر یقین کرنے لگا ہوں۔ میری رائے میں وہ ووکونگ حکیم یقینی طور پر ایک کیمیا گرینڈ حکیم کی طرح سادہ نہیں ہے۔ ممکن ہے کہ اس کی اپنی جنگی طاقت ڈیمی گاڈ یا اس سے بھی بلند سطح پر پہنچ گئی ہو‘‘۔
علی روئی نے چپکے سے سر ہلایا۔ صرف ایک ڈیمی خدا؟ وہ پہلے ہی تین دائروں سے چھلانگ لگا چکا تھا اور پانچ عناصر کے اندر بھی نہیں تھا۔ صرف اس صورت میں جب عظیم حکیم واقعی موجود ہو۔
’’گرینڈ حکیم کی وراثت‘‘ اور مزید بیداری کی صلاحیت کے بارے میں علی روئی کی وضاحت کو سننے کے بعد سنکھیار کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ سنکھیار بولا:
’’اس قسم کی میراث کسی شاہی خاندان کے خون کی بیداری کی طرح ہے۔ یہ جتنا آگے بڑھتا ہے، اتنا ہی طاقتور ہوتا جاتا ہے۔ تمہاری موجودہ طاقت کے ساتھ یہ تقریباً انٹرمیڈیٹ ڈیمن کی سطح ہے۔
جب علی روئی نے سنا کہ یہ صرف انٹرمیڈیٹ ڈیمن تھا تو مایوس ہوا۔ سنکھیار نے اس کی شکل دیکھی اور غصے سے کہا:
’’تمہیں مطمئن رہنا چاہیے! ایسا لگتا ہے کہ تم انٹرمیڈیٹ ڈیمن کی طاقت کے ساتھ پیدا ہوئے ہو۔ اس کے علاوہ ایک انسان ہو۔ وراثتی طاقت کے ساتھ تمہاری صلاحیت عام ڈیمن سے کہیں بہتر ہے۔ کسی شاہی خاندان کے پاس بھی شاید تمہارا جواب نہ ہو صرف ڈریگنوں کے علاوہ، ڈریگن کے بچے کم از کم ڈیمن کنگ کی طاقت کے ساتھ پیدا ہوتے ہیں‘‘۔
علی روئی نے ہونٹ گھمائے اورپھر بولا:
’’تو کیا ہوگا اگر وہ ڈیمن کنگ کی سطح پر ہے؟ بالغ ہونے میں ہزاروں سال لگتے ہیں۔ اس کے علاوہ زرخیزی قابل رحم ہے۔ پھر بھی سنکھیارکے مطابق یہ نقطہ آغاز پہلے ہی کافی اونچا ہے۔ مستقبل خاص طور پر روشن لگتا ہے‘‘۔
سنکھیار ایک لمحے کے لیے خاموش رہا پھر اس نے علی روئی کے جوش کو کم کر دیا۔ بولا:
’’اگرچہ تمہاری طاقت بمشکل انٹرمیڈیٹ ڈیمن کے کم سے کم معیار پر پورا اترتی ہے، لیکن تمہاراجنگی تجربہ اور مہارتیں بہت خوفناک ہیں۔ تم ابھی اپنی اصل طاقت کو پوری طرح استعمال نہیں کر سکتے۔ تم ایک چھوٹے ڈیمن کو دھونس دے سکتے ہو لیکن اگر ایک انٹرمیڈیٹ ڈیمن سے سامنا برابر کی طاقت کے ساتھ ہو تو تم یقینی طور پر ہار جائو گے۔ اگر تم طاقت کے استعمال میں تیزی سے مہارت حاصل کرنا چاہتے ہو اور جنگی تاثیر کو بہتر بنانا چاہتے ہیں تو تمہیں خصوصی تربیت حاصل کرنی ہوگی‘‘۔
زہریلے ڈریگن کی اصل طاقت ڈیمن اوور لارڈ کے برابر تھی جس کا تعلق سب سے طاقتور کرداروں سے تھا۔ مہر اور طاقت کے کمزور ہونے کی وجہ سے وہ صرف ڈیمن کنگ کی طاقت تک ہی استعمال کر سکتا تھا۔ اس کے باوجود یہ یقینی طور پر وہ نہیں تھا جو علی روئی کا مقابلہ کر سکتا تھا۔
علی روئی نے سر ہلایا۔ اس کی آنکھوں میں عزم کی چمک تھی۔ درحقیقت طاقت کا احترام کیا جاتا تھا اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ دنیا کوئی بھی ہے۔ اگرچہ وہ عارضی طور پر نیرنگ آباد میں آباد ہوا لیکن صورتحال مثبت نہیں تھی۔ ایان نے اسے ایک قدیم دشمن سمجھا۔ یوسف کی طاقت بھی بے حد تھی۔ مستقبل میں مزید طاقتور دشمن ہوں گے۔ اگر اس کے پاس طاقت نہ ہوتی تو اسے کوئی بھی ذبح کر دے گا۔
اگرچہ حکمت کے استعمال سے عارضی کامیابی حاصل ہو سکتی ہے لیکن مطلق طاقت کے سامنے حکمت بے اثر ہو گی۔ لہٰذا طاقت بقا کی بنیاد تھی۔ فی الحال سپرسسٹم نے پہلے ہی بہترین موقع فراہم کیا تھا۔ اسے اس پر قبضہ کرنے کے لیے اپنی کوشش کو بروئےکار لانا چاہیے۔ جب اس کے پاس طاقت تھی اور اس نے اسے حکمت کے ساتھ استعمال کیا تو یہ شاہی طریقہ تھا۔
علی روئی کے پرعزم رویے نے سنکھیار کو بہت مطمئن کر دیا۔ اگرچہ سمبیوٹک کنٹریکٹ پر دستخط کرنا ایک آخری حربہ تھا اور ابھی بھی کچھ شبہ تھا کہ اسے دھوکہ دیا گیا تھا۔ زہریلے ڈریگن کا نقطہ نظر بدلنا شروع ہو گیا تھاکہ اس انسان کے پاس قدیم زمانے کی مضبوط وراثت ہے اور اس کی صلاحیت لامحدود ہے۔ اگر ایک دن اس کی طاقت اوپر پہنچ جائے اور میرے ساتھ کام کرے تو یہی شراکت داری کا حقیقی احساس ہے۔
’’بوم! بوم‘‘۔
’’لعنت ہو سنکھیار! تم نے مجھ پر چپکے سے حملہ کیا‘‘۔
زہریلے ڈریگن نے طنز کیا:
’’معصوم اداکاری کرنے والے تیری چالاکی کہاں ہے؟۔ کیا تمہیں لگتا ہے کہ جنگ لڑنے سے پہلے کوئی موقف پیش کر رہاہو جو بھی ذریعہ حریف کو گرا سکتا ہے وہ سب سے مضبوط ذریعہ ہے۔ اگر یہ چپکے سے حملہ ہے تو کس کو پرواہ ہے۔ فکر نہ کرو، میں اپنی طاقت کو انٹرمیڈیٹ ڈیمن کی حالت میں دبا دوں گا، تمہیں نہیں ماروں گا‘‘۔
’’تم نے دراصل میری کمر پر حملہ کیا۔ کیا تمام ڈریگن ایسے ہی ہوتے ہیں؟‘‘۔
زہریلے ڈریگن کی تربیت کا انداز بہت آسان تھا۔ اسے اورکچھ بھی پسند نہیں تھا۔ وہ صرف عملی چیزوں کا تعاقب کرتا ہے۔ اپنے آپ کو بچانے کی بنیاد کے تحت ظالمانہ اور زیادہ مؤثر حملہ سب سے مضبوط چیز ہے۔
سنکھیار کی طرف سے متعدد بار گرائے جانے کے بعد علی روئی جس کا چہرہ پھولاہوا تھا۔ وہ شک کرنے لگا کہ زہریلا ڈریگن اسے جان بوجھ کر بے وقوف بنا رہا ہے۔ اس نے سخت احتجاج کیا۔ سنکھیار پریشان نہ ہوا۔ اس نے اپنی کوچنگ کا کام خوشی خوشی جاری رکھا۔ اس کی خوشی دوسروں کے دکھوں پر قائم تھی۔
’’ ہمت بیدار کرو۔ اپنی برداشت نکالو! تم جتنا زیادہ ڈروگے اتنی ہی تیزی سے مر جاؤگے!‘‘۔
’’اپنے مرکز ثقل کو مستحکم کرو‘‘۔
’’اپنی آنکھوں پر بھروسہ نہ کرو! اپنے جذبات سے فیصلہ کرو‘‘۔
بدسلوکی کی متعدد لہروں کے بعد علی روئی کی ایک لڑنے والے دھوکےباز کے طور پر ترقی بالکل واضح تھی۔ ’’Alkaid‘‘ پہلی اور سب سے بنیادی سٹار پلس تھی، جو ’’جسم‘‘ کی تربیت پر توجہ مرکوز کرتی تھی۔ یہ ابتدائی ارتقاء کے ’’جسم کی صفائی‘‘ کی طرح تھا۔ پھر بھی ’’جسم کی صفائی‘‘ صرف ایک غیر فعال تبدیلی تھی۔ اسے جس چیز کی ضرورت تھی وہ یہ کہ پہلے اپنی طاقت کے استعمال میں مہارت حاصل کرےاور اپنے جسم کو مزید مضبوط کرے۔
علی روئی کے جسم میں اگرچہ زبردست طاقت تھی لیکن وہ اس پر قابو نہیں پا سکتا تھا۔ گانگا کے ساتھ جنگ کے دوران، وہ محض اپنے حتمی اقدام <اورورا شاٹ>کی طاقت پر بھروسہ کر رہا تھا۔ فی الحال سنکھیار کی انتہائی شدت کی تربیت کے تحت بہت بڑی قوت اپنے خول سے باہر نکلنے کی طرح ابھر رہی تھی آہستہ آہستہ اس کے پورے جسم میں پھیل گئی۔ وہ سٹار پاور کے بہاؤ کو واضح طور پر محسوس کر رہاتھا۔
سٹار پاور نے’’الکید‘‘ کے گرد مرکز بنایااور پورے جسم کو لامتناہی طور پر سائیکل کیا۔ جب تک وہ اس چکر کی تال کو سمجھ سکتا تھا، اپنی سٹار پاور کو آزادانہ طور پر استعمال کر سکتا تھا۔
اس دریافت کے بعد علی روئی کا حوصلہ اور بڑھ گیا۔ اسے جسم کا درد کافی کم ہوتا ہوا دکھائی دیا۔ سنکھیار نہیں جانتا تھا کہ انسان میں <Astral> خصلتیں بھی ہیں، اس لیے وہ چپکے سے حیران رہ گیا۔ اس کی تربیت کی شدت دراصل علی روئی کی موجودہ طاقت کی حد ہونی چاہیےتھی۔ غیر متوقع طور پرانسان کی برداشت اور صحت یابی کی صلاحیت اس کے تصور سے کہیں زیادہ تھی۔
علی روئی اب بھی جوش میں تھا۔ اس کے علاوہ اس کی فہم اور ترقی کی رفتار کافی حیرت انگیز تھی اس کے دفاع اور جوابی حملے کی شدت اور بھی مضبوط ہوتی جا رہی تھی۔
ایک اور عجیب جو اسے درپیش تھی وہ یہ کہ عام طور پر جب اپنے سے اونچے درجے کے دشمن کا سامنا ہوتا ہے تو درجہ کا دباؤ ہوتا ہے۔ کم درجہ والاساری طاقت استعمال کرنے سے قاصر ہوگا۔ زہریلے ڈریگن نے بار خفیہ طور پر اپنی طاقت کو ہائیر ڈیمن میں بدل دیا لیکن ایسا لگتا ہے کہ علی روئی پر اس اصول کا کوئی اثر نہیں ہوا۔
زہر کا ڈریگن زیادہ بے لگام تھا، علی روئی کو بار بار زمین پر گرا رہا تھا اور اس کی آنکھوں میں مسکراہٹ تیزی سے واضح ہو رہی تھی کہ میرا مستقبل کا ساتھی جتنا مضبوط ہوگا، اتنا ہی بہتر ہے۔ اس آدمی کا مستقبل یقینی طور پر منتظر ہے۔ اسی لیے جب انسان زمین سے اٹھ نہیں سکتا تھا، سنکھیار نے خصوصی تربیت ختم کی۔ اگرچہ اس کی شکل دکھی تھی، علی روئی کا فائدہ واقعی کم نہیں تھا۔ اس کے جسم میں سٹار پاور دھیرے دھیرے passive سے فعال ایکٹیویشن میں تبدیل ہو گئی۔ تجربہ کی قدر جو کبھی تبدیل نہیں ہوئی تھی آخر کار ترقی کر کے 1فیصدہو گئی۔ یہ اچھی شروعات تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ خصوصی تربیت جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔ جب وہ جا رہا تھاتو زہریلے ڈریگن کی چڑچڑی نظر وں نے’’اتنی آسان لڑائی‘‘ دکھا کر علی روئی کو ناراض کر دیا۔ واپسی پر اسے صرف اتنا یاد تھاکہ اس نے خصوصی تربیت پر توجہ مرکوز کرنی ہے۔ وہ ڈریگن انکرپشن کے بارے میں جاننا بھول گیا۔ چونکہ آخری نوشتہ نہیں سمجھ سکا جو اس نے سیکھا تھا اس لیے اگلی بار کا انتظار کرے گا۔ آج کا فائدہ کافی حیران کن تھا۔
<Astral> کی بازیابی کا اثر موثر تھا۔ یہی بنیادی وجہ تھی کہ وہ زہریلے ڈریگن کی خصوصی تربیت کو زیادہ دیر تک برداشت کر سکا۔ بلاشبہ زہریلے ڈریگن نے اپنی پوری طاقت استعمال نہیں کی۔ جب تین سینگوں والاگینڈا نیرنگ آباد پہنچا تو علی روئی کی چوٹیں ٹھیک ہوچکی تھیں۔
لیب میں واپس آنے پر وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ فلورا اور شمائلہ کافی دیر سےاس کا انتظار کر رہی تھیں۔
’’دو دن پہلے فلورا باہر نہیں گئی تھی؟ اوہ ٹھیک ہے، آج’تریاق‘ کا دن ہے، شمائلہ یہاں کیوں ہے؟ کیا وہ فلورا کی ’زہریلی‘ چیز کے بارے میں جانتی تھی‘‘۔
علی روئی کی چوٹیں توٹھیک ہو چکی تھیں لیکن اس کے چہرے کے زخم پوری طرح ٹھیک نہیں ہوئے تھے اور اس کے کپڑے بھی گندے تھے۔ فلورا نے جب اس کی شکل دیکھی تو وہ اچانک غصے سے بولی:
’’علی روئی، یہ کس نے تمہیں مارا ہے ؟ مجھے بتائو،میں اس کی جان لے لوں گی‘‘۔
’’تم اس کو ہرا نہیں سکتی‘‘۔
علی روئی نے دل ہی دل میں بڑبڑایا۔ اس نے فلورا کی غصہ بھری صورت دیکھی اور دل میں گرمی محسوس کی۔ پھر سر ہلایا اور کہا:
’’کچھ نہیں، میں غلطی سے گر گیا ہوں‘‘۔
’’مجھ سے جھوٹ مت بولو، گرنے سے ایسے زخم نہیں آتے ‘‘۔
فلورا نے کچھ سوچا اور اس کا غصہ مزید بڑھ گیا:
’’کیا ایان نے کسی کو بھیجا تھا؟ وہی ایک کمینہ ہےجو پیچھے سے چالیں چلتا ہے۔ میں نے بہت عرصے سے اس کی آنکھوں میں خوش نہیں دیکھی، اب تمہارابدلہ لینے کے لیے اسے ماروں گی‘‘۔
اٹھنے لگی۔ علی روئی پکارا:
’’رکو!‘‘۔
فلورا کو روکتے ہوئے بولا:
’’مت جاؤ! اس کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے‘‘۔
’’تم اتنے ڈرپوک کیسے ہو گئے؟ تم میں سچ کہنے کی ہمت بھی نہیں؟‘‘۔
فلورانے علی روئی کو اس کی بزدلی پر ڈانٹا، لیکن جب اسے زہریلے ڈریگن کے سامنے اس انسان کی عقلمندی اور ہمت کا خیال آیا تو اس کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا۔ ایان زہر یلےڈریگن کے مقابلے میں کیا ہے؟، یقیناًاس کے پیچھے ضرور کوئی نہ کوئی بات ہوگی۔
’’ہم انسانوں کے ہاں کہاوت ہے کہ عظیم منصوبے بے صبری سے برباد ہو جاتے ہیں۔ ہم کسی چھوٹی وجہ سے بڑی تصویر کو متاثر نہیں کر سکتے۔ اگر تمہاراایان کے ساتھ کوئی بڑا تنازعہ ہے تو یہ شہزادی اقابلہ کی صورتحال کو مزید خراب کرے گا‘‘۔
جیسے ہی اس نے یہ کہا، فلورا کا غصہ آہستہ آہستہ ختم ہو گیا۔ شمائلہ، جو اصل میں متجسس تھی، اس نے شدت سے سر ہلاکر اتفاق کیا اور پوچھا:
’’علی روئی! چونکہ تم ایک ذہین انسان ہو،تم کل کے اسکائی ایرینا میں کیوں شرکت کر رہے ہو؟‘‘۔
’’کل؟ آسمانی جنگ؟‘‘۔
علی روئی چونک گیا۔ بولا:
’’میں نہیں جانتا تھا کہ شرکت کر رہا ہوں؟ آپ کو یہ کس نے کہاہے؟‘‘۔
دسواں باب
پرندوں کی سواریاں
پائلٹ کی آنکھ عقاب کی طرح ہوتی ہے
’’تمہیں معلوم نہیں تھا؟‘‘
فلوارا بے چین دکھائی دے رہی تھی۔
’’ابھی واپس آئی ہوں، شہر میں ہر جگہ سنا ہے کہ حکیم الداس کے چیلنج کے دوران اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والا شاگرد کل میدان میں اسکائی بیٹل میں حصہ لینے کے لیے ڈارکْ مون سٹی کی نمائندگی کرے گا۔ تمہاری موجودہ طاقت خودکشی کے مترادف ہے‘‘۔
علی روئی کو خیال آیاکہ اس ٹورنامنٹ کے بارے میں اس نے کہیں سے سنا ہے۔ اسے کچھ دن پہلےننھی شہزادی کی جادو ئی دکان کے منظر کا خیال آیا اور وہ اچانک سمجھ گیاکہ اسے پھنسایا جا رہا ہے! اس طرح کی سازش ایان کے لیے قدرے مشکل ہے جو بہادر لیکن بےوقوف ہے۔ یہ اسی منافق یوسف کا کیا دھرا ہوگا۔
علی روئی کے تجربے کو سننے کے بعد، فلورا نے اکتا کر کہا:
’’یوسف؟ کیا یہ ایان نہیں ہے؟ پھر میں نے کیوں سنا کہ ایان ہی ہے جس نے یہ خبر پھیلائی‘‘۔
شمائلہ بولی:
’’فلورا!اگرچہ یوسف عام طور پر بہتر اور شائستہ ہے، کثر تحائف بھی دیتا ہے، لیکن وہ دراصل سب سے حقیر آدمی ہے۔ ایان کی بیوقوفی کی وجہ سےیوسف اسے استعمال کر رہا ہے‘‘۔
علی روئی نے چپکے سے سر ہلایا۔ ننھی شہزادی جو بظاہر معمولی فائدے اٹھانا اور لوگوں کو بے وقوف بنانا پسند کرتی ہے، حقیقت میں بالکل واضح ہے۔
’’تو پھر تم ہمیشہ اس کے تحفے کیوں لیتی ہو؟‘‘۔
فلورا نے شمائلہ کو گھورا۔
’’مجھے یوسف پسند نہیں، اس لیے جب بھی اس نے کچھ دیا، میں نے نہیں لیا‘‘۔
شمائلہ کی آنکھیں چمک اٹھیں:
’’فلورا! تحائف تو معصوم ہوتے ہیں‘‘۔
اس کے لہجے اور آنکھوں کی چمک سے واضح تھا کہ پہلے کے مقابلےننھی شہزادی کی کارکردگی ایک اعلیٰ سطح پر پہنچ گئی تھی۔ فلورا اتنی شدید نگاہوں کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی اس لیے شکست تسلیم کر لی۔ معلوم ہوا کہ ننھی شہزادی کالے دل والے گروہ کی سرکردہ رکن تھی جو کسی کے گناہ گار ہونے پرملامت تو کرتی ہے لیکن اس کے تحائف قبول کر لیتی ہے۔
علی روئی نےننھی شہزادی کی طرف تعریفی نظروں سے دیکھا اور پوچھا:
’’یہ اسکائی بیٹل کیا ہے؟‘‘۔
’’یہ یوسف اور میرے درمیان ایک جوا ہے‘‘۔
شمائلہ نےجھنجھلاہٹ سے کہا:
’’ہرفریق ایک ایک بندہ دیومالائی درندے پر سوارکرکے ہوا میں لڑنے کے لیے بھیجیں گے۔ جو پہلے گرا وہ ہار جائے گا۔ شرط یہ ہے کہ آپ خود نہیں کر سکتے، آپ صرف دیومالائی درندوں کو حکم دے سکتے ہیں۔ اپنی زندگی کے آپ خود ذمہ دار ہیں۔ اس قسم کا ٹورنامنٹ انتہائی خطرناک ہے، اس لیے اسے اسکائی ڈیتھ میچ بھی کہا جاتا ہے‘‘۔
علی روئی نےاکتا کر کہا:
’’آپ اور اس کے درمیان ایسا جوا کیوں ہے؟‘‘۔
’’یہ میرے مرحوم باپ کی وراثت ہے۔ ریجنٹ کے حکم کےمطابق سرمانی سلطنت کا بادشاہ جوش کو ہر سال نیرنگ آباد کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لیے کسی کو بھیجنا پڑتا ہے تاکہ تاریک سورج کا بادشاہ کے اولاد کی عزت و وقار کو نقصان پہنچایا جا سکے‘‘۔
شمائلہ نے بےپرواہی سے کہا:
’’میرا بوڑھا باپ اپنی انا کو برقرار رکھنا چاہتا تھا۔ ہر باروہ پوری کوشش کرتا تھا کہ لوگ اس میں شریک ہوں۔ لیکن میری بہن کے نیرنگ آباد کو سنبھالنے کے بعداس کی وہ اہمیت نہیں رہی۔ جو بھی ہو،باپ کی آخری خواہش کو ماننا پڑے گا، لیکن میری بہن کو اس میں دلچسپی نہیں ہے، اس لیے مجھےاس مصیبت کو سنبھالنا پڑا‘‘۔
ننھی شہزادی نے ناراضی کا اظہار کیااور سیدھا علی روئی کی طرف دیکھا
’’مجھے بتاؤگزشتہ نسلوں کی شکایات کا بوجھ آنے والی نچلبلں کیوں اٹھائیں؟؟‘‘۔
علی روئی سے برداشت نہ ہوا۔ فلوراکو بھی یہ بات اچھی نہ لگی اور کہا:
’’شمائلہ !مذاق مت کرو۔ جوئے میں تو تم بہت پرجوش دکھائی دیتی ہو اوراس میں دوبار میں بھی جیت دلاچکی ہوں۔ اب علی روئی کو بچانے کا کوئی طریقہ سوچتے ہیں۔ اگر وہ حصہ لیتا ہے تو نہ صرف اس کی موت ہو سکتی ہے بلکہ اس سے نیرنگ آباد کے حوصلے پست ہو سکتے ہیں۔ چونکہ اب خبر پھیل گئی ہےیہاں تک کہ سرمانی سلطنت نے ایک جادوئی بلاوا بھیجا کہ وہ بھی اس میں شرکت کریں گے۔ اب شہزادی اقابلہ بھی اسے روک نہیں سکتی۔ تاہم، اگر علی روئی شرکت کرنے سے گریز کرتا ہےتو پوری نیرنگ آباد اسٹیٹ مذاق بن جائے گی‘‘۔
’’اب کیا کیا جا سکتا ہے؟ بزدل کہلانا جان گنوانے سے بہتر ہے نا؟ یہ صرف میرے لئےقابلِ رحم شرط ہے‘‘۔
شمائلہ نے کمزور لہجےمیں کہا:
’’میں نے ویسے بھی حکیم چیلنج سے بہت کچھ کمایا ہے۔ تم اسے پیسے گنوا کر مصیبت ٹالنا سمجھ لو‘‘۔
’’تمہیں اتنے پیسوں کی ضرورت کیوں ہے؟‘‘۔
علی روئی کو معلوم تھا کہ اس نے حکیم چیلنج سے بہت کچھ کمایا ہے، اس لیے اس نے عدم اطمینان سے پوچھا:
’’نیرنگ آباد میں امیر شہزادی ہونے کا کیا فائدہ ہے؟‘‘۔
نیرنگ آباد کی معیشت کمزورتھی۔ پیسے خرچ کرنے کے لیے یہاںزیادہ جگہیں نہیں تھیں۔ بالکل ایک چھوٹے سے دیہی علاقے کی طرح، پیسے سے بھی اچھی چیزیں خریدنا مشکل تھا۔
’’میں امیر نہیں ہوں‘‘۔
شمائلہ نے افسردگی سے کہا:
’’جب بھی میرے پاس کچھ پیسے ہوتے ہیں تو میری بہن یہ کہہ کر لے لیتی ہے کہ پیسے ضائع نہ کروں‘‘۔
علی روئی کوشمائلہ کی تکلیف پہ خوشی کا احساس ہوا۔ یہ تو وہ بات ہو گئی کہ شریر کے اوپر ایک مہا شریر بھی ہوتا ہے۔
’’تاہم، ایک کاروبار چلانے کا طریقہ جو تم نے مجھے پچھلی بار سکھایا تھا مفید معلوم ہوتا ہے‘‘۔
شمائلہ نے بڑی مسکراہٹ کے ساتھ اپنی بڑی آنکھیں جھپکائیں۔ ایسا لگتا ہے کہ انسانی بھائی مجھ سے کہیں زیادہ طاقتور ہے۔ یہ مقابلہ صرف دولت کا نہیں نیرنگ آباد کے وقار کا بھی مسئلہ ہے۔ کیا انسانی بھائی اس میچ میں اپنی جان بچانے اور نیرنگ آباد کی ساکھ بچانے کا کوئی طریقہ سوچ سکتا ہے، اور راستے میں۔۔۔ کچھ رقم جیتنے میں میری مدد کرو‘‘۔
دھیمی آواز والے ’’انسانی بھائی‘‘نے علی روئی کی کھوپڑی کواکتا کر رکھ دیا، لیکن اس نے دھیرے دھیرے اپنے ذہن میں کچھ حل سوچا۔ حکیم چیلنج کی فتح فوجوں اور نیرنگ آباد کے رہائشیوں کے حوصلے بلند کر دے گی۔ یہ مقابلہ حوصلہ توڑنے کے تمام امکانات بھی لیے ہوئے ہے۔ یہ حکم شاید سرمانی سلطنت یا پھر ریجنٹ شوالہ کا بھی ہو سکتاہے۔ اسی وجہ سےیوسف نے لوگوں کو حکم دیا کہ وہ حکیم چیلنج میں علی روئی کی کارکردگی کی نمایاں طور پر تشہیر کریں اور اس کی تعریف میں زمین و آسمان ملا دیے جائیں۔ پھر وہ علی روئی کو بے رحمی سے پستی میں گرا دیں۔ ایک لحاظ سے علی روئی یوسف نیرنگ آباد کی تذلیل کےلیے آلہ کار تھااور ایان جس نے خبر جاری کی، بقول ایان وہ ایسا بے وقوف ہے جو لوگوں کے ہاتھوں استعمال ہوتا ہے۔
علی روئی نے اس مقابلے کے فوائد اور نقصانات کے بارے میں سوچنا شروع کیا۔ یوسف نے واضح طور پر اس کی منصوبہ بندی کی تھی۔ اس مقابلے کی خبر سارے شہر میں پھیل گئی، یہاں تک کہ سرمانی سلطنت کے لوگ بھی ا س میں شامل ہونے کےلیے تیار ہو گئے۔ نیرنگ آباد بزدل کو سب سے زیادہ حقیر سمجھتا ہے۔ اگر میں لڑائی سے گریز کرتا ہوں تو مستقبل میں میرے لیےکچھ کرنا مشکل ہو جائے گا، چاہے وہ نیرنگ آباد میں ہو یا دوسری کسی جگہ پر۔ سسٹم کےلیےتوانائی حاصل کرنا اور بھی مشکل ہو جائے گا۔ ( نیز، کم اہم ہونا ڈرپوک ہونے سے مختلف ہے۔ غیر فعال ہونا صرف دوسروں کی قربت کا باعث بنتا ہے)۔ یوسف میری زندگی کو اقابلہ اور نیرنگ آباد پر حملہ کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتا تھا، اس جیسےمنافق کو سبق سکھاؤں گا۔
علی روئی نے جلدی سے سوچا اور پوچھا:
’’ننھی شہزادی، کیا آپ اور یوسف کا میچ صرف ایک بار ہے؟‘‘۔
شمائلہ اب بھی مذاق کر رہی تھی۔ وہ واقعی نہیں چاہتی تھی کہ وہ خودکشی کرے۔ پھر بھی، علی روئی کی شکل دیکھنے کے بعد ایسا لگتا تھا کہ اس نے ایک طریقہ سوچا ہے، اس نے جلدی سے جواب دیا:
’’نہیں، یہ تین لڑائیاں ہیں۔ دو جیتنی ہیں۔ فلورا کی درندوں کےسدھانے کی مہارت نیرنگ آباد میں بہترین ہے۔ اس نے پچھلے 2 سالوں سے جیتنے میں میری مدد کی ہے۔ پچھلے سال، یوسف بھی اس سے ذاتی طور پر ہار گیا تھا‘‘۔
علی روئی نے اپنے دماغ میں سوچا۔ فلورا کے جیتنے کے سلسلے کی پہلی وجہ یہ ہے کہ اس کے والد سلطنت کے پہلے جنرل ہیں۔ دوم، پچھلے میچوں کی اہمیت اتنی اہم نہیں تھی جتنی اس میچ کی ہے۔ تیسری اور سب سے اہم وجہ یہ ہےیہ منافق اپنی طاقت کو جان بوجھ کر چھپا رہی ہے۔ علی روئی نے کچھ دیر سوچا، پھر اس کے ذہن میں ایک منصوبہ آیا۔ اس نے کہا:
’’چھوٹی شہزادی!، میرے پاس ایک آئیڈیا ہے، لیکن اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں کہ وہ جیت جائے گی۔ یہ شاید قرعہ اندازی ہے۔ اگر ہم خوش قسمت ہیں تو جیت سکتے ہیں۔ یہ صرف اتنا ہے کہ میں نہیں جانتا کہ آپ کتنی دلیر ہیں؟‘‘۔
’’اگر میں جرأت مند ہوں، تو پیسے نہیں کھوؤںگی؟ میں بھی کچھ پیسے جیت سکتی ہوں؟‘‘۔
شمائلہ کو خاص طور پر پیسوں سے دلچسپی تھی۔ علی روئی کو سر ہلاتے دیکھ کر اس نے فوراً اپنا جسم سیدھا کیا اوبارعب انداز میں بولی:
’’لوسیفر کے شاہی خاندان اور شمائلہ کی لغت میں کوئی ڈرنہیں ہے۔سابقہ لوسیفر بے خوف ہے‘‘۔
ننھی شہزادی کی ہیبت سےعلی روئی کانپ گیا، پھر اس نے جلدی سے اپنا ناپختہ منصوبہ بتایا۔
علی روئی کے منصوبے کو سننے کے بعد فلورا جھنجھلائی۔ وہ کچھ فکر مند لگ رہی تھی۔ شمائلہ نے اشارہ کیا کہ یہ منصوبہ برا نہیں ہے۔ اس نے چُن روئی کے کندھے پر ہاتھ پھیر کر تھپکی دی اور کہا:
’’میں نے واقعی غلط شخص کو نہیں چنا۔ تم میری بہن کی نظر میں بوڑھے طاؤس سے زیادہ حقیر ہو۔ اب سے میری پیروی کرو اور اپنی پوری کوشش کرو‘‘۔
اس طرح کی تعریف سے علی روئی خود کو گنہگار سمجھنے لگا۔ اس نے اچانک کچھ سوچا اور ساتھ جانے کے لیے کہا:
’’میرے پاس ایک مزیدار کینڈی ہے۔ میرے بادشاہ! اس کا مزہ چکھو‘‘۔
’’میں ایک شہزادی ہوں ‘‘۔
شمائلہ نےاس کی درستی کی اور چینی کی گولی پکڑی، اسے کھایا اور چینی کی گولی کو اس کےتوقع سے زیادہ عام ذائقے کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا۔
فلورا کی آنکھیں چمک اٹھیں اور سمجھ گئی کہ شمائلہ نے ابھی ’’تریاق‘‘ کھایا ہے۔ اس نے اپنے دماغ میں علی روئی کی عقل کی تعریف کی اور کہا:
’’اب زیادہ وقت نہیں بچا۔ علی روئی نے اس سے پہلے کبھی بھی اڑنے والے دیومالائی درندے پر سواری نہیں کی۔ اسے فوری طور پر سواری کی بنیادی تکنیکوں میں مہارت حاصل کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔
’’اچھا ٹھیک ہے، میں نے دکان کو ایک نظر دیکھنا ہے۔ پچھلے دو دنوں سے کاروبار بہتر رہا ہے، شہزادی کے بغیر یہ اسٹور نہیں چلے گا ‘‘۔
شمائلہ نے ایک عجیب سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا:
’’فلورا! میں علی روئی تمہیں دیتی ہوں۔ یہ اس کا پہلا معرکہ ہے۔۔۔ اس لمحے کو یاد رکھنا۔۔۔ تھوڑا نرمی کے ساتھ‘‘۔
’’چونکہ یہ پہلی بارہے، اسی لیے اسے ایک خاص تربیت کی ضرورت ہے‘‘۔
فلورا نے بے خبری سے کہا:
’’نرم ہونے کا کیا فائدہ؟ بغیر تکلیف کے کوئی کیسے کر سکتا ہے؟‘‘۔
علی روئی کو پسینہ آ رہا تھا۔ اسے ڈر تھا کہ شمائلہ کے مزید عجیب تبصرے ہوں گے، اس لیے اس نے جلدی سے فلورا کو کھینچ لیا اور کہا:
’’چونکہ ہمارے پاس وقت کم ہے، چلو جلدی چلتے ہیں‘‘۔
ننھی شہزادی کی طرف سے بھاگنے کے بعد، فلورا نے ایک گریفن حاصل کیا اور اسے شہر سے باہر ایک خالی جگہ پر لے گیا۔ گریفن ایک عام اڑنے والادیومالائی جانور تھا۔ اس کا سر عقاب جیسا، جسم جانور جیسا اور بالوں سے بھرے ہوئےبڑے بڑے پنکھ ہوتے ہیں۔
گریفن جارحانہ اور پرتشدد تھا، لیکن اس کی قوت برداشت نسبتاً کم تھی۔ عام طور پراسے روایتی لڑائی میں حملہ آور فورس یونٹ کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ہوائی لڑائی کا سب سے بہترین جانور وائیورنز ہے۔ یہ طاقتور اور زہریلا ہوتا ہے۔ یہ ایک جنگی ہیلی کاپٹر کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ سوار کو ڈریگن نائٹ کے نام سے جانا جاتاہے۔ لیکن بہت کم تعداد میں وائیورنز کو قابو میں کیا جا سکتا ہے۔ اس لیے یہ کافی اچھا تھا کہ ایک سلطنت کے پاس 1 سے 2 ڈریگن نائٹ یونٹ ہوں۔ جہاں تک ڈریگنوں کا تعلق ہے، اصل ہوائی حاکم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیومالائی دائرے کے ڈریگن سطحی دنیا کے مقابلے میں نسبتاً نایاب تھے، لیکن وہ سخت اور زیادہ طاقتور تھے۔ سواری تو دور کی بات کسی نے انہیں اکسانے کی بھی جرات نہیں کی۔
’’ان پالتو دیومالائی درندوں کو قابو کرنا مشکل نہیں ہے۔ بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس کے ساتھ جڑ جائیں، لیکن وقت کی کمی کی وجہ سےتم کو صرف انہیں اپنی بات سمجھانی ہوگی‘‘۔
فلورا نے گریفن کے سر پر ہلکے سے تھپکی دی اور اس کے منہ سے ایک ہلکی سی آواز نکلی۔ عقاب کا سر جو شروع میں بے چین تھا اچانک فرمانبرداری کے ساتھ لیٹ گیا۔
علی روئی نے عجیب انداز میں پوچھا:
’’آپ کاٹھی یا لگام کیوں نہیں استعمال کرتیں؟‘‘۔
فلورا نے اپنا سر ہلایا اور پوچھا:
’’اگرکاٹھی یا لگام استعمال کی جائے تو پھر ڈیتھ میچ کیسے کہا جائے؟، اس کے علاوہ، فضائی ڈیتھ میچ100 میٹر کی بلندی سے شروع ہونے کی شرط ہے۔
100 میٹر اونچا! اور کوئی معاون سامان نہیں ہے! علی روئی چونک گیا۔ یہ طیارہ بس کی طرح تین سینگوں والاگینڈا نہیں تھا۔ اگر اس نے ذرا بھی لاپرواہی کی تو نیچے گر جائے گا۔ اگرچہ اس کے پاس’’Astral‘‘ کی خصوصیت تھی،لیکن وہ اس نقصان کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ دیومالائی دائرےکے بارے میں ایئر فورس کا علم سیکھنے کا وقت آگیا ہے۔
’’ہوا میں ڈرنا مت۔ تمہیں جتنا خوف ہوگا، اتنا ہی خطرناک ہے۔ اگر تم تال اور احساس میں مہارت رکھتے ہوتوتم آسانی سے دیومالائی درندے پر قابو پا سکتے ہو‘‘۔
فلورا بات کرتے ہوئے گریفن کی پیٹھ پر بیٹھ گئی اور اس کی گردن تھپتھپائی۔ گریفن تیز رفتاری سے آگے بھاگا اور اپنے پروں کو پھڑپھڑا کر اوپر اڑ گیا۔
علی روئی نے رشک سے فلورا کو آسمان میں گریفن پر اڑتے دیکھا۔ اپنی اصل دنیا میں انسانوں نے ہمیشہ آسمان پر اڑنے کا خواب دیکھا تھا،ہوائی جہاز اسی کے لیے بنایا گیا تھا۔ جب اس نے کسی مقابلے میں شرکت کے لیے یونیورسٹی کی نمائندگی کی تھی تو اسے ایک بار طیارہ میں بیٹھنے کی سعادت حاصل ہوئی تھی۔ بادلوں پر چڑھ کرزمین کو دیکھنے کا احساس شاندار تھا۔ جبکہ ایک دیومالائی درندے کی پشت پر فلورا کے ساتھ اڑنا زیادہ دلچسپ لگ رہا تھا۔
فلورا نے ایک خاص اونچائی کو برقرار رکھنے کے لیے گریفن کو کنٹرول کیا۔ یہاں تک کہ وہ گریفن کی تنگ پشت پر کھڑی ہوگئی۔ یہ تیز رفتار پرواز کے درمیان تھا۔ اتنی زیادہ مشکل حرکت کافی خوفناک لگ رہی تھی۔
فلورا پرسکون لگ رہی تھی۔ اس کے ارغوانی بال تیز ہوا سے اس کی پیٹھ پر اڑ گئے تھے۔ اس کا چھوٹا سا لباس ہل رہا تھا۔ پھر بھی، اس کے پاؤں گریفن کی پشت پرمضبوطی سے کھڑے رہے جب تک گریفن نیچے نہیں اترا۔
علی روئی نے آخر کار سکون کی سانس لی جب اس نے فلورا کو بحفاظت اترتے دیکھا۔ وہ آگے آیااورجھنجھلا کر بولا:
’’یہ بہت خطرناک تھا۔ اگرچہ یہ ایک مظاہرہ تھا لیکن آپ کو ایسا کرنے کی ضرورت نہیں تھی‘‘۔
جب فلورا نے اس کی گھبراہٹ دیکھی تواسےذرا خوشی ہوئی اورمسکرا کر بولی:
’’تمہیں کس بات کا ڈر ہے؟ آؤ کوشش کرو، میں تمہیں سکھاتی ہوں۔ اس گریفن کی پیٹھ لمبی ہے۔ دو لوگ لے جانے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے‘‘۔
ابتدا میں جب علی روئی زمین پر تھا، فلورا کو سواری اور آسانی سے اڑتے دیکھ کر اس نے سوچا کہ شاید یہ مشکل نہ ہو۔ پھر اس سے کچھ تجاویز مانگیں اور اپناباقاعدہ فلائٹ ٹیسٹ شروع کرنا چاہا۔
کوئی نہیں جانتا کہ آزمائش کے بعد ہی اسے تھیوری اور پریکٹس کا فرق سمجھ میں آیا۔ اس نے گریفن کو لٹانے کے لیے کافی محنت کی اور آخر کار اس پر سوار ہو گیا۔ پھر گریفن اٹھا اوبھاگنے لگا۔ جس رفتار کا اس نے ذاتی طور پر تجربہ کیا وہ دیکھنے سے کہیں زیادہ تیز تھی۔ علی روئی بہت زیادہ گھبرایا ہوا تھا، اس نے گریفن کے بالوںپر اپنی گرفت مضبوط کی۔ بال اس کی مٹھی میں آگئے تووہ اپنا توازن کھو بیٹھا اور پیچھے گر گیا۔
پیچھے بیٹھی ہوئی فلورا اس سے ذرا فاصلے پر تھی، اس نے تھوڑا فاصلہ رکھاہوا تھا۔ وہ ایسی تبدیلی کی توقع نہیں رکھتی تھی۔ اسے چکما نہ دے سکی اور علی روئی اس کی بانہوں میں آ لگا۔ اس نے فطری طور پر اپنے ہاتھ گریفن کی پیٹھ پررکھ لیے تاکہ وہ دونوں گر نہ جائیں۔
فلورا آج مختصر لباس میں ملبوس تھی۔ اتفاق سے اس نے چمڑے کی زرہ نہیں پہنی تھی، اور اپنی عظیم تلوار نہیں اٹھائی تھی۔ علی روئی نے محسوس کیا کہ اس کا سر دو بلند، نرم اور گرم گانٹھوں کے درمیانی حصے کو چھو رہا ہےجس میں ہلکی سی زنانہ خوشبو آ رہی ہے۔
’’ڈینگ!‘‘۔
اس کے سر نے فوری طور پر ایک قسم کی بھیڑ محسوس کی۔ فلورا بھی ایک دم چونک گئی۔ گریفن کو اتنا پریشان نہیں کیا۔ بال کھنچنےکی وجہ سےوہ تکلیف میں تھا اور مزید تیز بھاگ رہا تھا۔ چونکہ گریفن بہت تیز تھا، علی روئی کے پاس وضاحت کرنے کا وقت نہیں تھا۔ وہ صرف اپنے سر کو اس کی چھاتیوں کے درمیان لیٹ کر توازن برقرار رکھے ہوئے تھا۔ جب کہ وہ خود کو گرنے سے بچانے کے لیے کسی چیز کو پکڑنے کی شدت سے کوشش کر رہا تھا۔ آخر کار وہ حیوان آسمان میں اڑ گیا۔
اڑنے والانا تجربہ کار پرسکون ہوا اور فلورا کو دانت پیستے ہوئے سنا اور کہا:
’’کمینے!تم کیا کر رہے ہو! اپنے ہاتھ چھوڑ دو!‘‘۔
علی روئی کے اوسان بحال ہوئے تو اسے معلوم ہوا کہ نہ صرف اس کا سر اس کی چھاتیوں کے درمیان پڑا ہوا ہے بلکہ اس کا ایک ہاتھ اس کی چونکا دینے والی نرم ران کو بھی مضبوطی سے جکڑا ہوا تھا۔ فلورا کا چہرہ سرخ تھا۔ یہ پہلی بار ہوا تھا کہ مخالف جنس کے اتنا قریب تھی۔ یہاں تک کہ اس نے اپنا سر بھی اس ’’جگہ‘‘ میں دفن کر دیا تھا! تیز ہواؤں کے باوجود، اس آدمی کی گرمجوشی اور خوشبو سے تلوار چلانے والی عورت کانپ اٹھی۔
علی روئی نے بےبسی محسوس کی۔ یہ یقینی طور پر ایک حادثہ ہے! میں نے واقعی یہ جان بوجھ کر نہیں کیا!۔
فلورا کےلیے اس کے ذہن میں کسی قسم کے برے خیالات نہیں تھے، لیکن اس طرح کے عجیب و غریب انداز اورچھونے سے کیسے ممکن تھا کہ برے خیالات پیدا نہ ہوں۔
’’میں معافی چاہتا ہوں!‘‘۔
علی روئی نے یہ کہا لیکن اس نےچھوڑنے کی ہمت نہیں کی تاکہ وہ اپنا توازن نہ کھو بیٹھے اور گر جائے۔ وہ آہستہ آہستہ اپنا سر ہلا سکتا تھا، لیکن غیر متوقع طور پر، اس نے فلورا کو اور زیادہ مشتعل کردیا۔ وہ واضح طور پر محسوس کر سکتا تھا کہ اس کے دل کی دھڑکن کی طرح تیز ہو رہی تھی۔
’’ڈوچ بیگ!‘‘۔
فلورا کا چہرہ اتنا ہی سرخ ہو چکا تھا جیسے خون بہہ رہا ہو۔ وہ اب آسمان پر تھے۔ اسے یہ بھی ڈر تھا کہ وہ گر جائے گا۔ اس نے دونوں کے وزن کو سہارا دینے کے لیے ایک ہاتھ کا استعمال کیا، پھر اس نے آہستہ آہستہ دوسرا ہاتھ بڑھا کر اس کی پیٹھ کو تھوڑا آگے بڑھایا۔ آخر کار وہ اہم مقام سے دور ہو گیا۔
علی روئی جو ابھی معمول کی حالت میں واپس آیا تھا انتہائی شرمندہ تھا۔ اگرچہ جان بوجھ کر نہیں ہوا تھا، خوشبو ابھی ناقابل فراموش تھی۔ معافی مانگنے ہی والاتھا کہ فلورا کی آواز آئی:
’’فضول باتیں کرنا بند کرو۔ ہم آسمان میں ہیں! اگر تم مرنا نہیں چاہتے تو پہلے اڑنا سیکھو!‘‘۔
علی روئی نے ہچکچاتے ہوئے اس کے سینے کے گرم جذبات کو اپنے دماغ سے نکالااور گریفن کی سواری سیکھنے پر توجہ مرکوزکر دی۔ چونکہ وہ ایک نوآموز تھا، اس کے احکام اور دیومالائی درندے کی سزا میں مطابقت نہیں ہو سکتی تھی۔ وہ ہمیشہ گریفن کو اپنی مرضی کے مطابق نہیں ڈھال سکتا تھا۔ جب وہ پریشان ہوا تو اچانک اس نے سوچا:
’’یہ حادثہ ہوا بہت اچانک تھا۔ میں دراصل <Analytic Eyes> استعمال کرنا بھول گیا تھا!‘‘۔
علی روئی نے فوری طور پر <Analytic Eyes> کو چالو کیا، گریفن کے کانوں کے قریب گیا اور بات چیت کرنے لگا۔ گریفن کی ذہانت زیادہ نہیں تھی۔ گوشت کھلانے کا وعدہ کرنے کے بعد انسان کو جلدہی اس کی منظوری مل گئی۔
آہستہ آہستہ فلورا کی شرمندگی اور غصہ حیرت میں بدل گیا۔ تھوڑے ہی عرصے میں علی روئی جو پہلے ایک اناڑی تھا، گریفن کو زیادہ آزادانہ طور پر کنٹرول کرنے کے قابل ہو گیا تھا! وہ ابھی اس واقعے سے ناراض نہیں ہو سکتی تھی۔ اس نے اپنی غلطیوں کو درست کرتے ہوئے ضروری باتوں پر زور دیا۔ گریفن کچھ دیر ان کے ساتھ اڑنے کے بعد علی روئی کی قیادت میں مستحکم طور پر اترا۔
علی روئی نے <Analytical Eyes> میں دیکھا کہ فلورا کی جامع طاقت کو’’ E ‘‘کے برابر ہے۔ یہ اس کی طاقت سے مطابقت رکھتی تھی۔ یہ واضح تھا کہ فلورا یوسف کی مخالف نہیں تھی۔ مجھے یاد ہے کہ فلورا نے کہا تھا کہ وہ انٹرمیڈیٹ ڈیمن کی چوٹی پر پہنچ چکی ہے۔ سنکھیارکی تحقیق مطابق الکیدریاست کا امکان انٹرمیڈیٹ ڈیمن کے برابر تھا۔ تاہم انٹرمیڈیٹ ڈیمنز کے درمیان طاقت میں فرق بھی کافی بڑا تھا۔ کم از کم ابھی کے لیے وہ فلورا کا مخالف ہونے سے بہت دور تھا۔
فلورا نے دیکھا کہ علی روئی کو اب کمپنی کی ضرورت نہیں ہے، اس نے اسے اکیلے سواری کرنے کا مشورہ دیا۔ پچھلے سبق کے بعد، گریفن کے ساتھ اچھی بات چیت کے ساتھ علی روئی آخر کار دیومالائی درندے کو آسمان میں اڑانے میں کامیاب ہو گیا۔ اس نے پرجوش انداز میں زمین کے مناظر کو دیکھتے ہوئے آسمان میں گریفن پر سواری کی۔ اس کا خوشی سے گانا گانے کو جی چاہا۔ اس کے بعد اُس نےفلورا کے دیے گئے اڑن ٹپس کو آزمایا جو واقعی مددگار تھے۔ فلورا نے علی روئی کوآسمان پر ایک تجربہ کار کی طرح آسانی سے گریفن پر سوار ہوتے دیکھا۔ آزادانہ حرکتیں کرتے دیکھ کر اس نے سوچا کہ ا س کی آنکھیں دھندلاگئی ہیں۔ اس نے سوچا:
’’کیا یہ لڑکا شروع سے اداکاری کر رہا تھا؟ کیا وہ جان بوجھ کر میرا فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا؟ پھر بھی موجودہ صورتحال کی بنیاد پر یہ واضح تھا کہ وہ قدم بہ قدم ان عام غلطیوں کو درست کر رہا تھا جن کی میں نے نشاندہی کی تھی۔ ایسا لگتا ہے کہ یہ انسان واقعی پہلی بار اڑ رہا ہے لیکن اس کی سیکھنے اورخود کو درست کرنے کی صلاحیت بہت خوفناک ہے!‘‘۔
جو چیز اس سے بھی زیادہ ناقابل یقین تھی وہ علی روئی کی حیوان کے ساتھ گفتگو کرنے کی صلاحیت تھی۔ پھر بھی یہ مشکل علی روئی کے لیے کوئی مسئلہ نہیں تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ انسان اور حیوان کئی سالوں سے دوست ہیں۔ ان کا تعلق بہتر سے بہتر ہوتا جا رہا تھا۔
’’یہ لڑکا‘‘۔
فلورا نے اپنے سینوں کی مالش کی جس میں اب بھی ایک عجیب سا احساس تھا۔ اسے لگا کہ اس کے دل کی دھڑکن تھوڑی تیز ہے، اور اس کا چہرہ قدرے گرم ہے۔
علی روئی پرواز میں اطمینان کے بعد ہی آہستہ آہستہ اترا۔ فلورا آگے بڑھی، تھوڑی دیر کے لیے جائزہ لیا اور اثبات میں سر ہلایا:
’’مجھے یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ تمہاراحیوانوں کو سدھانےکا ہنر مجھ سے کہیں بہتر ہے۔ مقابلے میں حصہ لینے میں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ پھر بھی اب تمہارے پاس جو کچھ ہے وہ صرف پرواز کی بنیادی باتیں ہیں۔ اصل چیلنج جنگ کے دوران ہے۔ بدقسمتی سے آسمان سیاہ ہو رہا ہے. مزید خصوصی تربیت کرنے کا کوئی وقت نہیں ہے۔ کسی بھی صورت میں یہاں تک کہ اگرتمہارے پاس ایک جامع منصوبہ ہے تو تمہیں کل لاپرواہ نہیں ہونا چاہیے‘‘۔
اگرچہ تلوار والی خاتون سرد لہجے میں بول رہی تھی، علی روئی نے پھر بھی اس کے خدشات کو اپنے الفاظ میں سنا۔ اس نے معذرت خواہانہ انداز میں شوگر کی دو گولیاں نکالیں اور کہا:
’’ویسے یہ وہی تریاق ہیں جو میں نے آج زہریلے ڈریگن سے مانگے تھے۔ یہ 3 ماہ تک رہ سکتا ہے۔ ہمیں اب ہر ہفتے جانے کی ضرورت نہیں۔ ننھی شہزادی اسے پہلے ہی کھا چکی تھی۔ پہلےآپ ایک کھائیں پھر مایا کو دیں۔ میں جلد از جلد زہر کے اثرات زائل کرنے کا حل ڈھونڈتا ہوں‘‘۔
مستقبل میں خصوصی تربیت یقینی طور پر فلورا کو آنے نہیں دے سکتی تھی، اس لیے اس نے پریشانیوں سے بچنے کے لیے "تریاق” کے مؤثر وقت کو بڑھا دیا۔
فلورا اس کی دوست ہی نہیں تھی بلکہ سلطنت کے پہلے جنرل کی بیٹی بھی تھی۔ وہ شمائلہ کی بہترین دوست تھی اور شہزادی اقابلہ اس کی بہت قدر کرتی تھی۔ علامتی معاہدے کے اتحادی کو دھمکی نہ دے کر خود کو بچانے کے لیے یہ چھوٹا سا جھوٹ جاری رکھنا پڑا۔ درحقیقت سنکھیار اسے حاصل کرنےکے منصوبے کے ساتھ گیا تھا، لیکن علی روئی نے طویل عرصے سے منصوبہ ترک کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ وہ شروع سے فلورا کو دھوکہ نہیں دینا چاہتا تھا۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ اب اس کے پاس طاقت ہے۔ وہ اکیلا قاف کی پہاڑیاں جا سکتا تھا۔ اسے مستقبل میں فلورا سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔
تاہم فلورا خوبصورت، خوش مزاج، فیاض اور پرجوش تھی۔ علی روئی کے لیے اس کےساتھ لگاؤ رکھنا مناسب تھا، لیکن اب اس کے پاس اس کے لیے کوئی اضافی توانائی نہیں تھی۔ جہاں تک زہر دیے جانے کے بارے میں چھوٹے جھوٹ کا تعلق ہے وہ اس سے معافی مانگے گا جب سنکھیار نےتاریک چمک کا تالاختم کر دیا۔
فلورا کو خاموشی سے شوگر کی گولی لیتے دیکھ کر علی روئی کو معلوم تھا کہ وہ اب بھی ناراض ہے۔ اس نے جلدی سے معذرت کی۔
’’ابھی کیا ہوا‘‘۔
اس وقت تجزیہ کا نقطہ نظر جو غائب نہیں ہوا تھا اچانک بدل گیا. فلورا کی ابتدائیE کلاس کی طاقت فوری طور پر ڈی کلاس تک پہنچ گئی۔ علی روئی چونک گیا۔ اس نے دیکھا کہ فلورا کی جلد سرخ ہو گئی ہے اور اس کے سر پر ایک مبہم سینگ نمودار ہو گیا ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی رد عمل ظاہر کرتا دھڑام سے زمین پر گر گیا۔
علی روئی حیران رہ گیا لیکن طاقت پر فلورا کا کنٹرول بالکل درست تھا۔ بظاہر شدید اور تیز رفتار حرکت نے اس کے جسم نے آہستہ سے زمین کو چھو لیا لیکن اس سے اس کے سر کو کوئی چوٹ نہیں آئی۔
پھر غیر متوقع چیزیں ہوئیں۔ فلورانے اپنی پیٹھ کے ساتھ علی روئی کی طرف منہ کر کے چھلانگ لگا دی۔ جب وہ گر گئی تو اس کا سر سیدھا اس کے سینے پرآ لگا۔ خوش قسمتی سے، اس وقت وہ اپنی نارمل حالت پر آچکی تھی ورنہ اس کے سر کے دو خم دار سینگ علی روئی کے لیے واقعی تکلیف دہ ہوتے۔ اس کے باوجود اس کے سینے میں دم گھٹتا ہوا محسوس ہوا پھر بھی اس نے اسٹار پاور کے استعمال کی مزاحمت کی۔ فلورا کا سرزور سے اس کے سینے پر ٹکرایا۔ پھر اس نےتھوڑی دیر کے لیےعلی روئی کی ران کو چھوا اور چٹکیاں کاٹیں۔ تبھی، وہ اچھل پڑی اور ہاتھوں کی خاک جھاڑتے ہوئے سختی سے بولی:
’’بس! اب ہم برابر ہیں۔ آج جو کچھ ہوا اس کے بارے میں شمائلہ یا کسی اور کو مت بتانا! ورنہ میں تمہیں نہیں چھوڑوں گی‘‘۔
علی روئی دنگ رہ گیا جب اس نے فلورا کو گریفن کے ساتھ جاتے ہوئے دیکھا اور ایک دم اٹھنا بھول گیا۔ یہ بہت مردانہ ہے۔ اس نے حقیقت میں ایسا طریقہ استعمال کیا‘‘۔
میں نے سوچا کہ فلورا اور میری دوستی چل رہی ہے۔ کسے پتا۔
کیاننھی شہزادی کے سیاہ دل کی چمک نے فلورا کی ’’طاقت‘‘ کو نظرانداز کر دیاہے؟۔ علی روئی اسی سوچ میں رہ جانے والی مدھم خوشبو میں سانس لے رہا تھا۔ اس کا دما غ بڑے خواب دیکھنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ وہ واحد احساس جس کا یقین کر سکتا تھا، نرم سینوں کی گرمی تھاجب وہ آسمان پر تھے۔ درحقیقت علی روئی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ جب فلورا مڑ کر چلی گئی تو اس کے کان لال ہونا شروع ہو گئے۔ اگر کوئی اب اس کے برعکس ہوتا تو یقین نہیں کرتا کہ یہ شرمندہ چہرہ فلورا کاتھا وہ خاتون ڈیمن جو نیرنگ آباد میں اپنی بہادری کے لیے مشہور تھی۔
’’نہیں! جس آدمی سے میں پیار کرتی ہوں وہ مجھ سے زیادہ مضبوط ہونا چاہیے‘‘۔
فلورا دل ہی دل میں خود کو یاد کرتی رہی لیکن اس کے گال ابھی تک گرم تھے۔
اگلے دن سالانہ سکائی بیٹل شروع ہوئی۔ چونکہ شہزادی اقابلہ نے نیرنگ آباد کی جگہ لی اس لیے اس میچ کی اہمیت بہت کم تھی۔ یہ آہستہ آہستہ ننھی شہزادی شمائلہ اور مالیاتی افسر یوسف کے درمیان ذاتی جوا بن گیا۔ تاہم آج میدان لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ یہ یوسف کی چھوٹی چال کا نتیجہ تھا۔ اس نے عوام کی نظروں میں نیرنگ آباد کے حوصلے کودبانے کا تہیہ کر رکھا تھا۔
حکیم الداس جو کافی عرصے سے عوام میں نہیں دکھائی دے رہا تھا، شمائلہ کے ساتھ علی روئی کے حامی کے طور پر وی آئی پی سیٹوں پر نمودار ہوا۔ سب حکیم الداس کے بارے میں باتیں کرتے رہے کہ حکیم چیلنج کے دوران دارالحکومت سے آئےباصلاحیت شخص کو اپنے پاد سے ماردینے کا کارنامہ سرانجام دیا۔ اگرچہ اس بات کو کچھ عرصہ گزر چکا تھا، لیکن سیاہ ایلف حکیم اب بھی شرمندہ تھا۔
اس بار سرمانی سلطنت نے اس میچ میں اپنی دلچسپی دکھانے کے لیے خصوصی طور پر کسی کو بھیجا ہے۔ شہزادی اقابلہ کا نمائندہ بوڑھا طاؤس تھا۔ ایک لارڈکے طور پر اقابلہ کی اپنی الگ حیثیت اور وقار تھا۔ چونکہ سرمانی سلطنت کا بادشاہ جوش ذاتی طور پر نہیں آیا تھا اس لیے اسے بھی موجود ہونے کی ضرورت نہیں تھی۔ اس طرح کے سست ردعمل کا رویہ کم و بیش یہ ظاہر کرتا ہے کہ اقابلہ اس میچ کے نتیجے سے پر امید نہیں تھی۔ درحقیقت انسانی تربیت کے بارے میں تقریباً کوئی بھی پر امید نہیں تھا۔ اگرچہ اسکائی بیٹل کسی فرد کی طاقت کے بارے میں نہیں تھی بلکہ اس کی حیوانوں کو سنبھالنے کی صلاحیت کے بارے میں تھی لیکن انسان کی طاقت بہت کم تھی۔ چاہے وہ اڑ سکتا ہے اب بھی ایک مسئلہ تھا، لڑائی کو چھوڑ دیں۔ آخری بار انسانی شاگرد جیتنے میں کامیاب ہوا کیونکہ اس نے حکیم الداس پر بھروسہ کیا۔ اب جبکہ اسے آزادانہ طور پر اس کا سامنا کرنا تھا اس لیے جیتنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ ڈیمن کو یقین تھا کہ انسانی شاگرد یقینی طور پر ہارے گا، وہ حیران تھے کہ شہزادی اقابلہ یا شہزادی شمائلہ اتنے کمزور آدمی کو نیرنگ آباد کی نمائندگی کرنے کے لیے میچ میں شرکت کی اجازت کیوں دیں گی؟ شاید دونوں شہزادیوں نے طویل منصوبہ بندی کی تھی؟۔
’’جو بھی میچ دیکھنے آئے گا وہ نہ صرف مفت میں تماشہ دیکھ سکتا ہے بلکہ انہیں 1 جامنی کرسٹل سکے کا انعام بھی ملے گا، یوسف واقعی فیاض ہے‘‘۔
علی روئی نے رشک سے کہا:
’’یہ اچھا ہو گا اگر میں اس کے سارے پیسے حاصل کرلوں‘‘۔
اس کے لیے پیسہ سسٹم کی قوت تھا۔ پیسہ تجربہ تھا، پیسہ طاقت تھا۔
شمائلہ واضح طور پر آخری جملے کے ساتھ اونچی آواز میں بول رہی تھی، لہذا اس نے شدت سے سر ہلایا۔ جنہوں نے پہلے ہی انعام کی تقسیم پر بات چیت کی تھی، ایک ہی وقت میں ایک مضبوط لڑائی کا جذبہ دکھایا۔
یوسف نےلوگوں سے بھرے ہوئے میدان کی طرف دیکھا۔ وہ پراطمینان تھا۔ ڈیمنوں نے مضبوط لوگوں کی وکالت کی۔ اب جب کہ ایک میچ تھا اور یہاں تک کہ ایک فائدہ اٹھانا تھا، وہ قدرتی طور پر ہجوم میں آ گئے۔ آج کے نتائج یقیناً ریجنٹ شوالہ کو مطمئن کریں گے جو بہت دور دارالحکومت میں ہے۔ استقبالیہ تقریر اور افتتاحی تقریر ختم ہونے کے بعد، شمائلہ میدان کے مرکز میں چلی گئی اورآواز کے جاووئی حجم کی مدد سے بولی:
’’آج سرمانی سلطنت اور نیرنگ آباد اسٹیٹ کے درمیان ایک دوستانہ میچ ہے‘‘۔
شمائلہ نے روایتی سلام کیا، پھر اس نے اپنی کمر پر ہاتھ رکھا اور وی آئی پی سیٹوں پر یوسف کی طرف انگلی سے اشارہ کیا اور بلند آواز میں کہا:
’’آج یوسف، فنانشل آفیسر اپنے والد کی سرمانی سلطنت کی نمائندگی کر رہا ہے جبکہ نیرنگ آباد کا نیا اضافہ حکیم الداس کا شاگردعلی روئی ہماری نمائندگی کرے گا۔ نیرنگ آباد، ہم انہیں مکمل طور پر توڑ دیں گے۔ گیم اب بھی بیسٹ آف تھری کے پچھلے اصول کے مطابق ہے لیکن امیدوار کا انتخاب تھوڑا سا تبدیل کیا جائے گا۔ سب سے پہلے ہماری پارٹی پہلے کھیل میں ایک شخص کو کھیلنے کے لئے بھیجے گی۔ دوسری پارٹی اس کے مطابق اپنے امیدواروں کو ترتیب دینے کے لیے آزاد ہو گی۔ دوسری گیم میں آپ پہلے امیدوار کا انتخاب کریں گے۔ تیسری گیم میں ہم اپنے امیدواروں کو ایک ہی وقت میں کھیلیں گے اور انہیں تبدیل کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ سرمانی سلطنت کے لوگو !کیا آپ چیلنج کو قبول کرنے کی ہمت رکھتے ہیں؟‘‘۔
ہوم گراؤنڈ پر سامعین جوش میں تھے اور یک زبان تھے:
’’کیا تم میں ہمت ہے؟‘‘۔
امیدوار؟ یوسف نے سوچا۔ پھر، ایان آیا اور پوچھا:
’’اب ہم کیا کریں؟ میں فلورا کے خلاف نہیں جانا چاہتا۔ کیا تم مجھے علی روئی کا سامنا کرنے دو گے؟ میں اسے ذاتی طور پر قتل کرنا چاہتا ہوں!‘‘۔
’’یقین رکھیں۔ سب کچھ میرے اختیار میں ہےکہ انسان ضرور مرے گا‘‘۔
یوسف کی آنکھوں میں حقارت نظر آئی، اس نے جواب دیا:
’’اگر میری پیشین گوئی درست ہے تو وہ امیدواروں کے انتخاب میں چالیں چل رہے ہوں گے۔ اگر وہ دونوں راؤنڈ جیت جاتے ہیں تو انسان کو حصہ نہیں لینا پڑے گا۔ لہٰذا ہمیں پہلی دو میں سے کم از کم ایک گیم جیتنا یقینی بنانا ہے۔ تم انسان کے ساتھ آخری لڑائی لڑو گے‘‘۔
’’تم واقعی سمجھدار ہو!‘‘۔
ایان نے خوشی سے اثبات میں سر ہلایا جبکہ اس کی آنکھیں اب بھی علی روئی کو گھور رہی تھیں۔
گرجدار اشتعال کے تحت یوسف کھڑا ہوا اوربولا:
’’اچھا، آئیے شہزادی شمائلہ کی تجویز پر عمل کریں۔ تین میں سے بہترین جیت۔ میری صرف ایک شرط ہے، ہر کھلاڑی صرف ایک کھیل کھیل سکتا ہے دوبارہ نہیں کر سکتا‘‘۔
یوسف کی تجویز یہ تھی کہ دوسرے فریق کو مضبوط ترین فلورا کو پورا کھیل کھیلنے سے روکا جائے۔ شمائلہ نے اتفاق کیا اور پرجوش انداز میں چلائی:
’’میں اعلان کرتی ہوں کہ اسکائی بیٹل باضابطہ طور پر شروع ہو گئی ہے! سب سے پہلے نیرنگ آباد اسٹیٹ کے اپنے بہترین حریف سلطنت کے پہلے جنرل بوغا بوغائی کی بیٹی فلورا کا خیرمقدم کریں‘‘۔
فلورا نیرنگ آباد میں ایک مشہور شخصیت اور پچھلے دو ٹورنامنٹس کے دوران مرکزی قوت تھی۔ سامعین انتہائی پرجوش تھے اور اس کے نام کا نعرہ لگا رہے تھے۔
’’محتاط رہیں‘‘۔
اگرچہ کل کے عجیب و غریب واقعے کے بعد فلورا نے اس سے بات نہیں کی تھی، علی روئی اس وقت کچھ کہنے کےعلاوہ کوئی مدد نہیں کر سکتا تھا۔
فلورا کا پیکر تھوڑا سا رکا لیکن اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور سیدھی میدان میں چلی گئی۔ فلورا کی حیوانوں پر قابو پانے کی مہارت اور طاقت شمائلہ کے پاس سب سے مضبوط تھی۔ اس کے لیے پہلے گیم میں کھیلنا یوسف کی توقعات کے مطابق تھا۔ یوسف نے اپنے پاس موجود پتلی لیچ کو حکم دیا، لیچ نے سر ہلایا اور کھیت کی طرف چل دیا۔
’’سرمانی سلطنت پہلے گیم میں لیو کو بھیج رہا ہے!‘‘۔
میدان کا مرکزی علاقہ بہت بڑا تھا۔ حکیم چیلنج میں اس کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ استعمال کیا گیاتھا۔ اب، پنڈال مکمل طور پر صاف کیا گیا تھا تاکہ دیومالائی درندوں کا ٹیک آف رن اور اڑنا ممکن ہو سکے۔
دونوں پارٹیوں نے گریفنز کا استعمال کیا۔ وہ جادوئی حکمران کی طرف سے دکھائی گئی بلندی پر اڑ گئے اور میچ شروع ہوا۔ اگرچہ یہ آسمان میں100 میٹر اونچا تھا لیکن علی روئی کی موجودہ بینائی سے یہ اب بھی صاف تھا۔ وہ دوسرے ڈیمنوں کی طرح تیز آنکھوں سے دیکھ سکتا تھا۔ فلورا نے کل علی روئی کے سامنے جو کچھ دکھایا وہ صرف ایک اڑنے والے جانور کو قابو کرنے کا بنیادی ہنر تھا۔ حالات اور وقت کی محدودیت کی وجہ سے جنگ کا پہلو صرف تھیوری میں پیش کیا گیا۔ اب جب کہ علی روئی نے اصل جنگ دیکھی تو وہ اس کے خطرے کو سمجھ گیا اور ایک سنسنی خیز احساس ہوا۔ دونوں جماعتوں نے بغیر کسی معاون آلات کے گریفن کو کنٹرول کیا۔ وہ ہتھکنڈوں، مارنے، اور ہوا میں کاٹنے لگے۔ اگر کوئی لاپروا ہوتا تو گر جاتا۔
ایک عام لیچ عام طور پر واحد عنصر کے جادو میں مہارت حاصل کر سکتا ہے۔ چند ہنرمندوں میں دیومالائی درندوں کو قابو کرنے کی صلاحیت تھی۔ لیو ظاہر ہے کہ اس طرح کی بیسٹ ایمنگ طاقت کے ساتھ ایک لیچ تھا۔ تاہم، فلورا اس سے بھی بہتر تھی۔ گریفن بالکل اس کے جسم کا ایک حصہ تھا۔ وہ آزادانہ طور پر تمام زاویوں سے لیچ کے پہاڑ پر حملہ کر سکتی تھی۔ یہاں تک کہ جب یہ ماضی کو صاف کر رہا تھا۔ وہ ناقابل یقین حملے کر سکتی تھی۔ اس کی شانداربیسٹ ایمنگ کی مہارت نے زمین پر موجود سامعین کو بے حد گرما دیا اور ماحول پرجوش ہو گیا۔
علی روئی کو تب احساس ہوا کہ فلورا لگاتار دو سال جیت سکتی ہے یقینی طور پر نہ صرف اس کے والد کی ساکھ کی وجہ سے بلکہ اس کی اپنی طاقت کی وجہ سے بھی تھی۔ فرد کی طاقت کے بغیر بیسٹ ایمنگ کی مہارت کی بنیاد پر یوسف شاید اس کا مقابلہ کرنے کے قابل بھی نہ ہو۔ جس طرح فلورا کا اوپری ہاتھ تھا، اسی طرح وہ گریفن جس پر سوار تھی اچانک بدل گئی۔ اڑنے والادرندہ جو بہادر تھا دراصل ڈرپوک ہو گیا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ فلورا کتنی ہی چیخی اس نے دوبارہ حملہ کرنے کی ہمت نہیں کی۔ اس کے علاوہ اس کے ایک لمحے کے توقف کے بعد، یہ حقیقت میں مڑ کر بھاگا۔ اس کے برعکس، لیو کے حیوان کو محرک کے انجیکشن کے مترادف تھا۔ وہ بہت شدید ہو گیا اور سختی سے اس کا پیچھا کرنے لگا۔
لیو کا پہاڑ قریب سے پیچھا کر رہا تھا اور فلورا کے گریفن پر بزدلانہ حملہ کیا۔ فلورا کا گریفن صرف چیخ سکتا تھا اور بھاگ سکتا تھا۔ اس میں واپس لڑنے کی ہمت بھی نہیں تھی۔ اکھاڑے میں خوشی کا سماں اچانک غائب ہوگیا۔ کوئی بھی کبھی نہیں سوچے گا کہ فلورا جس کی جیت یقینی تھی، اچانک ہارتی ہوئی دکھائی دے گی۔
VIP نشستوں پر، بوڑھےطاؤس نے سرمانی سلطنت کے سفارت کار کے جوش کو نظر انداز کیا۔ اس کی پلکیں تنگ ہوگئیں اور سرد نگاہوں کی جھلک دکھائی دی۔
یہ دیکھ کر کہ فلورا کا پہاڑ لرز رہا ہے اور مزید کھڑا نہیں رہ سکتا۔ فلورا نے اچانک چیخ ماری اور دیومالائی شکل میں اپنی تبدیلی کو چالو کیا۔ اس کی سرخ آنکھوں کی پتلی چمک اٹھی اور اس کا جسم شعلے جیسی چمک سے ڈھکا ہوا تھا۔ جب اس قسم کا شعلہ گریفن پر گرا تو اس کو جلایا نہیں بلکہ لپیٹ دیا۔ لیو کا گریفن شعلے سے بہت خوفزدہ تھا، اس لیے اس نے اچانک قریب آنے کی ہمت نہیں کی۔ نیچے سے یوسف نے لیو کی طرف دیکھا کہ اس کا گریفن شعلوں سے خوفزدہ ہے، اس کے شاگرد قدرے سکڑ گئی:
’’ یہ درجہ بندی ہے! کیا فلورا نے‘‘۔
جب فلورا کا شعلہ بجھ گیا تو نصب گریفن نے اپنی ہمتیں بحال کر دیں۔ ایک ہتھکنڈہ کے ساتھ پیچھے مڑا اور لیو کی طرف دوڑا۔ لیو کے گریفن نے اپنی لڑائی کا جذبہ کھو دیا، صورتحال اچانک پلٹ گئی۔ لوگوں کا جوش و خروش اچانک بحال ہوا اور زور زور سے تالیاں بجانے لگے۔
فلورا غصے میں دکھائی دی۔ اس نے گریفن کو ایک نڈر جوابی حملہ کرنے کا حکم دیا۔ لیو کا گریفن روتا رہا۔ وہ مزید برداشت نہ کر سکا اور نیچے گر گیا۔ جب وہ تقریباً زمین پر پہنچ گیا تو لیو توازن برقرار رکھنے میں ناکام رہا۔ وہ چار سے پانچ میٹر بلندی سے گرا۔ اس کا کمزور جسم برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ اس کی دونوں ٹانگوں کی ہڈیاں ٹوٹ گئیں، لیکن خوش قسمتی سے وہ زندہ رہا۔
فاتح گریفن ہوا میں منڈلا رہا تھا۔ فلورا کی غصے سے بھری آواز آئی:
’’بے شرم آدمی، تم نے حقیقت میں دھوکہ دینے کے لیے جادو کا استعمال کیا! اگر میں تمہارےخوف کے جادو کو منسوخ کرنے کے لیے دیومالائی آگ کا استعمال نہ کرتی تو تمہاری گھٹیا سازش کامیاب ہو جاتی‘‘۔
’’صرف خوف کا جادو ہی نہیں، اس نے اپنے گریفن پر خونخوار جادوبھی استعمال کیا‘‘۔
بوڑھے طاؤس کی گرجدار آواز میجک ایمپلیفائر کے ساتھ پورے میدان میں گونج رہی تھی۔
’’گریفن کے جسم پر ابھی تک جادو باقی تھا‘‘۔
خوف کا جادوہدف کو خوفزدہ کرتا ہے اور فرارہونے پر مجبور کرتا ہے جبکہ خونخوار کا جادو لڑائی کے جذبے اور جنگی طاقت کو بڑھانے کا جادوہے۔
سامعین کو پھر احساس ہوا کہ فلورا کے گریفن نے عجیب و غریب کام کیوں کیا۔ ایک لمحے کے لیے ہجوم جوش میں آگیا اور شمائلہ سب سے پہلے باہر کھڑی ہوئی چیخ اٹھی:
’’بے شرم! حقیر! بیہودہ!‘‘۔
کچھ کہے بغیر اسے علی روئی اور کیا نے سیٹ پر واپس کھینچ لیا تاکہ شاہی خاندان کی نمائندگی کرنے والی یہ شہزادی اپنے آداب سے محروم نہ رہے۔ جبکہ حاضرین نے ڈانٹنا شروع کر دیا تھا۔
’’لیو!تم واقعی جیتنے کے لیے ایسی بےایمانی کرتے ہو۔ تم نے ہمارے ایلون خاندان کو شرمندہ کر دیا ہے! یوسف کا جسم کانپتے ہوئےلیچ کے سامنے نمودار ہوئی اور اس کی دھیمی، خوفناک آواز نے سامعین کی خوشیوں کو ڈھانپ لیا۔
اس سے پہلے کہ لیو کچھ بول پاتا، یوسف کے جسم سے سرخ روشنی نکلنے لگی۔ اس کی پانچوں انگلیاں کچھ فاصلے پر ہلکی سی چٹکی ہوئی اور لیچ کا سر اچانک پھٹ گیا۔ جیسے ہی سامعین نے دیکھا کہ یوسف کو دھوکہ دینے والے کو مار دیا گیا ہے نیرنگ آباد نے کامیابی کے ساتھ پہلا راؤنڈ جیت کر خوشی کا اظہار کیا۔ علی روئی سمیت چند لوگوں کو اس سے حقارت تھی۔ بظاہر ہے کہ اسے راز افشا کرنے سے روکنے کے لیے قتل کیا گیا تھا۔ غریب لیو، تمہاری موت ناحق تھی۔
یوسف نے آہستگی سے اترتی ہوئی فلورا کی طرف دیکھا اور کہا:
’’مبارک ہو فلورا۔ میں کبھی نہیں جانتا تھا کہ آپ نےہائیر ڈیمن میں کامیابی سے ترقی حاصل کر لی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ہماری گریٹ ڈیمنی نسل میں ایک اور نوجوان ذہین ہے‘‘۔
ہائیر ڈیمن19 سالہ فلورا اس سطح پر پہنچ چکی ہے کہ وہ مستقبل میں گریٹ ڈیمن کی بالائی حد کو توڑ کر ڈیمن کنگ یا گریٹ ڈیمن کنگ بن جائے گی؟۔
ایان ہکا بکا رہ گیا۔ اسے لگا کہ اس کے اور فلورا کے درمیان فاصلہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔
فلورا نے یوسف کو نظر انداز کیا۔ اس نےاطمینان سے لیو کے خون آلود جسم کو دیکھا، اپنےگریفن سے چھلانگ لگائی اور نیرنگ آباد کی VIP سیٹوں پر واپس آگئی۔ شمائلہ اور علی روئی نے اسے سلام کیا۔ شمائلہ نے مسکرا کر کہا:
’’میں جانتی تھی کہ فلورا ضرور جیتے گی‘‘۔
’’Hmph‘‘۔
یہ ایک غیر ضروری پریشانی تھی۔ ہائیر ڈیمن کے پاس ٹیلی پورٹیشن کی مہارت ہے۔ یہاں تک کہ اگر میں اسے استعمال نہیں کرتی کیونکہ پہلے سے ہی ایک ہائیر ڈیمن ہوں۔ اگر میں گر بھی جاؤں تو کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔
فلورا نے علی روئی کی طرف دیکھا۔ وہ اس کے بارے میں پریشان نہیں تھی لیکن اس کے دل میں ایک عجیب سی گرمی تھی۔ فلورا کے سرد لہجے کا سامنا کرتے ہوئےعلی روئی کو نا انصافی کا احساس ہوا۔
’’ کیا میں نے غلطی سے تھوڑا سا ہاتھ نہیں لگایا؟ ارے نہیں. یہ بہت ہے‘‘۔
فلورا کو ہائیر ڈیمن میں ترقی دی گئی تھی۔ یہ وضاحت کر سکتا ہے کہ کیوں <Analytic Eyes> نے اس کی طاقت کو D کے طور پر ظاہر کیا جب اس نے کل بدلالیا۔
’’تم دونوں کے درمیان کچھ گڑبڑ ہے؟ کیا تمہاری لڑائی ہوئی ہے؟‘‘۔
حساس ننھی شہزادی نے علی روئی کویاد دلاکر سمجھانے کی کوشش کی:
’’کچھ نہیں، یہ کل کی خصوصی تربیت کے دوران ہوا تھا۔۔۔ میں بیوقوف تھا اس لیے میں نے فلورا کو ناخوش کر دیا‘‘۔
کل کی خصوصی تربیت کا ذکر ہوا تو فلورا کو لگا کہ اس کا چہرہ شرم سےجل رہا ہے۔ اسی وقت یوسف بولا اور شمائلہ کی توجہ اچانک اس کی طرف مبذول ہوگئی۔
لیو جیتنے کے لیے بے تاب تھا کہ اس نے جادو کا استعمال کرکے میچ کے اصولوں کی خلاف ورزی کی تھی۔ میں اسے پہلے ہی سزا دے چکا ہوں۔ اس دور کے لیے، ہم شکست تسلیم کرتے ہیں! نیرنگ آباد اسٹیٹ سے معذرت۔ دوسرے کھیل میں یوسف ایلون ذاتی طور پر حصہ لوں گا‘‘۔
یہ سن کر سب کی نظریں یوسف پر مرکوز ہو گئیں۔ یوسف کو پہلے راؤنڈ میں ناکامی کی امید تھی۔ اس نے لیو کو چپکے سے دھوکہ دینے دیا بس اب اس کا موقع لینا تھا۔ کون جانتا تھا کہ لیو کی چالیں بہت واضح تھیں، اس لیے اسے بے نقاب ہونے کے بعد جلدی سے مار دیا گیا۔ دوسرے فریق کے منصوبے کے مطابق، تیسرا راؤنڈ انسانی تربیت کا ہونا ضروری ہے، اس لیے دوسری گیم جیتنے کی ضمانت ہونی چاہیے۔ دوسری صورت میں، علی روئی کو اسٹیج پر آنے کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ سرمانی سلطنت پارٹی پہلے ہی ہار چکی تھی۔ دوسرے راؤنڈ میں نیرنگ آباد کی جانب سے حصہ لینے والی خاتون <گریٹ ڈیمن< شمائلہ کی دکان کی کاگولی ہونی چاہیے۔ کاگولی شاہی محافظوں کے رہنما کاگورون کی بہن تھی۔
وہ فی الحال ایک انٹرمیڈیٹ ڈیمن تھی، اور اس کی> بیسٹ ٹیمنگ< کی مہارت کافی شاندار تھی۔ یہاں تک کہ ایان بھی یقینی طور پر جیت نہیں سکتا ہے۔ یوسف کے تین طاقتور ماتحت ہائیر ڈیمن تھے۔ تاہم اسکائی جنگ ذاتی طاقت کے بارے میں نہیں تھی بلکہ <بیسٹ ٹیمنگ< کی مہارت کے بارے میں تھی۔ وہ تینوں اس میں اچھے نہیں تھے، اس لیے یوسف نے ذہن بنایا اور ذاتی طور پر حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ ویسے بھی فلورا مزید حصہ نہیں لے سکتی تھی۔ جہاں تک دوسروں کا تعلق ہے، یوسف کو اپنی طاقت کو ظاہر کیے بغیر جیتنے کا پورا بھروسہ تھا۔ سب کچھ اب بھی اس کے اختیار میں تھا!
’’یوسف… ذاتی طور پر حصہ لے گا؟‘‘۔
نیرنگ آباد کے شاہی محل میں شہزادی اقابلہ ایک عجیب و غریب کرسٹل گیند کے سامنے میدان کو دیکھ رہی تھی۔ یہ کرسٹل گیند میدان کے جادوئی آلات سے منسلک تھی۔ نہ صرف تصویر بلکہ آواز بھی منتقل کی جا سکتی تھی، اسے اس دنیا میں براہ راست نشریات سمجھا جا سکتا ہے۔ نیرنگ آباد میں یوسف کی طاقت ایک معمہ تھی۔ وہ شاذ و نادر ہی لڑتا تھا۔ یہاں تک کہ اگر کوئی بہت بڑا مسئلہ ہوتا تو وہ عام طور پر اپنے 3 گریٹ ڈیمن ماتحتوں سے کام لیتا۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ صرف اپنے باپ کی عزت اور اپنے ماتحتوں کی طاقت پر بھروسہ کرتا تھا جبکہ اس کی اپنی طاقت قابل ذکر نہیں تھی۔ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ طاقت ور ہے لیکن اپنی طاقت کسی کے آگے ظاہر نہیں کرتا۔ اب سرمانی سلطنت کا بادشاہ کا بڑا بیٹا ذاتی طور پر شرکت کرے گا۔ اگرچہ وہ سرمانی سلطنت کی نمائندگی کر رہا تھا بہت سے ناظرین اب بھی توقعات سے بھرے ہوئے تھے۔
’’تو نیرنگ آباد کی طرف سے کون لڑنے والاہے؟‘‘۔
ننھی شہزادی شمائلہ آہستہ آہستہ اٹھ کھڑی ہوئی۔ سب یہ سوچ رہے تھے کہ وہ اپنے امیدوار کا اعلان کرنے جا رہی ہےلیکن شمائلہ لہراتے ہوئے میدان میں پہنچ گئی۔
’’اس راؤنڈمیں، میں ذاتی طور پرحصہ لوں گی‘‘۔
یہ جملہ یوسف کے جملے سے بھی زیادہ چونکا دینے والاتھا۔ تالیاں بجاتے ہاتھ اچانک رک گئے۔ یہاں تک کہ کرسی پر بیٹھاہوا بوڑھا طاؤس بھی اٹھ کھڑا ہوا۔
چھوٹی شہزادی ذاتی طور پر شرکت کرتی ہے؟ یہ میچ بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ ہر لمحہ جان کو خطرہ ہو گا۔ یہاں تک کہ ابھی لیچ کی بھی ٹانگیں توڑ دی گئی ہیں۔
’’بالکل بکواس!‘‘۔
کرسٹل بال کے سامنے اقابلہ چونکی اور اپنی سیٹ سے غائب ہوگئی۔
یوسف نے حیران ہو کر کہا:
’’شہزادی شمائلہ!کیاآپ مذاق کر رہی ہیں؟‘‘۔
’’یوسف!تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے نیچا دکھانے کی‘‘۔
شمائلہ غصے سے چلائی اور اس کے جسم پر سیاہ رنگ کا شعلہ بھڑک اٹھا۔ یہ شعلہ سرخ شعلے سے مختلف تھا جب فلورا تبدیل ہوئی۔ سرخ شعلہ جنونی اور بے رحمی کا احساس دلاتا ہے سیاہ شعلہ خاموشی اور حتمیت کی نمائندگی کرتا ہے۔
بوڑھے طاؤس کی دھندلی آنکھیں اچانک کھل گئیں اور حیرت سے چمک رہی تھیں۔
’’لوسیفر خاندان کے <ڈارک فلیم>۔۔۔۔۔ وہاںڈیمن تھے جنہوں نے سیاہ رنگ کے شعلے کو پہچان لیا تھا اور چیخنا شروع کر دیا تھا‘‘۔
’’شاہی خاندان کے خون کی طاقت!‘‘۔
علی روئی نے پہلی بار شمائلہ کو اپنی طاقت دکھاتے ہوئے دیکھا تھا۔ عام طور پر شمائلہ کی جامع طاقت <Analytic Eyes> میں صرف F کلاس میں تھی لیکن اس وقت یہ E کلاس تک بڑھ گئی۔ ایسا لگتا تھا کہ ننھی شہزادی اپنے خون کی لکیر کی بیداری کے بارے میں شیخی نہیں مار رہی تھی۔ یقیناً، بیداری جعلی <مائنڈ ریڈنگ< نہیں تھی بلکہ لوسیفر رائل فیملی کی تین طاقتوں میں سے ایک <ڈارک فلیم< تھی جس نے دیومالائی دائرے کو چونکا دیا۔
عام قابلیت کے حامل ڈیمن کے لیے طاقت کی سطح عام طور پر تبدیل نہیں ہوتی، جیسے ایان۔ جبکہ تبدیل شدہ ڈیمن اور شاہی خاندان مختلف تھے۔ ان کی عام حالت ایک قسم کی طاقت تھی۔ جنگ کی حالت میں ان کی طاقت بڑی چھلانگ لگا سکتی تھی۔ یوسف، فلورا اور شمائلہ ایسے ہی تھے۔
13 سالہ شمائلہ پہلے ہی <ڈارک فلیم< کو جگا چکی تھی۔ یہاں تک کہ لوسیفر شاہی خاندان میں بھی وہ ایک باصلاحیت لڑکی سمجھی جاتی تھی۔ تاہم غیر متوقع یوسف کے مقابلے میں یہاں تک کہ اگر شمائلہ نے <ڈارک فلیم >میں مہارت حاصل کرلی، تب بھی اس کے جیتنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔
’’چھوٹی شہزادی، کیا تم سنجیدہ ہو؟‘‘۔
یوسف نے عجیب نظروں سے شمائلہ کا جائزہ لیا۔
’’اگرچہ میری بینائی بہت اچھی نہیں ہے، لیکن میں دیکھ سکتا ہوں کہ آپ کا <ڈارک فلیم >زیادہ دیر سے بیدار نہیں ہوا ہے۔ اب بھی طاقت کی کمی ہے۔ بہرحال آج ہم <بیسٹ ٹیمنگ< کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ کیا آپ کو اپنے<بیسٹ ٹیمنگ< کی مہارت پر بھروسہ ہے؟ سچ پوچھیں تو میں واقعی نہیں چاہتا کہ آپ کو تکلیف ہو‘‘۔
’’میں شہزادی کی حیثیت سے دوسرے لوگوں کو بھی نقصان نہیں پہنچاتی بشمول تمہارے‘‘۔
شمائلہ کا کالاشعلہ فوراً غائب ہو گیا۔ اس نے مسکرا کر کہا:
’’میں نیرنگ آباد کی ننھی شہزادی ہوں جو لوسیفر رائل فیملی کا بھی حصہ ہوں، سلطنت کے عظیم ترین خون کی نمائندگی کرتی ہوں۔ تم سرمانی سلطنت صوبیدارکے بڑے بیٹے ہو جو نیرنگ آباد کے مالیاتی افسر ہیں۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اس گیم کو فوری طور پر ڈرا سمجھا جائے۔ تاکہ میرے لوسیفر رائل فیملی کے ساتھ سرمانی سلطنت کی وفاداری متاثر نہ ہو اور گناہ کا ارتکاب نہ ہو، نیرنگ آباد اسٹیٹ کے مالیاتی افسر کے طور پرتمہاری وفاداری اور نیرنگ آباد اسٹیٹ اور سرمانی سلطنت کے درمیان دوستی متاثر نہ ہو۔ کیا تم لوسیفر رائل فیملی کے ساتھ وفادار رہنا اور نیرنگ آباد اسٹیٹ کے لیے کام جاری رکھنا چاہو گے؟‘‘۔
یوسف کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ آخر کار اس نے شمائلہ کے الفاظ میں اس کا بنیادی مطلب سمجھ لیا۔
شمائلہ کا مطلب تھا کہ چاہے سرمانی سلطنت کتنی ہی مضبوط ہو۔ یہ اب بھی لوسیفر رائل فیملی کے لیے وقف تھی۔ تم یوسف نیرنگ آباد اسٹیٹ کے لیے ’’سرشار‘‘ مالیاتی افسر بھی ہو۔ اگر اس نے واقعی مقابلہ کرنے کی ہمت کی تو یہ لوسیفر فیملی اور نیرنگ آباد کو حقیر سمجھناہے، ساتھ ساتھ نیرنگ آباد اور سرمانی سلطنت کے درمیان دوستی کو جان بوجھ کر تباہ کرنا ہے۔
شمائلہ نے قرعہ اندازی کے لیے کہا جسے تکنیکی طور پر مسترد نہیں کیا جا سکتا تھا۔ شاہی خاندان کا برتاؤ جو بھی تھا ایک بار یوسف راضی ہو گیا یہاں تک کہ اگر ایان نے علی روئی کو مار ڈالاتو یہ صرف ڈرا ہی ہوگا۔ پھر بھی شمائلہ کا آخری جملہ ظالمانہ تھا۔ اگر اس نے اسے قبول نہیں کیا تو اسے لوسیفر شاہی خاندان کے ساتھ غداری سمجھا جائے گا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ نیرنگ آباد میں مالیاتی افسر کے طور پر خدمات انجام دینا جاری نہیں رکھنا چاہتا۔ یہاں تک کہ مشتبہ ریجنٹ شوالہ بھی اس طرح کی تحقیر کی پرواہ نہیں کرے گا۔ یوسف ان برسوں کے دوران نیرنگ آباد میں اپنی بے انتہا کوششوں کو ترک کرنے سے گریزاں تھا۔
تقریباً ہر جملے میں ایک جال تھا۔ یہ ننھی شہزادی اتنی طاقتور کب ہوئی! شمائلہ کی شرکت ایک غیر متوقع اقدام تھا، اور اس کا منصوبہ یقینی طور پرقابو سے باہر تھا۔
اگرچہ یہ سب شرمناک تھا لیکن نیرنگ آباد کے ساتھ رشتے توڑنے کا وقت نہیں تھا۔ جب یوسف نتائج کا اندازہ لگا رہا تھا، اسے اچانک کچھ محسوس ہوا اور اس نےدور میدان کی دوسری طرف دیکھا۔ اس کی آنکھیں بلیڈ جیسی ٹھنڈی آنکھوں سے ملیں۔ گویا فاصلوں کی کوئی حد نہ ہو، اس کی آنکھوں میں تنک کا احساس تھا اوراپنے دل میں خوف محسوس کیےبغیرنہ رہ سکا۔
یوسف جو پہلے ہی بے یقینی کا شکار تھا اب کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کررہا تھا۔ اس نے فوراً کہا:
’’سرمانی سلطنت کی کی وفاداری لوسیفر رائل فیملی اور تومانی سلطنت کےلیےدیومالائی دائرےکے دو چاندوں سے موازنہ ہے۔ سرمانی سلطنت اور نیرنگ آباد ہمیشہ کے لیے دوست ہیں۔ میں سب سے قیمتی دوستی کے ساتھ نیرنگ آباد کی ترقی کے لیے بھی کام کرتا رہوں گا۔ اس لیے میں شہزادی شمائلہ کی قرعہ اندازی کی کال قبول کرتا ہوں‘‘۔
اب نیرنگ آباد کی1 جیت اور1ڈرا تھی۔ یہ پہلے ہی ناقابل شکست پوزیشن میں تھا۔ یہاں تک کہ اگر علی روئی ہار جاتا ہے، تو یہ ڈرا کے طور پر ختم ہوگا۔ کم از کم اس سے نیرنگ آباد کی ساکھ کو نقصان نہیں پہنچے گا۔
جب شمائلہ نے یوسف کو قرعہ اندازی پر رضامند ہوتے دیکھا تو بہت خوش ہوئی اور فاتحانہ طور پر علی روئی اور فلورا کو دیکھتے ہوئے VIP سیٹ پر واپس آگئی۔ اچانک اس نے یوسف کو اونچی آواز میں کہتے سنا:
’’پہلے کھیل میں چونکہ میں نے غلطی سے ایک حقیر ماتحت پر یقین کر لیا تھا اس لیے وہ کھیل جو منصفانہ ہونا چاہیے تھا، خراب ہو گیا۔ میں اس کے لیے دل کی گہرائیوں سے معذرت خواہ ہوں۔ دوسری گیم میں شہزادی شمائلہ کے برتاؤ نے مجھے متاثر کیا۔ پھر بھی میچ تو میچ ہے۔ مجھے یقین ہے کہ یہاں پر موجود ہر شخص واقعی شدید اور منصفانہ جنگ کی امید کر رہا ہے،بزدلی اور چالوں کی نہیں۔ کیا میں ٹھیک کہہ رہا ہوں‘‘۔
یہ جملہ بہت اکسانے والاتھا۔ میدان میں موجودڈیمنز نے بلند آواز میں جواب دیا جس سے ماحول پرجوش ہو گیا۔
شمائلہ، فلورا اور حکیم الداس نے سنا کہ یوسف نے جان بوجھ کر ایسا ہنگامہ کھڑا کرکے علی روئی کو مقابلے کےلیے اکسایا ہے۔ اتفاق سے ان پر ایک ہی وقت میں ایک نحوست تھی۔
یوسف نے اس موقع کا فائدہ اٹھایا اور کہا:
’’نیرنگ آباد اور سرمانی سلطنت کے درمیان دوستی کی علامت کے طور پر میں تیسرے راؤنڈ کے لیے خصوصی درخواست کرتا ہوں جو کہ میچ کے لیے اڑنے والے دیومالائی درندے کو ویورن میں تبدیل کر دے۔ ہر کوئی اپنی آنکھوں سے سب سے طاقتور دیومالائی درندے کا مشاہدہ کرے گا۔ سب سے خطرناک اسکائی بیٹل‘‘۔
’’وائیورن؟؟‘‘۔
شمائلہ حیران رہ گئی۔ فلورا اٹھی اور یوسف کی طرف تیز نظروں سے دیکھنے لگی۔ اتفاق سے یوسف بھی اس کی طرف دیکھ رہا تھا، قاتل فلورا کا سامنا کر رہا تھا، وہ عادتاً بے نیازی سے مسکرا دیا۔
علی روئی کے نزدیک اس مسکراہٹ میں فلورا سے دس گناہ زیادہ قتل کا ارادہ چھپا ہوا تھا۔
وائیورن عام طور پر زہریلے دلدلوں یا گیلے علاقوں میں رہتے تھے۔ ان کے پاس پائیدار ترازو اور مضبوط پنجے تھے۔ نہ صرف یہ کہ ان کے پنجوں میں مہلک زہر تھا بلکہ وہ سانس لیتے وقت ایک خاص حد تک زہریلی گیس بھی خارج کر سکتے تھے۔ یہ ڈریگن کے بعد سب سے طاقتور اڑنے والے دیومالائی درندوں میں سے ایک تھا۔
ڈریگن ان’’سوڈو ڈریگنز‘‘ کو کمزور مخلوق سمجھ کرہمیشہ حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ وائیورن کے پاس حکمت اور ثقافت کی کمی تھی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی ڈریگن اس سماجی مخلوق کی طاقت سے ڈرتے تھے۔ یہاں تک کہ ایک بالغ ڈریگن نے بھی آسانی سے وائیورن کے ریوڑ کو اکسانے کی ہمت نہیں کی۔
ایک بالغ وائیورن ایک ہائیر ڈیمن کی جنگی طاقت کے برابر تھا۔ نہ صرف اسے پکڑنا اور قابو کرنا مشکل تھا، بلکہ یہ وائیورن ریوڑمیں سےکسی ایکپر حملہ کرنا سب پر حملہ کرنے کے مترادف ہے۔ پوری نیرنگ آباد اسٹیٹ کے پاس ایک بھی ویورن نہیں تھا۔
ایک لمبے لوہے کے پنجرے والی چار پہیوں والی گاڑی کو میدان میں دھکیل دیا گیا۔ وائیورن لوہے کے پنجرے میں دو سبز بھوری جلداورلمبے پروں والی مخلوق موجود تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ یوسف آج نیرنگ آباد کو جھٹکا دینے کے لیے پرعزم تھا۔ وہ دراصل سرمانی سلطنت سے دو وائیورنز پہلے سے لایا تھا۔
وائیورنز کی ظاہری شکل نے سامعین میں ہنگامہ برپا کردیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب زیادہ تر لوگوں نے ایک حقیقی وائیورن کو دیکھا۔ اس وقت سب نے چیخ کر کہا۔ علی روئی دیر تک سوچتا رہاپھر آہستہ آہستہ کھڑا ہو گیا۔
’’علی روئی!‘‘۔
حکیم الداس، فلورا اور شمائلہ یک آواز ہو کر اسے پکارتے ہیں۔
فلورا جو علی روئی کو نظر انداز کر رہی تھی اس نے اسے دیکھا تو وہ خود کو روک نہیں پائی تھی کہ اس کامقابلہ کرنے کا ارادہ مصمم ہے۔
’’اگر وائیورن سدھایا ہوا بھی ہو تو بھی یہ گریفن سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ زہر ثانوی ہے، یہاں تک کہ اس کی جنگلی فطرت کی وجہ سے میں بھی اسے کم عرصے میں قابو نہیں کرسکتی۔
’’ یوسف کو دراصل یہاں وائیورنزملے ہیں‘‘۔
شمائلہ نے کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی:
’’علی روئی!تمہیں ابھی بھی شہزادی کے لیے زیادہ پیسہ کمانا ہے اور مزید اچھی چیزیں بنانا ہیں۔ تم اس طرح نہیں مر سکتے۔ ہم براہ راست شکست تسلیم کر لیں گے، ڈرا ہونا ہی کافی ہے‘‘۔
حکیم الداس نے زیادہ کچھ نہیں کہا بلکہ شمائلہ سے اتفاق کرتے ہوئے سر ہلا دیا۔ چلبل بھی پریشان دکھائی دے رہا تھا، لیکن اس میں کچھ کہنے کی ہمت نہیں تھی۔
’’فکر نہ کریں‘‘۔
علی روئی نے سر ہلایا:
’’آپ لوگ جانتے ہیں کہ میں جس چیز سے زیادہ ڈرتا ہوں وہ موت ہے۔ اگر مجھے یقین نہیں ہے تو میںاپنی جان جوکھوں میں ڈالوں۔ ننھی شہزادی، شکست تسلیم کرنے میں جلدی نہ کرو۔ مجھے پہلے وائیورنز دیکھنے دیں‘‘۔
یہ کہتے ہی وہ دھیرے دھیرے چلتے ہوئے میدان کی طرف چلا گیا۔ اس نے جان بوجھ کر زہر دیے جانے کا خوفناک منظر پیش کیا، اپنا منہ اور ناک ڈھانپ لیا اور وائیورن کے لوہے کے پنجرے کے پاس آیا۔
ایان شروع میں گھبرایا جب اس نے سنا کہ اسے میچ کے لیے وائیورن استعمال کرنے کی ضرورت ہے لیکن جب اس نے علی روئی کی ڈرپوک شکل دیکھی تو اس نے زور سے طنز کیا:
’’بزدل! یہ ایک جادوئی پنجرا ہے، زہر اس سے باہر نہیں آ سکتا‘‘۔
سامعین میں ایان کے ماتحت لوگ زور سے ہنسے لیکن علی روئی زہر سے نہیں ڈرتا تھا۔ اس نے ایان کو نظر انداز کیا اور احتیاط سے پنجرے کے قریب پہنچا۔ جب پنجرے میں موجود وائیورن نے ایک مخلوق کو قریب آتے دیکھا تو اس نے پنجرے سے اپنا سر نکالنے کی کوشش کی۔ پنجرے کے ساتھ ٹکرانے کی آواز واقعی خوفناک تھی۔ انسان چونک گیا اور تیزی سے پیچھے ہٹ گیا۔ ایسا لگتا تھا کہ دونوں وائئورنز انسانی جسم کی خاص خواہش رکھتے ہیں۔ ان کے سر درحقیقت انسانوں کی حرکت کے مطابق ایک ساتھ حرکت کرتے تھے۔ وہ شور مچانے لگے۔ پنجرے کو مارنے میں شدت آ گئی۔ انسان لرزکر رہ گیا۔
یوسف نے علی روئی کی خوفزدہ نظروں کو دیکھا۔ اس کی مسکراہٹ میں طنز کا پہلو نمایاں تھا۔ اسے لگتا تھا کہ وائیورن لانااس کا سب سے چالاک اقدام ہے۔ درحقیقت جیت یا ہار کی کوئی زیادہ اہمیت نہیں تھی۔ اس نے شمائلہ کے ساتھ شرط لگانے کی بھی زحمت نہیں کی۔ آج کی اس حرکت سے اس کا مقصد نیرنگ آباد کو خوفزدہ کرنا تھا چاہے گیم ڈرا ہی کیوں نہ ہو۔
’’اگرتاریک سورج کا بادشاہ کی شہرت ناقابل تسخیر ہو بھی تووہ کیا کر سکتاتھا۔ اب جبکہ اس کی اولاد بھی تخت کو برقرار نہیں رکھ سکتی۔ یہاں تک کہ نیرنگ آباد اسٹیٹ کو بھی طاقتور سرمانی سلطنت کے ذریعے دبائے جانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جا رہا‘‘۔
یہ سوچ کر یوسف نے احتجاج کی طرح اکھاڑے میں نظر ڈالی لیکن بلیڈ جیسی ٹھنڈی آنکھوں کا جوڑا اسے اب نہیں ملا۔ درحقیقت وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وائیورنز کی تحریک انسانی گوشت کھانےکے لیے نہیں تھی بلکہ یہ علی روئی کے ساتھ بات چیت کر رہی تھی۔
’’کیگو! یقین رکھو، میں تمہاری مدد کروں گا‘‘۔
علی روئی کی آواز اس کے ہوش و حواس میں ایسی لگ رہی تھی جیسے کوئی بے ہودہ آدمی کسی نابالغ لڑکی کو اغوا کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔
’’یہ غلط ہے۔ میں کیگو ہوں، یہ مگداہے‘‘۔
وائیورن علی روئی کی اس بات سے نامتفق ہوا۔
’’سمجھ گیا! بات پر ضرور عمل کرنا۔ اچھی طرح سے تعاون کرناہے، یاد رہے‘‘۔
یوسف نے خفیہ طور پر اپنی طاقت کا استعمال کیا اورپورے میدان میں اس کی آواز گونجی:
’’میں جان بوجھ کر سرمانی سلطنت سے سب سے مضبوط اڑنے والے دیومالائی جانور وائیورن لایا ہوں۔ میں نہیں جانتا کہ نیرنگ آباد جنگجو اپنی بہادری کے لیے مشہور ہیں، لڑنے کی ہمت رکھتے ہیں‘‘۔
وہ جانتے تھے کہ وائیورن ایک وحشی جنگلی جانور ہے۔ انہیں یہ بھی اندازہ تھا کہ آخری امیدوار شاید کمزور انسانی شاگرد تھا، جب یوسف نے پوچھا :
’’لڑنے کی ہمت ؟‘‘۔
اس نے سامعین کے جذبات کو فوری طور پر بھڑکا دیا۔ اس وقت ڈیمنوں کا جنگجو خون صاف جھلک رہا تھا۔
خوشی سے مچلتے ہوئےعلی روئی اپنے دوستوں کے پاس لوٹ آیا۔ شمائلہ نے اسے بغیر کسی نقصان کے واپس آتے دیکھا۔ اس نے سکون کا سانس لیا اور یوسف سے اونچی آواز میں کہا:
’’یہ راؤنڈ؟؟‘‘۔
’’یہ راؤنڈ، ہم لڑیں گے‘‘۔
علی روئی نے شمائلہ کا جملہ مکمل کیا اور بلند آواز میں کہا۔
جب سامعین نے دیکھا کہ علی روئی نے دراصل لڑائی میں پہل کی تو اس انسان کے بارے میں ان کا رویہ بہت بدل گیا۔ وہ چلّانے لگے:
’’لڑو، لڑو‘‘۔
’’کیا تم پاگل ہو؟‘‘۔
فلورا نے علی روئی کا بازو پکڑ کر بے رحمی سے کہا۔ شمائلہ بھی پریشان تھی، بولی:
’’علی روئی، تم مرنے والے ہو‘‘۔
’’جس طرح میں نے کل فلورا کو ناراض کیا ہے، میرا مرنا ہی بنتا ہے‘‘۔
اس سے پہلے کہ علی روئی اپنا مذاق ختم کر پاتا، اس نے فلورا کو دیکھا کہ اس کی آنکھیں سرخ تھیں۔ اس نے اس کے بازو کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ وہ اپنی نئی طاقت کے ساتھ بھی اس کی حدت برداشت نہیں کر سکا۔
’’تم اس وقت بھی مذاق کر رہے ہو؟؟‘‘۔
حکیم الداس بھی خاموش نہ بیٹھ سکا:
’’کیا تمہارے پاس کوئی اور راستہ ہے؟‘‘۔
’’فلورا! چھوڑدیں‘‘۔
علی روئی پکارا:
’’میرا بازو ٹوٹنے والاہے‘‘۔
فلورا نے جلدی اس کا بازو چھوڑ دیا۔ علی روئی نے واضح طور پر اس کی آنکھوں میں وہ چیز دیکھی جو اس نے پہلےکبھی نہیں دیکھی تھی،۔ لیکن اب اس کے پاس اس کے بارے میں سوچنے کا وقت نہیں تھا۔ اس نے شمائلہ کو کھینچ لیا اور کچھ دیر سرگوشی کی۔ ننھی شہزادی کو شک تھا لیکن اس نے اس کی پرعزم نظروں کے آگے سر ہلایا۔
شمائلہ نے کھڑے ہو کر میجک ایمپلی فائر کے ذریعے کہا:
’’ نیرنگ آباد کی ڈکشنری میں بزدل کا لفظ کبھی نہیں تھا۔ اگر مر بھی جائیں توہمیں آخری دم تک لڑنا ہے‘‘۔
ہجوم کو مکمل طور پر متحرک کرنے کے لیے پرجوش نعروں کی ایک لسٹ استعمال کرنے کے بعد، شمائلہ نے یوسف سے بات کی:
’’چونکہ سرمانی سلطنت دو وائیورنز لے کر آیا ہے، اس لیے اس دلچسپ میچ کے لیے ہماری شرط بڑی ہونی چاہیے، اگر تم اس اسکائی بیٹل سے ہار جاتےہوتو اصلی سیاہ کرسٹل سکوں کےساتھ مجھےیہ 2 وائیورنز کے علاوہ 100اعلیٰ قسم کے وائن سٹونزچاہئیں۔ بولو، منظور ہے؟‘‘۔
یوسف مسکرایا اور کہا:
’’چھوٹی شہزادی!آخری لمحے میں شرط لگانا اصول کے خلاف ہے۔ اس کے علاوہ نیرنگ آباد کی پہلے ہی 1جیت اور 1ڈرا ہے۔ ہارناناممکن ہے۔ مجھے بہت زیادہ نقصان ہو گا۔ ‘‘
’’اگر تم تیسرا راؤنڈ جیت بھی گئے تو پھر بھی یہ ڈرا ہی رہے گا‘‘۔
شمائلہ نے یوسف کو سر ہلاتے ہوئے دیکھا۔ اس نے الفاظ بدلے اور بولی:
’’پھر بھی میں وائیورن کے ساتھ کھیلنا چاہتی ہوں۔ کیا ہوگا، اگر آج کا میچ ڈرا ہوا تو میں تمہیں ایک قدیم کیمیا گرینڈ حکیم کی طرف سے ایک اضافی قیمتی تحفہ دوں گی۔ اگر میں جیت جاتی ہوںتوتمہیں100اعلیٰ قسم کے وائن سٹونزاور دو وائیورنز کھو نا پڑیں گے۔ تمہارا کا خیال ہے؟‘‘۔
یوسف کی آنکھوں کی پتلیاں اچانک سکڑ گئیں۔ وہ قدیم گرینڈ حکیم کے کیمیا کے کام سے حیران تھا۔ کیا یہ شاہی خاندان کا خزانہ ہے؟ اسے سب سے زیادہ سمجھ میں نہ آنے والی بات یہ تھی کہ شمائلہ اچانک اتنی پراعتماد کیسے ہوگئی کہ اتنی بڑی شرط لگانےکو تیار ہے۔ یہ درست ہے کہ نیرنگ آباد کی گیم کا نتیجہ ایک1ڈرا اور ایک جیت ہے لیکن جب تک ایان علی روئی کو شکست دیتا ہےجو تقریباً 100فیصد یقینی ہے،تو بھی ڈرا ہو جائے گا۔ شمائلہ اتنی پریقین کیوں ہے کہ وہ جیت سکتی ہے؟۔
’’میں کیمیا گرینڈ حکیم کا کام آسانی سے نہیں نکال سکتا لیکن حکیم حکیم الداس سب کے سامنے گواہی دے سکتا ہے۔ ایسا ہونا ممکن ہے۔ شمائلہ نے یوسف کو غور کرنے کے لیے زیادہ وقت نہیں دیا۔ اس نے اسے اپنی ہی دوائی کا مزہ چکھانے کےلیےزور سے کہا:
’’کیا تم میں وعدہ کرنے کی ہمت ہے؟‘‘۔
اسی لمحے حکیم الداس بھی اٹھ کھڑا ہوا اور شہزادی کے بیان کردہ گرینڈ حکیم کے کام کی صداقت کی گواہی دینے کے لیے سر ہلایا۔ یوسف جانتا تھا کہ حکیم الداس اپنی موجودہ شہرت کے ساتھ بغیر سوچے سمجھے بات نہیں کرے گا۔ ایسا لگتا تھا کہ گرینڈ حکیم کے کیمیا کے کام کا وجود جعلی نہیں ہوگا۔ دوسرے لفظوں میں اگر شمائلہ کے ہارنے کا انعام جعل سازی تھا تو پھر اسے نیرنگ آباد کو دبانے کے بہانے کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔
کوئی نہیں جانتا قدیم عظیم الشان حکیم کا کام نہ صرف شمائلہ کے سٹور میں فروخت ہو رہا تھا بلکہ اس کے کمرے میں بھی کچھ تغیرات تھے۔
جب تک کہ انہوں نے انسان کی شرکت نہ کرنے کاوعدہ توڑا، نہیں تو یوسف شمائلہ کے جیتنے یا آخری راؤنڈ میں گیم برابر ہونے کے کسی موقع کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ کافی دیر تک غور کرنے کے بعد بالآخر یوسف نے شمائلہ کی درخواست مان لی۔
’’ایان!وائیورن کی جلد زہریلی ہے۔ قواعد یہ ہیں کہ کسی معاون آلات کی اجازت نہیں ہے۔ یہ دو detoxification گولیاں20منٹ تک چل سکتی ہیں۔ اسے کھانے کے بعداگر آپ واقعی وقت سے تجاوز کر گئے تو زہر کے خلاف مزاحمت کرنے کے لیے اپنی طاقت کا استعمال کریں‘‘۔
یہ دونوں وائیورنز ابھی بالغ ہونے کو تھے اور انہیں ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی قابو میں کیا گیا تھا۔ یوسف کی ذاتی طاقت کے ساتھ وہ قدرتی طور پر اس کا مقابلہ کر سکتا تھا۔ تاہم مزید نہیں کھیل سکتا تھا، اس لیے وہ صرف ایان کو یاد کر ا رہاتھا۔
ایان نے ہچکچاتے ہوئے کہا:
’’میں نے سنا ہے کہ انسان حکیم الداس کے تجربے کے تحت بدل گیا ہے۔ اس کے اندر مہلک زہر ہے۔ اس کے علاوہ حکیم الداس دوائیوں کا حکیم ہے۔ کیا ایسا ہے کہ وہ زہر سے نہیں ڈرتا؟‘‘۔
اس جملے نے یوسف کو یاد دلایا کہ شمائلہ کا انسانی جسم یا ایلداس کے تریاق کو استعمال کرنے کا منصوبہ ہونا چاہئےتاکہ ایان مزاحمت نہ کر سکے اور جیت جائے۔
یوسف کا خیال تھا کہ اس نے دوسری پارٹی کے منصوبے کو بھانپ لیا ہے،وہ اور بھی زیادہ پرعزم نظر آیا۔ اس نے ایان سے کہا:
’’اگرچہ زہر اسے نہیں مار سکتا تم آسانی سے کسی ایسے شخص کوہراسکتے ہو جو اس جیسی چیونٹی کی طرح کمزور ہو۔ یاد رکھو!تاخیر نہ کرو، جلدی کرو‘‘۔
یوسف بتا سکتا تھا کہ ایان وائیورن سے قدرے نروس تھا اس لیے اس نے سکون سے کہا:
’’ جیتنے یا ہارنے سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن تمہیں اس عورت سے مکمل طور پر دستبردار ہونا چاہیے‘‘۔
ایان نے دیکھا کہ سامنے فلورا پریشان چہرے کے ساتھ علی روئی سے بات کر رہی ہے وہ حسد سے غصہ میں جلنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ پھر اس نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے تریاق حاصل کیا۔
علی روئی نے حکیم الداس سے تریاق کی ایک چھوٹی سی بوتل مانگی اور سب کے سامنے پی لی۔ اس کے بعد اس نے فلورا سے کہا:
’’مجھ پر بھروسہ کرو‘‘۔
اس نےفلوارا کی طرف پرعزم نگاہ ڈالی اور چل دیا۔۔ لوہے کے پنجرے کی طرف جاتے ہوئے علی روئی اور ایان کو دیکھتے ہوئے زیادہ تر لوگوں کی سانسیں رکی ہوئی تھیں۔ وہاں پہلے سے ہی کوئی موجود تھا جو لوہے کے پنجرے پر زہر مار جادو دور کر رہا تھا۔ جب ایان نے علی روئی کی طرف فلور کے ا جھکاؤ کے بارے میں سوچا تو اس کی آنکھوں میں خون کی لہر مزید گہری ہو گئی۔ اس نے قہقہہ لگایا:
’’ کمزور اور نااہل انسان!زیادہ جلدی مت مرو۔ مجھے تمہاری ایک ایک ہڈی کو اذیت دینی ہے‘‘۔
معصوم بچے سے تمہارا حسد تمہیں بکواسیات کا ماہر ثابت کر رہا ہے۔
ہجوم میں ایان کے کئی ماتحت اس کی حمایت میں زور زور سے چلا رہے تھےاور کمزور انسان پر ہنس رہے تھے۔ علی روئی بے چین تھا۔ لوہے کے پنجرے کو کھلتا دیکھ کر اس نے اپنے بازو اٹھائے اور چیخا:
’’نیرنگ آباد‘‘۔
یہ نعرہ فوراً ہی میدان میں نیرنگ آباد کے لوگوں کی طرف سے گونج اٹھا،’’نیرنگ آباد، نیرنگ آباد‘‘تیزی سے بلند ہونا شروع ہو گیا اور طنزیہ قہقہو ں پر چھا گیا۔
علی روئی نے ایان کومزید اشتعال دیا:
’’حقیرآدمی! زور سے بولو۔ مجھے تمہاری آواز نہیں آ رہی‘‘۔
ایان نے یہ سوچا بھی نہیں تھاایک انسان کےاعصاب اتنے مضبوط ہوں گے۔ اسےغصہ آنے ہی والاتھا کہ پنجرہ کھل گیا۔ اگرچہ دونوں وائیورنز مکمل طور پرسدھائے ہوئے تھے، پھر بھی وہ لوہے کی زنجیروں سے بندھے ہوئے تھے۔ دونوں لیچوں نے انہیں احتیاط سے باہر لے جاتے ہوئے انہیں کھانا کھلایا۔ وائیورنز پنجرے سے باہر آئے اور دھیمی آواز میں دھاڑنے لگے۔ ان کی سخت اور خونخوارشکل خوفناک تھی۔
ایان چونک کر رہ گیا۔ اس نےdetoxification کی گولی نگل لی اور خفیہ طور پر ایک دفاعی طاقت تیار کی۔ وہ ان میں سے ایک کی طرف بڑھا اوربیسٹ ایمنگ کے ساتھ رابطے کا طریقہ استعمال کیا، پھر اس نے لیچ سے تازہ گوشت کا ایک بڑا ٹکڑا لیا اور تعلق بڑھانے کے لیے اسےوائیورن پر پھینک دیا۔
علی روئی پہلے ایک لمحے کے لیے ہچکچایا، پھر اس نے اپنا سب کچھ داؤ پر لگانے کاسوچا اور کیگو نامی وائیورن کے چہرے کی طرف لپکا۔ اس نے ایان کی طرح کھانا نہیں پھینکابلکہ پکڑاور اسے دے دیا۔ یہ بیسٹ ایمنگ میں دیومالائی درندوں کے قریب جانے کا سب سے مؤثر طریقہ تھا لیکن سب سے زیادہ خطرناک بھی تھا اور وائیورن جیسے جانور کے آگے تو بہت ہی خطرناک ہو سکتاتھا۔
اس جرات مندانہ اقدام سے سامعین کے پسینے چھوٹ گئے۔ جب وائیورن قدم قدم پر انسان کی طرف بڑھا تو میدان مکمل طور پر خاموش ہو چکا تھا۔
وائیورن کی خونخوار نگاہیں کچھ دیر سر جھکائے ہوئے انسان کوایسے گھورتی رہیں جیسے انسان کا گوشت اس سے زیادہ لذیذ ہو۔
فلورا گھبرا گئی۔ وہ جلدی سے باہر نکلنے ہی والی تھی کہ اس نے دیکھا کہ وائیورن نے آہستہ آہستہ اپنا سر نیچے کیا، تازہ گوشت کے بڑے ٹکڑے کے قریب گیا اور اسے کھانے لگا۔ علی روئی کے ہاتھ بالکل محفوظ تھا۔ سانس روکے ہوئے ہجوم سے اچانک آوازیں بلند ہوئیں۔
علی روئی پر سکون تھا۔ وہ کیگو کو <Analytic Eyes> کے ذریعے بہتر طریقے سے کاٹنے کا کہتا رہا۔ وہ دل ہی دل میں خوش تھا کہ حکمت عملی واقعی کامیاب رہی۔ ڈیمن بہادر جنگجوؤں کا سب سے زیادہ احترام کرتے تھے۔ میدان کا ماحول اپنےعروج پر پہنچ گیا۔ اگرچہ ایان انسان کو ملنے والی حمایت پرحسد میں مبتلا تھا لیکن اس نے علی روئی کی طرح خطرناک اور خونخوار دیومالائی درندے کو کھانا کھلانے کے لیے اپنے ہاتھ کھونے کا خطرہ مول نہیں لیا۔
علی روئی وائیورن کے پچھلے حصے پر چڑھ گیا۔ وائیورن چیخا، پروں کو پھڑپھڑایا اور آسمان کی طرف اڑنے لگا۔ ایان پیچھے نہیں رہنا چاہتا تھا۔ اس نےبھی ہمت کی اور دوسرےوائیورن پر سوار ہو گیا۔ دونوں تیزی سے بلند ہوتے گئے اور تیسراراؤنڈباضابطہ طور پر شروع ہوا۔
ایان نے اپنی بیسٹ ایمنگ کو پوری طرح سے استعمال کیا۔ اڑنے والے جانور کو قابو کرنے کی پوری کوشش کی اور ایک خاص اونچائی تک اڑ کراپنے حریف کا مقابلہ کیا جس سے وہ نفرت کرتاتھا۔ یہ انسان محبت میں اس کا سب سے بڑا حریف تھا۔
’’میں اس دن کا طویل عرصے سے انتظار رہا‘‘۔
ایان نے سوچا وہ اپنے ہاتھوں سےاپنے حریف کو مارے گا۔ اپنے دبے ہوئے غصے کو نکالنے کا اس کے پاس پہلا موقع تھا۔
’’میں تمہیں فلورا کے سامنے کٹے ہوئے گوشت کے ڈھیر میں بدل دوں گا‘‘۔
علی روئی اس کی بکواس پر ردعمل ظاہر کرنے میں بہت سست تھا۔ اس آدمی نے ظاہر ہے محبت کی نفسیات کبھی نہیں سیکھی۔ میں واقعی نہیں جانتا کہ اس کا دماغ کیسے سوچتا ہے۔ فلورا کے قریبی دوست کو مارے گا تو فلورا اس کے قریب ہو جائے گی؟ کوئی تعجب نہیں کہ فلورا اس سےمتنفر ہوجائے۔
وائیورن کو کنٹرول کرنا آسان نہیں تھا۔ جب دو وائیورنز آسمان پر بلند ہوئے، تو انہوں نے اپنی پیٹھ پر سوار کی مزاحمت کرتے ہوئے بے چین دھاڑیں مارنا شروع کر دیں۔ اگر ان وائیورنز میں برداشت کا مادہ نہ ہوتا تویقیناً ان دونوں کاسر کاٹ کھاتے۔ یہاں تک کہ ایان کےلیے بھی یہ کام آسان نہیں تھا۔ وہ خوفناک جھٹکے سے خوفزدہ ہو گیا۔ اس نے پہلے ہی اپنی خفیہ جمع شدہ طاقت کو متحرک کر دیا تھا۔ جب اس نے اپنے وائیورن کی غیر معمولی حرکت کو دباتے ہوئے توازن برقرار رکھنے کی کوشش کی تو اس کا جسم ہلکی سی سرخ چمک میں دب گیا۔ یہ دونوں وائیورونز ابھی بچپن میں تھے۔ اگر واقعی ہائیر ڈیمن کی سطح پر پہنچ گئے تو ایان کی طاقت وائیورن کو بالکل بھی دبانے کے قابل نہیں ہوگی۔
دوسری طرف علی روئی کی حالت اور بھی خراب تھی۔ انسان میں طاقت کم تھی۔ وہ صرف وائیورن کی گردن کو شدت سے پکڑے ہوئےخود کو گرنے سے بچانے کی کوشش میں وقتاً فوقتاً چیخ رہا تھا۔ جب علی روئی نے بہادری سے گوشت کھلاکر وائیورن کو آسمان پر چڑھایا تو یوسف کو کچھ شک ہوا۔ جب اس نے علی روئی کی شکل دیکھی تو اس کی پریشانی دور ہوگئی۔ اس کی آنکھوں میں حقارت ہی حقارت تھی۔
شمائلہ اور دیگر کا دل اچانک پریشان ہونے لگا۔ فلورا کا جسم نادیدہ طور پر شعلوں میں جلنے لگا۔ وہ اسے جلد سے جلد بچانا چاہ رہی تھی۔ سامعین کی نظروں میں دونوں حیوانو ں کے ساتھ آسمان پر اناڑیوں کی طرح پیش آ رہے تھےاور ایک بار بھی ایک دوسرے پر حملہ آور نہیں ہوئے تھے۔ تاہم کوئی بھی ان پر نہیں ہنسا کیونکہ وہ سب سے طاقتور اڑنے والے دیومالائی درندے پر بغیر کسی معاون آلات کے سوار تھے۔
علی روئی بے چین دکھائی دے رہا تھا،لیکن اپنے دماغ میں کیگو کے ساتھ دائیں بائیں تین دائرےلگا کر تال گن رہا تھا۔ تھوڑی دیر بعد تریاق کا وقت گزر گیا۔ اس نے محسوس کیا کہ ڈریگن کے زہریلے مادے آہستہ آہستہ حفاظتی طاقت پر حملہ آورہونےلگےہیں۔ اس نے مایوسی کے ساتھ اپنےوائیورن پر زور سے گھونسا مارا۔ وائیورن کچھ دیر غصے سے گرجتا رہا اور اس کے مخالف وائیورن نے بھی اسی طرح کی آواز نکالی۔ پھر ایان کا وائیورن فرمانبرداری کے ساتھ علی روئی کی طرف لپکا۔ علی روئی کے اردگرد لگائے دائروں کی ایان کو توقع ہی نہیں تھی اس لیے وہ خوش تھا۔ اگرچہ تریاق ختم ہو چکا تھا لیکن وہ انسان کے مرنےتک اپنی طاقت سے زہر کا مقابلہ کر سکتا تھا۔
علی روئی نے اسے دیکھا اورسختی سےاپنے وائیورن کوبڑھنےکی تاکید کی لیکن وہ لاتعلق تھا۔ تماشبین اچانک گھبرا گئے۔ یوسف کے کا حلق سوکھا ہواتھا۔ اسے انسان کی مسخ شدہ لاش دیکھنے کی جلدی تھی۔
جب ایان کا وائیورن قریب آیا تو عجیب معاملہ ہوا۔ ایان کا وائیورن مگدا جوعلی روئی کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اچانک ڈھیلا پڑ گیا اورمڑ کرپیٹھ پر بیٹھے ایان کی طرف اپنے ساتھی کو متوجہ کیا۔ کیگو نے اپنا منہ کھولااور اسے کاٹا، یہ بہت اچانک ہوا۔ ایان نے تیزی سے خود کو تو بچا لیالیکن اس کے کاندھےموجود چمڑے کی بکتر کیگو نے پھاڑ دی۔ آسمان میں موجود وائیورنز نے ایان پر شدید حملہ کیا۔ تماشبین اس غیر متوقع تبدیلی کو دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ پچھلی اسکائی بیٹل میں ایسا عجیب منظر کبھی نہیں تھا۔
’’ بیوقوف!‘‘۔
یوسف کی مسکراہٹ اچانک غائب ہو گئی۔ وہ خاموشی سے بیٹھ نہیں سکتا تھا، سو کھڑا ہوگیا۔ اگرچہ یہ واقعہ ناقابل یقین تھا لیکن وہ واضح طور پر دیکھا جا سکتا تھا کہ انسانی شاگرد نے کوئی ذریعہ استعمال نہیں کیا۔ وہ ڈر کے مارے وائیورن کی گردن پکڑے بیٹھا تھا۔ واضح تھا کہ ایان جیتنے کے لیے بہت بے تاب ہے۔ اس نے اپنے وائیورن کو غصہ دلایا تاکہ اپنےساتھی کو بدلہ لینے کےلیےاکسائے۔ ایان کے جسم میں سرخ شعلہ نمودار ہوا۔ اس نے تھوڑی دیر مزاحمت کرنے کی کوشش کی لیکن آخر کار مگداکے جھٹکے برداشت نہ کرسکا اور آسمان سے گر گیا۔ وہ ایک گریٹ ڈیمن تھا۔ اس کا جسم ہوا میں اڑا اور خفیہ تکنیک استعمال کرتے ہوئے غائب ہو گیا اور کچھ دیر بعد زمین پر نمودار ہوا۔
اس وقت ایان بہت اداس لگ رہا تھا۔ جسم چونکا دینے والے زخموں سے بھرا ہوا تھا اور اس کا شعلہ پہلے ہی غائب ہو چکا تھا۔ زرہ بکتر بھی پھٹ چکی تھی اور اپنی معمول کی طاقت کھو بیٹھا۔ چند قدم لڑکھڑایا، زخموں پر زہر اثر کرنے لگا۔ آخرکار وہ زہر برداشت نہ کرسکا اور زمین پر گر گیا۔
وائیورن کے اترنے کے بعد کیگو کی پشت پر موجود علی روئی بھی اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکا لڑھک کر زمین پر گر گیا۔ وہ خاصا خوفزدہ لگ رہا تھا۔ اس کا چہرہ پیلا ہو گیا تھا۔ اس کے پاؤں کمزور تھے۔ وہ اس وقت اٹھ نہیں سکتا تھا۔ فلورا اور دوسرے لوگ جلدی سے اس کے پاس پہنچے۔
دونوں وائیورنز نےدوبارہ جانے سے انکار کر دیا۔ وہ ایان پر حملہ جاری رکھنا چاہتے تھے۔ لیچ تیزی سے آگے بڑھی اور انہیں پکڑ لیا۔ لیچوں کے آرام کا خیال کرتے ہوئے دیومالائی درندوں نے دھاڑنا بندکر دیا۔ ان کا غصہ بالآخر تھم گیا اور فرمانبرداری کے ساتھ اپنے پنجرے میں واپس چلے گئے۔ اس منظر کو دیکھ کر یوسف کو یقین ہو گیا کہ ایان ٹھیک سے سواری نہیں کر رہا تھا۔ اس نے ان دونوں وائیورنز کو غصہ دلایا۔ اس کے ذہن میں اس ناخلف کے لیے نفرت تھی جس نے اس کے منصوبے کو ناکام بنا دیا تھا اور جو قرعہ اندازی شروع میں یقینی تھی اب ختم ہو گئی۔
ایان کا پس منظر کارون فیملی تھا جو شہزادہ شوالہ کے ماتحت ایک بڑی شخصیت تھی، اس لیے یوسف کی پرواہ نہیں تھی۔ اس نے دانت پیس کر اپنے ماتحتوں کو ایان کو علاج کے لیے لے جانے دیا۔
’’میں ٹھیک ہوں‘‘۔
علی روئی فلورا اور شمائلہ کی مدد سے بڑی مشکل سے کھڑا ہوا۔ جب اس نے اپنا سر نیچے کیا تو اس کی آنکھوں میں فخر کا اشارہ چمکا:
’’شروع میں صرف مگدا کو جھٹکا دے کر ایان کو گرانا چاہتا تھا۔ کون جانتا ہے کہ ایان اتنا بتائے گا کہ اس نے مگدا کو ناراض کیااس لیے اس کا شکاربنا۔ شمائلہ علی روئی کو حوصلہ دینے کے بعدمیدان کے مرکز میں آئی اور ایمپلیفائر میں پرجوش انداز میں کہا:
’’اس اسکائی بیٹل کی آخری فتح ہماری نیرنگ آباد اسٹیٹ کی ہے‘‘۔
گھر پر جیت کے نتیجے نے فطری طور پر حاضرین کا پرجوش ماحول اپنے عروج پر پہنچا دیا۔ لوہار زیک نے جوش میں آکر اپنے پاس موجود ڈیمنوں سے کہا:
’’کیا تم جانتے ہو؟ وہ انسان زیک کا دوست ہے‘‘۔
اگر یہ جملہ میچ سے پہلے کہا جاتا تو یقیناً ہر کوئی زیک کو حقیر سمجھتا لیکن اسے اب عزت مل چکی تھی۔ اگرچہ علی روئی اپنی قسمت سے جیت گیا لیکن اس عرصے کے دوران جس ہمت کا مظاہرہ کیا وہ واقعی قابل تعریف تھا۔ اس میچ نے نیرنگ آباد کے لیے ایک اہم فتح حاصل کی جسے ڈیمنوںکی اکثریت نے تسلیم کیا تھا۔ شمائلہ نے فخر سے کہا:
’’یوسف! معاہدے کے مطابق اصل شرط کے علاوہ دونوں وائیورنز میرے ہیں۔ اس کے علاوہ جلد سے جلد محل میں100 اعلیٰ قسم کے وائن سٹونزبھیجنا یاد رکھنا‘‘۔
’’سب سے پہلے نیرنگ آباد کو یہ فتح حاصل کرنے پر مبارکباد۔ میچ صرف ایک رسمی ہے۔ مقصد دونوں اسٹیٹس کے درمیان دوستی کو بڑھانا ہے۔ سرمانی سلطنت اور نیرنگ آباد بہن بھائیوں کی طرح قریب ہیں، ننھی شہزادی یقین دہانی کر سکتی ہے۔ ایلوین کا خاندان ہمیشہ اپنا وعدہ پورا کرتا ہے لیکن اعلیٰ معیار کے وائن سٹونز کا ذخیرہ محدود ہے۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ اسے ایک ماہ کے اندر محل بھیج دوں گا‘‘۔
یوسف کے پاس اور کچھ باقی نہ رہا تو اس نے اپنے رویےسے سب کے دل جیت لیے۔ حقیقت میں مالیاتی افسر کا خون کھول رہا تھا۔ دو وائیورونز اور سو اعلیٰ ترین معیار کے وائن س سٹونز اور سرمانی سلطنت کی دولت سے ہاتھ دھونا، اس نقصان کوبرداشت کرنا اس کے بس میں نہیں تھا۔ گزشتہ سالوں میں ایسی ناکامی کاسامنا کرنا اس کےلیے پہلی بار تھا۔ اس کے والد لارڈ جوش یقیناً غصے میں ہوں گے لیکن وہ اس وقت اپنی شکست تسلم کر چکا تھا۔
سرمانی سلطنت سےآنے والے خصوصی ایلچی کا چہرہ اتراہوا تھا۔ اس نے بوڑھے طاؤس کی دعوت ٹھکرا دی۔ وہ یوسف کے پاس آیا، یوسف اس سے آنکھیں نہیں ملا سکا۔ اس کی آنکھیں ٹھنڈی روشنیوں سے چمک رہی تھیں، وہ خاموش تھا۔
شمائلہ نے یوسف سے کچھ کہے بغیر گارڈز کو حکم دیا کہ وہ لوہے کے پنجرے کو ہٹا دیں جس میں وائیورنز موجود تھے۔ اس کے بعد وہ فلورا اور دیگر لوگوں کے ساتھ قہقہے لگاتے ہوئے چلی گئی۔
گیارہواںباب
برف میں ذرا سی آگ
عورت کے سرد رویے سے مایوس ہونا اچھی بات نہیں
میدان سے باہر نکلتے ہوئے شمائلہ جشن منانے کے لیے لیب میں ہاٹ پاٹ کھانے کی تجویز دے رہی تھی۔ پھر بوڑھا طاؤس اچانک آگے بڑھا اور ننھی شہزادی سے کچھ سرگوشی کی۔ شمائلہ نے حیرت سے سر ہلایا اور علی روئی سے کہا:
’’میری بہن ہم دونوں کو دیکھنا چاہتی ہیں۔ چلو بعد میں جشن مناتے ہیں‘‘۔
’’دوبارہ بلایا ہے؟؟؟‘‘۔
باغ میں ہونے والے خوفناک واقعے کے بعد سے علی روئی نے اقابلہ کو کبھی نہیں دیکھا تھا۔ یہ سن کر کہ شہزادی اقابلہ نے اسے دوبارہ بلایا۔ وہ کچھ نہیں کر سکا لیکن گھبرا گیا۔
بوڑھا طاؤس شمائلہ اور علی روئی کو محل کے کونسل ہال اپنے ساتھ لے گیا۔ جب شمائلہ نے اقابلہ کو دیکھا تو اس نےاس فتح پر خوشی کا اظہار کیا جو ابھی ابھی حاصل ہوئی تھی۔
’’یہ جیت علی روئی کی بدولت ہے‘‘۔
شمائلہ نے علی روئی کی طرف اشارہ کیا اور کہا:
’’میں نے اسے وائن سٹونز کے50ٹکڑے دینے کا وعدہ کیا ہے۔ بہن !مجھے اضافی انعام دینے کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔
’’وہ حتمی فتح حاصل کرنے میں خوش قسمت تھا، جادوگر نہیں ہے اس لیے وائن سٹونزاس کے لیے بیکار ہیں‘‘۔
اقابلہ نے سر ہلا کر ایک ہی جملے میں انسان کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔
’’شمائلہ! تم نے آج اچھا۔ کیا! تم نے نہ صرف بہت سارے کالے کرسٹل سکے جیتے ہیں بلکہ بہت زیادہ قیمتی وائیورنز اور وائن سٹونز بھی۔ سٹونز کے10 پتھر اور500 سیاہ کرسٹل سکے تمہارے۔ باقی کو محل کے خزانےجمع کروا دو‘‘۔
علی روئی غصے میں تھا۔
’’کتنی بری بات ہے۔ ظالم عورت 90فیصد شرط نگل لیتی ہے۔ میری محنت رائیگاں گئی۔ دکھ تو یہ ہے کہ وائن سٹونزمیرے ہی تھے، یہ سسٹم کےلیے انرجی ہے!‘‘۔
علی روئی ناراض تھا۔ <Analytic Eyes> نے ظاہر کیا کہ اقابلہ کی طاقت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ وہ کم از کم یوسف جیسے مضبوط شخص کی سطح پر تھی۔ چونکہ وہ اس کے علاقے میں تھا، اس لیے اسے ہار ماننی پڑی۔
’’بہن!‘‘۔
شمائلہ اپنی آنکھوں سے لرزتی ہوئی قابل رحم روشنی سے کانپ گئی:
’’مایا!تم اتنی ظالم نہیں ہو سکتی؟ یہ میری محنت ہے۔۔۔۔۔ وائن سٹونز کا آدھا حصہ مجھے دو اور وائیورنز کے بارے میںمجھے ابھی تک ان کے ساتھ کھیلنے کا موقع نہیں ملا ‘‘۔
’’8بیل پتھر، 400 سیاہ کرسٹل سکے‘‘۔
اقابلہ مزید کچھ دینے کی بجائے اس کا انعام کم کرنا شروع کر دیا۔
’’وووو، کیا !باپ نے مجھے تاریک برساتی جنگل سے تو نہیں اٹھایا، تو میں آپ کی حقیقی بہن نہیں ہوں؟‘‘۔
’’7 بیل پتھر،300 سیاہ کرسٹل سکے!‘‘۔
’’یہ بہت کم ہے۔ میں 50 وائن سٹونزلوں گی۔ یہ زیادتی ہے‘‘۔
’’6 بیل پتھر اور200 سیاہ کرسٹل سکے‘‘۔
اپنی بے رحم بہن کا سامنا کرتے ہوئے ننھی شہزادی کی لاڈ کرنے کی اداکاری بے اثر تھی۔ آخرکار وہ صرف 2بیل پتھروں اور 200 سیاہ کرسٹل سکوںکی حقدار ٹھہری۔
علی روئی شمائلہ کے لیے پریشان تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ پیسے کا لالچ لوسیفر خاندان کے خون میں رچا بسا ہے۔ ہر کوئی اس معاملے میں ایک دوسرے کےلیے بے رحم ہے۔
’’یہ بات ہے، شمائلہ!تم آرام کرو مجھے علی روئی سے کچھ کہنا ہے۔
ایسا لگتا تھا اقابلہ نے شمائلہ کو اپنی بہن کی محنت لوٹنے کے لیے بلایا ہے۔ ننھی شہزادی مڑی اور مایوسی سے وہاں سے چلی گئی اور اقابلہ نے اچانک کہا:
’’یاد رکھنا! اگلی بارتم دوبارہ کبھی اپنے آپ کو اس طرح خطرے میں نہیں ڈالو گے‘‘۔
’’Hmph‘‘۔
ننھی شہزادی مزید کچھ کہےسنے بغیرپیچھے مڑ کرکونسل ہال سے چلی گئی۔
’’شمائلہ کو دوسرا راؤنڈ کھیلنے دینا… کیا تمہارےخیال میں درست تھا؟‘‘۔
اقابلہ کی سرد آواز علی روئی کے کان میں پڑی۔
’’تمہارا مقصد جو بھی ہو، یہ آخری بار ہوا ہے‘‘۔
اقابلہ کی آواز سرد سے سرد ہوتی جا رہی تھی۔
’’شمائلہ بہت مہربان اور سمجھدار لڑکی ہے۔ میں تمہیں اس کو استعمال کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دوں گی‘‘۔
علی روئی نے اپنا سر جھکا لیا، اور وہ دل ہی دل میں اس کی تحقیر کر رہا تھا۔ ، واقعی ایک اچھی بہن ہے۔ اس نے لالچ سے شمائلہ کی جائیداد کو لوٹ لی، اوپر سے اس کی محافظ بہن ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔ وہ اقابلہ کے لیے تھوڑا سا لطیف احساس رکھتا تھا لیکن اب صرف حقارت تھی۔
بہت زیادہ سوچ کے باوجود علی روئی اس کی کوئی مدد نہ کر سکا،وہ غصے سے گویا ہوا
’’میں صر ف ننھی شہزادی کی گیم جیتنے میں مدد کرنا چاہتا تھا۔ میرااور کوئی مقصد نہیں۔ اگر شہزادی اقابلہ اپنی بہن کا خیال رکھتی ہے، تو پھر ایسا کیوں کیا؟‘‘۔
اقابلہ کی آنکھوں میں حیرت تھی۔ وہ شمائلہ کے لیے علی روئی کی غصےبھری تقریر سے حیران تھی۔ اس نے اچانک ایک آہ بھری اور دھیمے لہجے سے کہا:
’’تم نہیں سمجھو گی شمائلہ !اس نے جان بوجھ کر ایسا کیا‘‘۔
’’جب بھی اس نے کچھ پیسہ کمایا جان بوجھ کر مجھے دکھاتی ہے اور میرے پیسے ضبط کر لیتی ہے‘‘۔
اقابلہ نے دھیرے سے منہ موڑ لیا۔
’’ویسے تو میں اس کی مدد کرتی ہوں۔ لیکن ایک نااہل بہن کے لیے کچھ نہیں کر سکتی‘‘۔
علی روئی ایک دم چونک گیا۔ اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ ننھی شہزادی کوپیسے سے اتنی زیادہ محبت ہو سکتی ہے۔ وہ عجیب سی دکان، سالانہ اسکائی بیٹل، بیل کے دو پتھر جو اسے دیے گئے تھے۔۔۔۔ علی روئی کو اچانک بہت کچھ سمجھ آگیا۔
جیسا کہ اقابلہ نے کہاکہ شمائلہ بہت مہربان اور سمجھدار ہے۔ شاید یہ ننھی شہزادی کے کالے دل، بے وقوفی اور لالچ میں چھپی ہوئی صفات تھیں‘‘۔
اقابلہ کافی دیر تک خاموش رہی اور دوبارہ بولی:
’’شمائلہ! تم میرے دل کےقریب ہو‘‘۔
علی روئی کو اس بات پر کوئی تعجب نہیں ہوا۔ کیونکہ یہاں پکوان مزے کی چیزیں اور سننے کے لیے کہانیاں تھیں۔ ایسا قابل قدر وزیر کسی کو کہاں ملے گا؟۔
’’یہ صرف ایک عام قربت نہیں ہے۔ سوائے فلورا کے کوئی بھی اسے ایسا کرنے نہیں دے سکتا‘‘۔
اقابلہ اچانک واپس مڑی اور اس کی جامنی آنکھیں سفید ہو گئیں۔
’’میں تمہیں خبردار کرتی ہوں جو چال تم نے پچھلی بار میرے سامنے استعمال کی تھی وہ شمائلہ پر کبھی مت آزماناورنہ تمہیں مارنے سے کسی قیمت پر نہیں ہچکچاؤں گی۔ ننھی شہزادی کو بہکانے کی غلطی مت کرنا اور میں اس بات سے غافل نہیں ہوں‘‘۔
علی روئی نے کھلے طور پر قاتلانہ ارادے کو محسوس کیا، وہ گھبرا گیا۔ اس نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اپنا سر ہلایا اور کہا:
’’میں قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ میرا ننھی شہزادی کے لیے کوئی برا ارادہ نہیں ہے۔ اگر ذرا سا بھی جھوٹ ہے تو شہزادی اقابلہ کی سزا قبول کرنے کو تیار ہوں۔ اگر شہزادی اقابلہ اب بھی پریشان ہے تو میں کل سےننھی شہزادی کے ساتھ تمام معاملات سے دستبردار ہوتا ہوں‘‘۔
اقابلہ اور اس نے ایک لمحے کے لیے ایک دوسرے کو دیکھا اور آخر کار اس نے تسلیم کرتے ہوئے سر ہلایا اور کہا:
’’یہ ٹھیک ہے، مجھے پتہ ہے کہ شمائلہ تمہارے ساتھ بہت خوش ہے۔ فلورا سے پہلے اس کا کوئی بھی دوست نہیں تھا۔ اسے خوش رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرو‘‘۔
’’سمجھ گیاشہزادی اقابلہ !‘‘۔
دونوں کے درمیان غلط فہمی دور ہونے کے بعد علی روئی کا موڈ کافی بہتر ہو گیا۔
’’شمائلہ کی باتوں کو چھوڑ، میچ کے تیسر راؤنڈ کا حال نہیں بتاؤ گے؟‘‘۔
اقابلہ بیٹھ گئی۔
’’اگر تم میچ کےلیے منصوبہ بندی نہ کرتے تو میرا حال بھی یوسف کی طرح ہوتا۔ کیا وائیورنز کے ساتھ راؤنڈ ایک حادثہ تھا۔ اس بارے میں میری الجھن ختم کرو‘‘۔
علی روئی کو توقع نہیں تھی کہ اقابلہ اس معاملے کے بارے میں پوچھے گی لیکن شمائلہ، فلورا اور حکیم الداس کے سوالوں کے جواب اس نے ذہن میں سوچ لیے تھے۔
’’شہزادی اقابلہ !میں اس بارے میں آپ کو بتانا چاہتا تھا‘‘۔
علی روئی نے کچھ دیر سوچا اور جواب دیا:
’’دراصل گرینڈ حکیم کی وراثت کل زیادہ ہی بیدا ر ہوئی جس سےمیں نے ایک نیا گر سیکھا‘‘۔
اب اس کے بارے میں سوچنا عظیم الشان حکیم کا جھوٹ بالکل درست تھا۔ سپر سسٹم کی طرف سے لائی گئی کچھ تبدیلیوں کا احاطہ کرنا بہت ضروری تھا‘‘۔
اقابلہ کی اس طرف کی طرف متوجہ ہوئی۔ علی روئی نےاپنی بات جاری رکھی:
’’یہ قابلیت دیومالائی درندوں کے ساتھ گفتگو کرنے میں مدد دیتی ہے۔ اگر یہ نہ ہوتی تو مجھے ان کے پاس جانے کی ہمت ہی نہ ہوتی‘‘۔
’’مجھے سب معلوم ہے۔ ایان پر آسمان پر حملہ کرانا تمہاری حکمت عملی تھی جو قابلِ تعریف ہے‘‘۔
اقابلہ کو اچانک خیال آیا:
’’ کیا تمہیں وائن سٹونز کی ضرورت گرینڈ حکیم کی وراثت کی وجہ سے ہے؟؟‘‘۔
علی روئی اس کی گہری سوچ سے بہت متاثر ہوا اور بولا:
’’آخری بار جب میں ننھی شہزادی کی دکان پر گیا تو مجھے پتہ چلا کہ وراثت کی طاقت وائن سٹونزکو جواب دیتی ہے۔ ننھی شہزادی نے مجھے2ٹکڑے دیے۔ بعد میں وائن سٹونز کی طاقت میرے لیے اچھی ثابت ہوئی۔ اسی کی وجہ سے گرینڈ حکیم کی وراثت تھوڑی سی بیدار ہوئی۔ اس سے پہلے یہ بیداری غیر مستحکم تھی۔ بیسٹ ایمنگ کا موثر وقت بہت کم ہے۔ اس طرح مجھے اس نئی حاصل شدہ صلاحیت کو بڑھانے اور مستحکم کرنے کے لیے مزید بیل پتھروں کی ضرورت ہے۔
علی روئی نے سوچا کہ اس کا بہانہ بالکل درست ہے۔ چونکہ اقابلہ کے لیے میں بہت قیمتی ہوں اس لیے اسے کم و بیش بیل کے کچھ پتھر مہیا کرنے چاہئیں۔
اقابلہ کو گرینڈ حکیم کی وراثت پر مکمل یقین ہو گیا تھا اس لیے وہ سنجیدگی سے سوچنے لگی۔ بیسٹ ایمنگ متاثر کن ہے۔ یہ وائیورن جیسے دیومالائی درندے پر بھی کام کر سکتا ہے۔ اگر اسے صحیح طریقے سے استعمال کیا جائے تو یہ ایک غیر متوقع طاقت ہوگی۔ جس چیز کو نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے وہ یہ ہے کہ یہ گرینڈ حکیم کی وراثت کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ اگر مستقبل میں۔۔۔
’’میں تمہیں وائن سٹونز کی بڑی مقدار فراہم کر سکتی ہوں‘‘۔
اقابلہ نے کہا:
’’مجھے صرف ایک ڈرہے کہ تم آنےوالے وقت میں اپنی صلاحیت کے ساتھ میرے قابو سے باہر ہو جاؤ گے۔ آئی پی نے بطور گرینڈ شاگرد تمہارے ساتھ تحریری معاہدہ نہیں کیا لیکن میں کروں گی‘‘۔
’’تحریری معاہدہ؟؟؟، دن میں خواب مت دیکھیں‘‘۔
علی روئی نے اونچی آواز میں طنز کیا۔ بولا:
’’ایک شہزادی دوسری شہزادی کو مارکرمعاہدہ منسوخ بھی کر سکتی ہے‘‘۔
علی روئی جانتا تھا کہ معاہدے کی طاقت حیرت انگیز ہے۔ ایک عام آدمی صرف ایک جسم میں لے جا سکتا تھا لیکن اس کا جسم بہت عجیب تھا۔ شاید یہ سپر سسٹم کی وجہ سے تھا، سنکھیارکے ساتھ علامتی معاہدے کے علاوہ اس نے چلبل کے ساتھ حکیم سرونٹ کا معاہدہ بھی کیا لیکن دونوں معاہدوں کے درمیان کوئی تنازعہ نہیں تھا۔ اب وہ کمزور نہیں تھا کہ کوئی اس کے ساتھ پنگا لے سکے۔ اگر کوئی ایسی ویسی صورت حال بنتی تو وقتی طور پر مہذب بننے کی کوشش کرتا لیکن بعد میں اپنی اصلیت پر آجاتا۔
اقابلہ کی آنکھیں چمک اٹھیں:
’’کیا تمہیں لگتا ہے کہ میں ایسا کر سکتی ہوں؟‘‘۔
’’شہزادی اقابلہ واقعی ایسا کرنا چاہتی ہے؟‘‘۔
علی روئی نے کوئی تبصرہ نہیں کیا لیکن پوچھا:
’’آپ نے حکیم الداس کو اس وقت حکیم سرونٹ کنٹریکٹ پر دستخط کرنے پر مجبور کیوں نہیں کیا؟‘‘۔
اقابلہ اس کی با ت کا مطلب سمجھ گئی اس لیے خاموش رہی۔
معاہدہ کی طاقت بہت بڑی ہےلیکن یہ طاقت کسی دیوتا یا خدا کی طرح ایک جگہ قائم نہیں رہ سکتی۔ ایک بار جب گرینڈ حکیم کی وراثت مکمل طور پر بیدار ہو جاتی ہےتو معاہدہ کسی پابندی کا محتاج نہیں رہتا۔ مجھے ان بہانوں میں سے کسی نہ کسی پر یقین کرنا چاہئے جو تم نے پچھلی دفع باغ میں کیے تھے‘‘۔
اقابلہ کی نظریں اس کے چہرے پر تھیں۔ وہ گویا ہوئی:
’’یہی وجہ ہے جو میں نے تمہیں تلاش کیا۔ تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘۔
’’شہزادی اقابلہ کو اب بھی لگتا ہے کہ میں بہانے کررہا تھا۔ میں مانتا ہوں کہ میرے ذہن میں کچھ ایسے خیالات تھے جو نہیں ہونے چاہیے تھے، لیکن میری کوئی ایسی خواہش نہیں تھی۔ میں بس یہاںرہنا چاہتا ہوں۔ میرا پہلے بھی یہی ارادہ تھا اور مستقبل میں بھی ایسا ہی ہوگا‘‘۔
علی روئی نےاس خوبصورت غلط فہمی کو دور کرتے ہوئے اقابلہ کی آنکھوں میں دیکھا۔ اقابلہ نے نظر چراتے ہوئے کہا:
’’واقعی؟‘‘۔
’’ہاں، لیکن نیرنگ آباد کی موجودہ صورتحال بہتر نہیں ہے۔ اگر شہزادی اقابلہ غلط شخص پر بھروسہ کرتی ہے تو اس کابھیانک نتیجہ نکل سکتا ہے‘‘۔
اقابلہ نے محسوس کیا کہ اس کی سوچ بہت گہری ہے۔ وہ جو کر سکتا ہے اس سے جان چھڑوا نا چاہتا ہے اور جو نہیں کرنا چاہتا تھا اس پر دوسروں کو موردِ الزام ٹھہرا رہا ہے۔ یہ بھی ایک امتحان ہو سکتا ہے۔
کافی دیر بعد اس کی نظریں اٹھیں:
’’غلط شخص پر یقین کرنا نہ کرنے کے برابر ہے۔ اگر میں یہ سارا خطرہ مول لیتی ہوں تو میرے لیے مشکلات بڑھیں گی۔ میں تمہیں سکریٹری مقرر کرنے کا ارادرہ رکھتی ہوں۔ تمہیں یہ قبول ہے؟‘‘۔
’’سیکرٹری؟ مرد سیکرٹری؟۔ کم از کم یہ حکیم شاگرد کے معاہدے سے بہتر ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ اقابلہ نے اسے نیرنگ آباد کی کابینہ میں باضابطہ طور پر بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
فلورا، شمائلہ، حکیم الداس اور سنکھیار بھی یہیں کی مخلوق تھے۔ چونکہ اس نے اپنے آپ کو یہاں رہنے کے قابل بنایا تھا اور زہریلے ڈریگن کی مہروں کا معاملہ ابھی چل رہا تھالہٰذا وہ صرف نیرنگ آباد اسٹیٹ میں ہی رہ سکتا تھا۔ نیرنگ آباد جتنا مستحکم اور مضبوط ہوگا، وہ اتنا ہی محفوظ ہوگا۔
علی روئی جانتا تھا کہ اقابلہ کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا سوائے اس کے کہ وہ ہار مان جائے۔ اس نے فوراً جھک کر کہا:
’’ملکۂ عالیہ کی خدمت کرنے کو تیار ہوں۔ وقت اور حقائق ثابت کریں گے کہ آپ کا یہ شاہی فیصلہ کس قدر درست تھا‘‘۔
’یہ اچھا فیصلہ ہے۔ آج تم نےسکائی بیٹل میں بہت محنت کی ہے۔ اب آرام کرو، کل سے روزانہ صبح ایک بار کونسل ہال میں رپورٹ کےلیے آنا ہے۔ طاؤس تمہیں بتا دے کا کہ کیا کرنا ہے‘‘۔
اقابلہ نے اطمینان سے کہا، پھر بولی:
’’ مجھے امید ہے کہ تم اہم امور پر بہترین مشورہ دو گے‘‘۔
علی روئی سمجھ گیا کہ سیکریٹری کا یہ منصب منشی کے عہدے کے برابر ہے۔ اقابلہ کے آج کے رویے کی وجہ سے اس نے ایک حکمت علمی کے تحت اس کے ساتھ کام کرنےکی حامی بھری تھی۔
غیر ملکی دنیا میں ایک عظیم حکمت عملی؟ علی روئی نے اپنا سر کھجایا۔ جب تعطیلات اور علاج کے بارے میں پوچھا تو اقابلہ نے اسے بتایا:
’’جب سرمانی سلطنت کے وائن سٹونزمحل تک پہنچیں گے، تو میں تمہیں60پتھر دوں گی۔ اور اگر یہ کم ہوں تو بتانا‘‘۔
60 ٹکڑے؟ وہ بھی اعلیٰ قسم کے وائن سٹونز۔ ہر ٹکڑا کم از کم 100 سیاہ کرسٹل سکےکے برابر ہے۔ جس چمک کو وہ کھوچکا تھا، دوبارہ ملنے والی تھی۔ علی روئی کی آنکھیں اس چمک سے کھل اٹھیں۔ اسے کسی علاج کی فکر نہیں تھی۔ اس کےلیے سب سے اہم دل چھو لینے والے وہ الفاظ تھے جو کبھی اقابلہ نے اسے کہے تھے۔
قطع نظر اس کے کہ وہ اسے جیتنے کی کوشش کر رہی تھی یا اپنے مردوں پر بھروسہ کر رہی تھی، اقابلہ واقعی ایک اچھی ملکہ تھی۔ سوائے ایک نقطہ کے جہاں وہ وقتاً فوقتاً لوگوں کو ’’قاتلانہ عزائم‘‘ کے ساتھ آزمانا پسند کرتی تھی۔
وائن سٹونز کے60ٹکڑے درحقیقت بہت اچھا علاج تھے۔ علی روئی نے کہا:
’’شکریہ۔ ایک بات اور بھی ہے۔ میں نے دونوں وائیورنز سے وعدہ کیا کہ وہ پنجرے سے باہر نکلنے میں ان کی مدد کرےگا۔ میں نہیں جانتا کہ ملکۂ عالیہ اسے مانتی ہے یا نہیں‘‘۔
’’تم ان کے ساتھ اس حد تک بات چیت کرسکتے ہو؟؟‘‘۔
اقابلہ نے پلک جھپکی۔
’’پوری تومانی سلطنت کے لیے وائیورنز ایک انمول خزانہ ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ یہ کہیں چلے نہ جائیں۔ تاہم اگر تم دوسروں کو ان کی حفاظت کی ضمانت دے سکتے ہو تو پنجرے سے باہر نکل کر آزادانہ گھوم پھر سکتے ہیں‘‘۔
علی روئی نے ایک لمحے کے لیے سوچا اور جواب دیا:
’’حفاظت کاکوئی مسئلہ نہیں۔ مجھے ان کے ساتھ مزید بات چیت کرنے کی ضرورت ہے۔ بات یہ ہے کہ میرے پاس اتنی طاقت نہیں ہے۔ اس کےلیے مجھے کچھ ایسے مادوں کی ضرورت ہے جو خاص توانائی فراہم کر سکیں، جیسے کہ وائن سٹونز جانور کو سنبھالنے کی مہارت کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے کے لیے۔ اگر شہزادی اقابلہ کے پاس ہے تو میں بے شرمی سے مزید مانگ رہا ہوں‘‘۔
’’ذخیرہ میں تقریباً 10 وائن سٹونزہوں گے، لیکن عام معیار کے ہیں۔ میں کاگورون کو ان سب کو آپ کے لیے لیب میں بھیج دوں گی۔ لیبارٹری کے قریب ابھی بھی بہت سارے کھلے میدان ہیں جہاں تم دونوں وائیورنز اپنےساتھ رکھ سکتےہو۔ عام لوگوں کےلیے یہ بہانہ کافی ہے کہ ان سےحکیم الداس کےلیے زہریلا مواد حاصل کرنا ہے۔ لیکن سب سے پہلے تمہیں کسی قسم کے حادثے سے محفوظ رکھنے کی ضمانت دینی ہوگی‘‘۔
’’میں سمجھتا ہوں‘‘۔
علی روئی نے 10وائن سٹونز حاصل کیے اور بہت خوش ہوا۔ اس نے کہا:
’’ملکۂ عالیہ! میں وائیورنز سے نمٹنے جا رہا ہوں اور پھر ریٹائر ہو جاؤں گا‘‘۔
اقابلہ کی طرف سے حکم ملنے کے بعد، گارڈز ’’حکیم کی تحقیق‘‘ کے مقصد سے وائیورنز کو لیبارٹری میں لے آئے۔ حکیم الداس نے جب دونوں وائیورنز کو دیکھا تو وہ واقعی حیران ہوا۔
باہر کے لوگوں کے جانے کے بعد، علی روئی نے حکیم الداس کو ’’گرینڈ حکیم وراثت‘‘ کی وضاحت کی، تب ہی حکیم الداس کو معلوم ہوا کہ تیسرا دور دراصل علی روئی کی واحد کارکردگی تھی۔ گرینڈ حکیم کی طاقت پر حیرت زدہ رہتے ہوئے، سیاہ ایلف حکیم بھی غمگین تھا کہ دوائیوں سے متعلق کوئی وراثت نہیں تھی۔
علی روئی لوہے کے پنجرے تک چلا گیا جس میں وائیورنز تھے۔ اس نے <Analytic Eyes> کو چالو کیا۔
’’کیگو، مگدا!، میں نے اپنا وعدہ پورا کیا اور تمہیں برے لوگوں سے بچایا‘‘۔
دونوں ڈریگن پنجرے میں گھوم رہے تھے اور سر کو باہر پھیلانے کی کوشش کر رہے تھے۔
’’آپ کا شکریہ، کیا آپ ہمیں باہر نکال سکتے ہیں؟؟‘‘۔
پچھلی گفتگو کی بنیاد پر، علی روئی جانتا تھا کہ وائیورن کی ذہانت گریفن سے بہتر تھی لیکن بہت زیادہ نہیں تھی۔۔ اس کے مقابلے میں جذبات پر قابو پانا آسان تھا۔ ان کا موازنہ سنکھیار جیسے انتہائی ذہین ڈریگن سے کرنا ناممکن تھا۔ خاص طور پر یہ دونوں ابھی بچپن میں تھے، اس لیے انہیں دھوکہ دینا آسان تھا‘‘۔
’’مجھے خدشہ ہے، ایسا نہیں کر سکتا۔ برے لوگ بہت حقیر ہوتے ہیں، وہ تمہیں دوبارہ پکڑنے کی حرکت کر سکتے ہیں۔ یہ جگہ سب سے زیادہ محفوظ ہے‘‘۔
وائیورنز کی ہچکی کی خوفناک آواز سے انہیں قریب سے دیکھنے والاڈر کر زمین پر بیٹھ گیا۔ علی روئی کے کانوں میں ایک اداس آواز آئی:
’’مگدا اورگیگو قاف کی پہاڑیاںواپس جانا چاہتے ہیں‘‘۔
’قاف کی پہاڑیاں‘‘۔
علی روئی کو یہ نام سنا سنا لگا۔ اسے اچانک یاد آیا کہ سنکھیار نے اس سے خزانے تلاش کرنے کے لیے ایک خفیہ غار میں جانے کو کہا تھا، اور یہ خفیہ غار قاف کی پہاڑیوںمیں تھا۔ علی روئی ایک پلان کے بارے میں سوچنے لگاپھر ایک نتیجے پر پہنچ گیا۔ سنکھیار کے مطابق قاف کی پہاڑیاں بہت خطرناک ہیں، یہاں تک کہ ایک گریٹ ڈیمن بھی مر سکتا ہے۔ علی روئی مناسب وقت اور طاقت کے انتظار میں اس منصوبےکوذہن میں قید کر لیا۔
کیگو، مگدا! تم فکر نہ کرو۔ اب ہم دوست ہیں۔ قاف کی پہاڑیاں واپس بھیجنے کےلیےمیں تمہاری ضرور مدد کروں۔ میں کوئی راستہ تلاش کرتا ہوں لیکن ابھی نہیں‘‘۔
علی روئی نے اپنا ہاتھ پنجرے میں ڈالااور دونوں وائیورنز کوتسلی دی۔ اس حرکت سے وہ حیران رہ گیا کہ وائیورنزنے اس کے ہاتھ پر اپنے سر رکھ دیے۔ سب سے زیادہ خوفناک اڑنے والادیومالائی جانور نہیں ہے۔ وہ واضح طور پر دو شائستہ ہیل ہاؤنڈز ہیں!۔
’’دوستو!میں تمہیں لوہے کے اس گندے پنجرے سے نکال کر کھانافراہم کر سکتا ہوں۔ لیکن تمہیں وعدہ کرنا ہوگا کہ تم یہاں سے کہیں نہیں جاؤ گے اور نہ کسی کو نقصان پہنچاؤ گے‘‘۔
’’سمجھ گئے۔ علی روئی ہمارا اچھا دوست ہے‘‘۔
میرا اچھا دوست۔ دونوں وائورنس واقعی خوش تھے۔
علی روئی نے لوہے کا پنجرہ کھولااومگدا اور کیگو باہر نکل آئے۔ یہ دیکھ کر حکیم الداس بھی چونک گیا۔ اس کے ہاتھوں میں بجلی دوڑنے لگی۔
وائیورنز پروں کو پھڑپھڑاتے ہوئے آسمان میں اڑ گئے اور محل پر منڈلانے لگے۔ یہ منظر نہ صرف محل کے محافظوں نے بلکہ وہاں سے گزرنے والے ڈیمنوں نے بھی دیکھا اور اس پر گفتگو کی۔
علی روئی کے ذہن میں یہ فکر در آئی کہ یہ اب بھاگ جائیں گے تو عین اسی وقت کیگو اورمگداآہستہ آہستہ اترے اور اس کے پہلو میں گر گئے۔ ان کی محبت بھری شکل نے حکیم الداس اور چلبل کو بھی دنگ کر دیا۔
’’اب سے تم دونوں یہاں رہو گے۔ یاد رکھو کہ تم نے اس محل کے دائرے سے باہر نہیں جانا‘‘۔
علی روئی نے حکیم الداس اور چلبل کی طرف اشارہ کیا:
’’یہ دونوں میرے دوست ہیں۔ تمہاری وجہ سے انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہیے‘‘۔
’’سمجھ گئے۔۔۔ گیگو کچھ کھانا چاہتا ہے‘‘۔
’’چلبل! تازہ گوشت لے آؤ‘‘۔
علی روئی نے چلبل سے کہا۔ امپ کو کچھ یاد آیا اور وہ باہر کی طرف بھاگ گیا۔
علی روئی کو آسانی سےان مشہور وائیورنز پر قابو پاتا دیکھ کر حکیم الداس حیران تھا اور اس کے چہرے پر علی روئی کےلیے تعریفی جذبات جھلک رہے تھے۔ اس نے علی روئی کو وائیورنزسے متعلق کچھ علم سے آگاہ کیا۔
’’ وائیورنز دلدلوں یا گیلے علاقوں میں رہتے تھے۔ ان کے پاؤں مضبوط اور طاقتور تھے۔ انتہائی جارحانہ اورزہریلا ماحول پسند کرتے تھے۔ اسےان کے لیے مناسب ماحول کا بندوبست کرنا چاہیے تھا جس میں وہ مستقل رہ پاتے۔ اچھی بات یہ ہے کہ لیبارٹری میں زہر اور متعلقہ پودوں کی کوئی کمی نہیں ہے اس لیے انہیں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی۔ کچھ نایاب پودے جو وائیورنز کے لیے انتہائی ضروری ہیں، دوائیوں کی تجرباتی ضروریات کے لیے بھی ان کا بندوبست کیا جا سکتا ہے۔
چلبل کو بہت جلد تازہ گوشت مل گیا۔ وائیورنز کے زہر کے خوف سے، اس نے آگے بڑھنے کی ہمت نہیں کی، لیکن حکیم الداس کو ان دو دیومالائی درندوں کے زہر میں بہت دلچسپی تھی۔ علی روئی وائیورنز کے عارضی گھونسلے کی دیکھ بھال کر رہا تھا جب امپیریل گارڈز کا سربراہ، کاگورون آیا اور علی روئی کو 11وائن سٹونز کے چمڑے کاایک تھیلا دیا۔ علی روئی بہت خوش ہوا اور کاگورون کا شکریہ ادا کیا۔ کاگورن نے دور کھڑے ہو کر آزاد گھومتے وائیورنز کو حیرانی سےکچھ دیر خاموشی سے دیکھا اور لیب سے نکل گیا۔
حکیم الداس کی رہنمائی اور چلبل کی سخت محنت سے آخر کار وائیورن کا گھونسلا مکمل ہو گیا۔ کیگو اورمگداکو پرسکون کرنے کے بعد، علی روئی جلدی سےاپنے کمرے میں واپس آیا اور بے تابی سے <آورا کنورژن< کو چالو کیا۔
جب وائن سٹونزکا آخری ٹکڑا پاؤڈر میں تبدیل ہوا تو علی روئی کی حیثیت یہ تھی:
عنوان: اسٹار کلیکٹر
ارتقاء کی سطح: ایک ستارہ
تجربہ کی قدر: 1فیصد
چمک کی قدر2224
جامع طاقت کا اندازہE
ایک اوسط معیار کی وائن سٹونز 100 – 150 اوراس فراہم کر سکتا ہے۔ اگر یہ اعلیٰ معیار کا ہے تو اسے دگنا کیا جا سکتا ہے۔ الگورتھم کے مطابق، اگر 60 اعلیٰ ترین کوالٹی کےوائن سٹونز کی جگہ موجود ہوتی، تو کل چمک کی قیمت 20000 کے قریب ہوتی۔
علی روئی فوراً سپر سسٹم میں داخل ہوا اور گلیکسی ڈیوینیٹی ٹیمپل آیا۔ اس کی نظریں عمارتوں کی لائٹ اسکرین پر پڑیں جہاں مندر کے تین آرکیٹیکچرل ماڈل تھے جنہیں چالو کیا جا سکتا تھا۔ اس وقت اس کی چمک پہلے ہی کافی تھی، اس لیے اس نے ان کو چالو کرنے پر غور شروع کیا۔
ایکسچینج سینٹر ایک اسٹور کے برابر تھا۔ اسے چالو کرنے کے لیے 1000 اورا ویلیو کی ضرورت تھی۔ تبادلہ کرنے کے لئے، شاید باقی 1000 اوراس کچھ بھی اچھا نہیں خرید سکے۔ اس کے علاوہ، اسے اب بھی ہنگامی صورت حال کے لیے کچھ بچانے کی ضرورت تھی۔ اب اسے چالو کرنے کے قابل نہیں تھا جب تک کہ اس کے پاس60وائن سٹونز مزید نہ ہوں۔
باقی دو عمارتیں علی روئی کے لیے ایک مشکل انتخاب تھیں۔ وہ ہمیشہ شمائلہ کے ذخیرہ کرنے والے سامان پر رشک کرتا تھا۔ یہ و ری ہاؤس سٹوریج ایک جدید پورٹیبل خلائی آلات کے برابر تھا، اور اسے خود بخود اپ گریڈکیا جا سکتا تھا۔ چالو کرنے کے لیے درکار چمک کی قدر بھی کم سے کم تھی۔ یہ صرف 500 تھا۔ اگرچہ ٹریننگ گراؤنڈ دوگنا مہنگا تھا، لیکن یہ ناگزیر بھی تھا کیونکہ اس سے تربیت میں مدد ملے گی۔ تاہم، دونوں عمارتوں میں صرف 1500 پوائنٹس کا اضافہ ہوا۔ علی روئی نے 2000 سے زیادہ پوائنٹس کی اپنی چمک کو دیکھا۔ اس نے، دونوں کو ایکٹیویٹ کرنا چاہا۔ اس کے بارے میں سوچنے کے بعد، اس نے پہلے تربیتی میدان کو فعال کرنے کا فیصلہ کیا۔ اگر حالات اجازت دیں تو وہ اسٹوریج گودام کو چالو کر دے گا۔
علی روئی نے تربیتی میدان کو چالو کرنے کا انتخاب کیا۔ ماڈل اچانک سٹارڈسٹ میں بدل کر بکھر گیا۔ مندر کے باہر کھلی جگہ پر، ایک عمارت تھی جو بالکل ماڈل کی طرح نظر آتی تھی جو شان و شوکت کی اعلیٰ مثال تھی۔ علی روئی پہلے ہی تخت سے عمارت کے دروازے پر تھا۔ بڑا دروازہ خود بخود کھل گیا۔ اندر داخل ہونے کے بعد ایک نہ ختم ہونے والی زمین تھی جیسے وہ کسی اور خلا میں آ گیا ہو۔ ٹریننگ گراؤنڈ کے فنکشن اور قیمت کی تفصیلات کے ساتھ ایک نیلی سکرین نمودار ہوئی۔ تربیتی میدان میں انتخاب کے لیے کئی قسم کے قواعد دستیاب تھے۔ جن میں ہر ایک کے لیے اس نے اسی چمک کی قیمت کا استعمال کیا۔ اصول کی پہلی قسم ٹائم ضرب تھی، یہ تربیت کے زمینی وقت اور حقیقت میں اصل وقت کے درمیان فرق کے برابر تھی۔ 2:1 کا یہ مطلب ہے کہ تربیتی میدان میں 2 دن اصل وقت کے صرف1دن کے برابرتھے۔ 5:15دن تھے، وغیرہ۔ کل تین قسم کے اصول تھے۔
یہ فنکشن بہت پرکشش تھا، لیکن اس کی قیمت نے علی روئی کو حیران کر دیا۔ 2:1کی قیمت1000یومیہ تھی5:1کی قیمت 5000 اوراس یومیہ تھی۔ 10:1فی دن 10000وراس تھا۔ 100:1فی دن 100000اوراس تھا۔
قاعدہ کی دوسری قسم کشش ثقل تھی۔ 2گناکشش ثقل کی قیمت 2000اوراس فی دن ہے، 4کشش ثقل4000تھی، 8گنا کی 8000تھی۔
تیسری قسم کا قاعدہ ماحول تھا۔ آتش فشاں، گلیشیئر، سمندری فرش، جنگل وغیرہ تھے۔ قیمت 1000 اوراس فی دن تھی۔
مندرجہ بالاقواعد1دن کے لیے چارج کیے گئے تھے، چاہے یہ 1دن سے کم ہو۔
ان تربیتی شرائط کو بیک وقت نافذ کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، دس گنا کشش ثقل والاآتش فشاں منظر ایک ہی وقت میں 5:1 ٹائم ضرب کے ساتھ منتخب کیا جا سکتا ہے۔
ٹریننگ گراؤنڈ کا کام انتہائی طاقتور کہا جا سکتا ہے۔ علی روئی اسے آزمانے کے لیے بہت بے تاب تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ یہ بہت مہنگا تھا! اب، اس کے پاس صرف 1224 پوائنٹس تھے، اس لیے وہ کچھ بھی نہیں کر سکتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ صرف اپنی کھپت کے سرمائے کو بڑھانے کے طریقے تلاش کر سکتا ہے۔ سب سے مؤثر طریقہ جادوئی مواد جیسے وائن سٹونزکو خریدنے کے لیے جادوئی کرسٹل سکے حاصل کرنا تھا۔
بلاشبہ وہ یوسف کی مہنگی جھوٹی دکان سے نہیں خرید سکتا تھا، لیکن اسے دوسرے ذرائع تلاش کرنے تھے۔ جب کاروبار کرنے اور پیسہ کمانے کی بات آئی تو علی روئی قدرتی طور پرتربیت سے اس قابل تھا۔ خاص طور پر ایک نسبتاً پسماندہ معیشت والی دیومالائی دائرے میں، اس کے پاس تاجر بننے کے سوا اورکوئی راستہ نہیں تھا۔
علی روئی نے سپر سسٹم سے باہر نکل کرپیسے کمانے کا ذہن بنا لیا۔
’’میں ہر حال میں چمک پیدا کروں گا‘‘۔
خاص طور پر نیرنگ آباد کی کمزور معیشت کے ساتھ پیسہ کمانا آسان کام نہیں تھا۔ علی روئی کے پاس اس وقت کوئی تفصیلی منصوبہ بھی نہیں تھا، لیکن پیسہ کمانے کااصل مقصد چمک کا حصول تھا جبکہ چمک کا مقصد طاقت کو بڑھانا تھا۔ اگرچہ نیلی جھیل کی خصوصی تربیت سخت تھی، لیکن اس کا اثر واضح تھا۔ سنکھیار ایک اعلیٰ معیار کے کوچ کے طور پر کام دے سکتا تھا اور یہ مفت بھی تھا اس لیے اس سے کام لینا چاہیے۔ تاہم، نیلی جھیل بہت دور تھی اور تین سینگوں والے گینڈے کی سواری بہت ضروری تھی اور ان کے استعمال کی کثرت سے شک بھی پیدا ہو سکتا تھا۔
علی روئی نےمگدااور کیگو کے بارے میں سوچا، اور اسے اچانک کچھ خیال آیا:
’’میرے پاس تو دو ہیلی کاپٹر نہیں ہیں۔ اگر میں رات کے وقت سوار ہوکر وہاں جاؤں تو کیا مضائقہ ہے‘‘۔
وہ کچھ دیر غور سے سوچتا رہااور اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ ممکن ہے کیونکہ زمینی سفر کی نسبت آسمانی سفر زیادہ تیز اور وقت کی بچت ہے۔
’’کیگو،مگدا!یہاں کا گوشت مزیدار ہے کہ نہیں۔۔۔ کیا تم میرا پہاڑ بنو گے؟‘‘۔
’’گیگو کو پہاڑ بننا پسند نہیں ہے‘‘۔
’’مگدا کو بھی پسند نہیں ہے‘‘۔
علی روئی کچھ دیر سر جھکا کر کھڑا رہا، پھر اسے ایک لطیفہ سوجھا۔
’’ایک باپ نے بیٹے سے زندگی کے بارے سوال کیا۔ بیٹے نے کا جواب تھا،دولت اور خوبصورتی۔ باپ نے بے رحمی سے بیٹے کے منہ پر تھپڑ مارا۔ اس نے پھر جواب دیا کہ کیریئر اور محبت۔ باپ بیٹے کی تعریف کی اور اسے کا کاندھا تھپتھپایا۔
کیگو، مگدا! کیا تم میرے فلائنگ پارٹنر بننے کے لیے تیار ہو؟ ہم آزادانہ طور پر آسمان میں ایک ساتھ اُڑ سکتے ہیں۔ مستقبل میں، ہم ایک ساتھ قاف کی پہاڑیاں بھی جا سکتے ہیں‘‘۔
’’کیگو تیار ہے!‘‘
’’مگداا راضی ہے‘‘۔
چالاک زہریلے ڈریگن کے مقابلے میں وائیورنز بہت پیارے تھے۔
بس جب علی روئی نے کامیابی کے ساتھ وائیورنز کو دھوکہ دیا، شمائلہ فلورا کے ساتھ تھی۔
ننھی شہزادی نے بیل 50وائن سٹونزکا وعدہ پورا نہ کرنے پر علی روئی سے معافی مانگی۔ اسے اس کی بہن نے راضی کیا۔ صرف 6 ٹکڑے رہ گئے۔ ننھی شہزادی نے کہا کہ جب 6وائن سٹونز آئیں گے تو وہ اسے فوراً دے دے گی۔
علی روئی قدرے متحرک تھا۔ پھر، ننھی شہزادی کی خوبصورت ارغوانی آنکھیں 2 بے لگام وائیورنز کو دیکھ کر اچانک پھیل گئیں۔
چونکہ یہ صرف فلورا اور شمائلہ تھے، علی روئی نے ظاہر ہے کہ ان سے چھپایا نہیں تھا اور انہیں درندوں کو چھیڑنے کی مہارت کے بارے میں بتایا تھا۔ تاہم، اس نے جان بوجھ کر اس بات پر زور دیا کہ اس نے ابھی حال ہی میں صلاحیت کو بیدار کیا ہے۔ اسے ابھی بھی قابلیت کا استعمال کرنے میں مشکل پیش آ رہی ہے۔
جیسا کہ فلورا نے اس منظر کے بارے میں سوچا جب علی روئی نے کل خصوصی تربیت کے دوران تیزی سے گریفن سے منسلک کیا، اسے اچانک احساس ہوا اور وہ ناخوش ہوگئی:
’’تم نے مجھے تربیت کے دوران پہلے کیوں نہیں بتایا؟‘‘۔
علی روئی نے ایک لمحے کے لیے سوچا اور مسکرایا:
’’اس وقت حیوانوں کو مارنے کا ہنر ابھی بیدار ہوا تھا… اس کے بعد، آپ نے مجھے سمجھانے کا موقع ہی نہیں دیا؟‘‘۔
فلورا نے ’’انتقام‘‘ کے بارے میں سوچا، اس کا چہرہ گرم تھا۔ اس نے شمائلہ کی طرف اشارہ کیا جو پرجوش انداز میں ویورنز کی طرف دیکھ رہی تھی۔ فلورا نے دھمکی آمیز اشارہ کیا اور اشارہ کیا کہ شمائلہ کو اس کے بارے میں کبھی نہ بتانا۔ علی روئی نے جلدی سے سر ہلایا۔
’’علی روئی! کیا میں آسمان پر سواری کرنے کی کوشش کر سکتی ہوں؟‘‘۔
شمائلہ نے تازہ گوشت کا ایک ٹکڑا کیگو کی طرف پھینکا۔ کیگو اسے اتنا خطرناک نہیں لگا جتنا اس نے سوچا تھا۔
’’ایسا نہیں ہو سکتا! وائیورنز کی جلد اور سانس بہت زہریلی ہے۔ آپ بہت خوبصورت ہیں۔ آپ کبھی بھی نہیں چاہیں گی کہ آپ کی جلد سڑ جائے‘‘۔
علی روئی نے ننھی شہزادی کی بیکار امید کو جلد ختم کر دیا۔ شمائلہ کی وائیورنز کے ساتھ تباہی یقینی طور پر 1+1=2 سے زیادہ تھی۔ وہ محل کو بھی تباہ کر سکتے ہیں۔
’’کیا تریاق تیار کرنا ممکن نہیں ہے؟ اگر نہیں تو ڈریگن نائٹس ایم پر کیسے سوار ہوتے ہیں؟‘‘۔
شمائلہ نے بے اطمینانی میں اپنے ہونٹوں کو آگے بڑھایا اور اچانک چیخ پڑی:
’’فلورا، تمہارا چہرہ اتنا سرخ کیوں ہے؟ کیا تم بیمار ہو؟‘‘۔
’’ٹھیک ہوں۔۔۔ مجھے کچھ عرصہ پہلے ہی ہائیر ڈیمن میں ترقی دی گئی ہے، اس لیے شاید میں اپنے جسم میں شعلے کی طاقت کو مکمل طور پر کنٹرول نہیں کر سکتی‘‘۔
’’فلورا نے جلدی سے موضوع بدل دیا:
’’شمائلہ! وائیورن کھلونے نہیں ہیں۔ ایک عام تریاق صرف تھوڑے وقت تک ہی کام کرتا ہے۔ جیسا کہ ایان کے ساتھ ہوا تھا۔ میں نے سنا ہے کہ ڈریگن نائٹس کی تربیت کےلیے زہروں کی ایک طویل مدتی نمائش لگتی ہے تاکہ ان کے جسم میں زہر کے خلاف مزاحمت پیدا ہو۔ پھر، وہ آہستہ آہستہ وائیورن کے زہر کے عادی ہو جاتے ہیں۔ زہر کی نمائش کی وجہ سے، ڈریگن نائٹس کی ظاہری شکل عام طور پر بدصورت ہوتی ہے‘‘۔
’’ٹھیک ہے، میں بگڑنا نہیں چاہتی‘‘۔
شمائلہ خوفزدہ ہوگئی۔ اس نے اپنا ارادہ بدلا اور کہا:
’’علی روئی!تمہارا کا اشتہار کا طریقہ برا نہیں تھا۔ اسٹور میں بہت زیادہ گاہک ہیں اور آمدنی بھی۔ کیا تم ہر روز میری دکان پر جا سکتے ہیں؟‘‘۔
’’معذرت ننھی شہزادی!میرے پاس واقعی وقت نہیں ہے۔ شہزادی اقابلہ نے مجھے سیکریٹری مقرر کیا ہے۔ مجھے ہر روز کام کرنا پڑتا ہے‘‘۔
علی روئی نے جلدی سے انکار کر دیا۔
’’واپس آنے کے بعد مجھے نہ صرف جانوروں کو پالنے کی مشقت سے گزرنا پڑتا ہے بلکہ حکیم الداس سے فارماسیوٹکس کا علم حاصل کرنا پڑتا ہے۔ میری واقعی تھکا دینے والی مصروفیت ہے میں مدد کرنے کی توانائی کیسے حاصل کر سکتا ہوں؟‘‘۔
’’جانوروں کو مارنے کی مشق کر رہے ہو؟‘‘۔
شمائلہ کی بڑی آنکھیں چمک اٹھیں۔ اس نے بعد میں وائیورنز کے زہر کے بارے میں سوچا اورعدم اطمینان سے کہا:
’’ایک بار دیرپا تریاق تیار ہو جائے تو مجھے خفیہ تربیت دینا مت بھولنا، میں سواری کرنا چاہتی ہوں اور وائیورنز کے ساتھ کھیلنا چاہتی ہوں‘‘۔
علی روئی نے حامی بھر لی۔ شمائلہ نے کچھ دیر سوچا اور کہا:
’’علی روئی!میں جانتی ہوں کہ تمہارے پاس بہت سے خیالات ہیں۔ تمہارا کیا خیال ہےمیں چیمبر آف کامرس بنانے میں کامیاب ہو جاؤں گی۔ کیا تم اس نیچ یوسف سے مقابلہ کر سکتےہو؟‘‘۔
علی روئی دنگ رہ گیا۔ شمائلہ کا ذہن بالکل صاف تھا۔ وہ چیمبر آف کامرس کے قیام کا منصوبہ رکھتی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ واقعی اقابلہ کے نیرنگ آباد کے سب سے بڑے معاشی بحران کو حل کرنا چاہتی ہے۔ اس ننھی سی شہزادی میں بڑی سمجھداری چھپی ہوئی تھی۔ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتاکہ وہ کتنی چالاک ہے، کیونکہ وہ بہت چھوٹی تھی۔ اس کی وجہ سے زیادہ تر چیزیں آسان ہوئی تھیں۔
’’چیمبر آف کامرس پر غور کرنے کے لیے،ننھی شہزادی کوپہلے سٹور اچھی طرح سے چلانا چاہیے‘‘۔
شمائلہ نے پیارےسے بھوؤں کو جھکا لیا اور کہا:
’’مجھے لگتا ہے میری دکان پہلے سے ہی اچھی چل رہی ہے‘‘۔
’’کافی نہیں‘‘۔
ننھی شہزادی کو یقین نہیں آرہا تھا اور وہ انکار کر رہا ہےلیکن جب اس نے علی روئی کی آنکھوں میں اعتماد دیکھا تو اس نے اپنے الفاظ بدل دیے۔
’’پھر میں کیا کروں؟‘‘۔
علی روئی نے ذاتی پیسہ کمانے کے منصوبے کے بارے میں سوچا، اور اس کا دل دہل گیا۔ کیا یہ دکان آسانی سے دستیاب نہیں ہو سکتی؟۔
’’اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ننھی شہزادی واقعی اسٹور کو اچھی طرح سے چلانا چاہتی ہیں۔ اگر صرف کھیلنا چاہتی ہیں تو یہ لیول کافی اچھا ہے۔ پھر بھی اگر آپ سنجیدہ ہیں اور شہزادی اقابلہ کی مزید مدد کرنا چاہتی ہیں، تو آپ کو صحیح معنوں کوشش کرنی ہوگی۔ ہماری انسانی دنیا میں ایک کہاوت ہے۔ اس دنیا میں، صرف وہ ہے جو آپ نہیں کرنا چاہتے ہیں لیکن ایسا کچھ بھی نہیں کر سکتے ہیں‘‘۔
ننھی شہزادی نےایک کمال سنجیدہ نظر ڈالی اور جواب دیا‘
’’میں واقعی کامیاب ہونا چاہتا ہوں! میں واقعی اس برے آدمی یوسف کو شکست دینا چاہتا ہوں‘‘۔
علی روئی نے سر ہلایا اور اپنا مقصد بیان کیا:
چھوٹی شہزادی! میں تمہیں سچ بتاؤں گا۔ بیسٹ ایمنگ کے لیے مختلف قسم کے جادوئی مواد کی طویل مدتی کھپت کی ضرورت ہوتی ہے وائن سٹونز ان میں سے ایک ہےجس کے لیے بہت زیادہ جادوئی کرسٹل سکّوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ ہم اگر پارٹنرشپ قائم کر لیں تو ایک اورسٹور کھول سکتے ہیں۔ آپ سٹور اور سرمایہ فراہم کریں گی اور میں آئیڈیےاور پلان لے کر آؤں گا۔ کمائی ہم دونوں کے درمیان یکساں طور پر تقسیم ہوگی۔ آپ کا کیا خیال ہے‘‘۔
’’اس میں کوئی شک نہیں کہ تم نے آج آدھے وائن سٹونزمانگ لیےہیں‘‘۔
ننھی شہزادی کو اچانک احساس ہوا، پھر اس نے سر ہلایا:
تم بہت گھٹیا ہو۔ مجھے دکان اور سرمایہ فراہم کرنا ہے،اور تم صرف آئیڈیا دے رہے ہو،پھر بھی تم کمائی کا نصف حصہ چاہتے ہو۔ اس میں میرا زیادہ نقصان ہے۔ مجھے لگتا ہے تم بغیر کچھ خرچ کیے کمائی کرنا چاہتے ہو‘‘۔
پیسوں کی بات جب آتی ہے تو شہزادی بہت ہوشیار دکھائی دیتی ہے۔ علی روئی نے مسکرا کر کہا:
’’چھوٹی شہزادی! یہ حساب ایسے نہیں ہے۔ مثال کے طور پر اگر اب ایک دن میں4سیاہ کرسٹل سکے کماتی ہیں لیکن میرے آئیدیےپر عمل کرنے کے بعد ایک دن میں40سیاہ کرسٹل سکے کماتی ہیں۔ اس طرح مجھے آدھی کمائی دیں توبھی آپ کی آمدن پہلے سے پانچ گنا زیادہ ہے۔ اس کے بارے میں سوچیں، کیا آپ نقصان نہیں کر رہی ہیں؟‘‘۔
’’کیا واقعی میرے اسٹور کی آمدن زیادہ کر سکتے ہو؟‘‘۔
شمائلہ اچانک سنجیدہ ہوگئی۔
’’کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے‘‘۔
علی روئی نے لالچی ننھی شہزادی کو راغب کرتے ہوئے کہا
’’ہم اسٹور کو چلاتے ہوئے تجربہ جمع کر سکتے ہیں۔ وقت آنے پر ہم شاخیں کھولیں گے۔ اس سے نہ صرف شہزادی اقابلہ کی آمدنی میں اضافہ ہو سکتا ہے بلکہ یہ یوسف کو بھی نیچا دکھا سکتے ہیں۔ مستقبل میں ہمارے پاس طاقت زیادہ ہوئی تو چیمبر آف کامرس کا قیام اور یوسف کو شکست دیناممکن ہو سکتا ہے۔
’’واقعی؟‘‘۔
شمائلہ کی بڑی اور خوبصورت آنکھیں تیز روشنی سے چمک اٹھیں۔ اس نے فوراً فیصلہ کر لیا:
’’ طےہو گیا۔ میں جانتی ہوں تم بہت قابل ہو۔ پہلے بھی تم سے کئی کرشمات رونما ہوئے ہیں۔ اسی وجہ سے میں تم پر یقین رکھتی ہوں کہ شمائلہ کا مستقبل اب تمہارے ہاتھ میں ہے علی روئی بھائی!‘‘۔
آخری جملہ بہت سخت تھا۔ علی روئی کانپ گیا اور خود کو بمشکل سنبھالا۔ اس نے کہا
’’زیادہ بڑی توقعات مت رکھیں۔ پہلے یقینی بنانا ہوگا کہ یہ اسٹور اچھی طرح سے چل رہا ہے۔ پہلے سادہ اشتہار صرف اسٹور کی مقبولیت کو بڑھانے کے لیے تھا۔ اسٹور میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کے آنے کے ساتھ چیزوں کو خریدنے کے امکانات قدرتی طور پر بڑھ جاتے ہیں۔ اسٹور کو اچھی طرح سے چلانے کے اس پر بھروسہ کرنا کافی نہیں ہے۔ آپ کے سٹور میں سامان بہت مہنگا ہے۔ مہنگے سامان کی فروخت کے لیےے سامان بھی اعلیٰ درجے کا چاہیے۔ مجھےبہت اچھا لگا کہ آپ نیرنگ آباد کی شہزادی ہیں، آپ برانڈڈ چیزیں رکھیں تاکہ لوگ آپ کے اسٹور میں سامان کے مالک ہونے پر فخر محسوس کریں۔ یقیناً یہ ایک بڑا خیال ہے۔ کاروبار کو صحیح معنوں میں چلانے کے لیے بہت سے طریقے ہیں۔ مثال کے طور پر گاہکوں کے ساتھ رویہ اور اسٹور میں آپ کے ملازمین کے مواصلاتی مسائل۔ آپ کو انہیں ان کے جادوئی کرسٹل سکوں کے ساتھ ادائیگی کرنے دینا ہوگی جس سے وہ احترام محسوس کریں اور دوبارہ خریداری کے لیے آئیں۔ آپ کو اپنے ملازمین کے انتخاب اور تقرری کو بھی تبدیل کرنا ہوگا۔ کاگوری کی سیکورٹی ہو سکتی نظم و نسق کو برقرار رکھتی ہے لیکن وہ گاہکوںکی آمد کےلیے ٹھیک نہیں ہے۔ اس طرح چیزوں کی درجہ بندی، ڈسپلے اور قیمت کے مسائل بھی ہیں‘‘۔
علی روئی نے بہت کچھ کہا۔ فلورا کو کوئی دلچسپی نہیں تھی لیکن شمائلہ کی آنکھیں دن بدن روشن ہو رہی تھیں۔ وہ وقتاً فوقتاً پوچھتی رہی اور علی روئی اسے صبرکی تلقین کرتا رہا۔
سٹور کھولنے کی اس بحث میں فلورا شامل نہ ہوئی۔ وہ کسی وجہ سے پریشان تھی۔
’’میں نے فیصلہ کیا ہے، میرے سٹور کو پرنسس پلازہ کہا جائے گا‘‘۔
شمائلہ نے آسمان کی طرف پرجوش انداز میں اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
میں پرنسس پلازہ کو نیرنگ آباد کا سب سے مشہور اور اعلیٰ درجے کا پلازہ بنانا چاہتاہوں۔ ! پھر مزید چین پلازہ کھولنے کا ارادہ ے۔ مستقبل میں سرمانی سلطنت لڑکوں کو نیرنگ آباد اسٹیٹ سے باہر نکالنے کے لیے ایک چیمبر آف کامرس قائم کروں گا‘‘۔
شمائلہ کے پاس تجارت میں ہنر تھا۔ جب وہ پڑھتی تھی تو وہ آسانی سے چیزوں کو سمجھ سکتی تھی۔ تاہم،علی روئی کا تجربہ صرف ایک اسٹور کھولنے تک محدود تھا۔ وہ چیمبر آف کامرس کے قیام پر بہت جلد بات کرنا چاہتی تھی۔
’’کوئی راستہ نہیں میں ابھی دکان پر جا رہی ہوں‘‘۔
شمائلہ کی نظریں احترام سے عاری تھیں۔
’’ پہلے اسٹور میں سامان اور سہولیات پیدا کرو۔ اس کے بعدبقول تمہارے ایک عظیم الشان افتتاح ہوگا! فلورا، کیا تم میرے ساتھ آنا چاہتی ہو؟‘‘۔
فلورا نے سرنفی میں ہلایا:
’’تم جاسکتی ہو۔ میں کسی کاروبار کو چلانے کے بارے میں کچھ نہیں جانتی۔ میں تو ان وائیورنز کو مزید دیکھنا چاہتی ہوں‘‘۔
’’آپ کاچہرہ ابھی تک سرخ ہے۔ میں یہ آپ کو دوں گی۔ نرم ہونا یاد رکھیں‘‘۔
شمائلہ نے چنچل انداز میں اپنی آنکھیں جھپکائیں، پراسرار انداز میں فلورا کو ایک کتابچہ دیا اور لپک کر لیب سے باہر نکل گئی۔
فلورا نے کتابچہ لیا لیکن دیکھا نہیں۔ وہ صرف وائیورنز کو تعریفی انداز سے دیکھ رہی تھی۔
’’میں بچپن سے ہی ڈریگن نائٹ بننا چاہتی ہوں۔ کیا تم کوئی طریقہ بتا سکتے ہو کہ میں وائیورنز آزما سکوں؟‘‘۔
علی روئی جانتا تھا کہ فلورابیسٹ ایمنگ کی ماہر تھی۔ وہ شمائلہ کی طرح لاپرواہی سے کام نہیں لے گی، اس لیے اس نے سر ہلایا اور کہا:
’’ایک بار جب حکیم کوئی مؤثر تریاق تیار کر لے گا تو پہلے آپ کوہی مطلع کروں گا۔ مجھے اب بھی آپ سےبیسٹ ایمنگ کے بارے میں پوچھنا ہے لیکن آپ شمائلہ کو نہ بتائیے گا۔ اگر وہ وائیورن پر سوار ہو ئی تو پتہ نہیں کون سی مصیبت کھڑی کر دے‘‘۔
’’واقعی؟‘‘۔
فلورا کو یاد آیاکہ ان کے دمیان ایک راز کی بات ہے وہ ظاہری طور پر خوش دکھائی دے رہی تھی۔ عارضی خوشی فوری طور پر بغیر کسی نشان کے غائب ہوگئی۔
’’جی، میں وعدہ کرتی ہوں‘‘۔
علی روئی نے تجسس سے پوچھا:
’’شمائلہ نےآپ کو ابھی کیا دیا ہے؟‘‘۔
فلورا نے کتابچہ ہاتھ میں اٹھایا اور علی روئی تجسس سے دیکھنے کے لیے قریب گیا۔ کتابچے کے سرورق پر الفاظ کی لکیریں دراصل یہ تھیں۔
’’شرمندہ نہ ہوں۔ اپنےآپ کو سکھائیں کہ مرد کو کیسے قابو کیا جائے ‘‘۔
شرمندگی جو ابھی دھندلاگئی تھی فوری طور پر فلورا کے پورے چہرے کو ڈھانپ گئی۔ وہ مزید نہ رک سکی اور ایک مرد کو حیران چھوڑ کرجلدی سے چلی گئی۔
اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ اس کی پوشیدہ صفت کتنی ہی روشن تھی، ایک ڈیمن لڑکی اب بھی ایک ڈیمن لڑکی تھی۔
جیسے ہی رات ڈھلی، ٹھنڈی چاندنی کے نیچے ایک بڑا سا سیاہ سایہ محل کے بیرونی صحن سے اڑکر شہر کے اوپر سے پرواز کرتا ہواشمال کی بلندیوں میں کہیں گم ہوگیا۔ پہلی بار ہوائی جہاز پر سوار ہوتے وقت اس کے جذبات کچھ تھےمگر وائیورن کا معاملہ کچھ اور تھا۔ اس کی پرواز کی رفتار توقع سے کہیں زیادہ تیز تھی۔ پھر آدمی جہاز کے اند بیٹھتا ہے۔ جہاز کی چھت یا پروں پر سوا نہیں ہوا کرتا۔ نیلی جھیل تک پہنچنے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔ جب سے پوائزن ڈریگن کے ساتھ اس نے زندگی کا معاہدہ کیا تھا۔ علی روئی کو یہ نیلی جھیل گھر کی طرح لگنے لگی تھی۔
سنکھیار جھیل کے کنارے ایک گھاس کے میدان پر لیٹا ہوا تھا اور علی روئی نے پچھلی بار بھیجے ہوئے بہتر پیگ کے سولٹیئر کے ساتھ بوریت میں کھیل رہے تھے۔ ان کے اپنے الفاظ میں وہ 2000سال سے زائد عرصے سے لاتوں کی جھیل میں سو رہا ہے۔ اگر یہ مجبورنہ ہوتا تو پانی میں کبھی بھی داخل نہ ہوتا۔
تیزی سے چلنے والے سائے نے سنکھیار کی توجہ اپنی طرف کھینچ لی۔ جب اس نے دیکھا کہ یہ ایک وائیورن ہے تو اس نے حقارت سے طنز کیا۔ اگرچہ وائیورن کافی طاقتور اور زہریلا تھا، یہاں تک کہ ایک اوسط ڈریگن کو بھی محتاط رہنا پڑتا تھا، زہر یلاڈریگن مختلف تھا۔ ویورنز کا زہر زہریلے ڈریگن کے سامنے بیکار تھا۔ زہریلے پن کا محض موازنہ کرتے ہوئے زہر یلاڈریگن یقینی طور پر وائیورن کے نظام انہضام کو خراب کر سکتا ہے۔ تاہم وائیورن ایک ڈریگن نائٹ نہیں ہو سکتا۔ یہ ایک سیوڈو ڈریگن نائٹ یا وائیورن نائٹ ہوسکتا ہے۔ ایک ڈریگن کے سامنے سیوڈو ڈریگن بھی ڈریگن کہلوانے کے لائق نہیں ہے۔
اسی لمحے اس نے وائیورن سے ایک جانی پہچانی آواز سنی
’’سنکھیار!تم کہاں ہو؟‘‘
’’یہ کون ہے؟‘‘۔
سنکھیار کسی مصیبت میں نہیں پڑنا چاہتا تھا۔ پہلے پہل اس نے نظرانداز کیا۔ پھر جب اس کا نام پکارا گیا تو وہ چونکا اور نئی صورت حال سے نمٹنے کےلیے اپنی طاقت جمع کرنے لگا۔۔
’’سنکھیار!تمہارا سب سے اہم ساتھی جس کو تم نے۔ Sandro Achilles، قاف کی پہاڑیوں کےتمام خزانے دینے کا وعدہ کیا تھا‘‘۔
’’تم اتنے زیادہ لالچی انسان ہو!‘‘۔
’’ سنکھیار نے مصنوعی غصے سے اسے ڈانٹا اور اپنی طاقت منسوخ کر دی‘‘۔
اگرچہ زہر یلا ڈریگن اپنے ڈریگن کی شکل میں تبدیل نہیں ہوا تھا وائیورن نے فطری طور پر دوسرے فریق کی وحشت کو محسوس کیا، اس لیے جب وہ اترا تو وہ خوفزدہ نظر آیا۔ علی روئی نے نیچے چھلانگ لگائی اور وائیورن کی گردن تھپتھپائی۔
’’مگدا!ڈرو مت۔ یہ میرادوست ہے۔ تم یہاں میرا انتظار کرو‘‘۔
وائیورن نے پروں کو پھیلایا اور بہت دور اڑ گیا۔ سنکھیار نے حیرانی سے دیکھا۔ اگرچہ چھوٹے سیوڈو ڈریگن کی ذہانت کم ہے پھر بھی طاقت ور ہے۔
’’تم نے اسے آسانی سے کیسے قابو کیا۔ کیا گرینڈ حکیم کی وراثت میں کوئی تبدیلی آ گئی ہے؟‘‘۔
’’تم نے صحیح اندازہ لگایا‘‘۔
علی روئی نے زہریلے ڈریگن کی سوچ کی تعریف کی۔
’’حادثاتی طور پر وائن سٹونز کی طاقت کو جذب کرنے کے بعد، میں نےبیسٹ ایمنگ حاصل کی۔ تاہم، اس صلاحیت کے لیےکچھ مزید خاص مواد کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر تمہارے پاس ہے تو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے میرے حوالے کرو‘‘۔
’’ہمف‘‘۔
’’ قسمت ہمیشہ تم جیسے لالچی کا ساتھ کیوں دیتی ہے‘‘۔
سنکھیار نے حسد سے اس کی طرف دیکھا۔
’’میں دو ہزار سال کے لیے بند تھا۔ میرے پاس کون سے خزانے ہوں گے،وائن سٹونزکچھ بھی نہیں ہیں۔ اگر یہ جادوئی مواد ہےتو میرے پاس قاف کی پہاڑیوں کے خزانوں میں بہتر چیزیں ہیں۔ یہ صرف اس بات پر منحصر ہےکہ تم میں انہیں حاصل کی صلاحیت ہے یا نہیں‘‘۔
’’واقعی؟‘‘۔
علی روئی کواس کی ایک بڑی مقدار نظر آ رہی تھی۔ اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
’’میں تم سے نہیں چھپاؤں گا کہ یہ وائیورن قاف کی پہاڑیوں سے ہے۔ میں نے اسے مستقبل کے لیے حاصل کرنے کی بہت کوشش کی ہے۔ میری موجودہ طاقت کافی نہیں ہے۔ خوش قسمتی سے، میں اب وائیورن پر بیٹھ کر خصوصی تربیت کےلیے روزانہ نیلی جھیل پر آ سکتا ہوں‘‘۔
’’قاف کی پہاڑیوں سے ایک وائیورن؟ عقل ٹھیک ہے؟‘‘۔
سنکھیار سمجھا کہ یہ اس کو چکر دے رہا ہے، اس نےمسکراتے ہوئے کہا:
’’میرے خزانوں میں بہت سے نایاب مواد اور معدنیات ہیں۔ اگرتمہیں ان کی ضرورت ہو تو میں دے سکتا ہوں۔ تم جتنے مضبوط ہو گےمیرے لیے اتنا ہی محفوظ ہے۔ لیکن ان دیومالائی درندے کو اتنا سادہ بھی نہ سمجھو۔ تم نے یہ وائیورنز قابو توکر لیے ہیں لیکن ان کے ساتھ رابطہ اتنا آسان کبھی نہیں۔ وقت ضائع مت کرو اور تربیت حاصل کرو۔
’’ایک بار پھر چپکے سے حملہ حقیر ڈریگن!‘‘۔
’’اس بار آپ کا ردعمل بہت سخت ہے، لیکن یہ کافی نہیں ہے‘‘۔
تکلیف دہ بدسلوکی کے ساتھ خصوصی تربیت جاری رہی اور سٹار پاور کی واقفیت اور تجربہ کی قدر میں مسلسل اضافہ ہوا۔ جب وہ لیبارٹری میں واپس آیا تو آدھی رات ہو چکی تھی۔ علی روئی جو کہ تھکا ہوا تھا، نہا کر سو گیا۔ دوسرے دن دوپہر نہیں گزری تھی کہ وہ بیدار ہوا۔
علی روئی بیدار ہوا تو اس کواندر سے جوش اٹھتا محسوس ہوا۔ اسے سب اچھا لگا۔ <Astral> کی خصوصیات کی وجہ سےخصوصی تربیت سے لگنے والی چوٹیں ختم ہو چکی تھیں۔ اسے پھر اقابلہ کا حکم یاد آیا۔ وہ جلدی سے تیار ہوا اور محل کے کونسل ہال کی طرف بھاگا۔ کونسل ہال پہنچا تو شاید بہت دیر ہو چکی تھی۔ بوڑھا طاؤس جس کا اقابلہ نے کل ذکر کیا وہ وہاں نہیں تھا۔ اس کے بجائے، شہزادی اقابلہ ڈیسک پر بیٹھی دستاویزات کو پلٹ رہی تھی۔
’’ ان دستاویزات پر ایک نظر ڈالوپھر اہم حصوں کو نکال کر اسٹیٹ کی لاگ بک میں لکھو اور اگرکر سکتے ہو تو ان میں ذاتی رائے بھی شامل کرلو‘‘۔
اقابلہ نے سر اٹھائے بغیر کہا۔
علی روئی نے جلدی سے کاغذات اور لاگ بک سنبھالی اور مصروف ہو گیا۔ یہ کام زیادہ مشکل نہیں تھا کیونکہ اسٹیٹ میں بہت سے زیادہ واقعات نہیں ہوئے تھے۔ کل کی اسکائی بیٹل اور حکیم الداس کے حکیم چیلنج میں وہ شریک تھا۔ علی روئی کی یونیورسٹی سے سیکھی گئی تحریری صلاحیتیں رائیگاں نہیں گئیں۔ انہیں باتوں کو مختصرانداز میں نوٹ کر دیا۔
’’بہت خوب‘‘۔
اقابلہ نے مکمل نوٹ بک اٹھا کر اس کی طرف دیکھا۔
’’اگلی دفعہ جلدی آنا۔ بوڑھا طاؤس کہیں باہر جا چکا ہے‘‘۔
علی روئی کو بھی شرمندگی محسوس ہوئی کہ وہ کام کے پہلے دن ہی دیر سے آیا اور باس کے ہاتھوںہی پکڑا گیا۔
’’بات یہ ہے، شہزادی اقابلہ ‘‘۔
علی روئی نے کچھ دیر سوچا اور رات کو باہر نکلنے کو جائز بنانے کےلیے بہانہ بنانے لگا۔
’’ان دنوں حادثات رونما ہونے لگے ہیں اور کوئی خطرہ مول نہیں لیتا۔ محل کے محافظ صرف سجاوٹ ہیں اور انہیں لیبارٹری کی رات سے اس امانیتاوں کا احساس ہوتا ہے، تو یہ اقابلہ کو بھی مشکوک بنا دے گا‘‘۔
علی روئی کی وضاحت سننے کے بعد، اقابلہ نے سر جھکا لیا اور کہا:
’’کیا تم نے بیسٹ ایمنگ کی مشق کرنے کے لیے رات دیر گئے وائیورن پر سواری کی تھی؟‘‘
’’جی ہاں‘‘۔
علی روئی نے سر ہلایا۔
’’گزشتہ رات شہزادی اقابلہ کی طرف سے بھیجے گئے وائن سٹونز کو جذب کرنے کے بعد میری بیسٹ ایمنگ مستحکم اور بہتر ہو گئی ہے۔ پھر بھی اس قابلیت کو بے نقاب نہیں کرنا چاہتا۔ اس لیے آدھی رات کو پریکٹس کرنے نکلا تاکہ پکڑسے بچ سکوں‘‘۔
’’تمہیں اس پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔
اقابلہ کو اصل میں امید تھی کہ وہ ہمیشہ ایک خفیہ ہتھیار کے طور پر پس منظر میں چھپا رہے گا۔
’’کل سے ہر دوپہر کو کونسل ہال میں آؤ۔ جتنا ممکن ہو آرام کرنے کی کوشش کرو‘‘۔
باس برا نہیں ہےلیکن بدقسمتی سے تنخواہ میں کوئی اضافہ نہیں ہے۔ علی روئی نے مزید کہا:
کل رات ایک پُرسکون جگہ پر وائیورنز کے ساتھ میری گفتگو ہوئی ہے اور مجھے پتہ چلا کہ وہ اصل میں قاف کی پہاڑیوں میں رہتے تھے۔ وہاں وائیورنز کا ایک بہت بڑا ریوڑ ہے۔ یہ دونوں اتفاقاً اس وقت پکڑے گئے جب وہ باہر تھے۔ اگر مستقبل میں کوئی موقع ملا تو میں سکاؤٹنگ کے لیے قاف کی پہاڑیاںضرور جاؤں گا‘‘۔
دیومالائی درندوں کا شکار ایک پیشہ تھا ۔ یہ شکاری دیومالائی درندوں کو پکڑتے اور مارتے تھے مگر یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ یہ دو وائیورنز ایسے ہی پکڑے گئے تھے۔ اقابلہ کی آنکھیں اچانک چمک اٹھیں اور چلتے ہوئے بولی:
’’کیا تم ان کے ریوڑ کو ڈھونڈ رہے ہو، پھر۔۔۔۔ اگر تم نے بڑے وائیورن گروپ کو کامیابی سے پکڑ لیاتو نیرنگ آباد کی فضائیہ بہت مضبوط ہو سکتی ہے۔ یہاں تک کہ شہزادہ شوالہ کی ڈریگن نائٹ آرمی سے بھی مقابلہ کیا جاسکتا۔ اس کےلیے اقابلہ تمہاری مدد کر سکتی ہے‘‘۔
’’یہ صرف ایک خیال ہے‘‘۔
علی روئی نے دیکھا کہ اقابلہ کا ذہن واقعتاً ان کی تجاویزکی طرف منتقل ہو گیا ہے اس نے جلدی سے وضاحت کی۔
’’وائلڈ وائیورنزقابو کیے گئے ان وائیونز سے زیادہ طاقت ور ہیں۔ ان سے بات چیت کرنا مشکل ہے اور وہ بہت خطرناک ہیں۔ یہ ایک طویل مدتی منصوبہ ہے۔ فی الحال میں اس کوشش میں ہوں کہ بیسٹ ایمنگ میں مہارت حاصل کرلوں۔
علی روئی کے نزدیک قاف کی پہاڑیوں کے سفر کا بنیادی مقصدزہریلے ڈریگن کا خزانہ تھا۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ جھنڈ کو اغوا کرنا بہت بڑی کامیابی ہے۔ وہ اپنی خوبصورت حکمران اور ننھی شہزادی کو مایوس نہیں ہونے دے گا۔ وہ اقابلہ کے کانوں میں یہ بات ڈال کر اب توقع کے مطابق قاف کی پہاڑیاں جا سکتا تھا۔
اقابلہ پرسکون ہوئی اور اس منصوبے کی تکمیل پر غور کرنے لگی۔
’’قاف کی پہاڑیاں سرمانی سلطنت کے مغرب میں نیرنگ آباد اسٹیٹ کے شمال میں ہے۔ یہ علاقہ تومانی سلطنت اور خاقانی سلطنت کی دو سلطنتوں پر محیط ہے۔ وہاں بہت سے طاقتور اور انتہائی خطرناک دیومالائی درندے ہیں۔ اپنی موجودہ طاقت کےبل پر تم وہاں بالکل نہیں جا سکتے۔ میں تمہاری ضرورت کا سارا سامان مہیا کروں گی۔ لیکن ابھی میرے پاس وسائل کی کمی ہے، اس لیے ابھی تمہیں کچھ نہیں دے سکتی۔ تولان پہاڑ بہت اہم معدنی اور اقتصادی ذریعہ ہوا کرتا تھالیکن زیر زمین مخلوق اور چوروں کی طرف سے پیدا کردہ پریشانیوں سے پیداوار بہت کم ہو گئی ہےجس سے نیرنگ آباد کی مالی حالت مزید خراب ہو گئی ہے‘‘۔
علی روئی نے کچھ دیرسوچا اور ہچکچاتے ہوئے پوچھا
’’شہزادی!یہ بات کہنے کی گستاخی معاف۔ اتنی مشکل میں بھی آپ کے لیے نیرنگ آباد اسٹیٹ کو تھامے رکھنے اور شہزادہ شوالہ کو معزول کرنے اور تخت دوبارہ حاصل کرنے کے بارے میں سوچ رہی ہیں‘‘۔
’’تمہارے یہ کہنے سے لگتا ہے کہ تم نے پہلے ہی منصوبہ بندی کر لی ہے۔ اگر ایسا ہے تو تمہیں بتاتی ہوں‘‘۔
اقابلہ کی خوبصورت آنکھیں تنگ ہو گئیں لیکن اندر کی روشنی اس سے بھی زیادہ اندھی کر رہی تھی۔
’’یہ میرے والد کی آخری خواہش ہے اس لیے میں اسے حاصل کرنے کی پوری کوشش کروں گی۔ میں کبھی بھی دارالحکومت سے دستبردار نہیں ہوں گی چاہے اس میں میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے‘‘۔
اقابلہ پرعزم اور مضبوط لگ رہی تھی۔ علی روئی نے جو دیکھا وہ اس کے پیچھے چھپی بے بسی اور غم دیکھ لیا۔ ایک 23 سالہ خوبصورت خاتون نے بہت زیادہ بوجھ اٹھائے ہوئے تھی۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ شخص جہاں بھی ہو ایک جیسا ہوگا۔ ہمیشہ کچھ نہ کچھ تھا جو قابو سے باہر تھا۔
دیومالائی دائرہ کی صورت حال شطرنج کے کھیل جیسی تھی۔ نیرنگ آباد اسٹیٹ ہو یا تینوں سلطنتیں، ہر کوئی شطرنج میں تھا۔ علی روئی اصل میں ایک غیر متزلزل چھوٹا پیادہ بننا چاہتا تھا، لہذا وہ کسی بھی وقت پیچھے ہٹ سکتا تھا۔ بدقسمتی سے، چیزیں اس کی خواہش کے برعکس نکلیں۔ وہ ڈیمن کے دنیا میں دوبارہ پیدا ہوا تھا اس لیے اس کا شطرنج کا حصہ بننا طے تھا۔ چونکہ وہ کھیل میں تھا، اس لیے وہ صرف تماشائی کیسے ہو سکتا ہے۔ اگر وہ ایک معمولی سا پیادہ تھا تب بھی وہ شطرنج کا مہرہ تھا۔ کلید کا انحصار اس بات پر تھا کہ اس نے کس طرح حرکت کی۔ اگر ایک چھوٹا پیادہ اچھا کھیلتا ہے تو یہ مجموعی صورتحال کو بھی متاثر کر سکتا ہے۔ ایک چھوٹا پیادہ ہمیشہ چھوٹا مہرہ نہیں ہو سکتا۔ وہ کھلاڑی جنہوں نے حقیقی معنوں میں صورتحال کو متاثر کیا وہ چھوٹے پیادے تھے جنہوں نے قدم بہ قدم ترقی کی۔
نیرنگ آباد اسٹیٹ کی بنیاد بہت کمزور تھی۔ شہزادہ شوالہ کی بجائے سرمانی سلطنت نے نیرنگ آباد کی لائف لائن کو کنٹرول کیا ہوا تھا۔ ڈیموکلس کی تلوار بھی لٹکتی رہتی تھی جو کسی بھی وقت نیرنگ آباد کا سر قلم کر سکتی تھی۔
اب اہم بات یہ تھی کہ شوالہ کو ’’Sword of Fallen Angel‘‘ کا احساس کب ہوگا۔ دوسری صورت میں اگر نیرنگ آباد کم اہم اور غیر جانبدار رہتا ہے، تباہ ہونا صرف وقت کی بات تھی، اقابلہ کا ذکر نہیں کرنا ابھی بھی طے شدہ تھا۔ پچھلے حکیم چیلنج اور اسکائی بیٹل کو دیکھتے ہوئے، شہزادہ شوالہ آہستہ آہستہ اپنا صبر کھو چکے تھے۔
سپر سسٹم نے بہت اچھا پلیٹ فارم فراہم کیا۔ اس وقت علی روئی کو طاقت اورنیرنگ آباد اسٹیٹ کو استحکام اور ترقی کےلیے وقت درکار تھا۔ اگرچہ وہ یہاں سے فارغ التحصیل نہیں تھا لیکن اپنے اور نیرنگ آباد کے لیےاسے منصوبہ بندی کی بہت ضرورت تھی۔
بارہواں باب
عقلمندی کی حکمرانی
منصوبہ بندی موت کو بھی فتح کر سکتی ہے
علی روئی نے سنجیدگی سے غور کیا تو ماضی کے ان گنت تجربات اور مفیدعلوم اس کے دماغ میں جھلکنے لگے۔ وہ ایک دم کوئی ٹھوس منصوبہ نہیں سوچ سکتا تھا۔ لیکن اپنے گزرے ہوئے حالات پر غور کرتے ہوئے کوئی تابناک منصوبہ ذہن میں تیار کرسکتا تھا جو اس پورے علاقے کی تقدیر بدل دے۔
اقابلہ نے علی روئی کو خاموشی سے دیکھا، پریشان نہیں کیا مگر اس کے جواب کا انتظار کر رہی تھی۔ یہ حقیقت ہے کہ علی روئی کوئی خاص خوبصورت نظر نہیں آتا تھا لیکن اس کے فکر انگیز اظہار میں ایک خاص دلکشی تھی۔ شاید اسی لئے شمائلہ اور فلورا اس کے ساتھ رہنا پسند کرتی تھیں۔ اس نے کہا:
’’چونکہ شہزادی اقابلہ بہت پرعزم ہیں اور پختہ ارادوں کے مقابلے میں میرے پاس موجود حکمت معمولی ہے۔ یہ اور بات کہ میں اپنے ناقص مشورے سے نہیں ڈرتا ‘‘۔
خاصی دیر سوچنے کے بعدعلی روئی نے ایک کھردرا سا فریم ورک شہزادی کے سامنے رکھا۔
’’نیرنگ آباد بیک وقت اندرونی اور بیرونی پریشانیوں میں گھرا ہواہے۔ بیرونی مشکلات کے دفاع کے لیے اندرونی مسائل کا حل ضروری ہے۔ ایک مضبوط اور توانا نیرنگ آباد دارالحکومت کے خلاف مزاحمت کے لیے بنیادی شرط ہے۔ ریجنٹ شوالہ کی برداشت ختم ہوتی جارہی ہے۔ صبر اور انتظار نے اسے چڑچڑا کردیا ہے۔ اس جلدی میں اس نے نیرنگ آباد کے خلاف جوذرائع اور جو طریقہ کار استعمال کرنا شروع کیا ہے۔ وہی اس کی تباہی کا موجب ہوگا۔ جنگ کی صورت میں نیرنگ آباد کوئی زور دارضرب کھانے کے قابل نہیں۔ ہمیں ایک ساتھ دو راستوں سے آگے بڑھناپڑے گا۔ ایک اپنی ترقی سےشوالہ کی توجہ ہٹانی ہوگی، دوسرا اسٹیٹ کے اندر کے مسائل کو فوری طور پرحل کرنا ہوگا اور طاقت تیزی سے بڑھانی ہوگی‘‘۔
’’ہمم‘‘۔
اقابلہ کافی مطمئن لگ رہی تھی۔ کہنے لگی:
’’میں تمہارے نقطۂ نظر سے متفق ہوں مگر وقت کیسے خریدا جائے؟۔ یعنی شوالہ کی توجہ کیسے ہٹائی جائے؟‘‘۔
علی روئی نے پھر کچھ دیر توقف کیا پھر بولا:
’’فلورا کے والد جنرل بوغا شہزادی اقابلہ کے سب سے بڑے حامی ہیں۔ وہ اس وقت شمالی سرحد پر وارلاک قلعے کی حفاظت کر رہے ہیں۔ میں نے فلورا سے سنا ہے کہ اگرچہ تینوں ممالک نے امن معاہدے پر دستخط کیے ہیں لیکن لہووانی سلطنت اکثر سرحد وں پر چھیڑ خانی کرتی رہتی ہے۔ سرحد پر رہنے والوں کو ہراساں بھی کرتی ہے۔ بعض اوقات چھوٹے پیمانے پر لڑائیاں بھی شروع ہوجاتی ہیں۔ لہووانی سلطنت کاشہنشاہ رائزن یہ سب جانتا ہے مگر اس نے اپنی فوج کی طرف سےآنکھیں بند کی ہوئی ہیں ‘‘۔
اقابلہ نے ہاںسر ہلایا میں اور کہا:
شوالہ نے لہووانی سلطنت اور خاقانی سلطنت کے ساتھ امن معاہدےپر دستخط کر رکھے ہیں۔ کیونکہ شوالہ دوسرے دو شہنشاہوں کی طاقت، وقار اور قابلیت کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ مگر وہ دونوں سلطنتیں تومانی سلطنت پر اپنی حریص نگاہیں جمائے ہوئے ہیں۔ رائزن دی گریٹ اور خاقانی سلطنت کی پرام بھی۔ پرام کی طاقت رائزن کے مقابلے میں زیادہ ہے بلکہ وہ دیومالائی دائرے کی پہلی عقلمند حکمران سمجھی جاتی ہے۔ شوالہ سب سے زیادہ انہی دو سے ڈرتا ہے۔ چونکہ جنرل بوغا وارلاک فورٹریس میں ہے، اس لیے ہم لہووانی سلطنت سےفائدہ اٹھا سکتے ہیں‘‘۔
علی روئی کی تجویز سے اقابلہ نےاکتا کر کہا:
’’تم نہیں سمجھتے۔ میرے اور شوالہ کے درمیان تصادم لوسیفررائل فیملی اور تومانی سلطنت کا اندرونی معاملہ ہے۔ اس سے قطع نظر نیرنگ آباد کی صورتحال کتنی ہی سنگین کیوں نہ ہو، ہم کبھی بھی غیر ملکی دشمنوں کے ساتھ گٹھ جوڑ نہیں کرتے یہاں تک کہ اگررائزن کی طاقت شوالہ کو تباہ کرے تو میرا لوسیفر خاندان اس کے لیے مر جائے گا اور میں یہ نہیں ہو سکتا۔ ایسا کرنے سے اقابلہ سلطنت کی سب سے بڑی گنہگار قرار پائے گی‘‘۔
’’شہزادی کو غلط فہمی ہوئی ہے‘‘۔
علی روئی ہلکا سا مسکرا دیا اور بولا:
’’میرا مطلب تھا جب ضروری ہو ہم لہووانی سلطنت کے حملے کا ماحول بنا دیں تاکہ ریجنٹ کی توجہ فوری طورپر اُدھر ہو جائے۔ ہم اس مقصد کے لیے جنرل بوغا کو استعمال کر سکتے ہیں مگر توجہ ہٹانے کے لئے صرف یہی کافی نہیں، ہمیں سلطنت کے اندر بھی کچھ ایسی خرابیاں اور پریشانیاں پیدا کرنی ہوں گی جو شوالہ نظر انداز نہ کرسکے‘‘۔
اقابلہ نے ہلکا سا سر ہلایا اور تعریف کرتے ہوئے کہا:
’’یہ خیال بالکل نیا ہے۔ جنرل بوغا کو اس کے سوااور کوئی مسئلہ نہیں ہے کہ مقامی طور پر تمام لارڈز شوالہ کے حمایتی بن چکے ہیں۔ اس کے علاوہ سرمانی سلطنت نے بھی نیرنگ آباد کا راستہ روک رکھا ہے‘‘۔
علی روئی نے کہا:
’’دارالحکومت پر دباؤ ڈالنے کے لیے لارڈز کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ہماری طرف سے ایسا کوئی جوبہادرہو۔ جس کی زبان میں فصاحت ہو۔ جس کا ذہن صاف ہواورتجارت میں بھی مہارت رکھتا ہو۔ وہ ان لارڈز کےلئے ایک قابلِ اعتماد ماحول بناسکتاہے‘‘۔
’’اگر یہ آخری حل نہ ہوتا تو میں یہ سمجھتی کہ تم اپنے بارے میں بات کر رہے ہو‘‘۔
اقابلہ علی روئی کی باتوں میں دل چسپی لے رہی تھی۔
’’میں پہلےمیں تمہارا پورا منصوبہ سننا چاہتی ہوں‘‘۔
’’ابھی تک یہ صرف خیال ہے۔ اگر غلط ہے تو مجھے امید ہے کہ شہزادی اس پر ناراض نہیں ہوں گی‘‘۔
علی روئی نے تعظیم بجا لاتے ہوئے سرگوشی کی۔ اقابلہ کی آنکھیں دھیرے دھیرے پُر اعتماد ہوتی گئیں۔ اس نے نظر اٹھا کر دیکھا تو وہ طویل عرصے بعد پرسکون دکھائی دی۔
’’میں بس اتنا کہہ سکتی ہوں کہ تمہاری عقل کافی خطرناک ہے‘‘۔
’’اقابلہ کے لہجے میں کافی اعتماد تھا۔ اس نے کہا:
’’اسے ایک دیومالائی سازش کہا جا سکتا ہے۔ اگر کامیاب ہوجا تی ہے تو ڈر ہے کہ دارالحکومت اور دیگر املاک افراتفری کا شکار ہو جائیں گی جس سے مالی نقصان ہو سکتاہے۔
’’خطرناک؟‘‘۔
شہزادی اقابلہ واقعی میری تعریف کر رہی ہے یا تنقید کر رہی ہے؟‘‘۔
علی روئی تلخی سے مسکرایا۔ پھر بولا:
’’اس کے باوجود یہ منصوبہ ابھی ناپختہ ہے اور اس میں مزید بہتری کی ضرورت ہے۔ یہ مستقبل میں کلیدی کردار ادا کرنے کے قابل ہو سکتا ہےچا ہےمنصوبے پر عمل کرنے سے پہلے ہو یا بعد، ہمیں اسے خفیہ رکھنا ہوگا‘‘۔
اقابلہ نے پلک جھپکتے ہوئے کہا:
’’ہاں، اسے راز ہی رہناچاہیے۔ اگر اس سازش پر اچھی طرح عمل کیا گیا تو اس سے شہزادہ شوالہ کابہت زیادہ نقصان ہو سکتا ہے‘‘۔
’’ہمارے درمیان یہ کوئی پہلاراز ہے؟‘‘۔
علی روئی نے جوش میں آکر عادتاً کہا۔ لیکن اسے فوراً پچھتاوا ہوا۔ وہ شاہی لڑکی اور خوبصورتی کا پیکر تھی۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ وہ سراپا ’’برفیلی بہار‘‘ تھی اور اس میں ’’خوفناک‘‘ شامل کرنے کی ضرورت تھی۔ اگر وہ ناراض ہو گئی اور اس کے قاتلانہ ارادے متحرک ہو گئے تو اسے بہت نقصان پہنچے گا۔ خوش قسمتی سےاقابلہ کو غصہ نہیں آیالیکن اس کی آنکھیں کچھ اورٹھنڈی ہو گئیں۔ وہ بولی:
’’میں یہ دوبارہ نہ سنوں۔ ایسا سوچنے سے بہتر ہے کہ اپنی صلاحیتوں کو نیرنگ آباد کی بہتری کے منصوبوں پر استعمال کرو‘‘۔
علی روئی نے کہا:
’’میں معافی چاہتا ہوں۔ میرا مطلب ایسا کچھ نہیں تھا‘‘۔
اور پھر تھوڑا سا مسکرا کر بولا:
’’میں جانتا ہوں شہزادی صاحبہ!آپ اسٹیٹ کےلیے دن رات کام کرتی ہیں اور کبھی مسکراتی بھی نہیں، اس لیے میں نے آپ کی عظمتِ شاہی کی خوشی کے لیے یہ مذاق کیا ‘‘۔
اقابلہ نے مخالف دیوار پر لوسیفر رائل فیملی کے نشان کو دیکھا۔ وہ ایک لمحے کے لیے خاموش رہی اور دھیمے سے بولی:
’’مجھے یاد نہیں کہ میں آخری بار کب مسکرائی تھی۔ میں نے اس قسم کی تمام خواہشیں شمائلہ کےلیے چھوڑ دی ہیں ‘‘۔
علی روئی چونک ساگیا۔ وہ کچھ دیر خاموش رہا۔ پھر سر ہلا کر بولا:
’’میں نے ابھی جو کہا وہ صرف بیرونی مسائل سے نمٹنے کے لیے تھا۔ نیرنگ آباد کے اندرونی مسائل بھی بہت اہم ہیں۔ اگر ہم ان سے جلد نہیں نمٹتے توشوالہ کی توجہ ہٹانے کےلئے ہم جو کچھ کریں گے وہ بےکار جائے گا‘‘۔
اقابلہ نے اس کی جامنی آنکھوں میں چمکیلی نظر ڈالی اور بولی:
’’میں اس پر بھی تمہاری رائے سننا چاہتی ہوں‘‘۔
اگرچہ ماحول وہی تھا مگر اس ایک جملے کے بعددونوں نے غیر واضح محسوس کیا کہ ماحول مختلف ہے۔
علی روئی نے نشاندہی کرتے ہوئے کہا:
’’ فوجی اور اقتصادی مسائل اس وقت سب سے بڑے اندرونی مسائل ہیں۔ پہلےان دونوں پہلوؤں پر مکمل کنٹرول ضروری ہے۔ فوجی لحاظ سےآپ کے پاس امپیریل گارڈز ہیں۔ بے شک آپ اب بھی گیریژن سے مقابلہ کر سکتی ہیں۔ نیرنگ آباد کی معیشت کی لائف لائن پر سرمانی سلطنت مکمل طور پر حاوی ہے۔ فوجی مسائل کےلیےشوالہ کے ساتھ جنگ کی تیاری اوراس تیاری کےلئے اقتصادی مسائل کو حل کرناآپ کی اولین ترجیح ہونی چاہیے‘‘۔
اقابلہ نے اس تجزیہ پر اتفاق کیا اور کہا:
’’علی روئی!تمہارے خیالات مجھ سے ملتے ہیں۔ البتہ نیرنگ آباد اسٹیٹ کی آدھے سے زیادہ خوراک کی فراہمی ایلون فیملی کے تعاون سے ہوتی ہے۔ نیرنگ آباد کا چیمبر آف کامرس اور آدھے اسٹورز بھی یوسف کے ہاتھ میں ہیں۔ لہٰذا ہماری صورتحال کافی غیر فعال ہے۔ دو سال پہلےمیں نے تجارت اور خوراک خریدنے کے لیے مغرب کا راستہ کھولنے کی کوشش کی لیکن ڈاکوؤں کی وجہ سے کافی نقصان ہوا۔ کاروبار کےلئے ڈاکوؤں کا خاتمہ انتہائی ضروری ہے۔
’’آپ ڈاکوؤں کو ختم کرنے کے لیے فوج کا استعمال کیوں نہیں کرتیں‘‘۔
علی روئی نے تجسس سے پوچھا۔ شایداس کے ذہن میں تھا فوج کو دیکھ کر ڈاکو بھاگ جائیں گے۔
اقابلہ نے سرد آہ بھری اور کہا:
’’فوج کو ایان کی قیادت میں انہیں ختم کرنے کےلیے کئی بار بھیجا ہے لیکن ہر بار آپریشن ناکام ہواہے۔ مجھے شک ہے کہ یہ ڈاکو سرمانی سلطنت کی طرف سے بچھایا ہوا ایک جال ہے۔ اس کا مقصد نیرنگ آباد کو مزید کنٹرول میں کرنا ہے اور ایان بھی شاید ان سے ملا ہوا ہے‘‘۔
علی روئی نے سرجھکاکر کہا:
’’سمجھ گیا۔ سفید آنکھوں والابھیڑیا اوربے ہودہ شیر سٹیٹ کے اندرونی اور بیرونی دشمنوں کے ساتھ ملے ہوئے ہیں۔ جیسے ہی نیرنگ آباد ذرا ترقی کرنے لگتا ہے اسے پیچھے کھینچ لیاجاتا ہے۔ ہمارےپاس ان دو لوگوں کو ختم کیے بغیر ترقی کا کوئی راستہ نہیں۔
شہزادی اقابلہ بولی:
’’کیا ایسا ممکن ہے کہ شیر بھیڑیے کو نگل جائے؟۔ دونوں فی الحال ملی بھگت میں ہیں۔ ان کی آپس میں لڑائی ضروری ہے‘‘۔
علی روئی بولا:
’’شہزادی صاحبہ ! مجھے بہت زیادہ تفصیلی معلومات درکار ہیں، اسٹیٹ کے مختلف اعدادوشمار کے ساتھ ساتھ ہر خاندان اور ان کے اہم ارکان کی فہرست بھی۔ خاص طور پر یوسف اور ایان کے متعلق۔ میدان جنگ شاپنگ مالز کی طرح ہوتاہے۔ جنگ کی منصوبہ بندی بازار کی منصوبہ بندی جیسی ہے اور اچھی منصوبہ بندی کےلئےمارکیٹ کا تجزیہ بنیادی ضرورت ہے۔
’’کیا تمہارے پاس ان دونوں سے نمٹنے کا کوئی طریقہ ہے؟‘‘۔
’’شکریہ کہ شہزادی اقابلہ نے مجھے اس قابل سمجھا ہے۔ مجھے کسی ٹھوس خیال کو پیش کرنے سےپہلے تفصیلی معلومات کی ضرورت ہے۔ ہم انسانوں کے پاس جنگ کا ایک قدیم فن ہے، اپنے آپ کو پہچانو اور اپنے دشمن کو جانو، تم ہر جنگ جیتو گے‘‘۔
اقابلہ نے اسے سنجیدگی سے دیکھااور اس کا جملہ دہرایا:
’’ اپنے آپ کو پہچانو اور اپنے دشمن کو جانو، تم ہر جنگ جیتو گے‘‘۔
اور پھر کہا:
’’دیومالائی دائرےانسانی دنیا کے لیے کوئی اجنبی نہیں۔ اگرچہ میں نے یہ جملہ نہیں سنا لیکن مجھے بہت خوشی ہوئی کہ تم میرے دشمن نہیں ہو۔ فرد کا منصوبہ ہو یا مجموعی منصوبہ بندی، بوڑھا طاؤس بھی تمہارا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ تمہاری حکمت سے عظیم آقا کی وراثت سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ مکمل طور پرتمہار اپنا ہنر ہے‘‘۔
’’کیا یہ لانگ زونگ پلان کا دیومالائی دائرے کا ورژن ہو سکتا ہے؟ ٹھیک ہے میرے پاس حکمت عملی کی کچھ صلاحیت ہے‘‘۔
علی روئی نے ذرا ساقہقہہ لگایا۔
’’شہزادی اقابلہ !دراصل میں۔۔۔۔ ‘‘۔
شہزادی اقابلہ نے جملے کاٹتے ہوئے کہا:
’’ٹھیک ہے، وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں۔ میں صرف اتنا جانتی ہوں کہ تم نیرنگ آباد کے سیکرٹری ہو، بس اتنا کافی ہے۔ جو معلومات تمہیں چاہئیں، کاگورون سےمعلومات حاصل کرکے بعد لیب میں بھیج دوںگی‘‘۔
’’ اقابلہ نے فائل بند کی اور سنجیدگی سے کہا:
’’میں تمہیں بتانا چاہتی ہوں کہ ایان سے نمٹنا مشکل نہیں لیکن میں کارون فیملی ناراض نہیں کرنا چاہتی۔ اگر تم اسے مار دیتے ہو تو ایک فوجی طاقت ہماری مخالف ہو جائے گی جس سے ہمارابہت زیادہ نقصان ہوگا۔ یوسف کو بھی ہلکا مت لو۔ اگرچہ تم نے سکائی جنگ میں سب کچھ اچھی طرح چھپایا تھا لیکن کچھ شکوک پیدا ہوئے تھے۔ اس لیے تمہیں محتاط رہنا چاہیے‘‘۔
علی روئی نے کہا:
’’میں جب یوسف کو دیکھتا ہوں تو ایک عجیب سا احساس ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کی طاقت فلورا سے بھی زیادہ ہے۔ لیکن کوئی بات نہیں۔ بس شہزادی اقابلہ کو محتاط رہنا چاہیے‘‘۔
اقابلہ کی گہری جامنی آنکھیں حیرانی سےاسے دیکھتی رہیں۔
’’آپ واقعی ایک عظیم الشان حکیم کی جانشین ہیں۔ آپ کی باتیں غلط نہیں ‘‘۔
علی روئی کے ذہن میں یہ تھا کہ اقابلہ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس کے اردگرد کیا ہو رہا ہے۔ وہ نہیں جانتا تھا تو بس یہ کہ برفیلی بہار شہزادی یا نیسٹی نائس ٹائیگر زیادہ مضبوط ہے کیونکہ وہ دونوں کے بارے میں اندازہ لگانے کے قابل نہیں تھا۔
افواہیں یہ تھیں کہ کل اسکائی بیٹل ختم ہونے کے بعد یوسف خصوصی ایلچی کے ساتھ سرمانی سلطنت واپس آیا۔ شاید وہ اپنے والدکے سامنےاپنی غلطی تسلیم کرنے گیا تھا۔
علی روئی نے کچھ دیر سوچا، پھر اس نے شمائلہ کے ساتھ مل کر ایک اسٹور کھولنے کا اعتراف کیا اور اس کی وجہ کاروباری حکمت عملی کہا۔ پھر اس نے ایک خاکہ تیار کیا جس میں کہا گیا کہ مستقبل میں یوسف کے خلاف لڑنے کے لیے چیمبر آف کامرس کے قیام کے لیے مزید اسٹورز کھولے جا سکتے ہیں۔ آخر میں اس نے اپنے دوسرے مقصد کا اظہار خوش اسلوبی سے کیا جوبیسٹ ایمنگ کے لیے قابل استعمال جادوئی مواد خریدنے کے لیے پیسہ کمانا تھا۔
اقابلہ نے اس معاملے کی مخالفت نہیں کی بلکہ معذرت خواہانہ انداز میں کہا:
’’تمہارے خیالات واقعی طویل مدتی منصوبےہیں۔ تمہیں فری ہینڈ مل سکتا ہے۔ تمہیں میری مکمل حمایت حاصل ہوگی۔ بات صرف اتنی ہے کہ میرے پاس وسائل کم ہیں۔ میں تمہیں مزید فنڈ اور مواد فراہم نہیں کر سکتی‘‘۔
علی روئی بہت خوش تھا۔ کلیدی پالیسی میں فنڈز اور مواد فوری ضرورت تھے۔ چونکہ اقابلہ نے اپنی مکمل حمایت کا اظہار کیا اس لیے اب پیسہ کمانے کے منصوبوں پر غور کیا جا سکتا ہے۔
جب وہ جانے لگا اقابلہ کی مدھم آواز سنائی دی:
’’پہلے دن تمہارا کام بہت متاثر کن ہے سیکرٹری صاحب!‘‘۔
علی روئی مسکرایا اور دروازے سے باہر نکل گیا۔
علی روئی کونسل ہال سے نکلنے کے بعد لیب نہیں گیا بلکہ سیدھا یوسف کی جادو والی دکان پر گیا۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ چمک کو بڑھانے کےلیے کونساجادوئی مواد استعمال کیا جا سکتا ہے۔
پرنسس اقابلہ کی طرف سے سیکرٹری مقرر کرنے کا اعلان ہو چکاتھا۔ چنانچہ راستے میں بہت سے ڈیمنوں نے اسے عجیب نظروں سے دیکھا لیکن علی روئی اس کا عادی ہو چکا تھا۔ وہ جادو کی دکان کی طرف چل پڑا۔ اسکائی بیٹل ہارنے کے بعد یوسف نیرنگ آباد کو چھوڑ کر سرمانی سلطنت میں چلا گیاتھا۔ میجک اسٹور کا انچارج یوسف کےبعد ان گریٹ ڈیمنوں میں سے ایک تھا۔ ان میں علی روئی کو اشمار دکھائی دی۔ علی روئی کو چلبل نے بتایا کہ اشمار ایک خاتون گریٹ ڈیمن ہے۔ نتاشا بھی وہاں ایک اور گریٹ ڈیمن اور جبران بھی موجودتھا۔ یہ یوسف کے سب سے تیز ترین تین سکیتھس تھے۔ یوسف ذاتی طور پر کبھی کوئی قدم نہیں اٹھاتا تھا، سب کچھ یہی طے کرتے ہیں۔ تاہم علی روئی یہ جانتا تھا کہ یوسف کی ذاتی طاقت ان سے کہیں زیادہ اور خوفناک ہے۔ اشمار نہ صرف طاقتور بلکہ انتہائی ذہین بھی تھی۔ وہ یوسف کی سب سے قابل قدر معاون تھی۔ اس کے مقابلے میں نتاشا کی حیثیت باڈی گارڈ کی تھی۔ اس بار وہ یوسف کے ساتھ سرمانی سلطنت میں واپس آیا جبکہ جبران ایک جنگجو شخص تھا جو میدان کے امور کا ذمہ دار تھا۔ علی روئی کی آمد نےاشمار کو قدرے حیران کر دیا۔ اشمار کل اسکائی بیٹل میں بھی موجود تھی۔ صرف یہ ظاہر کرنے کےلیے کہ ننھی شہزادی کی پارٹی کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ یوسف اس انسان کو مارنا چاہتا ہے۔ وہ سوچنے لگی، انہوں نے آج اسے یہاں اکیلا کیوں آنے دیا؟۔
علی روئی نے سلام کیا لیکن اشمار نےایک بے اختیار انسان کو سلام کا جواب دینا مناسب نہ سمجھا۔ علی روئی نے گریٹ ڈیمن کے رویے کی پرواہ کیے بغیر کہا:
’’حکیم الداس اس وقت جادوئی دوائیاں بنا رہے ہیں، اس لیے اس نے مجھے یہاں جادوئی مواد تلاش کرنے کے لیے بھیجا ہے‘‘۔
وہ جانتا تھا کہ سیکرٹری کے طور پر اس کی شناخت صرف عام اقابلہ طین کو ڈرا سکتی ہے۔ اشمار جیسی مضبوط ڈیمن کے سامنے یہ بات قابل ذکر نہیں تھی، اس لیے اس نےحکیم الداس کا نام لینا ہی مناسب سمجھا۔
اشمار اس کے آنے کا مقصد سمجھ گئی اور بولی:
’’کیمیا ئی اور جادوئی مواد دوسری منزل پر ہے۔ دوسری منزل جادوئی سامان کےلیے مختص ہے۔ تم خود ہی دیکھ لو‘‘۔
یوسف کا اسٹور شمائلہ کی سنکی دکان سے کہیں بڑا تھا۔ ہر آئٹم کو زمرہ کے لحاظ سے شیلف پر رکھا گیا تھا۔ دکاندار ایک لیچ تھا اور کئی سیاہ بونے اسٹور میں معاون کے طور پرموجود تھے۔
اشمار نے تاریک بونے کو اندر آتے ہوئےدیکھا اور اطلاع دی۔ علی روئی نے ہر مواد کا ایک ایک ٹکڑا مانگا۔ اسے شک ہوا اور پوچھا:
’’کیا کر رہے ہو؟‘‘۔
علی روئی قلم سے ریکارڈنگ کے دوران مواد کو چھو رہا تھا۔ اس نے جواب دیا:
’’میں ان موادوں کی کوالٹی اور کثافت کا تعین کرر ہا ہوں۔ حکیم نے کہا کہ فارماسیوٹکس سخت علم کا ایک اسکول ہے جو کسی بھی طرح کی سستی برداشت نہیں کرسکتا‘‘۔
اشمار فارماسیوٹکس کا ایک عام آدمی تھا۔ یہ دیکھ کر اس نے سنجیدگی سےپوچھا:
’’ اس نے مزید کچھ نہیں کہا؟‘‘۔
علی روئی سب کچھ چیک کرنے کے بعد اشمار کے پاس گیا۔ علی روئی نے کچھ کہنے سے ہچکچاتے ہوئے کہا:
’’حکیم کی ایک چھوٹی سی درخواست ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ میں سر یوسف کو تلاش کروں لیکن بدقسمتی سےسر یوسف نیرنگ آباد کو چھوڑ چکے ہیں۔ مجھے یقین نہیں ہے کہ اشمار ان کی طرف سے فیصلہ کر سکتی ہیں؟‘‘۔
اشمار کو حکیم الداس کے بارے میں کچھ کہنے کی ہمت نہیں ہوئی جس نے دارالحکومت کے ذہین کو زہر دے کر مار ڈالا:
’’پہلے مجھے بتاؤ، کیا درخواست ہے؟‘‘۔
’’حکیم نے یہ کہا ہے کہ تجربے کےلیے منتخب مواد کے چھوٹے سے ٹکڑے دے دیں۔ مواد کی جانچ کرنے کے بعد ہم دوبارہ بڑی تعداد میں خریدیں گے‘‘۔
اکتائی ہوئی اشمار سےعلی روئی نے یہ بھی کہا:
’’حکیم نے کہا کہ اگر آپ یہ درخواست قبول کرتے ہیں تو تجربہ کامیاب ہونے کے بعد ہم جادو کی دوائیاں سر یوسف کے جادوئی اسٹور کو سب سے کم قیمت پر فروخت کریں گے‘‘۔
’’معاف کیجئے گا، حکیم کس قسم کی جادوئی دوائیاں آزما رہا ہے؟‘‘۔
علی روئی کی باتیں سن کر لیچ اس طرف متوجہ ہوکر اوپر آ گیا۔ لیچ جادو میں ماہر تھا اس لیے وہ خاص طور پر اس بارے میں فکر مند تھا۔ علی روئی نے احتیاط سے دیکھا اور اس بات کو یقینی بنایا کہ سیاہ بونے دور ہیں۔ اس نے پراسرار انداز میں کہا:
’’اس میں ایک خفیہ تجربہ شامل ہے۔ سننے کے بعد راز میں رکھیے گا۔ لگتا ہے کہ حکیم دوائیوں کی ایک قسم کے ساتھ تجربہ کر رہے ہیں جو کسی بھی ضمنی اثرات کے بغیر ایک خاص مدت میں روح کو بہت زیادہ بڑھا سکتا ہے۔ فی الحال یہ صرف آزمائشی مرحلہ ہے۔ بنیادی طور پر اسے دوائیوں کی الٹی کو بہتر بنانے اور اس کے مضر اثرات کو کم کرنے میں کچھ مشکلات کا سامنا ہے اس لیے فوری طور پر مختلف مواد کے ساتھ کوشش کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔
درحقیقت یہ صرف ایک خاص قسم کی کھوئی ہوئی اعلیٰ درجے کی دوائی ہے جسے علی روئی نے فارماسیوٹکس میں دیکھاتھا۔ وہ بڑبڑا دیا۔
’’روح کی دوائی۔۔۔ وہ بھی بغیر کسی مضر اثرات کے؟‘‘۔
لیچ چونک گیا اور کانپتی ہوئی آواز میں بولا:
’’کیا یہ سچ ہے؟ روح کی دوائی؟ یہ صرف ایک لیجنڈ گرینڈ حکیم ہی تیار کر سکتا ہے! کیا حکیم الداس اس سطح پر پہنچ گیا ہے؟‘‘۔
علی روئی اپنے جھوٹ کو بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ وضاحت کرتے ہوئے بولا:
’’ابھی تک تجرباتی مرحلہ چل رہا ہے۔ حکیم کئی بار ناکام ہو چکا ہے۔ وہ کچھ مواد کو ایڈجسٹ کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیےانہوں نے مجھے یہاں بھیجا ہے۔ یہاں کا کچھ مواد بہت مہنگا ہے۔ اس لیے ہم نے سر یوسف سے درخواست کی ہے‘‘۔
ویسے بھی ہزاروں سالوں سےبہت سارے حکیم ز ضرور ہوں گے جنہوں نے عظیم الشان حکیم سے کلاس لینے کی کوشش کی۔ جب وقت آتا ہےمیں کہہ سکتا ہوں کہ یہ ناکام رہتے ہیں۔
چاٹ واقعی پرجوش لگ رہا تھا۔ اصلی دوائیوں کی سیریز صرف گرینڈ حکیم کے ذریعے ہی تیار کی جاسکتی ہیں۔ دیومالائی دائرےمیں ہزاروں سالوں سے کوئی پوشن گرینڈ حکیم نہیں ہے۔ اس قسم کے دوائیاں بھی راستے میں کھو گئی ہیں۔ وہ صرف کچھ ریکارڈوں میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ حکیم الداس ہمیشہ کم اہمیت کا حامل رہا ہے۔ حالیہ حکیم چیلنج کے بعد ہی اس نےدارالحکومت کے پہلے جینئس کو آسانی سے زہر دے دیااور اپنی حقیقی صلاحیتوں کے قابل ہوا۔ وہ درحقیقت فارماسیوٹکس کے عروج کو چیلنج کرنا شروع کر دیتا ہے۔
حکیم الداس کئی بار ناکام ہو ا لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ گرینڈ حکیم لیول کو چیلنج کر رہا تھا۔ اس نے اپنی طاقت ظاہر کی۔ سیاہ ایلف حکیم ایک دن ضرور کامیاب ہوگا۔
اشمار فارماسیوٹکس کو نہیں سمجھتی تھی لیکن وہ جانتی تھی کہ پوشن گرینڈ حکیم کس چیز کی نمائندگی کرتا ہے۔ اگر حکیم الداس واقعی یہ رکاوٹ دور کر سکتا ہے تو ہزاروں سالوں سےدیومالائی دائرےکے پہلے عظیم الشان حکیم کا اعزاز حاصل کر سکتا ہے۔ یوں شہزادہ شوالہ کا رویہ بھی حکیم الداس سے بدل جائے گا۔ جہاں تک انسان کے منتخب کردہ مواد کا تعلق ہےاس میں بہت قیمتی چیزیں وہاں موجود تھیں لیکن اس کی نظر میں بےکار تھیں۔
’’اس معاملے میں سر یوسف کی طرف سے وعدہ کرتی ہوں اور لیچ گرو گیس کی طرف سے بھی کہ ہم ٹکڑے نہیں فوری طور پر ہر وہ جادوئی مواد فراہم کریں گے جس کی انہیں ضرورت ہو گی‘‘۔
اشمار چالاک تھی۔ اس نے فوری طور پر فوائد اور نقصانات کاموازنہ کر لیا تھا۔ یوسف نے ایک دفعہ حکیم الداس کو پھنسانے کےلیے اپنا ارادہ ظاہر کیا تھا، اس لیے اشمار فوراً راضی ہو گئی۔
’’شاندار انتخاب جناب!‘‘۔
لیچ گروگیس بھی گرینڈ حکیم کے پہلے کام کا مشاہدہ کرنا چاہتا تھا۔ اس نے جواب دیا اور مواد لینے کے لیے فوراً شیلف میں چلا گیا۔ یقینی طور پر لیچ نے ٹکڑوں کے بجائے بہترین معیار کا مواد فراہم کیا۔
اشمار کا انسان سے رویہ اچھا نہیں تھا لیکن علی روئی اس وقت بہت پرجوش تھا اس لیےاسے اس بارے میں کوئی پریشانی نہیں تھی۔
’’شکریہ جناب! میں آپ کی سخاوت اور مہربانی کو حکیم تک پہنچاؤں گا‘‘۔
ابتدائی’’ نمونہ جانچ‘‘ محض ایک خیال ہے۔ کون جانتا ہے کہ میں واقعی بہت کماتا ہوں۔ <Aura Conversion> کے ساتھ ان کی جانچ کرنے کے لیے واپس جانا بہت اچھا ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ کون سا مواد سب سے زیادہ چمک دیتا ہے۔ اگرچہ علی روئی جادوئی اسٹور کے شیلف پررکھے بہت سارے مواد پر نظریں جمائے ہوئے تھا لیکن وہ جانتا تھا کہ اسے اس سے زیادہ کچھ نہیں ملنا۔ اگرچہ اس کا لالچی ہونا نتیجہ خیز ثابت ہو سکتا تھا لیکن وہ سچ نہیں بول رہا تھا۔ اسپرٹ پوشن محض ایک فراڈ تھا۔
ایک بڑےبھاری سامان میں30سے زیادہ قسم کے جادوئی مواد تھے۔ علی روئی نے لیچ کا شکریہ ادا کیا اور دروازے سے باہر نکل گیا۔
علی روئی کے جانے کے بعد اشمار نے گروگیس سے کہا:
’’فوراً اوپر جاؤ اور جادوئی پتھر کے ساتھ سر یوسف سے رابطہ کرو۔ گرینڈ حکیم لیول دوائیوں پر تجربہ کرنے والے سر ابو حکیم الداس کو خفیہ طور پر رپورٹ کریں۔ کسی بھی اقدام سے پہلے سر یوسف کے فیصلے کا انتظار کریں گے۔
’’اوکے‘‘۔
یہ کہہ کر گروگیس اوپر چلا گیا۔
علی روئی نے ایک بڑا سامان اٹھایا اور اپنا جوش دباتے ہوئے لیبارٹری کی طرف چل دیا۔ جب وہ آدھا راستہ طے کر چکا تو اسے پتہ چلا کہ کوئی اسے گھور رہا ہے۔ علی روئی نے اپنے ذہن میں سوچاکہ اشمار اور گروگیس کے رویے کی وجہ سے کسی کو اس کا پیچھا کرنے کےلیےنہیں بھیجیں گے۔ یہ کوئی چھوٹا چور ہونا ہو سکتا ہے۔ وہ ایک پرسکون جگہ کی طرف چل دیا۔ اس کا پیچھا کرنے والابھی اسی طرف چل دیا۔ ایک ویران گلی میں جا کر سامنے والاانسان اچانک غائب ہو گیا۔ ڈیمن حیران رہ گیا اور احتیاط سے آگے بڑھنے لگا۔ یہ ایک سیاہ بونا تھا جس نے چھوٹی سی چادر اوڑھ رکھی تھی۔ وہ ادھر ادھر دیکھ رہا تھا کہ پیچھے سے آواز آئی:
’’کیا ڈھونڈ رہے ہو؟‘‘۔
سیاہ بونا چونک گیا۔ اس نے مڑ کر دیکھا تو جس کے پیچھے چل رہا تھا وہی ہے جس نے سامان زمین پر رکھا ہوا ہے۔
’’جی… سر سیکریٹری!‘‘۔
بونا تعظیم بجا لایا۔ اس کا چہرہ خوش کن مسکراہٹ سے ڈھکا ہوا تھا۔
پہلی بار علی روئی کو اس کی انسانی شناخت کے ساتھ سرکہا گیا۔ اسے اچھا محسوس ہوا۔ اگرچہ سیکریٹری محض ایک چھوٹا سا پیٹی فوگر تھا لیکن کم و بیش تاریک بونوں اور نقیبوں کی نظر میں ایک سرکاری افسر تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ بونا ساری خبریں رکھتا ہے۔ علی روئی نہیں جانتا تھا کہ سیاہ بونے کا ارادہ کیا ہے۔ اسے قدرتی طور پر ایسے چھوٹے کرداروں کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔ اس نے پوچھا:
’’تمام رستے میرا پیچھا کرتے رہے ہو۔ کیا ارادے ہیں تمہارے؟‘‘۔
یہ دیکھ کرکہ اس کی حرکت پکڑی گئی ہے،سیاہ بونا چونک گیا۔ اس نے جلدی سے اپنی صفائی پیش کی:
’’سرآپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں نے دیکھا کہ آپ بہت ساری چیزیں پکڑے ہوئے ہیں، میں صرف مدد کرنا چاہتا ہوں۔ صرف5سفید کرسٹل سکوں کے ساتھ چیزوں کو لیب تک پہنچانے میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں‘‘۔
ایک پورٹر؟ علی روئی نے بونے کے چھوٹے جسم کا جائزہ لیا، سر ہلایا اور کہا:
’’ ٹھیک ہے، میں اسے خود اٹھا سکتا ہوں‘‘۔
’’جناب! اگر5زیادہ ہیں تو 4بھی چل جائیں گے‘‘۔
سیاہ بونا تیزی سے آگے بڑھا اور قیمت میں مسلسل کمی کرتا رہا۔
’’2 سفید کرسٹل سکے، سرمیں اس سے نیچے نہیں جا سکتا‘‘۔
جیسے ہی اس نے کہا، بونے نے اپنا ہاتھ اچانک ہلایا اور ایک پاؤڈر کے بادل نے علی روئی کو ڈھانپ لیا۔ علی روئی نے تجربہ گاہ میں بہت سا علم سیکھاتھا۔ وہ بتا سکتا تھا کہ یہ بو سے بیولڈر فلاور تھا۔ اس سے لوگ تھوڑی دیر کے لیے اپنی طاقت کھو جاتے ہیں۔ علی روئی متاثر ہوا، لڑکھڑا گیا اور زمین پر گر پڑا۔
’’کون سا سیکرٹری؟۔ تم صرف ایک احمق انسان ہو‘‘۔
سیاہ بونا بہت خوش تھا۔ وہ سامان اٹھانے ہی والاتھا کہ اچانک اس کا گلا کسی نے زور سے دبایا۔ اس کا پورا کمزور جسم ہوا میں معلق ہو گیا۔ اس کا سانس لینا مشکل ہو گیا۔ اور اعضا لڑکھڑا رہے تھے۔
تاریک بونے نے احمق سیکرٹری کی طرف دیکھا جو اس کی گردن دبا رہا تھا۔ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اس کمزور انسان میں اتنی طاقت کیسے ہے۔ تاہم ڈارک ڈورف کی جنگی طاقت دیومالائی دائرےمیں سب سے نیچے تھی جو امپ سے بھی بدتر تھی۔ ان کی مہارت ان کی دستکاری اور کچھ چھوٹی چالیں تھیں۔ مٹھی بھر باصلاحیت افراد کے علاوہ جنہوں نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا، عام طور پر وہ صرف نوکر یا کلی ہو سکتے ہیں۔
علی روئی کی موجودہ طاقت سیاہ بونے کی گردن توڑ سکتی تھی لیکن اس نے ایسا نہیں کیا، اس کے بجائے ڈی ڈبلیو آر ایف کو پھینک دیا۔
سیاہ بونا زمین پر گر پڑا اور گردن پکڑ کر زور زورسے کھانسا۔ اس نے خوف سے انسان کو دیکھا۔
’’میرے ساتھ چال چل رہا تھا۔ تمہیں پتہ نہیں میں کس کا شاگرد ہوں‘‘۔
سپر سسٹم کوچھپانے کے لیے علی روئی نے مہارت سے حکیم الداس کو قربانی کے بکرے کے طور پر استعمال کیا۔
تاریک بونےکا ہوش ٹھکانے آیا۔ اس کے ذہن میں لالچ کا غلبہ تھا کہ اس نے ایسی احمقانہ غلطی کی۔ اس نے ایک پوشن حکیم کے شاگرد پر پاؤڈر کا استعمال کیا جو ایک فارماسیوٹکس حکیم ہے جو مخصوص گیس سے ڈریگن کو زہر دے سکتا ہے۔
’’مجھے سوچنے دو کہ تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنا ہے۔۔۔۔ تمہیں راکھ کے ڈھیر میں یا پانی کے تالاب میں زہر دے دوں؟‘‘۔
تاریک بونے کو ایک افواہ یاد آئی کہ اس شاگرد نے ایک بار ایک لڑکے کہ دو دن پہلے مارا تھا۔ اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہر دوڑ گئی اور پورا جسم کانپنے لگا۔
علی روئی کو جس چیز نے حیران کیا وہ یہ تھا کہ یہ بونا جو بزدل نظر آ رہا تھا، ڈرنے کے بجائے اس خطرے سے آگاہ کرتے ہوئے بولا:
’’کسی غلط فہمی میں مت رہو۔ میں ایک تہہ دار گینگ کا ممبر ہوں۔ اگر تم نے مجھے زہر دینے کی ہمت کی تو ہمارا لیڈر تمہیں نہیں چھوڑے گا‘‘۔
’’تہہ دار گینگ ؟؟۔ کیا یہ نیرنگ آباد میں کوئی گینگ ہے؟ ‘‘۔
کوئی تعجب نہیں کہ اس کے پاس پراسرار کام کرنے کے لیے ایک چھوٹی سی چادر تھی۔ علی روئی کچھ دیر اپنے آپ سے بڑبڑایا پھرپوچھا:
’’تمہارا لیڈر کون ہے؟‘‘۔
یہ سن کر تاریک بونا اعتماد سے بولا:
’’میرا لیڈر بہت بڑا طاقتور آدمی ہے۔ صرف ایک ہاتھ سے اس نے نیرنگ آباد کے گانگاجیسے بدنام زمانہ گینگسٹر کا سر توڑ دیا۔ کل وہ ہتھوڑا مانگنے آیا تھا جسے لیڈر نے پکڑ لیا‘‘۔
’’گانگا، ہتھوڑا؟ ‘‘۔
علی روئی نےذہن پر زور دیا کچھ سنا سنا لگا۔ سیاہ بونے نے اس لیڈر کی طاقت کا فائدہ اٹھایا اور فخر سے کہا:
’’ہمارے تہہ دار گینگ کا لیڈر منگول ہے‘‘۔
یہ نام سن کر علی روئی حیران ہوا۔
علی روئی کو یاد آیا کہ جب اس نے پہلی بار ارتقاء حاصل کیا تھا وہاں اس نے بونے باپ اور بیٹی کو گلی میں بچایا تھا سیاہ بونے نے علی روئی کے حیران کن تاثرات کو دیکھا اور سوچا کہ انسانی سیکرٹری لیڈر کے نام سے ڈر گیا ہے۔ اس کے بعد اس نے ایک اور دلچسپ معلومات دی۔ بولا:
’’میں تمہیںبتاتا ہوں، شمرال کی کزن ساسا ہمارے لیڈر کی بیوی ہیں‘‘۔
علی روئی کو شدید صدمہ ہوا جیسے اس پر بجلی گر گئی ہو۔ مس ساسا کی خوبصورتی اس کے دماغ میں نمودار ہوئی اور اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ اس قسم کی ظاہری شکل۔۔۔ کوئی عام خصوصیت نہیں ہے۔ سیاہ بونے نے مزید خطرات سے آگاہ کیا۔ پھر انسانی سیکرٹری کو تیزی سے آتے ہوئے دیکھا اور اس کا ہاتھ پکڑا کر بولا:
’’مجھے فوراً اس تہہ دار گینگ کے لیڈر کےپاس لے چلو‘‘۔
اس کی نظریں زمین پر پڑے سامان پر تھیں۔ وہ بولا:
’’پیچھے سے اگر یہ سامان غائب ہو گیا تو؟؟‘‘۔
علی روئی نے کہا:
’’ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ‘‘۔
اچانک سامان غائب ہوگیا۔ بونے نے حیرت سے کہا:
’سامان ؟؟؟‘‘۔
علی روئی بولا:
’’جلدی چلو۔ تیز،اور تیز‘‘۔
علی روئی نے بے صبری سے تاکید کی۔ اگر یہ معاملہ حل نہ کیا گیا تو خواتین کو شدید صدمہ پہنچے گا۔ علی روئی کی پراسرار طاقت کے خوف سے شمرال نے مزید کہنے کی ہمت نہیں کی۔ علی روئی غصے میں تھا اور سپر سسٹم میں گودام کے ذخیرہ کو چالو کرنے کے لیے اس نے500پوائنٹس صرف کر دیے تھے۔ اس کے دماغ کے ساتھ جادو کے مواد کو واقعی آسانی سے ذخیرہ کیا گیا تھا۔ اگر وہ کلوننگ گینگ کو پریشان کرنے والانہیں تھا تو وہ اسٹوریج کے کام میں آزماتا۔
شمرال کافی دیر گھماتاہواعلی روئی کو ایک چھوٹے سے صحن میں لے گیا۔ ارد گرد اسی طرح کے لباس پہنے ہوئے کئی ننھے بچے تھے۔ شخصیت اور حرکت سے وہ یا تو امپ تھے یا بونے تھے۔ ایک چھوٹی چادر اوڑھے آدمی نے زوردار قہقہہ لگایا:
’’شمرال !دیکھتے ہیں تم واپس کیا لائے ہو؟ اے۔۔۔ انسان؟؟؟‘‘۔
شمرال نے جلدی سے اثبات میں سر ہلایا۔ کئی پوش لوگوں نے پہچان لیا کہ نیرنگ آباد میں یہ واحد انسان تھا جو نیا سیکرٹری بھی ہے۔ زہر میں ڈھکے ہوئے انسان کے بارے میں سوچ کر پوشیدہ لوگ لامحالہ خوف زدہ تھے۔ پھر بھی وہ اس بات کے بارے میں زیادہ متجسس تھے کہ کلوننگ گینگ میں انسان کیا کر رہا ہے۔ کیا وہ گینگ میں شامل ہونا چاہتا ہے؟۔
دونوں گھر میں داخل ہوئے تو علی روئی نے دیکھا کہ درمیان میں ایک کرسی پربوڑھا بونا بیٹھا ہوا ہے۔ جمرال جو اس کو اپنا سسر کہتی تھی کے ساتھ مس ساسا تھیں جو خاص طور پر بونے جیسی تھی۔ شمرال نے جمرال سے سرگوشی میں کچھ الفاظ کہے تو بوڑھا بونا حیران ہو کر کھڑا ہو گیا۔ بوڑھا بونا علی روئی کی طرف جھک گیا۔ وہ جانتا تھا کہ حکیم الداس اور شہزادی اقابلہ کے پاس اس آدمی کی پشت ہے۔ وہ یقینی طور پر اس آدمی کو ناراض کرنے کا متحمل نہیں تھا۔ اس لیے اس نے فوراً اپنے آقا سے کہا:
’’’سر سکریٹری! شمرال صاحب بے حس اور بددماغ ہے۔ کلوننگ گینگ کی طرف سے میں آپ سے معافی مانگتا ہوں۔ آپ ہمارے لیڈر کی طرف سے اس واقعے سے دل کھوٹا نہ کیجیے‘‘۔
’’بھاڑ میں جائے تمہارے لیڈر‘‘۔
علی روئی پریشان نہیں تھا۔ اس نے بوڑھے بونے کی ڈینگیں روکتے ہوئے کہا:
’’اسے باہر بھیجو۔ مجھےتم سے اکیلے میں بہت ضروری بات کرنی ہے‘‘۔
بوڑھے بونے نے اپنی بیٹی ساسا کی طرف اشارہ کیا اور کہا:
’’جناب! آپ جو کہنا چاہتے ہیں وہ رازدارانہ بھی کہا جا سکتا ہے۔ لیکن یہ میری بیٹی ساسا ہےجو ہمارے لیڈر کی بیوی بھی ہے۔ اسے سننے کا بالکل حق ہے‘‘۔
یہ سن کر علی روئی اور بھی غصے میں آگیا۔ وہ اس خود ساختہ سسر کو پکڑنا کر مارنا چاہتا تھا۔ اس نے دانت پیستے ہوئے کہا:
’’بکواس مت کرو! میرا صبر مت آزماؤ‘‘۔
بوڑھے بونے کو انسان کے زہر کا خیال آیا،وہ کانپ گیا۔ اس نے ساسا اور شمرال کودیکھا۔ وہ فوراً باہر نکل گئے۔
’’سر علی روئی!‘‘۔
بوڑھے بونے کا رویہ اور بھی زیادہ احترام والاتھا۔
’’کیا میں جان سکتا ہوں کہ صاحب ہم سے کیا کہنا چاہتے ہیں۔ ہمارا تہہ دار گینگ ابھی قائم ہوا ہے زیادہ عرصہ نہیں گزرا۔ ہمارا لیڈر اکثر غیر حاضر رہتا ہے‘‘۔
’’تم ابھی بھی اس کے بارے میں بات کر رہے ہو؟؟‘‘۔
علی روئی نے بوڑھے بونے کی طرف غصے سے اشارہ کیا۔ اس کا چہرہ نفرت سے بھرا ہوا تھا لیکن وہ بول نہیں سکتا تھا۔ اس نے دانت پیس کر کہا:
’’تم نے منگول کی ساری ساکھ کھو دی ہے‘‘۔
بوڑھا بونا جو احترام سے سر ہلا رہاتھا، دنگ رہ گیا۔
’’آپ ہماری قیادت کو جانتے ہیں کہ ہمارے آقا؟‘‘۔
’’تمہارے آقا کی جان میری وجہ سے بچی ہے۔ ہمارے تعلقات کی قربت کا تم تصور بھی نہیں کر سکتے‘‘۔
یہ واقعی سچ تھا کیونکہ دونوں کی شناخت ایک ہی شخص کی تھی۔
بوڑھا بونا شک میں مبتلا تھا۔ حکیم منگول کی طاقت اتنی طاقتور ہے کہ وہ گانگا کو آسانی سے شکست دے سکتا ہے۔ وہ کم از کم ایک انٹرمیڈیٹ ڈیمن ہے۔ وہ اس بے اختیار انسان سے قریبی رشتہ کیوں رکھے گا ؟۔
علی روئی نےجمرال کو شک کی نظروں سے دیکھا اور سرد لہجے میں کہا:
’’اس رات جب منگول نے تمہیں بچایا، تمہیں جامنی رنگ کا ایک کرسٹل سکہ دیا۔ اس کے بعدتم نےاس کاخادم بننے پر اصرار کیا۔ پھر اس نےتمہیں سکہ دیا۔ کیا میں ٹھیک کہہ رہا ہوں؟‘‘۔
یہ واقعہ بونے باپ، بونی بیٹی اور منگول کو معلوم تھا، اس لیے بوڑھے بونے کو مزید شک کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ اس نے جلدی سے کہا:
’’سر علی روئی! جمرال ابھی نادان ہے۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ میرا آقا کہاں ہے؟‘‘۔
’’وہ مضبوط طاقت کی تربیت حاصل کر رہا ہے‘‘۔
علی روئی بوڑھے بونے کے لیے اچھا نہیں تھا۔
’’تم اپنے دل میں جانتے ہو کہ تم وہ خادم نہیں ہو جسے وہ تسلیم کرتا ہے۔ درحقیقت3جامنی رنگ کے کرسٹل سکے جو اس نے دیے تھے اس کا مقصد تمہیں آزمانا تھا۔ مجھے یقین نہیں آتا کہ تم اپنی بیٹی کو اس کی بیوی ہونے کا بہانہ بناتے ہو اور لوٹنے اور دھوکہ دینے کے لیے ایسا تہہ دار گینگ بناتے ہو، اگر اسے یہ معلوم ہو گیا تو وہ تمہیں ضرور مار ڈالے گا‘‘۔
’’تو، حکیم میرا امتحان لینا چاہتے تھے؟‘‘۔
بوڑھے بونے کو ٹھنڈا پسینہ آگیا۔ اس نے چپکے سے خوشی محسوس کی کہ اس نے3جامنی رنگ کے کرسٹل سکے نہیں لیے۔
’’سر علی روئی! براہ کرم حکیم منگول کو بتائیں کہ جمرال حکیم کے امتحان پر پورا اترتی ہے۔ جمرال نے پہلے ہی حکیم کو کلوننگ گینگ قائم کرنے میں مدد کی۔ اگرچہ یہ صرف آغاز ہے، ابھی یہ اور مضبوط ہو گا!‘‘۔
بولتے ہوئے بوڑھے بونے نے مٹھی بھر جامنی رنگ کے کرسٹل سکے نکالے اور اپنے دونوں ہاتھ علی روئی کے حوالے کیے اور بولا:
’’میں نے3جامنی رنگ کے کرسٹل سکوں سے چند گنا کمایا ہے جو حکیم نے مجھے شروع میں دیا تھا۔ براہِ کرم یہ آقا کو خادم کی طرف سے نذرانے کے طور پر دے دیں‘‘۔
بوڑھے بونے کو نہ صرف لوٹ مار اور چوری کرنے کے لیے ایک گینگ قائم کرنے پر افسوس نہیں تھا بلکہ اسے اس پر فخر تھا۔ اسے یقین تھا کہ وہ حکیم کے لیے کیریئر بنا رہا ہے۔
علی روئی جانتا تھا کہ دیومالائی دائرے کے اپنے اصول ہیں۔ اس لیے وہ زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔ تاہم بوڑھے بونے کے طریقہ کار سے حیران تھا۔ کئی دنوں کی کوششوں سےابتدائی3جامنی رنگ کے کرسٹل سکے10سے زیادہ ہو گئے۔ ان چھوٹے پوش بونوں پرکون بھروسہ کرتا ہے۔
سب جان لینے کے بعدعلی روئی نے محسوس کیا کہ اس رقم کا 90فیصد بوڑھے بونے نے کمایا تھا۔ بوڑھا بونابہت شاطر تھا۔ وہ نیرنگ آباد میں اسٹورز اور اسٹالز کو اپنے ہاتھوں کی پشت کی طرح جانتا تھا۔ مثال کے طور پرشہر کے شمال میں درندے کی چھپیاں سب سے سستی تھیں جو10سفید کرسٹل سکے میں فروخت ہوتی تھیں۔ اگر کوئی اسے شہر کے جنوب میں بیچتا ہےتو کوئی اسے کم ازکم13سفید کرسٹل سکوں میں بیچ سکتا ہے۔ بوڑھے بونے نے اسی فرق کے تحت کمانے کےلیے اس خرید و فروخت پر انحصار کیا۔ ماضی میں وہ اپنا روزانہ کا کھانا کمانے کے لیے چھوٹا سا کاروبار کر رہا تھا اور اکثر گانگا جیسے بدمعاشوں کے ذریعے اس کا استحصال ہوتا تھا۔ اس لیے اس کی زندگی مشکل تھی۔
علی روئی نے اس رات گانگا کو سبق سکھایا۔ بوڑھا بونا بعد میں گانگا کے چھوٹے بھائی گوب سے ملا۔ جب اس نے بہادری سے ذکر کیا کہ وہ اس رات کے طاقتور آدمی کا نوکر تھا تو گوب ڈر گیا تھا۔ بوڑھے بونے کا حوصلہ بڑھایا جا رہا تھا۔ اس نے خرید و فروخت کے اپنے کاروبار کو بڑھانے کے لیے3جامنی رنگ کے کرسٹل سکے بطور سرمائے کا استعمال کرنا شروع کیا۔ اس نے لوگوں کے ایک گروپ کو تیزی سے بھرتی کرنے کے لیے منگول کو شکست دینے کی شہرت کا بھی استعمال کیا اور کلوننگ گینگ قائم کیا۔ بعض اوقات اسے دوسروں کو آگاہ کرنے کے لیے منگول کی طاقت کا فائدہ اٹھانا پڑتا تھا اور کمانے کے لیے زبردستی خرید و فروخت جیسے طریقے استعمال کیے جاتے تھے۔
علی روئی ہکا بکا رہ گیا۔ وہ ایک اور بات سوچ رہا تھا۔ بوڑھے بونے نے اس طرح کی کمائی سے اتنے کم وقت میں ایک تنظیم قائم کر لی ہے۔ اس کی صلاحیت واقعی غیر معمولی تھی۔ اگرچہ یہ چادر محض ایک طنز تھی لیکن اب یہ ایک اہم لمحہ تھا جس میں چمک کے لیے رقم اور سامان کی ضرورت تھی۔ اگر وہ اس کا اچھا استعمال کر سکے تو یہ انتہائی کاروباری ذہن رکھنے والا بوڑھا ایک بڑا سہارا ہو سکتا ہے۔
’’تم یہ رقم اپنے پاس رکھو اور خود ہی منگول کو دینا‘‘۔
علی روئی نے اپنے دماغ میں تیزی سے سوچا اور فیصلہ کیا۔
بوڑھے بونے نے انسان کو رشوت دینے کی نیت سے رقم دینے کی کوشش کی۔ اس نے سوچا کہ جب جامنی رنگ کے کرسٹل سکے اس کے آقا منگول کے ہاتھ میں ہوں گے تو زیادہ سے زیادہ آدھے ہی رہ جائیں گے۔ تاہم اس نے یہ نہیں سوچا تھا کہ اسے مسترد کر دیا جائے گا۔ اسے یقین تھا کہ حکیم منگول اور اس انسانی سیکرٹری کے درمیان تعلقات معمول کے مطابق نہیں تھے۔ اس کا رویہ انتہائی احترام والاتھا۔ اس نے پوچھا:
’’سر علی روئی! کیا میں جان سکتا ہوں کہ حکیم کو کب وقت ملے گا؟ گانگا کل یہاں ہتھوڑا لینے آیا تھا جو اس نے پچھلی بار چھوڑا تھا۔ اس نے حکیم سے ملنے کی درخواست بھی کی ہے‘‘۔
’’کیا وہ اب بھی بدلہ لینا چاہتا ہے؟‘‘۔
علی روئی اگر کانگے جیسا ہوتا تو اسے اس کی کوئی پرواہ نہیں تھی۔
تیرہواں باب
مذاکرات کی جنگ
اُترنے والاچاقو کند نہیں ہوتا
جیسا کہ شمرال نے کہاگانگا زخمی حالت میں تہہ دار گینگ کے پاس آیا اور وہ دیومالائی دائرے کی طرح شائستہ تھا۔ جتنا مضبوط ہو گا وہ کہے گا۔ ہارنے والایا تو اپنی آخری سانس تک لڑ سکتا ہے یا ہار مان سکتا ہے۔ گانگانےمنگول کو بدلہ لینے کے لیے نہیں بلکہ شیرف ایان کی نمائندگی کی تجویز پیش کی تاکہ نیرنگ آباد میں کلوننگ گینگ کو ایک باقاعدہ تنظیم بنائی جائے۔ جادوئی کرسٹل سکوں کی تھوڑی سی رقم ادا کرکے کلوننگ گینگ نیرنگ آباد میں آزادانہ طور پر کام کر سکتا ہے جب تک کہ اس سے کوئی بڑی پریشانی نہ ہو۔ علی روئی کو پھر احساس ہوا کہ ایان درحقیقت نیرنگ آباد میں تمام لوک تنظیموں کو خفیہ طور پر کنٹرول کرتا ہے۔ وہ اہلکاروں اور ڈاکوؤں کی ملی بھگت سے وارداتیں کرواتا ہے۔ اس نئی معلومات نے اسے بہت زیادہ ترغیب دی۔ اس کے ذہن میں کچھ خیالات آئے لیکن پرسکون طریقے سے حل کرنے کے لیے وقت کا انتظار تھا۔ اب اس کی توجہ چمک کے مواد پر واپس لوٹنا اور جانچنا تھا۔
’’منگول ایک عرصے سے تربیت حاصل کر رہا ہے۔ اسے دو دن میں آزاد ہونا چاہیے۔ میں اسے پیغام پہنچا دوں گا۔ گانگا سے کہو کل رات مجھے یہاں ملے‘‘۔
بوڑھا بونا اس معاملے سے پریشان تھا۔ علی روئی کی بات سن کر وہ بہت خوش ہوا۔
’’سر علی روئی!پیغام دینے کا شکریہ‘‘۔
’’ایک اور بات‘‘۔
علی روئی نے دانت پیستے ہوئے کہا:
’’اگرتم منگول کو ناراض نہیں کرنا چاہتے توتمہاری بیٹی اب اس کی بیوی ہونے کا ڈرامہ نہ کرے‘‘۔
بوڑھے نے جلدی سے سر ہلایا۔ اچانک اس کی ننھی آنکھیں چمک اٹھیں اور امید بھری نظروں سے انسانی سیکریٹری کی طرف دیکھا۔ علی روئی خوش ہوا۔ اس سے پہلے کہ بوڑھا بونا اپنی بیٹی علی روئی کو بیچنے کی کوشش کرتا علی روئی تیزی سے کلوننگ گینگ کے ہیڈکوارٹر سےنکل گیا۔
علی روئی دوڑتا ہوا واپس اپنے لیب کے کمرے میں چلا گیا۔ وہ تیزی سے سپرسسٹم کے گلیکسی ڈیوائنٹی ٹیمپل میں داخل ہوا۔ Galaxy Divinity Temple کے باہر کھلی جگہ پرایک گودام کی عمارت شامل کی گئی۔ تخت پر لائٹ اسکرین کا ایک اور ٹکڑا تھا جو اسٹوریج کی صورتحال کو ظاہر کرتا تھا۔ یہ ایک سے زیادہ 2D مربعوں کی شکل میں بصری طور پر پیش کیا گیا تھا جو موجودہ مخصوص چیزوں اور صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ایک آسان خودکار درجہ بندی کا فنکشن بھی تھا۔
علی روئی سپر سسٹم چھوڑ کر واپس کمرے میں آگیا۔ اس نے ذہن کو حرکت دی تو کمرے کا سارا فرنیچر سب کچھ رکھ دیا گیا۔ سامان سمیت اس نے صرف 3چھوٹے بکسوں کا استعمال کیاجو پوری جگہ کا1فیصدتھا۔ ایسا لگتا تھا یہ ذخیرہ واقعی بڑا ہے۔ اس کے علاوہ ارتقائی ستارے کے درجے میں اضافے کے ساتھ یہ خود بخود پھیل جائے گا۔ سٹوریج کو چالو کرنے کے بعداصل1270میں سے صرف570باقی رہ گئے۔ خوش قسمتی سے اسے آزمانے کے لیے یہاں جادوئی مواد کا ایک گروپ موجود تھا۔ علی روئی نےاس مواد کو ایک ایک کرکے آزمانا شروع کیا۔ جانچ کے بعد عام مواد تقریباً2سے 80 اوراس فراہم کر سکتا ہے۔ اوسط معیار اور اچھی پاکیزگی کے وائن سٹونز کا ایک ٹکڑا چمک کے160پوائنٹس میں بدل گیا تھا۔ یہ چمک کا کافی اچھا ذریعہ تھا۔ اس کے علاوہ تین چیزیں ایسی تھیں جو وائن سٹونزسے بہتر تھیں۔ پہلا جیڈ آئس کرسٹل تھا جو بہت ہی نایاب مواد تھا جس نے850اوراس فراہم کیے تھے۔ دوسرا خون کا کرسٹل تھا جو بلیک کرسٹل سے زیادہ اونچا تھا۔ نایاب ہونے کی وجہ سے سیاہ کرسٹل یا جامنی رنگ کے کرسٹل کی طرح کرنسی کے طور پر استعمال نہیں کیا گیا تھا۔ اسے ایک پریمیم آئٹم کے طور پر درجہ بند کیا گیا تھا جو620اوراس فراہم کرتا تھا۔ آخری فلوروسینٹ پتھر تھا جو ایک جادوئی معاون مواد تھا تبدیلی کے بعد315اوراس فراہم کرتا تھا۔ تجربے کے بعدعلی روئی کی چمک کی کل مقدار4015تک پہنچ گئی تھی۔ جیڈ آئس کرسٹل اور بلڈ کرسٹل بہت نایاب تھے۔ آئس کرسٹل کے ایک ٹکڑے کی قیمت1000سیاہ کرسٹل سکے اور بلڈ کرسٹل600سیاہ کرسٹل سکے تھے۔ وہ ان کو خریدنے کے لائق نہیں تھا۔ تاہم فلوروسینٹ پتھر ایک استثناء تھا۔ فلوروسینٹ پتھر ایک ایسا مواد تھا جو آرٹفیکٹ بنانے میں استعمال ہوتا تھا۔ یہ ہلکی روشنی میں چمکتا ہے۔ اس کی قیمت وائن سٹونزسے بہت کم تھی جو ہر ایک میں صرف10سیاہ کرسٹل سکے تھے۔ اس کا کردار دبانا اور مستحکم کرنا تھا۔ یہ عام طور پر کچھ جادو ئی کنٹینر کے پیچھے ہٹنے کو محدود کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ پھر بھی مٹھی کے سائز کا فلوروسینٹ پتھر کئی بار استعمال کیا جا سکتا ہے، اس لیے اس کی مانگ زیادہ نہیں تھی۔ اس کے خاص معیار کی وجہ سےبہت سے لوگ اسے جادوئی دستکاری کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ عام طور پر اسے نسبتاً غیر روایتی سامان سمجھا جاتا ہے۔ ایک جادوئی اسٹور میں عام طور پر چند ٹکڑے ہی اسٹاک میں ہوتے تھے۔
چمک کے نقطہ نظر سے جیڈ آئس کرسٹل اور بلڈ کرسٹل کی قیمت بہت زیادہ تھی۔ جبکہ فلوروسینٹ پتھر اعلیٰ ترین معیار کی قیمت کا تناسب باقی ہے۔ لگتا تھا کہ اس فلورسینٹ پتھر کو حاصل کرنے کے لیے اسے کوئی راستہ تلاش کرنا ہوگا۔
علی روئی نے اس سارے مواد کو پاؤڈر میں تبدیل کرکے اسٹوریج میں رکھ دیا۔ پھر وہ سپرسسٹم سے باہر آیا۔ اب4000سے زیادہ اوراس کے ساتھ اس کی چمک کچھ60اعلیٰ قسم کےوائن سٹونز ملنے کے بعد زیادہ ہونا چاہیے۔ اس کے باوجود اسے آسانی سے استعمال نہیں کیا جا سکتا، خاص طور پر اس لیے کہ یہ ٹریننگ گراؤنڈ میں سولو ٹریننگ کا وقت نہیں تھا۔ لہذا اسے مزید اوراس کو بچانے کی کوشش کرنی چاہئے اور زہریلے ڈریگن سنکھیار سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہئے تاکہ خصوصی تربیت میں اسٹار پاور کے استعمال سے مزید واقفیت حاصل ہو۔
اس کے فوراً بعدکاگورون ایک دستاویز لے کر لیب میں آیا جس میں وہ معلومات تھیں جو علی روئی نے اقابلہ سے مانگی تھیں۔ شاہی محافظوں کے سربراہ نے اقابلہ کی طرف سے ایک پیغام دیا:
’’یاد کرنے کے بعد دستاویز کو تباہ کرنا مت بھولیں‘‘۔
علی روئی نے دستاویز کو پلٹایا اور محسوس کیا کہ اقابلہ اتنی محتاط کیوں ہے۔ اس نے نیرنگ آباد اسٹیٹ کے مختلف حالات کو تفصیل سے ریکارڈ کیا، بشمول مالی، فوجی، خاندانی افواج اور ان کے بااثر ارکان۔ ابتدائی ارتقاء کے بعد اس کی ابتدائی طاقتور یادداشت کو مزید بڑھایا گیا۔ اس کا دماغ ایک کمپیوٹر ڈیٹابیس کی طرح تھاجو معلومات کے ہر ٹکڑے کو درست طریقے سے ریکارڈ کرنے کے قابل تھا۔ اس نے دستاویز کو تفصیل سے پڑھا اور اس وقت سب کچھ حفظ کر لیا۔ جہاں تک دستاویز کا تعلق ہے اس نے اسے تباہ کرنے کے بجائے اسٹوریج میں رکھ دیا کیونکہ اس کےلیے بہت کم جگہ کی ضرورت تھی۔
علی روئی یوسف کی معلومات کا خاص خیال رکھتا تھا۔ یوسف کی عمر پہلےہی 300سال تھی لیکن اس عمر کو ڈیمن کی عظیم دوڑ میں صرف ادھیڑ عمر سمجھا جاتا تھا۔ وہ سرمانی سلطنت کا بادشاہ جوش کا بیٹا تھاجو ایلون فیملی کا سب سے بڑا بیٹا بھی تھا۔ پھر بھی وہ فوری وارث نہیں تھا کیونکہ جوش کی اولاد تھی۔ بچوں میں یوسف کے لئےسب سے بڑا خطرہ جوش کا پسندیدہ سب سے چھوٹا بیٹاکنیتا تھا۔ یوسف کچھ کامیابیاں حاصل کرنے کے لیے نیرنگ آباد پر آیاتو اس کے وارث بننے کے امکانات بڑھ گئے۔ اگرچہ کنیتا سرمانی سلطنت میں بہت دور تھا لیکن اس کے اور یوسف کے درمیان لڑائی رہتی تھی۔ جوش نے انہیں نہیں روکا کیونکہ سب سے موزوں کی بقادیومالائی دائرےکی روایت تھی۔ یہ بھی ایک وجہ تھی جس نے خاندان کو نسلوں تک منتقل ہونے کو یقینی بنایا۔
دیومالائی دائرے میں اس سے زیادہ اہم کوئی چیز نہیں تھی۔ شاہی خاندانوں کا بھی یہی حال تھا۔ فلورا کے والد جنرل بوغا کی جانب سے عوامی طور پر اقابلہ کی حمایت کرنے کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ شہزادہ شوالہ ابھی تک سوارڈ آف تومانی سلطنت کو پوری طرح سے نہیں سمجھ پایا تھا۔ اس طرح وہ تاری سورج کے بادشاہ کے لارڈ کی اولاد کو ختم نہیں کر سکتا تھا اور لوسیفر فیملی کو اس نمونے کے وارث ہونے کی اپنی آخری امید کھونے نہیں دیتا تھا۔ اس نے لوسیفر فیملی کو دوسرے شاہی خاندانوں کی طرح اسی راستے پر چلنے سے روک دیا۔ دوسرے لفظوں میں ایک بار جب شہزادہ شوالہ کو سوارڈ آف تومانی سلطنت کی پہچان مل گئی، جنرل بوغا اقابلہ کی مزید حفاظت نہیں کر سکتا جب تک کہ وہ غدار کہلانے اور اپنے پورے خاندان کے خاتمے کا خطرہ مول لینے کو تیار نہ ہو۔
جہاں تک ایان کا تعلق ہے وہ کارون فیملی کے سرپرست لیگو کا اکلوتا بیٹا تھا۔ کارون فیملی شروع میں جنرل بوغا کی طرح تھی جس نے ولی عہدگریم اور اس کے خون کی لکیر کی حمایت کی۔ تاہم گریم کی موت کے بعدشہزادہ شوالہ کی خدمت شروع کر دی۔ ایان کی طاقت اس وقت انٹرمیڈیٹ ڈیمن کے عروج پر تھی۔ یہ پہلے فلورا سے ملتا جلتا تھا لیکن اب فلورا کو ترقی دے کر ہائیر ڈیمن بنا دیا گیا اور پھر وہ پیچھے رہ گیا تھا۔ اگرچہ انٹرمیڈیٹ ڈیمن کی چوٹی اور ایک تازہ ترقی یافتہ ہائیر ڈیمن صرف ایک قدم کے فاصلے پر تھا لیکن صفوں کے درمیان فرق بہت بڑا تھا۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایان اب فلورا کا بالکل مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ا یلن کو بھی کارون فیملی کے مضبوط افراد نے گھیررکھا تھا۔
نیرنگ آباد اصل میں ایک مشہورہلچل مچانے والی جگہ تھی اور اس میں معاشی طاقت والے خاندانوں کی کمی نہیں تھی۔ تاہم 400 سال قبل جنگ سے ہونے والی تباہی کے بعد بہت سے خاندانوں نے اپنی توجہ دوسری جگہوں پر منتقل کر دی تھی۔ پھر بھی برسوں سے جمع کی گئی بنیادیں ابھی تک موجود تھیں۔ سیفول خاندان اور میلن خاندان قدیم خاندانوں کی نمائندہ قوتیں تھیں۔ سیفول خاندان اقابلہ کا وفادار تھا۔ دو سال پہلےسرپرست کارٹر کے بیٹے ٹم کو یوسف نے ایک کان کنی افسر کے طور پر ماؤنٹ زیلانگ کے خطرناک علاقے میں جانے کی سازش کی تھی اور بغیر کچھ چھوڑے مر گیا۔ نتیجے کے طور پر اولڈ کارٹر یوسف اور ایلون کے خاندان سے نفرت کرنے لگے۔ میلن فیملی ایک موقع پرست تھی جو اس وقت یوسف کی طرفدار تھی۔ دوسرے چھوٹے خاندانوں کو بھی ہر دھڑے میں تفویض کیا گیا تھا۔
یہ معلومات کافی مفید تھی۔ تاہم یوسف اور ایان کو اندرونی جھگڑوں سے دوچار کرنا آسان کام نہیں تھا۔ وہ یوسف کے ساتھ شروع نہیں کر سکتا تھا لیکن ایان سے شروع کر سکتا تھا۔ بس اسے ایک موقع کی تلا ش تھی۔ اس سلسلے میں وہ یوسف کے بھائی کو بھی استعمال کر سکتا تھا لیکن فی الحال اس کے پاس کوئی اچھا منصوبہ نہیں تھا۔
اقابلہ سوچ رہی تھی۔ کسی کو لیبارٹری کے علاقے میں چھپنے سے بچنے اور رات کے وقت وائیورنز کی غیر معمولی باتوں کا پتہ لگانے کے لیےاقابلہ نے محل کے بیرونی صحن میں سیکیورٹی کو بہت مضبوط کیا۔ اس صورتحال نے اشمار کے اس یقین کو تقویت بخشی کہ سیاہ ایلف حکیم واقعی ایک عظیم الشان حکیم کی سطح کی دوائیاں بنانے کی کوشش کر رہا ہےتاکہ وہ حکیم الداس پہ توجہ دے سکے۔
علی روئی کو معلوم نہیں تھا کہ خوش قسمتی کا سٹوک کتنا بڑا ہنگامہ کھڑا کرے گا۔ اس نے اب بھی خصوصی تربیت کے لیے نیلی جھیل پر سواری کی پھر دوپہر کو سیکریٹری کے طور پر معمول کا کام مکمل کیا اور اقابلہ سے نیرنگ آباد کی صورتحال کے بارے میں بات کی۔
دو دن بعدعلی روئی کو رات کلوننگ گینگ کے پاس جانا یاد آیا اور وہ اپنا لباس تیار کرنے لگا۔ منگول ابھی کلوننگ گینگ کا لیڈر تھا۔
آسمان گہرا ہوتا جا رہا تھا۔ تہہ دار گینگ کے ہیڈ کوارٹر کے دروازے پربوڑھا بونااور جمرال بے چینی سے کھڑے تھے۔ اس نے پہلے ہی گانگا کو مدعو کیا تھا۔ وہ کسی بھی وقت پہنچ سکتا ہے لیکن حکیم منگول ابھی تک سامنے نہیں آیا تھا۔ اگر حکیم نہ آیا تو پریشانی ہوگی۔ اگر یہ انسانی سیکریٹری نہ ہوتا جو اسے بار بار یہ راز رکھنے کو کہتااور اسے ڈھونڈنے کےلیے لیبارٹری چلا آتا۔
بوڑھے بونے کے بھتیجے شمرال نے جلدی سے اطلاع دی:
’’انکل! جمرال، گانگا اور ان کے لوگ گلی کے دروازے پر پہنچ گئے ہیں‘‘۔
’’حکیم ابھی یہاں نہیں ہیں، ہم کیا کریں‘‘۔
بوڑھے بونے نے ابھی بات ختم کی تو اس نے حیرت سے شمرال کی پیٹھ کی طرف دیکھا۔
بوڑھا بونا اپنی پیٹھ کی طرف مڑا اور اچانک دیکھا کہ ایک بونا اس کے پیچھے بغیر کسی آواز کے نمودار ہوا۔ وہ ڈرتے ڈرتے چند قدم پیچھے ہٹ کر زمین پر گر پڑا۔
’’بیکار آدمی‘‘۔
ایک سرد اور قدرے کرخت آواز آئی۔
بوڑھے بونے نے ڈھکے ہوئے چہرے والے تہہ دار گینگ کی طرف دیکھا۔ اسے لگا کہ یہ اس کی یاد میں موجود شکل سے ملتا جلتا ہے لیکن آواز کچھ مختلف تھی۔ اس نے بے یقینی سے پوچھا:
’’ماس۔۔۔۔ حکیم ؟‘‘۔
’’تمہیں میری منظوری نہیں ملی۔ میں تمہارا آقا نہیں ہوں‘‘۔
پوشیدہ آدمی نے اپنی انگلیاں پھیلائیں اور بوڑھے بونے کو نشانہ بنایا۔ اس نے سرد لہجے میں کہا:
’’میرے لیے صرف یہ بات کافی ہے کہ تم نے میرے نام کا استعمال کرتے ہوئے تہہ دار گینگ قائم کی ‘‘۔
بوڑھے بونے نے پہچان لیا کہ یہ وہی کرنسی ہے جس نے اس رات خوفناک روشنی کا گیند چھوڑا تھا۔۔ وہ خوفزدہ ہو گیا اور منت کرنے لگا:
’’مجھے معاف کر دو آقا! جمرال بس حکیم کے لیے کچھ کرنا چاہتی تھی!‘‘۔
’’Hmph!‘‘۔
تہہ دار گینگ نے آہستہ آہستہ اپنی انگلیاں ہٹا لیں۔
’’پہلے ایک طرف ہٹو۔ مجھے ہارنے والے سے نمٹنے دو پھر تم سے نمٹتا ہؤں‘‘۔
بوڑھا بونا احترام سے ایک طرف کھڑا ہو گیا۔ اسی لمحے دروازے سے گانگا کی آواز آئی:
’’تمہارا لیڈر کہاں ہے؟‘‘۔
شمرال بہت چالاک تھا۔ اس نے جلدی سے کہا:
’’سر گانگا! ہمارا لیڈر آپ سے ملناچاہتا ہے‘‘۔
نقاب تہہ دار گینگ نے ایک نظر شمرال کی طرف دیکھا۔ شمرال نے بڑی تعظیم کے ساتھ اپنا سر نیچے کیا پھر وہ بوڑھے بونے کی طرف بڑھ گیا۔
گانگا کے قدم قریب سے قریب تر ہوتے جا رہے تھے۔ جلد ہی <اورورا شاٹ< کا پہلا ہدف نظر میں آیا۔ اتنے عرصے بعد بھی یوں لگ رہا تھا کہ گانگا کی چوٹ ابھی تک ٹھیک نہیں ہوئی۔
گانگا شروع میں اونچا بو ل رہاتھا لیکن جب اس نے تہہ دار گینگ کو دیکھا تو فوراً ہی اس کی آواز دھیمی پڑ گئی۔ گانگا کے پاس موجود لیچ نے آگےبڑھ کر فخریہ نظروں سے پوچھا:
’’تو تم تہہ دار گینگ کے لیڈر منگول ہو؟‘‘۔
تہہ دار گینگ نے زیادہ کچھ نہیں کہا، اپنا ہاتھ اٹھایا، دس میٹر دور دیوار کی طرف ہتھیلی کھولی۔ ایک بڑی کروی سفید روشنی تیز رفتاری سے باہر نکلی۔ راستے میں زمین پھٹنے لگی اور سخت دیوارمیں ایک گیند سی گھس گئی جس سے ایک مضحکہ خیز سوراخ ہو گیا۔ دیوار کے تباہ ہونے کے بعد بھی شگاف سے آوازیں سنائی دے رہی تھیں جو کافی دیر تک جاری رہیں۔
وہ حملہ چونکا دینے والاتھا۔ لیچ دنگ رہ گیا۔ اس کی شان و شوکت آدھی رہ گئی۔ گانگا نے اس رات کا منظر سوچا تو اس کا مضبوط جسم خوف سے کانپ کر رہ گیا۔ یہ ایک انٹرمیڈیٹ ڈیمن کے برابر طاقت ہےاور کسی طرح بھی عام گریٹ ڈیمن کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ یہ شاید ایک تبدیل شدہ ٹیلنٹ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس رات زندہ رہنا خوش قسمتی ہے۔
تہہ دار گینگ کے ارکان پرجوش دکھائی دے رہے تھےلیکن وہ تہہ دار گینگ کا زیادہ احترام کررہے تھے۔ بہت دنوں سے انہوں اس کے بارے میں سناتھا لیکن اس نام نہاد لیڈر کو کبھی نہیں دیکھا تھا۔ قائد کے بارے میں سننے سے ملنا یقیناً بہتر تھا۔ اتنے طاقتور لیڈر کی وجہ سے مستقبل میں نیرنگ آباد میں کلوننگ گینگ کا نام مشہور ہونے کا قوی امکان تھا۔
صرف بوڑھے بونے اور جمرال کو تکلیف ہوئی۔
’’استاد جی! آتے ہی صحن کو تباہ نہ کریں۔ یہ سب جادوئی کرسٹل سکہ ہے‘‘۔
’’سر منگول!مجھ میں تمیز نہیں تھی۔ برائے مہربانی مجھے معاف کر دیں۔ > اورا شاٹ< کے مظاہرے نے لیچ کےتکبر کو واضح کر دیا۔ اس کے رویےمیں 180 ° کا موڑ آیاور اس کا لہجہ شائستہ ہو گیا:
’’ گانگا اور میں جنرل شیرف ایان کی طرف سے منگول کے ساتھ کچھ بات کرنے آئے ہیں‘‘۔
اگرچہ نقاب تہہ دار گینگ کی طاقت سے خوفزدہ تھا پھر بھی بہت پرسکون نظر آیا، پوچھا:
‘‘میں نے کبھی منگول کا نام نہیں سنا، کیا میں جان سکتا ہوں کہ جناب کہاں سے آئے؟ تم یہاں نیرنگ آباد اسٹیٹ میں کس چیز کے لیے آئے ہو؟‘‘۔
’’میرا آبائی شہر نیرنگ آباد اسٹیٹ ہے۔ بات صرف یہ ہے کہ میں کئی سالوں بعد آیا ہوں۔ اپنے استاد کے حکم کے مطابق تربیت کے لیے باہر تھا۔ اب نیرنگ آباد پر واپس آیاہوں ‘‘۔
تہہ دار گینگ دراصل علی روئی تھا۔ اس نے کہا کہ جان بوجھ کر منگول کی اصلیت کو پراسرار بنانا تھا۔
’’استاد! منگول کے پیچھے اب بھی ایک مضبوط آدمی ہے۔ نجیب پھر حیران ہوا۔ جہاں تک منگول کی اصلیت کا تعلق ہے اس نے زیادہ شک نہیں کیا۔ نیرنگ آباد سینکڑوں سال پہلے ایک مشہور ہلچل مچانے والی جگہ تھی۔ ایک دفعہ یہاں بہت سے زور آور جمع تھے۔ پھر بھی بیلزبب شاہی خاندان کو تاریک سورج کے بادشاہ کے رب نے شکست دی تھی، اس لیے نیرنگ آباد میں کمی آنے لگی۔ اس کے علاوہ، بہت سے خاندان دوسری جگہوں پر ہجرت کر گئے،لہذا امکان تھا کہ منگول ان میں سے ایک ہو۔
نجیب کا ارادہ منگول کے پیچھے موجود قوتوں کی اصلیت کو سمجھنا تھا اس لیے اس نے تحقیق کی:
’’مجھے معاف کر دیں، لیکن کیا میں جان سکتا ہوں کہ سر کے استاد کون ہیں؟‘‘۔
’’تم میرے استاد کا نام جاننے کے اہل نہیں ہو‘‘۔
نقاب پوش نے سرد لہجے میں کہا:
’’یہاں تک کہ ایان کا باپ کارون خاندان کا سرپرست لیگو بھی پوچھنے کا اہل نہیں‘‘۔
نجیب اور بھی چونک گیا۔ اسے امید نہیں تھی کہ دوسری پارٹی کارون فیملی کی طاقت جاننے کے بعد بھی اتنی مغرور ہے۔ نجیب نے سوچا کہ تہہ دار گینگ کے پاس مضبوط بیک اپ ہوگا۔ اس نے فوراً اپنے تیار کردہ دھمکی آمیز الفاظ اپنے پاس رکھ لیے۔ وہ تیزی سے محتاط ہوتا جا رہا تھا۔ اس نے پوچھا:
’’جناب ایک سمجھدار آدمی ہیں اس لیے میں واضح کر دوں، جناب کو اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ ہر جگہ کے اپنے اصول ہوتے ہیں۔ فی الحال جناب نے شہر میں کلوننگ گینگ قائم کر رکھا ہےاس لیے اسے نیرنگ آباد کےاصولوں پر عمل کرنا چاہیے۔ ماہانہ فیس کی تھوڑی سی رقم وصول کر کے جنرل ایان ہمیشہ تحفظ فراہم کر سکتا ہے جب تک کہ اسے کسی بڑی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے‘‘۔
’’مجھے نام نہاد تحفظ کی ضرورت نہیں ہے۔ میرے استاد نے ایک بار کہا تھا کہ اگر کسی نے مجھے چھونے کی ہمت کی تو وہ ان کے پورے خاندان کو مٹا دے گا۔ میں نے کبھی اس پر شک نہیں کیا‘‘۔
ان الفاظ نے نجیب اوکانگ کے تاثرات کو بدل دیا۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ ان کے ساتھ گرنے کے لیے پرعزم ہے۔ ابھی طاقت کے ساتھ منگول کے لیے انہیں مارنا آسان تھا۔
پوشیدہ آدمی نے اپنا لہجہ بدل کر کہا:
’’ہاں۔۔ تم ٹھیک کہتے ہو، ہر جگہ کے اپنے اصول ہوتے ہیں۔ نیرنگ آباد پر آنے کی وجہ اپنے آبائی شہر کو دیکھنا اور راستے میں ٹریننگ کرنا ہے۔ لہذا میں مشغول نہیں ہونا چاہتا۔ تہہ دار گینگ کچھ وسائل کی تلاش کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ میں نیرنگ آباد کے اصولوں پر عمل کر سکتا ہوں ، شرط یہ ہے کہ تم مجھے کبھی مشتعل نہیں کرو گے۔۔ ورنہ۔۔۔ ‘‘۔
نجیب نے خود کو خوش قسمت محسوس کیا اور جلدی سے بولا:
’’سر یقین رکھیں۔ جہاں تک لاگت کا تعلق ہےیہ اراکین کی تعداد پر مبنی ہے۔ ہر رکن ماہانہ1جامنی رنگ کے کرسٹل سکےلیتا ہے۔ تہہ دار گینگ میں تقریباً10ارکان ہیں، اس لیے ہر ماہ10جامنی رنگ کے کرسٹل سکے ہوں گے۔
منگول کے خوفزدہ ہونے کی وجہ سےنجیب نے جو قیمت لگائی وہ سب سے کم تھی۔ علی روئی نے اردگرد چھوٹے چھوٹے چادروں کو دیکھا جو کم ازکم20سے30تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ لڑکا اب بھی تدبر سے کام لے رہا ہے۔ اپنے اسرار کو برقرار رکھنے کے لیے اس نے درد کو برداشت کیا اور نجیب کی طرف ایک سیاہ کرسٹل سکہ پھینکا:
’’یہ وہی عزت ہے جو میں کارون خاندان کو دیتا ہوں۔ مجھے دس مہینے تک پریشان نہ کرو‘‘۔
نجیب بہت خوش تھا۔ دراصل ایان نے ان سے کہا کہ وہ شہر کی تنظیموں پر غلبہ حاصل کریں۔ جہاں تک لاگت کے قوانین کا تعلق ہے اسے نجیب اور دیگر نے متعارف کرایا تھا۔ ان کو ملنے والی زیادہ تر رقم آپس میں ہی رکھی گئی۔ انہیں وقتاً فوقتاً ایان کے لیے کچھ حصہ ڈالنا پڑتا تھا۔ ایان کارون فیملی کا اکلوتا بیٹا تھااس لیے قدرتی طور پر اس کے پاس اس چھوٹی سی رقم کی کمی نہیں تھی۔ جب تک کوئی بڑی گڑبڑ نہیں ہوئی ایان نے آنکھیں بند کر کے خوشی محسوس کی۔
کارون فیملی کے ساتھ نجیب کے لیے ماضی میں رستہ ہمیشہ ہموار رہا تھا۔ تاہم منگول بڑا شاطر تھا۔ وہ کارون فیملی سے بھی نہیں ڈرتا تھا۔ اس لیے اس سفر کو کامیاب تصور کیا جا سکتا تھا۔
’’آپ کی سخاوت کا شکریہ جناب!‘‘۔
نجیب اور گانگا تعظیم بجا لائے۔
’’کہیں ہماری ہمدردی کی ضرورت ہو تو ہم یقینی طور پر آپ کی مدد کریں گے‘‘۔
علی روئی نے سر ہلایا اور دوبارہ بات نہیں کی۔ نجیب تدبیر سے گانگا کے ساتھ چلا گیا۔ بوڑھے بونے نے دیکھا کہ اپنے اردگرد چھوٹی چھوٹی چادریں چمکتی ہوئی آنکھوں سے حکیم کو گھور رہی ہیں۔ اس نے کہا:
’’تم سب ابھی باہر نکلو۔ لیڈر کا آرام خراب نہ کرو‘‘۔
سیاہ بونوں کے نقوش ایسے تھے جیسے وہ ابھی اپنی نیند سے بیدار ہوئے ہوں۔ وہ ایک ایک کر کے چلے گئے۔ اپنے قائد کی طاقت کا مشاہدہ کرنے کے بعد ان کے چہرے جوش و خروش سے لبریز تھے۔
بوڑھے بونے نے احترام سے کہا:
’’حکیم ! براہ کرم اندر آئیں اور بیٹھیں‘‘۔
علی روئی نے کچھ نہیں کہا۔ گھر میں داخل ہوا اور بیچ میں کرسی پر بیٹھ گیا۔
’’حکیم !‘‘۔
بوڑھے بونے نے مٹھی بھر جامنی رنگ کے30سے40کرسٹل سکےسامنے رکھے۔
’’حکیم ! آپ نے مجھے جو2جامنی رنگ کے کرسٹل سکے دیے تھے، جمرال نے38کمائے ہیں۔ ان سب کو حکیم کے لیے پیش کروں گا‘‘۔
’’38جامنی رنگ کے کرسٹل سکے؟‘‘۔
علی روئی کا دل ہل گیا اور بولا:
’’تم نے کل کیوں کہا کہ صرف 10کمائے؟‘‘۔
’’ٹھیک کہا تھا حکیم !‘‘۔
بوڑھے بونے نے انسانی سیکریٹری اور اس کے آقا کے درمیان قریبی تعلق کی مکمل تصدیق کی تھی۔
’’کل صرف14تھے، رات میں نے میدان میں جوا کھیلا اور19جیت لیے۔ آج کمائے گئے5سکوں کے ساتھ کل 38سکے ہیں۔ براہ کرم انہیں چیک کریں اور قبول فرمائیں‘‘۔
بوڑھے بونے کو اپنے حساب کتاب کا صاف دیکھ کر علی روئی نے خاموشی سے سر ہلایا اور پوچھا:
’’اکھاڑے کا کیا معاملہ ہے؟‘‘۔
اپنے مالک کو پیسے نہ لیتے دیکھ کر بوڑھا بونا اور بھی گھبرا گیا۔ اس نے احتیاط سے جواب دیا:
’’میدان میں ہر روز لڑائیاں ہوتی ہیں۔ کوئی جوا کھیلنے پر، ہارنے جیتنے پر۔ میں نے سنا ہے کہ میدان نیرنگ آباد میں سب سے زیادہ جاندار جگہ ہےاور اسٹیج ہر جنگ میں بھرا ہوا ہوتا ہے۔ تاہم اب یہ کافی خاموش ہے۔ جب تک پچھلے حکیم ز چیلنج اور اسکائی بیٹل جیسے بڑے میچز نہ ہوں عام سامعین میدان میں30فیصد سےبھی کم ہوتے ہیں۔ علی روئی دو بار میدان میں گیا تھا، وہ جانتا تھا کہ میدان واقعی بڑا ہے۔ اگر یہ بھرا ہواہو تو دس ہزار لوگوں کو ایڈجسٹ کر سکتا ہے، یہاں تک کہ اگر 30فیصدسے کم تعداد ہو تب بھی ایک ہزار سے زیادہ لوگ موجود تھے‘‘۔
علی روئی کو میدانی لڑائی میں دلچسپی تھی جو اس نے بوڑھے بونے سے سنی تھی۔ بوڑھے بونے سے پوچھنے کے بعدعلی روئی کو پتہ چلا کہ میدان کا مینیجر یوسف کے تین کاٹھوں میں سے ایک تھا جبران طاقت اور اعتماد کے ساتھ کوئی بھی سائن اپ کر سکتا ہے۔ جنگ جیتنے والے کو انعام کی ایک بڑی رقم ملے گی اور ہارنے والے کو بھی معمولی انعام مل سکتا ہے۔ پھر بھی اس قسم کی لڑائی کافی خطرناک تھی کیونکہ جان کو خطرہ لاحق تھا اور تقریباً ہر روز اموات کی اطلاع ملتی تھی۔
گزشتہ رات زہریلے ڈریگن نے یہ بھی کہا کہ علی روئی کے مختلف معیار کو ایک حد تک مستحکم کر دیا گیا ہے اور اس کی پیش رفت سست ہونا شروع ہو گئی ہے۔ اپنے تجربے کو مزید بہتر بنانا اور حقیقی جنگ کے ذریعے اپنی اندرونی صلاحیت کو ابھارنا بہتر تھا پھر وہ اس کا خلاصہ کرتا ہے اور خصوصی تربیت کے دوران بہتر کرتا ہے۔ یہ ترقی کا سب سے مؤثر اور تیز ترین طریقہ تھا۔
علی روئی نے کچھ دیر سوچا اور فیصلہ کیا، اس نے کہا:
’’میرے انسانی دوست نے میرے سامنےتمہاری کوششوں کا ذکر کیا۔ میں تمہیں ایک موقع دوں گا۔ اگر تم میری ضروریات پوری کر سکتے ہو تو میرے سرکاری ملازم ہو گے اور تہہ دار گینگ کو بھی میری طاقت سے پناہ مل سکتی ہے‘‘۔
بوڑھا بونا بہت خوش ہوا۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے جامنی رنگ کے کرسٹل سکے دوبارہ پیش کیے۔ پھر بھی علی روئی نے اسے قبول نہیں کیا۔ اس کے بجائے اس نے دو سیاہ کرسٹل سکے نکالے اور کہا:
’’یہ تمہاری سرگرمیوں کے لیے فنڈز ہیں۔ اب کبھی میدان میں جوئے میں حصہ نہ لینا۔ میں چاہتا ہوں کہ تم تین کام مکمل کرو۔ سب سے پہلے شہر میں ہر قسم کی معلومات حاصل کرنے کے لیے کلوننگ گینگ کا استعمال کرو اور جب بھی مجھے ضرورت ہو اطلاع دو۔ دوم دھوکہ دہی اور بلیک میلنگ کے بجائے مزید کاروباری طریقے سیکھو اور اسٹور کھولنے کے لیے تیار رہو۔ تیسرا فلوروسینٹ پتھر جمع کرنے کی پوری کوشش کرو۔ معیار جتنا زیادہ اچھا ہو اتنا بہتر ہے۔ مجھے مزید مواد کی ضرورت ہےمیں ایک دوست کو تمہاری فہرست دے دوں گا۔
بوڑھے بونے کو توقع نہیں تھی کہ اس کا مالک اس پر اتنا بھروسہ کرے گا۔ یہاں تک کہ اس نے اسے مزید2سیاہ کرسٹل سکے بھی دیے۔ یہ وقت پچھلے ٹیسٹ سے بالکل مختلف تھا۔ یہ ایک اہم ذمہ داری سونپی گئی۔ شروع میں وہ غنڈہ گردی سے بچنے کے لیے صرف ایک مضبوط آدمی پر بھروسہ کرتے تھے۔ اب لگتا تھا کہ اس کا فیصلہ درست تھا۔ حکیم منگول کے ساتھ کلوننگ گینگ اب خالی خول نہیں رہے گا۔ یہ قدرتی طور پر جرأت مندانہ طور پر ترقی کر سکتاہے۔ جہاں تک کاروبار کرنے کا تعلق ہےیہ پرانے بونے کی طاقت تھی۔ ایسا لگتا تھا مالک اسے اپنی صلاحیتوں کو سامنے لانے کے لیے جگہ دے رہا ہے۔ اس نے ایک دم جھک کر کہا:
’’میں حکیم کی ہدایات کو ضرور پورا کروں گا‘‘۔
علی روئی میدان کے حالات کو دیکھنے کے لیے بے تاب تھا اس لیے وہ مزید یہاں نہیں رہنا چاہتا تھا۔ اس نے کہا:
’’علی روئی میرا سب سے قابل اعتماد دوست ہے۔ اس کے الفاظ میرا حکم ہیں اس لیے تم اس کے ساتھ بھی وہی سلوک کرو جو میرے ساتھ کرتے ہو۔ میں ابھی تربیت کے لیے ایک خفیہ جگہ جا رہا ہوں۔ اگر مستقبل میں کوئی اہم بات ہے تو میں اسے پہنچا دوں گا‘‘۔
بوڑھے بونے کو آقا اور انسان کے رشتے کی سمجھ آگئی اور وہ جلدی سے اس پر راضی ہو گیا۔ پھر اس نے اپنے مالک کو اچانک مڑتے دیکھا اور دانت پیستے ہوئے کہا:
’’تمہاری بیٹی میری بیوی ہے میں ایسی کبھی بھی کوئی افواہ نہیں سنناچاہتا۔ ورنہ سب سے پہلے تہہ دار گینگ کو تباہ کر کے رکھ دوں گا‘‘۔
آقاکو اتناپرعزم دیکھ کر بوڑھے بونے کو اپنی بیٹی کے بارے میں سخت سفارشات کا تیار کردہ سلسلہ واپس رکھنا پڑا۔
کلوننگ گینگ سے نکلنے کے بعد علی روئی نے اپنی چادر نہیں اتاری۔ وہ پورے راستے میں کہیں نہیں رکا جب تک میدان میں نہیں پہنچ گیا۔
میدان میں لڑائیاں شروع ہو چکی تھیں اور خاص طور پر رات کے وقت اونچی آواز میں نعرے لگ رہے تھے۔ سامعین 30فیصدسےبھی کم تھے۔ کوئی اس وقت کے شاندار دنوں کا تصور کر سکتا ہے۔ علی روئی داخلی دروازے تک چلا لیکن اسے دو سینٹور گارڈز نے روک دیا۔
’’تمہارا جوئے کا ٹکٹ کہاں ہے؟‘‘۔
’’گویا جوا ٹکٹ لگا کر کھیلا جاتا ہے‘‘۔
علی روئی نے اس کے بارے میں سوچا اور کہا:
’’معاف کیجئے، میں جوئے میں کیسے حصہ لوں؟‘‘۔
سینٹورزمیں سے ایک نے کچھ دیر تک علی روئی کو غور سے دیکھا اور طنز سے کہا:
’’تم جیسے کمزور آدمی کی میدان کو چیلنج کرنے کی ہمت کیسے ہوئی؟‘‘۔
علی روئی خاموش رہا پھر آگے بڑھا اور سینٹور کے ہاتھ سے ہتھوڑالے لیا۔ ہتھوڑے پر فوری طور پر دراڑیں نمودار ہوئیں۔ اس منظر کو دیکھ کر سینٹورز دنگ رہ گئے۔ جو لڑائی میں حصہ لے رہے تھے زیادہ تر مایوس ڈیمن تھے۔ جنہوں نے ان کو اکسایا ان کا انجام برا ہوگا۔ سینٹور ز میں سے ایک نے کہا:
’’اگر سائن اپ کرنا چاہتے ہو تو سیدھے چلو اور اوپر والے گھر کی طرف بائیں مڑجاؤ‘‘۔
علی روئی نے سر ہلایا،سیدھا ہوا اور اس جگہ تک پہنچا جس کا سینٹور نے بتایا تھا۔ یہ جگہ کسی گھرکی بہت بڑی لابی تھی جو شاندار طریقے سے مزین کی گئی تھی۔ داخلی دروازے پر ایک میز تھی اور میز پر ایک لیچ بیٹھا تھا۔
’’جوئے کی رجسٹریشن یہاں ہوتی ہے؟‘‘۔
لیچ نے سستی سے دروازے پر لکڑی کے نشان کی طرف اشارہ کیا۔ علی روئی نے ایک نظر ڈالی تو نشانی پر سب کچھ صاف لکھا ہوا تھا۔ میدان جنگ کو تین سطحوں میں تقسیم کیا گیا تھا، کم سطح، درمیانی سطح اور اعلی سطح۔ جتنا اونچا لیول، اتنا ہی زیادہ انعام۔ اسٹریک پرائز جیتنے سے اس کے مطابق اسٹریکز میں بھی اضافہ ہوگا۔ قواعد کے مطابق خالی ہاتھ اور ہتھیار میں بھی فرق تھا۔ نچلے حصے میں اس نے خاص طور پر کہا:
’’خطرے کے ذمہ دار آپ خود ہیں‘‘۔
لیچ نےعلی روئی کے پڑھنے کا انتظار کیااور کہا:
’’اگر آپ شرکت کرنے کے خواش مند ہیں تو اپنا نام اور طاقت کی سطح بتائیں۔ تین دن کے بعد میچ کا انتظام کر دیا جائے گا۔ میچ نمبر میدان کے باہر بلیٹن بورڈ پردیکھا جا سکتا ہے۔ اگر آپ نے اپنی طاقت کے بارے میں جھوٹ بولایا بزدلی سے بھاگنے کی کوشش کی تو آپ کو سر جبران کی طرف سے سخت سزا دی جائے گی‘‘۔
’’جی بالکل، میں سائن اپ کرنا چاہتا ہوں‘‘۔
علی روئی نے سر ہلایا۔
میچ تین دن میں ترتیب دیا جائے گا۔ لڑنے سے پہلے میدان میں حالات کا جائزہ لینا اس کے لیے اچھا تھا۔ اس حقیقت کا تذکرہ نہ کرنا کہ اس نے ابھی <اورورا شاٹ>کا ایک شاٹ استعمال کیا تھا۔ گزشتہ رات زہریلے ڈریگن کی خصوصی تربیت کے دوران استعمال ہونے والے شاٹ کے ساتھ۔ 24گھنٹے کے اندر دو شاٹس کا کوٹا استعمال ہو گیا۔ اسے ٹھیک ہونے میں مزید تین گھنٹے درکار تھے۔
’’ابتدائی انٹرمیڈیٹ ڈیمن!‘‘
علی روئی نے اس کے بارے میں سوچا اور اپنی <Breath Holding> کی صلاحیت کو ہٹا دیا۔
’’انٹرمیڈیٹ؟‘‘۔
لیچ نے چھوٹی سی چادراوڑھے ڈیمن کی طرف دیکھا اور سنجیدگی سے سر ہلاتے ہوئے بولا:
’’نچلی سطح کی لڑائیوں میں جوش و خروش کی کمی ہوتی ہے۔ اعلیٰ سطحی مقابلہ کرنے والے بہت کم ہیں اور انٹرمیڈیٹ لیول میں سب سے زیادہ لڑائیاں ہوتی ہیںلیکن آج میدان بھرا ہوا ہے۔ یہ پہلے سن کا آخری میچ ہے۔ آپ کا نام ؟؟‘‘۔
’’چالاکی‘‘۔
’’چالاکی ؟۔ سنا سنا سا نام لگتا ہے‘‘۔
’’لیچ نے یاد کرنے کی کوشش کی لیکن اسے کچھ یاد نہ آیا۔ اس نے علی روئی کو لوہے کی پلیٹ دیتے ہوئے کہا:
’’اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کو کیا کہا جاتا ہے۔ جب تک کہ آپ تین سے زیادہ لڑائیوں سے بچ نہیں جاتےاس سے پہلے آپ کا نام بے معنی ہے۔ کسی کو یاد نہیں رہے گا کہ لاش کا کیا نام تھا۔ آئندہ آپ کا نمبر64ہے۔ میدان کے باہر بلیٹن بورڈ نہ بھولیے گا۔ لڑائی عام طور پر دو دن پہلے نوٹس بھیجتی ہے، اور یہ رات کو شروع ہوتی ہے، اس لیے وقت ضائع مت کیجیے گا‘‘۔
علی روئی نے 64نمبرکا نشان سنبھالتے ہی غیر ارادی طور پر ایک مجسمہ دیکھا جو مخالف سمت میں ایک صوفے کے پاس مدھم روشنی خارج کر رہا تھا۔ اس نے ہمت اکٹھی کی۔ مجسمہ تقریباً 1.3 میٹر اونچا تھا جس پر شاندار دستکاری کی گئی تھی یہ ایک گریٹ ڈیمن عورت کی شکل تھی جس کے ہاتھ میں ایک عجیب دو سر والی درانتی تھی۔ علی روئی نے جو دیکھا وہ مجسمے کی فنکارانہ قدر نہیں تھی بلکہ اس کا مواد تھا۔ فلوروسینٹ پتھر! فلوروسینٹ پتھر کا اتنا بڑا ٹکڑا۔
’’یہ فلوروسینٹ پتھر کا مجسمہ ہے؟‘‘۔
لیچ نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور خوش دلی سے کہا:
’’یہ سر جبران کے پسندیدہ فن پاروں میں سے ایک ہے۔ اعلیٰ معیار کے فلوروسینٹ پتھر کے پورے ٹکڑے سے کھدی ہوئی ہے، ہرگھنٹے بعد اس کا رنگ بدل جاتا ہے۔ سر اس وقت لڑائی دیکھ رہے ہیںورنہ وہ عام طور پر یہاں بیٹھ کر پینا پسند کرتے ہیں‘‘۔
علی روئی کو میدان میں اتنی فصل کی توقع نہیں تھی۔ وہ چیزیں جن کو کوئی تلاش کر رہا ہووہ ہمیشہ غیر متوقع جگہوں پر ملتی ہیں۔ یہ دراصل اعلیٰ معیار کا فلوروسینٹ پتھر ہے۔ اس طرح کے سائز میں اس کی قیمت کم از کم کئی ہزار اوراس یا 10 ہزار سے بھی زیادہ ہے۔ اسےحاصل کرنے کا راستہ تلاش کرنا ہوگا۔ تاہم اس لابی میں ایک کمرہ ہے۔ کیا جبران یہاں رہتا ہے؟ اگر یہ ہے، تو یہ مشکل ہو جائے گا۔
اس وقت ایک امپ گھبراہٹ میں ان کے پاس آیا اور کہا:
’’بہت برا ہواسر کیتھن!۔ 52نمبرنے جس خونی ہاتھ سے لڑنا تھا۔ اگلے راؤنڈکےلیے لارنس غائب ہے۔
’’کیا؟‘‘۔
کیتھن چونک گیا۔
’’ کیا یہ لڑکا خونی ہاتھ لارنس کی طاقت سے خوفزدہ ہو کر بھاگ گیا ہے؟ کیا سر جبران اس کے بارے میں جانتے ہیں؟‘‘۔
امپ نے بے چینی سے جواب دیا:
’’سر جبران 52نمبرکا تعاقب کر رہے ہیں لیکن فائنل میچ کا وقت قریب ہے۔ ہمیں کیا کرنا چاہئے؟‘‘۔
فائنل کھیل سب سے اہم تھا اور اس پر پیسے بھی زیادہ لگے ہوئے تھے۔ اگر کھیل منسوخ کر دیا گیا تو میدان کو بہت نقصان پہنچے گا، اور اس کی ساکھ بھی گر جائے گی۔
’’سر جبران کے ہاتھوں سے کوئی زندہ نہیں بچ سکا‘‘۔
کیتھن پریشان دکھائی دے رہا تھا۔ اس کی نظریں گھوم کر نئے رجسٹرڈ علی روئی پر پڑیں۔ اس نے کہا:
’’ نہیں64نمبر!آپ کا موقع یہاں ہے۔ اتفاق سے ایک میچ میں ایک شخص کی کمی ہے۔ اگر آپ جیت جاتے ہیں تودوگنا انعام مل سکتا ہے‘‘۔
’’فی الحال علی روئی کا <Aurora Shot> استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ 52نمبر کو بھی دوگنا انعام مل رہا تھا لیکن وہ بھاگ گیا۔ جس صورت حال سے52نمبرفرار ہو گیا اور وہ دوگنا انعام حاصل کر سکتا تھا لارنس کے خونی ہاتھ کی طاقت یقیناً مضبوط تھی۔ وہ اتنا بیوقوف نہیں تھا کہ اس بڑے معرکے میں اتنے بڑے حریف کا سامنا کرتا‘‘۔
علی روئی کا دم گھٹنے والاتھا لیکن اچانک اس کے ذہن میں خیال آیا۔ اس نے ہال کی طرف اشارہ کیا اور کہا:
’’مجھے دوگنا انعام نہیں چاہیے۔ مجھے وہ چاہیے‘‘۔
کیتھن نے اس سمت دیکھا جس طرف علی روئی نے اشارہ کیا تھا۔ یہ جبران کا پسندیدہ مجسمہ تھا۔ لیچ نے جلدی سے سر ہلایا۔ وہ بولنے ہی والاتھا کہ پیچھے سے ایک عجیب سی آواز آئی:
’’ٹھیک ہے۔ جب تک تم لارنس کے خونی ہاتھ کے خلاف جیت نہیں جاتے‘‘۔
کیتھن نے آواز سنی اور جلدی سے احتراماًکھڑا ہوگیا:
’’سر جبران!‘‘۔
علی روئی نے پیچھے مڑ کر دیکھا، کمرے میں ایک دبی دبی شخصیت نمودار ہوئی جس کے ہاتھ میں خون آلود سر تھا۔ اس نے سر کو اس کی طرف پھینکا اور کہا:
’’اسے لٹکا دو اور لوگوں کو خبردار کروکہ آئندہ کوئی بھاگنے کی ہمت نہ کرے‘‘۔
وہ سر52نمبر کا تھا جو فرار ہو گیا۔ جیسا کہ کیتھن نے کہا:
’’جبران کسی کو بھی زندہ نہیں چھوڑتا‘‘۔
امپ نے گھبرا کر سر اٹھایا اور نیچے اتر گیا۔ کیتھن نے زمین پر پڑے خون کو جلدی سے صاف کر دیا۔
’’اگر تم جنگ لڑنے کے لیے سائن اپ کرنے کی ہمت کرتے ہوتو تمہیں موت سے نہیں ڈرنا چاہیے‘‘۔
جبران ایک طاقتورگریٹ ڈیمن تھا جو غیر مخفی روح کو نکال رہا تھا۔ اس کی آواز بھی بہت عجیب تھی جیسے سونے اور لوہےکے درمیان رگڑ پڑ رہی ہو۔
’’میں بزدلوں کو سب سے زیادہ حقیر سمجھتا ہوں‘‘۔
اقابلہ کی جبران کی تفصیل علی روئی کے ذہن میں فوراً نمودار ہوئی۔ جبران یوسف کے تین ماتحتوں میں سے ایک بھرپور طاقت مستحکم ہائیر ڈیمن سٹیج ہے وہ بہادر اورسفاک ہے۔
’’انجان آدمی! اگر مجسمہ چاہتے ہو تو اسے لارنس کے سر کے ساتھ بدل دو۔ اوراگر تم میں ہمت نہیں ہے تو اسی وقت میدان سے نکل جاؤ!‘‘۔
گریٹ ڈیمن کی تیز نظریں علی روئی کے چہرے پر تھیں۔ لیکن علی روئی نے دھاتی ماسک پہنا ہوا تھا۔ علی روئی نےکچھ دیر سوچا اورپھر فیصلہ کر لیا۔ بولا:
’’یہ کب شروع ہونا ہے‘‘۔
یہ سن کر وہ حیران نہیں ہوا۔ جبران نے اطمینان سے سر ہلایا اور کہا:
’’ابھی!‘‘۔
میدان میں شور مچ گیا۔ خونی ہاتھ پہلے ہی اسٹیج پر موجود تھا،لیکن ان کا مخالف نمبر52نہیں آیا تھا۔
مخصوص لباس میں ایک سوکیوبکس اسٹیج پر ٹکراتا ہوا آیا اور جادوئی وسعت کی طاقت سے بولا:
’’ ہمیں ابھی خبر ملی کہ52نمبرخوف سے فرار ہو گیا اور سر جبران نےاس کا سر قلم کر دیا ہے۔ لیکن یہ دلچسپ لڑائی منسوخ نہیں ہوئی بلکہ ایک پراسرارنمبر64ہے جو اب نمبر52کی جگہ لے گا۔ خونی ہاتھ کو چیلنج کرنے کےلیے جو شرط چار میچ جیتنے والے لارنس کے ساتھ تھی اس کے ساتھ بھی وہی ہے‘‘۔
سامعین نے اونچے کھمبے پر ایک خون آلود سر لٹکتے ہوئے دیکھا۔ انہیں نمبر52کی موت کا پہلے ہی اندازہ تھا۔ جب انہوں نے یہ سنا کہ جنگ جاری رہے گی تو ان کے جوش و خروش میں اضافہ ہو گیا۔
سامعین کا جوش و خروش بتا رہا تھا کہ ان کی حمایت خونی ہاتھ کے ساتھ ہے جس نے پچھلی تینوں لڑائیوں میں مسلسل فتح حاصل کی تھی۔ جب نمبر64اسٹیج پر آیاتو اس کی عام سی شخصیت سے سامعین کی مکمل حمایت لارنس کے ساتھ ہو گئی۔ صرف چند لوگوں نے نمبر52پر شرط لگا رکھی تھی۔ شرط لگائی تھی کہ وہ پراسرار نقاب تہہ دار گینگ کے ساتھ اپنی قسمت آزما رہا تھا۔
خونی ہاتھ لارنس ایک مضبوط سینٹور تھا جس کی نگاہ بہت خوفناک تھی۔ مسلسل تین فتوحات کی بنا پر اسے تجربہ بھی حاصل تھا۔ جب دونوں اسٹیج پر ایک دوسرے کےسامنے آئے، لارنس نے مسکرا کر اپنے سفید پنکھے دکھائے:
’’بچہ پراسرار کام کرنے کے لیے ماسک پہنا ہوا ہے؟ مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تم کیسے دکھائی دیتے ہو۔ مجھے تو اس بات سے غرض ہے کہ تمہیں اذیت کیسے دینی ہے۔ عام طور پر میں پہلے دشمن کے اعضاء کو توڑنا پسند کرتا ہوں۔ پھر دل چیرتا ہوں اور آخر میں سر کو پھاڑ کر نچوڑ دیتا ہوں۔ کیا تم تیار ہو؟‘‘۔
ظلم وتشدد ہمیشہ سے میدان کا موضوع رہا ہے۔ دیومالائی دائرے نے ہمیشہ طاقت کی وکالت کی، یہ جنگ جتنی زیادہ خونی اور دلچسپ ہو گی سامعین اتنے ہی پرجوش نظر آتے ہیں۔ لارنس کی باتوں سے سامعین مزید خوش ہوئے۔
علی روئی نے لارنس کو پریشان نہیں کیا۔ ماضی میں زہریلے ڈریگن کی خصوصی تربیت کے مناظر اس کے ذہن میں آ گئے۔ اگرچہ زہریلا ڈریگن خطرناک تھا پھر بھی اس نے اپنی طاقت پر قابو رکھا۔ لیکن یہ اس سے معاملہ مختلف تھا۔ یہ واقعی زندگی اور موت کی جنگ تھی لیکن علی روئی کو افسوس نہیں ہوا۔ جو ہونا ہے وہ ہو کر رہے گا۔ اسے ایک بڑے معرکے کا سامنا کرنا تھا۔ اڑنا سیکھنے کے لیے چوزوں کو عقاب کے ذریعے بار بار چٹانوں پر دھکیلنا پڑتا تھا۔ علی روئی نے جو کچھ کیا وہ اپنے آپ کو چٹان پر دھکیلنے کے سوا کچھ نہیں تھا۔
یہ میچ نہ صرف میدان میں بلکہ تکنیکی طور پر دیومالائی دائرےمیں اس کے دوبارہ جنم لینے کے بعد سے اس کی پہلی جنگ تھی۔
’’نہیںنمبر 64، کیا آپ کے پاس جنگ کا کوئی اعلان ہے؟ دلکش سوکیوبکس اپنا ہاتھ لایا جو علی روئی کے قریب جادوئی وسعت کاسٹ کر رہا تھا۔
’’میری مشکلات کیا ہیں؟‘‘۔
علی روئی کے سوال نے سوکیوبکس کو دنگ کر دیا اور پھر اس نے ماہرانہ انداز میں جواب دیا:
’’تم نےنمبر52کی جگہ لی ہےاور جیتنے کےلیےکوئی بھی 52نمبرپر شرط نہیں لگائے گا۔ اس لیے تمہاری مشکلات 1:120 پرہیں‘‘
’’اتنی زیادہ مشکلات؟؟؟۔ میں تو120 گنا کماتا ہوں اگر میں شرط لگاتا ہوں کہ جیت جاؤں گا؟ علی روئی نے اپنی چادر اتار کر زمین پر پھینک دی۔ اس کے بعد اس نے ایک سیاہ کرسٹل کا سکہ سوکبس پر پھینکا:
’’میں ایک سیاہ کرسٹل پر شرط لگاتا ہوں کہ میں جیتوں گا‘‘۔
سوکبس کو پراسرار نمبر64 سے اس ایسی توقع نہیں تھی۔ اسے سیاہ کرسٹل کا سکہ ملالیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ آگے کیا ہوگا۔ اسی لمحے ایک لوہے کی مضبوط آواز آئی:
’’شرط قبول ہے‘‘۔
’’یہ سر جبران ہے‘‘۔
حاضرین نے عقیدت سے لبریز آنکھوں کے ساتھ اس گریٹ ڈیمن کی طرف دیکھا جو VIP نشستوں پر نمودار ہوا۔
نمبر64کا یہ اقدام مشتعل کرنے کےلیے کافی تھا لیکن کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا یہ نقاب پوش لڑکاخونی ہاتھ کے خلاف چاروں میچ جیت سکتا ہے۔
سوکبس نے سیاہ کرسٹل کا سکہ وصول کیا اور پیشہ ورانہ انداز میں مسکرایا:
’’چونکہ نمبر64ایک نووارد ہے، میں پہلے قوانین بتاتا ہوں۔ اگر کوئی خاص شرط نہ ہو تو جنگ کو دو گھنٹے میں ختم کرنا ضروری ہے۔ اگر وقت ختم ہونے پر فتح کا نتیجہ نہیں نکلتاتو جبران فیصلہ کرے گا۔ قانون کے مطابق لارنس جو جیتنے کی راہ پر گامزن ہے اسے فیصلہ کرنا ہوگا کہ آیا یہ راؤنڈ خالی ہاتھ ہے یا ہتھیاروں کے ساتھ‘‘۔
علی روئی کےشرط لگانے کے بعدلارنس کا چہرہ مزید اداس تھا۔ اس نے طنز کیا اورپکارا:
’’مجھے اپنے حریف کی ہڈیاں ہاتھوں سے توڑنا بہت پسند ہے۔ اس لیے میں نے ہاتھ سے لڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اپنے جسم کے علاوہ مجھے کسی ہتھیار کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔
سوکیوبکس پیچھے ہٹ گیا اور چلایا:
’’میں اعلان کرتا ہوں کہ کھیل شروع ہو جائے ‘‘۔
اس وقت جب سوکیوبکس نے میچ شروع کرنے کا اشارہ کیا، لارنس نے پہلے ہی ایک شدید دھچکا لگایا۔ علی روئی خصوصی تربیت کے دوران زہریلے ڈریگن سے خفیہ حملے کا عادی ہو چکا تھا اس لیے اچھی طرح تیار تھا۔ اس نے اپنے جسم کو قدرے حرکت دی اور ٹال دیا۔ لارنس کی حرکتیں اور بھی بے رحم تھیں۔ وہ مخصوص اعضا کو نشانہ بناتا ہے۔ علی روئی نے چند مکے مارےتواسے لگا کہ اس کے مخالف کی طاقت زیادہ ہےاور وہ اس لحاظ سے نسبتاً کمزور ہے۔
لارنس کے لیے میدان میں لگاتار تین گیمز جیتنا محض اس کی خوش قسمتی نہیں تھی۔ اگرچہ اس کا لہجہ متکبرانا تھا لیکن جنگ میں اس کا تجربہ نظر آ رہا تھا۔ فوری حملوں کے ایک غیر موثر آزمائشی دور کے بعد لارنس نے تعاقب کرنا چھوڑ دیا اور جنگ کی تال کو کنٹرول کرنا شروع کر دیا۔ علی روئی اب بھی پوری طرح دبا ہوا تھا۔ اس کے پاس جوابی حملہ کرنے کا کوئی موقع نہیں تھا۔
علی روئی نے ماسک پہن کر لڑتےہوئے دقت محسوس کی۔ خاص طور پر وہ ٹھیک سے دیکھ نہیں پا رہا تھا۔ اگرچہ وہ دفاع کرنے میں کامیاب رہا تھا لیکن اس نے ایک اوپننگ چھوڑ دی تھی۔ جب لارنس نے جعلی کک ماری جس نے علی روئی کے پیٹ کو زخمی کر دیا۔ اتنا خون بہا کہ اس کے کپڑے سرخ ہوگئے۔ علی روئی نے لارنس کے تیز پنجوں کو دیکھاتو اسے سمجھ آئی کہ اسے خونی ہاتھ کیوں کہا جا تا ہے اور ہتھیارکی ضرورت کیوں نہیں پڑی۔ اس کا ہاتھ بہت زیادہ مضبوط تھا۔
لارنس نے پہلی ہڑتال کامیاب ہونے کے بعد حملے تیز کر دیے۔ علی روئی کے جسم پر خون کے نشانات بھی آہستہ آہستہ بڑھ رہے تھے۔
’’پوم‘‘۔
اس کی پیٹھ پر ایک گھونسہ لگاجو انتہائی درناک تھا۔ لارنس سنکھیار جیسا نہیں تھا جو اس کو سانس لینے کی مہلت دے گا۔ اس نے علی روئی کی بے ثباتی کا فائدہ اٹھایا اور اپنے جارحانہ حملے شروع کر دیے۔
لارنس کے شدید حملوں کی وجہ سے علی روئی تنگ آ گیا۔ اسے دفاع کرنا مشکل ہو رہاتھا۔ آخر کار اس کے دل میں ایک خیال آیا:
’’کیا میں بھی بے تاب ہوں؟۔ پہلی حقیقی معرکہ آرائی میں ایسے خوفناک حریف کا سامنا کرنا جہاں میں <Aurora Shot> استعمال نہیں کر سکتا؟۔ یہ ایساکھیل نہیں ہے جو ناکام ہونے کے بعد دوبارہ کوشش کیا جائے اور دوبارہ زندہ ہونے کے بعد صحت کوبرقرار رکھا جائے۔ یہ زندگی اور موت کی اصل جنگ ہے اور ہارنے کا مطلب موت ہے‘‘۔
پچھلی زندگی میں وہ ایک اوٹاکو تھا لیکن مارشل آرٹسٹ یا اسپیشل فورس نہیں تھا۔ خصوصی تربیت کے لیے صرف ہونے والا وقت بہت کم ہو سکتا ہے۔ اسے زندگی اور موت کی ایسی جنگ میں حصہ لینے کے لیے اتنا بے تاب نہیں ہونا چاہیے۔
نفسیاتی طور پر اس کی ہچکچاہٹ اس کی حرکتوں سے براہ راست جھلکتی تھی۔ لارنس کو محسوس ہوا کہ اس کا حریف ڈرپوک ہے تو اس نے یہ موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ اس نے علی روئی کی ران پر پنجہ لگاکر گہرا زخم لگایا۔ جب علی روئی نے اپنا گارڈ ڈھیلا کیا تو اس نے علی روئی کے سینے پرکس کر لات ماری جس سے علی روئی دور جا گرا۔ زخموں کی وجہ سے شدید درد واضح نظر آ رہا تھا۔ وہ اٹھ نہیں سکا، اسے لگا کہ اس کی دو ہڈیاں ٹوٹ گئی ہیں۔
لارنس اپنےلفظی وار سے مخالف کے لڑنے کےجذبے کو تباہ کردیتا تھا اوریہ اس کی مخصوص تکنیک تھی۔
’میں تمہارے اعضاء کو توڑنا چاہتا تھا لیکن اب میں نے اپنا ارادہ بدل لیا ہے۔ تمہارے مرنے سے پہلے تمہاری ایک ہڈی کچلنا چاہتا ہوں‘‘۔
علی روئی کانپ گیا۔ اس کا دل اور بھی زور سے دھڑکا۔ اچانک معمول کی خصوصی تربیت کے دوران سنکھیار کی ڈانٹ اس کے دماغ میں گونجی۔
’’تم جتنا زیادہ ڈرو گے، اتنی ہی جلدی مر جاؤ گے۔ ہمت کرو، ورنہ تم کبھی بھی طاقتور نہیں بن پاؤ گے‘‘۔
زندگی کے دہانے پر علی روئی کو اچانک خیال آیا۔
’’میرے پاس خصوصی تربیت کیوں ہے؟‘‘۔
’’میں اس لڑائی میں کیوں آیا‘‘۔
’’لیب میں چھپ کر کیوں نہیں بیٹھا‘‘۔
’’ اقابلہ یا حکیم الداس کی حفاظت میں چھپ کیوں نہیں گیا‘‘۔
’’جب میرے پاس طاقت نہیں تو میں پیچھے کیوں نہیں ہٹتا لیکن اب آگے بڑھنے کی ہمت بھی نہیں ہے‘‘۔
’’اگر وہ آج میدان میں نہ بھی آئے تو جلد یا بدیر اس کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اگر وہ گریز کرتا ہے تو وہ صرف اپنی چالاکی پر بھروسہ کر سکتا ہے اور ایک موقع پرست بن سکتا ہے‘‘۔
’’جب میں مزید برداشت نہیں کر سکتا تو کیا کروں؟‘‘۔
علی روئی اچانک اپنے آپ سے اونچی آواز میں بولا:
’’میں جتنا زیادہ برداشت نہیں کر سکتا، اتنا ہی میں خود سے کہوں گا کہ چلتے رہو‘‘۔
لارنس دنگ رہ گیا کیونکہ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اس کا مخالف کیا کہہ رہا ہے۔ علی روئی چینی بول رہا تھا۔
’’یہ کس قسم کا جادو ہے، کیا یہ آدمی جادو جانتا ہے؟‘‘۔
لارنس تجربہ کار تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اس کے مخالف کے پاس اب بھی بہت طاقت ہے۔ اکثرموت کے دہانے پر لڑنا سب سے خطرناک ہوتا ہے اس لیے وہ سست ہے۔
’’وہ الفاظ یاد ہیں جو آپ نے اپنے بستر پر چسپاں کیے تھے؟‘‘۔
علی روئی نے اچانک اپنی مٹھیاں بھینچیں۔
’’کوئی کیوں کر سکتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ کوئی یقین رکھتا ہے‘‘۔
’’صرف وہ لوگ جو خوفزدہ نہیں ہیں ان کے آگے سڑک ہوگی‘‘۔
اس نے دانت بھینچے، پچلبلوں کے نیچے درد کو برداشت کیا اور اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے جسم کو سہارا دیا۔
’’علی روئی! خود ہی بتاؤ وہاں سب سے بڑا جملہ کیا لکھا ہے؟‘‘۔
علی روئی خود کلامی کر رہا تھالیکن ایسا لگ رہا تھا کہ پورے میدان اور پورے دیومالائی دائرے میں اعلان کر رہا تھا۔
’’تقدیر کواپنے قابو میں رکھو۔ اس سے اپنے لیے فتح کا گاناگاؤ‘‘۔
علی روئی جو گرا ہوا تھا چھلانگ لگا کر بالکل ایسے کھڑا ہو گیا جیسے وہ اپنی زندگی میں پہلے آنے والی ناکامیوں کے بعد بار بار کھڑا ہوتا ہے۔
اس نے زندگی اور موت کی جنگ کے نتائج سے قطع نظر ایک اہم قدم اٹھایا اور کامیابی سے اپنے آپ پر قابو پا لیا۔
اگرچہ لارنس حیران اور الجھن میں تھا لیکن مخالف کی طرف سےعجیب و غریب جادو کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔ اس کا دماغ پرسکون ہو گیا اور اپنی رفتار تیز کر دی۔ اس کی آنکھیں نقاب تہہ دار گینگ کی آنکھوں سے ملیں۔ اچانک لارنس نے دیکھا کہ علی روئی کی آنکھوں میں کوئی خوف نہیں ہے۔ اس کا پورا جسم ایک خوفناک طاقت کو خارج کر رہا ہے۔
لارنس نے لاپرواہ ہونے کی غلطی نہیں کی۔ اس نے ایک مکا مارا۔ علی روئی پیچھے ہٹ لیا۔ پھرلارنس نے اپنی مٹھی ہلائی، پنجوں کو بڑھایا اور علی روئی کے سینے کو نوچ لیا۔ خون ہر طرف بکھر گیا. علی روئی بے خوف تھا۔ اس نے مڑ کر اپنی ٹانگ کو اٹھاکرلارنس کے گھٹنوں سے ٹکرایا اور اسے زمین پر گرادیا۔
لارنس نے چھلانگ لگائی۔ علی روئی اب دفاع کی بجائے خطرہ مول لے رہا تھا۔ اس نے پنجے سے بچنے کے لیے اپنے جسم کو موڑا اور لارنس کے ترچھےحصے پر وار کیا۔ پھر اس نے لارنس کو کمر سے پکڑ کر زور سے کھینچا۔ لارنس کو لگا کہ اس کے جسم کی کشش ثقل کا مرکز فوراً ہی سر سے نیچے ہو گیا ہے۔ یہ اس کےلیے اچھا نہیں تھا۔ وہ پہلے ہی فلورا کے سپلیکس سے زمین پر کشتی لڑ چکا تھا جس طرح علی روئی نے سیکھاتھا۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنا سر بچاتا زمین پر چلبلٹ پھٹ گئی تھی۔
اس وقت علی روئی کی روح کی حالت بدل چکی تھی۔ سارے خوف اور خدشات ختم ہو چکے تھے۔ وہ قسمت پر بھروسہ نہیں کر رہا تھا نہ خوفزدہ تھا۔ اس نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے خود کو جنگ کے حوالے کر دیا۔ اگرچہ اس کی طاقت ایک مضبوط آدمی کے برابر نہیں تھی لیکن اس کے پاس پہلے سے ہی ایک مضبوط آدمی کا دل تھا۔
لارنس نے اپنے سر اور گردن میں شدید درد محسوس کیا۔ ایک سینٹور کا جسم مضبوط تھا، وہ لڑکھڑا کر دوبارہ کھڑا ہو گیا۔ علی روئی نے فوراً سائے کی طرح اس کا پیچھا کیا اور ایک تیز جوابی حملہ کیا۔ اس کے ہاتھ، ٹانگیں اور سر مہلک ہتھیار بن گئے۔ یہ شدید حملہ کرنے کا یہ انداز اس نے سنکھیار سے سیکھاتھا۔
سامعین کے خیال میں لارنس کی جیت یقینی تھی۔ اچانک بازی پلٹ جائے گی، اس کی انہیں توقع نہیں تھی۔ وہ لارنس کے حق میں خوشیاں مناتے رہے۔ اس وقت سب سے زیادہ خوش وہ لوگ تھے جنہوں نےنمبر52پر شرط لگائی تھی، اب نمبر64کانام لینے لگے۔
لارنس نے کئی بار مار کھائی تھی لیکن پہلے اتنا کمزور نہیں لگا۔ اس نے چیخ ماری اور درد کو برداشت کرتے ہوئے علی روئی کی پچلبلوں پر زخم لگا دیا۔ وہ خود کو بچانے میں کامیاب ہو گیا۔ آخرکار اسے دبائے جانے کے خطرے سے نجات مل گئی۔
لارنس پہلے جب بھی جیتتا تھا، وہ پہلے ابتدائی مرحلے کے انٹرمیڈیٹ ڈیمن کے درمیان شاندار طاقت اور طاقت کو عارضی طور پر بڑھانے کی صلاحیت پر انحصار کررہا تھا۔ دوم مخالفین کو دھمکانے کا وحشیانہ طریقہ استعمال کرتا تھا۔ نمبر64پر اس کاناصرف کوئی اثر نہیں ہوا بلکہ اس کی خطرناک طاقت پر نمبر64غالب آگیا۔ اگرچہ علی روئی کا زخم شدید تکلیف دہ تھا لیکن اس کا دماغ انتہائی پرسکون تھا۔ اس کی بقیہ اسٹار پاور آہستہ آہستہ گردش کر رہی تھی۔ اس نے اپنے جسم کو کامل جارحانہ اور دفاعی حالت میں ایڈجسٹ کیا۔ اس کی آنکھیں ہلکی ہلکی روشنی سے چمک رہی تھیں جیسے کوئی جانور اپنے شکار کو گھور رہا ہو۔
اس نظر نے ٹھنڈے دل والے ’’بلڈ ہینڈ‘‘ کو بے ساختہ ریڑھ کی ہڈی میں ٹھنڈک محسوس ہوئی۔
’’دلچسپ آدمی‘‘۔
وی آئی پی سیٹوں پر موجود جبران نے اچانک کہا۔
گریٹ ڈیمن کی آنکھیں کتنی تیز ہیں۔ ایک نظر میں جبران نے دیکھا کہ لارنس کادماغ اس کے مخالف کی طاقت نے قبضے میں لے لیا ہے۔ اگر لارنس کی طاقت مزید بڑھ جاتی تو بھی وہ مشکل سے جیت پاتا۔
جبران کا بھروسہ مند، کیتھن سن رہاتھا۔ اس نے اسی انداز میں پوچھا:
’’سر !کیا آپ نمبر64کی بات کر رہے ہیں؟‘‘۔
گریٹ ڈیمن نے علی روئی کی طرف دیکھا اور دھیمے سے کہا:
’’میں نے پہلے غلط اندازہ لگایا تھا۔ نمبر64مجسمہ حاصل کر سکتا ہے۔
کیتھن نے تجسس سے پوچھا:
’’لیکن،وہ موجودہ حالات میں یکساں طور پر مماثل ہیں۔ اس کے علاوہ> Lance’s <Berserk ٹیلنٹ استعمال نہیں کیا جاتا ہے۔ کیا کوئی تبدیلی ہوگی؟‘‘۔
جبران نے طنز کیا اور جواب نہیں دیا۔
کیتھن نے مزید نہ پوچھنے کی تدبیر کی اور لڑائی کو دیکھتا رہا۔
لارنس لڑتے لڑتے خوف میں مبتلا ہو گیا تھا۔ نمبر64ناتجربہ کارنہیں ہو سکتا جو آسانی سے ایک افتتاحی چھوڑ دے گا۔ تاہم جوں جوں لڑائی جاری تھی اس کی مہارتیں نہ صرف زیادہ ماہر اور کامل ہوتی جارہی تھیں بلکہ خامیاں بھی آہستہ آہستہ ختم ہوتی جارہی ہیں۔ کبھی کبھار کھلنے والے پھندے ہوتے ہیں اور ان سے سیکھنا خوفناک ہوسکتا ہے۔ اس سے بھی زیادہ خوفناک بات یہ تھی زخمی مخالف جس کے لڑنے کی طاقت کمزور ہو چکی تھی حیرت انگیز طور پر مضبوط برداشت کا حامل تھا۔ اس کی جسمانی طاقت اور جارحانہ دفاعی صلاحیتیں کم نہیں تھیں۔ اس کے برعکس لارنس نے اپنی چوٹوں اور نفسیاتی حالت کے زیر اثر حد سے زیادہ کام کرنا شروع کیا۔
’’اوؤ!‘‘۔
لارنس جانتا تھا کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو وہ یقینی طور پر شکست کھا جائے گا۔ وہ عزم میں چلایا، اس کے پٹھے اچانک اپنے سائز سے دوگنا سوج گئے، اور اس کی طاقت بہت زیادہ بڑھ گئی۔
’’یہ <Berserk> ہے! لارنس استعمال کرتا ہے <Berserk>‘‘۔
’’یہ سینٹور کا تبدیل شدہ ٹیلنٹ ہے‘‘۔
’’جلدی سے نقاب تہہ دار گینگ کو مار و‘‘۔
لارنس کی حمایت کرنے والے سامعین نے واپسی کی امید دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا۔
علی روئی نے فوری طور پر دباؤ محسوس کیا لیکن وہ پہلے کی طرح کھویا نہیں تھا۔ لارنس کی قسم کا اضافہ زیادہ دیر تک نہیں چلنا چاہیے۔ ورنہ وہ اسے پہلے استعمال کر لیتا۔ علی روئی نے فوراً اپنی حکمت عملی کو گوریلا میں بدل دیا۔ اس نے اپنی تال کو قابو میں رکھا اور حریف کی طاقت کو آہستہ آہستہ ختم کیا۔
’’تمہاری کشش ثقل کا مرکز مستحکم ہونا چاہیے‘‘۔
’’صرف اپنی آنکھوں پر بھروسہ نہ کرو! اپنے جذبات سے فیصلہ کرو!‘‘۔
علی روئی کا ذہن مسلسل ان ضروری باتوں کی مشق کر رہا تھا جن کا ذکر زہریلے ڈریگن نے کیا تھا۔ ایک انتہائی مرتکز حالت کے تحت خصوصی تربیت کے دوران جن کوتاہیوں کا درست کرنا مشکل تھا ان کو ایک ایک کر کے ٹھیک کیا۔ اس کا فیصلہ اور وقت درست تھا۔ اسٹار پاور پر اس کا کنٹرول تیزی سے پختہ ہو رہا تھا۔
وہ بالکل ایک کند چاقو کی طرح تھا۔ لارنس کے ذریعے تیز کرنے کے بعد وہیٹ اسٹون کٹا ہوا کنارہ آہستہ آہستہ نمودار ہوا۔
چودہواں باب
ناممکن چیلنج
قوتِ ارادی مظلوم کو ظالم بنا سکتی ہے
علی روئی اب سپر سسٹم کے اسٹیٹس بار میں داخل ہوا تو وہ دیکھ سکتا تھا کہ شفاف انسانی جسم میں کچھ عجیب تبدیلیاں آئی ہیں، لیکن اب اس کی پوری توجہ لارنس پر تھی۔
لارنس جو <Berserk> ریاست میں داخل ہوا تو لگتا تھا کہ مسلط ہےلیکن اس کا دل گھبرا گیا۔ اس کے حملوں کو نمبر 64 کے ذریعے روک دیا گیا تھا۔ جبکہ حریف کا جوابی حملہ ہمیشہ ان مشکل مقامات پر درست طریقے سے نشانہ بنا سکتا تھا جن کا دفاع کرنا مشکل تھا۔ لارنس نے خود کو بے بس محسوس کیا۔ اگرچہ <Berserk> کے بعد اس کی طاقت تقریباً دوگنی ہو گئی تھی لیکن اس نے متوقع اثر بالکل حاصل نہیں کیا۔ وہ اب بھی اپنے مخالف کے کنٹرول میں تھا۔ نمبر64کمزور لگ رہا تھا لیکن اس کی تال بالکل نہیں بگڑی۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ طاقت پیدا کر رہا ہے اور کھلنے کا انتظار کر رہا ہے۔ ایک بار جب اس نے اوپننگ پکڑ لی تو یہ ایک جان لیوا حملہ ہو سکتا ہے۔
جس چیز نے لارنس کو سب سے زیادہ خوفزدہ کیا وہ یہ تھا کہ اس کی <Berserk> حالت زیادہ دیر قائم نہیں رہ سکتی تھی۔ یہ تقریباً ختم ہو چکا تھا اوراپنی طاقت کے ساتھ ایک کمزور ٹیٹ میں داخل ہونے والاتھا۔
’’پوم‘‘۔
علی روئی نے اگلے حملے کو روک دیا۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کے مخالف کی طاقت تیزی سے کم ہو گئی ہے۔ اس نے دیکھا کہ لارنس کے پھولے ہوئےپٹھے اچانک سکڑ گئے ہیں۔ وہ صورت حال کو سمجھ گیا، اس نے اپنی دبی ہوئی ساری طاقت کو ایک زبردست جوابی حملے کےلیے صرف کردیا۔
سامعین یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ لارنس جو اپنی <Berserk> صلاحیتوں کو استعمال کر رہا تھ نمبر64 کے ہاتھوں بےبس ہو گیا۔ جب لارنس کی رفتار بہت کم ہو گئی اور بھاری گھونسہ لگانے کے بعد مزید اٹھ نہ سکا تو لارنس پر شرط لگانے والے سامعین کی آخری امید بھی چکنا چور ہو گئی اور جنہوں نے نمبر52 پر شرط لگائی تھی ان کی خوشی دیکھنے کے قابل تھی۔
علی روئی لارنس کو شکست دینے کے بعد ہانپ رہا تھا۔ اگرچہ <Astral Form> کی صلاحیت توانائی کی بحالی کو تیز کر سکتی ہے لیکن اس کی توانائی کی کھپت بھی بہت زیادہ تھی۔ اس کے سارے زخم مندمل ہو چکے تھے۔ تاہم پچلبلوں کے سب سےگہرےزخم کو ٹھیک ہونے میں ابھی وقت درکار تھا۔
لارنس کمزوری سے زمین پر گر گیا چکا تھا۔ اسے لگا کہ اس کا جسم دردکی وجہ سے بے جان ہے۔ اس نے کئی بار اٹھنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ اسے سب نے خطرے میں ڈال کر <Berserk> کا استعمال کرنے پر مجبور کیا کیونکہ وہ اپنے مخالف کے ذریعہ غیر فعال طور پر کنٹرول کیا گیا تھا۔ پھر بھی نمبر64کی برداشت تصور سے باہر تھی۔ یہاں تک کہ اگر اس نے <Berserk> استعمال نہیں کیا ہے تب بھی وہ پچھلے تال کی پیروی کرتے ہوئے اسی طرح ختم ہوگا۔
لارنس اصل میں <Berserk> ریاست کی طاقت کے ذریعےنمبر64کو ایک مہلک دھچکا دینا چاہتا تھا۔ اسے امید نہیں تھی کہ اس کا مخالف متاثر نہیں ہوگا۔ اس کی بجائےوہ اسے برداشت نہیں کر سکا اور آخرکار اسے ایک مہلک دھچکا لگا۔
نمبر64 کو قدم بہ قدم قریب آتے دیکھ کر ’’خونی ہاتھ‘‘ کی بری شہرت رکھنے والاسینٹور حسب معمول منظر دیکھنے لگا جہاں اس نے اپنے مخالفین کو ستایا۔ وہ کانپ گیا اور جلدی سے چلایا، ’’مجھے مت مارو! میں ہار مانتا ہوں‘‘۔
درحقیقت میدان کے قوانین2گھنٹے کے اندر موت کا تعین کرنا تھے۔ 2 گھنٹے کے اندر، جب تک جبران راضی نہ ہو، ہتھیار ڈالنا غلط تھا۔ لارنس نے دیکھا کہ نمبر64 کا حصہ لینے کا یہ پہلا موقع تھا اس لیے اس نے سوچ سمجھ کر اپنی باقی ماندہ طاقت کو جوا کھیلنے کے لیے استعمال کیا۔
یقیناً نمبر64پر موقوف ہے۔ لارنس کو رحم کی بھیک مانگتے ہوئے دیکھ کر سامعین نے چیخ کر کہا:
’’اسے مار ڈالو! ماردو اسے!‘‘۔
’’جناب، میری جان بچائیں‘‘۔
لارنس شرمندگی کی پرواہ نہ کر سکا، آہستہ آہستہ کھڑا ہوا اور اپنے مخالف کے سامنے لیٹ گیا۔ نمبر64 ایک لمحے کے لیے ہچکچایا اور آہستہ آہستہ منہ پھیر لیا۔ جب لارنس رحم کی بھیک مانگ رہا تھا، اس کی آنکھوں نے بدنیتی کا ارادہ ظاہر کیا۔ وہ اچانک اچھل پڑا اور جو پنجے چارج کر رہے تھے وہ علی روئی کے دماغ کو نشانہ بنا رہے تھے۔ اس سے پہلے کہ حرکت مکمل طور پر کھل جاتی، اس کے گلے میں شدید درد ہوا۔ وہ ایک زبردست کراٹے کاٹ سے مارا گیا تھا۔
لارنس دنگ رہ گیا۔ اس کے گلے سے ’’کیکے‘‘ کی آواز آئی۔ آخر کار وہ زمین پر گر گیا اور اب کوئی آواز نہیں نکال رہا تھا۔
علی روئی میدان میں قواعد کے بارے میں بہت واضح نہیں ہوسکتا ہے، لیکن اسے واضح طور پر وہ الفاظ یاد تھے جو زہریلے ڈریگن نے بار بار کہے تھے:
’’ایک حقیقی جنگ میں دشمن آپ پر کبھی رحم نہیں کرے گا۔ زندہ رہنے کا واحد راستہ اپنے مخالف کو مارنا ہے‘‘۔
لارنس کا چپکے سے حملہ خودکش تھا۔ وہ علی روئی کے ہاتھوں مرنے والاپہلا دشمن بن گیا۔
حاضرین پرسکون ہو گئے اور نقاب پوش شخص کی طرف دیکھا۔ آہستہ آہستہ اپنا ہاتھ واپس لے آیا۔ زمین پر پڑی چادر اٹھا کر واپس جسم پر رکھ دی، ایک لمحے کے لیے خاموش رہا پھر اپنی دونوں مٹھیاں اٹھائیں جو فتح کی نمائندگی کرتی تھیں۔ میدان کا ماحول فوری طور پر بلند ہو گیا۔ بہت سے لوگ چیخ رہے تھے:
’’ 64! نمبر 64!‘‘۔
سب نے سوچا کہ نمبر64نے جان بوجھ کر لارنس کو چوری چھپے حملے کی طرف راغب کیا۔ پھر اس نے آخری ضرب لگا کر لارنس کی زندگی کا خاتمہ کر دیا۔
گرج چمک کے تحت علی روئی بالکل خوش نہیں تھا۔ اس کے برعکس خاموشی کا لمحہ وہ تھا کہ پہلی بار خون میں ڈوبنے کی نفرت اور تکلیف کو برداشت کر رہا تھا۔ وہ عزم کے ساتھ یاد دلاتے رہے کہ آئندہ لڑائی میں مزید بزدلی یا لاپرواہی ہوئی تو زمین پر گرنے والاجسم میرا ہو گا۔
اس وقت جب اس نے اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے، علی روئی مکمل طور پر منگول کے کردار میں ضم ہو گیا۔ وہ دیومالائی دائرے میں بھی مکمل طور پر ضم ہو گیا تھا جہاں طاقتور کا احترام کیا جاتا تھا اور طاقت ہی سب کچھ تھی۔ زندہ رہنے کے لیے اور اپنی تقدیر پر قابو پانے کے لیے اس کا بہادر دل جو کبھی پیچھے نہیں ہٹتا تھا، اس کی زندگی کے آخر تک ہمیشہ جلتا رہے گا۔
روحانی طور پر یہ معیار تبدیلی علی روئی کے لیے ’’الکید‘‘ حالت کو فوری طور پر توڑنے کے لیے کافی نہیں ہو سکتا لیکن یہ یقینی طور پر مستقبل میں ’’مزار‘‘ حالت میں داخل ہونے کے لیے ایک ضروری شرط تھی۔
فاتح علی روئی کو سوکیوبکس کے حوالے کیا گیا منی بیگ موصول ہوا جس میں آج کی شرکت کی فیس اور100 سے زیادہ سیاہ کرسٹل سکے شامل تھے جو اس نے خود پر شرط لگا کر حاصل کیے تھے۔ اس نے سوکیوبکس کی آنکھ مچولی کو نظر انداز کیا، پیسوں کا تھیلا اسٹوریج میں رکھا اور چلا گیا۔
1سیاہ کرسٹل سکہ120سے زیادہ ہو گیا۔ یہ واقعی ایک بہت بڑی کمائی تھی۔ اس وقت حکیم چیلنج کے بعد،اقابلہ نے اسے صرف5سیاہ کرسٹل سکے سے نوازا تھا جب کہ جامنی رنگ کے کرسٹل سکے جو ’’سخی‘‘ حکیم کیمپ نے دیے تھے اب کچھ بھی نہیں لگتا تھا۔
اب کلید یہ تھی کہ فلورسینٹ پتھر سے بنے مجسمے کو حاصل کیا جائے، پھر آج رات اس کی فصل پوری ہوگی۔ علی روئی اس جگہ میں آیا جہاں اس نے سائن اپ کیا اور دیکھا کہ جبران صوفے پر بیٹھا ہوا تھا، شراب کا گلاس آرام سے پکڑے ہوئے تھا جبکہ لیچ کیتھین پاس کھڑا تھا۔
’’سر جبران! میں نے وعدے کے مطابق لارنس کو مار ڈالاہے۔ براہ کرم اپنے وعدے کی پاسداری کریں‘‘۔
جبران کچھ دیر تک مجسمے کو گھورتا رہا اور سرد لہجے میں بولا:
’’میں خفیہ لوگوں سے نمٹنا پسند نہیں کرتا۔ اپنا ماسک اتار دو!‘‘۔
’’کیا صاحب! پیچھے ہٹ رہے ہیں؟‘‘۔
’’تو کیا ہوگا اگر میں پیچھے ہٹوں؟ اس وقت میں مجسمے کے بارے میں نہیں بلکہ تمہارے ماسک کی بات کر رہا ہوں۔ کیا تم چاہتے ہو کہ میں یہ خود کروں؟۔
جبران اصرار کرنے کے لہجے میں بولا۔
علی روئی خفیہ طور پر چوکنا تھا۔ اس نے جلدی سے اپنے دماغ میں سوچا اور فیصلہ کیا:
’’سر جبران! مجھے مجسمے کی نہیں بلکہ ماسک کی ضرورت ہے۔ براہ کرم مجھے معاف کر دیں، یہ حلف ہے۔ میں اسے ابھی نہیں اتار سکتا‘‘۔
جبران بالکل بھی متزلزل نہیں ہوا۔ اس کی آنکھیںگفتگو کرنے لگیں۔ وہ بولا:
’’حلف تمہارا کام ہے۔ اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ میں تمہیں حکم دے رہا ہوں کہ اب اپنا ماسک اتار دو ورنہ میں تمہاری لاش سے اس گندے نقاب کو ننگا کر دوں گا‘‘۔
جبران کو علی روئی کی شناخت پر شک نہیں تھا۔ وہ صرف یہ چاہتا تھا کہ علی روئی اس کے کہنے پر ماسک اتار دے۔ اگرچہ میدان کے اپنے اصول تھے لیکن یہ دیومالائی دائرہ تھا۔ طاقتوروں کی مرضی قواعد کی نمائندگی کرتی تھی، سو استدلال کرنا بیکار تھا۔
علی روئی کا دل ڈوب گیا۔ جبران کا موازنہ لارنس جیسے کسی سے نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ان کی طاقت میں فرق بہت زیادہ ہے۔ فرار ہونا ایک مسئلہ ہے چاہے میں شدت سے کوشش کروں۔ میں کیا کروں؟ کیا سب کچھ ایسے ہی بے نقاب ہو جائے گا؟ یوسف اور اس کی پارٹی کے درمیان رنجش کے ساتھ ماسک اتارنے کا نتیجہ اب بھی موت کا باعث بن سکتا ہے۔
لِیچ کے طور پر جبران کے ارد گرد کیتھن دھمکی پر اتر آیا، اس نے دیکھا کہ نمبر64 بغیر کسی جھجھک کے ہنس رہا تھا۔ اس کے بعد وہ جلدی سے چلا کر بولا:
’’جاہل آدمی! تم نے سر جبران کو حقیر سمجھنے کی جسارت کی‘‘۔
علی روئی نے معلومات میں جبران کے بارے میں ایک بات یاد کی۔ اس نے جوا کھیلنے کا فیصلہ کیا اور ہنسی روک دی، ’’جبران! اس جملے کے ساتھ، تم میرے دشمن ہو، میں اب آپ کو باضابطہ طور پر چیلنج کر رہا ہوں‘‘۔
جبران نے براؤز اٹھائے۔ کیتھن جو پاس کھڑا تھا وہ یہ سوچ رہا تھا کہ اس نے غلط سنا ہے۔ ابتدائی مرحلے کے انٹرمیڈیٹ ڈیمن لڑکے نے واقعی ایک ہائیر ڈیمن کو چیلنج کرنے کی پہل کی۔
اس کے بعد اس نے نمبر64 کو سرد لہجے میں یہ کہتے سنا:
’’میں پہلے ہی اپنے خاندان اور اپنے خاندانی نام کی شان کھو چکا ہوں۔ میں نے ایک بار ڈیمن نے خدا سے قسم کھائی تھی کہ میں اپنی محرومی کی بحالی سے پہلے اس نقاب کو کبھی نہیں اتاروں گا۔ جو کوئی اس حلف کی بے عزتی کرے وہ میرا دشمن ہے‘‘۔
اقابلہ طین کے لیے سب سے اہم چیز ان کے خاندان کی وراثت تھی۔ جن چیزوں کو اپنے خاندانی ناموں سے محروم کر دیا گیا تھا وہ ایک لحاظ سے موت سے بھی زیادہ ظالم تھے۔
’’خاندانی نام اور شان و شوکت کا نقصان جبران کی آنکھوں میں ایک عجیب سی نظر ابھری، پھر اس نے حقارت سے کہا:
’’تم مجھے چیلنج کرنا چاہتے ہو؟ بدقسمتی سے تمہاری موجودہ طاقت قابل رحم طور پر کمزور ہے۔ مجھے تمہیںمکمل طور پر ختم کرنے کے لئے صرف ایک انگلی کی ضرورت ہے۔ تم اس کے بھی اہل نہیں ہو‘‘۔
علی روئی کا دماغ تیزی سے سوچ رہا تھا۔ جب اس نے زہریلے ڈریگن پر مہر لگنے کا سوچا تو اچانک اس کے الفاظ نکلے سر ہلایا اور کہا:
’’مجھے مہر لگائی جا رہی ہے۔ میری طاقت اور ٹیلنٹ کو صرف زندگی اور موت کی جنگ کے ذریعے سطحی سطح پر بیدار کیا جا سکتا ہے۔ میدان میں آنے کی بنیادی وجہ یہی ہے۔ اگرچہ میں اب آپ سے کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا، اگر آپ مجھے دو مہینے دیں تو میں آپ کے چہرے سے اس حقیر مسکراہٹ کو ہمیشہ کے لیے غائب کر سکتا ہوں۔ اگر آپ چیلنج کو قبول کرنے کی ہمت نہیں رکھتے تو آپ مجھے ابھی مار سکتے ہیں اور پھر اپنے قابل رحم تجسس کو پورا کرنے کے لیے میری لاش سے نقاب اتار سکتے ہیں‘‘۔
ان اشتعال انگیز الفاظ نے جبران کو اپنی بھنویں اٹھانے پر مجبور کر دیا۔ وہ دھیرے سے اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے فوری طور پر ایک خوفناک دباؤ کا اخراج کیا۔ کیتھن ڈر کے ساتھ ساتھ کانپ گئی۔ علی روئی نے دیکھا کہ اس کا منصوبہ کام کر گیاہے اور ، وہ پرسکوں ہو گیا۔ اس نے کئی بار اقابلہ کے ’’قاتلانہ ارادوں‘‘ کی آزمائشوں کا تجربہ کیا تھا اور اس کی خوفناک حد اس سے چند گنا زیادہ تھی۔ اس کے علاوہ اس نے زہریلے ڈریگن کی خصوصی تربیت حاصل کی تھی، وہ قدرتی طور پر جبران کے قاتلانہ پن کا سامنا کرنے سے نہیں ڈرتا تھا۔ اس کی نظریں مضبوطی سے جبران کی آنکھوں کو دیکھ رہی تھیں۔
’’بہت اچھا! میں آپ کا چیلنج قبول کرتا ہوں!‘‘۔
جبران اچانک مسکرایا اور اپنے سفید پنکھے دکھائے۔ اس کی ہنسی اب بھی سونے اور لوہے کے ٹکرانے کی طرح سنسنی خیز تھی۔ اس نے پھر سر ہلایا:
’’دلچسپ آدمی، میں تمہیں دو مہینے دوں گا‘‘۔
بولتے ہوئے جبران کے شاگرد روشنی خارج کر رہے تھے۔ ایک بھڑکتی ہوئی آگ نمودار ہوئی۔ علی روئی کے سامنے ایک شعلے سے ڈھکا ہوا طومار نمودار ہوا اور سنہری الفاظ ہلکے سے نمودار ہوئے:
’’میں نہیں جانتا کہ تمہارا اعتماد کہاں سے آیا ہے۔ تمہیں تو تبدیل شدہ خون کی لکیر کے ساتھ ایک گریٹ ڈیمن ہونا چاہئے۔ تاہم اگر تم اپنی جنگ کی شکل کا استعمال کرتے ہو تو یہ میری نظر میں قابل ذکر نہیں ہے۔ میرے پاس دو شکلیں نہیں ہیںلیکن میرے پاس ایک خاص ہنر ہے۔ یہ جنگ کا معاہدہ ہے۔ ابھی معاہدہ پر دستخط کرو۔ اگر تم دو ماہ بعد چیلنج قبول نہیں کرتے تو میں تمہیں کہیں تلاش کر سکتا ہوں‘‘۔
علی روئی سمجھدار تھا۔ اس نے ہنگامی صورت حال کے پیش نظر روک تھام کے حربے کے بارے میں سوچا۔ اس نے کبھی توقع نہیں کی تھی کہ جبران میں ایسی خاص صلاحیت ہے، بہت دیر ہو چکی تھی یہاں تک کہ وہ اب پیچھے ہٹنا چاہتا تھا۔
علی روئی کی موجودہ طاقت ایک تازہ ترقی یافتہ انٹرمیڈیٹ ڈیمن کے برابر تھی جبکہ جبران کم از کم ہائیر ڈیمن کے مستحکم دور میں تھا۔ دوسرے لفظوں میں یہ ابتدائی مرحلے کا انٹرمیڈیٹ ڈیمن تھا جس کا سامنا درمیانی درجے کے ہائیر ڈیمن کاتھا۔ یعنی دونوں میں زمین و آسمان کا فرق تھا۔ اگرچہ علی روئی جب سے دیومالائی دائرے میں آیا ہے ناممکن کو ممکن بنا رہا تھا لیکن اس سے پہلے وہ اپنی ذہانت اور قسمت پر بھروسہ کر رہا تھا مگر اب معاملہ جسمانی اور جادوئی طاقت کاتھا۔
کیتھن نے کہا:
’’نمبر64 کا نام منگول ہے۔ وہ شہر میں کلوک نامی ایک تہہ دار گینگ کا لیڈر بھی ہے۔
’’تہہ دار گینگ؟‘‘۔
جبران نے سر ہلایا اور علی روئی کی طرف دیکھ کر اس کی مسکراہٹ مزید ظالم ہو گئی۔
’’بہت اچھے! پھر میرے پاس ایک اور بارگیننگ چپ کلوننگ گینگ کے ممبر کےلیے ہے۔ اگرتم ناکام ہو گئے یا بھاگ گئے توتمہارے سمیت تہہ دار گینگ کے ہر سر کو میدان میں لٹکا دیا جائے گا‘‘۔
علی روئی نے سنجیدگی سے کہا:
’’میں تسلیم کرتا ہوں کہ یہ چیلنج بہت مشکل ہے۔ مجھے فوری تربیت کی ضرورت ہے۔ میرا صرف ایک سوال ہےکہ معاہدہ پر دستخط کرنے کے بعدکیا ان دو مہینوں میں میرا ٹھکانہ بے نقاب ہو جائے گا؟‘‘۔
’’معاہدے پر واضح طور پر لکھا ہے کہ یہ وقت60 دن کے بعد ہے۔ میں60 دنوں میں آپ کے ٹھکانے کا پتہ نہیں لگا سکتا‘‘۔
علی روئی کے پاس پہلے ہی کوئی چارہ نہیں تھا، لہٰذا اس نے ایک گہرا سانس لیا، اپنی انگلیاں کاٹیں اور تازہ خون سے شعلے کے معاہدے پر منگول کا نام لکھا۔ خون کی تحریریں سنہری الفاظ میں بدل کر شعلے میں غائب ہو گئیں۔ جبران نے بھی ایسا ہی کیا اور معاہدہ پر دستخط مکمل ہوئے۔ کیتھن ہکا بکا رہ گئی۔ اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ سر جبران ایک انٹرمیڈیٹ ڈیمن کے ساتھ جنگی معاہدے پر دستخط کریں گے جو اس کے وقار کے لیے نقصان دہ تھا۔ جبران نے اپنے دماغ کو حرکت دی اور جنگ کا معاہدہ غائب ہو گیا۔ اس نے سر ہلایا اور کہا:
’’تمہاری موجودہ طاقت مجھے چیلنج کرنے کے لیے کافی نہیں ہے۔ چونکہ تم نے کہا کہ زندگی اور موت کے درمیان مہر کو توڑنا چاہتے ہو تو میں تمہاری مدد کروں گا۔ آج کاخونی ہاتھ لارنس صرف ایک ابتدائی انٹرمیڈیٹ ڈیمن تھا۔تمہارا اگلا مقابلہ کوئیک ولف سے ہے جو انٹرمیڈیٹ ڈیمنز میں سب سے مضبوط ہے۔ میں تمہاری صحت یابی اور خصوصی تربیت کے لیے10 دن دوں گا، پھر جنگ ہوگی۔ اگرتم ہار گئے تو اس کے نتائج تم سن چکے ہو۔
’’میں جانتا ہوں‘‘۔
علی روئی نے بے شرمی سے پوچھا:
’’اگر آپ2 مہینے بعد ہار گئے تو کیا ہوگا؟‘‘۔
ایک لحاظ سے تاخیر اور حوصلہ افزائی کا منصوبہ کامیاب ہو گیا تھا۔ باقی اس کی اصل طاقت پر منحصر تھا۔ عقل کے مطابق جبران کو چیلنج کرنے کےلیے دو مہینے تو کیا دو سال میں بھی ممکن نہیں۔ تاہم سپرسسٹم پر اس کا قبضہ عقل سے بالاتر تھا۔ یہی نہیں اس کے پاس سنکھیار اور ایک نئے میٹامورفوزڈ مضبوط آدمی کا دل بھی تھا۔ بالکل اسی طرح جیسے آج لارنس کے خلاف جنگ سے کسی کو دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ زیادہ تناؤ کے ساتھ زیادہ صلاحیت جاری کی جا سکتی ہے۔ چونکہ وہ پیچھے نہیں ہٹ سکتا تھا اس لیے وہ سب کچھ داؤ پر لگا سکتا ہے اور موت کے دہانے پر نکلنے کا راستہ تلاش کر سکتا ہے۔
’’میں ہار جاؤں گا؟‘‘۔
جبران کی نظر میں یہ سب سے اچھا لطیفہ تھا۔ پہلو میں موجود کیتھن نے موقع پر فوراً طنز کیا:
’’اگر تم واقعی نام نہاد مہر کو قدم بہ قدم توڑ سکتے ہو اور مجھے دو ماہ میں شکست دے سکتے ہو تویہ میدان اور میری زندگی سب تمہاری ہے۔ تاہم فرار ہونے کے لیے اپنی قسمت کی کوشش بھی نہ کرنا کیونکہ اگر تم دیومالائی دائرے کےدوسرے کنارے میں بھی چلے جاؤ تو تمہارا سر لے آؤں گا‘‘۔
’’ایک سچا جنگجومیدان جنگ میں مرتا ہے لیکن اگر فرار ہوجائے تو اس کا تعاقب نہیں کیا جاتا‘‘۔
علی روئی یہ کہہ کر واپس مڑا اور چلا گیا۔
’’میں ویسے بھی کچھ تفریح کی تلاش میں تھا۔ لہذا دو ماہ بعد میدان میں تمہارا سر قلم کرنے کا منتظر ہوں‘‘۔
جبران نے سفاک مسکراہٹ سے کہا لیکن تعریف اس کی آنکھوں سے چمک رہی تھی۔
’’رکو!‘‘۔
علی روئی نے مڑ کر دیکھا تو گریٹ ڈیمن نے اپنا ہاتھ ہلایا۔ اس کے بعد4میٹر سے زیادہ لمبا فلوروسینٹ پتھر کا مجسمہ آہستہ آہستہ اُڑ کر اس کی طرف چلا گیا۔ اس نے جلدی سے اسے اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑا تو وہ بہت حیران ہوا۔
’’یہ وہی ہے جس کےتم مستحق ہو‘‘۔
جبران نے اب اس کی طرف توجہ نہیں دی، گلاس اٹھایا اور نظریں حلق میں اترتی شراب میں گاڑ دیں۔
علی روئی کے جانے کے فوراً بعدکیتھن نے ہمت کرکے پوچھا:
’’سر جبران! آپ ابھی آسانی سے منگول کو مار سکتے ہیں۔ اپنے آپ کو نیچا کیوں کیا اور اس نااہل شخص سے جنگی معاہدہ کیوں کیا؟‘‘۔
جبران کا شراب کا گلاس رک گیا اور خونی سرخ ایرس میں کچھ پرانی یادیں چمکتی دکھائی دیں۔ اس کی آواز خوفناک ہو گئی۔ بولا:
’’کیتھن!تم میرے قابل اعتماد معاون ہو اور تقریبا 100 سال سے میرے ساتھ ہو۔ تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ کیا پوچھنا ہے اور کیا نہیں ‘‘۔
لیچ خوفزدہ نظر آ رہا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اسے ایسا نہیں کہنا چاہیے تھا۔ اس نے جھک کرکہا:
’’سر! کیتھن سمجھ گیا ہے‘‘
اگرچہ پہلے ہی رات کا وقت ہو چکا تھا اور اس کی چوٹیں ہلکی نہیں تھیں، علی روئی کے پاس دو ماہ کا قلیل وقت تھا۔ اس لیے جب وہ لیب میں واپس آیا تو نہیں رکا اور فوری طور پر وائیورن پرسوار ہو کر نیلی جھیل کی طرف پرواز کر گیا۔ راستے میں علی روئی سپرسسٹم میں داخل ہوا۔ اسٹیٹس بار میں تجربہ کی قدر 6فیصدتک پہنچ گئی تھی۔ آخر کار اسے 3-D انسانی جسم میں ہونے والی عجیب و غریب تبدیلیوں کا احساس ہوا۔ بگڑے ہوئے حصے پر، ’’الکید‘‘ روشنی کی گیند اور بھی زیادہ چمک رہی تھی۔ اس کےجسم کے ہر حصے میں روشنی کی کرن تھی۔ یہ ایک smokescreen کی طرح غیر واضح طور پر ظاہر ہوا۔ ایک پتلی کنکال کی شکل بنائی گئی تھی۔ اس ’’کنکال‘‘ تبدیلی کا کیا مطلب ہے؟۔ علی روئی پریشان تھا۔ لارنس سے لڑائی کے بعد اس نے اپنے جسم میں کچھ واضح تبدیلیاں محسوس کیں جو روشنی کا راستہ ہموار کرنے کےلیے مددگارثابت ہوئیں۔ سنکھیار صحیح کہتا تھا کہ جنگ جتنی زیادہ جان لیوا ہو طاقت اتنی زیادہ بہتر ہوتی ہے۔ تاہم بہت سی آزمائشیں اب بھی بہت مشکل تھیں۔ دو مہینے بعد جبران کا سامنا کرنا اس کے علاوہ’’کوئیک ولف‘‘بھی کافی خوفناک حریف تھا۔ جو لوگ میدان میں جیت سکتے ہیں وہ سب تجربہ کار طاقتور تھے۔
علی روئی کی موجودہ طاقت ابتدائی مرحلے کے انٹرمیڈیٹ ڈیمن کے مساوی ہونے کے ساتھ 10 دن بعد جیسی کا سامنا کرنے کا خطرہ آج کی جنگ سےزیادہ ہونا چاہیے۔ مجسمے کی کوالٹی واقعی بہت زیادہ تھی۔ یہ تب ہی مکمل طور پر تبدیل ہوا جب علی روئی نیلی جھیل کے اوپر آسمان پر پہنچا۔ اگرچہ یہ چیز تباہی کی اصل وجہ تھی لیکن فراہم کردہ چمک مایوس کن نہیں تھی۔ یہ16000پوائنٹس سے زیادہ تھا۔ اس کی کل چمک کی قیمت21000پوائنٹس زیادہ ہو چکی تھی۔ یہ بالکل معقول طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ٹریننگ گراؤنڈ استعمال کرنے کا بہترین مقام تھا۔ ابھی اسے زہریلے ڈریگن کی رائے سننے کی ضرورت تھی سو اس اس نے ہنگامی تربیت کا منصوبہ بنایا۔
وائیورن سے اتر کرعلی روئی چندقدم چلا تھا کہ اس نے اپنی پیٹھ میں غیر معمولی تبدیلی محسوس کی۔ وہ اچانک گر پڑا۔ پاؤں اٹھانے کوشش کی لیکن اس کی پشت پر موجود آدمی نے تیزی سے اس کے پاؤں پکڑ لیے۔ علی روئی نے جسم کی طاقت کا پورااستعمال کیا۔ آدمی کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔ علی روئی نے ایک پاؤں گھما کر اسے لات مار ی۔ وہ آدمی غیر متوقع حملےسے بچنے کے لیے دو قدم آگے بڑھا۔
’’عجیب بات ہے لگتا ہے تم زیادہ مضبوط گئے ہو‘‘۔
پیچھے سے سنکھیار کی آواز آئی:
’’تمہاری طاقت اور رد عمل کی رفتار بہت بہتر ہوگئی ہے لیکن جب تم کاٹتے ہو تویہ عمل قدرے سست ہے۔ تمہیں برا تو نہیں لگا؟‘‘۔
’’تم واقعی زہریلے ڈریگن ہو،تمہاری آنکھیں بھی ڈریگن کی طرح بدصورت ہیں‘‘۔
علی روئی تلخی سے مسکرایا اور بولا:
’’اس بارمجھے کم چوٹ نہیں لگی۔ دوہڈیاں بھی تڑوائی ہیں۔ لیکن میرے جسم کا تمہیں پتہ ہے، دو تین دن میں ٹھیک ہو جاؤں گا‘‘۔
سنکھیار نے جھک کر کہا:
’’ کس سے لڑےہو؟ چوٹ کیسے لگی؟‘‘۔
علی روئی نے میدان میں ہونے والاسارا واقعہ بتایا، زہریلے ڈریگن نےاسے ڈانٹتے ہوئے کہا:
’’ درمیانی دیومالائی طاقت کے ساتھ تم نے بڑے ڈیمن کو چیلنج کرنے کی ہمت کی؟ اس احمقانہ جنگ کے معاہدے پر دستخط بھی کیے؟۔ یہ مت بھولنا کہ ہماری زندگیاں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ کیا تم مجھے بھی مارنے کی کوشش کر رہے ہو؟‘‘۔
’’میں نہیں چاہتا تھا لیکن اس وقت صورتحال بہت خطرناک تھی‘‘۔
علی روئی نے کندھے اچکا کر کہا:
’’میرے لیے میدان میں اپنی طاقت کو بہتر بنانے کی وجہ یہ نہیں ہے کہ جتنی جلد ممکن ہو قاف کی پہاڑیوں میں جاؤں تاکہ <تاریک چمک کے تالے< کو دور کیا جا سکے۔ اب افسوس کرنا بیکار ہے۔ چلو ایک ہنگامی تربیتی پروگرام بنائیں جو کم از کم دو مہینوں کے اندر ہائیر ڈیمن کی طاقت تک پہنچ جائے‘‘۔
2ماہ میں انٹرمیڈیٹ سے ہائیر ڈیمن تک؟‘‘۔
سنکھیار کی آنکھیں حیرانی کا اظہار کیا:
’’اتنا آسان ہوتا تو بہت سارے امپس گریٹ ڈیمن ہوتے۔ پہلے گریٹ ڈیمن کو مارنے کے طریقے کے بارے میں سوچیں‘‘۔
’’سنکھیار! میری بات سنو۔ میرے خیال میں یہ ایک موقع ہے۔ یہ تم نے ہی بتایا تھا کہ تیز ترین بننے کا بہترین طریقہ لڑائی ہے۔ یہ تم نے ہی بتایا ہے کہ کل رات کے مقابلے میری موجودہ طاقت میں نمایاں بہتری آئی ہے۔ جبران نے انتظام کیا ہے کہ10 دن کے بعد پھر میرا مقابلہ ہے جس میں میرا مخالف درمیانی مرحلے کا انٹرمیڈیٹ ڈیمن ہے۔ اگر میں جیت جاتا ہوں تو وہ نئے مخالفین کو نچلی سے اعلیٰ طاقت تک ترتیب دیتا رہے گا جب تک میں اسے چیلنج نہ کر سکوں۔ بے شک یہ لڑائیاں خطرناک ہیں لیکن مختلف تناظر میں دیکھیں تو ایسا لگتا ہے جیسے جبران مجھے آگے بڑھا رہا ہے، لہذا میں خطرہ مول لینا چاہتا ہوں اور حقیقی معنوں میں لڑنا چاہتا ہوں‘‘۔
یہ کہتے ہوئے علی روئی کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
’’میں آج میدان میں تقریباً مر گیا تھالیکن بہت کچھ سیکھا۔ پہلے ہی بہت سی چیزوں کو صحیح معنوں میں سمجھ چکا ہوں۔ میرے پاس ہمت بھی ہے اور لڑنے کا جذبہ بھی۔ میں گرینڈ حکیم کی وراثت کابھی امین ہوں پھر بھی زندگی بھر جینے کی کوشش میں صرف عقل اور قسمت پر بھروسہ کرتا رہوں گا۔ کیا میں ابھی قاف کی پہاڑیاں جا کر پری ڈریگن، لورا کو تلاش کر سکتا ہوں؟۔ یہ لڑائیاں صرف آپ کے لیے نہیں بلکہ میرے لیے بھی ضروری ہیں۔ میں حقیقی طاقتور بننا چاہتا ہوں!‘‘۔
راستے پر موجود بہت سے پہاڑوں اور الپائنز کے مقابلے میں جبران ایک چھوٹی چوٹی تھی جو علی روئی کو روک رہی تھی۔ اگر وہ اس چوٹی کو فتح نہیں کر سکتا تو مستقبل میں مزید بلند چوٹیوں کو کیسے عبور کر سکتا ہے؟۔ دونوں میں بحث بڑھی تو ڈرائیونگ فورس کے طور پرزہریلے ڈریگن نے حقارت سے کہا:
’’ہر کوئی طاقتور بننا چاہتا ہے لیکن یہ راستہ موت جیسے خطرے سے بھرا ہوا ہے۔ بہت کم ایسے ہیں جو زندہ بچنے کے بعد مضبوط بن گئے ہوں۔ کیا تمہیں مرنے سے ڈر نہیں لگتا؟ذرا سوچو‘‘۔
علی روئی قائل نہ ہوا۔ اس نے کہا:
’’سنکھیار! تم اس مقام تک نہیں پہنچے جہاں میں اب ہوں۔ تم شاید ابھی تک مجھے پہچان نہیں سکے۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہر اس جگہ جہاں موت یقینی ہو، جانے سے نہیں گھبراؤں گا۔ میں تقدیرکے سامنے کٹھ پتلی نہیں بننا چاہتا بلکہ اس کی گردن دباناچاہتا ہوں‘‘۔
زہریلےڈریگن کی آنکھیں دھیرے دھیرے سنجیدہ ہوتی گئیں۔ اس نے ایک انسان کے طور پر علی روئی کا بغور جائزہ لیا جوکبھی سنجیدہ نہیں ہوا۔ اس نے سرد لہجے میں پوچھا:
’’تم ضرورت سے زیادہ پر اعتماد آدمی ہو ، کیاتم واقعی یہ سب کرنا چاہتے ہو؟‘‘۔
’’ہم انسانوں میں کہاوت ہے کہ بزدل انسان مرنے سے پہلے ہزاروں بار مرتا ہے جب کہ بہادر آدمی صرف ایک بار مرتا ہے۔ میں جانتا ہوں کہ تم کس چیز کے لیے پریشان ہو۔ کیا symbiotic معاہدہ کسی طرح سے ہٹایا جا سکتا ہے؟ ،میرا وعدہ ہے میں معاہدے کے بغیربھی قاف کی پہاڑیاں جاؤں گا تاکہ مہر کھولنے میں تمہاری مدد کروں۔ اگرتمہیں بھروسہ نہیں ہے تو۔۔۔۔‘‘۔
’’جب تک تم ڈیمیگوڈ کی سطح پر نہیں پہنچ جاتے معاہدے کی طاقت کو حل نہیں کر سکتے۔مجھے تمہاری شرارت اور لالچ کی فکر ہے اس لیے میں معاہدے کو برقرار رکھتا ہوں‘‘۔
زہریلے ڈریگن نے اسے بے صبری سے روکا۔ پھر کہا:
’’چونکہ تم نے فیصلہ کر لیا ہےتو سنکھیار تمہارے لیے یہ خطرہ مول لے گا۔ میں دیکھنا چاہتا ہوں کہ تم مستقبل میں تقدیر کی گردن کیسے دباتے ہو۔ مجھے ابھی احساس ہوا ہے کہ تم لالچی اور حقیر ہی نہیں ہوبلکہ مکمل طور پردیوانے بھی ہو۔ میں بالکل سمجھ نہیں پا رہا ہوں کہ مجھے کیساپارٹنرملا ہے‘‘۔
اگرچہ سنکھیار نے اچھے الفاظ نہیں بولے تھے مگراس نے اپنے اعتماد اور حمایت کا اظہار کیا تھا۔ خاص طور پر’’پارٹنر‘‘ کے لفظ نے علی روئی کو متاثر کیا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اس مغرور ڈریگن نے اس کی ہمت کو پوری طرح پہچان لیا ہے۔
علی روئی کو حوصلہ ملا۔ وہ جانتا تھا کہ سنکھیار محض جذبات کو پسند نہیں کرتا، اس لیے وہ مسکرایا:
’’چونکہ ہم شراکت دار ہیں، تمہارا میرا ہے اور میرا ابھی میرا ہے۔ میں قاف کی پہاڑیوں کے تمام خزانوں کےلیے تمہاری مدد کروں گا۔ اگر تمہاری ایک خوبصورت ڈریگن بہن ہے تو میں اپنے آپ کو اس کےلیے بھی وقف کر سکتا ہوں۔ یوں ہم اور بھی قریب ہو جائیں گے‘‘۔
کسی ضدی کے ساتھ معاملہ کرنا اس سے زیادہ ضدی ہونا ہے۔
’’لالچی آدمی!‘‘۔
زہریلا ڈریگن بیزاری سے بولا:
’’تم بھی لورا کی طرح پاگل ہو۔ وہ پاگل عورت تمہارے ساتھ ہو نی چاہیے تھی۔ امید ہے جب مستقبل میں تم دونوں ملو گے تو وہ تمہارے لیے ضرور نیچے اترآئے گی۔تم ٹھیک کہتے ہو،یہ تربیت کا ایک اچھا موقع ہے۔ تم ایک عظیم مالک کی وراثتی طاقت کے مالک ہو۔ آگے بڑھو گے، مقابلے کرو گے، بلندی پر پہنچو گے توتمہاری بیدار قوت میں بہت اضافہ ہو جائے گا۔ تم اس گریٹ ڈیمن کو دو مہینوں میں شکست دے سکتے ہو۔ اس کے بعدقاف کی پہاڑیوں کا ہدف زیادہ دور نہیں ہوگا‘‘۔
علی روئی جانتا تھا کہ سنکھیار ہمیشہ سے ہی گرینڈ حکیم کی وراثت پر یقین رکھتا ہے اس لیے وہ پر اعتماد تھا۔ علی روئی نے کچھ نہیں کہا۔ وہ سنجیدگی سے اسے دیکھتا رہا۔ زہریلے ڈریگن نے ایک شرارت بھری مسکراہٹ سے کہا:
’’اگر تم دو مہینے بعد اس آدمی کا مقابلہ کرنے کی طاقت حاصل نہ کر سکوتو نیلی جھیل پر چلے آنا۔ اگرچہ اب میرے پاس صرف ایک گریٹ ڈیمن بادشاہ کی طاقت ہے لیکن ا س سے کسی گریٹ ڈیمن کو مارنا مشکل نہیں ہے۔ خاص طور پر میرے نام کا لفظ ’زہر‘ تم جانتے ہو صرف آرائشی نہیں ہے‘‘۔
’’تو یہ وہ طریقہ ہے جس کا تم نےذکر کیا تھا۔ میرے نزدیک یہ ’گناہ‘ ہوگا۔ میں اس کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ ایک حقیقی جنگ پر میری پوری توجہ مرکوز رہے گی‘‘۔
’’مجھے لگتا ہے کہ اس حقیقی معرکہ آرائی سے تمہیں بہت کچھ حاصل ہوگا۔ آئو پہلے سوچتے ہیں کہ ’کوئیک ولف‘ سے کیسے نمٹا جائے‘‘۔
زہریلے ڈریگن نے اطمینان سے سر ہلاکر کہا:
’’نام سے لگتا ہے بہت تیز رفتار قسم کی کوئی چیز ہے۔ اس قسم کے لڑکوں سے مقابلہ سب سے مشکل ہوتاہے کیونکہ وہ حملےاور دفاع دونوں میں تیز ہوتے ہیں۔ تمہاری برداشت اور لچک بہت مضبوط ہے۔ تمہاری رفتاربھی بری نہیں لیکن تمہارا دفاع کمزورہے، خاص طور پر مخالف کی طاقت ابھی تم سے زیادہ ہے‘‘۔
’’ میں اپنی رفتار بڑھا نہیں سکتا؟‘‘۔
’’یہ بہت مشکل ہے‘‘۔
زہریلے ڈریگن نے فیصلہ کن انداز میں سر ہلایا۔ پھر بولا:
رفتار کی تربیت کا سب سے مؤثر طریقہ وزن اٹھانا ہے۔ تمہارے پاس صرف دس دن ہیں، اتنے کم وقت میں رفتارنہیں بڑھا سکتےمگر تم یہ بات بھول جائو کہ تمہاراحریف انٹرمیڈیٹ ڈیمن میں سب سے تیز رفتار ہے‘‘۔
علی روئی نے سپرسسٹم میں ٹریننگ گراؤنڈ کے کشش ثقل کے اصول کے بارے میں سوچا اور پراسرار انداز میں مسکرا کر بولا:
’مجھے لگتا ہے کہ میرے پاس اس مختصر وقت میں اپنی رفتار میں زبردست اضافہ کرنے کا کوئی طریقہ موجودہے‘‘۔
’’اگرہے تو اس سے بڑی بات اور کیا ہو سکتی ہے‘‘۔
زہریلے ڈریگن کو معلوم تھا کہ اس کے ساتھی کو عجیب وراثت ملی ہے اس لیے اس نے کبھی اس کے متعلق تفصیل سے نہیں پوچھا تھا۔ ڈریگن بولا:
’’تم رفتار کو بڑھالیتے ہو پھر بھی طاقت میں فرق کو نظر انداز نہیں کرنا۔ تمہاری موجودہ جسمانی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ اپنی چوٹیں ٹھیک کرو اور ٹریننگ میں واپس جائو۔5 راتوں کے بعد آنا۔ میں درمیانی مرحلے پر اپنی طاقت کو کنٹرول کرنے کی پوری کوشش کروں گا اور پھر حملہ کرنے اور دفاع کرنے کی تمہاری رفتار بڑھاؤں گا‘‘۔
’’ٹھیک ہے‘‘۔
علی روئی نے وقت بالکل ضائع نہیں کیااورفوراً وائیورن پر سوارہوگیا۔ وائیورن نے اپنے پر پھیلائے اور رات کے آسمان میں غائب ہو گیا۔
وہ اگلی صبح سویرے اٹھا۔ <Astral Form> کی صلاحیت کے ساتھ اس کی حالت ایک رات میں تقریباً ٹھیک ہوگئی تھی، یہاں تک کہ زیادہ سنگین جسمانی زخم بھی ٹھیک ہوچکے تھے۔ وہ بیدار ہونے کے بعدسب سے پہلے جس جگہ پر گیا وہ کلوننگ گینگ تھا۔ بلاشبہ انسانی شناخت میں سیکرٹری کے طور پرکل رات منگول کے حکم کی وجہ سے بوڑھے بونے اور جمرال نے علی روئی کو دیکھتے ہی پورا احترام ظاہر کیا۔
علی روئی نےنے کچھ کہنا چاہا تو بوڑھے بونے نے فوراً کان کھولے۔
’’آپ کو ان کھلاڑیوں کے بارے میں معلومات جمع کرنی ہوں گی جو میدان کی جنگ میں تیز رفتاری سے حصہ لیتے ہیں۔ لیزر ڈیمن نہیں بلکہ انٹرمیڈیٹ اور ہائیر ڈیمن، خاص طور پر جسے ’کوئیک ولف‘کہا جاتا ہے ۔ جنگ میں، ہمیں دشمن کو حقیر سمجھنا چاہیے اور مجھے جیتنے کا یقین اور حوصلہ ہونا چاہیے۔ حکمت عملی میں مجھے اپنے دشمنوں کی قدر کرنی چاہیے۔ میں صرف اپنے آپ کو اور اپنے دشمنوں کو جان کر ہی ناقابل شکست رہ سکتا ہوں‘‘۔
’’میرے پاس صرف معلومات کا ایک ٹکڑا ہے۔مجھے یہ اس وقت ملا جب میں نے میدان میں جوا کھیلا۔ تھوڑی دیر انتظار کریں جناب‘‘۔
بوڑھے بونے نے درخواست سنی، گھر کی طرف پلٹا اور جلد ہی ایک پتلا کتابچہ لے کر واپس آیا۔ کتابچے کے کونے بہت زیادہ پرانےتھے اور ایسا لگتا تھا کہ تحقیق کے لیے باقاعدگی سے استعمال ہوتا رہاہے۔ علی روئی نے اسے پڑھا۔ اس میں ہر سطح کے تمام اہم کھلاڑیوں کو تفصیل سے ریکارڈ کیا گیا تھا۔ جہاں تک منگول کا تعلق ہے جس نے ابھی کل ہی حصہ لیا تھا، وہ شامل نہیں تھا۔ ’’خونی ہاتھ‘‘ کے بارے میں ریکارڈ، لارنس تھا۔ لارنس، سینٹور عرف ’’خونی ہاتھ‘‘۔ ابتدائی مرحلے انٹرمیڈیٹ ڈیمن کے درمیان مضبوط آدمی، جارحانہ حملہ، اسباب ظالمانہ تھے۔ <Berserk> ٹیلنٹ کا حامل۔ علی روئی نے کل لارنس کا سامنا کیا اور خفیہ طور پر سوچا کہ یہ تبصرے دراصل کافی معروضی تھے۔
جیسی کے بارے میں یہ معلومات تھین:جیسی، سیاہ ایلف ، عرف ’’کوئیک ولف‘‘ درمیانی مرحلے کے انٹرمیڈیٹ ڈیمن میں سب سے مضبوط کھلاڑی، انتہائی تیز، خنجر اور قریبی لڑائی میں ماہر، انتہائی تیز نظر کا حامل، مخالفین کو عموماً ایک ہی ضرب سے ماردیتاہے۔
وہ واقعی تیز رفتار چیزتھا۔ کوئی تعجب نہیں کہ اسے ’’کوئیک ولف‘‘ کہا جاتا تھا۔ علی روئی نے سر جھکا لیا۔ آخری صفحہ پر جبران کا نام درج تھا۔ جبران، گریٹ ڈیمن، ہائیر ڈیمن۔ اس کی مخصوص طاقت کی سطح نامعلوم تھی۔ تازہ ترین جنگ4ماہ قبل ہوئی تھی۔ اس نے درمیانی مرحلے کے ہائیر ڈیمن کو10منٹ کے اندر نصف میں کاٹ دیا۔
علی روئی کا دل اچانک دھڑکا۔ جبران آسانی سے’’ایک ہی سطح‘‘ کے مخالف کو مار سکتا ہے۔ اس کی طاقت درمیانی مرحلے سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ اس کا امکان تھا کہ وہ ہائیر ڈیمن کی چوٹی تک پہنچ جائے یا کم از کم درمیانی مرحلے میں سب سے مضبوط۔
یہ معلومات بہت قیمتی تھیں، لہٰذا علی روئی نے اپنے پاس رکھ لیا اور بوڑھے بونے کو ایک تھیلا دیتے ہوئے کہا:
’’اس میں50سیاہ کرسٹل سکے ہیں۔ زیادہ پیسے ساتھ نہیں لایا۔ پیسہ کمانے کے لیے یہ سیاہ کرسٹل سکے استعمال کر سکتے ہو۔ تم نے پتھروں کی اعلیٰ قسم تلاش کرنی ہے، خاص طور پر فلوروسینٹ پتھر۔
’’50سیاہ کرسٹل سکے؟‘‘۔
بوڑھا بونا چمڑے کا تھیلا وصول کرتے ہوئے کانپ گیا، کھولاتو واقعی جامنی رنگ کے کرسٹل سکے کے بجائے سیاہ کرسٹل سکے تھے۔ وہ دنگ رہ گیا کیونکہ اس نے پہلے کبھی اتنے پیسے اپنے ہاتھ میں نہیں دیکھے تھے۔
بونا نسل انتہائی کمزور تھی اورنادارتھی۔ وہ لڑائیوں میں حصہ لینے کے اہل بھی نہیں تھے۔ ان کی زندگی دیومالائی دائرے میں سب سے نچلی سطح پر تھی اور انفرادی حکیم لیول کی ذہانت کے سوا کسی خاص میدان میں عروج پر نہیں پہنچ سکتے تھے۔ اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ آقا جس کی وہ عارضی طور پر پیروی کرتا ہے نوکر کے معاہدے پر دستخط کیے بغیر اتنی بڑی رقم دے دےگا۔ یہ کیسا اعتبار تھا؟۔
بوڑھے بونے کی آنکھیں نم تھیں، اور اس نے اوپر دیکھا اور بولا:
’’براہ کرم حکیم کو میرا پیغام پہنچائیں کہ جمرال نے سیاہ بونوں کے آباؤ اجداد کی قسم کھائی ہے کہ میں اسے کبھی مایوس نہیں کروں گا‘‘۔
ایک سیاہ بونے کے لیےپہلے سے ہی ایک بہت بڑاحلف تھا۔ اسی لمحے ایک دبلی پتلی شخصیت منہ بنا کر چلائی:
’’جمرال چچا! میں نے اسے بنالیا۔۔۔۔میں نے آخر کار اسے بنالیا‘‘۔
’’یہ کالاسیاہ شمرال تھا۔ بوڑھا بونا غصے میں آگیا اور شمرال سے بولا:
’’کیا تم نہیں دیکھ سکتے کہ سر علی روئی یہاں ہیں؟، کیا تم اصول نہیں جانتے؟۔ اگر تم نے جناب کو دوبارہ اپنی حرکتوں سے ناراض کیا تو میں تمہیں تہہ دار گینگ سے نکال دوں گا‘‘۔
شمرال ہکا بکا رہ گیا۔ اس کے دل میں اب بھی انسانی سیکرٹری کا خوف تھا۔ اس نے فوراً جھک کر کہا:
’’معافی چاہتا ہوں سر علی روئی !۔۔۔میں بہت بدتمیز ہوں‘‘۔
’’ٹھیک ہے، ٹھیک ہے‘‘۔
علی روئی نےشمرال کے ہاتھ کی طرف دیکھا اورتجسس سے پوچھا:
’’یہ تمہارے ہاتھ میں لالہ آلو ہے؟‘‘۔
’’جی سر۔یہ میرا ترمیم شدہ لالہ آلو ہے‘‘۔
شمرال فخریہ انداز سے سینہ پھُلا کر بولا۔
بوڑھے بونے نے سرد لہجے میں کہا:
’’یہ ہمیشہ اپنے کام میں سنجیدہ نہیں ہوتااور ان بیکار چیزوں سے کھیلتا رہتا ہے۔ اس کے بجائے اسے ناک آؤٹ دوائیں بنانا چاہئیں‘‘۔
علی روئی نے محسوس کیا کہ بوڑھے بونے نے جو کام کہا تھا وہ دھوکہ دہی اور دھوکہ دہی کے لیے مناقابلہ ت بنانا تھا۔
شمرال کچھ دیر ہاں ہاں کہتا رہااور پھر علی روئی کو اپنی کامیابیاں دکھانے لگا۔ وہ بولا:
’’جناب! یہ لالہ آلو ایک آدھ سال میں پک جاتا ہے لیکن میں ایک ماہ میں پکا سکتا ہوں۔ پیداوار بھی دگنی ہو جاتی ہے اور کھانے کے بعد پادنا بھی آسان ہے‘‘۔
یقین نہیں آیا کہ یہ اس کا جوش تھا یا ترمیم شدہ لالہ آلو کا اثر۔ شمرال غصے سے بھڑک اٹھا۔ بدبو غیر معمولی تھی۔ علی روئی نے جلدی سے ناک ڈھانپ لی۔
علی روئی کو یاد آیا کہ حکیم چیلنج کے دوران اس نے ایک بار الداس کو دھوکہ دیا اور مہیرکو مارنے کے لیے دس میٹر کی خوشبو کا استعمال کیا تھا۔یہ اس کی چھوٹی سی سزا ہے۔
بوڑھے بونے کی آنکھیں غضب ناک ہو گئیں۔ وہ شمرال پر چلایا:
’’نکلو! بدتمیز آدمی!‘‘۔
شمرال یہ سن بھاگ گیا اور داخلی دروازے سے گزرتے ہوئےایک اور آواز مار گیا۔ بوڑھے بونے کو علی روئی کے سامنے بے حد شرمندگی ہوئی۔بوڑھا بونا عجیب سے ہنسا:
’’شمرال نے بچپن سے ہی اپنے والدین کو کھو دیا۔ اس لیے اس میں نظم و ضبط کی کمی ہے۔ وہ ان پودوں کے ساتھ کھیلنابہت پسند کرتا ہے۔ اس نے آپ کو ناراض کیا ہے۔ جناب! براہ کرم اسے معاف فرما دیجئے گا‘‘۔
علی روئی نے کہا:
’’اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تم وہ3کام مکمل کرو جو منگول نے آپ کو تفویض کیے ہیں۔ میں اور وہ دونوں آپ کی قابلیت پر یقین رکھتے ہیں‘‘۔
ان الفاظ نے بوڑھے بونے کو پھر سے ہلایا۔ علی روئی اٹھا اور وہاں سیدھا محل چلا گیا۔
کونسل ہال میں اقابلہ بوڑھے غوث کے ساتھ بحث کر رہی تھی۔ وہ علی روئی کے جلدی کام پہنچنے پر حیران ہوئی۔ اس نے کہا:
’’علی روئی،تم صحیح وقت پر آئے ہو۔ ابھی ابھی خبر ملی ہے کہ یوسف اسکائی بیٹل میں ناکامی کی وجہ سے سرمانی سلطنت میں واپس آگیا ہے۔ شہنشاہ مطمئن نہیں تھا اور اس کے بھائی کنیتا نے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسے نیرنگ آباد پر ہونے کی اہلیت سے محروم کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ یوسف اور کنیتا آپس میں مختلف طریقوں سے لڑ رہے ہیں اس لیے یوسف کو نیرنگ آباد پر واپس نہیں آنا چاہیے۔
بوڑھے غوث نے کہا:
’’میرے خیال میں یہ اچھا موقع ہے۔علی روئی! آپ کیا سوچتے ہیں؟‘‘۔
اس عرصے میں مسلسل رابطے کے بعد کچھ ایسے منصوبوں کے ساتھ جو اس نے شہزادی اقابلہ سے سنے تھے، بوڑھا غوث جو عقلمند تھا اور نئے مقرر کردہ انسانی سیکرٹری کا کافی احترام کیا تھا۔ علی روئی کسی سوچ میں گم تھا۔ اسے دیومالائی دائرے میں اپنی جگہ مل گئی تھی۔ جب وہ علی روئی تھا تو ایک بہترین منصوبہ ساز اور صاحبِ تدبیر تھا، جب وہ منگول تھا تو بہادر جنگجو جس نے ہر قیمت پر طاقت کا تعاقب کیا۔ ایک اس کے پاس ایسی طاقت ہوگی جو واقعی اس کی تقدیر کو کنٹرول کرسکے گی۔
علی روئی نے معلومات کو پڑھا اور یوسف اور کنیتا کے درمیان لڑائی کو سمجھا۔ کچھ دیر تک تالاب کی طرف دیکھتا رہاپھر سر ہلایا اور کہا:
’’یہ واقعی ایک اچھا موقع ہے۔ کنیتا کےساتھ کچھ ایسا ہونا چاہیے جس سے ہم فائدہ اٹھا سکیں‘‘۔
’’دشمن کا دشمن اتحادی نہیں ہوسکتا‘‘۔
اقابلہ نے جھک کر کہا۔پھر وہ بولی:
’’کنیتا کا اصل مقصد اب بھی دارالحکومت کے ذریعے نیرنگ آباد کو اپنے کنٹرول میں کرنا ہے‘‘۔
علی روئی بولا:
’’یہ آسان نہیں ہے شہزادی اقابلہ !۔ نیرنگ آباد پر اب بھی یوسف کا مکمل معاشی کنٹرول ہے۔ جب تک پرانی خاندانی قوتیں جو شہزادی اقابلہ کی حمایتی ہیں، ان کے ساتھ نہیں مل جاتیں ہمارے حالات مزید خراب نہیں ہوں گے۔ اس کے علاوہ نیرنگ آباد میں یوسف کی طاقت ان اہم اثاثوں میں سے ایک ہے جسے وہ کنیتا سے مقابلہ کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ لہٰذا یوسف کنیتا کو کبھی بھی ان قوتوں پر قابض نہیں ہونے دے گا جن کے لیے اس نے سخت محنت کی ہے۔ اگر کنیتا نیرنگ آباد آتا ہے تو اسے یوسف کی طرف سےسخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہم اس موقع کا فائدہ اٹھا کر خفیہ طور پر سرمانی سلطنت کے معاشی کنٹرول کو کمزور کر سکتے ہیں‘‘۔
اقابلہ سنتے ہوئے سر ہلاتی رہی۔ بوڑھے غوث نے اس کی تعریف کی:
’’شہزادی اقابلہ ٹھیک کہتی ہیں۔ سیکرٹری بننے سے پہلے آپ کی صلاحیتیں ضائع ہو رہی تھیں‘‘۔
’’سر غوث! آپ نے میری بہت زیادہ تعریف کی ہے۔ دراصل سیکرٹری کا عہدہ پہلے ہی کافی اونچا ہے۔ علی روئی یقینی طور پر اسٹیج پر چلنا اور توجہ مبذول نہیں کرنا چاہتا تھا‘‘۔
اس نے جلدی سے اپنا سر ہلایا اور کہا:
’’میں اب بھی انسان ہوں۔ پردے کے پیچھے کچھ چھوٹے خیالات فراہم کرنے اور شہزادی اقابلہ کی مدد کرنے کے قابل ہونا کافی اطمینان بخش ہے‘‘۔
’’یہ چھوٹا سا خیال نہیں ہے۔ آپ کی حکمت اور قابلیت غیر متنازعہ ہے‘‘۔
اقابلہ کی خوبصورت جامنی آنکھیں جلتی ہوئی چمک سے بھری ہوئی تھیں۔ وہ بولی:
’’میں خالی وعدے کرنا پسند نہیں کرتی لیکن اگر موقع ملا تو میں تمہارے ساتھ کبھی کمترسلوک نہیں کروں گی‘‘۔
علی روئی نے ان الفاظ پر زیادہ توجہ نہیں دی کیونکہ چیزیں مسلسل بدلتی رہتی ہیں۔ اس نے خیانت کرنے اور وعدوں کی پاسداری نہ کرنے کی بہت سی مثالیں دیکھی تھیں۔ اس کا مقصد یہ نہیں تھا اس لیے وہ اب پریشان نہیں ہوتا تھا۔ بوڑھے غوث نے گفتگو کو واپس اصل موضوع کی طرف موڑ دیا۔ اقابلہ نے سرمانی سلطنت کے کنٹرول کو کمزور کرنے اور اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے کافی عرصے سے تیاری شروع کر رکھی تھی۔ نیرنگ آباد کی تجارت کا تقریباً نصف حصہ یوسف کے زیر کنٹرول تھا۔ یوسف کے نصف میں میلن خاندان کا حصہ بھی شامل تھا۔ باقی آدھا سیفول خاندان اور کئی پرانے خاندانوں کے ہاتھ میں تھا۔ ان قوتوں کی جڑیں بہت گہری تھیں اور ان میں سے اکثر شہزادی اقابلہ کی حمایت میں تھے۔ میلن خاندان ایک موقع پرست خاندان تھا۔ وہ صرف بڑی طاقت سرمانی سلطنت پر بھروسہ کرتے تھے۔ یوسف شہزادی اقابلہ کا حقیقی وفادار نہیں تھا۔
اس وقت سب سے اہم مسائل میں سے ایک خوراک کا مسئلہ تھا۔ نیرنگ آباد جڑی بوٹیوں اور معدنیات سے مالامال تھا لیکن ہمیشہ خوراک کی کمی تھی۔ بدروحوں کا کھانا بنیادی طور پر فصل اور گوشت کے ذریعہ پورا کیا جاتا تھا۔ نیرنگ آباد اسٹیٹ کی خاص مٹی کے معیار کی وجہ سے فصل کی پیداوار میں اضافہ کرنا ہر دور میں مشکل رہا تھا یہاں تک کہ سال کے سب سے زیادہ خوشحال وقت کے دوران بھی زیادہ تر خوراک دیگر اسٹیٹس سے خریدی جاتی تھی۔
کئی سالوں کی محنت سے سیفول اور کئی دوسرے خاندانوں نے بڑی تعداد میں بھیڑیں اور گائیں پالی تھیں مگر گوشت کا ذخیرہ کافی حد تک ختم ہو چکا تھا کیونکہ فصلوں کو بہتر نہیں کیا جا سکا۔ وہ صرف سرمانی سلطنت کی فراہمی اور مدد پر انحصار کر سکتے تھے۔ علی روئی نے ایک بار اقابلہ سے سنا تھا کہ خلائی سامان انتہائی نایاب ہے اور اس کی گنجائش بہت کم ہے۔ یہ خوراک کی بڑی مقدار ذخیرہ نہیں کر سکتے۔ لہٰذا صرف کاروان کی نقل و حمل پر انحصار کر کیا جا سکتا ہے۔ اس نے جنوب اور مغرب میں کھانے پینے کی چیزیں کی خریداری کے جو قافلے بھیجے وہ سب نام نہادچوروںکے ہاتھوں لوٹ لیے گئے۔ اسے بھاری نقصان ہوا۔ اگر خوراک کا مسئلہ حل ہو گیاتو نیرنگ آباد پر سرمانی سلطنت کا کنٹرول بہت کمزور ہو جائے گا۔
خوراک، فصلیں۔۔۔۔۔۔۔۔علی روئی نے جھکایا اور کچھ نہ کہا۔ اسے زراعت کا بہت کم علم تھا۔ اس کے علاوہ دیومالائی دائرے کے جغرافیائی حالات خاص تھے اس لیے زمین کا زرعی علم شاید کام نہ آئے۔
اچانک اسےتہہ دار گینگ کی دو بلند آوازوں کا خیال آیا۔ اس کی آنکھیں چمک اٹھیں اور اچانک اٹھ کھڑا ہو۔۔ لالہ آلو! لالہ آلو جو ایک ماہ میں پک جاتا ہے جس کی پیداوار دوگنی ہو جاتی ہے۔اس کا مطلب ہے میں نے ایک اہم ٹیلنٹ کو نظرانداز کر دیا ہے۔
اس کی خودکلامی سے اقابلہ اور بوڑھے غوث کی نظریں اس پر جم گئیں۔
جب شمرال کو تہہ دار گینگ کے محافظ محل کے ہال میں لے گئے تو غریب بونے نے سوچا کہ شاید اس کی ڈکیتی کی کسی ناکام کوشش کا کوئی واقعہ بے نقاب ہو گیا ہے، اور اس کا سبز چہرہ خوف سے سفید ہو گیا تھا۔ خاص طور پر شہزادی اقابلہ جیسی افسانوی شخصیت کا سامناکرتے ہوئے، اس کا پورا جسم کانپ رہا تھا وہ جھکنا بھول گیا تھا۔
’’شمرال!‘‘۔
انسانی سیکرٹری جس سے بونا واقف تھا اس کی طرف بڑھا۔
’’شہزادی اقابلہ کو لالہ آلو کے بارے میں بتاؤ‘‘۔
’’سر!مجھے بچا لو‘‘۔
شمرال کو لگا کہ اس کی زندگی خطرے میں ہے۔ وہ رونے کے انداز میں گڑگڑانے لگا:
’’لالہ آلو۔۔۔۔ وہ، میں… میں آئندہ کبھی پادنے کی ہمت نہیں کروں گا‘‘۔
اس کے کہنے پر بھی ایک تیز آواز نکل گئی۔ علی روئی کا چہرہ بھی سفید ہو چکا تھا۔ وہ اس گیس کی طاقت پہلے ہی جان چکا تھا، جلدی سے پیچھے ہٹ گیا۔
تاریک بونا اونچی آواز میں رونے لگ گیا اور زمین پر گر پڑا۔
’’یہ میں نے ابھی کیا کیا۔مشہور محل کونسل ہال میں، راجکماری رائل اقابلہ کے سامنے۔ نیرنگ آباد کی شہزادی! میں اصل میں پادنا۔۔‘‘‘۔
اقابلہ کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ بوڑھے غوث نے ہاتھ آہستہ سے لہرایا اور ہوا کا جھونکا نمودار ہوا۔ دروازے سے بدبو باہر کی طرف اڑی اوردروازے پر پہرے داروں کو خمیازہ بھگتنا پڑا۔
’’تمہارا نام شمرال ہے؟‘‘۔
اقابلہ کی مدھم آواز شمرال کو ہوش میں لائی۔ اس نے جلدی سے گھٹنے ٹیک دیے اور اپنی پیشانی زمین پر دبائی:
’’آپ کو اپنی شاہی عظمت کی قسم مجھے معاف کر دیں۔ یہ جان بوجھ کر نہیں تھا۔ یہ صرف اس لیے ہوا کہ میں نے وہ لالہ آلو کھائے تھے‘‘۔
اقابلہ بولی:
’’میں تمہاری بدتمیزی کو معاف کرتی ہوں۔ علی روئی سے سنا ہے کہ تم لالہ آلو کی پیداوار کو دوگنا کر سکتے ہو اور ایک ماہ میں پکا سکتے ہو‘‘۔
شمرال نے گھبرا کر بتایا:
’’آپ کی شاہی عظمت کو سلام۔ شمرال کو بچپن سے ہی پودوں سے پیارہے۔ میں لالہ آلو لگاتا ہوں تاکہ خود کھاؤں۔ میں نے بیولڈر فلاور، نشہ آور گھاس جیسی کوئی چیز دوسروں کو لوٹنے اور دھوکہ دینے کے لیے نہیں لگائی‘‘۔
علی روئی نے جلدی سے بونے کو کھینچا اور کہا:
’’شمرال، ڈرو نہیں۔ شہزادی اقابلہ صرف لالہ آلو کے بارے میں پوچھ رہی ہیں۔ اگر تم پیداوار بڑھا سکتے ہو اور لالہ آلو کی پختگی کو تیز کر سکتے ہو تو شہزادی اقابلہ تمہارے دوسرے جرائم کے بارے میں کبھی نہیں پوچھے گی‘‘۔
’’واقعی؟‘‘۔
علی روئی کی حوصلہ افزائی پر شمرال کے ہوش ٹھکانے آئے۔ اس نے اپنی ہمت اکٹھی کرتے ہوئے کہا:
’’آپ کی شاہی عظمت کو سلام ، یہ معاملہ ہے۔ شمرال ہمیشہ لالہ آلو کھانا پسند کرتا ہے لیکن لالہ آلو آدھے سال میں پکتے ہیں، ان کی پیداوار بھی زیادہ نہیں ہوتی۔ لہٰذا میں سالوں سے اسے بہتر بنانے کا تجربہ کر تارہا ہوںمگر میں لالہ آلو کی پختگی کو صرف 4 ماہ تک کم کر سکا۔10 دن پہلے مجھے لوہار کے علاقے کے ارد گرد سے کچھ جادوئی پاؤڈر ملا۔ غیر ارادی طور پر مجھے پتہ چلا کہ اس جادوئی پاؤڈر نےمٹی کے معیار کو بہتر بنا دیاہے۔ اب لالہ آلو کوپکنےمیں دیر نہیں لگتی۔ اس کے ساتھ پیداوار بھی دوگنا ہوگئی۔
’’جادو کا پاؤڈر؟‘‘۔
اقابلہ نے معمولی تفصیلات کی پرواہ نہیں کی اور اصل مقصد کے بارے میں پوچھا:
’’کیا تمہارےپاس اب بھی یہ پاؤڈر ہے؟‘‘۔
’’جی ابھی بھی کچھ ہے۔لیکن زیادہ نہیں.‘‘۔
شمرال نے جلدی سے اپنی کمر سے ایک چھوٹا سا تھیلہ کھولااور اپنے دونوں ہاتھوں سے احتراماً پیش کیا۔
علی روئی نے چھوٹی تھیلی سیدھا اقابلہ کو دی۔ اقابلہ نے اسے کھولااور دیکھا کہ واقعی کوئی سفید پاؤڈر تھا جو ہلکے سے چمک رہا تھا۔ پھر اس نے بوڑھےغوث کو دیا۔
بوڑھے غوث نے اپنی انگلی سے تھوڑا سا اٹھایا اور غور سے اس کا جائزہ لیا۔ اس کے ہاتھوں سے مختلف رنگوں کی روشنیاں نکلیں۔ بوڑھا غوث تجربہ کر رہا تھا، پھر اس نے سر ہلایااور کہا:
’’ان پاؤڈر میں کوئی خاص جادوئی توانائی نہیں ہے۔ مجھے یقین نہیں ہے کہ یہ چیز کیسے بنتی ہے‘‘۔
شمرال نے جلدی سے کہا:
’’شمرال آپ کی شاہی عظمت کو دھوکہ دینے کی ہرگز ہمت نہیں رکھتا۔ یہ پاؤڈر لالہ آلو کی پیداوار میں اضافہ کرتا ہے۔ اس کے علاوہ زمین میں موجود دیگر فصلوں کو بھی فائدہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔یہ بالکل جادوئی پاؤڈر ہے جس کا مٹی اور پودوں پر خاص اثر ہوتا ہے۔
علی روئی جانتا تھا کہ شمرال میں جھوٹ بولنے کی ہمت نہیں ہے۔ اس نے بوڑھے غوث سے چھوٹی تھیلی لی اور اس پر ایک نظر ڈالی۔ اس نے محسوس کیا کہ پاؤڈر مانوس معلوم ہوتا ہے۔ اسے اچانک اسے احساس ہوا کہ یہ پاؤڈر کیا ہے۔
’’شمرال!غور سے دیکھو، کیا یہ وہی جادوئی پاؤڈر ہے جو تمہارے پاس ہے؟‘‘۔
علی روئی نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر گودام کے ذخیرہ شدہ پاؤڈر نکالا۔
شمرال نے چونک کر قریب سے دیکھا اور جوش سے بولا:
’’ یہ وہی ہے ‘‘۔
تصدیق ہونے کے بعدعلی روئی سمجھ گیا کہ یہ پاؤڈر <Aura Conversion>کے بعد باقی رہ گیا تھا۔ اس کا شاندار اثر ہے۔ خوش قسمتی سےپاؤڈر کی بڑی مقدار جسے میں نے بعد میں تبدیل کیا وہ سب اسٹوریج میں رکھا گیا ہے اور اسے ابھی تک پھینکا نہیں گیا ہے‘‘۔
اس طرح فصل کا مسئلہ کئی دہائیوں سے نیرنگ آباد جس سے دوچار تھا،حل ہو سکتا تھا، اور اس کی کلید دراصل وہی ہے، ایک تناسخ شدہ شخص۔
کوئی تعجب کی بات نہیں کہ شمرال نے کہا کہ لوہار کے علاقے کے ارد گرد ’’جادو کا پاؤڈر‘‘ پایا گیا تھا۔ اسے اس وقت <Aura Conversion> استعمال کرنے کے بعد چھوڑ دینا چاہیے۔
’’دراصل یہ وہ چیزیں نہیں ہیں جو میں نے بنائی ہیں بلکہ حکیم الداس کے مخصوص تجربے کے بعد باقی رہ گئی ہیں‘‘۔
علی روئی نے اقابلہ کو آنکھوں سے اشارہ کیا۔ اقابلہ فوراً سمجھ گئی۔ اس نے شمرال کو جادو کے پاؤڈر کے بارے میں راز رکھنے کا حکم دیا۔ عقلمندبوڑھے گاؤس نے کہا کہ وہ شمرال کو پیروکار کے طور پر قبول کرنے کو تیار ہیں۔ اس نے شمرال کو فوری طور پر سامان پیک کرنے کے لیے واپس جانے، دوپہر کو بوڑھے غوث کے گھر جانے اور نئے حکم کا انتظار کرنے پر مجبور کیا۔
شمرال کو ااس سلوک کی بالکل مید نہیں تھی۔ اس نے فوراً بوڑھے غوث کو اپنا آقا تسلیم کر لیا۔ اقابلہ اور علی روئی کا شکریہ ادا کیا اور خوشی خوشی وہاں سے چلا گیا۔ اس کے داخلی دروازے سے گزرنے کے کچھ ہی دیر بعد لالہ آلو کی گیس کو مزید قابو نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس نے جوش سے بلند آوازوں کا ایک سلسلہ بنایا۔
علی روئی مزید پیچھے نہیں رہ سکتا تھا۔
’’Psst‘‘۔
وہ زور سے ہنسا۔ اس کی ہنسی نے اقابلہ کو متاثر کیا۔ اس کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ چہرے پر ایک دھیمی مسکراہٹ تھی لیکن یہ مسکراہٹ بےلگام نہیں تھی۔
علی روئی اسے دیکھ کر دنگ رہ گیا۔ اقابلہ کو فوراً احساس ہوا کہ وہ ہنسی میں خود کو بھول گئی ہے۔ فوری طور پرنارمل ہو گئی۔ساتھ ہی بوڑھے غوث کی آنکھوں میں حیرانی تھی۔ ولی عہد شہزادہ گریم کا طویل عرصے تک وزیر ہوتے ہوئے اس نے اقابلہ کو بڑا ہوتے دیکھا۔ جب سے اقابلہ نے نیرنگ آباد کو سنبھالا، پرانی شہزادی بن چکی تھی۔ اس کے چہرے پر کبھی مسکراہٹ نہیں آئی چاہے اپنی بہن شمائلہ کے ساتھ بھی ہو۔ اب وہ علی روئی کے زیر اثر بے ساختہ مسکرا دی۔ غوث نے سوچا:
’’یہ انسان کتنا بااثر ہے‘‘۔
’’بونا چلا گیا ہے، اب تم اس پاؤڈر کی وضاحت کرو‘‘۔
اقابلہ جانتی تھی کہ وہ خود کو بھول گئی تھی، وہ فوراً کام کی بات پر آ گئی:
’’کیا یہ معجزاتی جادو گرینڈ حکیم کی وراثت میں سے کوئی چیز ہے یاتمہاری اپنی وراثت کی بیداری میں کوئی نئی پیش رفت ہوئی ہے؟‘‘۔
غوث کو اندازہ تھا کہ یہ جادوئی پاؤڈر الداس کی طرف سے نہیں تھا۔کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو نیرنگ آباد کی خوراک کا مسئلہ بہت پہلے حل ہو چکا ہوتا۔ علی روئی نے واضح طور پر دونوں کے اندازے کے ساتھ کہا:
’’یہ واقعی عظیم حکیم کی وراثت سے متعلق ہے۔ جب تک آپ مجھے خام مال دیں گے میں اس طرح کا جادوئی پاؤڈر بڑی مقدار میں بنا سکتا ہوں‘‘۔
نام نہاد خام مال دراصل اورا میٹریل تھے۔ جہاں تک پاؤڈر کا تعلق ہے یہ خالصتاً فضلہ کی ری سائیکلنگ تھی۔ پھر بھی موجودہ نیرنگ آباد کے لیے اس ’’فضلہ‘‘ کا کرداربہت اہم تھا۔
علی روئی نے مزید کہا:
’’اگر اس بات کی تصدیق ہو جائے کہ پاؤڈر بڑے پیمانے پر مٹی کے معیار کو بہتر بنا سکتا ہے اور تمام فصلوں کی پیداوار میں اضافہ کر سکتا ہے تو سیفول خاندان کے مویشیوں کی فارمنگ کے ساتھ خوراک کا پریشان کن مسئلہ ختم ہو جائے گا۔ شمرال کے تجربات کی بنیاد پر امکان کافی زیادہ ہے۔ تاہم فصلوں کی دیکھ بھال، پودے لگانے اور کٹائی کا کام خفیہ طور پر کیا جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ ہمیں یہ دکھاوا جاری کرنا چاہیے کہ اس معاملے میں ہم سرمانی اسٹیٹ پر انحصار کررہے ہیں۔ خوراک کی انحصاری کے بعد یوسف اور سرمانی اسٹیٹ کے ساتھ کوئی معاملہ کیا جاسکتا ہے۔ تب ہی نیرنگ آباد صحیح معنوں میں ایک آزاد اسٹیٹ ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں کسی بھی وقت شوالہ کے خلاف لڑنے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ان حالات میں سب سےاہم بات یہ ہےکہ نیرنگ آباد میںایک مضبوط آدمی ہونا چاہیے جو انفرادی طاقت کے لحاظ سے شوالہ کا مقابلہ کر سکے۔ اس دنیا کی جنگ میں انفرادی طاقت خاص اہمیت رکھتی ہے ۔ یہ جنگ کا رخ بھی بدل سکتا ہے۔ بنی نوع انسان اور ڈیمن کے درمیان پچھلی جنگ میں جن ڈیمن کا اصل ہاتھ تھا سب سے مضبوط آدمی،تاری سورج کے بادشاہ کی موت کے سبب ہار گئے‘‘۔
’’تمہاری باتیں درست ہیں ‘‘۔
اقابلہ کی آنکھوں میں عجیب چمک تھی۔ اس نے غوث سے کہا:
’’پودے لگانے اور تجربہ کرنے کا کام آپ کے سپرد ہے۔ اس بات کو یقینی بنائیں کہ یہ خفیہ طور پر ہو‘‘۔
بوڑھے غوث نے سر ہلایا اور علی روئی کو تعریفی نظروں سے دیکھا۔علی روئی بولا:
’’میرے پاس ایک اور اہم بات ہےجو اکیلےمیں شہزادی اقابلہ کو بتانی ہے۔ سر غوث! اس بدتمیزی کے لیے آپ سے معافی کا طلبگار ہوں۔
بوڑھے غوث نے سر ہلایا اور شہزادی اقابلہ سے اجازت طلب کی۔
اقابلہ کے ہونٹوں سے ابھی تک دھیمی سی مسکراہٹ چپکی ہوئی تھی۔ حالانکہ علی روئی کے ساتھ تنہا ہونا پہلی بار نہیں تھا۔ اقابلہ کے دل میں ایک عجیب سی بے چینی تھی۔ اپنا خیال بدلنے کےلیے اس نے علی روئی سے پوچھا:
’’علی روئی! اتنی کیا اہم بات ہے کہ اسے غوث سے چھپانے کی ضرورت ہے‘‘۔
’’میں شہزادی اقابلہ سے2ما ہ کی چھٹی لینا چاہتا ہوں‘‘۔
علی روئی نے آہ بھری اور بولا:
’’گرینڈ حکیم کی وراثت ایک نازک موڑ پر پہنچ گئی ہے۔ یہ ضروری ہے ان دو مہینوں کے اندر میرے اعمال کچھ غیر معمولی ہو سکتے ہیں۔ میں شام کو اکثر باہر جا سکتا ہوں۔ اس کے علاوہ دن کے دوران مباحثوں میں حصہ نہیں لے سکوں گا۔ مجھے امید ہے کہ ملکۂ عالیہ تفصیلات کے بارے میں نہیں پوچھیں گی۔ یہ وراثت پچھلے لوگوں کی طرح نہیں ہے۔ یہ ایک انتہائی مشکل امتحان ہے۔ اگر یہ امتحان پاس نہ کرسکا تو مر جاؤں گا‘‘۔
’’زندگی اور موت کے درمیان وراثت کا امتحان؟‘‘۔
اقابلہ چونک گئی اور سکون سے بولی:
’’کیا میں کوئی مدد کر سکتی ہوں؟‘‘۔
’’صرف دو ماہ کے لیے جانے کی اجازت دیں اور میرا یہ راز راز رکھیں‘‘۔
علی روئی نے اپنی پیشانی اٹھائی اور مزید کہا:
’’ویسے، مٹی کی بہتری کا معاملہ فوری ہے۔ جادوئی پاؤڈر کو بنانے کے لیے جادوئی مواد کی ضرورت ہے اور ٹیسٹ کےلیے مجھے کچھ مدد بھی فراہم کرے گا۔ میںجلد ہی ان کی فہرست بناؤں گا۔ امید ہے کہ شہزادی اقابلہ مجھے زیادہ سے زیادہ مواد فراہم کرے گی۔ میں ٹیسٹ شروع کرنے سے پہلے یہ پاؤڈر بناؤں گا‘‘۔
اقابلہ جانتی تھی کہ علی روئی نےیہ صرف بات بڑھانے کےلیے کہا ہے۔ اس نےکہا:
’’جو کچھ کہنے جا رہی ہوںشاید مناسب نہ ہو لیکن یہاں تک کہ اگر گرینڈ حکیم کی وراثت نہیں ہے تو تمہاری دانشمندی اور قابلیت دیومالائی دائرے میں جگہ پانے کے لیے کافی ہے‘‘۔
علی روئی نے چونک کر دیکھا اور فوراً سر ہلایا۔ اس کی آنکھوں میں ایک مضبوط عزم تھا جس نے اقابلہ کو حیران کیا۔ وہ بولا:
’’میں ایک ثابت قدم آدمی ہوں۔ اور جس کام کےلیے میں پر عزم ہو جاؤں تو کبھی ہار نہیں مانتا، چاہے لاکھ رکاوٹیں ہوں یہ امتحان پاس کروں گا‘‘۔
اگر اس کے پاس سپر سسٹم نہ ہوتا تو وہ ذہانت کا راستہ اختیار کر سکتا تھا لیکن اب وہ سپرسسٹم کی مدد سے ایک مضبوط آدمی کے راستے پر قدم رکھ چکا تھا۔ اب وہ پیچھے ہٹنے کےلئے بالکل تیار نہیں تھا کیونکہ وہ جان چکا تھا دیومالائی دائرے صرف طاقت کی وکالت کرتی ہے۔
’’ثابت قدمی۔۔۔‘‘۔
اقابلہ ایک اور پہلو کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ اس نے ہلکا سا سانس لیا اور خاموش رہی۔
علی روئی کو معلوم نہیں تھا کہ اس نے پھر کیا غلط کہا سوائے اس کے کہ پاؤڈر بنانے کے لیے مواد مانگا تھا۔
’’مجھے یقین ہے تم کامیاب ہو گے‘‘۔
اقابلہ نے بے سوال اثبات بھرے لہجے میں کہا۔ جیسے وہ خودامتحان دینے والی ہو۔
’’جب تک تم یہ امتحان پاس کرنہیں کرتے میں کیا کروں گی؟‘‘۔
علی روئی نے اسے محبت بھرےانداز سے دیکھا۔ اس کی آنکھیں چیخ چیخ کر اقابلہ سے کہہ رہی تھیں:
’’اپنے آپ کو میرے لیے وقف کر دیں؟ ‘‘۔
اقابلہ نے آنکھوں کا مفہوم سمجھتے ہوئے خاموشی بھری آنکھوں کو کچھ اوربرف سے ڈھانپ دیا۔ جذبات پر مہر لگائی اور کہا:
میں تمہیں مایا پہلے ہی دے دے چکی ہوں‘‘۔
علی روئی نے مایا کے بارے میں سوچا۔ وہ اس کےلیے ایک ایسا سائرن تھی جسے صرف دیکھ سکتا تھا، چھونہیں سکتا تھا۔
’’ یہ انعام ہے یا سزا، شہزادی اقابلہ ؟‘‘۔
علی روئی تلخی سے مسکرایا۔ اس نے اقابلہ کی بے ترتیب دھڑکنوں کی صدا غور سے سنی۔
’’یہ وہم ہےیا شہزادی اقابلہ کا کوئی ذریعہ ہے؟ ‘‘۔
اچانک کسی تیسرے کی موجودگی کا احساس ہوا۔ دونوں یک دم بے آواز ہو گئے۔ اسی لمحے کونسل ہال کے دروازے میں کوئی آیا۔
’’سسٹر!‘‘۔
شمائلہ تھی اور اس کے ساتھ فلورا تھی۔
علی روئی کو دیکھ کر:
’’اچھا ہوا کہ تم بھی یہاں ہو‘‘۔
شمائلہ خوش دکھائی دے رہی تھی۔ وہ اقابلہ کی طرف متوجہ ہوئی اور کہا:
’’سسڑ !میںآپ کو ربن کاٹنے کی تقریب میں شرکت کی دعوت دینے آئی ہوں‘‘
’’ربن کاٹنے کی تقریب؟‘‘۔
اقابلہ نے اس اصطلاح کے بارے میں کبھی نہیں سنا تھا۔ وہ الجھن میں لگ رہا تھی۔
علی روئی نے مختصراً ربن کاٹنے کی تقریب کا مفہوم بیان کیا۔ پرنسس پلازہ کی ربن کاٹنے کی تقریب نے دیومالائی دائرے کے اہم لوگوں کو بھی مدعوکیاکیا گیا ہے ، مشہور شخصیات کی شرکت سے دکان کی شہرت اور اہمیت میں اضافہ ہوگا۔
اقابلہ علی روئی سے دونوں کی شراکت کے بارے میں پہلے ہی جان چکی تھی۔ اس نے سر ہلایا اور کہا:
’’یہ اچھا طریقہ ہے۔ اس طرح پورا نیرنگ آباد میں پرنسس پلازہ کا نام پھیل جائے گا۔ یہ یقیناً علی روئی کی تجویز ہوگی‘‘۔
’’بالکل‘‘۔
ننھی شہزادی نے اپنے پھٹے ہوئے ہونٹوں سے کہا:
’’مگر یہ بہت ظالم ہے۔ اس نے سرمائے میں کچھ حصہ نہیں ڈالالیکن آمدنی کا آدھا حصہ لینا چاہتا ہے‘‘۔
اقابلہ نے خاموشی سے اس سے اتفاق کیا۔ علی روئی نے پوچھا:
’’سامان کی تیاری کیسی ہے؟‘‘۔
’’میں پچھلے کچھ دنوں سے اس میں مصروف ہوں۔ سامان کی آرائش و زیبائش بہت اعلیٰ ہونی چاہئے‘‘۔
شمائلہ نے سنجیدگی سے سر ہلایا اور علی روئی کو ناموں اور ااقابلہ کی اقسام کی فہرست فراہم کردی۔
’’ہمم۔ برا نہیں ہے، آپ بہت بہتر ہو گئی ہیں‘‘۔
علی روئی نے شمائلہ کی تعریف کی۔ ننھی شہزادی کو فوراً بدتمیزی کا احساس ہوا اور وہ اپنی قابلیت پر فخر کرنے لگی۔ اپنی بہن کی بے مثال مسکراہٹ کو دیکھتے ہوئے اقابلہ کی آنکھیں جو برف سے بند تھیں، علی روئی کی طرف دیکھا تو بہت نرم ہو گئی۔
شمائلہ نے بازو پھیلائے اور کہا:
’’علی روئی! میں ان دنوں تھک چکی ہوں۔ اس کے بعد کے معاملات تم خود دیکھو‘‘۔
’’نہیں۔ میں نے علی روئی کو بہت اہم مشن سونپ دیا ہے‘‘۔
اقابلہ نے کہا:
’’شمائلہ! کم از کم دو مہینے تک اسے تو پریشان نہیں کر سکتی‘‘۔
’’دو مہینے تک؟‘‘۔
شمائلہ شروع میں عدم اطمینان میں سودا کرنا چاہتی تھی لیکن جب اس نے اپنی بہن کے چہرے پر سنجیدگی دیکھی تو وہ فوراً رک گئی۔
’’ اہم مشن؟‘‘۔
فلورا نے حیرت سے پوچھا:
’’شہزادی اقابلہ ! براہ کرم مجھے علی روئی کی مدد کرنے کی اجازت دیں‘‘۔
’’مجھے افسوس ہے فلورا!‘‘۔
اقابلہ نے سر ہلایا اور کہا:
’’یہ مشن صرف وہ اکیلا ہی انجام دے سکتا ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی بھی اس کے ساتھ نہیں ہو سکتا تم کو حال ہی میں ہائیر ڈیمن میں ترقی دی گئی ہے۔ یاد رکھوکہ تم نے اعلیٰ درجے کی دیومالائی آگ کا استعمال نہ کرنا ورنہ وہ تمہاری طاقت کو کھا جائے گی۔ میں نے تمہارے لیے جگہ کا بندوبست کر دیا ہے۔ تم جہاں مراقبہ اور تربیت کر سکتی ہو جب تک تم اعلیٰ درجے کی دیومالائی آگ کی طاقت پر پوری طرح مہارت حاصل نہ کر لو اپنی تربیت جاری رکھو‘‘۔
جب فلورا نے جملے کا آخری حصہ سنا تو اس نے اصرار کرنا چھوڑ دیا۔ اس نے علی روئی کی طرف دیکھااور کہا:
’’تمہیںمحتاط رہنا ہوگا‘‘۔
اگرچہ فلورا نے زیادہ کچھ نہیں کہا لیکن علی روئی واضح طور پر دل کی دیکھ بھال کو محسوس کر سکتا تھا۔ وہ مسکرایا اور کہا:
’’فکر نہ کرو۔ میں کروں گا‘‘۔
’’ایسا لگتا ہے کہ تم دونوں کل نہیں آسکو گے‘‘۔
ننھی شہزادی تھوڑی دیر کے لیے پشیمان ہوکر بولی اور علی روئی کی طرف بری طرح مسکرا دی، بولی:
سسٹر نے کبھی اس آدمی کا بنایا ہوا کھانا نہیں کھایا۔ میری خواہش ہے کہ علی روئی ہمیں جشن منانے کے لیے دوپہر کا ہاٹ پاٹ بناکر دیں‘‘۔
اقابلہ نے قدرے حیرت زدہ نظروں سے دیکھا۔ علی روئی نے خوشی سے اتفاق کیا۔
دوپہر کے وقت، الداس، غوث، مایا اور چلبل کے ساتھ سب محل میں کھانا کھا رہے تھے۔ شیف ظاہر ہے علی روئی تھا۔ کھانے کی میز پر ہم آہنگی اور ہنسی نے اسے گرمجوشی کا لمس عطا کیا۔
اتنے لمبے عرصے تک دیومالائی دائرےمیں دوبارہ جنم لینے کے بعد یہ پہلی بار تھا کہ اسے تازگی کا احساس ہوا۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ ایک متبادل تعلق ہے، اسے کسی کے اپنے ہونے کا احساس ہورہا تھا۔ تنہائی اور خوف جو اس دنیا میں آنے کے بعد اس کی ذات کا حصہ بن گیا تھا اس میں دراڑیں پڑ چکی تھیں۔ اس نے دل میں عہد کیا :
’’دو ماہ! میں یقینی طور پر یہ امتحان پاس کروں گا‘‘۔
دوپہر کے کھانے کے بعد اقابلہ نے کسی کے ذریعے جادو ئی پاؤڈر بنانے کے لیے جادوئی مواد کی ایک بڑی تعداد بھیجی۔ بدقسمتی سے جیڈ آئس کرسٹل اور بلڈ کرسٹل جیسی کوئی بھی چیز اعلیٰ نہیں تھی۔ یہاں تک کہ کچھ فلورسینٹ پتھر بھی کم معیار والے تھے۔ تاہم مواد کی مقدار کی بنیاد پر شاید اقابلہ نے محل کے ذخیرہ سے وہ سب کچھ کیا جو کر سکتی تھی۔
امیر زندگی گزارنا آسان تھا لیکن غریب خاندان کی کفالت مشکل تھی۔ اقابلہ کےلیے اس خاندان کی کفالت کرنا آسان نہیں تھا۔ اسٹیٹ کی ترقی میں مدد کرنے کے لیے اس نے ایک بار محل کا پچھلا مجموعہ بیچ دیا۔ علی روئی نے خفیہ طور پر ذہن بنا لیا کہ اگر وہ 2 ماہ میں زندگی اور موت کے امتحان سے بچ گیا تو شہزادی اقابلہ کی مشکلات دور کرنے کے لیے سخت محنت کرے گا۔
علی روئی نے تمام جادوئی مواد کو تبدیل کر دیا۔ یہ کل رات کے مجسمے سے لاجواب تھا پھر بھی13,000 سے زیادہ پوائنٹس موجود تھے۔ چمک کی کل مقدار35,000 پوائنٹس سے تجاوز کر گئی۔ جہاں تک جادوئی پاؤڈر کا تعلق ہے، اس نے قدرتی طور پر انہیں بوڑھےغوث فراہم کر دیا۔
باقی معمولی معاملات کو طے کرنے کے بعد علی روئی پرسکون ہوا اور کہکشاں ڈیوائنٹی ٹیمپل کے تربیتی میدان میں داخل ہو گیا۔ اب اس کے پاس35000اوراس کی مجموعی مالیت تھی۔ کچھ دیر غور کرنے کے بعد اس نے دو اصولوں کا انتخاب کیا۔ دو بار وقت اور دو بار کشش ثقل1دن کے لیے۔ علی روئی کے دو دن کشش ثقل کے تربیتی میدان میں2دن گزارنے کے برابر تھا لیکن حقیقت میں یہ صرف24گھنٹے تھا۔
علی روئی کو ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا تھا کہ کہکشاں الوہیت کا مندر ایک روحانی دنیا ہے یا کوئی اور آزاد جگہ۔ عام طور پر روحانی دنیا میں نقصان یا فائدہ حقیقت میں دماغ اور جسم کو ظاہر کر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کسی کو معلوم ہو جائے کہ وہ روحانی دنیا میں مر چکا ہے تو دماغ کے اعصاب بعد میں وہ تمام سرگرمیاں بند کر دیتے ہیں جو حقیقی موت کا باعث بنتی ہیں۔ ایسی مثال کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ تاہم سٹوریج کی صورت حال کی بنیاد پر سپرسسٹم کے الگ جگہ ہونے کا زیادہ امکان تھا۔
اس کے باوجود اس طرح کے معاملے کی تحقیقات کا وقت نہیں تھا۔ دوہرا وقت اور ڈبل کشش ثقل کا اصول بالترتیب 2000 اوراز فی دن تھا جس میں 4000تک اضافہ ہوا۔ علی روئی نے چمک کی طرف دیکھا فوراً ہی 30,000 سے کچھ اوپر ہو گئی۔ اسے دل میں درد ہوا۔ ایسا لگتا ہے کہ ہر دنیا میں ایسا ہی ہوتا ہے کیونکہ خرچ کرنا ہمیشہ کمانے سے آسان ہوتا ہے۔
اصول کے فعال ہونے کے بعد ٹریننگ گراؤنڈ کا داخلہ خود بخود غائب ہو گیا اور مشکل ٹریننگ باضابطہ طور پر شروع ہو گئی۔
پندرہواں باب
بھیڑیانمبر64
تربیت ہوا کو بھی چلنا سکھا سکتی ہے
اگرچہ علی روئی ذہنی طور پر تیار تھا جب اس نے حقیقی معنوں میں دگنی کشش ثقل کا سامنا کیا۔ تب بھی اس نے زبردست دباؤ محسوس کیا۔ نہ صرف اس کا جسمانی وزن بلکہ اس کے تمام اندرونی اعضاء کا وزن بھی دگنا ہو گیا تھا جس کی وجہ سے اس کا سانس لینا انتہائی مشکل ہو گیا تھا۔ زخم جو پوری طرح ٹھیک ہو چکے تھے درد کرنے لگے۔
پہلے جب میں ان ناولوں اور کامکس کو پڑھتا تھا تو ان کی کشش ثقل سے دس گنا اور سینکڑوں گنا ٹریننگ ہو سکتی تھی۔ اب اسے پتہ چل رہا تھا کہ کشش ثقل کی تربیت کو صحیح معنوں میں استعمال کرنے کے بعد یہ کتنا مشکل ہے جسے صرف دوگنا کیا گیا تھا۔
اس نے اپنا دماغ مرکوز کیا۔ اس کی اسٹار پاور پورے جسم میں دوڑنے لگی۔ اس کی موافقت بہت تیز تھی اور دباؤ کے زیر اثر جسم کے پٹھوں پر اس کا کنٹرول بھی زیادہ مفصل اور واضح تھا۔
علی روئی خلا کے اندر آہستہ آہستہ چلنے لگا۔ اس نے اپنی سانسوں پر قابو پانے کی کوشش کی اور کچھ آسان حرکتیں کیں جس سے اعضاء پھیل گئے۔ ان چھوٹی حرکتوں کو کم نہیں سمجھا جا سکتا کیونکہ معمول کی حالت کی طرح اتفاق سے حرکت کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ خاص طور پر سرعت کی ضرورت طاقت کو دوگنا کر دیتی ہے۔
اس وقت <Astral Form> نے مکمل طور پر اپنا اثردکھایا۔ اس کی کھوئی ہوئی اسٹار پاور بروقت بڑھنے لگی۔ علی روئی کو نہ جانے کتنا وقت گزر گیا تھا۔ جب وہ نسبتاً آزادانہ طور پر دوڑنے اور چھلانگ لگانے کے قابل ہوا تو اردگرد کا ماحول اچانک بدل گیا اور وہ دوبارہ تربیتی میدان سے باہر ہو گیا۔ معلوم ہوا کہ دو دن انجانے میں گزر گئے۔
علی روئی Galaxy Divinity Temple میں تخت پر اسٹیٹس بار پر واپس آیا اور دیکھا کہ اس کے تجربے کی قدر 8فیصدتک بڑھ گئی ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ اعلیٰ کشش ثقل کے ماحول کے تحت اسٹار پاور پر تربیت کا اثر برا نہیں تھا۔ دھواں نما کنکال پارباسی جسم میں زیادہ مضبوط معلوم ہوتا تھا جس سے زیادہ ٹھوس احساس ہوتا تھا۔ اسے یاد آیا کہ ایک دن گزر چکاہے اور اس نے کچھ نہیں کھایا ہی نہیں۔ اس نے جلدی سے سپرسسٹم چھوڑ دیا۔ سپرسسٹم کا فنکشن جادوئی تھا کیونکہ جب وہ ٹریننگ گراؤنڈ میں تھا تو نہ بھوک کا احساس تھا اور نہ ہی اخراج کی ضرورت تھی پھر بھی جب وہ حقیقت میں واپس آیاتو اس کا پیٹ اچانک گھٹ گیا جو ظاہر کرتا تھا کہ وہ پورے دن کا بھوکا ہے۔
علی روئی کھڑا ہوا تو اسے محسوس ہوا کہ اس کا جسمانی وزن بہت ہلکا لگ رہا ہے۔ اس کے بجائے وہ معمول کی حالت میں کشش ثقل کا عادی نہیں تھا۔ اس نے کمرے میں کوئی بھی حرکت کرنے پر پابندی محسوس کی۔ وہ بہت خوش ہوا کہ ہزاروں اورازضائع نہیں ہوئے۔ تربیت واقعی مؤثر ہے۔
کھانا کھانے اور اچھی نیند لینے کے بعدعلی روئی نے محسوس کیا کہ اس میں اسٹار پاور پوری طرح سے بھر گئی ہے۔ اس کی پچلبلوں کے نیچے کی چوٹ بھی مکمل طور پر ٹھیک ہوگئی۔ وہ بغیر وقت ضائع کیے فوراً ٹریننگ گراؤنڈ میں داخل ہو گیا۔ منتخب اصولوں کی غیر موجودگی میں علی روئی نے کچھ دیر کے لیے اپنے جسم کو تربیتی میدان میں آزادانہ طور پر منتقل کیا۔ اس کا جسم کافی ہلکا محسوس ہوا پھر بھی اسے اس حالت میں مزید موافقت کی ضرورت تھی۔
کچھ دیر غور کرنے کے بعداس نے دو گنا کشش ثقل کے ساتھ 5 گنا وقت کے اصولوں کا انتخاب کیا۔ اس نے مزید 7000 اوراز خرچ کیے۔ تقریباً 24000 پوائنٹس چھوڑ کر۔
دوگنا کشش ثقل کے ساتھ ماحول میں واپسی پر علی روئی واضح طور پر پہلے سے زیادہ پرسکون تھا۔ وہ جسم کے پٹھوں اور سٹار پاور کے کنٹرول میں زیادہ ماہر تھا۔روزمرہ کی سرگرمیوں میں دگنی کشش ثقل کو پوری طرح ڈھالنے کے لیے اس کا تربیتی منصوبہ بہت آسان تھا ۔ عام چلنے سے لے کردوڑنا، چھلانگ لگانا اور پھر حملہ اور دفاع کرنا۔ پانچ دن کی مدت پہلے دن سے بے مثال تھی۔ اگرچہ خلا کے اندر نہ بھوک تھی نہ سونے کی خواہش لیکن بے خوابی اور بے چین تربیت بلاشبہ زیادہ ناقابل برداشت تھی۔
علی روئی اپنا اختیار استعمال کر کے تربیتی میدان کو پہلے ہی چھوڑ سکتا تھا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا کیونکہ تربیت نہ صرف اس کے جسم کو بلکہ اس کے دل اور دماغ کو بھی تربیت دے رہی تھی۔
اس دنیا میں کوئی مفت لنچ نہیں ہے۔ دوسروں کے مقابلے میں سپرسسٹم نے اسے پہلے ہی ایک بہترین پلیٹ فارم مہیا کر دیا تھا۔ اگر وہ استقامت اور عزم کے فقدان کے ساتھ نظام کو چکما دینے کی کوشش کرتا رہا تو اسے محض ایک احمقانا چالاکی ہی کہا جا سکتا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے لارنس کے ساتھ جنگ ایک حقیقی تربیت کے لیے ہر کوشش کی ضرورت ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں، کامیاب ہونے کا اعتماد اور تربیت کے دوران مرنے کا عزم ہونا چاہیے۔
علی روئی نے اپنے دانت بھینچے اور دیوانہ وار پسینہ بہایا، دھوئیں جیسا ڈھانچہ پارباسی انسانی جسم میں تیزی سے ٹھوس ہوتا گیا جو اسٹیٹس بار میں دکھایا گیا تھا۔ یہ اصل میں صرف دھوئیں جیسی دھند تھی لیکن اب ایک ٹھوس شکل اختیار کر چکی تھی۔ اس کی ظاہری شکل پر بے شمار روشنی کے تنت تھے جو لامتناہی گردش کر رہے تھے۔
دیومالائی دائرہ کے دوہری چاندوں کی جادوئی چمک دن اور رات میں بدلتی رہتی ہے۔ پلک جھپکتے ہی پانچ دن گزر چکے تھے۔
نیلی جھیل پر سنکھیار کی نیند خواب ہو گئی۔ وہ زمین پر بیٹھا وقتاً فوقتاً رات کے آسمان کو دیکھتا رہا۔ وہ قدرے بے چین دکھائی دے رہا تھا:
’’علی روئی نے 5 دن بعد آنے کا وعدہ نہیں کیا تھا؟ وہ ابھی تک کیوں نہیں آیا؟‘‘۔
اسی لمحے پھڑپھڑاتے پروں کی ایک مانوس تال دور سے سنائی دی۔ سنکھیار اچھل پڑا:
’’ یہ آدمی آخرکار پہنچ گیا‘‘۔
جس لمحے وائیورن اترا زہریلاڈریگن حملہ کرنے کے ارادے سے چپکے سے قریب آیا۔
سنکھیار قریب آیا تو وائیورن کی پیٹھ پر کالاسایہ اچانک "وہوش” ہوا اور پلک جھپکتے ہی زہریلے ڈریگن کی پیٹھ کی طرف لپکا۔ زہریلے ڈریگن کی آنکھیں چمک اٹھیں اور وہ گھونسہ مارنے کے لیے مڑ گیا۔ سائے کی رفتار ابھی تک تصور سے باہر تھی۔ اس نے اپنے جسم کو ایک طرف منتقل کیا اور مکے کو چکما دیا۔ کسی کو یہ توقع نہیں تھی کہ زہریلے ڈریگن نے تیزی دکھائی۔ اس کی مٹھی ایک ناقابل یقین زاویے میں بدل گئی۔ اس کا مقصد ابھی بھی سیاہ سائے کے سینے پر تھا۔ جب یہ ٹکرا گیا تو کالاسایہ اپنا مُکا چھڑانے کے لیے چلایا۔ زہریلے ڈریگن نےحرکت نہیں کی لیکن کالاسایہ جھٹکے سے پیچھے کی طرف اڑ گیا۔ کالےسایے نے10میٹر دور جا کر اپنے آپ کو مستحکم کیا۔ پھر اس نے چیخ کر کہا:
’’دھوکے باز! یہ درمیانی درجے کے انٹرمیڈیٹ ڈیمن کی طاقت ہے؟‘‘۔
’’فضول باتیں بند کرو! میں جو چاہوں کروں ،ہمت ہے تو لڑو!‘‘۔
زہریلے ڈریگن کی آنکھیں چمک اٹھیں اور وہ تیز حملہ کرنے کے لیے آہستہ سے علی روئی کی طرف لپکا۔
علی روئی کا جسم چست تھا لیکن سنکھیار کی رفتار اس سے بھی تیز تھی۔ علی روئی کی آنکھیں زہریلے ڈریگن کی رفتار کو برقرار نہ رکھ سکیں۔ تاہم اس نے سٹار پاور کے احساس اور پٹھوں کی طاقت پر انحصار کیا جنہیں اس نے اعلیٰ کشش ثقل کے ماحول میں تیار کیا تھا تاکہ وہ زہریلے ڈریگن کے حملوں سے بچ سکیں۔
اس نے زہریلے ڈریگن کی حرکات کا درست اندازہ لگایا اور ایک افتتاحی موقع پر کراٹے کا جوابی حملہ کیا۔ زہریلے ڈریگن کی حرکت اچانک رک گئی لیکن علی روئی کی کلائی مضبوطی سے پکڑلی۔ وہ طاقت استعمال کرنے سے قاصر تھا۔ زہریلا ڈریگن حملہ جاری نہ رکھ سکا۔ ہاتھ چھوڑ دیا اور حیرانی سے بولا:
’’صرف رفتار ہی نہیں تمہاری طاقت بھی حیرت انگیز طور پردرمیانی مرحلے تک پہنچ رہی ہے۔ ان دنوںتمہاری تربیت کیسے ہوئی؟ اگر تم اسی طرح تربیت جاری رکھتے ہو تو دو ماہ بعد ہائیر ڈیمن تک پہنچنا ممکن ہے‘‘۔
’’یہ اتنا آسان کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘۔
علی روئی نے تلخ مسکراہٹ کے ساتھ سر ہلایا۔ پھر بھی سنکھیار کے درمیانی مرحلے تک پہنچنے کی طاقت کے بارے میں تبصروں نے اسے کرسٹل کنکال کی یاد دلائی جو اسٹیٹس بار میں مضبوط ہونے والاتھا۔
پچھلے 5 دنوں میں اس کی زندگی تربیت، نیند، اور تربیت تھی۔ اس چکر میں وہ تین بار ٹریننگ گراؤنڈ میں داخل ہوا۔ پہلی بار وقت اور کشش ثقل سے دوگنا تھا، دوسری اور تیسری بار دگنی کشش ثقل کے ساتھ پانچ گنا وقت تھا۔ اس کا باقی وقت آرام کرنے اورخود کو عام کشش ثقل کے مطابق ڈھالنے کا تھا۔
علی روئی اب دوہری کشش ثقل کی حالت میں پوری طرح ڈھل چکا تھا۔ پانچ گنا وقت کے ساتھ تیسری بار کے دوران اس نے اسٹار پاور کو استعمال نہ کرنے کی کوشش بھی کی اور اپنی جسمانی طاقت سے دگنی کشش ثقل کے خلاف براہ راست مزاحمت کی۔ یہ کوشش بالکل آسان نہیں تھی لیکن اثر غیر متوقع طور پر موثر تھا۔ اسے نادانستہ طور پر اسٹار کلکٹر کی جسمانی تربیت کی کلید کا احساس ہوگیا۔ نہ صرف تجربہ کی قدر تیزی سے بڑھی اور 30% تک پہنچ گئی بلکہ تربیت کے دوران جسم کی طاقت میں بھی تیزی سے بہتری آئی۔
یہی وجہ تھی کہ’’ کنکال‘‘ ایک ٹھوس حالت کے قریب تھا۔ ٹریننگ گراؤنڈ کا فنکشن کافی طاقتور تھا لیکن لاگت بھی اتنی ہی زیادہ تھی۔ ابتدائی 35,000 اورا میں صرف 17,000 باقی تھے۔
’’سنکھیار!کیا تمہیں لگتا ہے کہ میں اپنی موجودہ طاقت سے ’کوئیک ولف‘ کو شکست دے سکتا ہوں؟۔ میں نے لڑکے کی معلومات کی تحقیق کی ہے۔ وہ ایک سیاہ ایلف ہے۔ قریبی لڑائی اور خنجر بازی میں اچھا ہے۔ وہ ایک ہنر اور بھی جانتا ہے جسے <Afterimage> کہتے ہیں۔ اس کے مخالفین زیادہ تر پہلے حملے میں ہی ناک آؤٹ ہو ئے ہیں‘‘۔
سنکھیار نے کچھ دیر سوچا اور پھر جواب دیا:
’’موجودہ طاقت کے ساتھ کم از کم ایک موقع ضرورہے تمہارے پاس۔ مجھے یقین نہیں ہے سیاہ ایلف کی نسل رفتار اور احساس کے لحاظ سے بہت باصلاحیت ہے۔ البتہ برداشت ان کی کمزوری ہے۔ تمہیں مخالف کے قتل کے اقدام پر زیادہ توجہ دینی ہوگی۔ <Afterimage> کی صلاحیت اور تیز رفتاری دونوں کو یکجا کرنے والاہنر ہے۔ یہ بنیادی طور پر اپنے مخالف کو الجھانے کے لیے ہوتا ہے۔ لڑنے کے طریقے کے لحاظ سے اس کا انحصار مخالف کی موقع پر کارکردگی پر ہوگا اس لیے تمہاری حکمت عملی زیادہ سخت نہیں ہونی چاہیے۔ ہمیشہ یاد رکھناکہ مخالف کو مکمل طور پر کچلنے سے پہلے اپنے محافظ کو کبھی مایوس نہ ہونے دینا‘‘۔
علی روئی نے جملے کی گہرائی کوسمجھا اورسر ہلایا۔ سنکھیار نے بعد میں نشاندہی کی کہ اگرچہ اس کی رفتار میں تیزی سے بہتری آئی ہے لیکن ابھی تمہاراکنٹرول کافی نہیں تھا۔ حقیقی رفتار صرف نقل و حرکت کی عکاسی نہیں، حملوں کی تعدد اور دھماکہ خیزی بھی ہے۔ تمہیں رفتار اور طاقت کے کامل امتزاج سے آگاہ ہونا ہے۔ اس کے علاوہ حملے کے وقت اسے اچھی طرح سے کنٹرول کرنا ضروری ہے۔
تھیوری کو تفصیل سے بیان کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ پریکٹس اس کےادراک اور بہترین کلید ہے۔ سنکھیار نے چند ضروری باتوں کا ذکر کرنے کے بعدبراہ راست اسے جنگ کی تربیت دیناشروع کی۔ زبردست دباؤ کا سامنا کرتے ہوئے علی روئی نے اس بار زہریلے ڈریگن کی طاقت کی سطح کے بارے میں کوئی شکایت نہیں کی اس کی بجائے وہ تربیت میں پوری طرح منہمک ہو گیا۔
زہریلے ڈریگن نے اپنے انسان ساتھی کے چہرے پر تبدیلی واضح طور پر محسوس کی۔ وہ اندر سے خوش تھا۔ اس نے اور مہلک وار کرنے کے گرسکھانے شروع کیے۔ زہریلا ڈریگن اسے ایک شاندار استادلگا۔
10 دن تیزی سے گزر گئے۔ رات کے وقت نیرنگ آباد کا میدان ہمیشہ کی طرح روشن اور مصروف تھا۔ معرکہ شروع ہونے والاتھا۔
میدان میں ایک طرف ’کوئیک وولف‘ جیسی تھااور دوسری طرف نمبر64 تھا جس نے10 دن پہلے ’’خونی ہاتھ‘‘ لارنس کو مارا تھا۔ اس جنگ نے بہت سارے سامعین کو اپنی طرف متوجہ کیا اور دونوں پر جوا بہت زیادہ لگایا۔
جیسی ہلکے لباس میں تھا۔ وہ آہستہ آہستہ میدان جنگ کی طرف چلتا آ رہا ہے۔ ابھی تک نمبر 64دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ وی آئی پی سیٹوں پر کیتھن بے چین تھا مگر جبران پُرسکون تھا۔ معمول کے مطابق اس کے ہاتھ میں شراب کا گلاس تھا۔
’’وہ نمبر 64، کیا یہ ہو سکتا ہے کہ وہ آنے کی ہمت نہ کرے‘‘۔
لیچ نے اپنی بھنویں مضبوطی سے جھکائیں۔بولا:
’’اگر وہ نہ آیا تو ہمارا نقصان۔۔۔۔۔۔‘‘۔
اس سے پہلے کہ لِیچ اپنی بات مکمل کر تا جبران کی آواز سنائی دی:
’’وہ پہلے ہی یہاں ہے‘‘۔
ایک نقاب پوش پچھلی سرنگ سے رنگ میں جا رہا تھا۔ یہ نمبر64 تھا۔
جبران نے اپنی نظریں کچھ دیر نقاب تہہ دار گینگ پر مرکوز کیں۔ اس کی بھنویں اچانک اٹھ گئیں۔ اگرچہ وہ بہت دور تھا پھر بھی محسوس کر سکتا تھا کہ نمبر64 کا رویہ10 دن پہلے کے مقابلے میں کافی مختلف ہے۔
’’مڈل اسٹیج انٹرمیڈیٹ ڈیمن؟‘‘۔
جبران کی بھڑکتی ہوئی سرخ ایرس قدرے سکڑ گئیں۔ حیرت اس کی آنکھوں میں چمکی۔ وہ اچانک ہنسا:
’’یہ جنگ کافی دلچسپ ہوگی‘‘۔
اگرچہ نمبر64نے10دن قبل خونی ہاتھ، لارنس کے ساتھ لڑائی میں واپسی کی تھی، لیکن حاضرین نے اسے لارنس کے ہاتھوں بے بسی سے مار کھاتے ہوئے بھی دیکھا تھا۔ اب جب اس کا مخالف جیس میں بدل گیا تھا، جو لارنس سے زیادہ مضبوط تھا، ان میں سے زیادہ تر نے ذہنی طور پر نمبر64کی حمایت نہیں کی۔ زیادہ تر لوگ یہی سمجھتے تھے کہ جیس جیت جائے گا۔
میزبان سوکیوبس پرجوش انداز میں اسٹیج پر آیا اور سامعین کے سامنے دونوں کی عمومی صورتحال اور ریکارڈ کا تعارف کرایا۔ جیس ایک چست سیاہ ایلف تھا۔ نوکدار کان، چھوٹے چاندی کے بال، اس کا جسم مختلف سائز کے ٹیٹوز سے بھرا ہوا تھا۔ دیکھنے سے ہی وہ تجربہ کار نظر آتا تھا۔ ایسا تجربہ کار جس نے زندگی اور موت کے بہت سے امتحانات کا تجربہ کیا ہوا ہو۔ جب سوکیوبس نے شرط لگانے کے متعلق دونوں فریقوں کے بارے میں پوچھا تو جیس کچھ نہ بولا۔ اس نے علی روئی سے پوچھا۔ علی روئی نے قدرے غور کیا اور پوچھا:
’’آج میرا کیا ریٹ ہے؟‘‘۔
’’آج آپ کی مشکلات پچھلےمقابلے سے کہیں زیادہ ہیں۔ آج آپ کی جیت پر ایک لگانے والے کو پندرہ ملیں گے۔
’’یعنی میں اس بار ڈبل کما سکتا ہوں‘‘۔
علی روئی نے یہ کہہ کر پیسوں کا تھیلا اس کی طرف پھینک دیا اور کہا:
’’یہ ہیں 50سیاہ کرسٹل سکے، میں جیتنے کی شرط لگاتا ہوں‘‘۔
حاضرین حیران رہ گئے۔50سیاہ کرسٹل سکے!۔ اتنی بڑی شرط؟؟‘‘۔
زیادہ تر سامعین عام تھے۔ ایک سیاہ کرسٹل سکہ بہت بڑی شرط تھی۔ اب نمبر64نے50سیاہ کرسٹل سکوں کی شرط لگادی۔ یہ رقم پست طبقے کے کئی خاندانوں کے لیے کئی سالوں تک زندہ رہنے کے لیے کافی تھی۔
’’میدان اس سے زیادہ کسی چیز کو قبول نہیں کرتا‘‘۔
اس سے پہلے کہ سوکیوبس اپنی بات مکمل کر پاتا، اس نے وی آئی پی سیٹ پر جبران کو لہراتے ہوئے اشارہ کرتے دیکھا۔ اس نے فوراً سیاہ کرسٹل سکے لیے اور مسکرا کر کہا:
’’تو یہ 50سیاہ کرسٹل سکے ہیں۔ جیس ! براہ کرم لڑائی کا انداز منتخب کریں۔ خالی ہاتھ یا کسی ہتھیار سے؟‘‘۔
جیسی کو بولنا اچھا نہیں لگتا تھا اس لیے اس نے اپنے ہاتھوں پر سرد دوہرے خنجر لہرائے۔ سوکیوبس نے سر ہلایا اور کہا:
’’لڑائی میں ہتھیاروں کے استعمال کی اجازت ہے۔ ہتھیار پر زہر کی اجازت نہیں جادو کے اوزار استعمال نہیں کیے جا سکتے ہیں۔ نمبر 64! براہ کرم اپنا ہتھیار دکھائیں‘‘۔
’’مجھے کسی ہتھیار کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔
علی روئی نے دھیمے لہجے میں کہا۔
جیس کی آنکھوں سے ایک روشنی چمکی۔ نمبر64کے اعتماد نے سامعین کا تاثر بدل دیا تھا جو اس پر توجع نہیں دے رہے تھے۔ کچھ لوگوں نے وقتی طور پر نمبر64پر شرط لگانی شروع کر دی۔ اس کی شرط اور اطمینان سےامکانات بدل گئےتھے۔
لڑائی شروع ہو گئی۔ جیس نے لارنس کی طرح چھاپہ نہیں مارا بلکہ اس نے اپنے مخالف کو گھور کر دیکھا۔ علی روئی کو اچانک ایسا لگا جیسے اسے جیس نے بند کر دیا ہے، وہ اور چوکنا ہو گیا۔ اس نے جلدی حملہ نہیں کیا احتیاط کے طور پر جسم کے ہر حصے میں سٹار پاور کو گردش دی۔
جیس کے قدم اٹھنے لگے۔ متوقع رفتار کے برعکس رفتار تیز نہیں تھی۔ وہ آہستہ آہستہ علی روئی کے گرد چکر لگانے لگا۔ علی روئی نے احتیاط سے اپنے جسم کو حرکت دی۔ کسی بھی وقت حریف کے تیز حملے کا دفاع کرنے اور سامنا کرنے کے لیے اپنے آپ کو سامنےرکھتا رہاکہ کہیں جیس پیچھے سے وار نہ کردےمگر جیس باہری دائرے میں چکر لگا تا رہا۔ وہ اس کی قوت برداشت ختم کرنا چاہتا تھا۔ سیاہ ایلف کے قدموں کی رفتار بڑھتی گئی وہ تیزی سے اس کے ارد گرد گھومنے لگا۔
ٹھیک جب اسے دیکھتے دیکھتے علی روئی کی آنکھیں دھندلانے لگیں اور ، جیس کی رفتار اچانک تیز ہو ئی توعلی روئی نے اپنے دماغ پر زور دیا۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کے سامنے ایک شکل نمودار ہوئی ہے۔ اس کے باوجود وہ گھبرایا نہیں۔ اس نے ایک طویل عرصے سے جمع شدہ دھچکا مارا۔ یہ دھچکا سیاہ ایلف کے سینے پر لگا، لیکن کچھ عجیب ہوا۔ اس کا دھچکا جیس کے جسم سے بغیر کسی رکاوٹ کے اس طرح گزر گیا جیسے وہ ہوا سے ٹکرا رہا ہو۔
علی روئی نے فوراً ردعمل کا اظہار کیا اور ساتھ ہی اس کی پشت پر تیز ہوا بجلی کی طرح ٹکرائی۔ علی روئی کو بوکھلاہٹ کا احساس تھا۔ اس نازک لمحے میں زہریلے ڈریگن کی ہائی پریشر ٹریننگ کا نتیجہ اچانک ظاہر ہوا۔ علی روئی نے اپنے دماغ کو حرکت دی،جسم نے پہلے سے ہی پٹھوں میں اضطراب پیدا کر دیا تھا۔ وہ معجزانہ طور پر آگے جھک گیا اور تیز دھار چاقو اس کی پیٹھ کے اوپر سے گزر گیامگر ایک چونکا دینے والازخم چھوڑ گیا۔ ہوا کا تیز جھونکا چھوٹ جانے کے بعد،اس نے بیک اپ نہیں لیا بلکہ اس طرح کھڑا رہا جیسے وہ علی روئی کے سائے سے جڑا ہو۔
علی روئی نے محسوس کیا کہ اس کی آنکھیں چمکدار کنارے سے بھری ہوئی ہیں اور <After image>تکنیک سے نمٹنا خاصا پر مشکل تھا۔ یہ اندازہ لگانا کہ کون اصلی ہے اور کوننقلی۔ کچھ ہی دیر بعد ان کے جسم پر10 سے زیادہ زخم تھے لیکن کاری ایک بھی نہیں تھا۔ البتہ اس کی چادر آہستہ آہستہ خون سے سرخ ہو رہی تھی۔
کچھ ہی دیر میں جیس کے طوفانی حملے سست ہو نے لگے۔ علی روئی کوجوابی حملہ کےلئے تیار دیکھ کر اس نے پہلے ہی تیز رفتاری سے اپنا فاصلہ بڑھا تھامگر اپنی پچھلی سست رفتاری کو برقرار رکھا۔ ظاہر ہے شدید حملہ کرنے کے لیے وہ اگلے موقع کی تلاش میں تھا۔
علی روئی جسم پر لگنے والی چوٹیں برداشت کرنےکےلئے ہلکی ہلکی سانسیں ایڈجسٹ کیں اور توجہ خوفناک حریف پر مرکوز رکھی۔ جیس لارنس جیسانہیں تھا۔ اگر اس نے سنکھیار کی ہائی پریشر ٹریننگ کے ساتھ ٹریننگ گراؤنڈ میں شدت سے ٹریننگ نہیں کی ہوتی تو ان حیران کن حملوں کا پچھلا دور اس کے 10 بار مرنے کے لیے کافی تھا۔
<Afterimage> اور مہلک حملہ، یہ معلومات جیسا ہی تھا۔ پھر بھی اس قدم کے مبہم اثر کو باہر کے لوگوں نے محسوس نہیں کیا۔ اس کے علاوہ جیس کی <Afterimage>کی مہارت کافی ذہین سطح پر پہنچی ہوئی تھی۔ یہ صرف لفظی مہارت نہیں تھی بلکہ ایک مہلک قاتل تکنیک تھی۔ وہ انٹرمیڈیٹ ڈیمن کے درمیانی مرحلے میں سب سے مضبوط تھا۔ یقیناً وہ اسی لائق تھا۔ جیس اب خاموش تھا لیکن اس کی آنکھیں تیز ی سے گھوم رہی تھیں۔ وہ حیران تھا کہ نمبر64 کچھ دن پہلے لارنس جیسے معمولی کردار کے ہاتھوں تقریباً دم توڑ رہا تھا۔ اس میں اتنی طاقت ؟۔ یہ کوئی عام درمیانی درجے کے انٹرمیڈیٹ ڈیمن ہوتا تو کبھی کاہلاک ہو چکا ہوتا۔ مگر ابھی تک 64نمبر نے ایک بار بھی حملہ نہیں کیا تھا، صرف حملے روکے تھے۔ ردعمل دیا تھا اور ردعمل کی رفتارکسی طرح بھی سیاہ ایلف سے کمتر نہیں تھی۔جبران جو کافی دیر سے سکون سے شراب پی رہا تھا اچانک رک گیا۔ سامعین نے نمبر64 کو دیکھاجو شروع میں صرف حملوں کو روک رہا تھا، ایک فعال حملہ کر رہا ہے۔ اس کی رفتار ’’کوئیک ولف‘‘ سے کم تھی۔ جیس کی خصوصیات اور طاقت کوئی راز نہیں تھی۔ اس نے جواباًایک تیز اور شدید حملہ کیا لیکن پہلے سے نسبت کمزور تھا۔ عام طور پربہترین حربہ دفاع کو سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس سے حریف کی جسمانی توانائی ضائع ہوتی ہے۔ جیس کے پچھلے مخالفین میں سے بہت سے اس حربے کا انتخاب کر چکے ہیں لیکن کوئی بھی کامیاب نہیں ہوا تھا۔ جیس بھی اپنی اس خوبی کو سمجھتا تھا۔ ہر کوئی یہ چاہتا تھا کہ اس کے مخالف کو دفاع کرنا چاہئے لیکن بہت کم لوگ جیس کے حملے کو برداشت کر سکے تھے۔
اچانک نمبر64 نے فعال طور پر حملہ کرنے کے لیے ایک انتہائی غیر دانشمندانہ حملے کا انتخاب کیا۔ اس کی رفتارکافی حیرت انگیز تھی۔ معلوم ہوا کہ نمبر64 بھی کوئی سپیڈ ٹائپ چیز ہے، اتنی ہی حیرت انگیز رفتار کے ساتھ حریف کا سامنا کرتے ہوئے جیس پہلے تو حیران رہ گیا لیکن اس کی جگہ اب جنونیت نے لے لی۔ اس کے ہاتھوں میں دوہرے خنجر وں کی رفتار اور بھی عجیب تھی۔ دونوں کی رفتار تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی تھی اور میدان سے باہر سامعین صرف دو تیز رفتار شخصیتوں کو جادوئی کرسٹل کی روشنی میں ٹکراتے اور الگ ہوتے دیکھ رہے تھے۔ کافی دیر کے بعد کمزور بدروحوں کو چکر آنے لگے۔ وی آئی پی سیٹوں پر جبران نے شراب کا گلاس گرایا اور گلاس کیتھن کو دیا۔ اس نے لیچ کو گھورتے ہوئے دیکھا ۔ لیچ اس کے قریب آیا تو اس نےسر ہلایا اور کہا:
’’پریشان نہ کرو۔ تم ان کی رفتار کو برقرار نہیں رکھ سکتے‘‘۔
کیتھن نے آنکھیں جھپکائیں اور پوچھا:
’’سر! ان دونوں میں کون تیز ہے؟‘‘۔
’’جیسی تیز ہے‘‘۔
اگرچہ میدان میں دونوں شخصیات انتہائی تیز تھیں لیکن جبران کی نظر میں یہ محض بچوں کا کھیل تھا۔ کیتھن کو اچانک احساس ہوا اور وہ بولا:
’’تو جیسی آخر میں جیت جائے گا؟‘‘۔
جبران نے سر ہلایا:
’’اگر جیس کی رفتار بجلی کی طرح ہے، تو نمبر64 ہوا ہے۔ بجلی تیز ہوتی ہے لیکن ہوا لامتناہی چلتی ہے۔ تاہم جیس کے پاس ایک حتمی اقدام ہونا چاہئے جو اس نے استعمال نہیں کیا ۔ فی الحال مجھے یقین نہیں ہے کہ کون جیتے گا یا ہارے گا‘‘۔
’’نہیںنمبر64صرف 10دن پہلے خونی ہاتھ لارنس کو بمشکل ہی مار سکا تھا‘‘۔
کیتھن نے حیرت سے کہا۔بولا:
’’اب وہ جیسی کا مقابلہ کر رہاہے۔ کیا مہر کی بات واقعی درست ہے یا اس نے اپنی طاقت چھپا رکھی ہے؟‘‘۔
جبران نے کوئی جواب نہیں دیا لیکن اس نے لیچ کے ہاتھ میں شراب کے خالی گلاس کو اطمینان سے دیکھا۔ کیتھن نے فوراً اپنا منہ بڑی تدبیر سے بند کر لیا گلاس بھرا اور اسے عزت سے گریٹ ڈیمن کے حوالے کر دیا۔ جیس کی رفتار واقعی علی روئی کی رفتار سے تھوڑی تیز تھی لیکن سیاہ ایلف کو لگا کہ اس وقت یہ خراب ہے۔ اگرچہ حریف کی رفتار بدتر تھی لیکن بنیادی طور پر وہ اپنی حرکات کو برقرار رکھ سکتا تھا۔
عام طور پر رفتار اور برداشت دو نوں انتہائی خصوصیات تھیں۔نمبر64نے اصل میں تیز رفتاری برقرار رکھی لیکن تھکا ہوا نہیں تھا۔ اس کے بجائے جیس خستہ ہونے لگا تھا۔
تیز رفتاری سے آگے بڑھنے والی دونوں شخصیات آخرکار ایک زبردست تصادم کے بعد الگ ہو گئیں۔ وہ رکے اور ایک دوسرے کو محتاط نظروں سے دیکھنے لگے۔ سامعین کے لیے آنکھوں کی تھکاوٹ کا مرحلہ ختم ہوا۔ دیومالائی دائرے نے طاقت کی سب سے زیادہ وکالت کی۔ مضبوط قوتوں کی ایسی دلچسپ لڑائی نے فطری طور پر میدان میں حاضرین کو ہلا کر رکھ دیا۔ جیس کے جسم پر کوئی بڑا زخم نظر نہیں آتا تھا لیکن ہانپنے لگا تھا۔ شدید تیز رفتار جنگ نے ابھی واضح طور پر بہت زیادہ صلاحیت کا استعمال کیا تھا۔ علی روئی بھی ہلکا سا ہانپ رہا تھا اور اس کی چادر سرخی مائل تھی۔ جیس اس سے زیادہ تیز تھا اس لیے علی روئی کو اپنے حریف کا مقابلہ کرنے کے لیے زیادہ محنت کرنا پڑی۔ اس نے کئی بار جیس کو مارا لیکن سیاہ ایلف کی رفتار کی وجہ سے پوری طرح سے ٹکرانے سے پہلے ہی اس کی طاقت ختم ہو گئی۔ <Astral Form> کی خصوصی قابلیت نے اسے ایک خاص معنوں میں بہت بڑا فائدہ دیا کیونکہ اس نے لڑائی کے دوران ضائع ہونے والی توانائی کو فوری طور پر بھر دیا اور زخم کی بحالی کافی ہموار تھی۔
جیس سمجھ گیا کہ اگرچہ حریف زخمی ہو گیا تھا لیکن یہ اتنا سنجیدہ نہیں جتنا لگتا ہے۔ جب تک اسے کوئی مہلک نقصان نہیں پہنچے گا لڑائی اسی طرح جاری رہے گی اور وہ شاید2 گھنٹے تک کھڑا نہ ہوسکے۔ اس نے فیصلہ کن حملے کا فیصلہ کیا اوراپنے جسم کی باقی ماندہ طاقت جمع کی۔ اچانک اس کے جسم پر روشنی کی چنگاری نمودار ہوئی۔ ’’Pzzt‘‘۔کی آواز آئی۔ اس آواز نے علی روئی کو اسی نسل کے ایلداس کی یاد دلائی۔ فطری طور پر علی روئی محسوس کر سکتا تھا کہ اس بجلی کی طاقت یقینی طور پر وہم نہیں ہے۔ اس برقی چنگاری نے نہ صرف جیس کی رفتار میں زبردست اضافہ کیا بلکہ اس نے خنجر پر بھی سحر انگیز اثر کیا۔ جب علی روئی کی پچلبلاں حادثاتی طور پر خنجر سے کاٹ دی گئیں تو نہ صرف اس کے جسم کے بال کھڑے ہو گئے بلکہ عارضی فالج بھی پیدا ہو گیا۔ اگر اس نے فوری رد عمل ظاہر نہ کیا تو اسے چاقو کے وار کر کے ہلاک کر دیا جائے گا۔
میں نے میدان کی معلومات میں یہ ہنر نہیں دیکھا۔ یہ شاید خفیہ فن ہے یا سیاہ ایلف کا ایک نیا اقدامِ قتل ہے۔ یہ اس کا آخری حتمی اقدام بھی ہوسکتا ہے۔
اگرچہ علی روئی غیر فعال تھا لیکن اس نے توقع کی تھی کہ جیس کی یہ حالت یقینی طور پر زیادہ دیر تک قائم نہیں رہے گی اور اس نے صرف بچنے کی حکمت عملی اپنائی۔ سنکھیار کی دھوکہ دہی کی تربیت کی بدولت جیس کی رفتار پہلے سے زیادہ تیز تھی لیکن وہ تربیت کے دوران زہریلے ڈریگن کے دباؤ کی بلند ترین سطح تک نہیں پہنچ سکی۔ اس طرح دکھی نظر آنے کے باوجود علی روئی نے اب بھی سیاہ ایلف کے حملوں سے مؤثر طریقے سے گریز کیاتھا۔
کچھ دیر تک برقرار رہنے کے بعد جیس کی طاقت خونی ہاتھ کی طرح کمزور ہونے لگی۔ علی روئی بہترین ٹائمنگ کی تلاش میں تھا۔ جیسے ہی وہ جوابی حملہ کرنےوالا تھا جیس نے اونچی چھلانگ لگائی اور اوپر سے اپنے دونوں خنجر گھونپے۔ اگرچہ اس قسم کا فضائی حملہ شدید تھا لیکن اس کا مقابلہ آسان تھا کیونکہ ہوا میں کوئی سہارا نہیں تھا۔ جیس جیسی تیز رفتار قسم کے لیے یہ ایک غیر دانشمندانہ اقدام تھا۔ تاہم ہوا میں جیس اچانک دھندلاہوا اور پانچ جیس بن گئے۔ علی روئی حیران رہ گیا۔ وہ جانتا تھا کہ ان5میں سے4اعداد و شمار <After image> تھے۔ جیسا کہ ہر ایک کی ایک ’’الیکٹریکل باڈی‘‘ تھی اس لیے ایسے مایوس کن لمحے میں فرق نہیں کیا جا سکتا تھا اس لیے علی روئی چوک گیا۔5جیس نے اپنی رفتار کو انتہائی حد تک بڑھا دیا اور علی روئی کو گھیر لیا۔ علی روئی ان 10ٹھنڈے خنجروں کو مزید چکما نہیں دے سکتا تھا۔ یہ جیس کا آخری اور مہلک اقدام تھا جس نے اس کی جیت یا ہار کا تعین کیا۔ سامعین نے مرکز میں پانچ شخصیات کو نمبر64کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا۔ زلزلے کے بعد ایک شخصیت بہت دور پیچھے کی طرف اڑ کر زمین پر گر گیا۔ وہ دراصل ’’کوئیک ولف‘‘ جیس تھا جو ابھی پانچ افراد میں تبدیل ہوا تھا۔ اس وقت سیاہ ایلف کے ہاتھ میں خنجر نہیں تھے۔ وہ صرف اپنے زخموں کو ڈھانپ رہا تھا اور ایک طرف زمین پر لیٹ گیا۔ وہ شدید زخمی لگ رہا تھا۔ اس طرح کے پانچ بجلی کے کلون کے مہلک حملے کو دراصل مخالف نے حل کیا تھا۔ جیس کی آنکھیں بے اعتباری سے بھری ہوئی تھیں۔ یہ ہی نہیں ان کے سینے پر ایک ہی وقت میں 5 مکے لگائے گئے۔ خوفناک دھماکہ خیز طاقت نے سیاہ ایلف کی باقی ماندہ طاقت کو مکمل طور پر تباہ کر دیا۔ پوری جنگ میں جیس نے اپنے مخالف کو دبا ئے رکھاتھا اور نمبر64کا ہر جوابی حملہ ناکام دکھائی دے رہا تھا۔ تاہم آخری لمحے جیس کو ایک اہم ہٹ سے شکست ہوئی۔ جب اسے یقین تھا کہ وہ دشمن کو شکست دےلے گا۔ ’’کوئیک ولف‘‘ کا انداز مشہور تھا۔نقاب پوش نمبر64خاموش تھا۔ اس نے جلدی سے اپنے کندھے سے خنجر ہٹایا اور ایک اور خنجر زمین پر پھینک دیا۔ وہ خون بہنے کو روکنے کی زحمت نہ کر سکا اور آہستہ آہستہ جیس کی طرف بڑھا۔جیس نے قریب آتے ہوئے نقاب پوش کی طرف دیکھا اور اس کی آنکھیں آہستہ آہستہ ٹھنڈی ہو گئیں۔ اس نے لارنس کی طرح رحم کی بھیک نہیں مانگی بلکہ اس نے پوچھا:
’’تم نے میری <Afterimage> کو کیسے حل کیا؟‘‘۔
نمبر64خاموش رہا۔ جیس سمجھ گیا کہ اس کا مخالف یہ نہیں بتاناچاہتا اس لیے اس نے دوبارہ نہیں پوچھا اور خاموشی سے مارے جانے کا انتظار کیا۔ جب سے اس نے پہلی بار جنگ کے لیے میدان میں قدم رکھا تھا سیاہ ایلف نے زندگی اور موت کو ترک کر دیا تھا۔ نمبر64اپنے حتمی اقدام کی خامیوں کو ابھی دیکھ سکتا تھا۔ جیس واقعی بہت مضبوط تھا۔ حالانکہ اس کے دل میں ابھی بھی تھا کہ وہ اس طرح مرنا نہیں چاہتا۔ جیس نے اپنی شکست تسلیم کرلی۔ سامعین نے ہنگامہ آرائی کی اور نمبر64کے لیے سیاہ ایلف کو مارنے کے نعرے لگائے۔ جنہوں نے پیسہ جیتا اور وہ بھی جو سیاہ ایلف کی وجہ سے پیسے کھو بیٹھے تھے۔ دونوں طرح کے افراد فاتح کے لیے یکساں احترام رکھتے تھے۔ فاتح بادشاہ تھا،اس میدان کا، اس دیومالائی دائرے کا۔
جیس نے دیکھا کہ مخالف نے اسے نہیں مارا، وہ حیران رہ گیا اور جھنجھلا کر بولا:
’’کیوں؟۔ میں تواپنے دشمنوں سے ہمدردی نہیں رکھتا‘‘۔
نمبر64کا جواب کسی آسیب جیسا تھا۔ اس نے کہا:
’’صرف اس لیے کہ مجھے’ whetstone‘کی ضرورت ہے‘‘۔
جبران علی روئی اور سیاہ ایلف کے درمیان ہونے والی گفتگو سن رہا تھا۔ جب اس نے لفظ’whetstone‘ سنا تو اس کی آنکھیں اندھی روشنیوں سے چمک اٹھیں اور چہرے پر مسکراہٹ واضح ہوگئی۔
’’Whetstone؟‘‘۔
جیس نے اپنے زخموں پر پردہ ڈالا، آہستہ سے کھڑا ہوا اور سرد لہجے میں کہا۔ پھر وہ مڑا اور چلا گیا۔
’’تم پچھتاؤ گے‘‘۔
نمبر64نے دوبارہ جیس کی طرف نہیں دیکھا اور نہ ہی اس نے سامعین کے عدم اطمینان کی آوازوں کی پرواہ کی۔ اس نے صرف وی آئی پی سیٹوں کی طرف دیکھا اور جبران کی نظروں سے نظریں ملائیں۔ دوسرے کی آنکھوں میں موجود مضبوط یقین کو محسوس کرتے ہوئے گریٹ ڈیمن نے طنز کیا۔ وہ اچانک کھڑا ہوا اور دھات جیسی عجیب آوازپورے میدان میں گونج اٹھی:
’’یہ جنگ نمبر64جیت گیا۔20دن بعد نمبر64انٹرمیڈیٹ ڈیمن میں سب سے مضبوط بالروگ ’’ریکا‘‘ کو چیلنج کرے گا‘‘۔
’’Whetstone؟۔ اگر تمہیں چاہیے تو میں دیتا رہوں گا اور وہ سب سےاچھےسٹون‘‘۔
سامعین پوری طرح سے مشتعل ہوگئے۔ اگرچہ نمبر64نے آج جیس کو شکست دی، لیکن یہ ریکا کون ہے؟۔ میدان میں انٹرمیڈیٹ ڈیمنوں کے درمیان بادشاہ، سب سے مضبوط انٹرمیڈیٹ ڈیمن جو ہائیر ڈیمن سے ایک قدم دور تھا، کسی بھی انٹرمیڈیٹ ڈیمن نے ریکا کوطویل عرصے سے للکارنے کی ہمت نہیں کی تھی۔ کسی نے کبھی بھی یہ توقع نہیں کی تھی کہ نمبر64 کا اگلا مخالف درحقیقت انٹرمیڈیٹ ڈیمن کا بادشاہ ہوگا۔یہ انٹرمیڈیٹ ڈیمن کے درمیان سب سے زیادہ دلچسپ میچ ہوگا۔جیس حیران رہ گیا۔ اس نے پلٹ کر بے اعتبار نظروں سے نمبر64کو دیکھا۔ نمبر64اور جیس کا مقابلہ ذاتی طور پر جبران نے طے کیا تھا۔ جیس دیکھ رہا تھا کہ ریکا کے ساتھ چیلنج نوٹس سننے کے بعدبھی نمبر64خاموشی سے کھڑا ہے۔ شاید ماسک نے اس کے حقیقی اظہار کو ڈھانپ لیا ہے لیکن اسے لگا کہ اس تہہ دار گینگ کو کوئی خوف نہیں ہے۔ نمبر64نے آخر کچھ کہا۔ یہ جبران کے ’’غیر معقول‘‘ انتظامات کو مسترد کرنا یا ناراض ہونا نہیں تھا۔ اس کی کھردری آواز اس کے بجائے غیر معمولی طور پر پرسکون لگ رہی تھی۔
’’مجھے لگتا ہے کہ اب میں صحیح جیتی ہوئی رقم حاصل کر سکتا ہوں‘‘۔
سوکیوبس نے آنکھ ماری اور اپنے جنسی ہزیان بھرے اشارہ کرکے جوش انداز میں چل دی۔ وہ بولی:
’’یہ وہ انعام اور شرط ہے جو آپ نے آج جیتی ہے۔ مجھے طاقتور آدمی سب سے زیادہ پسند ہیں۔ کیا آپ میرے ساتھ بستر پر ’کونر‘ گیم کھیلنے میں دلچسپی رکھتے ہیں؟۔ یہ مفت ہے‘‘۔
علی روئی نے بھاری پیسوں کا تھیلا وصول کیا اور عجیب انداز میں موہک سوکیوبس کو دیکھا۔ اسے اس میں ایک اور مایا نظر آئی۔ چوس لینے والی۔ اس کے ذہن نے فورا کہا:
’’وہ یہ مفت کھیل کھیلنے کا متحمل نہیں ہو سکتا‘‘۔
علی روئی میدان سے باہر نکلنے ہی ایک گلی میں مڑ گیا۔ اس کی موجودہ رفتار خاصی تیز تھی۔ وہ پلک جھپکتے ہی کئی گلیوں سے گزر چکا تھا اور کہیں رکے بغیر ایک ویران جگہ پر پہنچ گیا۔
’’تم میرا پیچھا کیوں کر رہے ہو؟‘‘۔
علی روئی نے پلٹ کر پوچھا۔
سیاہ ایلف جیس نے کہا:
’’میں پہلے ہی ہار چکا ہوں۔ آپ کیوں چاہتے ہیں کہ میں آپ کا whetstone بنوں؟‘‘۔
علی روئی نے کندھے اچکا کر جواب دیا:
’’میرے کہنے سے کیا ہوتا ہے۔ میں نے تو یہ کسی اور سنانے کےلیے کہا تھا‘‘۔
’’آپ کو لگتا ہے کہ میں بچہ ہوں؟ ‘‘۔
’’تم کیا چاہتے ہو؟‘‘۔
جیس نے نفی میں سر ہلایا۔
’’Whetstone صرف whetstone ہے، بکواس کرنا بند کرو۔کیا تم اب بھی مضبوط ہو سکتے ہو؟‘‘۔
’’بالکل میں ہوسکتا ہوں!‘‘۔
جیسی نے سختی سے جواب دیا:
’’لیکن میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ اگر آپ ایک بار ناکام ہو گئے تو ایک لیچ کی طرح ہمیشہ کے لیے ٹوٹ جائیں گے‘‘۔
’’کیا تم نے وہ دان دیکھا ہے جو ایک پتھر سے ٹوٹا تھا؟‘‘۔
علی روئی نے دو ٹوک جواب دیا اورمڑ کر چلا گیا۔ سیاہ ایلف مسلسل اس کے پیچھے چلتا رہا۔
کچھ اور سفر کرنے کے بعدعلی روئی نے پھر رک کر اس سے پوچھا:
’’تم اب تک میرا پیچھا کیوں کر رہے ہو؟‘‘۔
سیاہ ایلف نے جواب دیا:
’’اگر چاقو کا پتھر چھری سے نکل جائے تو کیا اب بھی آپ کی طلب وہی پتھر ہے؟‘‘۔
’’میری جان چھوڑنے کے بعد بھی تم سیاہ ایلف ہی رہو گے بھائی‘‘۔
علی روئی نے تنگ آ کر دل ہی دل میں جواب دیا۔
جیس اس کا تعاقب کر رہا تھا اس لیے وہ لیب میں واپس نہیں جا سکا اور تہہ دار گینگ کے ہیڈ کوارٹر میں آیا۔
بوڑھے بونا اور جمرال نے علی روئی کو خون سے بھرا دیکھ کر چونک گئے۔
’’حکیم !، آپ کے زخم‘‘۔
جمرال نےیہ کہتے ہوئے سرد آہ بھری۔ اس نے فوراً پہچان لیا کہ ساتھ مشہور ’’کوئیک ولف‘‘ جیس ہے۔ غریب سیاہ بونے کی کمزور روح پھر سے چونک گئی۔ وہ اتنا حیران تھا کہ بول نہیں سکتا تھا۔
’’جمرال! جاؤ میرے لیے ایک نئی چادر لے آؤ‘‘۔
حکیم کے الفاظ نے جمرال کو جگایا اور جمرال جلدی سے گھر کی طرف بھاگا۔
’’یہ کلوننگ گینگ ہے۔ میں لیڈرہوں اس کا‘‘۔
علی روئی نے جیس سے تعارف کرایا اور دو دوائیاں نکالیں۔ اس نے ایک خود پی اور دوسری سیاہ ایلف کی طرف پھینک دی۔ جیس نے بوتل کی ڈھکن کھولا، سونگھا اور پہچان لیا کہ یہ شفا بخش دوا ہے۔ وہ کچھ دیر ہچکچایا، پھر پی گیا۔ اس شفا بخش دوائی کا اثر حیرت انگیز طور پر زیادہ تھا۔ سیاہ ایلف نے محسوس کیا کہ شدید زخمی سینے میں درد کافی حد تک ٹھیک ہو گیا ہے۔ اس وقت اس کی آنکھوں میں ایک پیچیدہ سا جذبہ تھا۔
بوڑھا بونا جلدی سے چادر نکال لایا ۔ علی روئی نے خونی کباڑ اتار کر خود کو نئی چادر میں ڈھانپ لیا۔ اس نے سوچا کہ اسے اسٹوریج میں کچھ چادریں اور ماسک رکھنے کی ضرورت ہے۔ جیس نے دیکھا کہ’منگول‘ پر خنجر سے لگنے والے خوفناک زخم بہت حد تک ٹھیک ہو چکے ہیں۔ کچھ زخم پہلے ہی غائب ہو چکے تھے۔
’’کیا شفا یابی کا اثر اتنا تیز ہے۔۔۔یا؟‘‘۔
’’اگر تم whetstone بننا چاہتے ہو تو کلوننگ گینگ میں رہو۔ آج سے تم مہینے میں ایک بار مجھے چیلنج کر سکتے ہو‘‘۔
علی روئی کی یہ بات سن کر بوڑھے بونے کو ایک اور جھٹکا لگا۔ اس نے علی روئی کے لہجے سے اندازہ لگایا کہ حکیم نے جیس کو شکست دی ہے۔
علی روئی کلوننگ گینگ کو منگول کے لیے نئی طرز سے شروعات کے طور پر استعمال کرنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا اس لیے اپنی یر موجودگی میں کسی مضبوط شخص کی ضرورت تھی۔ جیس کی جنگی طاقت بلاشبہ بہت زیادہ تھی۔ چونکہ جیس خود یہاں آیا تھا، علی روئی کا لہجہ اس کےلیے شائستہ نہیں تھا مگرجیس نے اس آفر رد نہیں کیا۔
بوڑھے بونے نے ایک تھیلی دیتے ہوئےکہا:
’’حکیم !یہ فلوروسینٹ پتھر اور دیگر مواد ہے جو مجھے ان دنوں ملے ہیں۔ ان کی قیمت مجموعی طور پر15سیاہ کرسٹل سکے ہیں‘‘۔
تھیلی میں10ٹکڑے تھے جن میں مختلف خصوصیات کے5یا6فلوروسینٹ پتھر تھے۔ تاہم ایک اوسط معیار کے فلوروسینٹ پتھر کی قیمت عام طور پر جادوئی اسٹور میں10سیاہ کرسٹل سکے ہوتی ہے لہٰذا یہ کافی قابل تھا۔
’’بہت خوب۔ ابھی کے لیے دوسری چیزوں کی فکر نہ کرو اور جادوئی مواد تلاش کرنے پر توجہ مرکوز رکھو۔ بنیادی طور پر فلوروسینٹ پتھر جتنا زیادہ بہترملے خرید لو۔ جہاں تک پیسے کا تعلق ہے تو تمہیں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں کوئی راستہ نکال لوں گا‘‘۔
بوڑھا بونا جیس کے سامنے اپنی تعریف پر خوش ہوا۔ اس نے کہا:
’’ایسا ہی ہے میرے آقا!۔ فلوروسینٹ پتھر ایک نسبتاً غیر مقبول چیز ہے جو خاقانی سلطنت میں تیار کیا جاتا ہے۔ اس لیے تاجر عموماً زیادہ اسٹاک نہیں رکھتے۔ تاہم مجھے ایک پیغام موصول ہوا کہ کالاری نامی تاجر کے پاس اس کا خاصااسٹاک موجودہے لیکن اس نے جو قیمت مانگی ہے وہ بہت زیادہ ہے۔ اعلیٰ معیار کے لیے18سیاہ کرسٹل سکے، درمیانے معیار کے لیے9سیاہ کرسٹل سکے اور کم معیار کے لیے2سیاہ کرسٹل سکے۔ اگر آپ سامان لینا چاہتے ہیں تو اس کےلیے تقریباً600 سے700 سیاہ کرسٹل سکے درکار ہوں گے۔
علی روئی نے ابھی 750سیاہ کرسٹل سکے جیتے تھے۔ یہ10سیاہ کرسٹل سکوں کے انعام کے ساتھ مل کر760تک پہنچ گئے جو فلوروسینٹ پتھروں کو خریدنے کے لیے کافی تھے۔10دن پہلے اس کے پاس35000اوراس تھے لیکن اب صرف30000رہ گئے تھے۔ ٹریننگ گراؤنڈ پر ہونے والے اخراجات کے لیے یہ کافی نہیں تھے۔ وہ20دن کے بعد ریکا کے خلاف لڑنے والاتھا۔ اسےبہت زیادہ اوراس کی ضرورت تھی۔
’’میں کالاری کو جانتا ہوں‘‘۔
سیاہ ایلف اچانک بولا:
’’یہ بہت غلط آدمی ہے، اور اس کے ماتحت بھی بہت دھوکے باز ہیں۔ آپ کے ساتھ فراڈ بھی ہوسکتا ہے ‘‘۔
بوڑھے بونے نے اثبات میں سر ہلایا اور کہا:
’’سر جیس نے ٹھیک کہا ہے۔ کالاری کی ساکھ اچھی نہیں لیکن فلوروسینٹ پتھر جیسا غیر مقبول کاروبار صرف وہی کرتا ہے۔ افواہ ہے کہ اس کی یہ تجارت خفیہ اورمشکوک ہے۔
علی روئی کچھ دیر خاموش رہا اس نے جیسی سے پوچھا:
’’کالاری کے نیچے کون سے طاقتور کردار ہیں؟‘‘۔
’’سب سے طاقتور ایک سینٹور ہے جسے گراؤ کہا جاتا ہے جو پہلے ہی انٹرمیڈیٹ ڈیمن کے اعلیٰ ترین مرحلے پر پہنچ چکا ہے۔ اس کی طاقت ریکا سے زیادہ ہے۔ اس کے پاس متعدد انٹرمیڈیٹ ڈیمن بھی ہیں۔ اگر آپ مجھے300سیاہ کرسٹل سکے دے دیں تو میں اس کام میں آپ کا ساتھ دوں گا‘‘۔
یہ بہت مہنگا ہے۔300سیاہ کرسٹل سکے۔ یہ3000جامنی رنگ کے کرسٹل سکوں کے برابر ہے۔
’’بوڑھا بونا بول پڑا:
’’اگر یہ رقم مجھے اور میری بیٹی کو دے دی جائے تو ان کے لیے3سال تک زندہ رہنے کے لیے کافی ہے‘‘۔
علی روئی کو ہر حال میں فلوروسینٹ پتھر چاہئے تھے۔ وہ ناکامی کا کوئی راستہ کھلا نہیں چھوڑنا چاہتا تھا۔
’’تم کو اپنی چوٹیں ٹھیک کرنے کے لیے کتنا وقت درکارہے؟‘‘۔
علی روئی نے جیسی سے پوچھا۔ سیاہ ایلف نے انگلی اٹھائی اور سر ہلایا:
’’جمرال! میں پرسوں صبح آپ کے پاس آؤں گا۔ آپ کالاری سے رابطہ کریں اور کہیں کہ مجھے تمام فلورسینٹ پتھر چاہئیں۔ قیمت طے کریں۔ اسے کال کر سکتے ہیں‘‘۔
جمرال مان گیا۔ علی روئی زیادہ دیر نہیں ٹھہرا اور واپس لیب میں آ گیا۔ اس دوران،شہزادی اقابلہ کی ہدایات کی وجہ سے محل کے محافظوں نے ان سے پوچھ گچھ نہیں کی۔ دو ماہ کے ٹیسٹ کے بارے میں جاننے والے الداس نے بھی اپنی حمایت کا اظہار کیا۔ وہ امید کر رہا تھا کہ یہ ’’وراثت‘‘ اسے دوائیوں سے متعلق کچھ حیرت انگیز معلومات فراہم کرےگی۔
جب علی روئی اپنی سیکرٹری شناخت پر واپس آیا تو اس نے <Breath Holding> کی صلاحیت کو چالو کیا۔ دوسروں کی نظر میں وہ اب بھی بے اختیار انسان تھا۔
اس نے کیگو کے ہاتھ سنکھیار کواپنی خیریت کا خط بھیجا تاکہ زہریلے اژدھے کو فکر نہ ہو۔ اس دوران گیگو نیلی جھیل اور لیب کے درمیان آگے پیچھے سفر کر رہا تھا اس لیے راستے سے پہلے ہی واقف تھا۔ وائیورن کے جانے کے بعدعلی روئی اپنے کمرے میں واپس آگیا۔
دنوں کے ساتھ سٹار پاور کے کنٹرول میں بہتری اور پٹھوں کی طاقت نے تجربہ کی قدر میں زبردست اضافہ کیا۔ بلاشبہ تجربہ کی قدر صرف ایک ڈیجیٹائزڈ ڈسپلے تھی۔ اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ تجربہ کی قدر 100٪ تک پہنچ جائے تو وہ ’’لیول اپ‘‘ کر سکتا ہے بلکہ اس کا مطلب صرف یہ تھا کہ وہ موجودہ مرحلے میں مہارت کی ایک خاص سطح پر پہنچ گیا ہے۔ سٹیٹس بار میں فلیمینٹس کا کنکال مکمل طور پر مضبوط ہو چکا تھا۔ یہ اس کی10دن کی خصوصی تربیت کا نتیجہ تھا۔ واضح طور پر4بار5گنا وقت اور ایک بار2گنا وقت استعمال کرنے کے بعد تربیت کا دورانیہ1مہینے سے زیادہ کے برابر تھا۔
انسانی روشنی کے اعداد و شمار میں ہونے والی اس تبدیلی نے نہ صرف علی روئی کی طاقت کو انٹرمیڈیٹ ڈیمن کے درمیانی درجے تک پہنچا دیا جو کہ’’ الکید‘‘ سطح کی مستحکم حالت تھی بلکہ اس کے جسم کی دفاعی صلاحیت بھی بہت بڑھ گئی تھی۔ آج اگرچہ میدان میں لڑائی شدید تھی اور اسے بہت زیادہ زخم آئے تھے لیکن حقیقت میں اسے کوئی شدید نقصان نہیں پہنچا تھا۔ یہ صرف صدمہ تھا اور لارنس کے ساتھ جنگ کے مقابلے میں بہت ہلکا تھا۔
آج علی روئی کے لیے جیس کے حتمی اقدام کو توڑنے کی حقیقت <Analytic Eyes> تھی۔ جس سے اس نے جیس کے 5 سایوں میں سے1کا حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا اور وہی حقیقی جسم تھا۔ اگرچہ دیگر وہموں کا فیصلہ کھلی آنکھوں یا احساسات سے نہیں کیا جا سکتا لیکن <Analytic Eyes> کی مہارت کو دھوکہ نہیں دیا جاسکتا تھا۔ اس نے مستقبل کی جنگ میں علی روئی کو بھی متاثر کیا۔
اسٹیٹس بار میں’’کنکال‘‘ کے مکمل طور پر اکٹھا ہونے کے بعد، ’’الکید‘‘ کی روشنی کی گیند سے مرتکز ہونے والے ان گنت تنت ’’کنکال‘‘ میں جذب نہیں ہوئے تھے۔ اس کے بجائے گروپوں میں عجیب طریقے سے’’ کنکال‘‘ پر جمع ہو کر مزید پھیل گئے تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسےدھندلاپن سے ’’پٹھوں‘‘ کے ٹکڑے بنا رہے ہوں۔ بڑھے ہوئے کشش ثقل کے تربیتی میدان کے تجربے سےعلی روئی نے سمجھ لیا کہ ایک بار جب ’’پٹھے‘‘ ’’کنکال‘‘ کی طرح ٹھوس ہو گئے تو’’الکید‘‘ حالت جو <Refined Body> کی خصوصیت رکھتی تھی مکمل ہو جائے گی۔ اگر وہ واقعتاً ’’الکید‘‘ سطح کی تکمیل کو پہنچ گیا اور اس کے نتیجے میں دو ستاروں کے ارتقاء کو شروع کر کے اگلی سطح تک پہنچا تو ہائیر ڈیمن کا مقابلہ کرنا کوئی خیالی بات نہیں رہے گی۔ مشقوں نے ثابت کیا کہ کشش ثقل کا اصول جسم کو تربیت دینے کا بہترین طریقہ ہے۔ موجودہ حالت میں دو گناکشش ثقل بہت کم تھی۔ یہ کشش ثقل کم از کم 4گنا ہونی چاہیے۔ مگر4گنا کشش ثقل کے لیے اسے روزانہ4000 اوراس کی ضرورت ہے۔ پرانے بونے کے ذریعہ فراہم کردہ مواد نے کل1,500 اوراس فراہم کیے ہیں۔ ابتدائی3000 کے ساتھ یہ صرف4500 پوائنٹس تک پہنچ گیا۔ اس نے سوچا مجھے کالاری کے ساتھ تجارت کاانتظار کرنا چاہیے۔
ان دنوں وہ جسمانی اور ذہنی طور پر بہت تنگ ہو چکا تھا۔ ہر چیز کو بہترین سطح پر کرنے کی ضرورت تھی بصورت دیگر الٹا نتیجہ بھی نکل سکتا تھا۔ اس نے سوچا بہتر ہے کہ میں کل دن میں وقفہ لوں، پھر رات کو خصوصی تربیت کے لیے زہریلے ڈریگن کے پاس جاؤں گا۔
علی روئی فجر تک سوتا رہا، اٹھ کر کچھ کھایا۔ جب وہ لیب سے باہر نکل رہا تھا تو وہ چلبل مل گیا۔ اس نے اطلاع دی کہ ’’گیلوٹین‘‘ لوہار کی دکان کےسینٹور زیک نے کچرے کی دھاتوں کی ایک بڑی کھیپ خریدی ہے اور وہ علی روئی کو تلاش کرتا پھرتا ہے۔ اگرچہ4ایسک زیادہ چمک فراہم نہیں کرتا تھا۔ علی روئی کو اس وقت چمک کی اشد ضرورت تھی۔ وہ فوراً لوہار کی دکان پر پہنچ گیا۔
زیک نے کرسٹل کےساتھ بڑی تعداد میں ’’فضلہ دھاتیں‘‘ خریدرکھی تھی۔ اچانک علی روئی کو آتے دیکھ کر خوش ہو گیا۔ علی روئی نے کہا:
’’زیک! شہزادی اقابلہ نے مجھے ایک مشن دیا ہے ، میں ان2مہینوں میں بہت مصروف ہوں۔ اس لیے دیر کی معافی چاہتا ہوں‘‘۔
انسان کی معافی نے زیک کو متاثر کیا۔ اس نے کہا:
’’میرے دوست! اب آپ نیرنگ آباد کے سیکرٹری ہیں۔ شہزادی اقابلہ کا مشن یقیناً زیادہ اہم ہے۔ میں واقعی آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے مدد کے لیے یہاں آنے کا وقت نکالا‘‘۔
علی روئی نے زیادہ وضاحت نہیں کی۔ اس نے زیک کے کندھے پر تھپکی دی اور کہا:
’’ٹھیک ہے، ہم دوست ہیں۔ آئیے معدنیات دیکھتے ہیں‘‘۔
زیک فوراً علی روئی کو ایک صحن میں لے گیا۔ جہاں کچ دھاتوں کے تقریباً100 ٹکڑے پڑےتھے۔ ان پر کرسٹل پہلے سے زیادہ تھا۔ لوہار کے نقطہ نظر سے بنیادی طور پر بیکار کچ دھات تھے لیکن علی روئی کی آنکھوں میں بہت زیادہ چمک تھی۔
’’یہ تو بہت زیادہ کچ دھاتیں ہیں‘‘۔
زیک نے شرمندگی سے سر کھجاتے ہوئے کہا:
’’اگر پاؤڈر نہیں ہے تو خریدنے کے لیے حکیم سے کچھ پیسے لے کر دے سکتا ہوں‘‘۔
علی روئی نےسر ہلاتے ہوئے کہا:
’’فکر نہ کرو۔ میرے پاس کافی ہے‘‘۔
علی روئی نے فضلے کو خزانے میں تبدیل کرنے کا کام فوراً شروع کر دیا۔ زیک کی نگاہوں میں کچرے کی کچی دھاتوں پر پریشان کن کرسٹل جادوئی طور پر پاؤڈر میں بدل گئے۔ ان کچرے کی دھاتوں پر جتنے زیادہ کرسٹل تھے اتنی ہی زیادہ چمک فراہم ہوتی تھی۔ کچھ محنت کے بعد علی روئی نے 4000سے زیادہ اوراس کی کٹائی کی۔ کل رقم9,000 کے قریب تھی۔
علی روئی نےزیک سے پاؤڈر لیا اور کہا:
’’زیک! اگلی بار جب آپ معدنیات خریدیں گے تو مجھے بتائیں۔ جیسے ہی میرے پاس وقت نکلے گا میں آجاؤں گا‘‘۔
’’بہت بہت شکریہ‘‘۔
زیک نے سر ہلایا اور کہا:
’’میں اور میرا بھائی بھی ایک ساتھ بہت زیادہ معدنیات نہیں خرید سکتے۔ حالیہ برسوں میں کان کی صورتحال بہت خراب ہے۔ سنا ہے کہ کان کنی کے مین گڑھے پر چوروں نے قبضہ کر لیا ہے۔ اس کچرے کو کان کنوں نے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر مرکزی کان کنی سے حاصل کیا ہے‘‘۔
علی روئی کو اقابلہ سے معلوم ہوچکا کہ مغرب میں تجارتی راستہ چوروں کے کنٹرول میں ہے لیکن اسے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ بارودی سرنگوں پربھی کنٹرول حاصل کر لیں گے۔ اگرچہ ایک کچرے کی کان درجنوں اوراس فراہم کر سکتی ہے اور سیکڑوں سالوں سے جمع ہونے والے کچرے کی دھات یقینی طور پر کافی مقدار میں اوراس فراہم کرے گی۔ کہاوت ہے کہ:
’’بہت سے چھوٹے قطرے ایک سمندر بناتے ہیں‘‘۔
فی الحال وہ فلوروسینٹ پتھر جیسے جادوئی مواد کو فوری جمع کرنے میں مصروف تھا جس کی لاگت بہت زیادہ تھی۔ یہ بات طویل مدتی ترقی کے لیے موزوں نہیں تھی۔ دو ماہ کے امتحان میں کامیاب ہونے کے بعد اس نے کانوں کا دورہ کرنا تھا اور تمام کچرے کی دھاتوں کوحل کرنا تھا۔ اسے فضلے کو خزانے میں تبدیل کرنے کی کارروائی کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔
لوہار کی دکان چھوڑ کر علی روئی نے شمائلہ کے نئے کھلنے والے اسٹور کے بارے میں سوچا۔ گزشتہ دنوں فوری خصوصی تربیت کی وجہ سے وہ افتتاحی تقریب میں شرکت سے قاصر رہا۔ اب جب اس کے پاس کرنے کو کچھ نہیں تھا،اس طرف جانے کا پرورگرام بنایا۔
چوڑی گلی میں پہنچ کر وہ گلی کے آخر میں ابتدائی ’’عجیب‘‘ دکان کو دور سے دیکھ سکتا تھا جس پر3بڑے جادوئی الفاظ کے ساتھ ایک بہت بڑا سائن بورڈ تھا:
’’پرنسس پلازہ‘‘۔
سولہواں باب
پرنسس پلازہ
اقتدار کا سب سے قریبی رشتہ کاروبار سے ہوتا ہے۔
سائن بورڈ کا اثر برا نہیں تھا۔ علی روئی نے اس کی ضرورت سے زیادہ تعریف کی۔ جب وہ قریب پہنچا تو دیکھا کہ سٹور میں داخل ہونے اور نکلنے والے گاہکوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہو گیا ہے۔ پرنسس پلازہ میں چلتے ہوئے پہلے والےگندے انتظامات کو ایک ترتیب شدہ اور منظم ڈسپلے سےبہتر بنایا گیا ہے۔ کاگولی جو کسی زمانے میں لوگوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے ایک جھاڑی پکڑے ہوئے تھا، ’’سیکیورٹی روم‘‘ سے نمودار ہوا اور سامنے کی میز کے ویٹر کی جگہ ایک آئی پی اور ایک سوکیوبس بٹھا دیا گیا تھا۔امپ اپنی فصاحت اورسوکیوبس اپنی توجہ سے گاہکوں کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ ننھی شہزادی نے واقعی علی روئی کی رائے پر عمل کیا ہے۔
کاگولی نے علی روئی کو دیکھا۔ وہ بھی اپنے بھائی کاگورون کی طرح اقابلہ کی وفادار تھی۔ جب اس نے سکریٹری کو دیکھا جس پر شہزادی اقابلہ بہت بھروسہ کرتی تھی۔ اس نے ہلکا سا سر ہلایا۔ علی روئی کاگولی کو دیکھ کر مسکرایا اور دوسری منزل پر چلا گیا۔ شمائلہ کی شناخت کی وجہ سے علی روئی کا خیال تھا کہ پرنسس پلازہ کو بنیادی طور پر اعلیٰ درجے پر فوکس کرنے دیا جائے۔ پہلی منزل کی مصنوعات نسبتاً نچلے درجے کے صارفین کے لیے تھیں جب کہ دوسری منزل VIP فلور کا لگژری ورژن تھی۔ نہ صرف مصنوعات مہنگی تھیں بلکہ اس میں حفاظتی جادو کی پرتیں بھی تھیں جو ذاتی طور پر بوڑھے غوث نے ڈالی تھیں۔ یہ لوگوں کے برے ارادوں سے بچاتی ہیں۔ لہٰذا اس نے مصنوعات کو زیادہ پراسرار بنا دیا۔
پرنسس پلازہ میں سب سے پرکشش چیزیں بالکل دو مختلف شطرنجیں تھیں۔ ایک شہزادی شطرنج تھی۔ صارفین کی ضروریات کے مطابق اسے بگڑے ہوئے ورژن اور عام ورژن میں تقسیم کیا گیا تھا۔ جس چیز نے علی روئی کو شرمندہ کیا وہ خراب ورژن خریدنے والوں کی زیادہ تعداد تھی۔ دوسرا Peg’s Solitaire نہیں تھاجو ایک علیحدہ ’’گرینڈ حکیم لیول‘‘ کام تھا جسےعلی روئی کو ڈیمن سے لڑنے والی شطرنج نے فراہم کیا تھا۔ ڈیمنوں سے لڑنے والی شطرنج دراصل جانوروں سے لڑنے والی شطرنج تھی لیکن جانوروں کو بدروحوں میں بدل دیا گیاتھا۔ کل آٹھ بدروحیں تھیں۔ سب سے طاقتور بادشاہ تھا، درمیان میں ڈیمن نسبتاً کمزور تھے، سب سے کمزور سوکیوبس تھا لیکن سوکیوبس بادشاہ کو بہکا سکتا تھا۔ اس کے مطابق کچھ اصول اور نام بھی ایڈجسٹ کیے گئے۔ چونکہ ڈیمنوں سے لڑنے والی شطرنج کو سمجھنا آسان تھا اور اسے 2 کھلاڑیوں کے درمیان کھیلا جا سکتا تھا اس لیے اس کی مقبولیت شہزادی شطرنج سے کہیں زیادہ تھی جو پرنسس پلازہ کی معروف پراڈکٹ بن گئی تھی۔
چونکہ ننھی شہزادی کے پاس کاپی رائٹ کی خلاف ورزی کی ایک نظیر موجود تھی، اس لیے ان چیزوں کے کاپی ہونے کا بہت امکان تھا۔ اس کےلئے علی روئی نے برانڈنگ کا تصور متعارف کرایا۔ پرنسس پلازہ کی تمام چیزیں پر ایک خاص جادوئی لوگو تھا جو اس کا ٹریڈ مارک بھی تھا۔
شہزادی شطرنج اور ڈیمنوں سے لڑنے والی شطرنج کو ان کے معیار اور کاریگری کے مطابق نارمل اور لگژری ورژن میں تقسیم کیا گیا تھا۔ عام ورژن سستا تھا جس کی پشت پر پرنسس پلازہ کے جادوئی ٹریڈ مارک تھے۔ لگژری ورژن نہ صرف معیار کے لحاظ سے اعلیٰ تھا، اس میں عمدہ کاریگری بھی تھی۔ ٹریڈ مارک کے علاوہ اس میں شمائلہ کے ذاتی جادوئی دستخط بھی تھے۔ اسے ایک محدود ایڈیشن سمجھا جاتا تھا۔ قیمت واضح طور پر زیادہ تھی۔
دوسری منزل پر کچھ اور مصنوعات بھی تھیں۔ جہاں تک غیر صحت بخش کتابوں کا تعلق ہے جنہوں نے نوجوان لڑکیوں کی ذہنی صحت کو بری طرح متاثر کیا، وہ تمام ہٹا کر تلف کر دی گئی تھیں۔
سب سے مہنگی مصنوعات شاہی خاندان کا ’’محدود مجموعہ‘‘ تھا، جو بنیادی طور پر صرف گڑیا، بالوں کے پن اور دوسرے کھلونے یا ٹکڑے تھے جن کی قیمت مضحکہ خیز حد تک زیادہ تھی۔ البتہ وہ سب نازک طریقے سے سنبھالے گئے تھے. اس کے ساتھ نہ صرف خوبصورت پیکیجنگ تھی بلکہ ان چیزیں کی ’’تاریخ‘‘ کا بھی خاص طور پر ذکر کیا گیا تھا۔ مثال کے طور پرگڑیا ولی عہد شہزادہ گریم کو تاریک سورج کے بادشاہ نے ذاتی طور پر دی تھی اور بعد میں اسے ولی عہد نے شمائلہ کو دی۔ وہ ذاتی طور پر دیے گئے انعام کی وجہ سےانٹیک بن گئی تھی۔ پھرشمائلہ کی شناخت کے ساتھ کوئی بھی اس پر شک نہیں کر سکتا تھا۔
گڑ گڑاہٹ ان کے اندر بھی تھی۔ اس کی شناخت بھی بدل گئی تھی اور قدیم کیمیا گرینڈ حکیم کی طرف سے لوسیفر رائل فیملی کو دیا گیا ایک معجزاتی مجموعہ بن گیا تھا۔ مجموعی طور پر صرف دو ٹکڑے تھے اور اس پر آسمانی قیمت کے ساتھ ٹیگ کیا گیا تھا جو بنیادی طور پر تشہیر کے لیے تھا۔ بلاشبہ سامان جتنا مہنگا ہوگا تحفظ کا جادو اتنا ہی مضبوط ہوگا۔
نیرنگ آباد اسٹیٹ اصل میں ایک مشہور اور ہلچل مچانے والی جگہ تھی۔ وہاں امیرخاندانوں کی کمی نہیں تھی۔ تاہم حالیہ برسوں میں بتدریج زوال نے خاندانوں کی توجہ غیر ملکی جگہ پر مرکوز کر دی۔ اس کے باوجود برسوں میں جمع کی گئی بنیاد اب بھی موجود تھی۔ ان میں خرچ کرنے کی طاقت کی کمی بھی نہیں تھی۔ کلیدی کھپت کے لیے جگہوں اور مصنوعات کی کمی تھی۔ شمائلہ اور مایا دونوں دوسری منزل پر تھیں۔ ساتھ میںگریٹ ڈیمن شاپ اسسٹنٹ کے طور پر3خواتین بھی تھیں۔ شمائلہ اعلیٰ جذبے کے ساتھ بیٹھی بالکل کسی مالک کی طرح لگ رہی تھی۔ اپنی شناخت کی وجہ سے اسے زیادہ بات کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی، بس کبھی کبھار گاہک سے کچھ کہنا پڑتا تھا اور اس کا اچھا اثر بھی ہوتا تھا۔
سیڑھیوں پر سب سے پہلے علی روئی پر مایا کی نظر پڑی۔ اس کی آنکھوں میں اچانک عجیب سی چمک پیدا ہوئی۔اگرچہ یہ چمک لمحہ بھر کےلیے تھی لیکن علی روئی نے خود کو اس کی گرفت میں محسوس کیا۔
مایا کی آنکھیں فوراً ہی دلکش انداز میں بدل گئیں۔ اس نے قریب آ کر سرگوشی کی:
’’سکریٹری صاحب آپ یہاں ہیں؟‘‘۔
علی روئی کے کان میں پرجوش آواز اور اس کی ناک میں جانے والی عجیب سی خوشبو نے فوری طور پر اس کے ٹیسٹوسٹیرون کے اخراج کو تیز کر دیا۔ اس کی ہوس بڑھ رہی تھی جس سے لوگوں کے درمیان اسے شرمندہ ہونا پڑا۔رنگ والے میدان میں سوکیوبکس کے دلکش ٹیلنٹ کے بارے میں سوچتے ہوئے وہ اچانک سمجھ گیا کہ یہ سائرن اسے جان بوجھ کر دلکش بنا رہا ہے۔ تاہم یہ میدان والی سوکیوبکس سے کئی گنا زیادہ طاقتور تھی۔ اپنی موجودہ طاقت کے ساتھ اس کے پاس واقعی ایک ناقابل تلافی احساس تھا اس لیے اس نے جلدی سے اپنے دماغ پر توجہ مرکوز کی۔ اس سے پہلے کہ وہ بول پاتا، اس نے ننھی شہزادی کی حیرت زدہ آواز سنی:
’’علی روئی!کیا تم نے اپنا کام مکمل کر لیا ہے؟۔ کیا تم آج اسٹور پر مدد کرنے کے لیے آئے ہو؟‘‘۔
علی روئی نے سر ہلاتے ہوئے کہا:
’’ابھی تک نہیں۔ میں پچھلے کچھ دنوں سے بہت مصروف ہوں۔ آج کچھ آرام کر سکتا تھا تو سوچا دکان سے ہو آئوں۔ رات کو پھرمصروف ہو جائوں گا، کم از کم آدھے مہینے تک فری نہیںہوں۔
’’یہ کیا بات ہوئی؟‘‘۔
ننھی شہزادی مایوس دکھائی دی۔ ایسا لگتا تھا کہ اس کے پاس کہنے کو بہت سی باتیں ہیں۔ اس نے اپنی طرف دیکھتے ہوئے گاہکوں کی طرف دیکھا:
’’سٹور میں جیڈ ڈریگن فروٹ تقریباً بک چکا ہے۔ میں آپ کو حکم دیتی ہوں کہ میرے ساتھ نیلی جھیل تک جائیں تاکہ پھل چن سکیں‘‘۔
علی روئی نے خطرناک سائرن کے بارے میں سوچا جو کسی بھی وقت اس کی توجہ برباد کر سکتی تھا۔ وہ جان چکا تھا کہ آج اس کی نیت بھی خراب ہے۔ پہلی نظر نے بہت کچھ بتا دیا تھا۔، اس لیے اس نے کہا:
’’ضرور‘‘۔
شمائلہ نے خوشی سے کہا:
’’تو ابھی چلتے ہیں‘‘۔ ہم دونوں‘‘۔
علی روئی دنگ رہ گیا۔
فلورا اپنے ہائیر ڈیمن کی دیومالائی آگ کی مشق کر رہی ہے اور اسٹور مایا کے بغیر نہیں چل سکتا۔ شمائلہ نے عجیب انداز میں مسکرائی اور بولی:
’’تم ڈرتے ہو ؟۔۔۔میں تمہیں اکیلے میں کھا لوںگی ؟۔۔۔۔چلو ابھی چلتے ہیں!‘‘ ۔
علی روئی کو ڈر تھا کہ ننھی شہزادی اتنے سارے گاہکوں کے سامنے کچھ چونکا دینے والی بات نہ کہہ دے اس لیے اسے جانا پڑا۔
دونوں تین سینگوں والے گینڈے پر سوار ہو کر شہر کے دروازے سے باہر نکل گئے۔ شمائلہ اب اپنے دل میں جوش کو برقرار نہیں رکھ سکتی تھی۔ اس کے الفاظ پاپ کارن کی طرح پھٹ گئے۔
معلوم ہوا کہ چند روز قبل شہزادی ریٹیل سٹور کی ربن کاٹنے کی عظیم الشان تقریب میں اقابلہ کی شرکت کے بعد کاروبار تھوڑے عرصے میں کافی بہتر ہو گیا ہے۔ شروع میں یہ صرف اشرافیہ کی حمایت کرنے کے بنیادی ارادے کے ساتھ آتے تھے لیکن آہستہ آہستہ بہت سے لوگ صحیح معنوں میں دو قسم کی شطرنج خاص طور پر ڈیمنوں سے لڑنے والی شطرنج کی طرف راغب ہوئے۔ گاہک آہستہ آہستہ بڑھنے لگے اور عام لوگ بھی ان کی پیروی کرنے لگے۔ شہزادی ریٹیل سٹور کا برانڈ کامیابی کے ساتھ ترتیب دیا گیا تھا، خاص طور پر دو شطرنج کے محدود ایڈیشن کی فراہمی بہت کم تھی۔ روزانہ آنے والے جادوئی کرسٹل سکّوں کو دیکھ کر ننھی شہزادی دل کھول کر ہنسی۔
’’میرے پاس ایک اچھی خبر ہے۔2 میں سے1 برر پہیلی میلن خاندان کے سرپرست کو فروخت کر دی گئی ہے‘‘۔
علی روئی حیران رہ گیا۔
’’برر پہیلی کو آسمانی قیمت کے ساتھ ٹیگ کیا گیا ہے لیکن1اصل میں فروخت ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ میلن خاندان ہے۔ کیا میلن فیملی یوسف کی پارٹی کو سپورٹ نہیں کر رہی؟۔ انہوں نے ہمارا اتنا ساتھ کیوں دیا ہے؟‘‘۔
علی روئی کو بالآخر شمائلہ کی وضاحت سننے کے بعد احساس ہوا کہ میلن فیملی ایک مکینک فیملی تھی۔ سرپرست خود بھی ایک مکینک تھا لیکن خاندان کے بہت سے افراد نیرنگ آباد اسٹیٹ سے باہر ترقی کر چکے تھے۔ سب سے مشہور کارل میلن تھا جس نے مکینک حکیم کا خطاب حاصل کیا تھا۔ وہ اس وقت سرمانی سلطنت کا بادشاہ جوش ایلون کے لیے کام کر رہا تھا۔ میلن فیملی کے یوسف کی طرف ہونے کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی۔
’’برر پہیلی50,000 سیاہ کرسٹل سکوں میں فروخت ہوئی‘‘۔
اس بات پر ننھی شہزادی کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ ایسا لگتا تھا اس کے شاگرد ڈالر کے نشانات میں بدل گئے ہیں،
’’آؤ۔ ڈیمن سے لڑنے والی شطرنج اور شہزادی شطرنج کے ان محدود ایڈیشن کے ساتھ کچھ اور بناتے ہیں۔ یہ چیزیں بہت سارے پیسوں میں بک سکتی ہیں‘‘۔
’’نہیں‘‘۔
علی روئی کے الفاظ نے چھوٹے کنجوس کے فضول خیالات کو روک دیا۔
’’برر پزل اتنی زیادہ قیمت پر کیوں فروخت ہوئی؟۔ ڈیمن سے لڑنے والی شطرنج اور شہزادی شطرنج کا محدود ایڈیشن کم کیوں ہے؟۔ اسے نایاب کی قیمت کہا جاتا ہے۔برر پہیلی کو چھوڑو، لگژری اور نارمل ورژن کی گیم دراصل ایک جیسی ہے۔ صرف دستکاری مواد اور آپ کے دستخط میں فرق کے ساتھ، قیمت اصل میں چند گنا مختلف ہوجاتی ہے۔ اگر آپ صرف لاگت کو دیکھیں تو دونوں کے درمیان فرق زیادہ نہیں ہے۔ ایک بار مقدار میں بہت زیادہ اضافہ ہو جانے کے بعد سب سے اہم نایاب قیمت ختم ہو جائے گی۔ پھر قیمت لامحالہ گر جائے گی۔ کیا تم سمجھ گئی ہو؟‘‘۔
شمائلہ بہت چالاک تھی۔ فوراً سمجھ گئی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے اسے اچانک احساس ہوا اور اس کی دو بڑی آنکھوں میں ڈالر کے نشانات تعریف کرنے والے ستارے بن چکے ہیں۔
’’اوہ۔اچھا تو یہ بات ہے۔ انسان بھائی! آپ ہمیشہ سے حیرت انگیز ہیں۔ میں ہمیشہ آپ کی بات سنوں گی‘‘۔
’’آپ مجھے میری کمائی کا حصہ کب دیں گی؟‘‘۔
ایسا لگتا تھا کہ علی روئی کو ننھی شہزادی کے حتمی اقدام کے لیے ایک خاص استثنیٰ حاصل ہے۔ اس نے براہ راست لفظ ’’بھائی‘‘ کی ملکیت کو نظر انداز کیا۔
’’پیسے کے بارے میں بات کرنے سے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے‘‘۔
ننھی شہزادی کی خوبصورت بڑی آنکھیں مسلسل چمک رہی تھیں۔
’’میرے دل میں جو بھائی ہے وہ اتنا شوخ نہیں ہے‘‘۔
’’مسئلہ یہ ہے کہ آپ کے ساتھ احساسات کے بارے میں بات کرنا میرے بٹوے کے لیے بہت تکلیف دہ ہے‘‘۔
علی روئی میں اقابلہ کی قابلیت نہیں تھی اس لیے وہ اس طرح کی نگاہوں میں تھوڑا سا مغلوب تھا۔ ننھی شہزادی نے اسے چھیڑنا چھوڑ دیا اور موضوع بدل دیا۔ اس نے کہا:
’’پیسہ میری بہن لے گئی ہے۔ اگر تم چاہو تو میری بہن کے پاس جا سکتے ہو۔ اس کے علاوہ ۔۔۔میری بہن نے کہا، وہ دو ماہ بعد تمہیں مایادے گی‘‘۔
اقابلہ کا وعدہ پہلے سچا تھا، اور اس نے شمائلہ سے بھی کہا:
’’میں نے پہلے ہی مایاکو بتا دیا ہے لیکن وہ راضی نہیں لگ رہی‘‘۔
علی روئی نے مایا کی غیر دوستانہ نگاہیں اور اس کے موہک ہنر کو یاد کیا جب اس نے مایا کو دیکھا اور پھر سمجھ گیا۔
’’مایا واقعی بیوقوف ہے۔ تمہاری لونڈی ہونے میں اسے کیا حرج ہے؟‘‘۔
ننھی شہزادی مایوس دکھائی دے رہی تھی۔ اس نے انگلیوں پر گنتے ہوئے کہا:
’’وہ ہر روز تمہارے ہاتھ کا کھانا کھا سکتی ہے۔ جب وہ بور ہو گی تو آپ اسے کہانیاں سنا سکتے ہیں اور کچھ مزہ کر سکتے ہیں۔ جب اس کے پاس پیسے نہ ہوں تو آپ اس کے لیے ادائیگی کر سکتے ہیں‘‘۔
علی روئی خاموش تھا۔
’’ یہ کیسا بندہ ہے؟ ۔۔۔ حکیم سے زیادہ حکیم کی طرح ہے‘‘۔
جب ننھی شہزادی بولی تو اس نے ایک بار پھر پیاری شکل سی شکل بنا کر کہا:
’’بھائی! کیوں نہ میں آپ کی لونڈی بنوں؟‘‘۔
’’چھوٹی شہزادی! مذاق کرنا بند کرو۔ میں تم سے واقعی ڈرتا ہوں، ٹھیک ہے؟ جلدی کرو‘‘۔
’’علی روئی حیران رہ گیا اور تین سینگوں والے گینڈے کو تیزی سے دوڑنے کی تاکید کی۔ ننھی شہزادی کو کچھ محسوس ہوا اور وہ اپنے پہاڑ کے ساتھ اس کے پیچھے چلی گئی۔
ان دنوں علی روئی کو ہیلی کاپٹر نما وائیورنس کی عادت ہو گئی تھی اس لیے اب بس کی طرح تین سینگوں والے گینڈے پر سوار ہونا اتنا آرام دہ نہیں تھا۔ تقریباً ایک گھنٹے کے بعد تین سینگوں والے گینڈے جو تمام راستے دوڑتے رہے بالآخر منزل پر پہنچ گئے۔
وہ جگہ جہاں جیڈ ڈریگن فروٹ اگتا تھا وہاں سے زیادہ دور نہیں تھا جہاں سنکھیار رہنا پسند کرتا تھا۔ علی روئی کو ڈر تھا کہ زہریلا ڈریگن سلام کرنے کے لیے آگے آئے گا یا شمائلہ کو کوئی سراغ مل جائے گا، اس لیے اس نے جان بوجھ کر اونچی آواز میں کہا:
’’چھوٹی شہزادی! ہم یہاں ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ جیڈ ڈریگن فروٹ کو پہاڑی پر ہونا چاہئے؟‘‘۔
’’تم اس قدر بلند ی پرکیوں ہو؟‘‘۔
شمائلہ نے عدم اطمینان کے ساتھ تین سینگوں والے گینڈے سے چھلانگ لگا دی۔
’’کیا تم یہاں کچھ چھپا رہے ہو جس کے پتہ لگنے سے تم ڈرتے ہو؟‘‘۔
اس نے ٹھیک سمجھا! علی روئی کو ٹھنڈا پسینہ آ رہا تھا۔اس کی استدلال کی مہارت پھر سے ظاہر ہوتی ہے اور یہ اب بھی بہت مضبوط ہے۔ خوش قسمتی سے شمائلہ نے نتیجہ اخذ کرنا چھوڑ دیا۔ اس کے بجائے اس نے دلچسپی سے کہا:
’’ہم دوبارہ باربی کیو کیوں نہیں کرتے؟ بالکل اسی طرح جیسے پچھلی بار نیلی جھیل پر آئے تھے‘‘۔
علی روئی کا پکنک کا موڈ نہیں تھا اس لیے اس نے سر ہلایا اور کہا:
’’اگلی بار۔۔۔ابھی ہم جیڈ ڈریگن فروٹ چننے کے بعد واپس جائیں گے‘‘۔
میں ان دنوں بہت تھک چکی ہوں اورباہر نکلنا بہت کم ہوتا ہے‘‘۔
شمائلہ نے اپنے پھیلے ہوئے ہونٹوں کے ساتھ کہا:
’’کیا تم واقعی میرے ساتھ اکیلا رہنا پسند نہیں کرتے؟۔کیا تم کئی بار فلورا کے ساتھ جڑی بوٹیاں جمع کرنے نہیں آئے؟‘‘۔
یہ سن کر ایسا لگا جیسے ننھی شہزادی مشکوک انداز میں کچھ سوچ رہی ہے۔
’’کیا تم اور فلورا مجھ سے کچھ چھپا رہے ہو؟۔وہ بھی جب تمہارے بارے میں بات کرت ہے تو عجیب کیوں نظر آتی ہے؟‘‘۔
’’ایسی کوئی بات نہیں‘‘۔
علی روئی جانتا تھا کہ زہر دینے کے واقعے سے فلورا سب سے زیادہ پریشان تھی اس لیے شاید ننھی شہزادی نے کچھ غلط محسوس کیا۔
’’نہیں۔ کچھ گڑبڑ ضرور ہے‘‘۔
شمائلہ نے شک کی نظروں سے علی روئی کو دیکھا اور کہا:
’’میں ہمیشہ محسوس کرتی ہوں کہ آپ لوگوں کے درمیان کچھ غلط ہے۔ وہ پچھلے کچھ سالوں کے مقابلے میں اب زیادہ بلو شنگ ہے۔ میں اسے جانتی ہوں۔ کیا تم نے فلورا کو دھوکا دیا ہے؟‘‘۔
علی روئی نے جلدی سے اپنا سر ہلایا اور کہا:
’’میں ایسا کرنے کی ہمت کیسے کر سکتا ہوں؟۔ آپ حد سے زیادہ حساس ہیں۔ ویسے بھی آپ <مائنڈ ریڈنگ< کو نہیں جانتی ہیں۔آپ اس کے ذریعےجاننے کی کوشش کیوں نہیں کرتیں؟۔ کیونکہ میں بالکل سچ کہہ رہا ہوں‘‘۔
’’وہ <مائنڈ ریڈنگ>تمہیں پتہ ہے بہت پہلے تھی۔‘‘
ننھی شہزادی چھوٹی لومڑی کی طرح مسکرائی اور بولی:
’’مجھے اندازہ لگانے دو۔ کیا تم نے یہ سب فلورا سے سیکھا ہے‘‘۔
شمائلہ کے تاثرات کو دیکھ کر علی روئی نے بہت بے چینی محسوس کی۔ وہ بولی:
’’مجھے یاد ہے کہ آخری بار جب میں نے کہا تھا کہ میں <مائنڈ ریڈنگ< جانتی ہوں، تو تم خاصے گھبرا گئے تھے‘‘۔
شمائلہ نے جھنجھلا کر دیکھا جیسے وہ کچھ یاد کر رہی ہو۔ بولی:
’’مجھے لگتا تھا کہ یہ سب گرینڈ حکیم کی وراثت کے بارے میں ہے۔ ایسا کیسے ہو سکتے ہے کہ وراثت میں کچھ گڑ بڑ ہو۔آپ کہانی بہت اچھی سنا لیتے ہیں۔ کیا ایسا تو نہیں کہ یہ وراثت اوردلچسپ کہانیاں خود بھائی نے گھڑی ہوں؟۔
اس کی ریڑھ کی ہڈی میں سرد لہر دوڑ گئی۔ شمائلہ کے اتنے گہرے مشاہدے پر وہ حیران رہ گیا۔ اس سے پہلے کہ بلی تھیلے سے باہر آتی وہ بولا:
’’چھوٹی شہزادی! آپ کو واقعی کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ گرینڈ آقا کی وراثت نہ ہوتی تو اتنے سارے کام کیسے کر سکتا ہوں؟۔ مجھ میں زہر کا مقابلہ کرنے اور درندوں کو قابو کرنے کی صلاحیت کہاں سے آتی؟‘‘۔
’’یہ تمہاری شاید وہ ابتدائی قابلیت ہے جو تم نے دیومالائی دائرے میں آنے کے بعد حاصل کی ہے۔ لیکن تم نے جان بوجھ کر کسی خاص وقت کے انتظار میں چھپا رکھا ہے۔ مجھے لگتا ہے تم ایس سے بھی زیادہ مضبوط ہو سکتے ہو ، فلورا کی طرح‘‘۔
ننھی شہزادی نے اپنی آنکھیں تنگ کیں اور علی روئی کا جائزہ لیا، جیسے کوئی سی آئی اے افسر ہو۔ علی روئی ٹھنڈے پسینے میں نہایا ہوا تھا۔ ایسا لگتا ہے کہ استدلال اور مشاہدے کی مہارتیں لوسیفر فیملی کا سب سے طاقتور پوشیدہ ٹیلنٹ ہے۔ اس لحاظ سے ننھی شہزادی اپنی بہن سے10 گنا زیادہ طاقتور ہے جسے ایک خوبصورت غلط فہمی ہے۔
’’تو پھر مجھ سے اقرار کرو‘‘۔
شمائلہ کی اچانک اٹھنے والی پچ نے علی روئی کو چونکا د گویا ہوئی:
’’کیا اس وقت تمہارا میرے بارے میں کوئی برا ارادہ تھا؟‘‘۔
پھر اک نیا الزام، نئی شرارت۔ علی روئی نے پسینہ پونچھا۔اس سے پہلے کہ ننھی شہزادی نئے انکشافات کرتی، علی روئی اس کے پاس گیا اور بولا:
’’ بات یہاں تک آ گئی ہے تو میں سچ نہیں چھپاؤں گا۔ میں واقعی ننھی شہزادی کو پسند کرتا ہوں۔ میں جب بھی آپ کو دیکھتا ہوں تومجھے انسان دنیا کی اپنی بہن یاد آ جاتی ہے۔ جیسا کہ اس وقت میری چھوٹی سی زندگی ننھی شہزادی کے ہاتھ میں تھی۔ میں آپ کی طرف سے الزام تراشی کے خوف سے یہ کہنے کی ہمت نہیں کر رہا‘‘۔
’’ واقعی تم پسند کرتےہو؟‘‘۔
شمائلہ نے آنکھیں پھیلاتے ہوئے حیرت سے علی روئی کو دیکھا۔ اس کی جامنی آنکھوں کی عجیب چمک تھوڑی دیر کے لیے ٹم ٹماتی رہی اور سر نیچے کرتے ہوئے آہستہ آہستہ مدھم ہوتی گئی۔
’’تو اتنے عرصے سے میں تمہارے دل میں صرف ایک بہن ہوں؟‘‘۔
ننھی شہزادی نے اپنا سر نیچے کیا اور اس کا ہلکا کانپتا ہوا جسم رو رہا تھا۔ اس نے سر اٹھایا تو بڑی بڑی آنکھوں میں آنسو نہیں تھے بلکہ ایس الگ رہا تھا جیسے کچھ سوچ رہی تھی۔
اس کے بعد کے الفاظ۔۔۔۔ مجھے یاد نہیں آرہے۔۔۔ رکو، مجھے کچھ حوالہ دیکھنے دو۔
جیسا کہ شمائلہ نے کہااس نے اپنے خلائی کڑا چند کتابیں نکالیں اور ایک کو اٹھا کر سنجیدگی سے پڑھنا شروع کر دیا۔ علی روئی دنگ رہ گیا۔ جھک کر اس کتاب کا سرورق دیکھا۔
’’ممنوع اور بدکاری کے درمیان بھائی اور بہن۔۔۔۔۔۔بھائی ہم یہ نہیں کر سکتے‘‘۔
3کتابوں کے نام پڑھ کر علی روئی کا دریائے زرد کی طرح ٹھنڈا پسینہ بے قابو ہو گیا ۔ معلوم ہوا کہ پرنسس پلازہ میں موجود غیر صحت بخش کتابیں تلف نہیں ہوئیں بلکہ ننھی شہزادی نے چھپ کر چھپا دی ہیں۔
’’شمائلہ!‘‘۔
علی روئی نے کتاب اس کے ہاتھ سے لے لی اور بولا:
’’اس قسم کی کتاب مت پڑھیں! میں اسے شہزادی اقابلہ کو دوں گا‘‘۔
’’تمہاری ہمت!۔ شمائلہ نےبے اعتنائی اور غصے سے کہا۔ بولی:
’’جادو!۔۔۔۔جسے تم گھورتے ہو وہ حاملہ ہو جاتی ہے‘‘۔
علی روئی کا پورا جسم گھبرا ہوا تھا۔ جو کتاب اس نے پکڑی تھی شمائلہ نے فوراً واپس لےاور تمام کتابیں خلائی کڑے میں رکھتے ہوئے بولی:
’’اگرمیری بہن کو کچھ بتانے کی جرأت کی تو میں اسے بتا دوں گی کہ تمہارا مجھ پر برا ارادہ ہے‘‘۔
علی روئی پسینے سے شرابور تھا۔ اقابلہ کے ساتھ خوبصورت غلط فہمی ابھی تک حل نہیں ہوئی۔ اگر شمائلہ نے ایسا کیا تو سسٹر کون اور لولیکن کا لیبل آپس میں ٹکرائے گا۔ مجھے ڈر ہے کہ دو انتہاؤں کے درمیان اس تصادم سے ہونے والادھماکہ مجھ معصوم آدمی کو راکھ میں بدل دے گا۔
’’شہزادی شمائلہ! تم مجھے اس طرح فریم نہیں کر سکتی‘‘۔
علی روئی کو شکست تسلیم کرنی پڑی۔ بولا:
’’میں واقعی آپ سے ڈرتا ہوں۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں شہزادی اقابلہ سے شکایت نہیں کروں گا اور ہم ابھی پکنک شروع کریں گے، ٹھیک ہے؟‘‘۔
’’اگر تم پہلے کہہ دیتے تو کیا ٹھیک نہیں تھا؟‘‘۔
ننھی شہزادی میٹھی مسکراہٹ پھینکی اور اس کا پیارا چہرہ اچانک سرخ ہو گیا۔ بولی:
’’تم مجھےننھی شہزادی مت کہو۔ میں چاہتی ہوں براہ راست میرا نام پکارو‘‘۔
علی روئی جانتا تھا کہ یہ بھی انہی غیر صحت بخش کتابوں کی ایک سطر ہے۔ یہ بات ننھی شہزادی سے کوئی مماثلت نہیں رکھتی۔ اسے راضی ہوتے دیکھ کر شمائلہ خوشی سے اچھل پڑی۔
’’بھائی! جاؤ کچھ جیڈ ڈریگن فروٹ لے لو۔ میں یہاں پکنک کے اوزار تیار کرتی ہوں‘‘۔
لفظ ’’بھائی‘‘ جس طرح ننھی شہزادی کہہ رہی تھی بہت فطری لگ رہا تھا جس میں دکھاوے کی کوئی علامت نہیں تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ اس کی اداکاری بہتر سے بہتر ہوتی جارہی ہے۔ علی روئی کو تسلیم کرنا پڑا کہ وہ اچھی اداکارہ ہے۔
جیڈ ڈریگن فروٹ مخالف پہاڑی پر اگا۔ علی روئی ٹوکری لے کر چلنے لگا تو اچانک اسے لگاجیسے کوئی اس کا پیچھا کر رہا ہے۔ قدموں کی چاپ سنکھیار ی نہیں لگتی تھی۔ اس نے جان بوجھ کر کچھ گرانے کا ڈرامہ کیا اور اٹھانے کے لیے جھک گیا۔ اس نے کسی کو تیزی سے چٹان کے پیچھے چھپتے دیکھا۔ یہ دراصل شمائلہ تھی۔
’’ننھی شہزادی میرا پیچھاکیوں کر رہی ہے؟ ۔کیا اسے کچھ پتہ چل گیا ہے؟ یا وہ مجھ سے کوئی مذاق کرنا چاہتی ہے؟‘‘۔
بے شمار خیالات اس کے دماغ میں اڑ رہے تھے لیکن محسوس کیے بغیر آگے بڑھتا رہا۔ شمائلہ کی ٹریکنگ تکنیک بہت شوقیہ تھی۔ کبھی کبھی وہ نادانستہ طور پر آواز بھی نکال دیتی تھی۔ جس لڑکے کا سراغ لگایا جا رہا تھا وہ اس کے ساتھ چلا گیا اور کوئی غیر معمولی چیز نہ ملنے کے سے آگے بڑھا۔
جیڈ ڈریگن فروٹس جھاڑی نما درخت پر اُگےجلد نارنجی اور موٹی جلد کے ہوتے ہیںجن کے گودا سا ہوتا ہے۔ علی روئی بیٹھ گیا اور جیڈ ڈریگن فروٹ چننے لگا۔ <Analytical Eyes> کے اثر کے تحت وہ واضح طور پر محسوس کر سکتا تھا کہ ننھی شہزادی اپنے آپ کو ایک جگہ سے دوسری جگہ چھپا رہی ہے کیونکہ وہ آہستہ آہستہ قریب آ رہی تھی۔ جلد ہی شمائلہ اس کے پیچھے ایک درخت کی طرف لپکی۔ علی روئی نے اندازہ لگایا کہ ننھی شہزادی شاید مذاق کر رہی تھی اس لیے اس نے مزید پریشانیوں سے بچنے کے لیے ادھر نہیں گیا۔ جب شمائلہ پیچھے سےاس کے قریب آئی تو شدت سے ہوا کا ایک جھونکا سر کے پچھلے حصے سے ٹکراتا ہوا محسوس کیا۔
علی روئی کے لڑنے والے اعصاب فوری طور پر متحرک ہو گئے۔
’’چپکے سے حملہ؟‘‘۔
اس کی موجودہ طاقت انٹرمیڈیٹ ڈیمن کے درمیانی درجے تک پہنچ چکی تھی اس کے پاس بھرپور عملی تجربہ تھا۔ یہاں تک کہ اگر شمائلہ نے اپنا <ڈارک فلیم >استعمال کیا تب بھی وہ مقابلہ نہیں کر سکتی تھی مگر علی روئی نے حرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
’’پوم!‘‘۔
پھل چننے پر توجہ مرکوز کرنے والے شخص کو سر کے پچھلے حصے میں ایک زوردار دھچکا لگا اور وہ اچانک بے ہوش ہو کر زمین پر گر گیا۔ اس نے اپنے ہاتھ سے لکڑی کی چھڑی گرا دی اور علی روئی کے جسم کو بے چینی سے گھمایا۔
’’علی روئی! تم نہیں مرو گے۔ میں نے جان بوجھ کر حملہ نہیں کیا‘‘۔
’’جان بوجھ کر نہیں، لیکن آپ نے پھر بھی چپکے سے حملہ کیا‘‘؟ ۔
علی روئی جو بے ہوش ہونے کا ڈرامہ کر رہا تھا اندر ہی اندر اسے غصے سے ڈانٹ رہا تھا۔ اسٹار پاور کے دفاع کے ساتھ اس کی موجودہ الکید سطح فزیک کے ساتھ تھی۔ اسے زیادہ نقصان نہیں پہنچا حالانکہ وہ دھچکا ہلکا نہیں تھا۔ تاہم،اس لکڑی کے کلب نے حیران کن اثر کیا تھا جس سے اس کے دماغ کو اب تھوڑا سا چکر آ رہا تھا۔
علی روئی آنکھیں بند کر کے شمائلہ کی گرمجوشی محسوس کر رہا تھا۔ چھوٹا سا ہاتھ اس کی پیشانی کو چھو کر سانسیں چیک کررہا تھا، یہاں تک کہ دل کی دھڑکن سننے کے لیے اس نے اپنا سر اس کے سینے پر رکھ دیا۔ آخر کار اس بات کی تصدیق کے بعد سکون کا سانس لیا کہ علی روئی مرا نہیں رہا۔
’’حیرت انگیز جادوئی لکڑی کا کلب اب بھی کافی کارآمد ہے۔ بہت بری بات ہے کہ اسے چند بار استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اگلی بار میں بوڑھے غوث کو کہوں گی ایک اور بنادے‘‘۔
ننھی شہزادی نے اپنے آپ سے کہا۔ وہ نیچے جھک گئی، قریب آئی، مڑی، چند سمتیں بدلیں اور کچھ دیر اس کے جسم کو تلاش کرتی رہی۔
’’یہ کیا تلاش کر رہی ہے؟ ‘‘۔
علی روئی کو عجیب محسوس ہوا۔ اس کے پاس کوئی خزانہ نہیں تھا۔ اگر اس کے پاس کچھ ہوتا تو اسٹوریج میں رکھ آتا۔ وہ یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک اس کا پیٹ دھنس گیا۔ شمائلہ اس پر بیٹھی تھی۔
علی روئی نے آنکھیں کھولے بغیر ٹانگیں کھول کر بیٹھنے والی کو محسوس کیا جو اسے دلکش لگ رہا تھا۔شمائلہ آہستہ آہستہ نیچے جھک گئی ، دونوں جسم ایک دوسرے کے قریب آ گئے۔ اس کی گرم سانسیں علی روئی کے چہرے کے قریب محسوس ہوئیں۔ وہ تھوڑا سا نروس بھی لگ رہا تھا۔ علی روئی اس کے جسم سے آنے والی دھندلی خوشبو اور جسم کے گرم درجہ حرارت کو سونگھ سکتا تھا جس نے اس کا دل دیوانہ بنا دیا تھا۔
شمائلہ کی تیز سانسیں قریب آ رہی تھیں۔ وہ کچھ دیر ہچکچاتی نظر آئی پھر نرم و گرم ہونٹوں سے علی روئی کے ہونٹوں کو چھو لیا۔ علی روئی کا دماغ اڑ گیا۔ ایک عجیب سا احساس اس کے پورے جسم میں پھیل گیا۔ تھوڑی دیر کے لیے اس کا دماغ ہر سوچ سے خالی ہو گیا۔ ہوش آیا تو اسے یاد آیا کہ دوسرے جنم کے بعد میرا پہلا بوسہ بالکل اسی طرح کھو گیا تھا۔ شمائلہ اس سے زیادہ بے چین لگ رہی تھی۔ اس کا جسم کانپ رہا تھا۔ اس کے ہاتھ جن سے وہ زمین پر سہارا لیے ہوئے تھی، بے اختیار ہو گئے اور اس کا نرم جسم اس پر لیٹ گیا۔ علی روئی نے دوسرے جنم کے بعد اپنے پہلے بوسے کے ہدف کے بارے میں تصور کیا۔ پرجوش فلورا، دلکش مایا اور یہاں تک کہ برفیلی بہار کی شاہی بہن اقابلہ بھی تھی لیکن شمائلہ یقینی طور پر ان میں سے نہیں تھی۔اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اس کی دوسری زندگی کا پہلا بوسہ شمائلہ سب سے چھین لے گی۔ سب خوبصورت تصورات اور شہوت انگیز خواہشات کی بے رحم لاٹھی سے کچل دیے گئے۔
ننھی شہزادی نے ایک بار پھر جستجو شروع کر دی۔ وہ اس بار واضح طور پر زیادہ ہنر مند دکھائی دے رہی تھی۔ اس کے کے نرم ہونٹوں نے حسین احساس میں مبتلا کر دیا۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ برا نہیں ہے، تاہم ایک خاص حصے میں ہلچل شروع ہو گئی۔
’’نہیں۔ اسے منع کرنا ہوگا ورنہ کچھ برا ہو جائے گا‘‘۔
ننھی شہزادی ہلکی سی اٹھ کر بیٹھ گئی اور علی روئی نے کتابیں پلٹنے کی آواز سنی۔ اس نے فوراً خلا میں رکھی غیر صحت بخش کتابوں کے بارے میں سوچا۔ یہاں تک کہ سرورق کو دیکھے بغیرکتاب کے نام کا اندازہ لگا سکتا تھا۔
’’یقینی طور پرمیں ان غیر صحت بخش کتابوں کا عملی ہدف بن گیا ہوں‘‘۔
تھوڑی دیر بعد پھر سے خوشبو آنے لگی۔ اس بار ننھی شہزادی نے اپنی زبان پھنسائی۔ علی روئی جوبظاہر بے ہوش تھا عقل مندی سے کام لیتے ہوئے دانت مضبوطی سے بھینچ لیے۔
شمائلہ کی گیلی زبان تھوڑی دیر کے لیےادھر رہی۔ پھر اسے تھکن کا احساس ہوا اور وہ اس کے سینے سے ٹیک لگا کر ہانپنے لگی۔ننھی شہزادی کو اپنے کولہوں میں غیر معمولی پن محسوس ہوا تو تجسس سے اٹھ کر بیٹھ گئی۔ وہ دیکھنا چاہتی تھی کہ کیا ہوا ہے۔ علی روئی جانتا تھا کہ اب وہ دکھاوا نہیں کر سکتا۔ اگر شمائلہ صحیح معنوں میں انسانی مرد کی ساخت کا علمی طور پر مطالعہ کرنا چاہتی تھی تو اسے یقین نہیں تھا کہ وہ اپنی کنوارے پن کو محفوظ رکھ سکتا ہے۔
علی روئی نے تھوڑی سی حرکت کی،جمائی کا بہانہ کیا اور خشک گلے کو نمی بخشنے کے لیے تھوک نگلی۔ یقینی طور پر جب وہ حرکت میں آیا تو ننھی شہزادی اس کے جسم سے اس طرح اچھل کر دور ہو گئی گئی جیسے اسے کرنٹ لگ گیا۔ یہ رفتار جیس کی رفتار سے کم نہیں تھی۔ علی روئی نے بیدار ہونے کا بہانہ کرتے ہوئے دھندلی آنکھیں رگڑیں۔
’’اوہ، شمائلہ، تم یہاں کیوں ہو؟‘‘۔
شمائلہ یہ دیکھ کر بھاگنا چاہتی تھی لیکن اس کا سوال سن کر وہ جلدی سے پلٹ آئی اور مسکرا کر بولی:
’’میں نے دیکھا کہ تم ابھی تک واپس نہیں آئے تو ڈھونڈنے چلی آئی۔ تمہیں یہاں بے ہوش پایا تو مدد کرنے لگی‘‘۔
ننھی شہزادی بہت پرسکون لگ رہی تھی لیکن اس کے چہرے کی شرمندگی چھپ نہیں سکتی تھی۔ وہ سبز سیب کی طرح تھی۔
علی روئی کے ہونٹوں کے درمیان ایک قسم کی گرمی تھی اور اس کے دل میں ایک ناقابل بیان احساس تھا۔ اس نے سختی سے سر ہلایا اور تمام عجیب و غریب خیالات کو جھٹک دیا۔ اس نے کہا:
’’آپ کا شکریہ، شہزادی شمائلہ!۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ کیا ہوا۔ میں نے اچانک اپنے سر کے پچھلے حصے میں دباؤ محسوس کیا، پھر مجھے کچھ یاد نہیں رہا۔ میں اب بھی ایک طرح سے چکرا رہا ہوں۔ آئیے جیڈ ڈریگن فروٹ چنیں اور فوراً واپس چلیں۔ ہم اگلی بار پکنک منائیں گے۔ ٹھیک ہے؟‘‘۔
ننھی شہزادی مجرم تھی، اس لیے اس نے اصرار نہیں کیا اور اثبات میں سر ہلا دیا۔ جب دونوں مڑ کر چلے گئے تو انہیں ایک بے ساختہ قہقہہ سنائی دیا۔ شمائلہ نے مشکوک نظروں سے ادھر ادھر دیکھا لیکن اسے کچھ نہیں ملا۔ علی روئی نے ایسا کام کیا جیسے اس نے کچھ سنا ہی نہ ہو لیکن وہ دل ہی دل میں شدید لعنت بھیج رہا تھا۔سنکھیار اس سارے وقت ہمیں دیکھ رہا تھا۔
نیرنگ آباد پہنچ کر ننھی شہزادی نے علی روئی کو چھوڑا اور غصے سے سیدھا پرنسس پلازہ کی طرف بھاگی۔
علی روئی حیران رہ گیا کیونکہ شمائلہ کے ناخوش ہونے کی وجہ بہت سادہ تھی۔ راستے میں ننھی شہزادی کافی دیر تک بات چیت سے گریز کرتی رہی۔
جب علی روئی رات کو خصوصی تربیت کے لیے نیلی جھیل پر گیا تو سنکھیار اس پر بے شرمی سے ہنسایا۔ نفرت انگیز زہریلے ڈریگن نے شمائلہ کی آواز کی نقل بھی کی اور اسے ’’بھائی ‘‘ کہا۔ اس نے انسان کو مذاق بنا دیا اور وہ اپنی جان سے سنکھیار سے لڑتا رہا۔
آخر میں زہریلا ڈریگن واپس اصل موضوع پر آیا اور علی روئی سے گزشتہ رات کی فتح کے بارے میں تفصیل سے پوچھا۔ اگلا مخالف بالروگ، ریکا تھا۔ معلومات کے مطابق ریکا مضبوط جسم اور دفاعی صلاحیتوں کاحامل تھا۔ اس کا مطلب بے رحم تھا۔ وہ میدان میں سب سے مضبوط انٹرمیڈیٹ ڈیمن تھا۔
ریکا مشہور تھالیکن علی روئی پہلی دو لڑائیوں کے بعد بہت زیادہ پراعتماد ہو گیا تھا۔ اس بات کا ذکر کرنے کی ضرورت نہیں کہ اس کا سب سے مضبوط اقدام، <Aurora Shot> اب بھی استعمال نہیں ہوا تھا۔
الکیدمیں ’’کنکال‘‘ کی مضبوطی نے علی روئی کے دفاع کو بہت زیادہ بڑھا دیا تھا۔ اگر مستقبل کی خصوصی تربیت میں تنت ’’پٹھوں‘‘کو ’’کنکال‘‘ کی طرح مضبوط کیا جاسکتا ہے تو یقینی طور پر اس کی طاقت ایک اور سطح پر پہنچ جائے گی۔ اہم بات یہ تھی کہ وہ آج کی ڈیل سے کتنی چمک حاصل کر سکتا ہے۔ اگلے دن، علی روئی جو ایک چادر میں تھا، بیس کیمپ آیا۔ بوڑھا بونا پہلے ہی وہاں انتظار کر رہا تھا۔
علی روئی نے پوچھا:
’’کیا تم نے کالاری سے رابطہ کیا؟‘‘۔
بوڑھے بونے نے جواب دیا:
’’میں پہلے ہی رابطہ کر چکا ہوں۔ تاہم جس نے پیغام پہنچایا وہ اس کا سب سے طاقتور ماتحت گراؤ ہے۔ اس نے2گھنٹے کا وقت دیا ہے‘‘۔
’’جیسی کہاں ہے؟‘‘۔
بوڑھے بونے نےاکتا کر کہا:
’’وہ صبح سویرے یہ کہہ کر باہر گیا کہ ہمیں اس کا انتظار نہیں کرنا پڑے گا اور وقت پر آ جائے گا۔ مجھے خدشہ ہے کہ یہ لڑکا پیسے لے کر بھاگ جائے گا‘‘۔
علی روئی نے آہستگی سے کہا:
’’وہ ایسا نہیں لگتا۔مجھے یقین ہے وہ عین وقت پر آ جائے گا‘‘۔
اسی لمحے کالاری کی پارٹی نے پیغام دیا جس میں حکیم اور جمرال کو جنوب مشرقی علاقے کی چوتھی گلی میں واقع قدیم گھر میں جانے کو کہا گیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ انہیں ڈر ہے کہ ہم چالیں کھیلیں گے، اس لیے ہم میں سے صرف دو کو جانے کی اجازت ہے۔
’’قدیم گھر؟۔ وہ کالاری کا گھونسلہ ہے! اس آدمی کی شہرت ہمیشہ سے بہت خراب رہی ہے۔
’’حکیم ! آئیے اس معاہدے کو بھول جائیں‘‘۔
بوڑھا بونا بے چین دکھائی دے رہا تھا۔ بولا:
’’اس نازک لمحے میں لاپتہ ہونے کا سارا قصور جیسی کی ہے‘‘۔
علی روئی بولا:
’’چلو چلتے ہیں۔ تم رہنمائی کرو‘‘۔
’’حکیم !‘‘۔
بوڑھا بونا کانپ گیا۔ وہ اب بھی قائل کرنا چاہتا تھا۔
’’مجھے فلوروسینٹ پتھر لانے ہیں‘‘۔
علی روئی نے مڑ کر بوڑھے بونے کی طرف دیکھا:
’’یہ تمہارا آخری امتحان ہے۔ اگر تم نے ہمت نہیں کی تو میں تمہیں مجبور نہیں کروں گا۔ تاہم آئندہ مجھے حکیم مت کہو‘‘۔
بوڑھا بونا چونک گیا۔اسے پچھلے دنوں کی بیٹی کے ساتھ مشکل زندگی یاد آئی۔ اس نے منگول کے ساتھ ملاقات اور اپنے ’’مالک ‘‘کے بھروسے کے بعد بڑی تبدیلی کے بارے میں سوچا۔ اس نے کچھ دیر اپنے دماغ میں سوچا، دانت پیستا رہا اور آخر کار آگے بڑھ گیا۔
کالاری کا گھونسلہ واقعی آسان نہیں تھا۔ چوتھی گلی اس کے آدمیوں سے بھری ہوئی تھی۔ زیادہ تر عضلاتی، بدصورت لوگ۔ بوڑھا بونا چلتے چلتے مزید ڈرتا جا رہا تھا۔ چونکہ وہ پہلے سے موجود تھا اس لیے اسے آگے بڑھنے کے لیے خود کو مجبور کرنا پڑا۔ اس قدیم گھر کا صحن کافی بڑا تھا۔ یہ ایک ولاکی طرح تھا۔ انہوں نے کالاری کو ایک ہال میں دیکھا۔ وہ ایک ادھیڑ عمر کا لیچ تھا۔ اگرچہ اس کا جسم پتلا تھا لیکن ایک جادوئی چمک اس کو گھیر رہی تھی۔ اس نے اپنے بازوؤں میں ظاہری لباس کے ساتھ ایک دلکش سوکبس پکڑ رکھا تھا۔ کالاری کے ساتھ ایک مضبوط سینٹور تھا۔ وہ کالاری کا سب سے مضبوط لڑاکا تھا۔ اس کی طاقت عام سینٹورس کی چوٹی تک پہنچ گئی تھی۔
علی روئی نے پہلے ہی <Analytic Eyes> کو فعال کر دیا تھا۔ اس نے ظاہر کیا کہ کالاری اور گراؤ کی طاقت E تھی۔ دوسرے لفظوں میں وہ سب انٹرمیڈیٹ ڈیمنز تھے۔ آس پاس اب بھی ای لیول کی طاقت والے کئی ڈیمن موجود تھے اور ان میں سے دو دونوں اطراف کے ستونوں کے پیچھے چھپے ہوئے تھے۔
جیسی کے ساتھ جنگ میں علی روئی نے <Analytic Eyes> کے اسرار کو مزید بھانپ لیا۔ نہ صرف یہ طاقت کا اندازہ لگا سکتا ہے اور دیومالائی درندوں کے ساتھ بات چیت کر سکتا ہے بلکہ چھپے ہوئے دشمنوں کو تلاش کرنے کے لیے ایک سراغ رساں کے طور پر بھی کام کر سکتا ہے۔ تاہم مؤثر فاصلے پر کچھ پابندیاں تھیں۔
کالاری صوفے پر بیٹھا تھا جب اس نے سوکبس کی طرف سے پلائی گئی شراب کا ایک گھونٹ لیا۔ اس کے پرندے کے پنجوں جیسی ہتھیلی سوکبس کے بوسیدہ سینے کو سہلا رہی تھی۔ اس نے لاپرواہی سے پوچھا:
’’تو کیا تم چاق و چوبند گینگ کے لیڈر ہو؟‘‘۔
’’یہ ٹھیک ہے‘‘۔
علی روئی نے سیدھا موضوع پر بات کی اورپوچھا:
’’میں نے سنا ہے کہ آپ کے پاس فلوروسینٹ پتھروں کی کھیپ فروخت کے لیے ہے‘‘۔
’’کیا آپ کو یقین ہے کہ آپ اسے برداشت کر سکتے ہیں؟‘‘۔
کالاری کا لہجہ غیر پوشیدہ حقارت سے بھرا ہوا تھا، بولا:
’’پیسے لائے ہو؟‘‘۔
علی روئی نے ایک تھیلا نکالا۔ ایک تجربہ کارشخص کی طرح اسے سکوں کی آواز نے بتا دیا کہ تھیلے میں کتنے سیاہ کرسٹل سکے تھے۔
اپنے مالک کو اتنی جلدی پیسے نکالتے دیکھ کر بوڑھے بونے کا دل بے چین ہوا، لیکن بولنے کی ہمت نہ ہوئی۔
’’آپ کے پاس خلائی سامان بھی ہے‘‘۔
’’کالاری کی آنکھوں نے اپنا لالچ ظاہر کیا:
’’15 اعلیٰ معیار، 30 درمیانے درجے کے، اور 50 کم معیار۔ کل 2000 سیاہ کرسٹل سکے، اگر تم چاہتے ہو تو مجھے پیسے دو‘‘۔
بوڑھے بونے جمرال نے سنا کہ یہ اصل قیمت سے3 گنا زیادہ ہے اور جادو کی دکان میں ری ٹیل کی قیمت ہے، وہ مدد نہ کر سکا اور علی روئی کی چادر کھینچ کر بولا:
’’حکیم !‘‘۔
علی روئی نے سکون سے قیمت مانگی:
’’ایسا غیر مقبول اسٹاک زیادہ قیمت پر نہیں بک سکتا۔ میں 600 سیاہ کرسٹل سکوں کے ساتھ سب کچھ لوں گا‘‘۔
’’تم میرے علاقے میں سودا کرنے کی ہمت کر رہے ہو؟‘‘۔
کالاری کو ایک لطیفہ لگ رہا ہے۔ کالاری کی باتوں کے ساتھ ساتھ اس کی بانہوں میں سوکبس بھی مسکرائی۔ آس پاس کے ماتحت بھی قہقہوں سے پھوٹ پڑے۔ گراؤ خاموش تھا۔ وہ اپنے اردگرد غور سے دیکھ رہا تھا۔ کالاری نے قہقہہ لگایا اور بولا:
’’میں نے اب اپنا ارادہ بدل لیا ہے۔ 5000 سیاہ کرسٹل سکے اور آپ کا خلائی سامان‘‘۔
علی روئی نے سر ہلایا:
’’یہ بہت مہنگا ہے۔ میں اس قیمت پر نہیں لے سکتا‘‘۔
’’کس نے کہا کہ فلورسنٹ پتھر کی قیمت ہے؟ میں فلوروسینٹ پتھروں کو فروخت کرنے کا بالکل بھی ارادہ نہیں رکھتا‘‘۔
کالاری نے طنز کیا:
’’ تم میں سے دو کی زندگیاں کے برابر قیمت ہے۔ چونکہ تم راضی نہیں ہو، تو یہیں مر جاؤ‘‘۔
جیسے ہی کالاری نے اپنی بات مکمل کی دونوں طرف سے ستونوں کے پیچھے چھپے ہوئے محافظوں نے اچانک گھات لگائی۔ علی روئی کو کافی دیر سے اندازہ تھا۔ اس نے اپنے پاؤں جھاڑ لیے لیکن اس کا پہلا نشانہ دراصل بوڑھا بونا تھا۔ کک کی طاقت کو اچھی طرح سے کنٹرول کیا گیا تھا۔ بوڑھے بونے کو پیچھے کی طرف لکڑی کی الماری کے نیچے گرا دیا گیا۔
اس وقت،دونوں اطراف کے محافظ پہلے ہی پہنچ چکے تھے۔ چادر مڑ گئی۔
’’پوم‘‘۔
اس سے پہلے کہ دونوں ایک پنسر حملہ کرتے وہ پہلے ہی پیچھے ہٹ چکے تھے۔ ان میں سے ایک ستون سے ٹکرا یا اور بمشکل خود کو سنبھال سکا۔ یہاں تک کہ مضبوط ستون پر دراڑیں پڑ گئیں۔ دونوں صرف ابتدائی مرحلے کے انٹرمیڈیٹ ڈیمن تھے جوخونی ہاتھ لارنس سے بہت کمتر تھے۔ اس طرح قدرتی طور پر علی روئی کے چارج شدہ بھاری دھچکے کو نہیں روک سکے۔ علی روئی زیادہ تر ان مخالفین سے لڑتے تھے جو خود سے زیادہ طاقتور تھے اس لیے اب وہ ان لوگوں سے لڑنے کے بعد اپنی بہتری کو واضح طور پر محسوس کر سکتا تھا۔
سینٹور گراؤ حملہ کرنے ہی والاتھا کہ اچانک ایک شخصیت چھت پر لگے جادوئی فانوس سے نیچے کود گیا۔ یہ کالاری کے سر کی طرف روشنی کی طرح تیزی سے چارج ہو رہا تھا۔ گراؤ کا ردعمل انتہائی تیز تھا جب اس نے کالاری کو اوپر کھینچا اور خطرے سے بچنے کے لیے اسے کئی میٹر دور پھینک دیا۔اس دوران کو جنگجو نمودار ہوئے <Afterimage> نکلے۔ حقیقی حتمی اقدام گراؤ کی پیٹھ پر نمودار ہوا۔ سینٹور نے اپنی پیٹھ میں سردی محسوس کی۔گراؤ کی طاقت پہلے ہی سب سے اونچے درجے پر پہنچ چکی تھی، لہٰذا جب اس نے پوری طاقت سے اپنے جسم کو اکٹھا کیا تو ہتھیار کا صرف 3/10 حصہ ہی گھس سکا۔ جب گراؤ حملہ کرنے کے لیے مڑا تو قاتل پہلے ہی بہت دور بھاگ چکا تھا۔ جیسے ہی قاتل پیچھے ہٹا، دوسری چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔ دوسرے دو آدمی مر گئے۔ اگرچہ قاتل نے گراؤ کو زخمی کیا لیکن اس نے خود کو بھی بے نقاب کیا۔ گراؤ نے اپنی پیٹھ سے خون صاف کیا۔ اس کی بھیانک آنکھیں اس سیاہ ایلف کو گھور رہی تھیں جس نے اس کی جان لینے کی کوشش کی تھی۔ اس نے ایک نام سوچا، دانت پیس کر کہا:
’’کوئیک ولف جیسی!‘‘۔
توقع کے عین مطابق جیسی پہنچا۔
’’یہ میدان کا سب سے مضبوط درمیانی درجے کا لڑاکا ہے‘‘۔
کالاری چونک گیا۔ اس نے سوکبس کو دھکیل دیا جو اس کی مدد کرنا چاہتا تھا۔ اس نے اٹھ کر کہا:
’’جیسی! تم کو منگول سے کتنا فائدہ ہوا؟ ۔تم نے واقعی مجھے اکسانے کی ہمت کی؟‘‘۔
جیسی ہجوم کے درمیان سے بھاگتا ہوا دو دھارے خنجر سے زندگیاں کاٹ رہا تھا۔ اگرچہ کالاری کے ٹھگوں میں انٹرمیڈیٹ ڈیمن بھی تھا لیکن جیسی کا تجربہ اور ذرائع ان اوسط ڈیمنوں سے بہت ۔ پلک آگے تھا۔ پلک جھپکتےہی کئی لاشیں زمین پر پڑی تھیں، جس سے باقی لوگ خوف زدہ ہو گئے۔
جیسی نے اپنے جسم کو روکا اور دھیمے سے جواب دیا:
’’30سیاہ کرسٹل سکے‘‘۔
میں ڈبل قیمت ادا کروں گا،300سیاہ کرسٹل سکے۔ کالاری نے ہاتھ ہلایا اور سکے کی تھیلی جیسی کی طرف پھینکی:
’’میرے لیے منگول کو مار ڈالو‘‘۔
جیسی نے سکے کا تھیلا وصول کیا اور علی روئی کی طرف دیکھا۔ اس نے محسوس کیا کہ ماسک کے پیچھے کی آنکھیں نہیں ہل رہی تھیں۔ سیاہ ایلف نے اپنی ابرو اٹھا کر سکے کا تھیلا علی روئی کی طرف پھینکا:
’’میرے پاس خلائی سامان نہیں ہے۔ اسے تھوڑی دیر تک اپنے پاس رکھیں‘‘۔
علی روئی نے اتفاق کیا اور پیسوں کا تھیلا فوری طور پر اس کے ہاتھ سے غائب ہوگیا۔ ماسک کے پیچھے مسکراہٹ تھی۔ یہ جیسی کافی دلچسپ ہے۔
کالاری کو توقع نہیں تھی کہ سیاہ ایلف اس کی مہربانی کی تعریف نہیں کرے گا۔ اس نے دانت پیس کر کہا:
’’لعنت ہوجیسی!۔تم میدان میں تھوڑی مشہور ہو۔ تمہاری ہمت کیسے ہوئی مجھے نظر انداز کرنے کی، سر سالار کو‘‘۔
’’میرا خیال ہے کہ تم پچھلے کچھ دنوں سے میدان میں نہیں آئے‘‘۔
جیسی نے اپنے ہاتھوں کوسے کام لیتے ہوئے مزید دو کو مار گرایا اور کہا:
’’میری زندگی پہلے ہی منگول سے ہار چکی ہے‘‘۔
کالاری حیران رہ گیا۔ اس کی نظر غیر معروف تہہ دار گینگ کے سرغنہ پر پڑی۔ دروازے پر ایک بدروح تھا جو پہلے ہی سمجھ چکا تھا:
’’یہ سچ ہے! منگول نمبر64 ہے! وہ طاقتور جس نے جیسی اور لارنس کو شکست دی تھی‘‘۔
’’نمبر 64! ‘‘۔
کالاری حیران رہ گیا اور تہہ دار گینگ کے بارے میں اپنی معلومات پر افسوس کرنے لگا۔چونکہ دونوں جماعتوں نے اس حد تک منہ موڑ لیا تھا، اس لیے نقصان بہت زیادہ ہونے کے باوجود اسے ان دونوں کو ختم کرنا پڑا، ورنہ وہ نیرنگ آباد میں اپنا مقام کھو دے گا۔
’’ان سے جان چھڑاؤ۔ گراؤ!تم جیسی کے ساتھ نمٹو، باقی سب مل کر منگول سے نمٹیں گے‘‘۔
کالاری نے سوچا اور فوراً قتل کا حکم دے دیا۔ گھر کے باہر سے لاتعداد آدمی مسلسل اندر داخل ہونے لگے۔ کالاری بڑبڑاتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا۔ اچانک گراؤ کے جسم پر ہلکی سی سبز چمک نمودار ہوئی۔ گرین لائٹ کی مدد سے گراؤ جیسی کی طرف لپکا اور اس کی رفتار اچانک بڑھ گئی۔ یہ ایک ہنر تھا جسے ہوا کے جادو کا <Accelerate> کہا جاتا ہے، جو دفاعی قیمت پر رفتار کو بہت زیادہ بڑھا سکتا ہے۔ تاہم یہ گراؤ کے لیے سب سے موزوں حربہ تھا جب جیسی کمزور طاقت والے شخص کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جیسی جانتا تھا کہ گراؤ انٹرمیڈیٹ ڈیمن کے عروج پر تھا جو اس سے زیادہ طاقت رکھتا تھا۔ مزید یہ کہ وہ <accelerate> سے متاثر ہوا، اس لیے اس نے توقف کیا اور توجہ مرکوز کی۔
علی روئی نے اپنی رفتار کا استعمال کرتے ہوئے تیزی سے حرکت کی اور آہستہ آہستہ کالاری کے قریب پہنچ کر بھیڑ کے گرد حملہ کیا۔ کالاری جادو کا استعمال کرتے ہوئے جیسی کی رفتار میں مداخلت کر رہا تھا جس کی وجہ سے جیسی ایک خطرناک صورتحال میں پڑ گیا۔ جب کالاری نے علی روئی کے ارادوں کو دیکھا تو وہ چونک گیا۔
چونکو منگول بہت تیز تھا اور وہ ہجوم میں گھل مل گیا تھا، کالاری اپنی روحانی طاقت کا استعمال اس پر جادو کرنےکےلیے نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے کچھ سوچا، پھراپنے دونوں ہاتھ ہلائے۔ ایک بجلی کہیں سے نمودار ہوئی، سیدھی بھیڑ پر ٹکرا گئی۔ بجلی سب سے پہلے علی روئی کے قریب ایک ڈیمن سے ٹکرا گئی۔ ڈیمن کو فوری طور پر بجلی کا کرنٹ لگا اور وہ جلے ہوئے جسم کے ساتھ گر گیا، بجلی زنجیروں سے لپٹی ہوئی تھی۔ اس نے ایک اور ڈیمن کو مارا اور تیسرا حملہ علی روئی پر کیا۔
علی روئی کا جسم کانپ رہا تھا اور اس کے عضلات غیر ارادی طور پر مفلوج ہو گئے تھے۔ اس کے ساتھ والاڈیمن بھی زمین پر گرا تھا۔ وہ تھا <چین لائٹننگ>۔ یہ قریبی 4 لوگوں پر حملہ کر سکتا ہے چاہے وہ اتحادی ہوں یا دشمن۔ منگول کو <chain Lightning> کی زد میں آتے دیکھ کر باقی ڈیمنوں نے فائدہ اٹھایا اور علی روئی کی طرف بھاگے۔ ایک ہی وقت میں، لاتعداد مکے اور لاٹھیاں براہ راست علی روئی پر برسنے لگیں۔
علی روئی نے غصے سے سانس لیا اور اس کی طاقت پھٹ گئی۔ چند لوگ جو اس کے سامنے تھے وہ فوری طور پر پیچھے ہٹ گئے، لگاتار ہٹ کی آواز کے ساتھ چند آدمی گرنے لگے۔
کالاری چونک گیا۔ وہ خود درمیانی درجے کے انٹرمیڈیٹ ڈیمن میں ایک لیچ تھا جو ہوا کے جادو میں مہارت رکھتا تھا۔ <chain Lightning> ابھی اس کے پاس سب کچھ تھا۔ اگرچہ <chain Lightning> کے4 حملوں میں سے پہلی سب سے زیادہ مضبوط تھی اور یہ آہستہ آہستہ کمزور ہوتی گئی، پھر بھی طاقت مضبوط تھی۔ اپنے ماتحتوں کے ان حملوں کے ساتھ مل کریہاں تک کہ گراؤ بھی اسے برداشت نہیں کر سکا۔ اسے توقع نہیں تھی کہ منگول اس قدر خوفناک ہوگا کہ وہ بالکل متاثر نہیں ہوا۔
علی روئی کی صورت حال اتنی آسان نہیں تھی جتنی کالاری کے تصور میں تھی۔ اس کے باوجود، الکیدسطح کی دفاعی طاقت اور <Astral Form> کی تخلیق نو بہت طاقتور تھی۔ اس طرح، وہ حملوں کو برداشت کر سکتا تھا اور کالاری کی طرف پوری رفتار سے چارج کر سکتا تھا ۔ پہلے ڈاکوؤں کو پکڑنے کے لیے لیڈر کو پکڑو۔
کالاری چونک گیا۔ بجلی کا منتر اتنا لمبا تھا کہ منتر شروع کرنے میں دیر ہو گئی۔ اس نے اپنے ہاتھ سے ایک دائرہ کھینچا جبکہ اس کا منہ تیزی سے پھڑپھڑا رہا تھا، پھر اس کے جسم کے باہر ایک پارباسی گنبد نمودار ہوا۔ علی روئی نے سیدھا گھونسہ مارا، پھر کالاری اور شیلڈ دیوار سے اڑتے ہوئے کھٹکھٹائے، اور شیلڈ تھوڑی دیر کے لیے ہلتی رہی۔ اگرچہ کالاری اندر تھا اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا، لیکن خوف سے گھبرا گیا تھا۔
جیسے ہی علی روئی گنبد کی ڈھال پر حملہ کرنے والا تھا، اس نے جیسی کو دیکھا کہ مخالف گراؤ نے اسے لات ماری تھی۔ جیسی کا جسم لکڑی کی الماری سے ٹکرا گیا ۔بوڑھا بونا اتفاقاً چھپا ہوا تھا اور لکڑی کی کیبنٹ فوراً بکھر گئی۔ بوڑھے بونے کو خوفزدتھا ۔ ’’گراؤ! مر جاؤ!‘‘۔
علی روئی کالاری اور گراؤ کی طرف چارج کے بارے میں پریشان نہیں ہو سکتا تھا۔ جب گراؤ جیسی کو مارنے کے لیے پکڑنے ہی والا تھا تو اس نے منگول کو چیختے ہوئے سنا۔ جیسے ہی اس نے مڑ کر دیکھا تو ایک خوفناک سانس کے ساتھ ایک سفید گیند سیدھی اس کی طرف بڑھ رہی تھی۔ چونکہ یہ بہت قریب تھا، اس نے ردعمل ظاہر کرنے میں بہت دیر کر دی تھی، اس لیے سیدھا مارا گیا۔
گراؤ کے ذہن میں فطری طور پر ایک بہت بڑا خوف تھا۔ اس نے مزاحمت کرنے کی شدت سے کوشش کی پھر بھی ہلکی گیند کی زبردست طاقت کا مقابلہ نہ کر سکا۔ اس کے دونوں پاؤں زمین پر دیوانہ وار گھسیٹتے ہوئے راستے میں لاتعداد دراڑیں پڑ گئے۔
جیسے جیسے سفید گیند کا فاصلہ لمبا ہوتا گیا، گراؤ کا دفاع جو کہ ہوا کے جادو سے پہلے ہی کمزور تھا کمزور سے کمزور ہوتا گیا۔ خوفناک تباہ کن طاقت۔۔۔گراؤ کا روشنی کی گیند کا احساس تھا، جو اس دنیا میں سینٹور کی آخری شعوری سوچ بھی بن گئی۔
کالاری نے دیکھا کہ منگول نے اپنا ہاتھ کھولا اور ایک بہت بڑی گیند گراؤ سے ٹکرائی جس کے راستے میں تباہی کے ان گنت خوفناک نشانات تھے۔ یہاں تک کہ گراؤ جیسا مضبوط کوئی بھی اس سے بچ نہیں سکا۔ تھوڑی دیر مزاحمت کرنے کے بعد وہ پوری طرح لپیٹ میں آگیا۔ روشنی کا گولہ دیواروں میں گھس گیا اور گھر کے باہر سے چیخیں سنائی دے رہی تھیں۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ کس بدقسمت آدمی کو گراؤ کی طرح انجام کا سامنا کرنا پڑا۔
کالاری گھبرا گیا۔ جو ٹھگ چارج کرنے کو تیار تھے وہ بھی گھبرا گئے۔ اسی وقت جیسی، جو ابھی لکڑی کی الماری سے باہر نکلا تھا، دنگ رہ گیا۔ اس کے بجائے، بوڑھا بونا جو باہر چڑھ گیا نسبتاً پرسکون تھا۔
علی روئی نے ایک جھٹکے سے بالکل ٹھیک مارا۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کے جسم میں اسٹار پاور ختم ہو گئی ہے، لیکن اس نے سطح پر کوئی فرق نہیں دکھایا۔ اس نے اپنی ہتھیلی کو دوبارہ کھولا اور ٹھگوں کے گروہ کو نشانہ بنایا:
’’اگر تم مرنا نہیں چاہتے تو بھاڑ میں جاؤ‘‘۔
جیسے ہی علی روئی نے یہ جملہ ختم کیا، وہ لوگ جو خوفزدہ تھے، بچ نکلے، یہاں تک کہ وہ لوگ جو زمین پر موت کا ڈھونگ رچا رہے تھے۔ گراؤ بھی ایسی خوفناک طاقت کا مقابلہ نہ کرسکا، یہاں رہنے کی ہمت کس نے کی۔
کالاری کا پورا جسم کانپ رہا تھا اور اس کے جسم پر موجود حفاظتی تہہ اس کے جادو کے ٹوٹنے سے ٹوٹ چکی تھی۔ جب اس نے منگول کو ایک ٹھنڈا طنز کرتے ہوئے قریب آتے دیکھا تو وہ خوف زدہ ہوا:
’’مجھے مت مارو! میں تمہیں سب کچھ دوں گا‘‘۔
’’یہ اس بات پر منحصر ہے کہ آپ اپنی زندگی کے لیے کتنی رقم ادا کریں گے۔ اگر تم اپنی دولت نہیں چھوڑ سکتے تو میں تمہاری جان ہی لے سکتا ہوں‘‘۔
کالاری کو یاد آیا۔ اس نے منگول کو ایسی ہی دھمکی دی تھی۔ وہ خودکو کوس رہا تھا۔ جان بچانے کے لیےوہ پیسے بھی نہیںلے سکتا تھا، اس لیے اس نے جلدی سے اپنے ہاتھ سے خلائی انگوٹھی نکالی اور بولا:
’’سر منگول، یہ ہے میری ساری دولت‘‘۔
علی روئی نے خلائی انگوٹھی لی اور داخلی دروازہ کھولا۔ پھر، اس نے بہت سے ابھرے ہوئے چمڑے کے تھیلوں کو گرتے دیکھا۔ وہ تمام سیاہ کرسٹل سکے تھے۔ اس طرح کے چند سو تھیلے فرش پر ڈھیر ہو گئے۔ اس کے علاوہ، کچھ ایسی چیزیں تھیں جو مہنگی لگ رہی تھیں، لیکن کوئی فلورسنٹ پتھر نہیں تھے۔
یہ دیکھ کر بوڑھے بونے کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ اتنے پیسے! ایک تھیلے میں کم از کم دو سے تین سو سکے ہوتے ہیں جو کہ اوٹل میں دسیوں ہزار تک پہنچ جاتے ہیں۔
علی روئی بھی حیران تھا۔ کالاری کے پاس اتنی دولت ہے۔اس نے یہ کیسے حاصل کی۔
تاہم اب یہ تمام رقم علی روئی کی تھی۔ ایسا صالح اقدام جس سے مجرموں کی دولت چھین لی جائے اور اپنے آپ کو فائدہ پہنچے۔
علی روئی نے ہاتھ ہلایا۔ وہ ایسا نہیں لگتا تھا جیسے اس نے کوئی خلائی سامان استعمال کیا ہو لیکن انگوٹھی کے ساتھ سینکڑوں سکے کے تھیلے اصل میں غائب ہو گئے۔
اس حرکت نے کالاری کو چونکا دیا:
اس طرح کی رفتار اور تکنیک یقینی طور پر خلائی آلات سے نہیں ہے۔ کیا یہ کھویا ہوا خلائی جادو ہو سکتا ہے؟۔
’’جناب، جب تک آپ مجھے جانے دیں گے، میں آپ کے ماتحت کے طور پر کلوننگ گینگ میں شامل ہونے کو تیار ہوں تاکہ جناب کے لیے مزید رقم کمائی جا سکے‘‘۔
اس تجویز نے علی روئی کے دل کو قدرے ہلا دیا۔ اس نے پوچھا:
’’فلورسنٹ پتھر کہاں ہیں؟‘‘۔
کالاری نے جھجکتے ہوئے دیکھا، پھر کالاری نے اپنے حریف کو آہستہ آہستہ انگلیاں پھیلا کر اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے دیکھا۔ کالاری نے خوفزدہ ہوتے ہوئے کہا:
’’براہ کرم میرے ساتھ آئیں‘‘۔
جیسی اور بوڑھا بونا باہر دیکھنے کے لیے ہال میں ٹھہرے رہے جب کہ علی روئی کالاری کو تہہ خانے کے گودام میں لے گیا۔
تہہ خانے کے گودام میں داخل ہونے پر علی روئی کو پتہ چلا کہ کالاری کیوں ہچکچا رہا تھا۔فلوروسینٹ پتھروں کو گودام میں کئی خانوں میں رکھا گیا تھا لیکن گودام کے ساتھ ہی درجنوں افراد جیل میں بند تھے۔ ان لوگوں سوکیوبس، سیاہ ایلف ، سینٹور اور یہاں تک کہ دو خواتین عظیم ڈیمن بھی تھیں۔ سب کے سب عورتیں اور بچے تھے۔ وہ سب ننگے تھے، جادوئی ہتھکڑیوں سے روکے ہوئے اور مایوس تھے۔
علی روئی کو یاد آیا کہ نیرنگ آباد میں اکثر اقابلہ کی اسٹیٹ لاگ بک میں خواتین اور بچوں کے لاپتہ ہونے کے واقعات ہوتے ہیں۔ اسے احساس ہوا اور پرسکون انداز سے بولا:
’’کوئی تعجب نہیں کہ تم اتنے پیسے کما سکتے ہو۔ معلوم ہوا کہ فلوروسینٹ پتھر جیسا غیر مقبول کاروبار محض ایک غلاف ہے۔ ان بدروحوں کو کہاں اور کس قیمت پر سمگل کرتے ہو؟‘‘۔
کالاری نے دیکھا کہ منگول کو اس میں دلچسپی ہے، اس نے سکون کا سانس لیا اور جواب دیا:
’’سر! آپ واقعی سمجھدار ہیں۔ ان ڈیمنوں کو نیلانی اسٹیٹ میں اسمگل کیا جائے گا جہاں ان کی قیمت سب سے زیادہ ہے۔ اگر صاحب راضی ہوں تو یہ ہمارے کلوننگ گینگ کی آمدنی کا سب سے بڑا ذریعہ ہو سکتا ہے‘‘۔
نیلانی اسٹیٹ اسٹیٹ! علی روئی نے سوچا کہ یہ سرمانی سلطنت کا کام ہو سکتا ہے، لیکن سچائی غیر متوقع تھی۔ وہ سوچنے لگا کہ نیلانی اسٹیٹ نیرنگ آباد کے جنوب میں تھا۔ ڈاکوؤں نے راستہ طویل عرصے تک بند کر رکھا ہے اور ناقابل رسائی رہا ہے۔ ان بدروحوں کو کیسے سمگل کیا جاتا ہے؟۔
کالاری نے جان بچانےکےلیے فوری طور پرخود کو کلوننگ گینگ کا رکن سمجھا۔ اس امید سے کہ وہ اس بدتمیزی سے پہچانا جائے گا۔ وہ ابھی زندہ رہنا چاہتا تھا، اس لیے اس نے خوشامد بھرے انداز سے کہا:
’’ان عورتوں میں بہت کم کنواریاں ہیں۔ جناب اگر ان میں سے کوئی پسند آئے تو اپنی مرضی سے لطف اٹھائیں۔ میرے ذاتی تجربے کے مطابق سیاہ ایلف ریس کی نوجوان لڑکی بہترین ہے۔ اسے ضرور آزمانا چاہیے۔ مجھے یقین ہے۔۔۔۔‘‘۔
’’چھوٹی سیاہ ایلف لڑکی؟ کیا یہ ہے؟‘‘۔
علی روئی نےغصے سے اس کی طرف دیکھا اور کہا :
’’میں بہت عرصہ سے اس طرح کے کاروبار میں شامل ہونا چاہتا ہوں لیکن کبھی ایسا اتفاق نہیں ہوا۔ جہاں تک میں جانتا ہوں، نیلانی اسٹیٹ کے راستے پر ڈاکو کافی طاقتور ہیں۔ یہ راستہ ناقابل رسائی معلوم ہوتا ہے۔ تم مجھ سے جھوٹ نہیں بولو گے‘‘۔
اس گندگی سے نمٹنے سے پہلے اس مسئلے کو صاف کرنا ضروری تھا۔
’’نہیں‘‘۔
کالاری نے وضاحت کرتے ہوئے کہا:
’’اس آئیٹم میں ایک بیج ہے جو پہلے جناب کو پیش کیا گیا تھا۔ آپ بیج دکھائیں گے تو ڈاکو آسانی سے آپ کو گزرنے دیں گے‘‘۔
’’بیج؟‘‘۔
علی روئی نے اپنے دماغ پر زور دیا تو اسے اسٹوریج میں موجود شبیہوں کے درمیان ہتھیلی سائز کا نیلا بیج یاد آ گیا۔ اس پر ایک سیاہ ڈریگن کی تصویر تھی جس کے دو سر تھے۔
’’تم اس بیج کے بارے میں بات کر رہے ہو؟ تمہیں یہ کہاں سے ملا؟‘‘۔
کالاری جانتا تھا کہ علی روئی کے پاس خلائی طاقت ہے۔ اس لیے اس نے جھوٹ بولنے کی ہمت نہ کی اور بولا:
’’جن دنوں میں نیلانی اسٹیٹ میں جڑی بوٹیوں کی اسمگلنگ کر رہا تھا، میری ملاقات لاوات نامی ایک گریٹ ڈیمن سے ہوئی۔یہ بیج اس نے دیا تھا اور بدروحوں کی سمگلنگ کا کاروبار بھی اسی نے متعارف کرایا تھا۔ جب میں سڑک پر ڈاکوؤں سے ملتا ہوں تو مجھے صرف لاوت کا نام لینا اور بیج دکھانا پڑتا ہے۔ ممکن ہے اگر ان کو کچھ دولت کی پیشکش کی جائے تو اس کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی۔ پھر چاہے جڑی بوٹیاں سمگل کریں یا بدروحوں کو۔ بدروحوں کی اسمگلنگ کا کاروبار عام طور پرچھ ماہ میں ایک بار ہوتا ہے۔ آخری ڈیل2 ماہ سے بھی کم عرصہ پہلے ہوئی تھی، اس لیے آپ ان خواتین سےجی بھر کے لطف اندوز ہوسکتے ہیں، بے شک ان کے مرنے تک ان کے ساتھ کھیلیں‘‘۔
علی روئی نے مزید تفصیلات طلب کیں۔وہ گویا ہوا:
’’جنوب میں ڈاکو نیلانی اسٹیٹ سے آئے تھے۔ مختلف عوامل کو دیکھتے ہوئے، ڈاکو دراصل حکومت کی طرف سے بھیجے جا سکتے ہیں۔ اقابلہ کے اعداد و شمار میں نیلانی بادشاہ کو کراؤن پرنس گریم نے اپنے ابتدائی سالوں میں بہت پسند کیا تھا۔ وہ ان قوتوں میں سے ایک تھے جنہوں نے خفیہ طور پر نیرنگ آباد کی حمایت کی۔ اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ ناشکرے ڈیمن ہوں گے جو حمایت کے پیچھے اپنا ایجنڈا چھپائے ہوئے تھے۔ ایک اسٹیٹ کی ترقی فنڈز، تعمیرات، آبادی وغیرہ کے وسائل سے الگ نہیں ہوتی۔ برسوں سے نیلانی اسٹیٹ نے بظاہر اقابلہ کی مدد کی لیکن خفیہ طور پر بڑی مقدار میں جڑی بوٹیاں اور آبادی کے وسائل چھینے۔ ساتھ ہی ڈاکو بھیجے تاکہ تجارتی راستے بند کر دیے جائیں‘‘۔
کالاری غالباً نیرنگ آباد میں اس طرح کی تجارت میں ملوث واحد فرد نہیں تھا۔ کسی حد تک نیلانی اسٹیٹ سے جس نے دونوں طرف سے فائدہ اٹھایا تھا وہ سرمانی سلطنت سے زیادہ شریر اور بے رحم تھا۔ یہ یقینی طور پر ایک غیر متوقع اور اہم خبر تھی۔ علی روئی نے کالاری سے بہت سی معلومات کی چھان بین کے بعد، اس نے تحمل سے پوچھا:
’’غور کرو۔ کوئی ایسی بات جو تم نے ٹھیک سے نہ بتائی ہو‘‘۔
کالاری نے کچھ دیر سوچا، پھر اس نے اپنا سر ہلایا اور کہا:
’’میرے خیال میں کچھ ایسا باقی نہیں جو میں نے نہ بتایا ہو جو میں جانتا ہوں۔ میں یہ ہمت نہیں کر سکتا۔ پوری ایمان داری سے ماتحت بن کر رہوں گا اور کلوننگ گینگ کو ایک اور سطح تک پہنچانے کے لیے اپنا کردار ادا کروں گا‘‘۔
’’بہت اچھا!‘‘۔
علی روئی نے اطمینان سے سر ہلایا۔ اگلے جملے نے کالاری کا طنز اس کے چہرے پر جما دیا:
’’بدقسمتی سے، اب تمہاری کوئی قدر نہیں ہے‘‘۔
کالاری نے ایسا جملہ اپنی زندگی میں پہلی بار کسی سے سنا تھا۔جنوب مشرقی بلاک میںنمبر4گلی ہمیشہ کالاری کا علاقہ رہا ہے۔ اسے جنوب مشرقی بلاک کے اندر سب سے بڑی قوتوں میں سے ایک سمجھا جاتا تھا۔ اس تبدیلی کے بعد کالاری کے پرانے گھر نے اپنے مالک کو کلوننگ گینگ نامی ایک چھوٹی تنظیم میں تبدیل کر دیا تھا۔ کالاری کے کئی آدمی بھی کلوننگ گینگ میں شامل ہو گئے۔
عجیب بات ہے کہ اس علاقے کے امن و امان کے رہنما نجیب بھی اس سے کم پروا نہ کر سکے۔ اس نے پوشیدہ انداز میں کلوننگ گینگ کی حمایت کا اظہار کیا۔ درحقیقت نجیب نے خفیہ طور پر کافی فائدہ اٹھایا تھا۔
علی روئی کو <ارورہ شاٹ>کے ساتھ گراؤ کو ختم کرتے ہوئے دیکھنے کے بعد جیسی خاموش تھا جب تک کہ علی روئی نے اسے 300 کالے کرسٹل سکے نہیں دیے، اس نے پوچھا:
’کیا آپ واقعی وائیٹ اسٹون چاہتے تھے یا آپ صرف مجھ پر ترس کھا رہے تھے؟‘‘۔
علی روئی زیادہ وضاحت کرنے کے موڈ میں نہیں تھا۔ اس نے کہا:
’’کیا تم نے اب وائیٹ اسٹون بننے کی ہمت کھو دی ہے؟‘‘۔
اس جملے نے اندھیرے کو بھڑکا دیا اور اس کی آنکھیں بھی تیز ہو گئیں۔ بولا:
’’اگلے مہینے کے اس وقت میں تمہیں چیلنج کروں گا‘‘۔
’’اچھا!۔ تب تک تم کلوننگ گینگ میں رہو‘‘۔
علی روئی نے سر ہلایا۔ اس قسم کے شخص سے نمٹنے کے لیے اسے مشتعل کرنا پڑا۔ وہ دوسرے حکیم کے طور پر لڑاکا بھی حاصل کر سکتا تھا اور کلوننگ گینگ کے لیے بھی۔
’’چپکے سے حملہ کرکے گراؤ کو مارنے پر مطمئن نہ ہوں۔ بالروگ، ریکا کو انٹرمیڈیٹ ڈیمنز کا بادشاہ سمجھا جاتا ہے۔ گراؤ اس کے مقابلے میں ایک کمزور کردار تھا۔ آپ کے حتمی اقدام کا اثر اس پر صرف تھوڑا ہی ہو سکتا ہے۔ ریکا کا جسم اور دفاعی صلاحیتیں خوفناک ہیں۔ اگر آپ رفتار پر بھروسہ کرتے ہیں تو اسے ہرا نہیں سکیں گے۔ اور اگر آپ اس کا مقابلہ کرتے ہیں تو آپ اپنی موجودہ طاقت سے چند منٹوں میں مارے جائیں گے‘‘۔
کیا یہ آدمی مجھے یاد کر رہا ہے؟۔ علی روئی نے عجیب سی نظروں سے سیاہ ایلف کی طرف دیکھا اور مسکرایا:
’’شاید تم ٹھیک کہہ رہے ہو، لیکن یہ صرف میری موجودہ طاقت ہے‘‘۔
علی روئی نے کلوننگ گینگ میں زیادہ وقت نہیں گزارا۔ اس نے مخصوص معاملات کو جیسی اور بوڑھے بونے پر چھوڑ دیا، اور وہ محل کی لیبارٹری میں واپس چلا گیا۔ اگرچہ کلوننگ گینگ نے کالاری کی جگہ لے لی، درحقیقت ڈیمنوں کی اسمگلنگ میں ملوث ہونا ناممکن تھا۔ پکڑے گئے خواتین اور بچوں کو واپس بھیج دیا گیا، اور بے گھر افراد تہہ دار گینگ میں رہے۔ کالاری کی اہمیت بہت زیادہ تھی۔ اس کی افرادی قوت اور علاقہ تھا۔ علی روئی کی قابلیت کے ساتھ وہ یقینی طور پر کچھ قانونی کاروبار کرنے یا دوسرے طریقوں سے ترقی کرنے کے لیے ان شرائط کا اچھا استعمال کر سکتا ہے۔ تاہم یہ اس کی موجودہ ترجیح نہیں تھی کیونکہ ہر چیز کو 2 ماہ کے ٹیسٹ کے بعد ہوناتھا۔
قدیم گھر سے بہت کچھ حاصل ہوا تھا۔ صرف فلوروسینٹ پتھروں کے ڈھیر نے30,000 سے زیادہ اوراس فراہم کیے۔ گودام میں موجود بقیہ جادوئی مواد اور اصل9,000 اوراس کے ساتھ مل کر کل70,000 اوراس سے تجاوز کر گیا تھا۔ اس نے خاص طور پر ان سیاہ کرسٹل سکوں کو شمار نہیں کیا۔ اس نے بس بوڑھے بونے کو دو تھیلے کلوننگ گینگ کے فنڈز کے طور پر دیے۔
20سے بھی کم دن باقی تھے۔ اگر علی روئی اپنی موجودہ درمیانی درجے کی طاقت کے ساتھ کسی اعلیٰ مرحلے کا مقابلہ کرے تو وہ یقینی طور پر ہار جائے گا۔ یہ بالکل آج کی لڑائی کی طرح تھا جہاں وہ ایک ہی مرحلے کے جنگجوؤں کو آسانی سے گرا سکتا تھا۔ مزید یہ کہ <Aurora Shot> دن میں صرف دو بار استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ہر شاٹ کے لیے نصف سے زیادہ سٹار پاور ختم ہو جائے گی۔ اگر اس نے صحیح وقت کی تلاش نہیں کی تو یہ نتیجہ خیز نہیں ہوگا اس لیے اسے تربیتی میدان کے وقت کے اصول کو پوری طرح استعمال کرنا چاہیے۔
آرام اور بحالی کے وقفے کے دوران علی روئی اپنا تجسس برقرار نہ رکھ سکا اور تخت پر موجود عمارت کے درمیان ایکسچینج سنٹر کی تعمیر کا انتخاب کیا۔ اب جب کہ اس کے پاس 70,000 اوراس کے ساتھ مجموعی طور پر 100,000 سے زیادہ سیاہ کرسٹل سکے تھے، ایکسچینج سنٹر کو چالو کرنے کے لیے 1000 اوراس کا استعمال نسبتاً غیر معمولی لگ رہا تھا۔ ٹریننگ گراؤنڈ اور اسٹوریج گودام کے فن تعمیر کے برعکس ایکسچینج سنٹر پراسرار اور خوبصورت لگ رہا تھا۔ ایکسچینج سنٹر میں داخل ہونے کے بعد لائٹ اسکرین دکھائی دیتی ہے:
اسٹار کلکٹر، ایکسچینج1 اسٹار پر کیپڈ۔
کئی زمرے تھے، دوائیوں کے زمرے کے علاوہ باقی سب سرمئی تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ1ستارہ صرف دوائیوں کا تبادلہ کر سکتا ہے۔
پہلا صفحہ صرف Sober Potion، Healing Potion، Antidote Potion، Stamina Recovery Dust، Spirit Recovery Dust اور دیگر عام سامان تھاجس سے عام دوائیاں تیار کی جا سکتی ہیں۔چند سفید دوائیاں تھیں جنہیں صرف حکیم لیول کے ذریعے تیار کیا جا سکتا ہے، جیسے کہ طاقت کا دوائیاں، ونڈ واک پوشن، آئرن وال دوائیاں، اسپرٹ پوشن وغیرہ، نیز ہائی مشکل اسٹامینا ریکوری پوشن، اسپرٹ ریکوری پوشن، سنگل ایلیمینٹل انہینسنگ دوائیاں وغیرہ۔
دوسرے صفحے پر 10دوائیاں تھیں۔ یہ سب کالی دوائیاں تھیں۔ اس نام نے علی روئی کو واقعی حیران کر دیا:
طاقت کی دوائیاں! سچ ہے۔ ونڈ واک دوائیاں! سچ ہے۔ روح کی دوائیاں! سچ ہے۔ آئرن وال دوائیاں! سچ ہے۔ زمین کو بڑھانے والی دوائیاں! سچ ہے۔ پانی بڑھانے والی دوائیاں! سچ ہے۔ آگ بڑھانے والی دوائیاں! سچ ہے۔ ہوا بڑھانے والی دوائیاں! سچ ہے۔ سیاہ کو بڑھانے والی دوائیاں! سچ ہے۔ روشنی بڑھانے والی دوائیاں، سچ ہے۔
اگر سفید دوائیاں دوائیوں کے حکیم کی علامت تھیں تو سیاہ دوائیاں تقریباً ناقابلِ تسخیر خلا کی نمائندگی کرتی ہیں – پوشن گرینڈ حکیم !۔
دیومالائی دائرہ کا ہزاروں سالوں سے کوئی عظیم الشان حکیم نہیں تھا۔ اگر10سیاہ دوائیوں میں سے کسی ایک کو بھی نکالاجائے تو نہ صرف فارماسیوٹکس کا میدان بلکہ کیمیا کا میدان اور پورادیومالائی دائرےحیران رہ جائے گا۔
سفید دوائیوں کے مقابلے میں’’True potions ‘‘میں لفظ’’True‘‘لفظی طور پر شامل کیا گیا تھا۔ دونوں کو طاقت بڑھانے کے لیے استعمال کیا گیا تھا لیکن ان کا اثر ایک دوسرے سے الگ تھا۔ مثال کے طور پر Strength Potion طاقت میں 30% اضافہ کر سکتا ہے اور10 منٹ تک چل سکتا ہے۔10 منٹ کے بعد، ایک کمزور حالت میں داخل ہو جائے گا جو نام نہاد ضمنی اثرات تھے۔ بوتل پینے کے بعد دوسری بوتل پینے سے پہلے2گھنٹے درکار ہوتے ہیں، ورنہ یہ بے اثر ہو جائے گی۔
سچ ہے۔ طاقت کا دوائیاں زیادہ موثر اور دیرپا تھا۔ یہ طاقت میں60 فیصد اضافہ کر سکتا ہے، اور یہ20 منٹ تک جاری رہے گا۔ مؤثر مدت کے بعد کوئی ضمنی اثرات نہیں ہوں گے۔
’’حقیقی‘‘دوائیاں ایک عظیم الشان حکیم کے طور پر محض تعارفی دوائیاں تھیں۔ جیسے جیسے یہ آگے بڑھا ’’ابدی‘‘ دوائیاں بھی تھیں جو مستقل طور پر مختلف صلاحیتوں میں اضافہ کرتی تھیں۔ اس کے علاوہ ایسی دوائیاں بھی تھیں جو ایک پوشنر کے اعلیٰ ترین کارنامے، لمبی عمر کے دوائیاں، اور قیامت کی دوائیوں سے مشابہت رکھتی تھیں۔ اتفاق سےیہ دوائیاں اکیلے ہی علی روئی کو ایک عظیم الشان حکیم کے جانشین کے طور پر اپنی شناخت بنانے میںاہم کردار ادا کر سکتی تھیں۔ اس کے علاوہ یہ صرف ایک شے تھی جو 1-اسٹار کے اندر تبادلے کے لیے دستیاب تھی۔
ستارہواں باب
کششِ ثقل کی پیمائش
بے وزن اشیا بھی تیزی سے گر سکتی ہیں
علی روئی کو اس بات کا یقین تھا کہ جب اس نے الکید سطح کو توڑا اور2ستاروں کا ارتقاء حاصل کیا تو تبادلے کے لیے دستیاب زمرے بڑھ جائیں گے۔ ابھی 3 ستارے تھے اور4ستارے۔۔۔۔ایک دم کوئی خوابوں اور فریبوں میں ڈوبا ہوا تھا۔
تاہمTrue دوائیوں کی قیمت سستی نہیں تھی۔ ہر بوتل کی قیمت10,000 اوراس تھی ۔ سفید دوائیاں 1000 سے 2000 اوراس فی بوتل تھی جبکہ عام دوائیاں 100 سے 300 اوراس تھیں۔ چونکہ علی روئی کی شفا یابی کی دوا کی آخری بوتل جیسی کو دی گئی تھی، اس لیے اس نے مرکز سے 100 اوراس کے ساتھ شفا بخش دوائیاں بدلنے کی کوشش کی اور اسے پی لیا۔ اسے پتہ چلا کہ اثر الداس کے تیار کردہ اثر سے بھی زیادہ مضبوط تھی، زخموں کی بحالی کی رفتار بہت تیز ہو گئی تھی۔ صرف سٹار پاور ابھی تک بازیافت نہیں ہوئی تھی۔
علی روئی نے اندازہ لگایا کہ یہ عام دوائیاں یا حکیم لیول کی دوائیاں سب گرینڈ حکیم لیول سپر سسٹم کے ذریعے تیار کی گئی ہیں۔ چنانچہ ان کی تاثیر عام استادوں سے بہتر تھی۔وہ برائے نام ہی الداس کا سٹوڈنٹ تھا لیکن حقیقت میںان کا قریبی رشتہ تھا۔ اگر اس کا چہرہ موٹا ہوتا تو وہ دوائیاں کھا سکتا تھا۔ ایکسچینج سنٹر میں دوائیاں آخرکار چمک کھا گئیں۔ خاص طور پر سچ سیاہ دوائیاں۔ سب سے پہلےیہ بہت مہنگا تھا دوسرا یہ ظاہر کرنے کا صحیح وقت نہیں تھا۔ لہذا اس نے انہیں مستقبل کی ممکنہ ضروریات کے لیے محفوظ کر لیا۔
کافی آرام کرنے کے بعد علی روئی تربیتی میدان میں داخل ہوا۔ وہ پہلے ہی سٹار پاور کے بغیر دگنی کشش ثقل کے مطابق ڈھال سکتا تھا۔ اس بار وہ 4 گنا کشش ثقل کو آزمانا چاہتا تھا۔ وقت کے اصول کے طور پریہ اب بھی 5 گنا ہوگا۔ اصل میں علی روئی کے نقطہ نظر سے4 گنا کشش ثقل نے صرف2 گنا کشش ثقل کے دباؤ کو دوگنا کیا تھا۔ اپنی موجودہ طاقت کے ساتھ وہ اسٹار پاور کے بغیر برقرار رہنے کی پوری کوشش کرے گا۔ اگر یہ کامیاب رہا تو8 گنا کشش ثقل کو آزما سکتا ہے۔ تاہم4گنا کشش ثقل کی حالت میں داخل ہونے کے بعد ہی اس نے محسوس کیا کہ اسے معمول کے اعداد یا اضافے کا استعمال کرتے ہوئے ماپا نہیں جا سکتا۔ مثال کے طور پر اگر کسی کے وزن کی حد200 کلوگرام ہے تو کوئی ابتدائی 100 کلوگرام میں100 کلو کا اضافہ کرنے کے بعد بھی مدد کر سکتا ہے۔ اگر مزید100 کلوگرام شامل کیا جائے تو کوئی بھی اسے نہیں بنائے گا۔ یہ بالکل آخری تنکے کی طرح ہے جس نے اونٹ کی کمر توڑ دی تھی۔ یہ محض طاقت کا اضافہ نہیں تھا بلکہ حد سے زیادہ ایک چیلنج تھا۔
علی روئی نے محسوس کیا کہ یہ پہلی بار دگنی کشش ثقل میں داخل ہونے کے مقابلے میں 10 گنا زیادہ تکلیف دہ ہے۔ ان کا 65 کلو گرام کا اصل رائٹ اچانک260 کلوگرام ہو گیا۔ خواہ یہ سانس لینے کا تھا یا اندرونی اعضاء کی حرکت، بوجھ جمع ہونے کے تحت کئی گنا بڑھ گیا تھا۔ یہاں تک کہ اگر وہ مضحکہ خیز حالت میں زمین پر لیٹ گیا تب بھی اسے چکر آ رہے تھے۔
کیا میں ابھی 5 گنا وقت کا انتخاب کرنے کے لیے بے چین ہوں؟، کیا میں5 دن تک ایسے ہی رہوں گا؟ ویسے بھی میں 9000اوراس کو ضائع نہیں کر سکتا۔
علی روئی فرش پر لیٹ گیا اور اس کا چہرہ لتھڑا ہوا تھا اور اس کی آنکھیں خون آلود تھیں۔ اس نے انگلیاں ہلانے کی بہت کوشش کی۔ اگر اس نے اسٹار پاور کا استعمال کیا تو یہ یقینی طور پر موافقت کو تیز کرے گا جو اتنا مشکل نہیں ہوگا۔ تاہم 2 گنا کشش ثقل کے تجربے کے بعد وہ جانتا تھا کہ ایسی حالت میں اسٹارٹ پاور جتنی کم استعمال کی جائے گی<Refined Body <کی تاثیر اتنی ہی بہتر ہوگی۔ اگر وہ سٹار پاور کا استعمال بند نہ کر سکے تو تکلیف سے بچنے کے لیے اسے اس پر انحصار کرنے کی عادت ہو جائے گی اور تربیت کا اثر بہت کم ہو جائے گا۔ لہٰذا وہ بغیر کسی طاقت کے خوفناک کشش ثقل کا مقابلہ کرنے کے لیے جسمانی طاقت کا استعمال کر رہا تھا۔ اگر وہ حدود توڑنا چاہتا تھا تو اسے خود کو موت کے دہانے پر کھڑا کرنا پڑا۔ اگر وہ خود کو اذیت دیتا ہے توجنگ کے دوران دشمنوں کو اذیت دے سکتا ہے۔
بعض اوقات علی روئی کو ایسا لگا جیسے وہ اسے مزید تھام نہیں سکتا، پھر بھی اس نے اسے پورا کرنے کے لیے پورا زور لگایا۔ اپنی انگلیوں اور جسم کو دھیرے دھیرے حرکت دینے سے لے کر بیٹھنے، کھڑے ہونے، گرنے، اور دوبارہ کھڑے ہونے کے لیے خود کو سہارا دینے تک۔۔۔۔۔۔ یہ ایسا ہی تھا جیسے جسم کو ایک اینول پر رکھ دیا جائے اور کشش ثقل کے ہتھوڑےسے اس کو پیٹا جائے۔ یہ یقینی طور پر قوت ارادی کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج تھا۔ صرف نعرے لگانے سے طاقت حاصل نہیں کی جا سکتی۔ حقیقی طاقت کے راستے پر کوئی شارٹ کٹ نہیں تھا۔ ایک سست باصلاحیت ایک بیوقوف کے برابر تھا۔ یہ ذکر کرنے کی ضرورت نہیں کہ وہ باصلاحیت نہیں تھا۔
سرمانی سلطنت ۔ ایک کمرے سے مسلسل کچلنے والی چیزوں کا بکھرتا ہوا شور۔ ایک طویل وقت کے بعد رک گیا۔ یوسف اپنی مٹھیوں کو مضبوطی سے باندھے ہانپ رہا تھا۔ کمرہ پہلے ہی گڑبڑ تھا۔ ہر طرف ٹوٹے ہوئے ٹکڑے تھے۔ایک مضبوط لکڑی کی میز بکھر گئی تھی۔ فرش پر نوکرانی کی طرح ملبوس سوکیوبس کی کئی لاشیں بھی تھیں جن سے فرش خون سے بھرا ہوا تھا۔ یوسف کے علاوہ صرف ایک بدروح زندہ تھی۔ یہ ایک درمیانے درجے کا آدمی تھا جو انسان کی طرح نظر آتا تھا غالباً وہ بدلے ہوئے خون کی لکیر کے ساتھ ایک بڑا ڈیمن بھی تھا۔
وہ شخص خاموشی سے یوسف کے وینٹنگ ختم کرنے کا انتظار کرتا رہا، پھر اس نے اپنا منہ کھولااور بولا:
’’کنیتا نے جان بوجھ کر آپ کے میچ ہارنے کا موقع چھین لیا تاکہ حکیم پر نیرنگ آباد کو دبانے کے لیے ریجنٹ کے احکامات پر عمل نہ کرنے کا الزام لگایا جا سکے۔ والن جس نے سرمانی سلطنت کی جانب سے میچ میں حصہ لیا تھا، اس نے بھی رب کو چہرے پر یہ بتانے کا موقع لیا کہ حکیم نے سرمانی سلطنت کو شرمندہ کیا اور یہاں تک کہ قیمتی وائیورنس کو نیرنگ آباد کے سامنے کھو دیا۔ اس لیے رب بہت غصے میں تھا۔ ظاہر ہے والون اور چند بوڑھے لوگ جو ابتدائی طور پر غیر جانبدار تھے کنیتا کی طرف ہو گئے ہیں۔ ہمیں تیار رہنے کی ضرورت ہے۔ آقا! آپ کو اب سب سے زیادہ ذہن کو پرسکون رکھنے کی ضرورت ہے‘‘۔
یوسف نے کچھ دیرگہرا سانس لیا اور آخر کار پرسکون ہوکر بولا:
’’ارون! تم ٹھیک کہتے ہو۔ ناکامی ایک حقیقت ہے، اس لیے ناراض رہنا بے معنی ہے۔ یہ صرف اتنا ہے کہ کنیتا میرے گرنے پر فائدہ اٹھانے میں بہت اچھی ہے۔ اس نے درحقیقت والد کے سامنے کئی بار ذکر کیا کہ میں نیرنگ آباد پر قبضہ کرنے کے لیے میری جگہ لے رہا ہوں اوراس بات پر والد نے حقیقت میں کوئی اعتراض نہیں کیا‘‘۔
’’اس نے اعتراض نہیں کیا تو راضی بھی نہیں ہوا۔ دراصل حکیم اور کنیتا پہلا جانشین بننے کے لیے مقابلہ کر رہے ہیں، حقیقی معنوں میں رب کے مقام میں کامیاب نہیں ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ سر لارڈ نے ابھی اپنی بوڑھی اور کمزور عمر کو پہنچنا ہے۔ اسی لیے وہ توازن کے ساتھ کھیل رہا ہے‘‘۔
ارون ہلکا سا مسکرایا اور بولا:
’’چونکہ میدان میں ناکامی ناقابل واپسی ہے، اس لیے حکیم بھی اس پہلو میں سخی ہو سکتا ہے۔ یہ کنیتا کی عظمت کی کمی کو ظاہر کر سکتا ہے۔ اگلا مرحلہ اس بات پر منحصر ہے کہ حکیم کس طرح کا جوابی حملہ کرتا ہے‘‘۔
یوسف نے دھیمی آواز میں کہا:
’’اشمار کچھ دیر پہلے ایک اہم خبر لے کر آئی تھی۔ نیرنگ آباد میں الداس ممکنہ طور پر عظیم الشان حکیم لیول کے پوشنز کی کوشش کر رہا ہے‘‘۔
’’گرینڈ حکیم لیول کے دوائیاں؟‘‘۔
ارون نے چونک کر دیکھا اور بولا:
’’الداس وہی سیاہ ایلف ہے جس نے شاہی شہر کے نمبر1پوشنر جینئس کو زہر دے کر مار ڈالا؟۔دیومالائی دائرےمیں ہزاروں سالوں سے کوئی پوشن گرینڈ حکیم نہیں ہے۔ عظیم الشان حکیم لیول حاصل کرنے کی کوشش کرنے والوں کی مثالیں کم نہیں ہیں لیکن کوئی بھی کامیاب نہیں ہوا۔ کیا الداس کی کامیابی کا یقین ہے؟۔ یہاں تک کہ اگر اس کے ناکام ہونے کا 99٪ امکان ہے،ہم کامیاب ہونے کے 1٪ موقع کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے ہیں‘‘۔
یوسف کی آنکھوں سے سنجیدگی جھلک رہی تھی۔
’’الداس کو اصل میں شہزادی اقابلہ نے سپانسر کیا تھا لہذا وہ بمشکل حکیم لیول کی تشخیص پاس کر سکی۔ پھر بھی نہ جانے ان برسوں میں ایسا کیا ہوا کہ اس کی دوا سازی کی تحقیق اس حد تک بھیانک سطح پرپہنچ گئی اور وہ اسے چھپاتا رہا۔ اگر اس کے ہاتھوں مہیرکی موت نہ ہوتی تو کوئی بھی اس کی حقیقی طاقت کو نہیں جان سکتا۔ آج کل بہت سے لوگ اسے سلطنت کا سب سے بڑا دوائیوں کا حکیم مانتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر وہ گرینڈ حکیم لیول تک پہنچنے میں ناکام ہو جاتا ہے، تب بھی اس کی طاقتور طاقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اگر وہ کامیاب ہو جاتا ہے، تو مجھے ڈر ہے کہ ریجنٹ کو بھی شہزادہ شوالہ کو بھی اپنی چالوں پر نظر ثانی کرنی پڑے گی‘‘۔
ارون نے سوچتے ہوئے سر ہلایا اور کہا:
’’الداس ایک عظیم الشان حکیم نہیں بن سکتا، جب تک کہ وہ اپنی موجودہ ساکھ اور طاقت کے ساتھ ہماری حمایت کا حصہ بن جائے، یہاں تک کہ سر لارڈ بھی جانشین امیدواروں میں حکیم کی طرف متعصب رہے گا۔الداس کے پاس کچھ مواد کی کمی تھی جب وہ دوائیوں کے ساتھ تجربہ کر رہا تھا۔ اس نے ایک بار اپنے انسانی شاگرد کو جادو کی دکان سے مفت ٹیسٹ کے نمونے مانگنے بھیجا۔ اشمار نے اسے بہت اچھی طرح سے سنبھالااور اسے ہر مواد کا ایک مکمل ٹکڑا تحفے میں دے کر الداس کے دل میں ایک اچھا تاثر چھوڑا‘‘۔
ارون کی آنکھیں چمک اٹھیں، بولا:
’’ایسا لگتا ہے کہ جب تک ہم بڑی مقدار میں مواد فراہم کرتے رہیں گے، تب تک۔۔۔۔‘‘۔
’’نہیں، شہزادی اقابلہ کے ساتھ الداس کی وفاداری مشہور ہے۔ جب شاہی شہر نے اسے مدعو کرنے کی کوشش کی تب بھی وہ پریشان نہیں ہوا‘‘۔
یوسف کے چہرے پر دھیرے دھیرے ایک خوفناک مسکراہٹ نمودار ہوئی، بولا:
’’تاہم سب کی کوئی نہ کوئی کمزوری ہوتی ہے۔ پچھلے حکیم چیلنج کے دوران مہیرنے ایک بار الداس کی بڑے عرصے سے کھوئی ہوئی بہن کی دھمکی دی تھی جس سے اس نے الداس کو ناراض کردیا۔ اس نے اپنی حقیقی طاقت دکھانے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی اور صرف ایک دوائی سے مہیرکو زہر دے کر راکھ بنا دیا۔ اس طرح، الداس پر قابو پانے یا جیتنے کے لیے اس کی بہن سب سے اہم کلید ہے۔ ارون! تم یہ کام مکمل کرو گے اور ہر قیمت پر اس کا سراغ لگانا ہوگا‘‘۔
’’سمجھ گئے استاد!‘‘۔
ارون جھک کر کمرے سے باہر نکل گئی۔ اس نے باہر ڈری ہوئی نوکرانیوں کو دیکھا، چند نوکرانیوں نے ہمت کر کے اندر جا کر گندگی صاف کی۔
Galaxy Divinity Temple کے تربیتی میدان میں۔
علی روئی نے بالآخر4 گنا کشش ثقل میں پانچ دن برداشت کیا نظام کو صرف سونے کے لیے چھوڑ دیا۔ پھر اس نے فوری طور پر مشکل تربیت جاری رکھی۔ اس بار یہ 4گنا کشش ثقل اور10 دن کا راج تھا۔
بورنگ خود اذیت کے وقفے کے دوران سوچ ہی اس کے آرام کا واحد ذریعہ بن گئی تھی۔ اپنے مستقبل کے بارے میں سوچنا نیرنگ آباد کی ترقی کے بارے میں سوچنا۔ یہ سوچنا کہ نیرنگ آباد کے دشمنوں سے کیسے نمٹا جائے۔ صرف معاملات کے بارے میں نہیں لوگوں کے بارے میں بھی سوچنا۔ ایک ایسا ساتھی جس کو ڈریگن سمجھا جاتا ہے لیکن بطخ کی چونچ کی طرح ضدی ہے۔ برفیلی بہار کی شاہی بہن جو قاتلانہ ارادوں کے ساتھ کھیلنا پسند کرتی ہے اور صرف اپنی پیٹھ دکھاتی ہے۔ پرتشدد لڑکی جو پرجوش فیاض اور دلکش ہوتی ہے جب وہ اپنے سینے کو تھپتھپاتی ہے۔ ننھی شہزادی جو کہ ایک غیر صحت مند کتابیں جمع کرنے والی ہے کالے دل والی غیر معمولی حرکت کے طور پر ایک شاندار چھڑی سے چپکے سے حملہ کرتی ہے۔ حکیم جسے ناحق طور پر پادنےکا بادشاہ قرار دیا گیا تھا پورے دل سے گرینڈ حکیم کی وراثت سے دوائیوں سے متعلق کچھ علم سیکھنا چاہتا ہے۔ سائرن جو میری لونڈی بننے کو تیار نہیں ہے اپنی آنکھ جھپک کر لوگوں کو بہکا سکتی ہے اور اس کے پاس چوم کر لوگوں کو خشک چوسنے کا حتمی اقدام ہے۔
بار بار کی جانے والی کوششوں، ناکامیوں اور دوبارہ کوششوں کے دوران اس کی نفسیاتی اور جسمانی حدود کو بار بار چیلنج کیا گیا جبکہ الکید لائٹ گیند کے تنتوں کو بھی منظم طریقے سے گاڑھا کیا گیا۔
پرنسس پلازہ ۔
اگرچہ کاروبار بہتر سے بہتر ہوتا جا رہا تھا، اورننھی شہزادی شمائلہ سارا دن مسکراتی رہی لیکن مایا جیسا دھیان رکھنے والی شمائلہ کو اکثر ناقابل فہم طور پر حیران اور پریشان پاتی۔ کبھی کبھی وہ خود سے ایسی آواز میں بات بھی کر لیتی جو صرف وہی سن سکتی تھی۔
’’Hmph، میں فلورا سے نہیں ہاروں گی!‘‘۔
’’کتابوں سے چھاتی کو بڑھانے کے یہ طریقے بیکار کیوں ہیں؟‘‘۔
’’لعنت علی روئی پر۔ وہ دوبارہ مجھے ڈھونڈنے نہیں آیا۔ کیا وہ واقعی صرف بڑی چھاتیوں والی خواتین کو پسند کرتا ہے‘‘۔
نیرنگ آباد میں کہیں چھپا ہوا چیمبر۔
فلورا اپنی ٹانگیں کراس کر کے بیٹھ گئی اور آنکھیں بند کر لیں۔ اس کے جسم کے گرد سرخ شعلے سکون کی سانسوں کے ساتھ ہل رہے تھے۔ اس نے گہرا سانس لیا اور شعلہ آہستہ آہستہ بجھ گیا۔ اس نے آنکھیں کھولیں تو اس کے سرخ رنگ کے جواہرات ایسے تھے جیسے شدید گرمی میں۔ کچھ دیر اٹھنے اور کھینچنے کے بعداس نے اچانک اپنے ہموار چہرے کو چھوا، جیسے اس کی یادوں میں سے کوئی بقایا حرارت نکل رہی ہو۔
’’وہ لڑکا۔۔۔۔۔کیا وہ ٹھیک ہے؟‘‘۔
محل کے اندرونی صحن میں باغ۔
ایک اکیلی شخصیت تالاب کے کنارے پر برف کے مجسمے کی طرح خاموشی سے کھڑی تھی، جس سے ہوا کا جھونکا اس کے لمبے سنہرے بالوں اور سفید اسکرٹ کو آہستہ سے جھومنے دیتا تھا۔
گہری جامنی آنکھیں پانی کی سطح پر نظر آنے والے عکس کو گھور رہی تھیں۔ کافی دیر کے بعد بالآخر اس نے دھیرے سے سر اٹھایا اور رات کے آسمان میں اسی طرح کی تنہائی اور خوبصورتی کے ساتھ جوڑی کے چاند کو دیکھا۔
دن گزرتے گئے اور شام ہونے کو تھی۔ عام ہجوم کے مقابلے آج میدان میں حاضرین کی تعداد تقریباً دگنی ہو گئی۔ ایسا منظر طویل عرصے تک لڑائیوں کے دوران نظر نہیں آیا تھا۔ سامعین کی تعداد اور ماحول نے اسٹیج پر لڑنے والے ابتدائی انٹرمیڈیٹ ڈیمن کے2سینٹورز کو پرجوش کردیا۔ ان کی لڑائی سخت اور شدید ہوتی گئی لیکن زیادہ تر لوگ ان کے درمیان لڑائی دیکھنے کے لیے وہاں نہیں آئےتھے۔ وہ اگلے میچ کے لیے وہاں موجود تھے۔یہ اس دن کی آخری دلچسپ جنگ بھی تھی۔ دو جنگجو بالروگ، ریکا اور پراسرار نمبر64 تھے۔
بالروگ، ریکا؛ گریٹ ڈیمن؛ میدان میں سب سے مضبوط انٹرمیڈیٹ ڈیمن؛100 سے زائد لڑائیوں میں حصہ لیا اور 27 جیت کی لکیریں حاصل کیں۔ وہ یقینی طور پر انٹرمیڈیٹ ڈیمن کے بادشاہ کے طور پر اپنے لقب کے لائق تھا۔ افواہوں کا کہنا تھا کہ وہ ہائیر ڈیمن سے ایک قدم کے فاصلے پر تھا اور اسے تین ماہ گزر چکے تھے کہ کسی نے اسے چیلنج کرنے کی ہمت نہیں کی۔
اگرچہ نمبر64 پہلے نامعلوم تھا لیکن اس کا تجربہ معجزانہ تھا۔ یہ اس کی تیسری جنگ تھی۔ پہلی جنگ اس نے’خونی ہاتھ‘ لارنس کے خلاف جنگ لڑی جو کہ ابتدائی مرحلے کا ایک انٹرمیڈیٹ ڈیمن تھا، وہ ایک بار ایسا دب گیا تھا کہ واپس لڑنے کے قابل بھی نہیں تھا۔ اس کے بعد لارنس کے <Berserk> ٹیلنٹ کو استعمال کرنے کے بعد صورتحال الٹ گئی۔ پھر وہ لارنس کو مارنے میں کامیاب ہوگیا۔ دوسری جنگ وہ ’کوئیک وولف‘ کے خلاف لڑا۔ جیسی درمیانی مرحلے میں سب سے مضبوط، اس نے جیسی کی متعدد مہلک چالوں کو توڑ دیا اور شکست دی۔ کسی وجہ سے اس نے جیسی کو نہیں مارا۔ تیسری جنگ میں، نمبر64 ریکا کے خلاف لڑے گا جو درمیانی ڈیمنوں کے بادشاہ ہیں۔
نمبر64 کی تین لڑائیاں ابتدائی مرحلے، درمیانی مرحلے اور انٹرمیڈیٹ ڈیمن کے اعلیٰ مرحلے کی تھیں۔ ہر جنگ سے بڑی چھلانگ تھی۔ یہ سب اس بات پر منحصر تھا کہ آیا وہ تیسری جنگ میں کوئی معجزہ پیدا کر سکتا ہے۔باخبر لوگوں کے مطابق نمبر64 دراصل جنوب مشرقی گلی میں نئی ابھرنے والی تنظیم کلوننگ گینگ کا لیڈر تھا جسے منگول کہتے ہیں۔ تقریباً ڈیڑھ ماہ قبل منگول تجارت کے لیے مشہور سیاہ فام تاجر کالاری کے پاس گیا۔ کالاری نے اسے لوٹنے اور قتل کرنے کی کوشش کی۔ نتیجے کے طور پر منگول اور جیسی نے اکیلے نمبر4 گلی کو گھیر لیا، کالاری اور ہائی اسٹیج انٹرمیڈیٹ ڈیمن گراؤ کو مار ڈالا۔ اس کے بعد قدیم گھر بھی تہہ دار گینگ کا نیا ہیڈ کوارٹر بن گیا۔ حال ہی میں بہت سی بدروحوں نےتہہ دار گینگ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ اس کی رفتار بڑی ہو رہی تھی۔ اس جنگی ریکارڈ نے سامعین کو نمبر 64منگول کے بارے میںمزید پر امید بنا دیا۔ دونوں کے جوئے کی مشکلات درحقیقت ایک دوسرے سے زیادہ دور نہیں تھیں۔
جبران حسب معمول وی آئی پی سیٹوں پر بیٹھا تھا۔ لِچ، کیتھن کے علاوہ، پچھلے میچوں کے مقابلے سیٹوں پر دو اور لوگ تھے۔ ان میں سے ایک شیرف ایان تھا۔ دوسرا جبران کا دوست یوسف تھا اشمار کے تین سکیتھوں میں سے ایک تھا۔ جبران اور اشمار اپنی اپنی گفتگو کر رہے تھے۔ انہوں نے ایان پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ ایان نے گفتگو میں شامل ہونے کی کوشش کی لیکن اسے احساس ہوا کہ دونوں اس کے بارے میں پریشان نہیں ہیں۔ اس لیے اسے شرمندگی محسوس ہوئی۔ تاہم اس نے یہ بھی سمجھا کہ اس کے لیے VIP سیٹوں پر دو تجربہ کار گریٹر گریٹ ڈیمن کے ساتھ بیٹھنا اس کی ذاتی طاقت کے بجائے کارون فیملی کے نوجوان حکیم کے طور پر شناخت کی وجہ سے تھا۔
ایان نے خود کو شرمندہ کرنا چھوڑ دیا لیکن وہ وقتاً فوقتاً طنز کرتا رہا۔
میدان کی تیاری کے کمرے میں علی روئی نے معمول کے مطابق چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ وہ خاموشی سے باہر کی جاندار قہقہوں کو سنتا رہا۔ حکیم چیلنج کے دوران پہلی بار میدان میں قدم رکھنے سے پہلے تناؤ اور بے چینی کے مقابلے میں وہ اب انتہائی پرسکون تھا۔
یہ صرف طاقت میں بہتری نہیں تھی بلکہ ذہنی طور پر بھی ایک تبدیلی تھی۔ دوسروں کی نظروں میں آدھا مہینہ تھا لیکن اصل میں تین ماہ سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا تھا جس کے پاس تربیتی میدان تھا۔ اس کے علاوہ، یہ4 گنا کشش ثقل کے ماحول میں تھا۔ ابتدائی70,000 اوراس پہلے ہی ختم ہو چکے تھے۔ تربیت کے درمیان اس نے کالاری کے پیسے کا استعمال کرتے ہوئے بوڑھے بونے کے خریدے گئے مواد کو دوبار تبدیل کیا۔ اس نے حقیقت میں سنکھیار کے ساتھ خصوصی تربیت بھی کی تھی۔ باقی چمک50,000 اوراس سے زیادہ تھی۔ یہ اس لیے نہیں تھا کہ وہ استعمال کرنے سے گریزاں تھا لیکن اس نے سوچا کہ یہ ضروری نہیں ہے۔
تین ماہ کی تربیت کے شاندار نتائج برآمد ہوئے۔4 گنا کشش ثقل پہلے ہی اس کے لیے کچھ بھی نہیں تھی۔ آخری تربیتی گراؤنڈ پریکٹس کے دوران اس نے خاص طور پر جنگل کا منظر بھی منتخب کیا۔ اس نے کشش ثقل کے جنگل میں اس طرح چھلانگ لگائی جیسے وہ میدانی زمین ہو۔ یہ کسی بھی طرح سے کوئی خرابی نہیں تھی کیونکہ علی روئی خود اس درد اور دباؤ کے بارے میں بہتر جانتا تھا جس کا اسے سامنا تھا۔ خاص طور پر ابتدائی مرحلے کے دوران وہ کئی بار زندگی اور موت کے دہانے پر تھا لیکن اس نے اپنی پختہ قوت ارادی سے عبور کر لیا۔ روحانی نفس کی اس مسلسل برداشت کے تحت جسم کی حدیں بھی بار بار ٹوٹتی رہیں۔
اسٹیٹس بار میں 3-D انسانی جسم میں پارباسی ہڈیاں اور پٹھے سبھی کو الکید سطح کے لائٹ بال سنٹر سے مضبوط کیا گیا تھا۔ یہ متعدد باریک تنتوں کے ساتھ مربوط تھا جو سائیکل میں بہہ رہا تھا۔ Expirence Value Display پہلے ہی سرخ ہو چکا تھاجو 100فیصد دکھا رہا ہے۔
ان اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اسٹار پاور پر اس کا کنٹرول اور الکید سطح میں <Refined Body> کی ترقی مکمل طور پر پختہ مرحلے پر پہنچ چکی ہے۔ اگلے دائرے میں جانے کے لیے اس کے پاس پہلے سے ہی بنیادی شرائط موجود تھیں۔ تاہم اسے یقین نہیں تھا کہ اگلے ستارے کے ارتقاء کو کیسے متحرک کیا جائے اور وہ مزار کے دائرے میں کیسے داخل ہوگا۔ وقت کی کمی کی وجہ سے عارضی طور پر8 گنا کشش ثقل کے مطابق ڈھالنا ضروری نہیں تھا۔ زہریلے ڈریگن کے مطابق اگر تربیت کی شدت میں اضافہ کیا گیا تو بھی یہ صرف جسم کو تربیت دے گا۔ اثر بہت اچھا نہیں ہوگا۔ بہترین پیش رفت کا موقع تلاش کرنے کے لیے اسے حقیقی لڑائی پر انحصار کرنا پڑا۔
علی روئی اس جنگ کی آمد کا بے تابی سے انتظار کر رہا تھا کیونکہ یہ ممکنہ طور پر رکاوٹ کو توڑنے کی کلید ہوگی۔ وہ اب سطح پر پرسکون لگ رہا تھا لیکن وہ بلند حوصلہ تھا۔ یہ آخری جنگ میں جیسی کے خلاف لڑنے کی احتیاط سے بالکل مختلف تھا۔
’’نہیں. 64؟ سر منگول؟‘‘۔
دروازے پر ایک جانی پہچانی آواز آئی۔
اس وقت کوئی بھی تیاری کے کمرے میں داخل ہونے کے قابل نہیں تھا۔ علی روئی نے ایک نظر ڈالی اور وہ دراصل ایان کا ماتحت لیچ، نجیب تھا۔ جب اس نے کالاری کو قتل کر کے قدیم گھر پر قبضہ کر لیا تو نجیب شیرف ایان کی طرف سے تفتیش کرنے آیا۔ آخر کار قدیم گھر میں کلوننگ گینگ کے اعمال کو کچھ کالے کرسٹل سکوں کے ساتھ رشوت دینے کے بعد کامیابی سے قبول کر لیا گیا۔
’’اس آدمی کا اچانک تیاری کے کمرے میں آنے کا کیا ارادہ ہے؟‘‘۔
’’یہ واقعی سر منگول ہے‘‘۔
نجیب اس نقاب تہہ دار گینگ کے لیے کوئی اجنبی نہیں تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ اس کی طاقت واقعی خوفناک ہے کیونکہ اس نے ریکا کو براہ راست چیلنج کرنے کی ہمت کی۔ خوش قسمتی سے گانگا اور نجیب منگول کے ساتھ نہیں پڑے جب وہ پہلے کلوننگ گینگ کے پاس گئے تھے۔
’’سر! میں یہاں شیرف ایان کے حکم کی وجہ سے آیا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ صاحب ایک بات کا وعدہ کریں‘‘۔
ایان۔ردی کی ٹوکری میں بات کرنے والاقابل رحم آدمی؟ ‘‘۔
علی روئی نے جھک کر کہا:
’’یہ کیا ہے؟‘‘۔
نجیب نے کہا:
’’یہ ایسے ہی ہے‘‘۔
کلوننگ گینگ کا کالاری کو قتل کرنے اور قدیم گھر پر قبضہ کرنے کا واقعہ واقعی پریشان کن ہے۔ اس کی اطلاع جلد ہی شہزادی اقابلہ کو دی جائے گی۔ ایک بار جب شہزادی اقابلہ نے شاہی محافظوں کو دبانے کے لیے بھیج دیا یہاں تک کہ سر ایان بھی کلوننگ گینگ کی مدد نہیں کر سکتا۔
’’جھاڑی کے ارد گرد مارنا بند کرو! سیدھا بتاؤ‘‘۔
علی روئی نے دل ہی دل میں طنز کیا۔ یہ الفاظ صرف دوسروں کو ڈرانے کے لیے استعمال کیے جا سکتے تھے۔ چاہے وہ ایان ہو یا نجیب۔ انہوں نے کبھی نہیں سوچا ہوگا کہ منگول خود اقابلہ کا سب سے قابل اعتماد مشیر ہے۔ دوسری طرف اس نجیب نے تو ابھی بڑی رشوت لی ہے لیکن وہ اب میرے ساتھ ایک معیاری ناشکرا ڈیمن نکل رہا ہے۔
’’سر واقعی ایک سمجھنے والے انسان ہیں‘۔
نجیب نے مسکراتے ہوئے کہا:
’’سر ایان اس معاملے کو دبانے کی کوشش کر سکتے ہیں اور جنوب مشرقی بلاک میں کلوننگ گینگ کی پوزیشن کو سرکاری طور پر تسلیم کر سکتے ہیں۔ شرط آسان ہے۔اس جنگ میں سر منگول کو ریکا سے ہارنا پڑے گا‘‘۔
جعلی نتیجہ؟ ایک دھمکی؟۔
علی روئی نے چیخ ماری اور نجیب کو مخالف کی طرف سے ایک پوشیدہ قتل کا احساس ہوا۔ وہ فوراً گھبرا گیا۔ اس کا جسم غیر ارادی طور پر کانپ گیا۔
’’ایان واقعی میرے بارے میں اتنا زیادہ سوچتا ہے کہ اسے لگتا ہے کہ ریکا ہار جائے گا‘‘۔
علی روئی نے سرد لہجے میں کہا:
’’اگر میں راضی نہیں ہوں تو کیا ایان میرے اور کلوننگ گینگ کے ساتھ معاملہ کرے گا؟‘‘۔
نجیب نے ہکلاتے ہوئے کہا:
’’سر! برائے مہربانی پرسکون ہوجائیں۔ میں ایک چھوٹا سا پیغام رساں ہوں جو سر ایان کی درخواست پہنچانے آیاہے۔ جناب کا مجھے مارنا بے معنی ہے۔ ریکا نے کارون فیملی کے ساتھ وفاداری کا حلف اٹھایا ہےاس لیے سر ایان نہیں چاہتے کہ ان کے ساتھ کوئی حادثہ ہو۔ اس لیے جب تک جناب کی ہار کو جعلی بنانے پر راضی ہو جائیں، میدان میں کوئی خطرہ نہیں ہوگا‘‘۔
آخرکار قاتلانہ ارادے آہستہ آہستہ دم توڑ گئے۔ منگول کی کرکھی آواز سنائی دی۔
’’چونکہ یہ معاملہ ہے۔ ایان سے کہو کہ میں اس بات کو یقینی بناؤں گا کہ وہ مطمئن رہے‘‘۔
نجیب کو بالآخر سکون ملا۔ وہ منگول کو ناراض کر کے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے سے ڈرتا تھا۔ اس لیے اسے یہ سن کر معافی مانگنے کا احساس ہوا۔ اس نے خوشی سے کہا:
’’شکریہ جناب! نجیب صاحب کو دوبارہ جنگ کی تیاری کے لیے پریشان نہیں کریں گے! میں اب چلا جاؤں؟‘‘۔
’’ہاں چلے جائو ‘‘۔
اس وقت موجودہ جنگ ایک سینٹور کی موت کے ساتھ ختم ہوئی۔ تھوڑی سی صفائی کے بعد آخرکار میجک ایمپلی فائر کے ساتھ فائنل کا انعقاد کیا گیا۔
لاکھوں نظروں کے نیچے میدان کے مرکز میں مقابلہ کرنے والی دونوں جماعتیں نمودار ہوئیں۔
ریکا ایک گریٹ ڈیمن کی بہت معیاری تصویر تھی۔ ایک لمبا جسم، سرخ جلد والا،2 سیاہ، خم دار سینگ سر پر ہلکے سے چمک رہے ہیں۔ وہ اس طرز عمل سے بھرا ہوا تھا کہ وہ کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔
اس کے برعکس نمبر 64جو ابھی تک اپنے نقاب اور چادر میں تھا نسبتاً پتلا نظر آتا تھا۔ اس کا رویہ کافی کم تھا۔ وہ ریکا کی شکل کے مقابلے میں بہت کمتر تھا۔
وی آئی پی ٹیبل پر موجود اشمار کچھ دیر تک نمبر64 کو گھورتا رہا۔ اس کی پرسکون آنکھوں نے ہلکی سی تعریف دکھائی۔ اس نے مسکرا کر کہا:
’’جبران! لگتا ہے کہ تم اچھی بصیرت رکھتے ہو۔ یہ نمبر64 آسان نہیں ہے‘‘۔
اگرچہ نمبر64 سطح پر مسلط نظر نہیں آرہا تھا لیکن اشمار جیسا کوئی مضبوط شخص یقینی طور پر بتا سکتا ہے کہ نمبر64 کی جسمانی اور روحانی توانائی پہلے ہی ایک میں ضم ہو چکی تھی۔ اس کا روکھا رویہ اگرچہ واضح نہیں تھا لیکن دوسروں کے بارے میں اس کا تاثر ریکا سے کم نہیں تھا۔
جبران کی نظریں بھی منگول کے جسم پر جمی ہوئی تھیں۔ حیرت اس کی آنکھوں سے گزر گئی جب وہ خود سے بولا:
’’انٹرمیڈیٹ ڈیمن کی چوٹی؟ یہ واقعی حیران کن ہے لیکن۔۔۔۔۔بہت اچھا!‘‘۔
’’میں نے سوچا کہ یہ دوبارہ ریکا کی سولو پرفارمنس ہوگی لیکن موجودہ صورتحال کی بنیاد پر نتیجہ بتانا مشکل ہو سکتا ہے‘‘۔
اشمار نے سوچتے ہوئے کہا:
’’اگر نمبر64 ایک گریٹ ڈیمن ہےتو وہ اب اپنی باقاعدہ شکل میں ہے۔ ایک بار جب وہ اپنی جنگ کی شکل استعمال کرتا ہےتو بہت امکان ہے کہ وہ ہائیر ڈیمن تک پہنچ جائے گا۔ اگر ایسا ہے تو ریکا خطرے میں ہے‘‘۔
جبران کی آنکھیں اچانک چمک اٹھیں۔ یہ ٹھیک ہے۔ پچھلی دو لڑائیوں میں منگول نے کبھی بھی تبدیلی کا استعمال نہیں کیا تھا۔
’’پھر بھی یہ مطلق نہیں ہے‘‘۔
اشمار نے خوبصورتی سے شراب کا ایک گھونٹ لیا اور تبصرہ کرنا جاری رکھا:
’’تبدیلی کا مطلب دائروں کو عبور کرنا نہیں ہے۔ بہت سے بعد کے مرحلے کے گریٹ ڈیمن اب بھی تبدیلی کے بعد کے مرحلے میں رہتے ہیں، صرف ان کی طاقت کو بڑھایا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ لڑکا ضروری نہیں کہ ایک گریٹ ڈیمن ہو۔ ہوسکتا ہے کہ وہ ایک قابل رحم شاہی خاندان کی اولاد ہو‘‘۔
جبران نے یاد کیا کہ منگول نے ایک بار ’’محروم اعزاز‘‘ کا ذکر کیا تھا۔ وہ یک دم خاموش ہو گیا۔ پھر اس نے اس بارے میں نہ سوچنے کا فیصلہ کیا۔ جنگ ایک جنگ ہے۔ جب تک میں دلچسپ جنگ سے لطف اندوز ہو سکتا ہوں، مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ ایک گریٹ ڈیمن ہے یا شاہی خاندان!میں بس جبران ہوں۔
ایان سائیڈ میں سن کر تھوڑا ڈر گیا۔ منگول عام لگ رہا تھا لیکن اس کے پاس اصل میں ریکا کو شکست دینے کا موقع تھا۔ اسی لمحے اس نے لیچ کو دیکھا۔ نجیب وی آئی پی سیٹوں کے پہلو میں نمودار ہوا۔ ایان نے نجیب کا اشارہ دیکھا اور خود کو محفوظ محسوس کیا۔ اس نے نجیب کو تعریفی نظروں سے دیکھا اور شرط لگانے کا اشارہ کیا۔ نجیب سمجھ گیا۔ وہ تیزی سے مڑ کر باہر نکل گیا۔
میدان میں موہک سوکبس نے دونوں فریقوں کو پرجوش انداز میں حاضرین سے متعارف کرایا۔ بالروگ ریکا نے وی آئی پی سیٹ پر ایک نظر ڈالی۔ اس نے خالی ہاتھ جنگ کرنے کا فیصلہ کیا۔ پھر اس نےنمبر64سے کہا:
’’تم مرنے کے لیے تیار ہو؟‘‘۔
جس چیز نے سوکیوبس کو حیران کیا وہ نمبر64کے اعلان میں بیٹنگ کے بارے میں کچھ شامل نہیں تھا۔ اتفاق سے یہ بھی ریکا جیسے5 الفاظ تھے۔
’’براہ کرم مجھے مایوس نہ کریں‘‘۔
نام نہاد سب سے مضبوط انٹرمیڈیٹ ڈیمن جنگ شروع ہوئی۔ حاضرین نے سانس روک لی۔ سب سے زیادہ پرتشدد تصادم دیکھنے کی تیاری۔ تاہم جب دونوں جنگی حالت میں آ گئے، ان میں سے کسی نےبھی حرکت نہ کی۔ وہ صرف ایک دوسرے کو قریب سے گھور رہے تھے۔ اگر نظریں ہتھیار ہوتی تو دونوں فریق ایک لمحے میں ہزاروں بار ٹکرائے تھے۔ ریکا کی نگاہیں پھٹنے والے آتش فشاں کی طرح تھیں۔ کوئی بھی حرکت زمین کو ہلا دینے والی ہو گی جبکہ نمبر64جھیل کے ٹھہرے پانی کی طرح پرسکون تھا۔ اس کی سب سے بڑی طاقت سکون میں چھپی ہوئی تھی۔
عین اس وقت جب سامعین بے چین ہو رہے تھے، کسی نے قیادت سنبھالی۔ غیر متوقع طور پر سب سے پہلے حملہ کرنے والا نمبر64تھا۔ اس وقت جب نمبر64نےحرکت کی، اشمار اور جبران کی آنکھیں بیک وقت روشنیوں سے چمک اٹھیں۔ سامعین بھی حیران تھے۔ اسی وقت ریکا کی طرف سے تیز رفتار ٹکرانے کی آواز آئی۔
’’پوم! پوم! پوم! پوم‘‘۔
ریکا نے پہلے ہی دفاعی انداز اپنا لیا تھا۔ اس کا جسم غیر ارادی طور پر کانپ رہا تھا۔ وہ واضح طور پر ایک غیر فعال حرکت میں تھا۔ غیر معمولی بصارت کے حامل سامعین میں سے کچھ نے پہلے ہی دیکھا تھا کہ نمبر64پتلی شکل ریکا کے ارد گرد ظاہر ہوتی ہے اور غائب ہوتی ہے جب کہ ریکا کے نیچے کی زمین آہستہ آہستہ پھٹ جاتی ہے۔ سامعین کے درمیان، سیاہ ایلف ، جیسی کا چہرہ عجیب طرح سے پیلا لگ رہا تھا۔ اس کا شاگرد سکڑ گیا، کھیت میں تیز رفتار شخصیت کو گھور رہا تھا۔ اسے درحقیقت ایسا لگا جیسے وہ اپنی بینائی کو برقرار نہیں رکھ سکتا۔ جیسی کو ہمیشہ اپنی رفتار پر فخر تھا۔ یہاں تک کہ پچھلی بار منگول سے ہارنے کے باوجود اس کی رفتار اب بھی بہتر تھی۔ ابھی تک صرف20دن گزرے ہیں۔ منگول کی رفتار، درحقیقت اتنی خوفناک حد تک بہتر ہو گئی ہے،نہ صرف رفتار بلکہ طاقت بھی۔جب وہ قدیم گھر میں کالاری سے لڑ رہا تھا تو اس نے ایسی طاقت نہیں دکھائی تھی۔ اس ڈیڑھ مہینے میں کیا ہوا؟۔
منگول کی اپنی موجودہ طاقت اور رفتار کے فائدہ کے ساتھ، اگر وہ دوبارہ لڑتے ہیں، تو جیسی غالباً 5 منٹ سے زیادہ یا اس سے بھی کم نہیں چل سکے گا۔ کیا میں واقعی ایک مہینے کے بعد اس آدمی کو چیلنج کر رہا ہوں۔ سیاہ ایلف نے اپنی مٹھی کو مضبوطی سے جکڑ لیا ۔انگلیاں پہلے ہی پیلی ہو چکی تھیں۔
کیا تم اب بھی مضبوط ہو سکتے ہو؟‘‘۔
آواز پھر اس کے کان میں پڑی۔
’’میں کرسکتا ہوں‘‘۔
جیسی نے دھیمے لہجے میں کہا جیسے وہ اس شخص کو جواب دے رہا ہو، لیکن یہ خود کلامی کے انداز میں تھا۔
اس کے برعکس تہہ دار گینگ کے ارکان جو بوڑھے بونے کی قیادت میں خصوصی طور پر خوش ہونے کے لیے آئے تھے، دیکھتے ہی دیکھتے جوش میں آ گئے اور انہوں نے اپنے لیڈر کے لیے زور زور سے خوشی کا اظہار کیا۔ مختلف سائز کے یہ چادریں بھی اسٹینڈ میں ایک عجیب منظر پیش کر رہی تھیں۔
میدان میں پرتشدد دھماکوں کا سلسلہ جاری رہا لیکن تال کی تبدیلی مزید بے ترتیب ہو گئی۔ ریکا آہستہ آہستہ پیچھے ہٹ گیا تھا لیکن اہم حصوں کا دفاع کرنے کا انداز کبھی نہیں بدلا۔ تاہم دوسرے حصوں پر صرف حملہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ یہ بالروگ تھا جو اپنی جارحانہ دفاعی صلاحیتوں اور برداشت کے لیے جانا جاتا تھا۔ اگر یہ کوئی اور ہوتا تو شاید وہ اسے برداشت نہ کر پاتا اور بے ہوش ہو جاتا۔
جیسے ہی ریکا پیچھے ہٹا۔
’’پوم‘‘۔
اس کے جسم پر ایک سرخ شعلہ نمودار ہوا اور فوراً غائب ہوگیا۔ علی روئی نے ایک ہٹ کو کھو دیا، ریکا اسی وقت اس کے پیچھے نمودار ہوا۔ ایک جلتی ہوئی مٹھی فوری طور پر نکل آئی۔ ریکا نے آخر کار اپنا پہلا جوابی حملہ کیا۔ تاہم وہ پنچ بھی چھوٹ گیا۔ علی روئی نے جھٹکا دیا اور تیز رفتاری سے خود کو6 سے7میٹر دور کر لیا۔ گریٹ ڈیمن کے خاندان میں تین بنیادی صلاحیتیں تھیں۔پہلی ہتھیاروں کی مہارت تھی۔ وہ مختلف ہتھیاروں پر کانچ استعمال کرنے میں اچھے تھے۔ اسی لیے انہیں بھیڑ کاٹنے والابھی کہا جاتا تھا۔ دوسرا ٹیلی پورٹیشن تھا۔ علی روئی نے اسے اسکائی بیٹل کے دوران پہلے بھی دیکھا تھا۔ اس وقت جب ایان وائیورن کی پیٹھ سے گرا اور زمین پر بحفاظت واپس آنے کے لیے ہوا میں ٹیلی پورٹیشن کا استعمال کیا۔ گریٹ ڈیمن کی سطح جتنی اونچی ہوگی ٹیلی پورٹیشن کا مؤثر فاصلہ اتنا ہی زیادہ ہوگا اور مہارت کی ٹھنڈک اتنی ہی کم ہوگی۔ تیسری دیومالائی آگ تھی۔ دیومالائی آگ کا کردار دشمن کو جلانا نہیں تھا بلکہ اپنے آپ کو جلانا تھا جو طاقت بڑھانے کے لیے ایک محرک کے مترادف تھا۔ دیومالائی آگ کا اثر اور موثر وقت صارف کی صلاحیتوں اور طاقت کے براہ راست متناسب تھا۔ ریکا کے لئے حیرت کی بات یہ تھی کہ اپنی طاقت بڑھانے کے لیے دیومالائی آگ کا استعمال کرنے کے بعد بھی وہ حریف کی رفتار کو پکڑنے میں ناکام رہا۔ دوسری طرف اس کے مخالف نے تیز رفتار حملوں کے سلسلے کے بعد نہ تو ہانپا اور نہ ہی تھکن کی کوئی علامت دکھائی۔
’’اگر صرف رفتار پر نظر ڈالیں‘‘۔
VIP سیٹ پر موجود اشمار نے اپنا گلاس نیچے رکھا اور تعریفی نظروں سے دیکھا:
’’نہیں۔ 64ابتدائی ہائیر ڈیمن کی سطح کے قریب تھا۔ میں واقعی میں نہیں سمجھتا کہ اس نے اس حد تک تربیت کیسے کی؟۔ اس جنگ میں ریکا کی جیت مشکل ہو سکتی ہے‘‘۔
جبران نے کچھ نہیں کہا۔ اس کی آنکھیں سرد شعلوں سے جل رہی تھیں۔ صرف ایک ماہ پہلے یہ نمبر64سے زیادہ بے اختیار کوئی نہیں تھا۔ میں کبھی بھی اس سے اتنی مختصر مدت میں اس حد تک بہتری کی توقع نہیں کرتا تھا۔ اگرچہ اسے صرف نسبتاً مضبوط کوئی بھی نہیں سمجھا جا سکتا لیکن ابھی ایک ماہ کا وقت باقی ہے۔ ایک مہینے کے بعد منگول کتنا بڑھ سکتا ہے؟۔ گریٹ ڈیمن کے چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ تھی۔ اس نے پھر سر اٹھایا اور گلاس میں شراب نیچے کی۔
’’ایک لڑکا جو صرف بھاگتا ہے۔ تم میں سیدھا دفاع کرنے کی ہمت بھی نہیں ہے؟‘‘۔
ریکا نے حقارت سے کہا۔
اشتعال انگیز الفاظ کا ایسا معیار واقعی بیکار ہے۔ علی روئی نے سر ہلایا۔ وہ کچھ بھی کہنے میں بہت سست تھا۔ اس کے بجائے اس نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور ریکا کو آنے کا اشارہ کیا۔ ایسی واضح اشتعال انگیز کارروائی واضح طور پر زیادہ موثر تھی۔ ناراض ریکا پر دیومالائی آگ مزید زور سے بھڑک اٹھی۔ وہ چھلانگ لگا کر اوپر سے علی روئی کی طرف لپکا۔ اس بار علی روئی نے چکما دینے کے لیے اپنی رفتار کا فائدہ نہیں اٹھایا۔ اس نے اپنی کمزوری کے ساتھ اپنے مخالف کی طاقت کا سامنا کرنے کے بجائے دفاعی انداز اپنایا۔ ریکا کے چہرے پر ایک عجیب سا تاثر نمودار ہوا۔ دونوں ایم فوراً ٹکرا گئے۔ حاضرین نے چیخ کر دیکھا کہ نمبر64کا ہاتھ بڑھا۔ اس نے ریکا کے پرتشدد جلتے ہوئے مکے کو روک دیا۔ اس کے پاؤں پیچھے کی طرف ہوئے۔ پھر اس نے اپنے جسم کو تھام لیا۔
’’کا‘‘۔
اس مکے کی طاقت کو ظاہر کرتے ہوئے نیچے کی چلبلٹ دوبارہ پھٹ گئی۔ علی روئی نے بھی بغیر کسی ہچکچاہٹ کے مکے مارے۔ ریکا نے حملے کو روک دیا۔ اس کا جسم بھی ہلکا سا ہلا ہوا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ ایک دوسرے مماثل ہیں۔ اس کے بعد دونوں بغیر کسی فینسی چال کے آمنے سامنے ہونے لگے۔ مدھم لڑائی کی آواز لامتناہی تھی۔ اس دلخراش منظر نے سب کو دنگ کر دیا۔ یہ پوشیدہ پراسرار آدمی نہ صرف حیرت انگیز طور پر تیز تھا بلکہ اس کی طاقت ریکا کا مقابلہ بھی کر سکتی تھی۔ لڑائی کی آوازیں آتی رہیں۔ ان کے پیروں کے نیچے موٹی اور سخت چلبلٹیں دباؤ کو برداشت نہیں کر سکیں اور بکھر گئیں۔ یہ صرف طاقت کا تصادم نہیں تھا بلکہ قوت ارادی کا بھی ٹکراؤ تھا۔
اسی کو ہم جنگ کہتے ہیں۔ آج میدان میں آنا یقیناً اس کے قابل ہے۔ سامعین نے ہلچل مچا دی اور جوش و خروش سے داد دی۔ سامعین کی قیادت میں لبادے میں ملبوس ڈیمن نمبر64کے لیے زور سے نعرے لگا رہے تھے جبکہ دوسرے گروپ نے بالروگ کے لیے خوشی کا اظہار کیا۔ ان کی چیخیں بلند سے بلند تر ہوتی جا رہی تھیں۔ علی روئی کو یہ احساس نہیں تھا کہ اس پاگل پرتشدد جنگ کے دوران اس کا جسم سفید روشنی کی ایک تہہ کو ہلکے سے ظاہر کر رہا تھا جیسے کوئی چیز ابھرنے والی ہو۔
’’اچھا ہے۔کم از کم اس کے پاس ریکا جیسی طاقت اور برداشت ہے۔ یہ میچ سب سے مضبوط انٹرمیڈیٹ ڈیمن جنگ کہلانے کا مستحق ہے۔ اس کے باوجود نمبر64کی رفتار واضح طور پر گریٹ ڈیمن کے قریب ہے۔ اس نے لڑنے کے لیے ایسا غیر دانشمندانہ طریقہ کیوں اختیار کیا؟‘‘۔
اشمار گریٹ ڈیمن کے طور پر جو حکمت عملی بناتا تھا تھوڑا سا پریشان محسوس ہوا۔ اشمار کا تبصرہ سننے کے بعد ایان اور بھی پراعتماد تھا۔
’’خوش قسمتی سے میں نے نجیب کو دھمکی دینے کے لیے بھیجا ورنہ ریکا واقعی ہار سکتاہے۔ اس بار میں نے ایک بڑی شرط لگائی۔ میں بہت زیادہ منافع کما سکتا ہوں۔ منگول کافی چالاک آدمی ہے اور اس کے پاس مہذب طاقت ہے۔ میں اسے مستقبل میں کارون فیملی کے لیے کام کرنے کے لیے بھرتی کرنے پر غور کر سکتا ہوں‘‘۔
’’ایک پتھر۔۔۔‘‘۔
جبران نے آنکھیں موند کر خود ہی جواب دیا۔ وہ علی روئی کی اصل نیت کو سمجھ رہا تھا۔
وقت گزرتا گیا لیکن میدان میں جنگ کی تال کم نہیں ہوئی۔ تاہم دونوں پارٹیوں نے تھوڑا سا ہانپنا شروع کر دیا تھا۔ ریکا شروع میں اپنے حریف کو ختم کرنے کے لیے اپنی برداشت پر بھروسہ کرنا چاہتا تھا لیکن اسے امید نہیں تھی کہ اس کے حریف کی برداشت خود سے کچھ زیادہ ہے۔ خاص طور پر اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کی بہادری نے بالروگ کوپریشان کر دیا۔
بہر حال ریکا اب بھی انٹرمیڈیٹ ڈیمنز کا بادشاہ تھا اس لیے اس کی طاقت بالکل بھی نہیں تھی۔ وہ جانتا تھا کہ اگر یہ قریبی لڑائی جاری رہی تو یہ اس کے لیے برا ہو گا۔ وہ چلایا اور پوری طاقت سے علی روئی کو گھونسا مارا۔ جب دونوں ایک دوسرے کی طاقت سے اڑا دیے گئے، ریکا نے اپنے ٹیلی پورٹیشن کا استعمال کیا اور فوری طور پر علی روئی کے پیچھے نمودار ہوا۔ وہ بھڑکتے شعلوں میں لپٹا ہوا تھا۔ اس کے دونوں ہاتھ پنجوں کی شکل اختیار کر گئے۔ اس کی ہتھیلی کے اندر روشنی کی ایک جلتی ہوئی گیند تیزی سے بنی اور علی روئی کی طرف لپکی۔
یہ تھا <پائروبلاسٹ< ریکا کا حتمی اقدام جو اس کی صلاحیتوں کو یکجا کرکے بنایا گیا تھا۔ اس کا حیرت انگیز نقصان ہوا۔ یہ اس کے نام کا اصل تھا ’’بالروگ‘‘۔
علی روئی ٹھیک سے نہیں اترا تھا۔ اس نے ابھی اپنی طاقت بھی ختم کردی تھی اور صحت یاب بھی نہیں ہوا تھا۔ اس کے علاوہ خود کو سہارا دینے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔ مایوس کن لمحے میں وہ صرف مڑ سکتا تھا اور دفاعی کرنسی بنانے کے لیے اپنے بازوؤں کو پار کر سکتا تھا۔
<Pyroblast> علی روئی کے بازو سے ٹکرانے پر پھٹ گیا اور مضبوط طاقت نے اسے اڑا دیا، یہاں تک کہ اس کی چادر بھی پھاڑ دی۔ جیسے ہی ریکا نے کامیابی سے ٹکر ماری اس نے دوبارہ اپنے ہاتھ کھڑے کر دیے۔ مزید دو <پائروبلاسٹ< علی روئی کی طرف روانہ کیے گئے، پھر میدان میں دوبارہ دھماکے کی آواز گونجی۔
’’ نمبر64 کو مارنے کا یہ موقع ہاتھ سے نہیں جانا چاہیے‘‘۔
ریکا پہلے ہی اپنی ساری طاقت ختم کر چکا تھا۔ اس کے ہاتھوں کے جوڑے4بنتے دکھائی دے رہے تھے۔ایک کے بعد ایک گولی مار رہے تھے جیسے چار بیرل مشین گن جو شدت سے چمک رہی ہو۔ دھماکے دار آوازیں یکے بعد دیگرے پورے میدان میں گونجنے لگیں۔ دھول اور ملبے کے بادل نظر آ رہے تھے۔ تماشائی مشکل سے دیکھ سکتے تھے کہ اندر کیا ہوا ہے۔
کافی دیر بعد ریکا نے بمباری روک دی۔ وہ زور زور سے ہانپ رہا تھا۔ اس کے جسم پر شعلہ واضح طور پر کمزور تھا۔ اس کی برداشت کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو پھر بھی اس کی ایک حد تھی۔ <Pyroblast> کی اس زنجیر نے ریکا کی طاقت کو تقریباً ختم کر دیا تھا لیکن اس نے اس مشکل حریف سے نمٹ لیا۔ وہ مسکرانے کے علاوہ مدد نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے یہ نہیں سوچا تھا کہ کوئی انٹرمیڈیٹ ڈیمن ہو گا جو اس کی بہترین صلاحیتوں کی بھر پور بمباری میں زندہ رہ سکے گا۔
دھول کا بادل آہستہ آہستہ ٹھہر گیا لیکن ریکا کی مسکراہٹ اچانک اس کے چہرے پر جم گئی۔ ایک کھڑی شخصیت آہستہ آہستہ دھوئیں کے اندر واضح ہوتی گئی۔ تہہ دار گینگ کے ارکان اورنمبر64کے حامیوں نے دیکھ کر فوراً خوشی کا اظہار کیا۔ اس وقت علی روئی کی حالت اچھی نہیں تھی۔ وہ اپنی سٹار پاور کو ایڈجسٹ کرتے ہوئے ہانپ رہا تھا۔ اس کی چادر کافی دیر سے خراب ہو چکی تھی اور اس کا جسم <پائروبلاسٹ< کی وجہ سے ہونے والے چونکا دینے والے زخموں سے ڈھکا ہوا تھا۔ اس کے پیروں کے نیچے زمین یوں کھسک گئی جیسے اکھاڑے میں کوئی بڑا گڑھا ہو۔ تاہم علی روئی کی چوٹیں زیادہ تر سطحی تھیں اور اس سے کسی بھی عضلات یا ہڈی کو نقصان نہیں پہنچا۔ یہ ان دنوں الکید سطح کے <Refined Body> کے زبردست اثر کی وجہ سے تھا۔ اگر یہ20 دن پہلے ہوتا تو شاید وہ مر چکا ہوتا۔ اس نے چادر کا باقی حصہ پھاڑ دیا۔ وہ چھلانگ لگا کر گڑھے سے نکل گیا۔ وہ آہستگی سے ریکا کی طرف بڑھا۔ اگرچہ اس کے قدم تیز نہیں تھے لیکن ہر قدم ’’بالروگ‘‘ کے دل پر قدم رکھتا دکھائی دے رہا تھا۔
گریٹ ڈیمن (نسل) اور ہائیر ڈیمن (درجہ) کے درمیان الجھنے والی اصطلاح کی وجہ سے ہائر ڈیمن میں تبدیل ہو جائے گا۔
ریکا15سال پہلے انٹرمیڈیٹ ڈیمن کے بعد کے مرحلے تک پہنچ گیا تھا اور ہائر ڈیمن تک پہنچنے سے ایک قدم پہلے تھا۔ اس کے باوجود وہ اس آخری مرحلے پر پھنس گیا تھا۔ اس وجہ سے اس نے ہر جگہ تربیت کی، یہاں تک کہ وہ میدان میں شامل ہو گیا اور فاتح رہا تھا اور وہ میدان میں انٹرمیڈیٹ ڈیمن کا بادشاہ بن گیا۔
میدان میں انٹرمیڈیٹ ڈیمن کا بادشاہ بننے کے بعد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ریکا ذہنی طور پر بدلنے لگا۔ ہائر ڈیمن کو حاصل کرنے کی کئی ناکام کوششوں کے بعد اس کے ذہن میں ایک سوچ پیدا ہو رہی تھی اور یہ دوبارہ ناکام ہونے کا خوف تھا۔ اس کے پاس جو عزت اور پیسہ تھا وہ کھونے کا خوف تھا۔ مزید یہ کہ ہائر ڈیمن تک پہنچنے کے بعد بھی اسے جبران جیسی خوفناک قوتوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ زندہ رہنے کا امکان 10فیصدسے کم تھا۔
جبران کافی جنگجو تھا۔ میدان میں ہائر ڈیمن کی تعداد ہمیشہ سے کم رہی تھی اس لیے کوئی بھی اسے بنیادی طور پر چیلنج کرنے کی ہمت نہیں کرتا تھا۔ لہذا جبران وقتاً فوقتاً لازمی میچوں کا اہتمام کرتا۔ اگر اس کے مخالفین مقررہ وقت کی حد تک برداشت کر سکتے ہیں تو انہیں بھاری انعام دیا جائے گا۔ اگر نہیں تو موقع پر ہلاک ہو جائیں گے۔ یہ یقینی طور پر بہتری کو فروغ دینے کا ایک طریقہ تھا۔
جب سے4 ماہ قبل میدان میں آخری بقیہ ہائر ڈیمن جبران کے ہاتھوں مر گیا تھا، ہائر ڈیمن کی لڑائیاں تھم گئی تھیں۔ ان مجموعی عوامل کے زیر اثر ریکا ہر قیمت پر فتح کے حصول میں آہستہ آہستہ کمزور ہوتا گیا۔ اس کی سستی بڑھ گئی۔20 دن پہلے جبران نے خاص طور پر ریکا کو نمبر64سے نمٹنے کے لیے مقرر کیا تھا۔ اس کے بعد اس نے کارون فیملی کے میکال سے ملاقات کی۔ میکال کی دعوت کے تحت ریکا نے اس آخری جنگ میں حصہ لینے کے بعد میدان چھوڑنے اور کارون فیملی میں شامل ہونے کا ذہن بنا لیا۔
اس کا سامنانمبر64سے ہوا جو اس کی جنگ میں ایک عفریت تھا۔ ریکا اپنی طاقت اور برداشت میں بہترین تھا۔ اس کے باوجود اس حریف کے سامنے کچھ نہیں تھا۔ اس کے حریف کی رفتار خوفناک تھی۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اسے جیتنے کا کوئی موقع نہیں ملے گا۔ ریکا نے ایک بار مخالفین کو شکست دی جو یکساں طور پر مماثل تھے یا اس سے بھی زیادہ اس کی اصل طاقت۔ اگر پانچ سال پہلے بالروگ ہوتا تو وہ اپنی جان سے بے خوف لڑتا۔ تاہم موجودہ ریکا اپنے لڑنے کا جذبہ اور ہمت کھو چکا تھاجو اس کے پاس پہلے تھا۔
’’ایسا لگتا ہے کہ مجھے وہ الفاظ آپ کو واپس کرنے ہوں گے۔ کیا تم مرنے کے لیے تیار ہو؟‘‘۔
ماسک کے پیچھے سے کرکھی آواز سنائی دی جس سے ریکا کا دل مزید خوفزدہ ہو گیا۔ اس نے چیخ کر گھونسہ مارنے میں پہل کی۔ تاہم علی روئی بتا سکتا ہے کہ وہ مکا صرف ظاہری طور پر مضبوط تھا لیکن حقیقت میں کمزور تھا۔ اس نے اپنا ہاتھ بڑھا کر ریکا کی مٹھی پکڑ لی۔ جیسے ہی وہ قریب آیا، ریکا نے اپنی آواز دھیمی کی اور کہا:
’’میں کارون فیملی کا حصہ ہوں۔ تم مجھے مارنے کی ہمت کر رہے ہو؟ ۔کیا تم کارون فیملی کو ناراض کرنے سے نہیں ڈرتے؟‘‘۔
علی روئی نے توقف کیا، پھر اس نے اچانک ریکا کی مٹھی مروڑ دی۔ اس نے اپنا جسم موڑ لیا۔ریکا کو پھینک دیا اور چیخ کر بولا:
’’ایسا لگتا ہے کہ تم پہلے ہی جان چکے ہو کہ ایان نے مجھے جان بوجھ کر تم سے ہارنے کی دھمکی دی تھی۔تم واقعی مجھے بہت مایوس کر رہے ہو‘‘۔
علی روئی واقعی مایوس تھا۔ وہ ابتدا میں اس جنگ میں رکاوٹ کو توڑنے کا موقع تلاش کرنا چاہتا تھا۔ بدقسمتی سے ایک ایسے مخالف کا سامنا کر رہا تھا جو لڑنے کا جذبہ کھو بیٹھا تھا۔ یہاں تک کہ اگر وہ مضبوط تھا تو بھی بے روح جسم تھا، وہ وائیٹ سٹون کے طور پر اہل نہیں تھا۔
میدان میں موجود تقریباً سبھی نے اسٹار پاور کا استعمال کرتے ہوئے علی روئی کی بلند آواز سنی۔ حاضرین بحث کر رہے تھے۔ ان میں سے اکثر ایک دم غصے میں اور مشتعل نظر آئے۔ اشمار نے طنز کیا جبکہ جبران کی نظریں اچانک شدید ہو گئیں۔ وہ تیز چاقو کی طرح پہلو میں ایان کے چہرے کو دیکھ رہا تھا۔ یہاں تک کہ براہ راست دیکھے بغیر ایان سوئی کی طرح ٹہلنے کا احساس محسوس کر سکتا تھا۔ اس کا چہرہ نیلے اور سرخ کے درمیان بدل رہا تھا۔ وہ کھڑا ہوا اوردوبارہ بیٹھنے کی ہمت نہ کر سکا۔ میدان میں نقاب پوش شخصیت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا انتظار نہیں کر سکتا تھا۔
’’چالاک! اتارنا fucking ڈک!‘‘۔
اس نے سب کے سامنے سب کچھ ظاہر بھی کر دیا۔ ایان کے رویے نے اس بات کی تصدیق کی کہ منگول سچ کہہ رہا تھا۔ جبران کی قاتلانہ آواز اور بھی زیادہ تھی۔
ڈیمن حقیقی طاقتور کا احترام کرتے تھے اور دھوکہ دہی کے طرز عمل سے سخت نفرت کرتے تھے۔ تمام سامعین چیخ رہے تھے۔
’’اسے مار ڈالو! اس بزدل کو مار ڈالو!‘‘۔
علی روئی نے کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی اور ریکا کی طرف لپکا۔ ریکا حیران رہ گیا کیونکہ اس نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ اس کے مخالف میں یہ جرأت ہوگی کہ وہ کارون فیملی کو نظر انداز کرے اور اس معاملے کو عوامی طور پر ظاہر کرے۔ اس میں لڑائی جاری رکھنے کی ہمت نہیں تھی۔ وہ ایان سے تحفظ حاصل کرنے کےلیے VIP نشستوں کی طرف بھاگا۔ علی روئی نے چھلانگ لگائی اور VIP سیٹوں پر اشمار اور جبران کی جھلک دیکھی۔ جب اس نے اپنا دایاں ہاتھ بڑھایا اور اپنی پانچوں انگلیاں پھیلائیں تو اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی روشنی چمکی۔ وہ چلایا:
’’ریکا! تمہارا وقت آ گیا ہے‘‘۔
اس کی ہتھیلی سے تقریباً 2 قطر کی ایک سفید روشنی کی گیند نکلی ۔ علی روئی کا جسم جو ہوا میںآگے کی طرف جھکا ہوا تھا، ہلکی گیند کی بڑی فارورڈ مومین ٹم کی وجہ سے پیچھے کی طرف اڑ گیا اور پھر وہ آہستہ آہستہ زمین پر آ گیا۔ ریکا واپس مڑاتو سفید روشنی کی گیند کو دیکھ کر گھبرا گیا۔ موت کے دہانے پر اتنے سالوں کی تربیت کے بعد اس کا فطری رد عمل سامنے آیا۔ اس نے شدت سے اپنی باقی ماندہ طاقت کو ٹیلی پورٹ کرنے کے لیے استعمال کیا اور آخری سیکنڈ میں اس سے گریز کیا۔
<اورورا شاٹ>کی قوت کم نہیں ہوئی اور تیز رفتاری سے VIP سیٹوں کی طرف چارج کیا۔ اس وقت ایلان کا چہرہ بھی بدل چکا تھا۔ پلک جھپکتے ہی جبران کی شکل روشنی کی گیند کے سامنے نمودار ہوئی۔ اس نے ہلکی گیند کا سامنا کرنے کے لیے اپنا بایاں ہاتھ بڑھایا۔ جس وقت ہلکی گیند نے اس کے ہاتھ کو چھوا، جبران کا جسم کانپ گیا۔ اس نے فوراً اپنا دایاں ہاتھ دونوں ہاتھوں سے پکڑنے کے لیے آگے بڑھایا۔ جبران نے روشنی کی گیند کی پراسرار اور تباہ کن طاقت کو محسوس کیا۔ اس کی سرخ پتلیوں میں آگ بھڑک رہی تھی۔ اس نے قہقہہ لگایا اور اپنے ہاتھ پھیلا دیے۔ <اورورا شاٹ< کو دو حصوں میں توڑ دیا گیا تھا۔ سفید روشنی کی بقایا بھی آہستہ آہستہ اس کے ہاتھوں سے غائب ہوتی گئی۔ جبران اپنی ہتھیلی پر ہلکا سا کٹ دیکھ کر حیران رہ گیا جو آہستہ آہستہ ٹھیک ہو رہا تھا۔ اس کے شاگردوں میں لگی آگ دھیرے دھیرے بجھتی گئی لیکن گرمی کم نہ ہوئی۔ اس نے حیرت سے میدان میں علی روئی کو دیکھا۔
چونکہ علی روئی نے <ارورہ شاٹ< استعمال کرتے وقت ریکا کا نام پکارا، وی آئی پی سیٹ کی طرف لگنے والے دھچکے کو صرف ایک حادثے کے طور پر دیکھا جا سکتا تھا۔ بہت سے لوگوں نے واضح طور پر دیکھا کہ جس لمحے جبران نے روشنی کی گیند کو پھاڑ دیا، اس کے پیچھے زمین پر موجود پنکھے کی شکل والے حصے میں بڑی تعداد میں دراڑیں نمودار ہوئیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے ابھی کتنا دباؤ برداشت کیا تھا۔ علی روئی چونک گیا۔ زہریلے ڈریگن کے بعد یہ پہلی بار تھا کہ اس نے کسی ایسے شخص کو دیکھا جو اپنے حتمی اقدام کو ننگے ہاتھوں سے حل کر سکے۔ اس کے علاوہ جبران نے ابھی تک اپنی دیومالائی آگ کو بڑھانے کے لیے استعمال نہیں کیا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ اگر وہ الکید سطح سے نہیں گزرا تو بالکل بھی مقابلہ نہیں ہوگا۔
<Aurora Shot> کی طاقت نے ریکا کو خوفزدہ کر دیا تو ٹیلی پورٹیشن کا استعمال کرتے ہوئے چکما دیا۔ جب اس نے سکون کا سانس لیا تو اس نے اپنے سامنے ایک لمبا سا شخص دیکھا۔ تیز نظریں قاتلانہ تھیں جیسے اصلی ہوں۔
’’سر جبران!‘‘۔
ریکا کا جسم ہکا بکا رہ گیا۔ اس کی کانپتی ہوئی آواز بند ہو گئی۔ جبران نے قہقہہ لگایا اور ریکا کو نظر انداز کیا۔ وہ آگے بڑھا۔ 5ویں قدم پر، ریکا کا جسم اچانک گر گیا اور زمین پر بکھر گیا جبکہ اس کا خون تیزی سے پھیل گیا۔ میدان میں کسی نے نہیں دیکھا کہ جبران نے علی روئی سمیت ریکا کو کیسے مارا۔
’’دھوکہ باز، مر گیا‘‘۔
جبران نے پیچھے مڑ کر ریکا کے جسم کی طرف نہیں دیکھا۔ اس نے علی روئی کی طرف دیکھا جس نے چادر کا نیا سیٹ پہن رکھا تھا۔
’’گیم، نمبر 64۔۔۔منگول جیت گیا‘‘۔
جب انہوں نے جبران کی طرف سے ذاتی طور پر رپورٹ کردہ نمبر64کا نام سنا تو حاضرین گونج اٹھی۔ منگول میدان میں انٹرمیڈیٹ ڈیمن کا نیا بادشاہ۔
ایان غصے میں تھا۔وہ مڑا اور چلا گیانجیب جو اس کے پیچھے کھڑا تھا ہکا بکا رہ گیا۔ ایان واقعی پریشان تھا۔ اس بارنہ صرف بڑی شرط ہار گیا تھا بلکہ ریکاکو بھی جبران نے مار ڈالاجو کارون فیملی میں شامل ہوچکاتھا۔ سب سے خوفناک بات یہ تھی کہ منگول نے عوامی طور پر کھیل سے پہلے دھمکیاں دنے کی ہمت کی۔ اس کی ساکھ مکمل طور پر ختم ہو گئی تھی۔ وہ میدان میں قدم رکھتے ہوئے ہمیشہ شرمندہ رہے گا۔
علی روئی سامعین کی خوشی سے مطمئن نہیں ہوا۔ وہ اب بھی ندامت محسوس کر رہا تھا۔ دراصل جب وہ پہلے ریکا کے ساتھ لڑ رہا تھا تو اسے پہلے ہی اگلے دائرے کو چھونے کا الہام حاصل ہو گیا۔ یہ وہ چیز تھی جو ٹریننگ روم میں حاصل نہیں کی جا سکتی تھی۔ جیسا کہ ریکا کی قوت ارادی میں کمی آئی جس کی وجہ سے جنگ کا معیار تیزی سے گر گیا، الہام غائب ہوگیا۔ اسے ایک دم نہیں مل سکا۔
جلد ہی سامعین کی دیرپا خوشامد کو سونے کے لوہے جیسی عجیب سی آواز نے دبا دیا:
’’چول! تم ابھی تک میرے مخالف ہونے سے بہت دور ہو۔ تمہارےبعد کے وہیٹ اسٹون کے لیے خود تلاش کرنا ہوگا۔ تمہارے پاس ابھی تقریباً ایک مہینہ باقی ہے۔ میں تب تک ذاتی طور پر ایک حقیقی طاقتور شخص کا سر قلم کرنے کا منتظر ہوں‘‘۔
میدان جو پہلے خوشی سے بھرا ہوا تھا اچانک خاموش ہوگیا۔ یہاں تک کہ وی آئی پی سیٹ پر اشمار کو بھی ناقابل فہم انداز میں منتقل کیا گیا۔ جبران کی باتوں سے سب کے چہرے حیرت زدہ ہو گئے، خاص کر سیاہ ایلف ، جیسی اور کلوننگ گینگ کے لوگ۔ ایک مہینے کے بعد منگول کا مخالف جبران ہے۔ پورے نیرنگ آباد کا سب سے مضبوط ہائیر ڈیمن ہونے کا بھی امکان ہے۔
اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ پچھلی لڑائیاں کتنی ہی مشکل تھیں، وہ صرف انٹرمیڈیٹ ڈیمنز کے درمیان لڑائیاں تھیں جبکہ ہائر ڈیمن رینک کے لحاظ سے بہت بڑا فرق تھا۔ کسی نے کبھی نہیں سنا تھا کہ کوئی درجہ کے فرق پر قابو پا کر مخالف کو شکست دے سکتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر منگول1مہینے کے اندر درجہ بندی کر کے اعلیٰ ڈیمن بن سکتا ہے۔ وہ اب بھی جبران کے خلاف لاجواب ہوگا جیسا کہ 4ماہ پہلے درمیانی درجے کا ایک اعلیٰ گریٹ ڈیمن جبران کے خلاف10منٹ کھڑا نہیں ہو سکا۔
ایک مہینے کے بعد نتائج سے قطع نظر میدان میں منگول کی افسانوی جنگ حکیم چیلنج اور اسکائی بیٹل کے بعد نیرنگ آباد اسٹیٹ میں سب سے زیادہ گرما گرم موضوع ہوگا۔
اشمار کی پرسکون آنکھیں ایک عجیب سی روح کے ساتھ جھلملا رہی تھیں۔ جبران نے اسے ایک خوش کن جنگ دیکھنے کے لیے اس سے پہلے آنے کی دعوت دی۔ میدان میں کارکردگی سے، نمبر64 جو صلاحیت سے بھرپور تھا واقعی اچھا تھا۔ وہ ابتدائی طور پر منگول کو بھرتی کرنا چاہتا تھا لیکن اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ منگول جبران کا ہدف ہو گا۔
’’کیا مجھے جبران کو ہار ماننے پر راضی کرنا چاہئے یا مجھے پہلے مزید جانچ پڑتال کرنی چاہیے؟‘‘۔
’’میں میدان کا نیا مالک بننے کا بھی منتظر ہوں‘‘۔
علی روئی نے ایک گہرا سانس لیا اور پیچھے مڑ کر دیکھے بغیر تیاری کے کمرے کی طرف چل دیا۔ اشمار کی نظریں ہٹ گئیں۔ اس کا تجسس بڑھ گیا۔ یہ چست سادہ نہیں ہے۔ وہ حقیقت میں اب بھی پرسکون رہ سکتا ہے۔ اس کا اعتماد کہاں سے آتا ہے؟۔ داخلی محافظوں کے خوف کے تحت علی روئی نے بوڑھے بونے اور دیگر لوگوں سے ملاقات نہیں کی اور سیدھا میدان سے باہر چلا گیا۔ تاہم میدان سے دور ایک گلی میں اسے کسی نے روک لیا۔
’’چالاکی‘‘۔
دانت پیسنے کی آواز آئی۔ علی روئی نے اپنی انسانی شناخت میں ردی کی ٹوکری میں بات کرنے والی اس آواز کو پہلے ہی بہت سنا تھا اس لیے وہ آنکھیں بند کرکے دوسرے شخص کا نام پکار سکتا تھا۔
’’ایان!‘‘۔
’’شیرف ایان۔جیسا میں نےکہا، میں میں تمہارا اطمینان یقینی بناؤں گا۔ اب تم کیسا محسوس کر رہے ہو؟‘‘۔
علی روئی نے طنز کیا، لیکن وہ ایان کے ساتھ ایک گریٹ ڈیمن کو دیکھ رہا تھاجس کی صرف ایک آنکھ تھی۔ دوسری آنکھ کی پٹی سے ڈھکی ہوئی تھی۔ <Analytic Eyes> نے ظاہر کیا، جامع طاقت ۔۔۔ڈی۔
’’لعنت ہو‘‘۔
ایان کا جسم شعلے سے بھڑک رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں ایک لمبا کھمبے والا کینچ نمودار ہوا۔ اس نے علی روئی کے سامنے ٹیلی پورٹ کیا، علی روئی کا سر کاٹنے کی کوشش کی۔
اپنے اکلوتے بچے ایان کی پرورش کے لیے کارون فیملی نے بڑی محنت سے کام کیا۔ فی الحال ایان انٹرمیڈیٹ ڈیمن کے عروج پر تھا اور وہ ہائر ڈیمن بننے کے لیے ایک قدم دور تھا۔ علی روئی نے ریکا کے ساتھ لڑائی کے دوران کافی توانائی صرف کی لیکن وہ ایان سے نہیں ڈرتا تھا۔ اس کے بجائے وہ ایک آنکھ والے اعلیٰ ڈیمن کے بارے میں فکر مند تھا۔ علی روئی نے اپنے جسم کو مروڑ دیا۔ پیچھے ہٹنے کے بجائے وہ آگے بڑھ گیا۔ جب کینچ اس کے جسم کو چھونے ہی والا تھا کہ وہ اچانک ایک طرف ہٹ گیا اور بجلی کی چمک کی طرح کینچ کو ٹھونس دیا۔ چادر کا ایک گوشہ کٹا ہوا تھا۔ اس سے پہلے کہ ایان اپنی اگلی حرکت کر پاتا، اس کے پیٹ پر بجلی کی طرح ایک مکا لگا۔ ایان فوراً درد سے اپنی کمر پر جھک گیا۔ ایک آنکھ والے گریٹ ڈیمن نے ایان کو چھوٹتے دیکھا، وہ کارروائی کرنے والاتھا کہ اس نے دیکھا کہ ایان گریٹ ڈیمن کی طرف ہوا میں اڑ رہا کہ اچانک توازن کھو بیٹھا۔ خوش قسمتی سے اسے کسی نے پکڑ لیا۔ یہ ایک آنکھ والاگریٹ ڈیمن تھا۔ ایان نے فوراً چلا کر کہا:
’’ میکال! اسے مار ڈالو‘‘۔
میکال نے ہلکا سا سر ہلایا، پھر اس نے دیکھا کہ منگول کی شکل کو جھٹکا لگا اور رات کے آسمان میں غائب ہو گیا جب وہ ایان کو پکڑ رہا تھا۔ ایک آنکھ والے گریٹ ڈیمن نے طنز کیا اور فوراً غائب ہو گیا۔ ایان کی غصے سے بھری آواز اس کے پیچھے آئی:
’’ میکال! پکڑنے کے بعد اسے آگ سے مار ڈالو‘‘۔
عقب میں چھت پر ایک پرسکون سرخ اریسس کا جوڑا خاموشی سے چاندنی کے نیچے اس منظر کو دیکھ رہا تھا۔ دونوں صفوں کے درمیان فرق معمول کے کراس لیول چیلنج کی طرح آسان نہیں تھا۔ بنیادی طور پر جیتنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ اس کے علاوہ علی روئی کی چوٹیں اور قوت برداشت ٹھیک نہیں ہوئی تھی۔ وہ ایک اعلیٰ ڈیمن سے مقابلہ نہیں کر سکتا تھا اس لیے اس نے لڑائی کی بجائے پیچھے ہٹنے کا انتخاب کیا۔
میکال کی طاقت کو کم نہیں سمجھا جانا چاہئے۔ اس نے سختی سے پیچھا کیا، علی روئی اصل میں بھاگ نہیں سکتا تھا۔ انٹرمیڈیٹ ڈیمن میں علی روئی کی رفتار سب سے بہتر تھی، لیکن ایک اعلیٰ ڈیمن کی نظر میں، وہ بمشکل عام معیار تک پہنچ پاتا تھا۔ نیز، میکال کی ٹیلی پورٹیشن فاصلے اور بحالی کی رفتار کے لحاظ سے ریکا سے کہیں بہتر تھی۔ ان کی دوری آہستہ آہستہ قریب ہوتی جا رہی تھی۔ اگر علی روئی نے ٹرو کی بوتل کا تبادلہ نہیں کیا۔ ونڈ واک دوائیاں پی لیں اور اپنی رفتار کو بہت بہتر کرنے کے لیے اسے پیا تو وہ تقریباً پکڑا جائے گا۔
ایسی صورت حال میں، علی روئی لیب یا تہہ دار گینگ واپس نہیں آسکتا تھا۔ چونکہ اس کی چوٹیں معمولی نہیں تھیں، اس لیے وہ جلد یا بدیر پکڑے جائیں گے۔ اچانک اسے سنکھیار کی باتوں کا خیال آیا اور اپنا رخ بدل کر شہر کے دروازے کی طرف بھاگا۔
آج رات شہر کے دروازے پر سینٹور گانگا کی قیادت میں پہرہ دیا گیا تھا۔ گانگا کے نقطہ نظر سے وہ صرف ہوا کا جھونکا محسوس کر سکتا تھا۔ کچھ قریب سے گزرا لیکن اندھیرے میں اسے صاف نظر نہیں آرہا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی ردعمل ظاہر کرتا ہوا کا ایک اور جھونکا لگا۔ سپاہی سب حیران تھے۔
میکال ناراض تھا۔ اگرچہ یہ منگول صرف انٹرمیڈیٹ ڈیمن کی طاقت سے ہے۔ اس کی رفتار واقعی غیر معمولی ہے۔ یہ میدان میں ریکا کے ساتھ لڑائی کے دوران دکھائی جانے والی سطح سے بھی تیز ہے۔ اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات اس کی چالاکی ہے۔ وہ مسلسل آگے پیچھے چکر لگانے کے لیے خطوں کا استعمال کرتا ہے۔ میں نے اسے تقریباً چند بار پکڑا لیکن وہ دوبارہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا۔
تاہم اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ منگول کتنا ہی چالاک تھا فرق اب بھی موجود تھا۔ میکال کے پاس بھرپور تجربہ تھا۔ وہ ایک دم پرسکون ہو گیا۔ اس نے صرف اپنے مخالف کی پوزیشن کو مضبوطی سے بند کر دیا۔ علی روئی نے آہستہ آہستہ محسوس کیا کہ وہ اسے مزید برداشت نہیں کر سکتا۔ اگرچہ <Astral Form> قوت برداشت اور زخموں کو تیزی سے ٹھیک کر سکتا ہے پھر بھی ایک حد تھی۔ اس کے علاوہ چوٹوں کے ساتھ تیز رفتار برقرار رکھنے میں بلاشبہ زیادہ طاقت استعمال ہوتی ہے۔ سچ ونڈ واک پوشن کا اثر20 منٹ تھا۔ تاہم یہاں تک کہ اگر یہ گرینڈ حکیم لیول کا دوائیاں تھا تب بھی ٹھنڈا کرنے کا ایک گھنٹہ باقی تھا۔ دوسرے لفظوں میں ایک گھنٹے کے اندر دوائیاں پینے کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔ اب بف ختم ہو گیا تھا۔
یقینی طور پر جب وہ سمت بدلنے میں قدرے سست تھا تو اسے میکال نے فوراً پکڑ لیا۔ میکال کا جسم شعلے سے بھڑک رہا تھا۔ اس نے اپنے ٹیلی پورٹیشن ٹیلنٹ کو علی روئی کے سامنے درست طریقے سے بلاک کرنے کے لیے استعمال کیا۔ علی روئی کے پاس سمت بدلنے کا وقت نہیں تھا اور میکال نے اپنی ٹانگ علی روئی کی طرف موڑ دی تھی۔ علی روئی شاید ہی اس جھاڑو کی رفتار کو دیکھ سکتا۔ وہ صرف خصوصی تربیت اور حقیقی لڑائی سے تربیت یافتہ احساس کا استعمال کر سکتا تھا۔ اس نے جھاڑو روکنے کے لیے دونوں بازو بند کر لیے۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کے دونوں بازو اسٹیل کے بڑے ہتھوڑے سے ٹکرا رہے ہیں۔ اس کے بازو تقریباً پھٹے ہوئے تھے، پورا جسم بڑی طاقت سے اڑ گیا۔ اس سے پہلے کہ علی روئی زمین کو چھو پاتا، میکال نے آدھے راستے میں اسے پکڑ لیا تھا۔ اس نے اپنے بازو جھولا بنا کر علی روئی کو اوپر کی طرف اڑایا۔ میکال ایک بار پھر درمیانی ہوا میں نمودار ہوا اور اپنی دونوں مٹھیوں سے علی روئی کوبری طرح مارا۔ علی روئی نے کہیں اپنی ہڈیوں کے ٹوٹنے کی آواز سنی۔ وہ گرتے ہوئے الکا کی طرح زمین پر ٹکرا گیا تھا۔ جس جگہ پر اسے مارا گیا تھا وہ تیز درد کی وجہ سے اٹھ نہیں سکتا تھا۔
اقابلہ کی طرف سے فراہم کردہ معلومات میں میکال ان باڈی گارڈز میں سے ایک تھا جسے کارون فیملی نے ایان کے ساتھ رہنے کے لیے ترتیب دیا تھا۔ اس کی طاقت ابتدائی ہائی ڈیمن میں تھی۔ صفوں کے درمیان فرق کافی بڑا تھا۔ اگرچہ علی روئی کی طاقت پہلے ہی سب سے مضبوط انٹرمیڈیٹ ڈیمن کے برابر تھی لیکن وہ اب بھی کمزور تھا یہاں تک کہ ایک تازہ ترین اعلیٰ ڈیمن اس کے سامنے کھڑا تھا۔
یہی وجہ تھی کہ ایان نے تقریباً فلورا سے دستبردار ہونے کے بعد یہ جان لیا کہ فلورا ایک اعلیٰ ڈیمن بن گیا ہے۔
’’مجھے اس طرح پکڑنا تمہیں غیرمعمولی انٹرمیڈیٹ ڈیمن ظاہر کرتا ہے‘‘۔
میکال علی روئی کے سامنے نمودار ہوا اور بولا:
’’سب سے مضبوط انٹرمیڈیٹ ڈیمن اب بھی ایک انٹرمیڈیٹ ڈیمن ہے۔ آج تم ضرور مرو گے۔ ‘‘
صورتحال کی بنا پر وہ اب نیلی جھیل تک نہیں پہنچ سکتا تھا۔ چونکہ وہ پیچھے نہیں ہٹ سکتا تھا، اس لیے وہ اپنی موت سے لڑتا رہے گا۔ علی روئی نے دانت پیسے۔ وہ اپنی چوٹوں اور قوتِ برداشت کی وجہ سے پریشان نہیں تھا۔ اس نے اپنے جسم کو سہارا دینے کے لیے اپنی باقی ماندہ سٹار پاور اکٹھی کی اور کھڑا ہو گیا۔ اس کے ہاتھ میں دوائیوں کی چند بوتلیں نمودار ہوئیں اور اس نے جلدی سے اپنے اندر نڈیل لیں۔
’’میںکبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ تم اس طرح کھڑے ہو سکو گے‘‘۔
میکال کی نظر ان دوائیوں پر پڑی جو علی روئی نے ابھی پی تھیں، وہ چونک گیا اور بولا:
’’کیا وہ کالی دوائیاں ہیں جو تم نے ابھی پی ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے؟‘‘
علی روئی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ خاموشی سے دوائیوں رزلٹ کا انتظار کرنے لگا۔ میکال نے ایک لمحے کے لیے سوچا اور پھر سر ہلایا اور کہا:
’’اگر کوئی پوشن گرینڈ حکیم ہوتا تو اس نے دیومالائی دائرے کو بہت پہلے چونکا دیا ہوتا۔ یہ سیاہ دوائیاں نہیں ہو سکتیں۔ وہ ایک جیسے رنگوں کے ساتھ صرف شفا یابی کی دوائیاں ہیں۔ کیا تم نے اعلیٰ عہدے اور نچلے درجے کے درمیان فرق نہیں دیکھا؟۔ اگر تم نے سیاہ دوائیاں بھی پی ہیں تو اب بے کار ہے۔ تمہارے لیے بہتر ہے کہ تم موت کو آسانی سے قبول کر لو‘‘۔
’’چونکہ تم مرنے سے پہلے بہت تکلیف اٹھانا چاہتے ہو، میں سر میکال ۔۔ تمہیں مطمئن کروں گا‘‘۔
میکال نے اپنی بات مکمل کی، علی روئی اس کے سامنےکھڑا تھا۔ ہوا میں سیٹی بجاتا ہوا ایک گھونسہ سیدھا علی روئی کے سینے پر لگا۔ردعمل کے طور پر علی روئی کی جارحانہ اور دفاعی صلاحیتوں میں کافی اضافہ ہوا۔ میکال کے مکے کو روکنے کے لیے اس کے پاس پوری طاقت تھی لیکن باقی ماندہ قوت برداشت نہ کر سکا اور پیچھے کی طرف ٹھوکر کھا گیا۔اس نے مزحمت کرتے ہوئے سائیڈ کی طرف مڑا اور پوری طاقت سے میکال کی پچلبلوں کی طرف لات ماری۔ اچانک پچلبلوں کے سامنے ایک کھجور نمودار ہوئی۔ اس ہتھیلی نے اس کا پاؤں پکڑا اور اسے تیزی سے مروڑ دیا اور ٹانگ کی ہڈیاں توڑنے کی کوشش کی لیکن علی روئی نے فوری طور پر موزوں ترین قدرتی ردعمل دیا۔ اس نے اپنے جسم کو گھمانے کے لیے طاقت کا فائدہ اٹھایا اور ایک لات میکال کے چہرے پر رسید کر دی۔ میکال نے چند قدم پیچھے ہٹ کر اپنے چہرے پر پڑی لات کے درد کو محسوس کیا۔ اس کی آنکھیں غصے سے بھری ہوئی تھیں کیونکہ اسے کسی انٹرمیڈیٹ ڈیمن کی طرف سے لات مارنے کی توقع نہیں تھی۔ اگرچہ وہ زیادہ زخمی نہیں تھا لیکن اس کےلیے بڑی شرم کی بات تھی۔ اس نے غصے سے غرایااور تیزی سے علی روئی پر وار کیا۔ علی روئی کو شدید درد محسوس ہوا۔ اگرآئرن وال دوائیوں کا اثر نہ ہوتاتو اس ضرب سے اس کی ہڈیاں ٹوٹ سکتی ہیں۔ میکال کا غصہ کم نہ ہوا۔ اس نے علی روئی کی پیٹھ پر ٹیلی پورٹ کیا اور ایک بار پھر بھاری گھونساچلا دیا۔ علی روئی نے بھی بدلے میں مڑ کر لات ماری۔ اس بار میکال نے اس کی ٹانگیں پکڑنے کی بجائے وار کا انتظار کیا۔ دوائیوں کے اثر نے علی روئی کی طاقت میں کافی اضافہ کیا اور ان کی طاقت کا فرق کم ہو گیا۔ یوں وہ اس کامقابلہ کرنے کے قابل ہو گیا، اس کے باوجود میکال اس سے ایک درجہ بلند تھا۔ کچھ دیر ڈٹے رہنے کے بعد میکال کی شدید ضرب سے اس کا جسم پتنگ کی طرح اڑ گیا۔ اس کا جسم جو تیزی سے اڑ رہا تھا ایک بہت بڑے درخت سے ٹکرا گیا۔ درخت دو ٹکڑے ہو کر زور سے گر پڑا۔
علی روئی کے5 حسی اعضاء سے خون نکل رہا تھا اور اس کی تمام ہڈیاں ٹوٹی ہوئی دکھائی دے رہی تھیں۔ اس کے لیے اپنی سٹار پاور استعمال کرنا ناممکن تھا۔ ہر ہلکی سی حرکت سارے جسم کے زخموں کو متحرک کر دیتی۔ لیکن اب وہ دھوکے میں نہیں آ رہا تھا جس طرح میدان میں لارنس کی دھمکیوں سے گھبرا گیا تھا۔4 گنا گریویٹی ٹریننگ گراؤنڈ میں بغیر کسی سٹار پاور کے اس نے ایک سے زیادہ بار زندگی اور موت کے سامنے اپنی مرضی کے امتحان کا تجربہ کیا تھا۔
جب آپ جاری نہیں رہ سکتے ہیں تب بھی آپ کو اس پر قائم رہنا ہوگا۔ ایک خاص معنی میں قوتِ ارادی جسم کا تعین کرتی ہے۔
میکال نے علی روئی کے سامنے ٹیلی پورٹ کیا۔ جب وہ ایک جان لیوا دھچکا لگانے ہی والاتھا، اس نےمنگول کو دیکھا جو پہلے ہی زمین پر گر چکا تھا۔ اس کے جسم کو اٹھائے ہوئے تھا اور اس کی طرف ایک عجیب سی کرنسی بنا رہا تھا۔منگول اپنے بائیں ہاتھ سے دائیں کلائی کو سہارا دے رہا تھا اور اس کی دائیں انگلیاں کھل گئیں۔
اگرچہ وہ VIP نشستوں پر نظر نہیں آیا لیکن میکال نے لڑائی کا مشاہدہ کیا خاص طور پر اس صورت حال میں جس میں جبران نے دونوں ہاتھوں سے ہلکی گیند لی۔ اس نے فوراً ہی اس کا خون ٹھنڈا کر دیا۔ اسی وقت اس کے سامنے ایک دیوہیکل روشنی کا گولہ چمک رہا تھا۔
’’اورا شاٹ‘‘۔
بلیک پوشن کو بڑھانے کے بعد <اورا شاٹ< علی روئی کی آخری امید تھی۔ میکال نے ٹیلی پورٹ کا استعمال کیا اس لیے وہ ایسے مایوس کن لمحے میں کوئی اور رد عمل ظاہر نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے فطری طور پر گیند کو پکڑنے کے لیے ہاتھ بڑھائے۔ جس وقت اس نے ہلکی گیند کو چھوا، میکال کا جسم چونک گیا۔ اس کے ہاتھوں پر زبردست دباؤ اس کے تصور سے کہیں زیادہ تھا۔ اسے سمجھ آ گئی کہ جبران کو بھی اسے برداشت کرنے کے لیے اپنے دونوں ہاتھوں کی ضرورت کیوں پڑی۔ اس کے جسم پر شعلے جلنے لگے۔ اس کا جسم دھیرے دھیرے بے قابو ہو کر پیچھے جانے پر مجبور ہو گیا۔ ہر قدم کے ساتھ زمین پر گہرے قدموں کے نشان چھوڑ گئے۔
ساتویں یا آٹھویں قدم پر میکال غرایا اور اس کے ہاتھ جھولے۔ یہ بالکل ایسے ہی تھا جیسے کسی گیند کو ٹاس کرنا، <اورورا شاٹ< کو زبردستی سائیڈ پر پھینکا گیا۔ اس نے راستے میں چند درختوں کو تباہ کر دیا اور آخر کار بغیر کسی نشان کے غائب ہو گیا۔
میکال کو بے سہارا دیکھ کر ہانپتے ہوئے علی روئی کے ماسک کے پیچھے ایک تلخ مسکراہٹ تھی۔ اس <اورورا شاٹ>نے ابھی اس کی بقیہ اسٹار پاور کو خالی کر دیا تھا اور بلیک پوشنز کا موثر وقت ختم ہو رہا تھا۔ وہ واضح طور پر دوائیوں کے اثر کو کم ہوتے ہوئے محسوس کر رہا تھا۔ اس کی انتہائی بھاری چوٹوں کے ساتھ، انگلی اٹھانا بھی غیر معمولی مشکل تھا۔
انٹرمیڈیٹ اور ہائر ڈیمنز کے درمیان فرق بہت بڑا تھا۔ قوت بڑھانے والی دوائیاں کھانے کے بعد بھی اس کا آخری دھچکا ابھی تک بے اثر تھا۔
’’میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک انٹرمیڈیٹ ڈیمن واقعی اس حد تک مجھ سے لڑ سکتا ہے۔ تم تبدیل نہیں کر سکتے اور نہ ہی ٹیلی پورٹ کر سکتے ہو، اس لیے تم کو شاہی خاندان سے ہونا چاہیے۔ تمہاری ایک اور صلاحیت بھی ہے۔ مستقبل میںتم کم از کم ڈیمن کنگ لیول جیسے مضبوط آدمی بن سکتے ہو جو اعلیٰ ڈیمن سے اوپر تھا۔ بدقسمتی سے، تمہارا کوئی مستقبل نہیں ہے‘‘۔
میکال نے حیرت سے اپنی خون آلود ہتھیلی کی طرف دیکھا اور بے رحمی سے مسکرا کر کہا:
’’چونکہ حکیم ایان نے تمہیں آگ کے شعلوں میں دردناک طریقے سے مرنے کا حکم دیا ہے، میں تمہیں مرنے سے پہلے اپنے شعلے کے ہنر کا مزہ ضرور چکھاؤں گا‘‘۔
اٹھارہواں باب
اعتمادِ ذات آگ
ضروری نہیں کہ آگ برف کو پگھلا دے
میکال کے کہنےکے مطابق اس نے اپنا ہاتھ کھولااور علی روئی کو آگ کے شعلوں نے گھیر لیا۔ یہ شعلہ گریٹ ڈیمنی پرتیبھا کی دیومالائی آگ کی بجائے خوفناک اعلیٰ درجہ حرارت کے ساتھ ایک شعلہ تھا۔ علی روئی اپنی جلد اور کپڑوں ہر لگی آگ کی ہلکی ہلکی آواز سن رہا تھا۔ جسمانی درد اس کی قوتِ ارادی کے منبع کے طور پر دوسرے نمبر پر تھا ، روح بھی کانپنے لگی۔
’’3 بنیادی صلاحیتوں کے علاوہ، ایک عام گریٹ ڈیمن میں بھی ایک تبدیل شدہ ٹیلنٹ ہوتا ہے۔ یہ میرا شعلہ ہنر ہے۔ اگرچہ تبدیل شدہ خون کی لکیر کی طاقت سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں روح کو تباہ کرنے کی طاقت ہے، پھر بھی میں تمہیں فوراً جلا کر نہیں ماروں گا۔ تم آہستہ آہستہ روح اور جسم کی دوہری اذیت سے دوچار ہو گے۔شاہی خاندان کے کسی فرد کو اپنی شعلہ بیانی سے قتل کرنے کے قابل ہونا بالکل یادگار ہے‘‘۔
علی روئی کا جسم مکمل طور پر شعلوں میں لپٹا ہوا تھا اور چہرے کا نقاب پگھلنا شروع ہو گیا تھا۔ تاہم سب سے زیادہ تکلیف دہ چیز اس کی روح پر عذاب تھا۔شدید درد میں علی روئی نے محسوس کیا کہ اس کا ہوش آہستہ آہستہ دھندلاگیا ہے۔ موت قریب سے قریب تر ہوتی جا رہی تھی
’’کیا سب کچھ ختم ہو گیا ہے؟‘‘۔
’’میں یہ ماننے کو تیار نہیں ہوں۔ ابھی بھی بہت ساری چیزیں کالعدم ہیں‘‘۔
’’میں مضبوط آدمی بننا چاہتا ہوں اور اپنی تقدیر کو کنٹرول کرنا چاہتا ہوں‘‘۔
’’انسان بھائی!‘‘۔
’’میں راضی نہیں ہوں‘‘۔
’’میں اس حقیقت کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہوں کہ یہ آوازیں دوبارہ نہیں سن سکوں گا‘‘۔
’’میں اس حقیقت کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہوں کہ ان چہروں کو دوبارہ نہیں دیکھ سکوں گا‘‘۔
’’کھڑے ہو جاؤ، علی روئی !۔موت سے پہلے بزدلی کی موت مت مرو!‘‘۔
قوت ارادی جسم کا فیصلہ کرتی ہے؟، شاید جب میں ایک خاص حد سے بڑھ جاؤں گا تو میرا جسم بھی گر جائے گا۔۔۔ پھر بھی؟۔ تو کیا؟
علی روئی جو گرنے کے قریب تھا اچانک روشنی سے چمک اٹھا۔ ایک سفید روشنی!
میکال نے دیکھا کہ شعلے میں جلتا ہوا جسم دھیرے دھیرے کھڑا ہو گیا اور ایک سفید روشنی سرخ رنگ کے شعلے میں چمکنے لگی۔
’’تم میں ابھی بھی جدوجہد کرنے کی طاقت ہے؟‘‘۔
میکال نے شعلوں کی طاقت بڑھا دی۔ آگ بھڑک رہی تھی۔ اردگرد کی زمین سرخ تھی۔ سفید روشنی دھیرے دھیرے ایک گولے کی شکل اختیار کر گئی اور شعلہ اسے سمیٹنے سے قاصر نظر آیا۔ میکال نے دیکھا کہ کچھ گڑبڑ ہے، اس نے ہلکی گیند کی طرف ٹیلی پورٹ کیا اور مکے مارے۔اور پھر دیومالائی آگ کو بھڑکا دیا۔ ہلکی گیند پر طوفانی حملے شروع کر دیے، لیکن وہ سفید روشنی کو نہیں توڑ سکا۔جسمانی حملوں کو غیر موثر ہوتے دیکھ کر میکال نے اپنے دونوں ہاتھ ہلائے تاکہ شعلے کی صلاحیتوں کو بڑھانے کے ٹیلنٹ کے تحت مکمل طور پر استعمال کیا جا سکے۔ سرخ رنگ کا شعلہ بھڑک رہا تھا جبکہ ہلکی گیند آہستہ آہستہ سکڑ رہی تھی۔ شعلے کے اثر سے اس کا رنگ زرد ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔ میکال مزید خطرناک ہونے لگا۔ وہ پریشان دکھائی ہو گیا۔ پروشنی کی گیند کا کم ہونا مکمل طور پر شعلے کے نقصان کی وجہ سے نہیں تھا لیکن ایسا لگتا ہے کہ ان شعلوں کو اندر سےکوئی خوف ناک طاقت اندر سے توڑ رہی ہے۔ پلک جھپکتے ہی میکال کی پریشانی حقیقت بن چکی تھی۔
’’بنگ‘‘۔
ہلکی سی گولی پھوٹ پڑی اور زمین پر ایک بہت بڑا گڑھا نمودار ہوا۔ شعلے کی طاقت ختم ہو کر غائب ہو گئی۔ دھماکے کے زبردست اثرات کی وجہ سے میکال قریب سے حملہ کرنے کی ہمت نہیں کر سکا اس لیے اس نے دور سے ہی ٹیلی پورٹ کیا۔ پھٹنے والی پیلی کرنیں غائب نہیں ہوئیں بلکہ پھیلتی ہی چلی گئیں۔ زمین پر مرکز کے طور پر پیلے رنگ کے شعلے کے ساتھ ایک بہت بڑا گڑھا تھا جس نے مٹی اور پتھر کو اس طرح ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تھا جیسے کسی گرے ہوئے الکا سے کوئی دھماکہ ہوا ہو۔ دیوانہ وار چمکتی ہوئی پیلی روشنی دھیرے دھیرے اپنے مرکز، جسم میں واپس آ گئی۔ علی روئی سفید آنکھیں ایک عجیب پیلے رنگ میں بدل کر کالی ہو گئیں۔اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ زندگی اور موت کے دہانے پر کیا ہوا ہے۔ اس کے سامنے خواب کی طرح لگ رہا تھا کہ اس کا جسم اور روح خوفناک شعلے میں تقریباً ختم ہو چکی تھی۔ اسٹیٹس بار میں انسانی شکل کی ہڈیاں اور پٹھے، یہاں تک کہ ’’الکید ‘‘لائٹ گیند بھی اوورلوڈ ہو کر پھٹ گئی تھی۔ سٹارڈسٹ کے ٹکڑوں میں تبدیل ہو گئی تھی۔ تاہم ہر قیمت پر کھڑے ہونے کی مضبوط قوت ارادی نے بکھرے ہوئے سٹارڈسٹ کو گرنے سے روک دیا۔ دیومالائی آگ اور باہر سے حملے اب کوئی خطرہ نہیں رہے بلکہ یہ ایک اصلاح تھی۔ تطہیر میں سٹارڈسٹ کا بہاؤ تیزی سے مہارت بن گیا. ’’الکید‘‘ کی سفید گیند پر جو اپنی اصلی حالت میں بحال ہو گئی تھی آہستہ آہستہ ایک نئی پیلی روشنی کی گیند نمودار ہوئی جس کے اندر سے ایک لفظ دھندلے انداز میں نمودار ہو رہا تھا۔یزار!۔جب پیلی گیند پوری طرح بن گئی تو وہ قوت جو دبائی گئی تھی ، پھوٹ کر ٹوٹ گئی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے علی روئی نے دوبارہ جنم لیا ہو کیونکہ اس کے تمام زخم ٹھیک ہو چکے تھے۔ اس کے دل میں جوش و خروش کو مشکل سے دبایا جا سکتا تھا کیونکہ ابھی زندگی اور موت کے دہانے پر اس نے الکید کی حالت کو توڑا تھا۔
’’کیا یہ افسانوی مکمل حیات نو ہو سکتا ہے؟ یہ صرف اتنا ہے کہ میرے کپڑے اور ماسک جل گئے۔ مجھے برہنہ بھاگنے میں بہت زیادہ شبہ ہے… ہاہاہا، میں جلدی سے چادر پہنوں گا۔ یہ کچھ بھی نہ پہننے سے بہتر ہے۔
اسٹیٹس بار نے دکھایا:
عنوان: اسٹار لیڈر
ارتقاء کی سطح: دو ستارے۔
تجربہ کی قیمت: 0%
اورا ویلیو: 3251
جامع طاقت کا اندازہ: D
یقینی طور پرارتقاء کی سطح2 ستاروں تک پہنچ گئی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ ابتدائی ارتقاء کے علاوہ بعد کے ارتقاء کو اتنی لمبی نیند کی ضرورت نہیں تھی۔ تجربہ کی قدر 0 پر واپس آگئی، اور Aura ویلیو میں بھی 10,000 کی کمی واقع ہوئی۔ عنوان بھی ’’اسٹار کلیکٹر‘‘ سے ’’اسٹار لیڈر‘‘ میں تبدیل ہو گیا۔ علی روئی جانتا تھا کہ وقت قلیل ہے اس لیے اس کے پاس میزار دائرے کی دیگر تبدیلیوں کو تبدیلیوں میں دیکھنے کا وقت نہیں تھا۔ وہ فوری طور پر مہارت کے درخت کے انٹرفیس میں چلا گیا۔ ایک اور سطح جو پلک جھپک رہی تھی مہارت کے درخت میں شامل کی گئی۔ 4 مزید مہارتیں شامل کی گئیں۔
<Damage Absorption> (غیر فعال صلاحیت – موصول ہونے والے نقصان کا 30% جذب کرتی ہے اور اسے چمک میں بدل دیتی ہے)۔
<Camouflage> (فعال مہارت – اونچائی اور ظاہری شکل کو آزادانہ طور پر تبدیل کرتا ہے؛ ہر منٹ میں اضافی 1 اورا خرچ ہوتا ہے)۔
<گہرا تجزیہ< (فعال مہارت – گہرائی سے ڈیٹا کے تجزیہ اور اسٹوریج میں؛ ہر استعمال کی قیمت 10000 اوراس؛ 30 منٹ تک رہتی ہے)۔
<آورا بلیڈ< (فعال مہارت – اسٹار پاور حملہ کرنے کی مہارت؛ تیز بلیڈ میں ہاتھوں کو خاص طور پر مضبوط کرنا؛ فی گھنٹہ ایک بار محدود؛ ہر استعمال پر20 اوراس اضافی لاگت آتی ہے؛ 10 منٹ تک رہتا ہے؛ <ڈیسٹرکٹیو اورا بلو< کو چالو کرنے کے قابل <اورا بلیڈ>کو چالو کرنا۔
<تباہ کن اورا بلو< (AOE حملے کی مہارت؛ 5 میٹر کے اندر تیز رفتار ہوا کے جھونکے کے ساتھ فوری طور پر ہر مخالف جاندار کو کاٹ دو؛ 100 اورا کی اضافی کھپت کی ضرورت ہے)۔
4 مہارتوں میں سے، علی روئی کو قدرتی طور پر <آورا بلیڈ< میں سب سے زیادہ دلچسپی تھی۔ یہ حملے کی مہارت <Aurora Shot> سے مختلف تھی۔ یہ بہت ہنگامہ خیز حملہ تھا جس نے ہتھیلی کو بلیڈ جیسے ہتھیار میں مضبوط کیا۔ اس کے علاوہ <Destructive Aura Blow> کو چالو کر سکتا ہے جو کسی علاقے کو بلا امتیاز نشانہ بناتا ہے۔ <Damage Absorption> غیر فعال صلاحیت بھی کافی طاقتور تھی۔ تاہم اس کے پاس ان کو دیکھنے کا وقت نہیں تھا کیونکہ اس کے سامنے اب بھی ایک مضبوط دشمن موجود تھا۔
’’یہ واقعی حیرت انگیز ہے‘‘۔
میکال ایک لمحے کے لیے ہچکچایا، پھر اس کی گہری آواز دوبارہ گونجی۔
’’تم نے اصل میں آخری لمحے میں ہائیر ڈیمن کی کامیابی حاصل کی۔ میں نے آج تم کو ختم کر کے دم لینا ہے‘‘۔
علی روئی کو اچانک یہ آواز اپنے سامنے سنائی دی اور ایک زور دار گھونسا اس کے چہرے لگا لیکن علی روئی کی صلاحیت میں بہت بہتری آئی تھی۔ وہ میکال کی حرکت کو صاف دیکھ سکتا تھا۔ یہ پہلے دوائیاں کھانے کے بعد غیر فعال احساس سے بالکل مختلف تھا۔
علی روئی ایک طرف ہٹ گیا اور گھونسے کو چکما دیتے ہوئے خود کو کئی میٹر دور کر دیا۔ اس کے جسم میں سٹار پاور بہت زیادہ تھی اور دریائے یانگسی کی طرح کبھی نہ ختم ہونے والی تھی۔ معیار یا مقدار سے قطع نظر یہ’’ الکید‘‘ ریاست سے کہیں بہتر تھا لیکن وہ صرف ایک بار میں موافقت نہیں کر سکا۔ میکال اپنا حملہ بھول گیا لیکن علی روئی کے اپنے آپ کو مستحکم کرنے سے پہلے اس نے دوبارہ حملہ کرنے کے لیے علی روئی کی کمر پر ٹیلی پورٹ کیا۔ اس نے علی روئی کی پیٹھ پر ٹکر ماری لیکن علی روئی کا جسم صرف ہلکا سا ہلا۔ وہ بالکل ٹھیک تھا اور ایک مختلف شخص کی طرح تھا جو پہلے اڑتے ہوئے آسانی سے مارا گیا تھا۔ ابھی جب میکال کو جھٹکا لگا تھا علی روئی جوابی حملہ کر چکا تھا۔ میکال نے تیزی سے ردعمل ظاہر کیا اور اپنے بازو سے مکے کو روک دیا۔ اس نے ایک مضبوط قوت محسوس کی۔ اس کے پاؤں اصل میں قدرے پیچھے ہٹ گئے۔
میکال کئی دہائیوں سے ابتدائی ہائیر ڈیمن مرحلے میں تھا اس لیے وہ اس تازہ ترین ’’ہائیر ڈیمن‘‘ کے سامنے کمزوری ظاہر کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔ اس کی دیومالائی آگ تیزی سے بھڑک اٹھی اور اس کے دوسرے گھونسے نے علی روئی کو دو قدم پیچھے دھکیل دیا گیا۔ وہ دوبارہ حملہ کرنے ہی والاتھا کہ اس کی نچلی پسلیوں پر لات لگی۔ اس کا جسم تھوڑی دیر کے لیے لرزتا رہا۔ وہ غصے سے چلایا۔ اب وہ گتھم گتھا ہو گئے۔ یہ اکھاڑے میں ریکا کے ساتھ جنگ کی عین نقل تھی۔ تاہم دباؤ اور تباہ کن طاقت بالکل مختلف تھی۔ لڑتے لڑتے آگے بڑھے تو جنگل کے درخت تباہ و برباد ہو گئے۔ اتنے مضبوط تصادم کے اندر اگرچہ علی روئی کو چند لاتوں اور گھونسوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن آہستہ آہستہ اپنی نئی حاصل کردہ طاقت کے مطابق ڈھل گیا۔ ابتدا میں وہ اب بھی دبی ہوئی حالت میں تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ رفتار اور جسمانی خصوصیات میں فائدہ ظاہر ہونے لگا۔ میکال لڑتے لڑتے مزید خوفزدہ ہو رہا تھا۔ اگر اس نے اپنی آنکھوں سے نہ دیکھا ہوتا تو یقین نہیں آتا تھا کہ یہ ایک گریٹ ڈیمنی طاقت تھی جو آدھے دن سے بھی کم پرانی تھی۔اس کے مطابق علی روئی کو ایک شاہی خاندان ہونا چاہیے لیکن اس نے جنگ کے دباؤ کو محسوس نہیں کیا جو شاہی خاندان کے لیے منفرد تھا۔ اس کے علاوہ اس نے وہ چہرہ پہلے کہیں دیکھا تھا لیکن اسے ایک دم یاد نہیں آیا۔ جب میکال تھوڑا سا مشغول ہوا تو اس کے مخالف نے فائدہ اٹھایا اور اس کے چہرے کو ایک زبردست دھچکا لگا۔ میکال لڑکھڑاتا ہوا پیچھے ہو گیا۔ غیر مستحکم میکال کو مخالف سمت میں پھینکنے کے لیے وہ اپنے بازوؤں کے ساتھ جھوم گیا۔ میکال کو اپنی کمر میں تیز درد محسوس ہوا۔ جب وہ اپنے جسم کو مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا تھا تو اسے نچلی پسلیوںپر پھر لات لگی۔ اگر اس نے وقت پر ٹیلی پورٹ نہیں کیا تو اس پر مسلسل حملہ کیا جا سکتا ہے۔
میکال نے علی روئی پر ایسا کامبو استعمال کیا۔ اس نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ اس پر سب سے زیادہ حملہ کیا جائے گا اور اسے بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔ اس نے یہ بھی ظاہر کیا کہ علی روئی ’’مزار کی‘‘ طاقت کا زیادہ عادی ہو رہا ہے۔ اس کی رفتار کا فائدہ زیادہ واضح ہوتا جا رہا تھا۔ علی روئی نے اپنی گندی سانسوں کو کنٹرول کرنے کے لیے اپنی اسٹار پاور کا استعمال کیا۔ اگرچہ صورتحال قدرے بہتر ہوئی لیکن وہ صرف1 گھنٹہ سے زیادہ کے بعد درجہ بندی میں نہیں آیا تھا اس لیے اس کی جامع طاقت اب بھی قدرے کمتر تھی۔ لڑائی کے اس دور میںعلی روئی نے قوت برداشت کی وجہ سے ہی میکال پر حیرت انگیز حملہ کرنے کے لیے <Aura Blade> استعمال کرنے کا سوچا۔
میکال نےٹیلی پورٹ کیا۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کی طاقت ختم ہو گئی ہے۔ اپنے منہ کے کنارے سے خون صاف کرتے ہوئے وہ ہانپ گیا۔وہ غصے اور تذبذب میں انتہا پر تھا۔
’’چیونٹی جیسا لڑکا مجھے اس حد تک نقصان پہنچا رہا ہے۔ اگر میں آج رات اس آدمی کو نہ ماروں تو اس کے بعد اسے روکا نہیں جا سکتا‘‘۔
کہیں سے میکال کے ہاتھ میں ایک ہتھیار نمودار ہوا۔ ہتھیار ایک سیاہ زنجیر تھا جس کے دونوں حصے ایک چھوٹے کھمبے کے ساتھ تیز دھار تھے۔ میکال پر دیومالائی آگ بھڑک رہی تھی اور زنجیر پر سرخ روشنی کا اشارہ دکھائی دے رہا تھا۔ اس نے زنجیر کو تیزی سے گھمایا اور ہتھیار ایک تیز ہوا لے کر آیا جس سے مٹی اور پتھر ہوا میں اڑ رہے تھے۔ ایک لمحے کے لیے ایسا لگا جیسے آسمان کے دو چاند دھندلے ہو گئے ہوں۔
تیز دھار کسی زہریلے سانپ کی طرح علی روئی کی طرف سیٹی بجا رہا تھا۔ اس کی رفتار تصور سے بھی باہر تھی۔ علی روئی چونک گیا اور اپنا بچاؤ کرنے لگا۔ اس نے واضح طور پر زنجیر سے چھٹکارا حاصل کیا۔ اس کی چادر اب بھی کھلی ہوئی تھی ،بازو پر ایک خونی زخم لگا جس میں ہلکی سی جلن تھی۔ اس سے پہلے کہ علی روئی کوئی رد عمل ظاہر کرتا میکال نے زنجیر پھر ہوا میں لہرائی۔علی روئی اس کا سامنا نہیں کر سکتا تھا اس لیے چکما دینے کے لیےجونہی پلٹا، پچھلی بار کی طرح تھا زنجیر گزری تو ایک بار پھر زخم نمودار ہوا۔
میکال نے زنجیر گھمائی اور طنز کرتے ہوئے بولا:
’’میں تمہیں بتانا بھول گیا تھا کہ میرے شعلے کے ہنر کا اصل کام جادو ہے۔ یہاں تک کہ اگر یہ صرف ماضی کو برش کرتا ہے تب بھی تمہیں طاقت کے پھیلاؤ کا نشانہ بنائے گا۔ تم پہلے ہی میری جلتی ہوئی زنجیر سے زہر آلود ہو چکے ہو۔ تمہاری طاقت آہستہ آہستہ کم ہو جائے گی اور آخرکار زہر سے مر جاؤ گے، لیکن اس سے پہلےتمہیں سینکڑوں ٹکڑوں میں کاٹا جائے گا‘‘۔
علی روئی کی اصطلاح میں زہریلا صرف ضمیر تھا، اس لیے وہ بالکل بھی پریشان نہیں تھا۔ جادو کی زنجیر واقعی حیرت انگیز طور پر تیز تھی اور اس میں کچھ خاص طاقت تھی۔ زہر کے علاوہ اس سے جو نقصان ہوا وہ کافی حیرت انگیز تھا۔ ہتھیاروں کی مہارت میں گریٹ ڈیمن کے ہنر نے زنجیر کے نقصان کو اور بھی طاقتور بنا دیا۔ رینج کے حملے نے علی روئی کو قریب آنے سے قاصر کردیا۔
اب <Aurora Shot> مزید قابل استعمال نہیں تھا۔ اسے اس وقت کوئی متبادل نہیں مل سکا۔ اس طرح وہ صرف عارضی طور پر میکال کے بلیڈ کو چکما دینے پر توجہ مرکوز کر سکتا تھا۔ اس بات کا یقین نہیں ہے کہ یہ زنجیر کا مواد تھا یا شعلہ بڑھانے کا اثر، یہ سلسلہ درحقیقت غیر معینہ مدت تک بڑھ سکتا ہے۔ علی روئی کے جسم پر زخم آہستہ آہستہ بڑھتے گئے لیکن <Astral Form> اور <Damage Absoprtion> کی طاقتور صلاحیتوں کی بدولت جنگی طاقت زیادہ متاثر نہیں ہوئی۔
میکال نے شدید حملہ کیا پھر بھی منگول کو نہیں مار سکا۔ اس نے اکتا کر کہا:
’’میں شروع میں چاہتا تھا کہ تھوڑی دیر کھینچ کر تمہیں دہکتی زنجیر کے مہلک زہر میں رکھوں۔ پھر بھی اتنی دیر سے منگول اب بھی پرجوش ہے۔ وہ زہریلے مادوں سے مکمل طور پر متاثر نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مجھے حتمی اقدام کا استعمال کرنا چاہیے‘‘۔
میکال کے پاس بھرپور جنگی تجربہ تھا۔ اس نے دھیرے دھیرے علی روئی کی تال جان لی تھی۔ اس نے اپنے دماغ کو حرکت دی اور ایک بار پھر ٹیلی پورٹ کیا اور علی روئی کے سامنے نمودار ہوا۔ دیومالائی آگ کی طاقت فوری طور پر انتہا کو پہنچ گئی۔ اس نے چیخ کر کہا:
’’برننگ سانپ اٹیک‘‘۔
علی روئی غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے کا منظر بدل گیا اور زنجیر بہت بڑے اور زہریلے سانپوں میں بدل گئی جو منہ کھول کر اس کی طرف کالپک رہے تھے۔
’’یہ کوئی وہم ہے یا جادو؟‘‘۔
لاتعداد زہریلے سانپوں نے علی روئی کو نگل لیا۔ نقاب پوش شعلے کی طاقت سے جل کر راکھ میں بدل گیا۔
میکال کے لیے اس حملے میں استعمال ہونے والی توانائی بھی کافی زیادہ تھی۔ تاہم گریٹ ڈیمن جس نے اپنے دشمن کو ختم کر دیا وہ خوش نہیں تھا اور نہ ہی مضطرب تھا۔ اس نے نظر اٹھا کر دیکھا تو ایک برہنہ آدمی نے اونچی چھلانگ لگائی۔ یہ علی روئی تھا جو آگ کے سانپوں سے بچ رہا تھا۔ابھی تک اس کی صرف چادر جلی تھی۔ جسم پر جگہ جگہ زخم تھے۔ وہ خطرے سے باہر تھا لیکن اسے اتنا صدمے کی کیفیت میں تھا۔ میکال کا حملہ وہم نہیں تھا کیونکہ یہ سلسلہ اچانک بڑھ گیا۔ <Astral Form> اور <Damage Absorption> طاقتور ہو سکتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ لافانی تھا۔جیسا کہ میکال نے ایک بار کہا تھا:
میکال نے جلدی سے اپنا ردعمل ظاہر کیا۔ اس کی دیومالائی آگ بھڑک اٹھی۔ اس نے آسمان سے گرنے والے کی طرف پوری طاقت سے <Burning Snake Attack> شروع کیا۔
علی روئی کے پاس ٹیلی پورٹ یا اڑنے کی کوئی مہارت نہیں تھی نہ ہی ہوا میںاپنے بچاؤ کی کوئی طاقت اس لیےوہ خود کو محفوظ نہ رکھ سکا اور پیروں پر سینکڑوں مہلک سانپوں کو دیکھا۔لیکن اس کے ہاتھوں کی طاقت حیران کن تھی جو دھیمی سی چمک رہی تھی جیسے وہ دھاتی ہو۔اس دوران علی روئی گرتے ہوئے سینکڑوں جلتےگرتے سانپوں سے ٹکراگیا۔
’’بوم‘‘۔
جلتے ہوئے سانپوں کے بیچ سے ایک بہت بڑی قوت نکلی اور10 میٹر سے زیادہ دور تک پھیل گئی۔ جدھر سے گزرا پتھر اور خاک اڑ رہی تھی۔ دھوئیں کے اندر دیکھا جا سکتا تھا کہ سینکڑوں جلتے ہوئے سانپ اچانک رک گئے اور کمر سے کٹ گئے۔ جب دھول ہٹی تو جلتے ہوئے سانپ بالکل غائب ہو چکے تھے۔ جامنی چاندنی کے نیچے دو سائے ایک دوسرے پرپڑ رہے تھے۔علی روئی زمین پر ایک ٹانگ کے ساتھ گھٹنے ٹیکے ہوئے تھا جبکہ میکال کھڑا تھا۔علی روئی کی پیٹھ دائیں سائیڈ سے چھدی ہوئی تھی۔ بلیڈ کی نوک سے مسلسل خون ٹپک رہا تھا اور اس کا ننگا جسم مختلف سائز کے کئی خوفناک زخموں سے بھرا ہوا تھا جیسے اسے ہزاروں چھریوں سے کاٹا گیا ہو۔ کانچ کا دوسرا رخ میکال کے ہاتھ میں۔ گریٹ ڈیمن نے اپنے ہاتھ میں زنجیر کی طرف دیکھا۔ اس کےپر بے یقینی کے کئی رنگ عیاں تھے۔ وہ کچھ کہنا چاہتا تھا لیکن کھلے ہوئے منہ سے کوئی آواز نہیں نکل رہی تھی۔ جلد ہی تاریک زنجیر مرکز سے ٹوٹ کر دو ٹکڑے ہوکر اس طرح ٹوٹ گئی جیسے کسی نے تیز بلیڈ سے کاٹا ہو۔ میکال کی آنکھوں سے کمر تک زخم کی سیدھی لکیر نمودار ہوئی اور خون بہنے لگا۔ اس کا جسم دو حصوں میں بٹ گیا اور زمین پر گر گیا۔ علی روئی نے اپنا بایاں ہاتھ آگے بڑھایا اور میکال کوپیٹھ سے پکڑ لیا۔ اس کا جسم درد سے کانپ اٹھا۔ علی روئی نے بائیں ہاتھ سے اس کے جسم میں گھسی بلیڈ نماچیز کو باہر نکالاتو خون کی تیز دھاریں اِدھر اُدھربکھر گئیں۔ وہ سانس بحال کرنے کےلیے ہانپ رہا تھا۔
میکال کے ساتھ یہ جنگ علی روئی کی زندگی کی سب سے خطرناک جنگ تھی۔ جب وہ ابھی <Burning Snake Attack> کے اٹیک رینج میں پہنچا تھا۔ اس نے یہ جنگ عقلمندی سے لڑی، زخمی بھی ہوا لیکن میکال کے مہلک حملوں کے سامنے ڈٹا رہا جس کی وجہ سے وہ اب زمین پر گرا ہوا ہوگا۔ میکال کو <اورا بلیڈ>کی مہارت سے مارا گیا۔ <Aura Blade> کا نقصان توقع سے کہیں زیادہ طاقتور تھا جس نے میکال اور چین کو دو حصوں میں کاٹ دیا۔ اگرچہ <Aura Blade> کی قیمت صرف 20 auras فی استعمال تھی، یہ صرف اضافی کھپت تھی۔ اس نے اصل میں سٹار پاور کا استعمال کیا۔
علی روئی کی چوٹیں اس بار انتہائی سنگین تھیں لیکن خوش قسمتی سے اس کے پاس دو بڑی غیر فعال صلاحیتیںتھیں<Stral Form>اور> >Damage Absorptio وہ <Burning Snake Attack> کے خلاف آگے بڑھ رہا تھا تو ٹکڑے ٹکڑے ہوا۔ اس نے شفا بخش دوائی کا تبادلہ کیا اور خون جمانے کے لیے پیا۔ پھر ایک نئی چادر نکال کر پہنی۔ میکال کی لاش اس کے سامنے تھی۔ اس کی کلائی پر ایک خلائی کڑا تھا۔
’’اندر کچھ اچھا ہوسکتا ہے‘‘۔
علی روئی یہ دیکھ ہی رہا تھا کہ اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ اس کے ہاتھ میں ایک ماسک نمودار ہوا۔ اس نے جلدی سے اپنا چہرہ ڈھانپ لیا اور آہستگی سے کہا:
’’باہر آؤ۔ کیا گریٹ ڈیمن چھپنا پسند کرتے ہیں؟‘‘۔
’’اوہ!۔ تم نے مجھے دیکھا؟‘‘۔
ایک بڑے درخت کے پیچھے سے تالیاں بجیں۔
’’اس بات کی تعریف کرنی پڑے گی کہ یہ جنگ واقعی دلچسپ تھی۔ تم نے میکال کے <برننگ اسنیک اٹیک>کو توڑ دیا۔ میکال کو مارنے کےبعدتم نیرنگ آبادکی عظیم ہستی ہو‘‘۔
علی روئی کے میزار ریاست میں داخل ہو نے پر اسے لگا وہ کسی کی تلاش میں ہے۔ اس شخص کو تلاش کرنے کی وجہ یہ تھی کہ وہ شخص <Analytic Eyes> کے قریب آتے ہی داخل ہو گیا۔ میزار ریاست میں <Analytic Eyes> کی مؤثر حد کو دوگنا کر دیا گیا۔ گریٹ ڈیمن کو ابھی دکھایا گیا تھا اور جامع طاقت کا اندازہ D تھا جبکہ باقی ابھی تک نامعلوم تھے۔
آدمی آہستہ آہستہ باہر آیا۔ یہ ایک مرد گریٹ ڈیمن تھا۔ جب علی روئی نے اس شخص کو دیکھا تو حیران رہ گیا۔ یہ اشمار تھا،3 اعلیٰ ڈیمنوں میں سے ایک۔مینٹیس سیکاڈا پر ڈنڈا مارتا ہے، پیچھے کے اوریول سے بے خبر۔میرا نہیں خیال کہ اس طرف کوئی اوریول چھپا ہوا ہے۔
’’سر اشمار واقعی پرسکون رہ سکتے ہیں اورآپ واقعی اتنی دیر خاموشی سے دیکھ سکتے ہیں‘‘۔
علی روئی نے سوچا۔
’’اشمارکے یہاں ہونے کا یہ مطلب ہو سکتا ہے کہ اس نے اس وقت سے میرا پیچھا شروع کر دیا ہے جب سے میں میدان سے واپس آیا ہوں۔ ابھی میکال سے لڑنے کے لیے جب میں اپنی زندگی داؤ پر لگا رہا تھا تو کسی طرف کی خبر نہیں تھی۔ کیا اشمار نے میری اصلی شکل دیکھی؟‘‘۔
معلومات کے مطابق اشمارکا تعلق ان لوگوں سے تھا جو بہادری اور ذہانت دونوں کے مالک تھے۔ وہ کافی سمجھدار تھا۔البتہ درمیانی درجے کے ہائیر ڈیمن کے طور پر اس کی طاقت قطعی طور پر کم نہیں تھی۔ وہ شاید اس مرحلے میں سب سے مضبوط لوگوں میں سے ایک ہے۔ علی روئی اس وقت جسمانی طور پر تھک چکے تھا اور چوٹیں بھی بہت گہری تھیں۔ اس صورت حال میں وہ لڑنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ اشمارکے اگلے جملے نے اسےچونکا دیا:
’’دراصل تم وہ ہو جو واقعی پرسکون رہ سکتا ہے۔ میں تمہاری بہت تعریف کرتا ہوں۔ میں تمہیں شاگرد کہوں یا سیکریٹری صاحب؟‘‘۔
سب سے زیادہ تشویشناک بات آخر کار ہوئی۔اشمار کو واقعی علی روئی کا سب سے بڑا راز معلوم تھا۔
’’میں سمجھا نہیں تم نے ابھی کیا کہا؟‘‘ ۔
علی روئی کا دل زور سے دھڑک رہا تھا۔ اس نے اپنی نئی حاصل کردہ مہارتوں کے بارے میں سوچا۔ اچانک اسے ایک خیال آیا۔
’’مجھے نہیں معلوم کہ تم نے اپنی خوشبو کو تبدیل کرنے کے لیے کون سا طریقہ استعمال کیا۔ نہ صرف تمہاری طاقت میں زبردست اضافہ ہوا ہے بلکہ تمہاری اصلی انسانی خوشبو بھی غائب ہو گئی ہے‘‘۔
اشمار نے دلچسپی سے علی روئی کی طرف دیکھا۔وہ دوبارہ گویا ہوا:
’’اگر میں تمہیں میکال کو مارتے ہوئے نہ دیکھتا تو کبھی بھی یقین نہ کرتا کہ جو انسان بے بس اور ڈرپوک نظر آتا ہے، اتنی طاقت چھپا کر رکھتا ہے‘‘۔
علی روئی چونک گیا۔ اشمارکی ذہانت واقعی غیر معمولی تھی۔ جبران جیسا لڑاکا آدمی بالکل لاجواب تھا۔ علی روئی نے کہا:
’’مجھے وضاحت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اگر تم میرا چہرہ دیکھنا چاہتے ہو تو ضرور دیکھو لیکن پھر میرا ایک چیلنج اسی طرح قبول کرنا ہوگا جیسے جبران نے کیا تھا۔
’’واقعی؟ پھرتو میرے صبر کو اور نہ آزماؤ‘‘۔
اشمارنے ماسک کے پیچھے آنکھوں کو دیکھا اور مسکراہٹ کے ساتھ کہا:
’’لگتا ہےاس کے علاوہ تمہارے پاس اب کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے‘‘۔
علی روئی نے اپنی نئی حاصل کردہ مہارت <Camouflage> کا استعمال کیا۔ اس نے اپنا ماسک اتارا اور سر کی چادر سے چادر بھی ہٹا۔ اشمار نے اسے غور سے دیکھا اور جھک گیا۔ وہ اس چہرے سے واقف نہیں تھا۔یہ کوئی عا م سا چہرہ تھا جس کی صرف آنکھیں چمک رہی تھیں۔
اشمار نے بلند آوازسےپوچھا:
’’کیا تم شاہی خاندان کا حصہ ہو؟ ۔حتمی اقدام جس سے تم نے میکال کو مارا ہے وہ ایک غیر معمولی صلاحیت تھی‘‘۔
علی روئی چاہتا تھا کہ اشمار اس بارے میں سوچتا رہے۔ اس نے سر ہلایا۔ اچانک اشمار ہنسا اور بولا:
’’تم نے سوچا تھا کہ میں اتنی آسانی سے دھوکہ کھا جاؤں گا؟ جب بھی تم ظاہر ہوتے ہو تو ماسک پہنے ہوتے ہو۔ اپنی اصل شناخت چھپانا چاہ رہے ہو گے۔مجھے پورا یقین ہے کہ تمہارا یہ حقیقی چہرہ نہیں ہے۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ میں نے ابھی جنگ کے دوران تمہارا اصل چہرہ دیکھا ہے۔! میں جبران سے مختلف ہوں، مجھے نام نہاد چیلنج میں کوئی دلچسپی نہیں‘‘۔
علی روئی کا دل ڈوب گیا۔ ایسا لگتا تھا کہ اشمارآسان ہدف نہیں ہے۔
گریٹ ڈیمن کی ہنسی مزید خوفناک ہو گئی۔ بولا:
’’تم نے کچھ شروع میں سیاہ دوائیاں پی تھیں۔ میں میکال جیسا بیوقوف نہیں ہوں جو دماغ کا استعمال نہیں کرتا۔ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ حکیم الداس واقعی عظیم الشان حکیم کی سطح پر ترقی کرے گا؟۔تم جو راز چھپا رہے ہیں وہ واقعی اس لائق ہے۔ یہ راز آسانی سے کھل سلتے ہیں۔ کیا میں تمہیں پکڑ کر اگلوا نہیں سکتا؟‘‘۔
جیسے ہی ہنسی رکی، وہ شخص علی روئی کے سامنے آ گیا۔ یہ ٹیلی پورٹیشن نہیں بلکہ اس کی اپنی رفتار تھی۔ دیومالائی آگ کی رفتار میکال سے کم از کم3 گنا تیز تھی۔
علی روئی کا سب سے پہلے وقت گزارنا اوراپنے زخم ٹھیک کرنے کا ارادہ تھا۔ اشمار کےلیے اس نے اپنے ذہن میں اس کے لیے بہت پہلے سے تیاری کر رکھی تھی۔ اس نے چیخ کر کہا:
’’آورا بلیڈ‘‘۔
اشمارنے دیکھا تھا کہ علی روئی نے اپنی خفیہ طاقت سے میکال کو دو حصوں میں کاٹ دیا تھا اس لیے اس نے کم تر سمجھنے کی ہمت نہیں کی۔ وہ علی روئی کی طرف متوجہ ہوا اور اس کا انتظار کرنے لگا۔ اسے یہ توقع نہیں تھی کہ یہ ایک جعلی اقدام ہوگا۔ علی روئی ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ اشمار حقارت سے مسکرایا۔ وہ آگے بڑھا۔ اشمار نے آہستہ آہستہ میکال کے پہلے کے احساسات کو سمجھنا شروع کیا۔ منگول یا جسے علی روئی کہا جانا چاہیے، اس سے نمٹنا کافی مشکل تھا۔ ہائر ڈیمن کی طرف بڑھنے سے پہلے اس کی رفتار بمشکل ہی ہائر ڈیمن کے ابتدائی مرحلے تک پہنچی تھی۔ اس لیے اشمار پریشان نہیں ہو سکتا تھا۔ اب آگے بڑھنے کے بعد کی رفتار اس کے مقابلے میں تھوڑی کم تھی۔ علی روئی واقعی چالاک تھا۔ وہ علی روئی کو ایک دم روک نہیں سکتا تھا۔ البتہ اشمارپریشان نہیں تھا کیونکہ علی روئی شہر کی طرف فرار نہیں ہو رہا تھا۔ اگر وہ واقعی شہر کے محل میں بھاگ گیا اور اسے شہزادی اقابلہ نے پناہ دے دی تو پھر اشمار بھی لاپرواہی سے کام لینے کی ہمت نہیں کرے گا۔ اب جب کہ اس کا مخالف شدید زخمی اور جھنجھلاہٹ کا شکار تھا اس لیے اتنا جلدی بھاگ نہیں سکتا تھا۔ اشمار کے پاس بھرپور تجربہ تھا۔ اسے یقین تھا کہ اس کی طاقت علی روئی کو آسانی سے شکست دے سکتی ہے۔ اس لیے وہ جلدی نہیں کر رہا تھا۔ اس نے اطمینان سے اس کا تعاقب کیا اور صبر سے اس لمحے کا انتظار کیا جب اس کا مخالف اس پر حملہ کر دے گا۔ علی روئی میں چمک کی کمی تھی۔ وہ مزید سیاہ دوائیاں نہیں بدل سکتا تھا۔ اس کے علاوہ اس نے ابھی کچھ دیر پہلے ہیلنگ دوائیاں لی تھیں، لہٰذامزید دوائیاں پینا بے اثر ہو گا۔ وہ صرف بھاگ سکتا تھا۔ آخر کار اس کے سامنے مانوس نیلی جھیل نمودار ہوئی۔ جب وہ اپنی صلاحیت کا خیال کیے بغیر پوری رفتار سے آگے بھاگا تو اس کی چوٹوں خاص طور پر اس کے سینے کے گہرے زخم خون بہنے لگا۔
’’اشمار!‘‘۔
علی روئی اچانک رک گیا اور مڑ کر چلایا:
’’میرا پیچھا کرنا بند کرو‘‘۔
’’اوہ۔ مطلب تم مزید نہیں چل سکتے؟۔ اب تمہارےپاس خفیہ تکنیک کو صحیح استعمال کرنے کی توانائی بھی نہیں ہے؟ ‘‘۔
اشمار جو علی روئی کے پیچھے تھا رک گیا اور علی روئی کی طرف دیکھا جو ہانپ رہا تھا۔ یہ جانتے ہوئے کہ اس کا مخالف ایک خرچ شدہ قوت ہے، اس نے جلدی نہیں کی۔ بولا:
’’تم مزید تکلیف اٹھانا چاہتے ہو یا آخری بار لڑنے کے لیے تیار ہو؟۔ جب میکال کا سامنا کرتے ہو تو تمہاری کارکردگی ایک مضبوط انسان جیسی ہے۔ میں تمہیں یاد دلانا چاہتا ہوں کہ میں میکال نہیں ہوں۔ تمہارے پاس کوئی موقع نہیں ہے‘‘۔
’’لیکن۔۔۔ میں تمہیں ایک موقع دے سکتا ہوں‘‘۔
اشمار نے کندھے اچکائے اور بولا:
’’سچ کہوں تو میں تمہاری طاقت اور دانشمندی کا قائل ہوں۔چاہے تمہاری شناخت کچھ بھی ہو، تمہارا مقصد جو بھی ہو، اگر تم حکیم نوکر کنٹریکٹ پر دستخط کرو یا مجھےشکست دے دو تو تمہاری جان بچ سکتی ہے۔تمہارے مقصد کے حصول کےلیے میں تمہارا مددگار ثابت ہوسکتا ہوں۔آخری موقع ہے۔ اگر تم نے انکار کیا تومیں پیچھے نہیں ہٹوں گا اورتم پرپوری طاقت سے حملہ کروں گا۔میں تمہیں غور کرنےیا ہتھیار ڈالنے یا مرنے کے لیے ایک منٹ بھی دوں گا‘‘۔
علی روئی ہانپ رہا تھا۔ اس نے جھیل کی طرف اشارہ کیا اور کہا:
’’تمہیں پتہ نیلی جھیل کی طرف کیوں بھاگتا ہوں؟‘‘۔
اشمار نے سر ہلایا اور آہ بھر کر کہا:
’’میری عقل کی توہین نہ کرو۔ جان بوجھ کر پراسرار بات کرنے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ کیا تم مجھے بتانا چاہتے ہو کہ مجھے مارنے کے لیے نیلی جھیل پر مہر بند ڈریگن کو طلب کر سکتے ہو؟تمہارے پاس سوچنے کے لیے40 سیکنڈ باقی ہیں‘‘۔
’’سنکھیار!‘‘۔
علی روئی اچانک چیخا:
’’بونگے! اگر تم نے اب بھی سامنے نہ آئے تو میں خودکشی کر لوں گا‘‘۔
’’سنکھیار؟‘‘۔
اشمار نےاکتا کر کہا:
’’کیا یہ نام تم نے نیلی جھیل میں سوئے ہوئے اژدھے کو دیا ہے؟۔ ضائع مت کرو۔۔۔‘‘۔
اشمار کی ذہانت غیر معمولی تھی۔ علی روئی کے لیے موجودہ صورتحال میں واقعی کوئی موقع نہیں تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ عقل کا استعمال کرتے ہوئے اس انسان کا اندازہ بالکل نہیں کیا جا سکتا تھا۔اقابلہ لوگوں کو بھی ان کی اپنی ذہانت سے بے وقوف بنایا جا سکتا ہے۔
اس سے پہلے کہوہ خموش ہوتا گریٹ ڈیمن کی پشت سے ایک اونچی آواز آئی:
’’خوفناک انسان! ڈریگن کو دھمکی دینے کا ایسا طریقہ استعمال کرنے والے تم پہلے شخص ہو‘‘۔
اشمار کے چہرے کے تاثرات یکسر بدل گئے۔اسے احساس ہی نہیں ہوا کہ وہ آدمی کب اس کی پشت پر آگیا۔ اس نے نیلی جھیل ڈریگن کے بارے میں سوچا،اس کے جسم پر دیومالائی آگ بھڑک اٹھی۔ اس نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اپنے ٹیلی پورٹیشن ٹیلنٹ کو چالو کیا۔ اشمار کا پہلا ردعمل لڑنا نہیں تھا بلکہ فرار ہونا تھا۔ اگر ڈریگن واقعی جاگتا ہے تو اعلیٰ ڈیمن کا ذکر نہ کرنا یہاں تک کہ اعلیٰ سطح کے ڈیمن کنگ کا بھی کوئی مقابلہ نہیں ہوگا۔
اشمارپوری طاقت سے ٹیلی پورٹ ہوا اور10 میٹر دور دکھائی دیا۔ پھر بھی اس کی پیٹھ کے پیچھے آواز آئی:
’’بیچارہ گریم ریپر، تم سنکھیار کو دیکھنے کے لیے دوبارہ ٹیلی پورٹ چالو کیوں نہیں کرتے؟‘‘۔
اشمار نے ڈوبے ہوئے دل کے ساتھ مڑ کر دیکھا۔ اس نے چھوٹے سیاہ بالوں اور بھوری جلد والے ایک آدمی کو مسکراتے ہوئے دیکھا۔اشمار کیsnorted اور دیومالائی آگ چمک اٹھی۔ اس کے ہاتھوں میں دو لال لمبی تلواریں نمودار ہوئیں جو فوری طور پر اوور لیپنگ میں بدل گئیں اور سرخ پھولوں کی شکل میں ڈیمن کے دائرے میں مشہور سرخ ڈیمن کھانے والے پھول سنکھیار کو ڈھانپ رہے ہیں۔پھر اچانک یہ پھول بکھر گیا، اور زہریلے ڈریگن کی آواز سنائی دی:
’’شروع میں حتمی اقدام کا استعمال کرتے ہوئے تمہارا فیصلہ بالکل درست تھا۔ بدقسمتی سےتم بہت کمزور ہو‘‘۔
پھر کچھ ٹکرانے کی آواز آئی۔ اشمار کے چہرے پر ہوائیاں اڑ رہی تھیں اور علی روئی کے سامنے زمین پر گر چکا تھا۔ اس نے ہانپتے ہوئے اپنا منہ ڈھانپ رکھا تھا۔ پھر کھڑے ہوتے ہوئے دانت بھینچے۔ اس کے جسم کی آگ مدھم ہو چکی تھی۔ اس نے تیزی سے ردعمل ظاہر کیا ۔ وہ علی روئی کو یرغمال بنا کر رکھنا چاہتا تھا لیکن سنکھیار کی شکل دوبارہ اس کے سامنے نمودار ہوئی تو اس نے ہوا میں لات ماری۔ پھر اس نے بڑے ڈیمن کو درمیانی ہوا میں زمین پر گرا دیا۔ بظاہر معمولی حملوں نے اشمار کو پہلے ہی بہت زیادہ نقصان پہنچایا تھا۔ وہ مزید کھڑا نہ رہ سکا۔ علی روئی نے سمجھ لیا کہ سنکھیار کتنا طاقتور تھا۔ مہر کی وجہ سے وہ صرف گریٹ ڈیمن بادشاہ کی طاقت پر تھا۔ اگر اس کی مہر ختم ہو گئی تو کیسا ہو گا۔ دیومالائی دائرہ میں سنکھیار واحد نہیں تھا جس کے پاس ڈیمن اوور لارڈ کی طاقت تھی۔ رائزن دی گریٹ آف لہووانی اسٹیٹ ڈیمن کے دائرے میں سب سے مضبوط ڈیمن اوور لارڈ تھا جبکہ کیتھرین دی گریٹ آف خاقانی سلطنت بھی اسی طاقت کی حامل تھی۔
علی روئی کے دشمن صرف اعلیٰ ڈیمن تھے۔ اس کے بعد وہ یقینی طور پر ڈیمن کنگ، گریٹ ڈیمن کنگ، ڈیمن ایمپرر کا سامنا کرے گا۔وہ اس سے خوفزدہ نہیں تھا لیکن وہ لڑنے کے جذبے سے بھرا ہوا تھا۔ اگر وہ ثابت قدم رہے اور سخت محنت کرے تو افسانوی طاقتور بننا کوئی خواب نہیں تھا۔ فی الحال وہ کامیابی سے میزار ریاست میں پہنچ چکا تھا اور گریٹ ڈیمن میکال کو مار ڈالاتھا۔ جبکہ چند ماہ پہلے وہ صرف ایک بے اختیار کمزور آدمی تھا۔
’’ارے! دن میں خواب دیکھنا بند کرو‘‘۔
زہریلے ڈریگن کی آواز نے علی روئی کی سوچوں میں خلل ڈالا۔
’’کیا یہ وہی گریٹ ڈیمن ہے جس کا تم ذکر کیا تھا؟۔ یہ بہت کمزور ہے۔ اگر ہم اسے مار ڈالیں تو پھر ہمیں جنگی معاہدے کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟‘‘۔
’’یہ نہیں، وہ اور گریٹ ڈیمن ہے‘‘۔
علی روئی نے اپنا سر ہلایا اور بے شرمی سے اپنا ہاتھ بڑھایا۔
’’مجھے جیڈ پرل دو۔ کیا تم نہیں دیکھ سکتے کہ میں مر رہا ہوں؟‘‘۔
نہ صرف جیڈ پرل کو زہر آلود کر سکتا ہے بلکہ زخموں کو بھی ٹھیک کرتا ہے۔ یہ شفا یابی کی دوائیوں سے کہیں زیادہ موثر تھا۔ اس کے علاوہ شفا یابی کی دوائیاں نسبتاً لمبے وقت کے ساتھ کم درجے کی دوائیاں تھیں۔ یہ ابھی بھی کولڈاؤن پر تھا اس لیے اسے پینا بے اثر ہو گا۔ سنکھیار نے کہا:
’’جب تم مر رہے ہوتو اتنے پرجوش کیوں ہو؟۔تم تو خود کشی کرنا چاہتے ہو، اب میرے سامنے مر کیوں نہیں جاتے‘‘۔
اس نے جیڈ پرل پھینکا اور کچھ دیر علی روئی کی طرف دیکھا۔ اس کی آواز اچانک حیرت زدہ ہو گئی۔ بولا:
’’تمہاری موجودہ طاقت۔۔۔ہائی ڈیمن ہے؟‘‘۔
’’ہاں۔ میں ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی آگے بڑھا ہوں جب ایک اعلیٰ ڈیمن کو بھی مار ڈالا۔ البتہ یہ بہت چالاک تھا اور آخری وقت میں باہر آیا۔ میں اس کے ہاتھوں تقریباً پکڑا گیا تھا‘‘۔
علی روئی نے جیڈ پرل نگل لیا اوراکتا کر کہا:
’’تم بہت کنجوس ہو، مجھے صرف ایک دیا۔ اوراس چیز کا ذائقہ بہت برا ہے۔ کیا تم اسے بہتر نہیں کر سکتے؟‘‘۔
’’تمہیں کیا لگتا ہے یہ شوگر کی گولی ہے؟‘‘۔
سنکھیار ناراض نظر آیا:
2ماہ کے اندر تم واقعی انٹرمیڈیٹ سے ہائر ڈیمن تک پہنچ گئے۔تمہیں ہمیشہ اتنی اچھی قسمت کیوں ملتی ہے؟۔ تم گرینڈ حکیم کی وراثت جیسی نایاب چیز بھی حاصل کر سکتے ہو۔ اچھی چیزیں تم پر ضائع ہو گئی ہیں‘‘۔
اشمارجو زمین پر گر گیا تھا بیہوش نہیں ہوا تھا۔ وہ دوبارہ فرار ہونے کے لیے ٹیلی پورٹیشن کا استعمال کرنے کا خطرہ مول لینا چاہتا تھا لیکن وہ ناقابل تسخیر حالت میں تھا۔ وہ اپنی طاقت استعمال نہیں کر سکتا تھا۔ نیلی جھیل کا زہریلا ڈریگن مہر کو توڑ کر بیدار ہو گیا تھا۔ منگول واقعی انسان ہے۔۔۔علی روئی۔ زہریلے ڈریگن اور علی روئی کے درمیان تعلق بالکل آسان نہیں ہے۔ علی روئی کو انٹرمیڈیٹ ڈیمن سے ہائر ڈیمن تک جانے میں صرف دو مہینے لگے۔ گرینڈ حکیم کی وراثت کیا ہے؟۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اصل گرینڈحکیم الداس نہیں ہے ۔لیکن۔۔۔۔ یہ بےاختیار انسان کتنے ہی حیران کن راز چھپائے ہوئے ہے۔ اگر مجھے پہلے معلوم ہوتا تو علی روئی کو راستے ہی پوری طاقت کا استعمال کرکے مار دیتا۔ لیکن اب پچھتانا بیکار تھا۔
’’پوائزن ڈریگن ‘‘۔
اشمار نے کچھ دیر سوچا اور آخر میں بولا:
میں ایسا نہیں ہوں جو موت سے ڈر جاؤں، لیکن اس طرح مرنے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ اگر ہتھیار ڈالنے کو تیار ہوں تو کیا آپ مجھے زندہ رہنے دیں گے؟‘‘۔
سنکھیار نے اشمار کی طرف دیکھا، پھر سر ہلایا اور کہا:
’’تمہاری طاقت تھوڑی خراب ہے، لیکن تمہارا ردعمل اور دماغ خراب نہیں ہے۔ مجھے تمہارا ہتھیار ڈالنا قبول ہے‘‘۔
جیسے ہی اشمار نے سکون کا سانس لیا، اس نے سنا کہ زہریلے ڈریگن نے اپنا لہجہ بدلا، علی روئی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
’’ جس حکیم کے ساتھ تم معاہدہ کر رہے ہو وہ میں نہیں بلکہ یہ لڑکا ہے‘‘۔
اشمار کی آنکھیں غصے سے بھر گئیں۔ اس نے خاموشی سے سر جھکا لیا۔ سنکھیار نے اشمار کے متضادرویےکا اور اس نے کہا:
’’تمہیں کیا لگتا ہے یہ انسان تم سے کمزور ہے اور اس کے سامنے ہتھیار ڈالنا ذلت ہے؟۔ میں پورے یقین کہتا ہوںکہ ایک مہینے کے بعد یہ تمہیںآسانی سے روند سکتا ہے‘‘۔
اشمارنے سوچا منگول تیزی سے ترقی کر کے مہینے کے بعد جبران کے ساتھ چیلنج۔ اس کا دماغ بدلنا شروع ہوا۔ اس وقت زہریلے ڈریگن نے ایک بار پھر حیرت کا پردہ فاش کیا۔
’’میں تمہیںبتاتا ہوں کہ میرے اور اس کے درمیان جو معاہدہ ہوا وہ بھی برابر کا معاہدہ نہیں ہے بلکہ ایک علامتی معاہدہ ہے۔ ایک عام آدمی صرف ایک معاہدہ کر سکتا ہے لیکن یہ لڑکا بالکل پاگل ہے کیونکہ اس نے پہلے ہی اپنے ساتھ دو معاہدے کیے ہیں‘‘۔
اشمار چونک گیا۔ حیرت سے سنکھیار کے سنجیدہ چہرے کو دیکھتا رہا۔ پھر اس کی نظریں علی روئی پر پڑیں۔ وہ سوچنے لگا:
’’اس انسان میں کیا طاقت ہے کہ وہ زہریلے ڈریگن کےساتھ علامتی معاہدے پر دستخط کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ اس کی زندگی کروڑ سال طویل ہے؟۔ زہریلے ڈریگن نے کیسا راز بھی بتا دیا ہے۔مجھے لگتا ہے اگر میں نے ہتھیار نہیں ڈالے تو واقعی مر جاؤں گا‘‘۔
’’میری اپنی شان اور حیثیت ہے‘‘۔
اشمار نے ایک گہرا سانس لیا اور کھڑا ہونے کی کوشش کرنے لگا۔ اس نے علی روئی کی طرف دیکھا اور بولا:
’’اگر تم مجھ سے ایک وعدہ کر لو تو میں تمہارا خادم بننے کو تیار ہوں۔ اگر نہیں تو میں اپنی شان برقرار رکھنے کے لیے مرنا پسند کروں گا‘‘۔
اشمار کی باتوں نے علی روئی کو قدرے حیران کر دیا اور اس نے پوچھا:
’’پہلے بتاؤ کیسا وعدہ؟‘‘۔
’’وساشا‘‘۔
اشمارکی آنکھوں میں ایک عجیب چمک تھی۔ بولا:
’’ اسے حاصل کرنے میں تمہیں میری مدد کرنی ہوگی‘‘۔
علی روئی جانتا تھا کہ وساشا، جبران اور اشمار کو یوسف کے ہاتھ میں 3 سکیتھس کہا جاتا تھا۔ وہ 3 سب سے طاقتور جنگجو بھی تھے۔ اس نے کبھی توقع نہیں کی تھی کہ اشمار کے وساشا کے لیے ایسے جذبات ہوں گے۔
’’اس کے لیے علی روئی کی طرف سے میں وعدہ کرتا ہوں‘‘۔
سنکھیار نے بغیر سوچے وعدہ کر لیا۔ عورت حاصل کرنا آسان نہیں ہے۔
’’میں نہ صرف اس کا جسم بلکہ اس کا دل بھی چاہتا ہوں۔ اسے میری بیوی ہونا چاہیے تھا، لیکن اس کا دل۔۔۔۔۔۔کسی اور نے جیت لیا ہے اور وہ یوسف ہے‘‘۔
اشمار نے اپنی مٹھیاں بھینچ لیں۔ اس کی سانسیں تیز ہو گئی تھیں، اور اس کی آنکھیں غیر واضح غصے سے بھری ہوئی تھیں۔
علی روئی نے حیران ہو کر پوچھا:
’’یہ کیا ہو رہا ہے؟ ۔تمہیں پہلے یہ واضح کر لینا چاہیے‘‘۔
اشمار کے جذبات آہستہ آہستہ پرسکون ہوتے گئے اور اس نے معاملے کی حقیقت بتا دی۔
اشماراور جبران اصل میں سرمانی سلطنت کا بادشاہ کے تحت کنڈا خاندان کے رکن تھے۔ وہ بچپن سے دوست تھے۔ سو سال سے زیادہ پہلے کنڈا خاندان کے سرپرست اشمار کے والد کاہن کو جوش کو ناراض کرنے پر قتل کر دیا گیا تھا۔ کنڈا خاندان کو ان کے خاندانی نام سے محروم کر دیا گیا تھا اور زیادہ تر افراد کو غلام بنا لیا گیا۔ جبران آدھا ہائیر ڈیمن تھا۔ اس نے اشمار کو سرمانی سلطنت سے فرار کرایا جب گارڈز غیر متوجہ تھے۔ کچھ سال بعد اشمار کو معلوم ہوا کہ اس کی پیاری منگیتر وساشا جوش کے بڑے بیٹے یوسف کی نوکرانی بن گئی ہے۔ جب جبران اور اشمار نے وساشا کو بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی تو واساشا وہاں سے جانے کو تیار نہیں تھی۔ یوسف جو بعد میں آیا دونوں کو شکست دی یہاں تک کہ جبران جو آخری سیکنڈ میں ہائیر ڈیمن کی طرف بڑھا یوسف کا مقابلہ نہیں کر سکا۔ اس وقت یوسف اپنے بھائی کنیتا کے ساتھ بھرپور طریقے سے لڑ رہا تھا اور اسے ٹیلنٹ کی ضرورت تھی۔ لہذا اس نے دونوں کو قتل نہیں کیا لیکن اس نے انہیں ہتھیار ڈالنے کو کہا۔
جبران مطمئن نہیں تھا اور اس نے دوبارہ چیلنج کرنے کی درخواست کی جبکہ اشمار کی حالت وساشا تھی۔ یوسف چالاک تھا اور فوری طور پر جبران سے وعدہ کیا کہ وہ سال میں ایک بار چیلنج کر سکتا ہے۔ جیتنے سے پہلے اسے یوسف کے ماتحت رہنا اور خدمت کرنا اشمار کے لیے شرط آسان تھی۔ جب تک وساشا اشمار کی پیروی کرنے کو تیار تھی، یوسف کبھی نہیں رکے گا۔ دوسری طرف اشمار کو جبران کی طرح یوسف کا ماتحت بننا پڑا۔ اس کے علاوہ یوسف نے یہ بھی وعدہ کیا کہ جب تک وہ رب کا عہدہ سنبھالیں گے کنڈا خاندان کی عزت بحال رکھیں گے۔ اشماراور جبران جانتے تھے کہ یوسف رب کے عہدے سے بہت دور ہے اس لیے اسے صرف ایک خالی وعدہ ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ اس کی وجہ سے اشماراور جبران یوسف کے ماتحت بن گئے۔ یہ دونوں قابل اور شاندار تھے اس لیے ان کی جلد قدر ہو گئی۔ جبران نے یوسف کو سال بہ سال چیلنج کیا لیکن وہ کبھی کامیاب نہیں ہوا۔ جبکہ وساشا پہلے ہی یوسف کی عورت بن چکی تھی۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ اشمار نے جو بھی طریقہ استعمال کیا وہ اپنا خیال نہیں بدل سکتا تھا اور اسے یوسف کے ماتحت کام جاری رکھنا تھا۔100 سال گزر چکے ہیں، اگرچہ اشمارہمیشہ وساشاسے منسلک تھا جبکہ جبران نے یوسف کو چیلنج کرنے سے کبھی دستبردار نہیں ہوا تھا۔ وقت ہمیشہ لوگوں کو بھول سکتا ہے۔ اپنے جنون کو چھوڑ کر وہ دونوں آہستہ آہستہ اس زندگی کے عادی ہو چکے تھے۔ خاتون گریٹ ڈیمن وفاداری کے مترادف تھے۔ جب تک کوئی ان کے دل اور جسم کو صحیح معنوں میں حاصل کرسکتا ہے وہ کبھی بھی غداری نہیں کریں گے۔ پھر بھی زیادہ تر مرد گریٹ ڈیمن چست تھے۔ اشمارجیسا آدمی جو ایک عورت جو کنوارہ پن کھو چکی تھی، اس کے لیے ثابت رہنا واقعی ایک عجیب معاملہ تھا۔ صرف علی روئی کواقابلہ سے تھوڑی سی معلومات تھیں۔ یہ بنیادی طور پر جبران کے حصے کے بارے میں تھا۔ لہذا اس نے پہلےجبران کو چیلنج قبول کرنے پر اکسایا اور کامیاب رہا۔ جنگی معاہدے پر دستخط غیر متوقع تھے۔ اسے اب پورے معاملے کی سمجھ آگئی۔ ایسا لگتا تھا کہ نہ صرف اشمار بلکہ جبران بھی یوسف کے وفادار نہیں تھے۔ جب تک وہ نازک موڑ پر پہنچ سکتا ہے، یہ غیر متوقع تبدیلیاں کر سکتا ہے۔ وشاشا کو اپنا ذہن بدلنا واقعی مشکل تھا۔
سنکھیار نے جھک کر کہا:
’’گریٹ ڈیمن کی وفاداری یقینی طور پر درد سر ہے جب تک آدمی اسے مکمل طور پر امید سے محروم نہ کردے یا اس آدمی سے وابستہ تمام یادوں کو خاص جادو کے ذریعے مٹا دے۔ ورنہ وہ اپنا ارادہ نہیں بدلے گی چاہے ہم یوسف کو مار بھی دیں۔ یہ اس لیے کہ اس پاگل عورت کے علاوہ کوئی بھی اس جادو کا استعمال نہیں کرسکتا جو یادداشت کو پر مٹا دیتا ہے۔ اگر یہ کوئی اور ہے یہاں تک کہ ڈیمن اوور لارڈ کی طاقت کے باوجود وساشا کے بیوقوف بننے کا امکان بہت بڑا ہے۔
’’کون سی پاگل عورت؟‘‘۔
اشمار اچانک پر امید نظر آنے لگا۔ فی الحال اس عورت کے بارے میں سوچنے کی ضرورت نہیں ہے۔ طاق دراصل دس ہزار میں سے ایک ہے۔ علی روئی یقینی طور پر جانتا تھا کہ سنکھیار کس کے بارے میں بات کر رہا ہے۔ پری ڈریگن، لورا اور سنکھیار کے درمیان شکایات کے ساتھ اس کےلیے کافی اچھا ہو گا کہ وہ خزانے کی خاطر مہر کو دور کرنے میں مدد کرے۔ وہ ایسے معاملے میں کیوں مدد کرے گی؟ ذکر کرنے کی ضرورت نہیں کہ وہ نہیں جانتا تھا کہ لورا کہاں ہے۔
واحد راستہ یہ تھا کہ یوسف نے وساشا کو ترک کرنے میں پہل کی۔ تاہم یوسف کیسا شخص تھا؟ یہاں تک کہ اگر وہ وساشا کو محض ایک کھلونا سمجھتا تھا تب بھی وہ جانتا تھا کہ اسے کنٹرول کرنا اشمار کو کنٹرول کرنے کے مترادف ہے۔ اس لیے وہ کبھی بھی اتنا بیوقوف نہیں ہوگا کہ وہ خود کو نقصان پہنچا سکے۔
’’میرا خیال یہ ہے کہ چوساشا یوسف سے دستبردار نہیں ہوگی ،ہم یوسف کو اس سے دستبردار ہونے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ آپ میری انسانی شناخت کو پہلے ہی جان چکے ہیں۔ میں شہزادی اقابلہ کا سب سے قابل اعتماد مشیر بھی ہوں۔ میرے پاس پہلے ہی یوسف سے نمٹنے کا منصوبہ ہے۔ وساشا کو بچانا منصوبے کا حصہ ہو سکتا ہے۔ موجودہ منصوبہ صرف ایک پروٹو ٹائپ ہے۔ ابھی اس پر عمل کرنے کا صحیح وقت نہیں ہے۔ تمہیں برداشت جاری رکھنے کی ضرورت ہے. اگر تمہیں آپ کو لگتا ہے کہ یہ منصوبہ قابل عمل ہے تو ہم معاہدے پر دستخط کر سکتے ہیں۔ اگر نہیں تو میں تمہیں عزت سے مرنے ہی دے سکتا ہوں‘‘۔
اشمار کی آنکھیں چمک سے بھری ہوئی تھیں۔ اس نے ایک لمحے کے لیے علی روئی کی آنکھوں میں دیکھا اور ایک گھٹنے کے بل گرا جس کے ہاتھ میں ایک پارباسی سرخ طومار نمودار ہوا۔ تحریر خون سے لکھی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔ یہ آقا اور نوکر کا معاہدہ تھا۔ علی روئی نے اپنے زخموں کا خون استعمال نہیں کیا لیکن اپنے نام پر دستخط کرنے کے لیے اپنی انگلیاں سنجیدہ انداز میں کاٹ لیں۔ اشمارکے ہتھیار ڈالنے کی ایک بڑی وجہ سنکھیارنے دی۔ کوئی ایسا شخص جس نے ایک طاقتور ڈریگن کو ایک علامتی معاہدے پر دستخط کرنے کے لئے تیار کیا وہ یقینی طور پر آسان نہیں تھا چاہے اس کی موجودہ طاقت صرف ہائیر ڈیمن تھی۔
’’حکیم !‘‘۔
اشمار اٹھ کر علی روئی کے آگے جھکا۔ حکیم نوکر کے معاہدے پر دستخط کرنے کا مطلب یہ تھا کہ اشمار اور علی روئی کی قسمت جڑ جائے گی۔ اگر آقا غیر متوقع طور پر مر گیا تو نوکر بھی مر جائے گا۔ جبکہ خادم کی موت کا مالک پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ لہذا سنکھیار نے اشمار پر زہر کو بھی سم ربائی کیا۔ اگر علی روئی واقعی اشمارکی خواہش کو پورا کر سکتا ہے تو ممکن تھا کہ وہ یوسف سے تمام 3 سکیتھوں کو جیت سکتا ہے۔ اشمارجادو کی دکان کے لئے ذمہ دار تھا۔ علی روئی طویل عرصے سے اندر موجود مواد پر نظریں جمائے ہوئے تھا۔
’’میں نے پہلے ہی حکیم کی ذہانت سیکھ لی ہے۔ جب سے آپ نے یہ کہا ہے، آپ مجھے برش نہیں کر رہے ہیں‘‘۔
اشمار کی آنکھوں میں جذبہ جھلک رہا تھا، بولا:
’’میں نے پہلے ہی100 سال سے زیادہ انتظار کیا ہے۔ میں اور کیا برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ چونکہ ہم نے معاہدے پر دستخط کیے ہیں، میرے پاس ابھی بھی حکیم کو بتانے کا راز باقی ہے۔ اشمارکے والد کاہن کو سرمانی سلطنت کا بادشاہ کے ہاتھوں مارے جانے کی وجہ جوش ایک نادر خزانہ تھا۔ یہ خزانہ کاہن کی محنت کے بعد حاصل ہوا تھا لیکن بدقسمتی سے کسی نے سیٹی بجائی اور وہ جوش کے ہاتھوں مارا گیا۔ اس کے باوجود خزانہ کا پتہ نہیں چلا۔ یہ نہیں ملا تھا۔دراصل خزانے کے سراغ کاہن نے اپنے بیٹے کی منگیتر وساشا کے جسم میں بند کر دیے تھے۔اس خزانے کے سراغ کےلیے اشماراور وساشا کا ایک ہونا ضروری ہے۔ اشمارکے علاوہ دوسرے مردوں کو پتہ نہیں چلے گا چاہے وہ وساشا حاصل کر لیں۔ یہ راز صرف اشمار کو معلوم تھا، حتیٰ کہ وشاشا کو بھی معلوم نہیں تھا۔ اگر اس سے کسی خزانے کا تعلق نہیں ہے تب بھی میں وشاشا کو واپس لے لوں گا، وہ نہ صرف میری منگیتر ہے بلکہ وہ عورت ہے جس سے میں بچپن سے چھپ چھپ کر پیار کرتا آیا ہوں۔ کسی بھی صورت میں، میں کسی مرد کو اس پر قبضہ کرنے کی اجازت نہیں دوں گا‘‘۔
اشمارکا اظہار جعلی نہیں لگتا تھا۔ وہ علی روئی کے ساتھ حکیم سرونٹ کنٹریکٹ پر دستخط کر چکا تھا۔ وہ ساری زندگی نوکر رہے گا۔ اس لیے جھوٹ بولنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ ایسا لگتا تھا کہ اس کے دل میں وساشا کا مقام بہت اہم ہے۔
’’میں خزانہ حکیم کو پیش کر سکتا ہوں۔ البتہ ایک شخص ہے جسے میں اپنے ہاتھوں اپنی زندگی ختم کرنے کے لیے کوئی بھی قیمت ادا کرنے کو تیار ہوں۔ میں آقا سے مدد کی درخواست کرتا ہوں‘‘۔
جیسے ہی اس نے کہا اشمار گھٹنوں کے بل گر گیا۔ ایک گریٹ ڈیمن کے طور پر جس نے وقار اور شان کو اپنی زندگی جتنا اہم سمجھا اور جوایک بارعب خاندان کا وارث تھا، اس نے حقیقت میں گھٹنے ٹیک دیے۔
علی روئی اور زہریلے ڈریگن نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا اور کہا:
’’میں تم سے وعدہ کرتا ہوں‘‘۔
جس چیز نے دونوں کو حیران کیا وہ یہ تھا کہ اشمار یوسف کے بارے میں نہیں بلکہ ایک اور نام ارون کے بارے میں بات کر رہا تھا۔
کہانی کا یہ پلاٹ بہت عام تھا۔ شادی سے پیدا ہونے والابچہ وارث سے حسد اور خاندان سے نفرت کرتا تھا۔ اس نے اپنے والد اور پورے خاندان کو تباہ کرنے کے لیے سیٹی بجانے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ یہاں تک کہ اس نے اپنے بھائی کی منگیتر کو اپنے نئے مالک کو پیش کیا۔
ارون ہمیشہ اندھیرے میں رہتا تھا لیکن وہ یوسف کا سب سے قابل اعتماد شخص تھا۔ یوسف اشمار اور ارون کے درمیان رنجش کو سمجھتا تھا اس لیے اس نے انہیں ایک دوسرے سے ملنے نہیں دیا۔اشمار پورے خاندان کی تباہی کے ذمہ دار مجرم سے نفرت کرتا تھا۔ اس نے ذاتی طور پر ارون کو مارنے کی قسم کھائی تھی۔
اشمارعلی روئی کے وعدے سے بہت خوش ہوا اور ایک اور اہم بات بتائی۔ یوسف دو دن پہلے ہی سرمانی سلطنت سے نکل چکا تھا۔ وہ اگلی صبح تک تازہ ترین نیرنگ آباد اسٹیٹ پہنچ جائے گا۔
’’یوسف واپس آ گیا ہے؟۔وہ کنیتا سے پہلے ہی چھٹکارا پا چکا ہے؟‘‘۔
’’نہیں‘‘۔
اشمارنے اپنے خلائی آلات سے شفا یابی کی دوا کی بوتل لے کر پی اور وضاحت کی:
’’یوسف کے واپس آنے کی دو وجوہات ہیں، سب سے پہلے یہ کہ اعلیٰ انگور کے پتھروں کی نقل و حمل کا استعمال کرنا ہے جو فضائی جنگ کے دوران ننھی شہزادی سے شرط ہاری ہوئی ہے۔ دوسرا نیرنگ آباد اسٹیٹ کے سہ ماہی اجلاس میں شرکت کرنا ہے جو ہر تین ماہ میں ایک بار منعقد ہوتا ہے۔ اس کا اصل مقصد ان معاملات پر نہیں ہے بلکہ حکیم الداس ہے جب حکیم آخری بار میجک اسٹور پر آیا تھا میں نے یوسف کو بتایا کہ الداس گرینڈ حکیم لیول کی دوائیاں آزما رہا ہے، اور یوسف اسی لیے آ رہا ہے۔ میں نے سنا ہے کہ اس کے پاس الداس کی کھوئی ہوئی بہن کا سراغ پہلے ہی موجود ہے۔ وہ کنیتا کے خلاف لڑنے کے لیے الداس کو اپنا سب سے مضبوط پیادہ بنانے کے لیے الداس کو بھرتی کرنا یا دھمکی دینا چاہتا ہے‘‘۔
’’گرینڈ حکیم لیول کے دوائیاں؟‘‘۔
علی روئی نے دوسری بار جادوئی مواد حاصل کرنے کے لیے جھوٹ کے بارے میں سوچا اور اسے اچانک احساس ہوا۔ اسے امید نہیں تھی کہ اس کے جھوٹ کو سنجیدگی سے لیا جائے گا۔ پھر بھی الداس کی بہن کے بارے میں سراغ اہم معلومات تھی۔ علی روئی خاموش رہا۔ طویل خاموشی کے بعد علی روئی بولا:
’’ہم فی الحال اس معاملے پر غورکہ الداس کی بہن کا اصل سراغ حاصل کرنا ہے۔ میری چوٹ معمولی نہیں ہے اور فوری طور پر ٹھیک ہونا بھی ضروری ہے۔ اب کوئی اور اہم چیز نہیں ہےسوائے میکال کے جسے ایلن نے مجھے مارنے کے لیے بھیجا تھا۔ اگرچہ وہ میرے ہاتھوں مارا گیا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کی کوئی قیمت نہیں تھی۔ اس کے جسم کو اس کے لیے اچھا استعمال کرنے کے قابل ہونا چاہیے‘‘۔
’’کیا حکیم میکال کو یوسف اور کارون فیملی کے درمیان تضاد کو ہوا دینے کے لیے استعمال کرنا چاہتا ہے؟‘‘۔
اشمار ذہین آدمی تھا۔ اب جب وہ اپنا سکون بحال کر چکا تھا تو اس نے فوراً علی روئی کے ارادوں کا اندازہ لگا لیا۔ علی روئی نے تعریف کے ساتھ سر ہلایا اور اس نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اشمار کی آنکھیں چمک رہی تھیں۔ اس نے سنتے ہوئے کچھ اپنی رائے بھی دی۔زہریلا ڈریگن بھی وقتاً فوقتاً گفتگو میں شامل ہوتا رہا۔ 3 ہوشیار آدمیوں کے درمیان ہونے والی بحث سے آہستہ آہستہ ایک منصوبہ تیار ہوا۔
رات گئے نیرنگ آباد سٹی میں جادوئی دکان سے آنے والی تیز آوازوں نے آس پاس کے ڈیمنوں کو جگا دیا۔ اس کے بعد آنے والی چیخیں تقریباً پوری گلی میں سنی جا سکتی تھیں:
’’اشمار! تم نے ینگ حکیم ایان کے منصوبے کو تباہ کرنے کی ہمت کیسے کی۔ آج میں اس جادو کی دکان کو تباہ کر دوں گا‘‘۔
کچھ ہی فاصلے پر اشمار کی غصے سے بھری آواز سنائی دی:
’’ میکال!‘‘۔
جادو کی دکان کو تباہ کرنے والے میکال نے آواز سنی لیکن اس نے لڑنے کی ہمت نہیں کی اور پلک جھپکتے ہی غائب ہو گیا۔ جب اشمارجادو کی دکان پر پہنچا زندہ بچ جانے والالیچ گروگیس نے خوف سے اس سمت کی طرف اشارہ کیا جہاں میکال فرار ہوا تھا۔
سٹی گیٹ پر میکال دوڑتا دوڑتا رُک گیا۔ گانگا ایان کا ماتحت تھا، اس لیے اس نے کارون فیملی کے ہائیر ڈیمن کو پہچان لیا۔ گانگا کے ’’سر میکال ‘‘ کے نعرے لگانے کے بعد اس نے دیکھا کہ میکال نے دوسرے سپاہیوں کے سامنے ایک خلائی کڑا پھینکااورپھر پکڑ لیا۔
’’مجھے واپسی پر اشمار نے روک دیا۔ اسے فوری طور پر ینگ حکیم ایان کو دے دو۔ اس کے اندر وہ چیزیں ہیں جو میں نے جادو کی دکان سے چرائی تھیں‘‘۔
اس سے پہلے کہ میکال اپنی بات مکمل کر پاتا، پیچھے سے اشمار کی آواز آئی:
’’ میکال! تم بے وقوف ہو۔میں تمہیں مار دوں گا‘‘۔
میکال کے پاس مزید کہنے کو کچھ نہیں تھا۔ وہ ہوا کی طرح تیز بھاگا اور شہر کے دروازے سے باہر غائب ہو گیا۔ گانگا کے سامنے اشمار کی شکل نمودار ہوئی تووہ چونک گیا۔ خوش قسمتی سے اشمار میکال کو پکڑنے کے لیے بے چین تھا۔ اس نے ایسے معمولی کردار پر توجہ نہیں دی اور اشمار بھی غائب ہو گیا۔
کچھ دیرکے بعد۔۔۔۔۔۔
اشمار شہر کے دروازے پر مایوس نظروں سے داخل ہوا اور پھر غائب ہو گیا۔ اس کے جسم پربہت سے زخم بھی تھے۔ گانگا جلدی سے ایان کی حویلی پہنچا اوراسے خلائی کڑا دیا تھا۔ ایان نے اسے کھولااوربہت سارا جادوئی سامان دیکھا۔ گانگا کی کہانی سننے کے بعداس نے سوچا:
’’ میکال منگول کے پیچھے نہیں جا رہا تھا؟، اشمار سے اس کا جھگڑا کیسے ہوا؟۔ کیا یہ چیزیں جادو کی دکان سے لوٹی گئی ہیں؟۔ پھر بھی میکال نے اچھا کام کیا۔ اعلیٰ معیار کے دو مہنگے جادوئی آلات ہیں جو فروخت کے لیے نہیں ہیں۔ میں ایک عرصے سے ان پر نظریں جمائے ہوئے ہوں۔کانکے نے مجھے یہ سب کچھ دیا، وہ واقعی چالاک ہے۔ یوسف اندھیرے میں نہیں ہے، میں اس مسئلے کو کیسے حل کروں؟۔
عین اسی لمحے داخلی دروازے سے ایک عجیب سی دھاتی آواز آئی:
’’کارون فیملی کے آدمی! باہر نکلو‘‘۔
ایک سوکیوبس نے جلدی سے آ کر کہا:
’’بہت برا ہوا۔نوجوان حکیم ایان، جبران اور اشمار سر میکال کی لاش کے ساتھ کھڑے ہیں۔
’’ میکال مر گیا ہے‘‘۔
اس خبر نے ایان کو چونکا دیا۔ اس نے محسوس کیا کہ چیزیں تیزی سے عجیب ہوتی جا رہی ہیں لیکن وہ ایک دم اس کا اندازہ نہیں لگا سکتا تھا۔ اس نے غصے سے میز پر ہاتھ مارا اور چلایا:
’’لعنت۔ کوئی مجھے بتا سکتا ہے کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے؟‘‘۔
آج کی رات، بے خواب رات ہونا مقدر تھی۔
اگلی صبح پورا نیرنگ آباد سٹی جوش و خروش سے گزشتہ رات ہونے والے بڑے واقعات کے سلسلے میں بحث کر رہا تھا۔ کل شام میدان میں ایک چونکا دینے والاواقعہ پیش آیا۔ نمبر64 منگول نے ریکا کو شکست دی اور شیرف ایان اور ، ریکا کے درمیان دھوکہ دہی کے بدصورت فعل کو سرعام بے نقاب کیا۔ نتیجے کے طور پر ریکا کو جبران نے مار دیا جو میدان کا مالک تھا۔ اس کے بعد جبران نے ایک حیران کن خبر کا اعلان کیا کہ ایک مہینے کے بعد منگول براہ راست جبران کو چیلنج کرے گا۔ صرف صدمے کی شروعات تھیں۔ جب منگول نے میدان چھوڑا تو ایان نے جوابی کارروائی کی۔ کارون فیملی کے ہائر ڈیمن میکال نے اس کا پیچھا کیا۔ اس وقت مالیاتی افسریوسف ایان کے ماتحت اشمار ان میں گھس گیا۔ اچھے دوست کے طور پر جبران نے ایک مہینے کے بعد عوامی طور پر چیلنج کا اعلان کیا اشمار نے میکال کو منگول کو مارنے سے روکا۔ کسی کو بھی توقع نہیں تھی کہ میکال اپنے شعلے سے اشمار کو زہر دے گا۔ اس وقت منگول نے موقع غنیمت جانا۔ میکال منگول کو پکڑنے میں ناکام رہا، اس نے اپنا غصہ اشمارکے جادوئی اسٹور پر نکالا۔ اس نے جادو کی دکان کو تباہ کر دیا اور سب کچھ چرا لیا۔اشمار جو غصے میں تھا زہر کی وجہ سے پریشان نہیں تھا۔ شہر سے باہر تک میکال کرکے اسے مار ڈالا۔ اس سے پہلے جب میکال شہر کے دروازے سے گزر رہا تھا، اس نے اسپیس بریسلٹ کو جادو کی دکان سے لوٹے گئے تمام خزانوں کے ساتھ گانگا کے ذریعے ایان تک پہنچایا۔ اشمار جسے زہر دیا گیا تھا جبران کے پاس گیا۔ وہ میکال کی لاش لے جا کر ایان کی حویلی میں لڑائی کی اور بہت سے لوگوں کو نقصان پہنچا۔ یہاں تک کہ سب سے طاقتور ہائی ڈیمن،کارون فیملی کا ساراڈو گھبرا گیا۔ اشماراور جبران میدان میں واپس آئے جبکہ سراڈو نے میکال کی لاش کو بازیافت کیا۔ اب ان کے تعلقات انتہائی کشیدہ تھے۔
جب میکال کل رات جادوئی اسٹور کو تباہ کر رہا تھا، اگر اشمار کی بروقت آمد نہ ہوتی تو اسٹور میں موجود لیچ گروگیس ہلاک ہو جاتے۔ آس پاس کے بہت سے رہائشیوں نے تباہی کا شور اور اشمار کی غضبناک گرج بھی سنی۔ بہت سے لوگ اس وقت کے حالات کو واضح طور پر بیان کر سکتے تھے۔
شہر کی دو بڑی قوتیں خنجر کھینچے ہوئے تھیں۔ کسی بھی وقت جنگ کا طبل بج سکتا تھا۔ نیرنگ آباد کے مالک کے طور پر شہزادی اقابلہ اس صورت حال میں خاموش نہیں بیٹھ سکتی تھی لیکن کر بھی کچھ نہیں سکتی تھی۔ اس نے غوث کو ثالثی کرنے پر مجبور کیا۔ اس نے انہیں خبردار کیا کہ وہ شہر میں بڑے پیمانے پر لڑائی نہ کریں۔
درحقیقت سب سے خوش کن پارٹی وہ تھی جس نے ثالثی کی کوشش کی۔ بوڑھے غوث نے ثالثی کرنے کی کوشش کی تو اس نے مناسب طریقے سے کچھ ایسے الفاظ بھی استعمال کیے جو سطحی طور پر دونوں فریقوں کو محدود کرنے کے لیے تھے لیکن حقیقت میں یہ فساد سے روکنے کےلیے تھے۔
علی روئی جو پوری رات مصروف تھا آرام کرنے کے لیے لیبارٹری میںنہیں گیا بلکہ محل کے کونسل ہال میں پہنچا۔
’’علی روئی ؟‘‘۔
اقابلہ نے اسے ایک ماہ سے نہیں دیکھا تھا۔ اس کی آنکھوں میں خوشی کے آثار تھے۔ اس نے سر ہلایا اور کہا:
’’آپ آگئے ہیں۔ کیا آپ نے کل رات کے بڑے واقعے کے بارے میں سنا؟ یہ واقعی ایک خدائی موقع ہے‘‘۔
’’شہزادی اقابلہ بھی خدائی مواقع پر کیوں یقین رکھتی ہے؟۔ میں تو یہ یقین رکھتا ہوں کہ کسی کی کوشش ہے۔ یہاں تک کہ قسمت کی دیوی بھی ہمیشہ تیار رہنے والوں کا خیال رکھتی ہے‘‘۔
علی روئی ہلکا سا مسکرایا اور پھر بولا:
’’میں آج یہاں شہزادی اقابلہ کو دو اہم باتوں کی اطلاع دینے آیا ہوں‘‘۔
اقابلہ واقعی ہوشیار تھی۔ وہ علی روئی کے الفاظ کے پیچھے چھپے مطلب کو سمجھ گئی۔ ایان اور یوسف کے درمیان اچانک تنازعہ دراصل ایک اندرونی کہانی تھی۔ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب چمک تھی جب اس نے علی روئی کے ’’انہیں ایک دوسرے کے خلاف لڑائی‘‘ کے منصوبے کے بارے میں سوچا۔وہ کچھ دیر پرسکون رہی پھربولی:
’’بولو‘‘۔
علی روئی نے سنجیدگی سے دیکھا اور بولا:
’’ملکۂ عالیہ! برا سوال کرنےکی معافی چاہتا ہوں۔کیا آپ مجھ پر پورا بھروسہ کرتی ہیں؟‘‘۔
’’تم نے میرا اعتماد پہلے ہی حاصل کر چکے ہو‘‘۔
اقابلہ تھوڑا سا جھکی۔ کچھ دیر توقف کے بعد بولی:
’’کوئی بات ہے جو تم کہنا چاہتے ہو‘‘۔
’’یہ اچھا ہے‘‘۔
علی روئی نے سر ہلایا اور بولا:
’’میں آپ سے کسی کا تعارف کروانا چاہتا ہوں۔ ہو سکتا ہے وہ آپ سے نہ ملے لیکن براہ کرم اس پر اتنا بھروسہ کریں جتنا آپ مجھ پر بھروسہ کرتی ہیں‘‘۔
’’ڈبلیو ایچ او؟‘‘۔
’’گزشتہ رات کے واقعے کا مرکزی کردار،منگول‘‘۔
’’اصل مرکزی کردار! اقابلہ کو شدید صدمہ ہوا۔ کل کے واقعے کی وجہ یہ تھی کہ نمبر 64منگول نے میدان میں ایان کے گھناؤنے منصوبے کو سرعام بے نقاب کیا۔ بعد میں2بڑی افواج کے درمیان لڑائی میں بدل گیا۔ ان فالو اپ ایونٹس کے بغیر منگول جس نے جبران کو ایک ماہ بعد چیلنج کیا وہ نیرنگ آباد سٹی کا نیا مرکز بن جائے گا۔ اب اس بڑے واقعے میں منگول صرف ایک چھوٹا کردار تھا۔
’’جب تک شہزادی اقابلہ سمجھ سکتی ہے تب تک یہ ٹھیک ہے۔ دوسری چیز بھی منگول نے دریافت کی ہے۔ شہزادی اقابلہ پہلے ہی جان سکتی ہے کہ کلوننگ گینگ نے سلوا کی جگہ لے لی ہے۔ اس نے نیلانی اسٹیٹ کے بارے میں ایک اور اہم چیز دریافت کی ہے۔ مجھے امید ہے کہ شہزادی اقابلہ سننے کے بعد مطمئن ہو جائے گی‘‘۔
’’نیلانی اسٹیٹ اسٹیٹ؟ ‘‘۔
اقابلہ قدرے متجسس تھی۔ جب اس نے علی روئی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ سلوا نیلانی اسٹیٹ میں ڈیمنوں کو اسمگل کر رہی ہے اور وہ بیج دیکھا جس سے ڈاکو محفوظ طریقے سے گزر سکتے ہیں تو اچانک کھڑی ہو گئی۔ اس کی آنکھیں غصے سے چمک اٹھیں۔بولی:
’’نیلانی اسٹیٹ لارڈٹیٹن نے ایک بارلارڈ آف مڈ نائیٹ سن کو ناراض کیا تو وہ اپنی جائیداد اور خاندانی نام سے تقریباً محروم ہو گیا۔ خوش قسمتی سے میرے والد گریم نے التجا کی اور یقین دلایا۔تب جا کے اسے معافی ملی۔ میرے والد کے انتقال کے بعد انہوں نے کئی بار اپنی حمایت کا اظہار بھی کیا۔ میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھاکہ وہ پیٹھ پیچھے ایسا مشکوک کاروبار کرتا ہے‘‘۔
’’شہزادی صاحبہ! براہ کرم پرسکون ہوجائیں‘‘۔
علی روئی نے کھڑے ہو کر احترام سے کہا:
’’نیرنگ آباد اب بری حالت میں ہے۔ہم بغیر سوچے سمجھے کوئی کام نہیں کر سکتے۔ ہمیں صبر کرنا چاہیے۔ ظاہری طور پر ہمیں نیلانی اسٹیٹ کے ساتھ تعلق برقرار رکھنا ہے اور خوراک کے اہم ترین مسئلے کو جلد از جلد حل کرنا ہے۔ جہاں تک جنوب میں ڈاکوؤں کا تعلق ہے، مناسب وقت پر ختم کیا جا سکتا ہے‘‘۔
علی روئی نے اقابلہ کی طرف دیکھا جو دھیرے دھیرے پرسکون ہو گئی۔ اس نے ہاتھ میں پکڑا بیج پھینکا:
’’وقت آنے پر یہ چیز کارآمد ثابت ہو سکتی ہے‘‘۔
اقابلہ نے ہلکا سا سر ہلایا اور پوچھا:
’’تمہارا گرینڈ حکیم ٹیسٹ کیسا ہے؟‘‘۔
’’ آدھا ہو چکا ہے۔ اگرچہ ابھی بھی خطرہ ہےلیکن پیش رفت اب بھی عام طور پر ہموار ہے۔ اصل امتحان آخر میں ہے‘‘۔
علی روئی کے دائیں سینے پر لگی چوٹ کافی سنگین تھی۔ اگرچہ اس نے جیڈ پیئر اور ہیلنگ دوائیاں لی تھیں۔ کل رات صرف کچھ دیر ہی سویا تھا، اس لیے مکمل طور پر ٹھیک نہیں ہوا تھا۔ پھر بھی غیر فعال صلاحیت <Astral Form> کے ساتھ دو دن میں مکمل طور پر ٹھیک ہو جانا چاہیے۔
’’ویسے، جادو پاؤڈر بہت حیرت انگیز ہے۔ نوجوان بونے کی صلاحیت بھی بری نہیں ہے۔ میجک پاؤڈر سے ناقص کوالٹی کی مٹی کو بہتر کرنے کے بعد فصلوں کو کامیابی سے لگایا جا سکتا ہے۔ نہ صرف پختگی کی مدت کو کئی گنا کم کرتا ہے بلکہ پیداوار میں بھی بہت اضافہ ہوا ہے۔ میں نے غوث کی دیکھ بھالی میں اسٹیٹ کے کنارے پر ایک دور دراز بنجر زمین کا انتخاب کرکے بڑے پیمانے پر فصلیں اگانا شروع کر دی ہیں۔ کامیاب ہونے کے بعد نیرنگ آباد ہزاروں سالوں کے اس مسئلے پر قابو پا لے گا۔ یہاں تک کہ ہم ایک بنجر اسٹیٹ سے سلطنت کی سب سے بڑی روٹی کی ٹوکری میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔مسئلہ صرف یہ ہے کہ ہمارے پاس جادوئی پاؤڈر کی کمی ہے۔تم اس پاؤڈر کا مزید بندوبست کر سکتے ہو؟‘‘۔
’’میں نے ابھی بہت ساری جادوئی دھول اسپیئرکے طور پر بنائی ہے۔ میںبندوبست کر کے بعد میں محل بھیج دوں گا‘‘۔
اس جملے میںاپنے کارناموں کو ظاہر کرنے کی بات تھی۔ علی روئی کو وراثت کے خطرناک مقدمے سے گزرتے ہوئے دیکھ کر اقابلہ کی آنکھیں تعریف سے بھر گئیں۔ اس نے پھر کہا:
’’تمہارا منصوبہ بہت اچھا ہے۔شمائلہ کی پرنسس پلازہ کا کاروبار حیرت انگیز ہے۔ اکیلےبرر پزل 50,000 سیاہ کرسٹل سکوں میں فروخت کیا گیا تھا۔ اگر تمہیں پیسوں کی ضرورت ہے توبتاؤ۔ اس میں آدھی رقم تمہاری ہے‘‘۔
علی روئی نے اپنا سر ہلایا:
’’ ٹھیک ہے۔میرے پاس ابھی بہت کچھ ہے۔ نیرنگ آباد کو ترقی کے لیے فنڈز کی فوری ضرورت ہے۔ شہزادی اقابلہ جس طرح چاہیں پیسہ استعمال کریں گے‘‘۔
یہ ایک حقیقی سچائی تھی کیونکہ اس نے سلوا سے ملنے والی بڑی رقم کو بمشکل چھوا تھا۔
اقابلہ نے علی روئی کی طرف دیکھا۔ کچھ بولی نہیںصرف ہلکے سے سر ہلایا۔
’’منگول نے اس بار ایان کو ناراض کیا ہے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ کیا شہزادی اقابلہ کلوننگ گینگ کے لیے مناسب پناہ گاہ فراہم کر سکتی ہے۔ مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے کلوننگ گینگ شطرنج کا ایک اہم حصہ ثابت ہوگا‘‘۔
اقابلہ نے کچھ دیر سوچا اور عزم سے سر ہلایا اور بولی:
’’بدقسمتی سے میں اس شخص پر بھروسہ نہیں کر سکتی‘‘۔
انیسواں باب
سُپرسسٹم کے عجائبات
کیا مستقبل میں زمین پر کمپیوٹر کی حکمرانی ہوگی؟
اقابلہ واقعی سنجیدہ دکھائی دے رہی تھی۔ بولی:
’’علی روئی !تم ڈیمن کے دائرے میں کب سے ہو؟۔تم منگول پر اتنا بھروسہ کیوں کرتے ہو؟۔ تم اس کے بارے میں کتنا جانتے ہو؟۔ جہاں تک میں جانتی ہوں، اس شخص کی اصلیت ایک معمہ ہے اور اس کی طاقت کافی عجیب ہے۔ میدان میں اس نے ایک ماہ کے اندر3 لڑائیوں میں حصہ لیا۔ ہر بار اس کا مخالف اس سے1 درجے بلند ہوتا ہے۔ لیکن وہ ہمیشہ جیتتا ہے۔ اگلی جنگ میں منگول کا مخالف یوسف کا ماتحت جبران ہے۔تم محتاط عقلمند آدمی ہو۔تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ایسے شخص کے لیے جب تک اس کی کمزوری کا علم نہ ہو آپ اسے بالکل کنٹرول نہیں کر سکتے۔ میں صرف سچ کہہ رہا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں واقعی تم پر بھروسہ کرتی ہوں، اس لیے اس پر خلوص سے بھروسہ نہیں کر سکتی‘‘۔
ایسا لگتا تھا کہ اقابلہ کو اب بھی شہر کی معلومات کی نسبتاً درست گرفت تھی۔ علی روئی شروع میں کہنا چاہتا تھا:
’’میں منگول کو اتنا ہی جانتا ہوں جتنا خود کو جانتا ہوں‘‘۔
البتہ اقابلہ کا تجزیہ بہت معقول تھا۔ اچانک اسے زہریلے ڈریگن کے ساتھ علامتی معاہدے کے بارے میں یاد آیا۔ اس کے ذہن میں ایک منصوبہ آیا۔ وہ بولا:
’’یقین رکھیں، شہزادی اقابلہ ! میں نے ایک بار اسے بچایا ہے اور اسے ایک علامتی معاہدے پر دستخط کرنے پر مجبور کیا ہے۔ اس کی قابلیت بڑی عجیب ہے۔ وہ دراصل مجھے دوسرے معاہدے پر دستخط کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ علی روئی واقعی پراعتماد لگ رہا تھا۔ شہزادی اقابلہ میری زندگی کو کنٹرول کرتی ہیں۔اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپ اس کی کمزوری پر بھی قابو پالیں۔‘‘
’’تم۔۔۔‘‘ ۔
اقابلہ کا جسم ہکا بکا رہ گیا۔ اس نے گہری نظروں سے علی روئی کو دیکھا۔ اس کی جامنی آنکھوں میں ناقابل بیان چمکیں بہہ رہی تھیں۔ اس کے ہونٹ جنبش کر رہے تھے، جیسے وہ کچھ کہنا چاہتی ہے لیکن کہنا نہیں چاہتی۔ آہستہ آہستہ پرسکون ہو گئی۔
میرے بارے میں کیا؟ علی روئی قدرے پریشان تھا۔
اقابلہ نے اچانک سرد لہجے میں کہا:
’’اچھا۔ میںتمہاری رائے پر سنجیدگی سے غور کروں گی۔ اگر کرنے کو اور کچھ نہیں ہے تو تمہیں جا کر آرام کرنا چاہیے‘‘۔
مجھے نہیں لگتا کہ میں نے کچھ غلط کہا ہے۔ اس نے اچانک اپنا چہرہ کیوں بدل لیا؟۔ خواتین واقعی غیر متوقع ہیں۔۔۔۔۔۔
علی روئی واقعی الجھن میں۔ چونکہ اس کے باس نے اسے جانے کے لیے کہا تھا، اس لیے وہ اور کوئی بات نہیں کہہ سکتا تھا۔ بولا:
’’ٹھیک ہے، پھر میں چلتا ہوں‘‘۔
’’یاد رکھو۔۔اپنے آپ کو ضرورت سے زیادہ مجبور مت کرو‘‘۔
علی روئی دنگ رہ گیا۔ میں نے کچھ غلط سنا؟۔ اسے لگا وہ اقابلہ سے پہلی بار ایسے الفاظ سن رہا ہے۔
علی روئی کے دل میں اچانک ایک ناقابل بیان احساس پیدا ہوا۔ جیسے جیسے اس نے اقابلہ کے ساتھ زیادہ وقت گزارا احساس واضح ہوتا گیا۔ سخت الفاظ میں بھی اسے وہ ملکۂ عالیہ نہیں بلکہ قریبی دوست یا بااعتماد لگی۔ علی روئی نہیں جانتا تھا کہ وہ کیا چاہتا ہے لیکن وہ ایک چیز کے لیے یقین رکھتا تھا کہ یہ احساس بے ہودہ، اچھا اور حقیقت پسندانہ تھا۔ اقابلہ نے علی روئی کی حیرت زدہ شکل کو دیکھا۔ اسے اچانک احساس ہوا کہ اس کا لہجہ قدرے نامناسب تھا۔ وہ موضوع بدل کر کچھ کہنے ہی والی تھی کہ علی روئی بولا:
’’ٹھیک ہے، آپ بھی‘‘۔
اقابلہ نے اچانک اپنے دل میں ہلکی سی گرمی محسوس کی۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی، انسانی سیکرٹری کو دروازے سے باہر جاتے دیکھا۔ کسی نہ کسی طرح اس کا موڈ بھی بہتر ہو گیا تھا۔
کل رات جادو کی دکان پر گڑبڑ کرنا اور گانگا کو خلائی کڑا دینا اس لیے نہیں تھا کہ میکال دوبارہ زندہ ہو گیا ہے بلکہ یہ علی روئی تھا جس نے اپنی <Camouflage> مہارت کو بھیس بدلنے کے لیے استعمال کیا۔ جادو کا سامان صحیح معنوں میں ایان کو دیا گیا تھا لیکن جادوئی مواد کی جس کو سب سے زیادہ ضرورت تھی وہ پہلے ہی میکال تھا۔ اشمار کی ٹائمنگ بھی بہترین تھی۔ اشمارکی طاقت میکال سے زیادہ تھی۔
میکال کو قتل کرنے کے بعد اشمار لاش کے ساتھ میدان میں آیا۔ جبران فطری طور پر حیران رہ گیا۔ اشمارنے جبران کو بتایا کہ ایان نے میکال کو بدلہ لینے کے لیے منگول کو مارنے کے لیےبھیجا لیکن اس نے اسے روک دیا۔ اس لیے میکال نے غصے میں جادو کی دکان لوٹ لی۔ جبران غصے میں تھا اس لیے ایان کی حویلی تک پہنچا۔ بعد میں کارون فیملی سے سراڈو نمودار ہوا۔ جبران ہمیشہ سے سراڈو سے مقابلہ کرنا چاہتا تھا اس لیے فوراً ایک بڑی لڑائی شروع کر دی۔ آخرکار دونوں شدید زخمی ہو گئے۔ ان کے ابتدائی دوستانہ تعلقات اچانک انتہائی حد تک خراب ہو گئے۔ جہاں تک اصل مجرم کا تعلق ہے وہ محل سے نکلنے کے بعد پہلے ہی لیب میں اپنے کمرے میں واپس چلا گیا تھا۔
کل رات میزار ریاست کی طرف پیش قدمی کے بعد علی روئی کی میکال سے لڑائی ہوئی، پھر اشمار نے اس کا پیچھا کیا۔ آخر میں اس نے پورا ایکٹ ادا کیا۔ اب مزید کچھ کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ وہ فوراً سو گیا۔ اب اپنی نئی طاقت کو سنجیدگی سے دیکھنے کے بعد سکون کی نیند سو سکتا تھا۔
خلا کے اندربادل جیسی گیس پھیل گئی جس کا حجم بہت بڑھ گیا تھا۔ درمیانی حصہ سرخ رنگ کا تھا گویا اس میںایسی سخت گرمی ہے جسے دور سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔ ابتدائی تیرتی ہوئی دھول کی طرح بکھری ہوئی تھی۔ پھر اس میں بہت سے بڑے بلاکس شامل ہو گئے تھے جو آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہے تھے۔
یہ ’’بوٹ اسکرین‘‘اچھی طرح سے بنائی گئی ہے۔ درجہ حرارت، ساخت اور وقت سمیت ہر چیز کافی حقیقت پسندانہ ہے۔ میں سمجھ نہیں پا رہا کہ بادل کس چیز کی نمائندگی کرتا ہے۔
علی روئی تجسس سے اسے دیکھ رہا تھا۔ بادل کی گرمی کچھ بھی جلا سکتی ہے لیکن یہ اس کے ہوش و حواس کو گرم کر رہی تھی۔ اچانک اسے ایک عجیب سا احساس ہوا کہ وہ اس خلا کا مالک اور خالق معلوم ہوتا ہے کیونکہ اس خلا کی کوئی بھی چیز اسے نقصان نہیں پہنچا رہی چاہے وہ کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو۔
علی روئی کچھ دیر خلا میں بہتا رہا۔ پھر اپنی سوچ کو بدلااور فوری طور پر گلیکسی ڈیوائنٹی ٹیمپل میں تخت پر واپس آ گیا۔
’’اسٹیٹس‘‘ لائٹ اسکرین میں ایک مخصوص حصے پر سفید روشنی کی گیند’’الکید‘‘اب بھی موجود تھی۔’الکید‘‘کے اوپر کا حصہ جو پیٹ کے بٹن کے ارد گرد تھا نئی پیلی روشنی کی گیند’’مزار‘‘ تھی۔ اس کے دماغ میں نئی معلومات کے مطابق، اگلا دائرہ ’’ایلوتھ‘‘ ہوگا۔ پھر بھی جب بھی وہ ترقی کرتا، مشکل بڑھ جاتی۔ گریویٹی ٹریننگ گراؤنڈ یقیناً تربیت کے لیے ایک بہت موثر جگہ تھی لیکن ریاست الکید کی صورت حال کی بنیاد پر سٹار لیول کو توڑنے کے لیے سب سے اہم چیز اصل جنگ میں تحریک تھی۔ اس طرح اگلی ’’الیوتھ سٹیٹ‘‘ حاصل کرنے کے لیے وہ کشش ثقل کی تربیت بڑھانے پر مکمل انحصار نہیں کر سکتا تھا۔
اس وقت 3-D انسانی جسم میں ’’کنکال‘‘ اور ’’عضلات‘‘ سب سٹارڈسٹ بن چکے تھے جیسے وہ دائروں سے گزرا تھا، سٹارڈسٹ نے اصل تنت کی جگہ لے لی اور جسم میں آہستہ آہستہ بہنے لگی۔ بہاؤ سے پیدا ہونے والی توانائی اصل ’الکید‘‘کی حالت سے کہیں زیادہ مضبوط تھی اور یہ بالکل میزار کی نئی طاقت تھی۔ الکید ریاستی مشق کی بنیادی تربیت ’’جسم‘‘ کو بہتر بنانا تھا جبکہ میزار ریاست ’’طاقت‘‘ کو بہتر بنانا تھا۔ اس وقت سٹیٹس بار نے ظاہر کیا کہ اورا ویلیو7501 تھی۔ علی روئی کو یاد تھا کہ کل جب میکال نے اس کا پیچھا کیا تو اس نے کل 4 پوشنز گرائے جن کی قیمت 40,000 اوراس تھی۔ بعد میں جب اس نے اپنی ریاست کو آگے بڑھایا تو اس نے مزید 10,000 اوراس استعمال کیے۔ اس لیے وہاں صرف 3000 سے زیادہ باقی رہ گئے۔ اسے ایک رات میں 7500 تک بڑھنے کی توقع نہیں تھی۔
میزار ریاست میں داخل ہونے کےبعد> Automatic Aura Absorption> کی شرح ’الکید‘‘ ریاست سے زیادہ تھی لیکن ایک رات میں 4000 کا اضافہ ہونا ناممکن تھااور یہ ’ ’ Damage Absorption‘‘ کا اثر پو سکتا ہے جس نے 30% نقصان کو جذب کیا اور اسے چمک میں بدل دیا۔ یہ غیر فعال صلاحیت بہت اچھی تھی جو نہ صرف جنگ کے دوران بلکہ زہریلے ڈریگن کے ساتھ خصوصی تربیت کے دوران بھی خود بخود بڑھ سکتی ہے۔ البتہ کل رات کی چوٹیں کافی سنگین تھیں اس لیے اس طرح کی شرح نمو کا جاری رہنا ناممکن تھا۔ مہارت کے لحاظ سے <Damage Absorption> اور <Aura Blade> کی طاقت پہلے ہی دکھا چکی تھی۔ یہاں تک کہ مہارت <Camouflage> نے کل رات کے بڑے واقعے کے دوران اپنی افادیت ثابت کی۔ علی روئی نے اسے آزمایا، وہ ایک چھوٹے بونے میں بدل گیا۔ یہاں تک کہ اس کے کپڑے بھی ایک ساتھ بھیس بدل سکتے تھے۔ تاہم یہ مہارت بغیر کسی حد کے نہیں تھی۔ اس بنیاد کے تحت کہ جسم کا کل ماس مستقل تھا۔ یہ جسم کو کسی خاص طریقے سے دبانے یا کھینچنے کے مترادف تھا۔ پھر بھی یہ مادے کی ساخت کو تبدیل نہیں کر سکا۔ لہذا علی روئی پھول یا ہوا کا جھونکا نہیں بن سکا۔ علی روئی جسے کبھی کبھی اپنی انسانی شکل کو چھپانے کی ضرورت پڑتی تھی یہ بہت عملی تھا۔ یہ <Camouflage> تھا لیکن <Transform> نہیں تھا۔ صرف ہنر رہ گیا تھا کہ <گہرا تجزیہ>۔ اس کی اصل میں قیمت 10,000 اوراس فی استعمال ہے اور یہ صرف آدھے گھنٹے تک جاری رہی۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ لفظ ’’گہرے‘‘ کا کیا مطلب ہے۔ میزار ریاست میں <Analytic Eyes> مخالف کی دوڑ دکھا سکتی ہیں اس لیے اس کا دوڑ سے کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے۔ وہ صرف مستقبل میں اس کا مطالعہ کر سکتا تھا۔
میزار ریاست میں پیشرفت نے علی روئی کو سپرسسٹم کی واضح سمجھ دی۔ سپرسسٹم کو ’’سپر ایوولوشن سس ٹم‘‘ کہا جانا چاہئے۔ یہ ایسا نظام تھا جس نے چمک کو ’’ایندھن‘‘ کے طور پر استعمال کیا جس سے جسم کو تربیت دینے کےلیے اعلیٰ ارتقاء کو متحرک کیا جا سکتا ہے۔ جہاں تک تجربہ کی قدر کا تعلق ہے، یہ جسم کی جامع صورتحال کو ڈیجیٹل کرنا تھا۔ 100% تجربہ کی قدر کا مطلب یہ ہے کہ موجودہ ارتقاء کی سطح کا جسم اور طاقت مکمل طور پر پختہ ہو چکی ہے اور اس نے ارتقاء کے اگلے درجے میں داخل ہونے کے لیے بنیادی شرائط حاصل کر لی ہیں۔البتہ الکید ریاست سے میزار ریاست تک پیش رفت کامیابی کے ساتھ ارتقاء کے لیے، 100٪ کی تجربہ کی قدر کافی نہیں تھی۔ ایکٹیویشن کی ایک خاص شرط کو پورا کرنا ضروری ہے۔ اگلا دائرہ ’’الوتھ‘‘ تھا۔ اب اس بات پر غور کرنا کہ کس طرح توڑا جائے۔ کیونکہ اسے پہلے میزار کی طاقت کو پوری طرح سے پکڑنا ہوگا۔ جب وہ میکال سے لڑ رہا تھا تو اس نے کالی دوائیوں کی4 بوتلیں پی لیں جس پر 40,000 اوراس خرچ ہوئے۔ اگر جادوئی مواد جو جادو کی دکان سے ’’لیا‘‘ گیا تھا، چمک میں تبدیل کر دیا گیا تو حاصل شدہ چمک کو کئی گنا کر دے گا۔ اب جب کہ میکال مر گیا تھا، اس کا کوئی ثبوت نہیں ہوگا۔ اس کے علاوہ جادو کے آلات پر مشتمل کڑا ایان کو گانگا نے کئی سپاہیوں کے ساتھ بطور’’گواہ‘‘ دیا تھا۔ لہذا شیرف کو قربانی کا بکرا بننا پڑا۔
علی روئی اس مواد کو تبدیل کرنے کے خواہشمند نہیں تھے۔ لہٰذا وہ ایکسچینج سینٹرمیں چلا گیا۔2 ستاروں کے ساتھ واقعی نئی قابلِ تبادلہ چیزیں موجود تھیں۔ دوائیوں کے زمرے میں اصل کے علاوہ 4 نئے بلیک پوشنز شامل کیے گئے۔ وہ دراصل اعلیٰ عظیم الشان حکیم لیول کی ’’ابدی‘‘ دوائیاں تھیں۔
ابدی طاقت، ابدی رفتار، ابدی جسم، ابدی دماغ۔
ایٹرنل پوشنز گندم کو بھوسے سے الگ کر کے جسم کو تبدیل کر سکتے ہیں۔ مستقل طور پر کچھ خاصیت کو بڑھا سکتے ہیں۔ یہ ابتدائی ارتقاء میں ’’جسم کی صفائی‘‘ کی طرح تھا لیکن یہ صرف ایک خاصیت پر مرکوز تھا۔ اس کے علاوہ ابدی دوائیاں زندگی میں صرف ایک بار استعمال کی جا سکتی ہیں مزید کوئی بھی استعمال غیر موثر ہو گا۔ دوسرے لفظوں میں ایٹرنل پاور کی بوتل پینے کے بعد کوئی اثر نہیں ہوگا چاہے وہ مزید 10 دوائیاں پی لے۔
اس کے باوجود Eternal Potions کافی طاقتور تھے۔ علی روئی کو کل رات آگے بڑھنے سے پہلے یاد آیاکہ وہ میکال کا بالکل مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ تاہم جب اس نے ٹرو پوشنز پیے تو وہ میکال سے بمشکل لڑنے کے لیے ہائیر ڈیمن کی حد تک پہنچ سکتا تھا۔ لہذا دوائیوں کے اثرات کافی واضح تھے۔قیمت قیمت کے برابر تھی۔ ابدی دوائیاں ایک بوتل کی قیمت 100,000 اوراس تک ہے جس سے علی روئی حیران رہ گیا ہے۔ دوائیوں کے علاوہ،قابل تبادلہ اشیامیں پودوں کی کیٹیگری بھی شامل کی گئی تھی۔ پودے کے زمرے میں صرف دو چیزیں تھیں. اہم بیج اور اورا پھل کا درخت۔
اہم بیج – کہکشاں باغ کا بنیادی حصہ، باغ میں تمام پودوں کی نشوونما کو خود بخود کنٹرول اور منظم کرتا ہے۔ جادوئی دھول کا استعمال کرتے ہوئے اپ گریڈ کیا جا سکتا ہے، پودوں کی ترقی کی شرح سطح کے ساتھ بڑھتی ہے، 5000 اوراس ہر ایک۔
اورا پھل کا درخت پکنے کے بعد پھل دیتا ہے، کھپت کے بعد چمک میں براہ راست اضافہ، چمک کی مقدار سطح کے ساتھ بڑھ جاتی ہے۔ 500 اوراس ہر ایک۔ علی روئی کی آنکھیں روشن تھیں۔ اورا سپرسسٹم کا بنیادی ایندھن تھا اور سب سے زیادہ ضروری وسیلہ بھی۔ اگر وہ صرف مادوں کے استعمال سے چمک میں اضافہ کر سکتا ہے تو یہ ذریعہ ایک دن ختم ہو جائے گا۔ اورا پھل دار درخت کا ابھرنا نئی امیدیں لے کر آیا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ توانائی کی تخلیق نو کا مسئلہ بنیادی طور پر حل ہونے کی امید تھی۔ گلیکسی گارڈن کیا ہے؟ علی روئی نے اپنے دماغ کو حرکت دی اور فوراً عمارت کی لائٹ اسکرین کھول دی۔ واقعی ایک اور عمارت تھی۔
گلیکسی گارڈن۔
چالو کرنے کی حالت: 2000 اورا ویلیو۔
فنکشن: پودوں کی اقسام اگاتا ہے۔ آٹو کیئر موڈ کو فعال کرنے کے قابل، اہم بیج خریدنا ضروری ہے۔
علی روئی نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کہکشاں باغ بنانے کا انتخاب کیا۔ Galaxy Divinity Temple کے عقب میں ایک باغ نما خالی جگہ نمودار ہوئی۔ باغ کے داخلی دروازے پر ایک ہلکی اسکرین نے ایک سرکلر 2-D منصوبہ دکھایا جسے ڈیجیٹلائز کیا گیا تھا اور اسے کئی گرڈز میں تقسیم کیا گیا تھا۔ تاہم، کہکشاں باغ میں چہل قدمی کرنے پر اسے پتہ چلا کہ اندر کی جگہ ظاہری شکل سے کہیں زیادہ ہے۔ مرکز میں ایک سرکلر کی شکل کی مٹی تھی جو جگہ ہونی چاہیے جہاں اہم بیج بویا جانا چاہیے۔
علی روئی کے پاس اب 7500 اوراس تھے۔ کہکشاں باغ کی تعمیر میں 2000 کا استعمال ہوا۔ اس کے پاس اہم بیج خریدنے کے لیے کافی تھا۔ اس وقت پر توجہ مرکوز کی اور ظاہر کیا کہ پہلے درجے کی توانائی کےلیے 20 یونٹس کی ضرورت تھی، اور پختگی کا وقت 3 دن تھا۔سطح1 توانائی کی دھول؟ علی روئی نے ’’جادوئی دھول‘‘ کے بارے میں سوچا جس نے مٹی کے معیار کو بدل دیا۔اقابلہ بننے سے لے کر اب تک جو بھی خاک اسے ملی تھی وہ اس نے محل میں دے دی تھی۔ اس کے باوجود، اسٹوریج گودام میں ابھی بھی بہت سارے جادوئی مواد موجود تھے جنہیں وہ کسی بھی وقت تبدیل کر سکتا تھا۔
علی روئی اسٹوریج گودام میں داخل ہوا اور <آورا کنورژن< کا طویل عمل شروع کیا۔ تمام مواد کو تبدیل کرنے کے بعد جنہیں تبدیل کیا جا سکتا تھا کل رقم320,000 اوراس تک پہنچ گئی۔ اس کی وجہ تبدیل ہونے والے مواد کی محدود اقسام بھی تھیں۔ اسے جو جادوئی مواد ملا ہے وہ سب کو تبدیل کر دیا جائے تو Aura ویلیو کئی گنا بڑھ جائے گی۔ دھول کے 20 یونٹ 2000 اوراس کو تبدیل کرنے کے بعد حاصل کردہ جادو پاؤڈر کی مقدار کے بارے میں تھے۔ جب علی روئی نے اہم بیج کے ساتھ مٹی پر پاؤڈر چھڑکا تو مٹی میں ہلکا ہلکا چمکتا ہوا بیج رنگ برنگی روشنیوں سے چمکا اور آہستہ آہستہ زمین سے نکل کر نرم سبز پودا بن گیا۔ علی روئی جانتا تھا کہ اسے بالغ ہونے کے لیے3دن درکار ہیں اس لیے وہ پریشان نہیں تھا۔ اس نے فوراً سپرسسٹم چھوڑ دیا۔
اس بار یوسف کے جادوئی اسٹور سے لیا گیا جادوئی مواد نے صرف 300,000 اوراس فراہم کی۔ سٹار لیڈر اور میزار سٹیٹ کی طاقت نے اسے ہائر ڈیمن سے مقابلہ کرنے کی طاقت بھی دی۔ ایکسچینج سینٹراور گلیکسی گارڈن کے ایٹرنل پوشنز نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ اس نے اسے ایک ماہ بعد جبران کے خلاف لڑنے کے لیے تھوڑا زیادہ پر اعتماد بنا دیا۔ اشمار جبران کا بہترین دوست تھا۔ اشمارکے مطابق یہ ممکن ہے کہ جبران کو اپنی خفیہ تکنیک سے جنگی معاہدے کو تباہ کرنے پر آمادہ کیا جائے۔ اسے جبران کو حقیقی معنوں میں زیر کرنے اور میدان اپنے ہاتھ میں لینے کے لیے جنگ جیتنی ہوگی۔ جہاں تک یوسف کا تعلق ہے، علی روئی کے پاس ایک اور منصوبہ تھا جو اس کی نظر میں داخلی امور میں اہم کردار ادا کر سکتا تھا۔
کارون فیملی کا سراڈو ایک تجربہ کار ہائر ڈیمن تھا جو کئی سالوں سے ہائر ڈیمن کے عروج پر تھا۔ اس بار کے سراڈو کے ساتھ مماثل ہونے کے لیے،جبران کی جنگی طاقت یقینی طور پر ہائر ڈیمن کے بعد کے مرحلے تک پہنچ چکی تھی۔ اس کی تائید اشمار نے بھی کی۔
اگرچہ علی روئی ایک اسٹار لیڈر بن گیا اور میزار ریاست کی طاقت حاصل کرلی تھی لیکن وہ ابھی تک میزار ریاست کی طاقت اور مہارت کے استعمال سے ناواقف تھا۔ میکال کو مارنا زیادہ تر قسمت کی وجہ سے تھا۔ اس نے میکال کے غلط حساب کتاب اور <آورا بلیڈ< کی حیرت پر بھروسہ کیا۔ محض حقیقی طاقت اور جنگی طاقت کی بنیاد پر علی روئی اب بھی میکال سے قدرے کمتر تھا۔ اس طرح وہ جس امتحان کا سامنا کر رہا تھا، مشکل تھا۔
مناسب غور و فکر کے بعد علی روئی نے سیاہ دوائیاں ایٹرنل پاور کی بوتل کے تبادلے کے لیے 100,000 اوراس خرچ کیے۔ ابدی طاقت کے نقصان کو مستقل طور پر بڑھا سکتی ہے۔ ابدی جسم دفاع اور برداشت کو بڑھاتا ہے۔ ابدی رفتار، رفتار اور رد عمل کی صلاحیت کو بڑھاتی ہے۔ ابدی ذہن روح اور احساس کو بڑھاتا ہے۔ علی روئی دیگر 3 دوائیوں کا تبادلہ بھی کرنا چاہتا تھا لیکن اسے تربیتی میدان کے لیے درکار اوراس کو بچانے کی ضرورت تھی۔ طویل مدت میں اگرچہ کہکشاں باغ چمک کا بنیادی ذریعہ بن سکتا ہے اور ساتھ ہی نقصان جذب کرنے کی غیر فعال صلاحیت مستقبل ہی مستقبل تھا۔ اس وقت بڑی تعداد میں دستیاب اورا کی فوری ضرورت تھی۔
یوسف کی واپسی اس بار100 اعلیٰ ترین کوالٹی کے بیل پتھروں کو پہنچانے کے بہانے ہوئی جوشمائلہ سے کھو گئے تھے۔ اقابلہ نے اس سے60 ٹکڑوں کا وعدہ کیا تھا۔ ان6ٹکڑوں کے ساتھ جن کا ننھی شہزادی نے وعدہ کیا تھاچند مزید 10000 ہزار اورس ہونے چاہئیں۔ علی روئی نے دوائیاں ہاتھ میں پکڑیں، گہرا سانس لیا، کارک نکالااور ایک ہی سانس میں پی گیا۔ یہ اس نے پہلی بار کالی دوائیاں نہیں پی تھیں۔ پرجوش حکیم الداس کو معلوم ہوتا کہ یہ نام نہاد شاگرد کالی دوائیوں کی5 بوتلیں پیتا ہے تو شاید وہ اسے ’’تقسیم اور تحقیق‘‘ کے لیے آپریٹنگ ٹیبل پر باندھ دیتا تھا۔
اگر’’حقیقی‘‘ دوائیاں ایک فوری محرک کی طرح چکھتی ہیں، تو ’’ابدی‘‘ دوائیاں دیرپا ذائقے والی شراب تھیں۔ علی روئی نے ابدی طاقت پینے کے بعد جسم میں گرمی کی لہروں کو محسوس کیا۔ ہر لہر دوسری لہر سے زیادہ مضبوط تھی۔ دھیرے دھیرے گرمی کی یہ لہریں اوور لیپ ہونے لگیں، جس سے ایک عجیب تال پیدا ہو گیا جو زندہ معلوم ہوتا تھا۔ زیادہ واضح ہونے کے لیے یہ اصول تھا۔ علی روئی واضح طور پر محسوس کر سکتا تھا کہ یہ ’’طاقت‘‘ کا اصول ہے۔
طویل عرصے کے بعد یہ تال آہستہ آہستہ جسم میں بکھر گیا جب کہ علی روئی کے جسم میں اس طرح کے اصول کی تحریک کے بعد طاقت بہت بہتر ہو گئی تھی۔ یہ بہتری سٹرینتھ پوشن کی قلیل مدتی ’’اضافہ‘‘ سے مختلف تھی۔ یہ ایسا ہی تھا جیسے جسم نے کسی قسم کے اصول کو محسوس کیا اور خود حقیقت کے تحت بہتر ہوا۔ اس طرح، اس کا اثر ابدی تھا۔ علی روئی کو یہ احساس تھا کہ اگر وہ میکال کے ساتھ دوبارہ لڑتا ہے تو اس کے جیتنے کے امکانات کم از کم 60 فیصد ہیں۔
یہ ابدی سیاہ دوائیوں کا معجزہ ہے۔ بدقسمتی سے یہ صرف پہلے ادخال کے لیے موثر ہوگا۔ علی روئی کو اچانک احساس ہوا۔ چونکہ ابدی دوائیاں صرف پوشن گرینڈ حکیم ہی تیار کر سکتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے دوائیوں کو ’’اصول‘‘کے ساتھ بنانے کے لیے کچھ اصولوں کو سمجھنا ضروری ہے؟۔ دوسرے لفظوں میں کسی کو دوائیوں کے اندر کچھ اصولوں کا احساس کرنا ہوگا؟۔
جب میں نے کل رات’’ True‘‘ دوائیاں لی تھیں تو ایک بے ہودہ خاص احساس تھا۔ البتہ صورت حال بہت نازک تھی اس لیے میں اس احساس سے لطف اندوز نہیں ہو سکا۔ اب ایسا لگتا ہے کہ یہ احساس محض اتفاق نہیں ہے۔ حقیقی دوائیوںکا اور اصول ہونا چاہئے لیکن دونوں سیاہ دوائیوں کے یقینی طور پر ’’اصول‘‘ ہوتے ہیں۔
پوشن حکیم ز اس وقت تک گرینڈ حکیم لیول کی دوائیاں کیوں نہیں بنا سکتے اور اس خلا کو پار کیوں نہیں کر سکتے؟۔ کیا یہ نسخہ ہے یا طریقہ؟۔ شاید، یہ کلیدی ’’اصول‘‘ ہے۔
دوسرے لفظوں میں، گرینڈ حکیم اور حکیم کے درمیان بنیادی فرق ’’اصولوں‘‘ میں ہےیا یہ ایک بنیادی شرط ہے جسے گرینڈ حکیم بننے کے لیے سمجھنا ضروری ہے؟۔ اگر ایسا ہے تو کیا وہ آقا جو فارمولیشن میں کامیابیاں حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہے تھے، گمراہ نہیں ہو رہے؟۔ بلیک پوشنز زیادہ تر بف پوشن تھے، لیکن گرینڈ حکیم لیول تھا۔ حکیم سطح کے اندر جنہوں نے زہر کا مطالعہ کیا وہ بف پوشن سے کہیں زیادہ تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ دیومالائی دائرے میں زہر پی کر اقتدار میں رہنے والوں کی حمایت حاصل کرنا آسان تھا۔ بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جنہوں نے بف پوشنز کا مطالعہ کیا تھا یا حکیم بننے کے بعد بفنگ کی ترکیب میں دلچسپی لینا شروع کر دی تھی لیکن کوئی بھی گرینڈ حکیم لیول میں داخل ہونے میں کامیاب نہیں ہو سکا تھا۔ ’’اصولوں‘‘ کی دریافت بہت اہم تھی، خاص طور پر الداس کے لیے جو پہلے ہی حکیم لیول تک پہنچ چکے تھے۔ الداس ایک تحقیق پر مبنی پیشہ ور تھا اور وہ فارماسیوٹکس سے متاثر تھا۔ جب اپنے پیشے کی بات آتی تھی تو وہ نان اسٹاپ بات کر سکتا تھا لیکن اس کے علاوہ وہ زیادہ بات نہیں کرتا تھا۔
سیاہ ایلف یقینی طور پر ایک سیدھی اور روادار نسل نہیں تھی۔ الداس ایک ہی وقت میں دوائیوں کا حکیم اور معیاری سیاہ ایلف تھا۔ البتہ سیاہ ایلف ہمیشہ دوسرے کی مہربانیوں کو یاد رکھتا تھا جس کی وجہ سے الداس نے اقابلہ کو دھوکہ دینے کے بجائے مہیرکے خطرناک چیلنج کو قبول کرنے کا انتخاب کیا۔ پچھلی بار حکیم چیلنج میں علی روئی شروع میں سپرسسٹم کو چالو کرنا چاہتا تھا اس لیے اس نے سازش کرنے میں مدد کی۔ آخرکار علی روئی نے مہیرکو شکست دی اور مار ڈالاتاکہ الداس کو نیرنگ آباد سے نکالے جانے سے بچایا جا سکے۔ اس نے اپنی ساکھ بھی بہت بہتر کر لی۔ اس کے لیے سیاہ ایلف نے زیادہ کچھ نہیں کہا لیکن یہ بات اس کے دل میں کندہ تھی۔ فارماسیوٹکس کے علم کے لحاظ سے سیاہ ایلف دوسرے حکیم ز کی طرح کنجوس نہیں تھا۔ وہ سب کچھ بتا دیتا جو وہ جانتا تھا، کم از کم علی روئی کے ساتھ یہی معاملہ تھا۔ الداس اکثر کہتا:
’’سچے دوستوں کو ایسا شخص بننے کی ضرورت نہیں ہے جن کے ایک جیسے موضوعات ہوں۔ عملی اقدامات اکثر خوبصورت الفاظ سے زیادہ قائل ہوتے ہیں‘‘۔
علی روئی نے ابدی طاقت پینے کے بعد لالچ کو برداشت نہیں کر سکا اور الداس کے لیےتحقیقی جذبے میں پینے کے لیے ایٹرنل سپیڈ کی بوتل کا تبادلہ کیا۔ لذت کے بعد صرف 120,000 اوراس باقی رہ گئے۔ اگرچہ وہ واقعی اپنے ساتھی الداس کے لیے حیرت انگیز ذائقہ کو محسوس کرنا جاری رکھنا چاہتا تھا لیکن اس نے اپنے لالچ پر قابو پا لیا اور ’’سائنسی ریسرچ‘‘ کا راستہ روک دیا۔ باقی2 سیاہ دوائیاں ضرور بدل دیں۔ یہ120,000 اوراس تربیت کے لیے ہیں۔ میں اسے مزید استعمال نہیں کر سکتا۔ میں اس وقت تک انتظار کروں گا جب تک کہ مزید رونقیں حاصل نہ کروں۔ علی روئی نے اشمار کی معلومات کے بارے میں سوچا اور الداس کو ذہنی طور پر تیارکرنےکا فیصلہ کیا۔ وہ فوراً کمرے سے نکلا اور لیب میں آیا۔ الداس سٹول پر بیٹھا دوائیوں کی بوتل پکڑے ایک تجربے میںمحو تھا۔چلبل جس کے پاس پہلے سے ہی فارماسیوٹکس کا بنیادی علم تھا وہ بغور دیکھ رہا تھا۔
علی روئی کو تھوڑی شرمندگی محسوس ہوئی۔ اس کے مقابلے میں، دوائیوں کے حکیم کے شاگرد ہونے کے ناطےوہ سیکھنے میں اتنا قابل نہیں تھا جتنا کہ ایک ماہر۔
’’چلبل! مجھے حکیم کے ساتھ کچھ ضروری باتیں کرنی ہیں۔ تم جاؤاور گیٹ سنبھالو ۔ کوئی ادھر آئے تو فوراً اطلاع دو‘‘۔
’’ ٹھیک ہے میرے آقا!‘‘۔
چلبل بغیر کچھ کہے فوراً باہر نکل گیا۔ امپ کی نظر میں انسان پوری دیومالائی دائرے کا مالک بن چکا تھا۔ اس کے لیے فارماسیوٹکس کا علم دوائیاں بنانے والے حکی کے پاس مفت میں ایک شاگرد کی طرح حکیم کی مہربانی کی وجہ سے تھا۔
الداس نے بھی اپنا تجربہ روک دیا اور علی روئی کی طرف حیرت سے دیکھا اور کہا:
’’کیا ہے؟ کیا تمہارے وراثت کے امتحان میں کوئی مسئلہ ہے؟‘‘۔
علی روئی نے گھما پھرا کربات کرنے کی بجائے براہ راست الداس کو یوسف کے نیرنگ آباد پر واپس آنے کے بارے میں بتایا اور الداس کی طویل گمشدہ بہن کے بارے میں معلومات دی کہ وہ آپ کو بلیک میل کرکے اپنے کام کرنے کا کہے گا۔
الداس فوراً کھڑا ہوا اور بولا:
’’کیا یوسف کو واقعی میری بہن مل گئی؟‘‘۔
’’اگر یوسف آپ کو اس سے براسلوک کرنے کی دھمکی دے تو آپ کیا کریں گے؟‘‘۔
اس سوال نے الداس کو تذبذب میں مبتلا کر دیا۔ اس نے کچھ دیر تک کچھ نہیں کہا۔اس کی ذہن میں سوچوں کا ہجوم تھا۔طویل خاموشی کے بعد اس کی نگاہیں پرعزم ہو گئیں۔ وہ بولا:
’’میں شہزادی اقابلہ کو کبھی دھوکہ نہیں دوں گا، البتہ اپنی بہن کو بچانے کی پوری کوشش کروں گا چاہے اس میں میری جان ہی خرچ کیوں نہ ہو‘‘۔
الداس نہ صرف ایک پوشن حکیم تھا بلکہ اس میں جادوئی صلاحیت بھی تھی۔ خاص طور پر ہوا کے جادو میں وہ بغیر نعرے لگائے بجلی کو چالو کر سکتا تھا۔ اگر دوا سازی کے لیے پرجوش نہ ہوتا تو شاید وہ ایسا جادوگر بن جاتا جو لیچ کو بھی پیچھے چھوڑ دے۔ سیاہ ایلف حکیم لڑائیوں میں پیشہ ور نہیں تھا۔ اگر وہ واقعی لڑائی میں پڑ جاتا تو وہ ایک عام انٹرمیڈیٹ ڈیمن کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔
علی روئی نے سنجیدگی سے دیکھا اور کہا:
’’حکیم ! اگر آپ کو مجھ پر بھروسہ ہے تو جب یوسف آپ کے پاس آتا ہے، آپ اسے اپنی ہچکچاہٹ کی وجہ سے تاخیر کرتے ہیں جیسا کہ آپ نے ابھی کیا تھا۔ میں آپ کی بہن کو بچانے کی کوشش کروں گا‘‘۔
’’تم؟‘‘۔
الداس نے اسے مشکوک نظروں سے دیکھا۔لیکن اسے یاد تھا کہ اس نے یہ کہا تھا کہ وہ علی روئی پر بھروسہ کرے گا۔ اس لیے وہ نارمل ہوگیا۔
علی روئی نے سیاہ ایلف حکیم کے جذبات کو سمجھا اور فیصلہ کن انداز میں سر ہلایا اور کہا:
’’حکیم ! اس بات کی فکر نہ کریں کہ میں کون سا طریقہ استعمال کروں گا یا کون بچائے گا، آپ کو صرف مجھ پر یقین کرنے کی ضرورت ہے۔ کسی سے ذکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ جہاں تک میں جانتا ہوں یوسف کو آپ کی بہن نہیں ملی لیکن اس کے پاس صرف سراغ ہیں۔ لہٰذا اس کے ذریعے بیوقوف نہ بنیں۔
لداس نے گہری نظروں سے علی روئی کو دیکھا۔ الداس نے علی روئی سے یہ نہیں پوچھا کہ وہ کون سا طریقہ استعمال کرنے جا رہا ہے یا اس نے معلومات کیسے حاصل کی ہیں لیکن اس نے ہلکا سا سر ہلایا اور کہا:
’’کوئی تعجب نہیں کہ تم شہزادی اقابلہ کا اعتماد اور حاصل کر سکتے ہو۔ ایسا لگتا ہے تمہاری صلاحیتوں کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا ہے۔ مجھے تم پر اعتبار ہے۔ البتہ یوسف شہزادی اقابلہ سے میری وفاداری کو خوب جانتا ہے۔میں نے دارالحکومت میں ریجنٹ سے بھرتی کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا۔ وہ اب بھی مجھے اپنی خدمت پر کیوں مجبور کرے گا؟۔ کیا اس کی وجہ اس سے قبلمچیلنج کے دوران میری کارکردگی ہے؟۔
اس بارے بات کرتے ہوئے علی روئی نے خود کو قصوروار سمجھا۔ وہ بولا:
’’یہ۔۔۔۔۔۔شاید یہ اس لیے تھا کہ میں نے غلطی سے۔۔۔۔جس سے یوسف کو کچھ غلط فہمی ہوئی تھی‘‘۔
الداس نے تجسس سے پوچھا:
’’کون سی بات؟‘‘۔
جب علی روئی نے پچھلی بار میجک سٹور سے مواد چوری کرنے کا بہانہ کیا تو الداس ایک لمحے کے لیے دنگ رہ گیا۔ اس نے علی روئی کا کالر زور سے پکڑا اور چیخا:
’’ڈمباس! تم دوسری چیزوںمیں دھوکہ دے سکتے ہولیکن علمی کے بارے میں کچھ بھی جھوٹ مت بولنا۔ اگرچہ پچھلی بار میدان میں مہیرکو زہردینا مجھے مشہور کر گیا تھا لیکن میں اس پر ہمیشہ شرمندگی محسوس کرتا ہوں۔ یہ تمہارے احمقانہ پادکے خیال کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ اس لیے کہ یہ میری حقیقی طاقت نہیں تھی۔اب تم نے گرینڈ حکیم لیول دوائیوں کے بارے میں احمقانہ پریشانی پیدا کی۔ تم مجھے ناجائز شہرت حاصل کرنے کے لیے فارماسیوٹکس کے پورے شعبے کو بیوقوف بنانے پر مجبور کر رہے ہو‘‘۔
فارماسیوٹکس کی بات ہوئی تو سیاہ اایلف جنونی بن گیا۔ وہ واقعی پرجوش تھا لیکن مکروہ انسان دلچسپی کے ساتھ ذخیرہ الفاظ کا مطالعہ کر رہا تھا۔ ناجائز شہرت حاصل کرنے کے لیے فارماسیوٹکس کے پورے شعبے کو بیوقوف بنانا؟۔
اگر یہ ایکسچینج سینٹرکی تعمیر سے پہلے ہوتا تو علی روئی الداس کی ڈانٹ کا سامنا کرتے ہوئے خود کو بے بس محسوس کر سکتا تھا، لیکن اب۔۔۔۔۔۔۔
الداس غصے سے بھر گیا اور ڈانٹنا جاری رکھا۔ اچانک وہ کانپ گیا، اس کی نظریں بھی خوف زدہ ہوگئیں۔اس کی وجہ دوائیوں کی بوتل تھی جسے انسان نے پکڑ رکھا تھا۔ یہ بہت ہی عام شیشہ تھا۔ اہم بات یہ تھی کہ شیشے میں دوائی کالی تھی۔ الداس نے بوتل کی طرف دیکھا۔ اس کا سارا غصہ ہوا ہو گیا اور کانپ اٹھی۔ وہ بولا:
’’یہ ۔۔۔یہ کالی دوائیاں ہیں؟‘‘۔
’’سیاہ دوائیاں – سچ ہے۔ روح کی دوائیاں‘‘۔
علی روئی ہلکا سا مسکرایا اور بولا:
’’حکیم ! کیا آپ کو یہ چاہئیں؟‘‘۔
یہ سوال محض فضول تھا کیونکہ الداس کی آنکھیں ، اس نے واضح طور پر کہا:
’’میں تم سے لڑوں گا اگر تم مجھے نہیں دیتے‘‘۔
’’آقا! یہ آپ کےلیے ہی ہے لیکن آپ مجھ سے ایک بات کا وعدہ کریں‘‘۔
علی روئی نے آہستہ سے بوتل حوالے کی۔ الداس بولا:
’’یہ کہنے کی ضرورت نہیں۔میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں چاہے کچھ بھی ہو‘‘۔
الداس نے کانپتے ہوئے کالی دوائیوں کی بوتل وصول کی۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ اس بوتل میں سب سے اونچے درجے کی افسانوی دوا ہے۔
تاریک ایلف احتیاط سے آگے بڑھا کہ کہیں اس کے لرزتے ہاتھ سے شیشہ ٹوٹ نہ جائے۔ اس نے احتیاط سے اسے میز پر رکھ دیا۔ پھروہ ڈر گیا کہ یہاں سے گر نہ جائے۔ اس ریک میں جگہ بنائی اور اس میں رکھ کر آگے بہت سی چیزوں کا ڈھیر لگا کر محفوظ کر دیا۔
الداس کی غیر معمولی حالت کو دیکھ کر علی روئی چپکے سے مسکرا دیا۔ اگر حکیم کو معلوم ہوتا کہ جب تک کافی چمک موجود ہے، نہ صرف’’True series‘‘ بلکہ’’Eternal series‘‘ بھی آسانی سے حاصل کی جا سکتی ہیں تو وہ خوشی سے بے ہوش ہو جاتا۔
الداس کالی دوائیاں رکھنے کے بعد کارک نہیں کھولا۔بلکہ کچھ دیر اسے دیکھا جیسے وہ سیاہ دوائیوں کی کوئی غیر معمولی قسم ہو۔ آدھے گھنٹے کے بعد وہ قدرے صحت یاب ہوا اور پوچھا:
’’یہ دوائیاں تم کو کہاں سے ملیں؟‘‘۔
الداس کا ذہن اب بھی صاف تھا۔ الداس نے یہ نہیں پوچھا کہ کیا علی روئی نے اسے خود بنایا ہے کیونکہ وہ جانتا تھا کہ یہ سٹوڈنٹ’’قابل‘‘ نہیں ہے۔ فارماسیوٹکس کا بنیادی علم سیکھنے کے بعد الداس نے بنیادی طور پر علی روئی کو کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس کے بجائےامپ کا ہنر سیکھنے کی پیشرفت حیران کن تھی۔
’’آپ کو میرے گرینڈ حکیم کا وراثت کا امتحان یاد ہے؟۔ اس کا آدھا حصہ گزر چکا ہے۔ انعام کے طور پر گرینڈ حکیم کی وصیت نے مجھے یہ سچ بنانے کی ہدایت کی۔ اسپرٹ پوشن۔ جب میں بیدار ہوا تو دوائیاں کامیابی سے میرے سامنے نمودار ہوئیں۔البتہ ترکیب اور طریقہ واضح طور پر یاد نہیں کر سکا‘‘۔
علی روئی نے محسوس کیا کہ اس عظیم الشان حکیم کے بہانے تقریباً کامل ہوتے جا رہے ہیں کیونکہ وہ خود کوئی خامی تلاش نہیں کر سکا۔
’’ ڈیمن خدا کی تعریف کریں کہ عظیم الشان حکیم کی وراثت نے آخرکار فارماسیوٹکس پر روشنی ڈالی‘‘۔
الداس پھر سے چلا گیا:
’’اگر تم یہ ٹیسٹ مکمل کر سکتے ہو تو سیاہ دوائیاں بنانے کی صلاحیت بھی حاصل کر سکتے ہو‘‘۔
’’شاید نہیں۔ اسلیے کہ وراثت کا اگلا حصہ اور بھی خطرناک ہے۔ ایک غلطی میری جان لے سکتی ہے۔ علی روئی یقینی طور پر تسلیم نہیں کرے گا کیونکہ سب سے سستی سیاہ دوائیاں کم از کم 10,000 اوراس تھیں۔میں اس وقت اس معاملے پر توجہ مرکوز نہیں کرنا چاہتا تھا۔حکیم ! میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ مستقبل میں کسی کو کالی دوائیوں کے بارے میں علم ہوا تو آپ کہیں گے کہ تم نے انہیں خود تیار کیا ہے‘‘۔
’’نہیں‘‘۔
الداس نے غصے سے میز کو پیٹا۔ اس نے دیوانہ وار چھلانگ لگا دی۔ اس کا دھمکی آمیز رویہ چونکا دینے والاتھا۔ علی روئی نے میز پر لرزتی کالی دوائیوں کی طرف اشارہ کیا۔ سیاہ ایلف کا غصہ فوراً ہی ختم ہو گیا۔ اس نے جلدی سے اپنی قیمتی بوتل کو مضبوطی سے تھام لیا۔ ایک مضحکہ خیز پوز بنایا۔ اس کا پرعزم رویہ ناقابل اعتراض تھا۔
’’یہ تیری شان ہے! مجھے ایسی بے شرمی نہیں کرنی چاہیے‘‘۔
’’حکیم ! آپ کو واضح طور پر سوچنا ہوگا۔ میں آپ کو یہ دوائیاں شہرت کے لیے نہیں دے رہا ہوں بلکہ آپ کو اس کا مطالعہ کرنے کے لیے دے رہا ہوں تاکہ آپ صحیح معنوں میں عظیم الشان حکیم کا درجہ حاصل کر سکیں‘‘۔
علی روئی نے سنجیدگی سے کہا:
’’کیا آپ چاہتے ہیں کہ میرے عظیم الشان وراثت کا راز افشا ہو جائے؟۔ میں صرف ایک انسان ہوں، ایک غیر ملکی، اس سے زیادہ بے اختیار باہر کا آدمی کیا ہے؟ اگر یہ سب سے بڑا راز فاش ہو جائے تو کتنی پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا؟ کیا میں اب بھی نیرنگ آباد میں رہ سکتا ہوں؟‘‘۔
الداس ایک لمحے کے لیے ساکت ہو گیا۔ قیمت کے لحاظ سے سیاہ دوائیوں کی یہ بوتل ان تمام دوائیوں سے کہیں زیادہ قیمتی ہے جنہیں علی روئی نے پہلے ضائع کیا تھا۔ ایک پوشن حکیم کے طور پر میں اس کے بدلے میں کوئی بھی قیمت ادا کرنے کے لیے بالکل تیار ہوں۔ پھر بھی اس انسان نے صرف کچھ لطیفے کیے لیکن اس نے کچھ نہ مانگا نہ کچھ دیا۔ سیاہ ایلف حکیم کے پرسکون ہونے کے بعداس نے سنجیدگی سے تجزیہ کرنا شروع کیا:
علی روئی صحیح تھا۔ اگر یہ معلومات لیک ہو جاتی ہیں تو صرف تومانی سلطنت ہی نہیں دیگر دو ایمپائر کی توجہ بھی نیرنگ آباد اسٹیٹ پر مرکوز ہو جائے گی۔ ہر پارٹی علی روئی کے لیے ہر قیمت پر لڑے گی۔ نیرنگ آباد کی موجودہ طاقت کے ساتھ شہزادی اقابلہ اسے پکڑ نہیں سکتی۔ تب تک نہ صرف نیرنگ آباد علی روئی سے محروم ہو جائے گا بلکہ تین ریاستوں کے درمیان توازن بھی بگڑ جائے گا۔ لہٰذا اگر میں اس بوتل کا مطالعہ کروں تو بھی مجھے یہ انتہائی خفیہ طریقے سے کرنی پڑے گی۔ کوئی نتیجہ حاصل کرنے سے پہلے مجھے کسی کو اس کی اطلاع نہیں دینی چاہیے۔
الداس کے تجزیے نے علی روئی کو شرمندہ کر دیا کیونکہ وہ بہت سی چیزوں کے بارے میں نہیں سوچتا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ اس کا صدمہ ابھی کم نہیں ہوا جو ایک عظیم الشان حکیم ڈیمن کے دائرے میں لاسکتا ہے۔
’’ویسے ایک بات اور ہے‘‘۔
تاریک ایلف جانتا تھا کہ عظیم الشان حکیم کی طرف سے چھوڑا گیا ایک قیمتی تجربہ تھا۔ یہ ایک قیمتی خزانہ حاصل کرنے کے مترادف تھا لیکن اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ کسی نے صرف دوائیوں کے ذائقے کا ذکر کیا ہے۔ یہ دیکھ کر کہ الداس جنون میں مبتلا ہو گیا۔ علی روئی جانتا تھا کہ اسے مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ چنانچہ اس نے دروازے پر آئی پی کو ہدایت کی اور اپنے کمرے میں واپس چلا گیا۔
اُس لمحے جبران اور اشمار کی خبر ملنے کے بعد کہ کارون فیملی کے ساتھ خنجر کھینچے گئے تھے۔ یوسف پورے راستے پر بھاگا اور رات ڈھلنے سے پہلے ہی نیرنگ آباد سٹی واپس آ گیا۔ یوسف اپنی نیرنگ آباد کی حویلی میں واپس نہیں گیا بلکہ زخمی جبران کی عیادت کے لیے سیدھا میدان میں گیا۔ اس کے بعد وہ اشمار کے ہمراہ جادوئی اسٹور میں توڑ پھوڑ کے لیے آیا۔ اس کا چہرہ اداس ہو گیا۔
’’سر، یہ معاملہ ہے‘‘۔
اگرچہ اشمار کا لہجہ مشتعل نہیں تھا لیکن جب اس نے کارون فیملی کے بارے میں بات کی تو وہ اپنی آنکھوں میں موجود غصے کو چھپا نہیں سکا۔بولا:
’’جادو کی دکان کے واقعے کی پوری ذمہ داری لینے کو تیار ہوں۔ مجھے سزا دیں جناب‘‘۔
یوسف نے اثبات میں سر ہلایا:
’’یہ سب اس بدتمیز ایان کا کیا دھرا ہے۔ یہ آپ کا قصور نہیں ہے۔ اب آپ چوٹ ٹھیک ہے؟‘‘۔
’’اب بھی ٹھیک ہے۔ تاہم، جبران بری طرح زخمی ہے، اور اسے صحت یاب ہونے میں کم ازکم آدھ مہینہ لگے گا۔ میکال شروع میں میرا مخالف نہیں تھا۔ اگر وہ شعلے کے زہر سے چپکے سے حملہ نہ کرتا تو میں اسے کبھی بھی ایسا کرنے نہ دیتا‘‘۔
اشمارنے دانت پیستے ہوئے کہا:
’’ایان کی دھوکہدہی کو منگول نے بے نقاب کیا تھا۔ اور یہ پورے شہر کو معلوم تھا۔ کارون فیملی میں شامل ہونے والی ریکا کو بھی جبران نے سرعام قتل کر دیا تھا۔ منگول کی صلاحیت واقعی غیر معمولی ہے۔ میں نے راستے میں اس کا پیچھا کیا اوراسے اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی۔ اتفاق سے میکال کو منگول نے مارنے کی کوشش کرتے دیکھا تو میں نے روکنے کی کوشش کی لیکن اتنی زیادہ چیزیں ہونے کی امید نہیں تھی۔ میکال کو مارنے سے پہلے گانگا کو ایک خلائی کڑا دیا۔ جب میں اور جبران ایان کی رہائش گاہ پر جا کر لڑے تو گانگا ایان کے ساتھ تھا۔ وہ چیزیں اب ایان کے پاس ہوں گی‘‘۔
یوسف نے ایک لمحے کے لیے سوچا اور پوچھا:
’’اس واقعے کے بعد شہزادی اقابلہ نے کیا ردعمل ظاہر کیا؟‘‘۔
اشمار نے ایمانداری سے جواب دیا:
’’شہزادی اقابلہ ہمیں کارون فیملی کے خلاف دیکھنا چاہتی ہے۔ اس نے اولڈ غوث کو ثالثی کے لیے بھیجا لیکن حقیقت میں یہ اختلافات بڑھانے کی کوشش ہے‘‘۔
’’ اس معاملے میں کوئی اور عوامل نہیں لگتا۔اگر اس کا تعلق شہزادی اقابلہ سے ہےتو وہ ایسی واضح اشتعال انگیزی کے بجائے ایسا کام کرتی جیسے یہ اس کا کوئی کام نہیں ہے۔ یوسف نے سوچتے ہوئے سر ہلایا اور پوچھا:
’’ویسے، کیا منگول واقعی ایک مہینے کے بعد جبران کو چیلنج کر رہا ہے؟‘‘۔
’’جی ہاں۔ منگول صرف ایک ماہ قبل ابتدائی انٹرمیڈیٹ ڈیمن تھا۔ جب اس نے ریکا کو شکست دی وہ بعد کے مرحلے کا انٹرمیڈیٹ ڈیمن تھا۔ جبران اور میرے مشاہدے کے مطابق منگول غالباً ایک تبدیل شدہ گریٹ ڈیمن ہے یا گرے ہوئے شاہی خاندان کی اولاد ہے۔ اس کے جسم پر خاص قسم کی مہر ہے جسے توڑنے اور طاقت کو بحال کرنے کے لیے اسے جنگ پر انحصار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے اس نے دو ماہ بعد چیلنج کرنے کی ہمت کی ہے۔ جبران اور اس نے پہلے ہی جنگی معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں‘‘۔
’’کیسا آدمی ہے!‘‘۔
یوسف نے دلچسپی سے دیکھا اورپوچھا:
’’آپ کی رائے میں اس لڑکے کا ہمارے ساتھ شامل ہونے میں کتنا امکان ہے؟‘‘۔
’’اگر جبران نہ رہا تو تقریبا 100٪ ہے‘‘۔
اشمار نے اثبات میں کہا:
’’اس کے پاس ایک چھوٹی سی فورس بھی ہے جسے کلوننگ گینگ کہتے ہیں۔ البتہ اس نے ایان کو ناراض کیا ہے اور جبران کے ساتھ ایک جوڑطے کیا ہے۔ لہٰذا وہ صرف تیسرے فریق سے ہی پناہ لے سکتا ہے‘‘۔
یوسف کی آنکھوں میں ایک قاتلانہ ارادہ تھا۔ بولا:
’’کیا تم شہزادی اقابلہ کی بات کر رہے ہو؟‘‘۔
اشمارنے سر ہلایا اور کہا:
’’آج دوپہر، جب ایان نے کلوننگ گینگ کو ختم کرنے کے لیے کسی کو بھیجا تو شہزادی اقابلہ کے شاہی محافظ کلوننگ گینگ کے جنوب مشرقی بلاک میں نمودار ہوئے اور دعویٰ کیا کہ کلوننگ گینگ امپیریل گارڈز کی ریزرو فورسز میں سے ایک بن گیا ہے۔ ایان کے لوگ بے بس تھے اس لیے پیچھے ہٹ سکتے تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ منگول نے کامیابی کے ساتھ شہزادی اقابلہ سے پناہ مانگی ہے‘‘۔
یوسف نے جھکایا۔ اشمار نے کہا:
’’سر! آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جب میں نے کل رات منگول کو بچایا تو اسے بھرتی کرنے کی تجویز پیش کی۔ منگول اپنی جابچ جانے کی وجہ سے میری مہربانی کا شکر گزار تھا۔ وہ منحرف ہونے کی تجویز سے متاثر ہوا۔ البتہ اس نے اصرار کیا کہ جبران کے ساتھ جنگ کبھی نہیں چھوڑے گا۔ اگر دوندویودق جیت جاتا ہے تو وہ میدان پر قبضہ کرنے کے لیے جبران کی پوزیشن تبدیل کر دے گا۔ لہٰذا دوندویودق سے پہلے وہ ہماری خدماے حاصل نہیں کرے گا۔میں نے فوراً جناب کی طرف سے وعدہ کیا اور اسے سب سے پہلےاقابلہ سے پناہ لینے کی اجازت دی تاکہ کلوننگ گینگ کی طاقت کو بچایا جا سکے۔ اگر میں نے آپ کےدیے گئے اختیار سے تجاوز کیا ہے تو معافی کا طلب گار ہوں‘‘۔
’’نہیں۔ تم نے بہت اچھا کیا‘‘۔
یوسف پہلے ہی اشمار کے مقصد کو سمجھ چکا تھا۔ وہ تعریف کے ساتھ مسکرایا:
’’اگر منگول کو ایک مہینے کے بعد جبران آسانی سے مار ڈالتا ہے تو ہم کچھ نہیں کھوتے لیکن ہم اقابلہ کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔اگر منگول واقعی جبران کے ساتھ مقابلہ کرنے کی طاقت رکھتا ہے تو ہمیں جو ملتا ہے وہ ایک مضبوط ممبر ہے۔ اگر میں وقت پر واپس نہیں آ تا تو آپ نے دونوں کو ایک دوسرے کو مارنے سے نہیں روکنا۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ کوئی بھی پارٹی مر جائے۔ یہی تو ہے جو ہم نے دیکھنا ہے‘‘۔
اشمار نے جھک کر کہا:
’’میں سمجھ گیا، سر‘‘۔
’’یوسف اور کنیتا کے درمیان لڑائی شدید ہوتی جا رہی ہے۔ اس لیے بہتر تھا کہ اس کے ماتحت مزید ہنر مند ہوں۔ دوسری صورت میں اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا یہاں تک کہ اگر جبران اور منگول دونوں مر گئے‘‘۔
اس نے پھر پوچھا:
’’ویسے، پرنسس پلازہ جو حال ہی میں ننھی شہزادی نے کھولاہے،سنا ہے کاروبار کافی اچھا ہے؟‘‘۔
اشمار نے سر ہلایا اور کہا:
’’جی۔ خاص طور پر ڈیمن سے لڑنے والی شطرنج اور شہزادی شطرنج۔ میلون فیملی نے ایک بار 50,000 سیاہ کرسٹل سکے ادا کیے اور ایک قدیم عظیم الشان حکیم کے کیمیا کے کام خریدے۔ افواہوں سے پتہ چلتا رہتا ہے کہ انہوں نے ابھی تک اندر کے عجائبات کا پردہ فاش نہیں کیا ہے‘‘۔
ایک عظیم الشان حکیم کا کام؟‘‘۔
یوسف نےشمائلہ کے ساتھ اپنی شرط کے بارے میں سوچا تو اس کی آنکھوں میں ہلکی ہلکی روشنی چمک اٹھی۔ بولا:
’’میں پرنسس پلازہ کے بارے میں مزید جاننا چاہتا ہوں‘‘۔
اشمارجانتا تھا کہ اگر اس نے یہ نہ کہا تو بھی یوسف پرنسس پلازہ کی معلومات آسانی سے حاصل کر سکتا ہے، کیونکہ وہ اب نیرنگ آباد میں تھا۔ اس لیے اس نے وہ سب کچھ بتا دیا جو اسے معلوم تھا۔
یہ سنتے ہی یوسف کا چہرہ مزید سنجیدہ ہو گیا۔ اس نے آنکھیں موند لیں اور گہری سوچ میں ڈوب گیا۔
اشمارنے کہا:
’’اگرچہ میں ایک عام کاروباری آدمی ہوں، لیکن ننھی شہزادی کی تعریف کرتا ہوں۔ وہ دراصل اپنے عجیب و غریب اسٹور کو نیرنگ آباد سٹی کا سب سے مشہور اسٹور میں تبدیل کرنے کاپلان رکھتی ہے‘‘۔
’’نہیں!‘‘۔
یوسف نے سر ہلایا اور کہا:
’’یہ ننھی شہزادی کی طاقت نہیں ہو سکتی۔ اس کی دکان نیرنگ آباد میں کافی عرصے سے مشہور ہے۔ اس کاروبار کو کم نہ سمجھیں، اندر کی حکمت اور مہارت تصور سے باہر ہے۔ چلو کل پرنسس پلازہ پر جا کر ایک نظر ڈالتے ہیں‘‘۔
اشمار نے عدم اطمینان سے کہا:
’’ایان کا کیا ہوگا؟ ۔وہ اپنی خاندانی طاقت پر بھروسہ کرنے والامحض ایک ردی کی ٹوکری ہے۔ معافی چاہتا ہوں جناب!۔لیکن میں ایسے کوڑے دان کا کوئی ظلم برداشت نہیں کر سکتا‘‘۔
یوسف جانتا تھا کہ اشمار اصل میں ایک بڑے خاندان کا وارث تھا۔ اگرچہ وہ اپنی عزت سے محروم تھا لیکن اس کی ہڈیوں میں اس کا غرور جبران سے کہیں زیادہ تھا۔ اس نے یقین دلاتی ہچحی کہا:
’’فکر نہ کرو۔ میں کارون فیملی کے ساتھ بگاڑنا نہیں چاہتا۔ ہمیں اب بھی ایان کے ساتھ دوستی کا تعلق رکھنا ہے۔لیکن اس سے پہلے میں اسے تھوڑا سمجھاؤں گا۔
اشمار نے سر ہلایا اور خاموش رہا۔ یوسف اطمینان سے مسکرایا۔ اس نے کبھی یہ توقع نہیں کی تھی کہ اس کا مغرورماتحت اسے ابھی جان بوجھ کر اکسائے گا۔
رات کے وقت ایک وائیور ن پروں کو پھڑپھڑاتا ہوا نیلی جھیل پر نمودار ہوا۔
عجیب بات یہ ہے کہ علی روئی کو سنکھیار کہیں نہیں مل سکا۔ اسے تشویش ہوئی۔ وہ اپنی آخری امید کے ساتھ نیلی جھیل کی طرف چل پڑا، یہ جاننے کے لیے پانی میں غوطہ لگانا چاہتا تھا۔ پیچھے سے ایک شرارتی قہقہہ سنائی دیا۔
’’انسان بھائی! تم نے کپڑے اتار لیے، نہانے کا ارادہ رکھتے ہو؟‘‘۔
علی روئی اس مانوس آواز کو کبھی نہیں بھول سکتا تھا۔’’انسانی بھائی‘‘ کہنےسے اسے خوشی دی۔ اس نے مڑ کر دیکھا آواز دینے والانظر نہیں آیا۔
’’سنکھیار! اگر تم ابھی باہر نہ آئے تو میں واپس چلا جاؤں گا‘‘۔
’’ہائے۔۔۔۔ خودکشی کی دھمکی کیوں نہیں دیتے بھائی؟‘‘۔
زہریلے ڈریگن کی شکل آخر کار پیچھے سے نمودار ہوئی۔ وہ علی روئی کو بیزار کرنا نہیں بھولا۔
’’تم اب بھی یہی کہہ رہے ہو!‘‘ علی روئی تیزی سے اس کی طرف بڑھا۔ "تم اتنے ناگوار آدمی ہو!”
’’تمہاری رفتار پھر بڑھ گئی‘‘۔
زہریلے ڈریگن کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ وہ ایک قدم پیچھے ہٹ گیا۔
علی روئی نے محسوس کیا کہ کوئی نادیدہ قوت اس کو میری طرف آنے سے روک رہی ہے جیسے کوئی شفاف دیوار اس کے آگے حائل ہے۔ علی روئی نےحرکت کرنا چاہی اور اپنی مٹھی ’’دیوار‘‘پر ماری۔ ایسا لگتا تھا یہ ایک جسمانی ہٹ تھا۔ یہ ’’دیوار‘‘ انتہائی مضبوط تھی کہ تمام نقصانات کو بھی ظاہر کرتی تھی۔ وہ غصے میں آ گیا ۔ ہلکے سے نقصان نے فوراً اسے مسابقتی بنا دیا۔
’’تمہارا حملہ بھی مضبوط ہو گیا ہے!‘‘ ۔
سنکھیار نے اپنا جملہ مکمل کیا تو اس نے دیکھا کہ علی روئی اونچی چھلانگ لگا رہا ہے۔ ہاتھ بلیڈ کی طرح نیچے کی طرف مار رہا ہے۔ سنکھیارنے علی روئی کے ہاتھ پر عجیب و غریب طاقت کو دیکھا جو خوفناک نفاست کو ایسے ظاہر کر رہا تھا جیسے کوئی مضبوط دیو ہیکل ہتھیار۔
لعنتی آدمی! پاگل مت بنو‘‘۔
سنکھیار علی روئی کے سامنے نمودار ہوا تو علی روئی چونک گیا۔ علی روئی میزار ریاست کا <آورا بلیڈ< استعمال کر رہا تھا۔ اسے روکنے میں بہت دیر ہو چکی تھی۔ پھراس نے سنکھیار کو بجلی کی طرح بازوؤں کو جھاڑا تو ’’بلیڈ‘‘ زہریلے ڈریگن کے بازو سے ٹکرایا، جس سےکراہنے آواز آئی جیسے دو دھاتی چیزیں آپس میں ٹکرا رہی ہوں۔
علی روئی نے محسوس کیا کہ <آورا بلیڈ>مضبوط ترین شیلڈ پر مارا ہے۔ ڈھال پر ایک عجیب ہلتی ہوئی قوت تھی جس نے <اورا بلیڈ< کی نفاست کو منتشر کردیا۔ باقی طاقت ڈھال کے دفاع کو نہیں توڑ سکی۔ وہ جھٹکے سے اڑا اور زمین پر گر گیا۔
سنکھیار بھی زمین پر گر گیا اور چونکا۔ جس بازو نے<آورا بلیڈ>کو روکا تھا وہ اتنا نقصان دہ تھا زہریلے ڈریگن کے ماتھے پر ایک چھوٹا سا کٹ تھا جیسے اسے کسی تیز بلیڈ سے کاٹا گیا ہو۔
علی روئی کھڑا ہوا اور اس کے چہرے پر تعریفی رنگ تھے۔سنکھیار نے سوچا اس لڑکے کی ۔ اگر وہ مہر کو ختم کر دیتا ہے اور ڈیمن اوور لارڈ کے طور پر اپنی طاقت بحال کرتا ہے۔تو مجھے نہیں طاقت ناقابلِ تسخیر ہے۔ جب وہ اس کی مہر توڑے گا تو معلوم نہیں کتنا طاقتور ہو سکتا ہے۔
’’تم ٹھیک کہہ رہے ہو ۔ یہ غیر معمولی ہے، انتہائی غیر معمولی‘‘۔
زہریلا ڈریگن غصے میں نظر آ رہا تھا۔ بولا:
’’تم اتنے زخمی تھے کہ خودکشی تک کی دھمکی دے دی۔ اب مکمل صحت یاب ہو چکے ہو، جب کہ تمہاری طاقت اور رفتار ایک بار پھر دوسری سطح پر پہنچ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ خفیہ تکنیک ابھی بہت عجیب ہے۔ یہ مجھے تکلیف دے سکتی ہے۔ اگر تم اسی طرح ترقی کرتے رہو گے تو چند سالوں میں پورے دیومالائی دائرے کو فتح کر سکتے ہو‘‘۔
زہریلے ڈریگن نے جیسے ہی بات کی، اس کے ہاتھ ہوا میں لہرانے لگے۔ پھر1میٹر کے قطر کے ساتھ2 چھوٹے نشانات اس کے پیچھے زمین پر نمودار ہوئے جو ایک عجیب سی روشنی خارج کر رہے تھے۔
’’تم انہیں زخم کہتے ہو؟‘‘۔
علی روئی نے پیشانی کی طرف دیکھا جس کی طرف زہریلے ڈریگن نے نفرت سے اشارہ کیا۔ اس نے 2 نشانات کو دیکھا۔
’’ یہ کیا ہے؟‘‘۔
’’تم ڈریگن کے نوشتہ جات کے بارے میں بھی بھول گئے؟‘‘۔
سنکھیار نے ڈانٹ کر کہا:
’’جاہل آدمی!۔ لیکن تم ایک ہی وقت میں بہت خوش قسمت ہو۔ خفیہ تکنیک ابھی گرینڈ حکیم کی وراثت ہوسکتی ہے۔ یہ واقعی حیرت انگیز ہے۔البتہ یہ تمہارے ہاتھ میں جس پر تم نے ابھی حملہ کیا ہے <Reflect> لکھا ہوا تھا۔ جب تک تم اسے مکمل طور پر تباہ نہیں کر سکتے، نقصان بڑھنے کے ساتھ ہی منعکس شدہ نقصان بھی بڑھ جاتا ہے۔ میں اب عظیم ڈیمن کنگ کی طاقت پر ہوں، لہٰذا یہ نوشتہ ڈیمن کنگ کی طاقت کو ظاہر کرتا ہے۔ اپنی موجودہ طاقت سےتم اس تحریر کو نہیں توڑ سکتے چاہےتمہاری خفیہ تکنیک کتنی ہی مضبوط کیوں نہ ہو۔ اگر میں تمہیں نہ روکتا تو ابھی اپنی خفیہ تکنیک سے نقصان اٹھا چکے ہوتے‘‘۔
علی روئی کانپ گیا ۔ وہ سمجھ گیا کہ سنکھیار اسے کیوں روکنا چاہتا ہے۔اس نے سوچا:
ایسا لگتا ہے کہ کل رات میکال کو مارنے کے ریکارڈ سے میں مطمئن نظر آتا ہوں۔ <Aura Blade> کتنا ہی مضبوط کیوں نہ ہو مجھے محتاط رہنا چاہیے۔
’’جس کی وجہ سے تم نوشتہ جات نہیں سیکھ رہے ہیں‘‘۔
سنکھیار نے ایک اور نشان کی طرف اشارہ کیا:
’’تمہیں پتہ ہے یہ کیا ہے؟‘‘۔
’’یہ ہے۔۔۔۔‘‘۔
علی روئی یاد کرتا رہ الیکن بنیادی باتوں کے علاوہ کچھ ذہن میں نہ آیا۔ یادداشت میں لکھے ہوئے نوشتہ جات سے گزر رہا تھا کہ اچانک اس کے ذہن میں ایک اطلاع نمودار ہوئی۔ ’’نامعلوم میٹا ڈیٹا ملا ہے۔ کیا آپ <Deep Analysis> کو چالو کرنا چاہتے ہیں؟‘‘۔
علی روئی دنگ رہ گیا۔ <گہرا تجزیہ>۔ یہ وہ ناقابل فہم مہنگا ہنر ہے۔10,000 اوراس فی استعمال، اور یہ صرف آدھے گھنٹے تک رہتا ہے۔ اب میرے پاس 10,000 اوراس ہیں۔ سپر سسٹم کے مزید اسرار سے پردہ اٹھانے کے لیے آزمائے جا سکتے ہیں۔
’’ چالو کریں‘‘۔
جیسے ہی علی روئی نے اپنے ذہن میں تصدیق کی اس نے محسوس کیا کہ اس کی روح ایک لمحے میں بلند ہو گئی ہے۔ وہ اپنی یادداشت کے متعلقہ حصوں کو عجیب انداز میں پڑھ رہا تھا اور تجزیہ کر رہا تھا۔ 10 منٹ گزر چکے تھے۔ علی روئی کو ایسے دیکھ کر سنکھیار نے اس کا سر ہلایا۔
ڈریگن انکرپشن کافی مشکل ہے۔ یہاں تک کہ ایک ڈریگن بھی آسانی سے اس میں مہارت حاصل نہیں کرسکتا۔ اس جاہل آدمی کے لیے۔یہ شاید ڈیمن لارڈ کی سطح کو حاصل کرنے سے زیادہ مشکل ہے۔ مجھے شاید صبر کرنا چاہیے اور اسے آہستہ آہستہ سکھانا چاہیے۔
’’ذہن پر زور دینا چھوڑ دو‘‘۔
اس سے پہلے کہ سنکھیار اپنی بات مکمل کرتا،علی روئی چیخا:
’’سنکھیار! مجھے وہ تمام نوشتہ جات کے بارے میں بتائیں جو تم جانتے ہو۔ یہ نہ پوچھ کہ کیوں۔۔ جلدی کر‘‘۔
سنکھیار حیران رہ گیا۔ اس نے زمین پر ڈرائنگ کرتے ہوئے پڑھانا شروع کیا۔ تھوڑی دیر بات کرنے کے بعد اس نے توقف کرنا چاہا لیکن انسانی آنکھیں اسے گھور رہی تھیں۔
’’جلدی! بات کرتے رہو اور جتنی تیزی سے ہو بہتر ہے۔ اور بہتر ہے پوری بات ختم کر کے دم لو‘‘۔
’’یہ بندہ سیکھنے کا اتنا شوقین کب ہوا؟‘‘۔
زہریلے ڈریگن کو معلوم تھا کہ کچھ عجیب ہے لیکن اس نے پرواہ نہیں کی اور وہ سب کچھ بتا دیا جس کے بارے میں وہ ہوا میں سب کچھ کھینچتے ہوئے سوچ سکتا تھا۔
علی روئی کچھ سمجھنے کی کوشش نہیں کر رہا تھا بلکہ یاد کرنے پر توجہ دے رہا تھا۔ اسی طرح آدھا گھنٹہ گزر گیا۔ اس نے زیادہ پرواہ نہیں کی اور دوبارہ <ڈیپ اینالیسس >کو چالو کیا جب تک کہ زہریلے ڈریگن کی بات ختم نہ ہو ئی۔
’’ٹھیک ہے، اب مجھے پریشان مت کرو‘‘۔
علی روئی نے محسوس کیا کہ اس کا دماغ ایک کمپیوٹر کی طرح ہے جو حفظ کیے گئے ڈیٹا کو تیزی سے ذخیرہ کرنے کے ساتھ ساتھ تجزیہ کرتا، حساب لگاتاہے یہاں تک کہ کریک بھی کرتا ہے۔ اس نے ایک شاخ اٹھائی اور زمین پر نقش و نگار بنانے لگا۔
سنکھیار پہلے تو سر ہلا رہا تھا لیکن پھر زیادہ حیران ہوگیا۔ اگرچہ علی روئی نے جو نوشتہ کھینچا تھا وہ سنکھیار کی توقع سے کہیں کم طاقتور تھا لیکن درستی زیادہ اور بے عیب تھی۔ دوسرے <گہرا تجزیہ >کا موثر وقت ختم ہو گیا۔ تجزیہ کردہ معلومات نے ایک برانڈ جیسی چیز بنائی جو علی روئی کے ذہن میں گہرائی تک کندہ ہو گئی۔ گویا اس نے علم پر عبور حاصل کر لیا تھا اور وہ اسے آزادانہ طور پر استعمال کرنے کے قابل تھا۔
یہ زہریلے ڈریگن کے علم کا صرف ایک حصہ تھا۔ پھر بھی یادداشت میں نقوش تھے۔ لہذا علی روئی اب بھی مزید اسرار توڑنے کے لیے <Deep Analysis> کو چالو کرنا جاری رکھ سکتا تھا۔
’’تمہارےدو نوشتہ جات،ایک <Reflect> اور دوسرا <Hide>۔ جہاں تک میری ڈرائنگ کا تعلق ہے،یہ <flame> کی نمائندگی کرتا ہےاور اس کا مطلب <Explode> ہے۔ پھر یہ تار <زہر اور ٹیلی پورٹ< کی نمائندگی کرتا ہے، کیا میںٹجی کہہ رہا ہوں؟‘‘۔
علی روئی نے سنکھیار سے پوچھا۔
سنکھیار نے لاشعوری طور پر سر ہلایا۔ اچانک اس نے آگے بڑھ کر علی روئی کو عجیب نظروں سے دیکھا جیسے وہ علی روئی کو نگلنے والاہو۔ علی روئی کی ریڑھ کی ہڈی میں ٹھنڈ پڑ گئی۔
’’کیا زہریلے ڈریگن کا گھونسلہ بروک بیک ماؤنٹین پر ہے ؟‘‘۔
’’میرے پاس شک کرنے کی زیادہ وجہ ہے کہ تم انسان کے بجائے ڈریگن ہو‘‘۔
سنکھیار نے دانت پیستے ہوئے کہا:
’’یہاں تک کہ ایک ڈریگن بھی اتنی تیزی سے ڈریگن انکرپشن عبور حاصل نہیں کر سکتا‘‘۔
سنکھیار ڈریگن انکرپشن میں اچھا تھا۔ اس نے اپنے آپ کو تقریباً 10,000 سال کے علم اور تجربے کے میدان میں غرق کر دیا تھا۔ اس طرح وہ دیومالائی دائرےمیں ڈریگنوں میں بھی کافی مشہور تھا۔ پھر بھی اس نے کبھی اس انسان سے یہ توقع نہیں کی تھی جو ایک جاہل اور دھوکے باز تھا۔ پلک جھپکتے ہی بنیادی اصولوں پر عبور حاصل کر لے گا، یہ پہلے کی طرح محض حفظ نہیں تھا بلکہ یہ صحیح معنوں میں سمجھنا تھا۔
’’حکیم ! یہ گرینڈ حکیم کی میراث ہوسکتی ہے‘‘۔
سنکھیار نے رد عمل کا اظہار کیا اور علی روئی پر شدید ردعمل کا اظہار کیا۔ بولا:
’’ایسا لگتا ہے کہ یہ حکیم ووکونگ یقینی طور پر ایک ڈریگن ہے یا افسانوی ڈریگن کا پریموجینیٹر، پریموجینیٹر نے ایسے بے شرم انسان کی پرواہ کیوں کی؟۔ مجھ سنکھیار، ایک طاقتور، خوبصورت اور باصلاحیت ڈریگن کو نظر انداز کر دیا گیا ہے‘‘۔
’’تمہیں پھر جلن ہو رہی ہے۔ یہ ڈریگن کی خوبی نہیں ہے‘‘۔
علی روئی نے حقارت سے اپنے ہونٹ آگے بڑھائے۔ لیکن وہ دل میں بہت خوش تھا۔ تو یہ ہے <Deep Analysis> کا معمہ۔ خرچ کیے گئے 20,000 اوراس بالکل قابل قدر ہیں کیونکہ سب سے زیادہ پریشان کن ڈریگن انکرپشن سے نمٹ سکتا ہے۔ اس بنا پر اگر میں کچھ سیکھ سکتا ہوں تو کیا میں سپر مین نہیں بن سکتا؟۔البتہ میں اب بھی نہیں سمجھ سکا کہ ’’نامعلوم میٹا ڈیٹا‘‘ کا کیا مطلب ہے۔ شاید <Deep Analysis> کے ہدف پر کچھ پابندیاں ہیں۔
سپر سسٹم ایک بہت بڑا خزانہ تھا۔ علی روئی کو اب چابی مل گئی تھی، لیکن وہ صرف اتھلی سطح پر کھدائی کر رہا تھا۔ مؤخر الذکر یقینی طور پر انتظار کرنے کے قابل ہوگا۔ جب اس نے سنا کہ سنکھیار برادر ووکونگ سے شکایت کر رہا ہے کہ وہ کیا حاصل نہیں کر سکتا، علی روئی نے اپنا سر ہلایااورکہا:
’’ڈریگن کے پریموجینیٹر کے ساتھ کیا ہے؟۔ یہ صرف ایک بندر ہے۔ مزید برآں یہ قدیم دور کی دکان، روحانی پتھر کی بندر میں بندر کے لیے سب سے بڑے برانڈز میں سے ایک‘‘۔
عین اسی لمحے علی روئی نے اچانک اپنے سر میں ایک زور دار چکر محسوس کیا جیسے دنیا گھوم رہی ہو۔ <Deep Analysis> کی بلندی کی روح اس سے پہلے ایک بے مثال کمزوری کو ظاہر کرتی تھی۔ اس کا پورا جسم لڑکھڑا رہا تھا۔ وہ زمین پر گرنے ہی والاتھا کہ سنکھیار نے دیکھا کہ اس کے ساتھ کچھ غلط ہے، اس نے جلدی سے علی روئی کو آہستہ آہستہ میدان میں بیٹھنے کو کہا۔ علی روئی کچھ دیر زمین پر بیٹھا رہا۔ کچھ بہتر ہوا تو اس نے محسوس کیا کہ وہ روح جو ہر وقت بکثرت رہی تھی اس طرح ختم ہو گئی ہے جیسے بہتا ہوا چشمہ اچانک سوکھ گیا ہو۔ ایسا لگتا تھا کہ <Deep Analysis> کوئی ایسی مہارت نہیں تھی جسے اتفاق سے استعمال کیا جا سکے۔ روح کی مانگ کافی زیادہ تھی۔ اسے لگاتار دو بار استعمال کرنے سے ابھی اصل میں اس کی روح خالی ہوگئی۔ اس نے فوراً اسپرٹ ریکوری پوشن کی ایک بوتل کا تبادلہ کیا جس کی قیمت2000 اوراس تھی اور اسے پی لیا۔ یہ سفید دوائیاں جو ایک عظیم الشان حکیم کی تیار کردہ دوائیوں کے مساوی تھیں، توقع کے مطابق موثر نہیں تھیں۔ <Astral Form> کی صلاحیت کے ساتھ روح کی بحالی صرف تھوڑی تیز تھی۔ یہ دوائیوں کے اثر کی وجہ سے نہیں ہو سکتا بلکہ <ڈیپ اینالیسس< کا ضمنی اثر ہے۔ زہریلے ڈریگن کے پاس اور بھی بہت سے سوالات تھے لیکن علی روئی کی حالت دیکھ کر اس نے اصرار نہیں کیا۔ اس نے علی روئی کو وائیورن پر سوار کیا۔ علی روئی کی موجودہ صورت حال میں وہ عام <Analytic Eyes> کو مزید استعمال نہیں کر سکتا تھا۔ خوش قسمتی سے کیگو اس راؤنڈ ٹرپ سے واقف تھا اس لیے اسے اس کے حکم کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ براہ راست محل کی تجربہ گاہ میں واپس چلا گیا۔
علی روئی واپس اپنے کمرے میں چلا گیا۔ اس نے ایک بے مثال ذہنی تھکن محسوس کی اور وہ سو گیا۔
جب وہ بیدار ہوا تو اگلے دن کی دوپہر ہو چکی تھی۔ علی روئی نے محسوس کیا کہ اس کی روح30 فیصد بحال ہو گئی ہے، اس نے اسپرٹ ریکوری دوائیوں کی ایک اور بوتل پی لی۔ اگرچہ اسے <Deep Analysis> کا کمال معلوم ہوا لیکن اس نے بے تابی کی ایک خاص قیمت ادا کی تھی۔ روح نہ صرف جادوئی کاسٹنگ کا ایندھن تھی بلکہ یہ ارادے اور حواس کا ذریعہ بھی تھی۔ روح کی کمی کے تحت، جبری تربیت نقصان دہ ہوگی۔ لہٰذا علی روئی نے دوبارہ تربیت شروع کرنے سے پہلے مکمل طور پر صحت یاب ہونے تک انتظار کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس نے ایک بار وقت کی حکمرانی کے ساتھ عام تربیتی میدان میں تجربہ کیا۔البتہ وقت کی حکمرانی اس صورت حال میں روح کی بحالی میں مددگار نہیں تھی۔ اس نے بے بسی سے کام چھوڑ دیا اور 2000 اوراس ضائع کر دیے۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ صحت یاب ہونے کے لیے صرف دوائیوں اور نیند پر ہی انحصار کرتا ہے۔ <Deep Analysis> واقعی طاقتور تھا لیکن مستقبل میں اس ہنر کو صورتحال کا جائزہ لینے کے بعد احتیاط سے استعمال کیا جانا چاہیے۔
اس کی روح کو مکمل طور پر صحت یاب ہونے میں تقریباً 2 دن مزید لگیں گے۔ وقت کے لحاظ سے اس کی تکمیل تربیتی میدان کے اصولوں سے کی جا سکتی ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ بہت زیادہ اوراس کی ضرورت ہے۔ اس وقت سیاہ دوائیاں پینا واقعی متاثر کن تھا۔ پھر بھی دوائیاں پینے سے مستقل طور پر طاقت بڑھانے کے لالچ کا سامنا کرنا120,000 اوراس چھوڑنا کافی اچھا تھا۔
True Spirit Potion اور <deep Analysis> پر کل رات کھائے گئے20000اوراس کو مدنظر رکھنے کے بعد اس کے پاس صرف90000اوراس باقی تھے۔ اورا پیسے کی طرح تھی، جتنی تیزی سے آئی اتنی تیزی سے ضائع ہو گئی۔ تاہم نفع و نقصان کے اندر اس کی ذاتی قوت میں اضافہ ہوا۔ اس لیے افسوس کی کوئی بات نہیں تھی۔ سیاہ دوائیوں میں ابدی جسم اور ابدی روح کی دوائیوں کا تبادلہ ہونا باقی تھاجن کا بجٹ200,000 اوراس تھا۔8 گنا کشش ثقل،10 گنا ٹائم رولز یا حتیٰ کہ100 گنا ٹائم رول کے لیے مزید اوراس کی ضرورت ہوتی ہے۔ سلوا سے جو 160,000 سیاہ کرسٹل سکے اس نے حاصل کیے تھے ان میں اب تقریباً 80,000 باقی رہ گئے تھے۔ اس کے باوجود حال ہی میں بوڑھے بونے کی طرف سے کھرچنے کے بعد مارکیٹ میں زیادہ چمک کا مواد نہیں بچا تھا۔علی روئی کو اس بات کا خیال تھا، لہٰذا وہ لاپرواہی سے سیاہ دوائیوں کا تبادلہ نہیں کرے گا۔ تولان پہاڑ کی ’’ضائع شدہ کچ دھاتیں” عام لوگوں کے لیے ایک بیکار فضلہ تھیں۔ علی روئی کے لیے یہ چمک کا ایک انتہائی ضروری ذریعہ تھا اور ان میں سے بہت زیادہ تر معلومات کی بنیاد پر یہ ضائع شدہ کچ دھاتیں چار سو سال پہلے نمودار ہوئیں۔ یہ غالباً زیر زمین دیومالائی درندے کی ایک خاص ’’آلودگی‘‘ سے پیدا ہوئی تھیں۔ دوسرے لفظوں میں تولان پہاڑ نے چند سو سالوں سے یہ ’’ضائع شدہ کچ دھاتیں‘‘ جمع کر رکھی تھیں۔ اگرچہ ایک ٹکڑا صرف دو ہندسوں کی چمک فراہم کر سکتا تھا جو کہ ’’معیار‘‘ کے لحاظ سے جادوئی مواد سے کہیں زیادہ بدتر تھا، لیکن ’’مقدار‘‘ کے لحاظ سے اس کا ایک خوفناک نمبر تھا۔
خطرہ اور موقع ہمیشہ ساتھ ساتھ آتے ہیں۔ علی روئی نے جبران کے ساتھ ڈیل سے پہلے تولان پہاڑ جانے کا فیصلہ کیا۔ لیکن اس سے پہلے اسے نقشہ حاصل کرنا تھا،بصورت دیگر بےمقصد اڑنا صرف وقت کا ضیاع ہوگا چاہے اس کے پاس وائورنس بھی ہوں۔ علی روئی سوچ ہی رہا تھا کہ امپ نے دروازے پر دستک دی:
’’حکیم ! کیا آپ وہاں ہیں؟‘‘۔
عام حالات میں،چلبل ڈسٹرب نہیں کرتی اس لیے علی روئی نے اٹھ کر دروازہ کھولااور پوچھا:
’’کیا بات ہے،چلبل ؟‘‘۔
’’شہزادی شاہی نے کونسل ہال آپ کو بلایا ہے‘‘۔
علی روئی جانتا تھا کہ اقابلہ بغیر کسی وجہ کے ’’وراثت کے امتحان‘‘ میں رکاوٹ نہیں ڈالے گی، اس لیے کچھ ضروری ہو گی۔ اس کی روح ٹھیک نہیں ہوئی تھی اور اسے تربیت دینا مناسب نہیں تھا۔ چنانچہ وہ فوراً کونسل ہال کی طرف بھاگا۔
کونسل ہال میں اقابلہ کے علاوہ ایک خوبصورت شخصیت بھی تھی جسے علی روئی نے کافی عرصے سے نہیں دیکھا تھا۔ ٹریننگ گراؤنڈ میں گزرے وقت کو دیکھتے ہوئے کئی ماہ ہو چکے تھے۔ سچ پوچھیں تو اس نے اسے ایک طرح سے یاد کیا۔ خاص طور پر زندگی اور موت کے لمحات میں، یہ اعداد و شمار ان وجوہات میں سے ایک تھے جس نے اسے کامیابی کی طرف راغب کیا۔
’’علی روئی !‘‘۔
جانی پہچانی آواز حیرت سے گونجی۔ یہ مانوس چھوٹے جامنی بال اور سرخ آنکھیں تھیں۔ اس کے چہرے پر چمکتی ہوئی شرمندگی قدرے عجیب لگ رہی تھی۔
’’فلورا!‘‘۔
علی روئی بہت خوش تھا۔
’’کیا تم نے اعلیٰ ڈیمن کی طاقت کو پوری طرح ڈھال لیا ہے؟‘‘۔
’’جی ہاں! البتہ میں بمشکل ابتدائی ہائر ڈیمن کی سطح تک پہنچا ہوں۔ اس کے بعد یہ مشکل تر ہوتا جائے گا‘‘۔
فلورا نے زور سے سر ہلایا۔ جیسے ہی اس نے اس کی طرف دیکھا، اس کے چہرے پر اچانک تشویش چھا گئی۔
’’کیا ہوا تمہیں؟ بیمار ہو؟ ۔کوئی علاج کروایا ہے؟‘‘۔
<Deep Analysis> کے سلسلے کی وجہ سے علی روئی کی موجودہ روح کی حالت بہت خراب تھی۔فلوارا نے ایک نظر اسے دیکھا۔
’’جی ہاں۔کچھ ہوا ہے، لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مجھے چند دن کی چھٹی لینی ہے‘‘۔
فلورا کی غیر واضح تشویش کو محسوس کرتے ہوئے علی روئی کا دل گرم تھا۔ اس نے اقابلہ کو یہ کہتے ہوئے سنا:
’’مشن کےلیے تمہیں خود کو مجبور کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ تہہ دار گینگ جس کا تم نے پچھلی بار ذکر کیا تھا وہ سامراجی محافظوں کی ریزرو فورسز میں سے ایک بن گیا ہے‘‘۔
’’میں جانتا ہوں، شہزادی اقابلہ !‘‘۔
علی روئی نے محسوس کیا کہ اقابلہ کے جملے کا پہلا نصف ایک پوشیدہ تشویش ہے۔ وہ ’’وراثت کے امتحان‘‘ کے بارے میں بات کر رہی تھی۔ اگرچہ وہ فلورا کے سامنے ٹھنڈی لگ رہی تھی لیکن اس کے دل میں اب بھی گرمی تھی۔ جملے کے آخری نصف نےمنگول کے بارے میں اقابلہ کے رویے کی نشاندہی کی کہ اس نے بلاشبہ منگول پر علی روئی کے اعتماد کو تسلیم کر لیا تھا۔البتہ اگریہ فلورا اور کلوننگ گینگ کے بارے میں ہے تو اقابلہ اسے خاص طور پر کونسل ہال میں نہیں بلائے گی اس لیے وہ اقابلہ کے بولنے کا انتظار کر رہا تھا۔
’’سہ ماہی اجلاس کل صبح ہو گا۔تمہاری حاضری ضروری ہے‘‘۔
’’ملاقات؟۔ ایسا لگتا ہے کہ اشمار نے پہلے بھی اس کا ذکر کیا تھا۔ میرے لیے دو دن کا آرام بہت کم ہوتا ہے لیکن اوور ٹائم کام کرنا پڑتا ہے۔ مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ میں ملازم کے فائدے کے لیے لڑ سکتا ہوں‘‘۔
’’میں نہیں چاہتی تھی کہ تم اس میٹنگ میں شرکت کرو، لیکن یوسف اور دوسرے خاندانوں کے نمائندے تمہیں نئے سیکرٹری کے طور پر دیکھنا چاہتے ہیں۔ اس لیے انکار کرنا مشکل ہے۔ عام طور پر ایسی درخواست معقول ہوتی ہے لیکن یوسف سوچ سمجھ کر بات نہیں کرے گا۔ میٹنگ میں اس سے ہوہوشیاررہنا کہ وہ تمہاری انسانی شناخت کے ساتھ گڑبڑ کر سکتا ہے۔ اگر تم ایسا نہیں کر سکتے تو سیکریٹری کا عہدہ چھوڑ سکتے ہو‘‘۔
علی روئی کو ایک بار پھر احساس ہوا کہ یہ بری اور یوسف اچھا ہے جو پیچھے سے چالیں کھیل رہا ہے۔ اس کے ارادےبالکل اچھے نہیں تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ اسے کل کی ملاقات کے دوران بہت محتاط رہنا ہوگا۔ پھر بھی اقابلہ کے مطابق اگر وہ واقعی ایسا نہیں کر سکتا تو صرف سیکرٹری کا عہدہ چھوڑ سکتا ہے۔ اگر اسے طاقت اور دولت کی خواہش نہ ہوتی تو یوسف کو ہنگامہ کرنے کا موقع نہ ملتا۔ اقابلہ کے اس پر اعتماد کے ساتھ وہ اب بھی وہی کرے گا جو اسے کرنا ہے۔
اقابلہ نے اسے سر ہلاتے ہوئے دیکھا۔ وہ جانتی تھی کہ علی روئی کو جانتا ہے کہ اسے کیا کرنا ہے۔ اس نے اور کچھ نہیں کہا اور میز پر ایک خلائی کڑا رکھ دیا۔ بولی:
’’یہ وہ اعلیٰ وائن سٹونزہیں جو یوسف سرمانی سلطنت سے واپس لایا تھا۔شمائلہ نے مجھے بتایا کہ اس نےتمہیں اپنے6ٹکڑے دینے کا وعدہ کیا ہے۔ تو اندر کے 100 ٹکڑے اور خلائی کڑا تمہارا ہے‘‘۔
’’100ٹکڑے؟یہ 66 ٹکڑے نہیں ہونے چاہئے؟‘‘۔
چن روئل نے حیرانی سے دیکھا۔ اس نے تقریباً بوڑھے بونے کی نقل کرتے ہوئے کہا:
’’شہزادی شاہی کی سخاوت کا موازنہ دیومالائی دائرےکے دو چاندوں سے کیا جا سکتا ہے۔
وہ جانتا تھا کہ اقابلہ کو ایسی چاپلوسی سننا پسند نہیں ہے، اس لیے اس نے صرف اتنا کہا:
’’شکریہ، یور رائل ہائینس!‘‘۔
علی روئی جس کے پاس اس وقت اسٹوریج گودام تھا اس کےلیے اس خلائی کڑے کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ اس کے علاوہ اس کے پاس پہلے سے ہی سلوا کی خلائی انگوٹھی تھی۔ مزید برآں میزار ریاست کو حاصل کرنے کے بعد ذخیرہ گودام کی گنجائش بہت بڑھ گئی تھی۔ اب بہت سی جگہیں تھیں لیکن چھوٹی چیزیں۔ دیومالائی دائرےمیں خلائی آلات نسبتاً نایاب تھے۔ یہ بھی اس کے بیوٹی باس کی مہربانی تھی اس لیے اسے اسے قبول کرنا پڑا۔
اقابلہ نے ہلکا سا سر ہلایا۔ اس نے ایک نظر علی روئی پر ڈالی اور پھر فلورا کو دیکھا۔ اس نے اچانک سر جھکا کر ہاتھ میں پکڑی فائل کو دیکھا۔ اس نے اپنا سر اٹھائے بغیر کہا، "فلورا نے ابھی اپنی تربیت مکمل کی ہے، اور اس نےشمائلہ کو نہیں دیکھا۔ آپ لوگوں کو پرنسس پلازہ پر جانا چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ شمائلہ آپ دونوں کو دیکھ کر بہت خوش ہوگی۔
فلورا بھی شمائلہ سے ملنا چاہتی تھی اس لیے وہ علی روئی کے ساتھ محل سے نکل گئی۔
’’علی روئی! شہزادی اقابلہ نے تمہیں جو دو ماہ کا مشن سونپا ہے، کیسا چل رہا ہے؟‘‘۔
’’ابھی آدھا باقی ہے‘‘۔
علی روئی نےکچھ سوچا اور پوچھا:
’’ویسے، فلورا! کیا آپ کبھی تولان پہاڑ گئی ہیں؟‘‘۔
’’جی ہاں! پہلے سال جب میں نیرنگ آباد آئی تھی۔ میں ایک بار وہاں ٹریننگ کےلیے گئی تھی۔
فلورا نے سر ہلایا:
’’لیکن اس وقت ڈاکو بارودی سرنگوں میں اپنے پرپھیلائے ہوئے نہیں تھے‘‘۔
’’تو۔۔۔وائیورن پر سوار ہوکر پہنچنے میں کتنا وقت لگے گا؟‘‘۔
یہ دیکھ کر کہ آس پاس زیادہ لوگ نہیں ہیں، علی روئی نے سرگوشی کی۔
’’کیا آپ درندوں کے ساتھ لمبی پروازکی پرواز کی تربیت دینا چاہتی ہیں؟‘‘۔
فلورا کی آنکھیں چمک اٹھیں۔ علی روئی واضح طور پر سچ نہیں بتائے گا، اس لیے وہ ساتھ گیا اور پوچھا:
’’دراصل، یہ غلط خیال ہے۔ کیا آپ مجھے جواب دے سکتی ہیں؟‘‘۔
فلورا نے پلک جھپکتے ہوئے جواب دیا:
’’وائیورن کی اڑنے کی صلاحیت مضبوط ہے، لیکن اس کی ایک حد ہے۔ تمہیں راستے میں ویورن کو آرام کرانے اور کھانا کھلانے کے لیے جگہ کا انتخاب کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ تمہیں رات کو آرام کرنے کے لیے ایک محفوظ جگہ کا انتخاب کرنا ہوگا۔ اگر تم اکیلے جاتے ہو تو نقشے کے ساتھ بھی تقریباً 6 دن لگ سکتے ہیں۔
فلورا دھوکہ دینے والی نہیں۔ اس کے خوبصورت چہرے پر بے تابی کے تاثرات واضح طور پر ’’میں رہنما ہوں‘‘ کے الفاظ لکھے ہوئے تھے۔ علی روئی ہلکا سا مسکرایا لیکن وہ حساب لگا رہا تھا6دن۔ آآنے جانے کا سفر12دن کا ہو گا۔ مجھے ایک ماہ سے بھی کم وقت میں جبران سے لڑنا ہے۔ میں یقینی طور پر جلدی میں ہوں۔ مجھے اس گائیڈ کو ساتھ لانے کی ضرورت ہے یا نہیں؟۔
دونوں گفتگو کرتے کرتے پرنسس پلازہ پہنچ گئے۔ انہوں نے گاہکوں کو یکے بعد دیگرے دکان سے نکلتے دیکھااور پیچھے مڑ کر دیکھتے رہے۔ ایسا لگتا تھا کہ دکان میں کچھ ہوا ہے۔ علی روئی اور فلورا اندر گئے اور دیکھا کہ پہلی منزل پر صرف سوکیوبس اور خدمت گزار بچے رہ گئے ہیں۔سیکیورٹی کا انچارج کاگولی چلا گیا تھا۔ ایک گروپ دوسری منزل کی سیڑھیوں کے آخر میں لوگوں کو روک رہا تھا اور مقابلہ کر رہا تھا۔ دونوں جلدی سے قریب آگئے۔
’’فلورا!‘‘۔
دوسری منزل پر داخلی دروازے سے سلام نے فلورا کواکتا کر رکھ دیا اور اس کا موڈ اچانک خراب ہو گیا۔ یہ فلورا کا سب سے ناپسندیدہ شخص تھا،گارڈز کا شیرف اور جنرل ایان، کارون۔
’’فلورا اور ہمارے نئے نیرنگ آباد سکریٹری سر علی روئی کا پتہ چلا‘‘۔
مسکراہٹ کے پیچھے چھپے ہوئے خنجر کے ساتھ ایک اور آواز آئی جس سے علی روئی کو بھی بے چینی محسوس ہوئی۔ پھر بھی وہ شائستگی سے جھک گیا۔
’’سر یوسف‘‘۔
معلوم ہوا کہ جو دو فریق آمنے سامنے تھے وہ یوسف اور ایان کے آدمی تھے۔ یوسف اب بھی مسکرا رہا تھا لیکن اس کے پیچھے اشمار اور وساشا کی ایان کے مردوں سے شدید دشمنی تھی۔ اگرچہ ایان کے زیادہ ماتحت تھے۔ ان میں سے کوئی بھی اعلیٰ ڈیمن نہیں تھا۔ دھمکی کی وجہ سے وہ خوفزدہ لگ رہے تھے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ کارون فیملی کا سب سے مضبوط ہائر ڈیمن سراڈو جبران کے ساتھ لڑتے ہوئے بری طرح زخمی ہو گیا تھا اور میکال مر گیا تھا۔ ایان کے پاس محاذ کھڑا کرنے کے لیے کوئی پاور ہاؤس نہیں تھا اس لیے وہ بمشکل ڈرانے کے لیے صرف مقدار پر انحصار کر سکتا تھا۔
’’لگتا ہے سیکرٹری صاحب کی طبیعت ناساز ہے؟‘‘۔
یوسف نے علی روئی کی مایوس کن حالت کو دیکھا اور اس نے تشویش سے پوچھا۔
علی روئی جانتا تھا کہ یوسف کا ارادہ اچھا نہیں اس لیے اس نے جواب دیا:
’’می جناب کو اپنا یہ رخ دکھانے کے لیے معذرت خواہ ہوں۔ میں بچپن سے ہی کمزور جسم رکھتا ہوں۔ میں حال ہی میں شدید بیمار تھااس لیے زیادہ باہر نہیں آیا‘‘۔
یوسف نے فلورا کی طرف دیکھا اور معنی خیز انداز میں مسکراتے ہوئے بولا:
’’تو ایسا ہی ہے۔ تعجب کی بات نہیں کہ ہماری عظیم ڈیمن ریس کی باصلاحیت لڑکی نے بھی اپنی شکل نہیں دکھائی‘‘۔
علی روئی کا خون کھول اٹھا، لیکن خود پر کنٹرول کیا۔ اس کو اس طرح کے جملوں کی عادت ہوگئی۔ اس لیےاس نے پرواہ نہیں کی۔
’’فلورا! کیا تمہاری تربیت ختم ہو گئی ہے؟‘‘
شمائلہ کی حیرت زدہ آواز نے سب کو اپنی طرف متوجہ کیا۔
بیسواں باب
احتیاط زدہ خیال
احتیاط اتفاق کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی
یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ شمائلہ نے یہ جان بوجھ کر کہا یا نہیں لیکن اس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ فلورا نے تربیت کے لیے خود کو بند کر رکھا ہے۔ اس کا غصہ ہلکا ہوا اور وہ مسلسل یوسف کو گھورتا رہا۔
فلورا نے اپنی دوست شمائلہ کو دیکھا جسےکافی دیر بعد ملی تھی، مسکرائی اور کہا:
’’شمائلہ!‘‘۔
’’علی روئی بھی یہاں ہے! ادھر آؤ‘‘۔
شمائلہ نے علی روئی اور فلورا کے ہاتھ پکڑے اور انہیں یوسف اور ایان کے سامنے دوسری منزل پر کھینچ کر لے گئی۔
کاگولی، کِیااور دیگر سب وہیں تھے۔ چند گاہک بھی تھے جن میں سے ایک زخمی بھی ہوا۔ ایسا لگتا تھا کہ گاہک وہاں سے نکلنے کی ہمت نہیں کر رہے ہیں کیونکہ یوسف اور ایان سیڑھیاں روک رہے تھے۔ شمائلہ زخمیوں کو چیک کر رہی تھی تو اس نے فلورا اور علی روئی کو نہیں دیکھ پائی۔
شمائلہ سے علی روئی کا پوچھنے کے بعد معلوم ہوا کہ یوسف اور ایان کے درمیان جھگڑا گرینڈ حکیم کے کام ’’برر پزل‘‘ کے لیے تھا۔ اگر کل رات تنازعہ نہ ہوتا تو دونوں فریق جو اصل میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کر رہے تھےان میں اتنی کشیدگی نہ ہوتی۔
سلطنت کے ریجنٹ شہزادہ شوالہ کی سالگرہ جلد آنے والی تھی۔ ایان گفٹ کے طور پر برر پزل خریدنا چاہتا تھا اور اسے دارالحکومت میں اپنے والد کے ذریعے شہزادہ شوالہ کو پیش کرنا چاہتا تھا۔ اتفاق سے یوسف پرنسس پلازہ پر آگیا۔ ایان کے ارادے جاننے کے بعد اس نے دوگنا قیمت کے ساتھ برر پزل خریدنے کی پیشکش کی۔ ایان کوپہلے ہی اشمار اور جبران سے نفرت کرہو گئی تھی جنہوں نے میکال کو مار ڈالااور اس کی حویلی میں لڑنے آ گئے۔ اب جب کہ یوسف نیرنگ آباد پر واپس آ گیا، نہ صرف اس نے مفاہمت کی شروعات نہیں کی بلکہ اشتعال انگیزی کر کے برر پزل کے لیے فساد برپا کیا۔ ایان بے حد غصے میں تھا۔ اگر اسے طاقت کی کمی کا مسئلہ نہ ہوتا تواس سے لڑ پڑتا۔
’’یوسف! کیا تم اتنے امیر ہو؟۔تم نے اپنے بھائی کنیتا کے ساتھ لڑائی کےلیے اتنی چھوٹی رقم رکھی‘‘۔
ایان نے اپنی دشمنی دوبارہ یوسف کی طرف موڑ دی۔
’’میں 3 گنا قیمت ادا کروں گا! یہ برر پہلی میری ہوئی‘‘۔
برر پزل کی اصل قیمت 50,000 سیاہ کرسٹل سکے ہیں۔3 گنا قیمت 150,000 ہے۔ یہ بہت بڑی رقم ہے تھی۔
دیومالائی دائرہ کا راج عام طور پر سب سے زیادہ بولی لگانے والاجیتتا تھا۔شمائلہ نے علی روئی اور فلورا کو سلام کرنے کی زحمت گوارا نہیں کی۔ اس کی بڑی بڑی آنکھیں سیاہ کرسٹل سکوں سے چمک رہی تھیں۔ اس نے پوچھا:
’’یہ گڑ کی پہیلی۔۔۔۔یوسف! ، کیا تم اس کی قیمت بڑھانا چاہو گے؟‘‘۔
’’200000‘‘۔
یوسف کی نظر میں ایان نے جان بوجھ کر کنیتا کا نام لیا اور اس کی آنکھیں ٹھنڈی روشنی سے چمک اٹھیں۔ ایان بولنے ہی والاتھا کہ اس کے پہلو میں موجود لیچ نے سرگوشی کی:
’’جناب! ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں‘‘۔
یوسف کی مسکراہٹ دیکھ کر ایان اور بھی غصے میں آگیا۔ اس نے کچھ سوچا اور طنز کرتے ہوئے کچھ چیزیں نکالیں۔
’’میں اتنے پیسے نہیں لایا، لیکن یہ جادوئی سازوسامان سب سے اعلیٰ معیار کے ہیں۔ اگرننھی شہزادی چاہے تو انہیں سیاہ کرسٹل سکوں میں تبدیل کر سکتی ہیں۔ میرے پاس ابھی بھی بہت سے ایسے آلات ہیں جنہیں میں رعایت کے ساتھ یور رائل ہائینس کے لیے تبدیل کر سکتا ہوں‘‘۔
اشمار جو یوسف کے پیچھے تھا جادو کے سامان کو دیکھ کر بولا:۔
’’اس کا قاتلانہ ارادہ چھلک رہا تھا‘‘۔
یوسف نے اپنی پیشانی اوپر اٹھائی۔وہ جانتا تھا کہ یقینی طور پر اس کے جادوئی اسٹور کی یہ گمشدہ اشیا ہیں۔ ایان کا رویہ بلاشبہ اشتعال انگیز تھا۔ دونوں فریق غصے سے ایک دوسرے کو گھور رہے تھے۔ البتہ یوسف ناراض نہیں تھا۔ اس نے مڑ کر اشمار کے کندھے پر تھپکی دی۔ اشمار نے گہرا سانس لیا۔ علی روئی نے اپنے ذہن میں اشمار کی اچھی اداکاری کی مہارت کی تعریف کی۔شمائلہ نے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا۔ وہ اپنا ذہن نہ بنا سکی اور مشاورت کےلیے علی روئی کی طرف متوجہ ہوئی۔ علی روئی اتنے سارے لوگوں کے سامنے اپنی رائے نہیں دے سکتا تھا۔ اس لیے اس کی نظر دوسری منزل کے بیچ میں ایک تختی پر پڑی۔ تختی پر علی روئی کے خیال کے مطابق ایک لفظ کندہ تھا۔’’سالمیت‘‘۔
شمائلہ بہت ہوشیار تھی۔ اس کی نظروں کی سمت دیکھتے ہوئے وہ اچانک سمجھ گئی۔ وہ دل ہی دل میں چلا رہی تھی اور کسی کشمکش میں تھی۔ آخرکار وہ بولی:
’’میں یہ سب نہیں چاہتی‘‘۔
ایان کا چہرہ یک دم بدل گیا، پھر اس نےشمائلہ کو یہ کہتے سنا:
’’پرنسس پلازہ کا نعرہ سالمیت ہے اور اس میں ہمارے تمام صارفین شامل ہیں۔ ایان آج یوسف سے پہلے آیا، لہذا برر پزل ایان کو اصل قیمت، 50,000 سیاہ کرسٹل سکے پر فروخت کیا جائے گا۔ البتہ ایان میرے گاہک کو زخمی کر چکے ہیں، لہذا اس کے علاج کا خرچ وہی برداشت کرے گا۔ آپ لوگوںکی کوئی رائے ہے؟‘‘۔
’’میری کوئی رائے نہیں ہے‘‘۔
ایان بہت خوش ہوا اور جلدی سے زخمی کو مٹھی بھر سیاہ کرسٹل سکے دے دیے۔
’’میں شکر گزار ہوں! پرنسس پلازہ واقعی شہر کا بہترین اسٹور ہے۔ کسی آدمی کے اسٹور سے کہیں زیادہ مضبوط‘‘۔
شمائلہ نے کاگولی کو اشارہ کیا کہ اور مایا کو ایان کے 50,000 سیاہ کرسٹل سکے گننے کےلیے دے۔ اس نے جادوئی تحفظ کو ہٹا دیا اور ایان کو ایک نازک پیکنگ کے ساتھ برر پزل دیا۔ ایان نے احتیاط سے باکس کھولااور برر پزل کے پریمیم ورژن کو ایسے دیکھا جیسے اسے کوئی قیمتی خزانہ مل گیا ہو۔ اس نے جلدی سے اسے اپنی خلائی انگوٹھی میں رکھا۔ ایان کی شکل دیکھ کرشمائلہ کو ’’گرینڈ حکیم کے کاموں‘‘ کے کئی ٹکڑے یاد آئے جو اس کے کمرے میں گندگی سے ڈھیر ہو گئے تھے۔ وہ چپکے سے ہنس رہی تھی۔ اس بار اس نے کم از کم 150,000 کم سیاہ کرسٹل سکے کھو دیے تھے اور اس کے بارے میں سوچنا بہت تلخ تھا۔
یوسف نے ایان کی اشتعال انگیز نظروں کو نظر انداز کرتے ہوئے لفظ سالمیت کی طرف دیکھا۔ اگرچہ شمائلہ اور علی روئی کے درمیان آنکھوں آنکھوں کا رابطہ چوری تھا لیکن یوسف سے چھپ نہیں سکا۔ علی روئی پر گہری نظر ڈالنے کے بعد یوسف شمائلہ کو عجیب نظروں سے دیکھا اور اشمار اور واشاشا کے ساتھ پرنسس پلازہ سے نکل گیا۔
یوسف کو جاتے دیکھ کر ایان کو ظاہری طور پر خوشی ہوئی۔ اس نے خوشی سےشمائلہ کا شکریہ ادا کیا اورچلا گیا۔ ان کے جانے کے بعد علی روئی آیا اورشمائلہ سے کوئی بات کہی۔ شمائلہ فوراً زخمی شخص کو دیکھنے چلی گئی۔ وہ چھوٹے سے خاندان کا فرد تھا۔ وہ معمولی زخمی تھا اور معاوضہ دینے کی ضرورت نہیں تھی۔ننھی شہزادی کے اس طرح توجہ دینے پر وہ اس کا ممنون دکھائی دے رہا تھا۔شمائلہ نے مسکرا کر کہا:
’’ آج جو کچھ بھی یہاں ہوا مجھے اس کا افسوس ہے۔ لیکن سب نے دیکھا کہ پرنسس پلازہ لفظ سالمیت پر خاص توجہ دیتا ہے۔ مستقبل میں، اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ ہمارے پاس کون آتا ہےمجھے امید ہے کہ ہر کوئی آسانی سے خریداری کر سکے گا‘‘۔
’’چھوٹی شہزادی واقعی حیرت انگیز ہے‘‘۔
شمائلہ کی باتوں اور مسکراہٹوں نے سب کو متاثر کیا۔ اشمار نے جذبات سے کہا:
’’میں اس بارے میں سب کو بتاؤں گا تاکہ پرنسس پلازہ کی ساکھ پورے نیرنگ آباد میں معلوم ہو جائے گی‘‘۔
گاہکوں کے خریداری ختم ہونے اور نا چاہتے ہوئے چلے جانے کے بعد ’’دیانتداری‘‘ کے ساتھ مسکراتی ننھی شہزادی کا موڈ اچانک بدل گیا۔ وہ غصے سے چھلانگ لگا کر واپس علی روئی پر سوار ہو کر اس کی گردن دبانے لگی۔
’’یہ 150,000 سیاہ کرسٹل سکے ہیں! 150,000! واؤ۔۔۔۔ کیوں علی روئی ! مجھے بتاؤ، ورنہ آج تمہیں مار ڈالوں گی‘‘۔
علی روئی دم گھٹنے کی وجہ سے سانس نہیں لے پا رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ پیسے کے اثر میں’’کنجوس کا ہالہ‘‘ والی ننھی شہزادی میکال کے درجے پر پہنچ گئی ہے۔ فلورا اورمایا نے اسے دیکھا اوراسے چھڑایا۔ ننھی شہزادی نے غصے سے بھری نظروں سے اسے کہا:
’’تمہیں یاد ہے، میں نے کیا کہا تھا جب میں نے تمہیں وہ تختی تراشنے کےلیے مجبور کیا تھا‘‘۔
شمائلہ نے کچھ سوچا اور جواب دیا:
’’ایسا لگتا ہے کہ ’’سالمیت ‘‘تمام حکمت عملیوں سے زیادہ ہے‘‘۔
’’اگر آپ چاہتے ہیں کہ پرنسس پلازہ واقعی طویل عرصے تک ترقی کرے اور اس سے بھی زیادہ چین اسٹورز کھولے تو آپ کو یہ جملہ یاد رکھنا چاہیے‘‘۔
علی روئی نے دیکھا کہ شمائلہ اب بھی ایسے لگ رہی ہے جیسے وہ سمجھ نہیں پائی۔
’’میں تمہیں ایک کہانی سناتا ہوں۔ ایک بار، ایک گریٹ ڈیمن بادشاہ تھا جسے یان سلطنت کا کنگ زاؤ کہا جاتا تھا۔ اس نے ایک بار نایاب گھوڑی خریدنے کے لیے ایک ملین کالے کرسٹل سکے خرچ کیے تھے‘‘۔
جب علی روئی نے ’’یان سلطنت کے بادشاہ ژاؤ کا ملین گولڈ کے ساتھ نایاب گھوڑی خریدی‘‘ دیومالائی دائرے کا ترمیم شدہ ورژن مایا اور فلورا کو ایسا لگا جیسے وہ پوری طرح سے سمجھ نہیں پائیں، لیکن ہوشیار شمائلہ پہلے ہی اس کا مطلب سمجھ چکی تھی۔ ایک اور مطلب بھی تھا جو علی روئی مایا اور کاگولی کے سامنے نہیں بتا سکتا تھا۔ جادو کی دکان کے بوٹیز پریشان کن تھے۔ ایان کے ہاتھ میں رہنا شیر کو بھیڑیے کو نگلنے کی حکمت عملی کے لیے زیادہ سازگار تھا۔ آج ایان کے دکھاوے نے حقیقت میں دونوں جماعتوں کے درمیان تعلقات کو مزید خراب کر دیا تھا۔ البتہ یوسف نے گرینڈ حکیم کے کام کے لیے ایان سے مقابلہ کیوں کیا؟ ۔کیا اس وقت مفاہمت کی سب سے زیادہ ضرورت نہیں تھی؟۔
’’میں ہمیشہ سے جانتی ہوں کہ بھائی علی روئی بہت طاقتور ہے‘‘۔
ننھی شہزادی کو سمجھ آئی تو اس کا چہرے کے تاثرات بدل گئے۔ وہ اپنی بڑی بڑی آنکھیں جھپک رہی تھی اوراس کی نظروں میں ایک مقتل سج گیا:
’’چلو پھر سے نیلی جھیل پکنک پر چلتے ہیں‘‘۔
’’نہیں۔ میری طبیعت پچھلے دو دنوں سے ٹھیک نہیں ہے، اس لیے میں زیادہ سفر نہیں کر سکتا‘‘۔
علی روئی نے جھنجلا کر جواب دیا۔
’’تم مجھ سے مذاق کر رہے ہو؟ پکنک پر جا رہے ہیں۔ میں ایک اور شاندار چھڑی تیار کرتی ہوں اور کچھ۔۔۔۔۔۔۔کتابیں‘‘۔
’’واقعی؟‘‘۔
شمائلہ مایوس نظر آئی۔
’’میں اس اسٹور میں بور ہو جاتی ہوں۔ یہ غیر آرام دہ ہے۔ فلورا! تینوں شہر میں ٹہلیں‘‘۔
’’ٹھیک ہے!‘‘۔
فلورا فوراً راضی ہو گئی۔
علی روئی نے سنا کہ وہ ان کے ساتھ ٹہلنے جا رہے ، مجبوراً انکار نہیں کر سکا۔شمائلہ نے کچھ دیر سوچا اور کہا:
’’نیچے میرا انتظار کرو۔ اورمایا اور کاگولی! تم بھی نیچے چلو، مجھے فلورا سے اکیلے میں کچھ کہنا ہے۔
تینوں جب نیچے پہنچے تو شمائلہ کی نظر فلورا کی تیار شدہ چھاتیوں پر پڑی۔ اس نے لاشعوری طور پر اس کا اپنے سے موازنہ کیا۔ اس نے کچھ دباؤ محسوس کیا۔
’’کیا ہم اچھے دوست ہیں؟‘‘۔
فلورا ننھی شہزادی کی بات سمجھ نہیں پائی، اس لیے اس نے سر ہلایا اور کہا:
یقیناً۔تم میری سب سے اچھی دوست ہو‘‘۔
’’علی روئی کا کیا ہوگا؟‘‘۔
فلورا کا چہرہ تھوڑا گرم تھا۔
’’وہ۔۔۔ ایک اچھا دوست ہے‘‘۔
فلورا کے چہرے پر چھائی ہوئی شرم شمائلہ سے چھپ نہیں سکتی تھی۔ ننھی شہزادی کا پتلا جسم ہلکا سا لرز اٹھا اور اس کا ظالم رویہ سامنے آیا۔
’’فلورا! کچھ ایسا ہے جسے میں تمہیں نہیں دوں گی،چاہے ہم اچھے دوست بھی ہیں‘‘۔
’’وہ کیا ہے؟‘۔
فلورا پریشان نظر آئی۔
’’مثال کے طور پر۔۔۔وہ۔۔۔‘‘۔
شمائلہ نے اچانک اپنا رویہ بدلااور سر نیچے کر لیا۔ اس نے آہستہ سے شہادت کی دونوں انگلیاں کو ایک ساتھ رکھا اور بڑبڑائی:
’’ایک شخص ہے۔۔۔نہیں! ایک چیز ہے جو تم اور میں دونوں کھانا پسند کرتی ہیں‘‘۔
’’یہ تو بہت آسان ہے‘‘۔
فلورا نے بغیر سوچے سمجھے کہا:
’’چھری سے آدھا کاٹ لیں اور دونوں آدھا آدھا لے لیں گی‘‘۔
شمائلہ پریشان لگ رہی تھی۔ جب اس نے یہ جملہ سنا تو اس کی آنکھوں میں عجیب سی چمک پیدا ہوئی:
’’کاٹ دو؟‘‘۔
’’آچھو‘‘۔
علی روئی جو نیچے تھا اسے بے ساختہ چھینک آئی۔ مایا کی تڑپتی ہوئی نظر دیکھ کر وہ معذرت کے ساتھ مسکرایا۔
’’اگر تم اسے کاٹ نہ کاٹ سکو تو؟‘‘۔
ننھی شہزادی نے ایک لمحے کے لیے سوچا اور جھاڑی کے گرد چکر لگایا۔
’’دراصل، مجھے نہیں معلوم کہ وہ چیز واقعی کھانا پسند کرتی ہوں یا نہیں۔۔یہ چیز مجھے تھوڑا عجیب لگتی ہے۔۔۔ تھوڑا سا کھانا چاہتی ہوں‘‘۔
’’میں سمجھ نہیں پارہی تم کیا کہہ رہے ہو‘‘۔
فلورا نے ایک لمحے کے لیے سوچا اور جواب دیا:
’’اگر یہ ایسی چیز ہے جسے واقعی نہیں کاٹا جا سکتا تو ہم مل کر اس وقت تک کاٹیں گی جب تک کہ یہ ختم نہ ہو جائے۔ ہم اچھے دوست ہیں تو کیا ہمیں اچھی چیزیں نہیں بانٹنی چاہیے؟‘‘۔
’’واقعی؟۔مل کر کاٹا جا سکتا ہے؟‘‘۔
ننھی شہزادی کی بڑی بڑی آنکھیں چمک اٹھیں جیسے اس نے کوئی اہم مسئلہ حل کر لیا ہو۔ وہ خوشی سے بولی:
’’میں نہیں جانتی۔۔۔۔ لیکن فلورا! تم واقعی میری بہترین دوست ہو!‘‘۔
’’میں ہمیشہ سے نہیں تھی؟‘‘۔
بے خبر فلورا کو ابھی تک یہ احساس نہیں ہوا تھا کہ شمائلہ ایک دم ہچکچا رہی تھی اور بعد میں خوش کیوں تھی۔
’’چلو!‘‘۔
شمائلہ نے پلک جھپکتے ہی اپنی مضبوط قوت دوبارہ حاصل کی اور فلورا کا ہاتھ پکڑ کر سیڑھیوں سے نیچے اتر گئی۔
یوسف چہرے پر مسکراہٹ لیے سڑک پر دھیرے دھیرے چل پڑا۔ اس کی آنکھیں اداسی سے بھری ہوئی تھیں۔ جب سے پرنسس پلازہ سے باہر آیا تھا وہ ایسا ہی تھا۔ جب وہ ایک الگ تھلگ گلی سے گزر رہا تھا تو اس کے قدم رک گئے اور اس نے مضبوطی سے کہا:
’’اس انسان کو مرنا چاہیے‘‘۔
اشمار نے یہ سنتے ہی حیرت سے پوچھا:
’’جناب! وہ ایک بیکار انسان کے سوا کچھ نہیں ہے۔ کیوں۔۔۔‘‘۔
یوسف نے باوقار نظروں سے کہا:
’’میں نے ابھی پرنسس پلازہ میں بہت سی چیزیں دیکھی ہیں۔ نہ صرف سامان بلکہ کچھ پوشیدہ عجائبات بھی۔ یہ چیزیں حیرت انگیز اختراعات ہیں۔ یہ ڈیمن کے دائرے کے باہر سے آنے کا امکان ہے۔ سطحی دنیا سے انسان سب سے بڑا مشتبہ ہے۔ میں نے ایان کے ساتھ ابھی بولی لگائی تھی اسے سبق سکھانے کے لیے نہیں بلکہ قیمت بڑھانے کے لیے۔ میںبرر پہیلی خرید کر اسے دے دوں گا تاکہ ننھی شہزادی اور ایان دونوں کو بیک وقت خوش کر سکوں۔ میں ایان کی شخصیت کو اچھی طرح جانتا ہوں‘‘۔
یوسف کا چہرہ اداس ہو گیا:
’’کبھی سوچا بھی تھا کہ انسان واقعی میرے ارادوں کو بھانپ کر ننھی شہزادی کو اشارہ کرے گا۔ اسی لیے ننھی شہزادی نے ایسا کیا۔ اس سے کارون فیملی کے ساتھ ہمارے تعلقات مزید خراب ہو جائیں گے۔ اگر اسے جلد از جلد حل نہیں کیا گیا تو کنیتا اس کا فائدہ اٹھا سکتا ہے‘‘۔
’’کیا یہ انسان واقعی اتنا طاقتور ہے؟ اس نے واقعی نھی شہزادی کے فیصلے کو متاثر کیا؟‘‘۔
اشمار کو اچانک احساس ہوا۔ اس کو اپنے مالک کی بالکل سمجھ نہیں آ رہی تھی۔
’’اگر میرا اندازہ صحیح ہے تو پرنسس پلازہ کے پیچھے علی روئی ہے۔ پرنسس پلازہ کے خوشحالی کی وجہ انسان ہے۔ اس لیےشمائلہ اس کی بات سنتی ہے اور اس کے تمام ارادوں کو سمجھتی ہے‘‘۔
یہ کہتے ہوئے یوسف کی آنکھیں ناقابلِ بیان طور پر قاتلانہ ارادے سے بھر آئیں:
’’جب سے یہ انسان نیرنگ آباد سٹی میں آیا ہے، تبدیلیوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا ہے، چاہے وہ حکیم چیلنج ہو، اسکائی بیٹل ہو یا پرنسس پلازہ۔ اس کے متاثر کن ٹیلنٹ چاہے وہ بیکار ہی کیوں نہ ہو شہزادی اقابلہ کی خوش قسمتی لاسکتا ہے، مجھے اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کا راستہ تلاش کرنا ہوگا‘‘۔
علی روئی نے یہ سنا تو کیا سوچے گا۔ علی روئی نے یوسف کے ارادوں کو پوری طرح محسوس نہیں کیا۔ یوسف کے ذہن میں بھی نہیں تھا کہ ایان جیسا شخص مقابلہ کر سکتا تھا۔ اس نے پہلے ہی یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ پرنسس پلازہ کے پیچھے علی روئی کا ہاتھ تھا۔ اس نے اسے حکیم چیلنج اور اسکائی بیٹل، اور یہاں تک کہ نام نہاد ’’قسمت نظریہ‘‘ کے عنصر سے بھی جوڑا۔
’’جناب یہ بات مجھ پر چھوڑ دیں‘‘۔
اشمار نے درخواست کرنے کے لہجے میں کہا۔
اگرچہ یوسف متاثر کن ذہانت کا حامل تھا، اس نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ اس کا طاقتور ماتحت اس انسان کا خادم بن گیا ہے۔ علی روئی کو قتل کرنے کی یہ درخواست خفیہ طور پر ’’دشمن‘‘ کو فرار ہونے کے سواکچھ نہیں تھا ۔
’’اشمار! میں جانتا ہوں کہ جادو کی دکان کا واقعہ ابھی تک تم کو پریشان کر رہا ہے اورتم اس کی تلافی کرنا چاہتے ہو۔ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ اس کے لیےتمہاری کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ یہ سب اس بیوقوف ایان کی وجہ سے ہوا ہے‘‘۔
یوسف نے وساشا کی طرف دیکھا جس کا اشمار کے سامنے کوئی تاثر نہیں تھا اور ہلکا سا مسکرایا:
’’ جہاں تک علی روئی کا تعلق ہے، میرے پاس پہلے سے ہی ایک منصوبہ ہے۔ اس انسان کو قتل کرنا بہت آسان ہے۔ مجھے اس کی موت زیادہ قیمتی نظر آتی ہے۔ شہزادی اقابلہ ، فی الحال میرے اور ایان کے درمیان شو کی طرف دیکھ رہی ہے۔ اگر ایسا ہے تو میں اسے تھوڑی دیر پریشان کروں گا‘‘۔
’’سمجھ گیا‘‘۔
اشمار نے ہلکا سا جھکایا۔ اس کی جھکی ہوئی آنکھوں میں ہلکی سی چمک تھی۔
اگلی صبح سہ ماہی اجلاس شروع ہوا۔ باقاعدہ اجلاس میں بہت سے لوگ شریک تھے۔ علی روئی صرف یوسف اور ایان کو جانتا تھا۔ باقی جیسے کہ سیفول خاندان کے سرپرست فورڈ، میلن خاندان کے سرپرست کارل اور دیگر چھوٹے اور درمیانے درجے کے خاندان کے نمائندے تھے جو دستاویز میں دیکھے جا سکتے تھے۔
علی روئی نے خاموشی سے <Analytical Eyes> کو چالو کیا اور سب کی طاقت کو دیکھا۔
خاتون باس اقابلہ : ریس: پرائیڈ رائل فیملی؛ طاقت کی درجہ بندی: فیصلہ کرنے کے قابل نہیں
بٹلر اولڈ غوث : ریس: لیچ:طاقت کی درجہ بندی: D.
گندی:اچھا یوسف : ریس: گریٹ ڈیمن؛ طاقت کی درجہ بندی: C.
کنگ آف تھریش ٹاک، ایان – ریس: گریٹ ڈیمن؛ طاقت کی درجہ بندی: E.
سیفول فیملی پیٹریارک، فورڈ ریس: گریٹ ڈیمن؛ طاقت کی درجہ بندی: D.
میلن فیملی پیٹریارک، کارل – ریس گریٹ ڈیمن؛ طاقت کی درجہ بندی: D.
علی روئی کی ذاتی طاقت D تک پہنچ گئی تھی۔ <Analytical Eyes> استعمال کرتے ہوئے یوسف کی طاقت کی درجہ بندی اب ’’جج کرنے کے قابل نہیں رہی لیکن اسے C کے طور پر ظاہر کیا گیا تھا۔ جبکہ اقابلہ کی طاقت اب بھی ’’جج کرنے کے قابل نہیں‘‘ تھی۔ علی روئی <Analytical Eyes> استعمال کرنے میں کافی ماہر تھا۔ وہ جانتا تھا کہ یہ مہارت خود سے اونچے درجے کا تجزیہ کر سکتی ہے۔ اس لیے اس سے اوپر کی کوئی بھی چیز ’’جج کرنے کے قابل نہیں‘‘ کے طور پر دکھائی جائے گی۔
موجود سب سے مضبوط اقابلہ ہے، اس کے بعد یوسف ہے، جو ڈیمن کنگ کے درجے تک پہنچ چکا ہوگا۔ بدترین ایان اور کئی چھوٹے خاندانوں کے نمائندے ہیں۔ جیسا کہ اقابلہ نے کہا، ایان کو واقعی اب ختم نہیں کیا جانا چاہیے۔ اگر نہیں تو ہمیں ایسا شیرف کہاں سے ملے گا جو جسمانی اور علمی طور پر کمزور ہو؟۔
’’پرائڈ رائل فیملی‘‘ کے بارے میں اقابلہ کے تجزیہ نے علی روئی کو تھوڑا متجسس بنا دیا۔ مجھے یاد ہے فلورا نے ایک بار ذکر کیا تھا کہ دیومالائی دائرے میں اس وقت تین شاہی سلطنتیں ہیں، یعنی تومانی سلطنت جو ’’غرور‘‘ کی نمائندگی کرتی ہے، لہووانی سلطنت جو ’’لالچ‘‘ کی نمائندگی کرتی ہے اور خاقانی سلطنت جو ’’ہوس‘‘ کی نمائندگی کرتی ہے۔دیومالائی دائرےکے عروج کے زمانے میں سات عظیم سلطنتیں تھیں۔ قدرتی انتخاب کے پچھلے لاکھوں سالوں میں صرف تین شاہی خاندان رہ گئے ہیں۔ باقی چار شاہی خاندان یا تو دوسروں پر منحصر تھے یا غائب ہو چکے ہیں۔ غرور، لالچ اور ہوس کافی جانی پہچانی لگتی ہے۔
اقابلہ کی عمر صرف 23 سال ہے۔ اس کی طاقت کم از کم عظیم ڈیمن کنگ ہے کیونکہ یہ ’’جج کرنے سے قاصر‘‘ ہے۔ اس نے تربیت کیسے لی؟۔ کیا اس کے پاس بھی سپرسسٹم ہے؟۔ بوڑھا غوث ایک لیچ ہے۔ لیچ کے لیے معمول کی اوپری حد انٹرمیڈیٹ ڈیمن ہے جو کہ E ہے۔ اب اسے D کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ تبدیل شدہ خون کی لکیر کے ساتھ ایک اور ہے۔
علی روئی دیکھ رہا تھا تبھی ایک تشویش کی آواز آئی:
’’سیکرٹری صاحب! میں نے سنا ہے کہ آپ کی طبیعت کچھ دیر پہلے خراب تھی۔ کیا اب بہتر ہے؟‘‘۔
اس آواز نے علی روئی کو بے سکون کر دیا کیونکہ یہ یوسف کی تھی۔ یہ سوال اس نے کل ہی پوچھا تھا اور آج پھر دہرا رہا ہے۔ شاید اس کی نیت بری تھی۔
’’سر یوسف !میری فکر کا شکریہ‘‘۔
علی روئی نے اٹھتے ہوئے جھک کر کہا:
’’دراصل، میں اپنے جسم کو بہت کمزور ہونے کا ذمہ دار ٹھہراتا ہوں۔ میں کچھ عرصے سے بیمار ہوں اور ابھی تک ٹھیک نہیں ہوا ‘‘۔
ساتھ بیٹھے ایان کے چہرے پر حقارت واضح تھی۔
’’کمزور انسان۔ وہ اتنے عرصے سے ڈیمن کے دائرے میں نہیں رہا۔ پہلے ہی اسے برداشت نہیں کر سکتا اور بیمار ہو گیا۔ بہتر ہے کہ وہ بیماری سے مر جائے‘‘۔
’’اپنے جسم کا خیال رکھیں‘‘۔
یوسف نے معنی خیز انداز میں سر ہلایا:
’’ورنہ شہزادی شاہی مستقبل میں آپ کو مزید اہم کام سونپنے کی یقین دہانی کیسے کر سکتی ہے۔ میں نے ہمیشہ آپ کے حق میں بہت سوچا ہے‘‘۔
علی روئی نے جواب دیا:
’’آپ کو کون نہیں جانتا؟ آگے سے بھائی کو چلانا، لیکن پیچھے سے اپنی چھری کو تیز کرنا‘‘۔
اسی لمحے اقابلہ بولی:
’’ٹھیک ہے۔ گپ شپ کے ساتھ کافی بھی انجوائے کریں۔ آئیں شروع کریں‘‘۔
سہ ماہی میٹنگ بنیادی طور پر موجودہ سہ ماہی کی صورت حال کا خلاصہ اور اگلی سہ ماہی کے کاموں کے لیے کوئی مناسب انتظام کرنا تھا۔ شروع میں خلاصہ اہم واقعات کی رپورٹنگ کے علاوہ کچھ نہیں تھا جو بنیادی طور پر لاگ بک پر مبنی تھا جس کے لئے علی روئی ذمہ دار تھا۔ اقابلہ نے سمری ختم کرنے کے بعد یوسف نے قیادت سنبھالنے کےلیے کھڑا ہوا جب اقابلہ نے اگلے کوارٹر کے انتظامات کے بارے میں پوچھا:
’’میں نے پچھلی بار اسکائی بیٹل سےننھی شہزادی سے بیل کے100 پتھر کھو دیے تھے۔ چونکہ مجھے وائن سٹونز کو اکٹھا کرنے کے لیے وقت درکار تھا اور سرمانی سلطنت میں میرا کچھ ذاتی معاملہ تھا، میں نے پچھلے مہینے ایک لمبی چھٹی لی تھی۔ اس باقاعدہ میٹنگ میں شرکت کے بعد میں شہزادی اقابلہ سے کم از کم دو ماہ کی چھٹی کی درخواست بھی کرنا چاہتا ہوں۔ معاملات طے کرنے کے بعد نیرنگ آباد کی خدمت میں واپس آؤں گا۔ مجھے امید ہے کہ آپ کی شاہی عظمت سمجھ سکتی ہے‘‘۔
اقابلہ نے ہلکا سا سر ہلایا۔ درحقیقت سب جانتے تھے کہ چھٹی لینا محض ایک رسم ہے۔ شہزادی اقابلہ فنانشل آفیسر کے لیے بے چین تھی کہ جتنا لمبا باہر جانا بہتر ہے۔ بہتر ہو گا کہ وہ واپس نہ آئے۔
’’شکریہ آپ کی شاہی عظمت کا۔ براہ کرم یقین دہانی کرائیں کہ میں اپنی چھٹی لینے سے پہلے تمام کام ہاتھ میں کر لوں گا‘‘۔
یوسف نے مسکرا کر کہا۔
پھر اس نے علی روئی کی طرف دیکھا جو ریکارڈنگ کر رہا تھا اور کہا:
’’اس بار نیرنگ آباد واپس آنے پر مجھے پتہ چلا کہ شہزادی اقابلہ کی ایک سیکرٹری ہے جس کے ارد گرد علی روئی نکلی جو حکیم چیلنج میں نمایاں تھی اور فضائی جنگ۔ دراصل میں نے ہمیشہ سوچا ہے کہ علی روئی بہت باصلاحیت ہے۔ شہزادی اقابلہ باصلاحیت لوگوں کو تلاش کرنے میں واقعی بہترین ہے‘‘۔
جیسا کہ یوسف نے کہا، سب کی نظریں اس ننھے سیکرٹری پر تھیں۔ علی روئی جانتا تھا کہ اس آدمی کا یقیناً کوئی نیک ارادہ نہیں ہے۔ اس لیے وہ چوکنا تھا۔ یہاں تک کہ ایان ایک سادہ لوح آدمی نے بھی سمجھا کہ یوسف کا علی روئی کی اس طرح تعریف کرنے کا کوئی منصوبہ ہے۔
یوسف نے اپنا سر ہلایا اور کہا:
’’ملکۂ عالیہ! بدتمیزی کی معافی چاہتا ہوں۔دراصل میری رائے میں ان کا سیکرٹری ہونا حد سے زیادہ کام ہے۔ علی روئی حکیم الداس کا شاگرد ہے اور فارماسیوٹکس میں ماہر ہے۔ اس کے علاوہ وہ باہمت ہے لیکن محتاط ہے۔ مجھے یقین ہے کہ جنہوں نے حکیم چیلنج اور اسکائی بیٹل دیکھا ہے وہ سمجھ جائیں گے۔ میرا ارادہ ہے کہ علی روئی کو مزید اہم کام کرنے کی سفارش کروں۔ آپ کا کیا خیال ہے، شہزادی اقابلہ ؟‘‘۔
اقابلہ کو پہلے سے ہی توقع تھی کہ یوسف علی روئی پر حملہ کرے گا۔ اس نے سوچا کہ یہ امتیازی سلوک ہو سکتا ہے۔ لیکن اسے امید نہیں تھی کہ یہ سفارش ہو گی۔ اس نے جھک کر کہا:
’’آپ علی روئی کو کیا کرنے کا مشورہ دینا چاہتے ہیں؟‘‘۔
یوسف نے مسکرا کر کہا:
’’کان کنی کا مسئلہ ایک دائمی مسئلہ ہے جس نے نیرنگ آباد اسٹیٹ کو کئی سالوں سے دوچار کر رکھا ہے۔ انچارج فنانشل آفیسر کے طور پر میں اسے تولان پہاڑ جانے کے لیے میرا افسر بننے کی سفارش کرنا چاہوں گا۔ وہ ہمیں اپنی صلاحیتیں دکھائے گا اور کان کنی کی صنعت کا انتظام کرے گا۔ آپ کی شاہی سوچ کیا کہتی ہیں؟ ‘‘۔
تولان پہاڑ۔ میرا افسر۔ اقابلہ کی آنکھیں ٹھنڈی روشنی میں ٹم ٹماتی رہیں کیونکہ وہ فوراً یوسف کی مذموم اسکیم کو سمجھ گئی تھی۔ صرف اقابلہ ہی نہیں موجود ہر شخص نے یوسف کی ’’مہربان‘‘ سفارش کے مقصد کو سمجھا۔
تولان پہاڑ کی کان نیرنگ آباد کے لیے وسائل اور دولت کا سب سے بڑا ذریعہ ہوا کرتی تھی۔ تاہم چند دہائیوں سے زیر زمین دیومالائی درندوں نے تباہی مچا رکھی تھی جس سے کان کنوں کی بہت سی جانیں ضائع ہو گئی تھیں۔ کان میں آخری کان کا افسر غائب ہو گیا تھا اور اس کی لاش ابھی تک نہیں ملی۔ آج کل تو ڈاکو بھی تھے جو وقتاً فوقتاً پریشان کرتے تھے۔ اس لیے یہ انتہائی خطرناک تھا۔ علی روئی جیسے بے اختیار انسان کو تو چھوڑ دیں، ایک اعلیٰ ڈیمن بھی شاید محفوظ طریقے سے واپس نہیں آ سکتا۔ یوسف واضح طور پر انسان کو مارنا چاہتا تھا۔ یقینی طور پر انسانی سیکرٹری کی نظریں عجیب تھیں اور وہ ایک دم خاموش ہو گیا۔ جیسے ہی ایان نے اس تجویز کو سنا وہ حال، یوسف کے ساتھ اپنے خراب تعلقات کے بارے میں پریشان نہیں تھا۔ وہ پہلا شخص تھا جس نے اس پر اتفاق کیا۔ میلن فیملی نے فوری طور پر یوسف کے تبصروں پر اپنی حمایت کا اظہار کیا۔ یوسف سے منحرف ہونے والے خاندانوں نے بھی یکے بعد دیگرے حمایت کی۔ بہت سے لوگوں نے علی روئی کی طرف غصے سے دیکھا جیسے وہ پہلے سے ہی ایک لاش ہو۔
علی روئی کی عجیب و غریب شکل کی اصل وجہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ تولان پہاڑ بالکل وہی تھا جہاں وہ جانا چاہتا تھا۔ کیا یہ ہو سکتا ہے کہ یوسف کے پاس بھی شمائلہ جیسی کوئی ناک آف <مائنڈ ریڈنگ>مہارت ہو!؟۔
سیفول فیملی کے اولڈ فورڈ بولا:
’’تولان پہاڑ کی کان کنی کی صنعت ہمیشہ سے ہمارے نیرنگ آباد کے لیے آمدنی کا ایک اہم ذریعہ رہی ہے۔ حالیہ برسوں میں یہ لعنت اکثر دیکھنے میں آئی ہے۔ باہر سے ڈاکو اور اندر سے دیومالائی درندے ہیں۔ میری نظر میں یہ ناممکن ہے، انسان بے اختیار ہے۔ میرے خیال میں سر یوسف خود بہترین امیدوار ہیں۔ اگریہ خود وہاں جا سکتے ہیں تو یقینی طور پر مسائل کو حل ہو سکتے ہیں اور نیرنگ آباد دوبارہ زندہ ہو سکتا ہے۔
’’مالیات اور معیشت اسٹیٹ کے بنیادی اصول ہیں۔ میں اس کام کا ذمہ دار شخص ہوں۔ اگر میں ذاتی طور پر کان میں جاتا ہوں، اگر مالیات کے حوالے سے کچھ ہوتا ہے، تو اس کی ذمہ داری کون اٹھائے گا؟‘‘۔
یوسف نے ہوش اڑا دینے والابیان دیا۔ اس نے طنز کہا:
’’اولڈ فورڈ!آپ کا بیٹا ٹم میرا آخری افسر تھا۔ مجھے اس کی گمشدگی کا افسوس ہے۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ شہزادی اقابلہ کی طرف سے جس سیکرٹری کی قدر کی جاتی ہے ویسی نہیں ہو گی۔ کیا آپ اپنے ماتحت کو منتخب کرنے میں شہزادی اقابلہ کے انتخاب پر سوال اٹھا رہے ہیںیا آپ بدلہ لے رہے ہیں کہ میں اس وقت ٹم کو کان میں نہیں جانے دوں گا؟۔ آپ کو جاننا ہوگا کہ میرا ارادہ پورے نیرنگ آباد کی ترقی کا ہے‘‘۔
بوڑھا فورڈ اپنے غصے پر قابو پا کر رہ گیا۔ سیفول فیملی نیرنگ آباد کے قدیم ترین خاندانوں میں سے ایک تھی اور ہمیشہ سے یوسف کے ساتھ دشمنی کرتا رہا ہے جو باہر کا تھا۔ دو سال قبل اولڈ فورڈ کے بڑے بیٹے ٹم کو یوسف نے مائن آفیسر کے طور پر تعینات کیا تھا۔نتیجے میں وہ کانوں میں لاپتہ ہو گیا تھا۔ آج تک کوئی خبر نہیں تھی۔ اس کی شناخت مردہ کے طور پر کی گئی تھی۔ اس طرح فورڈ یوسف سے بنیادی طور پر نفرت کرتا تھا۔ اقابلہ کی حمایت کرنے والے دیگر چھوٹے خاندانوں نے بھی مخالفت کا اظہار کیا اور کونسل میں ہال کچھ دیر کے لیے شور مچ گیا۔
اقابلہ کی آنکھوں میں ٹھنڈک سیدھی لگ رہی تھی جیسے یوسف کے دل میں گھسنا چاہتی ہو۔ بدقسمتی سے اس کی نظریں مار نہیں سکتی تھیں ورنہ یوسف کا مسکراتا چہرہ بہت دیر پہلے چھلنی ہو چکا ہوتا۔
یوسف نے اقابلہ کے غصے کو نظر انداز کیا اور اپنی حسب عادت مسکراہٹ کے ساتھ علی روئی کی طرف دیکھا۔ جب یہ انسان مر جائے گا، پرنسس پلازہ جلد یا بدیر ختم ہو جائے گا۔ اقابلہ تجارتی طور پر بھی ایک بڑی حمایت کھو دے گی۔ اس کے حوصلے یقیناً بہت متاثر ہوں گے۔
علی روئی نے اس بارے میں سنجیدگی سےسوچا۔ اسے کان کی طرف بھیجا گیا تو وہ بھی کر سکتا ہے۔ اسے کل رات اشمار کا خفیہ پیغام ملا۔ پرنسس پلازہ کے واقعے نے یوسف کو پہلے ہی شک میں مبتلا کر دیا تھا۔ اگر وہ نیرنگ آباد میں زیادہ دیر تک رہا تو یہ اور بھی تکلیف دہ ہو سکتا ہے۔
اگرچہ تولان پہاڑ خطرناک تھا لیکن اس کا موازنہ قاف کی پہاڑیاں سے نہیں کیا جا سکتا۔ اعلیٰ دیومالائی طاقت کے ساتھ خود کو بچانے کے لیےاسے کوئی مسئلہ نہیں ہو سکتا۔ مزید یہ کہ اس کا اصل مقصد ’’فضول کچ دھاتوں‘‘ سے حاصل ہونے والابڑا حصہ تھا۔ مائن آفیسر۔۔۔۔ویسے بھی حالیہ برسوں میں بارودی سرنگیں زیادہ نہیں بدلی تھیں۔ اس لیے اسے مختصر وقت میں کوئی نتیجہ نکالنے کی ضرورت نہیں تھی۔ جہاں تک جبران کے جنگی معاہدے کا تعلق ہے، وہ واپس آنے کےلیے وائیورن کا استعمال کر سکتا ہے۔ اس طرح کسی کو شک نہیں ہوگا کہ منگول اور علی روئی ایک ہی شخص کا نام ہے۔
’’علی روئی !‘‘۔
اقابلہ اچانک کھڑی ہوگئی۔ یوسف پکارا:
’’اچھا! ایک ٹیلنٹ جس کی شہزادی اقابلہ اور میں قدر کرتے ہیں۔کسی چیز کی ضرورت ہو تو بتائے۔ میں آپ کی مکمل حمایت کروں گا‘‘۔
اقابلہ نےاکتا کر کہا:
’’علی روئی ، جو وقت تم نے نیرنگ آباد میں گزارا وہ ابھی بہت کم ہے۔ تم کان کے خطرات کو نہیں سمجھتے۔ اس کے علاوہ تم بہت کمزور ہو۔ میں کان کی صورت حال کو مزید خراب نہیں کرنا چاہتی‘‘۔
’’میں خطرے سے نہیں ڈرتا۔میں یور رائل ہائینس کے لیے کام کرنے کو تیار ہوں‘‘۔
علی روئی نے بارودی سرنگوں پر اوراس حاصل کرنے کا ارادہ کر لیا تھا۔ اس کی ’’جنونی‘‘ نگاہیںاقابلہ کے خوبصورت چہرے کو پرجوش نظروں سے دیکھ رہی تھیں، لیکن اس کے دل میں یوررائل ہائنس بدل کر ’’عروس‘‘ ہو گئی تھی۔
اب اطراف میں موجود چند اڈیمن بتا سکتے ہیں کہ نئے سیکرٹری کی قربانی دینے کے لیے تیار ہونے کی وجہ شہزادی اقابلہ کے لیے اس کی تعریف تھی۔ تاہم یور رائل ہائینس اگرچہ بے حد خوبصورت تھیں لیکن وہ اپنی سرد مہری اور بے رحمی کے لیے بھی مشہور تھیں۔ ایک چھوٹا سا انسان اسے کیسے حرکت دے سکتا ہے؟۔
ان میں سے کچھ کا تصور زیادہ امیر تھا، یہ سوچتے ہوئے کہ یوسف اس سے پہلے شہزادی اقابلہ کو ہمیشہ خوش کرتا رہا ہے۔ جب اسے معلوم ہوا کہ اقابلہ اس کے ساتھ ایک قابل اعتماد سیکرٹری ہے تو وہ حسد سے بھر گیا۔ شہزادی اقابلہ کی طاقت کو کمزور کرتے ہوئے اس نے اپنے ممکنہ ’’محبت میں حریف‘‘ کو بھی بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔
’’شہزادی صاحبہ! چونکہ علی روئی جانے کے لیے تیار ہے، کیوں نہ اسے موقع دیا جائے؟‘‘۔
یوسف نے حیرت سے علی روئی کی طرف دیکھا اور کہا:
’’اپنے خلوص کا اظہار کرنے کے لیے اگر علی روئی ان مسائل کو سنبھال سکتا ہے جو کئی دہائیوں سے تولان پہاڑ سے دوچار ہیں تو میں اسے دوبارہ شیرف بننے کی سفارش کرتا ہوں‘‘۔
شیرف ہمیشہ جنرل ایان کی پارٹ ٹائم جاب رہی ہے۔ یوسف کی باتیں سن کر ایان غصے سے یوسف کو دیکھنے لگا۔ پھر بھی یوسف نے ایسا کام کیا جیسے اس نے بالکل بھی نوٹس نہیں لیا۔ اس تجویز نے سب کو اس بڑے واقعے کی یاد دلادی جس نے پچھلے کچھ دنوں شہر میں ہلچل مچا دی تھی۔ یقیناً شیرف اور مالیاتی افسر مخالف تھے۔ دراصل اسے ایان کی غلطی سمجھا جاتا تھا کیونکہ اس نے میدان میں دھوکہ دیا۔البتہ ایان کا نقصان بھی سب سے بڑا تھا، کیونکہ اس نے ایک اعلیٰ ڈیمن کو کھو دیا تھا۔ یقیناً، کسی نے نہیں سوچا تھا کہ علی روئی شیرف بننے کے لیے زندہ واپس آ سکتا ہے۔ زیادہ تر لوگوں کی نظر میں یہ انسان پہلے ہی مردہ تھا۔
’’اگر ایسا ہے تو آئیں اسے ثبوت کے طور پر لکھ لیتے ہیں‘‘۔
علی روئی کی باتوں نے ایک بار پھر سب کی توجہ حاصل کی۔
’’جیسا کہ سریوسف نے مجھ سے کہا تھا کہ اگر مجھے کسی چیز کی ضرورت ہو تو آپ کو بتا دوں۔ چونکہ میں کبھی تولان پہاڑ نہیں گیا اس لیے مجھے پورے نیرنگ آباد کی ایک میجک میپ کاپی ایک میجک آئی کمپاس، ٹارچ کی انگوٹھی، 10 فلوروسینٹ پتھروں کی ضرورت ہے‘‘۔
علی روئی نے ایک ہی سانس میں درجن بھر چیزیں کہیں اور آخر میں یوسف کی طرف دیکھا:
’’یہ سب ہونا چاہیے۔ امید ہے صاحب اپنا وعدہ پورا کریں گے‘‘۔
یہ چیزیں تولان پہاڑ کے سفر کی تیاری معلوم ہوتی تھیں۔ جادوئی اشیا اور جادوئی سامان موجود تھے۔ تولان پہاڑ جانے سے پہلے وہ نہ صرف معمولی دلچسپی جمع کر سکتا تھا بلکہ وہ یوسف کو تھوڑا تنگ بھی کر سکتا تھا۔ اگر جادو کی دکان لوٹی نہیں گئی ہوتی تو یہ اس کے لیے کچھ بھی نہیں تھے۔ تاہم یہ چیزیں اب ایان کے ذریعہ’’ لوٹ‘‘ لی گئی تھیں۔ بلاشبہ جادوئی مواد کو لوٹنے کےلیے قربانی کا بکرا بھی شیرف نے ’’مہربانی‘‘ سے لیا تھا۔
یوسف دنگ رہ گیا کیونکہ اس کے شائستگی کے الفاظ کو انسان نے سنجیدگی سے لیا تھا۔ چونکہ اس نے بہت سارے لوگوں کے سامنے وعدہ کیا تھا اور اس کا مخالف کان میں جانے پر راضی ہوگیا تھا اس لیے ان چھوٹی چیزوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ یہ بالکل اس کی زندگی خریدنے کے مترادف تھا۔
’’کوئی مسئلہ نہیں۔ میں انہیں حکیم کی لیب میں پہنچانے کے لیے کسی کو بھیجوں گا اور اس بات کو یقینی بناؤں گا کہ وہ اعلیٰ ترین معیار کے سازوسامان ہوں‘‘۔
یوسف زیادہ خوش دکھائی دے رہا تھا۔
’’جہاں تک کاغذی کارروائی کا تعلق ہے، آپ کو خود ہی اس کا مسودہ تیار کرنا چاہیے۔ شہزادی اقابلہ اور باقی سب گواہ ہیں‘‘۔
علی روئی نے سہ رخی میں لکھا، پھر دونوں نے اپنے نام پر دستخط کر دیے۔ یوسف نے اس کی کاپی لی اور مسکرا کر کہا:
’’تو، ہمارے مائن آفیسر! براہ کرم اپنے آپ کو تیار کریں اور جلد از جلد تولان پہاڑ چلے جائیں‘‘۔
علی روئی نے سر ہلایا۔ اقابلہ نے اطمینان سے ہاتھ میں پکڑے کاغذ کو دیکھا۔ وہ کچھ نہیں بولی تھی۔ وہ اب بھی اپنا سرد لہجہ دکھا رہی۔ جو کبھی نہیں بدلاتھا۔
محل کے باہر سڑک پر۔
ایان نے دانت پیس کر یوسف سے کہا:
’’تم نے میرے شیرف کے عہدے پر کیوں جوا کھیلا! کیا کل رات تمہارا اخلاص تھا؟۔
معلوم ہوا کہ یوسف نے کل رات خفیہ طور پر ایان سے ملاقات کی۔ یوسف کی شاندار سفارتی مہارت کے تحت ایان جو شروع میں یوسف سے سخت نفرت کرتا تھا، اس کے ساتھ صلح کر لی۔ جادوئی آلات اور دیگر کو میکال کی ’’حادثاتی‘‘ موت کا معاوضہ سمجھا جاتا تھا۔ دونوں فریق ایک اہم نتیجے پر بھی پہنچ گئے۔ وہ اقابلہ کے دھڑے کو مفلوج کرنے کے لیے متضاد ہونے کا ڈرامہ کرتے رہیں گے۔
آج ایان کا غصہ جعلی نہیں تھا بلکہ دل کی گہرائیوں سے تھا۔ یوسف نے اسے شیرف کے عہدے کے ساتھ جوا کھیلنا واقعی اس کے غصے کا باعث بنا۔ یوسف کو لگتا تھا کہ وہ سب کچھ جانتا ہے۔ اس نے سکون سے پوچھا:
’’اگر میں نے ایسا نہ کرتا تو ہماری لڑائی کیسے نظرآتی؟۔ کیا تم یہ نہیں دیکھنا چاہتے کہ انسان قدم بہ قدم کیسے مرتا ہے؟‘‘۔
ایان کا غصہ تھوڑا کم ہوا۔ پھر یوسف نے کہا:
’’یا تم یہ سوچتے ہو کہ انسان تولان پہاڑ سے واپس آ سکتا ہے؟۔ کیا وہ دیومالائی درندے اور ڈاکو جن کا تم نے وہاں ذکر کیا ہے وہ صرف ’’فلوک‘‘ ہیں؟۔
ایان نے بھی اس وقت جواب دیا:
’’یہ ٹھیک ہے، اگر وہ نہیں مرتا تو ہم اسے مارنے کے لیے کسی کو بھیج سکتے ہیں۔ ہم یہ کہیں گے کہ اسے دیومالائی درندوں یا ڈاکوؤں نے مارا ہے‘‘۔
’’میرے دوست! آخر تم سمجھ گئے‘‘۔
یوسف ہلکا سا مسکرایا:
’’اب، جادو کی دکان کی تمام چیزیں تمہیں دے دی گئی ہیں۔ انسان نے جن چیزوں کا ذکر کیا ہے، وہ میرے پاس نہیں ہیں، اس لیے مجھے تم پر انحصار کرنا پڑے گا‘‘۔
’’ہمم۔وہ نقشہ یا کمپاس ویسے بھی میرے لیے بیکار ہے۔ میرے پاس فلوروسینٹ پتھر نہیں ہیں، اس کےلیے کوئی راستہ تلاش کرنا پڑے گا‘‘۔
اگرچہ وہ سطح پر صلح کر چکے تھے، لیکن ایان کے دل کا کانٹا ابھی تک نہیں نکلا۔ اس نے یوسف کو نظر انداز کیا اور بھاگ گیا۔
ایان کی پیٹھ کی طرف دیکھتے ہوئے یوسف کی آنکھوں میں ایک لمحے کے لیے عدم اطمینان اور حقارت نمودار ہوئی لیکن وہ بولاکچھ نہیں۔
کونسل ہال میں صرف علی روئی ہی رہ گیا تھا۔ اقابلہ اسے گھورتی رہی۔ غیر مرئی دباؤ نے علی روئی کو بہت بے چین کر دیا۔ طویل خموشی کے بعد برفیلی بہار کی شہزادی نے بالآخر کہا:
’’کیوں؟‘‘۔
’’اس کی وجہ یہ ہے کہ میں واقعی تولان پہاڑ جانا چاہتا ہوں ،اور یہ سچ ہے‘‘۔
علی روئی نے ایمانداری سے جواب دیا۔
’’سچ؟۔ نیرنگ آباد کے لیے شیرف کا مقام بہت اہم ہے، لیکن تم نے اپنی جان سے کیوں شرط لگائی؟۔ مطلق طاقت کے سامنے حکمت شاید ہی کوئی کردار ادا کر سکتی ہے۔ اس لیے تمہارے پاس اس بار جیتنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ تمہیں تولان پہاڑ کے خطرات کے بارے میں بالکل واضح ہونا چاہیے۔ اگر تم ناکام ہوجاتے ہو تو اس کا مطلب موت ہے‘‘۔
علی روئی سمجھ گیا کہ عقل مطلق طاقت کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے۔ اس لیے جب ضروری ہو، وہ طاقت کو مغلوب کرنے کے لیے طاقت کا استعمال کرے گا۔
’’آپ یقین رکھیں، میں واپس آؤں گا۔ دراصل یہ گرینڈ حکیم کے امتحان کا حصہ ہے‘‘۔
’’یہ بہانہ بہت برا ہے‘‘۔
اقابلہ نے سر ہلایا:
’’میں نہیں سمجھا۔ میں واقعی میں نہیں سمجھا۔ شاید یہ آپ کو مجھے منتقل کرنے کا ایک ذریعہ ہے‘‘۔
کیا سمجھا جا سکتا ہے؟ کیا یہ ’’کٹوتی‘‘ نہیں ہے؟۔
علی روئی کا چہرہ ساکت تھا۔
میں ایمانداری سے جواب دے رہا ہوں، لیکن یہ لڑکی یقین نہیں کرتی۔ پچھلی بار باغ کے واقعے کے بعد سے یہ خوبصورت غلط فہمی چلی آ رہی تھی۔ البتہ ایک صحت مند مرد کے طور پر۔۔۔یہ غلط ہے۔ ایک عام آدمی کے طور پر خوبصورت خاتون باس کے لیے کچھ جذبات کا ہونا ناگزیر تھا۔ اس کے علاوہ اقابلہ کی نایاب مسکراہٹ کا مشاہدہ کرنے کے قابل ہونے یا ایک سادہ تشویش سننے کے قابل ہونا، یہ واقعی اچھا محسوس ہوا۔تاہم، لوسیفر فیملی کی طاقتور ’’ڈیڈکشن بلڈ لائن‘‘ کے تحت وہ زیادہ تر وقت غیر فعال طور پر ’’مداح‘‘ کا کردار ادا کر رہا تھا۔
’’جیسا کہ میں نے کہا کہ یہ میرے لیے ہے۔ اگر آپ مجھ پر یقین نہیں کرتیں تو میں مدد نہیں کر سکتا‘‘۔
علی روئی نے آہ بھری اور تعریف کا اظہار کرتے ہوئے الجھ گیا۔
اقابلہ نے نفی میں سر ہلایا:
’’اگر تمہاری جان چلی گئی تو تم مجھے منتقل کر کے بھی کیا کر سکتے ہو‘‘۔
’’کیا میں واقعی آپ کو منتقل کر سکتا ہوں؟‘‘۔
علی روئی کا دل ہل گیا اور اس نے لاشعوری طور پر کہا:
’’ یسوع! میں نے واقعی یہ منصوبہ نہیں بنایا‘‘۔
’’کیا حرکت کرنے یا نہ چلنے کے درمیان کوئی حقیقی معنی ہے؟‘‘۔
اقابلہ نے آہ بھری:
’’دراصل،تمہاری دانشمندی سے یہ واضح ہونا چاہیے کہ ہم بالکل ناممکن ہیں۔ تم نے میرا اعتماد حاصل کر لیا ہے لیکن سب کچھ یہیں رک جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ مجھے بوڑھے غوث کی تجویز پر عمل درآمد کرنا چاہیے تاکہ تمہاری صلاحیتوں کو حاصل کرنے کے لیے سخت کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے برقرار رکھا جائے۔ تاہم، میں ایسا نہیں کر رہی۔ سچ پوچھو تو تم مجھے بہت خاص احساس دیتے ہو‘‘۔
اقابلہ کے بے تاثر چہرے پر حرکت کا اشارہ تھا۔ وہ تھوڑا کانپ رہا تھا۔
’’شاید یہ احساس دوستی ہے‘‘۔
علی روئی نے مزید کہا:
’’میں کبھی بھی اولڈ غوث سے ایسی تجویز کی توقع نہیں کرتا۔ وہ اتنا اچھا آدمی ہے۔ یہ بہت بری بات ہے کہ باس کو یہ خیال پسند نہیں ہے‘‘۔
اگرچہ اس کے دل میں تھوڑی سی ندامت تھی، لیکن تکمیل اور لمس زیادہ تھا۔ وہ جانتا تھا کہ فلورا اس کے لیے جذبات رکھتی ہے، لیکن شاید یہ ’’تھوڑا ‘‘سا تھا۔شمائلہ زیادہ متجسس اور مذاق کی طرح تھی۔ جہاں تکاقابلہ کا تعلق ہے۔۔۔وہ یہ سوچنے کے لیے اتنا نشہ آور نہیں ہوگا کہ دیومالائی دائرےکی خوبصورتی اسے بغیر کسی وجہ کے پسند کرے گی۔ اس کا اعتراف کرنا پہلے ہی کافی حیران کن تھا۔
اس کے رب بننے کے بعد یہ پہلی بار ہو سکتا ہے۔ شاید یہ مرنے والے شخص کے لئے افسوس کی بات ہے۔ لیکن اعتراف ایک اعتراف ہے۔
’’دوست؟۔ میں نہیں جانتی شاید‘‘۔
اقابلہ کی آنکھیں دھیرے دھیرے ٹھنڈی ہو رہی تھیں۔
’’میں نہ صرف نیرنگ آباد کی رب ہوں، بلکہ تاری سورج کے بادشاہ کی اولاد بھی ہوں جو بھاری ذمہ داریاں نبھاتا ہے۔ یہ لفظ میرے لیے عیش ہے۔ تمہارے یہ بدقسمتی ہوگی۔ میں اس پر مزید بحث نہیں کرنا چاہتی۔تم نے ابھی کاغذات پر دستخط کیے ہیں۔ نیرنگ آباد سے بچنے کے بعد تم صرف کان تک جا سکتے ہیں۔ کیا تم نے ارادہ کر لیا ہے؟‘‘۔
’’میں نے اپنا ذہن بنا لیا ہے‘‘۔
علی روئی نے مضبوطی سے سر ہلایا:
’’میں کان میں جاؤں گا‘‘۔
’’پھر، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ تم جو بھی طریقہ استعمال کرتے ہو۔تمہیں آدھے سال تک برداشت کرنا پڑے گا۔اس کے بعد، یہاں تک کہ اگر کوئی کامیابی نہ بھی ہوئی ہو تب بھی میںتمہیں واپس منتقل کرنے کے لیے استحقاق کا استعمال کر سکتی ہوں۔ یوسف ثبوت ہونے کے باوجود وہ کچھ نہیں کہہ سکتا‘‘۔
علی روئی حساب لگا رہا تھا۔ اگر یہ آدھا سال ہے، تو میں آرام سے نائٹ ویٹ لینڈ جا سکتا ہوں۔ تاہم شرط یہ ہے کہ جبران کے چیلنج کو پاس کیا جائے اور اپنی طاقت کو مزید بہتر بنایا جائے۔
’’آدھا سال کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ مجھے گرینڈ حکیم کی وراثت کے لیے جانے کی ضرورت ہے۔ اب میں راستے میں مسئلہ حل کر سکتا ہوں۔ میں وائیورنز کو بھی ساتھ لے جاؤں گا۔ ویسے میں منگول کو خفیہ طور پر فرار ہونے پر بھی راضی کر سکتا ہوں۔ میرا اس کے ساتھ ایک علامتی معاہدہ ہے۔ اگر میں مر گیا تو وہ بھی مر جائے گا‘‘۔
سمبیوٹک معاہدے نے اقابلہ کو یاد دلایا اور اس نے پوچھا:
وائیورن ٹھیک ہونا چاہئے، لیکن منگول تقریبا ایک مہینے بعد جبران سے لڑے گا۔ کیا تمہیں ڈر نہیں کہ وہ ہار جائے گا؟۔ آپ کی زندگیاں پہلے ہی جڑی ہوئی ہیں‘‘۔
واقعی جڑا ہوا ہے۔ علی روئی ہلکا سا مسکرایا، اس کی مسکراہٹ اعتماد سے بھری ہوئی تھی۔
’’وہ نہیں ہارے گا‘‘۔
اقابلہ نے ایک لمحے کے لیے اسے گھورا لیکن اس نے منگول کے بارے میں مزید کچھ نہیں پوچھا۔ اس نے اس کے ہاتھ سے انگوٹھی اتاری اور ہاتھ ہلایا۔ انگوٹھی دھیرے دھیرے اڑتی ہوئی علی روئی کے پاس گئی اور اس کے سامنے تیرنے لگی۔
یہ انگوٹھی غیر آراستہ، سیاہ اور مدھم تھی، لیکن علی روئی نے اندر سے بیہوش طاقت کو شدت سے محسوس کیا۔
’’اپنا بایاں ہاتھ بڑھاؤ اور اپنی انگلی کاٹ دو، پھر آرام کرو۔ اس کی مخالفت نہ کرو‘‘۔
اقابلہ کی آواز آئی۔
علی روئی جانتا تھا کہ اقابلہ اسے نقصان نہیں پہنچائے گی، اس لیے اس نے وہی کیا۔ اقابلہ نے بھی انگلیاں کاٹ دیں۔ اس کا خون زمین پر نہیں ٹپکا تھا لیکن سرخ موتیوں کی طرح ہوا میں تیرتا تھا۔ اقابلہ کی انگلیاں ایک عجیب تال سے کانپ رہی تھیں۔ خون کے قطروں نے آہستہ آہستہ ایک خاص نشان بنایا جس سے انگوٹھی علی روئی کے بائیں ہاتھ کی طرف اڑ گئی اور اس کی انگوٹھی کی انگلی میں فٹ ہوگئی۔
ان کا خون آپس میں مل گیا۔ خون کا نشان ایک نئی علامت میں تبدیل ہو گیا جو آہستہ آہستہ انگوٹھی میں ضم ہو گیا۔ علی روئی کو انگوٹھی کی انگلی سے جلتی ہوئی گرمی محسوس ہوئی جیسے اقابلہ کا خون انگوٹھی کے ذریعے اس کے جسم میں گھل مل گیا ہو۔ احساس انتہائی حیرت انگیز تھا اور یہ کافی دیربعد منتشر ہوا۔
’’اس انگوٹھی کا نام’ڈارک ول‘ہے۔ یہ ہر قسم کی ذہنی پریشانی کا مقابلہ کر سکتی ہے۔ اس کے علاوہ دن میں ایک بار <Random Transportation> استعمال کر سکتے ہو۔ پھر بھی، فاصلے اور جگہ پر کچھ پابندیاں ہیں۔ میں تمہیں دے رہی ہوں۔ انگوٹھی وراثتی خون کے نشان کے ساتھ ڈالی گئی ہے۔ اس طرح تمہارے علاوہ کوئی اور اسے استعمال نہیں کر سکتا‘‘۔
’’ڈارک وِل‘‘ اقابلہ کے ہاتھ سے لی گئی تھی اس لیے یہ کوئی عام چیز نہیں تھی۔ <Random Transportation>فی دن کےلیے بہت مضبوط تھا۔ مایوس کن لمحات میں فرار ہونے کا یہ بالکل ایک بہترین ذریعہ تھا۔ تاہم جس انگلی میں انگوٹھی پہنی جاتی ہے وہ عجیب قسم کی تھی۔ یہ اصل میں انگوٹھی کی انگلی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ انگوٹھی پہننے والی انگلی کا دیومالائی دائرے میں کوئی خاص مطلب ہے یا نہیں۔ تاہم شادی کی انگوٹھی کے لیے یقینی طور پر انگلی نہیں ہے،ورنہ اقابلہ اسے اس انگلی پر نہیں پہنتی۔ علی روئی کا دل جذبات سے بھر گیا اور اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ کہا:
’’شہزادی! آپ کا اہم خزانہ ہو سکتا ہے۔ میں اسے نہیں لے سکتا‘‘۔
’’ قیمت وجود کے معنی کا تعین کرتی ہے۔ شاید تم اقدار کے تبادلے کے طور پر سمجھ سکتے ہو‘‘۔
اقابلہ نے آہستگی سے جواب دیا۔
یہ جملہ واقعی بے حس تھا، تاہم علی روئی ناراض نہیں تھا۔ اس نے مسکرا کر کہا:
’’میں سمجھ گیا ہوں۔ میں اپنی قدر کو برقرار رکھوں گا تاکہ یہ مسلسل وجود کا معنی رکھتا رہے‘‘۔
اقابلہ نے سر ہلایا:
’’بہت اچھا۔ اس وقت کانوں میں نوکرانی لانا آسان نہیں ہے۔ شروع میں ایک مہینے کے بعد تمہی مایا دینے کا وعدہ کیا تھا۔ہم اس کے بارے میں بات کریں گے جب تم محفوظ طریقے سے واپس آؤگے۔ جب تک تم زندہ ہو، میں تمہیں یقین دلاتی ہوں کہ تمہاری خواہشات پوری ہوں گی۔ یہاں تک کہ مایا کی ’ڈیور فزیک‘ بھی کوئی مسئلہ نہیں ہوگی‘‘۔
یہ کیسی فلاح ہے؟۔میرے باس کی یادداشت کتنی اچھی ہے۔
’’شہزادی صاحبہ! میرا واقعی میں مایا کے لیے کوئی ارادہ نہیں ہے۔ براہ کرم آرڈر واپس لے لیں‘‘۔
علی روئی نے مسکرا کر سر ہلایا:
سچ کہوں تو یہ سائرن واقعی دلکش ہے۔ لیکن وہ جو احساس دیتی ہے وہ ہوس کا ہے، محبت کا نہیں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ بالکل بھی راضی نہیں ہے۔ مرد اور عورت کا ایک دوسرے کو پسند کرنا ضروری ہے۔ اگر کوئی قربت ہے تو اسے فطری ہونا چاہیے۔ علی روئی نے اعتراف کیا کہ انہیں خوبصورتی پسند ہے لیکن اس کا بنیادی اصول بھی تھا۔ اگر اسے کسی عورت کو زبردستی رکھنے کے لیے کسی طاقت یا دوسری چیزوں پر انحصار کرنا پڑتا تو وہ اپنے آپ کو حقیر سمجھے گا یہاں تک کہ اگر مایا کے پاس خوفناک’’ ڈیورڈ فزیک‘‘نہ بھی ہو۔
اقابلہ نے جذباتی نظروں سے اس کی طرف دیکھا۔ اس کی آواز اب بھی ٹھنڈی تھی۔
’’مایا کو کم مت سمجھو۔ اگر تولان پہاڑ تمہارا پہلا امتحان ہے، تو مایا دوسرا ہے۔ ہم تمہارے تولان پہاڑ سے چھ ماہ بعد واپس آنے کے بعد بات کریں گے‘‘۔
علی روئی صرف یہ جانتا تھا کہ اقابلہ کے لیے ’’نوکرانی‘‘ دینا آسان نہیں تھا، لیکن بقول اقابلہ ، بارودی سرنگوں پر مقدمے کے بعد ہر چیز کا انتظار کرنا پڑا۔
علی روئی نے جھک کر کہا:
’’پھر میں تیاری کے لیے چلتا ہوں۔ کل روانہ ہو جاؤں گا‘‘۔
اقابلہ نے اثبات میں سر ہلایا۔ اپنی میز پر رکھی فائل کھولی اور اس سے لاتعلق ہو گئی۔
الوداع بھی نہیں؟
کم از کم کچھ۔۔۔
بدقسمتی سے مائن آفیسر نے کان توجہ کرکے بھی کچھ نہیں سنا۔ اس لیے مایوسی کے ساتھ کونسل ہال سے نکلنا پڑا۔
’’زندہ واپس آجاؤ‘‘۔
علی روئی کے جانے کے بعد ہی دبی ہوئی، دھیمی آواز سنائی دی۔ اس نے پھر بھی سر نہیں اٹھایا تھا لیکن اس کی آواز حسبِ عادت سرد مہری سے بھری ہوئی تھی۔ یہ احساس کسی بھی قدر وجود یا اس جیسی چیزوں سے متعلق نہیں تھا۔ بدقسمتی سے کوئی اسے نہیں سن سکا۔
لیبارٹری میں واپس آیا تو یوسف کی طرف سامان پہنچانے والاآیا ہوا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ اس کے کام کی کارکردگی بہت زیادہ تھی۔ شاید وہ علی روئی کو تاخیر کا کوئی بہانہ نہیں دینا چاہتا تھا۔ کچھ جادوئی مواد تھے جو اصل میں چمک کو تبدیل کرنے کے لیے تھے۔ اقابلہ نے جو خلائی کڑا دیا اس میں اعلیٰ ترین کوالٹی کے بیل پتھر کے 100 ٹکڑے تھے۔اوسط معیار کے بیل پتھر نے 100 – 150 اوراس فراہم کیے ہیں۔ یوسف کا اعلیٰ وائن سٹونز مواد کا نہیں تھا کیونکہ فراہم کردہ اوراس اوسط معیار سے تقریبا 4 گنا تھا۔ بیل کے تمام پتھروں اور دیگر مواد کو تبدیل کرنے کے بعدعلی روئی باقی 90,000 اوراس بڑھ کر 140,000 اوراس ہو گیا۔
اگرچہ اس نایاب مواد کا استعمال تھوڑا سا فضول تھا لیکن طاقت کسی بھی چیز سے زیادہ اہم تھی۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ کہکشاں باغ کے اہم بیج کے پختہ ہونے کے بعدوہ آہستہ آہستہ کہکشاں باغ کو اوراس پیدا کرنے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ ہر چیز کو اوراس میں تبدیل کرنے کے بعد پہلے ہی اندھیرا تھا۔ علی روئی نے جلدی سے رات کا کھانا کھایا، وائیورن پر سوار ہوا اور نیلی جھیل کی طرف اڑ گیا۔ یقینی طور پرزہریلا ڈریگن معمول کی جگہ پر بیٹھا پیگ کے سولٹیئر کے ساتھ کھیل رہا تھا۔ یہ جانتے ہوئے کہ علی روئی کی روح کا نقصان پہلے اہم تھا، سنکھیار نے چپکے سے حملہ نہیں کیا اور نہ ہی مذاق میں۔
’’اب کیسا محسوس کر رہے ہو؟ کیا تمہاری روح ٹھیک ہو گئی ہے؟‘‘۔
’’ابھی تو نہیں، لیکن مجھے تھوڑی دیر کے لیے جانا ہے‘‘۔
علی روئی نے زہریلے ڈریگن کے پاس کھیت میں بچھایا اور آرام سے لیٹ گیا۔ اس نے سنکھیار کو تولان پہاڑ کے بارے میں بتاتے ہوئے ایک گھاس کی جڑ اٹھا کر منہ میں ڈالی۔
سنکھیار نےاکتا کر کہا:
’’کیا تم شاہی شہزادی کے سحر میں مبتلا ہو؟۔ جبران سے لڑنے میں ایک ماہ سے بھی کم وقت ہے لیکن تم تولان پہاڑ جا رہے ہو؟۔ دراصل۔۔۔ہائے، وہ ننھی لڑکی جس نے اس دن تمہیں بے ہوش کر دیا تھا، وہ کافی جارحانہ ہے۔ اس کا سینہ بہت چپٹا ہے، اس لیے تمہیں پہلے چند سال انتظار کرنا پڑے گا‘‘۔
’’تم نے اس کا ذکر کرنے کی ہمت کیسے کی۔خوفناک آدمی!‘‘۔
علی روئی نے زہریلے ڈریگن کی طرف دیکھا جو ہنسنے کی کوشش کر رہا تھا ،اس نے غصے سے ڈانٹا:
’’تولان پہاڑ جانے کی وجہ گرینڈ حکیم کی وراثت ہے۔ مجھے اپنی وراثت کی طاقت کو مزید بیدار کرنے کے لیے تولان پہاڑ میں کچرے کی ایک قسم کی ضرورت ہے۔ اگر یہ چیلنج مکمل ہو جاتا ہے تو مجھے سیاہ دوائیوں سے نوازا جا سکتا ہے‘‘۔
اس کے پاس پہلے سے ہی سیاہ دوائیاں تھیں لیکن اسے بدلنے کے لیے اوراس کی ضرورت تھی۔ ابتدائی ارتقاء نے زہریلے ڈریگن کی زندگی کا نصف حصہ کھا لیا۔ اگرچہ سنکھیار نے کبھی ذکر نہیں کیا، علی روئی نے اسے ہمیشہ اپنے ذہن میں رکھا۔ جب وہ ’’الیوتھ‘‘ ریاست میں داخل ہوا، دوسرے لفظوں میں، 3 اسٹارز ایوولوشن لیول تک پہنچ گیا، تو ایکسچینج سینٹر میں بلیک پوشنز کی اعلی ترین سطح ہونی چاہیے ۔’’لائف ایکسٹینشن‘‘ اور ’’قیامت‘‘۔
وہ نہیں جانتا تھا کہ اس میں زندگی کا کتنا اضافہ ہو سکتا ہے، لیکن کم از کم یہ علی روئی کا خیال تھا۔
’’سیاہ دوائیاں!‘‘۔
زہریلے ڈریگن نے چونک کر دیکھا:
9000 سال پہلےدیومالائی دائرےکے دو گرینڈ حکیم تھے، پوشن گرینڈ حکیم ، روزنبرگ اور مکینک گرینڈ حکیم ، لولو۔ لولو ایک باصلاحیت تاریک بونا تھا جو میکانکس اور قدیم روئنس میں ماہر تھا۔ البتہ اس کے پاس پوری زندگی کوئی شاگرد نہیں تھا، اس لیے اس کی موت کے بعد میکانکس اور قدیم روئنس میں اس کی مہارتیں ختم ہو گئیں۔ اس طرح زولا کے علاوہ، بنیادی طور پر کوئی بھی دیومالائی دائرےمیں قدیم روئنس کو نہیں سمجھ سکتا تھا۔ روزنبرگ بہت سے شاگردوں کے ساتھ ایک سیاہ ایلف تھا، لیکن اسے اس کے سینئر شاگرد سمن نے ایک خفیہ ترکیب کی وجہ سے اسے قتل کر دیا تھا۔ سمن کے غائب ہونے کے بعد کالی دوائیاں بھی غائب ہو گئیں۔ اگر تم سیاہ دوائیاں بنا سکتے ہو تو تم یقینی طور پر پوری دیومالائی دائرے کو چونکا دو گے‘‘۔
’’ابھی کچھ دکھانے کا وقت نہیں ہے۔ کم از کم پہلے <Light and Dark> کو ختم کرنے میں تمہیں مدد کرنی ہوگی‘‘۔
علی روئی نے الداس کے ساتھ بات چیت کی یہ جانتے ہوئے کہ سیاہ دوائیوں کے ممکنہ اثرات کیا ہیں۔
’’ورنہ تم چاہو تو بھی بچ نہیں سکتے‘‘۔
’’ہمم۔اگر یہ قدیم روئنس کی مہر نہیں ہے،تو میں اپنی طاقت سے آہستہ آہستہ تاریک چمک کے تالے سے چھٹکارا پا سکتا ہوں‘‘۔
سنکھیار نے عدم اطمینان کے ساتھ کہا:
’’جنگ کے معاہدے کو مت بھولنا۔ تمہارے پاس زیادہ وقت نہیں بچا ہے‘‘۔
’’میں جانتا ہوں۔ مجھے تولان پہاڑ جانا ہے۔ میرے پاس ویورنز ہیں، اس لیے میں آگے پیچھے کا سفر بہت مختصر کر سکتا ہوں۔ تب تک میں واپس آ کر جبران سے لڑوں گا۔ میری نئی ترقی یافتہ عظیم طاقت کو دیکھنے کے لیے تیار رہو‘‘۔
’’ہمم۔ پروموشن کا کیا ہوگا؟۔ میں اب بھی تمہیں اپنے پیروں تلے رکھ سکتا ہوں‘‘۔
زہریلے ڈریگن نے اس پر تنقید کی اور وہ بھی لیٹ گیا۔ کافی دیر تک آسمان کی طرف دیکھنے کے بعد اس نے کہا:
’’کیا تم نے انسانی دنیا میں اپنے پیاروں کے بارے میں سوچا ہے؟‘‘۔
’’میرے پیارے بہت جلد فوت ہو گئے‘‘۔
علی روئی اپنی گزشتہ زندگی کے بارے میں بات کرنے لگا۔ اس زندگی میں آرتھر کے کچھ رشتہ دار تھے لیکن اس کا ان کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔ کم از کم اس وقت کوئی رابطہ نہیں تھا۔
’’تمہارا کا کیا ہوگا؟‘‘۔
’’جب میں پیدا ہوا تو مجھے انڈے کے چھلکے کے علاوہ کچھ نظر نہیں آیا‘‘۔
سنکھیار نے کندھے اچکا کر کہا:
اس عرصہ میں میرا کوئی عزیز نہیں تھا، لیکن اس کے بجائے میرے بہت سے دشمن تھے‘‘۔
’’دوستوں کا کیا ہوگا؟‘‘۔
’’ڈریگن کو دوستوں کی ضرورت نہیں ہوتی، خاص طور پر زہر یلے ڈریگن کو‘‘۔
سنکھیار نے ڈریگن کا کچھ غرور دوبارہ حاصل کیا:
’’تم نے خدا کو دوست بنا کردیکھا ہے؟ اسے صرف عزت اور خوف کی ضرورت ہے۔ اسے غیر ضروری دیکھ بھال اور سمجھ بوجھ کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔
’’شاید تب ایسا ہی تھا‘‘۔
علی روئی نے پوچھا:
’’اب کیا ہے؟‘‘۔
’’اب۔۔۔اب میں تمہاری دیکھ بھال میں ہوں، اس لیے مجھے تمہیں خوش کرنا ہے‘‘۔
سنکھیار بے بس دکھائی دیا۔
علی روئی جانتا تھا کہ زہریلا ڈریگن تسلیم کرنے سے ہچکچا رہا ہے، اس لیے اس نے بے نقاب نہیں کیا:
’’تمہاری صحبت برقرار رکھنے کے لیے میں یہاں کسی خوبصورتی کو دھوکہ دوں گا؟‘‘۔
’’میرا جمالیاتی نظارہ تمہاری نچلی سطح سے مختلف ہے‘‘۔
سنکھیار نے حقارت بھرے نظروں سے اس کی طرف دیکھا:
’’تمہاری لڑکی سنگین ریپر، سوکیوبس اور ننھی لڑکی اچھی لگتی ہے، لیکن بدقسمتی سے ان میں وہ اندرونی خصوصیات نہیں ہیں جو میں چاہتا ہوں۔ جن خواتین کو میں پسند کرتا ہوں ان کے پاس خوبصورت سخت ترازو، تیز صاف دانت، لمبا اور بولڈ جسم ہونا ضروری ہے‘‘۔
’’آہستہ بولو۔ تم ایک خاتون ڈریگن کے بارے میں بات کر رہے ہو، عورت نہیں‘‘۔
علی روئی سنکھیار کے بھاری ذائقے سے دنگ رہ گیا۔ اس نے اسے مخالف جنس کے خلاف مایوس کیا۔
’’تمہیں کیا پتہ ہے‘‘۔
سنکھیار نے مسکرا کر اسے حقارت بھرا نظر د:
’’تم اتھلے انسان ہو‘‘۔
’’یہ زہر تمہارے لیے ہیں۔ احتیاط کے لیے انہیں لے لو۔ میرا جیڈ پرل لینے کے بارے میں کبھی مت سوچنا۔ یہاں تک کہ آپ کی فلورا کی موجودہ زہر کی مزاحمت کم از کم بغیر کسی پریشانی کے وائیورن پر سوار ہوسکتی ہے۔ جہاں تک تمہارا تعلق ہے، یہ محض فضول خرچی ہے‘‘۔
’’جہاں تک میں جانتا ہوں، زیرِ زمین دیومالائی درندوں کی بہت سی قسمیں ہیں، کچھ تو ڈیمن کنگ کی سطح یا اس سے بھی اوپر تک پہنچ چکے ہیں۔ میری مہر نہیں اٹھائی گئی ہے، لہذا اگر کوئی صورت حال ہو تو پہلے فرار ہونا یاد رکھنا‘‘۔
’’اچھا، سنکھیار! تم کب سے اتنے بدتمیز ہو گئے!‘‘ ۔
علی روئی نے اپنا پھولاہوا سر ہلایا:
’’آرام کرو۔ میں نے قاف کی پہاڑیاں کے خزانے پر ہاتھ نہیں ڈالاہے۔ میں اتنی آسانی سے کیسے مر سکتا ہوں!‘‘۔
اس کے باوجود علی روئی اب بھی ان الفاظ کے پیچھے موجود تشویش کو محسوس کر سکتا تھا۔ اس نے ایک مخصوص برفانی تودے سے بھی ہلکی گرمی محسوس کی۔
’’لالچی آدمی! اگر یہ نہ ہوتا کہ میری زندگی تمہاری زندگی سے جڑی ہے۔۔۔۔۔‘‘۔
اس سے پہلے کہ سنکھیار اپنی بات مکمل کر پاتا، علی روئی پہلے ہی وائیورن پر سوار ہو کر اڑ گیا تھا۔
’’ہمم۔تم تو تیزی سے بھاگ گئے۔ تم نے حقیقت میں کہا تھا کہ میں بدتمیز ہوں‘‘۔
سنکھیار نے علی روئی کو آسمان میں غائب ہوتے دیکھا۔ پھر وہ لیٹ گیا انسان کی تقلید کرتے ہوئے گھاس کو منہ میں لیا اور آنکھیں بند کر لیں۔
اکیسواں باب
دو دِلوں میں تلوار
محبت کرنےوالوں میں بھی جنگ ہو سکتی ہے
اگلی صبح علی روئی ، جو گہری نیند میں تھا،چلبل کے دروازے کی دستک سے بیدار ہوا۔
’’حکیم !ننھی شہزادی اور شہزادی فلورا آئی ہیں‘‘۔
علی روئی نے جلدی سے کپڑے پہن لیے۔ وہ حیران رہ گیا جب اس نے فلورا اورشمائلہ کو اپنے کمرے کے باہر دیکھا۔ فلورا پورے جسم کے چمڑے کی بکتر میں تھی۔ ایک خلائی کڑا پہننا ہوا تھا معمول کی تلوار اٹھانا، ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کہیں دور جا رہی ہو، جبکہ شمائلہ کی بڑی بڑی آنکھیں سرخ اور سوجی ہوئی لگ رہی تھیں۔ اس سے پہلے وہ واضح طور پر رو رہی تھی۔
’’اندر آؤ، تم دونوں کو کیا ہوا ہے؟‘‘۔
علی روئی نے حیرت سے پوچھا۔
فلورا نے آگے بڑھ کر اسے چمڑے کا ایک کاغذ دیا اور کہا:
’’یہ آپ کا مائن آفیسر کے طور پر تقرری کا خط ہے۔ شہزادی اقابلہ پہلے ہی میری درخواست پر راضی ہو چکی ہے۔اس لیے میںآپ کے ساتھ تولان پہاڑ جا رہی ہوں‘‘۔
’’بہن بہت پریشان ہے‘‘۔
’’شمائلہ نے افسردگی سے :
’’میری اس سے بڑی لڑائی ہوئی تھی، پھر بھی مجھے تم دونوں کے ساتھ جانے کی اجازت نہیں دیتی‘‘۔
’’آپ دونوں مائن آفیسر کے واقعے کے بارے میں جانتے ہیں؟‘‘۔
علی روئی نے اپنا سر کھجایا۔ اس کا بنیادی مقصد چمک تھا، لہذا فلورا کے آس پاس ہونا یقینی طور پر تکلیف دہ ہوگا۔ جہاں تک تہہ دار گینگ کا تعلق ہے، اس نے پہلے ہی انتظامات کر رکھے تھے۔ اراکین کو صرف یہ معلوم تھا کہ رہنما جبران کا سامنا کرنے کے لیے خفیہ تربیت کے لیے باہر جا رہا ہے۔ کوئی بھی معاملہ جیسی اور دیدی ہینڈل کریں گے۔
’’یہ کل کی سہ پہر پورے شہر میں پھیل گیا تھا‘‘۔
شمائلہ نے سر ہلایا:
’’مجھے اس بارے میں اپنی بہن سے معلوم ہوا۔ یہ یقیناً یوسف کا کام ہے۔ وہ اسکائی بیٹل میں ہونے والے واقعہ کا بدلہ لینا چاہتا ہوگا‘‘۔
علی روئی نے اپنا سر ہلایا:
’’یوسف جو بدلہ چاہتا ہے وہ صرف اسکائی بیٹل نہیں ہے۔ اشمار کے پاس بھی کان کی صورتحال کے بارے میں زیادہ واضح نہیں ہے۔ اشمارنے صرف عارضی طور پر اندازہ لگایا کہ ڈاکو اور سرمانی سلطنت کا آپس میں تعلق ہوسکتا ہے‘‘۔
’’وہ گدا یوسف !‘‘۔
فلورا نے غصے سے اپنی مٹھی پکڑی:
’’ایان بھی۔ وہ علی روئی کو مارنا چاہتے ہیں‘‘۔
علی روئی نے کہا:
’’فکر نہ کرو، میں ٹھیک ہو جاؤں گا۔ ایک دوست خفیہ طور پر میری حفاظت کرے گا۔ فلورا! تمہیں میرے ساتھ آنے کی ضرورت نہیں ہے۔شمائلہ کے ساتھ نیرنگ آباد سٹی میں رہو‘‘۔
’’نہیں، یہ وہ بہت خطرناک جگہ ہے۔ مجھے آپ کا ساتھ دینا ہے‘‘۔
فلورا بہت پرعزم تھی:
’’میں نے فیصلہ کر لیا ہے۔ جو مجھے روکنے کی کوشش کرے گا وہ میری لاش پر قدم رکھے گا۔ یہی بات میں نے شہزادی اقابلہ سے بھی کی ہے‘‘۔
علی روئی کا دل دھک سے رہ گیا۔ یاقوت جیسی آنکھوں میں عزم دیکھ کر اسے لگا کہ اس کے دل میں ایک خاص تار حرکت کر گئی ہے۔ شمائلہ نے کہا:
’’تولان پہاڑ دوسری جگہوں کے برعکس ہے۔ یہ سینکڑوں سالوں سے زیر زمین دیومالائی درندوں کی زد میں ہے اور کان کنی آسانی سے نہیں کی جا سکتی۔ یہاں تک کہ ڈاکو بھی ادھر ادھر بھاگ رہے ہیں۔ اس لیے یہ نیرنگ آباد کے سب سے خطرناک علاقوں میں سے ایک ہے۔ کچھ سال پہلے سابق کان کے افسر ٹم نے ذاتی طور پر بارودی سرنگوں کی تلاش کے لیے ایک ٹیم کی قیادت کی۔ آخر کار ایک درجن سے زائد لوگ لاپتہ ہو گئے۔ ان کی لاشیں بھی اب تک نہیں ملیں۔ اس لیے آپ کو فلورا کا تمہارے ساتھ ہونا ضروری ہے، ورنہ میں مزید پریشان ہو جاؤں گی‘‘۔
شمائلہ کی سرخ آنکھیں اور سنجیدہ تاثرات نے علی روئی کے دل کو گرما دیا۔ اس نے آہستگی سے اس کا سر تھپتھپا دیا۔ یہ حرکت بالکل فطری تھی۔شمائلہ دنگ رہ گئی۔ اس کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ تاہم اس نے جدوجہد نہیں کی اور ایسا لگتا ہے کہ وہ اسے پسند کرتا ہے۔ علی روئی یہ کرنے کے بعد وہ بھی دنگ رہ گیا۔چلبل جو ساتھ تھا اس کا دل دھک سے بھر گیا، پھر اس کے بعد زبردست تعریفوں کا سلسلہ شروع ہوا۔
فلورا کا کوئی خاص ردعمل نہیں تھا۔ اس نے صرف ایک سنجیدہ نظر ڈالی، اس کی آنکھوں میں گھور کر علی روئی کو مضبوط دباؤ کا احساس دلایا جو طاقت سے غیر متعلق ہے۔
یہ کیا ہے؟ بوجھ؟ فکر؟
شاید، لفظ ’’قسمت‘‘ زیادہ درست ہے۔
علی روئی کو اچانک ایک پرانا گانا گایا، ’’آپ کا سفر بھر میں‘‘ اور ایک گہرا سانس لیا۔
’’فلورا، تم کب جا سکتی ہو؟‘‘۔
یہ سن کر فلورا کی سنجیدہ آنکھوں میں خوشی جوش سے پگھل گئی۔
’’کسی بھی وقت‘‘۔
علی روئی نے سر ہلایا:
’’اچھی بات ہے۔ ہم تھوڑی دیر تک چلیں گے ۔ میں کچھ تریاق لے آتا ہوں کیونکہ ہم وہاں وائیورنس پر سوار ہوں گے‘‘۔
، تو اس کی آنکھیں چمک اٹھیں جب اس نے سنا تو اس کی آنکھیں چمک اٹھیں۔
’’تریاق پر کامیابی سے تحقیق کی گئی ہے؟‘‘۔
علی روئی اضافی پریشانی سے ڈرتا تھا، اس لیے اس نے وضاحت کی:
تریاق صرف ایک عارضی مطلب ہے۔ اسے ہائر ڈیمن کے ذریعہ استعمال کرنا ہے۔ نیا تریاق تیار ہونے کے بعد میں آپ کو وائیورنز پر سوار ہونے کے لیے لاؤں گا۔ نہیں تو آپ کو مزید محنت کرنی پڑے گی اور جلد ہی اعلیٰ ڈیمن بن سکتے ہیں‘‘۔
’’اسے بھول جاؤ. میں آپ کے نئے تریاق کا انتظار کروں گا‘‘۔
شمائلہ نے مایوسی سے کہا۔ تربیت کے معاملے میں، ننھی شہزادی کو ہمیشہ سست ہونے پر فخر تھا۔ <Dark Flame> کا بیدار ہونا صرف ٹیلنٹ سے تھا اور اس کا محنت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔
جلد ہی فلورا اور علی روئی اس وائیورن گھونسلے کے پاس آئے جو عارضی طور پر لیب کے باہر بنایا گیا تھا۔مگدااور کیگو پہلے ہی ایک سادہ فلائنگ سیڈل سے لیس تھے۔چلبل آنسو بہاتے ہوئے اپنے مالک اورمستقبل کی مالک کی بیوی کے پاس لے آئی۔
کم از کم یہی تو آئی پی نے سوچا تھا۔
الداس جو کالی دوائیاں پڑھنے کے لیے پوشیدہ کمرے میں تھا، اچانک باہر آیا کچھ کہے بغیر دوائیوں کا ایک گچھا علی روئی کودیا۔ علی روئی نے لیبلوں کو دیکھا تو اسے پتہ چلا کہ یہ لیب میں سب سے مضبوط بف پوشنز اور زہر کے دوائیاں ہیں۔ سیاہ ایلف نے علی روئی کی طرف جذباتی انداز میں دیکھا:
’’یہ مت بھولنا کہ تم نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا‘‘۔
علی روئی سمجھا کہ الداس اپنی بہن کے بارے میں بات کر رہا ہے۔لیکن تاریک ایلف نے کہا کہ بہن کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کا زندہ واپس آنے کا وعدہ تھا۔ علی روئی نے سر ہلایا۔ الداس پیچھے مڑ کر دیکھے بغیر جلدی سے لیب کی طرف چلا گیا۔
شمائلہ نے کہا:
’’گندا حکیم ، اتنی جلدی ہے بھاگنے کی؟۔کسی کے آنسو آپ کو ڈراتے نہیں؟‘‘۔
’’تم دونوں کو محفوظ رہنا چاہیے‘‘۔
ننھی شہزادی نے اپنی سرخ آنکھیں علی روئی اور فلورا کو لہراتے ہوئے کہا:
علی روئی !اگر تم زندہ واپس آ سکتے ہو، تو میں تمہارے اور فلورا کے بھاگنے پر غور کر سکتی ہوں
علی روئی گھبرا گیا:
’’اب تو واپس آنا میرے لیے لعنت ہے سے کم نہیں‘‘۔
وائیورنس اپنے پروں کو پھڑپھڑاتے ہوئے اوپر اٹھ گئے۔
شمائلہ اورچلبل انہیں دیکھ رہے تھے جو آہستہ آہستہ چھوٹے سے چھوٹے ہوتے جا رہے تھے، علی روئی نے آہستہ اپنا ہاتھ ہلایا۔ اس کی نظریں ایک لمحے کے لیے محل کے کونسل ہال پر جمی رہیں۔ پھر اس نےمگداپر زور دیا کہ وہ آگے بڑھے۔ آخر کار وہ شمائلہ کی نظروں سے اوجھل ہو گئے۔
فلورا کی ہمیشہ سے خواہش تھی کہ وہ ڈریگن نائٹ بن جائے۔ اب وہ علی روئی کے ساتھ بھی جا سکتی تھی۔ اس کی خواہش پوری ہو گئی، وہ اچھے موڈ میں تھی۔ چونکہ علی روئی <Deep Analysis> سے روح کے نقصان سے مکمل طور پر صحت یاب ہو چکا تھا، اس نے <Analytical Eyes> کے ذریعے وائیورنزکے ساتھ بات چیت کی۔ فلورا کے بیسٹ ٹامنگ کے بھرپور تجربے کے ساتھ پہلی ٹیسٹ ڈرائیو بہت کامیاب رہی۔
نیرنگ آباد اسٹیٹ کے شمال مشرق میں سرمانی سلطنت تھی۔ جنوب مشرق میں نیلانی اسٹیٹ تھا۔ مغرب کا علاقہ سب سے خطرناک تھا۔ یہ بلند و بالاپہاڑوں اور تیز چوٹیوں سے بھرا ہوا تھا۔ زیلانگ پہاڑی سلسلے سے گزرتے ہوئے، مزید مغرب میں ٹاؤن لیا ہوگا جو خاقانی سلطنت کی سرحد پر تھا۔
ٹاؤن لیا اصل میں دو قلعے تھے جو ایک دوسرے کے آمنے سامنے تھے جس کی ایک طویل تاریخ تھی۔ ان کا تعلق بالترتیب تومانی سلطنت اور خاقانی سلطنت سے تھا۔ تقریباً 2000 سال پہلے، گرے ہوئے فرشتہ کا شہنشاہ، ساکیا۔ لوسیفر راج کر رہا تھا اور اس کا خاقانی سلطنت کے ساتھ باہمی فائدہ مند رشتہ تھا۔ اس کے بعد دونوں سلطنتوں نے 10,000 سال تک ہم آہنگی کے ساتھ رہنے کے لیے ایک دوستانہ معاہدے پر دستخط کیے۔ دوستی کی علامت کے طور پر دونوں سلطنتوں کے قلعوں کو اس طرح مسمار کر کے ٹاؤن لیا میں ضم کر دیا گیا، جو دونوں ممالک کا مشترکہ تھا۔
اقابلہ نے ایک بار مغرب کی طرف قافلے بھیجے اور خاقانی سلطنت میں داخل ہونے کے لیے ٹاؤن لیا سے گزرنا چاہا۔ تاہم مغرب میں ڈاکو بھی نمودار ہوئے۔ وہ کئی بار سب کچھ کھو چکی تھی۔ کے’’ناکام خاتمے‘‘ کے ساتھ نیرنگ آباد صرف سرمانی سلطنت کے ساتھ تجارت کر سکتا ہے یا سرمانی سلطنت کے ذریعے بیرونی دنیا کے ساتھ واحد چینل کے طور پر تجارت کر سکتا ہے۔ اس طرح، معیشت کی لائف لائن ہمیشہ سرمانی سلطنت کے زیر کنٹرول رہی تھی۔
’’اس رفتار سے، ہم تقریباً ڈھائی دنوں میں تولان پہاڑ تک پہنچ جائیں‘‘۔
ہوا میں زور تھا تو فلورا نے اونچی آواز میں کہا۔
’’ہم رات کو کہاں کیمپ لگائیں گے؟‘‘۔
اس طرح کے جنگلی مارچ میں واضح طور پر کوئی سرائے نہیں تھی، اس لیے وہ صرف ڈیرے ڈال سکتے تھے۔ فلورا کو جانوروں سے چھیڑ چھاڑ اور کیمپ آؤٹ کرنے کا بھرپور تجربہ تھا:
’’آگے کا فاصلہ ابھی بہت طویل ہے۔ ہم کوشش کریں گے کہ وائورنز ختم نہ تھکیں۔ وائیورنز کو کھانا کھلانے کے لیے راستے میں وقفہ لیں گے۔ پھر اندھیرے سے پہلے کالے برساتی جنگل کی طرف بھاگیں گے‘‘۔
’’ٹھیک ہے‘‘۔ علی روئی انجان تھا۔ فلورا کے ساتھ ہونے سے واقعی بہت سی پریشانی بچ گئی۔ اگر وہ اکیلا ہوتا تو شاید اس کے پاس جادوئی نقشہ ہونے کے باوجود بہت زیادہ وقت ضائع ہوتا۔ غروب آفتاب کے وقت دونوں طے شدہ وقت کے مطابق سیاہ برساتی جنگل میں پہنچے۔ علی روئی کو یاد آیا کہ جب وہ شمائلہ سے پہلی بار ملا تھا تو اسے جو زہریلی گھاس اور پھول کھلائے گئے تھے وہ اسی جگہ کے تھے۔ سیاہ بارش کا جنگل ایک معیاری دیومالائی دائرےجنگل کا علاقہ تھا جو سائز میں بڑا اور جڑی بوٹیوں سے مالامال تھا۔ جڑی بوٹیوں کا معیار دوسری جگہوں کے مقابلے بہت زیادہ تھا لیکن یہ خطرناک پودوں اور حیوانات سے بھی بھرا ہوا تھا۔ فلورا علی روئی کو ایک لیوارڈ پہاڑی پر لے گئی۔ وہ دونوں کنواری پہاڑی کے اوپر ایک درخت کے کنارے آرام کر رہے تھے۔ اس نے ایک خاص انتباہی کردار بھی ادا کیا۔ پہاڑی سے نیچے ایک ندی تھی اس لیے پانی حاصل کرنا آسان تھا۔
’’چلو آج رات اس پہاڑی پر آرام کریں۔شمائلہ اور میں نے آخری بار بھی یہاں آرام کیا کیونکہ یہ زیادہ محفوظ ہے۔ فلورا نے اپنی پیٹھ سے تلوار ہٹائی اور ایک پتھر پر بیٹھ گئی۔
’’فلورا‘‘۔
’’کیا؟‘‘۔
’’شکریہ‘‘۔
علی روئی نے خلوص سے کہا۔ تولان پہاڑ فلورا کے لیے اتنا ہی خطرناک تھا، لیکن اس نے کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی اور اس کا ساتھ دینے میں پہل کی۔
’’ہم دوست ہیں، اس لیے آپ کو یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے‘‘۔
فلورا نے سر ہلایا اور منہ دوسری طرف کر لیا۔ یہ ان کا ایک ساتھ باہر جانے کا پہلا موقع نہیں ہے، لیکن فلورا کو اچانک ایک ناقابل بیان گھبراہٹ محسوس ہوئی۔ جب اس نے سوچا کہ شاید وہ علی روئی کے ساتھ اکیلے لمبا وقت گزار رہی ہے تو اس کے دل کی دھڑکن کچھ تیز ہوگئی۔ یہ صورت حال بے مثال تھی۔
’’میں جانتا ہوں‘‘۔
علی روئی نے اپنا سر کھجاتے ہوئے کہا:
’’پھر بھی، میں آپ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں‘‘۔
جیسے ہی اس نے جملہ مکمل کیا، عظیم تلوار بغیر اطلاع کے کھول دی گئی۔ یہ علی روئی کے بالکل سامنے تھا۔ وہ چونکا۔
’’میں صرف شکریہ کہنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ تلوار کھولنے کے لیے کب اکسایا؟‘‘۔
فلورا تلوار اٹھائےاچانک کھڑی ہوئی، پیچھے مڑ کر دیکھے بغیر ندی کی طرف چل دی۔ اس نے جانے سے پہلے کہا:
’’یہ ٹھیک ہے! تم بہت بڑے آدمی ہو۔ میں کچھ شکار تلاش کرنے جا رہا ہوں‘‘۔
دراصل، وہ نہیں چاہتی تھی کہ وہ اسے شرمندہ دیکھے۔
فلورا معمول پر آ گئی۔ جب وہ دو شکاروں کے ساتھ پہاڑی کی طرف لوٹی تو اس نے علی روئی کا لگایا ہوا خیمہ دیکھا اور وہ حیران ہوئی۔
’’یہ کیساخیمہ ہے؟ پہلی بار دیکھ رہی ہوں‘‘۔
علی روئی نے مسکرا کر کہا:
’’اسے الپائن ٹینٹ کہتے ہیں۔ یہ کچھ دن پہلےچلبل کی مدد سے بنایا ہے۔ اسے شروع میں صرف تفریح کے لیے بنا رہا تھا، لیکن میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ یہ اتنی جلدی کام آئے گا۔ درحقیقت، یہ کچھ ایسے آلات تھے جو علی روئی نے قاف کی پہاڑیاں کے لیے پہلے سے تیار کیے تھے۔ یہ محض اتفاق سے کام آیا۔
’’خیمہ برا نہیں ہے، اور اسے رکھنا کافی آسان ہے‘‘۔
فلورا کو جنگل میں زندہ رہنے کا بھرپور تجربہ تھا، اس لیے اس نے فوراً ہی خیمے کے فوائد کو ایک نظر میں دیکھا۔ اس نے صاف کیے گئے شکاروں کو کیمپ فائر کے پاس رکھا۔
’’کیا یہ آپ کی یاد میں بھی کسی عظیم الشان حکیم کا کام ہے؟‘‘۔
’’یہ جعلی ہے۔ اصل چیز سے بہت زیادہ خراب ہے‘‘۔
علی روئی نے مبہم انداز میں کہا۔ اس نے شکار لیا اور باربی کیو کے کچھ اوزار نکالے۔
’’ویسے، تمہارا خیمہ کہاں ہے؟‘‘۔
’’مجھے اس کی ضرورت نہیں ہےنہ عادت ہے‘‘۔
فلورا نے سر ہلایا:
’’اندھیرا ہو چکا ہے۔ رات کو پہرہ دوں گی۔ باربی کیو ختم کرنے کے بعد آپ کو جلدی آرام کرنا چاہیے۔ ہم کل جلدی روانہ ہو جائیں گے‘‘۔
علی روئی دنگ رہ گیا۔ یہ کیا ہے؟۔ عورت کو رات کی پہرہ دے گی جبکہ مرد آرام سے خیمے میں چھپ جائے؟‘‘۔
’’یہ خیمہ بہت بڑا ہے۔ دو لوگ فٹ آ سکتے ہیں‘‘۔
یہ کہنے کے بعد علی روئی نے محسوس کیا کہ کچھ گڑبڑ ہے اور جلدی سے بدل گیا:
’’میرا مطلب ہے ہم باری باری پہرہ دے سکتے ہیں۔ آدھی رات آپ، آدھی رات میں، تاکہ دونوں آرام بھی کرسکیں‘‘۔
فلورا کا چہرہ قدرے سرخ تھا۔ خوش قسمتی سے، کیمپ فائر کے تحت یہ واضح نہیں تھا۔اس نے اپنا سر ہلایا اور کہا:
’’ ٹھیک ہے۔ میں نے ایسا ہی کیا تھا جب شمائلہ کے ساتھ آئی تھی۔ میں اب ایک اعلیٰ ڈیمن ہوں۔ یہ جگہ محفوظ نہیں ہے،کسی بھی وقت خطرہ ہو سکتا ہے۔ تم میں طاقت کی کمی ہے، اس لیے مجھے کرنے دو‘‘۔
’’کیا ایک اعلیٰ ڈیمن کو آرام کرنے کی ضرورت نہیں ہے؟‘‘۔
علی روئی فلورا کو کبھی تنہا نہیں ہونے دے گا۔ اس کے علاوہ اس کی موجودہ طاقت اس سے کم نہیں تھی، صرف اتنا تھا کہ اس کے پاس تجربے کی کمی تھی۔ البتہ وہ اپنے آپ کو خبردار کرنے اور حفاظت کرنے کے قابل تھا۔ علی روئی نے اپنا سر زور سے ہلایا:
’’میںشمائلہ نہیں ہوں۔ کیا آپ بھول گئے کہ مجھ میں حیوان کو چھونے کی صلاحیت ہے؟ ۔ مگدااور کیگو کو باری باری لے کر حفاظت میں مدد کر سکتا ہوں۔ وہ مجھ سے زیادہ تیز ہیں۔ اگر تم رات بھر اکیلے پہرہ دینے پر اصرار کرو گی تو مجھے بھی نیند نہیں آئے گی‘‘۔
اس کے پرعزم رویے کو دیکھ کر فلورا کے دل میں ایک ناقابل بیان سکون بھر گیا۔ اس نے اصرار کرنا چھوڑ دیا، یہ سمجھتے ہوئے کہ رات کے آخری حصے میں جنگل زیادہ خطرناک تھا، اس نے رات کے پہلے نصف میں آرام کرنے کا انتخاب کیا۔
فلورا نے لمبے بیگ کی طرف دیکھا جسے علی روئی نے نکالا اور تجسس سے پوچھا:
’’یہ وہ کیا ہے؟"
’’اسےسلیپنگ بیگ کہتے ہیں۔ اس کا اندرونی حصہ سیبل کی کھال سے ڈھکا ہوا ہے اور بہت گرم ہے۔ جب آپ اسے آزمائیں گے تو پتہ چل جائے گا‘‘۔
’’ٹھیک ہے‘‘۔
فلورا نے اچانک کچھ سوچا، اس کا چہرہ ہلکا سا سرخ ہو گیا:
’’کیا صرف ایک ہے؟‘‘۔
’’میرے پاس صرف ایک ہی بنانے کا وقت تھس۔ یہ آپ کے لیے ہے، میرے پاس دوسرا کمبل ہے‘‘۔
علی روئی نے مسکرا کر اسے بھنا ہوا گوشت دیا۔
فلورا نے روسٹ گوشت لیا، پرسکون ہوئی، کچھ دیر باتیں کیں اور آرام کرنے کے لیے خیمے میں داخل ہوئی۔ گرم سلیپنگ بیگ اور جنگل میں اس کی اچھی عادات نے اسے سونے پر مجبور کر دیا، لیکن اس کی عظیم تلوار اب بھی سلیپنگ بیگ میں اس کے ساتھ تھی۔
پورا دن وائیورن پر سوار ہونے رہنے پر علی روئی اب کوئی عام انسان نہیں رہا، اس لیے اسے واقعی نیند نہیں آرہی تھی۔ اس نے <Analytical Eyes> کو فعال کیا اور قریبی صورتحال پر نظر رکھنے کے لیے اپنے ادراک کے علاقے کو بڑھایا۔ اچانک، اسے جنگل میں ایک عجیب حرکت کا احساس ہوا۔ دو حساس وائیورن نے بھی نوٹس لیا۔ انہوں نے سر اٹھایا اور بے چینی سے کراہتے ہوئے نیچے دیکھا۔ فلورا جو اصل میں ایک چوکس، نیم غیر فعال حالت میں تھی اچانک وائیورن کی کراہوں سے بیدار ہو گئی۔ اس نے فوراً چھلانگ لگائی اور خیمہ کھولا۔
’’علی روئی! کوئی مسئلہ ہے‘‘۔
علی روئی جائزہ لینے کےلیے آگے بڑھا۔ فلورا نے اتنی جلدی رد عمل کا اظہار کیا، اس لیے اسے ہار ماننی پڑی۔ دونوں وائورنس دونوں ایک ہی بات کا اظہار کر رہے تھے۔
’’خطرہ، بہت کچھ! بہت زیادہ خطرہ‘‘۔
علی روئی کو جنگل سے کسی شدید سرسراہٹ کی آواز آئی جو قریب سے قریب تر ہوتی گئی۔ جیسے ہی فلورا نے آگ بجھائی، اس نے علی روئی کا وائیورن کی گرل کا ترجمہ سنا، اسے اچانک ایک افواہ یاد آئی اور بے چینی سے بولی:
’’جلدی، وائیورنس پر سوار ہو کر آسمان کی طرف چلو‘‘۔
علی روئی کو میلا ہونے کی ہمت نہیں تھی، اس لیے وہ جلدی سے وائیورن پر سوار ہوا اور فلورا کے ساتھ آسمان کی طرف اڑ گیا۔ اس وقت سرسراہٹ کی آواز ڈھول کی طرح بھاری ہو چکی تھی۔ اس نے کالے جانوروںکے ایک گورہ تیزی سے بڑھتے ہوئے دیکھا۔
’’اونچے اڑو‘‘۔
فلورا نے چیخ ماری اور انہوں نے وائیورنز کو اونچا کرنے کے لیے قابو کیا۔
اس وقت علی روئی کی بینائی کافی حیرت انگیز تھی۔ وہ واضح طور پر دیکھ سکتا تھا کہ نیچے بڑے بڑے لاکھوں دیومالائی درندے تھے۔ ہر قسم کے دیومالائی درندے، جن میں فوڈ چین کی اوپری اور نچلی دونوں پرتیں شامل تھیں۔ ان کی موجودہ تحریک نمایاں طور پر یکساں تھی۔ وہ سب شدت سے باہر کی طرف بھاگ رہے تھے۔
زمین پر دیومالائی درندوں کے علاوہچمگادڑوں اور پرندوں کا ایک بڑا گروہ بھی تھا جو آسمان میں تیزی سے باہر کی طرف اڑ رہے تھے۔ خوش قسمتی سے فلورا کے کہنے پر وائیورن کی اونچائی اڑنے والے دیومالائی درندوں سے متصادم ہونے سے بچنے کے لیے کافی تھی۔ یہ دیومالائی درندے دوڑنے میں اتنے مصروف تھے کہ ان کی نظر ہی نہیں پڑی۔
اگر فلورا فوری طور پر اطلاع نہ دیتی تو صورتحال خطرناک ہوتی۔ اگرچہ ان دیومالائی درندوں کی طاقت خاص طور پر مضبوط نہیں تھی، لیکن ان کی تعداد خوفناک حد تک زیادہ تھی۔
علی روئی نے حیرت سے پوچھا:
’’ایسا کیا ہے؟‘‘۔
’’یہ کالے برساتی جنگل کا جانور بھیڑ ہے۔ جنگل کے تمام دیومالائی درندے باہر کی طرف بھاگ جائیں گے۔ تھوڑی دیر بعد وہ آہستہ آہستہ واپس آجائیں گے۔ فلورا خوف زدہ نظر آئی۔
’’افواہ یہ ہے کہ حیوانوں کا غول ہر چند سو سال بعد سیاہ جنگلات میں نمودار ہوگا، لیکن اس کی وجہ ابھی تک معلوم نہیں۔ یہاں تک کہ بہترین دیومالائی درندے شکاری بھی درندوں کے غول کے دوران جنگل تک پہنچنے کی ہمت نہیں کرتے۔ میں یقین نہیں کر سکتی کہ ہم واقعی ان کا سامنا کر رہے ہیں‘‘۔
علی روئی نے مسکرا کر سر ہلایا:
’’ہم دراصل اس ’عظیم انعام‘ کا سامنا کرتے ہیں جو صرف ہر چند سو سال بعد ظاہر ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اس آؤٹنگ کی قسمت واقعی اچھی ہے‘‘۔
اس غول کےبعد ایک اور غول پیچھے آیا، جیسے جنگل کے تمام دیومالائی درندے باہر بھاگ گئے ہوں۔ علی روئی نے اپنے تجزیے سے ان مخلوقات کی ہولناکی اور پریشانی کو محسوس کیا لیکن ڈیٹا کی زیادہ مقدار اور تیز رفتاری کی وجہ سے وہ واضح طور پر نہیں جان سکا۔ اس نے کچھ سوچا اور فلورا سے پوچھا:
’’تم کسی دیومالائی درندے کو پکڑ سکتی ؟۔میں یہ سمجھنے کے لیے اپنی بیسٹ ٹمنگ کی مہارت کو آزمانا چاہتا ہوں کہ وہ ایسے کیوں ہیں‘‘۔
وہ یہ خود کر سکتا تھا لیکن خود کو فلورا کے سامنے بے نقاب نہیں کر نا چاہتا تھا، اس لیے اس نے ایسی درخواست کی۔ فلورا نے بھی زیادہ نہیں سوچا اور کیگو کو نیچے اتار دیا۔ ایک چھوٹے سے علاقے میں کئی بار چکر لگانے کے بعد اس کے ہاتھ ایک بڑا دیومالائی درندہ آ گیا۔ یہ ایک تل کی طرح نظر آتا تھا، لیکن اس کے پروں اور تیز پنجوں کا ایک جوڑا تھا۔ اس ’’تل‘‘ کے جذبات کافی خوفناک تھے۔ علی روئی نے اسے پرسکون کرنے کے بعد فلورا کو کچھ کھلانے کا کہا۔ آخر کار وہ قدرے پرسکون ہو گیا۔ تاہم، اس دیومالائی درندے کی ذہانت زیادہ نہیں تھی۔ اس کی گرہوں سے چند الفاظ تھے:
’’ڈیمن پھل! رن!‘‘۔
علی روئی کو تھوڑی سی مانوسیت محسوس ہوئی۔ جیسے اس نے اسے کسی موبائل فون میں سنا ہو۔ اسے دلچسپی ہوئی، لیکن بدقسمتی سے وہ معلومات جو ’’تل‘‘ فراہم کر سکتی تھی بہت کم تھی۔ فلورا نے لفظ ’’ڈیمن پھل‘‘ سنا، تو وہ انتہائی حیران ہوئی۔
’’علی روئی ! مزید معلومات کے لیے اس سے کچھ پوچھ سکتے ہو؟۔نہیں تو میں کسی اور کو پکڑ لاتی ہوں‘‘۔
ایسا لگتا تھا کہ فلورا اس دیومالائی پھل کے لیے بہت حساس تھی۔ اس نے ’’تل‘‘ کو پھینک دیا اور وائیورن کو دوبارہ توڑنے کے لیے نیچے لے گئی۔ ’’تل‘‘ نے اپنے پروں کو پھڑپھڑایا اور خوف زدہ ہو کر بھاگنے والے ہجوم کی طرف بھاگ گیا۔ فلورا نے یکے بعد دیگرے کئی دیومالائی درندے پکڑے لیکن یہ دیومالائی درندے اس سے بھی کم جانتے تھے۔ وہ صرف اتنا جانتے تھے کہ ایک طاقتور بھوت ڈریگن انہیں بھگا رہا ہے۔ اگر وہ فرار نہ ہوئے تو وہ بھوت ڈریگن کی خوراک بن جائیں گے۔ ان ٹکڑوں کو ملا کر علی روئی نے تجزیہ کیا کہ جنگل کی گہرائیوں میں دیومالائی پھل پک رہا ہے اور ایک بھوت اژدہا اس پھل کو کھانا چاہتا ہے، اس لیے اس نے ان تمام دیومالائی درندوں کو بھگا دیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہر چند سو سال بعد کالے جنگلات میں درندوں کا غول نمودار ہوتا ہے، لیکن علی روئی کچھ پریشان تھا۔ چونکہ بھوت ڈریگن میں اتنی طاقت ہے، اس لیے وہ دوسرے دیومالائی درندے کو کیوں بھگاتا ہے؟ کیا یہ اس بات کی فکر ہے کہ پھل دوسرے دیومالائی درندے کھا رہے ہیں؟ یا باہر والوں کو پھل لینے سے روکنا ہے؟۔
علی روئی کا تجزیہ سننے کے بعد فلورا نے ایک لمحے کے لیے سوچا اور کہا:
’’علی روئی ! میرے لیے دیومالائی پھل بہت اہم ہے۔ مجھے یہ ملنا چاہیے! میں جنگل کی سیر کرنے جا رہی ہوں، تم یہاں رہ سکتے ہو۔ اس سے پہلے کہ جانوروںکا غول مکمل طور پر غائب ہو جائے۔ اگر کوئی خطرہ ہو تو وائیورن کے ساتھ فرار ہو جانا‘‘۔
’’رکو!‘‘۔
علی روئی سوچا۔ یہ ایسا پھل ہوسکتا ہے جو بڑے پیمانے پر چمک فراہم کرسکتا ہو۔ اس نے جلدی سے کہا:
’’چلو اکٹھے چلتے ہیں‘‘۔
’’ہیں‘‘۔
فلورا نے اپنا سر ہلایا:
فلوارا نے نفی میں سر ہلایا۔
’’میں نہیں جانتی کہ کس قسم کا ڈریگن بھوت ڈریگن ہے۔اس کی طاقت یقینی طور پر کافی مضبوط ہے۔ میں اپنی قسمت آزمانا چاہتی ہوں، تمہارے لیے بہت خطرناک ہے‘‘۔
’’فلورا! تولان پہاڑ بھی خطرناک ہے۔ تم نے میرا ساتھ کیوں دیا؟۔ فکر نہ کرو، میں تم پر بوجھ نہیں ڈالوں گا۔ میرے پاس حیوانوں کو پالنے کی مہارت ہے۔ اگر واقعی خطرناک ہے تو میں تمہارا کسی محفوظ جگہ پر انتظار کروں گا، ٹھیک ہے؟‘‘۔
یہ دیکھ کر کہ فلورا ابھی تک ہچکچا رہی ہے، علی روئی نے سادگی سے پوچھا:
’’کیا ہم شراکت دار نہیں ہیں؟‘‘۔
فلورا چونک گئی۔ اتفاق سے اس کی آنکھیں علی روئی کی آنکھوں سے جا ملیں۔ ٹھنڈی چاندنی کے نیچے اس کی آنکھیں بہت مسحور کن تھیں۔ اچانک اپنی شرم و حیا کی جگہ گرمجوشی اور اعتماد نے لے لی۔ اس نے ایک گہرا سانس لیا اور سر ہلایا:
’’چلو‘‘۔
انہوں نے وائیورنس کو کنٹرول کرتے ہوئےاونچائی کو کم کیا اور احتیاط سے جانوروں کے غول کی مخالف سمت بڑھے۔ فلورا سے علی روئی کوپتہ چلا کہ دیومالائی پھل ایک بہت ہی نایاب پھل ہے جو چند سو سالوں میں ایک بار پختہ ہوتا ہے۔ یہ انتہائی زہریلا تھا۔ تاہم ڈیمن کے لیے اس کی ایک غیر معمولی اہمیت تھی۔ اگرچہ ڈیمن طاقتور تھے لیکن ان میں انسانوں کے مقابلے میں بہت کم صلاحیت تھی۔ شاہی خاندان کے بہترین افراد کے علاوہ باقی ماندہ ڈیمنوں کی بہتری کی گنجائش محدود تھی۔ مثال کے طور پر زیادہ تر سینٹورس انٹرمیڈیٹ ڈیمن کی سطح پر رہے اور مزید آگے نہ بڑھ سکے۔ اگر ایک گریٹ ڈیمن کے پاس تبدیل شدہ خون کی لکیر نہیں تھی تو بنیادی طور پر ہائر ڈیمن کی حد کو توڑنے کی کوئی امید نہیں تھی۔ یہاں تک کہ فلورا ایک گریٹ ڈیمن جس میں تبدیل شدہ خون کی لکیر ہے اس نے حدوں کو توڑنے کے امکانات کو صرف ایک حد تک بڑھا دیا۔ تو مشکل اب بھی پاگل تھا۔
دیومالائی پھل نہ صرف طاقت بڑھا سکتا ہے بلکہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کا خاص اثر بھی تھا۔ یہ ڈیمنوں کی صلاحیت کو بہت زیادہ بڑھانا اور رکاوٹ کو توڑنے کے امکان کو کئی گنا بڑھانا تھا۔ اضافی خصوصی صلاحیت حاصل کرنے کا ایک چھوٹا سا موقع بھی تھا۔ بنیاد یہ تھی کہ پھل کے مہلک زہر کو برداشت کرنا ہوگا۔ کوئی جتنا مضبوط تھا اتنا ہی مضبوط زہر اور اثر پھل سے ظاہر ہوتا تھا۔ ڈیمنوں کے لیے دیومالائی پھل کی حدود کو توڑنے کے لیے ایک انمول خزانے کے برابر تھا۔ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ فلورا بہت متاثر ہوئی تھی۔ یہاں تک کہ شاہی خاندان کے لیے صلاحیت کے علاوہ طاقت میں اضافہ اور اضافی خصوصی صلاحیت بھی کافی پرکشش تھی۔
جنگل گھنا ہو رہا تھا اور وائیورن کی پرواز کے لیے موزوں نہیں تھا۔ خوش قسمتی سے درندوں کا غول اب ختم ہونے والاتھا، لہٰذا علی روئی اور فلورا اترے اور دونوں وائیورنز کو پکڑتے ہوئے احتیاط سے آگے بڑھے۔ اس وقت کچھ فاصلے پر ہلکی ہلکی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ آواز میں نہ ختم ہونے والی بے رحمی اور سختی تھی۔ مگدااور کیگو گھبرائے ہوئے تھے۔ ان کی آنکھیں وحشت سے بھری ہوئی تھیں۔ کسی بھی صورت میں آگے جانے کی ہمت نہیں تھی۔ علی روئی نے ایک لمحے کے لیے سوچا، اور اس نے دونوں وائیورنز کو آگے بڑھنے پر مجبور نہیں کیا۔ اس نے انہیں اسی جگہ پر چھوڑ دیااور فلورا کے ساتھ آوازوں کی طرف بڑھ گیا۔ فلورا علی روئی کے بغیر آگے جانا چاہتی تھی لیکن وہ انسان کی استقامت کا مقابلہ نہ کر سکی۔
چونکہ آس پاس کے بیشتر دیومالائی درندے جنگل کے مضافات میں بھاگ گئے تھے اس لیے راستے میں کوئی خطرہ نہیں تھا۔ دونوں آہستہ آہستہ آواز کے منبع کے قریب پہنچے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ کچھ دیر کی تلاش کے بعد علی روئی اور فلورا واپس اپنی اصل جگہ پر پہنچ گئے۔
’’مجھے یاد ہے کہ آواز سامنے آ رہی تھی۔ ایسا کیوں ہے؟‘‘۔
علی روئی اور فلورا حیران تھے لیکن علی روئی فلورا کے مقابلے میں ایک اضافی احساس رکھتا تھا۔ ایک عجیب و غریب احساس۔
’’رکو! ایسا لگتا ہے۔۔۔‘‘۔
’’علی روئی !‘‘۔
فلورا نے دیکھا کہ علی روئی سیدھا جھاڑی کے پیچھے ایک بڑے درخت میں داخل ہوا اور غائب ہو گیا۔ وہ بے ساختہ چونک گئی۔ پھر اس نے دیکھا کہ علی روئی کا آدھا جسم درخت سے نکلا ہے۔ فلورا حیرت سے آگے بڑھی۔ جب اس نے درخت کو چھوا تو یہ واقعی جعلی تھا۔ البتہ سامنے جھاڑی اصلی تھی۔ اصلی اور نقلی کا مرکب ہے۔ کوئی تعجب نہیں کہ ہم اتنے عرصے تک صحیح راستہ تلاش نہیں کر سکے۔ البتہ علی روئی نے اسے کیسے تلاش کیا؟۔ ایسا لگتا ہے کہ اسے ساتھ لانا واقعی صحیح انتخاب ہے۔فلورا کے بڑے درخت کے اندر جانے کے بعد اس نے محسوس کیا کہ اس کے سامنے کا منظر تبدیل نہیں ہوا ہے۔ تاہم جب علی روئی اندر آیا تو وہ اسے باہر سے نہیں دیکھ سکی۔ فلورا نے اپنی تلوار نکالی۔ جب وہ سڑک ڈھونڈنے کےلیے آگے بڑھنا چاہتی تھی اس نے اچانک علی روئی کو بڑبڑاتے ہوئے سنا:
’’ہلنا مت!‘‘۔
علی روئی کا چہرہ بہت سنجیدہ تھا لیکن اس کی آنکھوں میں ایک مدھم جوش تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اسے حاصل ہونے والے ایک نئے علم نے اسے اس علاقے کا راز کھول دیا۔
ڈریگن نوشتہ! یہ ڈریگن شلالیہ کا کردار ہے۔
اگر یہ نئی حاصل کردہ <Deep Analysis> مہارت نہ ہوتی، یہاں تک کہ سنکھیار چمچ سے متعلقہ علم کو کھلانے کے ساتھ علی روئی ان اسرار کو حل نہیں کر سکتا تھا۔ گزشتہ چند دنوں کی روح کی تھکن کا بہت بڑا نقصان ضائع نہیں ہوا۔ یہ نوشتہ جات زمین کی گہرائی میں کندہ ہو سکتے ہیں۔ جیسے جیسے کئی سال گزر رہے تھے نوشتہ جات پر پودے اگ رہے تھے۔ البتہ ان کی طاقت اور اثر بالکل کمزور نہیں ہوا تھا۔ اس کے بجائے انہوں نے ان پودوں کو مزید عجیب و غریب اثرات پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا۔ یہ ڈریگن کی سب سے پراسرار قدیم تحریریں تھیں۔
رات کو جنگل میں روشنی کی کمی تھی۔ ایسی جگہیں تھیں جہاں چاند کی روشنی بھی نہیں جا سکتی تھی۔ علی روئی نے سنکھیار کے سکھائے گئے پتہ لگانے کے طریقہ پر احتیاط سے عمل کیا، پھر اس نے کامیابی کے ساتھ نوشتہ جات میں محفوظ جگہ تلاش کی اور ایک اور’’بڑے درخت‘‘ سے گزرا۔ یہ صرف آغاز تھا۔ علی روئی محسوس کر سکتا تھا کہ سامنے بہت سے چھپے ہوئے نوشتہ جات تھے۔ غیر متوقع طاقت کے ساتھ خوفناک بھوت ڈریگن کے ساتھ مل کر ایک بحران کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔
چونکہ علی روئی نے بڑے درخت کا راز دریافت کر لیا تھا، علی روئی کے چیخنے کے بعد فلورا نے حرکت کرنے کی ہمت نہیں کی۔ علی روئی احتیاط سے اپنے سامنے کی طرف چلا گیا نیچے جھک کر غور سے دیکھا۔
’’اس میں <Expulsion> کی طاقت کا امکان ہے۔ اگر کچھ اور قدم اٹھاتے ہیں تو معلوم نہیںکہ جنگل کے کس حصے میں ٹیلی پورٹ کیا جائے گا۔ ہمیں اسے پاس کرنا ہوگا۔ مجھے اپنا ہاتھ دو، میں راستہ دکھاؤں گا‘‘۔
فلورا نے علی روئی کا بڑھا ہوا ہاتھ پکڑنے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔ جب ہاتھ ہاتھوں میں آئے تو دونوں کے دلوں میں بیک وقت ایک عجیب سا احساس ہوا۔ فلورا نے اپنے دماغ میں ایک عارضی خالی جگہ محسوس کی۔ یہ تھوڑا گھبراہٹ اور تھوڑا مٹھاس بھرایک بے مثال احساس تھا۔ اگرچہ اس کا چہرہ پھر سے گرم ہونا شروع ہوا لیکن اسے امید تھی کہ وہ ہمیشہ اس کا ہاتھ تھامے گا۔
جب علی روئی کی شمائلہ سے پہلی ملاقات ہوئی تو انہوں نے ایک بار ’’قریب سے‘‘ ہاتھ بھی پکڑے۔ نتیجے کے طور پر ننھی شہزادی کے ذریعے انہیں بے وقوف بنایا گیا۔ فلورا کا ہاتھ شمائلہ کی طرح ہموار نہیں تھا لیکن اس کی انگلیاں اور ہتھیلیاں زیادہ پتلی اور گرم تھیں۔ ایسی خاص صورت حال میں اس کے دل کی دھڑکن کا تیز ہونا ناگزیر تھا لیکن اس کا دھیان تیزی سے ڈریگن انکرپشن پر چلا گیا۔
<Expulsion> نوشتہ سے گزرنے کے بعد علی روئی اور فلورا دونوں نے محسوس کیا کہ ان کے پورے جسم میں سے ایک مضبوط قابل نفرت قوت بہہ رہی ہے۔ یہ پتھر کے ٹیلوں پر قدم رکھ کر دریا سے گزرنے جیسا تھا۔ ایک غلطی کے نتیجے میں ’’دریا‘‘ بہت دور لے جائے گا۔ کامیابی کے ساتھ پاس کرنے کے بعد فلورا کو علی روئی کی صلاحیت پر مکمل یقین ہو گیا۔ اس کی رائے میں یقینی طور پر ایک اور گرینڈ حکیم کی سوچ تھی جو وقت پر کام آئی۔ اگر وہ نہ ہوتا تو وہ خود ایسی جگہ نہیں آ سکتی تھی۔
میں واقعی نہیں جانتا کہ یہ انسان اور کتنے معجزے پیدا کر سکتا ہے۔
آگے کے خطرات ابھی باقی تھے۔علی روئی نے جانے نہیں دیا جبکہ فلورا کا بھی پیچھے ہٹنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ دونوں ہاتھ پکڑے آگے بڑھتے رہے۔ علی روئی نے لگاتار کئی نوشتہ جات کے مؤثر علاقے سے گزر کر تھوڑا زیادہ اعتماد محسوس کیا۔ اگر گھوسٹ ڈریگن کا خطرہ نہ ہوتا تو قاف کی پہاڑیاں پر جانے سے پہلے اسے آسانی سے ڈریگن انکرپشن کے امتحان کے طور پر لیا جا سکتا تھا۔
اسی لمحے سامنے ایک جگہ پر ہلکی سی سرخ روشنی نمودار ہوئی۔ دونوں احتیاط سے قریب آئے۔ یہ ایک پودا تھا جو تقریباً ایک میٹر اونچا تھا۔ شاخوں پر کناروں کے ساتھ پتے جامنی رنگ کے تھے۔ اس پر چند گول سرخ پھل تھے جن سے ہلکی سی چمک نکل رہی تھی۔ فلورا کی سرخ آنکھیں چمک اٹھیں۔ اس نے دماغ مرکوز کیا اور تحریروں میں دیومالائی پھل کی تفصیل کو احتیاط سے یاد کیا۔ آخر کار اس نے تصدیق کی کہ یہ وہی خزانہ ہے جس کا خواب ڈیمنوں نے دیکھا تھا۔5یا6 پھل ایسے تھے جو لگتے تھے کہ پک گئے ہیں۔ شاہی خاندان کے علاوہ دیگر ڈیمنوں کے لیےان پھلوں کی قدروں کو جادوئی کرسٹل سکوں سے نہیں ماپا جا سکتا تھا۔ ڈیمنوں کی تاریخ میں ایک بار ڈیمن کے پھل کے لیے لارڈز کے درمیان لڑائی ہوئی تھی۔
ایک بار جب میں کوئی ایک پھل کھا لوں گا میرے لیے مستقبل میں اعلیٰ ڈیمن کی حدود کو توڑ کر ڈیمن کنگ، گریٹ ڈیمن کنگ یا اس سے بھی اعلیٰ سطح تک پہنچنے کا ایک اچھا موقع ہوگا۔ فلورا نے دل میں جوش کو دبایا اور عجلت سے کام نہیں لیا۔ اس کے بجائے وہ اپنے اردگرد کے ماحول سے محتاط تھی۔ حیرت انگیز طور پر ’’افواہ‘‘ بھوت ڈریگن جو ڈیمن کے پھل کو کھا جانا چاہتا تھا کہیں نہیں ملا۔ جیسے ہی وہ قریب آنے ہی والی تھی علی روئی نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا۔
’’مجھے کچھ غلط محسوس ہوا۔ جلدی نہ کرو‘‘۔
’’کیا تم جانتے ہو؟ شاہی خاندان کے علاوہ ڈیمنوں کے لیے کوئی بھی دیومالائی پھل کے فتنوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ مجھے ملنا ضروری ہے‘‘۔
فلورا نے اپنا ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا:
’’اگر میں نے یہ موقع نہیں لیا تو مجھے ڈر ہے کہ بھوت ڈریگن کے آنے پر ہم سب خطرے میں پڑ جائیں گے‘‘۔
فلورا احتیاط سے چند قدم آگے بڑھی۔ اس بات کو یقینی بنانے کے بعد کہ کوئی خطرہ نہیں ہے، وہ ڈیمن پھلوں کی طرف لپکی۔
’’رکو‘‘۔
جب فلورا پہلی بار آگے بڑھی تو علی روئی کو اچانک کچھ یاد آیا۔ فلورا پہلے ہی ہوا میں تھی اور دیومالائی پھل کو پکڑنے کی کوشش کر رہی تھی۔ پہلے ہی بہت دیر ہو چکی تھی۔
’’اپنی تلوار اس کی طرف پھینک دو فلورا۔۔۔جلدی‘‘۔
علی روئی کی چیخوں نے فلورا کو چونکا دیا۔ علی روئی پر اپنے بھروسے کی وجہ سے وہ ہوا میں اپنے گریٹ ڈیمن کی جنگی شکل میں داخل ہوئی اوردانت پیس کر دیومالائی پھل پر اپنی تلوار پھینک دی۔
’’پوم! پوم! پوم! ‘‘۔
ایک کے بعد ایک دھماکے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ عظیم تلوار اڑا دی گئی اور پھٹ گئی۔ دھماکے کے نتیجے میں فلورا بھی واپس اڑا دی گئی، لیکن زمین پر گرنے سے پہلے ہی علی روئی نے اسے بانہوں میں لے لیا۔ اس قوت نے علی روئی کو چند قدم پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ اس نے تقریبا اپنا توازن کھو دیا۔ اس نے دیکھا کہ فلورا اپنے بازوؤں میں معمول کی شکل میں لوٹ آئی ہے اور اس کا جسم خون میں ڈھکا ہوا ہے۔ اس کے کندھے پر ایک ٹوٹا ہوا بلیڈ بھی تھا۔ خوش قسمتی سے عظیم تلوار نے نوشتہ کی طاقت کو آگے بڑھا دیا، بصورت دیگر فلورا شاید اس بکھری ہوئی تلوار کی طرح ختم ہو جاتی۔ ٹوٹے ہوئے بلیڈ کی قوت کندھے کی پلیٹ سے کم ہو گئی تھی۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو اس کا پورا بازو کٹ سکتا تھا۔ یہ بدقسمتی میں ایک نعمت تھی۔ فلورا کا جسم غیر ارادی طور پر کانپ رہا تھا۔ چاند کی روشنی میں اس کا چہرہ خاصا تاریک تھا اور شدید زخمی تھی۔
’’فلورا!‘‘۔
علی روئی پچھتا رہا تھا۔ مجھے پہلے کیوں محسوس نہیں ہوا کہ دیومالائی پھل میں کچھ گڑبڑ ہے؟۔ وہاں ایک نوشتہ ہونا ضروری ہے۔ یہ جس معنی کی نمائندگی کرتا ہے وہ <آئینہ اور دھماکہ<ہے۔ دیومالائی پھل بیت کے طور پر صرف ایک آئینہ تھا۔ اس کا اصل ارادہ ایک دھماکے کا جال تھا۔
فلورا کو اپنے پورے جسم میں درد محسوس ہوا۔ حتیٰ کہ وہ بات کرنے کی طاقت بھی کھو بیٹھی۔ وہ جانتی تھی کہ اگر علی روئی کی یاد دہانی نہ ہوتی تو مر چکی ہوتی۔ بشریٰ کے پریشان چہرے کو دیکھ کر اس کا دل ندامت سے بھر گیا:
’’مجھے افسوس ہے کہ میں بہت ضدی تھی اورتمہاری نصیحت نہیں سنی‘‘۔
اگر اس کی بے تابی نہ ہوتی تو نہ صرف وہ اب زخمی نہ ہوتی بلکہ اس کا ہاتھ اب بھی اس شخص کی گرمجوشی میں ہونا تھا۔ میں نے اس پر بھروسہ کیوں نہیں کیا؟۔
’’اب یہ کہنے کا کیا فائدہ۔ پہلے تمہیں ٹھیک کر لوں‘‘۔
علی روئی آہستہ سے نیچے بیٹھ گیا۔ اس نے خلائی کڑا سے ایک کمبل نکالا اور زمین پر گاڑ دیا۔ پھر احتیاط سے فلورا کو اوپر رکھا۔ دانت بھینچے، ٹوٹی ہوئی تلوار نکالی، کندھے کی پلیٹ ہٹائی، زخم پر شفا بخش پاؤڈر چھڑکا اور اس پر پٹی باندھ دی۔ اس کے بعد اس نے شفا بخش دوائیوں کی ایک بوتل کا تبادلہ لی اور اس کے منہ میں ڈال انڈیل دی۔
’’فلورا! میں جانتا ہوں کہ دیومالائی پھل تمہارے لیے بہت اہم ہے۔ میں ابھی بہت سست جواب دینے کے لیے خود کو مورد الزام ٹھہراتا ہوں۔ میں نے پہلے اس جال کو نہیں دیکھا۔ فکر نہ کرو۔ میں پھل حاصل کرنے میں ضرور تمہاری مدد کروں گا۔ میرا انتظار کرو اور حرکت نہ کرو‘‘۔
’’مت جاؤ‘‘۔
فلورا کانپ گئی اور وہ خوفزدہ نظر آئی۔
’’یہاں بہت خطرہ ہے۔ مجھے اب دیومالائی پھل نہیں چاہیے۔ چلو چلتے ہیں‘‘۔
’’میرا یقین کرو! یاد رکھو دور نہیں جانا۔ ہر طرف خطرناک جال ہیں۔ جب میں واپس آؤں تمہیں یہیں ہونا چاہیے‘‘۔
علی روئی نے اس کا ہاتھ سختی سے پکڑا۔ پھر وہ کھڑا ہوا اور غور سے زمین کی طرف دیکھنے لگا۔ وہ تیزی سے دوسری طرف چلا گیا اور پلک جھپکتے ہی فلورا کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ فلورا کی آنکھیں پہلے ہی سرخ ہو چکی تھیں۔ وہ اپنی زندگی میں پہلی بار اپنے باپ کے علاوہ کسی اور آدمی کے لیے دیومالائی دیوتا سے دعا کرنے لگی۔ علی روئی نے پہلے ہی آئینے کی تصویر سے اصل پھل کی جگہ کا اندازہ لگا لیا تھا۔ شاید اس نے دیکھا کہ دھماکے کے جال کو متحرک کیا گیا تھا، خوفناک دھاڑ دوبارہ سنائی دینے لگی۔ بظاہر قریب آنے والے کو خبردار کرنے کے لیے۔ علی روئی نے محسوس کیا کہ آواز قریب سے قریب تر ہوتی جارہی ہے۔ وہ جانتا تھا کہ صحیح سمت میں ہے۔ اسے صرف اس بات کی فکر تھی کہ اس طاقتور بھوت ڈریگن کی طرف سے اس کی نظر ہو جائے گی اس لیے اس نے احتیاط کی تھی۔ اس نے زیادہ شور مچانے کی ہمت نہیں کی۔
پھندوں کے ایک سلسلے سے گزرتے اور <Hidden and Teleportation> کے نوشتہ کو نظرانداز کرتے ہوئے اس کی آنکھوں کے سامنے پتھر کا نسبتاً کھلا ڈھیر نمودار ہوا۔ پتھروں کے ڈھیر کے نیچے ایک پودا تھا جو آئینے کی تصویر سے ملتا جلتا تھا۔ یہ دیومالائی پھل تھا۔ تاہم سب سے زیادہ دلکش چیز دیومالائی پھل نہیں تھا جس میں ہلکی سرخ روشنی تھی بلکہ وہ بڑی شخصیت تھی جو پھل کے ساتھ لگی ہوئی تھی۔ یہی ڈریگن تھا۔ زیادہ درست طور پریہ ایک ڈریگن کا زندہ کنکال تھا۔ جامنی چاندنی کے نیچے بہت بڑا سفید کنکال ایک عجیب رنگت میں لپٹا ہوا تھا۔ آنکھوں کا جوڑا جو خالی ہونا چاہیے سبز روشنی میں چمک رہا تھا جس سے علی روئی کو اپنی ریڑھ کی ہڈی میں ٹھنڈک محسوس ہوئی۔ علی روئی آخر کار سمجھ گیا کہ اس چیز کو بھوت ڈریگن کیوں کہا جاتا ہے۔ اگرچہ بھوت ڈریگن انتہائی طاقتور نظر آتا تھا لیکن اس نے علی روئی کے وجود کا پتہ نہیں لگایا۔ علی روئی نے اسے دوبارہ آسمان کی طرف چیختے ہوئے دیکھا۔ علی روئی قریب تھا۔ اس نے آواز میں ایک خوفناک دباؤ محسوس کیا جس نے بھی اسے سنا ڈر جائے گا۔ اس قسم کا دباؤ علی روئی نے صرف سنکھیار سے محسوس کیا تھا۔ صرف اتنا تھا کہ اس بھوت ڈریگن کا دباؤ زہریلے ڈریگن سے بہت کمتر تھا۔ یقینی طور پر ڈریگن کا برتاؤ تھا۔
اگرچہ بھوت ڈریگن کا مقام ابھی تک <Analytical Eyes> کی مؤثر حد تک پہنچنا باقی تھا، علی روئی نے لاپرواہی سے آگے بڑھنے کی ہمت نہیں کی۔ زہریلے ڈریگن نے ایک بار کہا تھا کہ نئے پیدا ہونے والے ڈریگن میں بھی ڈیمن بادشاہ کی طاقت ہوتی ہے۔ شاید نوشتہ جات کی طاقت سے یہ ڈیمن شہنشاہ کی طاقت پر تھا اور اس سے بہت دور تھا جسے وہ اپنی موجودہ طاقت سے سنبھال سکتا تھا۔
’’اس صورت میں دیومالائی پھل کیسے حاصل کر سکتا ہوں؟‘‘۔
علی روئی نے سوچا اور اس کی نظریں اس کے پیچھے لکھی تحریر پر مرکوز تھیں۔ ڈریگن شلالیہ ایک ذہین ’’پروگرام‘‘ نہیں تھا۔ جب تک انفرادی خون کی لکیر کی طرح ایک خاص نوشتہ نہ ہو جب تک کوئی متحرک ہوتا ہے، یہ اسی طرح کا اثر پیدا کرے گا چاہے وہ اس کا خالق ہی کیوں نہ ہو۔ اگرچہ علی روئی کی طاقت اکیلے طاقتور نوشتہ تیار نہیں کر سکتی تھی، ڈریگن ان سکریپشن کے سپرسسٹم کی موجودہ ’’تفہیم‘‘ کے ساتھ کچھ ایسی تخلیق کرنا جو دستیاب نوشتہ جات کو متحرک اور مربوط کر سکے۔ بہترین حل یہ تھا کہ بھوت ڈریگن کو فوری طور پر دوسری جگہ منتقل کرنے کے لیے <ٹیلی پورٹیشن>انکرپشن کی ایک سیریز کا استعمال کیا جائے۔ پھر وہ فلورا کے ساتھ جلدی سے وہاں سے نکل سکتا ہے۔
بھوت ڈریگن تھوڑی دیر تک گرجتا رہا۔ جب اسے دوسرے گھسنے والوں کی موجودگی کا احساس نہ ہوا تو اس نے فوراً اپنا سر نیچے کر لیا اور بڑی کھوپڑی ڈیمن کے پھل کے اوپر آ کر رک گئی۔ بھوت ڈریگن کی آنکھوں میں ہلکی سبز روشنی منہ میں جانے لگی۔ آہستہ آہستہ زبان کی طرح دیومالائی پھل کی طرف بڑھ رہی تھی۔ یہ خاصا عجیب لگ رہا تھا۔ اسی وقت اچانک دائیں طرف سے آواز آئی۔ سبز روشنی کانپ کر پیچھے ہٹ گئی۔ ڈریگن کا سر دوسری طرف مڑ گیا اور احساس دلایا کہ اس کا ردعمل سست ہے۔ بھوت ڈریگن آہستہ آہستہ آواز کی سمت چلا اور کئی بار چیخا۔ یہ طاقتور ڈریگن کے برتاؤ کے ساتھ ایک مرکب تھا جو انتباہ اور دھمکیوں سے بھرا ہوا تھا۔ دیومالائی پھلوں کے سامنے ایک شکل بجلی کی طرح نمودار ہوئی اور ہاتھ ہلانے سے تمام6 پھل غائب ہو گئے تھے۔
بھوت ڈریگن کا رد عمل کافی سست معلوم ہوتا تھا۔ اس نے سر پھیرا اور دیکھا کہ پھل غائب ہیں۔ وہ غصے سے دھاڑتا ہوا اس شخصیت کی طرف بڑھا جس نے پھل لیا تھا۔ ڈریگن کے برتاؤ سے وہ خوفزدہ دکھائی دے رہا تھا کیونکہ وہ شکل اچانک دنگ رہ گئی۔ شکل دھیمی ہوئی اور ڈرتے ڈرتے پیچھے ہٹ گئی۔ جس نے ڈیمن کا پھل لیا وہ واضح طور پر علی روئی تھا۔ وہ جانتا تھا کہ ان کی طاقت کا فرق بہت بڑا ہے۔ اس کی رفتار بھوت ڈریگن سے بے مثال تھی لہٰذا پوری طاقت سے نہیں بھاگا لیکن اس نے ایسا کام کیا جیسے اسے ڈرایا گیا ہو اور بھوت ڈریگن کو <ٹیلی پورٹیشن< انکرپشن ٹریپ کو متحرک کرنے کے لیے لے گیا۔
علی روئی کی نظر میں بھوت ڈریگن اپنے منصوبے کے ذریعے دیکھ رہا تھا۔ اس نے جلد بازی میں پیچھا نہیں کیا۔ کنکال کے پروں کا جوڑا دھیرے دھیرے پھڑپھڑا رہا تھا جس سے بہت بڑا نفسیاتی دباؤ تھا۔ ڈیمن کے دائرے کی عام زبان بھوت ڈریگن سے آئی ہے:
’’گھسنے والے! پھل واپس کرو ،میں تمہاری چھوٹی سی زندگی بچا دوں گاورنہ تیرا گوشت میرے منہ میں پیٹو بن جائے گا!‘‘۔
علی روئی کو ٹھنڈا پسینہ آ رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ اسے بھوت ڈریگن کے حملے سے پہلے فرار ہونے کے لیے خود ہی <ٹیلی پورٹیشن>نوشتہ کو متحرک کرنا ہوگا۔ اگر وہ واقعی ایسا نہیں کر سکتا تھا تب بھی اس کے پاس ’’ڈارک وِل‘‘ رنگ کی <ٹیلی پورٹیشن>مہارت تھی۔ مسئلہ یہ تھا کہ فلورا ابھی بھی آس پاس تھی اور غالباً اسے بھوت ڈریگن نے دریافت کر لیا تھا۔ فلورا کی موجودہ صورت حال کے ساتھ اس کا فرار ہونا بالکل ناممکن تھا۔
فلورا کو چھوڑ کر خود سے بھاگو؟ مجھے بہرحال دیومالائی پھل مل گیا ہے۔
ساتھی کو ترک کرنا، کون میرے ساتھ تولان پہاڑ جانے کا خطرہ مول لینے کو تیار ہے؟۔
قریب آنے والے بھوت ڈریگن کے سامنےعلی روئی نے فوری طور پر فیصلہ کیا۔ اس نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور اپنی ہتھیلی کھولی۔ بھوت ڈریگن کو غصہ دلانے کے لیے <Aurora Shot> استعمال کرنے کی تیاری کرنے لگا۔ طاقتور ڈریگن کا برتاؤ قریب آ رہا تھا ۔
’’گدی میں حکیم گھوسٹ ڈریگن تمہیں آخری موقع دیتا ہے‘‘۔
علی روئی اس طرح کے بے بنیاد خطرے پر بالکل یقین نہیں کرتا تھا۔ اگر وہ واقعی پھل واپس کرتا تو شاید فوراً مر جاتا۔ تاہم بھوت ڈریگن ڈراتا رہا۔ اس نے حقیقت میں کوئی حرکت نہیں کی۔ عین اس وقت جب علی روئی نے بھوت ڈریگن کی توجہ ہٹانے کا منصوبہ بنایا، <Analytic Eyes> کے ذریعے دکھائے گئے ڈیٹا نے اس کا ذہن بدل دیا۔
کیچڑ جامع تشخیص: D۔۔۔۔ جسم: نامعلوم۔۔۔۔ طاقت: نامعلوم۔۔۔روح: نامعلوم۔۔۔چستی: نامعلوم۔
کیچڑ بھوت ڈریگن نہیں؟۔
ڈی لیول؟۔۔۔ یہ صرف ایک اعلی ڈیمن ہے؟ پھر ڈریگن کے برتاؤ کے ساتھ کیا ہے؟۔
علی روئی نے خطرہ مول لیا اور فوری طور پر اپنی اسٹار پاور پر توجہ مرکوز کیAurora Shot>>۔
بہت بڑی سفید گیند بھوت ڈریگن سے ٹکرا گئی۔ بھوت ڈریگن کے بہت بڑے جسم کو دراصل <اورا شاٹ< کی طاقت سے پیچھے دھکیل دیا گیا تھا۔ ہڈیوں کے کچھ ٹکڑے بھی گر رہے تھے۔ بمشکل اپنے جسم کو مستحکم کر سکتا تھا۔ یہاں تک کہ اس کا ایک پر بھی ختم ہو گیا۔ ترقی پانے کے بعد پہلی بار علی روئی نے <Aurora Shot> کا استعمال کیا۔ اس نے محسوس کیا کہ اسٹار پاور کا استعمال اسٹار کلیکٹر کے مقابلے میں بہت کم تھا۔ اسے فوری طور پر خالی ہونے کا احساس نہیں تھا۔ <اورا شاٹ< نے تصدیق کی کہ اس کی آنکھوں کے سامنے درندہ صرف ایک کاغذی شیر تھا۔ علی روئی کا دل پرسکون تھا۔ اس نے چھلانگ لگائی، ’’بھوت ڈریگن‘‘ کے ساتھ پکڑا اور اپنی پسند کے مطابق اپنی جنگی طاقت کا اظہار کیا۔
’’سنکھیار کی طرف سے کئی بار تشدد کا نشانہ بننے کے بعد آخر کار اس بار اس ڈریگن سے کچھ دلچسپی لے سکتا ہوں۔ تاہم ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں ایک لاش کو کوڑے مار رہا ہوں‘‘۔
’’بھوت ڈریگن‘‘ کی حرکت سست تھی۔ یہ علی روئی کے حملے میں کچھ نہ کر سکا۔ پھر بھی ایسا لگتا تھا کہ اسے کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوئی۔ وہ اب بھی گرج رہا تھا:
’’گدی! میری طاقت پہلے ہی ٹھیک ہو رہی ہے۔ اگر تم ابھی نہیں بچتے تو اپنی ہڈیاں کچلوانےکے لیے تیار رہو!‘‘۔
علی روئی بالکل بھی پیچھے نہیں ہٹا۔ اس کا حملہ شدید ہو گیا۔ وہ پہلے ہی واضح تھا۔ یہ نام نہاد بھوت ڈریگن محض ایک ’’کیچڑ‘‘ ہے جو ڈریگن کی طاقت سے ڈراتا ہے۔ یہ دراصل جنگل کے تمام دیومالائی درندوں کو دھوکہ دیتا ہے۔وئی تعجب نہیں کہ بھوت ڈریگن صرف ڈرانے والاہے کیونکہ اس نے کوئی حقیقی خوفناک حملہ شروع نہیں کیا۔ تاہم حیران کن بات یہ ہے کہ ڈریگن نوشتہ جات اور ڈریگن کا طرز عمل دراصل حقیقی ہیں۔
اس وقت ’’بھوت ڈریگن‘‘ کی آنکھوں میں سبز روشنی آہستہ آہستہ ختم ہوگئی۔ علی روئی نے دیکھا کہ سبز روشنی خفیہ طور پر حرکت کر رہی تھی جبکہ ’’بھوت ڈریگن‘‘ کا جسم آہستہ آہستہ ہلکا اور سخت ہوتا گیا جیسے جیسے سبز روشنی ختم ہوتی گئی، یہ بالکل بھی بے جان ہڈیوں کے ڈھیر کی طرح حرکت نہیں کرتا تھا۔
<Analytic Eyes> کا ڈسپلے اب بھی موجود ہے۔ علی روئی نے زمین پر ہلکی سی رینگتی ہوئی چیز کا ڈھیر دیکھا۔ اس نے اس پر بہت زور لگایا۔ یہ چیز پھسل گئی اور اس کے پاؤں سے لگ گئی۔ اس نے اچانک اونچی چھلانگ لگائی جو کئی گنا بڑھ گئی۔ یہ آسمان سے ڈھکنے والی ایک بڑی جیب کی طرح تھا جو اسے نگلنا چاہتا تھا۔ علی روئی کے ہاتھ سے فوری طور پر دھاتی چمک نکلی۔ ماضی کی کٹی ہوئی روشنی کی لکیر کے طور پر’’جیب‘‘ دو حصوں میں تقسیم ہوگئی۔ اس کے بعد <Aura Blade> نے عجیب ’’کیچڑ‘‘ کو ٹکڑوں میں کاٹ دیا۔ عجیب بات یہ تھی کہ ٹکڑے مردہ نہیں تھے۔ وہ تیز رفتاری سے علی روئی کی طرف لپکے، اسے دوبارہ اپنی لپیٹ میں لینا چاہتے تھے۔ علی روئی نے کچھ سوچا اور چلایا:
<تباہ کن اورا بلو<
اسی لمحے تیز رفتاری سے چمکتے ہوئے تمام ٹکڑے زندہ رونس کی طرح نمودار ہوئے۔ درحقیقت بے شمار تیز قوتیں تیز رفتاری سے کاٹ رہی تھیں۔ پلک جھپکتے ہی ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ان گنت ذرات میں کٹ کر زمین پر گر گئے۔ یہ علی روئی کا پہلا موقع تھا کہ وہ اس ’’تباہ کن اورا بلو‘‘ کو حملے کے ساتھ استعمال کر رہا تھا۔ اس کا اثر بہت شاندار تھا۔ اس کی طاقت بھی متاثر کن تھی۔ تاہم سنگل یونٹ پر حملہ کرنے والے <Aura Blade> کے مقابلے میں طاقت کمتر محسوس ہوئی۔ اس نے بہت زیادہ طاقت کا استعمال کیا۔ <Aura Blade> سے چند گنا زیادہ طاقت استعمال کی لیکن یہ متعدد دشمنوں سے نمٹنے کے لیے موزوں تھا۔
’’ارے!‘‘۔
لطیف آوازیں اس طرح اکٹھی ہوئیں جیسے بیک وقت ہزاروں لوگ بول رہے ہوں۔ <destructive Aura Blow> کے حتمی اقدام کو سہنے کے بعد یہ عجیب کیچڑ تباہ نہیں ہوا تھا۔
لافانی۔ علی روئی نے جھکایا۔ یقینی طور پر لاتعداد ذرات ایک ساتھ جمع ہو گئے اور اصل ’’چیز‘‘ بن گئے۔
’’تمہارے حملے بہت تکلیف دہ ہیں۔ تمہیں قیمت چکانی پڑے گی‘‘۔
بات بحال ہونے کے بعد اس کا منہ دوبارہ کھلا۔ علی روئی نے اپنا ہاتھ کھولااور <اورورا شاٹ>کا دوسرا شاٹ باہر نکلا، جو اس کے منہ میں جا لگا۔ بہت بڑی روشنی کی گیند نے اسے سیدھا آسمان میں لے لیا اور کافی دیر بعد ہی گرا۔
<Aurora Shot> کی سفید روشنی کے نیچے علی روئی کو معلوم ہوا کہ یہ چیز ربڑ کی طرح شفاف تھی۔ <Aurora Shot> کو مارنے کے بعد بھی یہ نہیں پھٹا، لیکن یہ ان گنت سفید روشنی میں بکھر گیا جس نے اس چیز کے پورے جسم کو بھر دیا جس سے رگ جیسی ساخت دکھائی دے رہی تھی۔ علی روئی تھوڑا سا ہانپ رہا تھا۔ آخری <Aurora Shot> استعمال کرنے کے بعد اس کی اسٹار پاور کم چل رہی تھی۔ اس کے پاس بس یہی تھا۔ اگر وہ اب بھی مخالف کو ختم نہ کر سکا تو وہ دیومالائی پھل کے ساتھ ہی بچ سکتا ہے۔ <Aurora Shot> اب بھی اس چیز کو نہیں مار سکا لیکن اس نے کافی نقصان پہنچایا۔ تباہ کن چمک غائب نہیں ہوئی لیکن اس کے جسم کے مختلف حصوں میں بکھر گئی جس سے وہ فرش پر مفلوج ہو گیا اور ایک دم سے حرکت کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھا۔ علی روئی ن وہ بچ نہیں پایا۔
’’ایسی بہادری؟ ۔تم واقعی میں مجھ سے انکار کرنے کی ہمت کر رہے ہو‘‘۔
وہ چیز اب بھی شکست تسلیم نہیں کرنا چاہتی تھی۔
’’میں ڈریگن کا حقیقی ساتھی ہوں‘‘۔
علی روئی نے بجا طور پر تردید کی۔
’’صرف ایک کیچڑ جو ڈریگن ہونے کا بہانہ کرنے کی ہمت رکھتا ہے۔ میں تمہیں اب تباہ کر دوں گا‘‘۔
’’تم۔۔۔تم کیسے جانتے ہو کہ ڈوڈو ایک کیچڑ ہے؟۔ ڈوڈو کو مت مارو!‘‘۔
اس آدمی کو توقع نہیں تھی کہ مخالف حقیقی ڈریگن پارٹنر ہوگا۔ اس نے آسانی سے اس کی شناخت کو بے نقاب کردیا۔ اسے گھبراہٹ ہونے لگی۔
درحقیقت علی روئی کے دو <اورا شاٹ< فی دن استعمال ہو چکے تھے۔ اب، وہ صرف ڈوڈو کو ڈرا رہا تھا۔ اس نے پوچھا:
’’تم نے بھوت ڈریگن ہونے کا ڈرامہ کیوں کیا؟۔ تم نے حیوانوں کا غول کیوں بنایا؟ جواب دو‘‘۔
’’ہمم ۔۔میں تمہیں نہیں بتاؤں گا‘‘۔
ڈوڈو نے یہ کہہ کر علی روئی کی انگلیاں دیکھیں جو رسکون تھیں، اچانک کھل گئیں۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اس پوز نے خوفناک حملے کو جنم دیا اس لیے اس نے اچانک اپنے الفاظ بدل دیے۔
’’مجھے معاف کر دو۔ میں تمہیں سب کچھ بتا دوں گا۔ جناب! پہلے اپنی ٹانگ ڈھیلی کریں‘‘۔
علی روئی نے اپنی ٹانگ چھوڑ دیں۔ جب کہ <اورورا شاٹ>کی بقایا قوت آہستہ آہستہ اس کے جسم میں غائب ہوتی گئی۔ یہ فوراً ہی اونچا اچھل کر ایک طرف بھاگا۔ ابھی تک چیخ رہا تھا۔ ’’آپ نے مجھے ناراض کرانے کی ہمت کی، سر ڈوڈو!۔ آپ دیکھیں گے کہ میں کیسے۔۔۔‘‘۔
اس سے پہلے کہ وہ اپنی ظالمانہ باتیں مکمل کرتا، اسے اپنی آنکھوں کے سامنے ہر طرف چنگاری محسوس ہوئی۔ پھٹنے والی آواز کی ایک سیریز کے بعد ڈوڈو ٹکڑوں میں بکھر گیا اور زمین پر گر گیا۔ پتہ چلا کہ اس نے اتفاق سے اس نوشتہ کو متحرک کیا جسے علی روئی نے پہلے ترتیب دیا تھا۔ خوش قسمتی سے یہ صرف <Explosion> نوشتہ تھا۔ اگر یہ دوسری سمت میں <ٹیلی پورٹیشن< نوشتہ ہوتا تو ڈوڈو اب کامیابی سے فرار ہو جاتا۔ ڈوڈو کا جسم بہت عجیب تھا۔ <Explosion> لکھا ہوا اسے مار نہیں سکتا۔ اس کی تعمیر نو کی رفتار بھی واقعی تیز تھی۔ نسبتاً بولتے ہوئے <اورورا شاٹ< نے اسے زیادہ نقصان پہنچایا۔ کوئی تعجب کی بات نہیں کہ یہ اتنا خوفزدہ تھا۔
’’پھرتمہیں ۔۔۔مجھے فوراً مارنا ہوگا!‘‘۔
علی روئی ڈوڈو کے سامنے نمودار ہوا۔ اس کا رویہ اس طرح تھا جیسے وہ سب باہر نکل رہا ہو۔
’’چاہے میں مر بھی جاؤں۔۔۔‘‘۔
ڈوڈو نے زور سے کہا۔ جب اس نے علی روئی کی کھلی ہوئی انگلیاں دیکھیں تو فوراً ہی اس کی آواز انتہائی دلکش ہو گئی:
’’جناب! آپ کا سب سے عاجز بندہ، ڈوڈو آپ کے تمام شکوک کو دور کرنے کے لیے تیار ہے‘‘۔
ڈوڈو نے اپنا چہرہ اتنی تیزی سے بدلاکہ یہ ’’طاقتور اور تابعدار دونوں ہونے کے قابل‘‘ ہو سکتا ہے۔
’’میں اب تم پر یقین نہیں کروں گا‘‘۔
علی روئی نے جان بوجھ کر کہا۔ ڈوڈو کو معلوم تھا کہ کچھ ٹھیک نہیں ہے، اس لیے اس نے اپنا منہ کھولااور ایک طومار جو عجیب و غریب طاقت کے ساتھ مرتکز تھا نمودار ہوا۔
’’پلیز مجھے مت مارو‘‘۔
یہ علی روئی کا پہلا موقع نہیں تھا جب وہ حکیم سرونٹ کنٹریکٹ پر دستخط کر رہا تھا۔ ظاہر تھا کہ یہ معاہدہ جعلی نہیں تھا، اس لیے اس نے فوراً دستخط کر دیے۔ ایک اوسط شخص صرف ایک معاہدہ لے سکتا ہے۔ اب علی روئی کے اصل میں چار معاہدے تھے، جو 3 حکیم سرونٹ کنٹریکٹ اور 1 سمبیوٹک کنٹریکٹ تھے۔ شاید وہ مزید دستخط کر سکتا ہے۔ آقا نوکر کے معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد علی روئی نے قدرتی طور پر ڈوڈو پر تشدد کرنا چھوڑ دیا اور اپنا پاؤں ڈھیلا کر دیا۔ یہ ٹھیک ہے اگر اس آدمی کے پاس Dسطح کی طاقت ہے لیکن کلید یہ ہے کہ یہ لافانی ہے اور یہ ڈریگن کی ہڈیوں کو ڈریگن کے برتاؤ کو استعمال کرنے کے لیے چلا سکتا ہے۔ یہ واقعی آسان نہیں ہے۔ ڈوڈو کا جسم جو چپٹا تھا دھیرے دھیرے پھول گیا اور ایک بیسن کے سائز پر واپس آ گیا۔ اس کا اصلی چہرہ ظاہر ہو رہا تھا۔ اس کی شکل عجیب تھی۔ اس کے کوئی اعضاء نہیں تھے۔ پورا جسم بڑی بڑی آنکھیں، چھوٹی سی دھبوں والی ناک اور بغیر دانتوں والاچہرہ تھا۔ یہ ایک پارباسی بڑے پیاز کی طرح لگ رہا تھا۔ یہ اپنے جسم کو چشمے کی طرح زمین پر اچھال کر ادھر اُدھر ہو گیا۔
’’میرے مہربان آقا!‘‘۔
اگرچہ ڈوڈو کے کوئی اعضاء نہیں تھے لیکن اس کے چہرے کے تاثرات کافی بھرپور تھے۔ یہ چاپلوسی لگ رہا تھا:
’’میرا جسم کافی مقدار میں جادو اور جسمانی نقصان کو جذب کر سکتا ہے۔ یہاں تک کہ اگر مجھے بلیڈ کے ذریعے ان گنت ٹکڑوں میں کاٹا جائے تب بھی میں دوبارہ پیدا کر سکتا ہوں۔ تاہم حکیم کے حملے نے ابھی میرے جسم کو مکمل طور پر گرا دیا تھا۔ تمہاری طاقت بہت زیادہ طاقتور اور بہت بری ہے‘‘۔
لامتناہی چاپلوسیوں کے اندر علی روئی کوچلبل یا دیدی کا پیاز کا ورژن نظر آتا تھا۔ تاہم ڈوڈو کی قابلیت نے اسے خفیہ طور پر چونکا دیا۔ یہ جسمانی اور جادوئی حملوں سے نہیں ڈرتا اور دوبارہ پیدا بھی کر سکتا ہے۔ یہ کون سی عفریت ہے؟۔
چونکہ آقا خادم کا معاہدہ ہو چکا تھا، ڈوڈو نے سب کچھ تسلیم کیا۔
جیسا کہ <Analytical Eyes> میں دکھایا گیا ، ڈوڈو ایک کیچڑ تھا۔
علی روئی نے سن رکھا تھا کہ دیومالائی دائرےمیں گرے ہوئے ڈریگن بری نظر کے ظالم، اور عنصری لارڈز جیسی طاقتور رکھتے ہیں۔ اس نے مشہور دیومالائی درندوں جیسے وائیورن اور ڈراؤنے خواب کے بارے میں بھی سنا۔ تاہم کسی نے بھی اس کے سامنے لفظ ’’کیچڑ‘‘ کا ذکر نہیں کیا۔ وجہ سادہ تھی، وہ بہت کمزور تھے۔ وہ نظر انداز کرنے کے لئے کافی کمزور تھے۔ کیچڑ دیومالائی درندوں کی خوراک کی زنجیر میں نچلی سطح کی مخلوقات میں سب سے نچلی سطح تھی۔ اس کی واحد صلاحیت طاقتور دشمنوں کو خوفزدہ کرنے کے لیے مختلف خوفناک شکلوں میں تبدیل ہوتی ہے۔ کیچڑ میں حملہ آور طاقت نہیں تھی۔ یہ عام طور پر پودے کے غذائی اجزاء کو نگل کر زندہ رہتا ہے۔ جیسا کہ ہر چیز کی کمزوری ہوتی ہے یہاں تک کہ مضبوط گوشت خور پودے بھی اس کی <Swallow> صلاحیت سے خوفزدہ تھے۔
ڈوڈو اصل میں ایک سادہ دماغ کے ساتھ ایک عام کیچڑ تھا۔ کئی سال پہلے اس نے اتفاق سے چند دیومالائی پھل نگل لیے اور اس کی ذہانت بہت بہتر ہو گئی۔ اسی لمحے ایک طاقتور ڈریگن سیاہ بارش کے جنگل میں آیا۔ ڈریگن شدید زخمی ہو گیا۔ ایسا لگتا تھا کہ دشمنوں سے فرار ہو رہا ہے۔ اس نے شدت سے ڈریگن اسکرپشن کا ایک سلسلہ چھپانے کے لیے ترتیب دیا۔ جب وہ پتھر کے ڈھیر پر پہنچا جسے ڈوڈو نے چھپا رکھا تھا، وہ پہلے ہی ہلنے سے قاصر تھا۔ اہرام کی چوٹی پر اعلیٰ درجے کے دیومالائی درندے کا سامنا کرتے ہوئے ڈوڈو خوفزدہ تھا کہ اس میں سے گندگی نکل جائے۔ وہ پتھروں کے درمیان ڈھل رہا تھا اور لاپرواہی سے آگے بڑھنے کی ہمت نہیں کر رہا تھا۔ اسے بمشکل زندہ رہنے کے لیے ڈریگن کے خون پر بھروسہ کرنا پڑا جو دراڑوں میں بہتا تھا۔
ڈریگن آخر کار اپنی بھاری چوٹ کی وجہ سے مر گیا۔ ڈوڈو نے بالآخر ہمت کر کے باہر نکلا۔ ڈوڈو کو یقین نہیں تھا کہ یہ دیومالائی پھل ہے یا ڈریگن کا خون، اس کی اصل میں پودوں کے علاوہ گوشت میں اضافی دلچسپی تھی۔ ڈریگن کے گوشت کا ایک ٹکڑا بہادری سے کھانے کے بعد وہ خود کو مزید روک نہیں سکتا تھا۔ ڈوڈو کے نازک کام کے تحت پورے ڈریگن میں سے صرف کنکال بچا تھا۔ جیسے ہی وہ ڈریگن کو کھا رہا تھا ، وہ طاقت سے پھٹ گیا۔ یہ بالکل ایسا ہی تھا جیسے اس نے پہلی بار ڈریگن کا خون نگلا تھا۔ پھر کیچڑ میں زندہ رہنے کی اپنی مضبوط خواہش کے ساتھ زندہ رہا۔ کوئی بھی کبھی یہ نہیں سوچے گا کہ سب سے معمولی کیچڑ پورے ڈریگن کا گوشت نگل گیا۔ ڈریگن کا خون اور گوشت کھانے کے بعد ڈوڈو کی طاقت میں زبردست اضافہ ہوا اور مزید تبدیل ہو گیا جس سے اس کی تبدیلی کی صلاحیت میں بہت بہتری آئی۔ قتل و غارت اور مہم جوئی کی ایک سیریز کے بعد کیچڑ جس میں کافی ذہانت اور طاقت تھی آخر کار جعلی ڈریگن ہونے کا انتخاب کیا۔ اس نے پورے ڈریگن کی ہڈیوں کو لپیٹنے کے لیے اپنے جسم کو پھیلایا اور ہڈیوں کو حرکت دینا کنٹرول کیا۔ ایسا لگتا تھا جیسے ڈریگن کو دوبارہ زندہ کیا گیا ہے۔ اس طرح اسے ’’بھوت ڈریگن‘‘ کا خطاب ملا۔ بے نقاب ہونے سے بچنے کے لیے ’’بھوت ڈریگن‘‘ نے کبھی بھی اس بہترین جگہ کو نہیں چھوڑا جس نے ڈیمن کا پھل اگایا۔ایسے میں ڈوڈو نے ان مخالفین کو ڈرانے کے لیے بھوت ڈریگن کی شناخت پر بھروسہ کیا جو پھل چھیننے آئے تھے اور اکیلے دیومالائی پھلوں سے بہت لطف اندوز ہوا۔ اس کا جسم مزید تبدیل ہو گیا اور تاریخ میں ہائی ڈیمن کی سطح تک پہنچنے والاپہلا کیچڑ بن کر کالے برساتی جنگل کا ’’حاکم‘‘ بھی بن گیا۔
جب ڈوڈو نے دیومالائی پھل نگل لیا تو اسے ڈریگن کا جسم چھوڑنے کی ضرورت تھی۔ اس کے علاوہ اسے طویل عرصے تک ہضم کرنا تھا اور بھوت ڈریگن کی ظاہری شکل کو برقرار رکھنا ناممکن تھا. لہٰذا اس نے ڈریگن کے طرز عمل کو بے نقاب ہونے سے بچنے کے لیے حیوانوں کا گروہ بنا لیا۔ علی روئی کو آخرکار ’’بھوت ڈریگن‘‘ اور ڈریگن نوشتہ کی سمجھ آگئی۔ ڈوڈو کے ڈریگن بننے کی وجہ شاید ڈریگن کے خون اور گوشت کے نگلنے اور ڈیمن کے پھل کھانے کے بعد ہونے والی تبدیلی تھی۔ تاہم، ڈوڈو کے مطابق ڈریگن کا طرز عمل طویل عرصے تک جمع ہونے کے بعد ہی استعمال کیا جا سکتا تھا۔ اس ڈریگن کے کنکال کے ساتھ کام کرنا بہتر تھا تاکہ زیادہ طاقت حاصل کی جا سکے۔ درندے کے غول نے اس بار اپنے جمع شدہ ڈریگن کے برتاؤ کو استعمال کیا۔ اسے تقریباً 10 منٹ تک بمشکل استعمال کرنے میں کم از کم3 دن درکار تھے۔ نئے مالک کو خوش کرنے کے لیے ڈوڈو نے خوش دلی سے تین چیزیں کیں جو ڈریگن نے چھوڑی تھیں وہ ایک گڑیا، ایک مالااور ایک جادوئی نقشہ تھیں۔ ایک نامعلوم دھات سے بنی بہت نازگڑیا تھی جس کا سائز ہتھیلی کے برابر تھا ۔ مالامٹھی سے تھوڑا چھوٹی تھی جس سے ہلکی نیلی چمک نکل رہی تھی۔ یہ کوئی عام چیز نہیں تھی۔ جہاں تک نقشے کا تعلق ہے، اس کا کونا ٹوٹا ہوا تھا، اس لیے اس نے جو اشارہ دیا تھا وہ کافی محدود تھا۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ اس کے پیچھے کیا راز ہے۔ علی روئی نے ان کا بغور مطالعہ نہیں کیا اور صرف تینوں چیزوں کو اسٹوریج میں ڈال دیا۔
وہ ڈریگن کی ہڈیوں کے پاس گیا اور محسوس کیا کہ ہڈیوں میں ایک عجیب توانائی موجود ہے۔ اس نے <Aura Conversion> استعمال کرنے کی کوشش کی، لیکن کوئی اطلاع سامنے نہیں آئی۔ کنکال بہت بڑا تھا۔ جب تک اسے سٹرپس میں نہ کاٹا جائے خلائی کڑا اس پر مشتمل نہیں ہو سکے گا۔ تاہم یہ ذخیرہ گودام کے لیے کچھ بھی نہیں تھا، اس لیے کنکال آسانی سے رکھا گیا تھا۔
جہاں تک ڈیمن پھلوں کا تعلق ہے، علی روئی نے حساب لگایا۔ کل6 پھل ہیں۔ وہ ایک سخت خول والی لیچی کے سائز کے بارے میں ہیں اور اس کی ساخت نازک لیکن پیچیدہ ہے۔ اگرچہ پھل قیمتی ہے لیکن سب سے قیمتی چیز پھل کا درخت ہے۔ اگر ڈوڈو چلا گیا تو یہ دیومالائی درندوں کے ذریعے تباہ ہو سکتا ہے ۔
اوہ ٹھیک ہے۔ کہکشاں باغ! مجھے نہیں معلوم کہ سپر سسٹم کے باہر پودے لگائے جا سکتے ہیں یا نہیں؟۔
وقت کو مدنظر رکھتے ہوئے اہم بیج کو اب پختہ ہونا چاہیے۔ یہ سوچتے ہی علی روئی فوراً سپر سسٹم میں کہکشاں باغ میں داخل ہوا۔وہ پہلے کی نسبت بہت بدل گیا تھا۔ پورا کہکشاں باغ دھندلے کہرے کی تہہ سے ڈھکا ہوا تھا۔ دور سے یہ رنگ برنگی چمک میں ہلکا سا چمک رہا تھا۔ مرکزی سرکلر مٹی میں نرم پودا ایک میٹر اونچا درخت بن گیا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ لکڑی کے بجائے سونے سے بنا ہوا ہے اور اسے زمرد کے سبز پتوں سے سجایا گیا ہے۔ یہ ایک قدرتی خوبصورتی تھی جس کا کوئی اشارہ مصنوعی نہیں تھا۔ کہکشاں باغ میں کہرے کا ذریعہ چھوٹا درخت تھا۔ عجیب بات ہے کہ چھوٹے درخت کے اوپر کہرے کے اندر ایک خوبصورت عورت دکھائی دے رہی تھی۔ وہ بے ہوش ہو کر اس کے خوبصورت چہرے کو دیکھ سکتا تھا۔ اس کی ایتھرئیل شکل آسمان کی کسی پری جیسی تھی۔ کوئی تعجب نہیں کہ اسے اہم بیج کہا جاتا تھا۔ وہ خاتون دراصل ایک جاندار چیز نکلی جو علی روئی کو دیکھتے ہی اس کے سامنے ہلکی سی جھک گئی۔ علی روئی جانتا تھا کہ یہ سپرسسٹم کا ڈیزائن ہے لیکن وہ حیران تھا۔ اب جب کہ اہم بیج پختہ ہوچکا ہے، میں دوسری چیزیں کیسے لگاؤں؟۔ مٹی تک؟ سیراب کرنا۔ کھاد ڈالنا۔ اس نے دماغ کو حرکت دی اور باغ کے دروازے پر روشنی کی سکرین نمودار ہو ئی۔ باغ کی منصوبہ بندی کے مرکز میں خواتین کے جسم والے پودے کا ایک آئکن نمودار ہوا تھا: پیوٹل فیری (لیول 1؛ اپ گریڈنگ کنڈیشن 1: ایوولوشن لیول 3 اسٹارز؛ کنڈیشن 2: گریڈ 2 کے 1000 یونٹ بہتر جادوئی دھول)۔
بہتر جادوئی دھول؟ کیا جادوئی دھول کو مزید بہتر کرنے کا کوئی طریقہ ہے؟۔ تاہم مجھے اپ گریڈ کرنے کے لیے کم از کم اگلی ریاست تک پہنچنے کی ضرورت ہے۔ اس لیے ابھی اس کے بارے میں سوچنا بے معنی ہے۔ علی روئی نے اپنے ذہن کو ایک خالی جگہ پر منتقل کیا۔ یقینی طور پر دستیاب پودوں کی فہرست جو ظاہر ہوئی وہ صرف اورا پھل کا درخت تھا۔
’’آورا پھل کا درخت؛ 500 اوراس ہر ایک؛ کیا آپ تبادلہ اور پودے لگانا چاہتے ہیں؟‘‘۔
سائیڈ پر نمبروں کی اطلاع بھی تھی۔ جب علی روئی نے 5 تک کا انتخاب کیا تو اس نے اشارہ کیا کہ یہ موجودہ ارتقاء کی سطح کی خریداری کی حد تک پہنچ گیا ہے۔ خریداری کی تصدیق کے بعد5 بیج خود بخود پلان پر ظاہر ہو جاتے ہیں۔ ایک نوٹیفکیشن دوبارہ نمودار ہوا۔
’’پیوٹل فیری کیئرنگ موڈ کو چالو کریں؟۔ جادوئی دھول کی اکائیاں ضرور فراہم کی جائیں۔ جادوئی دھول ختم ہونے کے بعد دیکھ بھال کا موڈ خود بخود بند ہو جائے گا۔ پودا بڑھنا بند کر دے گا‘‘۔
ایسا لگتا ہے کہ دیکھ بھال کا موڈ واقعی ایک اچھی چیز ہے کیونکہ صرف جادوئی دھول کی ضرورت ہے اور مجھے کسی اور چیز کے بارے میں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ علی روئی نے حال ہی میں بیل کے بہترین پتھروں اور جادوئی مواد کو تبدیل کیا جو 50,000 جادوئی خاک کے برابر تھا تو اس نے فوراً تصدیق کی۔ سٹوریج کے گودام سے جادوئی دھول خودبخود غائب ہو گئی اور اس سے متعلقہ ڈیٹا گلیکسی گارڈن کی لائٹ اسکرین پر نمودار ہوا۔ عجیب بات یہ ہے کہ ایک بار جب اس نے کیئرنگ موڈ کو چالو کیا تو مرکزی پری فوراً ہی کہکشاں باغ میں متعلقہ پوزیشن پر اڑ گئی اور حلقوں میں رقص کرنے لگی۔ وہ بیج جو زمین میں نظر نہیں آرہے تھے اس رفتار سے پھوٹنے لگے جو کھلی آنکھوں سے دکھائی دے رہی تھی۔ اہم پری صرف نوجوان ٹہنیاں بڑھنے کے بعد رکی اور واپس مرکز کی طرف اڑ گئی۔
بیج لگانے کا اشارہ تھا: لیول 1 اورا فروٹ ٹری؛ پختگی: 7 دن؛ پھل چننے کے بعد درخت خود بخود مرجھا جائے گا۔ پودے لگانے کو جاری رکھنے کے لیے اضافی بیج خریدنے کی ضرورت ہے۔ فی دن جادو دھول کے2یونٹ استعمال کریں؛ موجودہ حالت: نادان۔
مجھے یقین نہیں ہے کہ پھل کتنی چمک فراہم کر سکتا ہے، لیکن یہ بہت کم جادوئی دھول کھاتا ہے۔ میں صرف واپس آؤں گا اور7دن بعد نظر ڈالوں گا۔ اب مجھے یہ سوچنا چاہیے کہ دیومالائی پھلوں کے درخت کو کیسے اندر منتقل کیا جائے۔
علی روئی نے کچھ سوچا، نیچے بیٹھا اور کہکشاں باغ کے بارے میں سوچتے ہوئے اپنے دماغ سے پھل دار درخت کو چھونے لگا۔ یقیناً ایک پرامپٹ نمودار ہوا۔
’’نامعلوم پلانٹ؛ ٹرانسپلانٹ کے لیے 10,000 اوراس کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیا آپ ٹرانسپلانٹ کرنا چاہتے ہیں؟‘‘۔
10,000 اوراس سستے نہیں تھے، لیکن دیومالائی پھل کی عظیم قیمت لارڈز کے درمیان جنگیں شروع کر سکتی ہے۔ اس لیے 100000اوراس بھی قابل تھے۔ علی روئی کے ہاتھوں پر کہکشاں باغ کی طرح عجیب کہرے کے بادل نمودار ہوئے اور پھلوں کے درختوں کو ڈھانپ دیا۔ تھوڑی دیر بعد پھل دار درخت غائب ہو گیا۔ ڈوڈو جو پھلوں کے درخت پر نظریں جمائے ہوئے تھا، اس نے یہ دیکھا، اس کی نظریں پیاز کے سر پر پڑی تھیں۔
کہکشاں باغ میں، ڈیمن پھل کا درخت واقعی نمودار ہوا۔ پرامپٹ: نامعلوم پلانٹ؛ پختگی: 60 دن؛ بار بار پختہ کیا جا سکتا ہے؛ فی دن 10 جادو دھول کھاتا ہے؛ موجودہ حیثیت: بالغ۔
60 دن؟ 600 سال نہیں؟ علی روئی کا دل خوشی سے بھر گیا۔ یہ بہت قابل ہے۔
تحریروں کی صف میں کہیں، فلورا کمبل پر بیٹھنے کے لیے جدوجہد کر رہی تھی۔ خوش قسمتی سے ایکسچینج سینٹرسے شفا یابی کی دوا بہت مؤثر تھی۔ اس کے گریٹ ڈیمن کا جسم بھی غیر معمولی تھا۔ اس لیے اس کی سنگین چوٹیں کافی حد تک ٹھیک ہو چکی تھیں۔ تاہم اس کے پاس اب بھی کوئی جنگی طاقت نہیں تھی۔ دور سے گرجنے والے شور اور شور نے فلورا کو علی روئی کو اپنے ساتھ مل کر خطرے کا سامنا کرنے کے لیے تلاش کرنا چاہا۔ جانے سے پہلے اس نے اس کے الفاظ کے بارے میں سوچا اور جان گئی کہ ہر طرف جال ہیں۔ اسے صحیح راستہ نہیں مل سکا۔ وہ بے حد بے چین تھی۔
’’میں آپ کے لیے پھل ضرور لاؤں گا!‘۔
مضبوط الفاظ اب بھی اس کے کانوں میں گونج رہے تھے۔ وہ صرف اس کے لیے ڈریگن کا سامنا کرنے کو تیار تھا۔ ایسا ہی منظر دکھائی دے رہا تھا جب وہ پہلی بار ملے تھے۔ وہ نہیں جانتی تھی کہ اس نے اس وقت بھی اس کے لیے ایسا کیا تھا۔ اس وقت اس کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ وہ بس یہی چاہتی تھی کہ وہ اس وقت نیلی جھیل کی طرح محفوظ رہے۔ جہاں تک بیوقوف ڈیمن پھل کا تعلق ہے اب نہیں چاہتی تھی۔ فلورا نے اپنی باقی ماندہ طاقت سے مٹھی بھینچ لی۔ اس نے پہلے کبھی کسی آدمی کے لیے اتنا فکر مند نہیں ہوئی۔ اگر اسے کوئی حادثہ پیش آتا ہے چاہے وہ مر جائے تو وہ بھوت ڈریگن کے ساتھ مل کر ہلاک ہو جائے گی۔
سامنے کی آواز تیز ہوتی جا رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ کوئی بات کر رہا ہے لیکن وہ صاف سن نہیں پا رہی تھی۔ پھر یہ خاموشی ہو گئی۔ کافی دیر تک کوئی آواز نہیں آئی۔ فلورا کا دل یکدم خوفزدہ ہو گیا۔ اسے اپنے درد کی کوئی فکر نہیں تھی۔ اس نے کھڑے ہونے کے لیے خود کو سہارا دیا، دانت بھینچے۔ وہ ایک قدم اٹھانے ہی والی تھی کہ سامنے سے آواز آئی:
’’فلورا، تم نے اپنا وعدہ دوبارہ نہیں نبھایا۔ میرے واپس آنے تک انتظار کرنے کا وعدہ کیا تھا‘‘۔
’’علی روئی !‘‘۔
فلورا چونک گئی۔ اس کا پریشان دل فوراً حیرت سے بھر گیا۔ وہ لڑکھڑا گئی، پھر خود کو سہارا دینے کی طاقت کھو بیٹھی۔ یہ دیکھ کر کہ وہ زمین پر گر گئی۔ علی روئی ایک چھپے ہوئے درخت سے باہر نکلا، تیزی سے آگے بڑھا اور اسے سہارا دیا۔ پچھلی بھاری چوٹوں پر غور کیے بغیر اسکائی بیٹل کی خصوصی تربیت کے بعد فلورا کا چن روئی کےاتنا قریب ہونے کا پہلا موقع تھا۔ اسے محسوس ہوا کہ انسانی جسم میں مرد کی حرارت ہے۔ اس کے بازو گرم اور طاقتور تھے۔ اس کا پورا جسم ایک دم سے تھوڑا نرم ہو گیا تھا اور اس کا دل واقعی تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ علی روئی نے بھی اس دل کی دھڑکن کو ایک خاص حصے پر قریب سے محسوس کیا۔ فلورا کی کمزور شکل دیکھ کر اس نے تھوڑی دیر کے لیے پھر خود کو حقیر سمجھا، پھر اس نے احتیاط سے اسے زمین پر بیٹھنے کے لیے سہارا دیا۔ فلورا نے کچھ دیر تک علی روئی کا بغور جائزہ لیا۔ وہ واقعی محفوظ اور تندرست تھا۔ آخر کار اسے سکون ملا۔
علی روئی نے اسے حیران کرنے کا ارادہ کیا:
’’فلورا! آنکھیں بند کرکے ہاتھ آگے بڑھاؤ‘‘۔
فلورا نے اپنی آنکھیں بند کیں اور محسوس کیا جیسے اس کی ہتھیلیوں پر چیزوں کا ڈھیر لگا ہوا ہو۔ جب اس کی آنکھ کھلی توہکا بکا رہ گئی۔
’’دیومالائی پھل!‘‘۔
فلورا کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔ وہ پلکیں جھپکتی رہی اور بار بار دیکھنے لگی۔ یہ واقعی دیومالائی پھل ہے۔
اس شخص نے ایک بار پھر معجزہ کر دیا۔ نہ صرف وہ بھوت ڈریگن کے ہاتھوں سے بغیر کسی نقصان کے واپس آیا بلکہ اسے دیومالائی پھل بھی ملا۔
’’یہ سب تمہارے لیے ہیں‘‘۔
علی روئی نے دیومالائی پھل کو چمک میں تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن وہ ناکام رہا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ آیا یہ انسانی جسم کے لیے کوئی کام کرتا ہے۔ لہٰذا وہ اس بار صرف فراخ دل ہو۔ یہاں تک کہ اگر اسے تبدیل کیا جا سکتا ہے، اس نے پہلے ہی ان میں سے نصف کو فلورا کے لیے چھوڑنے کا ارادہ کر لیا تھا۔ فلورا کے پاس 6 پھل تھے جو ڈیمنوں کی نظر میں انمول تھے۔ اس نے مسکراتے ہوئے علی روئی کی طرف دیکھا، اس کی آنکھیں ہلکی سی سرخ ہوگئیں۔ اس وقت وہ اپنے ذہن میں مکمل طور پر پرعزم تھی۔ زہریلے ڈریگن کا سامنا کرتے ہوئے حکمت اور بہادری دونوں سے لیس سایہ۔ وہ سایہ جو علمی اور مزاحیہ تھا۔ حکمت اور منصوبوں کے ساتھ سایہ، وہ سب ابھی مسکراہٹ میں مل گئے۔ مسکراہٹ کے مقابلے میں دیومالائی پھل واقعی کچھ بھی نہیں تھے۔
’’شکریہ‘‘۔
فلورا نے اور کچھ نہیں کہا۔
’’مجھے یاد ہے، آخری بار جب میں نے کہا تھا کہ آپ کا شکریہ۔تم نے اپنی تلوار کھول دی تھی‘‘۔
علی روئی نے مسکراہٹ کے ساتھ کہا، اس نے اچانک ایک سائے کو پکڑ لیا جو فلورا کی ہتھیلی پر پھلوں کی طرف کودنے ہی والا تھا۔
’’ڈوڈو !یہ پھل فلورا کے ہیں۔ مت چھونا‘‘۔
فلورا نے حیرت سے علی روئی کے ہاتھ میں شفاف پیاز کو دیکھا جو ایک چاپلوسی کی آواز دے رہا تھا:
’’میرے عظیم آقا! ڈوڈو کو بس ایک دے دیں۔براہ مہربانی‘‘۔
فلورا نے ایک مخصوص موڈ سے سنبھل کر تجسس سے پوچھا:
’’یہ کیا ہے؟‘‘۔
’’یہ بھوت ڈریگن کا اصل چہرہ ہے‘‘۔
علی روئی نے اسے ڈوڈو کے بارے میں سب کچھ بتایا۔ لیکن قصہ نہیں بتایاجس میں بھوت ڈریگن سے لڑا تھا۔ اس نے صرف اتنا کہا کہ اس نے ان جادوئی جالوں کو بدلنے کے لیے عظیم الشان حکیم کے علم کا استعمال کیا اور جعلی بھوت ڈریگن کو زیر کیا۔ یہ علی روئی اور ڈوڈو کے درمیان پہلے سے طے شدہ ’’اعترافات‘‘ تھے۔ ڈوڈو نے تعاون سے سر ہلایا لیکن اس کی دو بڑی آنکھیں فلورا کے ہاتھ میں دیومالائی پھلوں کو گھور رہی تھیں۔
’’دیومالائی پھل صرف پہلی بار مؤثر ہے۔ دوسرا کھانا بیکار ہے‘‘۔
فلورا کا چہرہ میں بدل گیا۔
’’بیوقوف کیچڑ، اب بتاؤ! تم نے کتنے دیومالائی پھل کھائے ہیں؟‘‘۔
’’ہمم۔آپ حکیم ڈوڈو کو احمقانہ کیچڑ کہنے کی جسارت کرتے ہیں! چاہے میں مر بھی جاؤں۔۔۔‘‘۔
اس سے پہلے کہ ڈوڈو اپنی بات مکمل کرتا علی روئی نے اس کے سر پر دستک دی:
’’جلدی بولو‘‘۔
’’محترم آقا! مہربانی فرما کر انتظار کریں۔ ڈوڈو کو گننے دیں‘‘۔
چونکہ اس کے مالک نے کہا تھا، ڈوڈو کو نا چاہتے ہوئے بھی یاد کرنا پڑا۔ اس نے دو ہاتھ بننے کے لیے <Transform> کا استعمال کیا اور حساب لگانا شروع کیا۔پھر اس نے دو اور بنائے۔ تھوڑی دیر بعد، ڈوڈو کے 8ہاتھ ہو گئے،لیکن وہ ابھی بھی گن رہا تھا۔ علی روئی اور فلورا کو دیکھتے ہی بری طرح پسینہ آ رہا تھا۔ خاص طور پر فلوراتقریباً پاگل ہو گئی تھی۔ کیچڑ نے کتنے دیومالائی پھل کھائے؟ یہ انمول ہیں۔
ڈوڈو نے کافی دیر تک گنتی کی اور اداس نظروں سے دیکھا:
’’حکیم ! ڈوڈو کو ٹھیک سے یاد نہیں ہے، لیکن یہ شاید 8 یا 9 ہاتھ تھے‘‘۔
یہ سن کر فلورا مضبوط اعصاب کے باوجود وہ تقریباً بیہوش ہو گئی۔ 8 یا 9 ہاتھ!۔ یہ 40 سے زیادہ دیومالائی پھلوں کے برابر ہے۔ پھل دار درخت کے پھلوں کی تعداد کے مطابق یہ ہر بار صرف 5 سے 6 دیتا ہے۔ اگر یہ 40 سے زیادہ ہے۔۔۔۔ یہ لالہ آلو نہیں ہے! یہ ایک قیمتی دیومالائی پھل ہے جو جنگ چھیڑنے کے لیے کافی ہے۔ علی روئی بھی چونک گیا۔ اس کی رائے میں دیومالائی پھل نہیں تھا جسے ڈوڈو نے کھایا بلکہ بڑے پیمانے پر جادوئی کرسٹل سکے تھے۔ دوسرے الفاظ میں یہ اوراس کی ایک بڑی مقدار تھی۔
اسراف کیا ہے؟۔ یہ ہے فضول خرچی کی صحیح تعریف۔
دیومالائی پھل چند سو سالوں میں صرف ایک بار پکتا ہے۔ ایسا لگتا تھا کہ پچھلے سالوں کا علی روئی سے کوئی تعلق نہیں تھا جو ابھی ابھی اس سال ہوا ۔ حساب لگانے کے بعد ڈوڈو کم از کم چند ہزار سال زندہ رہا۔
’’علی روئی ! میں اب دیومالائی پھل نہیں کھانا چاہتی‘‘۔
فلورا کو ہوش آیا۔ وہ دانت پیستے ہوئے بولی۔
یہ سن کر کیچڑ بہت خوش ہوا۔ وہ اپنے مالک سے پوچھنے ہی والاتھا، لیکن فلورا کے اگلے جملے نے اسے غیر متوقع طور پر خوفزدہ کر دیا:
’’میں یہ کیچڑ کھانا چاہتی ہوں‘‘۔
علی روئی نے کہا:
’’ڈوڈو نے بہت سارے دیومالائی پھل کھائے ہیں۔ اگر تم اسے کھاتی ہو تو یہ دیومالائی پھل کھانے سے زیادہ مفید ہو سکتا ہے۔ میں باربی کیو کے لیے بہت سارے مصالحہ جات ساتھ لایا ہوں۔ میں تمہیں مطمئن کرنے کی پوری کوشش کروں گا‘‘۔
جب اس نے آقا کی یہ بات سنی کیچڑ خوفزدہ ہو گیا اور التجا کرنے لگا:
’’میری خوبصورت اور بہادر مالکن! براہ کرم اپنے سب سے وفادار غلام کو مت کھاؤ۔ میں سخت اور بدبودار ہوں۔ میرا ذائقہ بالکل اچھا نہیں ہے‘‘۔
لفظ ’’مالکن‘‘ نے فلورا کو شرمندہ کر دیا۔ پھر اس نے جلدی سے علی روئی کی طرف دیکھا۔ انسان کو اس وقت احساس نہیں تھا ،وہ ڈوڈو کو تفریحی انداز میں دیکھ رہا تھا۔
اشمار کے علاوہ میرے تین نوکر، ڈوڈو، چلبل اور بوڑھابونا دیدی ایک دوسرے سے ملیں گے تو کیسا لگے گا؟۔
علی روئی نے کچھ دیر تک اپنے نئے نوکر کا مذاق اڑانے کے بعد اسے ڈرانا چھوڑ دیا۔ اس نے فلورا سے کہا:
’’تمہاری چوٹیں کافی زیادہ ہیں۔ آؤ اس جگہ چلتے ہیں جہاں ڈوڈو جعلی ڈریگن کے طور رہتا تھا۔ ارد گرد بہت سارے جادو کے جال ہیں اور دیومالائی درندے عام طور پر قریب آنے کی ہمت نہیں کرتے۔ کافی محفوظ جگہ ہے۔ میں بعد میں دونوں وائیورنز کو وہاں لے آؤں گا‘‘۔
’’ٹھیک ہے۔ تم نے جو دوائیاں دی ہیں وہ بہت موثر ہے۔ میری چوٹیں بہت تیزی سے ٹھیک ہو رہی ہیں۔ تم یہ5 دیومالائی پھل لے سکتے ہو۔ میں صرف ایک رکھوں گی۔باقی تمہارے لیے ہیں۔ اس بات کو یقینی بناؤ کہ انہیں صحیح طریقے سے رکھو گے‘‘۔
فلورا نے اپنے خلائی کڑے سے ہیرے کی شکل کا کرسٹل نکال کر علی روئی کو دیا۔ علی روئی نے محسوس کیا کہ یہ کرسٹل ٹھنڈا ہے۔ اس سے ایک خاص قسم کی سردی خارج ہو رہی تھی۔ اس نے تجسس سے پوچھا :
’’یہ کیا ہے؟‘‘۔
’’چوٹیں ٹھیک ہونے کے بعدمیں دیومالائی پھل کھاؤں گی‘‘۔
فلورا نے اپنا سر نیچے کیا۔ اس نے براہ راست علی روئی کی طرف نہیں دیکھا:
’’اس پھل میں ایک خاص وصف ہے کہ استعمال کرنے والاجتنا مضبوط ہوگا،اس میں زہر اتنا ہی زیادہ ہوگا۔ تاریخ میں لاتعداد لوگ مر چکے ہیں۔ ایک تریاق بھی کچھ نہیں کر سکتا‘‘۔
’’اگر میں پھل کے زہر کو برداشت نہیں کر سکتی۔۔۔‘‘۔
فلورا نے توقف کیا اور مضبوطی سے کہا:
’’میرے مرنے کے بعد تم نے تولان پہاڑ بالکل نہیں جانااور نہ نیرنگ آباد سلطنت میں واپس جانا ہے۔ وائیورن کو مغرب کی طرف لے جانا اور آئس کرسٹل کو خاقانی سلطنت کے دارالحکومت میں لے جانا تاکہ ڈیلیا نامی عورت کو تلاش کر سکو۔ اس نے تین سال پہلے مجھ پر ایک بہت بڑا احسان کیا تھا۔ تمہاری قابلیت اور ڈیلیا کی مدد سے تمہیں خاقانی سلطنت میں رہنے کے قابل ہونا ہوگا۔میری بات سمجھ گئے ہو نا؟‘‘۔
علی روئی چونک گیا۔ اسے امید نہیں تھی کہ فلورا اس کے لیے بیک اپ پلان کا بندوبست کرے گی۔ اس نے محسوس کیا کہ اس کے ہاتھ میں ٹھنڈا کرسٹل جلنے کا احساس رکھتا ہے۔ وہ اچانک خاموش ہو گیا۔
’’فلورا، تم ٹھیک ہو جاؤ گی‘‘۔
’’علی روئی تم نہیں سمجھے‘‘۔
’’جو نہیں سمجھتا وہ تم ہو‘‘۔
علی روئی نے اپنا سر اٹھایا اور فلورا کی روبی جیسی آنکھوں میں دیکھا۔ ایک سبز موتی نکالا۔
’’اسے پکڑو۔۔۔تمہیں یاد ہے؟‘‘۔
"یہ ہے۔۔۔نیلی جھیل زہریلے ڈریگن کی طرف سے پہلے دیا گیا تریاق۔
فلورا اسے لے کر کچھ دیر اسے دیکھتی رہی۔
’’اس کا ذائقہ بہت مسالہ دار لگتا ہے‘‘۔
علی روئی نے سر ہلایا:
’’اسے جیڈ پرل کہتے ہیں۔ زہریلے ڈریگن کا ایک قیمتی کرسٹل۔ یہ ہر200 سال میں ایک بار تیار ہوتا ہے۔ اس سے چوٹیں جلدی ٹھیک ہو جاتی ہیں اور کھانے کے بعد جسم کی زہر کے خلاف مزاحمت کو مستقل طور پر بڑھا سکتا ہے‘‘۔
’’جسمانی صلاحیت کو مستقل طور پر بڑھانا؟۔
فلورا حیران رہ گئی۔
’’زہریلے ڈریگن نے تریاق کے طور پر اتنا قیمتی کرسٹل کیوں دیا؟‘‘۔
’’اس کی وجہ یہ ہے کہ تم، ننھی شہزادی اورمایا کو بالکل بھی زہر نہیں دیا گیا ‘‘۔
علی روئی نے یہ بات بہت دنوں سے اپنے دل میں رکھی تھی۔ وہ مدد نہیں کر سکا لیکن اس نے انکشاف کیا:
’’مجھے افسوس ہے۔ میں تمہیںکبھی سچ نہیں بتاتا‘‘۔
’’تم ایسے گدھے ہو! تم نے مجھے ہمیشہ پریشان کر رکھا ہے‘‘۔
فلورا اپنی چوٹ کے باوجود علی روئی کی طرف جھک گئی اور اسے زمین پر دھکیل دیا۔ وہ اسے مارتی رہی۔
’’لعنتی!۔ گندا!۔ بہت گندا!‘‘۔
اپنے مالک پر حملہ ہوتے دیکھ کر ڈوڈو نے پہلے مدد کرنا چاہی لیکن اس کی ’’مالکن‘‘ کے صدمے کی وجہ سے اس نے مداخلت کرنے کی ہمت نہیں کی کہ وہ اسے کھا جائے گی۔ اس کے علاوہ اس کے مالک اور مالکن کا معاملہ ہے۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جب موسم آتا ہے مادہ اور نر مخلوق ایک دوسرےکی طرف ’’متوجہ‘‘ ہونے سے پہلے چھیڑ چھاڑ کرنا پسند کرتے ہیں۔ رویہ اس جیسا نہیں تھا، لیکن ایسا لگتا تھا۔ اگر اس نے اس وقت انہیں پریشان کیا تو وہ واقعی گرل کر کھا یا جا سکتا ہے۔
کیچڑ جس نے کافی ذہانت حاصل کی تھی آخرکار دانشمندی سے آنکھیں بند کرنا مناسب سمجھا۔ یہ شفاف پس منظر کی طرح تھا:
’’آپ مجھے نہیں دیکھ سکتے‘‘۔
کیچڑ کا فیصلہ غیر معقول نہیں تھا۔ فلورا بہت سخت تھی لیکن علی روئی کو مارنا بے اختیار تھا۔ وہ چوٹوں کی وجہ سے اپنی طاقت کو اعلیٰ ڈیمن کے طور پر استعمال نہیں کر پا رہی تھی، البتہ اس کی آواز واقعی اس کے کاٹنے سے بدتر تھی۔
فلورا کی کارروائی آخر کار رک گئی۔ وہ علی روئی کے جسم پر لیٹتے ہوئے ہانپتی رہی تھی۔ اچانک اس نے محسوس کیا کہ اس کا عمل بہت شرمناک تھا۔ اس کے دل کی رفتار تیز ہو گئی۔ اس نے اپنے جسم کو اپنے شرم سے سہارا دیا اور اسے ایک اور گھونسا مارا کہ وہ پہلو میں زمین پر بیٹھ جائے۔ ’’حملے‘‘ کی یہ سطح صرف علی روئی کے لیے کھرچنے والی تھی۔ وہ جانتا تھا کہ ہمیشہ فلورا کو ذہنی طور پر بوجھل کر رہا ہے۔ یہاں تک کہ اس نے زہریلے ڈریگن سے موت تک لڑنے کے بارے میں سوچا۔ لہٰذا وہ خودکو واقعی مجرم محسوس ہوا۔ ’’مکے مارنے‘‘ کے بعد وہ اوپر چڑھا اور اسے سمجھایا۔ جب فلورا نے سنا کہ علی روئی نے زہریلے ڈریگن کے ساتھ جس معاہدے پر دستخط کیے تھے وہ ایک علامتی معاہدہ تھا تو وہ سمجھ گئی۔ اس وقت دونوں کے درمیان تعلقات علامتی معاہدے کی خصوصیت کے ساتھ فلورا بھی ایسا راز افشا نہیں کرے گی جو زندگی اور موت کا معاملہ تھا۔
’’تم خود کیوں نہیں چھپ جاتے؟‘‘۔
فلورا کا غصہ تقریباً ختم ہو چکا تھا:
’’اور کیا کچھ چھپا رہے ہو؟‘‘۔
’’واقعی ابھی بہت کچھ باقی ہے‘‘۔
علی روئی نے فلورا کی آنکھیں دوبارہ کھول دیں۔ اس نے آہ بھری:
’’فلورا! اگر تم مجھ پر یقین کرو تو ایک مہینے کا وقت دو۔ ابھی کچھ مت پوچھو۔ ایک مہینے کے بعد میں تمہیں بہت سی چیزوں کے بارے میں بتاؤں گا۔ تاہم اس مہینے تمہیں میری بات سننی ہوگی۔ ٹھیک ہے؟‘‘۔
فلورا نے ہلکا سا سر جھکایا اور پوچھا:
’’کیا شہزادی اقابلہ اور مایااس بارے میں جانتی ہیں؟‘‘۔
علی روئی نے اپنا سر ہلایا:
’’اس آدمی کے علاوہ جو علامتی معاہدہ ہوا ہے صرف تم ہی جانتی ہو‘‘۔
فلورا کی بھنویں اٹھیں۔ اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں،لیکن اس کی آواز اب بھی ناراض دکھائی دے رہی تھی۔
’’ہمم! یاد کرو، تم نے کیا کہا تھا؟‘‘۔
’’اچھا اب ناراض مت ہونا۔ جیڈ پرل کی زہر کی مزاحمت جھوٹ نہیں ہے۔ تمہارے وائیورن پر محفوظ طریقے سے سوار ہونا میرے پاس موجود تریاق کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ یہ تمہارے جسم کی زہر کے خلاف مزاحمت ہے۔
علی روئی نے مسکرا کر کہا:
’’چلو اب آرام کرنے کی جگہ ڈھونڈتے ہیں۔ پہلے تمہارے زخم ٹھیک ہوجائیں۔ اس سے قطع نظر کہ جیڈ پرل موثر ہے یا نہیں، دیومالائی پھل کھانے سے پہلے ایک اور کھائیں۔ پھلوں کی طاقت کو مکمل طور پر ہضم کرنے کے بعد ہم تولان پہاڑ کےلیے سفر شروع کریں گے‘‘۔
فلورا نے مزید غصہ نہیں کیا۔ اپنے ہاتھ میں جیڈ پرل کو آہستہ سے چھوا اور سر ہلایا۔ علی روئی بیوقوف نہیں تھا۔ وہ کسی نہ کسی طرح فلورا کے جذبات کو محسوس کر سکتا تھا جس طرح اس کے اپنے جذبات فلورا کے لیے تھے۔ تاہم جبران کے ساتھ جنگ میں زیادہ وقت باقی نہیں تھا۔ اس لیے اسے اپنی تمام تر کوششیں اس معاملے پر مرکوز کرنی تھیں۔ وہ دوسرے پہلوؤں کی طرف سے مشغول نہیں ہونا چاہتا تھا۔ وہ سنجیدگی سےاپنے درمیان مسئلہ کو مرد اور عورت کے طور پر نمٹائے گا۔
بائیسواں باب
زمین کے اندر زمین
لاوے کے اندر بھی زندگی پل سکتی ہے
دو دن بعد دو وائیورنس کالے برساتی جنگل کے اوپر سے اڑ گئے۔ فلورا جو کیگو پر سوار تھی پرجوش دکھائی دے رہی تھی کیونکہ ڈیمن ی پھل کا اثر اس نے پوری طرح جذب کر لیا تھا۔ جنگ چھیڑنے والا یہ قیمتی پھل درحقیقت اپنی شہرت کے لائق تھا۔ فلورا کی طاقت اصل میں ہائر ڈیمن کے ابتدائی مرحلے میں تھی لیکن اس نے فوری طور پر درمیانی مرحلے میں ترقی کی۔ یہ محض ایک سطحی اثر تھا۔ پوشیدہ ممکنہ انڈیکس زیادہ اہم تھا۔ مستقبل میں اس کے ڈیمن کنگ بننے کے لیے ہائیر ڈیمن کی حد سے گزرنے کا امکان بہت زیادہ بڑھ گیا تھا۔
ڈوڈو اور علی روئی کی استقامت کو دیکھ کر فلورا نے ایک اور پھل کھا لیا۔ نتیجے کے طور پر اس نے صرف اس کی طاقت کو مستحکم کیا۔ اضافی صلاحیت کا چھوٹا سا امکان بھی ظاہر نہیں ہوا۔ یہ خاص قابلیت ضروری نہیں کہ فوری طور پر ہو، کئی سالوں کی مشق سے بھی حاصل ہوتا ہے۔ جہاں تک ڈوڈو کی تبدیلیوں کا تعلق ہے، نہ صرف ڈیمن کے پھل کا اثر ہو سکتا ہے بلکہ ڈریگن کے گوشت کو نگلنے سے بھی ہو سکتا ہے۔ علی روئی نے بھی چپکے سے ایک ڈیمن ی پھل کھایا لیکن اس کی طاقت بالکل نہیں بڑھی۔ زہریلا ہونے کی وجہ سے صرف کچھ چمک میں اضافہ کیا۔ کہکشاں باغ جیسی جادوئی چیز کے ساتھ، وہ 2 ماہ میں دوبارہ فصل کاٹ سکتا ہے۔ مستقبل میں ڈوڈو کی طرح ناشتے کی طرح انہیں کھانا ناممکن نہیں تھا۔ ان دو دنوں میں علی روئی نے اپنا وقت ضائع نہیں کیا۔ اس نے سارا وقت ٹریننگ گراؤنڈ میں گزارا۔ اس کے 130,000 اوراس میں صرف 90,000 سے زیادہ باقی تھے۔ فلورا کو اس کے ذریعہ مطلع کیا گیا تھا کہ وہ اس کی ’’نیند‘‘ میں مداخلت نہ کرے۔ ڈوڈو کے تحفظ کے ساتھ سب کچھ ہموار تھا جس میں فلورا نے ڈیمن پھل کھایا۔
تنکے کی طرح جس نے اونٹ کی کمر توڑ دی8 گنا کشش ثقل درحقیقت 4 گنا کشش ثقل کی حد سے بے مثال تھی۔ یہاں تک کہ میزار ریاست میں داخل ہونے کے بعد اسٹار پاور کے استعمال کے بغیر منتقل کرنا اب بھی واقعی مشکل تھا۔ پہلے 10 دن وہ نہیں جانتا تھا کہ اس نے کتنی مشکلات جھیلیں۔ جب اس نے تربیت ختم کی اور ڈیمن پھل کھانے کے بعد فلورا کو بچے کی طرح سوتے ہوئے دیکھا تو اسے لگا کہ اس کے جسم میں زیادہ توانائی ہے۔ کھانے اور آرام کرنے کے لئے جلدی کرنے کے بعد اس نے ایک بار پھر خود کو گالی دینے کی تربیت میں غرق کردیا۔ اس نے دو سیاہ دوائیاں لیں، ابدی طاقت اور ابدی رفتار، اس وقت دوائیوں کا اثر دراصل مکمل طور پر جذب نہیں ہوا تھا۔ ہائی پریشر ٹریننگ کے تحت جسم میں دوائیوں کا اثر آخر کار عمل میں آیا۔ ڈوڈو کو ہمیشہ سے ڈیمن پھل کا جنون تھا لیکن جب سے اس نے علی روئی کے بنائے ہوئے باربی کیو کا ذائقہ چکھ لیا، اس کا ذائقہ بدلنا شروع ہو گیا اور وہ اپنے مالک کا اور بھی زیادہ وفادار تھا۔ فلورا شروع میں پھلوں کے برے درخت کے بارے میں فکر مند تھی لیکن ایک بار جب علی روئی نے اسے بتایا کہ وہ اسے چھپانے میں کامیاب ہو گیا تو فلورا کو سکون ملا۔
وائیورنس کالے برساتی جنگل سے نکل گئے۔ آخرکار وہ ڈیڑھ دن میں اپنی منزل تولان پہاڑ پہنچ گئے۔تولان پہاڑ میں بہت سے اونچے اونچے پہاڑ اور گہری خطرناک وادیاں تھیں۔ علاقہ بہت بڑا تھا۔ یہ ٹاؤن لیہ تک پہنچا جس کی سرحد مغرب تک خاقانی سلطنت سے ملتی ہے۔ تولان پہاڑ ڈاکوؤں کے کنٹرول میں تھا۔ جب علی روئی اور فلورا جادوئی نقشے پر نشان کی پیروی کرتے ہوئے وائیورنز کے ساتھ اترے تو کان کنی کے دفتر کے دروازے پر موجود محافظ اور کان کن سب حیران رہ گئے۔ چونکہ اصل کان کنی کے دفتر پر ڈاکوؤں کا قبضہ تھا۔ اب کان کنی کا دفتر دراصل ایک سادہ پتھر کا گھر تھا جو عارضی طور پر بنایا گیا تھا۔ وائیورنز سے چونکتے ہوئے ایک سینٹور جو لیڈر جیسا دکھائی دیتا تھا، پتھر کے گھر سے باہر نکلا۔ اس کے چہرے پر کئی نشانات تھے۔ ہی نے واکنگ اسٹک پکڑی ہوئی تھی۔ جیسے ہی اس نے فلورا کو وائیورن کی پیٹھ سے چھلانگ لگاتے دیکھا، اس کی آنکھوں میں آہستہ آہستہ حیرت ظاہر ہوئی۔ اس نے قریب آ کر سلام کیا:
’’آپ ہیں۔۔۔محترمہ فلورا؟‘‘
’’تم کون ہو؟‘‘۔
فلورا نے محسوس کیا کہ یہ لنگڑا سینٹورذرا مانوس سا لگتا ہےلیکن اس کا نام یاد نہیں تھا۔
’’میں گیڈ ہوں۔ میں نے ایک بار وارلاک فورٹریس میں جنرل جارج کی خدمت ۔ چوپر مامور رہا۔ میں لہووانی سلطنت کے ساتھ ایک تنازعہ میں زخمی ہوا تھا اس لیے مجھے 4 سال پہلے یہاں منتقل کر دیا گیا تھا‘‘۔
فلورا کو یاد آگیا اور حیرت سے کہا:
’’تم ڈیتھ ہیمر ہو، گیڈ! تم نے مجھے ایک تلوار بھی تحفے میں دی تھی‘‘۔
’’بہت خوشی کی بات ہے کہ آپ نے مجھے یاد رکھا‘‘۔
گیڈ نے اپنا بے اختیار بازو اور معذور بائیں ٹانگ کو لہرایا۔ اس نے آہ بھری اور بولس:
بدقسمتی سے، اب میں ڈیتھ ہیمر نہیں رہا۔ جنرل اپنے ماتحتوں کے ساتھ ہمدردی رکھتا ہے اس لیے اس نے مجھے ریٹائر ہونے کے بعد بھی اپنے ساتھ رکھا۔ آپ کس غرض سے مائنز پر آئی ہیں؟‘‘۔
"آپ کو نیرنگ آبادسے جادوئی مواصلت نہیں ملی؟ شہزادی اقابلہ کی طرف سے باضابطہ تقرری کے بعد سے جادوئی مواصلات کو پہلے ہی جاری کیا جانا چاہیے۔ فلورا کو شک گزرا۔
گیڈ نے اپنا سر ہلایا اور جواب دیا:
’’یہاں جو مواصلاتی ٹاور ہے اسے ڈاکوؤں نے تباہ کر دیا ہے۔ اس کی مرمت نہیں ہوئی ہے‘‘۔
جادوئی مواصلات دراصل ایک مواصلاتی علامت کا استعمال کرتے ہوئے وائرلیس مواصلات کے برابر تھا۔ پیغامات کی ترسیل کے لیے ایک خاص جادوئی کمیونیکیشن ٹاور کی ضرورت تھی جو کہ علی روئی کی پچھلی دنیا میں ’’بیس اسٹیشن‘‘ کے برابر تھا۔ اگر کمیونیکیشن ٹاور کو تباہ کر دیا گیا تو رینج کے اندر موجود جادوئی مواصلاتی علامت ناقابل استعمال ہو گی۔ ہر لائن کا جادوئی کمیونیکیشن ٹاور الگ سے قائم کیا جانا چاہیے۔ راجدھانی سے لے کر ہر اسٹیٹ تک ایک وقف میجک کمیونیکیشن ٹاور تھا۔ راستے میں موجود ’’بیس اسٹیشنز‘‘ کو بھی خاص طور پر محفوظ کیا گیا تھا۔
’’اس لیے‘‘۔
فلورا نے علی روئی کی طرف اشارہ کیا اور کہا:
’’اس بار مجھے شہزادی اقابلہ نے آپ کے نئے کان کن افسر کی حفاظت کا حکم دیا تھا‘‘۔
سب کی انسان پر پڑی جسے وہ فلورا کا خادم سمجھ رہے تھے۔ خبر نہ ہونے کے باوجود حکیم الداس کے دارالحکومت سے ایک چیلنج میں ذہین کو شکست دینے کی خبر نیرنگ آباد کے ہر کونے میں پھیل چکی تھی۔ یہاں تک کہ تولان پہاڑجیسی ویران جگہ کے لوگوں نے بھی اس کے بارے میں سنا تھا۔ یہ ماسٹر کا انسان شاگرد ہوسکتا ہے۔ لیکن وہ شاگرد اچانک ہمارا باس کیسے بن گیا؟۔
علی روئی اب پہلے جیسا نہیں رہی تھا۔اس آنکھوں میںسکون تھا اور اقابلہ کے دستخط شدہ ملاقات کا جادوئی خط نکالا۔ جب سب طرف متوجہ ہوئے، علی روئی بھی ان ’’فوجیوں‘‘ کوبغور دیکھنے لگا۔ تقریباً ایک درجن محافظ تھے جو بنیادی طور پر سینٹورس اور ڈارک ایلوز تھے جبکہ کان کن زیادہ موجود نہیں تھے۔ وہاں موجود زیادہ تر بدروحوں کی ایک ہی خاصیت تھی کہ وہ مایوس نظر آتے تھے۔
گیڈ نے تقرری کا خط لیا ،اس کی بھنویں آہستہ آہستہ جھک گئیں۔ وہ خط کے سچے اور جعلی میں واضح طور پر فرق کر سکتا تھا۔
سینٹور نے فلورا کی طرف دیکھا۔ اس کے دل میں اب کوئی شک نہیں تھا۔ اس نے فوراً ہی علی روئی سے جھک کر کہا:
’’مائنز آفس گارڈز کا کپتان، گیڈ مائنز آفیسر کو رپورٹ کر رہا ہے‘‘۔
جب گارڈز اور کان کنوں نے گیڈ کو علی روئی کے سامنے جھکتے دیکھا تو سب حیران ہوئے۔ ایسا لگتا تھا کہ شہزادی اقابلہ نے واقعی اس کمزور انسان کو کان کن افسر مقرر کیا ہے۔بہت سے لوگوں کی طرح گیڈ بھی اس تقرری کے خلاف ناپسندیدگی کا اظہار کر رہا تھا۔ بے اختیار انسان سب کی رہنمائی کیسے کر سکتا ہے۔ فلورا وہاں تھی لہٰذا وہ زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔ اس نے خوش آئند اشارہ کیا:
’’سر اور مس! براہ کرم اندر آئیں، باقی باتیں وہیں کرتے ہیں۔ کونر! ہمیں ہمارے لیے کچھ کھانے کو لاؤ۔ باقی لوگ۔۔۔آپ نے جو کرنے وہ کرو‘‘۔
علی روئی اور فلورا گیڈ کے پیچھے پتھر کے گھر میں داخل ہوئے۔ پتھر کے گھر میں سہولیات بہت سادہ تھیں۔ دو پتھر کی میزیں تھیں جن میں کئی کرسیاں اور پیچھے ایک بستر لگا ہوا تھا۔
’’مجھے افسوس ہے مس! یہاں کے حالات بہت مشکل ہیں، اس لیے میرے پاس خدمت کرنے کے لیے کچھ بھی اچھا نہیں ہے‘‘۔
گیڈ نے دونوں کو بیٹھنے کے لیے کہا اور فلورا سے پوچھا:
’’مس! آپ نیرنگ آبادکب واپس جا رہی ہیں؟‘‘۔
فلورا نے اپنا سر ہلاتے ہوئے جواب دیا:
’’مجھے شہزادی اقابلہ نے حکم دیا تھا کہ ہمیشہ علی روئی کی یہاں حفاظت کروں جب تک کہ اس کا کام ختم نہیں ہو جاتا‘‘۔
گیڈ کو ہلکا سا جھٹکا لگا، پھر اس نے پیچیدہ لہجے میں سر ہلایا۔
علی روئی نے اسے دیکھا اور سوچ میں پڑ گیا۔ پوچھا:
’’گیڈ! ہم ابھی یہاں پہنچے ہیں۔ کیا آپ یہاں کی صورت حال کے بارے میں مختصراً سکتے ہیں؟‘‘۔
گیڈ ایک لمحے کے لیے ہچکچا کر بات کرنے لگا:
’’تولان پہاڑ معدنیات سے بھرپور تھا۔ اس کی کان کنی کی ایک طویل تاریخ تھی۔ یہ نیرنگ آباد کے لیے ہمیشہ سے سب سے بڑا اور اہم وسیلہ رہا ہے۔400 سال پہلے نیرنگ آباد میں بیلزبب رائل فیملی کے واقعے کے بعد، ہلچل مچانے والانیرنگ آباد نیچے جانا شروع ہوا۔ بارودی سرنگوں میں بھی بہت سی تبدیلیاں آئی تھیں۔ زیرزمین مخلوق جو سیل کر دی گئی تھی اچانک سیل توڑ کر گڑھے کی نچلی تہہ پر قابض ہو گئی جو سب سے بڑے کان کنی والے علاقے کو کنٹرول کرنے کے مترادف تھا۔ اس نے کان کنی کو بہت زیادہ مشکل اور جان لیوا بنا دی۔ یک سال سے زیادہ عرصہ قبل ایک طاقتور ریڈ ڈیول ڈاکو گینگ نمودار ہوا۔ انہوں نے نہ صرف شہزادی اقابلہ کی طرف سے بھیجے گئے قافلے کو لوٹا اور مار ڈالابلکہ انہوں نے وقتاً فوقتاً بارودی سرنگوں کو بھی ہراساں کیا۔ انہوں نے ایک چھوٹی ٹیم بھی بھیجی تاکہ مرکزی گڑھے اور کئی نئے کھولے گئے چھوٹے کان کے ذرائع پر قبضہ کر سکیں۔ یہاں تک کہ انہوں نے کان کنوں کو بھی مار ڈالاجو وہاں کان کے لیے گئے تھے۔اب کان کن گیڈ کی قیادت میں ڈاکوؤں کے حملے کا دفاع کرتے ہوئے صرف کچھ سستی کھلی کچ دھاتیں نکال سکتے ہیں۔ اگرچہ خطرہ کم ہو گیا ہے لیکن آمدنی اور پیداوار انتہائی کم ہے۔ شہزادی اقابلہ نے ایک بار اقابلہ رف ایلن کو قافلے کے واقعے کی وجہ سے ڈاکوؤں کو ختم کرنے کے لیے بھیجا لیکن دونوں کوششیں ڈاکوؤں نے ناکام بنا دیں‘‘۔
فلورا نے سنا کہ کان کی حالت بہت خراب ہے۔ یہ اس سے کہیں زیادہ برا تھا جو اقابلہ کو معلوم تھا۔ اس نے جھک کر کہا:
’’تم نے نیرنگ آبادکو اطلاع کیوں نہیں دی؟‘‘۔
’’ہم نے لاتعداد بار اس کی اطلاع دی ہے‘‘۔
گیڈ نےایک آہ بھری اور بولا:
’’ نیرنگ آبادکی طرف سے بھیجی گئی فوج بھی ناکام ہو گئی ہے۔ اس کے علاوہ اور کیا راستہ ہے؟۔ اگر آج مس کی آمد نہ ہوتی تو میں نے سوچ رہا تھا کہ شہزادی اقابلہ پہلے ہی ہم سے دستبردار ہو چکی ہیں‘‘۔
علی روئی جانتا تھا کہ کان کنی کی صنعت کا براہ راست نگران مالیاتی افسر جوزف تھا۔ لہذا یہ ’’معقول‘‘ تھا کہ اقابلہ کو صرف محدود معلومات دی گئی تھیں۔ اس وقت اس نے ایک اہم سوال پوچھا:
’’پچھلے کان کنی افسر کا کیا ہوا؟‘‘۔
پچھلا مائننگ آفیسر سیفول فیملی کا ٹم تھا۔ ٹم کے بارے میں گیڈ کی تشخیص نسبتاً زیادہ تھی اور علی روئی کی تضحیک کا پتہ چلتا تھا۔ ٹم کے کان میں آنے کے بعد اس نے اصلاح کا ایک سلسلہ بنایا اور کافی معزز تھا۔ اس وقت کان کا سب سے بڑا مسئلہ زیر زمین مخلوق تھا۔ جب ٹم نے مرکزی گڑھے کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیےایک گروپ کی قیادت کی تو سب اچانک غائب ہو گئے۔ یہاں تک کہ ان کی لاشیں بھی نہیں مل سکیں۔ انہیں شاید ڈیمن درندوں نے کھا لیا تھا۔
علی روئی نے وقت کا حساب لگایا۔ جب ٹم اقتدار میں تھا، اقابلہ نے مغرب کی طرف کوئی کارواں نہیں بھیجا تھا۔ لہذا زیادہ سے زیادہ ڈاکووں کی ایک چھٹپٹ تھی۔ جب ایک قافلہ روانہ ہوا تو اس کے مطابق ایک طاقتور ڈاکو گروہ نمودار ہوا جو ظاہر ہے کسی مقصد کے لیے تھا۔ مغرب کا تجارتی راستہ منقطع کرنے کے بعد ان کا کنٹرول کرنے والاہدف کان میں منتقل ہو گیا۔ ایسا لگتا تھا کہ وہ نیرنگ آباد کو اس وقت تک دبانا چاہتے ہیں جب تک کہ اس کا دم گھٹ نہ جائے۔ گیڈ اور دوسروں کو زندہ چھوڑنے کی وجہ ڈاکوؤں کی مہربانی نہیں تھی لیکن وہ آخری لمحے تک اقابلہ کی طرف سے زیادہ توجہ مبذول نہیں کرنا چاہتے تھے۔ علی روئی تصور کر سکتا تھا کہ ہر جگہ ایک ہی وقت میں مشکلات ہوں گی۔ اگر اقابلہ میں غیر معمولی صلاحیت ہوتی تو بھی وہ بے بس ہو جاتی کیونکہ یہ نسبتاً کامل اور ظالمانہ منصوبہ تھا۔
’’میں یہاں اس بار بھی حکیم الداس کے دیے ہوئے کام کے لیے آیا ہوں‘‘۔
علی روئی نے اس کے بارے میں سوچا اور سفر کا سب سے اہم مقصد بتایا۔
’’ماسٹر اب ایک عجیب دوائی کے ساتھ تجربہ کر رہا ہے جس میں کچرے کی دھاتوں پر کرسٹل پاؤڈر کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیا تم مجھے وہاں لے جاؤ گے؟‘‘۔
’’فضلہ کچ دھاتیں؟ کرسٹل پاؤڈر؟‘‘۔
گیڈ نے سر جھکا کر سوچا۔ آخرکار اسے احساس ہوا اور بولا:
’’آپ ضرور اس چیز کے بارے میں بات کر رہے ہوں گے جو کچ دھاتوں پر پھنسی ہوئی ہے۔ کرسٹل بہت پریشان کن ہے اور اس سے چھٹکارا حاصل کرنا مشکل ہے۔ چھوڑیں، اسے پاؤڈر میں تبدیل کریں۔ کرسٹل کے ساتھ یہ کچرا کچ دھاتیں صرف تولان پہاڑکے مرکزی کان کنی کے گڑھے میں پائی جاتی ہیں۔ اب یہ ڈاکوؤں کے علاقے میں ہے‘‘۔
علی روئی نے ہمت نہیں ہاری اور پوچھا:
’’کچرے کی دھاتیں کہاں ہیں؟‘‘۔
گیڈ نے جواب دیا:
’’کچرے کے کچرے کا کچرے کے کمرے میں ڈھیر لگایا جاتا ہے جو مرکزی گڑھے کے اوپر ایک مخصوص کونے میں ہے۔ فی الحال معدنیات کی پیداوار بہت کم ہےاس لیے بہت سے لوگوں نے کچرے کو چوری کر کے شہر واپس بھیج دیا ہے۔ اس کے بعد ڈاکوؤں نے ان سب کو دیکھ کر مار ڈالا۔
علی روئی کی بھنویں اور بھی جھک گئیں۔ زیک نے پہلے اس کا تذکرہ کیا تھا لیکن توقع نہیں تھی کہ اصل صورتحال اس سے زیادہ خراب ہوگی۔ نیرنگ آبادمیں لوہار کی دکان پر کچرے کا ہر ٹکڑا جسے میں نے تبدیل کیا وہ کان کنوں کے خون سے رنگا ہوا تھا۔
فلورا نے غصے سے کہا:
’’بھاڑ میں جاؤ! گیڈ، ہمیں ان ڈاکوؤں کو ختم کرنے کا کوئی راستہ تلاش کرنا چاہیے‘‘۔
’’محترمہ! براہ کرم جذباتی نہ ہوں‘‘۔
گاڈ نے سر ہلایا:
تولان پہاڑ میں 200 سے زیادہ ڈاکو ہیں جن کی قیادت بارنیکل نامی ایک عظیم ڈیمن کرتا ہے۔ وہ ریڈ ڈیول کے دو نائبین میں سے ایک ہے اور ہائر ڈیمن کے عروج پر ہے۔ اس کے نیچے اب بھی تین مضبوط اعلیٰ ڈیمن ہیں۔ ہم ان کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اس کے علاوہ یہ سرخ ڈیمن کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ ہے۔ افواہوں کا کہنا ہے کہ رہنما کی طاقت ناقابل تسخیر ہے اورامکان ہے کہ وہ اعلیٰ ڈیمن کی سطح کو پیچھے چھوڑگیاہے۔ مس! میری بات سنیں، جلدی واپس نیرنگ آباد کی تیاری کریں۔تولان پہاڑبہت خطرناک ہے‘‘۔
’’نہیں، مجھے شہزادی رائل کا دیا ہوا کام مکمل کرنا ہے ورنہ میں کبھی واپس نہیں جاؤں گی‘‘۔
فلورا کا رویہ بہت پرعزم تھا کیونکہ اس نے خود اقابلہ سے اس سفر پر آنے کی درخواست کی تھی۔
ریڈ ڈیول ڈاکوؤں کی طاقت سننے کے بعد علی روئی اپنے خیالات میں ڈوب گیا:
اس ڈاکو گروہ کی طاقت کافی خوفناک ہے۔ اب تولان پہاڑپر 4 اعلیٰ ڈیمن قابض ہیں۔ یہاں تک کہ اگر ایلن کے خاتمے کی دو پچھلی کوششیں ’’جعلی‘‘ نہیں تھیں وہ اس کے خلاف جیت نہیں سکتا تھا۔ فلورا اس وقت درمیانی درجے کی ہائی ڈیمن تھی۔ علی روئی شاید ابتدائی ہائی ڈیمن کے برابر تھا۔ ڈوڈو کی طاقت ڈی لیول تھی۔ ایک اعلیٰ ڈیمن لیکن اس کی مخصوص سطح نامعلوم تھی۔ اس کے علاوہ اس کے پاس حملہ کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ وہ صرف اس کی لافانیت کے ساتھ ٹینک کر سکتا تھا۔ 3 ہائی ڈیمنز بمقابلہ 4 ہائی ڈیمنز ایک معمولی نقصان کی طرح نظر آ سکتے ہیں لیکن اس کا حساب اس طرح سے نہیں لگایا جا سکتا۔ بارنیکل پہلے ہی ہائی ڈیمن کے عروج پر تھا۔ اس طرح وہ اکیلا علی روئی کی تمام پارٹی کو شکست دے سکتا تھا۔ اس لیے علی روئی کی پارٹی واقعی آنکھیں بند کر کے لڑ سکتی تھی۔ تاہم علی روئی کے اس سفر کا بنیادی مقصد ڈاکوؤں سے نمٹنا نہیں تھا بلکہ سیکڑوں سالوں سے جمع ہونے والے کچرے کو نکالنا تھا۔ جو بڑے پیمانے پر چمکدار تھا۔ کسی بھی صورت میں اسے پہلے صورتحال کا جائزہ لینا چاہیے۔
اس وقت ایک سیاہ ایلف آیا۔ یہ نائب کپتان کونر تھا جو کھانا لینے گیا تھا۔ وہ لالہ آلو جیسے کھانے کے دو پیالے، ایک بڑا خشک پینکیک اور چند پھل لے کر آیا۔ فلورا نے جھنجھوڑ کر کہا:
’’کیا آپ عام طور پر یہ کھاتے ہیں؟‘‘۔
’’معذرت محترمہ فلورا!‘‘۔
گیڈ نے شرمندگی سے کہا:
’’حالات اب مشکل سے مشکل تر ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ پہلے سے ہی یہاں کا بہترین کھانا ہے۔ بہت سے کان کن دن میں صرف ایک وقت کھاتے ہیں‘‘۔
کونر نے مزید کہا:
’’وہ ڈاکو قریبی پانی کے ذرائع اور شکار کو کنٹرول کرتے ہیں۔ اگر کپتان کا انتظام اور قیادت نہ ہوتی تو نہ مارے جاتے تو بھوک سے مر جاتے‘‘۔
فلورا اور علی روئی نے آخرکار سمجھ لیا کہ ہر کوئی کمزور کیوں نظر آتا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ بھرے ہوئے پیٹ کو بھی محفوظ نہیں رکھ سکتے تھے۔
’’تم غلط سمجھے گیڈ‘‘۔
فلورا کھڑی ہوئی اور گیڈ کے پاس جھک گئی:
’’مجھے یقین نہیں آتا کہ آپ 4 سال سے اس جگہ کی حفاظت کر رہے ہیں۔ مجھے تو آپ کا احترام کرنا چاہیے‘‘۔
گیڈ جلدی سے اٹھا اور فلورا کی طرف جھک گیا۔ علی روئی نے خلائی کڑا سے تمام شکار واپس لے لیے اور کہا:
’’گیڈ! کسی کو ان شکاروں کو صاف کرنے کے لیے کہو، پھر اپنے سب سے بڑے برتن میں سے کچھ لے آؤ۔ بعد میں سب کو اکٹھا کریں ۔ہم سوپ پئیں گے‘‘۔
گیڈ نے حیرانی سے دیکھا۔ اس نے جلدی سے کونر کو یہ سب کرنے کو کہا ۔ اس کی آنکھوں میں علی روئی کا تاثر قدرے بہتر تھا۔ کچھ ہی دیر میں آگ جلنے لگی اور لوہے کے چند بڑے برتن لگائے گئے۔ علی روئی نے کچھ اضافی مصالحہ جات کے ساتھ اپنے ہاتھ سے سٹو کرنا شروع کیا۔تولان پہاڑکی آب و ہوا بہت ٹھنڈی تھی لہٰذا ابالتے برتن اور طویل عرصے سے کھوئے ہوئے گوشت کی خوشبو نے آس پاس کے تمام اشیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اگر گیڈ کا وقار نہ ہوتا تو وہ اسے چھین لیتے۔ کونر نے ہر کان کن کو جمع کیا۔ وہاں تقریباً چار سے پانچ سو لوگ تھے جن میں زیادہ تر امپس، بونے اور چند سیاہ ایلوس اور سینٹور تھے۔ تقریباً سبھی نے امید کے ساتھ۔۔۔نئے کان کن افسر کے پاس موجود برتنوں کو دیکھا۔ گوشت کے سوپ کی تقسیم سے پہلے علی روئی نے کان کنی کے افسر کے طور پر پہلی نصیحت شروع کی۔
’’پہلے، میں اپنا تعارف کرواتا ہوں، میرا نام علی روئی ہے۔ میں پہلے شہزادی رائل کا سیکرٹری تھا۔ حال ہی میں مجھے مالیاتی افسر جوزف نے مائنز آفیسر بننے کی سفارش کی تھی‘‘۔
علی روئی نے اپنے تیار کردہ مسودہ سنایا:
’’آپ نے سنا ہو گا کہ میری ایک اور شناخت ہے اور وہ حکیم الداس کا واحد شاگرد ہے۔ یہ ٹھیک ہےکہ میں ایک کمزور انسان ہوں لیکن مجھے پوئی بیٹے کے حکیم کی حقیقی تعلیم ملی ہے۔ مثال کے طور پر۔۔۔کیا تم مجھے اپنا کراسبو دے سکتے ہو؟‘‘۔
علی روئی قریب ترین تاریک بونے کے پاس آیا۔ بونے کو یہ توقع نہیں تھی کہ انسان اسے تلاش کرے گا اس لیے اس نے لاشعوری طور پر کراسبو کو مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا۔ علی روئی اچھا بننے کے لیے بہت بے چین تھا۔ اس نے چھین کر اسے اونچا اٹھا کر لہرایا، پھر مضبوط کراسبو تیزی سے گرنے لگا۔ یہ ایک بوسیدہ لکڑی کی طرح بکھر گیا۔
’’یہ زہر کی درجنوں مہارتوں میں سے ایک ہے جسے حکیم نے سکھایا ہے‘‘۔
علی روئی نے شریر نظر آتے ہوئے ڈرایا:
’’اگر میرے ہاتھ میں کوئی دشمن آتا ہے تو میں اپنے زہر کے لیے ایک اور تجربہ کرنے پر خوش ہوں‘‘۔
اس حرکت نے ظاہر ہے کہ وہاں موجود بہت سے زدروحوں کو خوفزدہ کر دیا اور شور مچانے والامنظر اچانک پرسکون ہو گیا۔ اگرچہ پوشنیر اور مکینک جیسی صلاحیتیں لڑائی میں زیادہ مضبوط نہیں تھیں لیکن وہ یکساں طور پر قابل احترام تھے خاص طور پر پوشنر۔ الداس کے بارے میں زہریلا پوشنر جینیئس، مہیر نے اپنے پاد کے ساتھ دارالحکومت سے نہ صرف نیرنگ آباد اورتومانی سلطنت میں پھیلی بلکہ باقی دو سلطنتوں تک بھی پھیل گئی۔ حالانکہ یہ انسان محض ایک شاگرد تھا لیکن وہ اس استاد کا اکلوتا طالب علم بھی تھا۔
یہ دیکھ کر سامنے والے بہت سے بدروح بیک وقت پیچھے ہٹ گئے، خاص طور پر وہ بونا جو مظاہرے کے لیے استعمال ہوا تھا، خوف سے کانپ رہا تھا۔ یہی وہ اثر تھا جو علی روئی چاہتا تھا۔ اتنے لمبے عرصے تک ڈیمن کے دائرے میں رہنے کے بعد وہ اس کی مہارت کو پہلے ہی جانتا تھا۔ اس دنیا نے مضبوط ترین کی وکالت کی۔ اگر کوئی نرم تھا تو یہ صرف ان لوگوں کو قابو کرنا مشکل بنا دے گا۔ پہلے ان سے ملنے کے لیے اسے ایک بڑی چھڑی کا استعمال کیا، پھر اس نے انھیں ایک گاجر دی۔ یہ سب سے مؤثر طریقہ تھا۔
’’سب کو یقین دلائیں۔ میرا زہر صرف دشمنوں کے خلاف استعمال ہو گا۔ اس سے میرے لوگوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا‘‘۔
علی روئی نے اپنی طاقت دکھانے کے بعد فوری طور پر ’’گاجر‘‘ پھینک دی۔
’’میں جانتا ہوں کہ کان کی صورتحال خراب ہے، اس لیے کان کنی کے حوالے سے میری زیادہ مانگ نہیں ہے۔ بطور مائنز آفیسر میری صرف ایک درخواست ہےوہ یہ کہ آپ کو میرا حکم ماننا ہوگا۔ جہاں تک کھانے کا تعلق ہے، میں دو طاقتور وائیورنز لایا ہوں۔ محترمہ فلورا یہاں نیرنگ آباد میں بہترین تلوار والی خاتون ہیں اور وہ بہترین بیسٹ ٹیمر بھی ہیں۔ ہم شکار کا شکار کرنے کے لیے وائیورنز کا استعمال کریں گے اور ہر دو دن بعد ہر ایک کو گرم گوشت کا سوپ پلانے کی کوشش کریں گے۔ کیا تمہیں وہ پسند ہے؟‘‘۔
سب نے با آواز بلند کہا:
’’ہاں‘‘۔
علی روئی کا ذہن صاف تھا کہ گوشت کے سوپ کا جواب 100% تھا۔ اگرچہ گوشت کا سوپ ابھی بھی کافی نہیں تھالیکن یہ پہلے سے ہی ان کان کنوں کے لیے ایک عیش و آرام کی چیز تھی جنہوں نے طویل عرصے سے گوشت نہیں چکھا تھا۔ ہر ایک کے ذہن میں ایک بنیادی تاثر تھا:
اگرچہ نیا سپروائزر ایک انسان ہے، لیکن اس کے پاس خوفناک زہر ہے۔ اگر ہم نافرمان ہوئے تو ہم بہت دکھی ہوں گے۔ اس کے برعکس اگر ہم اس کی بات مانیں گے تو ہمیں گوشت کا سوپ ملے گا۔
یہ کھانے کا سب سے مشہور وقت تھا۔ گیڈ واقعی فوج سے تھا جیسا کہ اس کی کمان میں گوشت کے سوپ کی تقسیم ایک منظم طریقے سے جاری تھی۔ رات کے کھانے کے بعد علی روئی نے بونے کو وہاں اکیلا رہنے دیا۔بوڑھا بونا بہت ہچکچایا،جب اس نے کراسبو اور خوفناک زہر پیش کیا تو وہ خوف سے زمین پر تقریباً مفلوج ہو گیا۔ علی روئی نے کچھ نہیں کہا لیکن اس نے بونے کو خیمہ لگانے میں مدد کرنے کے لیے مخالف چوٹی پر جانے کا حکم دیا۔ فلورا پتھر کے اس گھر میں نہیں رہنا چاہتی تھی جسے گیڈ نے پیش کیا تھا اور اس خیمے کو استعمال کرنے سے انکار کر دیا تھا جسے علی روئی نے پیش کیا تھا۔ لہذا اس نے کچھ موجودہ مواد کے ساتھ پہاڑ کے کنارے ایک سادہ خیمہ بنایا۔ دونوں وائیورنز چوٹی پر تھے اور چوٹی کے پیچھے ایک چٹان تھی اس لیے فلورا نے اس مقام کا انتخاب کیا جو علی روئی کی بہتر حفاظت کر سکتی تھی۔ اگرچہ فلورا کا پہاڑ کے کنارےرہنا علی روئی کی نقل و حرکت کو تکلیف دہ بنا دیا لیکن ایک خاص معنی میں یہ ایک احاطہ کے طور پر کام کر سکتا ہے کیونکہ پاؤں پر موجود لوگ اوپر نہیں آ سکتے تھے۔
یہ دیکھ کر کہ کان کنی کے افسر نے آسانی سے دو سخت وائیورنز کو ایک طرف کھینچ لیا اور انہیں باندھ دیا بونے نے اس کی اور زیادہ عزت کی۔ خوش قسمتی سے کان کن افسر نے اسے زہر کے تجرباتی مضمون کے طور پر استعمال نہیں کیا، لیکن اس نے صرف اس سے کان کی صورتحال کے بارے میں پوچھا۔ بونے کے مطابق مرکزی گڑھے کو اوپری اور نچلی تہوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ ہزاروں سال کی تزئین و آرائش اور توسیع کے بعد یہ ایک زیر زمین گزرگاہ کے برابر تھا جو ہر طرف سے قابل رسائی تھا۔ جب اوپری تہہ میں معدنیات تقریباً ختم ہو گئیں تو ایک گہرا اور نچلی تہہ کا گڑھا کھل گیا۔کچھ عرصہ پہلے کیبل کاروں اور لفٹوں کے ذریعے معدنیات کی نقل و حمل بہت آسان تھی۔ تاہم ایک دن جب کان کن گہری کھدائی اور سروے کر رہے تھے تو انہیں اتفاق سے ایک زیر زمین دنیا ملی جس کے نیچے مختلف طاقتور مخلوقات تھیں۔ اس وقت،نیرنگ آباد کا لارڈ ایک مضبوط ڈیمن شہنشاہ تھا۔ یہ خبر سنتے ہی وہ فوراً یہاں پہنچا اور باہر نکلنے والی زیر زمین مخلوق کے ایک جھنڈ کو مار ڈالا۔ اس نے ان مخلوقات کے داخلے اور باہر نکلنے پر پابندی کے لیے کئی پاور ہاؤسز کے ساتھ ایک مہر بھی لگائی۔ ہزاروں سالوں سے یہ محفوظ اور صحت مند تھا۔ 400 سال پہلے یقین نہیں تھا کہ مہر اپنی طاقت کھو دے گی۔ زیر زمین مخلوق نے مہر کو توڑ کر نچلی کان کے مرکزی گڑھے پر قبضہ کر لیا۔ مایوسی میں کان کن کے افسر کو پھر بڑی لفٹیں تباہ کرنی پڑیں اور لوگوں کو داخلی راستے کی حفاظت کے لیے بھیجنا پڑا۔ اس طرح معدنیات کی پیداوار بہت کم ہو گئی تھی۔ بہت سے لوگ سادہ ذاتی رسی کی سیڑھی کے ساتھ چپکے سے نیچے اترے اور اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر نچلی تہہ میں کان میں جا گرے جس کے نتیجے میں کئی جانیں ضائع ہوگئیں۔ تاہم اس سال ڈاکوؤں کی بھر مار تھی۔ یہاں تک کہ انہوں نے کان کنی کے کچھ چھوٹے ذرائع کو بھی کنٹرول کیا جو بڑی محنت سے دریافت ہوئے تھے اور کان کنوں کو نقصان پہنچا رہے تھے۔ کان کنوں میں سے کچھ بچ گئے اور ان میں سے کچھ مر گئے۔ ہزاروں کان کنوں میں سے چند سو بچے۔
علی روئی نے بونے سے نقشہ کھینچنے کو کہا اور اسے ایک بڑے پینکیک سے نوازا۔ بونے کو اتنی اچھی بات کی توقع نہیں تھی۔ وہ خوشی خوشی وہاں سے چلا گیا۔ بونے قابل دوڑ والی نسل تھی۔ اگرچہ نقشہ سادہ تھا لیکن یہ درست اور سمجھنے میں آسان تھا۔ مرکزی گڑھاتولان پہاڑکی پچھلی پہاڑی پر واقع تھا اور کچرے کا کمرہ مرکزی گڑھے کے اوپری حصے میں کہیں واقع تھا۔
آسمان گہرا ہوتا جا رہا تھا۔ علی روئی نے اپنا عمل شروع کیا۔ اس کا سرورق ڈریگن نوشتہ تھا۔ وہ اب کچھ بنیادی نوشتہ جات کو جانتا تھا۔ <Reflect> جیسے نوشتہ جات جوسنکھیارنے دوسرے دن نیلی جھیل پر استعمال کیے تھے وہ سب سے اوپر والے نوشتہ سے تعلق رکھتے تھےجو نہ صرف مشکل تھا بلکہ اس پر مختلف پابندیاں بھی تھیں۔ ان میں سے ایک یہ تھا کہ اسے صارف کے خون کی ضرورت تھی اور یہ صرف ایک خاص وقت تک چل سکتا تھا۔ علی روئی کی موجودہ طاقت بہت کم تھی۔ اسے بنیادی نوشتہ جات کے ساتھ بھی پریشانی تھی۔ اس کے علاوہ نوشتہ جات لکھنے میں بھی کافی وقت لگا۔ تاہم جنہوں نے اسے پہاڑ کے دامن میں دیکھا ان کا خیال تھا کہ وہ خیمے میں کچھ کر رہا ہے۔
اس نے تین نوشتہ جات کا استعمال کیا، یعنی <Hidden>، <Mute> اور <Mirror>۔ یہ نوشتہ ہائر ڈیمن کی طاقت کی عظیم کوشش تھی جس میں <گہرے تجزیے< کا استعمال کیا گیا تھا۔ چالو کرنے کے بعد یہ صرف چند گھنٹوں تک چل سکتا ہے۔ ویسے بھی اس کے پاس کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ دیومالای دائرہ بھی ایک ایسی دنیا تھی جس کا انحصار اس بات پر تھا کہ آپ کس کے طور پر پیدا ہوئے تھے، مثال کے طور پر، ڈریگن ڈیمن کنگ کی طاقت سے پیدا ہوئے تھے۔ تاہم علی روئی کو دشمنوں کو نقصان پہنچانے کی طاقت کی ضرورت نہیں تھی۔ اسے صرف ایک خاص وہم پیدا کرنے کی ضرورت تھی۔ باہر ایک خیمہ اور دو ویورنز تھے۔ حقیقت میں وائیورنز میں سے ایک پہلے ہی آسمان میںتولان پہاڑکی طرف اڑ رہا تھا۔ اس کا نوکر ڈوڈو جو وائیورن پر سامان میں چھپا ہوا تھا۔ نقشے اور جادوئی کمپاس کی مدد سے علی روئی نے جلدی سےتولان پہاڑکا مقام تلاش کر لیا۔ تولان پہاڑدرحقیقت پہاڑ ی سلسلے کے اندر سب سے بڑا پہاڑ تھا۔ وہ واقعی پہاڑ کے بڑے سائز سے حیران تھا۔ کچھ دیر کے لیے وائیورن کے اڑان بھرنے کے بعد انھیں نیچے ایک مدھم روشنی ملی جو کہ سرخ ڈیمنوں کا کیمپ ہوسکتا تھا۔
تولان پہاڑ کے پیچھے پہاڑ کے کنارےپتھر کے کئی بڑے گھر تھے جو نیرنگ آباد کان کنی کا دفتر تھا۔ اب وہ پہاڑ کے دامن میں کان کنوں کے رہائشی علاقے سمیت ڈاکوؤں کے قبضے میں تھا۔ نقشے سے ظاہر ہوتا ہے کہ کان کنی کے دفتر کا مقام ہی مرکزی گڑھے میں داخل ہونے کی واحد جگہ تھی۔ چونکہ وہاں ہائر ڈیمن موجود تھا، علی روئی نے براہ راست مرکزی گڑھے کے داخلی دروازے پر سواری کرنے کی ہمت نہیں کی۔ اس نے احتیاط سے اترنے کے لیے ایک ویران کونے کا انتخاب کیا اور ڈوڈو اور مگدا کو چھپنے کا حکم دیا۔ پھر اس نے چادر اوڑھ لی اور احتیاط سے اندر گھس گیا۔ آج رات کے آسمان پر گھنے سیاہ بادل تھے، اس لیے دو ماہ کی روشنی بہت مدھم تھی۔ علی روئی نے <تجزیاتی آنکھیں>کو چالو کیا۔ وہ راستے میں اپنی موجودگی چھپا رہا تھا اور آہستہ آہستہ رہائشی علاقے کے قریب پہنچا جہاں پہاڑ کے دامن میں روشنیاں چمک رہی تھیں۔ گیٹ پر چار محافظ تھے اور اندر سے آوازیں آرہی تھیں۔
<تجزیاتی آنکھوں< نے ظاہر کیا کہ داخلی دروازے کی حدود میں4گارڈز E اور F سطح کے تھے۔ اپنی موجودہ طاقت اور اندھیرے کے احاطہ کے ساتھ علی روئی نے محافظوں کو خوف زدہ کیے بغیر ان کو نظرانداز کیا۔ اندر کے ڈاکوؤں کو توقع نہیں تھی کہ کوئی اندر آنے کی ہمت کرے گا۔ وہ پی رہے تھے اور گپ شپ کر رہے تھے۔
’’مائنز آفیسر واقعی آیا تھا۔ سنا ہے یہ بے اختیار انسان ہے۔ یہ تو مزاحیہ بات ہے‘‘۔
’’اس انسان کو کم مت سمجھو۔ ایسا لگتا ہے کہ اس کے پاس کچھ زہر کی مہارت ہے۔ وہ الداس کا ایک سٹوڈنٹ بھی ہے۔ ہم اس حکیم کو مشتعل کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے‘‘۔
’’ہم اسے زہر دینے کا موقع دیے بغیر دور ہی سے مار سکتے ہیں۔ ویسے بھی وہ مر جائے گا۔ ویسے لگتا ہے اس بار واقعی کوئی خوبصورت عورت ہے، ہائے‘‘۔
’’یہ سلطنت کے پہلے جنرل کی بیٹی ہے۔ وہ اب ایک اعلیٰ ڈیمن ہے۔ اپنی طاقت سے وہ آپ کے عضو تناسل کو ہلکی سی لات سے توڑ سکتی ہے‘‘۔
یہ کہتے ہی سب ہنس پڑے۔
’’یہاں تک کہ اگر وہ ہائر ڈیمن ہے، ہماری ڈپٹی لیڈر سر بارنیکل ہائر ڈیمن کی چوٹی پر ہے۔ تاہم سر بارنیکل نے شکایت کی کہ بہت بورنگ ہے اس لیے وہ ہمارے لیڈر کے ساتھ لطف اندوز ہونے کے لیے پہلے ٹاؤن لیا گیا تھا۔ اس کے باوجود سر کلیا بہت بدقسمت ہیں کہ سر بارنیکل کی طرف سے کہا گیا کہ وہ ہماری صحبت رکھنے کے لیے اتنی جلدی واپس آجائیں، ہاہاہا‘‘۔
’’ بھاڑ میں جاؤ! کون اس سرد غریب جگہ میں رہنا چاہتا ہے۔ آس پاس ایک بھی عورت نہیں ہے۔ یہ اسٹیٹ میں واپس زیادہ آرام دہ ہے۔آؤ ان تمام کان کنوں کو مار ڈالیں، پھر ہمیں مزید اس کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا‘‘۔
ایک سینٹور نے منہ بھری شراب پی اور بے اطمینانی سے کہا۔
اس کے پاس موجود اندھیرے نے سر ہلایا:
’’تم نے بہت زیادہ پی۔ کیا ہمارے لیڈر نے پہلے نہیں کہاکہ ابھی وقت نہیں آیا۔ ہمیں موجودہ صورتحال کو برقرار رکھنا ہے اور نیرنگ آبادپر زیادہ توجہ مبذول نہیں کرنی ہے۔ جب وقت پختہ ہو جائے تو آپ جس طرح چاہیں مار سکتے ہیں‘‘۔
’’تم ٹھیک کہہ رہے ہو، لیکن مجھے نہیں معلوم کتنا انتظار کرنا پڑے گا۔۔۔‘‘۔
سینٹور نے پہاڑ کے کنارے پتھر کے گھر کی طرف عقیدت سے دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں حسد کے اشارے تھے۔
’’سر یگس کو بہت زیادہ آرام کرنا چاہیے کیونکہ ان کے پاس محترمہ سلی کی کمپنی ہے۔ وہ قدرتی طور پر ٹاؤن لیہ نہیں جانا چاہتا۔
’’کون کہتا ہے کہ وہ نہیں جانا چاہتا۔ اہم بات یہ ہے کہ محترمہ سلی کی طاقت سر یگس سے زیادہ ہے۔ اگرچہ وہ دونوں ابتدائی ہائر ڈیمن ہیں لیکن محترمہ سلی سر یگس سے زیادہ برتر ہیں۔ ورنہ جناب پہلے ہی ٹاؤن لیہ میں مزے کر رہے ہوتے‘‘۔
جان بوجھ کر دبی ہوئی ہنسی کی ایک اور لہر چلی۔
علی روئی یہ سب سن رہا تھا۔ اس نے جلدی سے سوچا۔ ان ڈاکوؤں کی گفتگو سے کافی معلومات سامنے آئیں۔ سب سے پہلے خاقانی سلطنت کے ساتھ سرحد پر واقع ٹاؤن لیہ کو ریڈ ڈیولز کا گڑھ ہونا چاہیے۔ ان کے رہنما اور اہم افواج وہاں موجود تھیں۔ دوم کان پر ڈاکوؤں کے 4 اعلیٰ ڈیمن تھے، بنارکل، کلیا، سلی اور یاگس۔ بارنیکل پہلے ہی ٹاؤن چلا گیا تھا اور کولیا اس سے بھی پہلے چلا گیا تھا، لیکن اسے جلد واپس آنا چاہیے۔ سلی اور یاگس دونوں ابتدائی اعلیٰ ڈیمن تھے۔ وہ ایک غیر معمولی تعلق رکھتے تھے اور دونوں اس وقت پہرہ دے رہے تھے۔ تیسرا، جیسا کہ توقع تھی، ڈاکو مائنز کے نئے افسر کو مارنا چاہتے تھے۔ چوتھی بات یہ کہ کان کنوں کو زندہ چھوڑنا درحقیقت سرخ ڈیمن کا منصوبہ تھا۔
یہ صرف سطحی معلومات تھیںلیکن علی روئی نے مزید باتیں سنی۔ فلورا اور وہ آدھے دن سے بھی کم وقت کے لیے کان پر پہنچے لیکن ڈاکوؤں کو خبر ہو چکی تھی۔ ظاہر ہے کان کنوں میں جاسوس تھے۔ فلورا نے کچھ دیر قبل ہائر ڈیمن کی طرف پیش قدمی کی اورتولان پہاڑتک اس کا پیچھا کیا لیکن ڈاکو فوری طور پر اس کی طاقت کو جان گئے۔ واضح تھا کہ نیرنگ آباد اور ڈاکوؤں کے پاس رابطہ کرنے کے لیے ایک اضافی میجک کمیونیکیشن ٹاور ہونا ضروری ہے۔اقابلہ اور اشمار کی کچھ معلومات کے مطابق یقینی تھا کہ سرمانی سلطنت ان ڈاکوؤں سے جوڑ توڑ کر رہی تھی۔ وہ غالباً سرخ روح کی فوجی طاقت کے حامی تھے۔
کان کنوں کے رہائشی علاقے بہت بڑے تھے۔ 200 سے زیادہ ڈاکوؤں کے رہنے کے لیے یہ کافی سے زیادہ تھا۔ ناواقف خطہ اور اس حقیقت کی وجہ سے کہ پہاڑ کے کنارے پر دو اعلیٰ ڈیمنوں کی حفاظت تھی۔ علی روئی نے ان کےلیے خطرے کی گھنٹی بجانے کا ارادہ نہیں کیا۔ آج یہاں آنے کا ان کا سب سے بڑا مقصد مین گڑھے میں کچرے کا کمرہ تھا۔ علی روئی نے کچھ دیر سوچا، پھر خاموشی سے پیچھے ہٹ کر مگدا کی طرف لوٹ گیا ۔ کچھ سوچااورمگدا پر سوار ہو کر چلا گیا۔ وہ مائنز کے دفتر سے بچتے ہوئے وہاں گیا جہاں2 اعلیٰ ڈیمن رہتے تھے اور پیچھے سے گڑھے کی چوٹی پر اترا۔ چوٹی اور مرکزی گڑھے کے داخلی دروازے کے درمیان فاصلہ کم از کم 200 میٹر تھا۔ علی روئی کی موجودہ جسمانی ساخت غیر معمولی ہونے کے باوجود اتنی بلندی سے چھلانگ لگا کر موت کے منہ میںجانا نہ بھی ہوتا تو شدید زخمی ضرورہو جاتا۔ نیچے کئی محافظ بھی تھے، اس لیے وہ براہ راست وائیورن کے ساتھ نہیں اتر سکتا تھا۔ اگر کوئی جادو ہوتا جیسا کہ <Feather Fall>، وہ شاید آہستہ سے گر سکتا تھا۔ بدقسمتی سے علی روئی جادوگر نہیں تھا، تاہم اس کے پاس ایک اسسٹنٹ تھا جو اپنی مرضی سے کھینچ سکتا تھا اور بدل سکتا تھا۔ یہ لڑکا ڈریگن کی پوری ہڈی کو ڈھانپنے کے لیے اپنے جسم کو پھیلانے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ لہذا ایک موبائل رسی بننے کے لئے کیک کا ایک ٹکڑا ہونا ضروری تھا۔ مرکزی گڑھا ایک فلیٹ مقعر کا داخلی دروازہ تھا۔ یہاں کیبل کار کا ٹریک تھا جو کچ دھات کی نقل و حمل کے لیے استعمال کیا جاتا تھا لیکن اسے کافی عرصے سے ترک کر دیا گیا تھا۔ چوٹی پر اب بھی محافظ موجود تھے لیکن وہ سب آگ کو گھیرے ہوئے تھے۔ علی روئی خاموشی سے نیچے آیا جبکہ ڈوڈو بھی پیاز کے سر کی شکل میں واپس آیا اور اس کے کندھے پر اتر گیا۔ علی روئی نے الاؤ پر گارڈز کی طرف مڑ کر دیکھا، کسی کو بھی اس کا احساس نہیں تھا۔ وہ چپکے سے سوچ رہا تھا کہ کامیاب ہو گیا ہے، پھر وہ مرکزی گڑھے کے دروازے کی طرف لپکا۔ مین گڑھا بالکل سامنے تھا۔ یہ بہت بڑا داخلی دروازہ تھا اور اندر جادوئی چراغ کے پتھروں کی مدھم روشنیاں تھیں۔ اس وقت علی روئی نے اچانک اپنے دل میں بحران کا احساس محسوس کیا۔ اس کے بال ایسے کھڑے تھے جیسے اسے کسی خوفناک چیز گھور رہی ہو۔ ڈوڈو کا ردعمل اور بھی تیز تھا۔ وہ فوراً اپنے مالک کے کندھے سے اچھل کر فرار ہو گیا لیکن وہ علی روئی کے ہاتھوں پکڑا گیا۔ یہ پیاز کا سر جو کمزوروں کو تنگ کرتا تھا اور طاقتور سے ڈرتا تھا بھاگنے میں بہت اچھا تھا۔ سامنے سے گرجنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ اسی وقت تیز روشنی کا ایک گولہ اس کی آنکھوں کے سامنےسیٹی بجاتا ہوا تیزی سے پھیل رہا تھا۔ علی روئی نے ابدی دوائیوں کے اثرات کو پوری طرح جذب کر لیا تھا اس لیے اس کی رفتار کافی حد تک بڑھ گئی تھی۔ اس نے فوراً چھلانگ لگائی۔ اس سے پہلے کہ روشنی کی گیند اس کے جسم سے ٹکراتی، روشنی آگ کے گولے کی طرح لگ رہی تھی جس کے اندر خوفناک طاقت تھی۔ زمین دراصل اس کی زد میں آکر پھٹ گئی۔ یہ بالروگ، ریکا کے <پائروبلاسٹ >سے ملتا جلتا تھالیکن نقصان اس سے کہیں زیادہ تھا۔ زمین پر موجود مضبوط کیبل کار کی پٹری دراصل اس طاقتور قوت سے متاثر ہونے کے بعد تیزی سے پگھل گئی اور بگڑ گئی۔
’’لعنت ہے‘‘۔
محتاط حساب کتاب کے بعد علی روئی کو یہ توقع نہیں تھی کہ مرکزی گڑھے کے دروازے کی حفاظت کرنے والاکوئی خوفناک ڈیمن حیوان ہوگا۔ ہلکی گیند کی طاقت سے اندازہ لگاتے ہوئے کم از کم ایک اعلیٰ ڈیمن کی طاقت ہونی چاہیے۔ سب سے بری بات یہ تھی کہ پہرے دار گھبرا گئے۔ باربی کیو کی اشیا وہاں موجود تھیں۔
’’ڈوڈو! تم اس سے نمٹنے کے لیے جاؤ۔ میں فوراً تمہاری مدد کروں گا۔ اگر تم نے بھاگنے کی ہمت کی تو پھر کبھی باربی کیو کھانے کے بارے میں مت سوچنا‘‘۔
علی روئی نےیہ کہہ کر پیاز کا سر بے دردی سے اس جانور کے قریب پھینک دیا۔ پھر اس کا سامنا چند ڈیمن محافظوں سے ہوا۔ علی روئی کو معلوم تھا کہ یہ ایک نازک لمحہ ہے، اس لیے وہ پیچھے نہیں ہٹا۔ پلک جھپکتے ہی کئی گارڈز سب بس گئےلیکن مدد کے لیے ڈوڈو کی چیخیں بھی سنائی دیں۔ علی روئی تیزی سے آگے بڑھا۔ چاندنی کے نیچے ایک بھینس کے سائز کا ڈیمن درندہ تھا جو ڈوڈو کو کاٹ رہا تھا۔ یہ ایک بڑا کینائن تھا۔ اس کے تین خوفناک تاریک سر تھے۔ خوفناک آگ کا گولہ اس کے منہ سے نکلا تھا۔ <تجزیاتی آنکھوں>نے دکھایا: ریس: Cerberusجامع طاقت کا اندازہ: D.
سربیرس! علی روئی نے اس خوفناک ڈیمن درندے کے بارے میں سنا۔ وہ بہت طاقتور تھا۔ اس کے تیز دانت اور پنجے دھاتوں کو پھاڑ سکتے تھے۔
’’دشمن! مر جاؤ‘‘۔
<Analytical Eyes> کے ذریعے، وہ اس ساتھی کی گرہوں کا مطلب سمجھ سکتا تھا۔ یہ ان الفاظ کو دہرا رہا تھا۔ اس کا دماغ تشدد اور جارحیت سے بھرا ہوا تھا اس لیے بات چیت کرنے کی کوشش کرنا بیکار تھا۔ ڈوڈو ایک اعلیٰ ڈیمن بھی تھا۔ اگرچہ وہ ایک ظالم کے طور پر کام کرنے کے لیے’’بھوت ڈریگن‘‘ ہونے کا ڈرامہ کر رہا تھالیکن پھر بھی اب بھی سب سے نچلی سطح کا کیچڑ تھا۔ جب کسی کمزور کی بات آئی تو وہ پھر بھی ایسا کام کر سکتا تھا جیسے مضبوط ہو۔ البتہ ڈوڈو خوفناک لڑائی کے ہنر کے ساتھ طاقتور ڈیمن درندے سے لڑنے کے لیے اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کی ہمت کیسے کر سکتا ہے؟۔ڈوڈو اب بھی خوفزدہ اور بے بس تھا:
’’حکیم! مجھے اب باربی کیو نہیں چاہیے۔ براہ کرم مجھے جلدی سے بچاؤ‘‘۔
اس وقت پہاڑی دامن میں رہنے والوں نے بھی سیربیرس کی گرج سنی اور وہ ہنگامہ کرنے لگے۔ علی روئی بے چین تھا اور آخری جنگ کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ اس کے ہاتھ نے چاقو کی شکل بنائی تھی اور وہ ہلکی روشنی میں چمک رہا تھا۔
سیربیرس نے علی روئی کو اپنی طرف لپکتے ہوئے دیکھا تو اس نے اپنے ایک سر کا منہ کھول دیا اور گولے کے فائر نکلنے لگے۔ علی روئی جلدی سے پلٹا۔ آگ کے گولے سے پھٹنے والے پتھروں کی زد میں آکر اس کی پیٹھ ہلکی سی جل گئی۔ اس وقت وہ سیربیرس کے قدموں کے قریب تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ حملہ کرتا ، گھناؤنے سر پہلے ہی اس کی طرف جھپٹ رہے تھے۔ علی روئی کو توقع نہیں تھی کہ سیربیرس کے اتنے تیز ردعمل ہوں گے۔ وہ جلدی سے بھاگ گیا۔ سیربیرس کے تین سروں نے ایک کے بعد ایک حملہ کیا۔ علی روئی بہت مشکل میں تھا۔
’’ڈوڈو! اسے الجھاؤ! جلدی‘‘۔
علی روئی چلایا۔ جب وہ مشغول ہوا تو اس کا سیاہ لباس سیربیرس کے پنجوں سے پھٹ گیا۔ خارش زدہ حصے میں شدید درد تھا۔سیربیرس پیچھا کرنے ہی والاتھا لیکن اچانک ایسا محسوس ہوا جیسےاس کے جسم کو کسی چیز نے مضبوطی سے لپیٹ لیا ہو۔ تھوڑی دیر کے لیے متحرک تھا اور اس کے سامنے سیاہ لباس میں آدمی پہلے ہی اونچی چھلانگ لگا کر نیچے کی طرف ٹکرا چکا تھا۔ ایک ڈیمن درندے کے طور پر سیربیرس کی طاقتور جبلت نے یہ محسوس کیا کہ کالے لباس میں آدمی کا حملہ غیر معمولی خطرناک تھا۔ اس نے جدوجہد کرنے کی پوری کوشش کی اور زبردستی اس الجھن کو توڑ دیا۔ علی روئی کا <آورا بلیڈ>اس کا سر پہلے ہی کاٹ چکا تھا۔ سیربیرس نے ابھی ڈوڈو کی الجھن سے چھٹکارا حاصل کیا ہے،تھوڑا سا حرکت کر سکتا ہے۔ ایک دردناک رونے میںخون کے چھینٹے پڑ رہے تھے اور اس کا ایک سر کٹا ہوا تھا دو سروں والاجہنم کا شکار بن گیا تھا۔
علی روئی اس پریشان کن ڈیمن درندے کو ایک دم سے ختم کرنا چاہتا تھا۔ اچانک اسے کچھ محسوس ہوا اور اس نے فوراً اپنا جسم نیچے کر لیا۔ ایک تیز دھار ہتھیار اس کے سر پر اڑتا ہوا پار کر گیا۔ تیز دھار ہتھیار آدھے دائرے تک گھوما اور واپس اڑ گیا۔ علی روئی کو پکڑ لیا گیا وہ بمشکل اسے چکما دے سکا لیکن اس کی کمر کے نیچے پہلے سے ہی ایک خون آلود زخم تھا۔ تیز ہوا واپس ایک مرد عظیم ڈیمن کے ہاتھ میں آگئی۔ یہ ایک کراس کی شکل کا فلائنگ سکیتھ نکلا۔
ریس: عظیم ڈیمن ؛ جامع طاقت کا اندازہ: D.
<تجزیاتی آنکھیں< ظاہر کرتا ہے کہ اعلیٰ ڈیمن ظاہر ہوتا ہے! اس کے علاوہ، یہ صرف ایک نہیں ہے۔
یہ سلی اور یگس ہونا چاہیے،وہ بہت تیز ہیں۔
’’تم کون ہو؟ تمہاری ہمت کیسے ہوئی یہاں آنے کی؟‘‘۔
نر عظیم ڈیمن یاگس کی آواز چیخی۔
ایک خاتون کی آواز اس کے پاس آئی:
’’اس سے بات کرنے کی زحمت مت کرو۔ کیا آپ نے سر بارنیکل کا پالتو جانور نہیں دیکھا، ناگورالاکو اس حد تک چوٹ لگی ہے۔ ہمیں اسے پکڑ کر ٹکڑے ٹکڑے کر دینا چاہیے‘‘۔
جیسے ہی انہوں نے اپنی بات مکمل کی، دونوں عظیم ڈیمنوں نے تقریباً بیک وقت اپنی ڈیمن آگ کو بھڑکا دیا۔
علی روئی جانتا تھا کہ آج کی شدید لڑائی ناگزیر ہے۔ یاگس کا ہتھیار کسی حد تک بومرانگ سے ملتا جلتا تھا اس لیے علی روئی کے لیے بہت ناگوار ہوگا۔ اس نے فوراً کچھ سوچا اور مین گڑھے کی طرف بھاگا۔ یاگس اور سلی اسے کبھی جانے نہیں دیں گے، اس لیے وہ جلدی سے اس کا پیچھا کرنے لگے۔ ڈوڈو اور بھی تیز تھا۔ یہ جانتے ہوئے کہ وہ سست ہے، اس نے علی روئی کے کندھے پر چھلانگ لگا دی۔ سیربیرس اپنی چوٹوں سے مشتعل تھا، اس لیے اس نے گرجتے ہوئے پیچھا کیا۔ پلک جھپکتے ہی کئی شخصیات مرکزی گڑھے میں غائب ہو چکی تھیں۔ مرکزی گڑھا ہزاروں سالوں سے بنایا گیا تھا، خاص طور پر اوپری تہہ جس کی کھدائی کی گئی تھی۔ جگہ بہت بڑی لگ رہی تھی۔ جیسے کوئی پیچیدہ زیر زمین بھولبلییا مکڑی کے جالے کی شکل میں ہو۔ ہر دور پر روشنی کےلیے جادوئی چراغ موجود تھے۔ علی روئی کا مرکزی گڑھے میں داخل ہونے کا استعمال کرتے ہوئے لڑنا تھا۔ تاہم سیربیرس کی ناک بہت تیز تھی اور اس کی رفتار بھی تیز تھی۔ یہ کافی پریشان کن تھا۔
’’ڈوڈو! میں سیربیرس کو تمہارے پاس چھوڑ دوں گا۔ اگر میں مر گیا تو تم بھی زندہ نہیں رہو گے‘‘۔
اس جملے کا ہر لفظ <Analytic Eyes> ٹیلی پیتھک کے ذریعے کہا گیا۔ جب کیچڑ نے یہ جملہ سنا تو اس نے محسوس کیا کہ اس کا جسم ہلکا ہے اور اسے اس کے ظالم مالک نے سیدھا سیربیرس کی طرف پھینک دیا۔
سیربیرس نے ایک بو سونگھی، تو وہ اچانک سست ہو گیا اور ڈوڈو کو کاٹنے لگا۔ یہ عمل ایک ثانیے میں ہوا جبکہ سلی اور یاگس باز نہیں آئے۔ انہوں نے علی روئی کا سختی سے تعاقب جاری رکھا۔ ڈوڈو نے آخر کار سیربیرس کے کاٹنے سے چھٹکارا حاصل کیا اور خوفزدہ دل کے ساتھ دیوار پر ٹک گیا۔ اگرچہ وہ اپنے مالک کے خلاف رویے پر ناراض تھا لیکن اس جملے نے ابھی کیچڑ بنا دیا جو صرف بھاگنا چاہتا تھا اس کا ارادہ بدل گیا۔ اگر یہ دو سر والابڑا آدمی اور وہ دو برے لوگ ایک ساتھ حکیم کا سامنا کرتے تو حکیم کی موت کا امکان ہے۔ حکیم مر گیا تو ڈوڈو بھی مر جائے گا۔ پیاز کے سر نے سیربیرس کا جائزہ لیا جو نیچے گرج رہا تھا۔ دو سروں والے سیربیرس کی طاقت بہت زیادہ کمزور دکھائی دیتی ہے۔ کمزوروں کو دھمکانا اور بڑائی سے ڈرنا ہمیشہ سے ڈوڈو کی خوبی رہی ہے۔ اچانک اس کی ہمت بہت بڑھ گئی۔ اس نے اپنے جسم کو دو سروں والے سیربیرس کو لپیٹنے کے لیے بڑھایا۔ علی روئی کا حقیقی ارادہ فرار نہیں تھا، ورنہ وہ مرکزی گڑھے میں بھاگنے کی بجائے پہاڑ سے نیچے اتر جاتا یا پھر بھی وہ ڈارک وِلز<ٹیلی پورٹیشن< مہارت کو چالو کر سکتا تھا۔ اب سیربیرس بری طرح زخمی ہو چکا تھا، اس لیے وہ حالات کو بہتر کرنے کے لیے کچھ نہیں کر سکتا تھا۔ یہاں تک کہ اگر وہ دو عظیم ڈیمنوں سے بچ گیا، تو انہیں یقینی طور پر شبہ ہوگا کہ وہ کان کنی کے دفتر سے تھا۔ آج کے دن ہی فلورا اور وہ پہنچے تھے، لہذا سب کچھ بہت اتفاق تھا۔ اس کے علاوہ تولان پہاڑمیں اس کا بنیادی مقصد اورا تھا۔ اب جب کہ بارنیکل لییا کے قصبے میں گیا تھا، وہ ابتدائی مرحلے میں ہائیر ڈیمن کے 2 دشمنوں کو بھی مار سکتا ہے،پھر اسے کچرے کے کمرے سے تمام چمک مل جائے گی۔ اس کے علاوہ مائنزآفیسر کے طور پر تقرری جوزف کی اسکیم تھی۔ اگر اس کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا تو وہ صرف کان کنوں کو برخاست کر سکتا تھا اور سب کو فرار ہونے دیتا ۔ وہ صرف واپس لوٹ سکتا تھا اور نیرنگ آبادکو رپورٹ کر سکتا تھا۔ ان دونوں دشمنوں سے نمٹنا آسان نہیں تھا۔ اگر یہ صرف یاگس یا سلی تھا، چاہے ان کے پاس <ٹیلی پورٹیشن< ہو، علی روئی کی موجودہ رفتار کے ساتھ فرار ہونا زیادہ مشکل نہیں ہوسکتا۔ دوسری طرف دو مخالف تھے جو اچھی طرح سے مربوط تھے۔ اس نے تھوڑی دیر کے لیے ان سے چھٹکارا حاصل کیا لیکن دوبارہ پیچھا کرنے کے لیے واپس آ گیا۔
علی روئی نے ابھی سلی کو ٹال دیا جس نے اسے ٹیلی پورٹ کیا لیکن دو تیز تیز آوازیں اس کے چہرے کے قریب آرہی تھیں۔ اس کے پاس صرف پیچھے جھکنے اور یاگس کے اڑتے ہوئے کوڑے سے بچنے کا وقت تھا۔ پھرسلی نے حملہ کیا۔ علی روئی بچ نہیں سکا۔ اس وقت، <Aura Blade> کا اثر ختم نہیں ہوا تھا، اس لیے سلی کی طرف لپکا۔ سلی نے اسےسیربیرس کا سر کاٹتے ہوئے دیکھا تو وہ جانتی تھی کہ خفیہ تکنیک خوفناک تھی۔ اسے براہ راست بلاک کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ دو عجیب شکل کے خنجر اس کے ہاتھوں میں نمودار ہوئے اور اس کے حملے کو روک دیاگیا۔ ہتھیار تقریباً ایک میٹر لمبا تھا اور ہینڈل مرکز میں تھا۔ دونوں سروں پر تین نکاتی بلیڈ تھے اور یہ ڈیمنی دائرے کے دو سر والے کمل کی طرح دکھائی دیتا تھا۔ علی روئی کو یقین نہیں تھا کہ اس کے جسم کا <آورا بلیڈ< بلیڈ سے مقابلہ کر سکتا ہے۔ اس نے اپنی کلائی گھمائی، خنجر کی پیٹھ پر مارا۔کئی چنگاریاں نمودار ہوئیں۔ سلی کو اپنے خنجر سے ایک انتہائی مضبوط نفاست محسوس ہوئی جو ہینڈل سے اس کے کندھے تک جا پہنچی۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے ایک بلیڈ کاٹ دیا گیا ہو۔ تازہ زخم کی ایک لکیر فوراً نمودار ہوئی۔ خوش قسمتی سے یہ خنجر ایک حسب ضرورت جادوئی ہتھیار تھا، اس لیے زیادہ تر نقصان کو روک دیا گیا۔ بصورت دیگراس کا پورا بازو کٹ سکتا ہے۔ سلی سنکھیارنہیں تھی، اس لیے وہ پیچھے نہیں ہٹے گی۔ علی روئی نے پوری طاقت سے پیچھے ہٹنا محسوس کیا۔ اس کے ہاتھ کا پچھلا حصہ بے ہوش ہو کر مفلوج ہو چکا تھا۔ <Aura Blade> ناقابل تسخیر نہیں تھا۔ سلی اچانک ڈر گئی۔ اس میں خطرہ مول لینے کی ہمت نہیں تھی۔ اس نے چھلانگ لگائی اور <Aura Blade> کی دوسری ہڑتال سے گریز کیا۔ علی روئی نے تعاقب کرنا چاہا تو اس کے پیچھے ایک تیز ہوا پھر سے گونجی۔ ٹائمنگ کافی درست تھی۔ اس سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں تھا۔ وہ فوراً چلایا، مڑا اور پیچھے دیکھے بغیر بجلی کی طرح <آورا بلیڈ>سے بلاک کر دیا۔ یاگس چونک گیا، لیکن وہ گھبرایا نہیں۔ اس کے ہاتھوں میں دو اور اڑتے ہوئی کیچیاں نمودار ہوئیں جبکہ سلی اپنے جسم کے سامنے دوہرا خنجر لیے کھڑی تھی۔ دونوں جماعتوں نے تصادم کی صورت حال پیدا کر دی۔
سلی ایک معیاری عظیم ڈیمن عورت تھی۔ اس کے مڑے ہوئے سینگ تھے۔ لمبا سرخ آنکھیں، اس کا جسم گرم تھا۔ یاگس کی شکل کچھ بدصورت تھی۔ اس کی ناک نوکیلی ناک ۔ مرکزی گڑھے میں جادوئی چراغ کی روشنی کے ذریعے یاگس نے سیاہ لباس میں پراسرار آدمی کا بغور جائزہ لیا اور کہا:
’’اس آدمی کو سیاہ چاند کا فلورا نہیں ہونا چاہیے، ورنہ، وہ ہمارے حملے کے طومار کو نہیں روک سکے گا‘‘۔
’’اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ کون ہے۔ چلو پہلے اسے نیچے اتارتے ہیں‘‘۔
سلی کے جسم پر ڈیمنی آگ بھڑک رہی تھی اور اس نے یاد دلایا:
’’اس کی خفیہ تکنیک سے بچو‘‘۔
علی روئی نے اپنے دماغ میں تیزی سے سوچا:
<آورا بلیڈ< صرف 10 منٹ تک رہتا ہے۔ یہ جلد ہی ختم ہو رہا ہے۔ اگر میں <Destructive Aura Blow> استعمال کرتا ہوںتو یہ زیادہ سے زیادہ 2 دشمنوں کی طاقت سے معمولی نقصان کرے گا۔ جبکہ میری سٹار پاور بہت کم ہو جائے گی اس لیے یہ قابل نہیں ہے۔ اسی ٹوکن کے ذریعہ ایک بڑا اقدام <Aurora Shot> کو بھی موقع ملنے پر استعمال کیا جانا چاہیے۔ سنکھیارنے ایک بار کہا تھا کہ جنگ میں متعدد عوامل پر غور کرنا شامل چاہیے، جیسے کہ حکمت عملی، وقت اور طاقت کی تقسیم۔
سلی نے اسے غور کرنے کے لیے زیادہ وقت نہیں دیا۔ وہ پہلے ہی ایک تیز حملہ کر چکی تھی۔ اگرچہ وہ ایک عورت تھی لیکن جنگ میں دیوانہ تھی اور دوہرے خنجر کے ساتھ اس کا ہنگامہ خیز حملہ خاص طور پر طاقتور تھا۔ اگرچہ مرکزی گڑھا چوڑا تھا، بہر حال یہ باہر کی طرح کشادہ نہیں تھا۔ یاگس کی اڑنے والی شے ایک خاص حد تک محدود تھی۔ اس کے علاوہ سلی اور علی روئی کے درمیان فاصلہ بہت کم تھا۔ اس لیے ہو سکتا ہے کہ وہ غلطی سے سلی کو اپنے طویل فاصلے کے حملے سے زخمی کر دے۔ لہٰذا اس نے فوراً اپنا اڑتا ہوا کاٹ رکھا اور قریبی لڑائی میں مصروف ہوگیا۔ علی روئی نے ڈاکوؤں سے یاگس اور سلی کے تعلقات کے بارے میں بہت کچھ سیکھا تھا۔ اس کے علاوہ وہ جنگ میں واقعی اچھی طرح سے مربوط تھے۔ سلی کی طاقت علی روئی جیسی تھی جبکہ یاگس کی طاقت قدرے کمتر تھی۔ ان کے تعاون کے تحت اگرچہ علی روئی کو رفتار کے لحاظ سے ایک خاص فائدہ تھا لیکن وہ اب بھی بالکل نقصان میں تھا۔ <اورا بلیڈ< پہلے ہی ختم ہو چکا تھا۔ اسے دوبارہ استعمال کرنے سے پہلے اسے ایک گھنٹہ انتظار کرنے کی ضرورت تھی۔
جب علی روئی مشغول تھا اسے سلی نے نچلی پسلیوں پر کاٹ دیا۔ اس سے پہلے کہ وہ سانس بحال کرتا یاگس کا بھاری گھونسہ اس کی طرف آیا۔ علی روئی نے باہر پہنچ کر بلاک کر دیا اور اس نے طاقت کے ذریعے پیچھے کی طرف اڑان بھرنے کا موقع لیا، سلی کے جان لیوا حملے کو آسانی سے اپنے دل پر روک لیا۔ وہ جانتا تھا کہ اس قسم کی براہ راست لڑائی کے دوران وہ زیادہ غیر فعال ہو جائے گا۔ اس لیے وہ مڑ کر دوسری سرنگ کی طرف بھاگا۔ اس گوریلا حربے نے سلی اور یاگس کے مشترکہ حملے کا فائدہ فوری طور پر اپنی تاثیر کھو دیا۔ وہ اپنے مخالف کو حقیر ہونے کی وجہ سے ڈانٹ رہے تھے۔ تینوں کی طاقت کچھ زیادہ مختلف نہیں تھی۔ لہٰذا علی روئی کے لیے اچانک حملہ کرنا اور ایک وقت میں ایک کو شکست دینا ناممکن تھا اس لیے یہ تعطل کا شکار ہوگیا۔ سلی اور یاگس نے تھوڑی دیر تک پیچھا کیا۔ایسا لگتا تھا کہ وہ کسی خاص سمجھوتہ پر پہنچ گئے ہیں۔ انہوں نے آہستہ آہستہ علی روئی کو ایک خاص سمت پر مجبور کیا۔ علی روئی پہلی بار مرکزی گڑھے میں آیا تھا اس لیے وہ اس علاقے سے ناواقف تھا۔ جب اسے ان کے ارادوں کا علم ہوا تو وہ پہلے ہی ایک مردہ انجام پر مجبور ہو چکا تھا۔ اس کے پیچھے ایک انتہائی کشادہ ہال تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ کوئی راستہ نہیں تھا۔ یاگس نے اپنے دونوں ہاتھ ہلائے، پھر اسی وقت 4 سے 5 اڑنے والے کاٹیاں علی روئی کی طرف اڑ گئیں۔ سلی قریب سے حملہ کرنے کےلیے تیار ہو گئی۔ علی روئی جانتا تھا کہ انسان کا ان سے براہ راست لڑنا بے معنی ہے اس لیے وہ ہال کی طرف پیچھے ہٹ گیا۔ ہال کے اوپری حصے میں ایک بہت بڑا جادوئی چراغ لٹک رہا تھا جو تیز روشنی میں چمک رہا تھا۔ اردگرد کی دیواروں پر لیمپ بھی نصب تھے جو باہر کی روشنی سے زیادہ صاف تھے۔ علی روئی کے ہال کی طرف پیچھے ہٹنے کے بعد اندر کی جگہ توقع سے کہیں زیادہ تھی۔ اس کےاندازے کے مطابق یہ فٹ بال کے میدان جتنا بڑا تھا۔ ہال میں ایک بہت بڑا اور گہرا سوراخ تھا جس میں مختلف سائز کے پتھر تھے۔ علی روئی کا دل دہل گیا۔ یہ ہال ایسا لگتا ہے۔۔۔کچرے کا کمرہ جسے بونے نے بیان کیا ہے؟۔
آخر کار جگہ مل گئی۔ آج علی روئی کا اصل مقصد یہاںتک پہنچنا تھا۔ بدقسمتی سے وقت درست نہیں تھا کیونکہ اس کی آنکھوں کے سامنے دو دشمن تھے۔ وہ اسے بالکل موقع نہیں دیں گے۔ دروازے سے بھاری آواز آرہی تھی۔ اس نے دیکھا کہ سلی اسے بند کرنے کے لیے پتھر کے دو بڑے دروازے دھکیل رہی ہے۔ یاگس کے ہاتھ میں دو اور اڑنے والے کانٹے نمودار ہوئے۔ اس کی ڈیمنی آگ بھڑک اٹھی۔ ان کے چہروں پر بیک وقت ظالمانہ مسکراہٹ تھی۔ یقیناً علی روئی بیٹھی ہوئی بطخ نہیں بننا چاہتا تھا اس لیے وہ ارد گرد کے علاقے کا تیزی سے جائزہ لیتے ہوئے پیچھے ہٹ گیا۔ سلی تیزی سے علی روئی کی طرف دوڑی۔ ایک بار پھر طوفان جیسا ہنگامہ خیز حملہ تھا۔ اچانک سلی نے ایک حملہ کیا اور چند کلمات کے ساتھ چھلانگ لگا دی۔ پھر یاگس کے جسم پر ڈیمنی آگ اچانک بھڑک اٹھی اور وہ غصے سے بولا:
’’ہزار بلیڈ‘‘۔
ایک ہی لمحے میں آسمان سیٹیوں کی آوازوں سے بھر گیا۔ ان گنت اڑنے والے کاٹیاں اچانک نمودار ہوئیں اور علی روئی کو گھیر لیا۔ علی روئی حیران رہ گیا۔ وہ ٹالنے کی کوشش کر رہا تھا۔ تاہم اڑنے والی یہ بلائیں بہت ہنر مند تھیں۔ انہوں نے ایک ترتیب میں حملہ کیا ۔ یاگس کی اڑنے والی کیچوں کو بازیافت کرنے اور پھینکنے کی رفتار عجیب طور پر تیز تھی کیونکہ اڑنے والی کینچی جو واپس اڑ گئی تھی ، اپنے ہاتھوں سے دوبارہ باہر پھینک دیا گیا۔
علی روئی کے اردگرد اڑنے والے کیچیاں لامتناہی تھیں۔ یہ انتہائی جان لیوا تھا۔ پلک جھپکتے ہی اس کے جسم پر دو اور خون آلود زخم آ گئے۔ اڑتی ہوئی کینچی بہت ہی ہارپ تھی۔ یہاں تک کہ <Astral Form> کی غیر فعال صلاحیت کے ساتھ جو خون نکلتا ہے اسے ایک دم نہیں روکا جا سکتا تھا۔ بحران کے وقت علی روئی نے اپنی چادر ہٹائی، ہاتھ ملایا اور چادر فوراً ایک لچکدار چابک بن گئی جس نے اڑتی ہوئی کیچوں کو روکنے کے لیے بائیں اور دائیں سوائپ کی۔ تاہم کوڑے کو آہستہ آہستہ چھوٹا کیا گیا۔ علی روئی سوائپ کرتے ہوئے پیچھے ہٹ گیا۔ پھر وہ اچانک غائب ہو گیا۔ یاگس اپنے ہدف سے محروم ہو گیا تھا۔ درحقیقت علی روئی پہلے ہی بڑے سوراخ میں گر چکا تھا اور اس کی سمت کا اندھا مقام تھا۔<ہزار بلیڈ< ایک طرح سے مبالغہ آمیز تھے،لیکن کم از کم 100 تھے۔ بار بار بازیافت اور شوٹنگ کے ساتھ یہ واقعی ایک پریشان کن حتمی اقدام تھا۔ یاگس کو چھوٹتے دیکھ کر سلی آگے بڑھنے ہی والی تھی لیکن علی روئی پہلے ہی تیزی سے گڑھے میں پیچھے ہٹ چکا تھا۔ اس نے اچانک اونچی چھلانگ لگائی اور اس کے پاس چند اڑتی کینچیاں تھیں جو اس نے اپنے ہاتھوں میں اٹھا لیں۔ تاہم اس کا ہدف سلی نہیں تھا جس نے اس کا سختی سے پیچھا کیا بلکہ ہوا میں سب سے بڑا جادوئی چراغ تھا۔ البتہ ڈارٹس کھیلنا آسان نہیں تھا۔ یہ آسان لگ رہا تھا لیکن اسے استعمال کرنا بہت مشکل تھا۔ اس نے چند کو باہر پھینک دیا اور ان میں سے کوئی بھی ہدف کے قریب نہیں تھا۔ سب سے زیادہ درست نے تقریباً جادوئی چراغ کو چھوا لیکن وہ گھوم کر واپس اڑ گیا۔ اگر یہ نازک لمحہ نہ ہوتا تو علی روئی شرمندہ ہوتا۔ جب وہ اترا تو سلی نے اسے تقریباً ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تھا۔ واضح طور پر سلی کا ارادہ اسی چال کو دہرانا تھا کہ حریف کو یاگس کے فلائنگ سکیتھ کی حد میں داخل ہونے پر مجبور کر دیا۔ علی روئی کو یقینی طور پر دوبارہ دھوکہ نہیں دیا جا سکتا تھا۔ یاگس گڑھے میں نمودار ہو چکا تھا۔ اس کی ڈیمنی آگ پھر سے چمکنے لگی جو کہ <ہزار بلیڈ>حملے کا پیش خیمہ تھی۔ جب علی روئی نے دوبارہ چھلانگ لگائی، اس کے ہاتھ میں پہلے سے ہی ایک مربع پتھر تھا۔ اس نے اسے زور سے پھینکا اور ایک دیوہیکل چراغ کو درست طریقے سے مارا۔ یقینی طور پر پتھر کسی بھی عمر میں بہترین تھے، چاہے وہ قریبی یا طویل فاصلے تک حملے کے لیے ہو۔ جادوئی چراغ کا اصول جادو سرنی کے اصول کو استعمال کرتے ہوئے خصوصی مواد کو چمکانے کے لیے تھا۔ پتھر سے ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے جادوئی سرنی بھی تباہ ہو گئی اور چراغ پتھر بھی بجھ گیا۔ علی روئی اچانک اندھیرے میں غائب ہو گیا۔ صرف نر اور مادہ عظیم ڈیمن کے جسم پر بھڑکتی ہوئی آگ تھی۔ وہ خاص طور پر چشم کشا لگ رہے تھے۔ مرکزی گڑھے کے اندر دور سے گرجنے اور پھٹنے والی آوازوں کی وجہ سے دروازے پر پہنچنے والے ڈاکو کو اندر جانے کی ہمت نہیں کی۔
’’ ناگورالاجب شکار کر رہا ہو تو اس کے قریب نہیں جانا چاہیے۔ ہم صرف داخلی دروازے کی حفاظت کریں گے ایسا نہ ہو کہ دشمن فرار ہو جائے۔ اس کے علاوہ یہ اندر سے بہت بڑا ہے۔ اگر ہم لاپرواہی سے اندر جاتے ہیں تو اس کے بجائے ہم محترمہ سلی کے لیے بوجھ بن جائیں گے۔ مجھے یقین ہے کہ وہ جلد ہی مکمل ہو جائیں گے‘‘۔
اس تجویز پر سب نے عمل کیا۔ لہٰذا ان سب نے مرکزی گڑھے کے داخلی دروازے کو گھیرنے کے لیے ایک ٹارچ اور جادوئی روشنی کا سامان روشن کیا۔ کوئی نہیں جانتا تھا کہ سیربیرس اور ناگورالااب بہت افسردہ تھا۔ یہ پیاز کے سر جیسا شفاف آدمی اپنے جسم کو آزادانہ طور پر تبدیل کرنے کے قابل ہے اور سب سے نچلی سطح کے کیچڑ کی طرح ہے۔ البتہ کیا ایسا طاقتور کیچڑ ہے؟۔
یہ دشمن کمزور لگتا ہے لیکن میں اسے کچھ بھی نہیں مار سکتا۔ چاہے یہ کاٹ رہا ہو، آگ کے گولے سے پھٹ رہا ہو یا سینکڑوں ٹکڑوں میں بکھر گیا ہو، پھر بھی یہ جمع ہو کر پیاز کے سر میں بدل سکتا ہے۔ ناراضگی صرف یہی نہیں ہے بلکہ <ٹرانسفارمیشن>ہنر بھی ہے۔ ابھی میں اس کی رسی کی شکل میں الجھا ہوا تھا۔ میرے زخم کا گوشت اور خون تیزی سے غائب ہو گیا۔ جیسے وہ نگل گئے ہوں۔ اگر میں نے بروقت اس سے چھٹکارا نہ پایا تو مجھے یقیناً بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑے گا۔
اس بیوقوف پیاز کے سر کو مکمل طور پر مارنے کے لیے مجھے کیا کرنا چاہیے؟۔
ناگولاجو کہ بری طرح زخمی تھا،اس نے اپنی زبان کو پھیلایا اور زور سے ہانپنے لگا۔ یقینی طور پر زمین کے ٹکڑے ایک بار پھر سدھار گئے۔ جب ناگورالاچوکسی کے ساتھ زمین کو دیکھ رہا تھا تو اس نے محسوس نہیں کیا کہ کوئی شفاف ’’چیز‘‘ خاموشی سے چوستے ہوئے اس کے اوپر کی پتھر کی دیوار پر چڑھ گئی ہے۔ سیربیرس کا سر بالکل نیچے تھا۔
علی روئی کی حکمت عملی بہت موثر تھی۔ اب جب کہ مرکز میں اندھیرا تھا، یاگس کے طویل فاصلے کے حملے نے اپنی طاقت کھو دی اور ان دونوں پر شعلوں نے انہیں آسان ہدف بنا لیا۔
یاگس نے بہت تیزی سے ردعمل ظاہر کیا۔ وہ اندھیرے میں نہیں رہا۔ اس نے ٹیلی پورٹ کیا اور دروازے کی طرف پیچھے ہٹ گیا۔ تاہم سلی نے حرکت نہیں کی بلکہ طنز کیا۔ اس کے جسم پر لگی ڈیمنی آگ آہستہ آہستہ ختم ہوتی گئی اور وہ بھی اندھیرے میں غائب ہو گئی۔
’’Hmph۔یہ بیوقوف اون کےلیے جاتا ہے اور کاٹ کر واپس آجاتا ہے۔ وہ دراصل اندھیرے میں سلی سے لڑنے کی ہمت کرتا ہے‘‘۔
یاگس نے اپنے آپ سے کہا۔ اگرچہ اس کے ہاتھ میں اڑتی ہوئی کانچ نیچے نہیں رکھی گئی تھی لیکن اسے سلی پر واضح طور پر اعتماد تھا۔ علی روئی فوراً یاگس کے اعتماد کو سمجھ گیا۔ اگرچہ یہ پچ کالاتھا، سلی بالکل بھی متاثر نہیں ہوئی تھی۔ اس کے بجائے اس کا عمل زیادہ تیز اور درست لگ رہا تھا جیسے وہ اندھیرے کے لیے پیدا ہوئی تھی۔ ابتدائی طور پر سلی کے حملے میں عجیب و غریب خصوصیات تھیں۔ اب اندھیرے کے چھپنے کے ساتھ اس سے بچنا مشکل ہو گیا تھا۔ چند منٹوں میں بھوت کی شکل نے علی روئی کو مغلوب کر دیا۔ اسے لگاتار حملوں کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ فرض کرتے ہوئے کہ جادوئی چراغ بجھ نہیں گیا تھا وہ پھر بھی اس کا مقابلہ کر سکتا تھا۔ اس کے باوجود اس نے اب خود کو روکا ہوا محسوس کیا۔ علی روئی جانتا تھا کہ وہ اس طرح آگے نہیں بڑھ سکتا تھا۔ سلی کی نظروں میںاس کے دشمن کا رد عمل زخم کی وجہ سے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید سست ہوتا دکھائی دے رہا تھا اور اسے اس کی صحیح جگہ کا پتہ لگاتے ہوئے پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کی نچلی پسلیوں سے ہوا کے بہاؤ میں ہلکی سی تبدیلی آئی۔ اس بار دشمن کا رد عمل اس سے بھی سست تھا۔ اسے خنجر سے چھیدا گیا اور چیخا۔ اس کے بعد اس نے اپنے ہاتھ سے چاقو کی شکل بنائی اور حملہ آور سمت کی طرف کاٹا۔ سلی کو نہیں معلوم تھا کہ یہ کوئی فتنہ ہے لیکن ابھی اس خفیہ تکنیک کی ہولناکی کے بارے میں سوچ کر وہ خنجر ہٹانے کی زحمت نہ اٹھا سکی اور فوراً پیچھے ہٹ گئی۔ تاہم اس دشمن کے پاگلوں کی طرح بےمقصدبے مقصد ملے بہت سنسنی خیز تھے۔ سلی سمجھ گئی کہ اس کی پچھلی ہٹ نے اس کے مخالف کو بہت نقصان پہنچایا ہے، اس کے چہرے پہ ہنسی پھیل گئی۔ مخالف کی توجہ مبذول کرنے کے لیے بے ہوش ہوئی، پھرپیٹھ سے پوی طاقت کے ساتھ وار کیا۔ اس کے مخالف کو ابھی تک احساس نہیں تھا۔ خاتون عظیم ڈیمن کے سرخ ہونٹ ہلکے سے بلند ہوئے جن پر خونخوار مسکراہٹ تھی۔
یاگس جو باہر تھا اس نے سنا کہ چیخنے اور رونے کی آواز سلی کی نہیں، وہ زیادہ زیادہ پرعزم ہو گیا۔ اس نے چیخ کر کہا:
’’سلی!اسے زندہ رکھنا یاد رہے، لیکن تمہیں پہلے اس کے اعضاء کاٹنے ہوں گے‘‘۔
جیسے ہی یاگس نے آواز دی، سلی کو اپنے دل میں ٹھنڈک محسوس ہوئی۔ اس کا پراعتماد حملہ اچانک رک گیا۔ اس کے ہاتھ میں تین انچ کا خنجر تھا۔ جب اس نے اپنے دل کی طرف دیکھا تو وہ ناقابل یقین لگ رہی تھی۔ جس چیز نے اس کے دل کو چھیدا وہ دو سر والاخنجر تھا جو مکمل طور پر گھس چکا تھا جب کہ خنجر کا دوسرا رخ علی روئی کے ہاتھ میں تھا۔ سلی کی آنکھوں میں ایک ہی لمحے میں اس دشمن نے نچلی پسلیوں سے خنجر کو ناقابل تصور رفتار سے نکالااور اسے بجلی کی طرح اس کے دل کے بیچ میں گھونپ دیا۔ دشمن اس کی نقل و حرکت کا درست پتہ لگانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
سلی نے باقی ماندہ طاقت کا استعمال کیا اور چیخ کر چیخ روئی کو پوری طاقت لگا کر خود سے نیچے لے جانا چاہا لیکن علی روئی نے اس سے پہلے ہی خنجر نکال دیا۔ پھر اس کی باقی ماندہ طاقت گویا خالی ہو گئی تھی اور زمین پر گر گئی۔
’’سلی!‘‘۔
یاگس کو احساس ہوا کہ کچھ گڑبڑ ہے، وہ بلند آواز میں چیخا۔ اس کے جسم میں دھماکہ خیز قوت پیدا ہو گئی۔ وہ احتیاط سے قریب آیا لیکن اسے معلوم نہیں تھا کہ ایک کھلی ہتھیلی اندھیرے میں اس کی طرف براہ راست نشانہ بنا رہی ہے۔ علی روئی اپنا <اورورا شاٹ< چارج کر رہا تھا۔ یاگس کے قریب آنے کا انتظار کر رہا تھا۔ اچانک <Analytical Eyes> نے ایک یاد دہانی دکھائی۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی ردعمل ظاہر کرتا، اچانک ایک سرخ روشنی چمک اٹھی جس نے اس کے جسم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
زمین پر مرنے کے انتظار میں پڑی سلی نے یاگس کی آواز سنی تو اچانک اس میں خوفناک طاقت آ گئی اور علی روئی کو شدت سے پکڑ لیا۔
’’یاگس! <ہزار بلیڈ<‘‘۔
سلی کی ڈیمنی آگ نے علی روئی کو یاگس کی نظروں میں مکمل طور پر بے نقاب کر دیا۔ یہ ایک شعلہ تھا جس کی قیمت سلی نے اپنی جان سے ادا کی۔ علی روئی ایک دم اس الجھن سے آزاد نہ ہو سکا لیکن اس کے بڑھے ہوئے بازو کی ہتھیلی اب بھی کھلی تھی۔ یاگس آگے بڑھا، چلایا اور آسمان سے بے شمار سیٹیوں کی آوازیں آئیں۔ اس نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے <ہزار بلیڈز>لانچ کیا۔ علی روئی کی آنکھوں میں ایک ٹھنڈی روشنی چمکی، پھر ایک سفید بڑی روشنی کا گیند تیز رفتاری سے یاگس کی طرف لپکا۔ یاگس کو اپنے حریف سے ایسی حتمی حرکت کی توقع نہیں تھی۔ وہ ٹیلی پورٹ استعمال نہیں کر سکتا تھا کیونکہ پوری طاقت سے <ہزار بلیڈز>لانچ کر رہا تھا۔ اس نے مایوسی کے عالم میںاڑتی ہوئی ہلکی گیند پر کینچی پھینکی تو وہ فوراً نگل گئی۔
علی روئی کی طاقت پہلے جیسی نہیں تھی۔ وہ دونوں ابتدائی ہائر ڈیمن تھے لہذا یاگس ممکنہ طور پر میکاس کی طرح <اورورا شاٹ >کو روک نہیں سکتا تھا۔ اس کی ڈیمنی آگ سفید روشنی نے پوری طرح نگل لی تھی اور اس کا جسم بے قابو ہو کر پیچھے کی طرف بڑھ رہا تھا جب کہ اس کا دفاع بتدریج گر رہا تھا۔
’’پوم!‘‘۔
<ارورہ شاٹ>نے یاگس کو عقبی دیوار میں دھکیل دیا اور کچرے کا پورا کمرہ کانپنے لگا۔ آخر کار سفید روشنی غائب ہو گئی۔ سخت پتھر کی دیوار پر ایک بڑا کروی ڈینٹ نمودار ہوا اور یاگس کا نرم جسم دیوار میں گہرا پھنس گیا۔ <ہزار بلیڈ>کا سب سے بڑا عجوبہ حملوں کا نہ ختم ہونے والالوپ تھا۔ اب جب کہ یاگس کو ناک آؤٹ کر دیا گیا تھا، وہ قدرتی طور پر بار بار حملہ نہیں کر سکتا تھا۔ علی روئی نے فوراً <اورورا شاٹ< لانچ کیا اور وہ ڈاج نہیں کر سکا، اس لیے اس کا کندھا مارا گیا۔ دوسری طرف سلی، جس نے مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا، بنکر بن گیا کیونکہ اس کی پیٹھ میں 4 اڑنے والے سکیتھس ڈالے گئے تھے۔ اس کی ڈیمنی آگ بجھ گئی تھی۔ وہ پہلے ہی مر چکی تھی۔
’’سر کلیا۔۔۔دو دن میں واپس آجائیں گے۔ وہ تجھ سے بدلہ لے گا‘‘۔
مرنے سے پہلے سامنے دیوار سے یاگس کی آواز آئی۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنی بات مکمل کرتا، ہمیشہ کےلیے خاموش ہو گیا ۔ علی روئی کی انگلی میں ایک انگوٹھی نمودار ہوئی جو تیز روشنی سے چمک رہی تھی۔ یہ روشنی کی انگوٹھی جوزف نے ’’فراہم کی‘‘۔ اس نے آہستہ سے سلی کے ہاتھ ہٹائے اور اس کی لاش فرش پر رکھ دی۔ اس نے اپنے کندھے سے ایک اور سلی کی پیٹھ سے4اُڑتی ہوئی کینچیاں ہٹا دیں۔ اس نے سلی کی مردہ آنکھیں بند کر لیں جو شکوہ سے بھری ہوئی تھیں۔
علی روئی نہیں جانتا تھا کہ اس نے یہ اضافی باتیں کیوں کیں لیکن سلی کے اس عمل سے اس کا دل ابھی بھی دھڑک رہا تھا۔ اگر علی روئی کے پاس کوئی انتخاب ہوتا تو وہ کسی بھی عورت کو نقصان نہ پہنچاتا یا نہ مارتا۔ لیکن اس کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا کینونکہ یہ ایک جنگ تھی اور اس میں جو زندہ رہتا وہ دوسرے کو مار دیتا۔
’’عورت عظیم ڈیمن‘‘۔
’’ہماری زندگی میں صرف ایک چیز جو مرنی مشکل ہے وہ ہے محبت۔ شاید۔۔۔ شاید کوئی نہیں۔۔۔‘‘۔
جانی پہچانی خوبصورت سرخ آنکھوں کا ایک جوڑا اس کے ذہن میں بے ساختہ نمودار ہوا۔ اس کا جسم جو شروع میں خون کی کمی کی وجہ سے ٹھنڈا تھا اچانک گرم بہاؤ سے بھر گیا۔ اس بار علی روئی کی چوٹیں ہلکی تھیں جب وہ میکاس سے لڑ رہا تھا۔ سب سے زیادہ سنگین چوٹ پسلیوں کے نچلے حصے میں لگی تھیں جس سے وہ اپنے دشمن کو لبھاتا تھا لیکن اس کی سٹار پاور بری طرح ختم ہو چکی تھی۔ ہیلنگ پوشن کی بوتل پینے کے بعد اس نے بڑے سوراخ کا جائزہ لینا شروع کیا۔ اب جب کہ سب سے اوپر کا جادوئی چراغ بکھر گیا تھا، روشنی کی انگوٹھی پر انحصار کرتے ہوئے وہ کچرے کے ڈھیروں کی تہوں کے اوپر ایک دوسرے کو دیکھ سکتا تھا۔ علی روئی نے اس کے بارے میں سوچا اور اپنا ذخیرہ کرنے والاگودام کھولا۔ وہ ان کچرے کو رکھنا چاہتا تھا۔ نتیجتاً پہلی بار اسٹوریج گودام فوری طور پر بھر گیا۔ یہاں تک کہ یہ’’مزار ریاست‘‘ میں توسیع شدہ گودام تھا۔
بڑے گڑھے میں موجود معدنیات اچانک چند میٹر تک کم ہو گئی تھیں۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ یہ گڑھا کتنا گہرا ہے۔ اسی لمحے کچرے کے کمرے کے بند پتھر کے دروازے کو اچانک دھکیلنے کی آواز آئی تو علی روئی نے فوراً روشنی کی انگوٹھی بند کر دی۔ دروازہ دھکیل کر کھلا لیکن دیوار کے چراغ کی روشنی میں اسے کوئی نظر نہیں آیا۔ کچھ دیر بعد ایک جانی پہچانی آواز آئی:
’’حکیم ، کیا آپ وہاں ہیں؟‘‘۔
یہ ڈوڈو تھا۔ علی روئی نے ٹارچ کی انگوٹھی کو چالو کیا اور سکون کا سانس لیا:
’’ڈوڈو! تم ٹھیک تو ہو نا؟۔
ڈوڈو نے جیسے ہی اس کی آواز سنی، تیزی سے روشنی کی طرف لپکا اور زمین پر ایک عجیب سی آواز نکالی۔ جب وہ علی روئی کے پاس آیا تو اس کا اظہار خوشامدانہ مسکراہٹ میں بدل گیا:
’’حکیم! ڈوڈو بہت حیرت انگیز ہے۔ میں نے دو سروں والے کتے کو نگل لیا لیکن ہڈیوں کا ذائقہ بہت خراب تھا، اس لیے میں نے اسے تھوک دیا‘‘۔
علی روئی دنگ رہ گیا۔ جیسے ہی اس نے سیاہ بارش کے جنگل میں بڑے کنکال کے بارے میں سوچا، اس کا دل تھوڑا سا خوفزدہ محسوس ہوا:
’’تم نے مجھے یہاں کیسے پایا؟‘‘۔
’’ڈوڈو نے ایک بار کتے کی طرح کے دشمن کو نگل لیا تو میری ناک بہت حساس ہوگئی اور میں حکیم کی خوشبو سونگھنے کے قابل ہوگیا‘‘۔
ڈوڈو کا چہرہ اچانک کتے کی شکل کا بن گیا اور اس نے زمین کو سونگھ کر اپنی بھرپور جسمانی زبان کا مظاہرہ کیا۔
علی روئی حیران رہ گیا۔ دوسرے لفظوں میں ڈوڈو کے لیے نگلنے والے ہدف کی صلاحیت حاصل کرنے کا موقع کیا ڈیمنی پھل کی خاص صلاحیت ہے؟۔ کوئی تعجب نہیں کہ یہ ڈریگن کے طرز عمل کو استعمال کرسکتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ میں نے اس بار ایک بہت اچھا بندہ حاصل کر لیا ہے۔ تاریخ کا سب سے مضبوط کیچڑ شاید تاریخ کا سب سے مضبوط ڈیمن درندے بن جائے۔
’’شاباش ڈوڈو!۔ تم کو اگلی بار باربی کیو میں یاد رکھا جائے گا‘‘۔
جب ڈوڈو نے اپنے مالک کے منہ سے اپنی تعرف سنی تو اس نے فخریہ انداز میں دو بازو بنائے اور اس کی ’’کمر‘‘ پر کراس کیا۔ اس کے ہونٹو ں پہ مبالغہ آمیز مسکراہٹ پھیل گئی۔ ڈوڈو کا سر فخر سے بلند ہوا، پھ رکچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے کہا:
’’حکیم! دروازے پر بہت سے لوگ ہیں ، ڈوڈو باہر جانے کی ہمت نہیں کرتا‘‘۔
اس جملے نے ڈوڈو کے موروثی ڈرپوک کردار کو بے نقاب کیا۔ تاریخ میں سب سے مضبوط ڈیمنی عفریت کے طور پر عنوان صرف ایک عارضی آسمانی تصویر تھی۔ موجودہ مضبوط ترین کیچڑ ابھی صرف ایک کیچڑ تھا۔ چونکہ اس نے اس بار سلی اور یاگس کو مار ڈالاتھا اور سیربیرس کو بھی نگل لیا تھا، اس لیے اسے طے کرنا شاید مشکل تھا۔ یاگس کے بقول کلیا جو 2 دنوں میں واپس آئے گا اس کی طاقت سلی اور یاگس سے بالکل اوپر تھی۔ وہ کم از کم ہائر ڈیمن کے درمیانی مرحلے پر تھا۔ابھی وقت کم تھا ایک طرف اسے کم وقت میں سخت تربیت کرنی ہوگی، دوسرا اسے کولیا کی توجہ ہٹانے کی کوشش کرنی ہوگی تاکہ وہ اسے اتنی جلدی کان کنی کے دفتر سے نہ جوڑ دے۔ مرکزی غار کے داخلی دروازے پر کئی محافظ پہلے ہی مارے جا چکے تھے۔ پیچھا کرنے والوں میں صرف سیربیرس، سلی اور گاس تھے۔ ان سے نسبتاً کمزور تھے وہاں پہنچےتو علی روئی اور دوسرے پہلے ہی مرکزی گڑھے میں داخل ہو چکے تھے، اس لیے وہاں کوئی اور نہیں تھا جس نے کچھ سنا یا دیکھا۔ ڈوڈو نے تجسس سے اپنے مالک کو کچھ دیر سوچتے ہوئے دیکھا۔ علی روئی نے عجیب سی نظروں سے ڈوڈو کو دیکھا۔ ڈوڈو کو اچانک ایک برا احساس ہوا۔ اس کے کانوں میں مالک کی خلوص بھری آواز آئی:
’’ڈوڈو! اب وقت آگیا ہے کہ تم اپنے پرانے پیشہ پر واپس چلے جاؤ‘‘۔