علم الکلام

علم الکلام

علم الکلام
سید نصیر شاہ

علمِ کلام بھی فلسفہ کی طرح سوچنے کا عمل ہے لیکن اس میں اور فلسفہ میں فرق بھی بہت ہے۔ فلسفہ میں پہلے سے کوئی رائے قائم نہیں کی جاتی بلکہ کسی سوال پر سوچنا شروع کرتے ہیں اور سوچنے کے بعد مختلف دلائل کسی خاص نتیجہ پر پہنچاتے ہیں اور فلسفی آزادانہ رائے قائم کرتا ہے ۔ اس کے برعکس علم کلام میں رائے پہلے سے موجود ہوتی ہے اور اسکی حقانیت پر دلائل سوچے جاتے ہیں۔ مذہب کے معتقدات کو از روئے علم و عقل درست ثابت کرنے کی کوشش کو علم کلام کہا جاتا ہے۔ جو بھی مذہب ہو اس کی صداقت اسی طرح پر کھی جاتی ہے کہ وہ اپنے عقائد کے متعلق کونسے مستحکم دلائل رکھتا ہے ۔ خدا کا وجود ثابت کر نا ہے تو اس کے لئے علم کلام دلا ئل مہیا کر یگا اسی طرح وحی ، نبوت یہ سب مابعد الطبیعی مسائل ہیں جن کے متعلق ایک عقید ہ پہلے سے موجود ہوتا ہے۔ علم کلام میں اس کی صداقت کے دلائل پیدا کئے جاتے ہیں ۔ خدا کا وجود ، نبی کا برحق ہونا ، قیامت وغیرہ سے عقائد، علم کلام کے مہتم بالشان موضوعات ہیں علم کلام کے ماہرین کو متکلمین کہتے ہیں۔
تما م مذاہب سے تعلق رکھنے والے علماء اپنے اپنے مذہب کی حمایت میں جو کچھ مدلل انداز میں پیش کرتے رہے، وہ سب علم کلام ہے لیکن ان میں مسلمان متکلمین کی کوششوں کو بہت زیادہ سر اہا گیا ہے۔ متکلمین اسلام کے مختلف فرقے رہے ہیں جن میں دو فرقے اشاعر ہ اور معتزلہ زیادہ معروف رہے ہیں۔ معتزلہ ایک عر صہ ئِ دراز تک علم الکلام پر چھائے رہے ۔بعد میں اگرچہ فرقہ ئِ اشاعرہ کا علم الکلام پر تسلط ہوگیا اور فرقہ ئِ معتزلہ معدوم ہوگیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ اربابِ دانش اگرچہ ایک ممیزہ فرقہ کی حیثیت سے معدوم ہو گئے لیکن آج بھی تمام سوچنے والے ذہنوں پر انہی لوگوں کے واضح اثرات موجود ہیں آج جو بھی علمِ کلام کے موضوعات پر قلم اٹھاتاہے۔ وہ انہی کے دلا ئل سے استفادہ کرتا ہے ۔

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے