
دیوانِ میر ۔ حصہ دوم
نکلے ہے جی ہی اس کے لیے کائنات کا
دیواں میں شعر گر نہیں نعت رسولؐ کا
ہر بال اس کے تن پہ ہے موجب وبال کا
کب خضر و مسیحا نے مرنے کا مزہ جانا
دل کو لگا کے ہم نے کھینچے عذاب کیا کیا
رحمت خدا کی تجھ کو اے ابر زور برسا
شکر خدا کہ حق محبت ادا ہوا
پہلے سلوک ایسے ہی تیرے تھے اب ہے کیا
آئی قیامت ان نے جو پردہ اٹھا دیا
جیتا رہا ہے کوئی بھی بیمار عشق کا
رہے جہان میں تو دیر میں رہا نہ رہا
شاید ہمیں دکھلاویں گے دیدار خدا کا
کچھ درد عاشقی کا اسے بھی مزہ لگا
چاہ یوسفؑ تھا ذقن سو چاہ رستم ہو گیا
برسوں سے صوفیوں کا مصلیٰ تو تہ ہوا
مجلس میں سن سپند یکایک اچھل پڑا
چہرہ تمام زرد زر ناب سا ہوا
خانہ خراب ہوجیو آئینہ ساز کا
شور سا ہے تو ولیکن دور کا
بھروسا کیا ہے عمربے وفا کا
کہ میں شکار زبوں ہوں جگر نہیں رکھتا
قدم دو ساتھ میری نعش کے جاتا تو کیا ہوتا
یعنی کہ فرط شوق سے جی بھی ادھر چلا
اس دل نے کس بلا میں ہمیں مبتلا کیا
آنکھیں کھلیں تری تو یہ عالم ہے خواب سا
برسوں ملے پر ہم سے صرفہ ہی سخن کا تھا
کوئی خاک سے ہو یکساں وہی ان کو ناز کرنا
کیا جانیے کہ میر زمانے کو کیا ہوا
دیکھا پھر اس کو خاک میں ہم نے ملا ہوا
گل لگے کہنے کہو منھ نہ ادھر ہم نے کیا
ٹک نظر ایدھر نہیں کہہ اس سے ہے منظور کیا
رونا مرا سنوگے کہ طوفان کر رہا
دیکھی کہاں وہ زلف کہ سودا سا ہو گیا
سن گلہ بلبل سے گل کا اور بھی جی رک گیا
اس وہم کی نمود کا ہے اعتبار کیا
ہونٹ پر رنگ پان ہے گویا
بالیں کی جاے ہر شب یاں سنگ زیر سر تھا
زیر لب جب کچھ کہا وہ مر گیا
اب ضبط کریں کب تک منھ تک تو جگر آیا
کہ سحر نالہ کش ہے بلبل سا
گل اشتیاق سے میرے گلے کا ہار ہوا
اندرونے میں جیسے باغ لگا
ہنس کے اس پرچے کو میرے ہی گلے بندھوا گیا
پیغمبر کنعاں نے دیکھا نہ کہ کیا دیکھا
دیکھے سے طور اس کے خدا یاد آگیا
آگ لینے مگر آئے تھے یہ آنا کیا تھا
دامن گل گریۂ خونیں سے سب افشاں ہوا
مستی کے ذوق میں ہیں آنکھیں بہت ہی خیرا
دیکھا نہ بدگمان ہمارا بھلا پھرا
کام اپنا اس جنوں میں ہم نے بھی یک سو کیا
تجھ پر کوئی اے کام جاں دیکھا نہ یوں مرتا ہوا
بسان جام لیے دیدئہ پرآب پھرا
بلبل نے کیا سمجھ کر یاں آشیاں بنایا
زلفوں کی درہمی سے برہم جہان مارا
انداز سخن کا سبب شور و فغاں تھا
یا تن آدمی میں دل نہ بنایا ہوتا
رات جو تھی چاند سا گھر سے نکل کر رہ گیا
نہ پیش آوے اگر مرحلہ جدائی کا
کل حال میر دیکھ کے غش مجھ کو آگیا
اس آگ نے بھڑک کر دربست گھر جلایا
شاعری تو شعار ہے اپنا
ماہ تمام یارو کیا ناتمام نکلا
اب تو چپ بھی رہا نہیں جاتا
مجھے سیدھیاں وہ سنانے لگا
مطلق نہیں ہم سے ساز تیرا
تو کام مرا اچھا پردے میں چلا جاتا
دامن پکڑ کے رویئے یک دم سحاب کا
گوہر تر جوں سرشک آنکھوں سے سب کی گر گیا
چپکے ہی چپکے ان نے ہمیں جاں بلب کیا
سب درد ہو شدت کا اس دل ہی کو دل ڈالا
یوناں کی طرح بستی یہ سب میں ڈبو رہا
اس لب خاموش کا قائل ہوا
کہ مجھ کو اس کی گلی کا خدا گدا کرتا
ہوا ابر رحمت گنہگار سا
جو رفتۂ محبت واقف ہے اس کے ڈھب کا
پر یہ تیرا نہ امتحان گیا
سوز دروں سے نامہ کباب ورق ہوا
دل نے جگر کی اور اشارت کی یاں گرا
واں کام ہی رہا تجھے یاں کام ہوچکا
ابرو کی تیغ دیکھ مہ عید کٹ گیا
دل پر رکھا تھا ہاتھ سو منھ زرد ہو گیا
اے نقش وہم آیا کیدھر خیال تیرا
اگرچہ آسماں تک شور جاوے ہم فقیروں کا
ہوا وہ بے مروت بے وفا ہرگز نہ یار اپنا
اس قدر حال ہمارا نہ پریشاں ہوتا
کام اس شوق کے ڈوبے ہوئے کا پار کیا
سگ یار آدم گری کر گیا
ایسی طپش سے دل کی کوئی جگر رہے گا
سختیاں جو میں بہت کھینچیں سو دل پتھر ہوا
طرف ہوا نہ کبھو ابر دیدئہ تر کا
طاق بلند پر اسے سب نے اٹھا رکھا
گردن شیشہ ہی میں دست رہا
گل سرخ اک زرد رخسار تھا
ہوکے عاشق بہت میں پچھتایا
کھینچے ایذا ہمیشہ کس کی بلا
اب کے مجھے بہار سے آگے جنوں ہوا
پردہ رہا ہے کون سا ہم سے حجاب کیا
کھب گئی جی میں تیری بانکی ادا
چلا عشق خواری کو ممتاز کرتا
ہو گئی عید تو گلے نہ ملا
یعنی جدائی کا ہم صدمہ بڑا اٹھایا
نہیں کیا سیل اشک اس پر بہوں گا
رہ گیا دیکھ رفو چاک مرے سینے کا
اس سیہ خانے میں چراغ جلا
مجھ دل زدہ کو نیند نہ آئی تمام شب
دیکھیے کیا گل کھلے ہے اور اب
تیر و کماں ہے ہاتھ میں سینہ نشاں ہے اب
دیکھ اس کو بھر بھر آوے ہے سب کے دہن میں آب
ہر روز دل کو سوز ہے ہر شب تعب ہے اب
ہے فرض عین رونا دل کا گداز واجب
میں اٹھ گیا ولے نہ اٹھا بیچ سے حجاب
ہم برے ہی سہی بھلا صاحب
جہاں ٹک آن بیٹھے ہم کہا آرام کریے اب
رخسار تیرے پیارے ہیں آفتاب مہتاب
ملنا اپنا جو ہوا اس سے سو وہ بات کی بات
سو التفات کم ہے دل آزاریاں بہت
شور و شر سے میرے اک فتنہ رہا کرتا تھا رات
سینہ چاکی اپنی میں بیٹھا کیا کرتا تھا رات
گویا وفا ہے عہد میں اس کے کبھو کی بات
پر منھ پہ آ ہی جاتی ہے بے اختیار بات
پر ہم سے تو تھمے نہ کبھو منھ پر آئی بات
سر بھی اس کا کھپ گیا آخر کو یاں افسر سمیت
کوفت گذرے ہے فراق یار میں جی پر بہت
جلے کو اور تو اتنا جلا مت
صبح کی بائو نے کیا پھونک دیا کان کے بیچ
پاے جاں درمیاں ہے یاں ٹک سوچ
تم بھی تو دیکھو زلف شکن در شکن کے بیچ
دیر لیکن ہے قیامت ابھی دیدار کے بیچ
جی لیے ان نے ہزاروں کے یوں ہی پیار کے بیچ
ہر گام پر تلف ہوئے آب رواں کی طرح
بھر نہ آویں کیونکے آنکھیں میری پیمانے کی طرح
پہ تیرے دونوں لبوں کا بھی کیا ہی رنگ ہے شوخ
آنکھوں میں یوں ہماری عالم سیاہ تا چند
چاک ہے دل انار کے مانند
آوے گی بہت ہم بھی فقیروں کی صدا یاد
اڑا کیے مرے پرکالۂ جگر صیاد
بگڑے تھے کچھ سنور گئے شاید
سو پھر بگڑی پہلی ہی صحبت کے بعد
لاتا ہے تازہ آفت تو ہر زماں زمیں پر
اب ہو گئے ہیں آخر بیمار تیری خاطر
کہیو ہم صحرانوردوں کا تمامی حال زار
رکھے نہ تم نے کان ٹک اس داستان پر
اطفال شہر لائے ہیں آفت جہان پر
غمزے ہیں بلا ان کو نہ سنکار دیا کر
بے لطفیاں کرو ہو یہ تس پر غضب ہے اور
جاتی ہیں یوں ہی ناداں جانیں ترس ترس کر
کیا سر میں خاک ڈالتی ہے اب ہوا کچھ اور
جی لگ رہا ہے خار و خس آشیاں کی اور
مگر اور تھے تب ہوئے ہو اب اور
تصدیع کھینچی ہم نے یہ کام اختیار کر
گئی کل ٹوٹ میرے پائوں کی زنجیر بھی آخر
آئو بھلا کبھو تو سو جائو زبان کر
کہہ اے نسیم صبح گلستاں کی کیا خبر
لاگو ہو میرے جی کا اتنی ہی دوستی کر
غنچہ ہے وہ لگی نہیں اس کو ہوا ہنوز
کوچہ کوئی کوئی ہے چمن زار سا ہنوز
آئو کہیں کہ رہتے ہیں رفتہ تمام روز
رہے خنجر ستم ہی کے گلو پاس
تو بھی ٹک آن کھڑا ہوجو گنہگار کے پاس
رہتی ہے آرسی ہی دھری خودنما کے پاس
یا اب پھٹک نہیں ہے کہیں ان کے آس پاس
رہتی ایک آدھ دن بہار اے کاش
یک جان و صد تمنا یک دل ہزار خواہش
کیا جانیے کہ کیا ہے یارو خدا کی خواہش
خوبی رہا کرے ہے مری جان کیا ہمیش
اول گام ترک سر ہے شرط
ہوتا تھا اگلے لوگوں میں بھی باہم اختلاط
ہو خجل ایسی کہ منھ اپنا نہ پھر دکھلائے شمع
یعنی اس آتش کے پرکالے سے شرماتی ہے شمع
کڑھیے کب تک نہ ہو بلا سے نفع
باقی نہیں ہے چھاتی میں اپنی تو جاے داغ
جاتا ہے صید آپ سے اس دام کی طرف
اک جھمکے میں کہاں پھر صبر و قرار عاشق
جان کا روگ ہے بلا ہے عشق
جاتی نہیں ہے اشک کی رخسار کے ڈھلک
پاس جاتا ہوں تو کہتا ہے کہ بیٹھو دور ٹک
آتی نہیں ہے تو بھی شکایت زباں تلک
تنہائی ایک ہے سو ہے اس کے ستم شریک
دل جلا کوئی ہو گیا کیا خاک
موجزن برسوں سے ہے دریا ہے چشم گریہ ناک
جی رندھ گیا ہے ظالم اب رحم کر کہاں تک
نہ پہنچا کبھو ہاتھ اس کی کمر تک
حالانکہ رفتنی ہیں سب اس کارواں کے لوگ
اک سارے تن بدن میں مرے پھک رہی ہے آگ
کچھ اور صبح دم سے ہوا ہے ہوا کا رنگ
بہت اس طرف کو تو جاتے ہیں لوگ
یار اگر ہے اہل تو ہے کام سہل
دیکھی نہ بے ستوں میں زور آزمائی دل
اب جو کھلا سو جیسے گل بے بہار دل
کہاں تک خاک میں میں تو گیا مل
عشق کی مے سے چھک رہے ہیں ہم
نکلے پردے سے کیا خدا معلوم
یہی سبب ہے جو کھائی ہے میں دوا کی قسم
اے ابر تر آکر ٹک ایدھر بھی برس ظالم
بے وجہ غضب رہنے کا پوچھیں جو سبب ہم
دفتر لکھے گئے نہ ہوا پر سخن تمام
مہندی لگی قدم سے ہوئے پائمال ہم
کاشکے پردے ہی میں بولو تم
جیے ہیں خدا ہی کی قدرت سے ہم
یہ درد اب کہیں گے کسو شانہ بیں سے ہم
چپکے تم سنتے ہو بیٹھے اسے کیا کہتے ہیں
جن کے نشاں تھے فیلوں پر ان کا نشاں نہیں
وہی اک جنس ہے اس کارواں میں
گہر پہنچا بہم آب بقا میں
کپڑے اتارے ان نے سر کھینچے ہم کفن میں
ان نے جو اس طول سے کھینچا پریشانی کے تیں
بیماریوں میں جیسے بدلتے ہیں گھر کے تیں
پھر جو یاد آتا ہے وہ چپکا سا رہ جاتا ہوں میں
نامے کا اس کی مہر سے اب نام بھی نہیں
کیا لہو اپنا پیا تب یہ ہنر آیا ہمیں
جیسے ماہی ہے مجھے سیر و سفر پانی میں
گرچہ ہوتے ہیں بہت خوف و خطر پانی میں
کہ مل جاتا ہے ان جوئوں کا پانی بحر رحمت میں
دل تو کچھ دھنسکا ہی جاتا ہے کروں سو کیا کروں
تڑپا ہزار نوبت دل ایک ایک دم میں
اس سے آنکھیں لگیں تو خواب کہاں
اب دو تو جام خالی ہی دو میں نشے میں ہوں
ایک رہتا ایک کھوتے عشق میں
خوبرو کس کی بات مانے ہیں
پگڑی جامے بکے جس کے لیے بازاروں میں
بہت پرہیز کر ہم سے ہمیں بیمار کرتے ہیں
یارب یہ آسمان بھی مل جائے خاک میں
لیلیٰ کا ایک ناقہ سو کس قطار میں یاں
الا کھینچ بغل میں تجھ کو دیر تلک ہم پیار کریں
لے گئے پیش فلک اس مہ کا ایسا رو کہاں
بھاگوں ہوں دور سب سے میں کس کا آشنا ہوں
کیا جانیے کدھر کو گیا کچھ خبر نہیں
ہم لوگ تیرے اوپر سو جی سے مر رہے ہیں
جی چاہتا ہے جا کے کسو اور مر رہیں
دیوانے کو جو خط لکھوں بتلائو کیا لکھوں
رہتی ہے میرے خلق کے تلوار درمیاں
ایک عالم میں ہیں ہم وے پہ جدا رہتے ہیں
دل کہاں وقت کہاں عمر کہاں یار کہاں
سو سو کہیں تونے مجھے منھ پر نہ لایا ایک میں
پہ جوش دل میں کبھو آگیا تو طوفاں ہیں
عاشقی میں بلائیں کیا کیا ہیں
پلک سے پلک آشنا ہی نہیں
بدوضع یاں کے لڑکے کیا خوش معاملے ہیں
بہت ان نے ڈھونڈا نہ پایا ہمیں
رہا دیکھ اپنا پرایا ہمیں
یہ دوانہ بائولا عاقل ہے میاں
سو لطف کیوں نہ جمع ہوں اس میں مزہ نہیں
چھاتیاں سلگیں ہیں ایسی کہ جلے جاتے ہیں
کھو گئے دنیا سے تم ہو اور اب دنیا ہو میاں
اس آتش خاموش کا ہے شور جہاں میں
کاہے کو یوں کھڑے ہو وحشی سے بیٹھ جائو
نہ ہو گلچین باغ حسن ظالم زرد ہو گا تو
برہم زدہ شہر ہے جہاں تو
کس قدر مغرور ہے اللہ تو
تھا ہمارا بھی چمن میں اے صبا مسکن کبھو
کیا ہے جھمک کفک کی رنگ حنا تو دیکھو
کیا کہیں جو کچھ کہ ہو تم خوب ہو
درمیاں تو ہو سامنے گل ہو
ابھی کیا جانیے یاں کیا سماں ہو
پھر برسوں تئیں پیارے جی سے نہیں جاتے ہو
ایسا نہ ہو کہ کام ہی اس کا اخیر ہو
سو تب تلک کہ مجھ کو ہجراں سے تیرے خو ہو
جی میں ہم نے یہ کیا ہے اب مقرر ہو سو ہو
بے رحمی اتنی عیب نہیں بے وفا نہ ہو
کہ پھر موئے ہی بنے ہے اگر جدائی ہو
وہ چاند سا جو نکلے تو رفع حجاب ہو
آخر ہوئی کہانی مری تم بھی سو رہو
پر ہے یہی ہمارے کیے کی سزا کہو
اس کنے بیٹھنے پائو تو مباہات کرو
گل پھول دیکھنے کو بھی ٹک اٹھ چلا کرو
قدرت سے اس کے دل کی کل پھیر دے ادھر کو
مجلس میں بہت وجد کی حالت رہی سب کو
کہ افشاں کیجے خون اپنے سے اس کے دامن زیں کو
دینا تھا تنک رحم بھی بیدادگروں کو
محل شکر ہے آتا نہیں گلہ مجھ کو
صبح کی بائو سے لگ لگنے نہ دیتی گل کو
دو باتیں گر لکھوں میں دل کو ٹک اک لگالو
سانپ سا چھاتی پہ پھر جاتا ہے آہ
اس چال پر چلے گی تلوار رفتہ رفتہ
مانند برق ہیں یاں وے لوگ جستہ جستہ
گویا کہ ہیں یہ لڑکے پیر زمانہ دیدہ
رہتا ہے آب دیدہ یاں تا گلے ہمیشہ
چاہ وہ ہے جو ہو نباہ کے ساتھ
کج طبیعت جو مخالف ہیں انھوں سے جا سمجھ
ہے مزاجوں میں اپنے سودا کچھ
صورت اک اعتبار سا ہے کچھ
جاں بہ لب رہتے ہیں پر کہتے نہیں ہیں حال کچھ
ہم تک نہیں پہنچتی گل کی خبر عطر کچھ
ایک دل قطرئہ خوں تس پہ جفا کیا کیا کی
دھوم ہے پھر بہار آنے کی
اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی
اس تختے نے بھی اب کے قیامت بہار کی
سر ہمارے ہیں گوے میداں کی
مارا خراب کر کر تعزیر کیا نکالی
کیا کہیے آج صبح عجب کچھ ہوا چلی
کیا ہی مست شراب ہے وہ بھی
اس لوٹتے دامن کو پاس آ کے اٹھانا بھی
دوستی مدعی جانی تھی
اس بے وفا کو ہم سے کچھ الفت نہیں رہی
آخر آخر جان دی یاروں نے یہ صحبت ہوئی
اب کے جو آئے سفر سے خوب مہمانی ہوئی
طرف ہے مجھ سے اب ساری خدائی
اللہ رے اثر سب کے تئیں رفتگی آئی
کاہشیں کیا کیا اٹھا جاتا ہے جی
کوئی دن ہی میں خاک سی یاں اڑا دی
آسماں کو سیاہ کر لیجے
چشم بیمار کے دیکھ آنے کی رخصت دیجے
منزل کو عاشق اپنے مقصد کی جا نہ پہنچے
حیرت سے ہم تو چپ ہیں کچھ تم بھی بولو پیارے
کیا کہہ کے تجھ کو روویں یہ کیا کیا پیارے
پھر جو دیکھا تو کچھ نہیں پیارے
پسند اس کی ہے وہ جس طرح پسند کرے
گاڑ دیویں کاش مجھ کو بیچ میں در کے ترے
ظاہر تو پاس بیٹھے ہیں پر ہیں بہت پرے
ہاتھ لگتے میلے ہوتے ہو لطافت ہائے رے
ہما کے آشیانے میں جلیں ہیں استخواں میرے
نہال سبز جھومے ہیں گلستاں میں شرابی سے
آئے ہیں پھر کے یارو اب کے خدا کے ہاں سے
گفتار اس کی کبر سے رفتار ناز سے
اثبات ہوا جرم محبت کا اسی سے
مانا ہے حضور اس کے چراغ سحری سے
کاہش مجھے جو ہے وہی ہوتی ہے شام سے
ابر کیا کیا اٹھے ہنگامے سے کیا کیا برسے
فراموش آپ کو کرنا محبت میں ہے یاد اس سے
یہی ہے طور اس کا ساتھ اپنے خورد سالی سے
واں میں بھی ہوں مدام شہادت کے واسطے
وحشت بہت تھی طاقت دل ہائے کھو چکے
کیا تمھیں یاں سے چلے جاتے ہو ہم بھی جاچکے
اس کی گلی کا ساکن ہرگز ادھر نہ جھانکے
دیکھا نہ تم نے ایدھر صرفے سے اک نظر کے
دل جو یہ ہے تو ہم آرام نہیں پانے کے
کیا کیا نہال دیکھتے یاں پائوں آ لگے
اس لیے دیکھ رہا ہے کہ مجھے آگ لگے
عاشق بے حال دونوں ہاتھ سے دل تھام لے
چلتے اس کوچے سے ہم پر سینکڑوں پتھر چلے
یا اب کی وے ادائیں جو دل سے آہ نکلے
عید سی ہوجائے اپنے ہاں لگے جو تو گلے
الفت سے محبت سے مل بیٹھنا کیا جانے
ہمیں کھو دیا ہے تری جستجو نے
جیسے چراغ کوئی مہتاب میں جلاوے
یا ابر کوئی آوے اور آ کے برس جاوے
مبادا عشق کی گرمی جگر میرا جلا دیوے
جو چاہنے والے کا ہر طور برا چاہے
جی رات دن جنھوں کے کھپیں ان میں کیا رہے
آخر کو پھوٹ پھوٹ بہے قہر کر رہے
سو یوں رہے کہ جیسے کوئی میہماں رہے
اور نہ تھی توفیق تمھیں تو بوسے کی ہمت رکھتے تھے
یہ جان سے گئے سب بیمار ایسے ہی تھے
اس خصم جاں کے در پر تکیہ بنا کے بیٹھے
جو چاہیں سو یوں کہہ لیں لوگ اپنی جگہ بیٹھے
گم کیا خود کے تیں خدا سمجھے
ہستی کے تئیں ہوتے عدم دیکھتے ہیں ہائے
کارواں جاتا رہا ہم ہائے سوتے رہ گئے
کیسے کیسے ہائے اپنے دیکھتے موسم گئے
سو ہی بات آئی اٹھے اس پاس سے جاں سے گئے
ایک دن تہ کر بساط ناز جایا چاہیے
سو طرف جب دیکھ لیجے تب ٹک اودھر دیکھیے
دریا کا پھیر پایئے تیرا نہ پایئے
پیکر نازک کو تیرے کیونکے بر میں لایئے
زندگانی حیف ہے مر جایئے
بے دید و بے مروت و ناآشنا ہیں یے
جان کو کوئی کھائے جاتا ہے
خدا شاہد ہے اپنا تو کلیجا ٹوٹ جاتا ہے
کوئی ایسا ستم دنیا میں اے صیاد کرتا ہے
ایک سنّاہٹا گذر جا ہے
یا رنگ لالہ شوخ ترے رنگ پاں سا ہے
نہیں ہے دل کوئی دشمن بغل میں پالا ہے
اک آگ سی رہے ہے کیا جانیے کہ کیا ہے
جگر سب کھا گیا اب کیا رہا ہے
دخل عقل اس مقام میں کیا ہے
تب دل کے تئیں خوگر اندوہ کیا ہے
دل ساری رات جیسے کوئی ملا کیا ہے
دل ہاتھ جو نہ آوے اس کا خیال کیا ہے
رنج و حرماں کی یہ بدایت ہے
آنکھیں اگر یہی ہیں تو دریا بھی گرد ہے
پر جانیں جو گئی ہیں سو رہ پر غبار ہے
جوانی دوانی ہے مشہور ہے
یاں تلف ہوتا ہے عالم واں سو عالم اور ہے
چاک دل پلکوں سے مت سی کہ رفو نازک ہے
بے خود ہیں اس کی آنکھیں ان کو خبر کہاں ہے
اس میں بھی جو سوچیے سخن ہے
ہشیاری کے برابر کوئی نشہ نہیں ہے
کیا بدن کا رنگ ہے تہ جس کی پیراہن پہ ہے
کہ شکل صبح مری سب کو بھول جاتی ہے
سپاس ایزد کے کرجن نے کہ یہ ڈالی نوادی ہے
وہ طبع تو نازک ہے کہانی یہ بڑی ہے
ہر شاخ گل چمن میں بھیچک ہوئی کھڑی ہے
سدھ اپنی نہیں ہم کو کچھ تم کو خبر بھی ہے
ہم نے کیا چوٹ دل پہ کھائی ہے
شرم انکھڑیوں میں جس کی عیاری ہو گئی ہے
کبھو قدرداں عشق پیدا کرے ہے
گاہے بکا کرے ہے گاہے دعا کرے ہے
کیا کہوں میں آہ مجھ کو کام کس پتھر سے ہے
کاہش اک روز مجھ کو شام سے ہے
جیسے لوں چلتی مرے منھ سے ہوا نکلے ہے
پردے میں چشم ڈھکنے دیوار و در بنے ہے