اسداللہ غالب

دیوان ِ غالب

الف

غزل

نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا

شوخیِ نیرنگ، صیدِ وحشتِ طاؤس ہے
دام، سبزے میں ہے پروازِ چمن تسخیر کا

لذّتِ ایجادِ ناز، افسونِ عرضِ ذوقِ قتل
نعل آتش میں ہے، تیغِ یار سے نخچیر کا

کاؤکاوِ [1] سخت جانی ہائے تنہائی نہ پوچھ
صبح کرنا شام کا، لانا ہے جوئے شیر کا

جذبۂ بے اختیارِ شوق دیکھا چاہیے
سینۂ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا

آگہی دامِ شنیدن جس قدر چاہے بچھائے
مدعا عنقا ہے اپنے عالمِ تقریر کا

خشت پشتِ دستِ عجز و قالب آغوشِ وداع
پُر ہوا ہے سیل سے پیمانہ کس تعمیر کا

وحشتِ خوابِ عدم شورِ تماشا ہے اسدؔ
جو مزہ [2] جوہر نہیں آئینۂ تعبیر کا

بس کہ ہوں غالبؔ، اسیری میں بھی آتش زیِر پا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا

  1. اکثر مروجہ نسخوں میں "کاوِکاوِ "درج ہے اور لوگ بے خیالی میں اسی طرح پڑھتے ہیں۔ بعض حضرات نے "کاؤکاؤ” بھی لکھا ہے جس کا یہاں کوئی محل نہیں۔ کاؤ۔ کاوش ۔ علی العموم "کاؤکاؤ” بہ تکرار مستعمل ہے۔ اس مصرع میں "کاؤکاوِ” پڑھنا چاہیے۔ (حامد علی خاں)۔
  2. نسخۂ حمیدیہ میں "مزہ” نسخۂ عرشی میں "مژہ” ۔ ہم نے حمیدیہ کے متن کو ترجیح دی ہے (جویریہ مسعود)

غزل

جنوں گرم انتظار و نالہ بیتابی کمند آیا
سویدا تا بلب زنجیر سے [1] دودِ سپند آیا

مہِ اختر فشاں کی بہرِ استقبال آنکھوں سے
تماشا کشورِ آئینہ میں آئینہ بند آیا

تغافل، بد گمانی، بلکہ میری سخت جانی ہے
نگاہِ بے حجابِ ناز کو بیمِ گزند آیا

فضائے خندۂ گُل تنگ و ذوقِ عیش بے پروا
فراغت گاہِ آغوشِ وداعِ دل پسند آیا

عدم ہے خیر خواہِ جلوہ کو زندانِ بے تابی
خرامِ ناز برقِ خرمنِ سعیِ پسند آیا

جراحت تحفہ، الماس ارمغاں، داغِ جگر ہدیہ
مبارک باد اسدؔ، غمخوارِ جانِ دردمند آیا

  1. عرشی میں "زنجیری” عرشی نے "زنجیر سے” کو سہو مرتب لکھا ہے (جویریہ مسعود)

غزل

عالم جہاں بعرضِ بساطِ وجود تھا
جوں صبح، چاکِ جَیب مجھے تار و پود تھا

جز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار
صحرا، مگر، بہ تنگیِ چشمِ حُسود [1] تھا

بازی خورِ فریب ہے اہلِ نظر کا ذوق
ہنگامہ گرم حیرتِ بود و نمود تھا

عالم طلسمِ شہرِ خموشاں ہے سر بسر
یا میں غریبِ کشورِ گفت و شنود تھا

آشفتگی نے نقشِ سویدا کیا درست
ظاہر ہوا کہ داغ کا سرمایہ دود تھا

تھا خواب میں خیال کو تجھ سے معاملہ
جب آنکھ کھل گئی نہ زیاں تھا نہ سود تھا

لیتا ہوں مکتبِ غمِ دل میں سبق ہنوز
لیکن یہی کہ رفت گیا اور بود تھا

ڈھانپا کفن نے داغِ عیوبِ برہنگی
میں، ورنہ ہر لباس میں ننگِ وجود تھا

تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسدؔ
سرگشتۂ خمارِ رسوم و قیود تھا

  1. یہاں "حُسود” کی جگہ "حَسود” بھی پڑھا جا سکتا ہے۔ حُسود جمعِ حاسد۔ حَسود ۔ بہت حسد کرنے والا۔ (حامد علی خاں) یہ شعر نسخۂ حمیدیہ میں نہیں ہے (جویریہ مسعود)

غزل

کہتے ہو نہ دیں گے ہم دل اگر پڑا پایا
دل کہاں کہ گم کیجے؟ ہم نے مدعا پایا

ہے کہاں تمنّا کا دوسرا قدم یا رب
ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایا

بے دماغِ خجلت ہوں رشکِ امتحاں تا کے
ایک بے کسی تجھ کو عالم آشنا پایا

سادگی و پرکاری، بے خودی و ہشیاری
حسن کو تغافل میں جرأت آزما پایا

خاکبازیِ امید، کارخانۂ طفلی
یاس کو دو عالم سے لب بخندہ وا پایا

کیوں نہ وحشتِ غالبؔ باج خواہِ تسکیں ہو
کشتۂ تغافل کو خصمِ خوں بہا پایا


غزل

عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا
درد کی دوا پائی، درد بے دوا پایا

غنچہ پھر لگا کھلنے، آج ہم نے اپنا دل
خوں کیا ہوا دیکھا، گم کیا ہوا پایا

شورِ پندِ ناصح نے زخم پر نمک چھڑکا
آپ سے کوئی پوچھے تم نے کیا مزا پایا

فکرِ نالہ میں گویا، حلقہ ہوں زِ سر تا پا
عضو عضو جوں زنجیر، یک دلِ صدا پایا

حال دل نہیں معلوم، لیکن اس قدر یعنی
ہم نے بار ہا ڈھونڈا، تم نے بارہا پایا

شب نظارہ پرور تھا خواب میں خرام [1] اس کا
صبح موجۂ گل کو نقشِ [2] بوریا پایا

جس قدر جگر خوں ہو، کوچہ دادنِ گل [3] ہے
زخمِ تیغِ قاتل کو طُرفہ دل کشا پایا

ہے نگیں کی پا داری نامِ صاحبِ خانہ
ہم سے تیرے کوچے نے نقشِ مدّعا پایا

دوست دارِ دشمن ہے! اعتمادِ دل معلوم
آہ بے اثر دیکھی، نالہ نارسا پایا

نَے اسدؔ جفا سائل، نَے ستم [4] جنوں مائل
تجھ کو جس قدر ڈھونڈا الفت آزما پایا

  1. نسخۂ حمیدیہ میں "خیال” بجائے "خرام” (جویریہ مسعود)
  2. نسخۂ حمیدیہ میں "وقف” بجائے "نقش” (جویریہ مسعود)
  3. نسخۂ حمیدیہ میں "دل” بجائے "گل” (جویریہ مسعود)
  4. نسخۂ حمیدیہ میں "سمِّ جنوں ” بجائے "ستم جنوں” (جویریہ مسعود)

غزل

دل میرا سوز نہاں سے بے محابا جل گیا
آتش خاموش کی مانند، گویا جل گیا

دل میں ذوقِ وصل و یادِ یار تک باقی نہیں
آگ اس گھر میں لگی ایسی کہ جو تھا جل گیا

میں عدم سے بھی پرے ہوں، ورنہ غافل! بارہا
میری آہِ آتشیں سے بالِ عنقا جل گیا

عرض کیجیے جوہرِ اندیشہ کی گرمی کہاں؟
کچھ خیال آیا تھا وحشت کا، کہ صحرا جل گیا

دل نہیں، تجھ کو دکھاتا ورنہ، داغوں کی بہار
اِس چراغاں کا کروں کیا، کارفرما جل گیا

دود میرا سنبلستاں سے کرے ہے ہمسری
بس کہ ذوقِ آتشِ گل سے سراپا جل گیا

شمع رویوں کی سر انگشتِ حنائی دیکھ کر
غنچۂ گل پر فشاں، پروانہ آسا، جل گیا

خانمانِ عاشقاں دکانِ آتش باز ہے
شعلہ رو جب ہو گئے گرمِ تماشا، جل گیا [1]

تا کجا افسوسِ گرمی ہائے صحبت، اے خیال
دل بسوزِ آتشِ داغِ تمنّا جل گیا [2]

میں ہوں اور افسردگی کی آرزو، غالبؔ! کہ دل
دیکھ کر طرزِ تپاکِ اہلِ دنیا جل گیا

  1. نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرع یوں ہے: "شعلہ رویاں جب ہوئے گرمِ تماشا جل گیا” (جویریہ مسعود)
  2. نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرع یوں ہے: دل ز آتش خیزیِ داغِ تمنا جل گیا

غزل

شوق، ہر رنگ رقیبِ سر و ساماں نکلا
قیس تصویر کے پردے میں بھی عریاں نکلا

زخم نے داد نہ دی تنگیِ دل کی یارب
تیر بھی سینۂ بسمل سے پَرافشاں نکلا

بوئے گل، نالۂ دل، دودِ چراغِ محفل
جو تری بزم سے نکلا، سو پریشاں نکلا

دلِ حسرت زدہ تھا مائدۂ لذتِ درد
کام یاروں کا بہ قدرِ لب و دنداں نکلا

[1] اے نو آموزِ فنا ہمتِ دشوار پسند!
سخت مشکل ہے کہ یہ کام بھی آساں نکلا

شوخیِ رنگِ حنا خونِ وفا سے کب تک
آخر اے عہد شکن! تو بھی پشیماں نکلا [2]

دل میں پھر گریے نے اک شور اٹھایا غالبؔ
آہ جو قطرہ نہ نکلا تھا سُو طوفاں نکلا

  1. بعض نسخوں میں "اے” کی جگہ "ہے” اور بعض میں اس کی جگہ "تھی” بھی چھپا ہے۔ حسرت موہانی اور طباطبائی کے نسخوں، نیز بعض دوسرے نسخوں میں "اے” ہی چھپا ہے۔ (حامد علی خاں)
  2. نسخۂ حمیدیہ میں مزید شعر (اعجاز عبید)

غزل

[1] دھمکی میں مر گیا، جو نہ بابِ نبرد تھا
"عشقِ نبرد پیشہ” طلبگارِ مرد تھا

تھا زندگی میں مرگ کا کھٹکا لگا ہوا
اڑنے سے پیشتر بھی، مرا رنگ زرد تھا

تالیفِ نسخہ ہائے وفا کر رہا تھا میں
مجموعۂ خیال ابھی فرد فرد تھا

دل تا جگر، کہ ساحلِ دریائے خوں ہے اب
اس رہ گزر میں جلوۂ گل، آگے گرد تھا

جاتی ہے کوئی کشمکش اندوہِ عشق کی!
دل بھی اگر گیا، تو وُہی دل کا درد تھا

احباب چارہ سازیِ وحشت نہ کر سکے
زنداں میں بھی خیال، بیاباں نورد تھا

یہ لاشِ بے کفن اسدؔ خستہ جاں کی ہے
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا

  1. شارحینِ کلام کے نزدیک وقفہ "جو” کے بجاے "گیا” کے بعد ہے۔ (حامد علی خان) ۔ حامد علی خان کے نسخے میں یہ مصرع یوں ہے: دھمکی میں مر گیا جو، نہ بابِ نرجد تھا (جویریہ مسعود)

غزل

شمار سبحہ، "مرغوبِ بتِ مشکل” پسند آیا
تماشائے بہ یک کف بُردنِ صد دل، پسند آیا

بہ فیضِ بے دلی، نومیدیِ جاوید آساں ہے
کشائش کو ہمارا عقدۂ مشکل پسند آیا

ہوائے [1] سیرِ گل، آئینۂ بے مہریِ قاتل
کہ اندازِ بخوں غلطیدنِ [2] بسمل پسند آیا

ہوئی جس کو بہارِ فرصتِ ہستی سے آگاہی
برنگِ لالہ، جامِ بادہ بر محمل پسند آیا

سوادِ چشمِ بسمل انتخابِ نقطہ آرائی
خرامِ نازِ بے پروائیِ قاتل پسند آیا

[3] روانی ہائے موجِ خونِ بسمل سے ٹپکتا ہے
کہ لطفِ بے تحاشا رفتنِ قاتل پسند آیا

اسدؔ ہر جا سخن نے طرحِ باغِ تازہ ڈالی ہے
مجھے رنگِ بہار ایجادیِ بیدلؔ پسند آیا

  1. نسخۂ حمیدیہ میں "حجابِ سیرِ گل” (جویریہ مسعود)
  2. اصل نسخۂ نظامی میں ’غلتیدن‘ ہے جو سہوِ کتابت ہے (اعجاز عبید)
  3. یہ شعر "نسخۂ حمیدیہ میں نہیں ہے۔ (جویریہ مسعود)

غزل

دہر میں نقشِ وفا وجہ تسلی نہ ہوا
ہے یہ وہ لفظ کہ شرمندۂ معنی نہ ہوا

نہ ہوئی ہم سے رقم حیرتِ خطِّ رخِ یار
صفحۂ آئینہ جولاں گہِ طوطی نہ ہوا [1]

سبزۂ خط سے ترا کاکلِ سرکش نہ دبا
یہ زمرد بھی حریفِ دمِ افعی نہ ہوا

میں نے چاہا تھا کہ اندوہِ وفا سے چھوٹوں
وہ ستمگر مرے مرنے پہ بھی راضی نہ ہوا

دل گزر گاہ خیالِ مے و ساغر ہی سہی
گر نفَس جادۂ سرمنزلِ تقوی نہ ہوا

ہوں ترے وعدہ نہ کرنے پہ [2] بھی راضی کہ کبھی
گوش منت کشِ گلبانگِ تسلّی نہ ہوا

کس سے محرومیِ قسمت کی شکایت کیجیے
ہم نے چاہا تھا کہ مر جائیں، سو وہ بھی نہ ہوا

وسعتِ رحمتِ حق دیکھ کہ بخشا جائے [3]
مجھ سا کافر کہ جو ممنونِ معاصی نہ ہوا

[4] مر گیا صدمۂ یک جنبشِ لب سے غالبؔ
ناتوانی سے حریف دمِ عیسی نہ ہوا

  1. نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرع یوں درج ہے: "صفحہ آئینہ ہوا، آئنہ طوطی نہ ہوا ” (جویریہ مسعود)
  2. نسخۂ حمیدیہ، نسخۂ مہر، نسخۂ طاہر اور دیوان غالب نقشِ چغتائی میں "پہ” جبکہ دیوان غالب شایع کردہ فیروز سنز، نسخۂ آسی، نسخۂ طاہر اور دیوان غالب فرہنگ کے ساتھ شایع کردہ مکتبہ جمال میں "پہ” کے بجائے "میں” درج ہے۔ ہم نے نسخۂ حمیدیہ کو ترجیح دی ہے۔ (جویریہ مسعود)
  3. نسخۂ حمیدیہ میں مزید (اعجاز عبید)
  4. نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرع یوں ہے: مرگیا صدمۂ آواز سے ’قم‘ کے غالب (اعجاز عبید

غزل

ستایش گر ہے زاہد، اس قدر جس باغِ رضواں کا
وہ اک گلدستہ ہے ہم بیخودوں کے طاقِ نسیاں کا

بیاں کیا کیجیے بیدادِ کاوش ہائے مژگاں کا
کہ ہر یک قطرہء خوں دانہ ہے تسبیحِ مرجاں کا

نہ آئی سطوتِ قاتل بھی مانع، میرے نالوں کو
لیا دانتوں میں جو تنکا، ہوا ریشہ نَیَستاں کا

دکھاؤں گا تماشہ، دی اگر فرصت زمانے نے
مِرا ہر داغِ دل، اِک تخم ہے سروِ چراغاں کا

کیا آئینہ خانے کا وہ نقشہ تیرے جلوے نے
کرے جو پرتوِ خُورشید عالم شبنمستاں کا

مری تعمیر میں مُضمر ہے اک صورت خرابی کی
ہیولیٰ برقِ خرمن کا، ہے خونِ گرم دہقاں کا

اُگا ہے گھر میں ہر سُو سبزہ، ویرانی تماشہ کر
مدار اب کھودنے پر گھاس کے ہے، میرے درباں کا

خموشی میں نہاں، خوں گشتہ [1] لاکھوں آرزوئیں ہیں
چراغِ مُردہ ہوں، میں بے زباں، گورِ غریباں کا

ہنوز اک "پرتوِ نقشِ خیالِ یار” باقی ہے
دلِ افسردہ، گویا، حجرہ ہے یوسف کے زنداں کا

بغل میں غیر کی، آج آپ سوتے ہیں کہیں، ورنہ
سبب کیا خواب میں آ کر تبسّم ہائے پنہاں کا

نہیں معلوم، کس کس کا لہو پانی ہوا ہو گا
قیامت ہے سرشک آلودہ ہونا تیری مژگاں کا

نظر میں ہے ہماری جادۂ راہِ فنا غالبؔ
کہ یہ شیرازہ ہے عالَم کے اجزائے پریشاں کا

  1. نسخۂ حسرت موہانی میں ’سر گشتہ‘ (اعجاز عبید)

شعر

نہ ہو گا "یک بیاباں ماندگی” سے ذوق کم میرا
حبابِ موجۂ رفتار ہے نقشِ قدم میرا

محبت تھی چمن سے لیکن اب یہ بے دماغی ہے
کہ موجِ بوئے گل سے ناک میں آتا ہے دم میرا


شعر

سراپا رہنِ عشق و ناگزیرِ الفتِ ہستی
عبادت برق کی کرتا ہوں اور افسوس حاصل کا

بقدرِ ظرف ہے ساقی! خمارِ تشنہ کامی بھی
جوتو دریائے مے ہے، تو میں خمیازہ ہوں ساحل کا


غزل

محرم نہیں ہے تو ہی نوا ہائے راز کا
یاں ورنہ جو حجاب ہے، پردہ ہے ساز کا

رنگِ شکستہ صبحِ بہارِ نظارہ ہے
یہ وقت ہے شگفتنِ گل ہائے ناز کا

تو اور سوئے غیر نظر ہائے تیز تیز
میں اور دُکھ تری مِژہ ہائے دراز کا

صرفہ ہے ضبطِ آہ میں میرا، وگرنہ میں
طُعمہ [1] ہوں ایک ہی نفَسِ جاں گداز کا

ہیں بسکہ جوشِ بادہ سے شیشے اچھل رہے
ہر گوشۂ بساط ہے سر شیشہ باز کا

کاوش کا دل کرے ہے تقاضا کہ ہے ہنوز
ناخن پہ قرض اس گرہِ نیم باز کا

تاراجِ کاوشِ غمِ ہجراں ہوا، اسدؔ!
سینہ، کہ تھا دفینہ گہر ہائے راز کا

  1. "طُعمہ، خوراک۔ طَعمہ، لقمہ ۔ (حامد علی خان)

غزل

بزمِ شاہنشاہ میں اشعار کا دفتر کھلا
رکھیو یارب یہ درِ گنجینۂ گوہر کھلا

شب ہوئی، پھر انجمِ رخشندہ کا منظر کھلا
اِس تکلّف سے کہ گویا بتکدے کا در کھلا

گرچہ ہوں دیوانہ، پر کیوں دوست کا کھاؤں فریب
آستیں میں دشنہ پنہاں، ہاتھ میں نشتر کھلا

گو نہ سمجھوں اس کی باتیں، گونہ پاؤں اس کا بھید
پر یہ کیا کم ہے؟ کہ مجھ سے وہ پری پیکر کھلا

ہے خیالِ حُسن میں حُسنِ عمل کا سا خیال
خلد کا اک در ہے میری گور کے اندر کھلا

منہ نہ کھلنے پرہے وہ عالم کہ دیکھا ہی نہیں
زلف سے بڑھ کر نقاب اُس شوخ کے منہ پر کھلا

در پہ رہنے کو کہا، اور کہہ کے کیسا پھر گیا
جتنے عرصے میں مِرا لپٹا ہوا بستر کھلا

کیوں اندھیری ہے شبِ غم، ہے بلاؤں کا نزول
آج اُدھر ہی کو رہے گا دیدۂ اختر کھلا

کیا رہوں غربت میں خوش، جب ہو حوادث کا یہ حال
نامہ لاتا ہے وطن سے نامہ بر اکثر کھلا

اس کی امّت میں ہوں مَیں، میرے رہیں کیوں کام بند
واسطے جس شہ کے غالبؔ! گنبدِ بے در کھلا


غزل

شب کہ ذوقِ گفتگو سے تیری دل بیتاب تھا
شوخیِ وحشت سے افسانہ فسونِ خواب تھا

شب کہ برقِ سوزِ دل سے زہرۂ ابر آب تھا
شعلۂ جوّالہ ہر اِک [1] حلقۂ گرداب تھا

واں کرم کو عذرِ بارش تھا عناں گیرِ خرام
گریے سے یاں پنبۂ بالش کفِ سیلاب تھا

لے زمیں سے آسماں تک فرش تھیں بے تابیاں
شوخیِ بارش سے مہ فوّارۂ سیماب تھا

[2] واں ہجومِ نغمہ ہائے سازِ عشرت تھا اسدؔ
ناخن، غم یاں سرِ تارِ نفس مضراب تھا

واں خود آرائی کو تھا موتی پرونے کا خیال
یاں ہجومِ اشک میں تارِ نگہ نایاب تھا

جلوۂ گل نے کیا تھا واں چراغاں آب جو
یاں رواں مژگانِ چشمِ تر سے خونِ ناب تھا

یاں سرِ پُر شور بے خوابی سے تھا دیوار جو
واں وہ فرقِ ناز محوِ بالشِ کمخواب [3] تھا

یاں نفَس کرتا تھا روشن، شمعِ بزمِ بےخودی
جلوۂ گل واں بساطِ صحبتِ احباب تھا

فرش سے تا عرش واں طوفاں تھا موجِ رنگ کا
یاں زمیں سے آسماں تک سوختن کا باب تھا

ناگہاں اس رنگ سے خوں نابہ ٹپکانے لگا
دل کہ ذوقِ کاوشِ ناخن سے لذت یاب تھا

  1. قدیم نسخوں میں "اک” کی جگہ "یک” درج ہے (حامد علی خاں)
  2. مقطع کی وجہ سے لگتا ہے کہ یہ اور اگلی غزل در اصل دو الگ الگ غزلیں تھیں جن کو بعد میں خود غالب نے ایک کر کے پیش کیا تھا۔ (اعجاز عبید)
  3. کمخواب کا املا کمخاب بھی ہے مگر کمخواب قابلِ ترجیح ہے، خصوصاً اس شعر میں (حامد علی خان)

غزل

نالۂ دل میں شب اندازِ اثر نایاب تھا
تھا سپندِ بزمِ وصلِ غیر، گو بیتاب تھا

دیکھتے تھے ہم بچشمِ خود وہ طوفانِ بلا
آسمانِ سفلہ جس میں یک کفِ سیلاب تھا

موج سے پیدا ہوئے پیراہنِ دریا میں خار
گریہ وحشت بے قرارِ جلوۂ مہتاب تھا

جوشِ تکلیفِ تماشا محشرستانِ [1] نگاہ
فتنۂ خوابیدہ کو آئینہ مشتِ آب تھا

بے دلی ہائے اسدؔ افسردگی آہنگ تر
یادِ ایّامے کہ ذوقِ صحبتِ احباب تھا

مَقدمِ سیلاب سے دل کیا نشاط آہنگ ہے!
خانۂ عاشق مگر سازِ صدائے آب تھا

نازشِ ایّامِ خاکستر نشینی، کیا کہوں
پہلوئے اندیشہ، وقفِ بسترِ سنجاب تھا

کچھ نہ کی اپنے جُنونِ نارسا نے، ورنہ یاں
ذرّہ ذرّہ روکشِ خُرشیدِ عالم تاب تھا

ق

آج کیوں پروا نہیں اپنے اسیروں کی تجھے؟
کل تلک تیرا بھی دل مہر و وفا کا باب تھا

یاد کر وہ دن کہ ہر یک حلقہ تیرے دام کا
انتظارِ صید میں اِک دیدۂ بیخواب تھا

میں نے روکا رات غالبؔ کو، وگرنہ دیکھتے
اُس کے سیلِ گریہ میں، گردُوں کفِ سیلاب تھا

  1. نسخۂ حمیدیہ میں ” محشر آبادِ نگاہ” (جویریہ مسعود)

غزل

کس کا جنونِ دید تمنّا شکار تھا؟
آئینہ خانہ وادیِ جوہر غبار تھا

کس کا خیال آئینۂ انتظار تھا
ہر برگِ گل کے پردے میں دل بے قرار تھا

ایک ایک قطرے کا مجھے دینا پڑا حساب
خونِ جگر ودیعتِ مژگانِ یار تھا

اب میں ہوں اور ماتمِ یک شہرِ آرزو
توڑا جو تو نے آئینہ، تمثال دار تھا

گلیوں میں میری نعش کو کھینچے پھرو، کہ میں
جاں دادۂ ہوائے سرِ رہگزار تھا

موجِ سرابِ دشتِ وفا کا نہ پوچھ حال
ہر ذرہ، مثلِ جوہرِ تیغ، آب دار تھا

کم جانتے تھے ہم بھی غمِ عشق کو، پر اب
دیکھا تو کم ہوئے پہ غمِ روزگار تھا


غزل

بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا

گریہ چاہے ہے خرابی مرے کاشانے کی
در و دیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا

وائے دیوانگیِ شوق کہ ہر دم مجھ کو
آپ جانا اُدھر اور آپ ہی حیراں [1] ہونا

جلوہ از بسکہ تقاضائے نگہ کرتا ہے
جوہرِ آئینہ بھی چاہے ہے مژگاں ہونا

عشرتِ قتل گہِ اہل تمنا، مت پوچھ
عیدِ نظّارہ ہے شمشیر کا عریاں ہونا

لے گئے خاک میں ہم داغِ تمنائے نشاط
تو ہو اور آپ بہ صد رنگِ گلستاں ہونا

عشرتِ پارۂ دل، زخمِ تمنا کھانا
لذت ریشِ جگر، غرقِ نمکداں ہونا

کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا

حیف اُس چار گرہ کپڑے کی قسمت [2] غالبؔ!
جس کی قسمت میں ہو عاشق کا گریباں ہونا

  1. نسخۂ طاہر میں ” پریشاں” (جویریہ مسعود)
  2. بعض حضرات "قسمت” کی جگہ "قیمت” لکھتے ہیں اور پڑھتے ہیں لیکن یہاں "قسمت” ہی ہے (حامد علی خان)

غزل

شب خمارِ شوقِ ساقی رستخیز اندازہ تھا
تا محیطِ بادہ صورت خانۂ خمیازہ تھا

یک قدم وحشت سے درسِ دفتر امکاں کھلا
جادہ، اجزائے دو عالم دشت کا شیرازہ تھا

مانعِ وحشت خرامی ہائے لیلےٰ کون ہے؟
خانۂ مجنونِ صحرا گرد بے دروازہ تھا

پوچھ مت رسوائیِ اندازِ استغنائے حسن
دست مرہونِ حنا، رخسار رہنِ غازہ تھا

نالۂ دل نے دیئے اوراقِ لختِ دل بہ باد
یادگارِ نالہ اک دیوانِ بے شیرازہ تھا

ہوں چراغانِ ہوس جوں کاغذِ آتش زدہ
داغ گرمِ کوششِ ایجادِ داغِ تازہ تھا

بے نوائی تر صدائے نغمۂ شہرت اسدؔ
بوریا یک نیستاں عالم بلند دروازہ [1] تھا

  1. نسخۂ حمیدیہ میں "آوازہ” بجائے "دروازہ” (جویریہ مسعود)

غزل

دوست غمخواری میں میری سعی فرمائیں [1] گے کیا
زخم کے بھرنے تلک ناخن نہ بڑھ جائیں گے کیا

بے نیازی حد سے گزری بندہ پرور، کب تلک
ہم کہیں گے حالِ دل، اور آپ فرمائیں گے ‘کیا’؟

حضرتِ ناصح گر آئیں، دیدہ و دل فرشِ راہ
کوئی مجھ کو یہ تو سمجھا دو کہ سمجھائیں گے کیا؟

آج واں تیغ و کفن باندھے ہوئے جاتا ہوں میں
عذر میرے قتل کرنے میں وہ اب لائیں گے کیا

گر کیا ناصح نے ہم کو قید، اچھا یوں سہی
یہ جنونِ عشق کے انداز چھٹ جائیں گے کیا

خانہ زادِ زلف ہیں، زنجیر سے بھاگیں گے کیوں
ہیں گرفتارِ وفا، زنداں سے گھبرائیں گے کیا

ہے اب اس معمورے میں قحطِ غمِ الفت اسدؔ
ہم نے یہ مانا کہ دلّی میں رہیں [2]، کھائیں گے کیا؟

  1. قدیم نسخوں میں قافیے "فرماویں، جاویں” وغیرہ چھپے ہیں۔ بعد کے نسخوں میں "فرمائیں، جائیں” وغیرہ قافیے درج ہیں، مثلاً شو نرائن اور طباطبائی۔ (حامد علی خاں)
  2. بعض لوگوں کی زبان پر "رہیں: کے بجائے "رہے” بھی ہے۔ اس کا سبب ایک پرانے نسخے کا اندراج ہے مگر اکثر نسخوں میں "رہیں” درج ہے۔ (حامد علی خاں)

غزل

یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے، یہی انتظار ہوتا

ترے وعدے پر جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے، اگر اعتبار ہوتا

تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا

کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی، جو جگر کے پار ہوتا

یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا

رگِ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو، یہ اگر شرار ہوتا

غم اگرچہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غمِ عشق گر نہ ہوتا، غم روزگار ہوتا

کہوں کس سے میں کہ کیا ہے؟ شب غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا

ہوئے مر کے ہم جو رسوا، ہوئے کیوں نہ غرق دریا؟
نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا

اسے کون دیکھ سکتا، کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا

یہ مسائل تصّوف یہ ترا بیان غالبؔ
تجھے ہم ولی سمجھتے، جو نہ بادہ خوار ہوتا


غزل

ہوس کو ہے نشاطِ کار کیا کیا
نہ ہو مرنا تو جینے کا مزا کیا

تجاہل پیشگی سے مدعا کیا
کہاں تک اے سراپا ناز کیا کیا؟

نوازش ہائے بے جا دیکھتا ہوں
شکایت ہائے رنگیں کا گلا کیا

نگاہِ بے محابا چاہتا ہوں
تغافل ہائے تمکیں آزما کیا

فروغِ شعلۂ خس یک نفَس ہے
ہوس کو پاسِ ناموسِ وفا کیا

نفس موجِ محیطِ بیخودی ہے
تغافل ہائے ساقی کا گلا کیا

دماغِ عطر پیراہن نہیں ہے
غمِ آوارگی ہائے صبا کیا

دلِ ہر قطرہ ہے سازِ "انا البحر”
ہم اس کے ہیں، ہمارا پوچھنا کیا

محابا کیا ہے، مَیں ضامن، اِدھر دیکھ
شہیدانِ نگہ کا خوں بہا کیا

سن اے غارت گرِ جنسِ وفا، سن
شکستِ قیمتِ دل [1] کی صدا کیا

کیا کس نے جگر داری کا دعویٰ؟
شکیبِ خاطرِ عاشق بھلا کیا

یہ قاتل وعدۂ صبر آزما کیوں؟
یہ کافر فتنۂ طاقت ربا کیا؟

بلائے جاں ہے غالبؔ اس کی ہر بات
عبارت کیا، اشارت کیا، ادا کیا!

  1. ایک نسخے میں "قیمتِ دل” کی جگہ "شیشۂ دل” لکھا ہے۔ (حامد علی خاں)

غزل

درخورِ قہر و غضب جب کوئی ہم سا نہ ہوا
پھر غلط کیا ہے کہ ہم سا کوئی پیدا نہ ہوا

بندگی میں بھی وہ آزادہ و خودبیں ہیں، کہ ہم
الٹے پھر آئے، درِ کعبہ اگر وا نہ ہوا

سب کو مقبول ہے دعویٰ تری یکتائی کا
روبرو کوئی بتِ آئینہ سیما نہ ہوا

کم نہیں نازشِ ہمنامیِ چشمِ خوباں
تیرا بیمار، برا کیا ہے؟ گر اچھا نہ ہوا

سینے کا داغ ہے وہ نالہ کہ لب تک نہ گیا
خاک کا رزق ہے وہ قطرہ کہ دریا نہ ہوا

نام کا میرے ہے جو دکھ کہ کسی کو نہ ملا
کام میں میرے ہے جو فتنہ کہ برپا نہ ہوا [1]

ہر بُنِ مو سے دمِ ذکر نہ ٹپکے خونناب
حمزہ کا قِصّہ ہوا، عشق کا چرچا نہ ہوا

قطرے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کُل
کھیل لڑکوں کا ہوا، دیدۂ بینا نہ ہوا

تھی خبر گرم کہ غالبؔ کے اُڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گئے تھے، پہ تماشا نہ ہوا

  1. کام کا ہے مرے وہ فتنہ کہ برپا نہ ہوا (نسخۂ حسرت، نسخۂ مہر) (جویریہ مسعود)

مزید: نسخۂ مہر اور حسرت موہانی میں یہ شعر یوں ملتا ہے:

نام کا ہے میرے وہ دکھ جو کسی کو نہ ملا
کام کا ہے مِرے وہ فتنہ کہ برپا نہ ہوا

اس ترتیب الفاظ کے ظاہری حسن کے باوجود دوسرے قدیم و جدید نسخے سے یہ ثبوت نہیں ملا کہ غالب نے خود یہ شعر یوں بدل دیا تھا۔ غالب کو شاید دوسرے مصرع کا وہ مفہوم مطلوب ہی نہ تھا جو "کام کا” سے پیدا ہوتا ہے۔ دوسرے قدیم و جدید نسخوں کے علاوہ عرشی، طباطبائی، مالک رام اور بیخود دہلوی کے نسخوں میں بھی یہ شعر یوں ہی ملا ہے جیسا کہ متن میں درج ہوا ہے اور نسخۂ نظامی مطبوعۂ 1862 میں بھی اسی طرح چھپا ہے۔ (حاشیہ از حامد علی خاں


شعر

اسدؔ ہم وہ جنوں جولاں گدائے بے سر و پا ہیں
کہ ہے سر پنجۂ مژگانِ آہو پشت خار اپنا


غزل

پئے نذرِ کرم تحفہ ہے ‘شرمِ نا رسائی’ کا
بہ خوں غلطیدۂ صد رنگ، دعویٰ پارسائی کا

[1] نہ ہو’ حسنِ تماشا دوست’ رسوا بے وفائی کا
بہ مہرِ صد نظر ثابت ہے دعویٰ پارسائی کا

جہاں مٹ جائے سعیِ دید خضر آبادِ آسایش
بجیبِ ہر نگہ پنہاں ہے حاصل رہنمائی کا

بہ عجز آبادِ وہمِ مدّعا تسلیمِ شوخی ہے
تغافل یوں [2] نہ کر مغرور تمکیں آزمائی کا

زکاتِ حسن دے، اے جلوۂ بینش، کہ مہر آسا
چراغِ خانۂ درویش ہو کاسہ گدائی کا

نہ مارا جان کر بے جرم، غافل! [3] تیری گردن پر
رہا مانند خونِ بے گنہ حق آشنائی کا

تمنائے زباں محوِ سپاسِ بے زبانی ہے
مٹا جس سے تقاضا شکوۂ بے دست و پائی کا

وہی اک بات ہے جو یاں نفَس واں نکہتِ گل ہے
چمن کا جلوہ باعث ہے مری رنگیں نوائی کا

دہانِ ہر” بتِ پیغارہ جُو”، زنجیرِ رسوائی
عدم تک بے وفا چرچا ہے تیری بے وفائی کا

نہ دے نامے کو اتنا طول غالبؔ، مختصر لکھ دے
کہ حسرت سنج ہوں عرضِ ستم ہائے جدائی کا

  1. یہ شعر نسخۂ بھوپال بخطِ غالب میں ایک علیحدہ غزل کا مطلع ہے جس کا ایک اور شعر یہ ہے:
    تمنائے زباں محوِ سپاسِ بے زبانی ہے
    مٹا جس سے تقاضا شکوۂ بے دست و پائی کا
    درمیان میں تین مزید اشعار اور آخر میں مطلع بھی ہے (اعجاز عبید)
  2. اصل نسخے میں ’یوں‘ غالباً چھوٹ گیا ہے۔ (اعجاز عبید) مزید: نسخۂ حمیدیہ میں ” تغافل کو نہ کر” بجائے ” تغافل یوں نہ کر” (جویریہ مسعود)
  3. نسخۂ حمیدیہ، نظامی، حسرت اور مہر کے نسخوں میں لفظ ’قاتل‘ ہے (جویریہ مسعود) مزید: نسخۂ نظامی، نسخۂ حمیدیہ، نیز دیگر تمام پیشِ نظر قدیم نسخوں میں یہاں لفظ "غافل” ہی چھپا ہے۔ یہی لفظ نسخۂ طباطبائی اور نسخۂ عرشی میں ہے اور یہ منوی لحاظ سے درست بھی معلوم ہوتا ہے مگر نسخۂ حسرت اور نسخۂ مہر دونوں میں یہاں لفظ "قاتل” ملتا ہے۔ شاید اس تبدیلی کا ذمہ دار نسخۂ حسرت کا کاتب ہو۔ (حاشیہ از حامد علی خاں)

غزل

گر نہ "اندوہِ شبِ فرقت” بیاں ہو جائے گا
بے تکلف، داغِ مہ مُہرِ دہاں ہو جائے گا

زہرہ گر ایسا ہی شامِ ہجر میں ہوتا ہے آب
پرتوِ مہتاب سیلِ خانماں ہو جائے گا

لے تو لوں سوتے میں اس کے پاؤں کا بوسہ، مگر
ایسی باتوں سے وہ کافر بد گماں ہو جائے گا

دل کو ہم صرفِ وفا سمجھے تھے، کیا معلوم تھا
یعنی یہ پہلے ہی نذرِ امتحاں ہو جائے گا

سب کے دل میں ہے جگہ تیری، جو تو راضی ہوا
مجھ پہ گویا، اک زمانہ مہرباں ہو جائے گا

گر نگاہِ گرم فرماتی رہی تعلیمِ ضبط
شعلہ خس میں، جیسے خوں رگ میں، نہاں ہو جائے گا

باغ میں مجھ کو نہ لے جا ورنہ میرے حال پر
ہر گلِ تر ایک "چشمِ خوں فشاں” ہو جائے گا

وائے گر میرا ترا انصاف محشر میں نہ ہو
اب تلک تو یہ توقع ہے کہ واں ہو جائے گا

[1] گر وہ مستِ ناز دیوے گا صلائے عرضِ حال
خارِ گُل، بہرِ دہانِ گُل زباں ہو جائے گا

فائدہ کیا؟ سوچ، آخر تو بھی دانا ہے اسدؔ
دوستی ناداں کی ہے، جی کا زیاں ہو جائے گا

  1. نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرع یوں ہے: ” گر وہ مستِ نازِ تمکیں دے صلائے عرضِ حال” (جویریہ مسعود)

غزل

درد مِنّت کشِ دوا نہ ہوا
میں نہ اچھا ہوا، برا نہ ہوا

جمع کرتے ہو کیوں رقیبوں کو
اک تماشا ہوا، گلا نہ ہوا

ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں
تو ہی جب خنجر آزما نہ ہوا

کتنے شیریں ہیں تیرے لب، "کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا”

ہے خبر گرم ان کے آنے کی
آج ہی گھر میں بوریا نہ ہوا

کیا وہ نمرود کی خدائی تھی؟
بندگی میں مرا بھلا نہ ہوا

جان دی، دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یوں [1] ہے کہ حق ادا نہ ہوا

زخم گر دب گیا، لہو نہ تھما
کام گر رک گیا، روا نہ ہوا

رہزنی ہے کہ دل ستانی ہے؟
لے کے دل، "دلستاں” روانہ ہوا

کچھ تو پڑھیے کہ لوگ کہتے ہیں
آج غالبؔ غزل سرا نہ ہوا!

  1. نسخۂ مہر، نسخۂ علامہ آسی میں ‘یوں’ کے بجا ئے "یہ” آیا ہے( جویریہ مسعود) مزید: نسخۂ حسرت موہانی میں یوں کی جگہ "یہ” درج ہے (حاشیہ از حامد علی خان)

غزل

گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگیِ جا کا
گہر میں محو ہوا اضطراب دریا کا

یہ جانتا ہوں کہ تو اور پاسخِ مکتوب!
مگر ستم زدہ ہوں ذوقِ خامہ فرسا کا

حنائے پائے خزاں ہے بہار اگر ہے یہی
دوامِ کلفتِ خاطر ہے عیش دنیا کا

ملی نہ وسعتِ جولانِ یک جنوں ہم کو [1]
عدم کو لے گئے دل میں غبارِ صحرا کا

مرا شمول ہر اک دل کے پیچ و تاب میں ہے
میں مدّعا ہوں تپش نامۂ تمنّا کا

غمِ فراق میں تکلیفِ سیرِ باغ نہ دو
مجھے دماغ نہیں خندہ ہائے [2] بے جا کا

ہنوز محرمیِ حسن کو ترستا ہوں
کرے ہے ہر بُنِ مو کام چشمِ بینا کا

دل اس کو، پہلے ہی ناز و ادا سے، دے بیٹھے
ہمیں دماغ کہاں حسن کے تقاضا کا

نہ کہہ کہ گریہ بہ مقدارِ حسرتِ دل ہے
مری نگاہ میں ہے جمع و خرچ دریا کا

فلک کو دیکھ کے کرتا ہوں اُس کو یاد اسدؔ
جفا میں اُس [3] کی ہے انداز کارفرما کا

  1. نسخۂ مبارک علی میں ’نہ پائی وسعتِ‘ ہے۔ (اعجاز عبید)
  2. نسخۂ نظامی کی املا ہے ’خند ہائے‘ (اعجاز عبید)
  3. نسخۂ نظامی نیز دوسرے قدیم و جدید نسخوں یہاں "اِس” کے بجائے "اُس” درج ہے ۔ "اِس” کا اشارہ فلک کی طرف ہے "کارفرما” محبوب ہے۔ (حامد علی خان)

غزل

قطرۂ مے بس کہ حیرت سے نفَس پرور ہوا
خطِّ جامِ مے سراسر رشتۂ گوہر ہوا

اعتبارِ عشق کی خانہ خرابی دیکھنا
غیر نے کی آہ لیکن وہ خفا مجھ پر ہوا

گرمیِ دولت ہوئی آتش زنِ نامِ نکو
خانۂ ماتم میں یاقوتِ نگیں اخگر [1] ہوا

نشّے میں گُم کردہ رہ آیا وہ مستِ فتنہ خو
آج رنگِ رفتہ دورِ گردشِ ساغر ہوا

درد سے در پردہ دی مژگاں سیاہاں نے شکست
ریزہ ریزہ استخواں کا پوست میں نشتر ہوا

اے بہ ضبطِ حال خو نا کردگاں [2] جوشِ جنوں
نشّۂ مے ہے اگر یک پردہ نازک تر ہوا

زُہد گر دیدن ہے گِردِ خانہ ہائے منعماں
دانۂ تسبیح سے میں مہرہ در ششدر ہوا

اس چمن میں ریشہ واری جس نے سر کھینچا اسدؔ
تر زبانِ شکرِ لطفِ ساقیِ کوثر ہوا

  1. نسخۂ حمیدیہ میں "اخگر”، شیرانی و عرشی میں "اختر” (جویریہ مسعود)
  2. نسخۂ حمیدیہ میں "نا افسردگاں”، شیرانی و عرشی میں "خو نا کردگاں” (جویریہ مسعود)

شعر

جب بہ تقریبِ سفر یار نے محمل باندھا
تپشِ شوق نے ہر ذرّے پہ اک دل باندھا

اہل بینش نے بہ حیرت کدۂ شوخیِ ناز
جوہرِ آئینہ کو طوطیِ بسمل باندھا

یاس و امید نے اک عرَبدہ میداں مانگا
عجزِ ہمت نے طِلِسمِ دلِ سائل باندھا

نہ بندھے تِشنگیِ ذوق [1] کے مضموں، غالبؔ
گرچہ دل کھول کے دریا کو بھی ساحل باندھا

  1. بعض جدید نسخوں میں یہاں "شوق” درج ہے مگر غالب ہی کے کلام سے ثبوت ملتا ہے کہ بعض مقامات پر جہاں آج کل ہم "شوق” استعمال کرتے ہیں، وہاں غالب نے "ذوق” لکھا ۔ (حامد علی خان)

شعر

میں اور بزمِ مے سے یوں تشنہ کام آؤں
گر میں نے کی تھی توبہ، ساقی کو کیا ہوا تھا؟

ہے ایک تیر جس میں دونوں چھِدے پڑے ہیں
وہ دن گئے کہ اپنا دل سے جگر جدا تھا

درماندگی میں غالبؔ کچھ بن پڑے تو جانوں
جب رشتہ بے گرہ تھا، ناخن گرہ کشا تھا


شعر

گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا
بحر گر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا

تنگیِ دل کا گلہ کیا؟ یہ وہ کافر دل ہے
کہ اگر تنگ نہ ہوتا تو پریشاں ہوتا

بعد یک عمرِ وَرع بار تو دیتا بارے
کاش رِضواں ہی درِ یار کا درباں ہوتا


شعر

نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا
ڈُبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

ہُوا جب غم سے یوں بے حِس تو غم کیا سر کے کٹنے کا
نہ ہوتا گر جدا تن سے تو زانو پر دھرا ہوتا

ہوئی مدت کہ غالبؔ مرگیا، پر یاد آتا ہے
وہ ہر اک بات پر کہنا کہ یوں ہوتا تو کیا ہوتا


غزل

یک ذرۂ زمیں نہیں بے کار باغ کا
یاں جادہ بھی فتیلہ ہے لالے کے داغ کا

بے مے کِسے ہے طاقتِ آشوبِ آگہی
کھینچا ہے عجزِ حوصلہ نے خط ایاغ کا

بُلبل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گل
کہتے ہیں جس کو عشق خلل ہے دماغ کا

تازہ نہیں ہے نشۂ فکرِ سخن مجھے
تِریاکیِ قدیم ہوں دُودِ چراغ کا

سو بار بندِ عشق سے آزاد ہم ہوئے
پر کیا کریں کہ دل ہی عدو ہے فراغ کا

بے خونِ دل ہے چشم میں موجِ نگہ غبار
یہ مے کدہ خراب ہے مے کے سراغ کا

باغِ شگفتہ تیرا بساطِ نشاطِ دل
ابرِ بہار خمکدہ کِس کے دماغ کا!

جوشِ بہار کلفتِ نظّارہ ہے اسدؔ
ہے ابر پنبہ روزنِ دیوارِ باغ کا


غزل

وہ میری چینِ جبیں سے غمِ پنہاں سمجھا
رازِ مکتوب بہ بے ربطیِ عنواں سمجھا

یک الِف بیش نہیں صیقلِ آئینہ ہنوز
چاک کرتا ہوں میں جب سے کہ گریباں سمجھا

ہم نے وحشت کدۂ بزمِ جہاں میں جوں شمع
شعلۂ عشق کو اپنا سر و ساماں سمجھا

شرحِ اسبابِ گرفتاریِ خاطر مت پوچھ
اس قدر تنگ ہوا دل کہ میں زنداں سمجھا

بد گمانی نے نہ چاہا اسے سرگرمِ خرام
رخ پہ ہر قطرہ عرق دیدۂ حیراں سمجھا

عجز سے اپنے یہ جانا کہ وہ بد خو ہو گا
نبضِ خس سے تپشِ شعلۂ سوزاں سمجھا

سفرِ عشق میں کی ضعف نے راحت طلبی
ہر قدم سائے کو میں اپنے شبستان سمجھا

تھا گریزاں مژۂ یار سے دل تا دمِ مرگ
دفعِ پیکانِ قضا اِس قدر آساں سمجھا

دل دیا جان کے کیوں اس کو وفادار، اسدؔ
غلطی کی کہ جو کافر کو مسلماں سمجھا


غزل

پھر مجھے دیدۂ تر یاد آیا
دل، جگر تشنۂ فریاد آیا

دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز
پھر ترا وقتِ سفر یاد آیا

سادگی ہائے تمنا، یعنی
پھر وہ نیرنگِ نظر [1] یاد آیا

عذرِ واماندگی، اے حسرتِ دل!
نالہ کرتا تھا، جگر یاد آیا

زندگی یوں بھی گزر ہی جاتی
کیوں ترا راہ گزر یاد آیا

کیا ہی رضواں سے لڑائی ہو گی
گھر ترا خلد میں گر یاد آیا

آہ وہ جرأتِ فریاد کہاں
دل سے تنگ آ کے جگر یاد آیا

پھر تیرے کوچے کو جاتا ہے خیال
دلِ گم گشتہ، مگر، یاد آیا

کوئی ویرانی سی ویرانی ہے
دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا

میں نے مجنوں پہ لڑکپن میں اسدؔ
سنگ اٹھایا تھا کہ سر یاد آیا

  1. حامد علی خاں کے نسخے میں نیرنگِ نظر کے گاف پر اضافت نہیں (جویریہ مسعود) ملاحظہ ہو ان کا حاشیہ: بہت سے نسخوں میں "نیرنگ نظر ” کی جگہ ” نیرنگِ نظر چھپا ہے جو صحیح نہیں۔ (حامد علی خان)

غزل

ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا
آپ آتے تھے، مگر کوئی عناں گیر بھی تھا

تم سے بے جا ہے مجھے اپنی تباہی کا گلہ
اس میں کچھ شائبۂ خوبیِ تقدیر بھی تھا

تو مجھے بھول گیا ہو تو پتا بتلا دوں؟
کبھی فتراک میں تیرے کوئی نخچیر بھی تھا

قید میں ہے ترے وحشی کو وہی زلف کی یاد
ہاں! کچھ اک رنجِ گرانباریِ زنجیر بھی تھا

بجلی اک کوند گئی آنکھوں کے آگے تو کیا!
بات کرتے، کہ میں لب تشنۂ تقریر بھی تھا

یوسف اس کو کہوں اور کچھ نہ کہے، خیر ہوئی
گر بگڑ بیٹھے تو میں لائقِ تعزیر بھی تھا

دیکھ کر غیر کو ہو کیوں نہ کلیجا ٹھنڈا
نالہ کرتا تھا، ولے طالبِ تاثیر بھی تھا

پیشے میں عیب نہیں، رکھیے نہ فرہاد کو نام
ہم ہی آشفتہ سروں میں وہ جواں میر بھی تھا

ہم تھے مرنے کو کھڑے، پاس نہ آیا، نہ سہی
آخر اُس شوخ کے ترکش میں کوئی تیر بھی تھا

پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا؟

ریختے کے تمہیں استاد نہیں ہو غالبؔ
کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا


غزل

لبِ خشک در تشنگی، مردگاں کا
زیارت کدہ ہوں دل آزردگاں کا

شگفتن کمیں گاہِ [1] تقریب جوئی
تصوّر ہوں بے موجب آزردگاں کا

غریبِ ستم دیدۂ [2] باز کشتن
سخن ہوں سخن بر لب آوردگاں کا

سراپا یک آئینہ دارِ شکستن
ارادہ ہوں یک عالم افسردگاں کا

ہمہ نا امیدی، ہمہ بد گمانی
میں دل ہوں فریبِ وفا خوردگاں کا

بصورت تکلّف، بمعنی تاسّف
اسدؔ میں تبسّم ہوں پژمردگاں کا

  1. نسخۂ حمیدیہ میں ” کمیں دارِ” (جویریہ مسعود)
  2. نسخۂ حمیدیہ میں "غریبِ بدر جستۂ” بجائے ” غریبِ ستم دیدۂ” (جویریہ مسعود)

غزل

تو دوست کسی کا بھی، ستمگر! نہ ہوا تھا
اوروں پہ ہے وہ ظلم کہ مجھ پر نہ ہوا تھا

چھوڑا مہِ نخشب کی طرح دستِ قضا نے
خورشید ہنوز اس کے برابر نہ ہوا تھا

توفیق بہ اندازۂ ہمت ہے ازل سے
آنکھوں میں ہے وہ قطرہ کہ گوہر نہ ہوا تھا

جب تک کہ نہ دیکھا تھا قدِ یار کا عالم
میں معتقدِ فتنۂ محشر نہ ہوا تھا

میں سادہ دل، آزردگیِ یار سے خوش ہوں
یعنی سبقِ شوقِ مکرّر نہ ہوا تھا

دریائے معاصی تنک آبی سے ہوا خشک
میرا سرِ دامن بھی ابھی تر نہ ہوا تھا

جاری تھی اسدؔ! داغِ جگر سے مِری [1] تحصیل
آتشکدہ جاگیرِ سَمَندر نہ ہوا تھا

  1. مروجہ نسخوں کی اکثریت میں یہاں "مِرے” چھپا ہے۔ مطلب یہ کہ ” میرے داغِ جگر سے تحصیل جاری تھی” مگر سوال یہ ہے کہ سمندر کے مقابلے میں یہاں کون تحصیلِ آتش کر رہا تھا؟ اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔ جب تک یہاں "مِرے” کی بجائے "مِری” نہ پڑھا جائے یعنی داغِ جگر سے میری تحصیلِ تب و تاب اس وقت بھی جاری تھی جب کہ سمندر تک کو آتش کدہ عطا نہ ہوا تھا ۔ نسخۂ نظامی میں "مِری ہی چھپا ہے مگر قدیم نسخوں میں تو "مِرے” کو بھی "مِری” ہی لکھا جاتا تھا۔ لہٰذا صرف معنوی دلیل ہی متن کے اندراج کے حق میں دی جا سکتی ہے۔ حسرت موہانی اور عرشی کا بھی غالباً اسی دلیل پر اتفاق ہو گا۔ ان دونوں کے سوا شاید اور کسی فاضل مرتبِ دیوان غالب نے یہاں "مِری” نہیں لکھا۔ (حامد علی خاں)

غزل

شب کہ وہ مجلس فروزِ خلوتِ ناموس تھا
رشتۂٴ ہر شمع خارِ کِسوتِ فانوس تھا

بت پرستی ہے بہارِ نقش بندی ہائے دہر
ہر صریرِ خامہ میں اک نالۂ ناقوس تھا

مشہدِ عاشق سے کوسوں تک جو اُگتی ہے حنا
کس قدر یا رب! ہلاکِ حسرتِ پابوس تھا

حاصلِ الفت نہ دیکھا جز شکستِ آرزو
دل بہ دل پیوستہ، گویا، یک لبِ افسوس تھا

کیا کروں بیماریِ غم کی فراغت کا بیاں
جو کہ کھایا خونِ دل، بے منتِ کیموس تھا

کل اسدؔ کو ہم نے دیکھا گوشۂ [1] غم خانہ میں
دست بر سر، سر بزانوئے دلِ مایوس تھا

  1. نسخۂ مبارک علی میں لفظ ’مے خانہ‘ ہے۔ (اعجاز عبید)

شعر

آئینہ دیکھ، اپنا سا منہ لے کے رہ گئے
صاحب کو دل نہ دینے پہ کتنا غرور تھا

قاصد کو اپنے ہاتھ سے گردن نہ ماریے
اس کی خطا نہیں ہے یہ میرا قصور تھا


شعر

ضعفِ جنوں کو وقتِ تپش در بھی دور تھا
اک گھر میں مختصر سا بیاباں ضرور تھا


شعر

فنا کو عشق ہے بے مقصداں حیرت پرستاراں
نہیں رفتارِ عمرِ تیز رو پابندِ مطلب ہا


غزل

عرضِ نیازِ عشق کے قابل نہیں رہا
جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا

جاتا ہوں داغِ حسرتِ ہستی لیے ہوئے
ہوں شمعِ کشتہ درخورِ محفل نہیں رہا

مرنے کی اے دل اور ہی تدبیر کر کہ میں
شایانِ دست و خنجرِ قاتل نہیں رہا

بر روئے شش جہت درِ آئینہ باز ہے
یاں امتیازِ ناقص و کامل نہیں رہا

وا کر دیے ہیں شوق نے بندِ نقابِ حسن
غیر از نگاہ اب کوئی حائل نہیں رہا

گو میں رہا رہینِ ستم ہائے روزگار
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا

دل سے ہوائے کشتِ وفا مٹ گئی کہ واں
حاصل سوائے حسرتِ حاصل نہیں رہا

[1] جاں دادگاں کا حوصلہ فرصت گداز ہے
یاں عرصۂ تپیدنِ بِسمل نہیں رہا

ہوں قطرہ زن بمرحلۂ یاس روز و شب [2]
جُز تارِ اشک جادۂ منزل نہیں رہا

اے آہ میری خاطرِ وابستہ کے سوا
دنیا میں کوئی عقدۂ مشکل نہیں رہا

بیدادِ عشق سے نہیں ڈرتا مگر اسدؔ [3]
جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا

  1. یہ تین اشعار نسخہ بھوپال میں ہیں، اس مصرعے میں نسخۂ عرشی میں لفظ ’فرصت گزار‘ ہے (اعجاز عبید)
  2. نسخۂ مبارک علی(اور نسخۂ حمیدیہ) میں ہے ’ہوں قطرہ زن بوادیِ حسرت شبانہ روز‘ (اعجاز عبید)
  3. نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرع یوں ہے: انداز نالہ یاد ہیں سب مجھ کو پر اسد ۔ (جویریہ مسعود)

غزل

خود پرستی سے رہے باہم دِگر نا آشنا
بے کسی میری شریکِ آئینہ تیرا آشنا

آتشِ موئے دماغِ شوق ہے تیرا تپاک
ورنہ ہم کس کے ہیں اے داغِ تمنّا، آشنا

جوہرِ آئینہ جز رمزِ سرِ مژگاں نہیں
آشنائی [1] ہم دِگر سمجھے ہے ایما آشنا

ربطِ یک شیرازۂ وحشت ہیں اجزائے بہار
سبزہ بیگانہ، صبا آوارہ، گل نا آشنا

رشک کہتا ہے کہ اس کا غیر سے اخلاص حیف!
عقل کہتی ہے کہ وہ بے مہر کس کا آشنا

ذرّہ ذرّہ ساغرِ مے خانۂ نیرنگ ہے
گردشِ مجنوں بہ چشمک ‌ہائے لیلیٰ آشنا

شوق ہے "ساماں طرازِ نازشِ اربابِ عجز”
ذرّہ صحرا دست گاہ و قطرہ دریا آشنا

میں اور ایک آفت کا ٹکڑا وہ دلِ وحشی، کہ ہے
عافیت کا دشمن اور آوارگی کا آشنا

شکوہ سنجِ رشکِ ہم دیگر نہ رہنا چاہیے
میرا زانو مونس اور آئینہ تیرا آشنا

کوہکن "نقّاشِ یک تمثالِ شیریں” تھا اسدؔ
سنگ سے سر مار کر ہووے نہ پیدا آشنا

  1. نسخۂ حمیدیہ میں ” آشنا کی” بجائے "آشنائی” (جویریہ مسعود)

غزل

ذکر اس پری وش کا، اور پھر بیاں اپنا
بن گیا رقیب آخر، تھا جو رازداں اپنا

مے وہ کیوں بہت پیتے بزمِ غیر میں یا رب
آج ہی ہوا منظور اُن کو امتحاں اپنا

منظر اک بلندی پر اور ہم بنا سکتے
عرش سے اُدھر [1] ہوتا، کاشکے مکاں اپنا

دے وہ جس قد ر ذلت ہم ہنسی میں ٹالیں گے
بارے آشنا نکلا، ان کا پاسباں، اپنا

دردِ دل لکھوں کب تک، جاؤں ان کو دکھلا دوں
انگلیاں فگار اپنی، خامہ خونچکاں اپنا

گھستے گھستے مٹ جاتا، آپ نے عبث بدلا
ننگِ سجدہ سے میرے، سنگِ آستاں اپنا

تا کرے نہ غمازی، کر لیا ہے دشمن کو
دوست کی شکایت میں ہم نے ہمزباں اپنا

ہم کہاں کے دانا تھے، کس ہنر میں یکتا تھے
بے سبب ہوا غالبؔ دشمن آسماں اپنا

  1. اکثر نسخوں میں "اُدھر” کی جگہ "اِدھر” چھپا ہے ۔ نسخۂ حمیدیہ میں "پرے” چھپا ہے۔ شعر کا صحیح مفہوم "اُدھر” یا "پرے” سے ادا ہوتا ہے۔ "اِدھر” لکھنے والوں نے اس شعر کی جو شرحیں لکھی ہیں وہ تسلی بخش نہیں ہیں۔ ) نسخۂ نظامی : "اِدھر”) (حامد علی خاں)

غزل

طاؤس در رکاب ہے ہر ذرّہ آہ کا
یا رب نفس غبار ہے کس جلوہ گاہ کا؟

عزّت گزینِ [1] بزم ہیں واماندگانِ دید
مینائے مے ہے آبلہ پائے نگاہ کا

ہر گام آبلے سے ہے دل در تہِ قدم
کیا بیم اہلِ درد کو سختیِ راہ کا

جَیبِ نیازِ عشق نشاں دارِ ناز ہے
آئینہ ہوں شکستنِ طرفِ کلاہ کا

سرمۂ مفتِ نظر ہوں مری قیمت [2] یہ ہے
کہ رہے چشمِ خریدار پہ احساں میرا

رخصتِ نالہ مجھے دے کہ مبادا ظالم
تیرے چہرے سے ہو ظاہر [3] غمِ پنہاں میرا

  1. نسخۂ حمیدیہ میں "عزلت گزینِ” بجائے ” عزّت گزینِ” (جویریہ مسعود)
  2. نسخۂ آگرہ، منشی شیو نارائن، 1863ء میں ’مری قسمت‘ (اعجاز عبید)
  3. نسخۂ حسرت موہانی میں "ہو ظاہر” کی جگہ "عیاں ہو” چھپا ہے۔ (حامد علی خان)

غزل

غافل بہ وہمِ ناز خود آرا ہے ورنہ یاں
بے شانۂ صبا نہیں طُرّہ گیاہ کا

بزمِ قدح سے عیشِ تمنا نہ رکھ، کہ رنگ
صید ز دام جستہ ہے اس دام گاہ کا

رحمت اگر قبول کرے، کیا بعید ہے
شرمندگی سے عذر نہ کرنا گناہ کا

مقتل کو کس نشاط سے جا تا ہو ں میں، کہ ہے
پُرگُل خیالِ زخم سے دامن نگاہ کا

جاں در” ہوائے یک نگہِ گرم” ہے اسدؔ
پروانہ ہے وکیل ترے داد خواہ کا


غزل

جور سے باز آئے پر باز آئیں کیا
کہتے ہیں ہم تجھ کو منہ دکھلائیں کیا

رات دن گردش میں ہیں سات آسماں
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا

لاگ ہو تو اس کو ہم سمجھیں لگاؤ
جب نہ ہو کچھ بھی تو دھوکا کھائیں کیا

ہو لیے کیوں نامہ بر کے ساتھ ساتھ
یا رب اپنے خط کو ہم پہنچائیں کیا

موجِ خوں سر سے گزر ہی کیوں نہ جائے
آستانِ یار سے اٹھ جائیں کیا

عمر بھر دیکھا کیے مرنے کی راہ
مر گیے پر دیکھیے دکھلائیں کیا

پوچھتے ہیں وہ کہ غالبؔ کون ہے
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا


غزل

بہارِ رنگِ خونِ دل [1] ہے ساماں اشک باری کا
جنونِ برق نشتر ہے رگِ ابرِ بہاری کا

برائے حلِّ مشکل ہوں ز پا افتادۂ حسرت
بندھا ہے عقدۂ خاطر سے پیماں خاکساری کا

بوقتِ سر نگونی ہے تصوّر انتظارستاں کا
نگہ کو سالوں [2] سے شغل ہے اختر شماری کا

لطافت بے کثافت جلوہ پیدا کر نہیں سکتی
چمن زنگار ہے آئینۂ بادِ بہاری کا

حریفِ جوششِ دریا نہیں خود داریِ ساحل
جہاں ساقی ہو تو باطل ہے دعویٰ ہوشیاری کا

اسدؔ ساغر کشِ تسلیم ہو گردش سے گردوں کی
کہ ننگِ فہمِ مستاں ہے گلہ بد روزگاری کا

  1. نسخۂ حمیدیہ میں "خونِ گل” بجائے ” خونِ دل” (جویریہ مسعود)
  2. نسخۂ حمیدیہ میں ” آبلوں سے” بجائے "سالوں سے” ہو سکتا ہے نسخۂ حمیدیہ میں سہو کتابت ہو (جویریہ مسعود)

غزل

عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا

تجھ سے، قسمت میں مری، صورتِ قفلِ ابجد
تھا لکھا بات کے بنتے ہی جدا ہو جانا

دل ہوا کشمکشِ چارۂ زحمت میں تمام
مِٹ گیا گھِسنے میں اُس عُقدے کا وا ہو جانا

اب جفا سے بھی ہیں محروم ہم اللہ اللہ
اس قدر دشمنِ اربابِ وفا ہو جانا

ضعف سے گریہ مبدّل بہ دمِ سرد ہوا
باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا

دِل سے مِٹنا تری انگشتِ حنائی کا خیال
ہو گیا گوشت سے ناخن کا جُدا ہو جانا

ہے مجھے ابرِ بہاری کا برس کر کھُلنا
روتے روتے غمِ فُرقت میں فنا ہو جانا

گر نہیں نکہتِ گل کو ترے کوچے کی ہوس
کیوں ہے گردِ رہِ جَولانِ صبا ہو جانا

تاکہ تجھ پر کھُلے اعجازِ ہوائے صَیقل
دیکھ برسات میں سبز آئنے کا ہو جانا

بخشے ہے جلوۂ گُل، ذوقِ تماشا غالبؔ
چشم کو چاہیے ہر رنگ میں وا ہو جانا


شعر

شکوۂ یاراں غبارِ دل میں پنہاں کر دیا
غالبؔ ایسے گنج کو عیاں یہی ویرانہ تھا


شعر

پھر وہ سوئے چمن آتا ہے خدا خیر کرے
رنگ اڑتا ہے گُلِستاں کے ہوا داروں کا


شعر

اسدؔ! یہ عجز و بے سامانیِ فرعون توَام ہے
جسے تو بندگی کہتا ہے دعویٰ ہے خدائی کا


غزل

بس کہ فعّالِ ما یرید ہے آج
ہر سلحشور انگلستاں کا

گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے
زہرہ ہوتا ہے آب انساں کا

چوک جس کو کہیں وہ مقتل ہے
گھر بنا ہے نمونہ زنداں کا

شہرِ دہلی کا ذرّہ ذرّہ خاک
تشنۂ خوں ہے ہر مسلماں کا

کوئی واں سے نہ آ سکے یاں تک
آدمی واں نہ جا سکے یاں کا

میں نے مانا کہ مل گئے پھر کیا
وہی رونا تن و دل و جاں کا

گاہ جل کر کیا کیے شکوہ
سوزشِ داغ ہائے پنہاں کا

گاہ رو کر کہا کیے باہم
ماجرا دیدہ ہائے گریاں کا

اس طرح کے وصال سے یا رب
کیا مٹے داغ دل سے ہجراں کا


شعر

بہ رہنِ شرم ہے با وصفِ شوخی اہتمام اس کا
نگیں میں جوں شرارِ سنگ نا پیدا ہے نام اس کا

مِسی آلود ہے مُہر نوازش نامہ ظاہر ہے
کہ داغِ آرزوئے بوسہ دیتا ہے پیام اس کا

بامیّدِ نگاہِ خاص ہوں محمل کشِ حسرت
مبادا ہو عناں گیرِ تغافل لطفِ عام اس کا


شعر

عیب کا دریافت کرنا، ہے ہنر مندی اسدؔ
نقص پر اپنے ہوا جو مطلعِ، کامل ہوا


شعر

شب کہ ذوقِ گفتگو سے تیرے، دل بے تاب تھا
شوخیِ وحشت سے افسانہ فسونِ خواب تھا

واں ہجومِ نغمہ ہائے سازِ عشرت تھا اسدؔ
ناخنِ غم یاں سرِ تارِ نفس مضراب تھا


شعر

[1] دود کو آج اس کے ماتم میں سیہ پوشی ہوئی
وہ دلِ سوزاں کہ کل تک شمع، ماتم خانہ تھا

شکوۂ یاراں غبارِ دل میں پنہاں کر دیا
غالبؔ ایسے کنج کو شایاں یہی ویرانہ تھا

  1. نسخۂ مبارک علی میں ’درد‘ ہے لیکن نسخۂ عرشی میں پہلا لفظ ’دود‘ ہے۔ (اعجاز عبید)

ب

غزل

پھر ہوا وقت کہ ہو بال کُشا موجِ شراب
دے بطِ مے کو دل و دستِ شنا موجِ شراب

پوچھ مت وجہ سیہ مستیِ اربابِ چمن
سایۂ تاک میں ہوتی ہے ہَوا موجِ شراب

جو ہوا غرقۂ مے بختِ رسا رکھتا ہے
سر پہ گزرے پہ بھی ہے بالِ ہما موجِ شراب

ہے یہ برسات وہ موسم کہ عجب کیا ہے اگر
موجِ ہستی کو کرے فیضِ ہوا موجِ شراب

چار موج [1] اٹھتی ہے طوفانِ طرب سے ہر سو
موجِ گل، موجِ شفق، موجِ صبا، موجِ شراب

جس قدر روح نباتی ہے جگر تشنۂ ناز
دے ہے تسکیں بَدَمِ آبِ بقا موجِ شراب

بس کہ دوڑے ہے رگِ تاک میں خوں ہو ہو کر
شہپرِ رنگ سے ہے بال کشا موجِ شراب

موجۂ گل سے چراغاں ہے گزر گاہِ خیال
ہے تصوّر میں ز بس جلوہ نما موجِ شراب

نشّے کے پردے میں ہے محوِ تماشائے دماغ
بس کہ رکھتی ہے سرِ نشو و نما موجِ شراب

ایک عالم پہ ہیں طوفانیِ کیفیّتِ فصل
موجۂ سبزۂ نوخیز سے تا موجِ شراب

شرحِ ہنگامۂ مستی ہے، زہے! موسمِ گل
رہبرِ قطرہ بہ دریا ہے، خوشا موجِ شراب

ہوش اڑتے ہیں مرے، جلوۂ گل دیکھ، اسدؔ
پھر ہوا وقت، کہ ہو بال کُشا موجِ شراب

  1. گِرداب

ت

شعر

افسوس کہ دنداں [1] کا کیا رزق فلک نے
جن لوگوں کی تھی درخورِ عقدِ گہر انگشت

کافی ہے نشانی تِری، [2] چھلّے کا نہ دینا
خالی مجھے دکھلا کے بوقتِ سفر انگشت

لکھتا ہوں اسدؔ سوزشِ دل سے سخنِ گرم
تا رکھ نہ سکے کوئی مرے حرف پر انگشت

  1. نسخۂ نظامی میں اگرچہ ’دیداں‘ ہے لیکن معانی کے لحاظ سے ’دنداں‘ مناسب ہے، دیداں سہوِ کتابت ممکن ہے۔ (اعجاز عبید)

دیداں دودہ کا جمع ہے اس سے مراد کیڑے ہیں۔ تب اس کا مطلب بنتا ہے کہ انگلیوں کو قبر کی کیڑوں کا خوراک بنا دیا۔ نسخۂ مہر اور نسخہ علامہ آسی میں لفظ دیداں ہی آیا ہے ہاں البتہ نسخہ حمیدیہ (شایع کردہ مجلسِ ترقی ادب لاہور 1983 ) میں لفظ دندان آیا ہے (جویریہ مسعود)

مزید: نسخۂ نظامی اور بعض دوسرے نسخوں میں "دندان” کے بجائے "دیداں” چھپا ہے۔ ” دودہ عربی میں کیڑے کو کہتے ہیں، اس کی جمع "دود” ہے اور جمع الجمع "دیدان” ۔ یہ بات خلاف قیاس معلوم ہوتی ہے کہ غالب نے دیداں لکھا ہو۔ اس میں معنوی سقم یہ ہے کہ قبر میں پورا جسم ہی کیڑوں کی نذر ہو جاتا ہے، انگلیوں کی کوئی تخصیص نہیں نہ خاص طور پر انگلی کے گوشت سے کیڑوں کی زیادہ رغبت کا کوئی ثبوت ملتا ہے۔ حق تو یہ ہے کہ یہ کسی مرے ہوئے محبوب کا ماتم بھی نہیں ہے بلکہ زمانے کی ناقدری کا ماتم ہے کہ جو انگلی عقدِ گہر کی قابل تھی وہ حسرت و افسوس کے عالم میں دانتوں میں دبی ہے۔ خوبصورت دانتوں کو موتیوں کی لڑی سے تشبیہ دی جاتی ہے اس لیے موتی کے زیور کی رعایت ملحوظ لکھی گئی ہے۔ کیڑوں کو موتیوں سے تشبیہ دینا مذاقِ سلیم کو مکروہ معلوم ہوتا ہے۔ (حامد علی خاں)

  1. بعض نسخوں میں یہاں "تِری” اور بعض میں "تِرا” چھپا ہے۔ متن میں "تری” کو ترجیح دی گئی ہے۔ اس صورت میں علامتِ وقف "تری” کے بعد ہے۔ دوسری صورت میں علامتِ وقف "نشانی” کے بعد ہونی چاہیے یعنی : کافی ہے نشانی، ترا چھلے کا نہ دینا۔۔۔ متن کے اندراج کا مفہوم یہ ہے کہ تیری یہی نشانی میرے لیے کافی ہے کہ رخصت کے وقت جب میں نے تجھ سے نشانی کا چھلا مانگا تو تُو نے مجھے ایک ادائے خاص سے ٹھینگا دکھا دیا۔ نسخۂ نظامی میں بھی اس متن کے مطابق "تری” چھپا ہے۔ (حامد علی خاں)

شعر

رہا گر کوئی تا قیامت سلامت
پھر اک روز مرنا ہے حضرت سلامت

جگر کو مرے عشقِ خوں نابہ مشرب
لکھے ہے "خداوندِ نعمت سلامت”

علی اللّرغمِ دشمن، شہیدِ وفا ہوں
مبارک مبارک سلامت سلامت

نہیں گر سر و برگِ ادراک معنی
تماشائے نیرنگ صورت سلامت


غزل

آمدِ خط سے ہوا ہے سرد جو بازارِ دوست
دودِ شمعِ کشتہ تھا شاید خطِ رخسارِ دوست

اے دلِ ناعاقبت اندیش! ضبطِ شوق کر
کون لا سکتا ہے تابِ جلوۂ دیدارِ دوست

خانہ ویراں سازیِ حیرت! تماشا کیجیے
صورتِ نقشِ قدم ہوں رَفتۂ [1] رفتارِ دوست

عشق میں بیدادِ رشکِ غیر نے مارا مجھے
کُشتۂ دشمن ہوں آخر، گرچہ تھا بیمارِ دوست

چشمِ ما روشن، کہ اس بے درد کا دل شاد ہے
دیدۂ پر خوں ہمارا ساغرِ سرشارِ دوست

ق

غیر یوں کرتا ہے میری پرسش اس کے ہجر میں
بے تکلّف دوست ہو جیسے کوئی غم خوارِ دوست

تاکہ میں جانوں کہ ہے اس کی رسائی واں تلک
مجھ کو دیتا ہے پیامِ وعدۂ دیدارِ دوست

جب کہ میں کرتا ہوں اپنا شکوۂ ضعفِ دماغ
سَر کرے ہے وہ حدیثِ زلفِ عنبر بارِ دوست

چپکے چپکے مجھ کو روتے دیکھ پاتا ہے اگر
ہنس کے کرتا ہے بیانِ شوخیِ گفتارِ دوست

مہربانی ہائے دشمن کی شکایت کیجیے
یا بیاں کیجے سپاسِ لذّتِ آزارِ دوست

یہ غزل اپنی، مجھے جی سے پسند آتی ہے آپ
ہے ردیف شعر میں غالبؔ! ز بس تکرارِ دوست

  1. شاید بعض حضرات اس کو "رُفتہ” پڑھتے ہیں۔ یقین ہے کہ غالب کا لفظ یہاں "رَفتہ” ہے۔ ۔ (حامد علی خاں)

شعر

مند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں غالبؔ
یار لائے مری بالیں پہ اسے، پر کس وقت


ج

غزل

گلشن میں بند وبست بہ رنگِ دگر ہے آج
قمری کا طوق حلقۂ بیرونِ در ہے آج

معزولیِ تپش ہوئی افراطِ انتظار
چشمِ کشادہ حلقۂ بیرونِ در ہے آج

حیرت فروشِ صد نگَرانی ہے اضطرار
ہر رشتہ تارِ جَیب کا تارِ نظر ہے آج

اے عافیت! کنارہ کر، اے انتظام! چل
سیلابِ گریہ در پئے دیوار و در ہے آج [1]

آتا ہے ایک پارۂ دل ہر فغاں کے ساتھ
تارِ نفس کمندِ شکارِ اثر ہے آج

ہوں داغِ نیم رنگیِ شامِ وصالِ یار
نورِ چراغِ بزم سے جوشِ سحر ہے آج

کرتی ہے عاجزی سفرِ سوختن تمام
پیراہنِ خَسَک میں غبارِ شرر ہے آج

تا صبح ہے بہ منزلِ مقصد رسیدنی
دودِ چراغِ خانہ غبارِ سفر ہے آج

دور اوفتادۂ چمنِ فکر ہے اسدؔ
مرغِ خیالِ بلبلِ بے بال و پر ہے آج

  1. نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرع یوں ہے: سر رشتہ چاکِ جیب کا تارِ نظر ہے آج (جویریہ مسعود)

شعر

معزولیِ تپش ہوئی افرازِ انتظار
چشمِ کشودہ حلقۂ بیرونِ در ہے آج


شعر

لو ہم مریضِ عشق کے بیمار دار [1] ہیں
اچھّا اگر نہ ہو تو مسیحا کا کیا علاج!!

  1. نئے مروجہ نسخوں میں یہاں ” بیمار دار” کی جگہ عموماً "تیمار دار” چھپا ہے مگر قدیم نسخوں میں یہاں لفظِ "بیمار دار” ہی ملتا ہے جو کم از کم غالب کے عہد میں اس مفہوم کے لیے زیادہ موزوں تھا۔ (حامد علی خاں)

چ

غزل

نفَس نہ انجمنِ آرزو سے باہر کھینچ
اگر شراب نہیں انتظارِ ساغر کھینچ

"کمالِ گرمیِ سعیِ [1] تلاشِ دید” نہ پوچھ
بہ رنگِ خار مرے آئینہ سے جوہر کھینچ

تجھے بہانۂ راحت ہے انتظار اے دل!
کیا ہے کس نے اشارہ کہ نازِ بستر کھینچ

تری طرف ہے بہ حسرت نظارۂ نرگس
بہ کوریِ دل و چشمِ رقیب ساغر کھینچ

بہ نیم غمزہ ادا کر حقِ ودیعتِ ناز
نیامِ پردۂ زخمِ جگر سے خنجر کھینچ

مرے قدح میں ہے صہبائے آتشِ پنہاں
بروئے سُفرہ [2] کبابِ دلِ سمندر کھینچ

نہ کہہ کہ طاقتِ رسوائیِ وصال نہیں
اگر یہی عَرَقِ فتنہ ہے، مکرّر کھینچ

جنونِ آئینہ مشتاقِ یک تماشا ہے
ہمارے صفحے پہ بالِ پری سے مسطر کھینچ

خمارِ مِنّتِ ساقی اگر یہی ہے اسدؔ
دل گداختہ کے مے کدے میں ساغر کھینچ

  1. سعی‘ اور ’نفی‘ جیسے الفاظ میں اضافت کے لیے زیر کے بجائے ہمزہ کا استعمال نہیں کیا گیا کیوں کہ اضافت سے یہاں "الف” کی نہیں ” ی” کی آواز پیدا ہوتی ہے۔ (حامد علی خاں)
  2. صحیح تلفظ سینِ مضموم (یعنی س پر پیش) سے ہے مگر بعض لوگ اس تلفظ میں ذمّ کا پہلو دیکھتے ہیں اور سَفرہ بہ سینِ مفتوح (یعنی س پر زبر) بولتے ہیں۔ ۔ (حامد علی خاں)

د

غزل

حسن غمزے کی کشاکش سے چھٹا میرے بعد
بارے آرام سے ہیں اہلِ جفا میرے بعد

منصبِ شیفتگی کے کوئی قابل نہ رہا
ہوئی معزولیِ انداز و ادا میرے بعد

شمع بجھتی ہے تو اس میں سے دھواں اٹھتا ہے
شعلۂ عشق سیہ پوش ہوا میرے بعد

خوں ہے دل خاک میں احوالِ بتاں پر، یعنی
ان کے ناخن ہوئے محتاجِ حنا میرے بعد

درخورِ عرض نہیں جوہرِ بیداد کو جا
نگہِ ناز ہے سرمے سے خفا میرے بعد

ہے جنوں اہلِ جنوں کے لیے آغوشِ وداع
چاک ہوتا ہے گریباں سے جدا میرے بعد

کون ہوتا ہے حریفِ مئے مرد افگنِ عشق
ہے مکرّر لبِ ساقی میں [1] صلا میرے بعد

غم سے مرتا ہوں کہ اتنا نہیں دنیا میں کوئی
کہ کرے تعزیتِ مہر و وفا میرے بعد

[2] تھی نگہ میری نہاں خانۂ دل کی نقاب
بے خطر جیتے ہیں اربابِ ریا میرے بعد

تھا میں گلدستۂ احباب کی بندش کی گیاہ
متفرّق ہوئے میرے رفَقا میرے بعد

آئے ہے بے کسیِ عشق پہ رونا غالبؔ
کس کے گھر جائے گا سیلابِ بلا میرے بعد

  1. نسخۂ حمیدیہ میں ہے ’لبِ ساقی پہ‘۔ اکثر نسخوں میں بعد میں یہی املا ہے۔ (اعجاز عبید) مزید: نسخۂ مہر، آسی اور باقی نسخوں میں لفظ ‘پہ’ ہے۔ (جویریہ مسعود) مزید: نسخۂ نظامی، نسخۂ عرشی، نسخۂ حسرت موہانی اور بعض دیگر نسخوں میں یہاں "میں” ہی چھپا ہے۔ نسخۂ حمیدیہ میں "پہ” درج ہے ۔ ظاہراً "میں” سہوِ کتابت معلوم ہوتا ہے لیکن اگر غالب نے "میں” ہی کہا تھا تو اس کی مراد یہ ہو گی کہ غلبۂ غم کے باعث صلا لبوں پر نہ آ سکی لبوں میں ہی رہ گئی۔ (حامد علی خاں)
  2. یہ شعر نسخۂ حمیدیہ میں نہیں ہے۔ (جویریہ مسعود)

شعر

ہلاکِ بے خبری نغمۂ وجود و عدم
جہان و اہلِ جہاں سے جہاں جہاں آباد


شعر

تجھ سے مقابلے کی کسے تاب ہے ولے
میرا لہو بھی خوب ہے تیری حنا کے بعد


ر

غزل

بلا سے ہیں جو یہ پیشِ نظر در و دیوار
نگاہِ شوق کو ہیں بال و پر در و دیوار

وفورِ اشک نے کاشانے [1] کا کیا یہ رنگ
کہ ہو گئے مرے دیوار و در در و دیوار

نہیں ہے سایہ، کہ سن کر نوید مَقدمِ یار
گئے ہیں چند قدم پیشتر در و دیوار

ہوئی ہے کس قدر ارزانیِ مئے جلوہ
کہ مست ہے ترے کوچے میں ہر در و دیوار

جو ہے تجھے سرِ سودائے انتظار، تو آ
کہ ہیں دکانِ متاعِ نظر در و دیوار

ہجومِ گریہ کا سامان کب کیا میں نے
کہ گر پڑے نہ مرے پاؤں پر در و دیوار

وہ آ رہا مرے ہم سایہ میں، تو سائے سے
ہوئے فدا در و دیوار پر در و دیوار

نظر میں کھٹکے ہے بِن تیرے گھر کی آبادی
ہمیشہ روتے ہیں ہم دیکھ کر در و دیوار

نہ پوچھ بے خودیِ عیشِ مَقدمِ سیلاب
کہ ناچتے ہیں پڑے سر بسر در و دیوار

نہ کہہ کسی سے کہ غالبؔ نہیں زمانے میں
حریف رازِ محبت مگر در و دیوار

  1. مولانا عبد الباری آسی لکھنوی کے نسخے میں "کاشانہ” بجائے "کاشانے” (جویریہ مسعود)

غزل

گھر جب بنا لیا ترے در پر کہے بغیر
جانے گا اب بھی تو نہ مرا گھر کہے بغیر؟

کہتے ہیں جب رہی نہ مجھے طاقتِ سخن
"جانوں کسی کے دل کی میں کیونکر کہے بغیر”

کام اس سے آ پڑا ہے کہ جس کا جہان میں
لیوے نہ کوئی نام ستم گر کہے بغیر

[1] جی میں ہی کچھ نہیں ہے ہمارے وگرنہ ہم
سر جائے یا رہے، نہ رہیں پر کہے بغیر

چھوڑوں گا میں نہ اس بتِ کافر کا [2] پوجنا
چھوڑے نہ خلق گو مجھے کافَر کہے بغیر

مقصد ہے ناز و غمزہ ولے گفتگو میں کام
چلتا نہیں ہے دُشنہ و خنجر کہے بغیر

ہر چند ہو مشاہدۂ حق کی گفتگو
بنتی نہیں ہے بادہ و ساغر کہے بغیر

بہرا ہوں میں۔ تو چاہیے، دونا ہوں التفات
سنتا نہیں ہوں بات مکرّر کہے بغیر

غالبؔ نہ کر حضور میں تو بار بار عرض
ظاہر ہے تیرا حال سب اُن پر کہے بغیر

  1. نسخۂ حسرت: جی ہی میں۔ (حامد علی خاں)
  2. نسخۂ حمیدیہ: کافر کو پوجنا۔ متن نسخۂ نظامی کے مطابق ہے۔ (حامد علی خاں)

غزل

کیوں جل گیا نہ، تابِ رخِ یار دیکھ کر
جلتا ہوں اپنی طاقتِ دیدار دیکھ کر

آتش پرست کہتے ہیں اہلِ جہاں مجھے
سرگرمِ نالہ ہائے شرر بار دیکھ کر

کیا آبروئے عشق، جہاں عام ہو جفا
رکتا ہوں تم کو بے سبب آزار دیکھ کر

آتا ہے میرے قتل کو پَر جوشِ رشک سے
مرتا ہوں اس کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر

ثابت ہوا ہے گردنِ مینا پہ خونِ خلق
لرزے ہے موجِ مے تری رفتار دیکھ کر

وا حسرتا کہ یار نے کھینچا ستم سے ہاتھ
ہم کو حریصِ لذّتِ آزار دیکھ کر

بِک جاتے ہیں ہم آپ، متاعِ سخن کے ساتھ
لیکن عیارِ طبعِ خریدار دیکھ کر

زُنّار باندھ، سبحۂ صد دانہ توڑ ڈال
رہرو چلے ہے راہ کو ہموار دیکھ کر

ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں
جی خوش ہوا ہے راہ کو پُر خار دیکھ کر

کیا بد گماں ہے مجھ سے، کہ آئینے میں مرے
طوطی کا عکس سمجھے ہے زنگار دیکھ کر

گرنی تھی ہم پہ برقِ تجلّی، نہ طور پر
دیتے ہیں بادہ’ ظرفِ قدح خوار’ دیکھ کر

سر پھوڑنا وہ! ‘غالبؔ شوریدہ حال’ کا
یاد آگیا مجھے تری دیوار دیکھ کر


غزل

لرزتا ہے مرا دل زحمتِ مہرِ درخشاں پر
میں ہوں وہ قطرۂ شبنم کہ ہو خارِ بیاباں پر

نہ چھوڑی حضرتِ یوسف نے یاں بھی خانہ آرائی
سفیدی دیدۂ یعقوب کی پھرتی ہے زنداں پر

فنا "تعلیمِ درسِ بے خودی” ہوں اُس زمانے سے
کہ مجنوں لام الف لکھتا تھا دیوارِ دبستاں پر

فراغت کس قدر رہتی مجھے تشویش مرہم سے
بہم گر صلح کرتے پارہ ہائے دل نمک داں پر

نہیں اقلیم الفت میں کوئی طومارِ ناز ایسا
کہ پشتِ چشم سے جس کی نہ ہووے مُہر عنواں پر

مجھے اب دیکھ کر ابرِ شفق آلودہ یاد آیا
کہ فرقت میں تری آتش برستی تھی گلِستاں پر

دلِ خونیں جگر بے صبر و فیضِ عشق مستغنی
الٰہی! یک قیامتِ خاور آ ٹوٹے بدخشاں ہر

بجُز پروازِ شوقِ ناز کیا باقی رہا ہو گا
قیامت اِک ہوائے تند ہے خاکِ شہیداں پر

نہ لڑ ناصح سے، غالبؔ، کیا ہوا گر اس نے شدّت کی
ہمارا بھی تو آخر زور چلتا ہے گریباں پر


غزل

ہے بس کہ ہر اک ان کے اشارے میں نشاں اور
کرتے ہیں مَحبّت تو گزرتا ہے گماں اور

یارب وہ نہ سمجھے ہیں نہ سمجھیں گے مری بات
دے اور دل ان کو، جو نہ دے مجھ کو زباں اور

ابرو سے ہے کیا اس نگہِ ناز کو پیوند
ہے تیر مقرّر مگر اس کی ہے کماں اور

تم شہر میں ہو تو ہمیں کیا غم، جب اٹھیں گے
لے آئیں گے بازار سے جا کر دل و جاں اور

ہر چند سُبُک دست ہوئے بت شکنی میں
ہم ہیں، تو ابھی راہ میں ہیں سنگِ گراں اور

ہے خونِ جگر جوش میں دل کھول کے روتا
ہوتے جو کئی دیدۂ خونبانہ فشاں اور

مرتا ہوں اس آواز پہ ہر چند سر اڑ جائے
جلاّد کو لیکن وہ کہے جائیں کہ "ہاں اور”

لوگوں کو ہے خورشیدِ جہاں تاب کا دھوکا
ہر روز دکھاتا ہوں میں اک داغِ نہاں اور

لیتا۔ نہ اگر دل تمھیں دیتا، کوئی دم چین
کرتا، جو نہ مرتا، کوئی دن آہ و فغاں اور

پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے
رُکتی ہے مری طبع۔ تو ہوتی ہے رواں اور

ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھّے
کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے اندازِ بیاں اور


شعر

صفائے حیرت آئینہ ہے سامانِ زنگ آخر
تغیر ” آبِ برجا ماندہ” کا پاتا ہے رنگ آخر

نہ کی سامانِ عیش و جاہ نے تدبیر وحشت کی
ہوا جامِ زُمرّد بھی مجھے داغ پِلنگ آخر


غزل

فسونِ یک دلی ہے لذّتِ بیداد دشمن پر
کہ وجدِ برق جوں پروانہ بال افشاں ہے خرمن پر

تکلّف خار خارِ التماسِ بے قراری ہے
کہ رشتہ باندھتا ہے پیرہن انگشتِ سوزن پر

یہ کیا وحشت ہے! اے دیوانے، پس از مرگ واویلا
رکھی بے جا بنائے خانۂ زنجیر شیون پر

جنوں کی دست گیری کس سے ہو گر ہو نہ عریانی
گریباں چاک کا حق ہو گیا ہے میری گردن پر

بہ رنگِ کاغذِ آتش زدہ نیرنگِ بے تابی
ہزار آئینہ دل باندھے ہے بالِ یک تپیدن پر

فلک سے ہم کو عیشِ رَفتہ کا کیا کیا تقاضا ہے
متاعِ بُردہ کو سمجھے ہوئے ہیں قرض رہزن پر

ہم اور وہ بے سبب "رنج آشنا دشمن” کہ رکھتا ہے
شعاعِ مہر سے تُہمت نگہ کی چشمِ روزن پر

فنا کو سونپ گر مشتاق ہے اپنی حقیقت کا
فروغِ طالعِ خاشاک ہے موقوف گلخن پر

اسدؔ بسمل ہے کس انداز کا، قاتل سے کہتا ہے
"تو مشقِ ناز کر، خونِ دو عالم میری گردن پر”


شعر

ستم کش مصلحت سے ہوں کہ خوباں تجھ پہ عاشق ہیں
تکلف بر طرف! مل جائے گا تجھ سا رقیب آخر


غزل

لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دِن اور
تنہا گئے کیوں؟ اب رہو تنہا کوئی دن اور

مٹ جائےگا سَر، گر، ترا پتھر نہ گھِسے گا
ہوں در پہ ترے ناصیہ فرسا کوئی دن اور

آئے ہو کل اور آج ہی کہتے ہو کہ "جاؤں؟”
مانا کہ ھمیشہ نہیں اچھا کوئی دن اور

جاتے ہوئے کہتے ہو "قیامت کو ملیں گے”
کیا خوب! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور

ہاں اے فلکِ پیر! جواں تھا ابھی عارف
کیا تیرا بگڑ تا جو نہ مرتا کوئی دن اور

تم ماہِ شبِ چار دہم تھے مرے گھر کے
پھر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشا کوئی دن اور

تم کون سے ایسے تھے کھرے داد و ستد کے
کرتا ملکُ الموت تقاضا کوئی دن اور

مجھ سے تمہیں نفرت سہی، نیر سے لڑائی
بچوں کا بھی دیکھا نہ تماشا کوئی دن اور

گزری نہ بہرحال یہ مدت خوش و ناخوش
کرنا تھا جواں مرگ گزارا کوئی دن اور

ناداں ہو جو کہتے ہو کہ "کیوں جیتے ہیں غالبؔ”
قسمت میں ہے مرنے کی تمنا کوئی دن اور


ز

غزل

حریفِ مطلبِ مشکل نہیں فسونِ نیاز
دعا قبول ہو یا رب کہ عمرِ خضر دراز

نہ ہو بہ ہرزہ، بیاباں نوردِ وہمِ وجود
ہنوز تیرے تصوّر میں ہے نشیب و فراز

وصالِ جلوہ تماشا ہے پر دماغ کہاں!
کہ دیجیے آئینۂ انتظار کو پرواز

ہر ایک [1] ذرّۂ عاشق ہے آفتاب پرست
گئی نہ خاک ہوئے پر ہوائے جلوۂ ناز

فریبِ صنعتِ ایجاد کا تماشا دیکھ
نگاہ عکس فروش و خیال آئینہ ساز

ہنوز اے اثرِ دید، [2] ننگِ رسوائی
نگاہ فتنہ خرام و درِ دو عالم باز

[3] زِ بس کہ جلوۂ صیاد حیرت آرا ہے
اُڑی ہے صفحۂ خاطر سے صورتِ پرواز

[4] ہجومِ فکر سے دل مثلِ موج لرزاں ہے
کہ شیشہ نازک و صہبا ہے آبگینہ گداز

اسدؔ سے ترکِ وفا کا گماں وہ معنی ہے
کہ کھینچیے پرِ طائر سے صورتِ پرواز

نہ پوچھ وسعتِ مے خانۂ جنوں غالبؔ
جہاں یہ کاسۂ گردوں ہے ایک خاک انداز

  1. "ایک” کی جگہ قدیم نسخوں میں "یک” چھپا ہے (حامد علی خاں)
  2. عرشی: "دیدہ” بجائے "دید” (جویریہ مسعود)
  3. یہ شعر نسخۂ حمیدیہ میں نہیں ہے (جویریہ مسعود)
  4. یہ شعر بھی نسخۂ حمیدیہ میں نہیں ہے (جویریہ مسعود)

غزل

بے گانۂ وفا ہے ہوائے چمن ہنوز
وہ سبزہ سنگ پر نہ اُگا، کوہکن ہنوز

فارغ مجھے نہ جان کہ مانندِ صبح و مہر
ہے داغِ عشق، زینتِ جیبِ کفن ہنوز

ہے نازِ مفلساں "زرِ ا ز دست رفتہ” پر
ہوں "گل فروشِ شوخیِ داغِ کہن” ہنوز

مے خانۂ جگر میں یہاں خاک بھی نہیں
خمیازہ کھینچے ہے بتِ بیدادِ فن ہنوز

یا رب، یہ درد مند ہے کس کی نگاہ کا!!
ہے ربطِ مشک و داغِ سوادِ ختن ہنوز

جوں جادہ، سر بہ کوئے تمنّائے بے دلی
زنجیرِ پا ہے رشتۂ حب الوطن ہنوز

میں دور گردِ قربِ بساطِ نگاہ تھا
بیرونِ دل نہ تھی تپشِ انجمن ہنوز

تھا مجھ کو خار خار جنونِ وفا اسدؔ
سوزن میں تھا نہفتہ گلِ پیرہن ہنوز


شعر

کیوں کر اس بت سے رکھوں جان عزیز!
کیا نہیں ہے مجھے ایمان عزیز!

دل سے نکلا۔ پہ نہ نکلا دل سے
ہے ترے تیر کا پیکان عزیز

تاب لاتے ہی بنے گی غالبؔ
واقعہ سخت ہے اور جان عزیز


شعر

وسعتِ سعیِ کرم دیکھ کہ سر تا سرِ خاک
گزرے ہے آبلہ پا ابرِ گہربار ہنوز

یک قلم کاغذِ آتش زدہ ہے صفحۂ دشت
نقشِ پا میں ہے تپِ [1] گرمیِ رفتار ہنوز

  1. بعض نسخوں میں "تپ” بھی چھپا ہے جو "تب” کا ہم معنی ہے۔ یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ غالب نے کیا کہا تھا۔ (حامد علی خاں) مزید: ہم نے اس نسخے میں "تپ” کو ترجیح دی ہے کیوں کہ اکثر نسخوں میں "تپ” ہی درج ہے۔ (جویریہ مسعود)

شعر

گل کھلے غنچے چٹکنے لگے اور صبح ہوئی
سرخوشِ خواب ہے وہ نرگسِ مخمور ہنوز


غزل

نہ [1] گل نغمہ ہوں نہ پردۂ ساز
میں ہوں اپنی شکست کی آواز

تو اور آرائشِ خمِ کاکل
میں اور اندیشہ ہائے دور دراز [2]

لاف تمکیں، فریبِ سادہ دلی
ہم ہیں، اور راز ہائے سینہ گداز

ہوں گرفتارِ الفتِ صیّاد
ورنہ باقی ہے طاقتِ پرواز

وہ بھی دن ہو، کہ اس ستم گر سے
ناز کھینچوں، بجائے حسرتِ ناز

نہیں دل میں مرے وہ قطرۂ خون
جس سے مژگاں ہوئی نہ ہو گلباز

اے ترا غمزہ یک قلم انگیز
اے ترا ظلم سر بسر انداز

تو ہوا جلوہ گر، مبارک ہو!
ریزشِ سجدۂ جبینِ نیاز

مجھ کو پوچھا تو کچھ غضب نہ ہوا
میں غریب اور تو غریب نواز

اسدؔ اللہ خاں تمام ہوا
اے دریغا وہ رندِ شاہد باز

  1. بعض نسخوں میں "نہ” کی جگہ "نے” بھی چھپا ہے۔ نسخۂ نظامی میں "نہ” چھپا ہے۔ (حامد علی خاں)
  2. نسخۂ حمیدیہ، طباطبائی، حسرت موہانی، نیز مہر، بیخود اور نشتر جالندھری کے نسخوں میں "دور و دراز” چھپا ہے لیکن نسخۂ نظامی، عرشی اور مالک رام نیز متعدد قدیم نسخوں میں یہاں "دور دراز” ہی ملتا ہے۔ دور دراز (بلا عطف) صحیح فارسی ترکیب ہے جس کی شہادت فرہنگِ آنند راج اور شٹائن گاس کی فارسی انگریزی لغت سے بھی ملتی ہے۔ (حامد علی خاں)

س

غزل

[1] کب فقیروں کو رسائی بُتِ مے خوار کے پاس
تونبے بو دیجیے مے خانے کی دیوار کے پاس

مُژدہ، اے ذَوقِ اسیری! کہ نظر آتا ہے
دامِ خالی، قفَسِ مُرغِ گرفتار کے پاس

جگرِ تشنۂ آزار، تسلی نہ ہوا
جُوئے خُوں ہم نے بہائی بُنِ ہر خار کے پاس

مُند گئیں کھولتے ہی کھولتے آنکھیں ہَے ہَے!
خُوب وقت آئے تم اِس عاشقِ بیمار کے پاس

مَیں بھی رُک رُک کے نہ مرتا، جو زباں کے بدلے
دشنہ اِک تیز سا ہوتا مِرے غمخوار کے پاس

دَہَنِ شیر میں جا بیٹھیے، لیکن اے دل
نہ کھڑے ہو جیے خُوبانِ دل آزار کے پاس

دیکھ کر تجھ کو، چمن بسکہ نُمو کرتا ہے
خُود بخود پہنچے ہے گُل گوشۂ دستار کے پاس

مر گیا پھوڑ کے سر غالبؔ وحشی، ہَے ہَے!
بیٹھنا اُس کا وہ، آ کر، تری دِیوار کے پاس

1, یہ شعر نسخۂ حمیدیہ میں نہیں ہے (جویریہ مسعود)


شعر

اے اسدؔ ہم خود اسیرِ رنگ و بوئے باغ ہیں
ظاہرا صیّادِ ناداں ہے گرفتارِ ہوس


ش

شعر

نہ لیوے گر خسِ جَوہر طراوت سبزۂ خط سے
لگا دے [1] خانۂ آئینہ میں رُوئے نگار آتِش

فروغِ حُسن سے ہوتی [2] ہے حلِّ مُشکلِ عاشق
نہ نکلے شمع کے پاسے، نکالے گر نہ خار آتش

  1. بیشتر نسخوں میں "لگا دے” کی جگہ "لگاوے” چھپا ہے۔ (حامد علی خاں)
  2. ممکن ہے غالب نے یہاں "ہوتا ہے” کہا ہو اور "ہوتی ہے” سہوِ مرتبین ہو۔ (حامد علی خاں)

ع

شعر

جادۂ رہ خُور کو وقتِ شام ہے تارِ شعاع
چرخ وا کرتا ہے ماہِ نو سے آغوشِ وداع


غزل

رُخِ نگار سے ہے سوزِ جاودانیِ شمع
ہوئی ہے آتشِ گُل آبِ زندگانیِ شمع

زبانِ اہلِ زباں میں ہے مرگِ خاموشی
یہ بات بزم میں روشن ہوئی زبانیِ شمع

کرے ہے صِرف بہ ایمائے شعلہ قصہ تمام
بہ طرزِ اہلِ فنا ہے فسانہ خوانیِ شمع

غم اُس کو حسرتِ پروانہ کا ہے اے شعلہ [1]
ترے لرزنے سے ظاہر ہے ناتوانیِ شمع

ترے خیال سے رُوح اہتزاز کرتی ہے
بہ جلوہ ریزیِ باد و بہ پرفشانیِ شمع

نشاطِ داغِ غمِ عشق کی بہار نہ پُوچھ
شگفتگی ہے شہیدِ گُلِ خزانیِ شمع

جلے ہے، دیکھ کے بالینِ یار پر مجھ کو
نہ کیوں ہو دل پہ مرے داغِ بد گمانیِ شمع

  1. نسخۂ مہر میں” شعلہ”، نسخہ آسی میں شعلے۔ شعلہ زیادہ صحیح ہے (جویریہ مسعود)

ف

شعر

بیمِ رقیب سے نہیں کرتے وداعِ ہوش
مجبور یاں تلک ہوئے اے اختیار، حیف!

جلتا ہے دل کہ کیوں نہ ہم اِک بار جل گئے
اے نا تمامیِ نَفَسِ شعلہ بار حیف!


ک

غزل

زخم پر چھڑکیں کہاں طفلانِ بے پروا نمک [1]
کیا مزا ہوتا، اگر پتھر میں بھی ہوتا نمک

گردِ راہِ یار ہے سامانِ نازِ زخمِ دل
ورنہ ہوتا ہے جہاں میں کس قدر پیدا نمک

مجھ کو ارزانی رہے، تجھ کو مبارک ہو جیو
نالۂ بُلبُل کا درد اور خندۂ گُل کا نمک

شورِ جولاں تھا کنارِ بحر پر کس کا کہ آج
گِردِ ساحل ہے بہ زخمِ موجۂ دریا نمک

داد دیتا ہے مرے زخمِ جگر کی، واہ واہ! [2]
یاد کرتا ہے مجھے، دیکھے ہے وہ جس جا نمک

چھوڑ کر جانا تنِ مجروحِ عاشق حیف ہے
دل طلب کرتا ہے زخم اور مانگے ہیں اعضا نمک

غیر کی منت نہ کھینچوں گا پَے توفیرِ [3] درد
زخم، مثلِ خندۂ قاتل ہے سر تا پا نمک

اس عمل میں عیش کی لذٓت نہیں ملتی اسدؔ
زورِ نسبت مَے سے رکھتا ہے نصارا کا نمک

یاد ہیں غالبؔ! تُجھے وہ دن کہ وجدِ ذوق میں
زخم سے گرتا، تو میں پلکوں سے چُنتا تھا نمک

  1. نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرع یوں درج ہے: زخم پر باندھے ہیں کب طفلانِ بے پروا نمک (جویریہ مسعود)
  2. ایک نسخے میں "واہ وا” بہ تخفیف بھی دیکھا گیا ہے لیکن اکثر قدیم و جدید نسخوں میں "واہ واہ” درج ہے۔ (حامد علی خاں)
  3. بعض نسخوں میں "توفیر” کی جگہ "توقیر” چھپا ہے ۔ نسخۂ نظامی میں "توفیر” درج ہے۔ (حامد علی خاں)

غزل

آہ کو چاہیے اِک عُمر اثر ہونے تک [1]
کون جیتا ہے تری زُلف کے سر ہونے تک

دامِ ہر موج میں ہے حلقۂ صد کامِ نہنگ
دیکھیں کیا گُزرے ہے قطرے پہ گُہر ہونے تک

عاشقی صبر طلب، اور تمنّا بیتاب
دل کا کیا رنگ کروں خونِ جگر ہونے تک

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے، لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم، تم کو خبر ہونے تک

پرتوِ خُور سے، ہے شبنم کو فنا کی تعلیم
میں بھی ہوں، ایک عنایت کی نظر ہونے تک

یک نظر بیش نہیں فُرصتِ ہستی غافل!
گرمیِ بزم ہے اِک رقصِ شرر ہونے تک

تا قیامت شبِ فرقت میں گزر جائے گی عمر
سات دن ہم پہ بھی بھاری ہیں سحر ہونے تک [2]

غمِ ہستی کا، اسدؔ! کس سے ہو جُز مرگ، علاج
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک

  1. اکثر قدیم نسخوں میں ’ہوتے تک‘ ردیف ہے۔ نسخۂ نظامی میں بھی لیکن کیوں کہ نسخۂ حمیدیہ میں مروج قرأت ’ہونے تک‘ ہی دی گئی ہے اس لئے اسی کو قابلِ ترجیح قرار دیا گیا ہے۔ مزید: مالک رام صاحب نے لکھا ہے کہ غالب کی زندگی میں دیوان کے جتنے ایڈیشن شائع ہوئے، ان میں ردیف "ہوتے تک” ہے۔ راقم الحروف (حامد علی خاں) کے مشاہدے کی حد تک بھی مالک رام صاحب کی اس قول کی تائید ہوتی ہے مگر مولانا غلام رسول مہر نے "ہونے تک” کی ردیف کی حق میں ایک نیم مشروط سی دلیل پیش کی ہے حالانکہ سہوِ کتابت کہیں بھی خارج از امکان نہیں۔ البتہ مالک رام صاحب نے قدیم نسخوں میں بھوپال کے نسخۂ حمیدیہ کا ذکر نہیں کیا جس میں ردیف "ہونے تک” درج ہے ۔ راقم الحروف (حامد علی خاں) کی رائے میں یہ بھی سہوِ کتابت ہے یا تحریف کیوں کہ آج کل بیشتر اہلِ ذوق "ہونے تک” کو صوتی لحاظ سے پسندیدہ سمجھتے ہیں مگر اپنی پسند غالب کے کلام کو عمداً بدل ڈالنے کا حق نہیں دیتی۔ مہر صاحب نے تحریر فرمایا ہے: "عرشی صاحب نے اب بھی ردیف "ہونے تک” ہی رکھی ہے ” عرشی کا جو نسخہ راقم کی نظر سے گزرا ہے، اس میں مولانا کے مشاہدے کے بر عکس اس غزل کی ردیف "ہوتے تک” ہی ملتی ہے۔ بہر حال ہمیں تو یہ دیکھنا ہے کہ غالب نے کیا کہا تھا۔ (حامد علی خاں)
  2. نسخۂ مبارک علی میں الفاظ ہیں ’ہم پہ یہ بھاری ہیں‘ (اعجاز عبید)

غزل

دیکھنے میں ہیں گرچہ دو، پر ہیں یہ دونوں یار ایک
وضع میں گو ہوئی دو سر، تیغ ہے ذوالفقار ایک

ہم سخن اور ہم زباں، حضرتِ قاسم و طباں
ایک تپش [1] کا جانشین، درد کی یادگار ایک

نقدِ سخن کے واسطے ایک عیارِ آگہی
شعر کے فن کے واسطے، مایۂ اعتبار ایک

ایک وفا و مہر میں تازگیِ بساطِ دہر
لطف و کرم کے باب میں زینتِ روزگار ایک

گُلکدۂ تلاش کو، ایک ہے رنگ، اک ہے بو
ریختہ کے قماش کو، پود ہے ایک، تار ایک

مملکتِ کمال میں ایک امیرِ نامور
عرصۂ قیل و قال میں، خسروِ نامدار ایک

گلشنِ اتّفاق میں ایک بہارِ بے خزاں
مے کدۂ وفاق میں بادۂ بے خمار ایک

زندۂ شوقِ شعر کو ایک چراغِ انجمن
کُشتۂ ذوقِ شعر کو شمعِ سرِ مزار ایک

دونوں کے دل حق آشنا، دونوں رسول (ص) پر فِدا
ایک مُحبِّ چار یار، عاشقِ ہشت و چار ایک

جانِ وفا پرست کو ایک شمیمِ نو بہار
فرقِ ستیزہ مست کو، ابرِ تگرگِ بار ایک

لایا ہے کہہ کے یہ غزل، شائبۂ رِیا سے دور
کر کے دل و زبان کو غالبؔ خاکسار ایک

  1. نسخے میں اگرچہ ‘طپش’ ہے لیکن صحیح تپش ہی درست ہونا چاہیے (اعجاز عبید)

گ

شعر

گر تُجھ کو ہے یقینِ اجابت، دُعا نہ مانگ
یعنی، بغیر یک دلِ بے مُدعا نہ مانگ

آتا ہے داغِ حسرتِ دل کا شمار یاد
مُجھ سے مرے گُنہ کا حساب، اے خدا! نہ مانگ


ل

غزل

ہے کس قدر ہلاکِ فریبِ وفائے گُل
بُلبُل کے کاروبار پہ ہیں خندہ ہائے گُل

آزادیِ نسیم مبارک کہ ہر طرف
ٹوٹے پڑے ہیں حلقۂ دامِ ہوائے گُل

جو تھا، سو موجِ رنگ کے دھوکے میں مر گیا
اے وائے، نالۂ لبِ خونیں نوائے گُل!

خوش حال اُس حریفِ سیہ مست کا، کہ جو
رکھتا ہو مثلِ سایۂ گُل، سر بہ پائے گُل

ایجاد کرتی ہے اُسے تیرے لیے بہار
میرا رقیب ہے نَفَسِ عطر سائے گُل

شرمندہ رکھتے ہیں مجھے بادِ بہار سے
مینائے بے شراب و دلِ بے ہوائے گُل

سطوت سے تیرے جلوۂ حُسنِ غیور کی
خوں ہے مری نگاہ میں رنگِ ادائے گُل

تیرے ہی جلوے کا ہے یہ دھوکا کہ آج تک
بے اختیار دوڑے ہے گُل در قفائے گُل

غالبؔ! مجھے ہے اُس سے ہم آغوشی آرزو
جس کا خیال ہے گُلِ جیبِ قبائے گُل


م

غزل

غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس
برق سے کرتے ہیں روشن، شمعِ ماتم خانہ ہم

محفلیں برہم کرے ہے گنجفہ بازِ خیال
ہیں ورق گردانیِ نیرنگِ یک بت خانہ ہم

باوجودِ یک جہاں ہنگامہ پیرا ہی نہیں
ہیں "چراغانِ شبستانِ دلِ پروانہ” ہم

ضعف سے ہے، نے قناعت سے یہ ترکِ جستجو
ہیں "وبالِ تکیہ گاہِ ہِمّتِ مردانہ” ہم

دائم الحبس اس میں ہیں لاکھوں تمنّائیں اسدؔ
جانتے ہیں سینۂ پُر خوں کو زنداں خانہ ہم


شعر

بہ نالہ دل بستگی فراہم کر
متاعِ خانۂ زنجیر جز صدا، معلوم


شعر

مجھ کو دیارِ غیر میں مارا، وطن سے دور
رکھ لی مرے خدا نے مری بےکسی کی شرم

وہ حلقۂ ہائے زلف، کمیں میں ہیں اے خدا
رکھ لیجو میرے دعوۂ وارستگی کی شرم


غزل

از آنجا کہ حسرتِ کشِ یار ہیں ہم
رقیبِ تمنّائے دیدار ہیں ہم

رسیدن گلِ باغ واماندگی ہے
عبث محفل آرائے رفتار ہیں ہم

نفس ہو نہ معزولِ شعلہ درودن
کہ ضبطِ تپش سے شرر کار ہیں ہم

تغافل کمیں گاہِ وحشت شناسی
نگہبانِ دل ہائے اغیار ہیں ہم

تماشائے گلشن تماشائے چیدن
بہار آفرینا! گنہ گار ہیں ہم

نہ ذوقِ گریباں، نہ پروائے داماں
نگاہ آشنائے گل و خار ہیں ہم

اسدؔ شکوہ کفرِ دعا ناسپاسی
ہجومِ تمنّا سے لاچار ہیں ہم


ن

شعر

لوں وام بختِ خفتہ سے یک خوابِ خوش ولے
غالبؔ یہ خوف ہے کہ کہاں سے ادا کروں


غزل

وہ فراق اور وہ وصال کہاں
وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں

فرصتِ کاروبارِ شوق کسے
ذوقِ نظارۂ جمال کہاں

دل تو دل وہ دماغ بھی نہ رہا
شورِ سودائے خطّ و خال [1] کہاں

تھی وہ اک شخص کے تصّور سے
اب وہ رعنائیِ خیال کہاں

ایسا آساں نہیں لہو رونا
دل میں طاقت، جگر میں حال کہاں

ہم سے چھوٹا "قمار خانۂ عشق”
واں جو جاویں، گرہ میں مال کہاں

فکر دنیا میں سر کھپاتا ہوں
میں کہاں اور یہ وبال کہاں

مضمحل ہو گئے قویٰ غالبؔ
وہ عناصر میں اعتدال کہاں

  1. ممکن ہے غالب نے خد و خال کہا ہو۔ (حامد علی خاں)

غزل

کی وفا ہم سے تو غیر اِس [1] کو جفا کہتے ہیں
ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں

آج ہم اپنی پریشانیِ خاطر ان سے
کہنے جاتے تو ہیں، پر دیکھئے کیا کہتے ہیں

اگلے وقتوں کے ہیں یہ لوگ، انہیں کچھ نہ کہو
جو مے و نغمہ کو اندوہ رُبا کہتے ہیں

دل میں آ جائے ہے، ہوتی ہے جو فرصت غش سے
اور پھر کون سے نالے کو رسا کہتے ہیں

ہے پرے سرحدِ ادراک سے اپنا مسجود
قبلے کو اہلِ نظر قبلہ نما کہتے ہیں

پائے افگار پہ جب سے تجھے رحم آیا ہے
خارِ رہ کو ترے ہم مہرگیا [2] کہتے ہیں

اک شرر دل میں ہے اُس سے کوئی گھبرائے گا کیا
آگ مطلوب ہے ہم کو، جو ہَوا کہتے ہیں

دیکھیے لاتی ہے اُس شوخ کی نخوت کیا رنگ
اُس کی ہر بات پہ ہم "نامِ خدا” کہتے ہیں

وحشت و شیفتہ اب مرثیہ کہویں شاید
مر گیا غالبؔ آشفتہ نوا، کہتے ہیں

  1. یہاں "اِس” کی بجائے "اُس” نہیں پڑھنا چاہیے۔ نسخۂ نظامی میں "اِس” ہی چھپا ہے۔ (حامد علی خاں)
  2. فارسی میں گھاس کے لیے "گیاہ” اور "گیا” دونوں لفظ استعمال ہوتے ہیں۔ بعض لغت نویسوں کی رائے ہے کہ لفظ "گیا” خشک گھاس کے لیے مخصوص ہے مگر یہ خیال درست نہیں۔ مہر گیا کو مردم گیا بھی کہتے ہیں ۔ اس کے بارے میں بھی لغت نویس کسی ایک خیال پر متفق نہیں ہوتے ۔ اس کے مفاہیم میں محبوب، رخِ نگار، سبزۂ خط، سورج مکھی، نیز مردم گیا کی دو شاخہ جڑ جو انسان نما سمجھی جاتی ہے، شامل ہے۔ عوام کا خیال تھا کہ جو شخص اس گھاس کی جڑ اپنے پاس رکھتا ہے محبوب اس پر مہربان اور ہر شخص اس کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ (حامد علی خاں)

غزل

آبرو کیا خاک اُس گُل کی۔ کہ گلشن میں نہیں
ہے گریبان ننگِ پیراہن جو دامن میں نہیں

ضعف سے اے گریہ کچھ باقی مرے تن میں نہیں
رنگ ہو کر اڑ گیا، جو خوں کہ دامن میں نہیں

ہو گئے ہیں جمع اجزائے نگاہِ آفتاب
ذرّے اُس کے گھر کی دیواروں کے روزن میں نہیں

کیا کہوں تاریکیِ زندانِ غم اندھیر ہے
پنبہ نورِ صبح سے کم جس کے روزن میں‌ نہیں

رونقِ ہستی ہے عشقِ خانہ ویراں ساز سے
انجمن بے شمع ہے گر برق خرمن میں نہیں

زخم سِلوانے سے مجھ پر چارہ جوئی کا ہے طعن
غیر سمجھا ہے کہ لذّت زخمِ سوزن میں نہیں

بس کہ ہیں ہم [1] اک بہارِ ناز کے مارے ہوئے
جلوۂ گُل کے سِوا گرد اپنے مدفن میں نہیں

قطرہ قطرہ اک ہیولیٰ ہے نئے ناسور کا
خُوں بھی ذوقِ درد سے، فارغ مرے تن میں نہیں

لے گئی ساقی کی نخوت قلزم آشامی مری
موجِ مے کی آج رگ، مینا کی گردن میں نہیں

ہو فشارِ ضعف میں کیا نا توانی کی نمود؟
قد کے جھکنے کی بھی گنجائش مرے تن میں نہیں

تھی وطن میں شان کیا غالبؔ کہ ہو غربت میں قدر
بے تکلّف، ہوں وہ مشتِ خس کہ گلخن میں نہیں

  1. نسخۂ مہر اور آسی میں ” ہم ہیں” درج ہے۔ (جویریہ مسعود)

شعر

عہدے سے مدحِ ‌ناز کے باہر نہ آ سکا
گر اک ادا ہو تو اُسے اپنی قضا کہوں

حلقے ہیں چشم ہائے کشادہ بسوئے دل
ہر تارِ زلف کو نگہِ سُرمہ سا کہوں

میں، اور صد ہزار نوائے جگر خراش
تو، اور ایک وہ نہ شنیدن کہ کیا کہوں

ظالم مرے گماں سے مجھے منفعل نہ چاہ
ہَے ہَے خُدا نہ کردہ، تجھے بے وفا کہوں


شعر

مہرباں ہو کے بلا لو مجھے، چاہو جس وقت
میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سکوں

ضعف میں طعنۂ اغیار کا شکوہ کیا ہے
بات کچھ سَر تو نہیں ہے کہ اٹھا بھی نہ سکوں

زہر ملتا ہی نہیں مجھ کو ستمگر، ورنہ
کیا قسم ہے ترے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں


غزل

ہم سے کھل جاؤ بوقتِ مے پرستی ایک دن
ورنہ ہم چھیڑیں گے رکھ کر عُذرِ مستی ایک دن

غرّۂ اوجِ بِنائے عالمِ امکاں نہ ہو
اِس بلندی کے نصیبوں میں ہے پستی ایک دن

قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے [1] گی ہماری فاقہ مستی ایک دن

نغمہ ہائے غم کو بھی، اے دل! غنیمت جانیے
بے صدا ہو جائے گا یہ سازِ ہستی ایک دن

دَھول دَھپّا اُس سراپا ناز کا شیوہ نہیں
ہم ہی کر بیٹھے تھے غالبؔ پیش دستی ایک دن

  1. حامد علی خان کے مرتب کردہ نسخے میں یہاں "لائے” کی جگہ "لاوے” درج ہے۔ (جویریہ مسعود)

غزل

ہم پر جفا سے ترکِ وفا کا گماں نہیں
اِک چھیڑ ہے وگرنہ مراد امتحاں نہیں

کس منہ سے شکر کیجیے اس لطف خاص کا
پرسش ہے اور پائے سخن درمیاں نہیں

ہم کو ستم عزیز، ستم گر کو ہم عزیز
نا مہرباں نہیں ہے اگر مہرباں نہیں

بوسہ نہیں، نہ دیجیے دشنام ہی سہی
آخر زباں تو رکھتے ہو تم، گر دہاں نہیں

ہر چند جاں گدازیِ قہر و عتاب ہے
ہر چند پشت گرمیِ تاب و تواں نہیں

جاں مطربِ ترانہ ھَل مِن مَزِید ہے
لب پر دہ سنجِ زمزمۂ الاَماں نہیں

خنجر سے چیر سینہ اگر دل نہ ہو دو نیم
دل میں چُھری چبھو مژہ گر خونچکاں نہیں

ہے ننگِ سینہ دل اگر آتش کدہ نہ ہو
ہے عارِ دل نفس اگر آذر فشاں نہیں

نقصاں نہیں جنوں میں بلا سے ہو گھر خراب
سو گز زمیں کے بدلے بیاباں گراں نہیں

کہتے ہو "کیا لکھا ہے تری سرنوشت میں”
گویا جبیں پہ سجدۂ بت کا نشاں نہیں

پاتا ہوں اس سے داد کچھ اپنے کلام کی
رُوح القُدُس اگرچہ مرا ہم زباں نہیں

جاں ہے بہائے بوسہ ولے کیوں کہے ابھی
غالبؔ کو جانتا ہے کہ وہ نیم جاں نہیں


غزل

مانع دشت نوردی کوئی تدبیر نہیں
ایک چکّر ہے مرے پاؤں میں زنجیر نہیں

شوق اس دشت میں دوڑائے ہے مجھ کو، کہ جہاں
جادہ غیر از نگہِ دیدۂ تصویر نہیں

حسرتِ لذّتِ آزار رہی جاتی ہے
جادۂ راہِ وفا جز دمِ شمشیر نہیں

رنجِ نومیدیِ جاوید گوارا رہیو
خوش ہوں گر نالہ زبونی کشِ تاثیر نہیں

سر کھجاتا ہے جہاں زخمِ سر اچھا ہو جائے
لذّتِ سنگ بہ اندازۂ تقریر نہیں

آئینہ دام کو سبزے [1] میں چھپاتا ہے عبث
کہ پری زادِ نظر قابلِ تسخیر نہیں

مثلِ گُل زخم ہے میرا بھی سناں سے توام
تیرا ترکش ہی کچھ آبِستنِ تیر نہیں

جب کرم رخصتِ بیباکی و گستاخی دے
کوئی تقصیر بجُز خجلتِ تقصیر نہیں

میرؔ کے شعر کا احوال کہوں کیا غالبؔ
جس کا دیوان کم از گلشنِ کشمیر نہیں

غالبؔ اپنا یہ عقیدہ ہے بقولِ ناسخ [2]
"آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میر نہیں”

  1. نسخۂ حمیدیہ میں ” پردے” بجائے "سبزے” (جویریہ مسعود)
  2. نسخۂ حمیدیہ میں یہ مصرع یوں درج ہے: ریختے کا وہ ظہوری ہے، بقولِ ناسخ (جویریہ مسعود)

شعر

مت مردُمکِ دیدہ میں سمجھو یہ نگاہیں
ہیں جمع سُویدائے دلِ چشم میں آہیں


شعر

برشکالِ گریۂ عاشق ہے [1] دیکھا چاہیے
کھِل گئی مانندِ گُل سَو جا سے دیوارِ چمن

اُلفتِ گل سے غلط ہے دعوئی وارستگی
سرو ہے با وصفِ آزادی گرفتارِ چمن

ہے نزاکت بس کہ فصلِ گل میں معمارِ چمن
قالبِ گل میں ڈھلی ہے خشتِ دیوارِ چمن

  1. ’طباطبائی میں ہے کی جگہ ’بھی‘ درج ہے۔(اعجاز عبید)

غزل

عشق تاثیر سے نومید نہیں
جاں سپاری شجرِ بید نہیں

سلطنت دست بَدَست آئی ہے
جامِ مے خاتمِ جمشید نہیں

ہے تجلی تری سامانِ وجود
ذرّہ بے پرتوِ خورشید نہیں

رازِ معشوق نہ رسوا ہو جائے
ورنہ مر جانے میں کچھ بھید نہیں

گردشِ رنگِ طرب سے ڈر ہے
غمِ محرومیِ جاوید نہیں

کہتے ہیں جیتے ہیں اُمّید پہ لوگ
ہم کو جینے کی بھی امّید نہیں


غزل

جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
خیاباں خیاباں اِرم دیکھتے ہیں

دل آشفتگاں خالِ کنجِ دہن کے
سویدا میں سیرِ عدم دیکھتے ہیں

ترے سروِ قامت سے اک قدِ آدم
قیامت کے فتنے کو کم دیکھتے ہیں

تماشا! کہ [1] اے محوِ آئینہ داری
تجھے کس تمنّا سے ہم دیکھتے ہیں

سراغِ تُفِ نالہ لے داغِ دل سے
کہ شب رَو کا نقشِ قدم دیکھتے ہیں

بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ
تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں

  1. بعض نسخوں میں "کہ” کی جگہ "کر” چھپا ہے ۔ نسخۂ نظامی: "کہ” (حامد علی خاں)

غزل

ملتی ہے خُوئے یار سے نار التہاب میں
کافر ہوں گر نہ ملتی ہو راحت عذاب میں

کب سے ہُوں کیا بتاؤں جہانِ خراب میں
شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں

تا پھر نہ انتظار میں نیند آئے عمر بھر
آنے کا عہد کر گئے آئے جو خواب میں

قاصد کے آتے آتے خط اک اور لکھ رکھوں
میں جانتا ہوں جو وہ لکھیں گے جواب میں

مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دورِ جام
ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں

جو منکرِ وفا ہو فریب اس پہ کیا چلے
کیوں بد گماں ہوں دوست سے دشمن کے باب میں

میں مضطرب ہُوں وصل میں خوفِ رقیب سے
ڈالا ہے تم کو وہم نے کس پیچ و تاب میں

میں اور حظِّ وصل خدا ساز بات ہے
جاں نذر دینی بھول گیا اضطراب میں

ہے تیوری چڑھی ہوئی اندر نقاب کے
ہے اک شکن پڑی ہوئی طرفِ نقاب میں

لاکھوں لگاؤ ایک چُرانا نگاہ کا
لاکھوں بناؤ ایک بگڑنا عتاب میں

وہ نالہ دل میں خس کے برابر جگہ نہ پائے
جس نالے سے شگاف پڑے آفتاب میں

وہ سحر مدعا طلبی میں کام نہ آئے
جس سِحر سے سفینہ رواں ہو سراب میں

غالبؔ چُھٹی شراب پر اب بھی کبھی کبھی
پیتا ہوں روزِ ابر و شبِ ماہتاب میں


غزل

کل کے لیے کر آج نہ خسّت شراب میں
یہ سُوء ظن ہے ساقیِ کوثر کے باب میں

ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند
گستاخیِ فرشتہ ہماری جناب میں

جاں کیوں نکلنے لگتی ہے تن سے دمِ سماع
گر وہ صدا سمائی ہے چنگ و رباب میں

رَو میں ہے رخشِ عمر، کہاں دیکھیے تھمے [1]
نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں

اتنا ہی مجھ کو اپنی حقیقت سے بُعد ہے
جتنا کہ وہمِ غیر سے ہُوں پیچ و تاب میں

اصلِ شہود و شاہد و مشہود ایک ہے
حیراں ہوں پھر مشاہدہ ہے کس حساب میں

ہے مشتمل نمُودِ صُوَر پر وجودِ بحر
یاں کیا دھرا ہے قطرہ و موج و حباب میں

شرم اک ادائے ناز ہے اپنے ہی سے سہی
ہیں کتنے بے حجاب کہ ہیں یُوں حجاب میں

آرائشِ جمال سے فارغ نہیں ہنوز
پیشِ نظر ہے آئینہ دائم نقاب میں

ہے غیبِ غیب جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود
ہیں خواب میں ہنوز، جو جاگے ہیں خواب میں

غالبؔ ندیمِ دوست سے آتی ہے بوئے دوست
مشغولِ حق ہوں، بندگیِ بُو تراب میں

  1. نسخۂ نظامی مطبوعہ 1862 میں "تھمے” کی جگہ "تھکے” چھپا ہے۔ کتابت کی غلطی معلوم ہوتی ہے۔ (حامد علی خاں)

غزل

حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو مَیں

چھوڑا نہ رشک نے کہ ترے گھر کا نام لوں
ہر اک سے پُوچھتا ہوں کہ "جاؤں کدھر کو مَیں”

جانا پڑا رقیب کے در پر ہزار بار
اے کاش جانتا نہ تری رہ گزر کو مَیں

ہے کیا، جو کس کے باندھیے میری بلا ڈرے
کیا جانتا نہیں ہُوں تمھاری کمر کو مَیں

لو، وہ بھی کہتے ہیں کہ "یہ بے ننگ و نام ہے”
یہ جانتا اگر، تو لُٹاتا نہ گھر کو مَیں

چلتا ہوں تھوڑی دُور ہر اک تیز رَو کے ساتھ
پہچانتا نہیں ہُوں ابھی راہبر کو مَیں

خواہش کو احمقوں نے پرستش دیا قرار
کیا پُوجتا ہوں اس بُتِ بیداد گر کو مَیں

پھر بے خودی میں بھول گیا راہِ کوئے یار
جاتا وگرنہ ایک دن اپنی خبر کو مَیں

اپنے پہ کر رہا ہُوں قیاس اہلِ دہر کا
سمجھا ہوں دل پذیر متاعِ ہُنر کو میں

غالبؔ خدا کرے کہ سوارِ سمندرِ ناز
دیکھوں علی بہادرِ عالی گُہر کو میں


غزل

ذکر میرا بہ بدی بھی، اُسے منظور نہیں
غیر کی بات بگڑ جائے تو کچھ دُور نہیں

وعدۂ سیرِ گلستاں ہے، خوشا طالعِ شوق
مژدۂ قتل مقدّر ہے جو مذکور نہیں

شاہدِ ہستیِ مطلق کی کمر ہے عالَم
لوگ کہتے ہیں کہ "ہے” پر ہمیں منظور نہیں

قطرہ اپنا بھی حقیقت میں ہے دریا لیکن
ہم کو تقلیدِ تُنک ظرفیِ منصور نہیں

حسرت! اے ذوقِ خرابی، کہ وہ طاقت نہ رہی
عشقِ پُر عربَدہ کی گوں تنِ رنجور نہیں

ظلم کر ظلم! اگر لطف دریغ آتا ہو
تُو تغافل میں کسی رنگ سے معذور نہیں

میں جو کہتا ہوں کہ ہم لیں گے قیامت میں تمھیں
کس رعونت سے وہ کہتے ہیں کہ "ہم حور نہیں”

[1] پیٹھ محراب کی قبلے کی طرف رہتی ہے
محوِ نسبت ہیں، تکلّف ہمیں منظور نہیں

صاف دُردی کشِ پیمانۂ جم ہیں ہم لوگ
وائے! وہ بادہ کہ افشردۂ انگور نہیں

ہُوں ظہوری کے مقابل میں خفائی غالبؔ
میرے دعوے پہ یہ حجّت ہے کہ مشہور نہیں

  1. یہ شعر نسخۂ حمیدیہ میں نہیں ہے (جویریہ مسعود)

غزل

نالہ جُز حسنِ طلب، اے ستم ایجاد نہیں
ہے تقاضائے جفا، شکوۂ بیداد نہیں

عشق و مزدوریِ عشرت گہِ خسرو، کیا خُوب!
ہم کو تسلیم نکو نامیِ فرہاد نہیں

کم نہیں وہ بھی خرابی میں، پہ وسعت معلوم
دشت میں ہے مجھے وہ عیش کہ گھر یاد نہیں

اہلِ بینش کو ہے طوفانِ حوادث مکتب
لطمۂ موج کم از سیلیِ استاد نہیں

وائے مظلومیِ تسلیم! و بداحالِ وفا!
جانتا ہے کہ ہمیں طاقتِ فریاد نہیں

رنگِ تمکینِ گُل و لالہ پریشاں کیوں ہے؟
گر چراغانِ سرِ راہ گُزرِ باد نہیں

سَبَدِ گُل کے تلے بند کرے ہے گلچیں!
مژدہ اے مرغ! کہ گلزار میں صیّاد نہیں

نفی سے کرتی ہے اثبات [1] طراوش [2] گویا
دی ہی جائے دہن اس کو دمِ ایجاد "نہیں”

کم نہیں جلوہ گری میں ترے کوچے سے بہشت
یہی نقشہ ہے ولے، اس قدر آباد نہیں

کرتے کس منہ سے ہو غربت کی شکایت غالبؔ
تم کو بے مہریِ یارانِ وطن یاد نہیں؟

  1. "اثبات” غالباً بالاتفاق مذکر ہے۔ غالب نے خود دوسری جگہ اس لفظ کو مذکر استعمال کیا ہے۔ تاہم غالب کا یہ شعر اس لفظ کی تانیث کا بھی جواز پیدا کر دیتا ہے۔ (حامد علی خاں)
  2. نسخۂ مہر اور نسخۂ حامد علی خان میں ’تراوِش‘ (جویریہ مسعود)

شعر

دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا
یاں آ پڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں

تھک تھک کے ہر مقام پہ دو چار رہ گئے
تیرا پتہ نہ پائیں تو ناچار کیا کریں؟

کیا شمع کے نہیں ہیں ہوا خواہ اہلِ بزم؟
ہو غم ہی جاں گداز تو غم خوار کیا کریں؟


شعر

ہو گئی ہے غیر کی شیریں بیانی کارگر
عشق کا اس کو گماں ہم بے زبانوں پر نہیں


شعر

قیامت ہے کہ سن لیلیٰ کا دشتِ قیس میں آنا
تعجّب سے وہ بولا "یوں بھی ہوتا ہے زمانے میں؟”

دلِ نازک پہ اس کے رحم آتا ہے مجھے غالبؔ
نہ کر سرگرم اس کافر کو اُلفت آزمانے میں


شعر

دل لگا کر لگ گیا اُن کو بھی تنہا بیٹھنا
بارے اپنی بے کسی کی ہم نے پائی داد، یاں

ہیں زوال آمادہ اجزا آفرینش کے تمام
مہرِ گردوں ہے چراغِ رہگزارِ باد، یاں


شعر

یہ ہم جو ہجر میں دیوار و در کو دیکھتے ہیں
کبھی صبا کو کبھی نامہ بر کو دیکھتے ہیں

وہ آئیں [1] گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

نظر لگے نہ کہیں اُس کے دست و بازو کو
یہ لوگ کیوں مرے زخمِ جگر کو دیکھتے ہیں

ترے جواہرِ طرفِ کُلہ کو کیا دیکھیں
ہم اوجِ طالعِ لعل و گہر کو دیکھتے ہیں

  1. نسخۂ نظامی میں ’آئے‘ (اعجاز عبید)

غزل

نہیں کہ مجھ کو قیامت کا اعتقاد نہیں
شبِ فراق سے روزِ جزا زیاد نہیں

کوئی کہے کہ "شبِ مَہ میں کیا بُرائی ہے”
بلا سے آج اگر دن کو ابر و باد نہیں

جو آؤں سامنے اُن کے تو مرحبا نہ کہیں
جو جاؤں واں سے کہیں کو تو خیر باد نہیں

کبھی جو یاد بھی آتا ہوں میں، تو کہتے ہیں
کہ "آج بزم میں کچھ فتنۂ و فساد نہیں”

علاوہ عید کے ملتی ہے اور دن بھی شراب
گدائے کُوچۂ مے خانہ نامراد نہیں

جہاں میں ہو غم و شادی بہم، ہمیں کیا کام؟
دیا ہے ہم کو خدا نے وہ دل کہ شاد نہیں

تم اُن کے وعدے کا ذکر اُن سے کیوں کرو غالبؔ
یہ کیا؟ کہ تم کہو، اور وہ کہیں کہ "یاد نہیں”


غزل

تیرے توسن کو صبا باندھتے ہیں
ہم بھی مضموں کی ہَوا باندھتے ہیں

آہ کا کس نے اثر دیکھا ہے
ہم بھی اک اپنی ہوا باندھتے ہیں

تیری فرصت کے مقابل اے عُمر!
برق کو پابہ حنا باندھتے ہیں

قیدِ ہستی سے رہائی معلوم!
اشک کو بے سروپا باندھتے ہیں

نشۂ رنگ سے ہے واشُدِ گل
مست کب بندِ قبا باندھتے ہیں

غلطی ہائے مضامیں مت پُوچھ
لوگ نالے کو رسا باندھتے ہیں

اہلِ تدبیر کی واماندگیاں
آبلوں پر بھی حنا باندھتے ہیں

سادہ پُرکار ہیں خوباں غالبؔ
ہم سے پیمانِ وفا باندھتے ہیں


شعر

زمانہ سخت کم آزار ہے، بہ جانِ اسدؔ
وگرنہ ہم تو توقعّ زیادہ رکھتے ہیں


غزل

دائم پڑا ہُوا ترے در پر نہیں ہُوں میں
خاک ایسی زندگی پہ کہ پتھر نہیں ہُوں میں

کیوں گردشِ مدام سے گبھرا نہ جائے دل
انسان ہوں پیالہ و ساغر نہیں ہُوں میں

یا رب، زمانہ مجھ کو مٹاتا ہے کس لیے؟
لوحِ جہاں پہ حرفِ مکرّر نہیں ہُوں میں

حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے
آخر گناہگار ہُوں کافَر نہیں ہُوں میں

کس واسطے عزیز نہیں جانتے مجھے؟
لعل و زمرّد و زر و گوھر نہیں ہُوں میں

رکھتے ہو تم قدم مری آنکھوں سے کیوں دریغ؟
رتبے میں مہر و ماہ سے کمتر نہیں ہُوں میں؟

کرتے ہو مجھ کو منعِ قدم بوس کس لیے؟
کیا آسمان کے بھی برابر نہیں ہُوں میں؟ [1]

غالبؔ وظیفہ خوار ہو دو شاہ کو دعا
وہ دن گئے [2] کہ کہتے تھے نوکر نہیں ہُوں میں

  1. ’ مہر نے اس غزل کے پانچویں۔ چھٹے اور ساتویں شعر کو نعتیہ اشعار میں شمار کیا ہے۔‘ (جویریہ مسعود)
  2. کچھ نسخوں میں ’جو‘۔ نسخۂ نظامی : ‫‘کہ’ (اعجاز عبید)

غزل

سب کہاں؟ کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں!

یاد تھیں ہم کو بھی رنگا رنگ بزم آرائیاں
لیکن اب نقش و نگارِ طاقِ نسیاں ہو گئیں

تھیں بنات النعشِ [1] گردوں دن کو پردے میں نہاں
شب کو ان کے جی میں کیا آئی کہ عریاں ہو گئیں

قید میں یعقوب نے لی گو نہ یوسف کی خبر
لیکن آنکھیں روزنِ دیوارِ زنداں ہو گئیں

سب رقیبوں سے ہوں ناخوش، پر زنانِ مصر سے
ہے زلیخا خوش کہ محوِ ماہِ کنعاں ہو گئیں

جُوئے خوں آنکھوں سے بہنے دو کہ ہے شامِ فراق
میں یہ سمجھوں گا کہ شمعیں دو فروزاں ہو گئیں

ان پری زادوں سے لیں گے خلد میں ہم انتقام
قدرتِ حق سے یہی حوریں اگر واں ہو گئیں

نیند اُس کی ہے، دماغ اُس کا ہے، راتیں اُس کی ہیں
تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشاں ہو گئیں [2]

میں چمن میں کیا گیا گویا دبستاں کُھل گیا
بلبلیں سُن کر مرے نالے غزل خواں ہو گئیں

وہ نگاہیں کیوں ہُوئی جاتی ہیں یارب دل کے پار؟
جو مری کوتاہیِ قسمت سے مژگاں ہو گئیں

بس کہ روکا میں نے اور سینے میں اُبھریں پَے بہ پَے
میری آہیں بخیئہ چاکِ گریباں ہو گئیں

واں گیا بھی میں تو ان کی گالیوں کا کیا جواب؟
یاد تھیں جتنی دعائیں صرفِ درباں ہو گئیں

جاں فزا ہے بادہ جس کے ہاتھ میں جام آ گیا
سب لکیریں ہاتھ کی گویا، رگِ جاں ہو گئیں

ہم موحّد ہیں ہمارا کیش ہے ترکِ رسُوم
ملّتیں جب مٹ گئیں اجزائے ایماں ہو گئیں

رنج سے خُوگر ہُوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں

یوں ہی گر روتا رہا غالبؔ تو اے اہل جہاں
دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں

  1. جنازے کے آگے چلنے والی ماتم وار لڑکیاں ؟ یہاں یہ لفظ غالباً "اِبن” کی جمع کے طور پر استعمال نہیں ہوا۔ غالب نے صیغۂ تانیث استعمال کیا ہے۔ حامد علی خاں)
  2. حالی نے یادگارِ غالبؔ میں یوں درج کیا ہے: جس کے بازو پر تری زلفیں پریشاں ہو گئیں (جویریہ مسعود)

غزل

دیوانگی سے دوش پہ زنّار بھی نہیں
یعنی ہمارے جَیب [1] میں اک تار بھی نہیں

دل کو نیازِ حسرتِ دیدار کر چکے
دیکھا تو ہم میں طاقتِ دیدار بھی نہیں

ملنا ترا اگر نہیں آساں تو سہل ہے
دشوار تو یہی ہے کہ دشوار بھی نہیں

بے عشق عُمر کٹ نہیں سکتی ہے اور یاں[2]
طاقت بہ قدرِ لذّتِ آزار بھی نہیں

شوریدگی کے ہاتھ سے سر ہے وبالِ دوش
صحرا میں اے خدا کوئی دیوار بھی نہیں

گنجائشِ عداوتِ اغیار اک طرف
یاں دل میں ضعف سے ہوسِ یار بھی نہیں

ڈر نالہ ہائے زار سے میرے، خُدا کو مان
آخر نوائے مرغِ گرفتار بھی نہیں

دل میں ہے یار کی صفِ مژگاں سے روکشی
حالانکہ طاقتِ خلشِ خار بھی نہیں

اس سادگی پہ کوں نہ مر جائے اے خُدا!
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں

دیکھا اسدؔ کو خلوت و جلوت میں بارہا
دیوانہ گر نہیں ہے تو ہشیار بھی نہیں

  1. جَیب، جیم پر فتح (زبر) مذکّر ہے، بمعنی گریبان۔ اردو میں جیب، جیم پر کسرہ (زیر) کے ساتھ، بمعنیِ کیسہ (Pocket) استعمال میں زیادہ ہے، یہ لفظ مؤنث ہے آس باعث اکثر نسخوں میں ’ہماری‘ ہے۔ قدیم املا میں یائے معروف ہی یائے مجہول (بڑی ے)کی جگہ بھی استعمال کی جاتی تھی اس لئے یہ غلط فہمی مزید بڑھ گئی (اعجاز عبید)
  2. بعض نسخوں میں "اور یاں” چھپا ہے۔ نسخۂ نظامی میں "اور یہاں” درج ہے۔ (حامد علی خان)
    مزید: ہم نے اس نسخے میں "اور یاں” کو ترجیح دی ہے۔ (جویریہ مسعود)

غزل

فزوں کی دوستوں نے حرصِ قاتل ذوقِ کشتن میں
ہوئے ہیں بخیہ ہائے زخم، جوہر تیغِ دشمن میں

تماشا کردنی ہے لطفِ زخمِ انتظار اے دل
سوادِ زخمِ مرہم [1] مردمک ہے چشمِ سوزن میں

دل و دین و خرد تاراجِ نازِ جلوہ پیرائی
ہوا ہے جوہرِ آئینہ خَیلِ مور خرمن میں

نہیں ہے رخم کوئی بخیے کے درخُور مرے تن میں
ہُوا ہے تارِ اشکِ یاس، رشتہ چشمِ سوزن میں

ہُوئی ہے مانعِ ذوقِ تماشا، خانہ ویرانی
کفِ سیلاب باقی ہے برنگِ پنبہ روزن میں

ودیعت خانۂ بے دادِ کاوش ہائے مژگاں ہوں
نگینِ نامِ شاہد ہے مِرا [2] ہر قطرہ خوں تن میں

بیاں کس سے ہو ظلمت گستری میرے شبستاں کی
شبِ مہ ہو جو رکھ دیں پنبہ دیواروں کے روزن میں

نکو ہش مانعِ بے ربطیِ شورِ جنوں آئی
ہُوا ہے خندہ احباب بخیہ جَیب و دامن میں

ہوئے اُس مِہر وَش کے جلوۂ تمثال کے آگے
پَرافشاں جوہر آئینے میں مثلِ ذرّہ روزن میں

نہ جانوں نیک ہُوں یا بد ہُوں، پر صحبت مخالف ہے
جو گُل ہُوں تو ہُوں گلخن میں جو خس ہُوں تو ہُوں گلشن میں

ہزاروں دل دیئے جوشِ جنونِ عشق نے مجھ کو
سیہ ہو کر سویدا ہو گیا ہر قطرہ خوں تن میں

اسدؔ زندانیِ تاثیرِ الفت ہائے خوباں ہُوں
خمِ دستِ نوازش ہو گیا ہے طوق گردن میں

  1. نسخۂ حمیدیہ میں "سویدا داغِ مرہم” بجائے ” سوادِ زخمِ مرہم” (جویریہ مسعود)
  2. اکثر قدیم نسخوں میں "مرا” کی جگہ "مِرے” چھپا ہے اور شارحین نے بلا چون و چرا اسی طرح اس کی تشریح کردی ہے۔ قدیم نسخوں میں صرف نسخۂ حمیدیہ میں "مِرا” چھپا ہے اور یہ درست معلوم ہوتا ہے۔ ممکن ہے غالب نے بھی یہی لکھا ہو کیونکہ اس سے شعر بہت صاف ہو جاتا ہے۔ ورنہ یہ تعقید بہ درجۂ عیب معلوم ہوتی ہے۔ ۔ (حامد علی خان)

غزل

مزے جہان کے اپنی نظر میں خاک نہیں
سوائے خونِ جگر، سو جگر میں خاک نہیں

مگر غبار ہُوئے پر ہَوا اُڑا لے جائے
وگرنہ تاب و تواں بال و پر میں خاک نہیں

یہ کس بہشت شمائل کی آمد آمد ہے؟
کہ غیرِ جلوۂ گُل رہ گزر میں خاک نہیں

بھلا اُسے نہ سہی، کچھ مجھی کو رحم آتا
اثر مرے نفسِ بے اثر میں خاک نہیں

خیالِ جلوۂ گُل سے خراب ہیں میکش
شراب خانے کے دیوار و در میں خاک نہیں

ہُوا ہوں عشق کی غارت گری سے شرمندہ
سوائے حسرتِ تعمیر۔ گھر میں خاک نہیں

ہمارے شعر ہیں اب صرف دل لگی کے اسدؔ
کُھلا، کہ فائدہ عرضِ ہُنر میں خاک نہیں


غزل

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں؟
روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں ستائے کیوں؟

دَیر نہیں، حرم نہیں، در نہیں، آستاں نہیں
بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم، غیر [1] ہمیں اُٹھائے کیوں؟

جب وہ جمالِ دل فروز، صورتِ مہرِ نیم روز
آپ ہی ہو نظارہ سوز، پردے میں منہ چھپائے کیوں؟

دشنۂ غمزہ جاں ستاں، ناوکِ ناز بے پناہ
تیرا ہی عکس رُخ سہی، سامنے تیرے آئے کیوں؟

قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں؟

حسن اور اس پہ حسنِ ظن، رہ گئی بُو الْہَوَس کی شرم
اپنے پہ اعتماد ہے غیر کو آزمائے کیوں؟

واں وہ غرورِ عزّ و ناز، یاں یہ حجابِ پاس وضع
راہ میں ہم ملیں کہاں، بزم میں وہ بلائے کیوں؟

ہاں وہ نہیں خدا پرست، جاؤ وہ بے وفا سہی
جس کو ہوں دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں؟

غالبؔ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں
روئیے زار زار کیا؟ کیجیے ہائے ہائے کیوں؟

  1. نسخۂ مہر میں "غیر” کی جگہ "کوئی” درج ہے۔ (جویریہ مسعود) مزید: قدیم نسخوں میں یہاں "غیر ” ہی چھپا ہے۔ قدیم نسخۂ نظامی میں بھی "غیر” ہے۔ عرشی، حسرت اور مالک رام نے بھی متن میں "غیر” ہی رکھا ہے۔ مہر صاحب نے "کوئی” کو ترجیح دی ہے مگر اس طرح پہلے دونوں شعروں میں "کوئی ہمیں” کا ٹکڑا بہ تکرار آ جاتا ہے۔ اگر صرف یہی شعر مد نظر ہو تو البتہ "کوئی” پسندیدہ معلوم ہوتا ہے۔ (حامد علی خان)

غزل

غنچۂ ناشگفتہ کو دور سے مت دکھا، کہ یُوں
بوسے کو پُوچھتا ہوں مَیں، منہ سے مجھے بتا کہ یُوں

پُرسشِ طرزِ دلبری کیجیے کیا؟ کہ بن کہے
اُس کے ہر اک اشارے سے نکلے ہے یہ ادا کہ یُوں

رات کے وقت مَے پیے ساتھ رقیب کو لیے
آئے وہ یاں خدا کرے، پر نہ خدا کرے کہ یُوں

"غیر سے رات کیا بنی” یہ جو کہا تو دیکھیے
سامنے آن بیٹھنا، اور یہ دیکھنا کہ یُوں

بزم میں اُس کے روبرو کیوں نہ خموش بیٹھیے
اُس کی تو خامُشی میں بھی ہے یہی مدّعا کہ یُوں

میں نے کہا کہ "بزمِ ناز چاہیے غیر سے تہی”
سُن کے ستم ظریف نے مجھ کو اُٹھا دیا کہ یُوں؟

مجھ سے کہا جو یار نے "جاتے ہیں ہوش کس طرح”
دیکھ کے میری بیخودی، چلنے لگی ہوا کہ یُوں

کب مجھے کوئے یار میں رہنے کی وضع یاد تھی
آئینہ دار بن گئی حیرتِ نقشِ پا کہ یُوں

گر ترے دل میں ہو خیال، وصل میں شوق کا زوال
موجِ محیطِ آب میں مارے ہے دست و پا کہ یُوں

جو یہ کہے کہ ریختہ کیوں کر [1] ہو رشکِ فارسی
گفتۂ غالبؔ ایک بار پڑھ کے اُسے سُنا کہ یُوں

  1. نسخۂ مہر میں ‘کہ’ (جویریہ مسعود)

شعر

ہم بے خودیِ عشق میں کر لیتے ہیں سجدے
یہ ہم سے نہ پوچھو کہ کہاں ناصِیہ سا ہیں


غزل

اپنا احوالِ دلِ زار کہوں یا نہ کہوں
ہے حیا مانعِ اظہار۔ کہوں یا نہ کہوں

نہیں کرنے کا میں تقریر ادب سے باہر
میں بھی ہوں واقفِ اسرار، کہوں یا نہ کہوں

شکوہ سمجھو اسے یا کوئی شکایت سمجھو
اپنی ہستی سے ہوں بیزار۔ کہوں یا نہ کہوں

اپنے دل ہی سے میں احوالِ گرفتاریِ دل
جب نہ پاؤں کوئی غم خوار کہوں یا نہ کہوں

دل کے ہاتھوں سے، کہ ہے دشمنِ جانی اپنا
ہوں اک آفت میں گرفتار، کہوں یا نہ کہوں

میں تو دیوانہ ہوں اور ایک جہاں ہے غمّاز
گوش ہیں در پسِ دیوار کہوں یا نہ کہوں

آپ سے وہ مرا احوال نہ پوچھے تو اسدؔ
حسبِ حال اپنے پھر اشعار کہوں یا نہ کہوں


غزل

ممکن نہیں کہ بھول کے بھی آرمیدہ ہوں
میں دشتِ غم میں آہوئے صیّاد دیدہ ہوں

ہوں دردمند، جبر ہو یا اختیار ہو
گہ نالۂ کشیدہ، گہ اشکِ چکیدہ ہوں

نے سُبحہ سے علاقہ نہ ساغر سے رابطہ[1]
میں معرضِ مثال میں دستِ بریدہ ہوں

ہوں خاکسار پر نہ کسی سے ہو مجھ کو لاگ
نے دانۂ فتادہ ہوں، نے دامِ چیدہ ہوں

جو چاہیے، نہیں وہ مری قدر و منزلت
میں یوسفِ بہ قیمتِ اوّل خریدہ ہوں

ہر گز کسی کے دل میں نہیں ہے مری جگہ
ہوں میں کلامِ نُغز، ولے ناشنیدہ ہوں

اہلِ وَرَع کے حلقے میں ہر چند ہوں ذلیل
پر عاصیوں کے زمرے [2] میں مَیں برگزیدہ ہوں

ہوں گرمیِ نشاطِ تصوّر سے نغمہ سنج
میں عندلیبِ گلشنِ نا آفریدہ ہوں [3]

جاں لب پہ آئی تو بھی نہ شیریں ہوا دہن
از بسکہ تلخیِ غمِ ہجراں چشیدہ ہوں [4]

ظاہر ہیں میری شکل سے افسوس کے نشاں
خارِ الم سے پشت بہ دنداں گزیدہ ہوں[5]

پانی سے سگ گزیدہ ڈرے جس طرح اسدؔ
ڈرتا ہوں آئینے سے کہ مردم گزیدہ ہوں

  1. نسخۂ مہر میں "رابطہ” کی جگہ” واسطہ”۔ (جویریہ مسعود) مزید: نسخۂ بھوپال میں اس زمین کی دو غزلیں شامل ہیں لیکن ایک یہ شعر اور ایک (دیکھیں فٹ نوٹ نمبر 82) شعر ہی اس میں درج ہیں۔۔ (اعجاز عبید)
  2. کچھ نسخوں میں ‘فرقے’ بجائے "زمرے” (جویریہ مسعود)
  3. مشہور شعر ہے مگر نسخۂ مہر میں درج نہیں (جویریہ مسعود)
  4. یہ شعر بھی نسخۂ مہر میں درج نہیں (جویریہ مسعود)
  5. یہ شعر بھی نسخۂ مہر میں درج نہیں (جویریہ مسعود) دیکھیں فٹ نوٹ نمبر 78

شعر

جس دن سے کہ ہم خستہ گرفتارِ بلا ہیں
کپڑوں میں جوئیں بخئے کے ٹانکوں سے سوا ہیں


شعر

مے کشی کو نہ سمجھ بے حاصل
بادہ غالبؔ عرقِ بید نہیں


غزل

دھوتا ہوں جب میں پینے کو اس سیم تن کے پاؤں
رکھتا ہے ضد سے کھینچ کے باہر لگن کے پاؤں

دی سادگی سے جان پڑوں کوہکن کے پاؤں
ہیہات کیوں نہ ٹوٹ گیے پیر زن کے پاؤں

بھاگے تھے ہم بہت۔ سو، اسی کی سزا ہے یہ
ہو کر اسیر دابتے ہیں راہ زن کے پاؤں

مرہم کی جستجو میں پھرا ہوں جو دور دور
تن سے سوا فِگار ہیں اس خستہ تن کے پاؤں

اللہ رے ذوقِ دشت نوردی کہ بعدِ مرگ
ہلتے ہیں خود بہ خود مرے، اندر کفن کے، پاؤں

ہے جوشِ گل بہار میں یاں تک کہ ہر طرف
اڑتے ہوئے الجھتے ہیں مرغِ چمن کے پاؤں

شب کو کسی کے خواب میں آیا نہ ہو کہیں
دکھتے ہیں آج اس بتِ نازک بدن کے پاؤں

غالبؔ مرے کلام میں کیوں کر مزہ نہ ہو
پیتا ہوں دھو کے خسروِ شیریں سخن کے پاؤں


و

شعر

حسد سے دل اگر افسردہ ہے، گرمِ تماشا ہو
کہ چشمِ تنگ شاید کثرتِ نظّارہ سے وا ہو

بہ قدرِ حسرتِ دل چاہیے ذوقِ معاصی بھی
بھروں یک گوشۂ دامن گر آبِ ہفت دریا ہو

اگر وہ سرو قد گرمِ خرامِ ناز آ جاوے
کفِ ہر خاکِ گلشن، شکلِ قمری، نالہ فرسا ہو


شعر

کعبے میں جا رہا، تو نہ دو طعنہ، کیا کہیں
بھولا ہوں حقِّ صحبتِ اہلِ کُنِشت کو

طاعت میں تا رہے نہ مے و انگبیں کی لاگ
دوزخ میں ڈال دو کوئی لے کر بہشت کو

ہوں منحرف نہ کیوں رہ و رسمِ ثواب سے
ٹیڑھا لگا ہے قط قلمِ سرنوشت کو

غالبؔ کچھ اپنی سعی سے لہنا نہیں مجھے
خرمن جلے اگر نہ مَلخ کھائے کشت کو


غزل

وارستہ اس سے ہیں کہ محبّت ہی کیوں نہ ہو
کیجے ہمارے ساتھ، عداوت ہی کیوں نہ ہو

چھوڑا نہ مجھ میں ضعف نے رنگ اختلاط کا
ہے دل پہ بار، نقشِ محبّت ہی کیوں نہ ہو

ہے مجھ کو تجھ سے تذکرۂ غیر کا گلہ
ہر چند بر سبیلِ شکایت ہی کیوں نہ ہو

پیدا ہوئی ہے، کہتے ہیں، ہر درد کی دوا
یوں ہو تو چارۂ غمِ الفت ہی کیوں نہ ہو

ڈالا نہ بیکسی نے کسی سے معاملہ
اپنے سے کھینچتا ہوں خجالت ہی کیوں نہ ہو

ہے آدمی بجائے خود اک محشرِ خیال
ہم انجمن سمجھتے ہیں خلوت ہی کیوں نہ ہو

ہنگامۂ زبونیِ ہمّت ہے، انفعال
حاصل نہ کیجے دہر سے، عبرت ہی کیوں نہ ہو

وارستگی بہانۂ بیگانگی نہیں
اپنے سے کر، نہ غیر سے، وحشت ہی کیوں نہ ہو

مٹتا ہے فوتِ فرصتِ ہستی کا غم کوئی؟
عمرِ عزیز صَرفِ عبادت ہی کیوں نہ ہو

اس فتنہ خو کے در سے اب اٹھتے نہیں اسدؔ
اس میں ہمارے سر پہ قیامت ہی کیوں نہ ہو


شعر

ابر روتا ہے کہ بزمِ طرب آمادہ کرو
برق ہنستی ہے کہ فرصت کوئی دم دے ہم کو


شعر

ملی نہ وسعتِ جولان یک جنون ہم کو
عدم کو لے گئے دل میں غبارِ صحرا کو


غزل

قفس میں ہوں گر اچّھا بھی نہ جانیں میرے شیون کو
مرا ہونا برا کیا ہے نوا سنجانِ گلشن کو

نہیں گر ہمدمی آساں، نہ ہو، یہ رشک کیا کم ہے
نہ دی ہوتی خدا یا آرزوئے دوست، دشمن کو

نہ نکلا آنکھ سے تیری اک آنسو اس جراحت پر
کیا سینے میں جس نے خوں چکاں مژگانِ سوزن کو

خدا شرمائے ہاتھوں کو کہ رکھتے ہیں کشاکش میں
کبھی میرے گریباں کو کبھی جاناں کے دامن کو

ابھی ہم قتل گہ کا دیکھنا آساں سمجھتے ہیں
نہیں دیکھا شناور جوئے خوں میں تیرے توسن کو

ہوا چرچا جو میرے پاؤں کی زنجیر بننے کا
کیا بیتاب کاں میں جنبشِ جوہر نے آہن کو

خوشی کیا، کھیت پر میرے، اگر سو بار ابر آوے
سمجھتا ہوں کہ ڈھونڈے ہے ابھی سے برق خرمن کو

وفاداری بہ شرطِ استواری اصلِ ایماں ہے
مَرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو

شہادت تھی مری قسمت میں جو دی تھی یہ خو مجھ کو
جہاں تلوار کو دیکھا، جھکا دیتا تھا گردن کو

نہ لٹتا دن کو تو کب رات کو یوں بے خبر سوتا
رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو

سخن کیا کہہ نہیں سکتے کہ جویا ہوں جواہر کے
جگر کیا ہم نہیں رکھتے کہ کھودیں جا کے معدن کو

مرے شاہ سلیماں جاہ سے نسبت نہیں غالبؔ
فریدون و جم و کیخسرو و داراب و بہمن کو


شعر

واں اس کو ہولِ دل ہے تو یاں میں ہوں شرمسار
یعنی یہ میری آہ کی تاثیر سے نہ ہو

اپنے کو دیکھتا نہیں ذوقِ ستم کو دیکھ
آئینہ تاکہ دیدۂ نخچیر سے نہ ہو


غزل

واں پہنچ کر جو غش آتا پئے ہم ہے ہم کو
صد رہ آہنگِ زمیں بوسِ قدم ہے ہم کو

دل کو میں اور مجھے دل محوِ وفا رکھتا ہے
کس قدر ذوقِ گرفتاریِ ہم ہے ہم کو

ضعف سے نقشِ پئے مور، ہے طوقِ گردن
ترے کوچے سے کہاں طاقتِ رم ہے ہم کو

جان کر کیجے تغافل کہ کچھ امّید بھی ہو
یہ نگاہِ غلط انداز تو سَم ہے ہم کو

رشکِ ہم طرحی و دردِ اثرِ بانگِ حزیں
نالۂ مرغِ سحر تیغِ دو دم ہے ہم کو

سر اڑانے کے جو وعدے کو مکرّر چاہا
ہنس کے بولے کہ "ترے سر کی قسم ہے ہم کو!”

دل کے خوں کرنے کی کیا وجہ؟ ولیکن ناچار
پاسِ بے رونقیِ دیدہ اہم ہے ہم کو

تم وہ نازک کہ خموشی کو فغاں کہتے ہو
ہم وہ عاجز کہ تغافل بھی ستم ہے ہم کو

ق

لکھنؤ آنے کا باعث نہیں کھلتا یعنی
ہوسِ سیر و تماشا، سو وہ کم ہے ہم کو

مقطعِ سلسلۂ شوق نہیں ہے یہ شہر
عزمِ سیرِ نجف و طوفِ حرم ہے ہم کو

لیے جاتی ہے کہیں ایک توقّع غالبؔ
جادۂ رہ کششِ کافِ کرم ہے ہم کو

ابر روتا ہے کہ بزمِ طرب آمادی کرو
برق ہنستی ہے کہ فرصت کوئی دم ہے ہم کو

طاقتِ رنجِ سفر بھی نہیں پاتے اتنی
ہجرِ یارانِ وطن کا بھی الم ہے ہم کو

لائی ہے معتمد الدولہ بہادر کی امید
جادۂ رہ کششِ کافِ کرم ہے ہم کو[1]

  1. یہ تینوں اشعار نسخۂ حمیدیہ میں نہیں ہیں۔ اس وجہ یہ ہے کہ اشعار دوران سفر کلکتہ لکھے گیے تھے اور نسخۂ حمیدیہ میں شامل تمام اشعار سفر کلکتہ سے پہلے کے ہیں (جویریہ مسعود)

غزل

تم جانو، تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو
مجھ کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو

بچتے نہیں مواخذۂ روزِ حشر سے
قاتل اگر رقیب ہے تو تم گواہ ہو

کیا وہ بھی بے گنہ کش و حق نا شناس [1] ہیں
مانا کہ تم بشر نہیں خورشید و ماہ ہو

ابھرا ہوا نقاب میں ہے ان کے ایک تار
مرتا ہوں میں کہ یہ نہ کسی کی نگاہ ہو

جب مے کدہ چھٹا تو پھر اب کیا جگہ کی قید
مسجد ہو، مدرسہ ہو، کوئی خانقاہ ہو

سنتے ہیں جو بہشت کی تعریف، سب درست
لیکن خدا کرے وہ تِرا [2] جلوہ گاہ ہو

غالبؔ بھی گر نہ ہو تو کچھ ایسا ضرر نہیں
دنیا ہو یا رب اور مرا بادشاہ ہو

  1. حق ناسپاس نسخۂ نظامی میں ہے، حق نا شناس۔ حسرت، مہر اور عرشی میں۔ ’ناسپاس‘ کتابت کی غلطی بھی ممکن ہے۔(اعجاز عبید) مزید: نسخۂ نظامی طبع اول میں "حق ناسپاس” چھپا ہے۔ ایک آدھ اور قدیم نسخے میں بھی یونہی ملا ہے مگر بعض دوسرے قدیم نسخوں میں "ناشناس” بھی چھپا ہے۔ جدید نسخوں میں مالک رام نے متن میں "ناسپاس” اور طباطبائی، حسرت موہانی، عرشی اور مہر وغیرہم نے "ناشناس” درج کیا ہے۔ یہی درست معلوم ہوتا ہے۔ (حامد علی خان)
  2. نسخۂ نظامی طبع اول میں اور دیگر نسخوں میں بشمول نسخۂ حسرت موہانی، نسخۂ طباطبائی و نسخۂ عرشی، یہاں "ترا” ہی درج ہے۔ نسخۂ حمیدیہ طبع اول اور نسخۂ مہر میں "تِری” چھپا ہے۔ (حامد علی خان)

غزل

گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیوں کر ہو
کہے سے کچھ نہ ہوا، پھر کہو تو کیوں کر ہو

ہمارے ذہن میں اس فکر کا ہے نام وصال
کہ گر نہ ہو تو کہاں جائیں؟ ہو تو کیوں کر ہو

ادب ہے اور یہی کشمکش، تو کیا کیجے
حیا ہے اور یہی گومگو تو کیوں کر ہو

تمہیں کہو کہ گزارا صنم پرستوں کا
بتوں کی ہو اگر ایسی ہی خو تو کیوں کر ہو

الجھتے ہو تم اگر دیکھتے ہو آئینہ
جو تم سے شہر میں ہوں ایک دو تو کیوں کر ہو

جسے نصیب ہو روزِ سیاہ میرا سا
وہ شخص دن نہ کہے رات کو تو کیوں کر ہو

ہمیں پھر ان سے امید، اور انہیں ہماری قدر
ہماری بات ہی پوچھیں نہ وو تو کیوں کر ہو

غلط نہ تھا ہمیں خط پر گماں تسلّی کا
نہ مانے دیدۂ دیدار جو، تو کیوں کر ہو

بتاؤ اس مژہ کو دیکھ کر کہ مجھ کو قرار
یہ نیش ہو رگِ جاں میں فِرو تو کیوں کر ہو

مجھے جنوں نہیں غالبؔ ولے بہ قولِ حضور [1]
"فراقِ یار میں تسکین ہو تو کیوں کر ہو”

  1. حضور: بہادر شاہ ظفر، اگلا مصرع ظفر کا ہی ہے جس کی طرح میں غالبؔ نے درباری مشاعرے کے لئے یہ غزل کہی تھی۔ (اعجاز عبید)

غزل

کسی کو دے کے دل کوئی نوا سنجِ فغاں کیوں ہو
نہ ہو جب دل ہی سینے میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو

وہ اپنی خو نہ چھوڑیں گے ہم اپنی وضع کیوں چھوڑیں [1]
سبک سر بن کے کیا پوچھیں کہ ہم سے سر گراں کیوں ہو

کِیا غم خوار نے رسوا، لگے آگ اس محبّت کو
نہ لاوے تاب جو غم کی، وہ میرا راز داں کیوں ہو

وفا کیسی کہاں کا عشق جب سر پھوڑنا ٹھہرا
تو پھر اے سنگ دل تیرا ہی سنگِ آستاں کیوں ہو

قفس میں مجھ سے رودادِ چمن کہتے نہ ڈر ہمدم
گری ہے جس پہ کل بجلی وہ میرا آشیاں کیوں ہو

یہ کہہ سکتے ہو "ہم دل میں نہیں ہیں” پر یہ بتلاؤ
کہ جب دل میں تمہیں تم ہو تو آنکھوں سے نہاں کیوں ہو

غلط ہے جذبِ دل کا شکوہ دیکھو جرم کس کا ہے
نہ کھینچو گر تم اپنے کو، کشاکش درمیاں کیوں ہو

یہ فتنہ آدمی کی خانہ ویرانی کو کیا کم ہے
ہوئے تم دوست جس کے، دشمن اس کا آسماں کیوں ہو

یہی ہے آزمانا تو ستانا کس کو کہتے ہیں
عدو کے ہو لیے جب تم تو میرا امتحاں کیوں ہو

کہا تم نے کہ کیوں ہو غیر کے ملنے میں رسوائی
بجا کہتے ہو، سچ کہتے ہو، پھر کہیو کہ ہاں کیوں ہو

نکالا چاہتا ہے کام کیا طعنوں سے تُو غالبؔ
ترے بے مہر کہنے سے وہ تجھ پر مہرباں کیوں ہو

  1. کچھ نسخوں میں ’وضع کیوں بدلیں‘ ہے۔ (جویریہ مسعود) مزید: اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ خود غالب نے "وضع کیوں بدلیں” کہا تھا (حامد علی خان)

شعر

رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں کوئی نہ ہو
ہم سخن کوئی نہ ہو اور ہم زباں کوئی نہ ہو

بے در و دیوار سا اک گھر بنایا چاہیے
کوئی ہم سایہ نہ ہو اور پاسباں کوئی نہ ہو

پڑیے گر بیمار تو کوئی نہ ہو بیمار دار [1]
اور اگر مر جائیے تو نوحہ خواں کوئی نہ ہو

  1. قدیم لفظ ’بیمار دار‘ ہی تھا بعد میں لفظ ’تیمار دار‘ استعمال کیا جانے لگا تو جدید نسخوں میں اس لفظ کو تیماردار لکھا گیا۔(اعجاز عبید)

مزید: بعض ما بعد نسخوں میں "بیمار دار” کی جگہ "تیمار دار” چھپا ہے۔ مگر نسخۂ نظامی مطبوعہ 1862 اور اس کے قریبی عہد کے جو آٹھ نسخے نظر سے گزرے، ان سب میں "بیمار دار چھپا ہے۔ مالک رام اور عرشی کے نسبتاً جدید نسخوں میں بھی "بیمار دار "ہی درج ہے۔ بظاہر یہی غالب کا لفظ ثابت ہوتا ہے۔ نسخۂ حمیدیہ طبع اول میں "تیماردار” کا اندراج شاید سہوِ کتابت ہے۔ نسخۂ مہر میں بھی "تیماردار” ممکن ہے، یہی سے لیا گیا ہو۔ بعض اور اصحاب نے بھی اپنے نسخوں میں "تیماردار” غالباً اس لیے لکھا ہے کہ آج کل یہ لفظ اردو میں عام طور سے مستعمل ہے مگر "بیمار دار” اس مفہوم میں قابل ترجیح ہے کیوں کہ اس کا ایک یہی مقرر مفہوم ہے جو تیمار اور تیماردار کا نہیں۔ چنانچہ فارسی میں ان الفاظ کے دوسرے مفاہیم بھی ہیں۔ علاوہ ازیں غالب کا کوئی لفظ عمداً بدلنے سے احتراز واجب ہے۔ (حامد علی خان)


غزل

[1]

بھولے سے کاش وہ ادھر آئیں تو شام ہو
کیا لطف ہو جو ابلقِ دوراں بھی رام ہو

تا گردشِ فلک سے یوں ہی صبح و شام ہو
ساقی کی چشمِ مست ہو اور دورِ جام ہو

بے تاب ہوں بلا سے، کن [2] آنکھوں سے دیکھ لیں
اے خوش نصیب! کاش قضا کا پیام ہو

کیا شرم ہے، حریم ہے، محرم ہے رازدار
میں سر بکف ہوں، تیغِ ادا بے نیام ہو

میں چھیڑنے کو کاش اسے گھور لوں کہیں
پھر شوخ دیدہ بر سرِ صد انتقام ہو

وہ دن کہاں کہ حرفِ تمناّ ہو لب شناس
ناکام، بد نصیب، کبھی شاد کام ہو

گھس پل کے چشمِ شوق قدم بوس ہی سہی
وہ بزمِ غیر ہی میں ہوں اژدہام [3] میں

اتنی پیوں کہ حشر میں سرشار ہی اٹھوں
مجھ پر جو چشمِ ساقیِ بیت الحرام ہو

پیرانہ سال غالبؔ میکش کرے گا کیا
بھوپال میں مزید جو دو دن قیام ہو

  1. نوٹ: غلام رسول مہر کو شک ہے کہ یہ غزل غالبؔ کی نہیں (جویریہ مسعود)
  2. کَن
  3. اس لفظ کا ایک املا ازدحام بھی ہے (جویریہ مسعود)

ہ

غزل

شبِ وصال میں مونس گیا ہے بَن تکیہ
ہوا ہے موجبِ آرامِ جان و تن تکیہ

خراج بادشہِ چیں سے کیوں نہ مانگوں آج؟
کہ بن گیا ہے خمِ جعدِ [1] پُر شکن تکیہ

بنا ہے تختۂ گل ہائے یاسمیں بستر
ہوا ہے دستۂ نسرین و نسترن تکیہ

فروغِ حسن سے روشن ہے خوابگاہ تمام
جو رختِ خواب ہے پرویں، تو ہے پرن تکیہ

مزا ملے کہو کیا خاک ساتھ سونے کا
رکھے جو بیچ میں وہ شوخِ سیم تن تکیہ

اگرچہ تھا یہ ارادہ مگر خدا کا شکر
اٹھا سکا نہ نزاکت سے گلبدن تکیہ

ہوا ہے کاٹ کے چادر کو ناگہاں غائب
اگر چہ زانوئے نل پر رکھے دمن تکیہ

بضربِ تیشہ وہ اس واسطے ہلاک ہوا
کہ ضربِ تیشہ پہ رکھتا تھا کوہکن تکیہ

یہ رات بھر کا ہے ہنگامہ صبح ہونے تک
رکھو نہ شمع پر اے اہلِ انجمن تکیہ

اگرچہ پھینک دیا تم نے دور سے لیکن
اٹھائے کیوں کہ یہ رنجورِ خستہ تن تکیہ

غش آ گیا جو پس از قتل میرے قاتل کو
ہوئی ہے اس کو مری نعشِ بے کفن تکیہ

شبِ فراق میں یہ حال ہے اذیّت کا
کہ سانپ فرش ہے اور سانپ کا ہے من تکیہ

روا رکھو نہ رکھو، تھا جو لفظ تکیہ کلام
اب اس کو کہتے ہیں اہلِ سخن "سخن تکیہ”

ہم اور تم فلکِ پیر جس کو کہتے ہیں
فقیر غالبؔ مسکیں کا ہے کہن تکیہ

  1. نسخۂ مہر میں دال پر جزم ہے۔ (جویریہ مسعود)

شعر

از مہر تا بہ ذرّہ دل و دل ہے آئینہ
طوطی کو” شش جہت” سے مقابل ہے آئینہ


شعر

ہے سبزہ زار ہر در و دیوارِ غم کدہ
جس کی بہار یہ ہو پھر اس کی خزاں نہ پوچھ

ناچار بیکسی کی بھی حسرت اٹھائیے
دشواریِ رہ و ستمِ ہمرہاں نہ پوچھ


شعر

نہ پوچھ حال اس انداز، اس عتاب کے ساتھ
لبوں پہ جان بھی آ جائے گی جواب کے ساتھ


شعر

ہندوستان سایۂ گل پائے تخت تھا
جاہ و جلال عہدِ وصالِ بتاں نہ پوچھ

ہر داغِ تازہ یک دلِ داغ انتظار ہے
عرضِ فضائے سینۂ درد امتحاں نہ پوچھ


ی

شعر

صد جلوہ رو بہ رو ہے جو مژگاں اٹھائیے
طاقت کہاں کہ دید کا احساں اٹھائیے

ہے سنگ پر براتِ معاشِ جنونِ عشق
یعنی ہنوز منّتِ طفلاں اٹھائیے

دیوار بارِ منّتِ مزدور سے ہے خم
اے خانماں خراب نہ احساں اٹھائیے

یا میرے زخمِ رشک کو رسوا نہ کیجیے
یا پردۂ تبسّمِ پنہاں اٹھائیے


غزل

وہ بات چاہتے ہو کہ جو بات چاہیے
صاحب کے ہم نشیں کو کرامات چاہیے

مسجد کے زیرِ سایہ خرابات چاہیے
بھَوں پاس آنکھ قبلۂ حاجات چاہیے

عاشق ہوئے ہیں آپ بھی ایک اور شخص پر
آخر ستم کی کچھ تو مکافات چاہیے

دے داد اے فلک! دلِ حسرت پرست کی [1]
ہاں کچھ نہ کچھ تلافیِ مافات چاہیے

سیکھے ہیں مہ رخوں کے لیے ہم مصوّری
تقریب کچھ تو بہرِ ملاقات چاہیے

مے سے غرض نشاط ہے کس رو سیاہ کو
اک گونہ بیخودی مجھے دن رات چاہیے

ہے رنگِ لالہ و گل و نسریں جدا جدا
ہر رنگ میں بہار کا اثبات چاہیے

ق

سر پائے خم پہ چاہیے ہنگامِ بے خودی
رو سوئے قبلہ وقتِ مناجات چاہیے

یعنی بہ حسبِ گردشِ پیمانۂ صفات
عارف ہمیشہ مستِ مئے ذات چاہیے

نشو و نما ہے اصل سے غالبؔ فروع کو
خاموشی ہی سے نکلے ہے جو بات چاہیے

  1. نسخۂ مہر میں "کو” (جویریہ مسعود)
    مزید: یہاں "کی” کے بجائے "کو” معنوی لحاظ سے غلط ہے کیوں کہ شاعر خود داد طلب ہے، جسے اس مصرع میں : ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد۔ بعض اچھے نسخوں میں "کو” سہواً چھپا ہے۔ (حامد علی خان

غزل

بساطِ عجز میں تھا ایک دل یک قطرہ خوں وہ بھی
سو رہتا ہے بہ اندازِ چکیدن سر نگوں وہ بھی

رہے اس شوخ سے آزردہ ہم چندے تکلّف سے
تکلّف بر طرف، تھا ایک اندازِ جنوں وہ بھی

خیالِ مرگ کب تسکیں دلِ آزردہ کو بخشے
مرے دامِ تمنّا میں ہے اک صیدِ زبوں وہ بھی

نہ کرتا کاش نالہ مجھ کو کیا معلوم تھا ہمدم
کہ ہو گا باعثِ افزائشِ دردِ دروں وہ بھی

نہ اتنا بُرّشِ تیغِ جفا پر ناز فرماؤ
مرے دریائے بیتابی میں ہے اک موجِ خوں وہ بھی

مئے عشرت کی خواہش ساقیِ گردوں سے کیا کیجے
لیے بیٹھا ہے اک دو چار [1] جامِ واژگوں وہ بھی

مجھے معلوم ہے جو تو نے میرے حق میں سوچا ہے
کہیں ہو جائے جلد اے گردشِ گردونِ دوں، وہ بھی!

نظر راحت پہ میری کر نہ وعدہ شب کو آنے کا
کہ میری خواب بندی کے لیے ہو گا فسوں وہ بھی

مرے دل میں ہے غالبؔ شوقِ وصل و شکوۂ ہجراں
خدا وہ دن کرے جو اس سے میں یہ بھی کہوں، وہ بھی

1۔ طباطبائی نے لکھا ہے کہ ان اعداد کی مجموعے سے سات آسمان پورے ہو جاتے ہیں (حامد علی خان)


شعر

ہے بزمِ بتاں میں سخن آزردہ لبوں سے
تنگ آئے ہیں ہم ایسے خوشامد طلبوں سے

ہے دورِ قدح وجہ پریشانیِ صہبا
یک بار لگا دو خمِ مے میرے لبوں سے

رندانِ درِ مے کدہ گستاخ ہیں زاہد
زنہار نہ ہونا طرف ان بے ادبوں سے

بیدادِ وفا دیکھ کہ جاتی رہی آخر
ہر چند مری جان کو تھا ربط لبوں سے


شعر

تا ہم کو شکایت کی بھی باقی نہ رہے جا
سن لیتے ہیں گو ذکر ہمارا نہیں کرتے

غالبؔ ترا احوال سنا دیں گے ہم ان کو
وہ سن کے بلا لیں یہ اجارا نہیں کرتے


شعر

گھر میں تھا کیا کہ ترا غم اسے غارت کرتا
وہ جو رکھتے تھے ہم اک حسرتِ تعمیر، سو ہے


غزل

غمِ دنیا سے گر پائی بھی فرصت سر اٹھانے کی
فلک کا دیکھنا تقریب تیرے یاد آنے کی

کھلے گا کس طرح مضموں مرے مکتوب کا یا رب
قسم کھائی ہے اس کافر نے کاغذ کے جلانے کی

لپٹنا پرنیاں میں شعلۂ آتش کا آساں ہے
ولے مشکل ہے حکمت دل میں سوزِ غم چھپانے کی

انہیں منظور اپنے زخمیوں کا [1] دیکھ آنا تھا
اٹھے تھے سیرِ گل کو، دیکھنا شوخی بہانے کی

ہماری سادگی تھی التفاتِ ناز پر مرنا
ترا آنا نہ تھا ظالم مگر تمہید جانے کی

لکد کوبِ حوادث کا تحمّل کر نہیں سکتی
مری طاقت کہ ضامن تھی بتوں کے ناز اٹھانے کی

کہوں کیا خوبیِ اوضاعِ ابنائے زماں غالبؔ
بدی کی اس نے جس سے ہم نے کی تھی بارہا نیکی

  1. نسخۂ مہر میں یہاں "کا” کے بجائے "کو” درج ہے۔ "کو” سہو کتابت معلوم ہوتا ہے۔ (جویریہ مسعود)

شعر

حاصل سے ہاتھ دھو بیٹھ اے آرزو خرامی
دل جوشِ گریہ میں ہے ڈوبی ہوئی اسامی

اس شمع کی طرح سے جس کو کوئی بجھائے
میں بھی جلے ہوؤں میں ہوں داغِ نا تمامی


غزل

کیا تنگ ہم ستم زدگاں کا جہان ہے
جس میں کہ ایک بیضۂ مور آسمان ہے

ہے کائنات کو حَرَکت تیرے ذوق سے
پرتو سے آفتاب کے ذرّے میں جان ہے

حالانکہ ہے یہ سیلیِ خارا سے لالہ رنگ
غافل کو میرے شیشے پہ مے کا گمان ہے

کی اس نے گرم سینۂ اہلِ ہوس میں جا
آوے نہ کیوں پسند کہ ٹھنڈا مکان ہے

کیا خوب! تم نے غیر کو بوسہ نہیں دیا
بس چپ رہو ہمارے بھی منہ میں زبان ہے

بیٹھا ہے جو کہ سایۂ دیوارِ یار میں
فرماں روائے کشورِ ہندوستان ہے

ہستی کا اعتبار بھی غم نے مٹا دیا
کس سے کہوں کہ داغ جگر کا نشان ہے

ہے بارے اعتمادِ وفاداری اس قدر
غالبؔ ہم اس میں خوش ہیں کہ نا مہربان ہے

دلّی کے رہنے والو اسدؔ کو ستاؤ مت
بے چارہ چند روز کا یاں میہمان ہے [1]

  1. نسخۂ شیرانی کا اضافہ (اعجاز عبید)

غزل

درد سے میرے ہے تجھ کو بے قراری ہائے ہائے
کیا ہوئی ظالم تری غفلت شعاری ہائے ہائے

تیرے دل میں گر نہ تھا آشوبِ غم کا حوصلہ
تو نے پھر کیوں کی تھی میری غم گساری ہائے ہائے

کیوں مری غم خوارگی کا تجھ کو آیا تھا خیال
دشمنی اپنی تھی میری دوست داری ہائے ہائے

عمر بھر کا تو نے پیمانِ وفا باندھا تو کیا
عمر کو بھی تو نہیں ہے پائداری ہائے ہائے

زہر لگتی ہے مجھے آب و ہوائے زندگی
یعنی تجھ سے تھی اسے نا سازگاری ہائے ہائے

گل فشانی ہائے نازِ جلوہ کو کیا ہو گیا
خاک پر ہوتی ہے تیری لالہ کاری ہائے ہائے

شرمِ رسوائی سے جا چھپنا نقابِ خاک میں
ختم ہے الفت کی تجھ پر پردہ داری ہائے ہائے

خاک میں ناموسِ پیمانِ محبّت مل گئی
اٹھ گئی دنیا سے راہ و رسمِ یاری ہائے ہائے

ہاتھ ہی تیغ آزما کا کام سے جاتا رہا
دل پہ اک لگنے نہ پایا زخمِ کاری ہائے ہائے

کس طرح کاٹے کوئی شب ہائے تارِ برشکال
ہے نظر خو کردۂ اختر شماری ہائے ہائے

گوش مہجورِ پیام و چشم محرومِ جمال
ایک دل تِس پر یہ نا امّیدواری ہائے ہائے

عشق نے پکڑا نہ تھا غالبؔ ابھی وحشت کا رنگ
رہ گیا تھا دل میں جو کچھ ذوقِ خواری ہائے ہائے

گر مصیبت تھی تو غربت میں اٹھا لیتا اسدؔ
میری دلّی ہی میں ہونی تھی یہ خواری ہائے ہائے [1]

  1. نسخۂ شیرانی کا اضافہ (اعجاز عبید)

غزل

سر گشتگی میں عالمِ ہستی سے یاس ہے
تسکیں کو دے نوید [1] کہ مرنے کی آس ہے

لیتا نہیں مرے دلِ آوارہ کی خبر
اب تک وہ جانتا ہے کہ میرے ہی پاس ہے

کیجے بیاں سرورِ تبِ غم کہاں تلک
ہر مو مرے بدن پہ زبانِ سپاس ہے

ہے وہ غرورِ حسن سے بیگانۂ وفا
ہرچند اس کے پاس دلِ حق شناس ہے

پی جس قدر ملے شبِ مہتاب میں شراب
اس بلغمی مزاج کو گرمی ہی راس ہے

ہر اک مکان کو ہے مکیں سے شرف اسدؔ
مجنوں جو مر گیا ہے تو جنگل اداس ہے

  1. نسخۂ عرشی میں یوں ہے: ’تسکین کو نوید‘۔ اصل نسخۂ نظامی اور دوسرے نسخوں میں اسی طرح ہے۔ (اعجاز عبید)
    مزید: عرشی صاحب کے نسخے میں یوں درج ہے : تسکین کو نوید کہ مرنے کی آس ہے۔
    سترہ اٹھارہ دوسرے قدیم و جدید نسخوں میں دیکھا تو کہیں بھی یہ مصرع اس طرح درج نہ تھا۔ لہذا مندرجہ بالا صورت قائم رکھی گئی۔ ایک قدیم نسخے میں "دے” سہواً حذف تو ہو گیا تھا مگر وہاں بھی ذرا اوپر "دے” چھپا ہوا مل جاتا ہے ۔(حامد علی خان)

غزل

گر خامشی سے فائدہ اخفائے حال ہے
خوش ہوں کہ میری بات سمجھنی محال ہے

کس کو سناؤں حسرتِ اظہار کا گلہ
دل فردِ جمع و خرچِ زباں ہائے لال ہے

کس پردے میں ہے آئینہ پرداز اے خدا
رحمت کہ عذر خواہ لبِ بے سوال ہے

ہے ہے خدا نہ خواستہ وہ اور دشمنی
اے شوقِ منفعل! یہ تجھے کیا خیال ہے

مشکیں لباسِ کعبہ علی کے قدم سے جان
نافِ زمین [1] ہے نہ کہ نافِ غزال ہے

وحشت پہ میری عرصۂ آفاق تنگ تھا
دریا زمین کو عرقِ انفعال ہے

ہستی کے مت فریب میں آ جائیو اسدؔ
عالم تمام حلقۂ دامِ خیال ہے

  1. "نافِ زمین” میں اعلانِ نون کا عیب رفع کرنے کے لیے بعض حضرات نے اس مصرع میں "نہ” سے پہلے "یہ” کا اضافہ کیا ہے۔ غالب کی نظر میں عیب نہ تھا۔ (حامد علی خان)

شعر

تم اپنے شکوے کی باتیں نہ کھود کھود کے [1] پوچھو
حذر کرو مرے دل سے کہ اس میں آگ دبی ہے

دلا یہ درد و الم بھی تو مغتنم ہے کہ آخر
نہ گریۂ سحری ہے نہ آہ نیم شبی ہے

  1. کر ۔ نسخۂ مہر (جویریہ مسعود)

غزل

بسکہ حیرت سے ز پا افتادۂ زنہار ہے
ناخنِ انگشت تبخالِ لبِ بیمار ہے

زلف سے شب درمیاں دادن نہیں ممکن دریغ
ورنہ صد محشر بہ رہنِ صافیِ رخسار ہے

در خیال آبادِ سودائے سرِ مژگانِ دوست
صد رگِ جاں جادہ آسا وقفِ نشتر زار ہے

ایک جا حرفِ وفا لکّھا تھا، سو [1] بھی مٹ گیا
ظاہرا کاغذ ترے خط کا غلط بردار ہے

جی جلے ذوقِ فنا کی نا تمامی پر نہ کیوں
ہم نہیں جلتے نفس ہر چند آتش بار ہے

آگ سے پانی میں بجھتے وقت اٹھتی ہے صدا
ہر کوئی در ماندگی میں نالے سے ناچار ہے

ہے وہی بد مستیِ ہر ذرّہ کا خود عذر خواہ
جس کے جلوے سے زمیں تا آسماں سرشار ہے

آنکھ کی تصویر سر نامے پہ کھینچی ہے کہ تا
تجھ پہ کھل جاوے کہ اس کو حسرتِ دیدار ہے

جی جلے ذوقِ فنا کی نا تمامی پر نہ کیوں
ہم نہیں جلتے، نفس ہر چند آتش بار ہے

ہے وہی بد مستی ہر ذرّہ کا خود عذر خواہ
جس کے جلوے سے زمیں تا آسماں سرشار ہے

مجھ سے مت کہہ تو ہمیں کہتا تھا اپنی زندگی
زندگی سے بھی مرا جی ان دنوں بے زار ہے [2]

بس کہ ویرانی سے کفر و دیں ہوئے زیر و زبر
گردِ صحرائے حرم تا کوچۂ زنّار ہے

اے سرِ شوریدہ نازِ عشق و پاسِ آبرو
یک طرف سودا و یک سو منتِ دستار ہے

وصل میں دل انتظارِ طرفہ رکھتا ہے مگر
فتنہ تاراجی تمنا کے لیے درکار ہے

خانماں ہا پائمالِ شوخیِ دعوٰی اسدؔ
سایۂ دیوار سے سیلابِ در و دیوار ہے

  1. وہ۔ نسخۂ مہر (جویریہ مسعود)
  2. یہ تینوں شعر اصل قلمی نسخے میں حاشیے پر موٹے قلم سے بد خط شکستہ میں لکھے ہوئے ہیں ( حاشیہ از پروفیسر حمید احمد خان)

شعر

پینس میں گزرتے ہیں جو کوچے سے وہ میرے
کندھا بھی کہاروں کو بدلنے نہیں دیتے


غزل

یہ بزمِ مے پرستی، حسرتِ تکلیف بے جا ہے
کہ جامِ بادہ کف بر لب بتقریبِ تقاضا ہے

مری ہستی فضائے حیرت آبادِ تمنّا ہے
جسے کہتے ہیں نالہ وہ اسی عالم کا عنقا ہے

خزاں کیا فصلِ گل کہتے ہیں کس کو؟ کوئی موسم ہو
وہی ہم ہیں، قفس ہے، اور ماتم بال و پر کا ہے

وفائے دلبراں ہے اتّفاقی ورنہ اے ہمدم
اثر فریادِ دل ہائے حزیں کا کس نے دیکھا ہے

نہ لائی [1] شوخیِ اندیشہ تابِ رنجِ نومیدی
کفِ افسوس ملنا عہدِ تجدیدِ تمنّا ہے

  1. نہ لائے (نسخۂ مہر) (جویریہ مسعود)

شعر

رحم کر ظالم کہ کیا بودِ چراغِ کشتہ ہے
نبضِ بیمارِ وفا دودِ چراغِ کشتہ ہے

دل لگی کی آرزو بے چین رکھتی ہے ہمیں
ورنہ یاں بے رونقی سودِ چراغِ کشتہ ہے


شعر

چشمِ خوباں خامشی میں بھی نوا پرداز ہے
سرمہ تو کہوے کہ دودِ شعلہ آواز ہے

پیکرِ عشّاق سازِ طالعِ نا ساز ہے
نالہ گویا گردشِ سیّارہ کی آواز ہے

دست گاہِ دیدۂ خوں بارِ مجنوں دیکھنا
یک بیاباں جلوۂ گل فرشِ پا انداز ہے


غزل

عشق مجھ کو نہیں وحشت ہی سہی
میری [1] وحشت تری شہرت ہی سہی

قطع کیجے نہ تعلّق ہم سے
کچھ نہیں ہے تو عداوت ہی سہی

میرے ہونے میں ہے کیا رسوائی
اے وہ مجلس نہیں خلوت ہی سہی

ہم بھی دشمن تو نہیں ہیں اپنے
غیر کو تجھ سے محبّت ہی سہی

اپنی ہستی ہی سے ہو جو کچھ ہو
آگہی گر نہیں غفلت ہی سہی

عمر ہر چند کہ ہے برق خرام
دل کے خوں کرنے کی فرصت ہی سہی

ہم کوئی ترکِ وفا کرتے ہیں
نہ سہی عشق مصیبت ہی سہی

کچھ تو دے اے فلکِ نا انصاف
آہ و فریاد کی رخصت ہی سہی

ہم بھی تسلیم کی خو ڈالیں گے
بے نیازی تری عادت ہی سہی

یار سے چھیڑ چلی جائے اسدؔ
گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی

  1. بعض نسخوں میں ” میری” کی جگہ "مِری” اور تیسرے شعر میں "میرے” کی جگہ "مِرے” چھپا ہے۔ یہ مقامات "میری” اور "میرے” کے متقاضی ہیں اور یہی غالب کے الفاظ ہیں۔ (حامد علی خان

غزل

ہے آرمیدگی میں نکوہش بجا مجھے
صبحِ وطن ہے خندۂ دنداں نما مجھے

ڈھونڈے ہے اس مغنّیِ آتش نفس کو جی
جس کی صدا ہو جلوۂ برقِ فنا مجھے

مستانہ طے کروں ہوں رہِ وادیِ خیال
تا باز گشت سے نہ رہے مدّعا مجھے

کرتا ہے بسکہ باغ میں تو بے حجابیاں
آنے لگی ہے نکہتِ گل سے حیا مجھے

کھلتا کسی پہ کیوں مرے دل کا معاملہ
شعروں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے


شعر

[1] اور تو رکھنے کو ہم دہر میں کیا رکھتے تھے
مگر ایک شعر میں انداز رسا رکھتے تھے

اس کا یہ حال کہ کوئی نہ ادا سنج ملا
آپ لکھتے تھے ہم اور آپ اٹھا رکھتے تھے

زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری [2] غالبؔ
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے

  1. اضافہ از نسخۂ بدایوں دریافتِ وحید الدین نظامی فرزندِ مولانا نظام الدین حسین نظامی شایع کنندۂ "نسخۂ نظامی” بحوالہ مولانا امتیاز علی عرشی کا مضمون "دیوانِ غالب ۔ ایک اہم مخطوطہ ۔ نسخۂ بدایوں) (جویریہ مسعود)
  2. قدیم نسخوں میں یائے معروف و مجہول کا کوئی امتیاز نہیں۔ یہاں "گزرے” بھی پڑھا جا سکتا ہے مگر غالب نے کیا کہا؟ کچھ کہہ نہیں سکتے۔ (حامد علی خان)

غزل

اس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کیے
بیٹھا رہا اگرچہ اشارے ہوا کیے

دل ہی تو ہے سیاستِ درباں سے ڈر گیا
میں اور جاؤں در سے ترے بِن صدا کیے

رکھتا پھروں ہوں خرقہ و سجّادہ رہنِ مے
مدّت ہوئی ہے دعوتِ آب و ہوا کیے

بے صرفہ ہی گزرتی ہے، ہو گرچہ عمرِ خضر
حضرت بھی کل کہیں گے کہ ہم کیا کیا کیے

مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے [1] لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گرانمایہ کیا کیے

کس روز تہمتیں نہ تراشا کیے عدو؟
کس دن ہمارے سر پہ نہ آرے چلا کیے؟

صحبت میں غیر کی نہ پڑی ہو کہیں یہ خو
دینے لگا ہے بوسہ بغیر التجا کیے

ضد کی ہے اور بات مگر خو بری نہیں
بھولے سے اس نے سینکڑوں [2] وعدے وفا کیے

غالبؔ تمہیں کہو کہ ملے گا جواب کیا
مانا کہ تم کہا کیے اور وہ سنا کیے

  1. نسخۂ حمیدیہ طبع اول میں "اے” کی جگہ "او” چھپا ہے، اور کہیں نظر سے نہیں گزرا۔ (حامد علی خان)
    مزید: نسخۂ مہر میں بھی "او” چھپا ہے۔ (جویریہ مسعود)
  2. بعض نسخوں میں "سینکڑوں” کی جگہ "سیکڑوں” ملتا ہے مگر نسخۂ نظامی میں اور بعض دوسرے قدیم نسخوں میں "سینکڑوں” چھپا ہے۔ ۔(حامد )

غزل

رفتارِ عمر قطعِ رہ اضطراب ہے
اس سال کے حساب کو برق آفتاب ہے

مینائے مے ہے سروِ نشاطِ بہار سے [1]
بالِ تَدَر و [2] جلوۂ موجِ شراب ہے

زخمی ہوا ہے پاشنہ پائے ثبات کا
نے بھاگنے کی گوں، نہ اقامت کی تاب ہے

جادادِ بادہ نوشیِ رنداں ہے شش جہت
غافل گماں کرے ہے کہ گیتی خراب ہے

نظّارہ کیا حریف ہو اس برقِ حسن کا
جوشِ بہار جلوے کو جس کے نقاب ہے

میں نامراد دل کی تسلّی کو کیا کروں
مانا کہ تیری رخ سے نگہ کامیاب ہے

گزرا اسدؔ مسرّتِ پیغامِ یار سے
قاصد پہ مجھ کو رشکِ سوال و جواب ہے

  1. اٹھارہ سے زاید قدیم و جدید نسخوں کے باہم دگر مقابلے سے معلوم ہوا کہ کہ بیشتر نسخوں میں یہ شعر اسی طرح چھپا ہے:
    مینائے مے ہے سروِ نشاطِ بہار مے بالِ تَدَر و جلوۂ موجِ شراب ہے
    لیکن نسخۂ حمیدیہ میں "سرو نشاط سے ” درج ہے جو صریحاً غلط ہے۔ ایک آدھ قدیم نسخے میں نیز عرشی، مہر مالک رام کے نسخوں میں یہ شعر ایک اور شکل میں ملتا ہے، یعنی مینا سے مے ہے سروِ نشاطِ بہار سے بالِ تَدَر و جلوۂ موجِ شراب ہے
    یہ شعر اس طرح بھی با معنی ہے اور اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ نشاطِ بہار نے سرو کو بھی شراب سے لبالب بھرا ہوا مینا بنا دیا ہے۔ اس حالت میں آسمان پر بالِ تدرو یعنی ابرِ باران آور بھی جلوۂ موجِ شراب معلوم ہوتا ہے۔ جس سے شراب کے خوب کھل کر برسنے کی امید ہو سکتی ہے۔ (حامد)
  2. تذرو اور تدرو دونوں طرح لکھا جاتا ہے۔ (جویریہ مسعود بحوالۂ نسخۂ مہر )

غزل

دیکھنا قسمت کہ آپ اپنے پہ رشک آ جائے ہے
میں اسے دیکھوں، بھلا کب مجھ سے دیکھا جائے ہے

ہاتھ دھو دل سے یہی گرمی گر اندیشے میں ہے
آبگینہ تندیِ صہبا سے پگھلا جائے ہے

غیر کو یا رب وہ کیوں کر منعِ گستاخی کرے
گر حیا بھی اس کو آتی ہے تو شرما جائے ہے

شوق کو یہ لت کہ ہر دم نالہ کھینچے جائیے
دل کی وہ حالت کہ دم لینے سے گھبرا جائے ہے

دور چشمِ بد تری بزمِ طرب سے واہ واہ
نغمہ ہو جاتا ہے واں گر نالہ میرا جائے ہے

گرچہ ہے طرزِ تغافل پردہ دارِ رازِ عشق
پر ہم ایسے کھوئے جاتے ہیں کہ وہ پا جائے ہے

اس کی بزم آرائیاں سن کر دلِ رنجور، یاں
مثلِ نقشِ مدّعائے غیر بیٹھا جائے ہے

ہو کے عاشق وہ پری رخ اور نازک بن گیا
رنگ کھُلتا جائے ہے جتنا کہ اڑتا جائے ہے

نقش کو اس کے مصوّر پر بھی کیا کیا ناز ہیں
کھینچتا ہے جس قدر اتنا ہی کھنچتا جائے ہے

سایہ میرا مجھ سے مثلِ دود بھاگے ہے اسدؔ
پاس مجھ آتش بجاں کے کس سے ٹھہرا جائے ہے


شعر

گرمِ فریاد رکھا شکلِ نہالی نے مجھے
تب اماں ہجر میں دی بردِ لیالی نے مجھے

نسیہ و نقدِ دو عالم کی حقیقت معلوم
لے لیا مجھ سے مری ہمّتِ عالی نے مجھے

کثرت آرائیِ وحدت ہے پرستاریِ وہم
کر دیا کافر ان اصنامِ خیالی نے مجھے

ہوسِ گل کے تصوّر میں بھی کھٹکا نہ رہا
عجب آرام دیا بے پر و بالی نے مجھے


شعر

کار گاہ ہستی میں لالہ داغ ساماں ہے
برقِ خرمنِ راحت، خونِ گرمِ دہقاں ہے

غنچہ تا شگفتن ہا برگِ عافیت معلوم
باوجودِ دل جمعی خوابِ گل پریشاں ہے

ہم سے رنجِ بیتابی کس طرح اٹھایا جائے
داغ پشتِ دستِ عجز، شعلہ خس بہ دنداں ہے


شعر

اگ رہا ہے در و دیوار سے سبزہ غالبؔ
ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے


غزل

سادگی پر اس کی، مر جانے کی حسرت دل میں ہے
بس نہیں چلتا کہ پھر خنجر کفِ قاتل میں ہے

دیکھنا تقریر کی لذّت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

گرچہ ہے کس کس برائی سے ولے با ایں ہمہ
ذکر میرا مجھ سے بہتر ہے کہ اس محفل میں ہے

بس ہجومِ نا امیدی خاک میں مل جائے گی
یہ جو اک لذّت ہماری سعیِ بے حاصل میں ہے

رنجِ رہ کیوں کھینچیے؟ واماندگی کو عشق ہے [1]
اٹھ نہیں سکتا ہمارا جو قدم، منزل میں ہے

جلوہ زارِ آتشِ دوزخ ہمارا دل سہی
فتنۂ شورِ قیامت کس کی [2] آب و گِل میں ہے

ہے دلِ شوریدۂ غالبؔ طلسمِ پیچ و تاب
رحم کر اپنی تمنّا پر کہ کس مشکل میں ہے

  1. عشق ہے!: مرحبا! آفرین! یہ کلمہ بہ تغیر تلفظ اہل پنجاب کی زبانوں پر بھی ہے ۔ اس شعر کو سمجھنے کے لیے دوسرے مصرع میں "قدم” کے بعد وقفہ ہونا چاہیے۔ بعض حضرات نے غلط فہمی سے "واماندگی سے عشق ہے” لکھ دیا ہے جو مقصودِ غالب نہیں ۔ (حامد علی خان)
  2. نسخۂ طباطبائی: ” کس کے آب و گل” ۔ "کے” بجائے ” کی” (حامد علی خان)

غزل

دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
دونوں کو اک ادا میں رضامند کر گئی

شق ہو گیا ہے سینہ، خوشا لذّتِ فراغ
تکلیفِ پردہ داریِ زخمِ جگر گئی

وہ بادۂ شبانہ کی سر مستیاں کہاں
اٹھیے بس اب کہ لذّتِ خوابِ سحر گئی

اڑتی پھرے ہے خاک مری کوئے یار میں
بارے اب اے ہوا! ہوسِ بال و پر گئی

دیکھو تو دل فریبیِ اندازِ نقشِ پا
موجِ خرامِ یار بھی کیا گل کتر گئی

ہر بُو ‌الْہَوَس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوہ اہلِ نظر گئی

نظّارے نے بھی کام کِیا واں نقاب کا
مستی سے ہر نگہ ترے رخ پر بکھر گئی

فردا و دی کا تفرِقہ یک بار مٹ گیا
کل تم گئے کہ ہم پہ قیامت گزر گئی

مارا زمانے نے اسدؔ اللہ خاں تمہیں
وہ ولولے کہاں وہ جوانی کدھر گئی


غزل

تسکیں کو ہم نہ روئیں جو ذوقِ نظر ملے
حورانِ خلد میں تری صورت مگر ملے

اپنی گلی میں مجھ کو نہ کر دفن بعدِ قتل
میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے

ساقی گری کی شرم کرو آج، ورنہ ہم
ہر شب پیا ہی کرتے ہیں مے جس قدر ملے

تجھ سے تو کچھ کلام نہیں لیکن اے ندیم
میرا سلام کہیو اگر نامہ بر ملے

تم کو بھی ہم دکھائیں کہ مجنوں نے کیا کِیا
فرصت کشاکشِ غمِ پنہاں سے گر ملے

لازم نہیں کہ خضر کی ہم پیروی کریں
جانا [1] کہ اک بزرگ ہمیں ہم سفر ملے

اے ساکنانِ کوچۂ دل دار دیکھنا
تم کو کہیں جو غالبؔ آشفتہ سر ملے

  1. دیوانِ غالبؔ ( فرہنگ کے ساتھ) میں "مانا” ہے۔ (جویریہ مسعود)

غزل

کوئی دن گر زندگانی اور ہے
اپنے جی میں ہم نے ٹھانی اور ہے

آتشِ دوزخ میں یہ گرمی کہاں
سوزِ غم ہائے نہانی اور ہے

بارہا دیکھی ہیں ان کی رنجشیں
پر کچھ اب کے [1] سر گرانی اور ہے

دے کے خط منہ دیکھتا ہے نامہ بر
کچھ تو پیغامِ زبانی اور ہے

قاطعِ اعمار ہیں اکثر نجوم
وہ بلائے آسمانی اور ہے

ہو چکیں غالبؔ بلائیں سب تمام
ایک مرگِ ناگہانی اور ہے

  1. قدیم نسخوں میں یائے مجہول و معروف کا امتیاز نہ تھا اس لیے بعض قدیم نسخوں میں یہاں "اب کے چھپا ہے جو اس موقع پر درست معلوم نہیں ہوتا۔ بالخصوص "بارہا” کے بعد۔ یہاں مراد ہے : اب کی بار (حامد علی خان)

غزل

کوئی امّید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی

موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی؟

آگے آتی تھی حال دل پہ ہنسی
اب کسی بات پر نہیں آتی

جانتا ہوں ثوابِ طاعت و زہد
پر طبعیت ادھر نہیں آتی

ہے کچھ ایسی ہی بات جو چپ ہوں
ورنہ کیا بات کر نہیں آتی

کیوں نہ چیخوں کہ یاد کرتے ہیں
میری آواز گر نہیں آتی

داغِ دل گر نظر نہیں آتا
بو بھی اے چارہ گر نہیں آتی

ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی

مرتے ہیں آرزو میں مرنے کی
موت آتی ہے پر نہیں آتی

کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی


غزل

دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے؟
آخر اس درد کی دوا کیا ہے؟

ہم ہیں مشتاق اور وہ بےزار
یا الٰہی یہ ماجرا کیا ہے؟

میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں
کاش پوچھو کہ مدّعا کیا ہے

ق

جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟

یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں؟
غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے؟

شکنِ زلفِ عنبریں کیوں ہے [1]
نگہِ چشمِ سرمہ سا کیا ہے؟

سبزہ و گل کہاں سے آئے ہیں؟
ابر کیا چیز ہے؟ ہوا کیا ہے؟

ہم کو ان سے وفا کی ہے امّید
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے؟

ہاں بھلا کر ترا بھلا ہو گا
اَور درویش کی صدا کیا ہے؟

جان تم پر نثار کرتا ہوں
میں نہیں جانتا دعا کیا ہے؟

میں نے مانا کہ کچھ نہیں غالبؔ
مفت ہاتھ آئے تو برا کیا ہے

  1. ہیں۔ نسخۂ مہر (جویریہ مسعود)

غزل

کہتے تو ہو تم سب کہ بتِ غالیہ مو آئے
یک مرتبہ گھبرا کے کہو کوئی "کہ وو آئے”

ہوں کشمکشِ نزع میں ہاں جذبِ محبّت
کچھ کہہ نہ سکوں، پر وہ مرے پوچھنے کو آئے

ہے صاعقہ و شعلہ و سیماب کا عالم
آنا ہی سمجھ میں مری آتا نہیں، گو آئے

ظاہر ہے کہ گھبرا کے نہ بھاگیں گے نکیرین
ہاں منہ سے مگر بادۂ دوشینہ کی بو آئے

جلاّد سے ڈرتے ہیں نہ واعظ سے جھگڑتے
ہم سمجھے ہوئے ہیں اسے جس بھیس میں جو آئے

ہاں اہلِ طلب! کون سنے طعنۂ نا یافت
دیکھا کہ وہ ملتا نہیں اپنے ہی کو کھو آئے

اپنا نہیں وہ شیوہ کہ آرام سے بیٹھیں
اس در پہ نہیں بار تو کعبے ہی کو ہو آئے

کی ہم نفسوں نے اثرِ گریہ میں تقریر
اچّھے رہے آپ اس سے مگر مجھ کو ڈبو آئے

اس انجمنِ ناز کی کیا بات ہے غالبؔ
ہم بھی گئے واں اور تری تقدیر کو رو آئے


غزل

پھر کچھ اک دل کو بیقراری ہے
سینہ جویائے زخمِ کاری ہے

پھِر جگر کھودنے لگا ناخن
آمدِ فصلِ لالہ کاری ہے

قبلۂ مقصدِ نگاہِ نیاز
پھر وہی پردۂ عماری ہے

چشم دلّالِ جنسِ رسوائی
دل خریدارِ ذوقِ خواری ہے

وُہ ہی [1] صد رنگ نالہ فرسائی
وُہ ہی صد گونہ اشک باری ہے

دل ہوائے خرامِ ناز سے پھر
محشرستانِ بیقراری ہے

جلوہ پھر عرضِ ناز کرتا ہے
روزِ بازارِ [2] جاں سپاری ہے

پھر اسی بے وفا پہ مرتے ہیں
پھر وہی زندگی ہماری ہے

ق

پھر کھلا ہے درِ عدالتِ ناز
گرم بازارِ فوجداری ہے

ہو رہا ہے جہان میں اندھیر
زلف کی پھر سرشتہ داری ہے

پھر دیا پارۂ جگر نے سوال
ایک فریاد و آہ و زاری ہے

پھر ہوئے ہیں گواہِ عشق طلب
اشک باری کا حکم جاری ہے

دل و مژگاں کا جو مقدمہ تھا
آج پھر اس کی روبکاری ہے

بے خودی بے سبب نہیں غالبؔ
کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے

  1. نسخۂ مہر و آسی میں ” وُہی” (جویریہ مسعود)
  2. روز بازار : چہل پہل اور رونق کے دن کو بھی کہتے ہیں (حامد علی خان)

غزل

جنوں تہمت کشِ تسکیں نہ ہو گر شادمانی کی
نمک پاشِ خراشِ دل ہے لذّت زندگانی کی

کشاکش‌ ہائے ہستی سے کرے کیا سعیِ آزادی
ہوئی زنجیر، موجِ [1] آب کو فرصت روانی کی

پس از مردن [2] بھی دیوانہ زیارت گاہ طفلاں ہے
شرارِ سنگ نے تربت پہ میری گل فشانی کی

نہ کھینچ اے دستِ سعیِ نارسا زلفِ تمنّا کو
پریشاں تر ہے موئے خامہ سے تدبیر مانیؔ کی

کماں ہم بھی رگ و پے رکھتے ہیں، انصاف بہتر ہے
نہ کھینچے طاقتِ خمیازہ تہمت ناتوانی کی

  1. نسخۂ طاہر میں ” زنجیرِ موجِ آب” (جویریہ مسعود)
  2. نسخۂ مہر میں غالباً سہوِ کاتب سے "پسِ مردن” چھپا ہے باقی نسخوں میں "پس از مردن” ہے (حامد علی خان)

غزل

نِکوہِش ہے سزا فریادیِ بیدادِ دِلبر کی
مبادا خندۂ دنداں نما ہو صبح محشر کی

رگِ لیلیٰ کو خاکِ دشتِ مجنوں ریشگی بخشے
اگر بو دے بجائے دانہ دہقاں نوک نشتر کی

پرِ پروانہ شاید بادبانِ کشتیِ مے تھا
ہوئی مجلس کی گرمی سے روانی دَورِ ساغر کی

کروں بیدادِ ذوقِ پَر فشانی عرض کیا قدرت
کہ طاقت اُڑ گئی، اڑنے سے پہلے، میرے شہپر کی

کہاں تک روؤں اُس کے خیمے کے پیچھے، قیامت ہے!
مری قسمت میں یا رب کیا نہ تھی دیوار پتھّر کی؟


غزل

بے اعتدالیوں سے سبُک سب میں ہم ہوئے
جتنے زیادہ ہو گئے اتنے ہی کم ہوئے

پنہاں تھا دام سخت قریب [1] آشیان کے
اڑنے نہ پائے تھے کہ گرفتار ہم ہوئے

ہستی ہماری اپنی فنا پر دلیل ہے
یاں تک مٹے کہ آپ ہم اپنی قَسم ہوئے

سختی کشانِ عشق کی پوچھے ہے کیا خبر
وہ لوگ رفتہ رفتہ سراپا الم ہوئے

تیری وفا سے کیا ہو تلافی؟ کہ دہر میں
تیرے سوا بھی ہم پہ بہت سے ستم ہوئے

لکھتے رہے جنوں کی حکایاتِ خوں چکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے

اللہ ری [2] تیری تندیِ خو جس کے بیم سے
اجزائے نالہ دل میں مرے رزقِ ہم ہوئے

اہلِ ہوس کی فتح ہے ترکِ نبردِ عشق
جو پاؤں اٹھ گئے وہی ان کے علم ہوئے

نالے عدم میں چند ہمارے سپرد تھے
جو واں نہ کھنچ [3] سکے سو وہ یاں آ کے دم ہوئے

چھوڑی اسدؔ نہ ہم نے گدائی میں دل لگی
سائل ہوئے تو عاشقِ اہلِ کرم ہوئے

  1. نسخۂ حمیدیہ اور مالک رام میں ” دامِ سخت قریب” (اعجاز عبید) مزید: نسخۂ حمیدیہ اور مالک رام میں ” دامِ سخت قریب” چھپا ہے ۔ دوسرے سب نسخوں میں "سخت قریب” بہ معنیِ "نہایت قریب” درج ہے (حامد)
  2. مالک رام اور نسخۂ صد سالہ یادگار غالب کمیٹی دہلی میں "رے” کی جگہ "ری” چھپا ہے "اللہ رے” اور "اللہ ری” میں یہ امتیاز قابل تعریف ہے مگر اس بارے میں غلط فہمی ہوئی ہے۔ مخاطب "تندیِ خو” نہیں بلکہ "تند خو محبوب” ہے جو محبوبہ بھی نہیں۔ (حامد علی خان)
  3. بعض نسخوں میں "کھِنچ” چھپا ہے ۔ (حامد علی خان) حامد علی خان کے نسخے میں "کھِچ” درج ہے۔ (جویریہ مسعود)

شعر

جو نہ نقدِ داغِ دل کی کرے شعلہ پاسبانی
تو فسردگی نہاں ہے بہ کمینِ بے زبانی

مجھے اس سے کیا توقّع بہ زمانۂ جوانی
کبھی کودکی میں جس نے نہ سنی مری کہانی

یوں ہی دکھ کسی کو دینا نہیں خوب ورنہ کہتا
کہ مرے عدو کو یا رب ملے میری زندگانی


غزل

ظلمت کدے میں میرے شبِ غم کا جوش ہے
اک شمع ہے دلیلِ سحر سو خموش ہے

نے مژدۂ وصال نہ نظّارۂ جمال
مدّت ہوئی کہ آشتیِ چشم و گوش ہے

مے نے کِیا ہے حسنِ خود آرا کو بے حجاب
اے شوق یاں [1] اجازتِ تسلیمِ ہوش ہے

گوہر کو عقدِ گردنِ خوباں میں دیکھنا
کیا اوج پر ستارۂ گوہر فروش ہے

دیدار بادہ، حوصلہ ساقی، نگاہ مست
بزمِ خیال مے کدۂ بے خروش ہے

ق

اے تازہ واردانِ بساطِ ہوائے دل
زنہار اگر تمہیں ہوسِ نائے و نوش ہے

دیکھو مجھے! جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو
میری سنو! جو گوشِ نصیحت نیوش ہے

ساقی بہ جلوہ دشمنِ ایمان و آگہی
مطرب بہ نغمہ رہزنِ تمکین و ہوش ہے

یا شب کو دیکھتے تھے کہ ہر گوشۂ بساط
دامانِ باغبان و کفِ گل فروش ہے

لطفِ خرامِ ساقی و ذوقِ صدائے چنگ
یہ جنّتِ نگاہ وہ فردوسِ گوش ہے

یا صبح دم جو دیکھیے آ کر تو بزم میں
نے وہ سرور و سوز [2] نہ جوش و خروش ہے

داغِ فراقِ صحبتِ شب کی جلی ہوئی
اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے

آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں
غالبؔ صریرِ خامہ نوائے سروش ہے

  1. بعض نسخوں میں "یاں” کی جگہ "ہاں” چھپا ہے۔ یہ غالباً کسی سہوِ کتابت کا نتیجہ ہے۔ کیونکہ "ہاں” سے شعر کے جو تیور بنتے ہیں غالب کے معلوم نہیں ہوتے۔ (حامد علی خان)
  2. نسخۂ آگرہ 1863ء اور نسخۂ مہر میں ’سور‘ (اعجاز عبید، جویریہ مسعود)
    مزید: نسخۂ نظامی اور اکثر دوسرے نسخوں میں "سوز” ہی چھپا ہے۔ ایک نسخے میں شاید سہوِ کتابت سے "سُور” چھپ گیا۔ اب بعض حضرات "سُور” ہی کو ترجیح دیتے ہیں۔ (حامد علی خان)

غزل

آ، کہ مری جان کو قرار نہیں ہے
طاقتِ بیدادِ انتظار نہیں ہے

دیتے ہیں جنّت حیاتِ دہر کے بدلے
نشّہ بہ اندازۂ خمار نہیں ہے

گِریہ نکالے ہے تیری [1] بزم سے مجھ کو
ہائے کہ رونے پہ اختیار نہیں ہے

ہم سے عبث ہے گمانِ رنجشِ خاطر
خاک میں عشّاق کی غبار نہیں ہے

دل سے اٹھا لطفِ جلوہ ہائے معانی
غیرِ گل آئینۂ بہار نہیں ہے

قتل کا میرے کیا ہے عہد تو بارے
وائے اگر عہد استوار نہیں ہے

تو نے قسم مے کشی کی کھائی ہے غالبؔ
تیری قسم کا کچھ اعتبار نہیں ہے

  1. نسخۂ نظامی اور اکثر دوسرے نسخوں میں "تِری” چھپا ہے جو صحیح معلوم نہیں ہوتا۔ صرف نسخۂ حسرت موہانی، نسخۂ بیخود دہلوی اور نسخۂ مطبعِ مجیدی 1919 ء میں صحیح صورت نظر آتی ہے ۔ بہ صورت دیگر یہ مصرع بحر سے خارج ہو جاتا ہے۔ ۔ (حامد علی خان)

شعر

میں انہیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں
چل نکلتے جو مے پیے ہوتے

قہر ہو یا بلا ہو جو کچھ ہو
کاشکے تم مرے لیے ہوتے

میری قسمت میں غم گر اتنا تھا
دل بھی یا رب کئی دیے ہوتے

آ ہی جاتا وہ راہ پر غالبؔ
کوئی دن اور بھی جیے ہوتے


غزل

ہجومِ غم سے یاں تک سر نگونی مجھ کو حاصل ہے
کہ تارِ دامن و تارِ نظر میں فرق مشکل ہے

ہوا ہے مانعِ عاشق نوازی نازِ خود بینی
تکلّف بر طرف، آئینۂ تمیز حایل ہے

بہ سیلِ اشک لختِ دل ہے دامن گیر مژگاں کا
غریقِ بحر جویائے خس و خاشاکِ ساحل ہے

بہا ہے یاں تک اشکوں میں غبارِ کلفتِ خاطر
کہ چشمِ تر میں ہر یک پارۂ دل پائے در گِل ہے

نکلتی ہے تپش میں بسملوں کی برق کی شوخی
غرض اب تک خیالِ گرمیِ رفتار قاتل ہے

رفوئے زخم سے مطلب ہے لذّت زخمِ سوزن کی
سمجھیو مت کہ پاسِ درد سے دیوانہ غافل ہے

وہ گل جس گلستاں میں جلوہ فرمائی کرے غالبؔ
چٹکنا غنچۂ گل [1] کا صدائے خندۂ دل ہے

  1. "غنچۂ گل ” کی جگہ بعض مؤقر نسخوں میں "غنچہ و گل” اور "غنچۂ دل” بھی چھپا ہے۔ اسے سہو کتابت کا نتیجہ سمجھنا چاہیے۔ غنچۂ گل: گلاب کی کلی ۔ غنچے کے ساتھ "گل” کا بھی چٹکنے لگنا محل نظر ہے۔ (حامد علی خان)

شعر

پا بہ دامن ہو رہا ہوں بسکہ میں صحرا نورد
خارِ پا ہیں جوہرِ آئینۂ زانو مجھے

دیکھنا حالت مرے دل کی ہم آغوشی کے وقت [1]
ہے نگاہِ آشنا تیرا سرِ ہر مو مجھے

ہوں سراپا سازِ آہنگِ شکایت کچھ نہ پوچھ
ہے یہی بہتر کہ لوگوں میں نہ چھیڑے تو مجھے

  1. نسخۂ مہر میں ” ہم آغوشی کے بعد” (جویریہ مسعود)

غزل

جس بزم میں تو ناز سے گفتار میں آوے
جاں کالبدِ صورتِ دیوار میں آوے

سائے کی طرح ساتھ پھریں سرو و صنوبر
تو اس قدِ دلکش سے جو گلزار میں آوے

تب نازِ گراں مایگیِ اشک بجا ہے
جب لختِ جگر دیدۂ خوں بار میں آوے

دے مجھ کو شکایت کی اجازت کہ ستمگر
کچھ تجھ کو مزہ بھی مرے آزار میں آوے

اس چشمِ فسوں گر کا اگر پائے اشارہ
طوطی کی طرح آئینہ گفتار میں آوے

کانٹوں کی زباں سوکھ گئی پیاس سے یا رب
اک آبلہ پا وادیِ پر خار میں آوے

مر جاؤں نہ کیوں رشک سے جب وہ تنِ نازک
آغوشِ خمِ حلقۂ زُنّار میں آوے

غارت گرِ ناموس نہ ہو گر ہوسِ زر
کیوں شاہدِ گل باغ سے بازار میں آوے

تب چاکِ گریباں کا مزا ہے دلِ نالاں [1]
جب اک نفس الجھا ہوا ہر تار میں آوے

آتش کدہ ہے سینہ مرا رازِ نہاں سے
اے وائے اگر معرضِ اظہار میں آوے

گنجینۂ معنی کا طلسم اس کو سمجھیے
جو لفظ کہ غالبؔ مرے اشعار میں آوے

  1. مالک رام اور عرشی میں ہے ’دلِ ناداں‘ لیکن ’نالاں‘ ہی غالبؔ کے اندازِ بیان کے مطابق زیادہ درست معلوم ہوتا ہے۔ (اعجاز عبید) مزید: نسخۂ نظامی، نسخۂ طباطبائی، نسخۂ حسرت موہانی اور متعدد دیگر نسخوں میں "دلِ نالاں” چھپا ہے۔ عرشی اور مالک رام کے نسخوں "دل ناداں” ملتا ہے ۔ مضمونِ شعر یہاں "دلِ نالاں” ہی سے خطاب کا متقاضی معلوم ہوتا ہے۔ (حامد علی خاں)

غزل

حسنِ مہ گرچہ بہ ہنگامِ کمال اچّھا ہے
اس سے میرا مہِ خورشید جمال اچّھا ہے

بوسہ دیتے نہیں اور دل پہ ہے ہر لحظہ نگاہ
جی میں کہتے ہیں کہ مفت آئے تو مال اچّھا ہے

اور بازار سے لے آئے اگر ٹوٹ گیا
ساغرِ جم سے مرا جامِ سفال اچّھا ہے

بے طلب دیں تو مزہ اُس میں سوا ملتا ہے
وہ گدا جس کو نہ ہو خوئے سوال اچّھا ہے

ان کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچّھا ہے

دیکھیے پاتے ہیں عشّاق بتوں سے کیا فیض
اک برہمن نے کہا ہے کہ یہ سال اچّھا ہے

ہم سخن تیشے نے فرہاد کو شیریں سے کیا
جس طرح کا کہ [1] کسی میں ہو کمال اچّھا ہے

قطرہ دریا میں جو مل جائے تو دریا ہو جائے
کام اچّھا ہے وہ، جس کا کہ مآل اچّھا ہے

خضر سلطاں کو رکھے خالقِ اکبر سر سبز
شاہ کے باغ میں یہ تازہ نہال اچّھا ہے

ہم کو معلوم ہے جنّت کی حقیقت لیکن
دل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچّھا ہے

  1. نسخۂ مہر میں "جس طرح کا بھی” (جویریہ مسعود)

غزل

نہ ہوئی گر مرے مرنے سے تسلّی نہ سہی
امتحاں اور بھی باقی ہو تو یہ بھی نہ سہی

خار خارِ المِ حسرتِ دیدار تو ہے
شوق گلچینِ گلستانِ تسلّی نہ سہی

مے پرستاں خمِ مے منہ سے لگائے ہی بنے
ایک دن گر نہ ہوا بزم میں ساقی نہ سہی

نفسِ قیس کہ ہے چشم و چراغِ صحرا
گر نہیں شمعِ سیہ خانۂ لیلی نہ سہی

ایک ہنگامے پہ [1] موقوف ہے گھر کی رونق
نوحۂ غم ہی سہی نغمۂ شادی نہ سہی

نہ ستائش کی تمنّا نہ صلے کی پروا
گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی؟ نہ سہی

عشرتِ صحبتِ خوباں ہی غنیمت سمجھو
نہ ہوئی غالبؔ اگر عمرِ طبیعی نہ سہی

  1. نسخۂ مہر میں "پر” (جویریہ مسعود)

غزل

عجب نشاط سے جلاّد کے چلے ہیں ہم آگے
کہ اپنے سائے سے سر پاؤں سے ہے دو قدم آگے

قضا نے تھا مجھے چاہا خرابِ بادۂ الفت
فقط خراب لکھا، بس نہ چل سکا قلم آگے

غمِ زمانہ نے جھاڑی نشاطِ عشق کی مستی
وگرنہ ہم بھی اٹھاتے تھے لذّتِ الم آگے

خدا کے واسطے داد اس جنونِ شوق کی دینا
کہ اس کے در پہ پہنچتے ہیں نامہ بر سے ہم آگے

یہ عمر بھر جو پریشانیاں اٹھائی ہیں ہم نے
تمہارے آئیو اے طرّہ‌ ہائے خم بہ خم آگے

دل و جگر میں پَر افشاں جو ایک موجۂ خوں ہے
ہم اپنے زعم میں سمجھے ہوئے تھے اس کو دم آگے

قسم جنازے پہ آنے کی میرے کھاتے ہیں غالبؔ
ہمیشہ کھاتے تھے جو میری جان کی قسم آگے


غزل

شکوے کے نام سے بے مہر خفا ہوتا ہے
یہ بھی مت کہہ کہ جو کہیے تو گِلا ہوتا ہے

پُر ہوں میں شکوے سے یوں، راگ سے جیسے باجا
اک ذرا چھیڑیے پھر دیکھیے کیا ہوتا ہے

گو سمجھتا نہیں پر حسنِ تلافی دیکھو
شکوۂ جور سے سر گرمِ جفا ہوتا ہے

عشق کی راہ میں ہے چرخِ مکوکب کی وہ چال
سست رو جیسے کوئی آبلہ پا ہوتا ہے

کیوں نہ ٹھہریں ہدفِ ناوکِ بیداد کہ ہم
آپ اٹھا لاتے ہیں گر تیر خطا ہوتا ہے

خوب تھا پہلے سے ہوتے جو ہم اپنے بد خواہ
کہ بھلا چاہتے ہیں اور برا ہوتا ہے

نالہ جاتا تھا پرے عرش سے میرا اور اب
لب تک آتا ہے جو ایسا ہی رسا ہوتا ہے

ق

خامہ میرا کہ وہ ہے باربُدِ بزمِ سخن
شاہ کی مدح میں یوں نغمہ سرا ہوتا ہے

اے شہنشاہِ کواکب سپہ و مہرِ علم
تیرے اکرام کا حق کس سے ادا ہوتا ہے

سات اقلیم کا حاصل جو فراہم کیجے
تو وہ لشکر کا ترے نعل بہا ہوتا ہے

ہر مہینے میں جو یہ بدر سے ہوتا ہے ہلال
آستاں پر ترے مہ ناصیہ سا ہوتا ہے

میں جو گستاخ ہوں آئینِ غزل خوانی میں
یہ بھی تیرا ہی کرم ذوق فزا ہوتا ہے

رکھیو غالبؔ مجھے اس تلخ نوائی میں معاف
آج کچھ درد مرے دل میں سوا ہوتا ہے


غزل

ہر ایک بات پہ کہتے ہو تم کہ تو کیا ہے
تمہیں کہو کہ یہ اندازِ گفتگو کیا ہے

نہ شعلے میں یہ کرشمہ نہ برق میں یہ ادا
کوئی بتاؤ کہ وہ شوخِ تند خو کیا ہے

یہ رشک ہے کہ وہ ہوتا ہے ہم سخن تم سے
وگرنہ خوفِ بد آموزیِ عدو کیا ہے

چپک رہا ہے بدن پر لہو سے پیراہن
ہمارے جَیب [1] کو اب حاجتِ رفو کیا ہے

جلا ہے جسم جہاں، دل بھی جل گیا ہو گا
کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے

رگوں میں دوڑتے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جب آنکھ سے ہی [2] نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے

وہ چیز جس کے لیے ہم کو ہو بہشت عزیز
سوائے بادۂ گلفامِ مشک بو [3] کیا ہے

پیوں شراب اگر خم بھی دیکھ لوں دو چار
یہ شیشہ و قدح و کوزہ و سبو کیا ہے

رہی نہ طاقتِ گفتار اور اگر ہو بھی
تو کس امید پہ کہیے کہ آرزو کیا ہے

ہوا ہے شہ کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالبؔ کی آبرو کیا ہے

  1. "جَیب” بہ معنیِ "گریبان” مذکر ہے۔ بیشتر مروجہ نسخوں میں جو "ہماری جیب” چھپا ہے وہ اس غلط فہمی کی بنا پر ہے کہ قدیم نسخوں میں یائے معروف و مجہول کا امتیاز نہ تھا۔ (حامد علی خاں)
  2. اصل نسخے میں ’جب آنکھ سے ہی‘ ہے لیکن بعض جدید نسخوں میں ’جب آنکھ ہی سے‘ رکھا گیا ہے جس سے مطلب زیادہ واضح ہو جاتا ہے لیکن نظامی میں یوں ہی ہے۔ (اعجاز عبید)
    مزید: بعض فاضل مرتبین نے "سے ہی” کو قابل اعتراض سمجھ کر اپنے نسخوں میں اسے ” ہی سے” بنا دیا ہے غالب کا اصرار بہ ظاہر "آنکھ” پر نہیں "آنکھ سے ٹپکنے” پر ہے چنانچہ متن میں قدیم نسخوں کا اندراج برقرار رکھا گیا۔ (حامد علی خاں)
  3. "بادہ و گلفامِ مشک بو”۔ نسخۂ مہر (جویریہ مسعود)

غزل

غیر لیں محفل میں بوسے جام کے
ہم رہیں یوں تشنہ لب پیغام کے

خستگی کا تم سے کیا شکوہ کہ یہ
ہتھکنڈے ہیں چرخِ نیلی فام کے

خط لکھیں گے گرچہ مطلب کچھ نہ ہو
ہم تو عاشق ہیں تمہارے نام کے

رات پی زمزم پہ مے اور صبح دم
دھوئے دھبّے جامۂ احرام کے

دل کو آنکھوں نے پھنسایا کیا مگر
یہ بھی حلقے ہیں تمہارے دام کے

شاہ کی ہے غسلِ صحّت کی خبر
دیکھیے کب دن پھریں حمّام کے

عشق نے غالبؔ نکمّا کر دیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے


غزل

پھر اس انداز سے بہار آئی
کہ ہوئے مہر و مہ تماشائی

دیکھو اے ساکنانِ خطّۂ خاک
اس کو کہتے ہیں عالم آرائی

کہ زمیں ہو گئی ہے سر تا سر
رو کشِ سطحِ چرخِ مینائی

سبزے کو جب کہیں جگہ نہ ملی
بن گیا روئے آب پر کائی

سبزہ و گل کے دیکھنے کے لیے
چشمِ نرگس کو دی ہے بینائی

ہے ہوا میں شراب کی تاثیر
بادہ نوشی ہے باد پیمائی

کیوں نہ دنیا کو ہو خوشی غالبؔ
شاہِ دیں دار [1] نے شفا پائی

  1. اصل نسخے میں املا ہے ’دیندار‘ جب کہ تقطیع میں نون غنہ آتا ہے اس لئے تلفّظ کی وضاحت کے لئے یہاں ’دیں دار‘ لکھا گیا ہے (اعجاز عبید)

شعر

تغافل دوست ہوں میرا دماغِ عجز عالی ہے
اگر پہلو تہی کیجے تو جا میری بھی خالی ہے

رہا آباد عالم اہلِ ہمّت کے نہ ہونے سے
بھرے ہیں جس قدر جام و سبو، مے خانہ خالی ہے


غزل

کب وہ سنتا ہے کہانی میری
اور پھر وہ بھی زبانی میری

خلشِ غمزۂ خوں ریز نہ پوچھ
دیکھ خوں نابہ فشانی میری

کیا بیاں کر کے مرا روئیں گے یار
مگر آشفتہ بیانی میری

ہوں ز خود رفتۂ بیدائے خیال
بھول جانا ہے نشانی میری

متقابل ہے مقابل میرا
رک گیا دیکھ روانی میری

قدرِ سنگِ سرِ رہ رکھتا ہوں
سخت ارزاں ہے گرانی میری

گرد بادِ رہِ بیتابی ہوں
صرصرِ شوق ہے بانی میری

دہن اس کا جو نہ معلوم ہوا
کھل گئی ہیچ مدانی میری

کر دیا ضعف نے عاجز غالبؔ
ننگِ پیری ہے جوانی میری


شعر

نقشِ نازِ بتِ طنّاز بہ آغوشِ رقیب
پائے طاؤس پئے خامۂ مانی مانگے

تو وہ بد خو کہ تحیّر کو تماشا جانے
غم وہ افسانہ کہ آشفتہ بیانی مانگے

وہ تبِ [1] عشق تمنّا ہے کہ پھر صورتِ شمع
شعلہ تا نبضِ جگر ریشہ دوانی مانگے

1. تپ۔ نسخۂ مہر (جویریہ مسعود)

غزل

گلشن کو تری صحبت از بسکہ خوش آئی ہے
ہر غنچے کا گل ہونا آغوش کشائی ہے

واں کُنگرِ استغنا ہر دم ہے بلندی پر
یاں نالے کو اور الٹا دعوائے رسائی ہے

از بسکہ سکھاتا ہے غم ضبط کے اندازے
جو داغ نظر آیا اک چشم نمائی ہے

آئینہ نفس سے بھی ہوتا ہے کدورت کش
عاشق کو غبارِ دل اک وجہِ صفائی ہے

ہنگامِ تصوّر ہوں دریوزہ گرِ بوسہ
یہ کاسۂ زانو بھی اک جامِ گدائی ہے

وہ دیکھ کے حسن اپنا مغرور ہوا غالبؔ
صد جلوۂ آئینہ یک صبحِ جدائی ہے


غزل

جس زخم کی ہو سکتی ہو تدبیر رفو کی
لکھ دیجیو یا رب اسے قسمت میں عدو کی

اچّھا ہے سر انگشتِ حنائی کا تصوّر
دل میں نظر آتی تو ہے اک بوند لہو کی

کیوں ڈرتے ہو عشّاق کی بے حوصلگی سے
یاں تو کوئی سنتا نہیں فریاد کسو کی

[1] اے بے خبراں! میرے لبِ زخمِ جگر پر
بخیہ جسے کہتے ہو شکایت ہے رفو کی

گو زندگیِ زاہدِ بے چارہ عبث ہے
اتنا تو ہے، رہتی تو ہے تدبیر وضو کی

دشنے نے کبھی منہ نہ لگایا ہو جگر کو
خنجر نے کبھی بات نہ پوچھی ہو گلو کی

صد حیف وہ نا کام کہ اک عمر سے غالبؔ
حسرت میں رہے ایک بتِ عربدہ جو کی

  1. یہ دونوں شعر نسخۂ حمیدیہ میں درج نہیں (جویریہ مسعود)

غزل

یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے
پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے

سیماب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے ہم
حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار کے

بعد از وداعِ یار بہ خوں در طپیدہ [1] ہیں
نقشِ قدم ہیں ہم کفِ پائے نگار کے

ظاہر ہے ہم سے کلفتِ بختِ سیاہ روز
گویا کہ تختۂ مشق ہے خطِّ غبار کے

*حسرت سے دیکھ رہتے ہیں ہم آب و رنگِ گل
مانندِ شبنم اشک ہے مژگانِ خار کے

آغوشِ گل کشودہ برائے وداع ہے
اے عندلیب چل! کہ چلے دن بہار کے

ہم مشقِ فکرِ وصل و غمِ ہجر سے اسدؔ
لائق نہیں رہے ہیں غمِ روزگار کے

  1. اس لفظ کی جدید املا تپیدہ ہے۔ (اعجاز عبید)

شعر

ہے وصل ہجر عالمِ تمکین و ضبط میں
معشوقِ شوخ و عاشقِ دیوانہ چاہیے

اُس لب سے مل ہی جائے گا بوسہ کبھی تو، ہاں!
شوقِ فضول و جرأتِ رندانہ چاہیے


غزل

چاہیے اچھّوں کو، جتنا چاہیے
یہ اگر چاہیں تو پھر کیا چاہیے

صُحبتِ رنداں سے واجب ہے حَذر
جائے مے، اپنے کو کھینچا چاہیے

چاہنے کو تیرے کیا سمجھا تھا دل؟
بارے اب اِس سے بھی سمجھا چاہیے!

چاک مت کر جیب، بے ایامِ گُل
کُچھ ادھر کا بھی اشارہ چاہیے

دوستی کا پردہ ہے بیگانگی
منہ چُھپانا ہم سے چھوڑا چاہیے

دُشمنی نے میری، کھویا غیر کو
کِس قدر دُشمن ہے، دیکھا چاہیے

اپنی، رُسوائی میں کیا چلتی ہے سَعی
یار ہی ہنگامہ آرا چاہیے

منحصر مرنے پہ ہو جس کی امید
نا اُمیدی اُس کی دیکھا چاہیے

غافل، اِن مہ طلعتوں کے واسطے
چاہنے والا بھی اچھا چاہیے

چاہتے ہیں خُوبرویوں کو اسدؔ
آپ کی صُورت تو دیکھا چاہیے


غزل

ہر قدم دوریِ منزل ہے نمایاں مجھ سے
میری [1] رفتار سے بھاگے ہے، بیاباں مجھ سے

درسِ عنوانِ تماشا، بہ تغافلِ خُوشتر
ہے نگہ رشتۂ شیرازۂ مژگاں مجھ سے

وحشتِ آتشِ دل سے، شبِ تنہائی میں
صورتِ دُود، رہا سایہ گُریزاں مجھ سے

غمِ عشاق نہ ہو، سادگی آموزِ بُتاں
کِس قدر خانۂ آئینہ ہے ویراں مجھ سے

اثرِ آبلہ سے، جادۂ صحرائے جُنوں
صُورتِ رشتۂ گوہر ہے چراغاں مجھ سے

بیخودی بسترِ تمہیدِ فراغت ہو جو! [2]
پُر ہے سائے کی طرح، میرا شبستاں مجھ سے

شوقِ دیدار میں، گر تُو مجھے گردن مارے
ہو نگہ، مثلِ گُلِ شمع، پریشاں مجھ سے

بیکسی ہائے شبِ ہجر کی وحشت، ہے ہے!
سایہ خُورشیدِ قیامت میں ہے پنہاں مجھ سے

گردشِ ساغرِ صد جلوۂ رنگیں، تجھ سے
آئینہ داریِ یک دیدۂ حیراں، مُجھ سے

نگہِ گرم سے ایک آگ ٹپکتی ہے، اسدؔ!
ہے چراغاں، خس و خاشاکِ گُلستاں مجھ سے

  1. بعض نسخوں میں "میری ” کی جگہ یہاں "مِری” چھپا ہے مگر یہاں "میری” زیادہ مناسب معلوم ہوتا ہے۔ اور اکثر نسخوں میں "میری” ہی چھپا ہے (حامد علی خاں)
  2. ہو جو۔ ہو جیو۔ یہ "ہو جو” نہیں ہے۔ جیسا بعض اصحاب پڑھتے ہیں۔ "ہُو” بہ واؤ معروف بولا جاتا ہے (حامد علی خاں)

غزل

نکتہ چیں ہے، غمِ دل اُس کو سُنائے نہ بنے
کیا بنے بات، جہاں بات بنائے نہ بنے

میں بُلاتا تو ہوں اُس کو، مگر اے جذبۂ دل
اُس پہ بن جائے کُچھ ایسی کہ بِن آئے نہ بنے

کھیل سمجھا ہے، کہیں چھوڑ نہ دے، بھول نہ جائے
کاش! یُوں بھی ہو کہ بِن میرے ستائے نہ بنے

غیر پھرتا ہے لیے یوں ترے خط کو کہ، اگر
کوئی پُوچھے کہ یہ کیا ہے، تو چُھپائے نہ بنے

اِس نزاکت کا بُرا ہو، وہ بھلے ہیں، تو کیا
ہاتھ آویں، تو اُنھیں ہاتھ لگائے نہ بنے

کہہ سکے کون کہ یہ جلوہ گری کس کی ہے
پردہ چھوڑا ہے وہ اُس نے کہ اُٹھائے نہ بنے

موت کی راہ نہ دیکھوں؟ کہ بِن آئے نہ رہے
تم کو چاہوں؟ کہ نہ آؤ، تو بُلائے نہ بنے

بوجھ وہ سر سے گرا ہے کہ اُٹھائے نہ اُٹھے
کام وہ آن پڑا ہے کہ بنائے نہ بنے

عشق پر زور نہیں، ہے یہ وہ آتش غالبؔ!
کہ لگائے نہ لگے، اور بُجھائے نہ بنے


غزل

چاک کی خواہش، اگر وحشت بہ عُریانی کرے
صبح کے مانند، زخمِ دل گریبانی کرے

جلوے کا تیرے وہ عالم ہے کہ، گر کیجے خیال
دیدۂ دل کو زیارت گاہِ حیرانی کرے

ہے شکستن سے بھی دل نومید، یارب! کب تلک
آبگینہ کوہ پر عرضِ گِرانجانی کرے

میکدہ گر چشمِ مستِ ناز سے پاوے شکست
مُوئے شیشہ دیدۂ ساغر کی مژگانی کرے

خطِّ عارض سے، لکھا ہے زُلف کو الفت نے عہد
یک قلم منظور ہے، جو کچھ پریشانی کرے

ہاتھ پر گر ہاتھ مارے یار وقتِ قہقہہ
کرمکِ شب تاب آسا مِہ پر افشانی کرے

وقت اس افتادہ کا خوش، جو قناعت سے اسدؔ
نقشِ پائے مور کو نقشِ سلیمانی کرے


غزل

وہ آ کے، خواب میں، تسکینِ اضطراب تو دے
ولے مجھے تپشِ دل، مجالِ خواب تو دے

کرے ہے قتل، لگاوٹ میں تیرا رو دینا
تری طرح کوئی تیغِ نگہ کو آب تو دے

دِکھا کے جنبشِ لب ہی، تمام کر ہم کو
نہ دے جو بوسہ، تو منہ سے کہیں جواب تو دے

پلا دے اوک سے ساقی، جو ہم سے نفرت ہے
پیالہ گر نہیں دیتا، نہ دے شراب تو دے

یہ کون کہوے ہے آباد کر ہمیں، لیکن
کبھی زمانہ مرادِ دلِ خراب تو دے

اسدؔ! خوشی سے مرے ہاتھ پاؤں پُھول گئے
کہا جو اُس نے، ”ذرا میرے پاؤں داب تو دے”


غزل

تپِش سے میری، وقفِ کش مکش، ہر تارِ بستر ہے
مِرا سر رنجِ بالیں ہے، مِرا تَن بارِ بستر ہے

عیادت بسکہ تجھ سے گرمیِ بازارِ بستر ہے
فروغِ شمعِ بالیں طالعِ بیدارِ بستر ہے

بہ ذوقِ شوخیِ اعضاء تکلّف بارِ بستر ہے
معافِ پیچ تابِ کشمکش ہر تارِ بستر ہے

معمّائے تکلّف سر بمہرِ چشم پوشیدن
گدازِ شمعِ محفل پیچشِ طومارِ بستر ہے

مژہ فرشِ رہ و دل ناتوان و آرزو مضطر
بہ پائے خفتہ سیرِ وادیِ پُر خارِ بستر ہے

سرشکِ سر بہ صحرا دادہ، نورالعینِ دامن ہے
دلِ بے دست و پا اُفتادہ برخوردارِ بستر ہے

خوشا اقبالِ رنجوری! عیادت کو تم آئے ہو
فروغِ شمع بالیں، طالعِ بیدارِ بستر ہے

بہ طوفاں گاہِ جوشِ اضطرابِ شامِ تنہائی
شعاعِ آفتابِ صبحِ محشر تارِ بستر ہے

ابھی آتی ہے بُو، بالش سے، اُس کی زلفِ مشکیں کی
ہماری دید کو، خوابِ زلیخا، عارِ بستر ہے

کہوں کیا، دل کی کیا حالت ہے ہجرِ یار میں، غالبؔ!
کہ بے تابی سے ہر یک تارِ بستر، خارِ بستر ہے


غزل

خطر ہے رشتۂ اُلفت رگِ گردن نہ ہو جائے [1]
غرورِ دوستی آفت ہے، تُو دُشمن نہ ہو جائے

بہ پاسِ شوخیِ مژگاں سرِ ہر خار سوزن ہے
تبسّم برگِ گل کو بخیۂ دامن نہ ہو جائے

جراحت دوزیِ عاشق ہے جائے رحم ترساں [2] ہوں
کہ رشتہ تارِ اشکِ دیدۂ سوزن نہ ہو جائے

غضب شرم آفریں ہے رنگ ریزی ہائے خود بینی
سپیدی آئنے کی پنبۂ روزن نہ ہو جائے

سمجھ اس فصل میں کوتاہیِ نشوونما، غالبؔ!
اگر گُل سَرو کے قامت پہ، پیراہن نہ ہو جائے

  1. نسخۂ بھوپال میں اس غزل کی ردیف ’جاوے‘ ہے (اعجاز عبید)
  2. نسخۂ حمیدیہ میں "ڈرتا ہوں” درج ہے۔ (جویریہ مسعود)

غزل

فریاد کی کوئی لَے نہیں ہے
نالہ پابندِ نَے نہیں ہے

کیوں بوتے ہیں باغباں تونبے؟
گر باغ گدائے مَے نہیں ہے

ہر چند ہر ایک شے میں تُو ہے
پَر تُجھ سی [1] کوئی شے نہیں ہے

ہاں، کھائیو مت فریبِ ہستی!
ہر چند کہیں کہ "ہے”، نہیں ہے

شادی سے گُذر کہ، غم نہ ہووے [2]
اُردی جو نہ ہو، تو دَے نہیں ہے

کیوں ردِ قدح کرے ہے زاہد!
مَے ہے یہ مگس کی قَے نہیں ہے

[3] انجا، شمارِ غم نہ پوچھو
یہ مصرفِ تا بکَے نہیں ہے

جس دل میں کہ "تا بکَے” سما جائے
واں عزّتِ تختِ کَے نہیں ہے

ہستی ہے، نہ کچھ عَدم ہے، غالبؔ!
آخر تُو کیا ہے، ”اَے نہیں ہے؟”

  1. نسخہ نظامی، نسخۂ عرشی اور نسخۂ مالک رام میں یہ مصرع یوں ہے: پَر تُجھ سی کوئی شے نہیں ہے۔ ایک خستہ حال پرانے نسخے میں بھی جو شاید مطبعِ احمدی دہلی چھپا تھا لفظ "تو” نہیں ہے (نسخۂ حامد میں یہ مصرع یوں ہے: پَر تُجھ سی تو کوئی شے نہیں ہے ج۔م۔) باقی تمام قدیم و جدید نسخوں میں، جو نظر سے گزرے، تُو” موجود ہے۔ دو قدیم نسخوں میں "سی” کی جگہ "سے” بھی چھپا ہے۔ (حامد علی خان)
  2. نسخۂ عرشی: "رہوے” (حامد علی خاں)
  3. یہ دونوں شعر نسخۂ حمیدیہ میں درج نہیں (جویریہ مسعود

شعر

نہ پُوچھ نسخۂ مرہم جراحتِ دل کا
کہ اِس میں ریزۂ الماس جزوِ اعظم ہے

بہت دنوں میں تغافل نے تیرے پیدا کی
وہ اِک نگہ کہ، بظاہر نگاہ سے کم ہے


شعر

ہم رشک کو اپنے بھی گوارا نہیں کرتے
مرتے ہیں، ولے، اُن کی تمنا نہیں کرتے

در پردہ اُنھیں غیر سے ہے ربطِ نہانی
ظاہر کا یہ پردہ ہے کہ پردہ نہیں کرتے

یہ باعثِ نومیدیِ اربابِ ہوس ہے
غالبؔ کو بُرا کہتے ہو، اچھا نہیں کرتے


غزل

شفق بدعوۂ عاشق گواہِ رنگیں ہے
کہ ماہ دزدِ حنائے کفِ نگاریں ہے

کرے ہے بادہ، ترے لب سے، کسبِ رنگِ فروغ
خطِ پیالہ، سراسر نگاہِ گلچیں ہے

کبھی تو اِس سرِ [1] شوریدہ کی بھی داد ملے!
کہ ایک عُمر سے حسرت پرستِ بالیں ہے

بجا ہے، گر نہ سُنے، نالہ ہائے بُلبلِ زار
کہ گوشِ گُل، نمِ شبنم سے پنبہ آگیں ہے

عیاں ہے پائے حنائی برنگِ پرتوِ خورشید
رِکاب روزنِ دیوارِ خانۂ زیں ہے

جبینِ صبح، امیدِ فسانہ گویاں پر
درازیِ رگِ خوابِ بتاں خطِ چیں ہے

ہوا نشانِ سوادِ دیارِ حسن عیاں
کہ خط غبارِ زمیں خیزِ زلفِ مشکیں ہے

اسدؔ ہے نزع میں، چل بیوفا! برائے خُدا!
مقامِ ترکِ حجاب و وداعِ تمکیں ہے

نہ پوچھ کچھ سر و سامان و کاروبارِ اسدؔ [2]
جنوں معاملہ، بے دل، فقیرِ مسکیں ہے

  1. نسخۂ حامد علی خان میں "سرِ شوریدہ” کی جگہ "دلِ شوریدہ” درج ہے۔ ملاحظہ ہو ان کا حاشیہ (جویریہ مسعود) نسخۂ عرشی میں غالباً بالیں کی رعایت سے "سرِ شوریدہ” درج کیا گیا ہے مگر دوسرے قدیم و جدید نسخوں میں جو نظر سے گزرے، "دلِ شوریدہ” ہی چھپا ہے۔ طباطبائی نے متن میں "دل شوریدہ” درج کرکے احتمال ظاہر کیا ہے کہ غالب نے "سرِ شوریدہ” ہی لکھا ہو گا۔ پھر لکھتے ہیں کہ معنیِ شعر دونوں طرح ظاہر ہیں۔ (حامد علی خاں)
  2. نسخۂ حمیدیہ میں مقطع نہیں ہے (جویریہ مسعود)

شعر

کیوں نہ ہو چشمِ بُتاں محوِ تغافل، کیوں نہ ہو؟
یعنی اس بیمار کو نظارے سے پرہیز ہے

مرتے مرتے، دیکھنے کی آرزُو رہ جائے گی
وائے ناکامی! کہ اُس کافر کا خنجر تیز ہے

عارضِ گُل دیکھ، رُوئے یار یاد آیا، اسدؔ!
جوششِ فصلِ بہاری اشتیاق انگیز ہے


غزل

دیا ہے دل اگر اُس کو، بشر ہے، کیا کہیے
ہوا رقیب، تو ہو، نامہ بر ہے، کیا کہیے

یہ ضد کہ آج نہ آوے، اور آئے بِن نہ رہے
قضا سے شکوہ ہمیں کِس قدر ہے، کیا کہیے!

رہے ہے یوں گِہ و بے گہِ، کہ کُوئے دوست کو اب
اگر نہ کہیے کہ دشمن کا گھر ہے، کیا کہیے!

زہے کرشمہ کہ یوں دے رکھا ہے ہم کو فریب
کہ بن کہے ہی [1] انہیں سب خبر ہے، کیا کہیے

سمجھ کے کرتے ہیں، بازار میں وہ پُرسشِ حال
کہ یہ کہے کہ، سرِ رہگزر ہے، کیا کہیے؟

تمہیں نہیں ہے سرِ رشتۂ وفا کا خیال
ہمارے ہاتھ میں کچھ ہے، مگر ہے کیا؟ کہیے!

اُنہیں سوال پہ زعمِ جنوں ہے، کیوں لڑیے
ہمیں جواب سے قطعِ نظر ہے، کیا کہیے؟

حَسد، سزائے کمالِ سخن ہے، کیا کیجے
سِتم، بہائے متاعِ ہُنر ہے، کیا کہیے!

کہا ہے کِس نے کہ غالبؔ بُرا نہیں، لیکن
سوائے اس کے کہ آشفتہ سر ہے، کیا کہیے

  1. نظامی، حمیدیہ اور متعدد دوسرے قدیم نسخوں: نیز طباطبائی، حسرت موہانی، بیخود دہلوی، مہر وغیرہم کے نسخوں میں "ہی” ہی چھپا ہے۔ مگر نسخۂ عرشی میں "بھی” درج ہے جو غالباً منشی شیو نارائن کے نسخے کی تقلید میں ہے۔ بہر حال اس سے کوئی خاص معنوی فرق پیدا نہیں ہوتا۔ (حامد)

غزل

دیکھ کر در پردہ گرمِ دامن افشانی مجھے
کر گئی وابستۂ تن میری عُریانی مجھے

بن گیا تیغِ نگاہِ یار کا سنگِ فَساں
مرحبا مَیں! کیا مبارک ہے گراں جانی مجھے

کیوں نہ ہو بے التفاتی، اُس کی خاطر جمع ہے
جانتا ہے محوِ پُرسش ہائے پنہانی مجھے

میرے غمخانے کی قسمت جب رقم ہونے لگی
لِکھ دیا منجملۂ اسبابِ ویرانی، مجھے

بد گماں ہوتا ہے وہ کافر، نہ ہوتا، کاشکے!
اِس قدر ذوقِ نوائے مُرغِ بُستانی مجھے

وائے! واں بھی شورِ محشر نے نہ دَم لینے دیا
لے گیا تھا گور میں ذوقِ تن آسانی مجھے

وعدہ آنے کا وفا کیجے، یہ کیا انداز ہے؟
تم نے کیوں سونپی ہے میرے گھر کی دربانی مجھے؟

ہاں نشاطِ آمدِ فصلِ بہاری، واہ واہ!
پھر ہُوا ہے تازہ سودائے غزل خوانی مجھے

دی مرے بھائی کو حق نے از سرِ نَو زندگی
میرزا یوسف ہے، غالبؔ! یوسفِ ثانی مجھے


غزل

یاد ہے شادی میں بھی، ہنگامۂ "یارب”، مجھے
سُبحۂ زاہد ہوا ہے، خندہ زیرِ لب مجھے

ہے کُشادِ خاطرِ وابستہ دَر، رہنِ سخن
تھا طلسمِ قُفلِ ابجد، خانۂ مکتب مجھے

یارب! اِس آشفتگی کی داد کس سے چاہیے!
رشک، آسائش پہ ہے زندانیوں کی اب مجھے

طبع ہے مشتاقِ لذت ہائے حسرت کیا کروں!
آرزو سے، ہے شکستِ آرزو مطلب مجھے

دل لگا کر آپ بھی غالبؔ مُجھی سے ہو گئے
عشق سے آتے تھے مانِع، میرزا صاحب مجھے


غزل

حضورِ شاہ میں اہلِ سخن کی آزمائش ہے
چمن میں خوش نوایانِ چمن کی آزمائش ہے

قد و گیسو میں، قیس و کوہکن کی آزمائش ہے
جہاں ہم ہیں، وہاں دار و رسن کی آزمائش ہے

کریں گے کوہکن کے حوصلے کا امتحاں آخر
ہنوز [1] اُس خستہ کے نیروئے تن کی آزمائش ہے

نسیمِ مصر کو کیا پیرِ کنعاں کی ہوا خواہی!
اُسے یوسف کی بُوئے پیرہن کی آزمائش ہے

وہ آیا بزم میں، دیکھو، نہ کہیو پھر کہ ”غافل تھے”
شکیب و صبرِ اہلِ انجمن کی آزمائش ہے

رہے دل ہی میں تیر، [2] اچھا، جگر کے پار ہو، بہتر
غرض شِستِ بُتِ ناوک فگن کی آزمائش ہے

نہیں کچھ سُبحۂ و زُنّار کے پھندے میں گیرائی
وفاداری میں شیخ و برہمن کی آزمائش ہے

پڑا رہ، اے دلِ وابستہ! بیتابی سے کیا حاصل؟
مگر پھر تابِ زُلفِ پُر شکن کی آزمائش ہے

رگ و پَے میں جب اُترے زہرِ غم، تب دیکھیے کیا ہو!
ابھی تو تلخیِ کام و دہن کی آزمائش ہے

وہ آویں گے مِرے گھر، وعدہ کیسا، دیکھنا، غالبؔ!
نئے فتنوں میں اب چرخِ کُہن کی آزمائش [3] ہے

  1. نسخۂ عرشی میں "ہنوز” کی جگہ "ابھی” چھپا ہے۔ جو قدیم و جدید نسخے نظر سے گزرے، ان سے اس کی کوئی سند نہیں ملی۔ یہ غالباً سہوِ کتابت ہے۔ (حامد علی خاں)
  2. نسخۂ مہر میں "رہے گر دل میں تیر” (جویریہ مسعود) مزید: نظامی، عرشی، حمیدیہ اور متعدد دیگر نسخۂ ہائے قدیم و جدید میں یہ مصرع اسی طرح درج ہے جس طرح متن میں درج کیا مگر نسخۂ مہر غالباً سہوِ کتابت سے "رہے گر دل میں تیر اچھا” ملتا ہے۔ بعض قدیم نسخوں میں ” دل میں ہی ” چھپا ہے جو سہوِ کتابت ہے۔ مگر "رہے گر دل میں تیر ” کہیں نہ ملا۔ نہ یہ قابل ترجیح معلوم ہوتا ہے۔ (حامد علی خاں)
  3. اصل نسخوں میں آزمایش ہے لیکن ہم نے موجودہ املا کو ترجیح دے کر آزمائش لکھا ہے۔(اعجاز عبید)

غزل

کبھی نیکی بھی اُس کے جی میں، گر آ جائے ہے، مُجھ سے
جفائیں کر کے اپنی یاد، شرما جائے ہے، مُجھ سے

خُدایا! جذبۂ دل کی مگر تاثیر اُلٹی ہے!
کہ جتنا کھینچتا ہوں، اور کِھنچتا [1] جائے ہے مُجھ سے

وہ بَد خُو، اور میری داستانِ عشق طُولانی
عبارت مُختصر، قاصد بھی گھبرا جائے ہے، مُجھ سے

اُدھر وہ بد گمانی ہے، اِدھر یہ ناتوانی ہے
نہ پُوچھا جائے ہے اُس سے، نہ بولا جائے ہے مجھ سے

سنبھلنے دے مجھے اے نا اُمیدی! کیا قیامت ہے!
کہ دامانِ خیالِ یار، چُھوٹا جائے ہے مُجھ سے

تکلف بر طرف، نظارگی میں بھی سہی، لیکن
وہ دیکھا جائے، کب یہ ظُلم دیکھا جائے ہے، مُجھ سے

ہوئے ہیں پاؤں ہی پہلے نبردِ عشق میں زخمی
نہ بھاگا جائے ہے مجھ سے، نہ ٹھہرا جائے ہے مجھ سے

قیامت ہے کہ ہووے مُدعی کا ہمسفر غالبؔ!
وہ کافر، جو خُدا کو بھی نہ سونپا جائے ہے مُجھ سے

  1. نسخۂ حامد علی خاں میں "کِھچتا” (جویریہ مسعود) ملاحظہ ان کا حاشیہ: نظامی اور بعض دیگر قدیم نسخوں میں "کِھچتا” ہی درج ہے جو بجائے خود درست ہے مگر اکثر جدید نسخوں میں ” کھنچتا” چھپا ہے۔ (حامد علی خاں)

غزل

زبسکہ مشقِ تماشا جنوں علامت ہے
کشاد و بستِ مژہ، سیلیِ ندامت ہے

نہ جانوں، کیونکہ مٹے داغِ طعنِ بد عہدی
تجھے کہ [1] آئینہ بھی ورطۂ ملامت ہے

بہ پیچ و تابِ ہوس، سِلکِ عافیت مت توڑ
نگاہِ عجز سرِ رشتۂ سلامت ہے

وفا مقابل و دعوائے عشق بے بُنیاد
جنونِ ساختہ و فصلِ گُل، قیامت ہے!

اسد! بہارِ تماشائے گلستانِ حیات
وصالِ لالہ عذارانِ سرو قامت ہے

  1. طباطبائی کی رائے میں یہاں "کہ” کی بجائے "تو” ہونا چاہیے تھا ۔ (حامد علی خاں)

شعر

لاغر اتنا ہوں کہ گر تو بزم میں جا دے مجھے
میرا ذمہ، دیکھ کر گر کوئی بتلا دے مجھے

کیا تعجب ہے کہ [1] اُس کو دیکھ کر آ جائے رحم
وا ں تلک کوئی کسی حیلے سے پہنچا دے مجھے

منہ [2] نہ دکھلاوے، نہ دکھلا، پر بہ اندازِ عتاب
کھول کر پردہ ذرا آنکھیں ہی دکھلا دے مجھے

یاں تلک میری گرفتاری سے وہ خو ش ہے کہ مَیں
زلف گر بن جاؤں تو شانے میں اُلجھا دے مجھے

  1. نسخۂ عرشی میں "کہ” کی جگہ "جو” چھپا ہے۔ نظامی میں "کہ” درج ہے۔ (حامد علی خاں)
  2. اس شعر کا پہلا مصرع یوں ہی ہے۔ دوسرے کے متعلق طباطبائی نے لکھا ہے کہ غالب نے آنکھیں دکھانا بہ صیغۂ جمع باندھا ہے مگر فصیح وہی ہے کہ ” آنکھ دکھانا کہیں” ۔ یہ بات سمجھ میں نہیں آئی کیونکہ اردو کے اکثر فصیح اساتذہ نے آنکھیں دکھانا بھی کہا ہے ۔ ان میں میر، مصحفی، امیر، انیس، ذوق، مومن، ظفر، جرأت، نسیم دہلوی وغیرہ شامل ہیں۔ (حامد علی خاں)

غزل

بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے

اک کھیل ہے اورنگِ سلیماں مرے نزدیک
اک بات ہے اعجاز مسیحا مرے آگے

جز نام نہیں صورتِ عالم مجھے منظور
جز وہم نہیں ہستیِ اشیا مرے آگے

ہوتا ہے نہاں گرد میں صحرا مرے ہوتے
گِھستا ہے جبیں خاک پہ دریا مرے آگے

مت پوچھ کہ کیا حال ہے میر ا ترے پیچھے
تو دیکھ کہ کیا رنگ ہے تیرا مرے آگے

سچ کہتے ہو خود بین و خود آرا ہوں، نہ کیوں ہوں
بیٹھا ہے بتِ آئنہ سیما مرے آگے

پھر دیکھیے اندازِ گل افشانیِ گفتار
رکھ دے کوئی پیمانۂ صہبا مرے آگے

نفرت کا گماں گزرے ہے، میں رشک سے گزرا
کیونکر کہوں، لو نام نہ ان کا مرے آگے

ایماں مجھے روکے ہے، جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ مرے پیچھے ہے کلیسا مرے آگے

عاشق ہوں پہ معشوق فریبی ہے مرا کام
مجنوں کو برا کہتی ہے لیلےٰ مرے آگے

خوش ہوتے ہیں پر وصل میں یوں مر نہیں جاتے
آئی شب ہجراں کی تمنا مرے آگے

ہے موجزن اک قلزمِ خوں کاش یہی ہو
آتا ہے ابھی دیکھیے کیا کیا مرے آگے

گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے!
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے

ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز ہے میرا
غالبؔ کو برا کیوں کہو اچھا مرے آگے


غزل

کہوں جو حال تو کہتے ہو "مدعا کہیے ”
تمہیں کہو کہ جو تم یوں کہو تو کیا کہیے؟

نہ کہیو طعن سے پھر تم کہ "ہم ستمگر ہیں ”
مجھے تو خو ہے کہ جو کچھ کہو "بجا” کہیے

وہ نیشتر سہی پر دل میں جب اتر جاوے
نگاہِ ناز کو پھر کیوں نہ آشنا کہیے

نہیں ذریعۂ راحت جراحتِ پیکاں
وہ زخمِ تیغ ہے جس کو کہ دلکشا کہیے

جو مدعی بنے اس کے نہ مدعی بنیے
جو نا سزا کہے اس کو نہ نا سزا کہیے

کہیں حقیقتِ جانکاہیِ مرض لکھیے
کہیں مصیبتِ نا سازیِ دوا کہیے

کبھی شکایتِ رنجِ گراں نشیں کیجے
کبھی [1] حکایتِ صبرِ گریز پا کہیے

رہے نہ جان تو قاتل کو خونبہا دیجے
کٹے زبان تو خنجر کو مرحبا کہیے

نہیں نگار کو الفت، نہ ہو، نگار تو ہے!
روانیِ روش و مستیِ ادا کہیے

نہیں بہار کو فرصت، نہ ہو بہار تو ہے!
طرواتِ چمن و خوبیِ ہوا کہیے

سفینہ جب کہ کنارے پہ آ لگا غالبؔ
خدا سے کیا ستم و جورِ ناخدا کہیے!

  1. نسخۂ نظامی میں یہاں "کبھی” کی جگہ "کہیں” درج ہے جو مبرہن طور پر سہوِ کتابت ہے۔ دیگر قدیم و جدید نسخوں میں یہ دونوں شعر صحیح یا غلط، دونوں ہی صورتوں میں ملتے ہیں۔ صحیح صورت سے مراد وہ صورت ہے جو متن میں درج کی گئی۔ دوسری صورت میں ” کہیں” کے ساتھ غلط ہے۔ (حامد علی خاں)

غزل

رونے سے اور عشق میں بےباک ہو گئے
دھوئے گئے ہم ایسے کہ بس پاک ہو گئے

صرفِ بہائے مے ہوئے آلاتِ میکشی
تھے یہ ہی دو حساب، سو یوں پاک ہو گئے

رسوائے دہر گو ہوئے آوارگی سے تم [1]
بارے طبیعتوں کے تو چالاک ہو گئے

کہتا ہے کون نالۂ بلبل کو بے اثر
پردے میں گُل کے لاکھ جگر چاک ہو گئے

پوچھے ہے کیا وجود و عدم اہلِ شوق کا
آپ اپنی آگ کے خس و خاشاک ہو گئے

کرنے گئے تھے اس سے تغافُل کا ہم گِلہ
کی ایک ہی نگاہ کہ بس خاک ہو گئے

پوچھے ہے کیا معاشِ جگر تُفتگانِ عشق [2]
جوں شمع آپ اپنی وہ خوراک ہو گئے

اس رنگ سے اٹھائی کل اس نے اسدؔ کی نعش [3]
دشمن بھی جس کو دیکھ کے غمناک ہو گئے

  1. ایک آدھ نسخے میں ” ہم” بھی درج ہے۔ (حامد علی خاں)
  2. نسخۂ حمیدیہ میں یہ شعر درج نہیں۔ (جویریہ مسعود)
  3. نسخۂ مہر میں یہ مصرع یوں درج ہے: اس رنگ سے کل اٹھائی اس نے اسدؔ کی نعش
    مقابلے سے معلوم ہوا کہ دوسرے کسی زیرِ نظر قدیم و جدید نسخے میں یہ مصرع یوں درج نہیں۔ لہٰذا اسے سہو کتابت سمجھنا چاہیے۔ ایک آدھ نسخے میں "نعش” کی جگہ "لاش” بھی چھپا ہے۔ (حامد علی خاں)

شعر

نشّہ ہا شادابِ رنگ و ساز ہا مستِ طرب
شیشۂ مے سروِ سبزِ جوئبارِ نغمہ ہے

ہم نشیں مت کہہ کہ برہم کرن بزمِ عیشِ دوست
واں تو میرے نالے کو بھی اعتبارِ نغمہ ہے


غزل

عرضِ نازِ شوخیِ دنداں برائے خندہ ہے
دعوئی جمعیّتِ احباب جائے خندہ ہے

خود فروشی ہائے ہستی بس کہ جائے خندہ ہے
ہر شکستِ قیمتِ دل میں صدائے خندہ ہے

نقشِ عبرت در نظر ہا نقدِ عشرت در بساط
دو جہاں وسعت بقدرِ یک فضائے خندہ ہے [1]

ہے عدم میں غنچہ محوِ عبرتِ انجامِ گُل
یک جہاں زانو تامّل در قفائے خندہ ہے

کلفتِ افسردگی کو عیشِ بے تابی حرام
ورنہ دنداں در دل افشردن بِنائے خندہ ہے

سوزشِ [2] باطن کے ہیں احباب منکر ورنہ یاں
دل محیطِ گریہ و لب آشنائے خندہ ہے

جائے استہزا ہے عشرت کوشیِ ہستی اسدؔ
صبح و شبنم فرصتِ نشو و نمائے خندہ ہے

  1. نسخۂ حمیدیہ: تا شکستِ قیمتِ دل ہا صدائے خندہ ہے۔ (جویریہ مسعود)
  2. نسخۂ عرشی اور دوسرے مؤقر نسخوں میں یہاں "سوزش” کی جگہ "شورش” چھپا ہے۔ شاعر نے یقیناً "سوزشِ باطن” ہی کہا ہو گا کیونکہ احباب اس کے لب ہائے خنداں کو دیکھ کر اس کے غمِ پنہاں کا انکار کرتے ہیں۔ خندہ آشنا لب کا تقابل "سوزشِ باطن” سے ہو سکتا ہے۔ شورش باطن کا ذکر یہاں غیر متعلق سا ہے۔ نسخہ نظامی میں "سوزشِ باطن” ہی درج ہے۔ (حامد علی خاں)

شعر

حسنِ بے پروا خریدارِ متاعِ جلوہ ہے
آئنہ زانوئے فکرِ اختراعِ جلوہ ہے

تا کُجا اے آگہی رنگِ تماشا باختن؟
چشمِ وا گر دیدہ آغوشِ وداعِ جلوہ ہے

عجزِ دیدن ہا بہ ناز و نازِ رفتن ہا بہ چشم
جادۂ صحرائے آگاہی شعاعِ جلوہ ہے


غزل

جب تک دہانِ زخم نہ پیدا کرے کوئی
مشکل کہ تجھ سے راہِ سخن وا کرے کوئی

عالم غُبارِ وحشتِ مجنوں ہے سر بسر
کب تک خیالِ طرّۂ لیلیٰ کرے کوئی

افسردگی نہیں طرب انشائے التفات
ہاں درد بن کے دل میں مگر جا کرے کوئی

رونے سے اے ندیم ملامت نہ کر مجھے
آخر کبھی تو عُقدۂ دل وا کرے کوئی

چاکِ جگر سے جب رہِ پرسش نہ وا ہوئی
کیا فائدہ کہ جَیب کو رسوا کرے کوئی

لختِ جگر سے ہے رگِ ہر خار شاخِ گل
تا چند باغبانیِ صحرا کرے کوئی

ناکامیِ نگاہ ہے برقِ نظارہ سوز
تو وہ نہیں کہ تجھ کو تماشا کرے کوئی

ہر سنگ و خشت ہے صدفِ گوہرِ شکست
نقصاں نہیں جنوں سے جو سودا کرے کوئی

سَر بَر ہوئی نہ وعدۂ صبر آزما سے عُمر
فُرصت کہاں کہ تیری تمنّا کرے کوئی

ہے وحشتِ طبیعتِ ایجاد یاس خیز
یہ درد وہ نہیں کہ نہ پیدا کرے کوئی [1]

بیکاریِ جنوں کو ہے سر پیٹنے کا شغل
جب ہاتھ ٹوٹ جائیں تو پھر کیا کرے کوئی

حسنِ فروغِ شمعِ سُخن دور ہے اسدؔ
پہلے دلِ گداختہ پیدا کرے کوئی

  1. نوٹ: یہ مصرع مختلف نسخوں میں مختلف ہے۔ (جویریہ مسعود) نسخۂ مہر: یہ درد وہ نہیں ہے کہ پیدا کرے کوئی
    نسخۂ طاہر: یہ درد وہ نہیں ہے جو پیدا کرے کوئی
    نسخۂ آسی: یہ درد وہ نہیں کہ نہ پیدا کرے کوئی
    نسخۂ حمیدیہ: یہ درد وہ نہیں کہ نہ پیدا کرے کوئی

غزل

ابنِ مریم ہوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی

شرع و آئین پر مدار سہی
ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی

چال جیسے کڑی کمان [1] کا تیر
دل میں ایسے کے جا کرے کوئی

بات پر واں زبان کٹتی ہے
وہ کہیں اور سنا کرے کوئی

بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی

نہ سنو اگر برا کہے کوئی
نہ کہو گر برا کرے کوئی

روک لو گر غلط چلے کوئی
بخش دو گر خطا کرے کوئی

کون ہے جو نہیں ہے حاجت مند
کس کی حاجت روا کرے کوئی

کیا کیا خضر نے سکندر سے
اب کسے رہنما کرے کوئی

جب توقع ہی اٹھ گئی غالبؔ
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی

  1. ایک اچھے نسخے میں بلا اعلانِ نون "کاں کا تیر” چھپا ہے۔ باقی تمام زیرِ نظر نسخوں میں "کمان کا تیر” چھپا ہے۔ (حامد علی خاں)

غزل

بہت سہی غمِ گیتی، شراب کم کیا ہے؟
غُلامِ ساقیِ کوثر ہوں، مجھ کو غم کیا ہے

تمھاری طرز و روش جانتے ہیں ہم، کیا ہے
رقیب پر ہے اگر لطف تو ستم کیا ہے

کٹے تو شب کہیں کاٹے تو سانپ کہلاوے
کوئی بتاؤ کہ وہ زُلفِ خم بہ خم کیا ہے

لکھا کرے کوئی احکامِ طالعِ مولود
کسے خبر ہے کہ واں جنبشِ قلم کیا ہے؟

نہ حشر و نشر کا قائل نہ کیش و ملت کا
خدا کے واسطے ایسے کی پھر قسم کیا ہے؟

وہ داد و دید گراں مایہ شرط ہے ہمدم
وگرنہ مُہرِ سلیمان و جامِ جم کیا ہے

سخن میں خامۂ غالبؔ کی آتش افشانی
یقین ہے ہم کو بھی، لیکن اب اس میں دم کیا ہے


غزل

باغ تجھ بن گلِ نرگس سے ڈراتا ہے مجھے
چاہوں گر سیرِ چمن، آنکھ دکھاتا ہے مجھے

باغ پا کر خفقانی یہ ڈراتا ہے مجھے
سایۂ شاخِ گُل افعی نظر آتا ہے مجھے

ماہِ نو ہوں، کہ فلک عجز سکھاتا ہے مجھے [1]
عمر بھر ایک ہی پہلو پہ سلاتا ہے مجھے

جوہرِ تیغ بہ سر چشمۂ دیگر معلوم
ہُوں میں وہ سبزہ کہ زہرآب اُگاتا ہے مجھے

مدّعا محوِ تماشائے شکستِ دل ہے
آئنہ خانے میں کوئی لیے جاتا ہے مجھے

نالہ سرمایۂ یک عالم و عالم کفِ خاک
آسمان بیضۂ قمری نظر آتا ہے مجھے

زندگی میں تو وہ محفل سے اُٹھا دیتے تھے
دیکھوں اب مر گئے پر کون اُٹھاتا ہے مجھے

شورِ تمثال ہے کس رشکِ چمن کا یا رب!
آئینہ بیضۂ بلبل نظر آتا ہے مجھے

حیرت آئینہ انجامِ جنوں ہوں جوں شمع
کس قدر داغِ جگر شعلہ دکھاتا ہے مجھے

میں ہوں اور حیرتِ جاوید، مگر ذوقِ خیال
بہ فسونِ نگہِ ناز ستاتا ہے مجھے

حیرتِ فکرِ سخن سازِ سلامت ہے اسدؔ
دل پسِ زانوئے آئینہ بٹھاتا ہے مجھے

  1. نسخۂ حمیدیہ میں یہ شعر درج نہیں ہے۔ (جویریہ مسعود)

شعر

روندی ہوئی ہے کوکبہ شہریار کی
اترائے کیوں نہ خاک سرِ رہگزار کی

جب اس کے دیکھنے کے لیے آئیں بادشاہ [1]
لوگوں میں کیوں نمود نہ ہو لالہ زار کی

بُھوکے نہیں ہیں سیرِ گلستان کے ہم ولے
کیوں کر نہ کھائیے کہ ہوا ہے بہار کی

  1. زیادہ نسخوں میں "بادشاہ” اور کم میں "پادشاہ” درج ہے۔ (حامد علی خاں)

غزل

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

ڈرے کیوں میرا قاتل؟ کیا رہے گا اُس کی گر د ن پر
وہ خوں، جو چشم تر سے عمر بھر یوں دم بہ دم نکلے؟

نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے

بھر م کھل جائے ظالم تیرے قامت کی درازی کا
اگر اس طرۂ پُر پیچ و خم کا پیچ و خم نکلے

مگر [1] لکھوائے کوئی اس کو خط تو ہم سے لکھوائے
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کر قلم نکلے

ہوئی اِس دور میں منسوب مجھ سے بادہ آشامی
پھر آیا وہ زمانہ جو جہاں میں جامِ جم نکلے

ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغِ ستم نکلے

محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا
اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے

ذرا کر زور سینے پر کہ تیر پر ستم نکلے [2]
جو وہ نکلے تو دل نکلے جو دل نکلے تو دم نکلے

خدا کے واسطے پردہ نہ کعبہ سے اٹھا ظالم [3]
کہیں ایسا نہ ہو یاں بھی وہی کافر صنم نکلے

کہاں میخانے کا دروازہ غالبؔ! اور کہاں واعظ
پر اِتنا جانتے ہیں، کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے

  1. نسخۂ حمیدیہ (اور مہر) میں یہاں لفظ "اگر” ہے، دوسرے تمام نسخوں میں "مگر”، صرف طباطبائی نے حمیدیہ کی املا قبول کی ہے۔ ممکن ہے کہ حمیدیہ میں یہ لفظ کتابت کی غلطی ہو۔ (اعجاز عبید) مزید: نسخۂ مہر میں یہاں "مگر” کی جگہ "اگر” چھپا ہے لیکن نسخۂ حمیدیہ، نسخۂ عرشی، نسخۂ مالک رام، نسخۂ نظامی، نسخۂ حسرت موہانی نسخۂ بیخود اور دیگر تمام پیشِ نظر قدیم و جدید نسخوں میں "مگر” ہی چھپا ہے اور اس میں احتمالِ معنوی نے ایک مزید لطف بھی پیدا کر دیا ہے۔ تمام مہیا شہادتوں سے یہاں "مگر” ہی غالب کا لفظ معلوم ہوتا ہے البتہ نسخۂ طباطبائی (لکھنو 1961) میں نسخۂ مہر ہی کی طرح "اگر” چھپا ہے۔ اس نسخے میں اغلاطِ کتابت کی کثرت ہے۔ غالباً ان دونوں نسخوں میں "اگر” غلطِ کاتب ہے۔ علاوہ ازیں نسخۂ مہر میں کاتب نے اس غزل کے اشعار کی ترتیب بے محابا بدل ڈالی ہے۔ (حامد علی خاں)
  2. یہ شعر نسخۂ مہر کے علاوہ کسی اور نسخے میں نہیں ملا۔ (جویریہ مسعود)
  3. یہ مشہور شعر نسخۂ مہر اور نسخۂ طاہر کے علاوہ کسی اور نسخے میں نہیں ملا۔ (جویریہ مسعود)

شعر

کوہ کے ہوں بارِ خاطر گر صدا ہو جائیے
بے تکلف اے شرارِ جستہ! کیا ہو جائیے

بیضہ آسا ننگِ بال و پر ہے یہ کنجِ قفس
از سرِ نو زندگی ہو، گر رِہا ہو جائیے


شعر

مستی، بہ ذوقِ غفلتِ ساقی ہلاک ہے
موجِ شراب یک مژۂ خوابناک ہے

جُز زخمِ تیغِ ناز، نہیں دل میں آرزو
جیبِ خیال بھی ترے ہاتھوں سے چاک ہے

جوشِ جنوں سے کچھ نظر آتا نہیں، اسدؔ [1]
صحرا ہماری آنکھ میں یک مشتِ خاک ہے

  1. نسخۂ مہر میں "اسد” کی جگہ "مجھے” چھپا ہے مگر یہ سہوِ کتابت معلوم ہوتا ہے کیونکہ دوسرے مصرع میں متکلم نے صیغۂ جمع استعمال کیا ہے۔(حامد علی خاں)

شعر

لبِ عیسیٰ کی جنبش کرتی ہے گہوارہ جنبانی
قیامت کشتۂٴ لعل بتاں کا خواب سنگیں ہے


شعر

آمدِ سیلابِ طوفانِ صدائے آب ہے
نقشِ پا جو کان میں رکھتا ہے انگلی جادہ سے

بزم مے وحشت کدہ ہے کس کی چشمِ مست کا
شیشے میں نبضِ پری پنہاں ہے موجِ بادہ سے


شعر

ہوں میں بھی تماشائیِ نیرنگِ تمنا
مطلب نہیں کچھ اس سے کہ مطلب ہی بر آوے [1]

  1. آئے۔ نسخۂ مہر (جویریہ مسعود)

شعر

سیاہی جیسے گِر جاوے دمِ تحریر کاغذ پر
مر ی قسمت میں یو ں تصویر ہے شب ہائے ہجرا ں کی


غزل

ہجومِ نالہ، حیرت عاجزِ عرضِ یک افغاں ہے
خموشی ریشۂ صد نیستاں سے خس بدنداں ہے

تکلف بر طرف، ہے جانستاں تر لطفِ بدخویاں
نگاہِ بے حجابِ ناز تیغِ تیزِ عریاں ہے

ہوئی یہ کثرتِ غم سے تلف کیفیّتِ شادی
کہ صبحِ عید مجھ کو بدتر از چاکِ گریباں ہے

دل و دیں نقد لا، ساقی سے گر سودا کیا چاہے
کہ اس بازار میں ساغر متاعِ دست گرداں ہے

غم آغوشِ بلا میں پرورش دیتا ہے عاشق کو
چراغِ روشن اپنا قلزم صرصر کا مرجاں ہے


شعر

خموشی میں تماشا ادا نکلتی ہے
نگاہ دل سے تری [1] سُرمہ سا نکلتی ہے

فشارِ تنگیِ خلوت سے بنتی ہے شبنم
صبا جو غنچے کے پردے میں ‌جا نکلتی ہے

نہ پوچھ سینۂ عاشق سے آبِ تیغِ نگاہ
کہ زخمِ روزنِ در سے ہوا نکلتی ہے

  1. نسخۂ حسرت موہانی میں "ترے” چھپا ہے۔ قدیم نسخوں میں "ترے” اور "تری” کی تمیز مشکل تھی۔ شعر کا مفہوم دونوں صورتوں میں تقریباً ایک ہی رہتا ہے۔ (حامد علی خاں)

غزل

جس جا نسیم شانہ کشِ زلفِ یار ہے
نافہ دماغِ آہوئے دشتِ تتار ہے

کس کا سراغِ جلوہ ہے حیرت کو اے خدا
آئینہ فرشِ شش جہتِ انتظار ہے

ہے ذرہ ذرہ تنگیِ جا سے غبارِ شوق
گر دام یہ ہے و سعتِ صحرا شکار ہے

دل مدّعی و دیدہ بنا مدّعا علیہ
نظارے کا مقدّمہ پھر روبکار ہے

چھڑکے ہے شبنم آئینۂ برگِ گل پر آب
اے عندلیب وقتِ وداعِ بہار ہے

پچ آ پڑی ہے وعدۂ دلدار کی مجھے
وہ آئے یا نہ آئے پہ یاں انتظار ہے

بے پردہ سوئے وادیِ مجنوں گزر نہ کر
ہر ذرّے کے [1] نقاب میں دل بے قرار ہے

اے عندلیب یک کفِ خس بہرِ آشیاں
طوفانِ آمد آمدِ فصلِ بہار ہے

دل مت گنوا، خبر نہ سہی سیر ہی سہی
اے بے دماغ آئینہ تمثال دار ہے

غفلت کفیلِ عمر و اسدؔ ضامنِ نشاط
اے مرگِ ناگہاں تجھے کیا انتظار ہے

  1. نسخۂ طباطبائی میں ” کی نقاب” چھپا ہے۔ قدیم نسخوں میں یوں بھی یائے حطی ہی چھپی ہے۔ مگر نقاب کی تذکیر و تانیث کے بارے میں تو دہلی و لکھنو کا جدا جدا شیوہ بھی تھا۔ غالب نے لکھا ہے: زلف سے بڑھ کر نقاب اس شوخ کے رخ پر کھلا۔ (حامد علی خاں)

غزل

آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے

ہے انتظار سے شرر آبادِ رُست خیز
مژگانِ کوہکن رگِ خارا کہیں جسے

حسرت نے لا رکھا تری بزمِ خیال میں
گلدستۂ نگاہ سویدا کہیں جسے

کس فرصتِ وصال پہ ہے گل کو عندلیب
زخمِ فراق خندۂ بے جا کہیں جسے

یارب ہمیں تو خواب میں بھی مت دکھائیو
یہ محشرِ خیال کہ دنیا کہیں جسے

پھونکا ہے کس نے گوشِ محبت میں اے خدا
افسونِ انتظار، تمنا کہیں جسے

سر پر ہجومِ دردِ غریبی سے ڈالیے
وہ ایک مشتِ خاک کہ صحرا کہیں جسے

ہے چشمِ تر میں حسرتِ دیدار سے نہاں
شوقِ عناں گسیختہ، دریا کہیں جسے

درکار ہے شگفتنِ گلہائے عیش کو
صبحِ بہار پنبۂ مینا کہیں جسے

غالبؔ برا نہ مان جو واعظ برا کہے
ایسا بھی کوئی [1] ہے کہ سب اچھا کہیں جسے؟

  1. نسخۂ مہر میں "کوئی ہے” کی جگہ "ہے کوئی” چھپا ہے۔ کسی دوسرے پیشِ نظر قدیم و جدید نسخوں میں یہ شعر اس طرح درج نہیں۔ (حامد علی خاں)

غزل

شبنم بہ گلِ لالہ نہ خالی ز ادا ہے
داغِ دلِ بے درد، نظر گاہِ حیا ہے

دل خوں شدۂ کشمکشِ حسرتِ دیدار
آئینہ بہ دستِ بتِ بدمستِ حنا ہے

شعلے سے نہ ہوتی، ہوسِ شعلہ نے جو کی
جی کس قدر افسردگیِ دل پہ جلا ہے

تمثال میں تیری ہے وہ شوخی کہ بصد ذوق
آئینہ بہ اندازِ گل آغوش کشا ہے

قمری کفِ خا کستر و بلبل قفسِ رنگ
اے نالہ! نشانِ جگرِ سو ختہ کیا ہے؟

خو نے تری افسردہ کیا وحشتِ دل کو
معشوقی و بے حوصلگی طرفہ بلا ہے

مجبوری و دعوائے گرفتاریِ الفت
دستِ تہِ سنگ آمدہ پیمانِ وفا ہے

معلوم ہوا حالِ شہیدانِ گزشتہ
تیغِ ستم آئینۂ تصویر نما ہے

اے پرتوِ خورشیدِ جہاں تاب اِدھر بھی
سائے کی طرح ہم پہ عجب وقت پڑا ہے

سر رشتۂ بے تابیِ دل در گرہِ عجز
پرواز بخوں خُفتہ و فریاد رسا ہے

ناکردہ گناہوں کی بھی حسرت کی ملے داد
یا رب اگر ان کردہ گناہوں کی سزا ہے

بیگانگیِ خلق سے بیدل نہ ہو غالبؔ
کوئی نہیں تیرا، تو مری جان، خدا ہے


غزل

منظور تھی یہ شکل تجلّی کو نور [1] کی
قسمت کھلی ترے قد و رخ سے ظہور کی

اِک خونچکاں کفن میں کروڑوں بناؤ ہیں
پڑتی ہے آنکھ تیرے شہیدوں پہ حور کی

واعظ! نہ تم پیو نہ کسی کو پلا سکو
کیا بات ہے تمہاری شرابِ طہور کی!

لڑتا ہے مجھ سے حشر میں قاتل، کہ کیوں اٹھا؟
گویا ابھی سنی نہیں آواز صور کی

آمد بہار کی ہے جو بلبل ہے نغمہ سنج
اڑتی سی اک خبر ہے زبانی طیور کی

گو واں نہیں، پہ واں کے نکالے ہوئے تو ہیں
کعبے سے ان بتوں کو بھی نسبت ہے د ور کی

کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب
آؤ نہ [2] ہم بھی سیر کریں کوہِ طور کی

گرمی سہی کلام میں، لیکن نہ اس قدر
کی جس سے بات اُس نے شکایت ضرور کی

غالبؔ گر اِس سفر میں مجھے ساتھ لے چلیں
حج کا ثواب نذر کروں گا حضور کی

  1. نسخۂ عرشی میں "نور” کی جگہ "طور” چھپا ہے۔ یہ سہوِ طباعت ہے۔ (حامد علی خاں)
  2. نسخۂ مہر ” "آؤ نا” (حامد علی خاں)

غزل

غم کھانے میں بودا دلِ ناکام بہت ہے
یہ رنج کہ کم ہے مئے گلفام، بہت ہے

کہتے ہوئے ساقی سے، حیا آتی ہے ورنہ
ہے یوں کہ مجھے دردِ تہِ جام بہت ہے

نَے تیر کماں میں ہے، نہ صیاد کمیں میں
گوشے میں قفس کے مجھے آرام بہت ہے

کیا زہد کو مانوں کہ نہ ہو گرچہ ریائی
پاداشِ عمل کی طمَعِ خام بہت ہے

ہیں اہلِ خرد کس روشِ خاص پہ نازاں؟
پابستگیِ رسم و رہِ عام بہت ہے

زمزم ہی پہ چھوڑو، مجھے کیا طوفِ حر م سے؟
آلودہ بہ مے جامۂ احرام بہت ہے

ہے قہر گر اب بھی نہ بنے بات کہ ان کو
انکار نہیں اور مجھے اِبرام بہت ہے

خوں ہو کے جگر آنکھ سے ٹپکا نہیں اے مرگ
رہنے دے مجھے یاں، کہ ابھی کام بہت ہے

ہو گا کوئی ایسا بھی کہ غالبؔ کو نہ جانے؟
شاعر تو وہ اچھا ہے پہ بدنام بہت ہے


غزل

مدت ہوئی ہے یار کو مہماں کیے ہوئے
جوشِ قدح سے بزم چراغاں [1] کیے ہوئے

کرتا ہوں جمع پھر جگرِ لخت لخت کو
عرصہ ہوا ہے دعوتِ مژگاں کیے ہوئے

پھر وضعِ احتیاط سے رکنے لگا ہے دم
برسوں ہوئے ہیں چاک گریباں کیے ہوئے

پھر گرمِ نالہ ہائے شرر بار ہے نفَس
مدت ہوئی ہے سیرِ چراغاں کیے ہوئے

پھر پرسشِ جراحتِ دل کو چلا ہے عشق
سامانِ صد ہزار نمک داں کیے ہوئے

پھر بھر رہا ہوں [2] خامۂ مژگاں بہ خونِ دل
سازِ چمن طرازیِ داماں کیے ہوئے

باہم دگر ہوئے ہیں دل و دیدہ پھر رقیب
نظارہ و خیال کا ساماں کیے ہوئے

دل پھر طوافِ کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے

پھر شوق کر رہا ہے خریدار کی طلب
عرضِ متاعِ عقل و دل و جاں کیے ہوئے

دوڑے ہے پھر ہر ایک گل و لالہ پر خیال
صد گلستاں نگاہ کا ساماں کیے ہوئے

پھر چاہتا ہوں نامۂ دلدار کھولنا
جاں نذرِ دل فریبیِ عنواں کیے ہوئے

مانگے ہے پھر کسی کو لبِ بام پر ہوس
زلفِ سیاہ رخ پہ پریشاں کیے ہوئے

چاہے ہے پھر کسی کو مقابل میں آرزو
سرمے سے تیز دشنۂ مژگاں کیے ہوئے

اک نو بہارِ ناز کو تاکے ہے پھر نگاہ
چہرہ فروغ مے سے گلستاں کیے ہوئے

پھر جی میں ہے کہ در پہ کسی کے پڑے رہیں
سر زیر بارِ منتِ درباں کیے ہوئے

جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت، کہ [3] رات دن
بیٹھے رہیں تصورِ جاناں کیے ہوئے

غالبؔ ہمیں نہ چھیڑ، کہ پھر جوشِ اشک سے
بیٹھے ہیں ہم تہیّۂ طوفاں کیے ہوئے

  1. بعض حضرات بہ اضافت "بزمِ چراغاں” لکھتے اور پڑھتے ہیں۔ "بزم کرنا” کوئی اردو محاورہ نہیں۔ یہاں مراد یہ ہے کہ جوشِ قدح سے بزم کو چراغاں کیے ہوئے مدت گزر چکی ہے۔ (حامد علی خاں)
  2. نسخۂ مہر میں ” ہے” (جویریہ مسعود)
  3. نسخۂ مہر میں ” کے” (جویریہ مسعود)

غزل

نویدِ امن ہے بیدادِ دوست جاں کے لیے
رہی نہ طرزِ ستم کوئی آسماں کے لیے

بلا سے! گر مژۂ یار تشنۂ خوں ہے
رکھوں کچھ اپنی ہی مژگان خوں فشاں کے لیے

وہ زندہ ہم ہیں کہ ہیں روشناسِ خلق اے خضر
نہ تم کہ چور بنے عمرِ جاوداں کے لیے

رہا بلا میں بھی، میں مبتلائے آفتِ رشک
بلائے جاں ہے ادا تیری اک جہاں کے لیے

فلک نہ دور رکھ اُس سے مجھے، کہ میں ہی نہیں
دراز دستیِ قاتل کے امتحاں کے لیے

مثال یہ مری کوشش کی ہے کہ مرغِ اسیر
کرے قفس میں فراہم خس آشیاں کے لیے

گدا سمجھ کے وہ چپ تھا، مری [1] جو شامت آئے
اٹھا اور اٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لیے

ق

بہ قدرِ شوق نہیں ظرفِ تنگنائے غزل
کچھ اور چاہیے وسعت مرے بیاں کے لیے

دیا ہے خلق کو بھی، تا اسے نظر نہ لگے
بنا ہے عیش تجمُّل حسین خاں کے لیے

زباں پہ بارِ خدایا! یہ کس کا نام آیا
کہ میرے نطق نے بوسے مر ی زباں کے لیے

نصیرِ دولت و دیں اور معینِ ملّت و ملک
بنا ہے چرخِ بریں جس کے آستاں کے لیے

زمانہ عہد میں اُس کے ہے محوِ آرائش
بنیں گے اور ستارے اب آسماں کے لیے

ورق تمام ہوا اور مدح باقی ہے
سفینہ چاہیے اس بحرِ بیکراں کے لیے

ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا
صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے

  1. یہ عجیب بات ہے کہ نسخۂ نظامی اور نسخۂ مہر میں نیز متعدد دوسرے قدیم نسخوں میں یہ مصرع ایک ہی طور پر مہمل چھپا ہے، یعنی:
    گدا سمجھ کے وہ چپ تھا، مری خوشامد سے۔ (حامد علی خاں)

غزل

آپ نے مَسَّنی الضُّرُّ کہا ہے تو سہی
یہ بھی اے حضرتِ ایّوب! گِلا ہے تو سہی

رنج طاقت سے سوا ہو تو نہ پیٹوں کیوں سر
ذہن میں خوبیِ تسلیم و رضا ہے تو سہی

ہے غنیمت کہ بہ اُمّید گزر جائے گی عُمر
نہ ملے داد، مگر روزِ جزا ہے تو سہی

دوست ہی کوئی نہیں ہے، جو کرے چارہ گری
نہ سہی، لیک تمنّائے دوا ہے تو سہی

غیر سے دیکھیے کیا خوب نباہی اُس نے
نہ سہی ہم سے، پر اُس بُت میں وفا ہے تو سہی

نقل کرتا ہوں اسے نامۂ اعمال میں مَیں
کچھ نہ کچھ روزِ ازل تم نے لکھا ہے تو سہی

کبھی آ جائے گی کیوں کرتے ہو جلدی غالبؔ
شہرۂ تیزیِ شمشیرِ قضا ہے تو سہی


غزل

لطفِ نظّارۂ قاتِل دمِ بسمل آئے
جان جائے تو بلا سے، پہ کہیں دِل آئے

ان کو کیا علم کہ کشتی پہ مری کیا گزری
دوست جو ساتھ مرے تا لبِ ساحل آئے

وہ نہیں ہم، کہ چلے جائیں حرم کو، اے شیخ!
ساتھ حُجّاج کے اکثر کئی منزِل آئے

آئیں جس بزم میں وہ، لوگ پکار اٹھتے ہیں
"لو وہ برہم زنِ ہنگامۂ محفل آئے”

دیدہ خوں بار ہے مدّت سے، ولے آج ندیم
دل کے ٹکڑے بھی کئی خون کے شامل آئے

سامنا حور و پری نے نہ کیا ہے، نہ کریں
عکس تیرا ہی مگر، تیرے مقابِل آئے

اب ہے دِلّی کی طرف کوچ ہمارا غالبؔ!
آج ہم حضرتِ نوّاب سے بھی مِل آئے


غزل

میں ہوں مشتاقِ جفا، مجھ پہ جفا اور سہی
تم ہو بیداد سے خوش، اس سے سوا اور سہی

غیر کی مرگ کا غم کس لیے، اے غیرتِ ماہ!
ہیں ہوس پیشہ بہت، وہ نہ ہُوا، اور سہی

تم ہو بت، پھر تمھیں پندارِ خُدائی کیوں ہے؟
تم خداوند ہی کہلاؤ، خدا اور سہی

حُسن میں حُور سے بڑھ کر نہیں ہونے کی کبھی
آپ کا شیوہ و انداز و ادا اور سہی

تیرے کوچے کا ہے مائل دلِ مضطر میرا
کعبہ اک اور سہی، قبلہ نما اور سہی

کوئی دنیا میں مگر باغ نہیں ہے، واعظ!
خلد بھی باغ ہے، خیر آب و ہوا اور سہی

کیوں نہ فردوس میں دوزخ کو ملا لیں، یا رب
سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی

مجھ کو وہ دو۔ کہ جسے کھا کے نہ پانی مانگوں
زہر کچھ اور سہی، آبِ بقا اور سہی

مجھ سے غالبؔ یہ علائی نے غزل لکھوائی
ایک بیداد گرِ رنج فزا اور سہی


شعر

[1] عجز و نیاز سے تو وہ آیا نہ راہ پر
دامن کو اس کے آج حریفانہ کھینچیے

  1. نوٹ: 268- 273 غزلیات و اشعار نسخۂ مہر میں نہیں۔ جویریہ مسعود

شعر

اک گرم آہ کی تو ہزاروں کے گھر جلے
رکھتے ہیں عشق میں یہ اثر ہم جگر جلے

پروانہ خانہ غم ہو تو پھر کس لیے اسدؔ
ہر رات شمع شام سے لے تا سحر جلے


شعر

زندانِ تحّمل ہیں مہمانِ تغافل ہیں
بے فائدہ یاروں کو فرقِ غم و شادی ہے


شعر

مستعدِ قتلِ یک عالم ہے جلاّدِ فلک
کہکشاں موجِ شفق میں تیغِ خوں آشام ہے


شعر

نہ حیرت چشمِ ساقی کی، نہ صحبت دورِ ساغر کی
مری محفل میں غالبؔ گردشِ افلاک باقی ہے


شعر

صبا لگا وہ طمانچہ طرف سے بلبل کے
کہ روئے غنچہ سوئے آشیاں پھر جائے


قصائد

منقبتِ حیدری

سازِ یک ذرّہ نہیں فیضِ چمن سے بیکار
سایۂ لالۂ بےداغ سویدائے بہار

مستیِ بادِ صبا سے ہے بہ عرضِ سبزہ
ریزۂ شیشۂ مے جوہرِ تیغِ کہسار

سبز ہے جامِ زمرّد کی طرح داغِ پلنگ
تازہ ہے ریشۂ نارنج صفت روئے شرار

مستیِ ابر سے گلچینِ طرب ہے حسرت
کہ اس آغوش میں ممکن ہے دو عالم کا فِشار

کوہ و صحرا ہمہ معموریِ شوقِ بلبل
راہِ خوابیدہ ہوئی خندۂ گل سے بیدار

سونپے ہے فیضِ ہوا صورتِ مژگانِ یتیم
سر نوشتِ دو جہاں ابر بہ یک سطرِ غبار

کاٹ کر پھینکیے ناخن جو باندازِ ہلال
قوت نامیہ اس کو بھی نہ چھوڑے بیکار

کفِ ہر خاک بہ گردون شدہ قمری پرواز
دامِ ہر کاغذِ آتش زدہ طاؤسِ شکار

مے کدے میں ہو اگر آرزوئے گل چینی
بھول جا یک قدحِ بادہ بہ طاقِ گلزار

موجِ گل ڈھونڈ بہ خلوت کدۂ غنچۂ باغ
گُم کرے گوشۂ مے خانہ میں گر تو دستار

کھینچے گرمانیِ اندیشہ چمن کی تصویر
سبزہ مثلِ خطِ نو خیز ہو خطِّ پرکار

لعل سے کی ہے پئے زمزمۂ مدحتِ شاہ
طوطیِ سبزۂ کہسار نے پیدا منقار

وہ شہنشاہ کہ جس کی [1] پئے تعمیرِ سرا
چشمِ جبریل ہوئی قالبِ خشتِ دیوار

فلک العرش ہجومِ خمِ دوشِ مزدور
رشتۂ فیضِ ازل سازِ طنابِ معمار

سبز نُہ چمن و یک خطِ پشتِ لبِ بام
رفعتِ ہمّتِ صد عارف و یک اوجِ حصار

واں کی [2] خاشاک سے حاصل ہو جسے یک پرِ کاہ
وہ رہے مِروحۂ بالِ پری سے بیزار

خاکِ صحرائے نجف جوہرِ سیرِ عُرفا
چشمِ نقشِ قدم آئینۂ بختِ بیدار

ذرّہ اس گرد کا خورشید کو آئینہ ناز
گرد اُس دشت کی اُمّید کو احرامِ بہار

آفرینش کو ہے واں سے طلبِ مستیِ ناز
عرضِ خمیازۂ ایجاد ہے ہر موجِ غبار

مطلعِ ثانی

فیض سے تیرے ہے اے شمعِ شبستانِ بہار
دلِ پروانہ چراغاں، پرِ بلبل گلنار

شکلِ طاؤس کرے آئینہ خانہ پرواز
ذوق میں جلوے کے تیرے بہ ہوائے دیدار

تیری اولاد کے غم سے ہے بروئے گردوں
سِلکِ اختر میں مہِ نو مژۂ گوہر بار

ہم عبادت کو، ترا نقشِ قدم مُہرِ نماز
ہم ریاضت کو، ترے حوصلے سے استظہار

مدح میں تیری نہاں زمزمۂ نعتِ نبی
جام سے تیرے عیاں بادۂ جوشِ اسرار

جوہرِ دستِ دعا آئینہ یعنی تاثیر
یک طرف نازشِ مژگان و دگر سو غمِ خار [3]

مَردُمک سے ہو عزا خانۂ اقبالِ نگاہ
خاکِ در کی ترے جو چشم نہ ہو آئینہ دار

دشمنِ آلِ نبی کو بہ طرب خانۂ دہر
عرضِ خمیازۂ سیلاب ہو طاقِ دیوار

دیدہ تا دل اسدؔ آئینۂ یک پرتوِ شوق
فیضِ معنی سے خطِ ساغرِ راقم سرشار

  1. مروجہ نسخوں میں "کے” کی جگہ ” کی چھپا ہے۔ (حامد علی خاں) مزید: حامد علی خان کے نسخے میں یہ مصرع یوں ہے: وہ شہنشاہ کہ جس کے پئے تعمیرِ سرا (جویریہ مسعود) 2.اکثر مروجہ نسخوں میں "کی خاشاک” چھپا ہے۔ لفظِ خاشاک بہ صیغۂ مذکر استعمال ہوتا ہے۔ دیکھیے فرہنگِ آصفیہ۔ اس قسم کے اغلاط کی وجہ پہلے حواشی میں جگہ جگہ بیان ہو چکی ہے۔ (حامد علی خاں)
    مزید: نسخۂ حامد علی خاں میں : واں کے خاشاک سے حاصل ہو جسے یک پرِ کاہ (جویریہ مسعود)
  2. نسخۂ مہر میں "غمخوار” (جویریہ مسعود)

منقبت (حضرت علی کے لیے)

دہر جُز جلوۂ یکتائیِ معشوق نہیں
ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خود بیں

بے دلی ہائے تماشا کہ نہ عبرت ہے نہ ذوق
بے کسی ہائے تمنّا کہ نہ دنیا ہے نہ دیں

ہَرزہ ہے نغمۂ زیر و بمِ ہستی و عدم
لغو ہے آئینۂ فرقِ جنون و تمکیں

نقشِ معنی ہمہ خمیازۂ عرضِ صورت
سخنِ حق ہمہ پیمانۂ ذوقِ تحسیں

لافِ دانش غلط و نفعِ عبارت معلوم!
دُردِ یک ساغرِ غفلت ہے۔ چہ دنیا و چہ دیں

مثلِ مضمونِ وفا باد بدستِ تسلیم
صورتِ نقشِ قدم خاک بہ فرقِ تمکیں

عشق بے ربطیِ شیرازۂ اجزائے حواس
وصل، زنگارِ رخِ آئینۂ حسنِ یقیں

کوہکن، گرسنہ مزدورِ طرب گاہِ رقیب
بے ستوں، آئینۂ خوابِ گرانِ شیریں

کس نے دیکھا نفسِ اہلِ وفا آتش خیز
کس نے پایا اثرِ نالۂ دل ہائے حزیں!

سامعِ زمزمۂ اہلِ جہاں ہوں، لیکن
نہ سرو برگِ ستائش، نہ دماغِ نفریں

کس قدر ہَرزہ سرا ہوں کہ عیاذاً باللہ
یک قلم خارجِ آدابِ وقار و تمکیں

نقشِ لا حول لکھ اے خامۂ ہذیاں تحریر
یا علی عرض کر اے فطرتِ وسواسِ قریں

مظہرِ فیضِ [1] خدا، جان و دلِ ختمِ رسل
قبلۂ آلِ نبی (ص) ، کعبۂ ایجادِ یقیں

ہو وہ سرمایۂ ایجاد جہاں گرمِ خرام
ہر کفِ خاک ہے واں گَردۂ تصویرِ زمیں

جلوہ پرداز ہو نقشِ قدم اس کا جس جا
وہ کفِ خاک ہے ناموسِ دو عالم کی امیں

نسبتِ نام سے اس کی ہے یہ رُتبہ کہ رہے
اَبَداً پُشتِ فلک خَم شدۂ نازِ زمیں

فیضِ خُلق اس کا ہی شامل ہے کہ ہوتا ہے سدا [2]
بوئے گل سے نفسِ بادِ صبا عطر آگیں

بُرّشِ تیغ کا اس کی ہے جہاں میں چرچا
قطع ہو جائے نہ سر رشتۂ ایجاد کہیں

کُفر سوز اس کا وہ جلوہ ہے کہ جس سے ٹوٹے
رنگِ عاشق کی طرح رونقِ بت خانۂ چیں

جاں پناہا! دل و جاں فیض رسانا! شاہا!
وصیِ ختمِ رسُل تو ہے بہ فتوائے یقیں

جسمِ اطہر کو ترے دوشِ پیمبر منبر
نامِ نامی کو ترے ناصیۂ عرش نگیں

کس سے ممکن ہے تری مدح بغیر از واجب
شعلۂ شمع مگر شمع پہ باندھے آئیں

آستاں پر ہے ترے جوہرِ آئینۂ سنگ
رَقَمِ بندگیِ حضرتِ جبریلِ امیں

تیرے در کے لیے [3] اسبابِ نثار آمادہ
خاکیوں کو جو خدا نے دیئے جان و دل و دیں

تیری مدحت کے لیے ہیں دل و جاں کام و زباں
تیری تسلیم کو ہیں لَوح و قلم دست و جبیں

کس سے ہو سکتی ہے مدّاحیِ ممدوحِ خدا
کس سے ہو سکتی ہے آرائشِ فردوسِ بریں!

ق

جنسِ بازارِ معاصی اسد اللہ اسدؔ
کہ سوا تیرے کوئی اس کا خریدار نہیں

شوخیِ عرضِ مطالِب میں ہے گستاخِ طلب
ہے ترے حوصلۂ فضل پہ از بس کہ یقیں

دے دعا کو مری وہ مرتبۂ حسنِ قبول
کہ اجابت کہے ہر حرف پہ سو بار آمیں

غمِ شبّیر سے ہو سینہ یہاں تک لبریز
کہ رہیں خونِ جگر سے مری آنکھیں رنگیں

طبع کو الفتِ دُلدُل میں یہ سرگرمیِ شوق
کہ جہاں تک چلے اس سے قدم اور مجھ سے جبیں

دلِ الفت نسب و سینۂ توحید فضا
نگہِ جلوہ پرست و نفسِ صدق گزیں

صَرفِ اعدا اثرِ شعلۂ دودِ [4] دوزخ
وقفِ احباب گُل و سنبلِ فردوسِ بریں [5]

  1. نسخۂ مہر میں یہاں "مظہرِ ذات خدا” کے الفاظ درج ہیں۔ یہ الفاظ دوسرے کسی زیر نظر نسخے میں نہیں ملے۔ (حامد علی خان)
  2. نسخۂ مہر میں یہاں "سدا” کی جگہ "اسد” چھپا ہے مگر اس کی تصدیق کسی دوسرے نسخے سے نہیں ہو سکی۔ (حامد علی خان)
  3. نسخۂ عرشی: "کیے” (حامد علی خان)
  4. بعض اچھے نسخوں میں ” شعلۂ دود دوزخ "چھپا ہے۔ ” شعلۂ دود” بے محل بات ہے۔(حامد علی خان)
    مزید: نسخۂ حامد علی خان میں : "شعلہ و دود دوزخ” (جویریہ مسعود)
  5. بعض نسخوں میں ” گُل و سنبل و فردوسِ بریں” کی عجیب و غریب ترکیب چھپی ہے۔ غالب نے "شعلہ و دودِ دوزخ” کا مقابلہ ” گُل و سنبلِ فردوسِ بریں” سے کیا ہے۔ ۔(حامد علی خان)

مدحِ شاہ

ہاں مہِ نو سنیں ہم اس کا نام
جس کو تو جھک کے کر رہا ہے سلام

دو دن آیا ہے تو نظر دمِ صبح
یہی انداز اور یہی اندام

بارے دو دن کہاں رہا غائب؟
"بندہ عاجز ہے، گردشِ ایّام

اڑ کے جاتا کہاں کہ تاروں کا
آسماں نے بچھا رکھا تھا دام”

مرحبا اے سرورِ خاصِ خواص
حبّذا اے نشاطِ عامِ عوام

عذر میں تین دن نہ آنے کے
لے کے آیا ہے عید کا پیغام

اس کو بھولا نہ چاہیے کہنا
صبح جو جائے اور آئے شام [1]

ایک میں کیا؟ سب نے جان لیا
تیرا آغاز اور ترا انجام

رازِ دل مجھ سے کیوں چھپاتا ہے
مجھ کو سمجھا ہے کیا کہیں نمّام؟

جانتا ہوں کہ آج دنیا میں
ایک ہی ہے امید گاہِ انام

میں نے مانا کہ تو ہے حلقہ بگوش
غالبؔ اس کا مگر نہیں ہے غلام؟

جانتا ہوں کہ جانتا ہے تُو
تب کہا ہے بہ طرزِ استفہام

مہرِ تاباں کو ہو تو ہو، اے ماہ!
قربِ ہر روزہ [2] بر سبیلِ دوام

ق

تجھ کو کیا پایہ روشناسی کا
جز بہ تقریبِ عیدِ ماہِ صیام

جانتا ہوں کہ اس کے فیض سے تو
پھر بنا چاہتا ہے ماہِ تمام

ماہ بن، ماہتاب بن، میں کون؟
مجھ کو کیا بانٹ دے گا تو انعام

میرا اپنا جدا معاملہ ہے
اور کے لین دین سے کیا کام

ہے مجھے آرزوئے بخششِ خاص
گر تجھے ہے امیدِ رحمتِ عام

جو کہ بخشے گا تجھ کو فرِّ فروغ
کیا نہ دے گا مجھے مئے گلفام؟

جبکہ چودہ منازلِ فلکی
کر چکے [3] قطع تیری تیزیِ گام

تیرے پرتو سے ہوں فروغ پذیر
کوئے و مشکوئے و صحن و منظر و بام

دیکھنا میرے ہاتھ میں لبریز
اپنی صورت کا اک بلوریں جام

پھر غزل کی روِش پہ چل نکلا
توسنِ طبع چاہتا تھا [4] لگام

  1. نسخۂ نظامی: جائے، آئے۔۔ نسخۂ شِو نرائن : جاوے، آوے۔ (حامد علی خان)
  2. بعض نسخوں میں ” ہر روزہ” کی جگی "ہر روز” چھپا ہے جو سہوِ کتابت ہے۔(حامد علی خان)
  3. بعض نسخوں میں غلط فہمی کی بنا پر ” چکے” کی جگہ "چکی” چھپا ہے۔ (حامد علی خان)
  4. بعض مروجہ نسخوں میں "چاہتا ہے لگام” چھپا ہے۔ جو غلط ہے۔ (حامد علی خان)

غزل

زہرِ غم کر چکا تھا میرا کام
تجھ کو کس نے کہا کہ ہو بدنام؟

مے ہی پھر کیوں نہ میں پیے جاؤں؟
غم سے جب ہو گئی ہے زیست [1] حرام

بوسہ کیسا؟ یہی غنیمت ہے
کہ نہ سمجھیں وہ لذّتِ دشنام

کعبے میں جا بجائیں گے ناقوس
اب تو باندھا ہے دَیر میں احرام

اس قدح کا ہے دَور مجھ کو نقد
چرخ نے لی ہے جس سے گردشِ ایّام

چھیڑتا ہوں کہ ان کو غصہ آئے
کیوں رکھوں ورنہ غالبؔ اپنا نام

کہ چکا میں تو سب کچھ، اب تُو کہ
اے پری چہرہ پیکِ تیز خرام

کون ہے جس کے در پہ ناصیہ سا
ہیں مہ و مہر و زہرہ و بہرام

تُو نہیں جانتا تو مجھ سے سن
نامِ شاہنشہِ بلند مقام

قبلۂ چشم و دل بہادر شاہ
مظہرِ ذوالجلال و الاکرام

شہسوارِ طریقۂ انصاف
نو بہارِ حدیقۂ اسلام

جس کا ہر فعل صورتِ اعجاز
جس کا ہر قول معنیِ الہام

بزم میں میزبان قیصر و جم
رزم میں اوستادِ رستم و سام

اے ترا لطف زندگی افزا
اے ترا عہد فرخی فرجام

چشمِ بد دور! خسروانہ شکُوہ
لوحش اللہ! عارفانہ کلام

جاں نثاروں میں تیرے قیصرِ روم
جُرعہ خواروں میں تیرے مرشدِ جام

وارثِ ملک جانتے ہیں تجھے
ایرج و تور و خسرو و بہرام

زورِ بازو میں مانتے ہیں تجھے
گیو و گودرز و بیزن و رَہّام

مرحبا مو شگافیِ ناوک
آفریں آب داریِ صمصام

تیر کو تیرے تیرِ غیر ہدف
تیغ کو تیری تیغِ خصم نیام

ق

رعد کا کر رہی ہے کیا دم بند
برق کو دے رہا ہے کیا الزام

تیرے فیلِ گراں جسد کی صدا
تیرے رخشِ سبک عناں کا خرام

ق

فنِ صورت گری میں تیرا گُرز
گر نہ رکھتا ہو دستگاہِ تمام

اس کے مضروب کے سر و تن سے
کیوں نمایاں ہو صورتِ ادغام؟

جب ازل میں رقم پذیر ہوئے
صفحہ ہائے لیالی و ایّام

اور ان اوراق میں بہ کلکِ قضا
مجملاً مندرج ہوئے احکام

لکھ دیا شاہدوں کو عاشق کُش
لکھ دیا عاشقوں کو دشمن کام

آسماں کو کہا گیا کہ کہیں
گنبدِ تیز گردِ نیلی فام

حکمِ ناطق لکھا گیا کہ لکھیں
خال کو دانہ اور زلف کو دام

آتش و آب و باد و خاک نے لی
وضعِ سوز و نم و رم و آرام

مہرِ رخشاں کا نام خسروِ روز
ماہِ تاباں کا اسم شحنۂ شام

تیری توقیعِ سلطنت کو بھی
دی بدستور صورتِ ارقام

کاتبِ حکم نے بموجبِ حکم
اس [2] رقم کو دیا طرازِ دوام

ہے ازل سے روانیِ [3] آغاز
ہو ابد تک رسائِی انجام

  1. نسخۂ مہر میں ” غم سے زیست ہو گئی ہو حرام” یہ غالباً سہوِ کتابت ہے۔ (حامد علی خان)
  2. نسخۂ نظامی کی تقلید میں مستند نسخوں میں بھی یہاں” اُس” چھپا ہے۔ نسخۂ نظامی میں یہ سہوِ کتابت معلوم ہوتا ہے کیوں کہ "اِس رقم” میں اشارہ قریبی تحریرِ ما بعد یعنی آخری شعر کی طرف ہے۔ نظر بہ ظاہر یہی معلوم ہوتا ہے۔ (حامد علی خان)
  3. چند نسخوں میں "روائیِ” ہے۔ اکثر جگہ ’روانی‘ کر دیا گیا ہے جو غلط ہے۔ (اعجاز عبید)
    مزید: بعض نسخوں میں "روائی” جگہ "روانیِ” چھپا ہے، غالب نے "رسائی” کے مقابلے میں "روائی” لکھا تھا۔ دیکھیے طباطبائی۔ (حامد علی خان)
    مزید: ہم نے متن میں اکثر مستند نسخوں کی تقلید میں "روانی” کو ترجیح دی ہے۔ (جویریہ مسعود)

مدحِ شاہ

صبح دم دروازۂ خاور کھلا
مہرِ عالمتاب کا منظر کھلا

خسروِ انجم کے آیا صرف میں
شب کو تھا گنجینۂ گوہر کھلا

وہ بھی تھی اک سیمیا کی سی نمود
صبح کو رازِ مہ و اختر کھلا

ہیں کواکب، کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکا یہ بازی گر کھلا

سطحِ گردوں پر پڑا تھا رات کو
موتیوں کا ہر طرف زیور کھلا

صبح آیا جانبِ مشرق نظر
اک نگارِ آتشیں رُخ، سر کھلا

تھی نظر بندی، کِیا جب ردِّ سِحر
بادۂ گل رنگ کا ساغر کھلا

لا کے ساقی نے صبوحی کے لیے
رکھ دیا ہے ایک جامِ زر کھلا

بزمِ سلطانی ہوئی آراستہ
کعبۂ امن و اماں کا در کھلا

تاجِ زرّیں مہرِ تاباں سے سوا
خسروِ آفاق کے منہ پر کھلا

شاہِ روشن دل، بہادر شہ، کہ ہے
رازِ ہستی اس پہ سر تا سر کھلا

وہ کہ جس کی صورتِ تکوین میں
مقصدِ نُہ چرخ و ہفت اختر کھلا

وہ کہ جس کے ناخنِ تاویل سے
عقدۂ احکامِ پیغمبر کھلا

پہلے دارا کا نکل آیا ہے نام
اُن کے سَرہنگوں کا جب دفتر کھلا

روُشناسوں کی جہاں فہرست ہے
واں لکھا ہے چہرۂ قیصر کھلا

ق

توُسنِ شہ میں ہے وہ خوبی کہ جب
تھان سے وہ غیرتِ صرصر کھلا

نقشِ پا کی صورتیں وہ دل فریب
توُ کہے بت خانۂ آزر کھلا

مجھ پہ فیضِ تربیت سے شاہ کے
منصبِ مہر و مہ و محور کھلا

لاکھ عُقدے دل میں تھے، لیکن ہر ایک
میری حدِّ وُسع سے باہر کھلا

تھا دلِ وابستہ قُفلِ بے کلید
کس نے کھولا، کب کھلا، کیوں کر کھلا؟

باغِ معنی کی دکھاؤں [1] گا بہار
مجھ سے گر شاہِ سخن گستر کھلا

ہو جہاں گرمِ غزل خوانی نَفَس
لوگ جانیں طبلۂ عنبر کھلا

1. نسخۂ عرشی اور بعض دیگر مستند نسخوں میں "دکھا دوں گا” ہے مگر نسخۂ نظامی میں، نیز دیگر قدیم نسخوں” میں دکھاؤں گا” ہی ہے ۔ (حامد خ)

غزل

کُنج میں بیٹھا رہوں یوں پَر کھلا
کاشکے ہوتا قفس کا در کھلا

ہم پکاریں، اور کھلے، یوں کون جائے
یار کا دروازہ پاویں گر کھلا

ہم کو ہے اس راز داری پر گھمنڈ
دوست کا ہے راز دشمن پر کھلا

واقعی دل پر بھلا لگتا تھا داغ
زخم لیکن داغ سے بہتر کھلا

ہاتھ سے رکھ دی کب ابرو نے کماں
کب کمر سے غمزے کی خنجر کھلا

مُفت کا کس کو بُرا ہے بدرقَہ
رہروی میں پردۂ رہبر کھلا

سوزِ دل کا کیا کرے بارانِ اشک
آگ بھڑکی، مینہ اگر دم بھر کھلا

نامے کے ساتھ آ گیا پیغامِ مرگ
رہ گیا خط میری چھاتی پر کھلا

دیکھیو غالبؔ سے گر الجھا کوئی
ہے ولی پوشیدہ اور کافر کھلا

پھر ہوا مدحت طرازی کا خیال
پھر مہ و خورشید کا دفتر کھلا

خامے نے [1] پائی طبیعت سے مدد
بادباں بھی، اٹھتے ہی لنگر، کھلا

مدح سے، ممدوح کی دیکھی شکُوہ
یاں عَرَض سے رُتبۂ جوہر کھلا

مہر کانپا، چرخ چکّر کھا گیا
بادشہ کا رائتِ لشکر کھلا

بادشہ کا نام لیتا ہے خطیب
اب عُلوِّ پایۂ مِنبر کھلا

سِکۂ شہ کا ہوا ہے رو شناس
اب عِیارِ آبروئے زر کھلا

شاہ کے آگے دھرا ہے آئنہ
اب مآلِ سعیِ اِسکَندر کھلا

ملک کے وارث کو دیکھا خَلق نے
اب فریبِ طغرل و سنجر کھلا

ہو سکے کیا مدح، ہاں، اک نام ہے
دفترِ مدحِ جہاں داور کھلا

فکر اچھّی پر ستائش نا تمام
عجزِ اعجازِ ستائش گر کھلا

جانتا ہوں، ہے خطِ لوحِ ازل
تم پہ اے خاقانِ نام آور! کھلا

تم کرو صاحب قِرانی، جب تلک
ہے طلسمِ روز و شب کا در کھلا!

  1. نسخۂ مہر میں ” پائیں” (جویریہ مسعود) مزید: نسخۂ عرشی میں یہ مصرع یوں چھپا ہے: خامے سے پائی طبیعت نے مدد۔ دونوں طرح شعر تقریباً ہم معنی ہی رہتا ہے۔ متن نسخۂ نظامی کے مطابق ہے۔ نسخۂ مہر میں دوسرا مصرع یوں چھپا ہے: بادباں کے اٹھتے ہی لنگر کھلا
    یہ صریحاً سہوِ کتابت ہے۔ لنگر اٹھتا، بادبان کھلتا ہے۔ (حامد علی خان)

ایلین براؤن

ملاذِ کشور و لشکر، پناہِ شہر و سپاہ
جنابِ عالی ایلن برون والا جاہ

بلند رتبہ وہ حاکم وہ سرفراز امیر
کہ باج تاج سے لیتا ہے جس کا طرفِ کلاہ

وہ محض رحمت و رافت کہ بہرِ اہلِ جہاں
نیابتِ دمِ عیسیٰ کرے ہے جس کی نگاہ

وہ عین عدل کہ دہشت سے جس کی پرسش کی
بنے ہیں شعلۂ آتش انیسِ پَرّۂ کاہ

زمیں سے سودۂ گوہر اٹھے بجائے غبار
جہاں ہو توسنِ حشمت کا اس کے جولاں گاہ

وہ مہرباں ہو تو انجم کہیں ” الٰہی شکر”
وہ خشمگیں ہو تو گردوں کہے ” خدا کی پناہ”

یہ اس کے عدل سے اضداد کو ہے آمیزش
کہ دشت و کوہ کے اطراف میں بہ ہر سرِ راہ

ہِزَبر پنجے سے لیتا ہے کام شانے کا
کبھی جو ہوتی ہے الجھی ہوئی دُمِ رو باہ

نہ آفتاب، ولے آفتاب کا ہم چشم
نہ بادشاہ، ولے مرتبے ہیں ہمسرِ شاہ

خدا نے اس کو دیا ایک خوبرو فرزند
ستارہ جیسے چمکتا ہوا بہ پہلوئے ماہ

زہے ستارۂ روشن کہ جو اسے دیکھے
شعاعِ مہرِ درخشاں ہو اس کا تارِ نگاہ

خدا سے ہے یہ توقع کہ عہدِ طفلی میں
بنے گا شرق سے تا غرب اس کا بازی گاہ

جوان ہوکے کرے گا یہ وہ جہان بانی
کہ تابع اس کے ہوں روز و شب سپید و سیاہ

کہے گی خلق اسے داورِ سپہر شکُوہ
لکھیں گے لوگ اسے خسرو ستارہ سپاہ

عطا کرے گا خداوندِ کارساز اسے
روانِ روشن و خوئے خوش و دلِ آگاہ

ملے گی اس کو وہ عقلِ نہفتہ داں کہ اسے
پڑے نہ قطعِ خصومت میں احتیاجِ گواہ

یہ ترکتاز سے برہم کرے گا کشورِ روس
یہ لے گا بادشہِ چیں سے چھین، تخت و کلاہ

سنینِ عیسوی اٹھارہ سو اور اٹھاون
یہ چاہتے ہیں جہاں آفریں سے شام و پگاہ

یہ جتنے سیکڑے ہیں سب ہزار ہو جاویں
دراز اس کی ہو عمر اس قدر، سخن کوتاہ

امید وارِ عنایات "شیو نرائن”
کہ آپ کا ہے نمک خوار اور دولت خواہ

یہ چاہتا ہے کہ دنیا میں عزّ و جاہ کے ساتھ
تمہیں اور اس کو سلامت رکھے سدا اللہ۔


والیِ الور کی سالگرہ پر

گئی ہیں سال کے رشتے میں بیس بار گرہ
ابھی حساب میں باقی ہیں سو ہزار گرہ

گرہ کی ہے یہی گنتی کہ تا بہ روزِ شمار
ہوا کرے گی ہر اک سال، پیش کار گرہ

یقین جان! برس گانٹھ کا جو ہے تاگا
یہ کہکشاں ہے کہ ہیں اس میں بے شمار گرہ

گرہ سے اَور گرہ کی امید کیوں نہ پڑے
کہ ہر گرہ کی گرہ میں ہیں تین چار گرہ

دکھا کے رشتہ کسی جوتشی سے پوچھا تھا
کہ دیکھو کتنی اٹھا لائے گا یہ تار گرہ

کہا کہ چرخ پہ ہم نے گنی ہیں نو گرھیں
جو یاں گنیں گے تو پاویں گے نو ہزار گرہ

خود آسماں ہے مہا راجا راؤ پر صدقے
کرے گا سیکڑوں، اس تار پر نثار گرہ

وہ راؤ راجا بہادر کہ حکم سے جن کے
رواں ہو تار پہ فی الفور دانہ وار گرہ

انہیں کی سالگرہ کے لیے ہے سال بہ سال
کہ لائے غیب سے غنچوں کی نو بہار گرہ

انہیں کی سالگرہ کے لیے بناتا ہے
ہوا میں بوند کو ابرِ تگرگ بار گرہ

انہیں کی سالگرہ کی یہ شادمانی ہے
کہ ہو گئے ہیں گہر ہائے شاہوار گرہ

انہیں کی سالگرہ کے لیے ہے یہ توقیر
کہ بن گئے ہیں ثمر ہائے شاخسار گرہ

سن، اے ندیم! برس گانٹھ کے یہ تاگے نے
تجھے بتاؤں کہ کیوں کی ہے یہ اختیار گرہ

پئے دعائے بقائے جنابِ فیض مآب
لگے گی اس میں ثوابت کی استوار گرہ

ہزار دانہ کی تسبیح چاہتا ہے یہی
بلا مبالغہ درکار ہے ہزار گرہ

عطا کیا ہے خدا نے یہ جاذبہ اس کو
کہ چھوڑتا ہی نہیں رشتہ زینہار گرہ

کشادہ رخ نہ پھرے کیوں جب اس زمانے میں
بچے نہ از پے بندِ نقابِ یار گرہ

متاعِ عیش کا ہے قافلہ چلا آتا
کہ جادہ رشتہ ہے اور ہے شتر قطار گرہ

خدا نے دی ہے وہ غالبؔ کو، دستگاہِ سخن
کروڑ ڈھونڈ کے لاتا ہے خاکسار گرہ

کہاں مجالِ سخن؟ سانس لے نہیں سکتا
پڑی ہے دل میں مرے، غم کی پیچ دار گرہ

گرہ کا نام لیا پر نہ کر سکا کچھ بات
زباں تک آ کے، ہوئی اور استوار گرہ

کھلے یہ گانٹھ تو البتّہ دم نکل جاوے
بری طرح سے ہوئی ہے گلے کا ہار گرہ

اِدھر نہ ہو گی توجہ حضور کی جب تک
کبھی کسے سے کھلے گی نہ زینہار گرہ

دعا ہے یہ کہ مخالف کے دل میں از رہِ بغض
پڑی ہے یہ جو بہت سخت نابکار گرہ

دل اس کا پھوڑ کے نکلے بہ شکل پھوڑے کی
خدا کرے کہ کرے اس طرح اُبھار گرہ


میکلوڈ صاحب کی خدمت میں

کرتا ہے چرخ روز بصد گونہ احترام
فرماں روائے کشورِ پنجاب کو سلام

حق گو و حق پرست و حق اندیش و حق شناس
نوّاب مستطاب، امیرِ شہ احتشام

جم رتبہ میکلوڈ بہادر کہ وقتِ رزم
تُرکِ فلک کے ہاتھ سے وہ چھین لیں حُسام

جس بزم میں کہ ہو انہیں آئینِ میکشی
واں آسمان شیشہ بنے، آفتاب جام

چاہا تھا میں نے تم کو مہِ چار دہ کہوں
دل نے کہا کہ یہ بھی ہے تیرا خیالِ خام

دو رات میں تمام ہے ہنگامہ ماہ کا
حضرت کا عزّ و جاہ رہے گا علی الدّوام

سچ ہے تم آفتاب ہو، جس کے فروغ سے
دریائے نور ہے فلکِ آبگینہ فام

میری سنو، کہ آج تم اس سرزمیں پر
حق کے تفضّلات سے ہو مرجعِ انام

اخبارِ لدھیانہ میں، میری نظر پڑی
تحریر ایک، جس سے ہوا بندہ تلخ کام

ٹکڑے ہوا ہے دیکھ کے تحریر کو جگر
کاتب کی آستیں ہے مگر تیغِ بے نیام

وہ فرد جس میں نام ہے میرا غلط لکھا
جب یاد آ گئی ہے، کلیجا لیا ہے تھام

سب صورتیں بدل گئیں ناگاہ یک قلم
لمبر رہا نہ نذر، نہ خلعت کا انتظام

ستّر برس کی عمر میں یہ داغِ جاں گداز
جس نے جلا کے راکھ مجھے کر دیا تمام

تھی جنوری مہینے کی تاریخ تیرھویں
استادہ ہو گئے لبِ دریا پہ جب خیام

اس بزمِ پُر فروغ میں اس تیرہ بخت کو
لمبر ملا نشیب میں از روئے اہتمام

سمجھا اسے گراب، ہوا پاش پاش دل
دربار میں جو مجھ پہ چلی چشمکِ عوام

عزت پہ اہلِ نام کی ہستی کی ہے بنا
عزت جہاں گئی تو نہ ہستی رہے نہ نام

تھا ایک گونہ ناز جو اپنے کمال پر
اس ناز کا فلک نے لیا مجھ سے انتقام

آیا تھا وقت ریل کے کھلنے کا بھی قریب
تھا بارگاہِ خاص میں خلقت کا اژدہام

اس کشمکش میں آپ کا مدّاحِ دردمند
آقائے نامور سے نہ کچھ کر سکا کلام

جو واں نہ کہ سکا تھا وہ لکھا حضور کو
دیں آپ میری داد کہ ہوں فائز المرام

ملک و سپہ نہ ہو تو نہ ہو، کچھ ضرر نہیں
سلطانِ بّر و بحر کے در کا ہوں میں غلام

وکٹوریہ کا دہر میں جو مداح خوان ہو
شاہانِ مصر چاہیے لیں عزت اس سے وام

خود ہے تدارک اس کا گورنمنٹ کو ضرور
بے وجہ کیوں ذلیل ہو غالبؔ ہے جس کا نام

امرِ جدید کا تو نہیں ہے مجھے سوال
بارے قدیم قاعدے کا چاہیے قیام

ہے بندہ کو اعادۂ عزت کی آرزو
چاہیں اگر حضور تو مشکل نہیں یہ کام

دستورِ فنِّ شعر یہی ہے قدیم سے
یعنی دعا پہ مدح کا کرتے ہیں اختتام

ہے یہ دعا کہ زیرِ نگیں آپ کے رہے
اقلیمِ ہند و سند سے تا ملکِ روم و شام


نوّاب یوسف علی خاں

مرحبا سالِ فرّخی آئیں
عیدِ شوّال و ماہِ فروردیں

شب و روز افتخارِ لیل و نہار
مہ و سال اشرفِ شہور و سِنیں

گرچہ ہے بعد عید کے نوروز
لیک، بیش از سہ ہفتہ بعد نہیں

سُو اس اکّیس دن میں ہولی کی
جا بجا مجلسیں ہوئیں رنگیں

شہر میں کو بکو عبیر و گلال
باغ میں سو بہ سو گل و نسریں

شہر گویا نمونۂ گلزار
باغ گویا نگارخانۂ چیں

تین تہوار اور ایسے خوب
جمع ہرگز ہوئے نہ ہوں گے کہیں

پھر ہوئی ہے اسی مہینے میں
منعقد محفلِ نشاط قریں

محفلِ غسلِ صحّتِ نوّاب
رونق افزائے مسندِ تمکیں

بزم گہ میں، امیرِ شاہ نشاں
رزم گہ میں حریفِ شیرِ کمیں

جن کے مسند کا آسماں گوشہ
جن کی خاتم کا آفتاب نگیں

جن کے دیوارِ قصر کے نیچے
آسماں ہے گدائے سایہ نشیں

دہر میں اس طرح کی بزمِ سرور
نہ ہوئی ہو کبھی بہ روئے زمیں

انجمیں چرخ، گوہر آگیں فرش
نور، مے، ماہ، ساغرِ سیمیں

راجا اِندَر کا جو اکھاڑا ہے
ہے وہ بالائے سطحِ چرخِ بریں

وہ نظر گاہِ اہلِ وہم و خیال
یہ ضیا بخشِ چشمِ اہلِ یقیں

واں کہاں یہ عطا و بذل و کرم؟
کہ جہاں گریہ گر کا نام نہیں

ہاں زمیں پر نظر جہاں تک جائے
ژالہ آسا بچھے ہیں درِّ ثمیں

نغمۂ مطربانِ زہرہ نوا
جلوۂ لولیانِ ماہ جبیں

اس اکھاڑے میں جو کہ ہے مظنون
یاں وہ دیکھا بہ چشمِ صورت بیں

سرورِ مہر فر ہوا جو سوار
بہ کمالِ تجمل و تزئیں

سب نے جانا کہ ہے پری توسن
اور بالِ پری ہے دامنِ زیں

نقشِ سمِّ سمند سے، یکسر
بن گیا دشت دامنِ گلچیں

فوج کی گردِ راہ مشک فشاں
رہروؤں کے مشام عطر آگیں

بس کہ بخشی ہے فوج کو عزّت
فوج کا ہر پیادہ ہے فرزیں

موکبِ خاص یوں زمیں پر تھا
جس طرح ہے سپہر پر پرویں

چھوڑ دیتا تھا گور کو بہرام
ران پر داغ تازہ دے کے وہیں

اور داغ آپ کی غلامی کا
خاص بہرام کا ہے زیب سریں

بندہ پرور ثنا طرازی سے
مدّعا عرضِ فنِّ شعر نہیں

آپ کی مدح اور میرا منہ
گر کہوں بھی تو آئے کس کو یقیں

اور پھر اب کہ ضعفِ پیری سے
ہو گیا ہوں نزار و زار و حزیں

پیری و نیستی خدا کی پناہ
دستِ خالی و خاطرِ غمگیں

صرف اظہار ہے ارادت کا
ہے قلم کی جو سجدہ ریز جبیں

مدح گستر نہیں دعاگو ہے
غالبؔ عاجز نیاز آگیں

ہے دعا بھی یہی کہ دنیا میں
تم رہو زندہ جاوداں، آمیں


مدح نصرت الملک بہادر

نُصرت الملک بہادُر مجھے بتلا کہ مجھے
تجھ سے جو اتنی اِرادت ہے تو کس بات سے ہے؟

گرچہ تُو وہ ہے کہ ہنگامہ اگر گرم کرے
رونقِ بزم مہ و مہر تری ذات سے ہے

اور میں وہ ہوں کہ، گر جی میں کبھی غور کروں
غیر کیا، خود مجھے نفرت میری اوقات سے ہے

خستگی کا ہو بھلا، جس کے سبب سے سرِ دست
نسبت اِک گونہ مرے دل کو ترے ہات سے ہے

ہاتھ میں تیرے رہے توسنِ دَولت کی عِناں
یہ دُعا شام و سحر قاضیِ حاجات سے ہے

تُو سکندر ہے، مِرا فخر ہے ملنا تیرا
گو شرف خضر کی بھی مجھ کو ملاقات سے ہے

اِس پہ گُزرے نہ گماں رِیو و رِیا کا زِنہار
غالبؔ خاک نشیں اہلِ خرابات سے ہے


در مدحِ شاہ

اے شاہِ جہاں گیر جہاں بخشِ جہاں دار
ہے غیب سے ہر دم تجھے صد گُونہ بشارت

جو عُقدۂ دُشوار کہ کوشش سے نہ وا ہوا
تو وَا کرے اُس عُقدے کو، سو بھی بہ اشارت

ممکن ہے، کرے خضر سکندر سے ترا ذ کر
گر لب کو نہ دے چشمۂ حیواں سے طہارت

آصف کو سُلیماں کی وزارت سے شرف تھا
ہے فخرِ سُلیماں، جو کرے تیری وزارت

ہے نقشِ مُریدی ترا، فرمانِ الٰہی
ہے داغِ غُلامی تِرا، توقیعِ امارت

تُو آب سے گر سلب کرے طاقتِ سیلاں
تو آگ سے گر دفع کرے تابِ شرارت

ڈُھونڈے نہ مِلے موجۂ دریا میں روانی
باقی نہ رہے آتشِ سوزاں میں حرارت

ہے گر چہ مجھے نُکتہ سرائی میں توغُل
ہے گر چہ مجھے سحر طرازی میں مہارت

کیوں کر نہ کروں مدح کو میں ختم دُعا پر
قاصر ہے ستائش [1] میں تِری، میری عبارت

نَو روز ہے آج اور وہ دن ہے کہ ہوئے ہیں
نظارگیِ صنعتِ حق اہلِ بصارت

تجھ کو شرفِ مہرِ جہانتاب مُبارک!
غالبؔ کو ترے عتبۂ عالی کی زیارت!

  1. نسخۂ نظامی میں :ستائش” جی جگہ "شکایت” چھپا ہے، ستائش ہی بہ ظاہر درست ہے۔ (حامد علی خان)

گزارش مصنّف بحضورِ شاہ

اَے شَہنشاہِ آسماں اَورنگ
اَے جہاندارِ آفتاب آثار

تھا میں اِک بے نَوَائے گوشہ نشیں
تھا میں اِک درد مندِ سینہ فگار

تُم نے مجھ کو جو آبرُو بخشی
ہوئی میری وہ گرمیِ بازار

کہ ہوا مجھ سا ذرۂ ناچیز
رُوشناسِ ثوابت و سیّار

گر چہ از رُوئے ننگ و بے ہُنری
ہوں خود اپنی نظر میں اتنا خوار

کہ گر اپنے کو میں کہوں خاکی
جانتا ہوں کہ آئے خاک کو عار

شاد ہوں لیکن اپنے جی میں، کہ ہوں
بادشہ کا غلامِ کار گزار

خانہ زاد اور مُرید اور مداح
تھا ہمیشہ سے یہ عریضہ نگار

بارے نوکر بھی ہو گیا صد شُکر
نسبتیں ہو گئیں مُشخّص چار

نہ کہُوں آپ سے تو کس سے کہوں
مُدعائے ضروری الاظہار

پِیر و مُرشد! اگرچہ مجھ کو نہیں
ذوقِ آرائشِ سر و دستار

کچھ تو جاڑے میں چاہیے آخر
تا نہ دے بادِ زَمہریر آزار

کیوں نہ درکار ہو مجھے پوشش
جسم رکھتا ہوں، ہے اگرچہ نَزار

کچھ خریدا نہیں ہے اب کے سال
کچھ بنایا نہیں ہے اب کی بار

رات کو آگ اور دن کو دُھوپ!
بھاڑ میں جائیں ایسے لَیل و نہار!

آگ تاپے کہاں تلک اِنسان
دُھوپ کھاوے [1] کہاں تلک جاندار

دُھوپ کی تابِش، آگ کی گرمی!
وَقِنَا رَبَّنَا عَذَابَ النَّار!

میری تنخواہ جو مقرر ہے
اُس کے ملنے کا ہے عجب ہنجار

رسم ہے مُردے کی چھ ماہی ایک
خلق کا ہے اِسی چلن پہ مدار

مجھ کو دیکھو تو، [2] ہُوں بہ قیدِ حیات
اور چھ ماہی ہو سال میں دوبار!

بس کہ لیتا ہوں ہر مہینے قرض
اور رہتی ہے سُود کی تکرار

میری تنخواہ میں تہائی کا
ہو گیا ہے شریک ساہُو کار

آج مجھ سا نہیں زمانے میں
شاعرِ نغز گوئے خوش گُفتار

رزم کی داستان گر سنیے
ہے زباں میری تیغِ جوہر دار

بزم کا التزام گر کیجے
ہے قلم میری [3] ابرِ گوہر بار

ظُلم ہے گر نہ دو سُخن کی داد
قہر ہے گر کرو نہ مجھ کو پیار

آپ کا بندہ، اور پِھروں ننگا؟
آپ کا نوکر، اور کھاؤں اُدھار؟

میری تنخواہ کیجے ماہ بہ ماہ
تا، نہ ہو مجھ کو زندگی دُشوار

ختم کرتا ہُوں اب دُعا پہ کلام:
(شاعری سے نہیں مجھے سروکار)

تُم سلامت رہو ہزار برس
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار

  1. نسخۂ مہر میں "کھائے”(جویریہ مسعود)
  2. بعض قدیم و جدید نسخوں میں "تو” کی جگہ "کہ” چھپا ہے۔ متن نسخۂ نظامی کے مطابق ہے۔ (حامد علی خان)
  3. غالب نے قلم مذکر و مونث دونوں طرح لکھا ہے۔ (حامد علی خان

مثنوی

در صفتِ انبہ

ہاں، دلِ درد مندِ زمزمہ ساز
کیوں نہ کھولے درِ خزینۂ راز

خامے کا صفحے پر رواں ہونا
شاخِ گل کا ہے گلفشاں ہونا

مجھ سے کیا پوچھتا ہے کیا لکھیے؟
نکتہ ہائے خرد فزا لکھیے!

بارے، آموں کا کچھ بیاں ہو جائے
خامہ نخلِ رطب فشاں ہو جائے

آم کا کون مردِ میدان ہے
ثمر و شاخ گوئے و چوگاں ہے

تاک کے جی میں کیوں رہے ارماں
آئے، یہ گوئے اور یہ میداں

آم کے آگے پیش جاوے [1] خاک
پھوڑتا ہے جلے پھپھولے تاک

نہ چلا جب کسی طرح مقدور
بادۂ ناب بن گیا انگور

یہ بھی ناچار جی کا کھونا ہے
شرم سے پانی پانی ہونا ہے

مجھ سے پوچھو، تمہیں خبر کیا ہے!
آم کے آگے نیشکر کیا ہے!

نہ گل اس میں نہ شاخ و برگ، نہ بار [2]
جب خزاں آئے تب ہو اس کی بہار [3]

اور دوڑائیے قیاس کہاں
جانِ شیریں میں یہ مٹھاس کہاں

جان میں ہوتی گر یہ شیرینی
کوہکن باوجودِ غمگینی

جان دینے میں اس کو یکتا جان
پَر وہ یوں سہل دے نہ سکتا جان

نظر آتا ہے یوں مجھے یہ ثمر
کہ دوا خانۂ ازل میں، مگر

آتشِ گل پہ قند کا ہے قوام
شیرے کے تار کا ہے ریشہ نام

یا یہ ہو گا، کہ فرط رافت سے
باغبانوں نے باغِ جنت سے

انگبیں کے، بہ حکم رب الناس
بھر کے بھیجے ہیں سربمہر گلاس

یا لگا کر خضر نے شاخِ نبات
مدتوں تک دیا ہے آبِ حیات

تب ہوا ہے ثمر فشاں یہ نخل
ہم کہاں ورنہ اور کہاں یہ نخل

تھا ترنجِ زر ایک خسرو پاس
رنگ کا زرد پر کہاں بو باس

آم کو دیکھتا اگر اک بار
پھینک دیتا طلائے دست افشار

رونقِ کارگاہِ برگ و نوا
نازشِ دودمانِ آب و ہوا

رہروِ راہِ خلد کا توشہ
طوبیٰ و سِدرہ کا جگر گوشہ

صاحبِ شاخ و برگ [4] و بار ہے آم
ناز پروردۂ بہار ہے آم

خاص وہ آم جو نہ ارزاں ہو
نو برِ نخلِ باغِ سلطاں ہو

وہ کہ ہے والیِ ولایتِ عہد
عدل سے اس کے ہے حمایتِ عہد

فخرِ دیں عزِ شان و جاہِ جلال [5]
زینتِ طینت و جمالِ کمال

کار فرمائے دین و دولت و بخت
چہرہ آرائے تاج و مسند و تخت

سایہ اُس کا ہما کا سایہ ہے
خلق پر وہ خدا کا سایہ ہے

اے مفیضِ وجودِ سایہ و نور!
جب تلک ہے نمودِ سایہ و نور

اِس خداوندِ بندہ پرور کو
وارثِ گنج و تخت و افسر کو

شاد و دلشاد و شادماں رکھیو
اور غالبؔ پہ مہرباں رکھیو!

  1. نسخۂ مہر میں "جائے” (جویریہ مسعود)
  2. نسخۂ آسی میں "نہ شاخ و برگ و بار (جویریہ مسعود)
  3. جب خزاں ہو تب آئے اس کی بہار (نسخۂ مہر)
  4. نسخۂ مہر میں ” شاخِ برگ و بار” (جویریہ مسعود)
  5. نسخۂ مہر میں "عز جاہ و شانِ جلال” چھپا ہے۔ اس سے کوئی خاص معنوی فرق پیدا نہیں ہوتا۔ (حامد علی خان)

ایک دن مثلِ پتنگِ کاغذی

ایک دن مثلِ پتنگِ کاغذی
لے کے دل سر رشتۂ آزادگی

خود بخود کچھ ہم سے کَنیانے لگا
اس قدر بگڑا کہ سر کھانے لگا

میں کہا، اے دل، ہوائے دلبراں!
بس کہ تیرے حق میں رکھتی ہے زیاں

بیچ میں ان کے نہ آنا زینہار
یہ نہیں ہیں گے کِسے کے یارِ غار

گورے پنڈے پر نہ کر ان کے نظر
کھینچ لیتے ہیں یہ ڈورے ڈال کر

اب تو مِل جائے گی ان سے تیری گانٹھ
لیکن آخر کو پڑے گی ایسی سانٹھ [1]

سخت مشکل ہو گا سلجھانا تجھے
قہر ہے، دل ان میں الجھانا تجھے

یہ جو محفل میں بڑھاتے ہیں تجھے
بھول مت اس پر اُڑاتے ہیں تجھے

ایک دن تجھ کو لڑا دیں گے کہیں
مفت میں ناحق کٹا دیں گے کہیں

دل نے سن کر۔ کانپ کر، کھا پیچ و تاب
غوطے میں جا کر، دیا کٹ کر جواب

رشتۂ در گردنم افگندہ دوست
می بُرد ہر جا کہ خاطر خواہِ اوست

  1. نسخۂ مہر میں یہ شعر اس طرح درج ہے:
    اب تو مِل جائے گی ان سے تیری سانٹھ
    لیکن آخر کو پڑے گی ایسی گانٹھ
    (جویریہ مسعود)

خمسہ

تضمین بر غزل بہادر شاہ ظفر

گھستے گھستے پاؤں کی زنجیر آدھی رہ گئی
مر گئے پر قبر کی تعمیر آدھی رہ گئی
سب ہی پڑھتا کاش، کیوں تکبیر آدھی رہ گئی
"کھنچ کے، قاتل! جب تری شمشیر آدھی رہ گئی
غم سے جانِ عاشقِ دل گیر آدھی رہ گئی”

بیٹھ رہتا لے کے چشمِ پُر نم اس کے روبروُ
کیوں کہا تو نے کہ کہہ دل کا غم اس کے روبرو
بات کرنے میں نکلتا ہے دم اس کے روبرو
"کہہ سکے ساری حقیقت کب ہم اس کے روبرو
ہم نشیں! آدھی ہوئی تقریر، آدھی رہ گئی”

تو نے دیکھا! مجھ پہ کیسی بن گئی، اے رازدار!
خواب و بیداری پہ کب ہے آدمی کو اختیار
مثلِ زخم آنکھوں کو سی دیتا، جو ہوتا ہوشیار
"کھینچتا تھا رات کو میں خواب میں تصویرِ یار
جاگ اٹھا جو، کھینچنی تصویر آدھی رہ گئی”

غم نے جب گھیرا، تو چاہا ہم نے یوں، اے دل نواز!
مستیِ چشمِ سیہ سے چل کے ہوویں چارہ ساز
توُ صدائے پا سے جاگا تھا، جو محوِ خوابِ ناز
"دیکھتے ہی اے ستم گر! تیری چشمِ نیم باز
کی تھی پوری ہم نے جو تدبیر، آدھی رہ گئی”

اس بتِ مغرور کو کیا ہو کسی پر التفات
جس کے حسنِ روز افزوں کی یہ اک ادنیٰ ہے بات
ماہِ نو نکلے پہ گزری ہوں گی راتیں پان سات
"اس رُخِ روشن کے آگے ماہِ یک ہفتہ کی رات
تابشِ خورشیدِ پُر تنویر آدھی رہ گئی”

تا مجھے پہنچائے کاہش، بختِ بد ہے گھات میں
ہاں فراوانی! اگر کچھ ہے، تو ہے آفات میں
جُز غمِ داغ و الم، گھاٹا ہے ہر اک بات میں
"کم نصیبی اس کو کہتے ہیں کہ میرے ہات میں
آتے ہی خاصیّتِ اکسیر آدھی رہ گئی”

سب سے یہ گوشہ کنارے ہے، گلے لگ جا مرے
آدمی کو کیا پکارے ہے، گلے لگ جا مرے
سر سے گر چادر اتارے ہے، گلے لگ جا مرے
"مانگ کیا بیٹھا سنوارے ہے، گلے لگ جا مرے
وصل کی شب، اے بتِ بے پیر آدھی رہ گئی”

میں یہ کیا جانوں کہ وہ کس واسطے ہوں پھِر گئے
پھر نصیب اپنا، انھیں جاتے سنا، جوں پھر گئے
دیکھنا قسمت وہ آئے، اور پھر یوں پھِر گئے
"آ کے آدھی دور، میرے گھر سے وہ کیوں پھِر گئے
کیا کشش میں دل کی ان تاثیر آدھی رہ گئی”

ناگہاں یاد آ گئی ہے مجھ کو، یا رب! کب کی بات
کچھ نہیں کہتا کسی سے، سن رہا ہوں سب کی بات
کس لیے تجھ سے چھپاؤں، ہاں! وہ پرسوں شب کی بات
"نامہ بر جلدی میں تیری وہ جو تھی مطلب کی بات
خط میں آدھی ہو سکی، تحریر آدھی رہ گئی”

ہو تجلّی برق کی صورت میں، ہے یہ بھی غضب
پانچ چھ گھنٹے تو ہوتی فرصتِ عیش و طرب
شام سے آتے تو کیا اچھی گزرتی رات سب
"پاس میرے وہ جو آئے بھی، تو بعد از نصف شب
نکلی آدھی حسرت، اے تقدیر! آدھی رہ گئی”

تم جو فرماتے ہو، دیکھ اے غالبؔ آشفتہ سر
ہم نہ تجھ کو منع کرتے تھے، گیا کیوں اُس کے گھر؟
جان کی پاؤں اماں، باتیں یہ سب سچ ہیں مگر
"دل نے کی ساری خرابی، لے گیا مجھ کو ظفر
واں کے جانے میں مری توقیر آدھی رہ گئی”


مرثیہ

ہاں! اے نفسِ بادِ سحر شعلہ فشاں ہو
اے دجلۂ خوں! چشمِ ملائک سے رواں ہو
اے زمزمۂ قُم! لبِ عیسیٰ پہ فغاں ہو
اے ماتمیانِ شہِ مظلوم! کہاں ہو

بگڑی ہے بہت بات، بنائے نہیں بنتی
اب گھر کو بغیر آگ لگائے نہیں بنتی

تابِ سخن و طاقتِ غوغا نہیں ہم کو
ماتم میں شہِ دیں کے ہیں، سودا نہیں ہم کو
گھر پھونکنے میں اپنے، مُحابا نہیں ہم کو
گر چرخ بھی جل جائے تو پروا نہیں ہم کو

یہ خرگۂ نُہ پایا جو مدّت سے بَپا [1] ہے
کیا خیمۂ شبّیر سے رتبے میں سِوا ہے؟

کچھ اور ہی عالم نظر آتا ہے جہاں کا
کچھ اور ہی نقشہ ہے دل و چشم و زباں کا
کیسا فلک! اور مہرِ جہاں تاب کہاں کا!
ہو گا دلِ بےتاب کسی سوختہ جاں کا

اب صاعقہ و مہر میں کچھ فرق نہیں ہے [2]
گِرتا نہیں اس روُ سے کہو برق نہیں ہے

  1. نسخۂ مہر میں ” بہ جا”(جویریہ مسعود)
  2. نسخۂ مہر میں یہ مصرع اس طرح درج ہے:
    اب مہر میں اور برق میں کچھ فرق نہیں ہے
    (جویریہ مسعود)

سلام

سلام اسے کہ اگر بادشہ کہیں اُس کو
تو پھر کہیں کچھ اِس سے سوا کہیں اُس کو

نہ بادشاہ نہ سلطاں یہ کیا ستائش ہے
کہو کہ خامسِ آلِ عبا کہیں اُس کو

خدا کی راہ میں ہے شاہی و خسروی کیسی؟
کہو کہ رہبرِ راہِ خدا کہیں اُس کو

خدا کا بندہ، خداوند گار بندوں کا
اگر کہیں نہ خداوند، کیا کہیں اُس کو؟

فروغِ جوہرِ ایماں، حسین ابنِ علی
کہ شمعِ انجمنِ کبریا کہیں اُس کو

کفیلِ بخششِ اُمّت ہے، بن نہیں پڑتی
اگر نہ شافعِ روزِ جزا کہیں اُس کو

مسیح جس سے کرے اخذِ فیضِ جاں بخشی
ستم ہے کُشتۂ تیغِ جفا کہیں اُس کو

وہ جس کے ماتمیوں پر ہے سلسبیل سبیل
شہیدِ تشنہ لبِ کربلا کہیں اُس کو

عدو کی سمعِ رضا میں جگہ نہ پائے وہ بات
کہ جنّ و انس و ملَک سب بجا کہیں اُس کو

بہت ہے پایۂ گردِ رہِ حسین بلند
بقدرِ فہم ہے گر کیمیا کہیں اُس کو

نظارہ سوز ہے یاں تک ہر ایک ذرّۂ خاک
کہ لوگ جوہرِ [1] تیغِ قضا کہیں اُس کو

ہمارے درد کی یا رب کہیں دوا نہ ملے
اگر نہ درد کی اپنے دوا کہیں اُس کو

ہمارا منہ ہے کہ دیں اس کے حسنِ صبر کی داد
مگر نبی و علی مرحبا کہیں اُس کو

زمامِ ناقہ کف اُس کے میں ہے کہ اہلِ یقیں
پس از حسینِ علی پیشوا کہیں اُس کو

وہ ریگِ لقمۂ [2] وادی میں خامہ فرسا ہے
کہ طالبانِ خدا رہنما کہیں اُس کو

امامِ وقت کی یہ قدر ہے کہ اہلِ عناد
پیادہ لے چلیں اور ناسزا کہیں اُس کو

یہ اجتہاد عجب ہے کہ ایک دشمنِ دیں
علی سے آگے لڑے اور خطا کہیں اُس کو

یزید کو تو نہ تھا اجتہاد کا پایہ
بُرا نہ مانیے گر ہم بُرا کہیں اُس کو

علی کے بعد حسن، اور حسن کے بعد حسین
کرے جو ان سے بُرائی، بھلا کہیں اُس کو؟

نبی کا ہو نہ جسے اعتقاد، کافر ہے
رکھے امام سے جو بغض، کیا کہیں اُس کو؟

بھرا ہے غالبؔ دِل خستہ کے کلام میں درد
غلط نہیں ہے کہ خونیں نوا کہیں اُس کو

  1. نسخۂ مہر میں ” کہ ایک جوہر” (جویریہ مسعود)
  2. نسخۂ مہر میں "تفتہ” (جویریہ مسعود)

سہرے

خوش ہو اَے بخت کہ ہے آج تِرے سر سہرا

[1] خوش ہو اَے بخت کہ ہے آج تِرے سر سہرا
باندھ شہزادہ [2] جواں بخت کے سر پر سہرا

کیا ہی اِس چاند سے مُکھڑے پہ بھلا لگتا ہے!
ہے تِرے حُسنِ دل افروز کا زیور سہرا

سر پہ چڑھنا تجھے پھبتا ہے پر اے طرفِ کُلاہ
مجھ کو ڈر ہے کہ نہ چھینے تِرا لمبر سہرا

ناؤ بھر کر ہی پروئے گئے ہوں گے موتی
ورنہ کیوں لائے ہیں کشتی میں لگا کر سہرا

سات دریا کے فراہم کیے ہوں گے موتی
تب بنا ہو گا اِس انداز کا گز بھر سِہرا

رُخ پہ دُولھا کے جو گرمی سے پسینا ٹپکا
ہے رگِ ابرِ گُہر بار سَراسَر سِہرا

یہ بھی اِک بے ادبی تھی کہ قبا سے بڑھ جائے
رہ گیا آن کے دامن کے برابر سِہرا

جی میں اِترائیں نہ موتی کہ ہمیں ہیں اِک چیز
چاہیے پُھولوں کا بھی ایک مقرّر [3] سہرا

جب کہ اپنے میں سماویں نہ خوشی کے مارے
گوندھے پُھولوں کا بھلا پھر کوئی کیونکر سِہرا

رُخ روشن کی دَمک، گوہرِ غلتاں [4] کی چمک
کیوں نہ دکھلائے فرُوغِ مہ و اختر سہرا

تار ریشم کا نہیں، ہے یہ رَگِ ابرِ بہار
لائے گا تابِ گرانباریِ گوہر سِہرا!

ہم سُخن فہم ہیں، غالبؔ کے طرفدار نہیں
دیکھیں، اس سہرے سے کہہ دے کوئی بڑھ کر سہرا! [5]

  1. غالب نے یہ سہرا اپنے دیوان میں شامل نہیں کیا تھا۔ (حامد علی خان)
  2. نسخۂ مہر میں ” شہزادے” (ج۔م۔)
  3. نسخۂ حسرت میں "مکرر” چھپا ہے لیکن کسی اور نسخے میں اس کی سند نہیں ملی۔ (حامد علی خان)
  4. اس کی ایک املا "غلطاں” بھی ہے (ج۔م۔)
  5. نسخۂ مہر میں یہ مصرع اس طرح درج ہے:
    دیکھیں، کہہ دے کوئی اس سہرے سے بڑھ کر سہرا!
    (ج۔م)
    مزید: محمد حسین آزاد کی آبِ حیات میں "بڑھ کر” کی جگہ بہتر” چھپا ہے مگر مروجہ نسخوں میں اختلاف ہے۔ معلوم نہیں کہ غالب نے کیا کہا تھا۔ (حامد علی خان)

ہم نشیں تارے ہیں، اور چاند شہاب الدیں خاں

ق
ہم نشیں تارے ہیں، اور چاند شہاب الدیں خاں
بزمِ شادی ہے فلک، کاہکشاں ہے سہرا

ان کو لڑیاں نہ کہو، بحر کی موجیں سمجھو
ہے تو کشتی میں، ولے بحرِ رواں ہے سہرا


چرخ تک دھوم ہے، کس دھوم سے آیا سہرا

چرخ تک دھوم ہے، کس دھوم سے آیا سہرا
چاند کا دائرہ لے، زہرہ نے گایا سہرا

رشک سے لڑتی ہیں آپس میں اُلجھ کر لڑیاں
باندھنے کے لیے جب سر پہ اُٹھایا سہرا


بیانِ مصنّف (گزارشِ غالبؔ)

منظُور ہے گُزارشِ احوالِ واقعی
اپنا بیانِ حُسنِ طبیعت نہیں مجھے

سَو پُشت سے ہے پیشۂ آبا سپہ گری
کچھ شاعری ذریعۂ عزت نہیں مجھے

آزادہ رَو ہوں اور مِرا مسلک ہے صلحِ کُل
ہر گز کبھی کسی سے عداوت نہیں مجھے

کیا کم ہے یہ شرف کہ ظفر کا غلام ہوں
مانا کہ جاہ و منصب و ثروت نہیں مجھے

اُستادِ شہ سے ہو مجھے پَرخاش کا خیال؟
یہ تاب، یہ مجال، یہ طاقت نہیں مجھے

جامِ جہاں نُما ہے شہنشاہ کا ضمیر
سَوگند اور گواہ کی حاجت نہیں مجھے

میں کون، اور ریختہ، ہاں اِس سے مدعا
جُز انبساطِ خاطرِ حضرت نہیں مجھے

سِہرا لکھا گیا ز رہِ امتثالِ اَمر
دیکھا کہ چارہ غیر اطاعت نہیں مجھے

مقطع میں آ پڑی ہے [1] سُخن گُسترانہ بات
مقصود اس سے قطعِ محبت نہیں مجھے

رُوئے سُخن کسی کی طرف ہو تو رُوسیاہ
سودا نہیں، جُنوں نہیں، وحشت نہیں مجھے

قسمت بُری سہی پَہ طبیعت بُری نہیں
ہے شُکر کی جگہ کہ شکایت نہیں مجھے

صادق ہوں اپنے قول میں [2] غالبؔ، خدا گواہ
کہتا ہوں سچ کہ جُھوٹ کی عادت نہیں مجھے

  1. نسخۂ مہر میں ” تھی” (جویریہ مسعود)
  2. آزاد کے آبِ حیات میں "قول کا” چھپا ہے، نسخۂ نظامی میں "قول میں” (حامد علی خان)

قطعات

گزارشِ غالبؔ

اے شہنشاہِ فلک منظرِ بے مثل و نظیر
اے جہاندارِ کرم شیوۂ بے شبہ و عدیل

پاؤں سے تیرے مَلے فرقِ ارادتِ ا ورنگ
فرق سے تیرے کرے کسبِ سعادتِ اِکلیل

تیرا اندازِ سُخَن شانۂ زُلفِ اِلہام
تیری رفتارِ قلم جُنبشِ بالِ جبریل

تجھ سے عالم پہ کُھلا رابطۂ قُربِ کلیم
تُجھ سے دنیا میں بِچھا مائدۂ بَذلِ خلیل

بہ سُخَن ا وجِ دہِ مرتبۂ معنی و لفظ
بہ کرم داغِ نِہِ ناصیۂ قُلزُم و نِیل

تا، ترے وقت میں ہو عَیش و طرب کی توفیر [1]
تا، ترے عہد میں ہو رنج و اَلَم کی تقلیل

ماہ نے چھوڑ دیا ثَور سے جانا باہر
زُہرہ نے ترک کیا حُوت سے کرنا تحویل

تیری دانش، مری اصلاحِ مَفاسدؔ کی رَہین
تیری بخشش، مِرے اِنجاحِ مقاصد کی کفیل

تیرا اقبالِ تَرَحُّم مِرے جینے کی نَوِید
تیرا اندازِ تَغافُل مِرے مرنے کی دلیل

بختِ ناساز نے چاہا کہ نہ دے مُجھ کو اماں
چرخِ کج باز نے چاہا کہ کرے مُجھ کو ذلیل

پیچھے ڈالی ہے سرِ رشتۂ اوقات میں گانٹھ
پہلے ٹھونکی ہے بُنِ ناخُنِ تدبیر میں کیل

تَپِشِ دل نہیں بے رابطۂ خَوفِ عظیم
کششِ دم نہیں بے ضابطۂ جَرِّ ثقیل

دُرِ معنی سے مِرا صفحہ، لقا کی ڈاڑھی
غَمِ گیتی سے مِرا سینہ امَر [2] کی زنبیل

فکر میری گُہر اندوزِ اشاراتِ کثیر
کِلک میری رقَم آموزِ عباراتِ قلیل

میرے ابہام پہ ہوتی ہے تصدُق توضیح
میرے اجمال سے کرتی ہے تراوش تفصیل

نیک ہوتی مِری حالت تو نہ دیتا تکلیف
جمع ہوتی مِری خاطر تو نہ کرتا تعجیل

قبلۂ کون و مکاں، خستہ نوازی میں یہ دیر؟
کعبۂ امن و اماں، عُقدہ کُشائی میں یہ ڈھیل؟

  1. نسخۂ نظامی، سہوِ کتابت: توقیر۔ (حامد علی خان)
  2. غالبؔ نے اسے جان بوجھ کر الف سے لکھا ہے حالاں کہ زنبیل سے مراد عَمر عیّار (جسے عَمرو عیّار بھی کہتے ہیں)کی زنبیل ہی ہے۔ مبادا یہ دانستہ اس لئے الف سے لکھا ہے کہ کسی کا دھیان حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف نہ جائے۔ (اعجاز عبید)
    مزید: غالب نے یہاں "امر” ہی لکھا ہے، یعنی متحرک میم کے ساتھ۔ جن حضرات کا یہ خیال ہے کہ یہاں "عمرو” ہی لکھنا مناسب ہے، انہیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ "عمرو” میں میم ساکن ہے۔ (حامد علی خان)

گئے وہ دن کہ نا دانستہ غیروں کی وفا داری

گئے وہ دن کہ نا دانستہ غیروں کی وفا داری
کیا کرتے تھے تم تقریر، ہم خاموش رہتے تھے

بس اب بگڑے پہ کیا شرمندگی، جانے دو، مل جاؤ
قَسم لو ہم سے گر یہ بھی کہیں کیوں ہم نہ کہتے تھے


ہائے ہائے

کلکتہ کا جو ذکر کیا تُو نے ہم نشیں!
اِک تِیر میرے سینے میں مارا کہ ہائے ہائے

وہ سبزہ زار ہائے مُطرّا کہ، ہے غضب!
وُہ نازنیں بُتانِ خود آرا کہ ہائے ہائے!

صبر آزما وہ اُن کی نگاہیں کہ حف نظر!
طاقت رُبا وہ اُن کا اشارا کہ ہائے ہائے!

وہ میوہ ہائے تازۂ شیریں کہ، واہ واہ
وہ بادہ ہائے نابِ گوارا کہ ہائے ہائے!


در مدح ڈلی

[1]

ہے جو صاحب کے کفِ دست پہ یہ چکنی ڈلی
زیب دیتا ہے اسے جس قدر اچھّا کہیے

خامہ انگشت بہ دنداں کہ اسے کیا لکھیے
ناطقہ سر بہ گریباں کہ اسے کیا کہیے

مُہرِ مکتوبِ عزیزانِ گرامی لکھیے
حرزِ بازوئے شگرفانِ خود آرا کہیے

مِسی آلود سر انگشتِ حسیناں لکھیے
داغِ طرفِ جگرِ عاشقِ شیدا کہیے

خاتمِ دستِ سلیماں کے مشابہ لکھیے
سرِ پستانِ پریزاد سے مانا کہیے

اخترِ سوختۂ قیس سے نسبت دیجے
خالِ مشکینِ رُخِ دل کشِ لیلیٰ کہیے

حجر الاسود دیوارِ حرم کیجے فرض
نافہ آہوئے بیابانِ خُتن کا کہیے

وضع میں اس کو اگر سمجھیے قافِ تریاق [2]
رنگ میں سبزۂ نو خیزِ مسیحا کہیے

صَومعے میں اسے ٹھہرائیے گر مُہرِ نماز
مے کدے میں اسے خشتِ خُمِ صہبا کہیے

کیوں اسے قُفلِ درِ گنجِ محبّت لکھیے
کیوں اسے نقطۂ پَرکارِ تمنّا کہیے

کیوں اسے گوہرِ نایاب تصوّر کیجے
کیوں اسے مردُمکِ دیدۂ عَنقا کہیے

کیوں اسے تکمۂ پیراہنِ لیلیٰ لکھیے
کیوں اسے نقشِ پئے ناقۂ سلمیٰ کہیے

بندہ پرور کے کفِ دست کو دل کیجے فرض
اور اِس چِکنی سُپاری کو سُویدا کہیے

  1. نسخۂ مہر میں عنوان ” چکنی ڈلی” (ج۔م۔)
  2. نسخۂ مہر میں یہ مصرع یوں درج ہے:
    وضع میں اس کو سمجھ لیجیے قافِ تریاق (جویریہ مسعود) مزید: غالب نے "سمجھیے” میں میم کو متحرک اور ساکن دونوں طرح استعمال کیا ہے۔ اب اس لفظ میں سکون جائز نہیں۔ نسخۂ مہر میں "اگر سمجھیے” کی جگہ "سمجھ لیجیے” چھپا ہے لیکن اور کسی دستیاب نسخے میں یہ شعر یوں نہیں ملا۔ (حامد علی خان)

بیسنی روٹی

نہ پُوچھ اِس کی حقیقت، حُضُورِ والا نے
مجھے جو بھیجی ہے بیسن کی رَوغَنی روٹی

نہ کھاتے گیہوں، نکلتے نہ خُلد سے باہر
جو کھاتے حضرتِ آدم یہ بیسَنی روٹی


چہار شنبہ آخرِ ماہِ صفر

ہے چار شنبہ آخرِ ماہِ صَفَر چلو
رکھ دیں چمن میں بھر کے مئے مُشک بُو کی ناند

جو آئے، جام بھر کے پیے، اور ہو کے مست
سبزے کو رَوندتا پھرے، پُھولوں کو جائے پھاند

غالبؔ یہ کیا بیاں ہے، بجُز مدحِ پادشاہ [1]
بھاتی نہیں ہے اب مجھے کوئی نوشتِ [2] خواند

بَٹتے ہیں سونے رُوپے کے چھلے حُضُور میں
ہے جن کے آگے سیم و زر و مہر و ماہ ماند

یوں سمجھیے کہ بیچ سے خالی کیے ہوئے
لاکھوں ہی آفتاب ہیں اور بے شمار چاند

  1. نسخۂ مہر میں "بادشاہ” (ج۔م)
  2. نسخۂ حمیدیہ اور نسخۂ مہر میں ” نوشت و خواند” چھپا ہے۔ باقی اکثر نسخوں میں ( بشمول نسخۂ نظامی، عرشی) "نوشت خواند” چھپا ہے جو اہلِ زبان بولتے ہیں۔ (حامد علی خان)

روزہ

افطارِ صوم کی جسے کچھ دستگاہ ہو
اُس شخص کو ضرور ہے روزہ رکھا کرے

جس پاس روزہ کھول کے کھانے کو کچھ نہ ہو
روزہ اگر نہ کھائے تو ناچار کیا کرے


طائرِ دل

اٹھا اک دن بگولا سا جو کچھ میں جوشِ وحشت میں [1]
پھرا آسیمہ سر، گھبرا گیا تھا جی بیاباں سے

نظر آیا مجھے اک طائرِ مجروح پَر بستہ [2]
ٹپکتا تھا سرِ شوریدہ دیوارِ گلستاں سے

کہا میں نے کہ "او گمنام! آخر ماجرا کیا ہے
پڑا ہے کام کا تجھ کو کس ستم گر آفتِ جاں سے”

ہنسا کچھ کھلکھلا کر پہلے، پھر مجھ کو جو پہچانا
تو یہ رویا کہ جوئے خوں بہی پلکوں کے داماں سے

کہا، ” میں صید ہوں اُس کا کہ جس کے دامِ گیسو میں
پھنسا کرتے ہیں طائر روز آ کر باغِ رضواں سے

اسی کی زلف و رُخ کا دھیان ہے شام و سحر مجھ کو
نہ مطلب کُفر سے ہے اور نہ ہے کچھ کام ایماں سے”

بہ چشمِ غور جو دیکھا، مِرا ہی طائرِ دل تھا
کہ جل کر ہو گیا یوں خاک میری آہِ سوزاں سے

  1. چند نسخوں میں یہ شعر یوں درج ہے: اٹھا اک دن بگولہ سا جو تھا کچھ جوشِ وحشت میں (اعجاز عبید)
  2. نسخۂ مہر میں ” تشنہ ” لفظ آیا ہے جو کہ کتابت کی غلطی ہے۔(جویریہ مسعود)

خط منظوم بنام علائی

خوشی تو ہے آنے کی برسات کے [1]
پبیں بادۂ ناب اور آم کھائیں

سر آغازِ موسم میں اندھے ہیں ہم
کہ دِلّی کو چھوڑیں، لوہارو کو جائیں

سِوا ناج کے جو ہے مطلوبِ جاں
نہ واں آم پائیں، نہ انگور پائیں

ہوا حکم باورچیوں کو، کہ ہاں
ابھی جا کے پوچھو کہ کل کیا پکائیں

وہ کھٹّے کہاں پائیں اِملی کے پھول
وہ کڑوے کریلے کہاں سے منگائیں

فقط گوشت، سو بھیڑ کا ریشہ دار
کہو اس کو کیا کھا کے ہم حظ اُٹھائیں

  1. نسخۂ مہر میں مصرع یوں ہے: خوشی یہ آنے کی برسات کے (ج۔م)

قطعہ تاریخ

خُجستہ انجمن طُوئے میرزا جعفر
کہ جس کے دیکھے سے سب کا ہوا ہے جی محظوظ

ہوئی ہے ایسے ہی فرخندہ سال میں غالبؔ
نہ کیوں ہو مادۂ سالِ عیسوی "محظوظ” [1]

  1. محظوظ سے سال 1854عیسوی نکلتا ہے

قطعہ تاریخ

ہوئی جب میرزا جعفر کی شادی
ہوا بزمِ طرب میں رقصِ ناہید

کہا غالبؔ سے: "تاریخ اس کی کیا ہے؟”
تو بولا: ” اِنشراحِ جشنِ جمشید” [1]

  1. 1270 ہجری

قطعہ تاریخ

اِس کتابِ طرب نصاب نے جب
آب و تاب انطباع کی پائی

فکرِ تاریخِ سال میں، مجھ کو
ایک صورت نئی نظر آئی

ہندسے پہلے سات سات کے دو
دیے ناگاہ مجھ کو دکھلائی

اور پھر ہندسہ تھا بارہ کا
با ہزاراں ہزار زیبائی

سالِ ہجری تو ہو گیا معلوم [1]
بے شمولِ عبارت آرائی

مگر اب ذوقِ بذلہ سنجی کو
ہے جداگانہ کار فرمائی

سات اور سات ہوتے ہیں چودہ
بہ اُمیدِ سعادت افزائی

غرض اِس سے ہیں چاردہ معصُوم
جس سے ہے چشمِ جاں کو زیبائی

اور بارہ امام ہیں بارہ
جس سے ایماں کو ہے توانائی

اُن کو غالبؔ یہ سال اچھا ہے
جو ائِمّہ کے ہیں تولاّئی

  1. 1277 ہجری

بلا عنوان

[1]

سیہ گلیم ہوں لازم ہے میرا نام نہ لے
جہاں میں جو کوئی فتح و ظفر کا طالب ہے

ہوا نہ غلبہ میسر کبھی کسی پہ مجھے
کہ جو شریک ہو میرا، شریکِ غالبؔ ہے

  1. نسخۂ مہر میں اس قطعہ کا عنوان ہے۔ شریکِ غالبؔ (جویریہ مسعود)

سہل تھا مُسہل ولے یہ سخت مُشکل آ پڑی

سہل تھا مُسہل ولے یہ سخت مُشکل آ پڑی
مجھ پہ کیا گُزرے گی، اتنے روز حاضر بِن ہوئے

تین دن مسہل سے پہلے، تین دن مسہل کے بعد
تین مُسہل، تین تَبریدیں، یہ سب کَے دِن ہوئے؟


گو ایک بادشاہ کے سب خانہ زاد ہیں [1]

گو ایک بادشاہ کے سب خانہ زاد ہیں
درباردار لوگ بہم آشنا نہیں

کانوں پہ ہاتھ دھرتے ہیں کرتے ہوئے سلام
اس سے مُراد یہ ہے کہ ہم آشنا نہیں [2]

  1. نسخۂ مہر میں اس قطعہ کا عنوان ہے۔ درباری (جویریہ مسعود)
  2. نسخۂ مہر میں یہ مصرع یوں ہے:
    اس سے ہے یہ مراد کہ ہم آشنا نہیں
    (جویریہ مسعود)

ایک اہلِ درد نے سنسان جو دیکھا قفس

ایک اہلِ درد نے سنسان جو دیکھا قفس
یوں کہا آتی نہیں اب کیوں صدائے عندلیب؟ [1]

بال و پر دو چار دکھلا کر کہا صیّاد نے
یہ نشانی رہ گئی ہے اب بجائے عندلیب

  1. نسخۂ مہر میں یہ مصرع اس طرح درج ہے:
    یوں کہا آتی نہیں کیوں اب صدائے عندلیب؟ (جویریہ مسعود)

اے جہاں آفریں خدائے کریم

اے جہاں آفریں خدائے کریم
ضائعِ ہفت چرخ، ہفت اقلیم

نام میکلوڈ جن کا ہے مشہور
یہ ہمیشہ بصد نشاط و سرور

عمرو دولت سے شادمان رہیں
اور غالبؔ پہ مہربان رہیں


گوڑگانویں کی ہے جتنی رعیّت، وہ یک قلم

گوڑگانویں کی ہے جتنی رعیّت، وہ یک قلم
عاشق ہے اپنے حاکمِ عادل کے نام کی

سو یہ نظر فروز قلمدان نذر ہے
مسٹر کووان صاحبِ عالی مقام کی


رباعیات

رباعی

شب زُلف و رُخِ عَرَق فِشاں کا غم تھا
کیا شرح کروں کہ طُرفہ تَر عالَم تھا
رویا میں ہزار آنکھ سے صُبح تلک
ہر قطرۂ اشک دیدۂ پُرنَم تھا


رباعی

دل سخت نژند ہو گیا ہے گویا
اُس سے گِلہ مند ہو گیا ہے گویا
پَر یار کے آگے بول سکتے ہی نہیں
غالبؔ منہ بند ہو گیا ہے گویا


رباعی

دکھ جی کے پسند ہو گیا ہے غالبؔ
دل رُک رُک کر بند ہو گیا ہے غالبؔ [1]
واللہ کہ شب کو نیند آتی ہی نہیں
سونا سَوگند ہو گیا ہے غالبؔ

  1. کچھ نسخوں میں یہ مصرع یوں ہے:
    دل رُک کر بند ہو گیا ہے غالبؔ
    اور اس سلسلے میں خضر ناگپوری (رازِ حیات۔ خضر ناگپوری) نے بحث کی ہے کہ وہی مصرع درست ہے جس میں "رک رُک” ہے (اعجاز عبید)

مزید: اس رباعی کے دوسرے مصرع کے متعلق بڑا جھگڑا رہا ہے۔ یہ بہ ظاہر حضرت طباطبائی کے عروضی اعتراض سے شروع ہوا جو غالباً غلط فہمی پر مبنی تھا۔ اس کے بعد مختلف حضرات اس مصرع پر طبع آزمائی کرتے رہے اور انہوں نے "رک رک کر” کے بجائے صرف "رک کر” رکھ کر اس کی اصلاح کی کوشش بھی کی مگر یہ لحاظ نہ فرمایا کہ س اصلاح سے رباعی کی جان بھی نکالی گئی ہے۔ "دل رک کر بند ہو گیا” تو ایسا ہی مہمل ہے جیسا "دل رک کر رک گیا "یا "دل بند کر بند ہو گیا”۔ غالب نے "دل رک رک کر” کہا تھا تو اس طرح ایک ایسے تدریجی عمل کی طرف ایک بلیغ اشارہ کیا تھا جو آخرِ کار حرکتِ قلب کاملاً بند ہو جانے کی تمہید بنا تھا اور جس کا ذکر کیے بغیر مصرع قطعاً بے کیف رہ جاتا ہے۔ عروض خواہ کچھ کہے "رک کر” کو "رک رک کر” کی جگہ نہیں دی جا سکتی۔ (حامد علی خان)


رباعی

آتشبازی ہے جیسے شغلِ اطفال
ہے سوزِ جگر کا بھی اسی طور کا حال
تھا مُوجدِ عشق بھی قیامت کوئی
لڑکوں کے لیے گیا ہے کیا کھیل نکال!


رباعی

بعد از اِتمامِ بزمِ عیدِ اطفال
ایّامِ جوانی رہے ساغر کَش حال
آ پہنچے ہیں تا سوادِ اقلیم عدم
اے عُمرِ گُذشتہ یک قدم استقبال


رباعی

مشکل ہے زبس کلام میرا اے دل
سُن سُن کے اسے سخنورانِ کامل
آساں کہنے کی کرتے ہیں فرمائش
گویم مشکل و گر نگویم مشکل


رباعی

ہیں شہ میں صفاتِ ذوالجلالی باہم
آثارِ جلالی و جمالی باہم
ہوں شاد نہ کیوں سافل و عالی باہم
ہے اب کے شبِ قدر و دِوالی باہم


رباعی

کہتے ہیں کہ اب وہ مَردُم آزار نہیں
عُشّاق کی پُرسش سے اُسے عار نہیں
جو ہاتھ کہ ظلم سے اٹھایا ہو گا
کیونکر مانوں کہ اُس میں تلوار نہیں!


رباعی

سامانِ خور و خواب کہاں سے لاؤں؟
آرام کے اسباب کہاں سے لاؤں؟
روزہ مِرا اِیمان ہے غالبؔ! لیکن
خَسخانہ و برفاب کہاں سے لاؤں؟


رباعی

دل تھا، کہ جو جانِ دردِ تمہید سہی
بیتابیِ رشک و حسرتِ دید سہی
ہم اور فُسُردن اے تجلی افسوس
تکرار روا نہیں تو تجدید سہی

  1. نسخۂ طباطبائی میں یہ مصرع یوں درج ہے: "یعنی ہر بار کاغذِ باد کی طرح” متن نسخۂ نظامی کے مطابق ہے۔ (حامد علی خان)

رباعی

ہے خَلقِ حسد قماش لڑنے کے لیے
وحشت کدۂ تلاش لڑنے کے لیے
یعنی ہر بار صُورتِ کاغذِ باد [1]
ملتے ہیں یہ بدمعاش لڑنے کے لیے


رباعی

بھیجی ہے جو مجھ کو شاہِ جَمِ جاہ نے دال
ہے لُطف و عنایات شہنشاہِ پہ دال
یہ شاہ پسند دال بے بحث و جِدال
ہے دولت و دین و دانش و داد کی دال


رباعی

حق شہ کی بقا سے خلق کو شاد کرے
تا شاہ شیوعِ دانش و داد کرے
یہ جو دی گئی ہے رشتۂ عمر میں گانٹھ
ہے صِفر کہ افزائشِ اعداد کرے


رباعی

اِس رشتے میں لاکھ تار ہوں، بلکہ سِوا
اِتنے ہی برس شُمار ہوں، بلکہ سِوا
ہر سیکڑے کو ایک گرہ فرض کریں
ایسی گرہیں ہزار ہوں، بلکہ سِوا


رباعی

ہم گر چہ بنے سلام کرنے والے
کرتے ہیں دِرنگ، کام کرنے والے
کہتے ہیں کہیں خدا سے، اللہ اللہ!
وُہ آپ ہیں صُبح و شام کرنے والے!


رباعی

اِن سیم کے بِیجوں کو کوئی کیا جانے
بھیجے ہیں جو اَرمُغاں شہِ والا نے
گِن کر دیویں گے ہم دُعائیں سَو بار
فیروزے کی تسبیح کے، ہیں یہ دانے


رباعی

رقعے کا جواب کیوں نہ بھیجا تم نے
ثاقب! حرکت یہ کی ہے بے جا تم نے
حاجی کلّو کو دے کے بے وجہ جواب
غالبؔ کا پکا دیا کلیجا تم نے


رباعی

اے روشنیِ دیدہ شہاب الدیں خاں
کٹتا ہے بتاؤ کس طرح سے رَمَضاں؟
ہوتی ہے تراویح سے فرصت کب تک
سُنتے ہو تراویح میں کتنا قرآں


رباعی

اے منشیِ خیرہ سر سخن ساز نہ ہو
عصفور ہے تو مقابلِ باز نہ ہو
آواز تیری نکلی اور آواز کے ساتھ
لاٹھی وہ لگی کہ جس میں آواز نہ ہو


رباعی

جن لوگوں کو ہے مجھ سے عداوت گہری
کہتے ہیں مجھے وہ رافضی و دہری
دہری کیونکر ہو جو کہ ہووے صوفی؟
شیعی کیونکر ہو ماوراء النہری


متفرقات

ہلاکِ بے خبری نغمۂ وجود و عدم
جہان و اہلِ جہاں سے جہاں جہاں فریاد

آئی اگر بلا تو جگر سے ٹلی نہیں
ایرا ہی دے کے ہم نے بچایا ہے کِشت کو


ضمیمۂ اول

از نوائے سروش (نسخۂ مہر)

نوٹ از مولانا مہر: یہ غزلیں مولانا عبد الباری آسی کی کتاب سے منقول ہیں لیکن اہلِ نظر مجموعۂ آسی میں شائع شدہ پورے غیر مطبوعہ کلام کا انتساب صحیح نہیں سمجھتے


غزل

آفت آہنگ ہے کچھ نالۂ بلبل ورنہ
پھول ہنس ہنس کے گلستاں میں فنا ہو جاتا

کاش ناقدر نہ ہوتا ترا اندازِ خرام
میں غبارِ سرِ دامانِ فنا ہو جاتا

یک شبہ فرصتِ ہستی ہے اک آئینۂ غم
رنگِ گل کاش! گلستاں کی ہَوا ہو جاتا

مستقل مرکزِ غم پہ ہی نہیں تھے ورنہ
ہم کو اندازۂ آئینِ فنا ہو جاتا

دستِ قدرت ہے مرا خشت بہ دیوارِ فنا
گر فنا بھی نہ میں ہوتا تو فنا ہو جاتا

حیرت اندوزیِ اربابِ حقیقت مت پوچھ
جلوہ اک روز تو آئینہ نما ہو جاتا


غزل

بدتر از ویرانہ ہے فصلِ خزاں میں صحنِ باغ
خانۂ بلبل بغیر از خندۂ گل بے چراغ

پتّا پتّا اب چمن کا انقلاب آلودہ ہے
نغمۂ مرغِ چمن زا ہے صدائے بوم و زاغ

ہاں بغیر از خوابِ مرگ آسودگی ممکن نہیں
رختِ ہستی باندھ تا حاصل ہو دنیائے فراغ

شورِ طوفانِ بلا ہے خندۂ بے اختیار
کیا ہے گل کی بے زبانی کیا ہے یہ لالے کا داغ

چشمِ پُر نم رہ، زمانہ منقلِب ہے اے اسدؔ
اب یہی ہے بس مے شادی سے پُر ہونا ایاغ


غزل

خزینہ دارِ محبت ہوئی ہوائے چمن
بنائے خندۂ عشرت ہے بر بِنائے چمن

بہ ہرزہ سنجیِ گلچیں نہ کھا فریبِ نظر
ترے خیال کی وسعت میں ہے فضائے چمن

یہ نغمۂ سنجیِ بلبل متاعِ زحمت ہے
کہ گوشِ گل کو نہ راس آئے گی صدائے چمن

صدائے خندۂ گل تا قفس پہنچتی ہے
نسیمِ صبح سے سنتا ہوں ماجرائے چمن

گل ایک کاسۂ دریوزۂ مسرّت ہے
کہ عندلیبِ نوا سنج ہے گدائے چمن

حریفِ نالۂ پرورد ہے، تو ہو، پھر بھی
ہے اک تبسّمِ پنہاں ترا بہائے چمن

بہار راہ رو جادۂ فنا ہے اسدؔ
گلِ شگفتہ ہیں گویا کہ نقشِ پائے چمن


شعر

کرم ہی کچھ سببِ لطف و التفات نہیں
انہیں ہنسا کے رلانا بھی کوئی بات نہیں

کہاں سے لا کے دکھائے گی عمرِ کم مایہ
سیہ نصیب کو وہ دن کہ جس میں رات نہیں

زبان حمد کی خوگر ہوئی تو کیا حاصل
کہ تیری ذات میں شامل تری صفات نہیں

خوشی، خوشی کو نہ کہہ، غم کو غم نہ جان اسدؔ
قرار داخلِ اجزائے کائنات نہیں


غزل

جوں شمع ہم اک سوختہ سامانِ وفا ہیں
اور اس کے سوا کچھ نہیں معلوم کہ کیا ہیں

اک سرحدِ معدوم میں ہستی ہے ہماری
سازِ دل بشکستہ کی بیکار صدا ہیں

جس رخ پہ ہوں ہم، سجدہ اسی رخ پہ ہے واجب
گو قبلہ نہیں ہیں مگر اک قبلہ نما ہیں

مت ہو جیو اے سیلِ فنا ان سے مقابل
جانبازِ الم نقش بہ دامانِ بقا ہیں

پائی ہے جگہ ناصیۂ بادِ صبا پر
خاکستر پروانۂ جانبازِ فنا ہیں

ہر حال میں ہیں مرضیِ صیّاد کے تابع
ہم طائرِ پر سوختہ رشتہ بہ پا ہیں

اے وہم طرازانِ مجازی و حقیقی
عشّاق فریبِ حق و باطل سے جدا ہیں

ہم بے خودیِ شوق میں کر لیتے ہیں سجدے
یہ ہم سے نہ پوچھو کہ کہاں ناصیہ سا ہیں

اب منتظرِ شوقِ قیامت نہیں غالبؔ
دنیا کے ہر ذرّے میں سو حشر بپا ہیں


شعر

نالے دل کھول کے دو چار کروں یا نہ کروں
یہ بھی اے چرخِ ستمگار! کروں یا نہ کروں

مجھ کو یہ وہم کہ انکار نہ ہو جائے کہیں
ان کو یہ فکر کہ اقرار کروں یا نہ کروں

لطف جب ہو کہ کروں غیر کو بھی میں بدنام
کہیے کیا حکم ہے سرکار! کروں یا نہ کروں


غزل

وضعِ نیرنگیِ آفاق نے مارا ہم کو
ہو گئے سب ستم و جَور گوارا ہم کو

دشتِ وحشت میں نہ پایا کسی صورت سے سراغ
گردِ جولانِ جنوں تک نے پکارا ہم کو

عجز ہی اصل میں تھا حاملِ صد رنگِ عروج
ذوقِ پستیِ مصیبت نے ابھارا ہم کو

ضعف مشغول ہے بیکار بہ سعیِ بیجا
کر چکا جوشِ جنوں اب تو اشارہ ہم کو

صورِ محشر کی صدا میں ہے افسونِ امّید
خواہشِ زیست ہوئی آج دوبارا ہم کو

تختۂ گور سفینے کے مماثل ہے اسدؔ
بحرِ غم کا نظر آتا ہے کنارا ہم کو


غزل

حسنِ بے پروا گرفتارِ خود آرائی نہ ہو
گر کمیں گاہِ نظر میں دل تماشائی نہ ہو

ہیچ ہے تاثیرِ عالم گیریِ ناز و ادا
ذوقِ عاشق گر اسیرِ دامِ گیرائی نہ ہو

خود گدازِ شمع آغازِ فروغِ شمع ہے
سوزشِ غم درپئے ذوقِ شکیبائی نہ ہو

تار تارِ پیرہن ہے اک رگِ جانِ جنوں
عقلِ غیرت پیشہ حیرت سے تماشائی نہ ہو

بزمِ کثرت عالمِ وحدت ہے بینا کے لیے
بے نیازِ عشق اسیرِ زورِ تنہائی نہ ہو

ہے محبت رہزنِ ناموسِ انساں اے اسدؔ
قامتِ عاشق پہ کیوں ملبوسِ رسوائی نہ ہو


غزل

نہ پوچھ حال اس انداز اس عتاب کے ساتھ
لبوں پہ جان بھی آ جائے گی جواب کے ساتھ

مجھے بھی تاکہ تمنّا سے ہو نہ مایوسی
ملو رقیب سے لیکن ذرا حجاب کے ساتھ

نہ ہو بہ ہرزہ روادارِ سعیِ بے ہودہ
کہ دورِ عیش ہے مانا خیال و خواب کے ساتھ

بہ ہر نمط غمِ دل باعثِ مسرّت ہے
نموئے حیرتِ دل ہے ترے شباب کے ساتھ

لگاؤ اس کا ہے باعث قیامِ مستی کا
ہَوا کو لاگ بھی ہے کچھ مگر حباب کے ساتھ

ہزار حیف کہ اتنا نہیں کوئی غالبؔ
کہ جاگنے کو ملا دے وے آ کے خواب کے ساتھ


غزل

بتائیں ہم تمہارے عارض و کاکُل کو کیا سمجھے
اِسے ہم سانپ سمجھے اور اُسے من سانپ کا سمجھے

یہ کیا تشبیہِ بے ہودہ ہے، کیوں موذی سے نسبت دیں
ہُما عارض کو، اور کاکل کو ہم ظلِّ ہما سمجھے

غلط ہی ہو گئی تشبیہ، یہ تو ایک طائر ہے
اسے برگِ سمن اور اُس کو سنبل کو جٹا سمجھے

نباتاتِ زمیں سے کیا ان کو نسبت؟ معاذ اللہ
اسے برق اور اُسے ہم کالی ساون کی گھٹا سمجھے

گھٹا اور برق سے کیوں کر گھٹا کر ان کو نسبت دیں
اسے ظلمات، اُسے ہم چشمۂ آبِ بقا سمجھے

جو کہیے یہ، فقط مقصود تھا خضر و سکندر سے
یدِ بیضا اسے اور اُس کو موسیٰ کا عصا سمجھے

جو اس تشبیہ سے بھی داغ اُن کو آتا ہو
اسے وقتِ نمازِ صبح اور اُس کو عشاء سمجھے

جو یہ نسبت پسندِ خاطرِ والا نہ ہو تو پھر
اسے قندیلِ کعبہ، اُس کو کعبے کی ردا سمجھے

اسدؔ ان ساری تشبیہوں کو رد کرکے یہ کہتا ہے
سویدا اِس کو سمجھے اُس کو ہم نورِ خدا سمجھے


شعر

نسیمِ صبح جب کنعاں میں بوئے پیرَہن لائی
پئے یعقوب ساتھ اپنے نویدِ جان و تن لائی

وقارِ ماتمِ شب زندہ دارِ ہجر رکھنا تھا
سپیدی صبحِ غم کی دوش پر رکھ کر کفن لائی

شہیدِ شیوۂ منصور ہے اندازِ رسوائی
مصیبت پیشگیِ مدّعا دار و رسن لائی

وفا دامن کشِ پیرایہ و ہستی ہے اے غالبؔ
کہ پھر نزہت گہِ غربت سے تا حدِّ وطن لائی


شعر

وفا جفا کی طلب گار ہوتی آئی ہے
ازل کے دن سے یہ اے یار ہوتی آئی ہے

جوابِ جنّتِ بزمِ نشاطِ جاناں ہے
مری نگاہ جو خونبار ہوتی آئی ہے

نموئے جوشِ جنوں وحشیو! مبارک باد
بہار ہدیۂ انظار ہوتی آئی ہے

دل و دماغِ وفا پیشگاں کی خیر نہیں
جگر سے آہِ شرر بار ہوتی آئی ہے


غزل

یونہی افزائشِ وحشت کے جو ساماں ہوں گے
دل کے سب زخم بھی ہم شکلِ گریباں ہوں گے

وجہِ مایوسیِ عاشق ہے تغافل ان کا
نہ کبھی قتل کریں گے، نہ پشیماں ہوں گے

دل سلامت ہے تو صدموں کی کمی کیا ہم کو
بے شک ان سے تو بہت جان کے خواہاں ہوں گے

منتشر ہو کے بھی دل جمع رکھیں گے یعنی
ہم بھی اب پیروئے گیسو ئے پریشاں ہوں گے

گردشِ بخت نے مایوس کیا ہے لیکن
اب بھی ہر گوشۂ دل میں کئی ارماں ہوں گے

ہے ابھی خوں سے فقط گرمیِ ہنگامۂ اشک
پر یہ حالت ہے تو نالے شرر افشاں ہوں گے

باندھ کر عہدِ وفا اتنا تنفّر، ہے ہے
تجھ سے بے مہر کم اے عمرِ گریزاں! ہوں گے

اس قدر بھی دلِ سوزاں کو نہ جان افسردہ
ابھی کچھ داغ تو اے شمع! فروزاں ہوں گے

عہد میں تیرے کہاں گرمیِ ہنگامۂ عیش
گل میری قسمت واژونہ پہ خنداں ہوں گے

خوگرِ عیش نہیں ہیں ترے برگشتہ نصیب
اُن کو دشوار ہیں وہ کام جو آساں ہوں گے

موت پھر زیست نہ ہو جائے یہ ڈر ہے غالبؔ
وہ مری نعش پہ انگشت بہ دنداں ہوں گے


غزل

نمائش پردہ دارِ طرز بیدادِ تغافل ہے
تسلّی جانِ بلبل کے لیے خندیدنِ گل ہے

نمودِ عالَمِ اسباب کیا ہے؟ لفظِ بے معنی
کہ ہستی کی طرح مجھ کو عدم میں بھی تامّل ہے

نہ رکھ پابندِ استغنا کو قیدی رسمِ عالم کا
ترا دستِ دعا بھی رخنہ اندازِ توکّل ہے

نہ چھوڑا قید میں بھی وحشیوں کو یادِ گلشن نے
یہ چاکِ پیرہن گویا جوابِ خندۂ گل ہے

ابھی دیوانگی کا راز کہہ سکتے ہیں ناصح سے
ابھی کچھ وقت ہے غالبؔ ابھی فصلِ گل و مُل ہے


غزل

خود جاں دے کے روح کو آزاد کیجیے
تاکے خیالِ خاطرِ جلّاد کیجیے

بھولے ہوئے جو غم ہیں انہیں یاد کیجیے
تب جا کے ان سے شکوۂ بے داد کیجیے

حالانکہ اب زباں میں نہیں طاقتِ فغاں
پر دل یہ چاہتا ہے کہ فریاد کیجیے

بس ہے دلوں کے واسطے اک جنبشِ نگاہ
اجڑے ہوئے گھروں کو پھر آباد کیجیے

کچھ دردمند منتظرِ انقلاب ہیں
جو شاد ہو چکے انہیں ناشاد کیجیے

شاید کہ یاس باعثِ افشائے راز ہو
لطف و کرم بھی شاملِ بے داد کیجیے

بیگانۂ رسومِ جہاں ہے مذاقِ عشق
طرزِ جدیدِ ظلم ایجاد کیجیے


غزل

ہم سے خوبانِ جہاں پہلو تہی کرتے رہے
ہم ہمیشہ مشقِ از خود رفتگی کرتے رہے

کثرت آرائی خیالِ ما سوا کی وہم تھی
مرگ پر غافل گمانِ زندگی کرتے رہے

داغہائے دل چراغِ خانۂ تاریک تھے
تا مغاکِ قبر پیدا روشنی کرتے رہے

شورِ نیرنگِ بہارِ گلشنِ ہستی، نہ پوچھ
ہم خوشی اکثر رہینِ ناخوشی کرتے رہے

رخصت اے تمکینِ آزارِ فراقِ ہمرہاں
ہو سکا جب تک غمِ واماندگی کرتے رہے


غزل

درد ہو دل میں تو دوا کیجے
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجے

ہم کو فریاد کرنی آتی ہے
آپ سنتے نہیں تو کیا کیجے

ان بتوں کو خدا سے کیا مطلب
توبہ توبہ خدا خدا کیجے

رنج اٹھانے سے بھی خوشی ہو گی
پہلے دل درد آشنا کیجے

عرضِ شوخی نشاطِ عالم ہے
حسن کو اور خود نما کیجے

دشمنی ہو چکی بہ قدرِ وفا
اب حقِ دوستی ادا کیجے

موت آتی نہیں کہیں غالبؔ
کب تک افسوس زیست کا کیجے


غزل

سکوت و خامشی اظہارِ حالِ بے زبانی ہے
کمینِ درد میں پوشیدہ رازِ شادمانی ہے

عیاں ہیں حال و قالِ شیخ سے اندازِ دلچسپی
مگر رندِ قَدَح کش کا ابھی دورِ جوانی ہے

ثباتِ چند روزہ کارفرمائے غم و حسرت
اجل سرمایہ دارِ دورِ عیش و کامرانی ہے

گدازِ داغِ دلِ شمعِ بساطِ خانہ ویرانی
تپش گاہِ محبت میں فروغ جاودانی ہے

وفورِ خود نمائی رہنِ ذوقِ جلوہ آرائی
بہ وہم کامرانی جذبِ دل کی شادمانی ہے

دلِ حرماں لقب کی داد دے اے چرخِ بے پروا
بہ غارت دادۂ رخت و متاعِ کامرانی ہے


غزل

کس کی برقِ شوخیِ رفتار کا دلدادہ ہے
ذرّہ ذرّہ اس جہاں کا اضطراب آمادہ ہے

ہے غرورِ سرکشی صورت نمائے عجز بھی
منقلب ہو کر بسانِ نقشِ پا افتادہ ہے

خانہ ویراں سازیِ عشقِ جفا پیشہ نہ پوچھ
نا مرادوں کا خطِ تقدیر تک بھی سادہ ہے

خود نشاط و سرخوشی ہے آمدِ فصلِ بہار
آج ہر سیلِ رواں عالم میں موجِ بادہ ہے

زندگانی رہروِ راہِ فنا ہے اے اسدؔ
ہر نفس ہستی سے تا ملکِ عدم اک جادہ ہے


غزل

اس جور و جفا پر بھی بدظن نہیں ہم تجھ سے
کیا طرفہ تمنّا ہے امیدِ کرم تجھ سے

امّیدِ نوازش میں کیوں جیتے تھے ہم آخر
سہتے ہی نہیں کوئی جب درد و الم تجھ سے

وارفتگیِ دل ہے یا دستِ تصرّف ہے
ہیں اپنے تخیّل میں دن رات بہم تجھ سے

یہ جور و جفا سہنا پھر ترکِ وفا کرنا
اے ہرزہ پژوہی بس عاجز ہوئے ہم تجھ سے

غالبؔ کی وفا کیشی اور تیری ستم رانی
مشہورِ زمانہ ہے اب کیا کہیں ہم تجھ سے


ضمیمۂ دوم

(انتخاب از نسخۂ حمیدیہ)


غزل

دعوۂ عشقِ بتاں سے بہ گلستاں گل و صبح
ہیں رقیبانہ بہم دست و گریباں گل و صبح

ساقِ گلرنگ سے اور آئنۂ زانو سے
جامہ زیبوں کے سدا ہیں تہِ داماں گل و صبح

وصل آئینۂ رخاں ہم نفسِ یک دیگر
ہیں دعا ہائے سحر گاہ سے خواہاں گل و صبح

آئنہ خانہ ہے صحنِ چمنستاں تجھ سے [1]
بسکہ ہیں بے خود و وارفتہ و حیران گل و صبح

زندگانی نہیں بیش از نفسِ چند اسدؔ
غفلت آرامیِ یاراں پہ ہیں خنداں گل و صبح

  1. یہاں متن میں ” تجھ سے” کو کاٹ کر موٹے قلم سے شکستہ خط میں ” یکسر” تحریر کیا ہے۔ (حاشیہ از پروفیسر حمید احمد خان مرتبِ نسخۂ حمیدیہ) (جویریہ مسعود)

غزل

بسکہ ہیں بدمستِ بشکن بشکنِ میخانہ ہم
موئے شیشہ کو سمجھتے ہیں خطِ پیمانہ ہم

غم نہیں ہوتا ہے آزادوں کو بیش از یک نفس
برق سے کرتے ہیں روشن شمعِ ماتم خانہ ہم

بسکہ ہر یک موئے زلف افشاں سے ہے تارِ شعاع
پنجۂ خورشید کو سمجھتے ہیں دستِ شانہ ہم

نقش بندِ خاک ہے موج از فروغِ ماہتاب [1]
سیل سے فرشِ کتاں کرتے ہیں تا ویرانہ ہم

مشقِ از خود رفتگی سے ہیں بہ گلزارِ خیال
آشنا تعبیرِ خوابِ سبزۂ بیگانہ ہم

فرطِ بے خوابی سے ہیں شب ہائے ہجرِ یار میں
جوں زبانِ شمع داغِ گرمیِ افسانہ ہم

جانتے ہیں جوششِ سودائے زلفِ یار میں
سنبلِ بالیدہ کو موئے سرِ دیوانہ ہم

بسکہ وہ چشم و چراغِ محفلِ اغیار ہے
چپکے چپکے جلتے ہیں جوں شمعِ ماتم خانہ ہم

شامِ غم میں سوزِ عشقِ شمع رویاں سے اسدؔ [2]
جانتے ہیں سینۂ پر خوں کو زنداں خانہ ہم

  1. حاشیہ از نسخۂ حمیدیہ: اس مصرع پر ” لا لا” لکھا ہے اور حاشیے موٹے قلم سے شکستہ خط میں اس کے بجائے مصرعِ ذیل تحریر کیا ہے: ہے فروغِ ماہ سے ہر موج یک تصویرِ خاک۔ (جویریہ مسعود)
  2. اس مصرع کا آخری حصہ بعد میں ” سوزِ عشقِ آتشِ رخسار سے” بدلا گیا ہے۔ حاشیے میں موٹے قلم سے شکستہ خط میں یہ مقطع لکھا ہے:
    دائم الحبس اس میں ہے لاکھوں تمنائیں اسدؔ
    جانتے ہیں سینۂ پر خوں کو زنداں خانہ ہم
    (حواشی از پروفیسر حمید احمد خان) (جویریہ مسعود)

غزل

صاف ہے ازبسکہ عکسِ گل سے گلزارِ چمن
جانشینِ جوہرِ آئینہ ہے خارِ چمن

ہے نزاکت بس کہ فصلِ گل میں معمارِ چمن
قالبِ گل میں ڈھلی ہے خشتِ دیوارِ چمن

برشگالِ گریۂ عشاق دیکھا چاہیے
کھل گئی مانندِ گل سو جا سے دیوارِ چمن [1]

تیری آرائش کا استقبال کرتی ہے بہار
جوہرِ آئینہ ہے یاں نقشِ احضارِ چمن

بس کہ پائی یار کی رنگیں ادائی سے شکست
ہے کلاہِ نازِ گل بر طاقِ دیوارِ چمن

الفتِ گل سے غلط ہے دعوۂ وارستگی
سرو ہے با وصفِ آزدی گرفتارِ چمن

وقت ہے گر بلبلِ مسکیں زلیخائی کرے
یوسفِ گل جلوہ فرما ہے بہ بازارِ چمن

وحشت افزا گریہ ہا موقوفِ فصل گل اسدؔ
چشمِ دریاریز ہے میزابِ سرکارِ چمن

  1. یہ شعر مرتب کے بقول قلمی مخطوطے کے متن کے بجائے حاشیے پر موٹے قلم سے شکستہ خط میں درج ہے۔ (جویریہ مسعود)

غزل

ضبط سے مطلب بجز وارستگی دیگر نہیں
دامنِ تمثال آبِ آئنہ سے تر نہیں

ہوتے ہیں بے قدر در کنجِ وطن صاحب دلاں [1]
عزلت آبادِ صدف میں قیمتِ گوہر نہیں

باعثِ ایذا ہے برہم خوردنِ بزمِ سرور
لخت لختِ شیشۂ بشکستہ جز نشتر نہیں

واں سیاہی مردمک ہے اور یاں داغِ شراب
مہ حریفِ نازشِ ہم چشمیِ ساغر نہیں

ہے فلک بالا نشینِ فیضِ خم گر دیدنی
عاجزی سے ظاہرا رتبہ کوئی برتر نہیں

دل کو اظہارِ سخن اندازِ فتح الباب ہے
یاں صریرِ خامہ غیر از اصطکاکِ در نہیں

کب تلک پھیرے اسدؔ لب ہائے تفتہ پر زباں
طاقتِ لب تشنگی اے ساقیِ کوثر نہیں

  1. مفتی انوار الحق کے مطابق یہ مصرع متن میں پہلے یوں تھا:
    ہوتے ہیں بے قدر در گنجِ وطن صاحب دلاں
    (جویریہ مسعود)

غزل

ہم زباں آیا نظر فکرِ سخن میں تو مجھے
مردمک ہے طوطیِ آئینۂ زانو مجھے

یادِ مژگاں بہ نشتر زارِ صحرائے خیال
چاہیے بہرِ تپش یک دست صد پہلو مجھے

خاکِ فرصت بر سرِ ذاقِ فنا اے انتظار
ہے غبارِ شیشۂ ساعت رمِ آہو مجھے

اضطرابِ عمر بے مطلب نہیں آخر کہ ہے
جستجوئے فرصتِ ربطِ سرِ زانو مجھے

چاہیے درمانِ ریشِ دل بھی تیغِ یار سے
مرہمِ زنگار ہے وہ وسمۂ ابرو مجھے

کثرتِ جور و ستم سے ہو گیا ہوں بے دماغ
خوبرویوں نے بنایا ہے اسدؔ [1] بد خو مجھے

  1. اس مصرع میں ” ہے اسد” کے لفظ کو کاٹ کر ” غالب” لکھا گیا ہے۔ (حاشیہ از حمید احمد خان)

غزل

[1] یوں بعدِ ضبطِ اشک پھروں گرد یار کے
پانی پیے کسو پہ کوئی جیسے وار کے

سیاب پشت گرمیِ آئینہ دے ہے، ہم
حیراں کیے ہوئے ہیں دلِ بے قرار کے

بعد از وداعِ بہ خوں در طپیدہ [2] ہیں
نقشِ قدم ہیں ہم کفِ پائے نگار کے

ظاہر ہے ہم سے کلفتِ بختِ سیاہ روز
گویا کہ تختۂ مشق ہے خطِّ غبار کے

حسرت سے دیکھ رہتے ہیں ہم آب و رنگِ گل
مانندِ شبنم اشک ہے مژگانِ خار کے

آغوشِ گل کشودہ برائے وداع ہے
اے عندلیب چل کہ چلے دن بہار کے

ہم مشقِ فکرِ وصل و غمِ ہجر سے اسدؔ
لائق نہیں رہے ہیں غمِ روزگار کے

1.(اس غزل کے دو شعر اردو ویب کے نسخے میں 218 نمبر کے غزل میں درج ہیں ۔ جویریہ مسعود) 2. اس لفظ کی جدید املا تپیدہ ہے۔ (جویریہ مسعود)


غزل

[1] بسکہ حیرت سے ز پا افتادۂ زنہار ہے
ناخنِ انگشت تبخالِ لبِ بیمار ہے

زلف سے شب درمیاں دادن نہیں ممکن دریغ
ورنہ صد محشر بہ رہنِ صافیِ رخسار ہے

در خیال آبادِ سودائے سرِ مژگانِ دوست
صد رگِ جاں جادہ آسا وقفِ نشتر زار ہے

جی جلے ذوقِ فنا کی نا تمامی پر نہ کیوں
ہم نہیں جلتے، نفس ہر چند آتش بار ہے

ہے وہی بد مستی ہر ذرّہ کا خود عذر خواہ
جس کے جلوے سے زمیں تا آسماں سرشار ہے

مجھ سے مت کہہ تو ہمیں کہتا تھا اپنی زندگی
زندگی سے بھی مرا جی ان دنوں بے زار ہے [2]

بس کہ ویرانی سے کفر و دیں ہوئے زیر و زبر
گردِ صحرائے حرم تا کوچۂ زنّار ہے

اے سرِ شوریدہ نازِ عشق و پاسِ آبرو
یک طرف سودا و یک سو منتِ دستار ہے

وصل میں دل انتظارِ طرفہ رکھتا ہے مگر
فتنہ تاراجی تمنا کے لیے درکار ہے

ایک جا حرفِ وفا لکھا تھا سو بھی مٹ گیا
ظاہرا کاغذ ترے خط کا غلط بردار ہے

خانماں ہا پائمالِ شوخیِ دعوٰی اسدؔ
سایۂ دیوار سے سیلابِ در و دیوار ہے

1.(اس غزل کے 6 شعر اردو ویب کے نسخے میں 174 نمبر غزل میں درج ہیں۔ جویریہ مسعود) 2. یہ تینوں شعر اصل قلمی نسخے میں حاشیے پر موٹے قلم سے بد خط شکستہ میں لکھے ہوئے ہیں (حاشیہ از پروفیسر حمید احمد خان)


غزل

نیم رنگی جلوہ ہے بزمِ تجلی رازِ دوست
دودِ شمع کشتہ تھا شاید خطِ رخسارِ دوست

چشم بندِ خلق جز تمثال خود بینی نہیں
آئینہ ہے قالبِ خشتِ در و دیوارِ دوست

برق خرمن زارِ گوہر ہے نگاہِ تیزْ یاں
اشک ہو جاتے ہیں خشک از گرمیِ رفتارِ دوست

ہے سوا نیزے پہ اس کے قامتِ نوخیز سے
آفتابِ روزِ محشر ہے گلِ دستارِ دوست

اے عدوئے مصلحت چندے بہ ضبط افسردہ رہ
کردنی ہے جمع تابِ شوخیِ دیدارِ دوست

لغزشِ مستانہ و جوشِ تماشا ہے اسدؔ
آتشِ مے سے بہارِ گرمیِ بازارِ دوست