دیوان ِ میر ۔ حصہ ششم

دیوان ِ میر ۔ حصہ ششم

نظر میں اس کی میں تو بھی نہ آیا
بے دماغی سے با خطاب رہا
اندوہ و درد عشق نے بیمار کردیا
نہ جانا ان نے تو یوں بھی کہ کیا تھا
ٹکڑا جگر کا آنکھوں سے نکلا جلا ہوا
جب تلک ہم جائیں اودھم ہو گیا
سو بار آنکھیں کھولیں بالیں سے سر اٹھایا
پڑھتے کسو کو سنیے گا تو دیر تلک سر دھنیے گا
چاہ نے بدلے رنگ کئی اب جسم سراسر زرد ہوا
مرنا تمام ہو نہ سکا نیم جاں ہوا
دوچار دن میں برسوں کا بیمار ہو گیا
کی دوستی کہ یارو اک روگ میں بساہا
میں بے دماغ باغ سے اٹھ کر چلا گیا
عشق بھی اس کا ہے نام اک پیار کا
تو جینا ہمیں اپنا دشوار ہو گا
دور سے دیکھتے ہی پیار آیا
ہزار مرتبہ منھ تک مرے جگر آیا
آشنا رہ برسوں جو اک دم میں ہو ناآشنا
تلاش جوش بہار میں کی نگار گلشن میں تھا نہ اپنا
رہا ویسا ہی ہنگامہ مری بھی زار نالی کا
اس سے کیا جانوں کیا قرار ہوا
اک دو دن ہی میں وہ زار و زبوں خوار ہوا
پیر فقیر اس بے دنداں کو ان نے دنداں مزد دیا
حیرت سے آفتاب جہاں کا تہاں رہا
بہت عالم کرے گا غم ہمارا
مر جائے کوئی خستہ جگر تو ہے کیا عجب
کرنا جو کچھ ہو تم کو سو کرلو شتاب اب
کھاوے گا آفتابہ کوئی خودسر آفتاب
بے مروت اس زمانے میں ہمہ حیرت ہے اب
ساتھ میرے دل گڑا تو آچکا مرنے کا خواب
بدزبانی بھی کی ان نے تو کہا بسیار خوب
وہ ستمگر اس ستم کش کو ستاتا ہے بہت
ہم سے کرتا ہے اب حجاب بہت
کڑھتے ہیں دن رات اس پر ہم بہت
دشتی وحش و طیر آئے ہیں ہونے تیرے شکار بہت
رنج ویسے ہی ہیں نباہ کے بیچ
جو کہوں میں کوئی ہے میرے بھی غمخواروں کے بیچ
کاش یہ آفت نہ ہوتی قالب آدم کے بیچ
یہ فسانہ رہا زبانوں پر
کی تم نے مہربانی بے خانماں کے اوپر
کی بات ان نے کوئی سو کیا چبا چبا کر
صوفی ہوا کو دیکھ کے کاش آوے راہ پر
دیتا ہے جان عالم اس کی جفا کے اوپر
دل کوئی لے گیا ہے تو میر ٹک جگر کر
جو حادثہ فلک سے نازل ہوا زمیں پر
ہم پھینک دیں اسے ترے منھ پر نثار کر
چپکے چپکے کسو کو چاہا پوچھا بھی تو نہ بولے ٹک
سر زخم پہنچا ہے شاید جگر تک
آشوب نالہ اب تو پہنچا ہے آسماں تک
وہ بیچتا رہے گا خریدار کب تلک
کم دماغی ہے بہت مجھ کو کہ ہوں بیمار دل
چڑھ جائے مغز میں نہ کہیں گرد بوے گل
پیمبر دل ہے قبلہ دل خدا دل
واں گئے کیا ہو کچھ نہیں معلوم
جھانکتے اس کو ساتھ صباکے صبح پھریں ہیں گھر گھر ہم
بستر پہ گرے رہتے ہیں ناچار ہوئے ہم
الفت گزیدہ مردم کلفت کشیدہ مردم
شہرۂ عالم تھے اس کے ناز برداروں میں ہم
متصل شمع سے روتے ہیں گلے جاتے ہیں
پھوٹی سہتے ہیں آنجی سہتے نہیں
پھر زمانے میں کہاں تم ہم کہاں
دل کی پھر دل میں لیے چپکا چلا جاتا ہوں
پہ یہ غم ہے میں بھی سر راہ ہوں
جوانوں کو انھیں ایام میں زنجیر کرتے ہیں
بے یار و بے دیار و بے آشنا ہوئے ہیں
بیگانہ وضع تو ہوں پر آشنا زدہ ہوں
مطلق نہیں ہے بند ہماری زبان میں
پیشانی پر ہے قشقہ زنار ہے کمر میں
نیند آتی ہے دل جمعی میں سو تو دل کو قرار نہیں
وار جب کرتے ہیں منھ پھیر لیا کرتے ہیں
اس طور اس طرح کے ایسے کم آشنا ہیں
تم ہوئے رعنا جواں بالفرض لیکن ہم کہاں
تو کیا رہیں گے جیتے ہم اس روزگار میں
بہ خدا با خدا رہا ہوں میں
سلایا مرے خوں میں تلوار کو
منت بھی میں کروں تو نہ ہرگز منا کرو
وہ جو تڑپا لے گیا آسودگی و خواب کو
تہ کر صنم خانے چلا ہوں جامۂ احرام کو
کچھ تمھیں پیار نہیں کرتے جفا ماروں کو
دل کا منکا ولے پھرا نہ کبھو
کھولو منھ کو کہ پھر خطاب کرو
گری ہو کے بے ہوش مشاطہ یک سو
برات عاشقاں بر شاخ آہو
بیتاب دل کا مرگ کہیں مدعا نہ ہو
پر خود گم ایسا میں نہیں جو سہل مجھ کو پائے وہ
جانا ہی تھا ہمیں بھی بہار چمن کے ساتھ
جیتے ہیں وے ہی لوگ جو تھے کچھ خدا کے ساتھ
پھر چھپا خور سا اپنے نور سے وہ
آزردہ دل کسو کا بیمار ہے ہمیشہ
اور ہر پارہ اس کا آوارہ
کیا شوخ طبع ہے وہ پرکار سادہ سادہ
سب یہیں رہ گئے کہاں سے گئے
جوں توں اپنا کیا نباہا ہے
کیا محبت نے دشمنی کی ہے
سفک دم میں میرے اب کیا دیر ہے
سو نہ یاں شمشیر نے زنجیر ہے
جان امیدوار سے شرمندگی ہوئی
وصل کی رات میں لڑائی کی
تب آناً فآناً سماں اور ہے
کہ دیکھا جب تجھے تب جی کو مار مار رہے
سو کوئی دن جو ہے تو پھر سالہا نہیں ہے
نکلے نہ ناامیدی کیونکر مری نظر سے
ہو مختلط جو ان سے تو ایمان کیا رہے
افسوس ہے جو عمر نہ میری وفا کرے
ظاہر کا پاس تھا سو مدارات بھی گئی
گلگشت کو جو آئیے آنکھوں پہ آئیے
خالی ہوا جہاں جو گئے ہم جہان سے
نہ شب کو مہلت نہ دن کو فرصت دمادم آنکھوں سے خوں رواں ہے
بھلا کب تلک بیقراری رہے
پھولا پھرے ہے مرغ چمن باغ باغ ہے
کہ ساری رات وحشت ہی رہا کی
جی میں ہے کہوں حال غریبانہ کہیں گے
برسوں ہوئے ہیں گھر سے نکلے عشق نے خانہ خرابی کی
سو ہم اس کے نشان تیر ہوئے
کرنا سلوک خوب ہے اہل نیاز سے
تیر و نشتر سے کیا پلک کم ہے
بے عبرتوں نے لے کر خاک ان کی گھر بنائے
آسماں تک سیاہ کرتے تھے
دزد غمزوں کی ویسی عیاری
کس مرتبے میں ہو گی سینوں کی خستہ حالی
آہ اس دشمن نے یہ عاشق نوازی خوب کی
ٹک حسن کی طرف ہو کیا کیا جوان مارے
مرغان باغ سارے گویا ہیں اس کے مارے
بات رہ جائے نہ یہ دن رہیں نے رات رہے
میداں بزن گہوں کے کشتوں سے بھر رہا ہے
بات مخفی کہتے ہو غصے سے جھنجھلائے ہوئے
ایسی طرح روزگار دیکھیے کب تک رہے
کہ یہ پیرانہ سر جاہل جواں ہے
مستی کی دیر میں قسم اقسام کر چکے
وہی جی مارے جس کو پیار کرے
جپ نام اس کا صبح کو تا نام بھی چلے
آنکھیں ہماری لگ رہی ہیں آسمان سے
سب جیسے اڑ گئی ہے رنگینی گلستاں کی