دیوان ِ میر ۔ حصہ سوم

دیوان ِ میر ۔ حصہ سوم

خاک ناچیز تھا میں سو مجھے انسان کیا
یا محبت کہہ کے یہ بارگراں میں لے گیا
مجنوں کے دماغ میں خلل تھا
اک جمع لڑکوں کا بھی لے لے کے سنگ آیا
ایسے ناداں دلربا کے ملنے کا حاصل ہے کیا
کر اک سلام پوچھنا صاحب کا نام کیا
دور ہی دور پھرے پاس ہمارا نہ کیا
یا لوہو اشک خونی سے منھ پر بہائے گا
پھول غیرت سے جل کے خاک ہوا
مہر بت دگر سے طوفان کر کے مارا
ہمیشہ رہے نام اللہ کا
کوئی دل کا بخار نکلے گا
کیا ذکر یاں مسیح علیہ السلام کا
مجھ پہ تودہ ہوا ہے طوفاں کا
آیا کبھو یاں دن کو بھی یوں تو غضب آیا
اس جان کی جوکھوں کو اس وقت نہ جانا تھا
ٹک رنجہ قدم کر کر مجھ تک اسے آنا تھا
جد برسوں ہم نے سورئہ یوسفؑ کو دم کیا
وہ دل کہ جس پہ اپنا بھروسا تھا خوں ہوا
یک رمق جی تھا بدن میں سو بھی گھبرانے لگا
سو بھی رہتا ہوں یہ کہتا ہائے دل نے کیا کیا
دل کے جانے کا بڑا ماتم ہوا
ہر زماں ملتے تھے باہم سو زمانہ ہو گیا
رات کا بھی کیا ہی مینھ آیا تھا پر جاتا رہا
بلبل نے بھی نہ طور گلوں کا بیاں کیا
کبھو مزاج میں اس کے ہمیں تصرف تھا
چلے آتے تھے چاروں اور سے پتھر جہاں میں تھا
آگے اس قد کے ہے سرو باغ بے اسلوب سا
ہمیں عشق ہے تو اثر کر رہے گا
پیش جاتے کچھ نہ دیکھی چشم تر کر رہ گیا
کبریت نمط جن نے لیا مجھ کو جلایا
تب آنکھوں تلے میری اترتا ہے لہو سا
تو رک کے منھ تئیں کاہے کو شب جگر آتا
جو کوئی اس کو چاہے ظاہر ہے حال اس کا
حال رکھا تھا کچھ بھی ہم نے عشق نے آخر مار رکھا
ہرچند چاہتا ہوں پر جی نہیں سنبھلتا
بھاری پتھر تھا چوم کر چھوڑا
پھر صبر بن اور کیا ہے چارا
جوش غم سے جی جو بولایا سو دیوانہ ہوا
دل نہ اپنا ہے محبت میں نہ دلبر اپنا
دنبالہ گرد چشم سیاہ غزال تھا
کیا کروں گر نہ کروں چاک گریباں اپنا
لوٹا مارا ہے حسن والوں کا
کیا حال محبت کے آزار کشیدوں کا
ہاتھ ملنا کام ہے اب عاشق بدنام کا
خونبار میری آنکھوں سے کیا جانوں کیا گرا
طرحیں بدل گئیں پر ان نے ادھر نہ دیکھا
پھروں ہوں چور زخمی اس کی تیغ کم نگاہی کا
جی دل کے اضطراب سے بے تاب تھا سو تھا
جا بیٹھیں میکدے میں مسجد سے اٹھ کے صاف اب
گویا کہ جان جسم میں سارے نہیں ہے اب
آنا ہوا کہاں سے کہیے فقیرصاحب
ہر دم بھری رہے ہے لوہو سے چشم تر سب
اب کیا مرے جنوں کی تدبیر میرصاحب
بے صرفہ کرے صرف نہ کیوں دیدئہ تر آب
رہا ہے کیا دل بے تاب میں اب
مرثیے نے دل کے میرے بھی رلایا ہے بہت
سنا نہیں ہے مگر یہ کہ جوگی کس کے میت
سنتا نہیں ہے کوئی کلی کے دہاں کی بات
ٹک سوچ بھی ہزار ہیں دشمن ہزار دوست
ویسی دیکھی نہ ایک جا صورت
مر چلے ہجر میں ہی یا قسمت
دل لگا کر ہم تو پچھتائے بہت
کیا کریں ہم چاہتا تھا جی بہت
اجل تو ہے دل کے مرض کی بدایت
دل لیں ہیں یوں کہ ہرگز ہوتی نہیں ہے آہٹ
یہ کوشش گنہگار کی ہے عبث
حال رہتا ہی نہیں عشق کے بیمار کے بیچ
اس کی سی بو نہ آئی گل و یاسمن کے بیچ
دانستہ جا پڑے ہے کوئی بھی بلا کے بیچ
کچھ آگئی تھی سرو چمن میں کسو کی طرح
بہت تڑپا کیا جوں مرغ پربند
زبان سرخ سرِسبز دیتی ہے برباد
پھول میری خاک سے نکلیں گے بھی تو زرد زرد
اٹھے گی مری خاک سے گرد زرد
شعلہ ہے شمع ساں یاں ہر یک سخن زباں پر
کیا اجاڑا اس نگر کو لوٹ کر
دم کھینچ تہ دل سے کوئی ٹکڑے جگر کر
کس رنگ سے کرے ہے باتیں چبا چبا کر
سو جی گئے تھے صدقے اس شوخ کے بدن پر
کھلے بند مرغ چمن سے ملا کر
لے گیا رنگ اس کے دل سے تیر یار
میں اور یار اور مرا کاروبار اور
یاں کون تھوکے ہے صدف ہرزہ کوش پر
غصے سے تیغ اکثر اپنے رہی گلو پر
مارا ہے بے گناہ و گناہ اس طرف ہنوز
نہیں اس راہ میں فریادرس بس
نہ یہی خوں دل و جگر ہے بس
مری بخت آزمائی ہوچکی بس
کہتے ہیں دیوار بھی رکھے ہے گوش
خوشا ہم جو نہ رکھے ہم کو ناخوش
ہے عجب طور کا سفر درپیش
دل کے دل ہی میں کھپائے اپنے جوش
رقص بسمل تم سنو ہو جیسا رقص
سو ہی کھینچی مجھ پہ گھر میں پیش قبض
کہ ہمیں متصل لکھا ہے خط
ہوتے ہیں برخودغلط یہ ہو گیا یہ کیا غلط
مزہ عمر کا ہے جوانی سے حظ
پانی پانی شرم مفرط سے ہوئی جاتی ہے شمع
خانقہ میں کرتے ہیں صوفی سماع
سوز دل سے داغ ہے بالاے داغ
تھا میر بے دماغ کو بھی کیا بلا دماغ
رسم ظاہر تمام ہے موقوف
حق شناسوں کے ہاں خدا ہے عشق
مجنوں کو میری اور سے کہیو دعاے شوق
لیکن کبھو شکایت آئی نہیں زباں تک
ہم کھڑے تلواریں کھاویں نقش ماریں اور لوگ
چشم پرخوں فگار کے سے رنگ
پر اس بغیر اپنے تو جی کو نہ بھائے گل
الٰہی غنچہ ہے پژمردہ یا دل
ترا اے برق خاطف اس طرف گرنا ہے لاحاصل
پر تنگ آگئے ہیں تمھارے ستم سے ہم
واقف نہیں ہواے چمن سے اسیر ہم
تو یہی آج کل سدھارے ہم
بلا پر چلے آئے ہر ہر قدم
ہے بے خبری اس کو خبردار رہو تم
کچھ ہورہے ہیں غم میں ترے نیم جاں سے ہم
اک مشت استخواں ہیں پر اپنے بار ہیں ہم
ان بدمزاجیوں کو چھوڑوگے بھی کبھو تم
دل کے پہلو سے ہم آتش میں ہیں اور آب میں ہیں
الگ بیٹھا حنا بندوں کو آنکھوں میں رچائوں میں
غم سے پانی ہوکے کب کا بہ گیا میں ہوں کہاں
سوز و درد و داغ و الم سب جی کو گھیرے پھرتے ہیں
جائیں یاں سے جو ہم اداس کہیں
یار بن لگتا نہیں جی کاشکے ہم مر رہیں
مریں بھی ہم تو نہ دیکھیں مروت ان کو نہیں
خفت کھینچ کے جاتا ہوں رہتا نہیں دل پھر آتا ہوں
کرے ہے آپھی شکایت کہ ہم گلہ نہ کریں
سو غزل پڑھتے پھرے ہیں لوگ فیض آباد میں
ایدھر سے ہیں دعائیں اودھر سے گالیاں ہیں
ساتھ اس کارواں کے ہم بھی ہیں
خلل سا ہے دماغ آسماں میں
عاشق زار کو مار رکھے ہے ایک ابرو کی اشارت میں
یہ کانٹے کھٹکتے جگر میں بھی ہیں
نہیں آتیں کیا تجھ کو آنے کی باتیں
ظل ممدود چمن میں ہوں مگر زنجیر میں
ہم کنج قفس میں ہیں دل سینوں میں جلتے ہیں
وے بہا سہل جو دیتے ہیں خریدار نہیں
برسنا مینھ کا داخل ہے اس بن تیر باراں میں
سو آئینہ سا صورت دیوار ہوا میں
بھروسا کیا ہے میرا میں چراغ زیر داماں ہوں
جس سے دل آگ و چشم آب ہے میاں
کسو سے شہر میں کچھ اختلاط مجھ کو نہیں
خاک سی منھ پر مرے اس وقت اڑ جاتی ہے میاں
رونے سے تب تو میری کچھ آنکھیں جلتیاں ہیں
جھلک سی مارتی ہے کچھ سیاہی داغ سودا میں
دیدنی ہے پہ بہت کم نظر آتا ہے میاں
ایسی جنت گئی جہنم میں
دل کلیجا نکال لیتے ہیں
دن آج کا بھی سانجھ ہوا انتظار میں
مدت ہوئی اٹھا دیں تم نے یہ ساری رسمیں
ہجراں میں اس کے ہم کو بہتیرے مشغلے ہیں
لگی ہے آگ اک میرے جگر میں
لگ اٹھتی آگ سب جوِّ سما میں
خدا نُہ نہ دے ان کو جو سر کھجائیں
بارے سب روزے تو گذرے مجھے میخانے میں
سوراخ پڑ گئے جگر عندلیب میں
ہو تخت کچھ دماغ تو ہم پادشاہ ہیں
میں جوں نسیم باد فروش چمن نہیں
لگ گیا ڈھب تو اسی شوخ سے ڈھب کرتے ہیں
جاتی رہے گی جان اسی رہگذر سے یاں
کس خوش سلیقگی سے جگر خوں کروں ہوں میں
اب جی میں ہے کہ شہر سے اس کے سفر کریں
درویش کتنے ماتم باہم کیا کریں ہیں
جان سے بھی ہم جاتے رہے ہیں تم بھی آئو جانے دو
دانت سنا ہے جھمکیں ہیں اس کے موتی کے سے دانے دو
خوں کیا ہے مدتوں اس میں غم بسیار کو
یہ کیا روش ہے آئو چلے ٹک ادھر کبھو
ہم نے کردی ہے خبر تم کو خبردار رہو
بے وقر جانتے ہیں دل بے گداز کو
پامال ہے سب خلق جہاں ناز تو دیکھو
کب ہے ویسی مواجہہ کرلو
تب کسی ناآشناے مہر سے الفت کرو
وقف اولاد ہے وہ باغ تو غم کاہے کو
ہوا جی زلف و کاکل کے لیے جنجال مت پوچھو
ایسا کچھ کرکے چلو یاں کہ بہت یاد رہو
یہ بات ایسی کیا ہے جس پر الجھ پڑے ہو
دل کو مزے سے بھی تو تنک آشنا کرو
جی الجھتا ہے بہت مت بال سلجھایا کرو
ایسا تو رو کہ رونے پہ تیرے ہنسی نہ ہو
کھلانا کھولنا مشکل بہت ہے ایسے کالوں کو
جیسے مصاحب ابر کی ہوتی ہے کوئی بائو
ہم سینہ خستہ لوگوں سے بس آنکھ مت لگائو
کہتے ہیں اپنی ٹوپی سے بھی مشورت کرو
آنکھ کا لگنا نہ ہو تو اشک کیوں خوناب ہو
دل نہ رہے جو ہاتھ رکھے تو سماجت ات گت مت کریو
کچھ تو الم ہے دل کی جگہ اور غم ہے کچھ
پر جی اسی کو اپنا ڈھونڈے ہے ڈھب نہیں کچھ
یار تک پھر تو کس قدر ہے راہ
جان ہی جائے گی آخر کو اس ارمان کے ساتھ
حال کچھ بھی تجھ میں ہے اے میر اپنا حال دیکھ
بالذات ہے جہاں میں وہ موجود ہر جگہ
لطف سے حرف و سخن تھے نگہ اک پیار کے ساتھ
مری زیست ہے مہربانی کے ساتھ
ضائع ہے جیب و دامن جوں جنس آب دیدہ
نہ تیر روے ترکش یوں چلا بیٹھ
اور مجلس میں جو رہیے دیکھ تو شرمائے وہ
جنگل میں نکل آئے کچھ واں بھی نہ بن آئی
آہ و فغاں کے طور سے میرے لوگ مجھے پہچان گئے
طاقت دل کی تمام ہوئی ہے جی کی چال کڈھب سی ہے
دھوم رہی ہے سر پر میرے رنج و عتاب و کلفت کی
نوگل جیسے جلوہ کرے اس رشک بہار کو دیکھا ہے
تصویر چیں کی روبرو اس کے ذلیل ہے
دور سے دیکھ لیا اس کو تو جی مار رہے
سب لوگوں میں ہیں لاگیں یاں محض فقیری ہے
ٹھنڈا دل اب ہے ایسا جیسے بجھا دیا ہے
نکہت گل سے آشنا نہ ہوئے
دل اپنا تو بجھا سا دیا ہے جان چراغ مضطر ہے
طوفان سا شہروں میں ہے اک شور دریا پر بھی ہے
آخر کو روتے روتے پریشاں ہو بہ گئے
کر نہیں بنتی کسو سے جو بنے
اچھے ہوتے نہیں جگر خستے
ہرچند کہ گل شگفتہ پیشانی ہے
ہے وہی بات جس میں ہو تہ بھی
خبر ہوتے ہی ہوتے دل جگر دونوں جلا دیوے
ہم کو یہ تیر ماہ جاتا ہے
عاشق کہاں ہوئے کہ گنہگار ہم ہوئے
یہ بات اک بے خودی میں منھ پر آئی
منھ پھیرے وہ تو ہم کو پھر کون منھ لگاوے
مرا دامن بنے تو باندھ دو گل کے گریباں سے
رات دن ہم امیدوار رہے
تو میاں مجنوں بیاباں سے گئے
سبزی بہت لگی ہے منھ سے پیارے تیرے
اک ایک کو نہیں پھر غیرت سے دیکھ سکتے
عجب مرحلہ ہم کو درپیش ہے
کیا قیامت کا قیامت شور ہے
لے زمیں سے تا فلک فریاد و زاری کیجیے
پر یہ کہا نہ ظالم اس کی نہیں سہی ہے
افسوس ہے کہ آکر یوں مینھ ٹک نہ برسے
جوں ہم جلا کریں ہیں بھلا جلتے کب ہیں یے
اس عشق و محبت نے کیا خانہ خرابی کی
وہ جو بے رو اس طرف ٹک رو کرے
کبھو کے دن ہیں بڑے یاں کبھو کی رات بڑی
یعنی خط تو خوب ہے صورت بھی ہے
فقیروں کی اللہ اللہ ہے
کتنا جی عاشق بیتاب کا مرجاتا ہے
یہ چوٹ ہی رہی ہے اس روسیاہ کو بھی
کہ تو دارو پیے ہے رات کو مل کر کمینوں سے
اب دیکھوں مجھے کس کا گرفتار کرے ہے
یہ بھی کوئی لطف بے ہنگام ہے
ہم نہ سمجھے بڑا تاسف ہے
دل کو ہمارے چین دے آنکھوں کو خواب دے
یہی بے طاقتی خوں گشتہ دل کو میرے کد سے ہے
مٹھ بھیڑ اگر ہو گئی اس تیغ بکف سے
خبر کیوں پوچھتے ہیں مجھ سے لڑکے اس دوانے کی
قسم کھائی ہو جس نے خواب میں بھی منھ دکھانے کی
کہ صورت آسماں کی دیکھ کر میں نے زمیں دیکھی
دل داغ ہورہا ہے چمن کے سبھائو سے
بھیچک کوئی رہ جائے کوئی جی سے گذر جائے
مسلماں بھی خدا لگتی نہیں کہتے قیامت ہے
کہ زندگی تو کروں جب تلک کہ یار آوے
آزردہ ہو نہ بلبل جاتے ہیں ہم چمن سے
آوارگی تو دیکھو کیدھر سے کیدھر آئے
ایکوں کو جا نہیں ہے دنیا عجب جگہ ہے
زندگانی اب تو کرنا شاق ہے
آسماں سے زمین نپوائی