
دیوان ِ میر۔ حصہ چہارم
رمایۂ توکل یاں نام ہے خدا کا
قدرت سے اس کی لب پر نام آوے ہے خدا کا
پہروں چوائو ان نے رکھا بات بات کا
ہوا کام مشکل توکل کیا
جا چکا ہوں جہان سے کب کا
کہنے لگا چپکا سا ہوکر ہائے دریغ شکار اپنا
ٹھہرائو سا ہو جاتا یوں جی نہ چلا جاتا
پر بعد نماز اٹھ کر میخانہ چلا جاتا
اس زلف پرشکن نے مجھے مبتلا کیا
یاں پھر اگر آئوں گا سید نہ کہائوں گا
لڑکا سا ان دنوں تھا اس کو شعور کیا تھا
جی کو مہماں سنتے تھے مہمان سا آیا گیا
دیکھ اس کو بے دماغ نشہ سب اتر گیا
کل درد دل کہا سو مرا منھ ابل گیا
کیا خرابی سر پہ لایا صومعہ ویراں کیا
ضعف اتنا تھا کہے بات ڈھلا جاتا تھا
جامے کا دامن پائوں میں الجھا ہاتھ آنچل اکلائی کا
سبھوں سے پاتے ہیں بیگانہ آشنا تیرا
عشق میں کس حسن سے فرہاد ظالم مر گیا
مژہ نم رہیں حال درہم رہا
جیسا گیا تھا ویسا ہی چل پھر کے آگیا
رنگ بدن میت کے رنگوں جیتے جی ہی پہ زرد ہوا
آخر اب دوری میں جی جاتا رہا
دانتوں کو سلک در جو کہا میں سو لڑ گیا
کچھ ہمارا اسی میں وارا تھا
ہم جو فقیر ہوئے تو ہم نے پہلے ترک سوال کیا
صدشکر کہ مستی میں جانا نہ کہاں آیا
کام اپنے وہ کیا آیا جو کام ہمارے آوے گا
کہاں تلک گل نہ ہووے غنچہ رہا مندے منھ سو تنگ آیا
چہرے سے خونناب ملوں گا پھولوں سے گل کھائوں گا
ولے اس کی نایابی نے جان مارا
گیا دل سو ہم پر ستم کر گیا
ناکام عشق تب تو عاشق کا نام نکلا
ظلم صریح عشق کی امداد سے ہوا
داغ سے تن گلزار کیا سب آنکھوں کو خونبار کیا
جامہ زیبوں نے غضب آگ پہ دامن مارا
دانت تمھارے منھ میں کے ہیں اس مغرور نے یوں نہ کہا
اس پردے کے اٹھ جانے سے اس کو ہم سے حجاب ہوا
دل کا ہنگامہ قیامت خاک کے عالم میں تھا
اسی میں ہو گا کچھ وارا ہمارا
حواس گم ہیں دماغ کم ہے رہا سہا بھی گیا شعور اب
آنسو آتے ہیں اب شتاب شتاب
آتے ہیں کھنچے ہم کبھو بیگار میں صاحب
زندگانی ہی درد سر ہے اب
دیدئہ تر ابر سا چھایا ہے اب
ناامید اس زندگانی کرنے سے اکثر ہے اب
ملا کے آنکھیں دروغ کہنا کہاں تلک کچھ حیا کرو اب
مکر ہے عہد سب قرار فریب
اس ستمگر کے ہم ہیں شہر غریب
تکتے راہ رہے ہیں دن کو آنکھوں میں جاتی ہے رات
دے کسے فرصت سپہر دوں ہے کم فرصت بہت
شاید آوے گا خون ناب بہت
قدر بہت ہی کم ہے دل کی پر دل میں ہے چاہ بہت
پر کیا ہی دل کو لگتی ہے اس بد زباں کی بات
رکن کاہے کو چشم تر کی خونباری کا کیا باعث
دل ہمارا ہے بے قرار عبث
کوئی گھڑی تو پاس رہو یاں پہروں فرصت کیا ہے آج
اور غرور سے ان نے ہم کو جانا کنکر پتھر آج
اب کیسے لوگ آئے زمیں آسماں کے بیچ
تاثیر ہے گی اہل وفا کے ہنر کے بیچ
کیا ہوئی تقصیر اس کی نازبرداری کے بیچ
جاے شراب پانی بھریں گے سبو کے بیچ
کی عشق نے خرابی سے اس خانداں کی طرح
سر کوئی پتھر سے مارے بھی تو مارے اس طرح
ہوتے ہیں ہم ستم زدہ بیمار ہر طرح
ریزش سے اس کی تختہ ہے سینے کا سنگ سرخ
اب میں ہوں جیسے دیر کا بیمار بدنمود
مشکل کریں ہیں جیسے گرفتار باش و بود
اچھا بھی ہووے دل کا بیمار گاہ باشد
ہاتھ لگتے دل کے ہوجاتا ہوں کچھ میں زرد زرد
جی گیا آخر رہا دل کو جو غم حد سے زیاد
مجنوں کہنے لگا کہ ہاں استاد
نان و نمک ہے داغ کا بھی ایک شے لذیذ
مانند گل شگفتہ جبیں یاں معاش کر
اللہ رے دماغ کہ ہے آسمان پر
ستم سا ستم ہو گیا اس میں ہم پر
چشم سیاہ ملاکر یوں ہی مجھ کو خانہ سیاہ نہ کر
آج لہو آنکھوں میں آیا درد و غم سے رو رو کر
کاے میر کچھ کہیں ہم تجھ کو عتاب کر کر
فراق ایسا نہیں ہوتا کہ پھر آتے نہیں جاکر
پر حیف میں نہ دیکھا بالیں سے سر اٹھا کر
اور نیچی نظر کریں کیوں کر
پیدا ہے عشق کشتے کا اس کے نشاں ہنوز
ہر دم نئی ہے میری گریباں دری ہنوز
نہ گیا دل سے روے یار ہنوز
کچھ پذیرا نہیں نیاز ہنوز
دل کا بیٹھا نہیں غبار ہنوز
ٹھہری ہے جان سی بھی شے کیا چیز
حال پرسی بھی نہ کی آن کے بیمار کے پاس
گویا کہ جا رہا کسو سوزندہ نار پاس
بہ گیا خون ہو جگر افسوس
منھ کرے ٹک ادھر بہار اے کاش
کچھ اس کی ہم نے پائی نہ رفتار کی روش
بستر پہ گرے رہتے ہیں بیمار سے ناخوش
ان ہی رنگوں ہوتا ہے اس صید طرفہ دل کا رقص
خودنما خودرائے و خودسر خودغرض
بے خبر مت رہو خبر ہے شرط
سو تو بہا تھا خوں ہو آگے پہلے دائو ہی ہارے شرط
ایسی شے کا زیاں کھینچے تو دانا ہووے نامحظوظ
تلووں تک وہ داغ گیا ہے سب مجھ کو کھا جیسے شمع
دریغ و درد و صد افسوس صد ہزار دریغ
عشق نے کیا ہمیں دکھائے داغ
حرف و سخن جو بایک دیگر رہتے تھے سو اب موقوف
پلکیں نہ ہوئی تھیں مری خوناب سے واقف
نگاہیں ہیں میری نظر کی طرف
کچھ کہتے ہیں سر الٰہی کچھ کہتے ہیں خدا ہے عشق
ہیں فن عشق کے بھی مشکل بہت دقائق
اور آسماں غبار سر رہ گذار عشق
سر مارے ہیں اپنے در و دیوار سے اب تک
نہ ایسا کھلا گل نزاکت سے اب تک
دل کے مرض عشق سے بیمار ہیں ہم لوگ
مگر آئے تھے میہمان سے لوگ
لیکن ہزار حیف نہ ٹھہری ہواے گل
یوں بے دم ہے اب پہلو میں جوں صید بسمل ہے دل
ہوا کاغذ نمط گو رنگ تیرا زرد کیا حاصل
نزدیک ہے کہ کہیے اب ہائے ہائے اے دل
دل وہی بے قرار ہے تا حال
دیوانہ دل بلا زدہ دل بے قرار دل
اب دماغ اڑتا ہے باتوں میں کہ ہوں بیمار دل
دل اٹھاتا نہیں اپنا کہ گرفتار ہیں ہم
راہ خرابے سے نکلی نہ گھر کی بستی میں کیوں کر جاویں ہم
سب سے گلی کوچوں میں ملو ہو پھرتے رہو ہو گھر گھر تم
ہے آج عید صاحب میرے لگے گلے تم
اپنی آنکھوں سے اسے یاں جلوہ گر دیکھیں گے ہم
پائوں کا رکھنا گرچہ ادھر کو عار سے ہے پر آئو تم
آن لگے ہیں گور کنارے اس کی گلی میں جا جا ہم
کانپا کرے ہے جی سو ٹھہرا کے رہ گئے ہم
کاش رہتے کسو طرف مر ہم
خموش دیکھتے رہتے ہیں اس کے رو کو ہم
آجاویں جو یہ ہرجائی تو بھی نہ جاویں جا سے ہم
رحلت کرنے سے آگے مجھ کو دیکھتے آتے جاتے تم
کس کس ناز سے وے آتے پر آنکھ نہ ان سے ملاتے ہم
اتنا ہے کہ طپش سے دل کی سر پر وہ دھمّال نہیں
نکلی ہے مگر تازہ کوئی شاخ کماں میں
محزوں ہوویں مفتوں ہوویں مجنوں ہوویں رسوا ہوں
اب ہجر یار میں ہیں کیا دل زدہ سفر میں
پلکوں کی صف کو دیکھ کے بھیڑیں سرک گئیں
کم اتفاق پڑتے ہیں یہ اتفاق میں
یاد میں اس خود رو گل تر کی کیسے کیسے بولیں ہیں
کہ حالت مجھے غش کی آئی نہیں
آپ میں ہم سے بے خود و رفتہ پھر پھر بھی کیا آتے ہیں
مار رکھا سو ان نے مجھ کو کس ظالم سے جا لڑیاں
بہت ہی حال برا ہے اب اضطراب نہیں
بیٹھنے پاتے نہیں ہم کہ اٹھا دیتے ہیں
رنگ طپیدن کی شوخی سے منھ پر میرے رنگ نہیں
ہم جو دیکھیں ہیں تو وے آنکھ چھپا لیتے ہیں
کہو تم سو دل کا مداوا کریں
وے اندھیری مینھ برسے جوں کبھو شدت سے یاں
چھاتی سے وہ مہ نہ لگا ٹک آکر اس بھی مہینے میں
ہم جو عاشق ہیں سو ٹھہرے ہیں گنہگاروں میں
اب کہتے ہیں خلطہ کیسا جان نہیں پہچان نہیں
رسوا ہوکر مارے جاویں اس کو بھی بدنام کریں
مروت قحط ہے آنکھیں نہیں کوئی ملاتا یاں
کیوں کر کہیے بہشتی رو ہے اس خوبی سے حور نہیں
رہ رہ گئے مہ و خور آئینہ وار دونوں
اک نالہ حوصلے سے بس ہے وداع جاں کو
نہ گرم ہوکے بہت آگ ہو کے آب کرو
نرمی بھی کاش دیتا خالق ٹک اس کی خو کو
جو صحن خانہ میں تو ہو در و دیوار عاشق ہو
یا تجھ کو دل شکستوں سے اخلاص پیار ہو
اس رو کا مثل آئینہ حیراں ہوا نہ تو
زہر دیویں کاشکے احباب اس درویش کو
آتے ہو تمکین سے ایسے جیسے کہیں کو جاتے ہو
رنگ اس کا کہیں یاد نہ دے زنہار اس سے کچھ کام نہ لو
مار رکھا بیتابی دل نے ہم سب غم کے ماروں کو
آسماں آگیا ورے کچھ تو
ساتھ ان کے چل تماشا کرلے جس کو چائو ہو
ہوکے فقیر گلی میں کسو کی رنج اٹھائو جا بیٹھو
بولو نہ بولو بیٹھو نہ بیٹھو کھڑے کھڑے ٹک ہوجائو
آشنایانہ نہ کی کوئی ادا اپنے ساتھ
پانی ہوا ہے کچھ تو میرا جگر جلا کچھ
جان عزیز ابھی ہے مری آبرو کے ساتھ
الجھائو تھا جو اس کی زلفوں سے سو گیا نہ
خدا ہے تو کیا غم ہے دل شاد رہ
درد و الم ہے کلفت و غم ہے رنج و بلا ہے کیا کیا کچھ
ناز و غرور بہت ہے اس کا لطف نہیں ہے کم کم بھی
کارواں جاتا رہا ہم خواب ہی میں مر گئے
یاں کام جا چکا ہے اب اختیار سے بھی
کیا کیا ان نے سلوک کیے ہیں شہر کے عزت داروں سے
ہم نے کھینچی کمان رستم بھی
گوش زد اک دن ہوویں کہیں تو بے لطفی سے زبان کرے
بے کس ہوئے بے بس ہوئے بے کل ہوئے بے گت ہوئے
روش آب رواں پھیلے پھرا کرتے تھے
یار گیا مجلس سے دیکھیں کس کس کی اب آئی ہے
کچھ چیز مال ہو تو خریدار ہو کوئی
میں نے ناخن بندی اپنی عشق میں کی ہے ابھی
غم حرماں کا کب تک کھینچیں شاد کرو تو بہتر ہے
لے خاک کی کوئی چٹکی اکسیر بنا دیں گے
صاحب ہی نے ہمارے یہ بندہ پروری کی
اب کب گئی اٹھائی ہے زور ناتوانی
طیور ہی سے بَکا کریں گے گلوں کے آگے بُکا کریں گے
سنی گرچہ جاتی نہیں یہ کہانی
پات ہرے ہیں پھول کھلے ہیں کم کم باد و باراں ہے
تعب ایسی گذری کہ مر مر گئے
آخر اس اوباش نے مارا رہتی نہیں ہے آئی ہوئی
پودے چمن میں پھولوں سے دیکھے بھرے بھرے
ہزار سابقوں سے سابق ایک یاری ہے
محل رحم ہوویں کس طرح مظلوم ہم تیرے
قدر ہماری کچھ جانوگے دل کو کہیں جو لگائوگے
رخصت میں لگ گلے سے چھاتی جلا گیا ہے
دروں میں آگ اک لگا گیا ہے بروں کو یکسر جلا گیا ہے
ورنہ کیا جانے کیا خطاب کرے
قصہ ہمارا اس کا یارو شنیدنی ہے
آن رہے ہیں آج دموں پر کل تک کیونکے رہا جاوے
یعنی آنسو پی پی گئے سو زخم جگر ناسور ہوئے
پہ فرط شوق سے مجھ کو ملال خاطر ہے
تسکیں نہیں ہے جان کو آب رواں سے بھی
اشک کی سرخی زردی چہرہ کیا کیا رنگ بدلتا ہے
دل تڑپا جو اس مہ رو بن سر کو ہمارے دھمکا ہے
چپ ہیں کچھ کہہ سکتے نہیں پر جی میں ہمارے کیا کیا ہے
سہل نہیں ہے جی کا ڈھہنا کیسی خانہ خرابی ہے
حال اگر ہے ایسا ہی تو جی سے جانا جانا ہے
تو دل کہ قفل سا بستہ ہے کیسا کھل جاوے
درویشی و کم پائی بے صبری و تنہائی
دو دن جوں توں جیتے رہے سو مرنے ہی کے مہیا تھے
رفتہ وارفتہ اس کا مر گذرے
ان ہی دیدئہ نم دیدوں سے کیا کیا ہم نے ستم دیکھے
آنکھیں اس سے لگیں سو خواب گئی
پنجہ خورشید کا گہا بھی جائے
جب سے کلاہ سر پہ رکھی در بہ در رہے
شاخوں سمیت پھول نہالوں کے جھک گئے
چاروں اور نگہ کرنے میں عالم عالم حسرت تھی