
اسلام
اسلام
ابتدائی تاریخ:۔
حضرت ابراہیم کے دو فرزند تھے حضرت اسحاق اور حضرت اسماعیل ؑ ، اول الذکر کی اولاد بنی اسرائیل کہلائی اور اس میں مسلسل انبیاءآتے رہے مصر اور ارضِ فلسطین ، کنعان وغیرہ علاقوں میں یہ انبیائے کرام آئے ، ثانی الذکر جناب اسماعیل ؑ مکہ میں آباد ہوئے یہاں حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ نے مل کر بیت اللہ کی تعمیر کی جسے کعبہ شریف کہتے ہیں اور یہاں ۱۷۵ عیسوی میں قریش مکہ کے ایک مقتدر قبیلہ بنی ہاشم کے ایک فرد حضرت عبداللہ کی شادی ” یثرب “ میں آباد ایک خاندان کی خاتون حضرت آمنہ سے ہوئی ۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد ھضرت عبداللہ فوت ہوگئے اس وقت حضرت آمنہ حاملہ تھیں ان کے بطن سے جو بچہ پیدا ہوا دادا جناب عبدالمطلب نے اس کانا ” محمد “ رکھا ، حضرت محمد چھ سال کے تھے کہ ان کی والدہ بھی فوت ہوگئیں اور آپ کی کفالت کی ذمہ داری آپ کے دادا نے سنبھالی ، جب وہ بھی فوت ہوگئے تو آپ کو آپ کے چچا حضرت ابو طالب نے اپنی تحویل میں لے لیا ۔ جب عمر بیس سال سے اوپر ہوئی تو مکہ کی ایک معزز اور صاحبِ ثروت خاتون حضرت خدیجہ سے ہوگئی وہ ایک مالدار بیوہ تھیں تجارت پیشہ تھیں اور کارندوں کے ذریعہ تجارت کر تی تھیں ابتداءمیں حضرت محمد نے انکی تجارت کا کام سنبھالا حضر ت خدیجہ آپ کے بے انتہا دیا نتداری اور حسن ِ اخلاق سے متاثر ہوئیں اور انہیں شادی کی پیش کش کی شادی ہوگئی روایات کے مطابق شادی کے وقت آپ کی عمر ۵۲ سال تھی اور حضرت خدیجہ چالیس سال کی تھیں ۔ حضرت محمد ابتداءسے ہی معاشر ہ میں اپنے کر دار کے لحاظ سے اجنبی تھے معاشرہ شراب ، جوا اور دیگر بداعمالیوں میں ڈوبا ہوا تھا جبکہ آپ کو کبھی ذرا سی برائی کے ارتکا ب کا خیال بھی نہیں آیا آپ کا بچپن لڑکپن اور جوانی انتہائی پاکبازی میں گزری آپ شروع سے ہی اپنے معاشرہ میں صادق اور امین کے لقب سے مشہور تھے اکثر کھانے پینے کا سامان لے کر ” غار حرا “ مین جاکر کائنات کے نظام پر غور و فکر کرتے شرک معاشرہ میں رچابسا تھا لوگ بت پر ست تھے کعبہ میں بہت رکھے ہوئے تھے مگر آپ بت پرستی سے نفر ت کر تے تھے اور شرکیہ اعمال و افعال سے دور رہے تھے غارِ حراءکی تنہائیوں میں فرشتہ جبریل آپ کے پاس اللہ کا پیغام لے کر آیا اور آپ کو بتایا گیا کہ آپ اللہ کے رسول ہیں اور آپ کا فریضہ اسلام کی تبلیغ میں پہلی بات توحید تھی آپ نے جو نہی توحید کی آواز بلند کی سارے لوگ آپ کے مخالف ہوگئے مگر آپ کی زوجہ حضرت خدیجہ آپ کی خدمت کر نیوالا لڑکا حضرت زید، آپ کا چچیر ا نو عمر بھائی حضرت علی اور آپ کے قریبی دوست حضرت صدیق وہ لوگ تھے جو سب سے پہلے آپ پر ایمان لے آئے اس کے بعد آپ نے تبلیغ جاری رکھی اور مشرکین مِکہ نے آپ پر اور آپ کے متبعین پر ظلم جاری رکھے مسلمانوں کی تعداد آہستہ آہستہ بڑھنے لگی اور مشرکین کا ظلم بھی پر تشدد اور ہو لناک ہوتا گیا اسلام قبول کر نے والے بھی سختیوں کا نشانہ بننے رہے ان پر مصائب کے پہاڑ توڑے گئے مگر ایک دفعہ مسلمان ہوگیا اس نے موت تو قبول کر لی مگر اسلام سے واپس کفر کی طرف لوٹنا قبول نہ کیا خود آپ پر سختیاں بھی کی گئیں اور ترغیب و تحریص بھی دی گئی مگر آپ نے برملاکہ دیا ” اگر یہ لوگ میرے ایک ہا تھ پر سورج اور دوسرے ہا تھ پر چاند بھی لا کر رکھ دیں تو بھی میں دعوتِ حق اور تبلیغ اسلام سے باز نہیں آﺅنگا کفارنے آپ کو لواحقین اور بعض رفقاءسمیت ابی طالب میں محصور رکر دیا جہا ں پوری طرح نگرانی کی گئی کہ محصورین کو کھانے پینے کا سامان نہ ملے ۔ محصورین بڑی تنگی کی حالت میں درختوں کے پتے تک کھاتے رہے تقریباً تین سال تک محاصرہ جاری رہا اور پھر بعض نیک دل لوگون کی ضد پر محاصر ہ اٹھایا گیا ۔ آپ نے تبلیغ جاری رکھی اسی دوران یثرب کے کچھ لوگ آکر مسلمان ہوئے انکی رپورٹ کے مطابق ”یثرب “ میں اشاعت ِ اسلام کے امکانات روشن تھے چنانچہ مسلمان اور آپ خود ہجرت کر کے یثرب پہنچ گئے اور اس شہر میں اسلامی ریاست قائم ہوگئی یثر ب کے معنی مصیبت اور تکلیف تھے آپ نے اس شہر کانام مدینہ النبی (نبی کا شہر) رکھا اور اسے یثرب کہنے سے منع کر دیا مشرکین مکہ نے یہاں بھی آپ کو چین سے نہ رہنے دیا اور حملہ آور ہوتے رہے پہلی جنگ جو غزوہ ئِ بدر کے نام سے معروف ہے مسلمانوں نے انتہائی بے سروسامانی کی حالت میں لڑ ی مگر فتح حاصل کی آہستہ آہستہ مسلمانوں کی تعداد بڑھتی گئی ، خوش لی آتی گئی اب آپ اس قابل تھے کہ مکہ فتح کر کے دشمنوں کا فتنہ ختم کردیں چنانچہ فتحِ مکہ حاصل ہوئی اور جزیرة العب میں ہر طرف اسلام کا علم لہرانے لگا آپ کا کام مکمل ہوچکا تھا اللہ نے آپ کو بلالیا مسلمانوں کی حکومت قائم ہو چکی تھی مسلمانوں کا دورِ عروض شروع ہوگیا تھا فتوحات پر فتوحات ہونے لگیں اسلام ہندوستان ، جزیرہ سسلی اور اندلس تک پہنچ گیا ۔
قرآن اور اسلام :۔
حضرت محمد ﷺ پر قرآنِ حکیم ۳۲ سال تک تھوڑا تھوڑا کر کے نازل ہوتا رہا ۔ اسے مصحف کی صورت میں رکھا بھی جاتا رہا اور یہ لوگون کے سینوں میں بھی محفوظ ہوتا رہا اللہ نے قرآن میں وعدہ کیا کہ وہ خود اسکی حفاظت کر یگا اب یہ مصحف کی شکل میں بھی اور حافظ میں بھی محفوظ اور دنیا کے طول و عرض میںپھیلا ہو ا ہے ۔ قرآن کی تعبیر وتشریح کے سلسلہ میں حضرت محمد ﷺ وقتا ً فوقتاً جو باتیں ارشاد فرماتے رہے انہیں احادیث یا سنت کہا جا تا ہے اسے بھی لوگوں نے یاد رکھا اور پھر کتابی شکل میں محفوظ کر لیا حدیث کی مشہور اور صحیح ترین کتابیں چھ سمجھی جاتی ہیں اور اور انہیں ” صحاح ستہ “ کہتے ہیں صحاح ستہ یہ ہیں ۔
۱۔ صحیح بخاری
۲۔ صحیح مسلم
۳۔ ابن ماجہ
۴۔ ترندی
۵۔ ابوداﺅد
۶۔ ابوداﺅد
بعض نے مو¿ طاامام مالک کو بھی شامل کیا ہے ۔
بعض غلط اور اندیش لوگوں نے وضع ِ حدیث کا سلسلہ بھی شروع کر دیا تھا اس کے لئے مسلمانوں نے ” اسما ءالر جال “ کے نام سے ایک اور عظیم الشان اور تادر علم کی بنیادر کھی اس کے تحت حدیث روایت کر نے والے حضرات کے حالات بیان کئے گئے اور چھان پھٹک کی گئی کہ ان حضرت کا کردار کیسا تھا قابل اعتبار تھے یا نہیں اور پھر اس علم کو کام میں لاکر بتایا گیا کہ کونسی روایت کس حد تک قابل ِ اعتبار ہے ۔ ایسی کتابیں بھی لکھی گئیں جن میں وضعی روایات کو جمع کر دیا گیا تذکرة المو ضوعات اور مو ضوعات کبیر وغیرہ اسی طرح کی کتابیں ہیںمسلمان علماءنے قانون سازی کے لئے بھی اصول مقرر کئے ان کی فراست دیکھ رہی تھی کہ ہر زمانہ کے اپنے مسائل ہوتے ہیں قانون سازی کے سلسلہ میں پہلا اصول تویہ ہے کہ دلیل قرآن سے لے جائے اگر بالفرض اس میں نہیں ملتی تو سنت کو دیکھا جائے اگر بالکل نیا مسئلہ پیدا ہوا ہے اور قرآن و سنت سے اسکی رہنمائی نہیں ملتی تو اجتہاد کیا جائیگامگر مجتہد بہت بڑا عالم ہو متقی ہو اور قرآن و سنت کی روشنی میں قانون سازی کرے کوئی ایسی بات نہ کہے جو ان کے خلاف ہو ۔ مسلمانوں میں اس اجتہاد کو ” فقہ “ کہتے ہیں یوں تو بہت سے فقہاءہوئے لیکن مندرجہ ذیل فقہی مسالک زیادہ معروف ہیں۔
۱۔ فقہ حنفی :۔ امام ابو حنیفہ اور ان کے شاگردوں کی مرتب کر دہ ہے ۔
۲۔ فقہ جعفری :۔ امام جعفر صادق اور ان کے اصحاب کی مرتب کر دہ ہے ۔
۳۔ فقہ مالکی :۔ امام مدینہ امام مالک کی مرتب کر دہ ہے ۔
۴۔ فقہ شافعی :۔ امام شافعیؒ کی مرتب کر دہ ہے ۔
۵۔ فقہ حنبلی :۔ امام احمد ابن حنبل کی مرتب کر دہ ہے ۔
اسلام کی نمایاں تعلیمات:۔
اسلامی تعلیمات کا ایک نمایاں وصف تو یہ ہے کہ اس میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے انسان کو پیدا کیا اور یہ بتانے کے لئے کہ خدا کو کس قسم کی زندگی مطلوب ہے وقتاً فوقتاً انبیاءبھیجے یہ انبیاءہر قوم کی طرف بھیجے گئے ان سے کچھ کے اسمائے گرامی قرآنِ حکیم میں بیان ہوئے اور کچھ کے نام بیان نہیں ہوئے جن کے نام قرآن حکیم میں بیان ہوئے ان میں سے کسی ایک کا انکار بھی مسلمان کو دائرہ ئِ اسلام سے خارج کر دیتا ہے اور دوسرے جنہیں لوگ تو نبی اور رسول کہتے ہیں انکا ذکر قرآن میں نہیں آیا ان کے متعلق خاموش رہنا چاہئے تصدیق یا تکذیب نہیں کرنی چاہئے ۔
رواداری :۔
یہی وہ چیز ہے جسے رواداری TOLERATION کہا جاتا ہے اسلام نے رواداری سکھائی ہے اور رواداری کے سلسلہ میں یہاں تک گیا ہے کہ صاف کہہ دیا تم جھوٹے خداﺅں اور دوسروں کے پوجے جانے والے بتوں کو بھی برانہ کہو کہیں وہ چڑکر تمہارے سچے خدا کو بھی بُرا کہہ دیگا ۔ حضور اکر م ﷺ نے دوسرے مذاہب کے لوگوں سے انتہا مسالمت اور رواداری برتی ۔ بحران کے عیسائی راہبوں کا وفد ملنے آیا تو انہیں آپ نے مسجد نبوی میں ٹھہرا یا اور اپنے طریقہ کے مطابق عبادت کر نے کی اجازت دی۔
جہاد:۔
جہا د اسلام میں فرض ہے جہاد کے معنی کوشش اور جدو جہد ہیں سب سے پہلے جہاد اپنے نفس سے ہوتا ہے مطلب یہ ہے کہ اپنی ذات کو خدا کے احکام کا مطیع بنا یا جائے پھر جہاد قلم اور زبان کے ساتھ کہا جاتا ہے یعنی اسلام کی تبلیغ و اشاعت کے سلسلہ میں کوشش کی جائے جہاد مال کے ساتھ بھی ہوتا ہے یعنی مال کو فی سبیل اللہ خرچ کیا جائے لوگوں کی مدد کی جائے اشاعت اسلام سب مال خرچ کیا جائے ۔ جہاد کا آخری درجہ جہاد سیف ہے علمائے اسلام کہتے ہیں کہ تلوار دین کو منوانے اور اسلام کو تسلیم کر انے کے لئے اٹھانے کی اجازت نہیں قرآن کا صاف حکم ہے دین میں اکراہ اور جبر نہیں کسی کو بھی حق دین تسلیم کر نے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا ۔ اللہ نے حق اور باطل کو واضح کر دیا ہے نبی کوئی دار و غہ بنا کر نہیں بھیجا گیا اسلام صرف اس وقت تلوار اٹھانے کی اجازت دیتا ہے جب کوئی دوسرا حملہ آور ہو جائے اور دفاع مقصود ہو ۔
شرک سے ممانعت:۔
لوگ پتھر وغیرہ سے بنے ہوئے بتوں کو پوجتے ہیں یا اشیائے فطرت کو دریا ، آگ ، وغیرہ کے سجدے کرتے ہیں اسلام نے یہ تصور دیا کہ یہ سب کچھ انسان کی توہین اللہ نے انسان کو بحیثیت انسان واجب التکریم بنایا ہے اسے خدا کے سوا کس کے آگے سر نہیں جھکانا چاہیے کہ حتیٰ کہ انبیا ءکی پرستش نہیںکرنی چاہئے ان کا حکم صرف اس لئے مانا جاتا ہے کہ وہ اللہ کا حکم سنا رہے ہوتے ہیں اپنی ذاتی حیثیت سے اطاعت کرانے کا انہیں بھی حق نہیں دیوی دیوتا سارے تصورات باطل ہیں اللہ اپنے تمام کاموں کسی کا محتاج نہیں اس لئے صرف وہی عبارت کے لائق نہیں ۔
احترام آدمیت:۔
اسلام نے بتایا کہ آدمی کا احترام کیا جائے کسی کی عزتِ نفس کو مجروح نہ کیا جائے ہر ایک کے نازک جذبات کا خیال رکھا جائے ۔ ذات پات ، رنگ ، نسل ، وغیرہ کے سب امتیازات باطل ہیں سارے انسان برابر اور برابر احترام و تکریم مستحق ہیں۔
مدارج اعتبار عمل :۔
اسلام نے واضح طور پر بتایا کہ خدا کے نزدیک صرف تقویٰ اور حسنِ عمل ہی معیار فضیلت ہے ۔
عدل:۔
اسلام نے ہر حال میں عدل کا حکم دیا دشمن کے ساتھ بھی انصاف کیا جائے اور دوست کے ساتھ بھی ” کسی قوم کی دشمنی تمہیں اس پر آمادہ نہ کردے تم عدل کا دامن ہاتھ سے چھور بیٹھو نہیں عدل کرو ، ہر حال میں عدل ، عد ل کی راہ میں کوئی رو ک اور کوئی دیوار اسلام کو گوارا نہیں۔ عدل کے سلسلہ میں یہ نہیں دیکھا جائیگا کہ مجرم کون ہے ؟ قانون کی نگاہ میں سب برابر ہونگے کسی پر ظلم نہ ہو یہ ہے عدل ، پھر یہ کہ کسی کی ذمہ داری دوسرے پر نہیں ڈالی جائیگی اور نہ ہی ایک جرم کا مو¿اخدہ دوسرے سے ہوگا ۔
حسنَ سلوک :۔
اسلام نے ہر ایک سے حسنِ سلوک کا حکم دیا ۔
تسخیرِ فطرت:۔
اسلام نے علم و عقل کی اہمیت جتائی اور بتایا کہ زمین وا ٓسمان میں خدا کی آیات بکھری ہوئی ہیں ان سے پر سے اندھوں کی طرح نہ گزر جاﺅ ہر چیز پر غور و فکر کر و ۔ تم فطرت کو مسخر کر نے کے لئے پیدا ہوئے ہو اشیائے فطرت کو سجد ہ کرنے اور ان پر اپنی پر ستش نچھاور کر نے کے لئے نہیں ۔
انفع للناس:۔
اسلام نے بتایا کہ بقاءہمیشہ اسی کو ملتی ہے جو انفع ہو انسان کی زندگی کا مقصد بھی یہ ہے کہ اس کے وجود سے دوسروں کو نفع پہنچے ۔
انسانی جان کی حرمت :۔
اسلام نے بتایا ہے کہ ” جس نے کسی بے گناہ کو قتل کر دیا اس نے گویا ساری نسل انسانی کو قتل کر دیا اور جس نے کسی جان کو بچالیا اور اس نے گویا ساری نسل انسانی کو بچالیا “ اس سے واضح ہوتا ہے کہ اسلام کے نزدیک انسانی جان کتنی محترم ہے ۔
عمل اور اس کے نتیجہ :۔
اسلام نے بتایا ہے کہ کوئی عمل بے نتیجہ نہیں رہتا ۔ جس نے ذرہ برابر نیکی کی وہ اس کا اجر پا لیگا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی وہ اسکی سزا پالیگا ، غرضیکہ اس کا کوئی عمل بے نتیجہ نہیں رہیگا اس لئے اس پوری ذمہ داری سے کام کرنا چاہئے اور ہر کام کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لینا چاہئے کہ جو کچھ میں کر رہا ہوں اس کا نتیجہ میرے سامنے ضرور آئیگا پس کوئی ایسا کام نہ کروں کہ جب نتیجہ سامنے آئے تو مجھے شرمندگی ہویا وہ نتیجہ میرے نقصان کا باعث ہو ۔
علم و دانش :۔
اسلام نے سب سے پہلے استقرائی علم کی بنیاد رکھی اور یہ شعور دیا کہ ہر ایک چیز کو تجربہ کی کسوٹی پر پر کھ لیا جائے اسلام ہی کی تحریک کا نتیجہ ہے کہ حکمت و دانش کو فروغ ہو ا اور اہلِ علم نظری کو چھوڑ کر دانشمندانہ تجربہ کی طر ف متوجہ ہوئے اسلام نے حکمت و دانش کو مومن کی گم شدہ میراث کہہ کر مسلمانوں پر دانش کے دروازے کھولے اور یہ مسلمانوں ہی کے دانشکدے تھے جن سے مغرب نے علم و حکمت کے خزانے سمیٹے ۔ سر فرانسس بیکن جسے استقرائی علم کا بانی سمجھا جاتا ہے وہ مسلمان دانشوروں کا ہی شاگرد تھا ۔ آج کی سائنس مسلمانوں کے گزرے ہوئے کل کا ہی پر تو ہے ۔
نظام ِ زندگی :۔
اسلام نے انسان کو پورا ضابطہ ئِ حیات اور نظام زندگی دیا ۔ جس میں انفرادی اور اجتماعی دونوں زندگیوں کے رہنما اصول ہیں۔
فلسفہ ئِ تاریخ:۔
اسلام سے پہلے تاریخ کو قصوں کہانیوں کا مجموعہ سمجھا جاتا تھا ۔ اسلام نے پہلی دفعہ دنیا میں فلسفہ ئِ تاریخ متعارف کرایا اور بتایا کہ قوموں کے عروض و زوال کا قانون کیا ہے ۔ کن کاموں کی بنیاد پر قومیں عروج حاصل کر تی ہیں اور کن بداعمالیوں کی سزا کے طور پر وہ زوال کا شکار ہو جاتی ہیں۔
حاکمیت کا نیا تصور:۔
اسلام نے ہی دنیا سے ملوکیت کا خاتمہ کیا اور حاکمیت کو ایک نئے تصور سے روشناس کر ایا ۔ حاکم تو اپنے آپ کو طلِ سبحانی ، معبود اور نجانے کیا کیا سمجھتے تھے وہ تو یہ خیال کر تے تھے کہ تمام دوسرے انسانوں کو ہماری خدمت کے لئے پیدا کیا گیا ہے چنانچہ ایک حاکم کے لئے خادموں کی فوجیں بھرتی کی جاتی ہین لیکن حضرت محمد ﷺ نے کہا ” سید القوم ِ خاد مھم “ (قوم کا سر براہ قوم کا خادم ہوتا ہے )اور خلفائے راشد ین کی زندگی میں اس کی مثالیں ملتی ہیں کہ کس طرح خلیفہ ئِ وقت رات کو چکر لگا رہا ہے کہ کہیں کوئی تکلیف میں تونہیں اور جب کسی کو تکلیف میں دیکھتا ہے تو خود اسکی تکلیف دور کرنے کی سعی کرتا ہے ۔
جمہوریت :۔
اسلام نے پہلے یہ تصور دیا کہ نظامِ مملکت شور ائی ہونا چاہئے فردِ واحد عقل کل نہیں ہوتا اس لئے اس کوئی اختیار نہیں کہ وہ اپنے منہ سے نکلی ہوئی ہر بات کو قانون کہ کر لوگون سے مطالبہ کر ے کہ وہ اسکی پابندی کر یں۔ اس طرح جمہوریت کا تصور سب سے پہلے اسلام کا تصور سب سے پہلے اسلام نے ہی دیا تھا ۔
انسانی حقوق کا چارٹر:۔
انسانی حقوق کا احساس بھی پہلے اسلام نے دیا اور اس کی تفصیل بھی اسلام نے ہی مہیا کی یواین او کا چارٹر بہت بعد میں وجود میں آیا ۔
وحدتِ انسانی کا تصور :۔
اسلام نے ہی سب سے پہلے یہ تصو ر دیا کہ پوری نسل انسانی وحدت ہے ” اس لئے نسل انسانی کو وحدت ہی ہونا چاہئے اور اس طرح ایک دورے کے دکھ درد میں شریک ہونا چاہئے جیسے ایک جسم کے اعضاءہیں کہ ایک عضو کو تکلیف ہو تو جسم کے سارے اعضا ءبے قرار ہوجاتے ہیں“ ادھر مغلیہ سلطنت کمزور ہو چکی تھی ادھر سکھ قوت پکڑ چکے تھے گو ر و گو بند سنگھ کے بعد ” بندہ بیراگی “ سکھ قوم کا سردار ہو اور اس نے ظلم و ستم کی انتہا کر دی ۔ بندہ براگی شکست کھا کر گرفتار ہو ا اور عبرت انگیز انجام سے دوچار ہوا اسکے بعد سکھ سردار مختلف علاقوں پر قابض ہوگئے اور اپنے علاقہ کے نام سے پکار ے جانے لگے مثلا ً رام گڑھیا ، آہلوا لیا ، وغیرہ انہوں نے مسلمانوں کو نشانہ ئِ ستم بنایا احمد شاہ ابدالی حملہ آور ہوا اس نے مر ہٹوں کو شکست دی تو اسے سکھوں کے مظالم بتائے گئے وہ امرتسر داخل ہوا سکھ گوردوارے کو بارود سے اڑادیا اور وہاں پر موجود تمام سکھوں کا صفایا کر دیا تاریخ پنجاب کے مصنف سید محمد لطیف کے بیان کے مطابق اس نے اتنے سکھ مر وائے کہ کئی مینا ر سروں کے تعمیر ہوئے ۔ مگر اسکے بعد سکھ پھر زور پکڑگئے اور آخر ۲۹۷۱ءمیں راجہ رنجیت سنگھ نے پنجاب پر قابض ہو کر ایک مستحکم سکھ ریاست کی بنیاد رکھد ی جو ۹۳۸۱ تک بر سر عمل رہی مسلمانوں نے سید احمد بریلوی شہید کی قیادت میں تحریک جہا د شر وع کی سکھوں سے لڑائیاں ہوئیں مگر سید شہید بالا کوٹ کے مقام پر شہید ہوگئے اور سکھوں نے فتح حاصل کی اس وقت انگریز ہندوستان کے بڑے حصہ پر قابض ہو چکے تھے رنجیت سنگھ نے بڑی سمجھداری سے انگریزوں سے روابط رکھے وہ ۹۳۸۱ میں فوت ہوگیا تو اسکے بعد مختلف سکھ راجے رنجیت سنگھ کے وارث ہوئے اور سکھ حکومت ۹۴۸۱ میں سکھوں کو مکمل شکست سے دوچار کر کے انگریز پنجاب پر قابض ہوگیا ۔ انگریز سے آزادی کی تحریک میں سکھ اپنا الگ تشخص بحال نہ کر سکے اور تقسیم ہند میں تقدیر بھارت سے وابستہ ہوگئی ۔ آج سکھ قوم کے افراد دنیا کے اکثر حصو ں میں موجود ہیں اور روزی کمانے کے لئے محنت مشقت کر رہے ہیں لیکن ان کا اصل وطن پنجاب سے بھر ر پو تعلق ہے ان کی اکثر یت نے اپنا تشخص بر قرار رکھا ہوا ہے کچھ لوگ بال ترشوانے لگے ہیں اور داڑھی صاف کرنے لگے ہیں انہیں ” مونے سکھ “ (یعنی بال منڈوانے والے سکھ) کہتے ہیں لیکن زیادہ تر سکھ اپنی پہچان بر قرار رکھے ہوئے ہیں اور اسی پر اصرار کرتے ہیں۔ توحید ، مساوات ِ انسانی وغیرہ میں یہ اسلام سے قریب ہیں تو باقی معاملات میں ہندوﺅں سے تقسیم کے وقت یہ پاکستان سے اختلاف رکھتے ہیں اور مسلمانوں سے تعصب بھی ، مگر اب ان کے جذبات اعتدال پر آگئے ہیں ان کی بہت سی زیارات پاکستان میں ہیں ۔ جیسے ننکانہ صاحب ، پنجہ صاحب ، گورو ارجن کی سمادھی وغیرہ ، پاکستان کے بڑے شہروں میں ان کے گور دوارے بھی ہیں۔ ہر سال بہت سے سکھ ٹرین پاکستان آتے ہیں۔ سکھوں میں سوشلسٹ اور ترقی پسند فکر بھی پر وان چڑھتی رہی اور اب بھی موجود ہے بھگت سنگھ جس نے اسمبلی پر بم پھینکنے کے جرم میں پھانسی پائی تھی سو شلسٹ تھے اور انتہا پسند گروپ سے تعلق رکھتے تھے ۔