
سیاسیات
سیاسیات
سیاست عربی زبان کا لفظ ہے ۔ فیر وز الغات اور مرکزی اردو بورڈ کی لغت میں اس کے معنی ہیں ۔ بادشاہت کرنے کا طریقہ ، نگہبائی ، تنبیہہ کرنا لوگوں کو قصور و جرم کی سزا دینا ۔ دبدبہ ، رعب وغیرہ ۔ آکسفورڈ انسا ئیکلو پیڈیا ڈکشنری کے مطابق لفظ (POlitic)اسم صفت ہے ، جس کے معنی ہیں (Secheming, Crafty , Prudent, Seagacious ) اور لفظ (Politics)اسم ہے ، جس کی تعریف یہ کی گئی ہے ۔
Science and art of Government, political affairs or life. سیاسیات کو انگریزی میں (Political Science ) کہتے ہیں ۔ لفظ یونانی زبان کے لفظ (Polis ) سے ماخوذ ہے ۔ جس کے معنی شہر کے ہیں ۔ گویا سیاسیات وہ سائنس کا علم ہے جس کا تعلق شہر سے ہو ۔ کیونکہ شہر انسانوں نے بسائے اس لئے سیا سیات کا تعلق بھی انسانوں سے ہی ہے ۔ ارسطو نے کہا تھا :
"He who is unable to live in society or who has no need because he is sufficient for himself, must be either a beast or god. ”
بقول ارسطو ـ ’’ انسان سماجی حیوان ہے ۔ ‘‘ اس کی ضروریات بے شمار ہیں ‘ اس لئے اسے سو سائٹی میںرہنا پڑتا ہے ۔ انسان میں ہمدردی کے جذبات بھی پائے جاتے ہیں خود غرضی کے بھی ۔ وہ جھگڑ ا لو بھی ہے ، اس لئے سو سائٹی میں رہتے ہوئے چند قواعد و ضوابط کی ضرورت بھی ہوتی ہے ۔ اس لئے بقول ارسطو کے انسان حیوان بھی ہے اور سیا سی حیوان بھی ۔ اس سیاسی اور سماجی حیوان کے مطالعے کے علم کو ارسطو نے سیاسی حیوان بھی ۔ اس سیاسی حیوان کے مطالعے کے علم کو ارسطو نے Master Science کا نام دیا تھا ۔ کیونکہ اس وقت یونان میں لوگ شہر ی زندگی بسر کرتے تھے ۔ شہر بلند پہاڑوں کے درمیان واقع تھے اس لئے ان کے مسائل کے علم کو (Politics) کانام دیا گیا ۔ موجود ہ دور میں شہری کی وہ تعریف نہیں ، جو ارسطو کے زمانے میں یونانی شہری کی تھی ۔ آج ملک میں رہنے والے ہر شخص کو شہر ی کہتے ہیں ۔ ، وہ گائوں میں ہو یا شہر میں لیکن اس کے مسائل اور ان کے حل کے مطالعے کانام (Politicial Science ) ہی ہے ۔
علم سیا سیات کی نوعیت یا اہمیت
علم سیاسیات ایک عمرانی علم ہے ، جو معاشرہ کی سیاسی تنظیم سے متعلق ہے ۔ دوسرے الفاظ میں ہر معاشرتی فعل جو حکومت کے ذریعہ انجام پاتا ہے ۔ علم سیاسیات کے مطالعہ کی حدود میں داخل ہو جاتا ہے ۔ علم سیاسیات کی اہمیت کے بارے میں ارسطو کہتا ہے ۔ یہ علم ’’ آقائے علم ‘‘ (Master Science)ہے اور یہ حقیقت ہے کہ معاشرے کی سیاسی تنظیم کو جو مرکزیت حاصل ہے وہ دیگر معاشرتی تنظیموں کو حاصل نہیں ہو سکتی ۔ معاشرے کے رسم و رواج اخلاق ، مالیات ، تہذیب و غیرہ کا تحفظ اور نشو ونما اس وقت تک ممکن ہی نہیں جب تک معاشرہ سیاسی طورپر منظم نہ ہو اور حکومت کا تصور موجود نہ ہو ۔ یہ حکومت ہی نہیں جب تک معاشرہ سیا سی طور پر منظم نہ ہو اور حکومت کا تصور موجود نہ ہو ۔ یہ حکومت کا فریضہ ہوتا ہے کہ وہ شہر یوں کو امن و امان فراہم کر ے اور ان کی معاشرتی زندگی کی مختلف اقدار میں اس طرح ہم آہنگی پیدا کر کے معاشرہ کسی رکاوٹ کے بغیر ترقی کی منازل طے کرتا جائے اور اس کا کوئی پہلو نظر انداز نہ ہو نے پائے ۔ معاشرے کے اندر احترام آدمیت کا عنصر اور عدل و انصاف کا تصور بغیر ریاست اور حکومت کے ممکن نہیں ۔ شہریوں کی صلاحیتوں کی پرورش بھی سیاسی تنظیم کے بغیر نہیں ہو سکتی ۔ لہٰذا ہمیں یہ اعتراف کرنا ہوگا کہ ریاست ہماری معاشرتی زندگی کا محور ہے اور اس کو تمام شعبوں پر فو قیت حاصل ہے ۔ اور اس کی نگرانی میں اطمینان اور آسودگی جنم لیتی ہے اس طرح یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ سیا سیات کا علم دوسرے علوم کا سرتاج ہے اور ہمیں نہایت قیمتی معلومات فراہم کرتا ہے ۔ یہ ہمارے ان تجربات کی بھی داستان ہے جو ہم نے ماضی میں کئے ۔ ان سے جو سبق حاصل ہو ا۔ اس کی مدد سے ہم موجودہ زندگی کے نشیب و فراز کا بھی تجزیہ کر سکتے ہیں ۔ گیٹل کے الفاظ میں ’’ یہ علم ریاست کے ماضی کا جائزہ ، اس کے حال کا تجزیاتی مطالعہ اور اس کے امکانی مستقبل کے متعلق سیاسی و اخلاقی بحث ہے ۔ ‘‘ سیا سیات کی نوعیت کی وضاحت مزید اس وقت ہو جائے گی ‘ جب ہم اس کی حدود اور وسعت کو زیر بحث لائیں گے ۔ اس جگہ مختصر یہی قلم بند کیا جا سکتا ہے کہ سیا سیات وہ علم ہے جو ریاست اور حکومت کے مطالعہ سے متعلق ہے ۔ یہ علم نہایت ہی مفید اور اہم ہے اس علم کی وسعت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور یہ ہماری زندگی کے تمام شعبوں پر اس طرح حاوی ہو رہا ہے ۔ کہ اس کے اور دوسرے معاشرتی علوم کے درمیان حد فاضل مقرر کر نا مشکل ہو رہا ہے ۔ تاریخ، معاشیات ، اخلاقیات اور نفسیات سبھی سے اس کی گہری و ابستگی ہے ۔ حتی کہ تعلیم و تربیت ، جنگ اور امن خلائی تسخیر ، تجارت ، صنعت ، زراعت ، صحت منصوبہ بندی سب کا کسی نہ کسی لحاظ سے ریاست اور حکومت سے رشتہ ہے جو لا محالہ سیا سیات کے دائرہ بحث میں شامل ہوگا ۔ اس کے علاوہ ہم سیا سیات کو بین الا قوامی تعلقات ، دساتیر اور سیاسی نظر یات کا علم بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ سائنس کی ترقی اور فاصلوں کے سمٹنے سے ریاست جو کل تک قومی ریاست تھی اب اس میں بین الا قوامی رنگ بھر ا جا رہا ہے ۔ لہٰذا اس کا دائرہ بحث اسی نسبت سے بڑھتا جا رہا ہے ۔ اور پھر خوب سے خوب تر کی تلاش میں نئے نظریات کو بھی بنظر غائر پڑھنے کی ضرورت ہے ۔ معاشرے کے ان تمام زاویوں کا مطالعہ جو حکومت اور ریاست کے دائرہ کو چھوتے ہیں اور جن کی وضاحت کی جاچکی ہے ۔ علم سیاسیات ہے جو نہایت اہم اور مفید ہے بلکہ یوںکہئے کہ یہ علم ہماری معاشرتی زندگی کو منظم اور مر بوط کرنے کے لئے مر کزی حیثیت رکھتا ہے ۔
وسعت مضمون
علم سیاسیات کو اچھی طرح سے سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس کے پس منظر اور ماضی پر نظر ڈالیں ۔ جس سے مراد یہ ہے کہ ریاست کا ظہور کیسے ہو ا ۔ وہ کیا اسباب تھے جن کے باعث اس کی ضرورت محسوس ہوئی اسباب کو سمجھنے سے بھی ہم ریاست کے مقصد کا تعین کر سکتے ہیں اور اس کو موثر اور مفید تنظیم کے طور پر زندہ رکھ سکتے ہیں ریاست کی تخلیق اور ابتداء کا مطالعہ اس علم کا لازمی حصہ ہے اور گیٹل اسے تاریخی تحقیق کا نام دیتا ہے ۔ علاوہ ازیں ریاست کی موجود ہ کا ر کر دگی یعنی حال کا مطالعہ بھی ضروری ہے ، جس سے مراد یہ ہے کہ ہم معلوم کر سکیں کہ ریاست کا مثبت اور منفی پہلو کون کون سا ہے ۔ گیٹل اس دور کے مطالعہ کو ریاست کا تجزیاتی مطالعہ کہتا ہے ۔ اس طرح ہمیں یہ جاننے میں مدد ملے گی کہ ریاست کی تنظیم میں کیا کیا خامیاں ہیں اور وہ کون سے پہلو ہیں جن کو اجاگر کرنے اور توانائی دینے کی ضرورت ہے ترمیم اور اصطلاحی کی صورت تبھی پیدا ہوگی کہ ہم ریاست کی کارکردگی کا ساتھ ساتھ جائزہ لیتے جائیں ۔ نہ صرف ماضی اور حال کا مطالعہ علم سیا سیات کے مو ضو عات میں شامل ہے بلکہ مستقبل ہے بارے میں بھی غور کر نا ہوگا ۔ اس مرحلے کو گیٹل فلاحی منصوبہ کا نام دیتا ہے ۔ ماضی کے تجربات اور حال کی کوتاہیاں ہمیں نہایت قیمتی مواد فراہم کر تی ہیں ۔ یہ مواد ہمارے مستقبل کی تعمیر کے لئے مضبوط بنیاد ثابت ہو سکتا ہے ۔ مختلف سیاسی نظر یات اور فلسفوں کی امداد ہم صرف اسی صورت میں حاصل کر سکتے ہیں کہ ہمیں اپنے آنے والے کل کی فکر ہو اور حال کی صورت حال سے ہم بخوبی آگاہ ہوں ۔ ریاست کو دور حاضر میں منصوبہ بندی کی اہم ذمہ دار ی سونپی گئی ہے ۔ یہ منصوبہ بندی مستقبل کے بارے میں ہی ہے ۔ لہٰذا علم سیا سیا ت کو زمانے کے لحاظ سے تین ادوار میں واضح طور پر تقسیم کیا گیا ہے ۔ تاکہ اس سمت میں سیاسیات کی حدود کا واضح تعین ہوسکے ۔
ریاست کے قیام کا مقصد معاشرتی زندگی کو استوار کرنا تھا ۔ فرد معاشرہ کی بنیاد اکائی ہے لہٰذا اصل مقصد فرد کی فلاح اور قوت ہونا چاہیے ۔ فرد اور ریاست کا باہمی تعلق اسی بحث کا حصہ ہے ۔ سیاسی مفکرین نے اس بارے میں بہت کچھ لکھا ہے جن کے لئے علم سیا سیات میں سیاسی فلسفہ کی اصطلاح مستعمل ہے ۔ کچھ مکاتب فکر ایسے ہیں جو ریاست کے خاتمے کو فرد کے لئے مفید گر دانتے ہیں مثلا ً نر اجیت پسند (Anarchists)اور کچھ وہ ہیں ریاست کو نہایت فعال اور طاقتور ادارہ بنانے کے داعی ہیں ۔ مثلا ً اشتراکیت اور جابریت والے (Socialism and fascism) اسی طرح نظر انفرادیت (Individualism ) نظر یہ افادیت (Utilitarianism)اور نظریہ تکثیریت (Pluralism)کا اپنا اپنا زاویہ نگاہ ہے ۔ یہ نظر یے اور فلسفے اس بحث کے متعلق ہیں کہ فرد اور ریاست کے درمیان اختیارات اور ذمہ دار ایوں کی تقسیم کیسی ہو ۔ فرد کا مقام کیا ہو ۔ ریاست فرد کے تابع ہو یا فرد ریاست کے تابع ہو ۔ فرد کو کتنی آزادی حاصل ہواور اس کے حقوق و فرائض کیا ہوں ۔ یہ نہایت ہی ضروری مو ضوعات ہیں جو فرد کی زندگی سے گہرا تعلق رکھتے ہیں ۔ یعنی ریاست میں فرد کو کیا مقام دینا ہے اور کسی قدر آزادی اس کو ملنی چاہیے ۔ ان تمام سوالوں کا جواب ہمیں سیاسی فلسفہ ہی دے سکتا ہے ۔ لہٰذا علم سیاسیات کے مطالعہ میں قدیم اور جدید تمام سیاسی فلسفہ کا مطالعہ شامل ہے ۔
فرد کی زندگی میں معاشی پہلو بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ اس کی مادی ضروریات کے لئے ریا ست کو باقاعدہ منصوبہ بندی کرنی پڑتی ہے ۔ طلب اور رسد میں توازن قائم کرنا اور شہریوں کو روزگار فراہم کر نا ریاست کے مقاصد میں شامل ہے ۔ لہٰذا جدید سیاست میں اقتصادی پہلو نمایاں طور پر واضح ہے ۔ سیاسی اور اقتصادی تصورات آپس میں اس طرح پیوست ہوچکے ہیں کہ یہ ایک ہی علم کے دو شعبے نظر آتے ہیں ۔ لہٰذا علم سیاسیات کے طالب علم کے لئے معاشیات کا مطالعہ ضروری ہو گیا ہے ۔ ریاست کا مقصد نہ صرف امن و امان قائم کرنا اور خوشحال معاشرے کا قیام ہے بلکہ اس کے لئے راہ راست کا تعین کرنا ہے ۔ زندگی کا سفر گزارنے کے طریقے مقرر کرنا ، افراد کے باہمی تعلقات کے احوال و ضع کرنا بھی ہے ۔ اخلاقی ضابطہ ریاست کو یہ فریضہ انجام دینے میں امداد دیتا ہے ۔ لہٰذا علم سیاسیات کا مطالعہ اس وقت تک مکمل نہیں جب تک ہم اخلاقی اقدار کو بخوبی نہ سمجھیں ۔ اخلاقیات کو ہم بجا طور پر سیاسیات کی جان کہہ سکتے ہیں ۔ نفسیات کا مطالعہ علم سیاسیات کو صحیح طور پر سمجھنے کے لئے ضروری ہے کیونکہ حکومت کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہے کہ وہ اپنی پالیسیوں کو بنانے اور نافذ کرتے وقت افراد کے طبعی ، رجحانات ، مزاج خواہشات اور عمل کے ردعمل کو ملحوظ خاطر رکھے ۔
ریاست کی وسعت کو سمجھنے کے لئے نظر ی اور عملی سیاست کی تفریق بھی ضروری ہے ۔ نظری سیاست سے مراد ریاست کی ابتدا اور ارتقا اور اس کی ہیت میں تبدیلیوں کا جائزہ ہے جبکہ عملی سیاست سے مراد حکومت کی تنظیم ، دساتیر کا مطالعہ ، بین الاقوامی تعلقات ، قانون سازی امور منصوبہ بندی وغیرہ ہے ۔ لہٰذا علم سیا سیات میں ہم ریاست کی تخلیق سے لے کر آج تک رونما ہونے والی تبدیلیوں اور اس کے مستقبل کے بارے میں آراء کا مطالعہ کرتے ہیں اور دوسری جانب ہر ملک کے نظام حکومت اس کے مختلف شعبوں اور اداروں کا جائزہ لیتے ہیں ۔داخلہ اور خارجہ پالیسی کو بھی جانتے ہیں ۔ مقامی ادارے ، قانون بین الا قوامی قانون بھی اس علم کے دائرہ بحث میں آجاتے ہیں ۔ اقوام متحدہ کے تعلیمی ادارے یونیسکو (Unesco)نے سیاسیات کی وسعت یوں ترتیب دی ہے ۔
۱) سیاسی نظریات اور ان کی تاریخ۔
ب) سیاسی ادارے یعنی مقامی ، علاقائئی اور مرکزی حکومتی ادارے اور آئین ۔
ج) سیاسی جماعتیں گروہ ، رائے عامہ اور شہری کے حقوق و فرائض ۔
بین الا قوامی تعلقات ، تنظیم اور قانون،
علاوہ ازیں سیاسیات فرد کے اس سیاسی رویہ کے مطالعہ کا بھی نام ہے جس میں مقامی قومی اور بین الاقوامی سطح پر قائم ہونے والے تمام سیاسی ادارے اور ان کے بارے میں مختلف مکاتب فکر کے نظریات شامل ہیں ۔
مقامی ادارے ہماری سیاسی تنظیم کی بنیاد ہوتے ہیں ۔ جن کا مطالعہ بے حد ضروری ہے ۔ اور علم السیاست کا اہم موضوع ہے ۔ پاکستان میں یونین کو نسلیں ، میو نسپل کمیٹیاں ، پنچائتیں اور کا ر پو ریشنیں مقامی اداروں کی مختلف صورتیں ہیں ، جن کے ذریعہ شہری اپنے گائوں ، شہر اور علاقہ کے مجموعی مسائل اور معاملات کے متعلق غور کرتے ہیں فیصلے کرتے ہیں اور اپنی مدد آپ کرو کے اصول پر اپنے مقامی مسائل کا خاطر خواہ حل تلاش کرتے ہیں ۔ علم سیاسیات مقامی اداروں کی تشکیل اور تنظیم کے متعلق ضروری مواد فراہم کرتا ہے اور ہماری سیاسی تربیت کا بھی سامان پیدا کرتا ہے ۔ قومی اداروں سے مراد ریاست ، حکومت ، سیاسی جماعتیں ، انتخابات اور اسمبلیاں ہیں۔ درحقیقت سیاسیات کا اصل مو ضوع یہ ادارے ہیں کیونکہ ان کی کامیابی کے بغیر نہ مقامی سطح پر فلاح و بہبود کا کام ہوسکتا ہے اور نہ بین الا قوامی سطح پر امن اور ترقی ہوسکتی ہے ۔ لہٰذا علم سیاسیات کا مطالعہ کر تے وقت ان موضوعات کا خصوصی توجہ سے مطالعہ کرنا چاہیے ۔ بین الاقوامی جدید دور کے تیز رفتار مو ا صلاتی نظام نے تمام ریاستوں اور اقوام کو ایک دوسرے کے اتنا قریب کردیا ہے کہ ان کے مسائل اور ضروریات مشترکہ سی ہوگئی ہیں ۔ ان کی ترقی مشترکہ جد وجہد کے بغیر ممکن نہیں ۔ امن اور جنگ کے فائدہ اور نقصان کسی ایک قوم او رخطہ تک محدود نہیں رہا ۔ اس تبدیلی نے بین الا قوامی تعلقات کی اہمیت بڑھا دی ہے ۔ علم سیاسیات کے ذریعہ ہم بین الا قوامی تعلقات اور بین الاقوامی امور کا مطالعہ کر سکتے ہیں ۔
؎
شہریت کی وسعت
انسانی ادارے
انسانوں میں ضروریات زندگی کے لئے ریاست اور حکومت کے علاوہ کئی ادارے بنا رکھے ہیں ، جو کسی نہ کسی شکل میں ریاست اور حکومت پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ ان اداروں کا تعلق معاشرتی ، مذہبی اور معاشی زندگی سے ہوتا ہے ۔ علم سیاسیات ایسے اداروں کا تاریخی طور پر جائزہ لیتی ہے اور ان کے منفی اور مثبت پہلوئوں پر بحث کرتی ہے ۔
انسانی رویے
انسان کے زندگی اس کی خواہشات ، امنگوں ، مجبوریوں ، خوشیوں اور محرومیوں کا نام ہے ۔ جس کے لئے وہ دوسروں کے متعلق ایک خاص رویہ اپنا تا ہے ۔ سیاسیات میں مختلف معاشروں کے رسم و رواج ، اصولوں اور قوانین کا جائزہ لیا جاتا ہے ۔
تقابلی سیاست
آج کل دنیا کے ممالک کو کئی درجوں میں تقسیم کیا جاتا ہے بعض ترقی یافتہ ہیں ، بعض ترقی پذیر ہیں اور بعض پسماندہ ہیں ۔ ان ممالک کے معاشرتی ، معاشی ،اور سیاسی نظام بھی مختلف ہیں ۔ سیاسیات میں ان ممالک کا تقابلی جائزہ لیا جاتا ہے ۔
اس کے علاوہ سیاسیات میں ماضی ، حال اور مستقبل کا مطالعہ بھی کیا جاتا ہے ۔ جب تک ہمیں یہ علم نہیں ہوتا کہ موجود ہ نظام اور موجودہ اداروں کی ماضی میں کیا حیثیت تھی ، حال کو سمجھنا مشکل ہے ۔ برطانوی سیاسی نظام کا مطالعہ ۱۲۱۵ء کے میگنا کار ٹا کے بغیر نامکمل رہتا ہے ۔ یہی حال امریکی نظام کا ہے اور پاکستان میں صدر اور وزیر اعظم کے اختیار ات میں توازن کو سمجھنے کے لئے ماضی کا مطالعہ بہت ضروری ہے ماضی اور حال کو سامنے رکھ کر ہی ہم بہتر مستقبل کی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں ۔
علم سیا سیات سائنس ہے یا نہیں
پچھلے صفحات میںہم بیان کر چکے ہیں کہ سیاسی اور ارباب فکر اس علم کے نام کے متعلق مستعمل اصطلاح کے بارے میں متفق نہیں ہیں اور وہ اس علم کے لئے مختلف نام تجویز کر تے ہیں ۔ علم سیاسیات کا دوسر ا پہلو جو متنازعہ فیہ ہے وہ اس کے سائنس ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں ہے ۔ کچھ مفکرین کے نزدیک علم سیاسیات سرے سے سائنس ہے ہی نہیں ۔ میٹ لینڈ کا کہنا ہے کہ ’’ جب میں خوبصورت امتحانی پرچے پر پولیٹکل سائنس کا لفظ بطور عنوان پڑھتاہوں تو مجھے حیرت ہو تی ہے اور معذرت کرنے کو جی چاہتا ہے ۔ لیکن سوالات کے بارے میں نہیں بلکہ عنوان کی وجہ سے ‘‘ ایک اور سیاسی مفکر یکل کے نزدیک موجودہ حالت میں سیاسیات نہ صرف سائنس کی حیثیت سے بہت پیچھے ہے بلکہ فنون میں بھی کمتر درجہ رکھتی ہے ۔ لیکن کچھ سیاسی مفکرین کے نزدیک علم سیاسیات ایک سائنس یعنی باضابطہ علم ہے ،مثلاً ارسطو علم سیا سیات کو آقائے علم کا درجہ دیتا ہے ۔ لارڈ برائس علم سیا سیات کو ایسی سائنس قرار دیتا ہے جیسے مو سمیات کی سائنس ہے ۔ مذکورہ مفکرین کے انداز فکر سے یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ مفکرین کے دو گروہ ہیں ایک گروہ سائنس نہیں ہے بلکہ اسے سائنس کے نام سے پکارنا بھی زیادتی ہے ۔ یہ فیصلہ کرنے کے لئے یہ علم سائنس ہے یا نہیں ہمیں دو نوں مکاتب فکر کا تجزیہ کرنا ہوگا۔
علم سیاسیات سائنس ہے
اس فیصلہ پر پہنچنے کے باوجود کہ علم سیاسیات طبعی علوم کی طرح کا باضابطہ علم نہیں ہے ۔ ہمیں یہ کہنے پر اصرار ہے کہ علم سیاسیات ایک سائنس ہے اور باضابطہ علم بنتا جارہا ہے ۔ انسان مختلف النوع تنظیموں اور اداروں کے بغیر زندگی بسر نہیں کر سکتا ، لہٰذا ان اداروں کو رواں روں رکھنے کے لئے اسے ایسے اصولوں کی ضرورت ہے جن پر عمل کرنے سے اسے مطلوبہ نتائج پر آمد ہوسکیں ۔ یہی وجہ ہے کہ سیاسی مفکرین نے ان اصولوں کو مسلسل مشاہدے اور تجربے کے بعد تخلیق کیا ہے اور بعض اصول حتمی اور اٹل ہیں اور ہر معاشرے اور دور میں وہ صادق او ر درست نظر آتے ہیں ۔ ارسطو کو ہی لیجئے ۔ وہ انقلابات کے اسباب بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ عدم مساوات یا مساوات کی خواہش روکھنے کے اصول بھی وضع کر تا ہے ۔ یہ اصول ہر دور اور ہر معاشرے میں صحیح اور درست تسلیم کئے گئے ہیں ۔ ابن خلدون کے نزدیک اختیارات کا چند ہاتھون میں ارتکاز ، ٹیکسوں کی زیادتی اور اپنے تمدن کو خیر باد کہنے سے انقلاب برپا ہوتا ہے ۔ میکادلی کا کہنا ہے کہ لوگ ، جسمانی تکلیف برداشت کر لیتے ہیں لیکن معاشی نقصان برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے ۔ کار ل مارکس کے نزدیک ظلم و استبداد انقلاب کو جنم دیتا ہے علم سیاسیات بھی ایسے کئی اصولوں کا مجموعہ ہے ، جو عرصہ دراز سے انسانی مشاہدہ اور تجربہ کا حصول اور نچوڑ ہیں اور ہر حکومت اور ان اصولوں کی ریاستی امور دہی میں زیر غور رکھتی ہے لیکن ایسا بھی ہوا ہے کہ بعض حالتوں میں ان سے مختلف نتائج برآمد ہوئے کارل مارکس کے بیان کئے ہوئے کئی اصول وہ نتائج برآمد نہ کر سکے جس کا وہ دعویدار تھا ۔ کسی معاشرے میں آزادی کی خواہش کا اظہار نہایت شد و مد سے ہوا اور کسی معاشرہ نے دیر تک غلامانہ زندگی پر ہی قناعت کی ۔ پاکستان میں جمہوری نظام کے وہ نتائج برآمد نہ ہو سکے جو برطانیہ کے بیدار اور منظم معاشرے نے پیدا کئے ۔ علم سیاسیات طبعی علوم کی مانند سائنس نہ سہی اس سے ملتی جلتی سائنس ضرور ہے ۔
علم سیا سیات کے مطالعہ کے طریقے
سیاسی ارباب فکر نے سیاسیات کے مطالعہ کے مختلف طریقے تجویز کئے ہیں ۔ ہم ان طریقوں کے مدد سے سیاسی واقعات او رحقائق کی تہ تک پہنچ سکتے ہیں یہ سبھی طریقے اپنی اپنی جگہ مفید ہیں اور یہ نہیں جاسکتا کہ فلاں طریقہ ضروری ہے اور باقی طریقے غیر ضروری ہیں ۔ ہر طریقہ ایک سیاسی واقعہ کانیا انداز پیش کرتا ہے اور نئی صورت حال کا انکشاف کرتا ہے ۔ اس وقت تک جو طریقے موزوں سمجھے گئے ہیں وہ کچھ یوں ہیں: ۔
۱۔ تجرباتی طریقہ ۲۔ تاریخی طریقہ ۳۔ مشاہداتی طریقہ
۴۔ مشابہتی طریقہ ۵۔ نفسیاتی طریقہ ۶۔ فلسفیانہ طریقہ
۱۔ تجر باتی طریقہ :۔
تجربہ سے مراد یہ ہے کہ کسی شے کا بغور مطالعہ کیا جائے اور اس کے عوامل کو معلوم کرنے کے بعد اس کے نتیجہ کا کھوج لگایا جائے ۔ پھر کسی تجربہ گاہ میں ویسا ہی ماحول مصنوعی طور پر پیدا کیا جائے ۔ جس میں ان عوامل کو بعینہ اپنا عمل جاری رکھنے دیا جائے تاکہ اس کا نتیجہ وہی ہو جو ہم نے بغور مطالعہ کرنے سے اور حقائق کو اکٹھا کرنے سے حاصل کیا تھا ۔ مثلا ً ہم آگ کے اجزاء کو جان لینے کے بعد کسی تجربہ گاہ میں جب ان اجزاء کو مخصوص ماحول میں اکٹھا کرتے ہیں تو آگ ہی نمودار ہوتی ہے ، لیکن یاد رہے کہ اس قسم کے تجربات طبعی اور قدرتی علوم کی دنیا میں تو ہوسکتے ہیں ، لیکن معاشرتی علوم ہیں اس علوم میں اس طریقہ کو ہر گز نہیں اپنایا جا سکتا ۔ ہمارے لئے یہ ممکن نہیں کہ ہم کسی ملک کا انتخاب کر یں اور وہاں اپنی مرضی کا طرز حکومت نافذ کریں تاکہ مطلوبہ نتائج برآمد ہو سکیں ۔ ہمیں ایسا کرنے کے لئے انتظار کرنا پڑے گا ۔ پھر ہماری یہ بھی مجبوری ہے کہ ہم اپنے تجربات کو بار بار نہیں کر سکتے کیونکہ ہوسکتا ہے لوگ ہمیں ایسا کرنے کی اجازت نہ دیں ۔ لہٰذا یہ بات واضح ہوگئی کہ علم سیا سیات میں تجرباتی طریقہ اور ریاست بھی ایک تجربہ گاہ کی مانند ہے ۔ پاکستان میں پارلیمانی نظام ، صدارتی نظام اور بنیادی جمہوریت کا تجربہ کیا جا چکا ہے لیکن اس سے جو نتائج ہم نے اخذ کئے ہیں وہ برطانیہ کے لئے کا ر آمد نہیں ہو سکتے ، کیونکہ وہاں کا ماحول پاکستان جیسا نہیں ۔ ہم نے جو اصول اخذ کئے ہیں ان کا صرف اس ملک پر اطلاق ہو سکتا ہے جس کے حالات و واقعات پاکستان جیسے ہوں ۔ اشتراکی ممالک نے کمیونزم کا تجربہ کیا ہے اور بہت سے ممالک نے اس تجربے سے استفادہ کیا اور استراکی اصولوں کو اپنے نظام سیاست میں جگہ دی ہے ۔ حکومت کی ہر پالیسی ، ہر قانون اور ہر آئین ایک نیا تجربہ ہے اور نہایت قیمتی اور اصول فراہم کر تا ہے ، لہٰذا علم سیا سیات کا طالب علم اس طریقہ سے مطالعہ کرنے سے ریاست اور حکومت کے بارے میں بہت سے حقائق کو سمجھ سکتا ہے ۔
تاریخی طریقہ
پر وفیسر کلکر ائسٹ کے نزدیک ’’ علم سیا سیات کے تجربوں کا ماخذ تاریخ ہے ‘‘ ابن خلدون کا کہنا ہے : ’’ ماضی ، حال اور مستقبل ایک ہی زنجیر کی مختلف کڑیاں ہیںاور انہیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جا سکتا ہے ۔ ‘‘ ہمیں سیاسی اور اداروں کی نوعیت کو سمجھنے کے لئے تاریخ کا سہا را لینا پڑتا ہے ۔ صرف تاریخی طریقہ ہی سے یہ انکشاف ہو سکتا ہے کہ کس ادارے یا اصول کے پس پردہ کیا محرکات تھے ۔ تخلیق اور ارتقاء کو سمجھنے کے بعد ہی ہم حقیقت کو پاسکتے ہیں اور اس طرح جو بنیاد فراہم ہوگی وہ ٹھوس اور مضبوط ہوگی اور اس پر تعمیر کے لئے صحیح منصوبہ بندی ممکن ہوگی ۔ ہمارے حال اور مستقبل کی صحیح سمت کا تعین نہ صرف اسی صورت میںممکن ہے کہ ہم ماضی کے نشیب و فراز سے بخوبی آگاہ ہوں اور ان کو تاہیوں کا اعادہ نہ ہونے دیں جس سے ہمیں گزشتہ ایام میں نقصان پہنچا اور وہ اصول جنہوں نے ہمیں توانائی بخشی ہمارے مستقبل میں شامل ہو کر ہمارے لئے توانائی کا سرچشمہ بن سکیں ۔ کچھ مفکرین سیا سیات کے مطالعہ کے تاریخی طریقہ پر معترض ہیں ۔ ان کے نزدیک علم سیا سیات ریاست کی موجود ہ اور آئندہ حالت کا جائزہ لیتا ہے ، جبکہ تاریخ کا ہمارے موجودہ اور آئندہ مسائل سے کوئی واسطہ نہیں ہے ۔ نیز تاریخ محض حقائق کی تفصیل ہے اور اس کا اسباب و علل سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی اچھائی اور برائی کا کوئی معیار مقرر کرتی ہے ۔ ان اعتراضات کے باوجود تاریخی طریقہ کی افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ بالخصوص جبکہ تاریخ ایک سائنٹیفک اور باضابطہ علم کا درجہ حاصل کر چکی ہے ۔
مشاہداتی طریقہ
لارڈ برائس نے اس طریقہ کو خاس طور پر مقبولیت بخشی ہے ۔ وہ بہت سے ممالک میں محض اس لئے گیا کہ وہاںکے سیاسی اداروں کا خود جائزہ لے اور منتظمین اور سیاستدانوں سے مل کر ریاست اور حکومت کے بارے میں علم حاصل کر ے ۔ لہٰذا اس کے افکار چشم دید معلومات پر مبنی ہیں اور ان میں صداقت بدرجہ اتم موجود ہے ۔ مشاہداتی طریقہ کے لئے لارڈ براء س زبردست احتیاط برتنے کی تلقین کرتا ہے ۔ محقق کو تعصب سے بالاتر ہونا چاہئے ۔ اس کو حقائق کا مطالعہ غیر جانبدار طریقے سے کرنا چاہئے ۔ اور پہلے سے فیصلہ نہیں کر لینا چاہیئے ۔ ایک اور سیاسی مفکر ماشیکو نے بھی مشاہداتی طریقہ سے علم السیاست کے لئے گراں قدر اصول فراہم کئے ہیں ۔ اس کا نظر یہ علیحدگی اختیارات اس کے انگلستان میں قیام کے دوران وہاں کے سیاسی نظام کا ذاتی مشاہدہ تھا ، جس سے اس نے یہ محسوس کیا کہ وہاں فرانس کے مقابلے میں زیادہ اور بہتر طور پر آزادی کا تحفظ کیا گیا ہے ۔ علم سیا سیات کے مقابلے میں قدرتی علوم کا یہ طریقہ زیادہ کا ر گر ثابت ہوا ہے ۔ مشہور سائنسدان نیو ٹن کا قانون کشش ثقل مشاہداتی طریقہ کا ہی نتیجہ اداروں کا مطالعہ وسیع سطح پر کریں اور اپنی معلومات کا دائرہ چند ممالک تک ہی محدود نہ کریں بلکہ تمام ممالک اور اقوام میں مشترکہ اور مختلف دونوں قسم کی اقدار کی جستجو سے حقیقت کا سراغ لگائیں۔
مشابہتی طریقہ
مشابہتی طریقہ سے ہر برٹ سپنسر نے بہت کام لیا ہے ۔ اس کا طرز استد لال یہ ہے کہ وہ مختلف اشیاء کے درمیان مشابہت کی بنیاد پر مشترکہ اقدار کا تعین کرتا ہے مثلاًوہ کہتا ہے کہ ریاست اور انسانی جسم میں بڑی مشابہت ہے ۔ ریاست افراد پر مشتمل ہے جب کہ انسان جسم خلیات کا مرکب ہے ۔ اس مشابہت کی بنا پر وہ یہ اصول قائم کر تا ہے کہ افراد اور ریاست کا باہمی رشتہ وہی ہے جو اعضاء او ر جسم کا ہے ۔ وہ کہتا ہے کہ افراد کو ریاست کا اسی طرح تابع اور فرمانبر دار ہونا چاہیے جس طرح اعضاء جس کے لئے حرکت کرتے ہیں ۔ اجتماعیت کی اہمیت اور فوقیت کا اصول اسی نکتہ کی پیداوار ہے مشابہتی طریقہ بعض اوقات نہایت مفید نتائج فراہم کرتا ہے ۔ انسانی معاشرہ ایک ایسا اجتماع ہے جس کے اندر مشابہت اور مماثلت کا عنصر کا ر فرما ہے ۔ لہٰذا مختلف انسانی اجتماعوں اور قوموں میںہم آہنگی اورہم مشکل عناصر کی تلاش سے ایسے اصولوں کی تخلیق کر سکتے ہییں ،جن کی افادیت کا دائرہ وسیع و عریض ہوتا ہو لیکن سیا سیات میں یہ طریقہ مشکل سمجھا گیا ہے ۔ کیونکہ ہر سیا سی واقعہ اور تحریک کے گرد بہت سے پیچیدہ حالات اور واقعات ہوتے جس کے باعث ایک واقعہ اور دوسرے واقعہ کے مابین مشابہت کو تلاش کرنا نہایت ہی کٹھن کام ہے ۔ بظاہر تمام غلام قوموں کا حاکم اسی قوم کا فرد ہونے سے دونوں قوموں کی مشابہت اثر انداز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی ۔ ناقدین ہر برٹ سپنسر کے نظریہ پر بھی یوں تنقید کرتے ہیں کہ افراد جو ریاست کی بنیاد ہین ۔ جاندار ہوتے ہیں ، جبکہ خلیات جو انسان کی تشکیل کرتے ہیں ، بے جان چیز ہیں ۔ اس لئے وہ جسم نامی نظریہ کو تسلیم کرنے سے انکار کر تے ہیں ۔ مشابہتی طریقہ کی افادیت سے انکار کئے بغیر فقط یہ کہنا ضروری ہے کہ یہ طریقہ اسی وقت سود مند ہوسکتا ہے جب نہایت احتیا ط اور غیر جانبداری کا مظاہرہ کیا جائے ۔
نفسیاتی طریقہ
علم سیاسیات میں نفسیاتی طریقہ کو بے حد اہمیت حاصل ہے اس طریقہ سے ہم انفرادی اور اجتماعی نفسیات سے آگاہی حاصل کر تے ہیں ، جس کے بغیر حکومت کو صحیح خطوط پر چلانا ممکن نہیں ہوتا ۔ حکمرانوں کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ عوام اور خواص کے مزاج اور انداز فکر سے بخوبی آگاہ ہوں ۔ ایک خطہ اور علاقہ کے لوگوں کا مزاج دوسرے خطہ کے لوگوں سے مختلف ہوتا ہے ۔ لہٰذا قانون سازی کے وقت اس فرق کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے ۔ مختلف عوامل مثلاً معاشرتی ، مذہبی ، اخلاقی اور اقتصادی لوگوں کی سوچ پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ان کی ذہنی کیفیت کو بدلنے کا موجب ہوتے ہیں ۔ اسی طرح آب و ہوا کا بھی ایک خاص اثر ہوتا ہے ۔ گرم علاقوں کے لوگ جذباتی اور سرد علاقوں کے لوگ متحمل مزاج ہوتے ہیں ۔ ریاست اور حکومت کا مو ضوع چونکہ افراد ہیں ، لہٰذا ان کی ذہنی کیفیت کو سمجھے بغیر ان کے لئے طرز حکومت کا انتخاب نہیں کیا جا سکتا ۔ فرد اور ریاست کے درمیان ربط قائم کرنے کے لئے بھی ضروری ہے کہ ہم ان کے طبائع اور مزاج کے مطابق اقدامات کریں ۔ ریاست میں رونما ہونے والی تبدیلیاں انہی اسباب کا ثمر ہوتی ہیں ۔
فلسفیانہ طریقہ
فلسفیانہ طریقہ فلا سفروں اور حکما کا مخصوص طریقہ ہے ، جس کی بنیاد قیاس اور تصور پر ہوتی ہے ، اس طریقہ کا حقائق سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا ۔ مفکرین ایک آئیڈیل کی تلاش میںایسا خیال یا تصور پیش کرتے ہیں ، جس کا حقیقی دنیا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ۔ بعض اوقات کوشش کی جاتی ہے کہ اس تصور کا اطلاق ہمارے اور اداروں پر ہوجائے لیکن چونکہ اس میں تخیل کی بلند پر دازی کا عنصر غالب ہوتا ہے ۔ اس کا عملی شکل دنیا دشوار ہوجاتا ہے اور اگر کسی حد تک ان نظریات پر عمل ہو بھی جائے تو اس کے خطرناک نتائج برآمد ہونے کا زیادہ امکان ہے ۔ افلاطون کے نظریات کو لیجئے ۔ اس کی آئیڈیل سٹیٹ کا نظریہ ناقابل عمل ہے اور اس کے کئی پہلو ایسے ہیں جو انسانی فطرت سے ہی متصادم ہیں ۔ کارل مارکس نے انسان کے ہر فعل کا محرک معاشیات کو ٹھہرا کر زندگی کی مختلف اقدار کی نفی کر دی ہے ۔ فلسفیانہ طریقہ ایسی نرالی دنیا کی نشاندہی کرتا ہے جو ناقابل فہم اور ناقابل عمل ہے اس سوال کا جواب کہ ریاست کیسی ہونی چاہیے ۔ تومل جاتا ہے لیکن یہ کیسے ممکن ہو ، یہ کوئی نہیں جانتا ۔ کیونکہ تخلیل یا مفروضہ کا تاریخی حقائق اور انسانی فطرت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور ہمارے معاملات اور مسائل کو حل کر نے کی ان میں کوئی قوت نہیں ہوتی ۔
تقابلی طریقہ
تقابلی طریقہ سے یہ مراد ہے کہ ماضی اور حال کے سیاسی اور اداروںکا موازنہ کر سکے ، ان کے مشترکہ اصولوں کو حاصل کیا جائے اور ان اصولوں کی روشنی میں سیاسی نظریات تشکیل دئیے جائیں نیز مختلف ممالک اور معاشروں کا بھی باہمی موازنہ کیا جائے اور ان میں ان اقدات کا پتہ چلا جائے جن میں تسلسل ہے اور جو ہماری سیاسی بصیرت کی بنیاد سیاسی واقعات کا موازنہ اس طرح کیا جائے کہ ایسے واضح حقائق مل جائیں جو مستقبل کی تعمیر کے لئے مدد گار ہوں ۔ مثلا ً انقلابات کے اسباب کیا ہوتے ہیں ماضی کے مشہور انقلاب مثلا ً برطانوی شاندار انقلاب 1688 انقلاب فرانس 1789 اور روس کا انقلاب 1917 ء ان انقلابوں کے مشترکہ عوامل اور محرکات کا تجزیہ ہونا چاہیے ۔ اس طرح سے ہمیں جو مشترکہ اصول ملیں گے وہ آئندہ ہماری رہنمائی کر سکیں گے کہ کس طرح کی سیاسی صورت حال انقلاب پر منتج ہو گی اور انقلاب کے روکنے کے لئے کن اسباب و علل کو دور کرنا ہوگا ۔ ماشیسکیو نے مختلف ممالک کے اطراز حکومت کا مطالعہ کرنے کے بعد اس اصول کی تلاش کیا کہ حکومت کے تینوں شعبوں کے درمیان جس قدر علیحدگی اختیار ات ہوگی ، اسی قدر آزادی کے تحفظ کی ضمانت میسر ہوگی ۔ برائس نے مختلف جمہوریتوں کا مطالعہ کرنے کے بعد اس کے فوائد اور نقائص کو مرتب کیا ۔ ارسطو نے یونان میں رائج 158 دساتیر کا تقابلی مطالعہ کیا اور اس کی بنیاد پر ریاست اور سیاست کے بارے میں اپنے خیالات اور نظریات کا اظہار کیا اور اس کی بنیاد پر ریاست اور سیاست کے بارے میں اپنے خیالات اور نظریات کا اظہار کیا ہے ۔ تقابلی طریقہ کو تاریخی طریقہ بھی کہا جاسکتا ہے لیکن دونوں میں فرق یہ ہے کہ تاریخی طریقہ میںہم اپنے مطالعہ کو صرف ماضی کے سیاسی اداروں تک محدود کر دیتے ہیں اور ان تجربات سے اخذ کر دہ اصولوں کو سیاسی زندگی میں جگہ دیتے ہیں لیکن تقابلی طریقہ قدرے مختلف ہے ۔ اس میں موازنہ کرتے ہوئے یہ جانچتے ہیں کہ ان میں کہاںکہاں اشتراک اور اختلاف ہے اور کن عوامل کو تسلیم کیا جائے اور کن کو ترک کر دیا جائے ۔
تحقیق و مطالعہ کے نئے موضوعات
بیسیویں صدی میں سیاسی شعبہ میں اہم تبدیلیوں کے باعث سیاسیات کی حدود اور وسعت میںبھی اضافہ ہوا ۔ قبل ازیں سیاسی مفکرین سیاسیات کے مطالعے کو محدود انداز میںپیش کرتے تھے ۔ مثلاً گار نر صرف ریاست کے مطالعہ کو علم سیاسیات کہتا ہے ۔ لیکا ک علم سیاسیات کے مطالعہ میں صرف حکومت کو شامل کرتا ہے ۔ گلکراسٹ اور گیٹل کے نزدیک علم سیاسیات کا مطالعہ صرف ریاست اور حکومت دونوں کا علم ہے ۔ بیسویں صدی میں سیاسیات کے مطالعہ میں جو ئے موضوعات شامل ہوئے ہیں ،
سیاسی ادارے
ریاست کا مطالعہ اب صرف اس کے اجزائے ترکیبی ، ابتدا کے نظریات اور مقاصد تک محدود نہیں رہا اور نہ ہی حکومت کے مطالعہ سے مراد اس کی تنظیم ہے ۔ اب ان عوامل کے مطالعہ کو بھی اہم تصور کیا جاتا ہے جو ریاست اور حکومت کی کاروائی پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ چنانچہ دور حاضر میں رائے عامہ ، سیاسی جماعتیں اور فشاری گروہ جیسے اداروں کو سیاسیات کے مطالعہ میں شامل کر لیا گیا ہے ۔
پالیسی سازی
علم سیاسیات کے مفکرین نے جب یہ دیکھا کہ ریاست کی پالیسی کے نظریاتی اصولوں اور عملی کار گردگی میں بعض اوقات فرق پایا جاتا ہے ، توان رجحانات کو سمجھنے کی کوشش کی جن کے باعث یہ متضاد کیفیت پیدا ہوتی ہے ۔ اس نقطے کی وضاحت یوں کی جاسکتی ہے کہ پاکستان کے تمام وساتیر میں حکومت کی راہنمائی کے لئے پالیسی کے کچھ اصول شامل کئے گئے ہیں ، لیکن دیکھا گیا ہے کہ ان پر پوری طرح عمل نہیں ہوسکا ۔ پاکستان میں ہر حکومت نے نفاذ اسلام کے اصول کو مانا ہے لیکن عملاً کچھ اور ہوا ۔ اس کی وجہ وہ عوامل ہیں جو حصول مقصد کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں اور وہ عوامل سماجی اور معاشی ہیں یعنی ہمارا طبقاتی معاشرہ اور سرمایہ دارانہ ذہنیت پالیسی کے ان اصولوں پر عمل کرنے کی راہ میں رکاوٹ ہے ۔ لہٰذا وہ عوامل جو حکومت کی پالیسی کا رخ موڑ دیتے ہیں کا مطالعہ بھی علم سیاسیات کا ایک مو ضوع ہے ۔
سیاسی قوت
جدید نقطہ نظریہ ہے کہ کسی ریاست اور حکومت کی کار کردگی کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ ان سیاسی رہنمائوں کی سوچ کوبھی پڑھا جائے جو کسی معاشرہ میں برسر اقتدار ہیں ۔ سیاسی قوت کی وضاحت اس طرح کی جاسکتی ہے کہ پاکستان کا قیام اگرچہ ایک نظریہ کی بدولت ہوا ۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد مغربی سیاسی نظریات کو اس لئے فروغ حاصل ہو ا کہ بر سر اقتدار طبقہ مغربی نظریات سے متاثر تھا ۔ لہٰذ ا سیاسی اور انداز فکر اسلامی اداروں کی بجائے مروجہ مغربی اداروں کی طرف رہا ۔
ذرائع ابلاغ
سیاسی نظام کا رخ متعین کرنے میں ذرائع ابلاغ کا بڑا عمل دخل ہے ۔ عوام اپنی ضروریات اور خواہشات حکومت تک پہنچانے کے لئے ان کا سہارا لیتے رہے اور حکومت اپنے فیصلوں کے لئے عوامی حمایت حاصل کر نے کے لئے ان ذرائع کو بروے کا ر لاتے ہیں ۔ ذرائع ابلاغ اور طلاعات کا مقصد ایک طرف کے موقف کو دوسروں پر واضح کرنا ہوتا ہے ۔ اس طرح باہمی افہام و تفہیم کی صورت پیدا ہوتی ہے ۔ لہٰذا اطلاعات و نشریات بھی علم سیا سیات کے مو ضوعات میںایک اضافہ ہے ۔
سیاسی طرز عمل
سیاسی عمل کو سمجھنے کے لئے جو ایک نیاانداز ابھرا ہے اسے سیاسی طرز عمل یا سلوکیت کی اصطلاح سے جانا جاتا ہے ۔ اس نظریہ کے حامی کسی سیاسی نظام کا مطالعہ کر تے وقت وہاں کے شہریوں کی نفسیاتی کیفیات روایت اور طرز عمل کو سمجھنے پر زور دیتے ہیں اس نقطہ کی وضاحت یوں کی جاسکتی ہے ۔ کہ ایک پاکستانی عالم اسلام میں ہونیوالے ہر واقعہ اور تبدیلی سے لازماً متاثر ہوتا ہے ۔ لہٰذا پاکستان کے سیاسی نظام کو سمجھنے کے لئے اس طرز عمل کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ کشمیر کا مسئلہ ہویا فلسطین کا حکومت کو شہریوں کے رجحان کو پیش نظر رکھنا پڑتا ہے ۔ سلوکیت پسند مختلف معاشروں کے سیاسی طرز عمل کا جائزہ لے کر یہ معلوم کرتے ہیں کہ وہاں کے سیاسی ادارے کس طرح اپنے فرائض سر انجام دے سکتے ہیں ۔ ہر معاشرے کا طرز عمل ایک جیسا نہیں ہے کہ مغربی ممالک میں سیاسی ادارے جس طرح سے کام کر رہے ہیں ، ترقی پذیر ممالک میں مختلف کیفیت ہے ۔ جس کی وجہ شہریوں کے انداز فکر اور طرز عمل میں فرق ہے ۔ ایک حکومت اس فرق کو اگر سامنے رکھ کر سیاسی اداروں کے فرائض کا تعین کرتی ہے تو وہ صحیح سمت کی طرف رواں ہے ۔ جدید حکومتوں کی کامیابی کے لئے کسی سیاسی نظام کو چلانے کے لئے شہر یوں کے طرز عمل اور ردعمل کا مطالعہ کرنا ہوگا ، لہٰذا علم سیاسیات کے محقیقین کے لئے یہ ایک نیا مو ضو ع ہے ۔
جدید مکتبہ فکر
قبل ازیں علم سیا سیات کے مطالعہ کے لئے تاریخی فلسفیانہ اور معاشی طریقوں پر انحصار تھا ۔علم سیاسیات کے مطالعہ کے تاریخی طریقے سے یہ مراد ہے کہ تاریخ سیا سیات کی تحقیق کے لئے مواد فراہم کرتی ہے اور محقق تاریخی واقعات کا تجزیہ کر کے سیاسی اصول اخذ کر تاہے ۔ اس انداز فکر کا بڑا نقص یہ بتایا جاتا ہے کہ تاریخ صرف ماضی کے واقعات کے مجموعہ کا نام ہے ، جب کہ سیا سیات کا تعلق مستقبل کے سیاسی مسائل سے ہے ، علاوہ ازیں سیا سیات کی نوعیت صرف سیاسی ہے جب کہ تاریخ مختلف قسم کے واقعات کا ریکارڈ ہے ۔ معاشی انداز فکر کو بھی اب وہ پذیر ائی حاصل نہیںرہی ، جو بیسویں صدی کے آغاز میں تھی ، جب یہ تصور مقبول ہوا کہ ہر سیاسی اور سماجی واقعہ کا محرک معاشی ضرورت ہوتی ہے اس نظر یہ نے سرمایہ دارانہ نظام پر کاری ضرب لگائی اور اشتراکیت کے نظریہ کو قوت بخشی ، لیکن ناقدین اس اصول کو ایک کمزور اور غیر حقیقی تصور کرتے ہیں ۔ ان کے نزدیک ہر واقعہ صرف معاشی عمل کا نتیجہ نہیںبلکہ اس کے کئی اسباب سماجی معاشی ، مذہبی اور سیاسی ہوتے ہیں ۔ فلسفیانہ انداز فکر اگرچہ کلاسیکل نقطہ نظر ہے ، جو صرف مشاہدے اور تدبر کی پیداوار ہے ۔ افلاطون کا مثالی ریاست کا تصور ریاست کا تصور تخیلات کی دنیا میں ایک شاہکار ہے ، لیکن عملی لحاظ ہے ناقا عمل خیال ہے ۔ اس امر سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مثالی ریاست کے بہت سے اصولوں کے لئے جدید سیاسی افکار میں جگہ ہے لیکن جدید دور میں بدلتے ہوئے اور پیچیدہ مسائل کا حل افلاطون ، ارسطو ، میکائولی ، رئوسو اور کارل مارکس ، کسی کے ہاں نہیںہے لہٰذا علم سیا سیات کے مطالعہ کے جدید ترین طریقہ کو سلوکی طریقہ بتایا جاتا ہے ۔
علم سیا سیات کے ذیلی مضامین
ارسطو کو علم سیا سیات کا بانی اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس نے اس علم کو الگ مقام دیا ، وگرنہ یہ علم سماجی علوم کا حصہ تصور ہوتا رہا ہے ۔ علم سیاسیات کی حدود میں بتدریج اضافہ ہوتا گیا ۔ بالخصوص دور حاضر میںریاست زندگی کے تمام شعبوں کا محور بن چکی ہے ۔ اس کی ذمہ داریوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے ۔ یہی وجہ سے کہ زندگی کے مختلف پہلوئوں سے تعلق رکھنے والے کئی شعبے اس مضمون کا حصہ بن چکے ہیں یہاں پر ایسے چند ذیلی مضامین کا ذکر کیا جائے جن کا بالواسطہ ی ابلا واسطہ تعلق ریاست اور حکومت سے ہو چکا ہے ۔
پبلک ایڈمنسٹریشن
جدید حکومت کی تنظیم اس طرح ہے کہ یہ تین شعبوں پر مشتمل ہے جو مقننہ انتظامیہ اور عدلیہ ہیں ۔ انتظامیہ کو دور حاضر میں زبردست اہمیت حاصل ہو چکی ہے ۔ اس شعبہ کا کام ریاست کا نظم و نسق چلانا ۔ پالیسی کے اصول تیار کرنا اور ان کا نفاذ ہے ۔ انتظامیہ دو حصوں پر مشتمل ہوتی ہے ۔ ایک حصہ میں صدر وزیر اعظم وزرا ء اور مثیر شامل ہوتے ہیں ۔ یہ لوگ سیاست دان کہلاتے ہیں ان کا رابطہ عوام اور مختلف سماجی اور سیاسی تنظیموں سے ہوتا ہے ۔ وہ ملک اور لوگوں کی ضروریات اور تقاضوں سے واقف ہوتے ہیں ۔ لیکن ان کو قومی امور کو سرانجام دینے کا عملی تجربہ نہیں ہوتا ۔ انتظامیہ کا دوسرا حصہ ماہرین پر مشتمل ہوتا ہے ، جس کو کئی ناموں سے پکارا جاتا ہے ۔ مثلاً ایڈ منسٹریشن سول سروس اور بیورو کر یسی وغیرہ ۔ ان لوگوں کی تقرری کا معیار ، علمیت ، اہلیت اور ذہانت کی بنا پر ہوتا ہے ۔ ان کی اعلیٰ تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔ ان لوگوں کو مختلف قومی امور سرانجام دینے کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے ۔ ان کے پاس سالہا سال کا عملی تجربہ ہوتا ہے لہٰذا انتظامیہ کے اندر سب سے فعال اور متحرک گروپ ان ہی افسروں کا ہوتا ہے ۔ سیاسی حکمران حکومت کی پالیسی وضع کر تے وقت ان کے مشورے اور تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ سیاست دانوں کا کام یہ ہے کہ وہ عوام کے مسائل کی نشان دہی کر یں اور پبلک ایڈمنسٹریشن کے ذریعے ان کو حل کر وائیں ۔
جدید ریاست کو نظم و نسق کے علاوہ بے شمار فلاحی امور بھی انجام دیتے ہوتے ہیں ۔ لہٰذا ہر حکومت کی کامیابی کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ پبلک ایڈمنسٹریشن سے قومی تعمیر و ترقی کے لئے کتنا کام لے سکتی ہے ۔ ترقی یافتہ ممالک میں پبلک ایڈمنسٹریشن غیر جانبداری سے اپنے فرائض سرانجام دیتا ہے ۔ لیکن پاکستان جیسے ترقی پذیر مالک میں ہر حکومت پبلک ایڈ منسٹریشن کو سیاست میں ملوث کر دیتی ہے ۔ جس سے اس کی اپنی استعداد کا ر متاثر ہوتی ہے ۔ سیاسی انتظامیہ کو اور پبلک ایڈ منسٹر یشن کو اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر ایک دوسرے سے تعاون کرنا چاہیے ۔ سیاست دان عوامی تقاضوں کی نشان دہی کریں اور سول انتظامیہ ان کا ماہرانہ حل پیش کرے ۔ لیکن بعض ممالک میں سول سروس پالیسی ساز بن گئی ہے اور اقتدار کی ہوس کے باعث اپنی ذمہ داریوں سے رو گردانی کی مرتکب ہورہی ہیں ۔ پبلک ایڈمنسٹریشن کی کامیابی کا انحصار بہت حد تک شرائط ملازمت تربیت اور غیر جانبداری پر ہے ۔ بھارت اور پاکستان کو آزادی کے وقت ایک معیار ی سول سروس ملی تھی ، اگرچہ اب بھی اس کا معیار کئی ترقی پذیر ممالک سے بلند ہے ۔ پھر بھی اس کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہے ۔
بین الا قوامی تعلقا ت
جدید دور میں سیاست اور یاست کا علم ایک نئے دور میں شامل ہوچکا ہے ۔ اب ریاست باقی اقوام سے الگ تھلگ رہ کر اپنا کر دار انجام نہیں دے سکتی ۔ تیز رفتار ذرائع رسل و رسائل نے تمام اقوام کو ایک دوسرے کے قریب ترکر دیا ہے ۔ دنیا کے کسی خط میں رونما ہو نے والا واقعہ باقی دنیا کو متاثر کئے بغیر نہیں رہتا ۔ دوسرے عالمی جنگ نے دنیا کا سیاسی نقشہ بدل کے رکھ دیا ۔ ایک سوکے لگ بھگ ملک آزاد ہوئے ۔ آزاد ممالک کے اضافے سے باہمی اشتراک و تعاون کی ضرورت بڑھی ، تو آزاد ممالک کے پاس و سائل علم ، تجربہ اور ماہرین کی کمی تھی لہٰذا ان کو ترقی یافتہ ممالک کی امداد پر انحصار کرنا پڑا ، جو بلا مشروط نہیںتھی ، لہٰذا کئی قسم کے سیاسی معاشی اور دفاعی معاہدے وجود میں آئے ۔ نئے ماحول نے اختلافات میں بھی اضافہ کیا ۔ بین الا قوامی تعاون کی ضرورت دوسری عالمی جنگ کے دوران میں ہی شدت سے محسوس کی گئی ، لیکن عالمی سیاست میں نئے تقاضوں کے باعث اس کی اہمیت اور بڑھی لہٰذا اقوام متحدہ کا بین الا قوامی تشخیص نمایاں ہوا ۔
ترقی یافتہ ممالک کے علم و تحقیق کے شعبوں کو عالمگیر حیثیت حاصل ہونے لگی پسماندہ ممالک کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ ان اداروں سے جدید علوم سیکھ کر اپنے ملک کی سلامتی اور ترقی کے کام کریں ۔ ترقی یافتہ ممالک کے نظریات کو پسماندہ ممالک میں عمل پیرا ہونے سے بعض اوقات منفی نتائج برآمد ہوئے اور فوجی انقلابوں سے کئی ممالک سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوئے جو ممالک ترقی نہ کر سکے وہ ترقی یافتہ اقوام کے پہلے سے زیادہ محتاج اور امداد کے طالب ہوگئے ۔
جدید جنگی ہتھیاروں کی ایجاد نے دنیا کو دو متحارب گروہوں میں بانٹ دیا ۔ ایک گروہ امریکہ کی قیادت میں نیٹو کی تنظیم تھی ، جس میں بیشتریورپی ممالک شامل تھے ۔ دوسرا گروہ وار ساپیکٹ والے ممالک کا تھا ، جس کا سر غنہ سوویت یونین ہے ۔ دونوں کے درمیان کشیدگی سے بین الا قوامی تعلقات کی اہمیت میں اضافہ ہوا ۔
دنیا دو نظریاتی گروہوں میں بٹ گئی جو جمہوریت پسند اور اشتراکیت پسند کہلائے ، اس نظریاتی کش مکش نے چھوٹے اور کمزور ممالک کی سیاست پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں اس نظریاتی کش مکش نے بھی بین الا قوامی تعلقات میں سرگرمی پیدا کی ۔
طاقت کا توازن بین الاقوامی تعلقات میں اہم عنصر بن گیا ۔ امریکہ اور روس سپر طاقتیں بن کر طاقت کے توازن کو بر قرار رکھنے کے لئے ہر وقت سرگرم عمل ہوگئے ۔ معاشی ناہمواری کے باعث امیر اور غریب ممالک کے درمیان بین الا قوامی تعلقات کی نئی راہیں تلاش کی گئیں ۔ ترقی یافتہ ممالک اپنی مصنوعات کی کھپت اور ترقی پذیر ممالک کو اپنی ضروریات کے لئے باہمی تعاون کو فروغ دیناپڑا ۔ مذکورہ عوامل نے بین الا قوامی تعلقات کو علم سیا سیات کی ایک اہم شاخ بنا دیا ۔
اس وقت دنیا کئی گر وپوں میں منقسم ہے ۔ انہوں نے اپنے اپنے مفادات سے حصول کے لے مختلف تنظیمیں بنا رکھی ہیں ۔ سوویت یونین کے ٹوٹ جانے کے بعد اب ہر امریکہ دنیا کی واحد طاقت ہے وار ساپیکٹ ختم ہو چکا ہے اور اس کے کئی ممبر نیٹو میں شامل ہو چکے ہیں ۔ امریکہ واحد سپر طاقت ہونے کے ناطے نئے ورلڈ آرڈر کی فکر میں ہے ، جس میں اس کی فوجی اور معاشی بالا دستی قائم رہے ۔ اب امریکہ کے مقابلے میں یورپی ممالک متحد ہورہے ہیں ۔ شمال جنوب کی اپنی تنظیمیں ہیں ۔ ۱۷ کا گروپ ترقی پذیر ممالک کے مفادات کے لئے سرگرم عمل ہے ۔ سیا سیات میں ان سب کا مطالعہ کیا جاتا ہے ۔
تقابلی سیاست
تقابلی سیاست کوئی نیا موضوع تو نہیں ہے کیونکہ تمام سیاسی مفکرین اس طریقہ کار سے بخوبی واقف رہے ہیں ۔ ہر سیاسی نظر یہ دوسرے نظریے کو سمجھنے کے بغیر وجود میں نہ آسکا ۔ اگر جمہوریت کا ذکر ہوا تو جمہوریت پسندوںنے یونان کی شہری ریاست کے تصور کو سامنے رکھ کر بالواسطہ جمہوریت کی بات کی ۔ اشتراکیت پسندوں نے بھی ماضی میں اشتراکی نظریات کا تقابلی جائزہ لیا ۔ کا رل مارکس ہیگل سے متاثر ہوا ۔ میگائولی نے مختلف نظام ہائے حکومت کے موازنہ کے بعد سیاسی اصول اخذ کئے ۔ تقابلی ریاست سے مراد یہ ہے کہ کسی سیاسی نظریہ کو پیش کرتے وقت یہ دیکھ لیا جائے کہ اس نوعیت کے نظریات اور ادارے دیگر ممالک میں کس افادیت کے حامل ہیں ۔ اگر چہ تقایلی سیاست کا تصور نیا نہیں ۔ پھر بھی جدید دور میں جو اہمیت حاصل ہوئی وہ پہلے کبھی نہ تھی ۔ ماضی میں صرف اداروں کا موازنہ کیا جاتا ، ان کی تشکیل اور کار کر دگی کے اصولوں کا موازنہ ہوتا مگر اب یہ مطالعہ محض اداروں کا تقابلی مطالعہ نہیں بلکہ اداروں کے ساتھ ہر معاشرے کے مخصوص نفسیاتی معاشی اور سماجی عوامل پر بھی غور و فکر کیا جاتا ہے ۔ تقابلی سیاسیت کے جدید تصور میں یہ بھی تبدیلی آئی ہے کہ پہلے صرف ترقی یافتہ ممالک کے تجربات سے کوئی استفادہ نہیں کیا جاتا ۔ ایسا کرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہم نے ترقی یافتہ اداروں کے باہمی تقابل سے جو سیاسی اصول اخذ کئے جب ان کا اطلاق ترقی پذیر ممالک پر ہوا تو نتائج مختلف تھے ، یعنی ، پرانے طریقے سے ہم عالمگیر اصول کو یکساں اہمیت دے ۔ کر سیاسی اصول اخذ کئے ہیں۔ یعنی اب سیاسی اصول اخذ کر تے وقت مختلف نظاموں کے پس پردو سماجی سیاسی اور معاشی ماحول کو مد نظر رکھا جاتا ہے ۔ تقابلی سیاست کا موضوع ماضی میں سیا سیات کے مطالعہ کا ایک طریقہ تھا ، جو اب علم سیا سیات کا ایک ذیلی مضمون بن چکا ہے ۔ اب ایک سیاسی نظام محض ایک مخصوص ماحول کے سیاسی اداروں کے مطالعہ کا نام نہیں بلکہ ہر سیاسی نظام کے پس پر دہ وہ اقدار بھی ہیں جن کو نظر انداز کرنے سے اس نظام کی اصل شکل برقرار نہیںرہ سکتی ۔ تقابلی سیاست علم سیا سیات میںایک جدید مضمون کا اضافہ ہے ۔
سیاسی حرکیات
علم سیاسیا ت میں ایسے عناصر اور عوامل جو ہماری سیاسی زندگی کو مختلف سمتوں کی طرف حرکت دیتے ہیں ۔ سیاسی حرکیات کہلاتے ہیں ۔مثلاً سیاسی جماعتیں فشاری اور مفاداتی گروہ کے علاوہ رائے عامہ کا ہماری سیاسی زندگی پر گہرا اثر ہوتا ہے ۔ ماضی میں ہمارا مطالعہ فقط دستوری اداروں کی کار گردگی کو جاننے تک محدود ہوتا تھا ۔ لیکن جدید مفکرین کے نزدیک وہ عوامل زیادہ اہم ہیں ، جو ان اداروں پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ ہر معاشرہ مخصوص ثقافت رکھتا ہے ۔ لہٰذا بر طانیہ میں جتنے بھی سیاسی ادارے وجود میں آئے وہ ان کی سیاسی روایات کے مطابق ہیں ۔ برطانوی وعوام جمہوریت کے علمبر دار ہونے کے باوجود قدامت پسند تصور ہوتے ہیں ۔ لہٰذا ان کی ثقافت کے مطالعہ کے بغیر وہاں کے سیاسی اداروں کا مطالعہ ممکن نہیں ہوسکتا ۔ ثقافت اور عقائد سیاسی افکار پر پوری شدت سے اثر انداز ہوتے ہیں ۔ ہندوستان اگرچہ سیکولر ریاست ہونے کادعویٰ دار ہے لیکن وہاں کی سیاسی زندگی میں ہندو ذہنیت کار فرماہے اور دس کروڑ مسلمانوں کو وہاں کی معاشرتی زندگی میں وہ مقام حاصل نہیں ہو سکا جو ان کا حق ہے پاکستان میں بھی کئی سیاسی تجربات ہوئے ۔ مثلا ً صدارتی نظام ، بنیادی جمہوریتوں کا نظام اور غیر جماعتی انتخابات لیکن ان کو اس لئے پذیر ائی حاصل نہ ہوسکی کہ لوگوں کا طرز عمل یا رویہ ان کے برعکس تھا ۔کشمیر کے مسئلہ پر ہندوستان اور پاکستان کی حکومتیں اگر کوئی حتمی فیصلہ کر نا چاہیں تو نہیں کر سکتیں ۔ کیوں کہ دونوں جانب عوام کی وابستگی اور رائے عامہ ایساکرنے کی اجازت نہیں دیتی ۔ سیاسی جماعتیں حکومتی اداروںپر حاوی ہوتی ہیں ۔ سیاسی جماعتیں ہی لوگوں میں شعور اور رائے پیدا کرتی ہیں اور جب وہ ایسا کر رہی ہوتی ہیں تو عوام کے رجحانات کو ملحوظ خاطر رکھ کر پالیسی تیار کرتی ہیں۔ پاکستان میں ایک سیاسی جماعت نے لوگوں کو روٹی کپڑا اور مکان دینے کا منشور تیار کیا تو وہ لوگوں کی نفسیات اور حاجات کے مطابق تھا ، لہٰذا اس عمل نے سیاسی زندگی میں ایک ہل چل پیدا کی اور سیاست کو ایک نیا رخ مل گیا ۔ سیاسی جماعتیں ہی فقط سایسی اداروں پر اثر انداز نہیں ہوتیں بلکہ ہر سیاسی جماعت کے اندر فشاری گروہ بھی اپنے اثرات چھوڑتے ہیں ۔ پاکستان میں علماء اور طلباء ایسے فشاری گروہ ہیں جن کو نظر انداز کر کے کوئی نظام نہیں چلا یا جا سکتا ۔ طلباء اور علماء کے علاوہ نسلی ،لسانی ، طبقاتی ، امتیازات بھی سیاسی اداروں پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ مشرقی پاکستان میں نشیب و فراز کا باعث بنے ہوئے ہیں انتخابا ت کے ایام میں رائے دہندگان کی اپنی سوچ اور فکر سے نئے انداز سامنے آتے ہیں ۔ رائے دہند گان نہ صرف کسی سیاسی جماعت کی کار گردگی کو سامنے رکھ کر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں بلکہ ان کی ذاتی پسند یا نا پسند کو بھی دخل ہوتا ہے ۔ مختلف مزاج ، مختلف فیصلے کر نے کا ذریعہ ہوتے ہیں ۔ دور حاضر میں عام انتخابات کے علاوہ گاہے گاہے رائے عامہ کی پیمائش جدید طریقوں سے کی جاتی ہے اور حکومت اور حزب مخالف دونوں ان سیاسی متحرکات سے باخبر ہوسکتے ہیں ۔ جو آئندہ سیاسی عمل کی نشان دہی کر سکیں۔ علم سیا سیات میں دستوری اداروں کے مطالعہ کا اصول تو اپنی جگہ قائم ہے ۔لیکن سیاسی حرکیات یا سیا سی متحرکات کو اس کا لازمی حصہ یا ذیلی مضمون سمجھا جانے لگا ہے ۔ مختصر یہ کی سیاسی اداروں کا مطالعہ ا سوقت تک مکمل نہیں سمجھا جا سکتا ۔ جب تک ان سے متعلقہ سیاسی جماعتوں ، مفاداتی گرو ہوں ، رائے عامہ ، تہذیب و تمدن اور روایات کا مطالعہ نہیں کیا جاتا ۔ یہ عناصر لوگوں کے اندر ایک سوچ اور رویہ تشکیل دیتے ہین ۔ جس کا عکس مخصوص آئینی اور قانونی اداروں اور تنظیموں کے اندر دیکھا جا سکتا ہے ۔