
دیوان ِ میر ۔ حصہ پنجم
[vc_row][vc_column][vc_column_text]
مستجمع جمیع صفات و کمال کا
یعنی خیال سر میں ہے نعت رسولؐ کا
میل دلی اس خودسر سے ہے جو پایہ ہے خدائی کا
وحشت کرنا شیوہ ہے کیا اچھی آنکھوں والوں کا
تو بلبل آشیاں تیرا ہی میں پھولوں سے چھائوں گا
کیا خاک میں ملا ہے افسوس فن ہمارا
ہمیں عشق ہے تو اثر کر رہے گا
غنیمت ہے جہاں میں دم ہمارا
عشق کیا ناکام رہا آخر کو کام تمام کیا
لاگ جی کی جس سے ہو دشمن ہے اپنی جان کا
جی کا جانا ٹھہر رہا ہے صبح گیا یا شام گیا
تیغ قاتل کو سر چڑھائوں گا
تیری گلی میں لائی صبا تو بجا ہوا
جز درد اب نہیں ہے پہلونشیں ہمارا
یا کہ نوشتہ ان ہاتھوں کا قاصد ہم تک لاوے گا
تا بت خانہ ہر قدم اوپر سجدہ کرتا جائوں گا
کیا کیا چرخ نے چکر مارے پیس کے مجھ کو خاک کیا
درد آگیں انداز کی باتیں اکثر پڑھ پڑھ رووے گا
سہل آگے اس کے مردن دشوار ہو گیا
دیکھ آنکھیں وہ سرمہ گیں میں پھردنبالہ گرد ہوا
تازہ کیا پیمان صنم سے دین گیا ایمان گیا
مجنوں مجنوں لوگ کہے ہیں مجنوں کیا ہم سا ہو گا
شکر خدا کا کریے کہاں تک عہد فراق بسر آیا
ہرگز نہ ایدھر آئیں گے خلق خدا ملک خدا
آسماں پر گیا ہے ماہ تو کیا
مرنا عاشق کا بہانہ ہو گیا
پاک ہوئی کشتی عالم کی آگے کن نے دم مارا
عاشقی کی تو کچھ ستم نہ ہوا
آج تو کشتہ کوئی کیا زینت فتراک تھا
کہ مٹی کوڑے کا اب ہے بچھونا
اس عشق کی وادی میں ہر نوع بسر کرنا
سینہ کوبی سخت ماتم کب سے تھا
جیدھر ہو وہ مہ نکلا اس راہ نہ ہم کو جانا تھا
لوہو لگا کے وہ بھی شہیدوں میں مل گیا
کاشکے آہوچشم اپنا آنکھوں کو پائوں سے مل جاتا
کیسے رکتے تھے خفگی سے آخرکار جنون ہوا
تھا وہ برندہ زخموں پہ میں زخم کھا گیا
آٹھ پہر رہتا ہے رونا اس کی دوری کے غم کا
کیوں رنگ پھرا سا ہے ترے سیب ذقن کا
پاس ہمارا گو نہ کرو تم پاس ہی اب سے رہیے گا
ناز و نیاز کا جھگڑا ایسا کس کے کنے لے جاوے اب
خوں بستہ رہتیاں تھیں پلکیں سو اب ہیں تر سب
زنجیر ہے مناسب شمشیر ہے مناسب
یعنی سفر ہے دور کا آگے اور اپنی رخصت ہے اب
زرد و زار و زبوں جو ہم ہیں چاہت کے بیمار ہیں سب
سیدھی نظر جو اس کی نہیں ہے یاس ہے اپنی نظر میں اب
اب کم بہت ہے ہم پہ عنایات کیا سبب
کون ایسے محروم غمیں کا ہم راز و محرم ہے اب
انچھر ہیں تو عشق کے دوہی لیکن ہے بستار بہت
اس لب و لہجے پر بلبل کو اس کے آگے نہ آئی بات
عشق کی گرمی دل کو پہنچی کہتے ہی آزار بہت
تیغ نے اس کی کیا ہے قسمت یہ بھی ہے قسمت کی بات
دل کو میرے ہے اضطراب بہت
ہوئے جس کے لگے کارآمدہ بیکار یا قسمت
مہر کی رکھ کر توقع جی کھپایا ہے عبث
زہ دامن کی بھری ہے لہو سے کس کو تونے مارا آج
دشتی وحش وطیر اس کے سر تیزی ہی میں شکار ہے آج
لوہو ٹپکتا ہے گریباں سے آج
جو اس چمن میں یہ اک طرفہ انتشار ہے آج
کیا عاشق ہونے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے جہان کے بیچ
اب یہ ستم تازہ ہے ہم پر قید کیا ہے چمن کے بیچ
شور پڑا ہے قیامت کا سا چار طرف گلزار کے بیچ
زخمی پڑے ہیں مرغ ہزاروں چمن کے بیچ
اب ان نے سج بنائی ہے خونخوار بے طرح
شاخ گل سا جائے ہے لہکا ان نے نئی یہ ڈالی طرح
برنگ برق سراپا وہ خودنما ہے شوخ
کیا تازہ کوئی ان کی نکلی بہار میں شاخ
ہاتھ نہ رکھوں کیوں دل پر میں رنج و بلا ہے قیامت درد
متروک رسم جور و ظلم و جفا ہے شاید
ہر پارہ اس کا پاتے ہیں آوارہ دردمند
ہر شہر میں ہوئی ہے یہ داستاں زباں زد
بے یار و دیار اب تو ہیں اس بستی میں وارد
خاک اڑاتے کہاں تک پھریے چہرہ سب ہے گردآلود
کیا کیا سینہ زنی رہتی ہے درد و غم کے فسانوں پر
کہ وے نرگسی زن تھے گلہاے تر پر
سو پر وا ہوئے نہ قفس کے بھی در پر
کعبہ و دیر کے ایوانوں کے گرے پڑے ہیں در کے در
ایسے گونگے بیٹھو ہو تم تو بیٹھیے اپنے گھر جاکر
ایدھر دیکھو ہم نے نہیں کی خم ابرو مر جانے پر
گذرے گا اتقا میں عہد شباب کیونکر
خوں بستہ ہیں گی آنکھیں آوے گی خواب کیونکر
ہو چہرہ اس کے لب سے یاقوت ناب کیونکر
قیامت غم سے ہر ساعت رہی الفت کے ماروں پر
بیٹھا ہوں میں ابھی ٹک سارا جہاں ڈبو کر
وہ گھر سے نہیں اپنے نکلتا دم بھر بھی تلوار بغیر
ماتم کدے کو دہر کے تو عیش گاہ کر
میرا دماغ تب سے ہے ہفتم آسماں پر
کیا پھول مرگئے ہیں اس بن خراب ہوکر
بادہ کشوں کا جھرمٹ ہے کچھ شیشے پر پیمانے پر
آفریں کر اے جنوں میرے کف چالاک پر
اس نکہت سے موسم گل میں پھول نہیں یاں آئے ہنوز
راہی بھی کچھ سنا نہیں جاتے خبر ہنوز
آنکھیں مندیں اب جاچکے ہم وے دیکھو تو آتے ہیں ہنوز
دل بہاران چمن کا ہے گرفتار ہنوز
آتش کا ایسا لائحہ کب ہے زباں دراز
نہ جدا ہو کے پھر ملا افسوس
ناقصوں میں رہیے کیا رہیے تو صاحب دل کے پاس
سنتا نہیں اس قافلے میں کوئی جرس بس
گل کو دیکھا بھی نہ ہزار افسوس
کیا کیا کڑھایا جی سے مارا لوہو پیا افسوس افسوس
اس آرزو نے مارا یہ بھی خدا کی خواہش
راہ رفتن ہے اب مگر درپیش
بیکراں دریاے غم کے ہیں بلا جوش و خروش
اس کا ہو جاتا دل شکار اے کاش
تلوار کا سا گھاؤ ہے جبہے کا ہر خراش
دین و مذہب مرا ہے پیار اخلاص
ہے معلوم کہ عالم عالم پھر یاں وہ جاری ہے فیض
اس کو خدا ہی ہووے تو ہو کچھ خدا سے ربط
زردی رنگ و چشم تر ہے شرط
ہر لمحہ لحظہ آن و زماں ہر دم اختلاط
کیونکے جئیں یارب حیرت ہے بے مزہ ایسے نامحظوظ
سحر تک سب ان نے ہی کھائی تھی شمع
وہ منھ ٹک اودھر نہیں کرتا داغ ہے اس کے غرور سے شمع
وہ سراپا دیکھ کر پردے میں جل جاتی ہے شمع
ہم ہوئے خستہ جاں دریغ دریغ
یہ حرکت تو ہم نہ کریں گے خانہ سیاہ دروغ دروغ
ہاتھ گلوں سے گلدستے ہیں شمع نمط ہے سر پر داغ
کوئی نظر کر عبرت آگیں اس کے نازو ادا کی طرف
ورنہ سبھی دیکھا کرتے ہیں اپنے سود و زیاں کی طرف
دیکھو کنکھیوں ہی سے گنہگار کی طرف
کھنچا جائے ہے دل کسو کی طرف
ہے یار بھی ہمارا قیامت ستم ظریف
بھرے ہیں پھولوں سے جیب و کنار لیکن حیف
گل سے چمن بھرے ہوں نہ ہو تو ہزار حیف
عشق اللہ صیاد انھیں کہیو جن لوگوں نے کیا ہے عشق
ہم ہیں جناب عشق کے بندے نزدیک اپنے خدا ہے عشق
کیا جاکے دو چار اس سے ہو ناچار ہے عاشق
پر حوصلے سے شکوہ آیا نہیں زباں تک
خشک ہوا خون اشک کے بدلے ریگ رواں سی آئی خاک
پھرتے ہیں کمھاروں کے پڑے چاک سے اب تک
دشت دشت اب کے ہے گل تریاک
کر ہاتھ ٹک ملا کے کوئی پہلواں ہلاک
سرگرم بے راہ روی ہیں خود گم بے رہبر ہیں لوگ
کرتے ہیں دوڑ نت ہی تماشاے یار الگ
یعنی ضائع اپنے تئیں کرتے ہیں اس بن کیا کیا لوگ
چشم بصیرت وا ہووے تو عجائب دید کی جا ہے دل
دل جو کھلا فسردہ تو جوں بے بہار گل
ہے خزاں میں دل سے لب تک ہائے گل اے وائے گل
ہم تو اس بن داغ ہی تھے سو اور بھی جل کر کھائے گل
آندھی سی آوے نکلے کبھو جو غبار دل
جاتا ہے کچھ ڈھہا ہی خانہ خراب اب دل
آزردہ دل ستم زدہ و بے قرار دل
سر پر دیکھا یہی فلک ہے جاویں کیدھر چل کر ہم
آنا یک سو کب دیکھو ہو ایدھر آتے جاتے تم
کاش اجل بے وقت ہی پہنچے ایک طرف مرجاویں ہم
کیا کہیے نہ ہماری سنی اب بیٹھے رنج اٹھائو تم
کیوں کر اڑ کر پہنچیں اس تک طائر بے پر ہیں ہم
نہ جاتے اس طرف تو ہاتھ سے اپنے نہ جاتے تم
پھر ہوچکے وہیں کہیں گھر جاسکے نہ ہم
جی دینا پڑتا ہے اس میں ایسا نہ ہو پچھتائو تم
ترحم کہ مت کر ستم پر ستم
اس بے نشاں کی ایسی ہیں چندیں نشانیاں
مزہ رس میں ہے لوگے کیا تم کرس میں
طرف گلزار کی آیا چلا میں
رہتی ہے خلش نالوں سے میرے دل شب میں
اہل اس گھر پہ جان دیتے ہیں
اس اوباش کی دیکھو شوخی سادگی سے ہم چاہیں ہیں
اور گذارا کب تک ہو گا کچھ اب ہم رخصت سے ہیں
پر اس ستم سے بامزہ لطف و کرم نہیں
جیسے چراغ آخری شب ہم لوگ نبڑتے جاتے ہیں
دل کو خیال صبر نہیں آنکھوں کو میل خواب نہیں
کیا کچھ نہ ہم بھی دیکھ چکے ہجر یار میں
گدائی رات کو کرتا ہوں خجلت سے فقیری میں
رک کر پھوٹ بہیں جو آنکھیں رود کی سی دو دھاریں ہیں
عزلتی شہر کے بازار میں آ بیٹھے ہیں
کیوں کے ہیں گے اس رستے میں ہم سے آہ گراں باراں
خون کسو کا کوئی کرے واں داد نہیں فریاد نہیں
جینے کی اپنے ہم بھی کوئی طرح نکالیں
فاقہ مستی مدام کرتا ہوں
بے خود ہوجاتے ہیں ہم تو دیر بخود پھر آتے ہیں
میں خوش ہوں اسی شہر سے میخانہ جہاں ہو
پاس تو ہے جس کے وے ہی کل کہیں گے دور ہو
چکر مارو جیسے بگولا خاک اڑاتے آتے رہو
کہیں اپنے رونے سے فرصت ہے مجھ کو
بس اب تو کھل گئیں ہیں آنکھیں دیکھا ہم نے دنیا کو
لگ پڑتے ہیں ہم تم سے تو تم اوروں کو لگا دو ہو
مت کھائیو غم اپنا اپنا نہ لہو پیجو
دیکھتے ہو تو دیکھو ہمارے جلتے توے سے سینے کو
ابر آیا زور غیرت تم بھی ٹک پیدا کرو
یعنی سایۂ سرو و گل میں اب مجھ کو زنجیر کرو
سو سو قاصد جان سے جاویں یک کو ادھر سے جواب نہ ہو
ہم نے کمر کو کھول رکھا ہے اپنی کمر تم کستے ہو
خاموش ان لبوں سے کوئی بات ہو تو ہو
یہی حال ہمیشہ رہا کیا تو مآل پر بھی نظر کرو
جان عزیز گئی ہوتی کاش اب کے سال بہار کے ساتھ
آب اس کے پوست میں ہے جوں میوئہ رسیدہ
لے جاتے دل کو خاک میں اس آرزو کے ساتھ
یعنی چشم شوق لگی رہتی ہے شگاف در کے ساتھ
یک جرعہ ہمدم اور پلا پھر بہار دیکھ
دیر و حرم میں ہو کہیں ہوہے خدا کے ساتھ
ہے آبرو فقیر کی شاہ ولا کے ہاتھ
سخت کدورت بیچ میں آئی صبح تلک نہ صفائی ہوئی
کچھ یار کے آنے کی مگر گرم خبر ہے
گھر ہے کسو گوشے میں تو مکڑی کا سا گھر ہے
چھانہہ میں جاکے ببولوں کی ہم عشق و جنوں کو رو آئے
برسے ہے عشق اپنے دیوار اور در سے
ہووے پیوند زمیں یہ رفتنی
ولے دل شرط ہے جو تاب لاوے
لکھتا ہوں تو پھرے ہے کتابت بہی بہی
کہاں رحمت حق کہاں بے گناہی
عجب ہیں لوگ جو کہتے ہیں وہ ناساز آتا ہے
شور طیور اٹھتا ہے ایسا جیسے اٹھے ہے بول کوئی
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
چال ایسی چلا جس پر تلوار چلا کی ہے
کہاں ہم کہاں تم کہاں پھر جوانی
عاشق کہیں شتاب تو ہووے خدا کرے
دریا دریا روتا ہوں میں صحرا صحرا وحشت ہے
کوٹے گئے ہیں سب اعضا یہ محبت تھی یا محنت تھی
بے موقع یاں آہ و فغاں ہے بے اثری زاری میں ہے
کیا جانوں میں روئوں گا کیسا دریا چڑھتا آتا ہے
جس کو شبہ ہووے نہ ہرگز جی کے ہمارے جائے سے
روزے رکھے غریبوں نے تو دن بڑے ہوئے
ابر بہاری وادی سے اٹھ کر آبادی پر آیا ہے
آئے بیٹھے اٹھ بھی گئے بیتاب ہوئے پھر آئے بھی
کہ بیتاب دل کی بنا صبر ہے
اب وہ دل میں تاب نہیں جو لب تک آہ سرد کھنچے
یکسر ان نامردوں کو جو ایک ہی تک تک پا میں اٹھائے
وہ ہی ناز و عتاب ہے سو ہے
اس قافلے میں ہم بھی تھے افسوس رہ گئے
بوسۂ کنج لب سے پھر بھی ذائقے اپنے بناتے تھے
وحشت پر جب آتا ہے تو جیسے بگولا جاتا ہے
عاشق اس کی قامت کے بالا بالا مارے گئے
رہتے ہیں ان کے گلے لگنے کے برسوں سے گلے
اس گھر میں کوئی بھی نہ تھا شرمندہ ہوئے ہم جانے سے
گلے سے ہمارے لگو عید ہے
دل نے پہلو تہی کیا ہم سے
نام خدا ہوا ہے اب وہ جوان بارے
ایسے گئے کہ ان کی پھر کچھ خبر نہ آئی
شاید اس کے بھی دل میں جا کریے
ہجراں کا غم تھا تہ میں سختی سے جان ٹوٹی
ٹکڑے پہ جان دیتے تھے سارے فقیر تھے
جی چکا وہ کہ یہ بے طرح کی بیماری ہے
یہ صعوبت کب تلک کوئی اٹھائے
اس سادہ رو کے جی میں کیا جانیے کہ کیا ہے
بیمار مرا گراں بہت ہے
موقوف رحم پر ہیں دشوار کام سارے
چین نہیں دیتا ہے ظالم جب تک عاشق مرتا ہے
دل کلیجے کے پار ہوتا ہے
میری خوں ریزی ہی کا مائل ہے
بازخواہ خوں نہ تھا مارے گئے مارے گئے
بے غم کرو خوں ریزی خوں خواہ نہیں کوئی
دل خرابہ جیسے دلی شہر ہے
جس سے پیار رکھے ہے کچھ یہ اس کے سر پر شامت ہے
ہر گلی کوچے میں تیرا اک دعا گو اور ہے
سلطان عصر تیری گلی کا فقیر ہے
عشق ہے فقر ہے جدائی ہے
بو کہ پھر کر بہار آئی ہے
اغلال و سلاسل ٹک اپنی بھی ہلا جاوے
خدا جانے تو ہم کو کیا جانتا ہے
کہ جاناں سے بھی جی ملا جانتا ہے
[/vc_column_text][/vc_column][/vc_row]