
طبعیات
افتخار احمد
طبعیات
۱۔ مادہ گم گشتہ
۲۔ کہکشائوں کا پھیلائو
۳۔ کائناتی کھنڈرات
کائناتی مادے کی تلاش ابھی مرحلہ آغازہی میں ہے کیونکہ ستاروں، سیاروں اور روشن کہکشائوں کی گردش ہمارے اذہان میں اقصاہ ،سیاہ خلاء کا ایک خاکہ بناتی ہے ۔ جس میں کمیت صرف روشن نہیں ہے ۔ بہت پہلے اس مادے کو گمشدہ کمیت کانام دیا گیا۔اب مسئلہ یہ ہے کہ سیاہ مادہ دیکھا نہیں جاسکتا اور گم شدہ شے صرف روشنی ہے نہ کہ مادہ ۔
سیاہ مادہ اپنی ثقلی کشش کے اثرات کے ذریعہ خود کو ظاہر کر دیتا ہے ۔ سیاہ مادے کے متاثرین میں تمام فاصلی پیمانے، کہکشائیں اور انکی گردش عظیم کہکشانی جھر مٹوں کی حرکات اور خود کا ئناتی پھیلائو وغیرہ شامل ہیں ۔اسی کے سبب ہم ہر لمحہ طویل تر فاصلی پیمانے تک حرکت کرتے رہتے ہیں ۔ آج ہمیں اپنے مشاہدات کی وضاحت کیلئے مزید سیاہ مادے کی ضرورت ہے کہ روشن مادہ کیونکر تقسیم ہوا اور یہ کس طرح حرکت کرتا ہے ۔ صرف ۱۰ فیصدکائناتی کمیت، روشن ستاروں اور کہکشائوں پر مبنی محسوس ہوتی ہے ۔ جنہیں ہم اپنی بر قناطیسی شعا عوں کے ذریعہ دیکھ سکتے ہیں۔ ان مختلف پیمانوں پر سیاہ مادے کیلئے مختلف وضاحتیں ہیں ۔مثلا سورج سے نزدیک صرف بڑے سیاروں کی پیدائش یا کمزور ستارے (بنفشی بونے) اتنے مدھم ہیں کہ دکھائی نہیں دیتے ،وغیرہ ۔ تاہم کائناتی سطح پر عام خیال یہ ہے کہ گمشدہ مادہ اجتماعی حالت میں نہیں ہے ۔ کیونکہ یہ بیر ینز (پرو ٹان ، نیوٹران )اور لیپٹان (الیکٹران) کے بجائے بگ بینگ کے باقیات کے مخصوص ذرات جیسے بھاری نیوٹرانر ، ایگزینس اسٹر نگس وغیرہ پر مشتمل ہوسکتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ذراتی طبیعات داں ہئیت دانوں کے کائناتی پھیلائو سے اتفاق کرتے ہیں ۔
۱۹۳۰ء سے قبل ایک جرمن فلکی طبیعات دان جان اوورٹ نے شمسی پڑوس میں ایک نہ دکھائی دینے والے مادے کی نشاندہی کی تھی ۔ لیکن ۱۹۵۰ء میں پر نسٹن میں جون بھاکل نے اسکی وضاحت کی کہ یہ مادہ وہاں کیسے اور کس حالت میں ہے ۔ لاسلکی تیکینک کے ذریعہ انکشاف ہوا ہے کہ ہمارے پڑوس میں کل دکھائی دینے والا مادہ یعنی ستارے اور دیگر بین الا سیاروی مادے وغیرہ خلاء میں ۱۰ ویں شمعی کمیت فی مکعب پر سیک پر مبنی ہے۔ (ایک پر سیک ۳۰۲۵ نوری سال) ۔ہمارے تحقیقی نمونے ظاہر کرتے ہیں کہ اتنا ہی ناقابل نظر مادہ اور بھی ہے جو صرف اپنی ثقلی کشش سے اپنے اپنے وجود کا احساس دلاتا ہے ۔ یہ مادہ کہاں اور کیا ہے ؟ کمزور، کم کمیت اور مختصر زندگی کے حامل ستاروں تک پہنچ گیا ۔ ایسے ہی وقت ایدمبرگ نے شمسی پڑوس میںایم بونوں کے وجود کا اعلان کر دیا ۔ ہاکن کے جائزوںمیں برطانوی دوربین کا بہترین استعمال کیا گیا ۔ ایم بونے فلکیات کے مطابق جتنی بڑی جسامت ہوگی، شے اتنی ہی کمزور ہوگی۔ قطب ستارے کی جسامت ۲ اور کمزور ترین انسانی آنکھ سے دکھائی دینے والے ستارے کی جسامت ۶ ہے ۔ بھاکل کے گم گشہ مادے کے نظریہ کے مطابق ایم بونوں کی مجموعی کمیت ۵% ممکن ہے۔ چنانچہ انکی زندگی بھی صرف چند ہزار سالوں پر مشتمل ہونی چائیے نیزان میں ہر ایک کو سورج سے تقریباً سو ا تین نوری سال کے فاصلہ پر ہونا چاہیئے ۔
کہکشائوں کا پھیلائو
چنانچہ سرج کے قرب و جوار میں بیریانگ مادے کی کوئی ضرورت نہیں یا حقیقتاً ہمارے پوری دودھیا کہکشاں ہی میں اس کی ضرورت نہیں۔چنانچہ کسی بھی چکر دار کہکشاں میں اشیاء بہت کم فرق سے دکھائی دیتی ہیں ۔ ان کی زیادہ تر روشنی انکے مرکزی علاقوں سے آتی ہے ۔ لیکن باہر نکلتے ہوئے بازئووں کی وسعت مرکزوں کی دسترس سے بہت حدتک باہر پھیلی ہوئی دکھائی دیتی ہے ۔ یہ مشاہدات ظاہر کر تے ہیں کہ بڑی بڑی ڈسک کیسے گردش کر رہی ہیں۔
ہمارا سورج اپنی کہکشاں کے گرد تقریباً ۲۰ کروڑ سال میں ایک چکر مکمل کرتا ہے ۔ اسطرح انسانی زندگی میں گردش کی پیمائش کی کوئی امید نہیں ۔ لیکن خوش قسمتی سے بر قناطیسی شعاعوں کے ساتھ ہائیڈ روجن ڈوپلر منتقلی کی پیمائش کے ذریعے متحرک مادے کی رفتار معلوم کی جاسکتی ہے ۔ اگر چکر دار کہکشاں کے بیرونی کناروں کا نظارہ کیا جاسکے تو باآسانی ایک ہموار گردشی قوس دیکھنے میں آتی ہے ۔ جبکہ مرکزے کے گرد انکے مختلف فاصلوں کی اہمیت کے باوجود یکساں دائروی رفتار کے ساتھ واضح حرکت محسوس ہوتی ہے ۔
۱۹۸۲ء میں یہ ثابت ہوگیا کہ اگر مادہ چکر دار کہکشاں میں روشن ستاروں کی طرح مرکز پر ارتکاز کے ساتھ تقسیم ہوا تھا ۔ اسطرح دائروی رفتار مرکز سے باہر مدھم ہوجاتی ہے ۔جہاں ثقلی کش کا بہائو بھی کمزور ہوتا ہے ۔ مطلب یہ کہ مادے کاایک عظیم سلسلہ ایک وسیع کرہء خلائی میں روشن دکھائی دینے والی کہکشاں کے گرد منقسم اور پوری ڈسک کو ایک مضبوط شرح پر اسکے گرد گھمائے ہوئے ہیں۔ مرکزی گنبد والا گردشی قوس کمپیوٹر کے مطابق کہکشاں کے اندرون میں ثقلی تسلط قائم کر لیتا ہے جبکہ اسکا درمیانی خلاء سیاہ مادہ لئے ہوئے خلاء کو بڑھاتا ہے ۔ یہ ایک بڑا عجیب اتفاق لگتا ہے کہ دواثرات ایسے گردشی قوس بنانے کیلئے آپس میں مل جائیں ۔
گیمیر ج انسٹیٹیوٹ آف ایسٹر و نامی کے مارٹن ریٹبس کہتے ہیں کہ سیاہ مادے کیلئے بظاہر معقول تین سوراخ اور سوئم ایگزوٹک ذرات (گٹ تھیوری آف سلام) مارٹن ریس کے مطابق کہکشانی خلاء میں سیاہ مادہ مشتری جیسی حالت میں ہے جو اپنے ثقلی عد سے کے اثرات سے اپنی موجودگی ظاہرکرتے ہیں ۔ کو زاروں سے زمین کی طرف آنے والی روشنی کو اپنی طرف موڑ بھی لیتے ہیں ۔ ذراتی امیدواروں میں فو تینوزیا نیوٹر ینوز مادہ گم گشتہ کہلائے جاسکتے ہیں ۔ کیونکہ ایک روسی تجربے کے مطابق نیوٹر ۔ نیوز ۲۰ تا ۴۹ الیکٹران وولٹ کمیت رکھتے ہیں۔ سرن کے جون ایلس نے اپنی کتاب Gev Best Particles میں کمیت کے ہدف تک تقریبا دس مختلف ذرات پیش کئے ہیں ۔ جون نے اعلی تشاکل نظریہ ( Susy ) کیلئے ذرات (Particles . s ) کی ضرورت اور تمام ذرات (فوٹان وغیرہ کو س ۔ ذرات کے ہمزاد قرار دیا ) ہے ۔ مثلا فوٹان کیلئے فو ٹینوز دراصل جون کے پاس بھی چارہی امیدوار ہیں ۔ یعنی فوٹینوز ، ہگسی نوز ، نیوٹر نیوز اور گر یو یٹنیوز، حقیقتاً سی باقیات ہی وہ بظاہر کا ئنات کا احاطہ کرنے والے امیدوار ہیں۔
انفلیشن تھیوری (افراطی نظریہ) کائنات کو محدود ظاہر نہیں کر تی ہے لیکن آغاز کائنات ایک گرم کثیف حالتِ مادے سے ہوئی اور ثقلی اثرات بھی محدود ہوتے ہیں چنانچہ، یقینا کائناتی پھیلائو خود بخود ایک وقت رک جائے گا ۔ کائناتی حد کیلئے مادہ کی مقدار مخصوص ہونی چاہیے اور ہمارے پاس روشن مادہ صرف ۱۰/ ۱ ویں کمیت فراہم کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بگ بینگ حقیقت کی شکل اختیار کر تا جارہا ہے ۔ اسطرح ہمیں یقین ہوجاتا ہے کہ کائنات کی کمیت کا ۹۰ فیصد سیاہ مادے کی حالت میں ہے ۔ یعنی بیریانی مادے کی سختی کیساتھ حدود قائم کرتا ہے گرم اور کثیف کائنات میںنیو کلیاتی ایطلاف نے کچھ اولین ہائیڈروجن کو ہیلیم اور دیگر ہلکے عناصر میں تبدیل کر دیا تھا۔ کائنات کے مصغر موجی شعاعی پس منظر کے مشاہدات ہمیں آج کی کائنات کا درجہ حرارت اور بگ بینگ کائنات کے درجہ حرارت کی وضاحت کرتے ہیں ۔ سیاہ مادے کی تلاش کے ہمارے پاس صرف دو طریقے ہیں ۔
۱۔ ایکسیلیر یٹر پر ذراتی تجربات ۔
۲۔ کائنات میں غیر یکسانیت کا مشاہدہ ۔
دوسرے طریقے پر کام کر نے کیلئے ہمارے پاس بہترین اشاراتی عنصر مصغر موجی شعا عی پس منظر ہے ۔ یہ شعا عیں k ۲۰۷ پر کمزور لاسلکی شور کی شکل میں خلاء کی تمام سمتوں سے آتی ہیں ۔ دراصل یہ بگ بینگ کی بر قناطیسی گونج ہے ۔ شعاعی اخراج کی یہ یکسانیت کائنات کی یکسانیت کا پیمانہ فراہم کر تی ہے کہ کہکشائیں ایک چھپے ہوئے سرد سیاہ مادے کی موجودگی میں کیسے بنیں اور ارتقاء پذیرہوئیں ۔
اگر کائنات حد بندی کیلئے ضروری مادے کا آدھا بھی رکھتی توکائناتی پس منظرکا آتار چڑھائو ناقابل دریافت ہوتا ۔ دراصل Anisotropy سے تجاوز کا مشاہدہ کیا نہیں جاسکتا ۔ کیا ہم یقین کر لیں کہ کائنات سرد سیاہ مادے ہی سے بنی ہے ؟ ۱۹۸۸ء کے نئے جائزے واضح کرتے ہیں کہ آسمان میں مصغر موج کے تمام پس منظروں میں ہماری کہکشاںکے شعاعی پس منظر سے متعلق حرکت کی وجہ Anisotropy ہے نیز ہم KM ۶۰۰ فی سیکنڈ کی رفتار سے ۴۵۰ کے زاوئیے پر سنبلہ کہکشائی جھمگٹوں کی سمت حرکت کر رہے ہیں اور یہ ہے جو عموماً ثقلی میدان میں انحراف پیدا کرتی ہے ۔ آئرس (Iras) نامی سیارے نے واضح کیا ہے کہ گھمبیر کہکشائیں زیریں سرخ علاقوں میں بصری طول موج کی طرح روشن ہیں ۔ اسکے علاوہ ہمارے پڑوس میں دو کروڑ پر سیک (۱ پرسیک ۳۰۲۵ نوری سال) کے فاصلے پر کہکشائوں کی تقسیم کا بہتر نظام بھی آئرس نے دریافت کر لیا ہے ۔ اگر ان تمام کہکشائوں کا خاکہ کھینچا جائے تو دراصل وہ کائنات میں عمومی ثقلی میدان کا نقشہ ہوگا ۔ جس میں مقسم مادے کی مقدار کو مطلوبہ سمت میں ہماری کہکشاں کی طرح ایک مخصوص ولاسٹی ہی کی ضرورت پڑیگی ، جتنی کہ کائنات کا احاطہ کر نے کیلئے درپیش ہے ۔
کائناتی کھنڈرات
کائنات کا مطالعہ بتاتا ہے کہ اسکے ہر مسام سے ایک قسم کا سرد مہر شعاعی اخراج جاری ہے جسے فلکیات داں مصغر موج کا پس منظر کہتے ہیں جبکہ بیشتر یقین رکھتے ہیں کہ یہ شعاعی اخراج بگ بینگ کی باقیات ہیں ۔ اس غیر معمولی شعاعی اخراج کی یکسانیت سب سے زیادہ جاذبِ توجہ ہے جبکہ زمینی حرکت کے علاوہ سائنسدان اب تک اس شعاعی اخراج کے پس منظر میں کوئی تغیر دریافت نہیں کر سکے ہیں۔
بیگ بینگ سے تین لاکھ سال بعد مادہ واقعتا بہت پھیل گیا اور شعاعی اخراج کی ابتدائی ہوگئی ۔ فلکیات دانوں کے خیال میںیہ ایک ناقابل فہم عمل (Anisotroloy)ہے ۔ تاہم ایک بھدا سا سوال یہ ختم ہو گیا کہ آج کائنات میں مادے کی تقسیم مکمل اور یکساں ہے ۔ جبکہ اب ہم جانتے ہیں کہ یہ خلاء کے بیچ کہکشانی سلسلوں اور عظیم گیسی بادلوں کے جھمگٹوں پر مشتمل ہے لیکن کائنات کا موجودہ ڈھانچہ کیسے بنا ہوگا ۔ اس کا جواب شاید کائناتی مصغر موج کا پس منظر دے سکے گا ۔ جس میں پس منظر کے منٹی اتنا چڑھائو کو دریافت کر نے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ اس طرح کائنات کے ارتقاء کی وضاحت ممکن ہوجائے گی ۔ ۱۹۵۰ء میں جارج گیمونے سب سے پہلے مصغر موجی پس منظر کی پیشن گوئی کی اور بعد میں ۱۹۶۵ء میں ارنو پر پاس اور رابرٹ ولسن نے اسے اتفاقاً دریافت کر لیا ۔ گیمونے تجویز کیا کہ کائنات کی ابتداء موجود بھاری عناصر جیسے مادوں کے نیو کلیائی تعملات سے ہوئی ، جسکے لیے اعلیٰ درجہ ء حرارت اور گرم بگ بینگ کی ضرورت پڑی ہوگی ۔ جس کی عظیم توانائی سے قدر تاً حرارت شعاعی اخراج ٹانزکی صورت میں شروع ہوا ۔ جیسے جیسے کائنات پھیلی اور اسکی طول موج پھیلی، بر قناطیسی طیف سے بڑی طول موج (سرخ منتقلی ) میں تبدیلی ہوتی گئیں انکا درجہ حرارت کم تر ہوتا گیا ۔ گیمو کے مطابق یہ درجہ حرارت قطعی صفر سے ۱۰ درجہ زیادہ ہونا چاہئے بعد میں صرف چند درجہ معلوم کر لیا گیا ۔
ارنو پر یاس اور رابرٹ ولسن نے ۳۵ ۔ ۷ سینٹی میٹر طول موج پر نو دریافت شعاعوںکے بارے میں بتایا کہ یہ ان کا خراج زمین سورج یا ہماری کہکشاں سے نہیں ہورہا ہے ۔ انکا یہ بھی خیال تھا کہ انکے آلات بھی مخرج نہیں ہیں ۔ ایک مرتبہ دو انجنیئروں نے بڑے تعجب سے اک موجی ارتعاشی اینٹینا کے اندرون میں مشاہدہ کیا کہ یہ شعاعی اخراج ۳۰ درجہ حرارت کیساتھ تمام آسمان سے ہو رہا ہے۔ شعاعی اخراج معلوم کئے جاسکتے ہیں ۔
کائناتی مصغرکا موجی پس منظر بگ بینگ کی ڈرامائی تصدیق ہے ۔ جس پر زیادہ تر فلکیات دان متفق ہیں ۔ بگ بینگ سے تقریباً تین لاکھ سال بعد مادہ پر وٹان ، الیکٹران اور ہیلیم مرکزے کی حالت میںاپنا درجہ حرارت K کم کر چکا تھا ۔ یہ آخری کم سے کم درجہ تھا جب الیکٹران ر و ٹانز کے ساتھ مل کر نیوٹرل ہائیڈروجن ایٹم بنا رہے تھے نیز اسوقت تک آزاد الیکٹران پیدائش کائنات کیلئے اہم ترین کام انجام دے چکے تھے ۔ کیونکہ انہوں نے تمام توانائیوں اور سمتوں سے خارج ہونے والے فوٹانز کو تھامسن میں منتشری کے طریقہ سے فوٹانز جذب کر لیا تھا ۔ مادے اور شعاعی اخراج کے اس باہمی تبادلے نے درجہ حرارت کو مستحکم کر دیا تھا ۔ آخری منتشری سے قبل فو ٹانز جذب و اخراج میں دوربین تک سفر میں کئی بار انحرف کر چکے ہونگے ۔ چنانچہ انکے آغاز کی تمام معلومات پر پانی پھر جاتاہے اس وقت کائنات بھی بہم تھی اس لئے بر قناطیسی شعاعوں کے ذریعہ بھی وقت میں مزید پیچھے نہیں دیکھاجاسکتا ۔ نیز اس آغاز کے فورا بعد ہی مادہ اور توانائی چنانچہ فوٹانز تمام اطراف اڑنے کیلئے آزاد تھے۔ فوٹائز کے اب تک کے طویل سفر میں انکا درجہ حرارت بتدریج کم ہوتے ہوئے اب صرف k ۳۰ رہ گیا ہے ۔ جدید تجربات کے مطابق کائناتی شعاعی اخراج کا طیف سیاہ جسم جیسا ہی ہے ۔ ایسے طیف شعاعی اخراج کے طول موج کی مخصوص تقسیم رکھتے ہیں جس کا انحصار جسم کے درجہ حرارت پر ہوتا ہے ۔ حالیہ مشاہدات سے سیاہ جسم جیسے محسوس ہوتے ہیں ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اب تک تمام تجزیات میں درجہ حرارت کا فرق ۱۰ فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔
مصفر موجی پس منظر کی اتنے بڑے پیمانے پر یکسانیت ایک لجھن کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے ۔ خیال ہے کہ خلا کا خطہ میٹر رداس پر مشتمل ہے جس نے آخری منتشری اور اسکی ظاہری حالت کو متاثر کیا تاہم قریبی پیوستہ خطے زیادہ متغیر نہ ہوسکے ۔ ایک حساب کے مطابق ابتدائی کائنات کے خلائی خطے آسمان میں ایک دوسرے سے ۲۰ کے فرق سے زیادہ دور نہیں تھے ۔ جبکہ آخری منتشری کے آغاز تک یہ خطے ایک دوسرے کے افق میں نہ ہوسکے تھے ۔ یہ مسئلہ یا مسئلہ افق کہلاتا ہے اور خلاء ہی سے تیز پھیلائو کے زمانے کو برداشت کیا ہے ۔ اسطرح مصغر موجی پس منظر کے اتنے برے پیمانے پر یکسانیت کا اندازہ بھی ہوجاتا ہے ۔ مصفر موجی پس منظر پر اور مختلف طول موج پر رقیق تر شد ت کے تغیر کی دوست پیمائش فلکیات میں بڑے چیلنجوں میں سے ایک ہے ۔ ستاروں اور کہکشاں جیسے تمام گرم ترین اجسام سے خارج ہونے والی شعاعوں کونفی کرنے پر شعاعی اخراج کم سے کم درجہ حرارت کے مطابق ہوجاتا ہے ۔ تاہم چھوٹے چھوٹے اشارات باقی بچتے ہیں ۔ جنہیں قطعی مصغر درجہ پر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ کم ترین طول موج اور شعاعی پس منظر کا طیف اپنی حد ختم کر کے پس منظر کی شدت کو کم ظاہر کرتا ہے ۔
جاپان کے ایک تحقیق دان کی جدید تحقیق کے مطابق انکے حاصل کردہ طیف کا ایک رخ سیاہ جسم کے طیف سے معنی خیز طور پر مختلف ہے ، طیف میںایک قسم کا گڑھا ہے جس نے خود مصفر موجی شعاعی اخراج کی شکل میں بگاڑ پیدا کر دیا ہے یا پھر یہ ابتدائی کائنات کی دھول کا اخراج ہوسکتا ہے یا شاید کہکشائوں کی پیدائش سے متعلق کوئی رابطہ جس کا بگ بینگ کے ساتھ براہ راست کوئی عمل دخل نہ ہو ، دراصل یہ شعاعی اخراج کا مخرج کوئی غیرمعمولی نظام محسوس ہو تا ہے لیکن یہ ممکن ہے کہ مصغر موجی پس منظر کی سمت تبدیل ہورہی ہو کیونکہ تمام ممکنہ تغیر بھی ہر وقت مختصر ہورہا ہے ۔ تغیرات کو قطعی چھوٹے زاویوں میں قوس کے ایک منٹ درجہ تک تقسیم کر نے کیلئے فلکیات دان مربوط لاسلکی دور بینوں کی قطار استعمال کرتے ہیں، انہیں وی ۔ ایل اے کہا جاتا ہے ۔
کیلیفور نیا کے سوکوروریگستان میں۲۷کلومیٹر رقبے پر پھیلا ہوا ،وی ۔ ایل ۔ اے بہترین نظام ہے ۔ لیکن تغیر معلوم کرنے میں ناکام ۔
مصغر موجی پس منظر کا اتار چڑھائو ہمیں ابتدائے کائنات میں مادے کی تقسیم بتاتا ہے جب کم از کم کائناتی مادے کا ایک ٹکڑا شعاعی اخراج کا نسیب بنا ہوگا یا ممکن ہے کہ یہ تغیرات مادے کے ٹکڑوں سے گزرنے والے شعاعی اخراج کانتیجہ ہوسکتے ہیں ۔ فرض کر لیجئے ۔ ایسا انہیں ہوا تب سوال پیدا ہوتاہے کہ گیس اور دھول کے عظیم مر غولے کہکشائوں کی تخلیق میں کیسے استعمال ہوئے ۔ یہ ایک رازِ پنہاں ہے اور فلکیات دانوں کیلئے چیلنج کہ شعاعی پس منظر میں تغیر جیسی علامات کیوں؟ دراصل مسئلہ مصغر موجی پس منظر کی غیر معمولی ہمواریت ہے ، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتداء میں مادے کو مکمل طور پر سخت بے ڈول شکل اختیار کر نی پڑی ہوگی ۔ ایک سائنسدان جیمز جینز نے دریافت کیا کہ ایک گیسی بادل ایک مخصوص کمیت کے ساتھ ٹکڑوں میں ٹوٹنے پر مائل ہے جس کا انحصار صرف اسکے درجہ حرارت اور کثافت پر ہے لیکن کہکشائوں کی پیدائش وقت پر ہمارے مشاہدات کے عین مطابق ہے ۔ اس طر ح جیمس جینز کا مفروضہ، جس میں عام مادے کے علاوہ کچھ دوسرے عوامل پیدائش کا ئنات میںشامل تھے، مسترد ہوجاتا ہے ۔ چنانچہ ایک تلخ حقیقت ہمارے سامنے نمودار ہوتی ہے کہ کائنات کا بیشتر حصہ سیاہ مادے پر مبنی اور کائنات کی بیشتر کمیت کا حامل ہے ۔ ہم نے اسے اسکی ثقلی کشش سے دریافت کیا ہے ۔ سیاہ مادے کی مقدار بگ بینگ کی ۹۰ فیصد ہے یعنی ہم نوے فیصد اندھے ہیں۔ دراصل یہی مادہ ہمیں بتاتاہے کہ عام مادہ کہکشائیں بنانے کیلئے کیسے پھٹ پڑا۔ ہارورڈیونیورسٹی کے مارگریٹ گیلر اور جوان ہچرانے اس دریافت میںیہ بھی معلوم کیا کہ کائنات غیر معمولی طور پر بے یقینی ہے ۔ لیکن یہ بے یقینیت ابتدائے کائنات ہی سے کیوں ؟ اور کیا یہ اتنی ہموار تھی ؟ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے صرف کہکشائیں ہی سب کچھ نہیں ہیں ، وہ تو بس کائناتی تودے کا ایک پورہیں۔
مصغر موجی پس منظر اور کہکشائوں کی پیدائش پر یقینا سیاہ مادہ اثر انداز ہوا، اسکا انحصار دراصل کئی بیرونی ذرات ہیں جیسے ایگرئین یانیوٹرانز وغیرہ ۔ سیاہ مادے کے نیو ٹرانز پر مشتمل ہونے پر سائنسدان کہہ سکتے ہیں کہ بگ بینگ کے بعد بننے والے مادے کی کمیت سورج سے ۱۱۶ گنا زیادہ ہونی چائیے جبکہ ایگزٹین کی صورت میں ثقلی کشش ناممکن ہوجاتی ہے کیا ہم منتخب کر سکیں گے کہ کائناتی کھنڈرات کونسے ذرات پر مشتمل ہیں ۔