
حیاتیات
حیاتیات
عبدالرحمن نقاش
۱۔ کیا نظر یہ ارتقا ناممکن ہے ؟
۲۔ سالماتی اکائیوں کے جڑائو کاعمل
قبل ازحیات، ارضی ماحول میں حیاتیاتی خطے کے اجزاء ے ترکیبی کے مشکل ہونے کے سلسلے میں ایسی مشکلات اور پیچیدگیاں مزید محنت اور تحقیق و مطالعے کاتقاضا کرتی ہیں ۔ حیاتیات کے فاسفا ئیڈز کے اجزائے ترکیبی میں بنیادی حیثیت رکھنے والے چربی کے تیزابوں کے سلسلوں میں بھی تجربے نے ثابت کیا ہے کہ ان کا قبل از حیات ماحول پیدا ہونا کافی مشکل تھا ۔ چربی بنانے والے تیزابوں کے قبل ازحیات طبعی ماحول میں تشکیل پانے کی راہ میں جور کاوٹیں نظر آئی ہیں۔ انہوں نے اس نظرئیے کو مزید تقویت پہنچائی ہے کہ نباتاتی وحیوانی خلیوں میں موجودجدید جھلیوں کا اضافہ ارتقاء کے کسی بہت ہی ترقی یافتہ مرحلے پر پہنچنے کے بعد ہوا ہے ۔ سائنس دانوں کا قیاس ہے کہ زندگی کی اوائلی اشکال میںجب تک نامیاتی اجزاء کو جوڑ کر موجودہ حیاتیاتی ڈور میں پائے جانے والے عام فاسفیٹائیڈبنانے کی استعداد پیدا نہیں ہوئی تھی ۔ تب یہ جان دار اپنی اوائیلی جھلیوں کی تشکیل کے لئے چربی کے تیزابوں کی مختلف خام قسموں سے یاد یگر مناسب مالیکیو لز کو استعمال کر تے تھے ۔
قبل از حیات کرہ ارض کے ماحول میں اہم نامیاتی مالیکیولز کے جڑنے کے امکانات پر بات کرنے سے مسئلہ صرف جزوی طورپر حل ہوتا ہے ۔ اس کا ایک اور اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ایک خاص قسم کی مرکزیت پیدا کرنے کے لئے اہم نامیاتی مالیکیولز کو اکٹھا ہونا تھا ۔ اوائلی سمندروں میں نامیاتی مالیکیولز کے جمع ہوکر مر کوزیت اختیار کر نے کا دارومدار اس امر پر رہا ہے کہ ان میں مر کو زیت کی شرح کیا تھی اور انتشار کس حساب سے ہو رہا تھا ۔ چونکہ ان کے باہم جڑنے اور مر کو ز ہونے کی شرحیں محدود تھیں کیونکہ اس عمل میںانہیں توانائی کے دستیاب وسائل پر ہی انحصار کرنا تھا اسلئے فقط ایسے مالیکیول آپس میں جڑتے اور مرکوز ہوتے رہے، جن کا عرصہ حیات نسبتا طویل تھا ۔ نامیاتی مادے کے بعض مالیکیول اپنی ساخت کے اعتبار سے قلیل العمر واقع ہوئے تھے ۔ اس لئے جب بھی ان پر فطرت کی مختلف بے رحم قوتوں کا دبائوپڑتاوہ شکست و ریخت کا شکار ہوجاتے اور ان کے ترکیبی عناصر ایک دوسرے سے دور چلے جاتے ہیں جبکہ بعض مالیکیول دستیاب توانائی کو بروئے کار لاتے ہوئے نامساعد حالات میںاپنے وجود کو کافی طول دینے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ امائنوا یسڈز کی جو قسمیں زیادہ بہتات میں پائی جاتی ہیں ان پر جب قبل از حیات ار تباط کے تجربے کئے گئے تو یہ حیرت انگیز حقیقت سامنے آئی کہ ان کے اجزئے ترکیبی میں شامل مالیکیولز کا بیشتر حصہ ایسی کیمیاوی اکائیوں پر مشتمل ہے جن کی کم و بیش نصف تعداد کو ٹوٹنے اور بکھرنے میںکوئی دسیوں ہزار سال سے لے کر ارب ہا سال لگ جاتے ہیں۔ امائنوا یسڈز کے مالیکیولز کے عرصہ حیات کے متعلق اسی انکشاف کی اطلاع پیورین ، پر یمیڈائین اور چربی پیدا کرنے والے تیزابوں کے مالیکیولز پر بھی ہوتا ہے ۔
ریبوز کا سالمہ (مالیکیول) اپنی ساخت کے اعتبار سے غیر مستحکم ہوتا ہے اس کی یہ صورت حال ماہرین کے لئے ایک سنگین مسئلہ پیدا کرتی ہے کیونکہ ان کا خیال ہے کہ قبل ازحیات کرہ ارض کے اوائلی سمندر میںپانی کے ساتھ تعلق میں آتے ہی ہائیڈرو لیز کے کیمیاوی عمل کے نتیجے میں ریبوز کا پیچیدہ سالمہ بکھر جا تا ہوگا اور اس کو بنانے والے اجزائے ترکیبی ایک دوسرے سے دور ہو جاتے ہوں گے ۔ تاہم ریبوز کے پیچیدہ سالمے کو جب پیوری یا پیر یمیڈائین کی کیمیاوی بنیاد فراہم ہو جاتی ہے تو اس کے استحکام میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔ ہم اس سے قبل بتاچکے ہیں کہ جس سالمہ کا عرصہ حیات زیادہ ہوگا، وہ پیچدہ ترکیمیاوی مرکبات کے جزو ترکیبی بننے کے بہتر امکانات کا حامل ہوگا لہذا سائنس دان اس امر سے مطمئن ہوئے کہ مذکورہ بالا مستحکم کیمیاوی بنیاد کی موجودگی میں اگر نیو کلیو سائیڈ ز اور نیو کلیو ٹائیڈز کے بننے کاعمل کسی طرح مصنوعی طور پر دہرایا جاسکے تور یبو ز کا خود مختار سالمہ اس سلسلے میں کسی حقیقی دشواری کا سبب نہیں بنے گا۔
نظریہ ارتقاء کی تائید میں دئیے جانے والے مضبوط دلائل اور اسے سوفیصد درست ثابت کرنے کیلئے مطلوبہ معلومات کی تشنگی سے قطع نظر سچ تو یہ ہے کہ قبل از حیات کیمیا پر ہماری عصری معلومات مسرت اور اطمینان کا باعث ہے بلاشبہ ارتقائیت پسندوں خواہ ان کے مخالفین کو ان متعد د مشکلات کا بخوبی علم ہے جن کے علم نے یہاں نشان دہی کی ہے یا جنہیں طوالت کے خوف سے ہم نظر انداز کرنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ان مشکلات کے سلسلے میں ارتقائیت پسند عام طور پر پر امید ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ قبل ازحیات کرہ ارض پر غیر نامیاتی مادے سے نامیاتی مادے اور آگے چل کر زندگی کی اوائلی اشکال تشکیل کو سمجھنے کی راہ میں جور کاوٹیں ابھی تک پار نہیں کی جا سکیں وہ بنیادی طور پر کیمیاوی نوعیت کی ہیں اور یہ آئندہ تجربات کے نتیجے میں حل ہوجائیں گے۔ ایسا ہونے کے بعد نظریہ ارتقاء کو جھٹلانے کا تصور بھی نہیںکیا جا سکے گا ۔ دوسری جانب ارتقاء کو جھٹلانے والے ان مسائل کو ناقابل حل قرار دیتے ہوئے انہیںنظریہ ارتقا کی شدید کمزوری کی واضح دلیلیں تصورکر تے ہیں ۔ حیات کے آغاز کی ایک دوسرے سے بالکل برعکس تاویل کرنے والے کے درمیان اختلاف رائے زیادہ تر اس عمل پر ہوتا ہے ۔ جو علم کیمیا کی زبان میں ـ’’ پالی مرائیز یشن‘‘ کہلاتا ہے ۔ یعنی مختلف مضرواتی ٹیموں کے جڑنے سے بننے والی سالماتی اکائیوں کاباہم مربوط ہوکر پیچیدہ سالموں کی تشکیل کرنا ،اس متنازعہ کیمیاوی عمل کے تفصیلی مضمرات کاہم اس کے بعد ذکر کریں گے ۔
ارتقاء کے اکثر مخالفین دعویٰ کرتے ہیں کہ مذکورہ بالا سائنسی دشواریاں حیات کے ارتقائی آغاز کو ناممکن ثابت کرتی ہیں اور اس بناء پر نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ حیات کاآغاز کسی مافوق الفطر ت طریقہ سے ہوا ہے۔ ان دعوئوں کو منطقی بنیادپر ردکیا جاسکتا ہے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ’’ دشوار ‘‘ اور ’’ ناممکن ‘‘ دو الگ الگ صفات ہیں انہیں آپس میں خلط ملط نہیں کرنا چاہئے ۔ دوسری بات یہ کہ اگر بالفرض کل کلاں کسی نہ کسی طرح یہ بات ناقابل تردید حد تک ثابت بھی ہوجائے کہ زمین پر حیات کا آغاز، ارتقاء کے عمل کے نتیجے میں نہیں ہوا تھا تو بھی اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہوگا کہ اس کے برعکس نظریہ درست ثابت ہوگیا اور اسے اپنی صداقت ثابت کرنے کے لئے مزید کسی دلیل کی ضرورت نہیں رہے گی اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نظریہء ارتقاء اور حیات کے مافوق الفطرت آغاز کے تصور کے علاوہ بھی کچھ اور متبادل ہیں جن کا ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں مثلا یہ دل چسپ نظریہ کہ ہمارے نظام شمسی سے باہر کسی اور سیارے پرپائے جانے والی ذہین مخلوق نے حیات کے اوائلی بیج زمین کی فضا میں چھڑک دئیے ہوں اور ان سے بعد ازاں حیات اپنی مکمل شکل میں تشکیل پائی ہو۔ صاف ظاہر ہے کہ اگر کسی طرح ارتقاء غلط ثابت ہوجاتا ہے تو اس سے اس نظریہ کے دیگر متبادل میں سے کوئی بھی ایک خود بخود ثابت نہیں ہو جائے گابلکہ اسے ثابت کرنا پڑے گا ۔ زندگی کے آغاز کی کوئی بھی توجیہہ اپنی ناقابل تردید سچائیوں کے بغیر سائنسی مشاہدات و تجربات کی سنگلاخ زمین میں جڑنہیں پکڑسکتی۔
سالماتی اکائیوں کے جڑائو کاعمل
اب ہم نامیاتی مادے کی سالماتی اکائیوں کے جڑنے کے عمل پر قدرے تفصیل کے ساتھ بحث کریں گے تاکہ سب سے بڑے سائنسی ’’ اختلاف ‘‘ پر نظریہء ارتقاء کا تائید ی موقف مزید واضح ہوسکے۔ امائنوا یسڈز، بائیو کلو ٹائیڈز کے زنجیروںکی شکل میں جڑنے یا آپ یوں کہہ لیں کہ خلیہ کے اندرونی مرکزے کی تشکیل کے لئے مطلوب فاسفوٹائیڈ بلاکوں کے بننے کے عمل کے دوران کیمیاوی ارتباط کے ہر مرحلے پر پانی کے ایک ایک مالیکیول کا ناپید ہوتا چلا جا نا ضروری ہوتا ہے ۔ کیمیادان اس رد عمل کے دوران پانی کے کھپنے کا مفہوم واضح کرنے کے لئے اسے سوکھنا کہتے ہیں۔ پانی کے حامل ماحول میں سالماتی اکائیوں کے جڑنے کے عمل کو اضافی توانائی مطلوب ہوتی ہے ۔ اس لئے پانی والا ماحول اس کے حصول میں حائل اس رکاوٹ کو عبور کرنے کے لئے اپنے سالموں میں سے ایک کو فزوں تر توانائی کی حامل حالت میں لے آتاہے تاکہ سالموں کو جوڑنے والے اصل ردعمل کے لئے صورتحال ساز گار ہوجائے ۔یہ اس طرح کہ نیو کلک ایسڈ کی زنجیروں کی تعمیر کے دوران ان میں جوڑی جانیو الی ہرنئی سالماتی اکائی کی حرکت و سرگرمی میں اس قدر اضافہ کیا جاتا ہے کہ وہ توانائی کے اعلیٰ درجے کے حامل ٹرائی فاسفیٹ سالمے کی صورت اختیار کر لیتی ہے ۔ زنجیر میں شامل ہونے پر اس اکائی کے فاسفیٹ گروپوں میں سے ٹوٹ کر علیحدہ ہوجاتے ہیں جس کے نتیجے میںاتنی توانائی پیدا ہوجاتی ہے جو اس ردعمل کو تکمیل تک پہنچانے کے لئے کافی ہوتی ہے۔ سائنس دانوں کا قیاس ہے کہ فطرت کی اس سے ملتی جلتی حکمت عملی حیات کے نمودار ہونے سے پہلے کے ایسے کیمیاوی رداعمال میں کار فرمارہی ہوگی جو سالماتی اکائیوں کو کثیر ایسا سالماتی وجودوں( poly mers) میںبدلنے کی غرض سے زمین کے اوائلی ماحول میں ہو رہی تھی ۔ اوائلی کرہ ارض پر بنیادی نامیاتی مادے کی جملہ مقدار یقینا بہت زیادہ رہی ہوگی ۔ اس وقت روئے زمین پر کاربن کی حامل چٹانوں ،کوئلے اور تیل وغیرہ کی صورت میںجتنا کاربن موجود ہے اسے اگر زمانہ قبل از حیات کے سمندر اور جھیلوں میں تقسیم کر کے اس کا محلول بنایا جائے تو یہ پانی خالص شہد کی طرح گاڑھا ہو جائے گا یہی کاربن ہے جس سے نامیاتی مرکبات کی لاتعداد شکلیں وجود میں آئی ہیں ۔ ان نامیاتی مرکبات کو کثیر السالماتی ترکیب میں ڈھلنے کے لئے ایک خاص حد تک مرکوز ہونا پڑا ہوگا اور ایسی مرکوزیت کا کوئی نہ کوئی فطری طریقہ اس وقت کے مادے میں کار فرمارہا ہوگا اس کے لئے کئی طریقوں کو ممکن تصور کیا جاتا ہے ۔ مثلا پانی کا بھاپ بن کر اڑنا اور کیمیاوی اجزاء کے سالموں کا ایک دوسرے کے مزید قریب ہوتے چلا جانا ، سطح زمین میں پانی کا جذب ہونا اور دوسرے کیمیاوی مرکبات کا سردی سے منجمد ہونا وغیرہ حالانکہ کثیر السالماتی ترکیب کے لئے ممکنہ طور پر ہونے والے ان فطری اعمال میں سے کسی پر باقاعدہ اور مکمل تجربے ابھی تک نہیں کئے جا سکے ہیں ۔ تاہم بعض جگہوں پر سطح زمین کی مٹی کے تجزیہ سے ایسی قبل از حیات ،فطری سرگرمیوں کی علامات ملی ہیں۔ مذکورہ بالا ممکنہ فطری عوامل کے علاوہ ایک اور متبادل یہ نظر آیا ہے کہ ایک دوسرے کے ساتھ ملے ہوئے خشک کیمیاوی مرکبات کی خام صورتوں کو جب حرارت فراہم ہو رہی ہو تو ان کے سالمے مخصوص حرکت اور سر گرمی پیدا ہونے کے باعث کثیر السا لماتی ساختوں میں تبدیل ہوئے ہوں۔ لیبارٹری میں کئے گئے تجربات کے ذریعے اس قسم کا طبعی ماحول مصنوعی طور پر پیدا کر کے چھوٹے نیو کلیو ٹائیڈز کی مختصرسی زنجیر یں اور امائینو ایسڈز کی لمبی زنجیریں بنانے میں کامیابی ہوئی ہے جس سے ایک حد تک یہ مفروضہ درست ثابت ہوا ہے ۔ خاص طور پر حیاتیاتی کیمیا کے ممتاز ماہر ایس ڈبلیو فوکس نے حرارت کے ذریعے کثیر السالماتی ترکیب کو ممکن بنا کر امائنو ایسڈز کی لمبی زنجیروں سے تشکیل پانے والے پرو ٹین بنانے کا کامیاب تجربہ کیا۔ جب خشک امائنو ایسڈز کو آپس میں ملاکر ایسے تجربات میں استعمال کیا جاتا ہے تو ایسے پرو ٹین خاصی مقدار میں پیدا ہوجاتے ہیں ۔اس تمام تر تجرباتی کامیابی کے باوجود قبل از حیات کیمیا میںحرارت کے ذریعے کثیر السالماتی ساختوں کی تشکیل کا مفروضہ ابھی سوالات اور تشکیل کی زد سے باہر نہیں نکل سکا کیونکہ قبل از حیات کرہ ارض کے حالات پر ہماری معلومات ہمیں بتاتی ہیں کہ دھرتی پر حرارت کے ذریعے کثیر السالماتی ساختوں کے بننے کے لئے ساز گار و قوع بہت ہی کم تعداد میںموجود تھے۔ ہمارے ایک بیان سے قاری پر یہ بات خود بخود عیاں ہوگئی کہ نظریہ کے مطابق حیات کثیر السا لماتی کیمیاوی ترکیب کے فطری نظام پر کسی متفقہ رائے کے ابھی تک موجود نہ ہوسکنے سے اس نظریہ میں ایک خلاء ہے جسے پر کرنے کے لئے یقینامزید تجربات اور جستجو درکار ہو گی۔